Tag: شیعہ

  • سعودی عرب اور ایران میں لڑائی کیوں ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ نقصان کس کا ہے؟ ناصر فاروق

    سعودی عرب اور ایران میں لڑائی کیوں ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ نقصان کس کا ہے؟ ناصر فاروق

    فارس کے جنگجو بیڑے یمن کی سمندری موجوں میں اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ ”دور رس“ نگاہیں تہران سے کوفہ اور مدینہ تک خون کا سمندر موجزن دیکھ رہی ہیں۔ نجران اور جیزان کے ساتھ ساتھ چلتی حجاز کی حدوں میں حوثیوں کا ہجوم جمع ہو رہا ہے۔ دوسری جانب آل سعود خوفزدہ نگاہوں سے جاتے ہوئے دن دیکھ رہے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل اور تیل کی دھار چمک کھو رہی ہے۔ ریاض حکومت کا ریونیو لڑکھڑا رہا ہے۔ سعودی عوام کی سبسڈیز اچھے دنوں کی یاد بنتی جا رہی ہیں۔ خارجی مزدوروں کے غلامانہ شب و روز نامراد ہوئے جاتے ہیں، واجب الادا مزدوری تک ملنا محال ہو رہا ہے۔ نسل پرست آل سعود تلے کچھ آسودہ نہیں رہا ہے۔

    صاف نظر آرہا ہے، آگ یمن میں بل کھا رہی ہے۔ خلیج عدن کے کنارے عرب و فارس تعصب سے جھلس رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ جواب جتنا سادہ اتنا ہی عام فہم سے دور ہے۔ آگ اور مٹی کا ازلی تماشا ہے۔ روایت شیطان ابلیس سے چلی، اور بنی اسرائیل کي فضیلت سے عرب و عجم کی درجہ بندی پر پہنچ چکی۔ یہی ہے مسلم امہ کا اصل مسئلہ۔ یہی شیطان کا مؤثر ترین ہتھیار ہے، اسی ہتھیار سے مغرب لیس ہے۔

    خبریں مسلسل خبردار کر رہی ہیں۔ ایران کے پریس ٹی وی پر فوج کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل مسعود جزائری کا بیان نقل ہوا ہے کہ ”ایران سے جنگ سعودی اتحاد کے بس کی بات نہیں، یہ اتحاد ایران کے مقابلہ میں بہت کمزور ہے۔“

    فارن پالیسی جریدے نے رپورٹ کیا کہ ایران کے دوجنگی جہاز خلیج عدن پہنچ چکے، جہاں امریکہ کے جنگی بیڑے پہلے سے موجود ہیں۔ ایران کے جہاز الوند اور بوشہر جدید جنگی صلاحیتوں اور ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

    رائٹرز سے خبر آئی ہے کہ روس نے s-300 میزائلوں کی طے شدہ کھیپ ایران کو مہیا کر دی ہے۔

    واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد نے غلط معلومات کی بنیاد پر یمن کے دارالحکومت صنعا میں جنازے پر بمباری کی، سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سیکڑوں زخمی ہوئے۔

    ان خبروں کے علاوہ دو تجزیاتی پروپیگنڈے بھی مغربی منصوبے کی پیش رفت سمجھنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔

    دی اکانومسٹ کا مضمون The West should help Saudi Arabia limit its war in Yemen، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ مغرب کو جنگی مکر و فریب کی نئی ضرورت سمجھا رہا ہے۔ مضمون مغربی نقادوں کے حوالے سے کہتا ہے کہ ”وقت آگیا ہے کہ مغرب سعودی عرب سے شرمناک اتحاد ترک کر دے۔ اخلاقا اور شاید قانونا امریکہ اور برطانیہ سعودی عرب کی حرکتوں میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سعودی عرب کو جنگی جہاز اور اسلحہ فروخت کرتے ہیں، اور ہدف کو نشانہ بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔“ ( صنعا جنازے پر حملہ کے حوالے سے یہ معنی خیز بات ہے)۔ آگے چل کر مشورہ دیا گیا ہے کہ ”توازن کے لیے ضروری ہے کہ مغرب سعودی عرب کو لگام دے، یمن میں اس کی فضائی کارروائیوں سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرے، اور حتمی طور پر رکوا دے۔“

    اسلامی تہذیب کے احیاء پرگہری نظر رکھنے والے پروپیگنڈسٹ امریکی مصنف ولی رضا نصر کی کتاب Shia Revival اور کچھ عرصہ پہلے کا ضمیمہ نما مضمون War for Islam مغرب کی حالیہ پالیسی کا بیانیہ واضح کر سکتا ہے۔ مضمون کے اختتام پر نصر مشرق وسطی کی صورتحال کا یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے، ”مشرق وسطی کو نئے آرڈر کی ضرورت ہے۔ خطے کے زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔ اب شیعہ خطے کی سیاست میں بالادست کردار چاہتے ہیں۔ ایران کو محدود رکھنے والی دیوار ڈھائی جا چکی۔ بظاہر، اس صورتحال کو امریکہ کی خاموش رضامندی حاصل ہے۔ سعودی اتحاد چاہتا ہے کہ مشرق وسطی کی صورتحال 2003ء سے پہلے کی سی ہوجائے، مگر وقت آگیا ہے، نئی حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ ایران خطے کی غالب قوت بن چکا ہے۔ اسی اعتراف پر امن کا انحصار ہے۔“

    مغرب کے پالیسی سازوں کی اسٹریٹجی ایسا کھلا راز ہے، جسے چند مرحلہ وار اقدامات میں سمجھنا راکٹ سائنس نہیں۔ شیعہ سنی تفریق کے باوجود مشرق وسطی کی تاریخ ماضی قریب تک پرامن رہی ہے۔ مگرعراق پر امریکہ نے حملہ کرکے شیعہ اکثریت کا توازن سنی اقلیت کے خلاف دہشت ناک طریقوں سے بگاڑا، پھر سنی اقلیت کی محرومی و مایوسی کو کرائے کے دہشت گردوں کا شکار کر دیا۔ مشرق وسطی میں ایسی شیعہ سنی جنگ چھڑ چکی ہے، جسے روکنا بظاہر مشکل ہے۔ امريکہ اور روس کی قیادت میں مغربی دنیا دونوں کو اسلحے سے لیس کر رہی ہے۔ اقلیت ہونے کے باوجود ایران کے حق میں توازن پیدا کیا گیا ہے۔ امریکہ ایک جانب سعودی عرب کی حمایت کا ڈرامہ کر رہا ہے، اور دوسری جانب تہران حکومت کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔

    سعودی عرب اور ایران کی خود ساختہ دوقطبی حکومتیں جاہ پرستی و نسلی فضیلت کی جنگ میں کشت و خون پر جُتی ہیں۔ عقلوں پر پردہ پڑا ہے، اور اس پردے پر جو منظر ہے، وہ ایک ایسے میدان جنگ کا ہے جہاں دو لشکر آمنے سامنے ہیں، مگر ایک لشکر میلہ سجائے دوسرے لشکر کے باہمی کشت و خون سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ باہمی خون خرابے میں لت پت لشکر مسلم امہ کا ہے، جبکہ تماشائی لشکر روس، امریکہ اور اسرائیل پر مشتمل ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ مشرق وسطی میں تمام ہی ممالک جنگی خطرات سے دہشت زدہ ہیں، سوائے اسرائیل کے۔ ریاض سے تہران اور بیروت تک جنگجوؤں کی فوج در فوج پورے خطے کو خاک و خون میں ملا رہی ہے، سوائے اسرائیل کے۔ سعودیہ کو کسی سے خطرہ ہے توایران سے۔ ایران کو کسی سے خطرہ ہے تو سعودیہ سے۔ مسلم امہ کا یہ باہمی خوف دور ہوسکتا ہے۔ آسان سا طریقہ ہے۔ عربی، فارسی، حوثی، سنی، شیعہ، اور ديگر مسلکی پہچان، نسلی فضیلت، قومی تعصب، اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر شناخت یا تفاخر ترک کر دیں۔ واحد شناخت ”مسلمان“ ہی کو باہمی فخر کا ذریعہ سمجھیں، اور تقوٰی ہی کو واحد معیار کردار ٹھہرائیں۔ باہمی قتل و غارت میں یہاں تک جو ہوا وہ امت وسط کا عظیم نقصان ہے، اگرنسلی تعصب کی یہ دست درازی حجاز میں ہوئی، تو تہران و ریاض ناقابل تلافی نقصان کے مرتکب ہو جائیں گے۔ یہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔

  • مسلکی شناخت اور ”صرف مسلمان“ کا دعوی – تاج محمد

    مسلکی شناخت اور ”صرف مسلمان“ کا دعوی – تاج محمد

    آج کل ایک نئے فیشن نے زور پکڑا ہوا ہے کہ ہر کوئی خود کو ”صرف مسلمان“ کہلانے پر بضد ہے۔ مقبول عام جملہ یوں بن گیا ہے کہ ”میں نہ سنی ہوں، نہ شیعہ ہوں۔ نہ دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث ہوں، میں صرف مسلمان ہوں“. حد تو یہ ہے کہ فرقہ بندی کی گہری ہوتی ہوئی تقسیم در تقسیم سے وابستہ میرے کچھ دوست بھی سوشل میڈیا پر آ کے ”صرف مسلمان“ بن جاتے ہیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ ”صرف مسلمان“ بن کر فرقہ بندی ختم یا کم ہو سکتی ہے؟ اور یہ کہ ”کیا سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث“ ہونے سے کوئی مسلمان نہیں رہتا ہے؟

    آپ نے اپنا فیس بک کھولا ہوا ہے، اور یہ لکھنے جا رہے ہیں کہ آپ ”صرف مسلمان“ ہیں۔ لیکن ٹھہریے، امت کو کنفیوز کرنے سے پہلے خود سے ہی کچھ سوال کریں! کیا امامت اور خلافت دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت کے حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد اہل بیت اطہار کے ائمہ ہی ہیں؟ کیا حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم کی خلافتوں میں حضرت علی کی حق تلفی ہوئی تھی؟ (سوالات اور بھی ہیں، لیکن ان کو خوفِ فساد خلق سے ناگفتہ رہنے دیتے ہیں۔) ان سوالات کا جواب اگر آپ اثبات میں دیتے ہیں تو مبارک ہو، آپ شیعہ ہیں اور اگر نفی میں دیتے ہیں تو آپ سنی ہیں۔ اپنے اندر ایک بار پھر جھانک لیجیے، کیا فقہی معاملات میں اماموں کی تقلید ناجائز ہے؟ جو آدمی اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کے لیے کسی امام کی تقلید کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے؟ (یہاں بھی کچھ تلخ سوالات ہیں لیکن وہی فسادِ خلق کا خوف آڑے آ رہا ہے)۔ اگر ان سوالات کا جواب سر کی عمودی حرکت سے دے رہے ہیں تو لاکھ انکار کریں، آپ اہل حدیث ہیں۔ اور اگر افقی انداز میں سر ہلا رہے ہیں تو آپ (پاکستان کے تناظر میں) حنفی ہیں۔ پھرسے خود کو ٹٹولیں! کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم کل حاصل ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختارِ کل ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو آپ بریلوی ہیں اور نہیں میں ہے تو دیوبندی! پھر بھی اگر آپ کو ضد ہے کہ آپ، سنی شیعہ، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی کچھ نہیں بلکہ صرف مسلمان ہیں تو ان سوالات کا جواب ”ہاں“ اور ”نہیں“ کے علاوہ دیں۔ اور یقین جانیے اگر آپ کی فکر رسا کوئی درمیانی جنس کا جواب دریافت کر لیتی ہے تو آپ ”صرف مسلمان“ نام کے ایک اور فرقے کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، تاریخ میں جب بھی کوئی مسلکی شناخت کے خلاف تحریک چلائی گئی ہے اور اسے کامیابی ملی ہے تو اس کا آخری انجام ایک نئے مسلک کی صورت میں ہوا ہے۔ خود ہمارے دور میں جاوید احمد غامدی صاحب یہی آواز لے کر اٹھے تھے، لیکن دیکھیے، آج جتنا جمود غامدی صاحب کے کچھ متبعین میں پایا جاتا ہے، اتنا جمود کسی دور افتادہ گاوں میں بیٹھے ہوئے اس شخص کے اندر بھی نہیں ہوگا جس کا کل علم ”خلاصہ کیدانی“ تک محدود ہے۔

    اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف! میں اگر حنفی ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ میں نے ”دین کے اندر دین“ قائم کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب میں مسلمان نہیں رہا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سوچنے کے دو مختلف زاویوں میں، میں نے ایک زاویے کو منتخب کیا ہے۔ کوئی اگر شیعہ ہے تو کیا اس کا مطلب یوں لیا جائے کہ وہ خود کو مسلمان نہیں سمجھتا؟ یہ مسالک –غلط یا صحیح کی بحث سے ہٹ کر – مختلف فکری و قانونی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان شناختوں کی وجہ سے اسلام پر کوئی حرف آتا ہے۔ اسلام ان تمام مسالک سے وابستہ افراد کی پہلی شناخت ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اندر آنے والی فکری تقسیم کو اگر ریت میں سر دبا کر نظر انداز نہیں کرنا ہے تو اپنی وابستگی کا اظہار کرنا ضروری ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ کے نام پر خود کو ”معتدل اور روشن خیال“ مسلمان ظاہر کرنے والے یا تو پرلے درجے کے منافق ہوں گے یا پھر ایک نئے فرقے کی داغ بیل ڈال دیں گے۔

    مسئلہ کہاں ہے؟
    مسئلہ مسلکی وابستگی اور فکری شناخت میں نہیں ہے۔ مسئلہ عدم برداشت والی سوچ میں ہے۔ فکری تنوع ہر معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے لیکن یہ حسن تب تک ہوتا ہے جب تک دوسرےکے وجود کو برداشت، اس کی رائے کا احترام اور اس کے علم کا اعتراف کیا جائے۔ یہاں پر چلن یہ ہوا ہےکہ –چند مستثنیات کو چھوڑ کر– ہر انسان خود کو مکمل ٹھیک اور دوسرے کو مکمل غلط تسلیم کیے بیٹھا ہے۔ اس بیماری کا علاج بھی ہمیں دورِ قدیم سے امام شافعی نے تجویز کیا ہے کہ ”میری رائے درست ہے لیکن اس میں غلطی کا امکان ہے، آپ کی رائے خطا ہے لیکن اس میں درستی کا احتما ل ہے“۔ بس امام شافعی رحمہ اللہ کی اس سوچ کو اپنا کر شیعہ، سنی، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث بن کر رہنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ نام کے لا تعداد فرقے وجود میں آتے رہیں گے۔

  • شیعہ سنی اختلاف اور اعتدال کی سیج – کعب اسامہ قاضی

    شیعہ سنی اختلاف اور اعتدال کی سیج – کعب اسامہ قاضی

    کعب اسامہ قاضی تاریخ کا طالبِعلم حیران و پریشان پڑھ رہا تھاـــ اور مؤرخ کچھ یوں لکھ رہا تھا۔

    پریشانی یہ نہ تھی کہ اُمت تفرقوں میں بٹی، تو کیوں بٹی؟ بلکہ پریشانی تو یہ تھی کہ جو کام امت کے ”خواص“ کے کرنے کا تھا وہ ”عوام“ کے درمیان فٹبال بنا ہوا تھا۔ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اس نازک مسئلہ کو موضوعِ سخن بنا کرسسکتی تڑپتی امت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا گویا اپنا فرض منصبی سمجھ بیٹھا تھا۔ اخوت و رواداری شاید کسی خودکش حملہ کی بھینٹ چڑھ چکی تھی، زمیں لہو لہو تھی اور آسمان بھی رو رہا تھا۔

    جی ہاں ـــــــ یہ سب ایک المیہ کا شاخسانہ تھا، اور المیہ کیا تھا، آئیے سنیے اور سر دھنیے۔

    المیہ یہ نھیں تھا کہ ”علم“ یا ”علم والوں“ کی کمی تھی، بلکہ المیہ تو یہ تھا کہ جنھیں قوم اپنا معلّم و مربّی سمجھ رہی تھی، ان میں سے اکثریت نے تعصب کی عینک چڑھا کرـــــــ ٹسل کا لبادہ اوڑھ کرـــــــ طنز کے نشتر چلا کر ـــــــ حقائق سے منہ موڑ کرـــــــ الحاد سے رشتہ جوڑ کرـــــــ اسلاف کا رستہ چھوڑکر ـــــــ قرآن سے ناطہ توڑ کرـــــــ اور تو اور یہاں تک کہ سب نے اجتماعی طور پر اپنے ضمیر کو آپ ہی چکمہ دے کر خواص کے خالص موضوع کی باریکیوں کو عوام میں کثرت سے اچھالنا اور نفرت کے بیج بونا اپنا وطیرہ بنا رکھا تھا۔

    جی۔۔؟ کیا کہا۔۔؟ مؤرخ غلط تھا۔۔؟ ـــــــ نھیں نھیں مؤرخ یقیناً بر حق تھا۔

    کیونکہ۔!
    ایک طرف وہ متشدد اور اعتدال سے عاری واعظین تھے جن کو”آلِ رسولؐ“ پر بیتی خونچکاں داستانِ الم کو بیان کرتے تو شاید موت آ رہی تھی مگر وہ متفقہ طور پر ظلم کے محرّک ”یزید“ کو ڈھکے چھپے الفاظ میں فرشتہ ثابت کرنے کے واسطے چند ”اش اش“ کرنے والوں کے سامنے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر نواسۂ رسول کے کٹے سر سے کھیلنے والے کو فاتحِ قسطنطینہ بنا کر فرمانِ رسولؐ کی ٹھنڈی چھاؤں کا تحفظ فراہم کر کے پتا نہیں کون سا فرضِ منصبی ادا کر رہے تھے؟ ـــــــ حالانکہ ان کے اسلاف نے تو ان کو اس موضوع پر منہ بند رکھنے کا حکم دے رکھا تھا۔

    جبکہ۔۔۔!!
    دوسری طرف اُن سکہ بند ذاکرین کی فوج تھی جن کے پاس رات گئے سے لے کر صبحِ صادق تک کی لمبی چوڑی تقریروں میں اپنے مصاحب کے سامنے”خانوادۂ رسول“ پر ڈھائے گئے مصائب و آلام بیان کرنے کو تو صرف چند منٹ ہی میسر تھے لیکن ”تبریٰ“ کی شر انگیز داستانیں رقم کرنے کو چارچار گھنٹے بھی ناکافی تھے ـــــــ زمین اس بارسے پھٹنے کو تھی اور آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا کہ اپنی ماں کے لیے ننھی سی گالی بھی برداشت کرنے سے انکاری یہ مربی اُمت کی ماں پر تبریٰ کے تیر برسا کرآخر کون سی جنت کے متلاشی تھے؟

    ایسے میں طالبِ علم کا حال کچھ یوں تھا۔

    کہ ایک طرف
    آنکھیں اشک اشک تھیں اِن ”اش اش“ کرنے والوں پر
    اور دوسری طرف
    عقل بھی ماتم کر رہی تھی اُن ”ماتم“ کرنے والوں پر۔

    مؤرخ کا قلم خاموش ہو چکا تھا، لیکن دو انتہاؤں کے بیچ پستا تاریخ کا طالبِ علم کافی دیر سے کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا۔

    بلآخر طالب علم فیصلہ کن انداز میں ایک نئے جذبے، ولولے اور سچی لگن کے ساتھ تلاشِ حق کی ایک نئی جستجو میں اٹھ کھڑا ہوا تھا کیونکہ اسے قرآن کا پیغام یاد آگیا تھا کہ خلۤاقِ دوعالم کی طرف سے دیا گیا اشارہ وَھَدَینٰہ النۤجدَینِ (البلد-۱۰) ہمیشہ سے کارگر رہا تھاـ

    اُسے یقین ہو چلا تھا کہ منزل اب تشدد اور تعصب کی ”پگڈنڈیوں“ پر موجود افراط وتفریط کی خار دار جھاڑیوں سے کھیں دور بہت دور اعتدال کے ”موٹروے“ کنارے بسے اخلاص کے کسی آشیانے پر برداشت کی ٹھنڈی چھاؤں تلے ہی مل سکتی ہے ـــــــ اور ویسے بھی حق اپنے متلاشیوں پر عیاں ہو جایا کرتا ہے بشرطیکہ اندر میں ”طلبِ صادق“ موجود ہو.

  • شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟ اوریا مقبول جان

    شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟ اوریا مقبول جان

    اوریا مقبول جان پوری امتِ مسلمہ میں کون ہے جو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو پوری امت کا مشترکہ اثاثہ نہ سمجھتا ہو۔ اقبال نے تو انہیں ’قافلہ سالارِ عشق‘ اور ’نکتۂ پرکارِ عشق‘ جیسے القابات سے یاد کیا۔ اقبال تو اس امت کی زبوں حالی پر نوحہ بھی یوں پڑھتا ہے کہ ’قافلۂ حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں‘۔ یہ الفاظ اور سیدنا امام حسین ؓ کی ذات سے عشق، اقبال کے ہاں ایک تسلسل کا نام ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جب بھی کہانی دہرائی جائے گی قافلہ سالاری سیدنا امام حسین ؓ کے سرکا تاج رہے گی۔

    کوفہ کی سرزمین پر کربلا کے المناک سانحے کے بعد بےوفائی کا ایک اور باب رقم ہو رہا تھا۔ حضرت علی ابن حسین زین العابدین کے فرزند حضرت زید بن علی، ہشام بن عبدالملک کے دور میں کوفہ تشریف لائے تو وہاں آپ نے ایک خطبہ ارشاد کیا‘ جس میں کہا:
    ’’اللہ کی قسم مجھے یہ چیز سخت ناگوار ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروں اور اس حالت میں کہ ان کی امت کو نہ میں نے معروف کا حکم دیا ہو اور نہ منکر سے منع کیا ہو‘‘۔
    کوفہ میں منصور بن المعتمر نے لوگوں سے زید بن علی کے لیے بیعت لینا شروع کی۔ اس زمانے میں اہلِ سنت کے امامِ اعظم امام ابو حنیفہ، بنی امیہ کے ظلم و تشدد کا مسلسل شکار ہو رہے تھے۔ منصور بن المعتمر اور امام ابو حنیفہ دونوں راتوں کو چھپ کر ملتے اور روتے رہتے۔ چند اور بزرگوں، مسلمہ بن کہیل اور نبیل الاعمش کی کوششوں سے کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید بن علی کی بیعت کر لی۔ حضرت زید نے جب قیام کا ارادہ کیا تو فضیل بن زبیر کو قاصد بنا کر ابوحنیفہ کے پاس بھیجا۔ یہاں امام ابو حنیفہ کا ایک تاریخی فقرہ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ انہوں نے کہا: [pullquote]’’خروجہ یضاھی خروج رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم البدر‘‘[/pullquote]

    (زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہﷺ کی بدر میں تشریف آوری سے مشابہ ہے۔)
    اس کے بعد حضرت زید نے دعوت جہاد دی اور فرمایا:
    ’’ہم تم کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تمہیں بلاتے ہیں کہ آئو ظالموں سے جہاد کرو‘‘۔
    اس پر چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی۔

    اس کے بعد بے وفائی کی ایک دلگداز داستان ہے، حیلوں اور بہانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایسے سوالات کوفہ والوں نے اٹھائے جو آج بھی اس امت مسلمہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ چال چلن بھی وہی رکھا جو کوفہ والوں کا مسلم بن عقیل اور سیدنا امام حسین ؓ کے ساتھ تھا۔ صبح جب حضرت زید بن علی میدان میں نکلے تو ان کے ساتھ اتنے ہی جانثار تھے جتنے رسول اللہﷺ کے ساتھ میدانِ بدر میں تھے یعنی 313۔ یوں امام ابوحنیفہ کے قول پر اللہ کی جانب سے مہر تصدیق ثبت ہوئی کہ ان کا خروج رسول اللہﷺ کی بدر میں آمد سے مشابہ ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک اور خونچکاں باب رقم ہوا اور یہ جانفروش شہید کر دیے گئے۔ اس وقت شیعانِ علی بھی موجود تھے اور اہلِ سنت بھی لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی ایک میں بھی اختلاف موجود نہ تھا۔ یہ تھی اس امت کی روایت جو صدیوں چلتی برصغیر تک پہنچی۔

    برصغیر میں مسلک شیعہ اور مسلک سنی باہم ساتھ ساتھ اپنے اپنے عقیدوں پر قائم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے صدیوں یہاں زندگی کرتے رہے۔ برصغیر میں مسلکی طور پر پہلا شیعہ خاندان سید سالار دائود غازی اور سید سالار مسعود غازی کا تھا، جو 1030 عیسوی میں اودھ کے علاقے میں آ کر آباد ہوا۔ ان کی اولاد میں سے سید عبداللہ زر بخش اور سید زید شہسوار نے بارہ بنکی کے قریب زید پور شہر آباد کیا۔ اسی دور میں ہندوستان کی چند ریاستوں کے سربراہ بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے جن میں اودھ‘ سندھ اور ملتان قابل ذکر ہیں۔ اس دور سے 1857ء میں انگریزوں کے قبضے تک یہاں ہر طرح کے حکمران برسر اقتدار آئے۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر مغل بادشاہوں تک، ان کی حکومتوں میں اہم عہدوں پر شیعہ بھی رہے اور سنی بھی۔ ان میں کبھی کبھار سیاسی نوعیت کا اختلاف ہو بھی جاتا لیکن وہ ان لوگوں کی ذاتی اقتدار کی جنگ ہوتی۔ یہ جنگ مسلک کی جنگ نہیں بنتی تھی۔ ہمایوں کی ایران سے واپسی کے بعد بہت سے ایرانیوں کی برصغیر آمد کے بعد اس مسلک کو فروغ ملا اور عزاداری، مرثیہ خوانی اور مرثیہ نویسی نے رواج پایا۔

    پورے مغلیہ دور میں کسی ایک معمولی سے شیعہ سنی فساد یا دنگے کی کوئی خبر موجود نہیں۔ یہاں تک کہ روبنسن (Robinson) جیسا مُؤرخ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو تقسیم کا درس دینے کے لیے ”Sepratism among Indian Muslims“ لکھی، وہ بھی کسی ایک واقعے کا تذکرہ نہ کر سکا جس میں شیعہ سنی فساد نظر آتا ہو۔ حالانکہ التمش سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک پورے برصغیر پر فقہ حنفیہ نافذ تھی اور قاضی اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے، سب اس پر متفق تھے اس لیے کہ دونوں مسالک کے علماء یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے جو قانون نافذ کرنے کے لیے ہوتے ہیں ان میں دونوں کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ چوری، زنا، جھوٹ، غیبت، قتل میں کوئی شیعہ سنی نہیں ہوتا اور ان سب کی سزا مقرر ہے۔ زکوٰۃ اور عشر میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ جو اختلافات تھے وہ فروعی نوعیت کے تھے اور جو الزامات تھے وہ بھی مجمع باز خطیبوں اور ذاکروں کے پیدا کردہ تھے یا پھر افسانہ طراز مؤرخوں نے انہیں ہوا دی۔ یہی اس امت کی اصل روح تھی کہ اختلاف کی عزت کی جائے اور نیت کو اعمال کا معیار سمجھا جائے۔

    پہلا شیعہ سنی فساد 1906ء میں لکھنؤ میں ہوا جو انگریز حکمرانوں کی ’’برکت‘‘ کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد 1907ء اور 1908ء میں بھی فسادات ہوئے اور معاملہ باہم افہام و تفہیم سے علماء نے طے کر لیا اور مسلم معاشرے میں رواداری قائم رہی۔ 1906ء کے فسادات کیسے ہوئے؟ اب یہ کوئی راز نہیں۔ کوئی شخص بھی برطانیہ میں انڈیا آفس لائبریری میں تمام مکتوبات دیکھ سکتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل 18 اپریل 1939ء کے اس خط میں موجود ہے جو گورنر ہیگ (Heig) نے وائسرائے لنلتھگؤ (Linlithgow) کو تحریر کیا۔ یہ خط اس لیے تحریر کیا گیا تھا کہ 1939ء میں پھر فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ لکھنؤ میں جہاں محرم کے دنوں میں تعزیہ اور علم کے جلوس نکلا کرتے تھے، وہیں سنی اپنی مساجد میں مدح صحابہ کے نام سے مجلس منعقد کیا کرتے تھے، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ 1906ء میں انگریز نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ’’مدح صحابہ‘‘ ایک نئی اختراع ہے اس لیے محرم کے دو دنوں، چہلم اور یومِ شہادتِ علی کے دن اس پر پابندی ہوگی۔ یہ اقدام دنیا کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ ہم نے یہ امن کے لیے کیا ہے، لیکن اصل میں یہ ایسی شرارت تھی جس نے آگے چل کر اس فساد کا بیج بویا۔ اس کی تفصیل Heig papers MSS.EUR.F.125.102 IOR میں موجود ہے اور انڈیا آفس لائبریری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد پورے برصغیر میں محرم کے جلوسوں کے روٹوں کے لائسنس انگریز ڈپٹی کمشنروں نے جاری کیے۔ آپ تمام شہروں کے روٹ ملاحظہ کریں تو ان میں شرارتاً خاص طور پر ایسے مقامات شامل کیے گئے جہاں آج نہیں تو کل کسی بھی وقت فساد برپا ہو سکتا ہے یا کروایا جا سکتا ہے۔

    1935ء میں چہلم کے دن کچھ مقامات پر ’’مدح صحابہ‘‘ پر پابندی کو غیر قانونی سمجھ کر سنی مساجد میں توڑا گیا۔ اس کے بعد 1936ء میں ذوالحج سے صفر تک کے مہینوں میں ہر جمعہ کو مدح صحابہ کو معمول بنایا گیا، قانون کی خلاف ورزی پر انگریزوں نے ہزاروں سنیوں کو گرفتار کر لیا حالانکہ دوسری جانب سے کوئی احتجاج نہ تھا۔ آگ لگانے کے لیے یہ کافی تھا۔ فسادات شروع ہوئے۔ جھانسی ڈویژن کے کلکٹر جسٹس ایلسوپ (Allsop) کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ 1909ء کے احکامات میں کیا تبدیلیاں کی جائیں۔ 28 مارچ 1938ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ: The Sunni recitation were allowable in theory, but were actually provocative and should be disallowed. آگ بڑھانے کے لیے یہ فقرے کافی ثابت ہوئے کہ ’’سنی مدح صحابہ کتابی طور پر تو صحیح ہے لیکن عملی اظہار شرانگیزی ہے اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ سنیوں نے اس پر سول نافرمانی کی ایک تحریک شروع کی۔ ادھر ملک میں انتخابات کے بعد جمہوریت آ گئی تھی۔ کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی۔ 31 مارچ 1939ء کو کانگریس حکومت نے مدح صحابہ پر سے پابندی اٹھا دی اور سول نافرمانی کی تحریک ختم ہو گئی۔ لیکن اس دوران دونوں جانب گزشتہ پچاس سال سے نفرت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ یوں مارچ، اپریل اور مئی 1939ء میں شیعہ مسلک کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ اٹھارہ ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو دونوں گروہوں نے منصف مقرر کیا لیکن چونکہ اختلافات کو اس طرح پالا گیا تھا کہ دوسری جانب سے تبریٰ کو بھی سرعام کرنے کی اجازت مانگ لی گئی اور اس پر از خود عمل بھی شروع ہو گیا جس پر شدید فسادات نے جنم لیا۔ یہ تمام معاملات اور کہانی گورنر ہیگ کے خطوط میں درج ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد 1940ء میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے عوامی مقامات پر مدح صحابہ اور تبریٰ پر پابندی لگا دی۔

    یہ ہے وہ تاریخ کہ آگ بھی خود بھڑکائی اور پھر اسے ایک دوسرے کے گھروں میں سلگنے کے لیے چھوڑ دیا۔ کس قدر بدنصیب ہیں ہم اور کس قدر ناسمجھ ہیں ہمارے فرقہ پرست کہ محرم کے جلوسوں کے وہ روٹ جنہیں انگریز ڈپٹی کمشنروں نے فساد کے ممکنہ امکانات کے لیے ڈیزائن کیا تھا، اسے کربلا کی طرح مقدس سمجھتے ہیں اور مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہر سال یہ قوم دعائیں کرتی ہے فسادات سے نجات کے لیے، دنیا بھر کی انتظامیہ ان مقامات پر کھڑی ہوتی ہے، لیکن پھر بھی فساد ہو جاتا ہے اور کوئی مل بیٹھ کر ان سب کو محفوظ راستوں پر لے جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ کس قدر بدقسمت ہیں ہم کہ انگریز جو لکیریں کھینچ گیا، اسے مقدس سمجھ کر خون بہاتے ہیں۔ صوبے انگریز نے بنائے، آپ انہیں بدل کر دکھائیں، ضلعوں‘ تحصیلوں میں ردوبدل پر فساد، جلوس کے قدیمی روٹ پر جھگڑا۔ کوئی ہے جو عقل سیکھے۔ اس برصغیر میں نفرت کا بیج بونے والے انگریز کے قانون اور احکامات کو بدل دے۔ اس سارے فساد پر آج بھی انگریز فاتح ہے جو نفرت کا بیج بو گیا۔

    ایک اور بہت بڑا سوال امتِ مسلمہ میں مسلکی اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم برداشت اور خونریزی کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس برصغیر میں موجود تیس سے چالیس ہزار انگریز ہی اس کے واحد ذمہ دار ہیں؟ کیا ہمارے علماء نفرت کی آگ میں حصے دار نہیں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے ایک مسلسل عمل کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نفرت کا سبق نہیں پڑھایا؟

    برصغیر کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہرمکتبۂ فکر کے جیّد ترین علما نے مدتوں اس بات پر اپنی توانائیاں صرف کیں کہ مخالف مسلک کے عقائد اور ان کے علما کی تحریروں میں کون سے نقائص ہیں۔ زور دار اور پُر جوش رسالے لکھے اور تمام مکاتبِ فکر کے مدرسوں میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس کے بعد منبر و محراب ہاتھ آئے تو اپنی شعلہ بیانیوں کا سارا زور مخالف کو کذّاب، بےدین، گمراہ، اور بالآخر کافر کہنے پر صرف کیا۔ شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث سب نے اس میں پورا پورا حصہ ڈالا۔ ردِّ بریلویت، ردِّ دیوبندی، ردِّشیعہ اور ردِّ غیرمقلدین جیسے موضوعات پر آپ کو ایک وسیع مواد ہر مکتبۂ فکر میں مل جائے گا۔ وہ، جن کے اسلاف قرآن و سنت کے ہر پہلو کو لوگوں پر روشن کیا کرتے تھے، جو کبھی پوری دنیا میں کفرو شرک کے مقابلے میں توحید کے علمبردار تھے، جو سیّدالانبیاءﷺ سے عشق کی مشعل روشن کرنے کے نقیب ہوا کرتے تھے، ان کا سارا زورِ بیان اس بات پر صرف ہونے لگا کہ فلاں شخص یا گروہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، فلاں دل میں سیّدالانبیاءﷺ کے احترام کی مشعل روشن ہے یا بجھ چکی۔ مشرک، بدعتی، گستاخِ رسول، منکرینِ اولیاء، گستاخِ صحابہ اور منکرینِ اہل بیت جیسے موضوعات ہمارے مذہبی اکابرین کا پسندیدہ موضوع بن گئے۔

    گزشتہ چالیس سالوں سے میں ہر مکتبہ فکر کے علما کی دھواں دار تقریروں سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ کانفرنس توحید کے نام پر منعقد ہوتی ہے لیکن تقریریں پڑوس کی مسجد کے امام اور اس کے اسلاف کی ہرزہ سرائی کے ذکر سے بھری ہوتی ہیں، مجلس میلاد سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سجائی جاتی ہے اور شعلہ بیانیاں اپنے اسلاف کی تعریف و توصیف اور دوسروں کی گستاخیوں کی داستانیں بیان کرنے پر صرف ہو جاتی ہیں۔ آلِ رسول ﷺ کی محفلوں کا تو غضب ناک پہلو یہ ہے کہ فقرے گھما پھرا کر ایسے بولے جاتے ہیں کہ پوری بستی جو اس محفل میں شریک نہیں، یزید کی فوج قرار دے دی جاتی ہے۔ ادھر بات شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شروع ہوتی ہے مگر کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ جوشِ خطابت لوگوں سے دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں کے لیے کفر کے نعرے نہ لگوا دے۔ یہ تقریریں اور یہ ’’علمی‘‘ مواد اور تحقیق و تنقیص کا یہ عمل ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے، لیکن ان ڈیڑھ سو سالوں سے ایک سو بیس سال انتہائی امن اور سکون کے ہیں۔ کوئی دنگا، فساد، سر پھٹول یا قتل و غارت نہیں۔ لیکن گزشتہ تیس سال ایسے ہیں کہ جیسے ہر لمحہ سولی پر لٹکا ہوا ہو۔

    ان تیس سالوں میں ایسا کیا ہوگیا؟ اگر آج ہم نے اس پر غور نہ کیا تو اگلے سوسال ہم ایک دوسرے کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ان تیس سالوں میں اس مسلم خطے کے سیاسی حالات میں ایسی اہم تبدیلیاں آئیں جن کا اثر یہاں کے صدیوں پرانے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی حالات پر پڑا۔ ایک پُرسکون جھیل جیسی مسلم معاشرت میں ہلچل مچ گئی۔ افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں اور ایران میں انقلاب آگیا۔ یہ دونوں واقعات جنگ عظیم اوّل کے بعد مسلم اّمہ کی خلافت کی مرکزیت کے ختم ہونے اور جدید سیکولر قومی ریاستوں کے بعد سب سے بڑے واقعات تھے۔ ایران میں، انقلاب نے جہاں سیکولر قومی ریاست کی بنیادیں ہلادیں، وہیں افغانستان کا جہاد بھی خلافتِ اسلامیہ کے قیام کا نعرہ لے کر اٹھا اور طالبان کی صورت قائم حکومت نے مغرب کی سیکولر ریاستیں قائم کرنے کی جدوجہد کو غارت کر دیا۔ ان انقلابات کے نتیجے میں پورے خطے میں ایک بےیقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی اور وہ تمام حکمران جنہیں پہلی جنگِ عظیم کے بعد مغرب نے اپنے کا سہ لیسوں کی حیثیت سے مسلّط کیا تھا، اپنے ممکنہ انجام کی وجہ سے خوفزدہ ہوگئے اور یوں ایک کشمکش اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اس کشمکش اور جنگ کا ایندھن وہ مواد بنا جو سو دو سال سے اس امت کے مختلف مسالک کے علماء نے وقتاً فوقتاً تحریر کیا تھا۔ ا یک دوسرے کے ردّ میں لکھی گئی کتابیں اور کفر کے فتوے گرد آلود تہہ خانوں سے نکالے گئے اور پھر انہیں چاروں جانب پھیلا دیا گیا۔

    اسی زمانے میں ایک اور چیز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پہلے ان تمام علماء اور ذاکرین کے بےمحابہ خطاب صرف اپنی اپنی مساجد اور امام بارگاہوں تک محددو تھے لیکن جس طرح اس دور میں پہلے آڈیو کیسٹوں اور ویڈیو کیسٹوں نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جیسے فنکاروں کو مقبولیت بخشی، ویسے ہی ان علماء اور ذاکر ین کی آڈیو اور وڈیو کیسٹوں نے انہیں راتوں رات ملکی اور غیر ملکی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ کیسٹیں عام دکانوں پر دستیاب ہونے لگیں۔ شیعہ ذاکر کی کیسٹ سنی گاہک کے ہاتھ میں اور سنی مقرر کی کیسٹ شیعہ گاہک کے ہاتھ میں آگئی۔ مدتوں ان لوگوں کو ان کے مولوی بتایا کرتے تھے کہ فلاں مسلک کا مولوی یا ذاکر ہمارے بارے میں یہ کہتا ہے اور پھر نفرت کا بیج بویا جاتا تھا۔ لیکن اب تو وہ سب کچھ ایک دلیل کے طور پر مخالف فرقے کے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا۔ وڈیو اور آڈیو سے سب کچھ سی ڈی اور ڈی وی ڈی پرمنتقل ہوتا چلا گیا۔ ادھر گھر گھر کمپیوٹر آیا تو یہ سارا نفرت انگیز مواد عام آدمی کی دسترس میں چلا گیا۔ آڈیو، ویڈیو کیسٹ یا سی ڈی اور ڈی وی ڈی خریدنے کے لیے پھر بھی زحمت اٹھانا پڑتی تھی، بازار جانا پڑتا تھا لیکن جیسے ہی انٹرنیٹ آیا تو یہ تمام مواد یوٹیوب سے ہوتا ہوا فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس کی صورت میں ہر شخص کے گھر یہاں تک کہ موبائل تک جا پہنچا۔ اب نہ دکان پر جانے کا ترددّ، نہ کیسٹ اور سی ڈی خریدنے کی زحمت، راہ چلتے موبائل پر انٹرنیٹ کھولو اور نفرت کے ثبوت کے طور پر کسی بھی مولوی یا ذاکر کی تقریر سنا کر آگ لگوا دو۔

    یہاں ایک عجیب منطق پیش کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر ہر طرح کا جھوٹ اور افواہ چل رہی ہوتی ہے، لیکن یہ جھوٹ اور افواہ نہیں بلکہ ہمارے اپنے مذہبی قائدین کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو ہوتی ہے جسے ایک عام کمپیوٹر جاننے والا شخض بھی بڑی آسانی سے پہچان سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اور امام بارگاہ میں بولی جانے والی نفرت کی زبانیں اب گھروں کے دالانوں تک جا پہنچی ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم ایسا نہیں کہتے، یہ ہم پر الزام ہے، اس کے جواب میں سامنے والا موبائل پر کسی نہ کسی کی تقریر نکال کر سنا دیتا ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس نے اس سیاسی اور علاقائی طور پر پیچیدہ صورتحال کو ایندھن فراہم کیا، آگ لگائی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ اس سارے طوفان میں نہ دیوبندی کو فتح حاصل ہوئی نہ بریلوی کو، نہ شیعہ جیتا اور نہ اہل حدیث۔ مسکراہٹ ان چہروں پر ہے، رقص کناں وہ لوگ ہیں جو مدتوں سے یہ خواہش دل میں دبائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کو اللہ، اس کے رسولؐ اور عقائد سے برگشتہ کیا جائے۔ یہ لوگ ہیں جو اس مواد کو اکٹھا کرتے ہیں، کبھی کالم کی صورت پروتے ہیں اور کبھی کسی ٹاک شو میں دھینگا مشتی کرواتے ہیں۔

    لوگ سوال کرتے ہیں، حل کیا ہے! جس نے درد دیا ہے وہی دوا دے گا۔، اس امت کے تمام علماء کو اکٹھا ہونا پڑے گا اور ان سب لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا جن کی نفرت پر مبنی تقریریں اور مواد ہمارے درمیان موجود ہے اور ایسے سارے مواد، سی ڈیز اور کیسٹوں کو سر عام جلانا ہوگا، ورنہ اہل نظر مسجدوں اور امام بارگاہوں میں جبہّ و دستار اور عمامے خون سے رنگین دیکھ رہے ہیں ۔

  • شیعہ سنی اختلاف کیسے ختم ہو؟ مفتی سیف اللہ

    شیعہ سنی اختلاف کیسے ختم ہو؟ مفتی سیف اللہ

    مفتی سیف اللہ شیعہ سنی کے مابین جھگڑا کس بات کا ہے؟ بلاوجہ کی بدگمانیاں اور دوریاں ہیں۔ سینئر صحافی آصف محمود صاحب نے اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ دلیل پر شائع ہونے والے اپنے مضمون میں انھون نے فریقین کو باہمی رنجشیں بھلا کر اخوت اور روداری سے رہنے کی تلقین کی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک عمدہ کاوش ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

    آصف محمود صاحب نے اہل بیت اطہار کے ساتھ اپنی محبت و نسبت کو بیان کیا اور اس کی چند عام فہم مثالیں بھی پیش کیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اہل سنت بھی اہل بیت سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔

    جناب آصف محمود صاحب! جھگڑے کی وجہ محض بدگمانی ہےتو لیجیے اس کا ازالہ میں کیے دیتا ہوں، میرا تعلق اہل سنت سے ہے جبکہ میرا سلسلہ نسب عم رسول سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے جو اہل تشیع کے ہاں غازی عباس علمدار کے نام سے معروف ہیں۔ اہل بیت سے محبت و عقیدت میرا ایمان ہے اور جو ان سے دشمنی رکھے، وہ اللہ و رسول کا دشمن ہے۔ ان سے محبت وعقیدت کی بنا پر بچوں کے نام انھی سے موسوم کیے ہیں چنانچہ بھانجے اور بھتیجے کے نام حسن و حسین اور بھتیجی فاطمہ ہے جبکہ دوستوں میں قاسم، عقیل، شبیر اور تقی سب پائے جاتے ہیں۔

    محرم کے پہلے دس دن عشرۂ فاروق و حسین رضی اللہ عنہم کے طور پر مناتا ہوں اور ان کے نام پر منعقد کردہ مجالس میں جا کر ان کی عظمت و شان کو سننا اور بیان کرنا باعث فخر و سعادت اور ذریعہ نجات سمجھتا ہوں۔

    جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ ہمیں بھی امام زین العابدین رح اور امام جعفر صادق رح کے علم و فضل سے مستفید ہونا چاہیے تو اس بارے میں عرض ہے کہ یہ دونوں ائمہ کرام امام ابوحنیفہ رح کے بالواسطہ اور بلاواسطہ اساتذہ میں شامل ہیں تو اس طرح اہل سنت نہ صرف ان کے علم و فضل اور تقوی و ورع کے قائل ہیں بلکہ ان سے علمی و روحانی استفادہ اور کسب فیض بھی کرنے والے ہیں۔

    اب آنجناب سے عرض ہے کہ ہماری غلط فہمی کو بھی دور کیجیے تاکہ بدگمانی نہ ہو، اہل تشیع کا کوئی ایسا خاندان بتا دیجیے جہاں بچوں کے نام ابوبکر، عمر، عثمان اور بچیوں کے نام عائشہ اور حفصہ ہوں حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرزندان کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان تھے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔
    کیا خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو امام اور خلیفہ تسلیم کیا جائے گا جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا امام تسلیم کیا اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے۔ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیادت قبول کی جائے گی کہ جن کے ہاتھ پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اور انہیں اپنا امام بنایا۔

    چلیے نام نہ رکھیں اور برحق کا معاملہ بھی چھوڑ دیں، کم از کم یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ خلفائے راشدین، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کا احترام ہو، برسرعام گالی دے کر ان کی توہین نہ کی جائے، اور جو شخص ان میں سے کسی کی توہین کرے، اسے اہل تشیع احباب خود ہی روک دیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی مصالحت کی ضرورت نہ پڑے گی، معاملہ خود بخود حل ہو جائے گا، اور پھر وحدت و یکجہتی میں جو روڑے اٹکائے گا، اس سے اہل سنت خود نپٹ لیں گے۔

  • حسن رضا چنگیزی اور انعام رانا صاحب کے نام – امتیاز خان

    حسن رضا چنگیزی اور انعام رانا صاحب کے نام – امتیاز خان

    مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے کے عنوان سے حسن رضا چنگیزی صاحب کا مضمون دلیل پر دیکھا، محترم انعام رانا صاحب نے بھی اس کو اپنی فیس بک وال پر دردمندانہ اپیل کے ساتھ شیئر کیا ہوا تھا. پہلے تو چنگیزی صاحب کی ہمت و حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر سچ لکھا اور یہ نہیں دیکھا کہ اس کی زد میں ان کا اپنا فرقہ، قبیلہ اور برادری آ رہی ہے.

    یہ وہ مسئلہ ہے جس کا حل ہر دردمند انسان کو چاہیے لیکن مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ وجوہات ختم کیے بغیر مسئلے کو سلایا تو جاسکتا ہے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کیا بے ہوشی کا انجیکشن کسی مرض کی دوا ہوسکتا ہے؟

    چنگیزی صاحب اور انعام رانا صاحب کو اپنا کوئٹہ اور لاہور واپس چاہیے جہاں عاشور ہوتا تھا لیکن خوف کے سائے سے پاک، محبتوں سے لبریز اور الفتوں سے معمور۔
    بجا!۔ ہم سب کو بھی وہی پاکستان چاہیے جہاں کشت و خون کے بغیر ہم آباد تھے تو ہم اسے پانے کے لیے تھوڑا پیچھے کیوں نہیں چلے جاتے۔
    کیا شیعہ سنی علمی و فکری جدال و اختلاف ”ضیادور کی پیداوار“ ہے؟
    کیا 13 صدیوں سے شیعہ اپنی کتب میں اہل سنت اور اہل سنت اپنی کتب میں شیعہ کے خلاف فتوے نہیں دیتے چلے آرہے؟
    کیا پاکستان میں 80 کی دہائی کے وسط سے پہلے شیعہ سنی کا اختلاف نہیں تھا اور یہ ایک دوسرے کو باطل نہیں ثابت کیا کرتے تھے؟
    پھر یہ شیعہ سنی فسادات ابن تیمیہ کے دور میں کیوں نہ چھڑ گئے؟ تحفہ اثنا عشریہ کی تالیف کے وقت کیوں نہ ہوگئے؟ باگڑ سرگانہ خانیوال میں تین دن تین راتیں شیعہ اور سنی ایک ہی میدان میں بیٹھے ابطال شیعیت و سنیت کے دلائل سنتے رہے تو فساد کیوں نہ پھوٹ پڑا؟ وجہ اصل میں وہ ہے ہی نہیں جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور جسے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    میری داڑھی 70 فیصد سفید ہو چکی ہے، میں نے اپنی زندگی میں کسی سنی عالم کی نہ کتاب میں پڑھا ہے نہ خطبے میں سنا ہے اور نہ مدرسے میں گذرے 33 سالوں میں کسی کو یہ پڑھتے پڑھاتے سنا ہے کہ شیعہ عاشور کے جلوس نکالتے ہیں، اس لیے انہیں مارو، یا شیعہ ماتم کرتے ہیں اس لیے واجب القتل ہیں، یا شیعہ ائمہ کو معصوم مانتے ہیں اس لیے ان کا خون حلال ہے، یا شیعہ ولایت علی کے قائل ہیں اس لیے انہیں مار ڈالو، یا شیعہ کا عقیدہ توحید و عقیدہ رسالت ہم سے مختلف ہے اس لیے انھیں مٹادو، یا شیعہ ذوالجناح کو سجدہ کرتے ہیں اس سے مرادیں مانگتے ہیں اس لیے انھیں قتل کردو۔ مولانا عبدالشکور لکھنوی سے لے کر مولانا عبدالستار تونسوی تک کسی ایک کی ایسی کوئی تقریر و تحریر ملے تو دکھائیے۔

    میں نے اپنی حیات مستعار میں یا ماضی کے جھرونکوں میں جب بھی اہل سنت کو شیعہ کے خلاف نکلتے، بولتے، شدت میں آتے اور آپے سے باہر ہوتے دیکھا ہے، صرف ایک مسئلے پر دیکھا ہے، صرف ایک، اور وہ ہے؛
    گالی گالی اور صرف گالی۔
    وہی گالی چنگیزی صاحب نے اپنے مضمون میں جس کا ذکر کیا ہے. جب بھی کوئی مسئلہ ہوا، اسی وجہ سے ہوا۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند اگر احتجاجا لکھنؤ کی طرف چل پڑا تو اسی گالی کے ردعمل میں اور پاکستان میں جو کچھ ہوا، کرنے والوں کے اپنے بیان شاہد ہیں کہ انہیں چڑ کسی کے وجود سے نہیں، گالی سے ہے۔ مرنے مارنے پر اکسانے والوں نے اسی گالی کو بنیاد بنایا نہ کہ کسی کے عقیدے یا عمل کو.

    کیا وجہ ہے کہ سیدنا مولا علی و سیدنا امام حسین کا مقدمہ سنی لڑتا ہے۔ اپنوں سے بھی اور غیروں سے بھی۔ مضبوط دلیل کی بناء پر لڑتا ہے اور مسکت انداز میں لڑتا ہے اور جب ادھر دیکھتا ہے کہ گالیاں ہی گالیاں، جیسے انھیں عبادت کا درجہ حاصل ہو گیا ہے، تو برداشت ضرور جواب دیتی ہے۔

    دست بستہ درخواست ہے کہ ”گالی“ بند کروائیے۔ میں اس کوئٹہ اور پاکستان کی واپسی کےلیے آپ کے ساتھ مل کر جدوجہد کروں گا۔ میں اور آپ قتل و مقاتلے کے قائل نہیں ہیں، ہم بھی دلیل کے ساتھ مکالمہ چاہتے ہیں، مگر جس بنیاد پر عام و خاص کو اکسایا جاتا ہے، وہ وجہ ختم کروانے کے لیے سب دوست مل کر کام کیجیے، سوشل میڈیا پر، اپنی ویب سائٹس کے ذریعے، اپنی محافل اور حلقہ احباب میں توجہ دلائیے. یاد رکھیے کہ یہ مسئلہ روتے رلاتے افسانے لکھنے، مذمتی قراردادیں پاس کرنے سے نہیں، اسباب مٹانے سے حل ہوگا۔

  • شیعہ سنی اختلاف، جھگڑا کس بات کا ہے؟ آصف محمود

    شیعہ سنی اختلاف، جھگڑا کس بات کا ہے؟ آصف محمود

    آصف محمود شیعہ اور سنی میں جھگڑا کس بات کا ہے؟ لہو رنگ زمینی حقیقتوں کے باوجود میرے پیش نظر چند دنوں سے یہی ایک سوال ہے۔
    میں شیعہ نہیں ہوں ۔اللہ نے مجھے دو بیٹیوں کی نعمت کے بعد بیٹے سے نوازا تو میں نے اس کا نام علی رکھا۔ ہمارے گھر میں آنے والا پہلا ننھا وجود میری بھتیجی کا تھا، اس کا نام فاطمہ ہے۔ میری چھوٹی بہن کے خاوند کا نام حسن ہے۔ اپنے خاندان میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں تو شبیر، عباس، حسن اور حسین کے ناموں کی ایک مالا سی پروئی نظر آتی ہے۔ حسین ؓ کا ذکر آئے تو دل محبت اور آنکھیں عقیدت سے بھر جاتی ہیں۔ میری پہلی کتاب شائع ہوئی تو اس کا انتساب میں نے ’اپنے آئیڈیلز سیدنا عمر ؓ اور سیدناحسین ؓ ‘ کے نام کیا۔ یہ کتاب سی ٹی بی ٹی پر تھی اس کے صفحۂ اوّل پر میں نے یہ شعر لکھوایا:
    جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو
    قائم رہو حسین کے انکار کی طرح

    میری شریکِ حیات کا تعلق اعوان قبیلے سے ہے۔ وہ بھی شیعہ نہیں لیکن ان کے ہاں یہ روایت ایک فخر کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ ان کی نسبت سیدنا علی ؓ سے جا ملتی ہے۔خواجہ معین الدین چشتی نے کس وارفتگی سے کہا تھا:
    ’’حقاکہ بنائے لا الٰہ است حسین۔‘‘
    والہانہ پن تو دیکھیے اقبال کہتے ہیں:
    اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
    اِک ضرب ید اللہی ، اک سجدہِ شبیری

    مجھے بچپن کے وہ دن آج بھی یاد ہیں جب ہم سب مسجد میں اہتمام سے جایا کرتے تھے جہاں ہمارے خاندان کے قابلِ قدر بزرگ پروفیسر صفدر علی واقعہ کربلا سناتے، نہ سنانے والا شیعہ تھا نہ سننے والے اہلِ تشیع، لیکن دکھ اور درد ہڈیوں کے گودے میں اترتا محسوس ہوتا تھا۔ دیوبندیوں کے حسین احمد مدنی ہوں یا جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد، نام ہی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمارے ہیں حسین ؓ، ہم سب کے ہیں حسین ؓ ۔‘‘ ہمارے تو بابائے قوم ہی محمد علی جناح ہیں، سفر آخرت پہ روانہ ہوئے تو جنازہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔ سوچتا ہوں پھر جھگڑا کیا ہے؟ سوائے بدگمانی کے؟ شیعہ بھائی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اہلِ بیت کی محبت کے یہ مظاہر ہمیں ایک مالامیں نہیں پرو سکتے؟ کیا یہ بدگمانی مناسب ہے کہ ہر غیر شیعہ کو یزیدی سمجھا جائے؟ کیاآج پاکستان میں کوئی ایک آدمی بھی ہے جس کی ماں نے اس کا نام یزید رکھا ہو؟ سپاہِ صحابہ میں بھی ہمیں علی شیر حیدری کا نام ملتا ہے۔ کیا اتنی نسبتوں کے صدقے ہم مل جل کر نہیں رہ سکتے؟

    بات اب کہہ دینی چاہیے، گھما پھرا کے بات کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اصل مسئلے کو زیرِبحث اب لانا ہی پڑے گا۔ اس کو مخاطب کیے بغیر محض امن امن کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ نفرتوں کی آگ دہلیز تک پہنچ چکی ہے۔ کیا گھر جل جانے کا انتظار ہے؟ اہلِ تشیع بھائی کیسے ہمیں اہلِ بیت کی محبت میں خود سے پیچھے سمجھ سکتے ہیں۔
    حسین ؓ میرے بھی اتنے ہیں جتنے ان کے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ محبتوں کا انداز جدا جدا ہے لیکن ’حسین مِنی وانا من الحسین‘ کے ارشاد مبارک کے بعد کونسا دل ہوگا جس میں حسین ؓ کی محبت نہ ہو گی۔ رہے ان کے اختلافی معاملات تو اتنی مشترک محبتوں کے صدقے کیا ان معاملات کو اللّٰہ پر نہیں چھوڑا جا سکتا؟ کیا ایک دوسرے کی دل آزاری ضرور کرنی ہے؟ زندہ معاشروں میں اختلافات ہوتے ہیں، ان اختلافات کو ایک دائرے میں رہنا چاہیے اور ان اختلافات کے ساتھ زندہ رہنے کا ڈھنگ آنا چاہیے۔ مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب یہ اختلافات بدگمانی میں ڈھل جاتے ہیں۔ بدگمانی پھر حادثوں کو جنم دیتی ہے۔ اختلافات تو امام خمینی اور بنی صدر میں بھی ہو گئے تھے۔ اور ابھی کل کی بات ہے ہم نے حسین موسوی، ہاشمی رفسنجانی، محسن رضائی، اور مہدی کروبی کو احمدی نژاد صاحب کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا۔

    سنی حضرات کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ شیعہ کے آئمہ کرام سے کیا ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ کیا امام زین العابدین سے ہمیں کوئی نسبت نہیں؟ کیا امام جعفر صادق سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں؟ کبھی ہم نے غور کیا یہ ہستیاں کون تھیں؟ کس عظیم اور مبارک خانوادے سے ان کا تعلق تھا؟ یہ ہمارے ہی بزرگ تھے۔ یہ بھی ہماری ہی شان اور آبرو ہیں۔ ہم نے انہیں کیوں بھلا دیا؟ ہم نے انہیں کیوں نظر انداز کر دیا؟ ان کی تعلیمات ہمیں کیوں نہیں بتائی جاتیں؟ ان کی دینی خدمات سے ہم محروم کیوں؟ان کے فہم دین سے ہم فیض کیوں نہیں حاصل کرتے؟ ہم ان کے علمی کام سے اجنبی کیوں ہیں؟ یہ بیگانگی کیوں ہے؟ دین کے فہم کے باب میں انہوں نے بھی تو زندگیاں صرف کر دیں، یہ بھی تو ہمارا اجتماعی اثاثہ ہیں۔ کیا ہماری باہمی نفرتیں اور جھگڑے اب اتنے منہ زور ہو گئے ہیں کہ ہم نے اپنے بڑے بھی بانٹ لیے، ہم نے ان سے بھی منہ موڑ لیا، ہم اپنے ہی چشمہ ہائے علم سے محروم ہو گئے؟

    میری ہر دو اطراف کے بزرگان سے التجا ہے: آئیے اس کلمے کی طرف جو ہم سب میں مشترک ہے۔

  • مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے – حسن رضا چنگیزی

    مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے – حسن رضا چنگیزی

    حسن-رضا-چنگیزی-1-1.jpg زمانہ طالب علمی کی بات ہے۔ میں اور میرے دوست عام لا ابالی نوجوانوں کی طرح گھومنے پھرنے بلکہ بقول والدین آوارہ گردی کے شوقین تھے۔ ہمارے گروپ میں شیعہ اور سنی دونوں مسالک کے دوست شامل تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہم نے کبھی آپس میں مسلکی موضوعات پر کوئی گفتگو کی ہو۔ زندگی بڑے نارمل انداز میں بسر ہو رہی تھی۔ ان دنوں میرے کئی شیعہ دوست شیروانیاں زیب تن کر کے ایک مقامی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے جبکہ سنی دوست شام کے اوقات میں ٹوپیاں پہنے علاقے کی مساجد میں قرآن پڑھنے جایا کرتے تھے۔ اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ کون شیعہ ہے اور کون سنی، نہ ہی ہم ان موضوعات پر کبھی آپس میں بحث کیا کرتے۔

    اس کے برعکس ہم نہ صرف اکھٹے پکنک منایا کرتے بلکہ محرم کی رسومات میں بھی مل جل کر شرکت کرتے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ہمارے سنی دوست بھی ہمارے ساتھ محرم کی مجالس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ دوسری طرف محلے کی مساجد کے طالب علم بچے جب شام کے وقت ہر دروازے پر دستک دے کر ”ٹکی راوڑی خیر یوسی“ کی آواز لگا کر مسجد کے طالب علموں کے لیے کھانا جمع کرتے تو محلے کی دیگر ماؤں کی طرح میری ماں بھی ان کے برتن میں ہمیشہ کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز ڈال دیتی۔ تب مساجد اور امام بارگاہوں میں لاؤڈ اسپیکر پر بلند آواز میں خطبہ دینے کا چلن عام نہیں تھا۔ عاشورہ کے دن شیعہ ماتم کرتے تو سنی نذر و نیاز اور سبیل کی ذمہ داریاں سنبھالتے۔ علمدار روڑ پر واقع حاجی رفیق کا ”چکوال گرم حمام“ عاشورہ کے دن بال سنوارنے اور شیو بنانے سے یکسر انکار کردیتا لیکن اسی حمام میں صبح سے ہی پانی گرم کرنے کی تیاری شروع ہوتی تاکہ ماتمیوں کو مفت غسل کرنے کی سہولت میسر ہو۔

    لیکن پھر بڑے غیر محسوس طریقے سے سارا نظارہ بدلنے لگا۔ جنرل ضیاءالحق کی پالیسیوں اور ایرانی انقلاب کی حشر سامانیوں کے باعث مساجد اور امام بارگاہوں میں لاؤڈ اسپیکر کی آوازیں بلند سے بلند تر ہونے لگیں۔ داڑھیوں کے سائز میں اضافے کے ساتھ دلوں میں کدورتیں بھی بڑھتی گئیں اور زبانیں محبت کا پرچار کرنے کے بجائے زہر اگلنے لگیں۔ ہمیں پہلی بار اس بات کا احساس دلایا گیا کہ چونکہ ہم شیعہ ہیں، اس لیے حق پر ہیں، جبکہ ہمارے سنی دوستوں کو اس بات کا یقین دلایا گیا کہ جنت صرف ان کے لیے بنی ہے۔

    انہی دنوں پاکستان میں فقہ جعفریہ نافذ کرنے کی مہم چل نکلی اور پاکستان خصوصاَ کوئٹہ کو لبنان بنانے کی باتیں کی جانے لگیں۔ مجھے یاد ہے کہ تب کچھ امام بارگاہوں کے منتظمین میں محرم کے دس دنوں کے لیے پنجاب اور سندھ کے پیشہ ور خطیبوں اور ذاکرین کو بھاری معاوضوں کے عوض ”بک“ کرنے کی ایک دوڑ سی لگ جاتی۔ مجالس میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ بِھیڑ جمع کرنے کی خاطر ان خطیبوں کے بھاری معاوضوں کی خصوصی تشہیر کی جاتی۔ ان دنوں امام بارگاہ کلان میکانگی روڈ میں پنجاب سے آئے ایک خطیب ضمیر الحسن نجفی کا بڑا شہرہ تھا جو اس وقت کا سب سے ”مہنگا“ خطیب تھا۔ وہ بڑے مضحکہ خیز انداز میں اصحاب رسول ﷺ کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ وہ ان اصحاب کے خلاف بولنے اور تبریٰ بھیجنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ تب اسے محرم کے دس دنوں میں خطابت کے عوض چالیس ہزار روپے ملتے تھے جو شاید آج کے آٹھ دس لاکھ روپے کے برابر ہوں۔
    ہم سارے شیعہ دوست ان کے شیدائیوں میں شامل تھے۔ ایک دن میرے کسی دوست نے ایک پرچی پر ان کے لیے سوال لکھ بھیجا کہ ”ہم نماز کے وقت سجدہ گاہ ( مہر) کیوں استعمال کرتے ہیں؟“ ضمیر الحسن نجفی نے اس سوال کے جواب میں ایک لمبی چوڑی کہانی سنائی۔ کہنے لگے ”ایک دن میں پنجاب کے کسی گاؤں سے گزر رہا تھا تو نماز کا وقت آن پہنچا۔ میں نماز پڑھنے ایک قریبی مسجد میں گھس گیا جو سنیوں کی تھی۔ میں نے مصلیٰ بچھایا اور سجدہ گاہ رکھ کر نماز پڑھنے لگا۔ اس دوران مجھے محسوس ہوا کہ مسجد کا امام بڑی بے چینی اور غصے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔ میں نے نماز ختم کی تو امام مسجد میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ تم اس ’ٹکیا‘ پہ سجدہ کیوں کرتے ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ کربلا کی اس مٹی پر سجدہ کرنے سے شیطان کو غصہ آتا ہے، کہیں آپ کو تونہیں آیا؟“ نجفی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ امام بارگاہ نعرہ حیدری سے گونج اُٹھی۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس نعرے میں میری بلند آواز بھی شامل تھی۔ تب دوسروں کی طرح میں بھی یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ مولوی صاحب نے بڑی چالاکی سے ہمارے دوست کا سوال ایک من گھڑت قصے میں لپیٹ کر ہماری عقل پر دے مارا تھا۔

    انھی دنوں ہم نے پہلی بار ”ایک ، دو ، تین پر لعنت“ کا نعرہ اور جواب میں ”بےشمار“ کی تکرار سنی۔ اور انھی دنوں شاید پہلی بار سامنے کی مسجد سے امام بارگاہ کلان پر پتھراؤ کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب اگلے دن ایک شخص نے مولوی (ضمیر الحسن نجفی) سے کہا کہ آپ تو اپنا کام کر کے چلے جائیں گے لیکن آپ کی ان تقریروں کی وجہ سے جو نفرت پھیل رہی ہے، اس کے باعث آج کے بعد ہمیں اسلحہ لے کر گھومنا ہوگا تو جناب کا جواب تھا کہ ”میں نےاپنا کام کردیا، اب آپ لوگ جانیں اور آپ کا کام جانے“۔ موصوف اگلے کئی سالوں تک بھاری بھر کم فیس لے کر نوجوانوں کے اذہان کو زہر آلود کرتے رہے۔

    پھر ایک سال محرم کے دوران پنجابی امام بارگاہ میں پنجاب کے ایک اور آتش سخن خطیب کو دعوت دی گئی اور محرم کے آغاز سے قبل ہی بڑے منظم طریقے سے موصوف کی تشہیر کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔ ان کی پہلی خاصیت یہ بتائی گئی کہ وہ پہلے ایک دیوبندی مولوی تھے لیکن اب شیعہ مذہب کی حقانیت قبول کر کے ”راہ راست“ پر آگئے ہیں۔ ان کی دوسری خوبی جو ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنی ان کی بھاری بھرکم فیس تھی۔ اس بات کی خصوصی تشہیر کی گئی کہ انہیں محرم کے دس دنوں کے دوران خطابت کے عوض 90 ہزار روپے دیے جائیں گے جو اس سیزن میں کسی بھی خطیب کو دی جانے والی سب سے بڑی رقم تھی۔ میں اس خطیب کا نام شاید زندگی بھر نہ بھول سکوں۔ اس کا نام مظہر دیوبندی تھا۔ وہ بلا کا خطیب تھا۔ اس کا یہ جملہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ ”مجھ سے پوچھو میں بتاتا ہوں کہ سنیوں میں کیا خرابیاں ہیں، کیونکہ میں 45 سال تک سنی تھا اور ابھی ابھی شیعہ ہوا ہوں۔“

    اس وقت اس ”نو شیعے“ کو جتنا معاوضہ اورعزت ملی، اتنی عزت کبھی کسی مقامی شیعہ عالم کے حصے میں نہیں آئی۔ انہی دنوں ایک موقع پر جب دیوبندی صاحب نفرتیں پھیلا کر اور اپنی روزی حلال کر کے منبر سے اترے تو ہم دوست بھی ان کے پیچھے پیچھے پنجابی امام بارگاہ کے مختصر سے حجرے میں چلے گئے۔ سلام دعا کے بعد ہم نے ان سے سجدہ گاہ سے متعلق وہی سوال پوچھا جو اس سے قبل ہم ضمیرالحسن نجفی سے پوچھ چکے تھے۔ پہلے تو انہوں نے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر ہم سے جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن ہمارے اصرار پر انہوں نے جو جواب دیا، وہ آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ فرمانے لگے ”بیٹے میں تو ابھی ابھی شیعہ ہوا ہوں، اس لیے اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، بہتر ہوگا یہ سوال آپ اپنے کسی جید عالم سے پوچھ لیں۔“ ہماری سادگی دیکھیے کہ ہم تب بھی یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ ہمارے ہی چندوں پر پلنے والے یہ پیشہ ور ”علماء“ جو اپنی کمائی کی خاطر مسلک بدلنے پر ہمیشہ تیار رہتے ہیں، جن کو دین کی معمولی سمجھ بوجھ بھی نہیں اور جو ہمارے اذہان میں اُبھرنے والے بنیادی سوالوں کے جواب دینے کے بجائے انہیں ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں، ہمیں مستقبل میں کن آزمائشوں میں مبتلا کرنے والے تھے۔

    وقت گزرتا گیا اور ساتھ ہی سنی امیرالمؤمنین ضیاءالحق کے نظام مصطفیٰ اور شیعہ امام خمینی کے ایرانی انقلاب کی بدولت خطے میں مذہبی جنون بھی بڑھتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی، دلائل کے بجائے پستول، کلاشنکوف اور بموں کے ذریعے بات کرنے کا سلسلہ چل پڑا، گھروں کی دیواریں اونچی ہونے لگیں، اپنی حقانیت ثابت کرنے کی خاطر سعودی عرب اور ایران سے طاقتور لاؤڈ اسپیکر منگوانے کی ریت چل پڑی۔ فتووں کا بازار گرم ہوا، معصوم لوگوں کو ذبح کرنے کی رسم چل پڑی اور میرے سنی ہمسائیوں نے محرم کے دنوں میں نذر و نیاز کا سلسلہ بند کر دیا۔ ساتھ ہی ”ٹکی راوڑی خیر یوسی“ کی آوازیں بھی آنا بند ہو گئیں۔ ماحول پر آسیب کا سایہ پڑ گیا۔ حاجی رفیق اپنا چکوال گرم حمام بند کر کے پنجاب چلا گیا۔ ہمارے اسکول کے کلین شیو استاد ماسٹر عزیز نے اپنی ساری توجہ داڑھی بڑھانے پر مرکوز کر دی اور میرے بچپن کے سنی دوست مجھ سے دور ہوتے چلےگئے۔

    پھر تو ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک بھر سے قتل و غارت کی خبریں آنے لگیں۔ لوگ امن کی تلاش میں ملک سے بھاگنے لگے۔ سینکڑوں لوگ برف زاروں اور سمندروں کی نذر ہونے لگے، بم دھماکے ہونے لگے، ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی، بچے اور عورتیں خون میں نہلانے لگیں اور مائیں اپنے بچوں کو گھر سے رخصت کرتے وقت ان پر دعائیں پڑھ کر پھونکنے لگیں تاکہ وہ خیریت سےگھر لوٹ سکیں۔ لیکن امن ایسا روٹھا کہ اس نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

    میں آج بھی ماضی کے مزاروں میں جھانک کر ایک ایسے پرسکون معاشرے کی تلاش میں ہوں جہاں میں اپنے سنی دوستوں کے ساتھ پھر سے پکنک پر جا سکوں۔ مجھے ایک ایسے معاشرے کی تلاش ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر کسی کو قتل نہ کیا جاتا ہو اور جہاں لوگ شیعہ، سنی یا ہندو، مسلمان اور عیسائی بن کر نہیں بلکہ انسان بن کر رہیں۔ مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے۔ میں ہزاروں ریاض، تہران اور لبنان اپنے کوئٹہ پر قربان کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن کیا کوئی ہے ایسا جو میرا پرانا کوئٹہ مجھے واپس دلا سکے؟
    ہے کوئی جو میری مدد کرے؟ ہل من ناصر ینصرنا؟

  • فرقہ واریت اور علما کی علمی و کتابی آرا کی اشاعت – ڈاکٹر محمد شہباز منج

    فرقہ واریت اور علما کی علمی و کتابی آرا کی اشاعت – ڈاکٹر محمد شہباز منج

    Exif_JPEG_420 ادارۂ امن و تعلیم اسلام آباد اور اقبال بین الاقوامی ادارہ براے تحقیق و مکالمہ کے زیراہتمام اسلام آباد اور نتھیا گلی میں 26تا 30 جولائی 2016ء کے دوران منعقدہ کانفرنس بعنوان ’’بین المسالک ہم آہنگی کا بیانیہ اور لائحۂ عمل‘‘، میں موضوع سے متعلق بہت سے اہم بحثیں ہوئیں۔ راقم نے بھی اپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا اور اس پانچ روزہ کانفرنس کے مباحثے اور مکالمے کا حصہ رہا (بعض اہم امور کے بارے میں ان شاء اللہ گاہے گاہے، کچھ مزید طالب علمانہ گزارشات پیش کی جائیں گی) ایک بحث یہ رہی کہ: علما کی علمی و کتابی باتوں یا فتووں کو عوام الناس میں نہیں آنا چاہیے؛ جب علمی باتیں مناظروں اور نیم خواندہ خطیبوں کے ہتھے چڑھتی ہیں، تو فرقہ واریت اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک اس طرح کی بات اہل علم کی نجی اور احباب کی محفلوں میں طنز و مزاح کے انداز میں کی گئی باتوں کی حد تک درست مانی جاسکتی ہے، لیکن تصانیف اور فتووں کو اس میں شامل کرنا ایک فضول و لا حاصل امر ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے، ان کی ذمہ داری اٹھانے سے بچنے اور خود کو یا دوسروں کو دھوکہ ینے کی کوشش بھی دکھائی دیتی ہے۔

    ذرا سوچیے! کیا تصانیف اور فتاویٰ کوئی خفیہ دستاویز ہوتی ہیں، جن کو عوام میں نہیں جانا چاہیے، یا کسی طریقے سے عام لوگوں کو ان تک رسائی سے روکا جا سکتا ہے؟ کیا دین ِ اسلام کا مزاج اس کو قبول کرتا ہے کہ علما کا علمی موقف اور ہو اور عوامی موقف اور، کتابوں میں وہ کچھ لکھیں اور عوام سے کچھ اور کہیں! مثلاً کتابوں میں لکھا ہو کہ ’’شیعہ کافر ہیں، وہ اس اس طرح سے صحابہ کرام کی گستاخی اور تحریف قرآن وغیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘، یا ’’دیوبندی کافر ہیں، وہ گستاخی رسولﷺ و آلِ رسول کے مرتکب ہیں۔‘‘، یا ’’بریلوی بدعتی اور مشرک ہیں۔‘‘ اور ان مواقف کے حق میں میں کتاب وسنت اور علماے سلف کی کتابوں سے دلائل پیش کیے گئے ہوں، اور جب آپ کے یہ مواقف عوام کی سطح پر آ کر تباہی کا باعث بنیں، تو آپ کہیں، ہمارا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ ہمارے لوگ دوسروں کو کافر کافر، یا بدعتی و گستاخ وغیرہ کہتے، اور ان سے لڑائیاں کرتے پھریں۔سوال یہ ہے کہ آپ نے جو موقف اختیار کیا تھا، وہ اسلام کا مطالبہ تھا یا نہیں؟ اگر وہ اسلام کا مطالبہ تھا، تو اس کو چھپانے اور ایک خاص حلقے تک محدود رکھنے کا آپ کے پاس شرعی و اخلاقی جواز کیا ہے؟ اگر وہ اسلام کا مطالبہ نہیں تھا، تو آپ کے پاس اسلام کے نام پر اسے کتاب اور فتوے کی شکل میں سامنے لانے کا کیا شرعی و اخلاقی جواز ہے؟ اگر یہ آپ کا ذاتی موقف تھا، اور شرع کی صحیح پوزیشن آپ پر اس معاملے میں واضح نہیں تھی، تو آپ نے اس پر کتاب کیوں لکھی؟ اگر آپ کا خیال یہ تھا کہ میں نے جو کتاب لکھی ہے، وہ صرف خاص لوگ پڑھ سکتے ہیں، عوام نہیں، تو کیا آپ نے کتاب چھاپتے ہوئے، اس کے سرورق پر اس کی وضاحت کی تھی؟ کیا اسلام کے نام پر چھپی ہوئی اس نوع کی کوئی کتاب ایسی بھی ہو سکتی ہے، جسے پڑھنے کے لیے بندے کو کسی باقاعدہ نصابی تعلیم و تربیت سے گزارنے کی شرط عائد کی جا سکے؟ نیز کیا ایسی کسی شرط کو ملحوظ خاطر رکھنا عملاً ممکن ہے؟ کتاب تو لوگ شائع ہی اس لیے کرتے ہیں کہ بات زیادہ سے زیادہ پھیلے اور وہ لوگ بھی اس سے آگاہ ہوں، جو قبل ازیں آگاہ نہیں تھے، سو کیا ایک موقف کو کتابی شکل میں شائع کر کے چھپایا جا سکتا ہے، بہ طور خاص بات کی نشر و اشاعت کے موجودہ تیز ترین اور وافر ترین ذرائع کے ہوتے ہوئے؟

    جناب عالی! آپ سے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ یہ بات دھوکہ کھانے یا دینے کے علاوہ کچھ نہیں کہ آپ کسی فرقے یا گروہ و افراد کے خلاف کتابیں لکھیں اور فتوے جاری فرمائیں اور جب ان کے خوف ناک نتائج سامنے آئیں، تو کھسیانے ہو رہیں کہ ہمارا مقصد یہ نہیں تھا! حق یہ ہے کہ ایسے فتووں اور کتابوں کی بنیاد پر جو قتل و غارت اور فساد ہو، اس سے ایسے مفتی اور مصنفین بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

    آپ واقعی مسلکی ہم آہنگی اور اتحاد کے خواہاں ہیں، تو ہمت کریں؛ اعلی ظرفی کا ثبوت دیں، اور وہ یوں کہ اگر آپ کی کوئی کتاب امت اور سوسائٹی میں تباہی و فساد کا سبب بنی ہو، اور آپ کو کسی موقع پر اس کا احساس ہوگیا ہو، تو اس سے برات کا اظہار کریں۔ اگر آپ نے یا آپ کے کسی بزرگ نے ایسا کوئی فتوی دیا یا کتاب لکھی تھی، اور پھر انھیں یا آپ کو احساس ہوگیا کہ ایسا کرنا درست نہیں تھا، تو ان بزرگوں کو یا ان کے بعد آپ کو، ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے، ان کے موقف سے برات کا اظہار فرمانا چاہیے۔اگر آپ ایسا نہیں کرتے توچند صورتیں ہوں گی: یا توآپ بھی اسی موقف کے قائل ہیں، اس صورت میں آپ کا درس اتحاد اور فرقہ واریت کی مخالفت اور مسلمانوں کو اس سے بچانے کی خواہش کا اظہار ، اس مقصد کے لیے منعقدہ ورکشاپس اور کانفرنسز میں شرکت ایک دکھاوا ہے، اور ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کا مصداق۔ یا آپ اس موقف کے قائل نہیں ہیں، اس صورت میں آپ کو اس سے برات کا اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے، اگر آپ قائل تو نہیں، لیکن اس سے برات کا اظہار بھی نہیں کرتے، تو بھی یہ دوغلا پن ہوگا، جو ایک عالم کو زیب نہیں دیتا۔

    علم میں ارتقا ہوتا رہتا ہے؛ آدمی اپنی آرا بدلتا رہتا ہے، ضروریاتِ زمانہ کا لحاظ دنیوی ہی نہیں دینی امور میں بھی بہت اہمیت کاحامل ہے، بہت سے فتوے ایک زمانے میں درست مانے گئے، اگلے زمانے میں ان کی تردید ہوگئی؛ ان سے الٹ فتوے سامنے آگئے۔ کیا ضروری ہے کہ وہ فتوے ، جن کا باعثِ فساد و مصیبت ہونا، آپ پر واضح ہوگیا، اسے آپ سینے سے لگائے رہیں۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ اس سے صاحب فتویٰ بزرگ کی مخالفت اور توہین ہوگی، تو یہ آپ کی علمیت نہیں، سطحیت کی علامت ہے. کسی کی رائے سے اختلاف کا یہ مقصد کبھی نہیں ہوتا کہ آپ اس کی توہین کے درپے ہیں، یا اس کو جہنم میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ (اگرچہ ، بد قسمتی سے ہمارے یہاں یہ رویہ عام پایا جاتا ہے؛ بزرگوں کی آرا اور فتووں کی تردید یا ان سے اختلاف کو ان کی توہین اور ان کی بزرگی و ورع کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔)

    مسلکی ہم آہنگی اور اتحاد کی بات کرنی ہے، تو کافرسازی پر مبنی فتووں اور کتابوں سے برات ضروری ہے۔ یہ مسئلہ نہیں کہ فلاں فرقے کے فلاں بزرگ نے دوسرے کے خلاف یہ لکھا، اگر وہ بزرگ خود یا اس مسلک کے بعد کے ذمہ دار اور مسلکی ہم آہنگی کے پرچارک اس سے الگ ہو جائیں، تو معاملے کی سنگینی کو کم کیا اور مسلکی ہم آہنگی کی طرف حقیقی قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔

    مذکورہ کانفرنس میں جب ایک شیعہ صاحب علم دوست نے مسلکی ہم آہنگی سے متعلق امام خمینی کے افکار پیش کیے، تو میں نے کہا کہ سنیوں کے بعض لوگ اپنی شدت پسندی کا ایک جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ امام خمینی نے صحابہ کرام اور امہات المونین سے متعلق نازیبا الفاظ لکھے ہیں۔ تو ان صاحب علم اور کانفرنس میں موجود دیگر شیعہ علما نے کہا کہ امام خمینی کی ’’کشف الاسرار‘‘ ان کی ابتدائی زندگی کی کتاب ہے، جس سے انھوں نے انقلاب کے بعد برات کا اظہار کیا اور اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا؛ اس کتاب پر ایران میں میں بھی پابندی ہے، یہ کتاب ایران میں آپ کو وہاں بھی نہیں ملے گی، جہاں امام خمینی کی تمام کتابیں اہتمام سے رکھی گئی ہیں۔ جب اس کے بعد کے ایڈیشنوں سے متعلق سوال ہوا، تو شیعہ دوستوں نے کہا کہ یہ کتاب پاکستان میں ’’سپاہ صحابہ‘‘ کی طرف سے چھاپی جاتی ہے، اور پتہ اصل نسخے کا دے دیا جاتا ہے، ورنہ ایران میں یہ کتاب نہیں چھپتی۔

    جب مولانا زاہد الراشدی نے مسلکی ہم آہنگی کے حوالے سے لیکچر دیا، تو میں نے ان سے سوال کرتے ہوئے کہا: شیعہ اہلِ علم نے ’’کشف الاسرار‘‘ سے برات کا اظہار کیا اور امام خمینی کے حوالے سے کہا کہ وہ اسے اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے تھے، اس سے واضح ہوا کہ سنجیدہ شیعہ علما کے ہاں اس بات کا احساس و ادراک ہے کہ اصحاب ثلاثہ یا دیگر صحابہ و امہات المومنین سے متعلق نازیبا الفاظ غلط اور قابل مذمت رویہ ہیں، اور اتحاد کی راہ میں رکاوٹ؛ سنجیدہ شیعہ علما کا یہ رویہ نہیں ہونا چاہیے، یا انھیں یہ زیب نہیں دیتا، تو کیا آپ (مولانا زاہد الراشدی) اپنے والد گرامی (دیوبندیوں میں نہایت ہی قابلِ احترام اور معتبر سمجھے جانے والے بزرگ مولانا سرفراز خان صفدر مرحوم) کی ’’ارشادالشیعہ‘‘ (جن میں شیعوں کی تکفیر کی گئی ہے) سے برات کا اظہار کرتے ہیں؟ مولانا نے جواب دیا، ہم تو ’’ارشادالشیعہ‘‘ کے بعد بھی اہلِ تشیع سے دستِ تعاون بڑھاتے آ رہے ہیں، اور مختلف اتحادوں میں ان کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ’’سیاسی‘‘ نوعیت کا جواب تھا، جس سے یہ مطلب لینا ممکن نہیں تھا کہ مولانا زاہدالراشدی ’’ارشاد الشیعہ‘‘ میں اپنے والد گرامی کے موقف سے متفق نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لیکچر کے بعد میں مولانا زاہد الراشدی کو الوداع کہنے اور ملنے کےلیے ہال سے باہر آیا اور چلتے چلتے ان سے کہا کہ آپ نے میرے سوال کا جو جواب دیا ہے، وہ اہلِ تشیع سے متعلق آپ کی فراخ دلی کا ثبوت ہے، اور ازراہ تفنن زیر بحث معاملے میں ان کے والد صاحب کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ’’ارشادالشیعہ‘‘ کے باوجود اہل تشیع سے قربت و تعلق کی بات کر کے گویا فرما دیا کہ:’’مات المفتی مات الفتوی‘‘ تو مولانا راشدی نےفرمایا: نہیں نہیں، میں نے یہ نہیں کہا۔ تو میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا: آپ نے نہیں کہا، لیکن میں نے اخذ کر لیا۔

    لطیفہ اور مزاح اپنی جگہ، تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں سے برملا اختلاف کی ہمت نہیں رکھتے، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اس رویے کے اثرات نہ ہوں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ آپ ایک طرف مسلکی ہم آہنگی کی کانفرنسوں میں ایک گروہ کو اپنے مذہب کا ایک فرقہ کہیں اور اپنے علمی اور کتابی موقف میں اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں۔ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علماے کرام اپنے عوامی طبقے میں اپنی مقبولیت کھونے کے ڈر سے اس موقف کا بھی اظہار نہیں کرتے، جس کے وہ خود قائل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس نوعیت کے سوالات میں واضح طور پر دفاعی نظر آتے اور ’’سیاسی‘‘ بیانات دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔