آج کل ایک نئے فیشن نے زور پکڑا ہوا ہے کہ ہر کوئی خود کو ”صرف مسلمان“ کہلانے پر بضد ہے۔ مقبول عام جملہ یوں بن گیا ہے کہ ”میں نہ سنی ہوں، نہ شیعہ ہوں۔ نہ دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث ہوں، میں صرف مسلمان ہوں“. حد تو یہ ہے کہ فرقہ بندی کی گہری ہوتی ہوئی تقسیم در تقسیم سے وابستہ میرے کچھ دوست بھی سوشل میڈیا پر آ کے ”صرف مسلمان“ بن جاتے ہیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ ”صرف مسلمان“ بن کر فرقہ بندی ختم یا کم ہو سکتی ہے؟ اور یہ کہ ”کیا سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث“ ہونے سے کوئی مسلمان نہیں رہتا ہے؟
آپ نے اپنا فیس بک کھولا ہوا ہے، اور یہ لکھنے جا رہے ہیں کہ آپ ”صرف مسلمان“ ہیں۔ لیکن ٹھہریے، امت کو کنفیوز کرنے سے پہلے خود سے ہی کچھ سوال کریں! کیا امامت اور خلافت دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت کے حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد اہل بیت اطہار کے ائمہ ہی ہیں؟ کیا حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم کی خلافتوں میں حضرت علی کی حق تلفی ہوئی تھی؟ (سوالات اور بھی ہیں، لیکن ان کو خوفِ فساد خلق سے ناگفتہ رہنے دیتے ہیں۔) ان سوالات کا جواب اگر آپ اثبات میں دیتے ہیں تو مبارک ہو، آپ شیعہ ہیں اور اگر نفی میں دیتے ہیں تو آپ سنی ہیں۔ اپنے اندر ایک بار پھر جھانک لیجیے، کیا فقہی معاملات میں اماموں کی تقلید ناجائز ہے؟ جو آدمی اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کے لیے کسی امام کی تقلید کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے؟ (یہاں بھی کچھ تلخ سوالات ہیں لیکن وہی فسادِ خلق کا خوف آڑے آ رہا ہے)۔ اگر ان سوالات کا جواب سر کی عمودی حرکت سے دے رہے ہیں تو لاکھ انکار کریں، آپ اہل حدیث ہیں۔ اور اگر افقی انداز میں سر ہلا رہے ہیں تو آپ (پاکستان کے تناظر میں) حنفی ہیں۔ پھرسے خود کو ٹٹولیں! کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم کل حاصل ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختارِ کل ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو آپ بریلوی ہیں اور نہیں میں ہے تو دیوبندی! پھر بھی اگر آپ کو ضد ہے کہ آپ، سنی شیعہ، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی کچھ نہیں بلکہ صرف مسلمان ہیں تو ان سوالات کا جواب ”ہاں“ اور ”نہیں“ کے علاوہ دیں۔ اور یقین جانیے اگر آپ کی فکر رسا کوئی درمیانی جنس کا جواب دریافت کر لیتی ہے تو آپ ”صرف مسلمان“ نام کے ایک اور فرقے کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، تاریخ میں جب بھی کوئی مسلکی شناخت کے خلاف تحریک چلائی گئی ہے اور اسے کامیابی ملی ہے تو اس کا آخری انجام ایک نئے مسلک کی صورت میں ہوا ہے۔ خود ہمارے دور میں جاوید احمد غامدی صاحب یہی آواز لے کر اٹھے تھے، لیکن دیکھیے، آج جتنا جمود غامدی صاحب کے کچھ متبعین میں پایا جاتا ہے، اتنا جمود کسی دور افتادہ گاوں میں بیٹھے ہوئے اس شخص کے اندر بھی نہیں ہوگا جس کا کل علم ”خلاصہ کیدانی“ تک محدود ہے۔
اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف! میں اگر حنفی ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ میں نے ”دین کے اندر دین“ قائم کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب میں مسلمان نہیں رہا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سوچنے کے دو مختلف زاویوں میں، میں نے ایک زاویے کو منتخب کیا ہے۔ کوئی اگر شیعہ ہے تو کیا اس کا مطلب یوں لیا جائے کہ وہ خود کو مسلمان نہیں سمجھتا؟ یہ مسالک –غلط یا صحیح کی بحث سے ہٹ کر – مختلف فکری و قانونی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان شناختوں کی وجہ سے اسلام پر کوئی حرف آتا ہے۔ اسلام ان تمام مسالک سے وابستہ افراد کی پہلی شناخت ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اندر آنے والی فکری تقسیم کو اگر ریت میں سر دبا کر نظر انداز نہیں کرنا ہے تو اپنی وابستگی کا اظہار کرنا ضروری ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ کے نام پر خود کو ”معتدل اور روشن خیال“ مسلمان ظاہر کرنے والے یا تو پرلے درجے کے منافق ہوں گے یا پھر ایک نئے فرقے کی داغ بیل ڈال دیں گے۔
مسئلہ کہاں ہے؟
مسئلہ مسلکی وابستگی اور فکری شناخت میں نہیں ہے۔ مسئلہ عدم برداشت والی سوچ میں ہے۔ فکری تنوع ہر معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے لیکن یہ حسن تب تک ہوتا ہے جب تک دوسرےکے وجود کو برداشت، اس کی رائے کا احترام اور اس کے علم کا اعتراف کیا جائے۔ یہاں پر چلن یہ ہوا ہےکہ –چند مستثنیات کو چھوڑ کر– ہر انسان خود کو مکمل ٹھیک اور دوسرے کو مکمل غلط تسلیم کیے بیٹھا ہے۔ اس بیماری کا علاج بھی ہمیں دورِ قدیم سے امام شافعی نے تجویز کیا ہے کہ ”میری رائے درست ہے لیکن اس میں غلطی کا امکان ہے، آپ کی رائے خطا ہے لیکن اس میں درستی کا احتما ل ہے“۔ بس امام شافعی رحمہ اللہ کی اس سوچ کو اپنا کر شیعہ، سنی، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث بن کر رہنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ نام کے لا تعداد فرقے وجود میں آتے رہیں گے۔
تبصرہ لکھیے