Tag: سلفی

  • مسلکی شناخت اور ”صرف مسلمان“ کا دعوی – تاج محمد

    مسلکی شناخت اور ”صرف مسلمان“ کا دعوی – تاج محمد

    آج کل ایک نئے فیشن نے زور پکڑا ہوا ہے کہ ہر کوئی خود کو ”صرف مسلمان“ کہلانے پر بضد ہے۔ مقبول عام جملہ یوں بن گیا ہے کہ ”میں نہ سنی ہوں، نہ شیعہ ہوں۔ نہ دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث ہوں، میں صرف مسلمان ہوں“. حد تو یہ ہے کہ فرقہ بندی کی گہری ہوتی ہوئی تقسیم در تقسیم سے وابستہ میرے کچھ دوست بھی سوشل میڈیا پر آ کے ”صرف مسلمان“ بن جاتے ہیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ ”صرف مسلمان“ بن کر فرقہ بندی ختم یا کم ہو سکتی ہے؟ اور یہ کہ ”کیا سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث“ ہونے سے کوئی مسلمان نہیں رہتا ہے؟

    آپ نے اپنا فیس بک کھولا ہوا ہے، اور یہ لکھنے جا رہے ہیں کہ آپ ”صرف مسلمان“ ہیں۔ لیکن ٹھہریے، امت کو کنفیوز کرنے سے پہلے خود سے ہی کچھ سوال کریں! کیا امامت اور خلافت دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت کے حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد اہل بیت اطہار کے ائمہ ہی ہیں؟ کیا حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم کی خلافتوں میں حضرت علی کی حق تلفی ہوئی تھی؟ (سوالات اور بھی ہیں، لیکن ان کو خوفِ فساد خلق سے ناگفتہ رہنے دیتے ہیں۔) ان سوالات کا جواب اگر آپ اثبات میں دیتے ہیں تو مبارک ہو، آپ شیعہ ہیں اور اگر نفی میں دیتے ہیں تو آپ سنی ہیں۔ اپنے اندر ایک بار پھر جھانک لیجیے، کیا فقہی معاملات میں اماموں کی تقلید ناجائز ہے؟ جو آدمی اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کے لیے کسی امام کی تقلید کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے؟ (یہاں بھی کچھ تلخ سوالات ہیں لیکن وہی فسادِ خلق کا خوف آڑے آ رہا ہے)۔ اگر ان سوالات کا جواب سر کی عمودی حرکت سے دے رہے ہیں تو لاکھ انکار کریں، آپ اہل حدیث ہیں۔ اور اگر افقی انداز میں سر ہلا رہے ہیں تو آپ (پاکستان کے تناظر میں) حنفی ہیں۔ پھرسے خود کو ٹٹولیں! کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم کل حاصل ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختارِ کل ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو آپ بریلوی ہیں اور نہیں میں ہے تو دیوبندی! پھر بھی اگر آپ کو ضد ہے کہ آپ، سنی شیعہ، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی کچھ نہیں بلکہ صرف مسلمان ہیں تو ان سوالات کا جواب ”ہاں“ اور ”نہیں“ کے علاوہ دیں۔ اور یقین جانیے اگر آپ کی فکر رسا کوئی درمیانی جنس کا جواب دریافت کر لیتی ہے تو آپ ”صرف مسلمان“ نام کے ایک اور فرقے کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، تاریخ میں جب بھی کوئی مسلکی شناخت کے خلاف تحریک چلائی گئی ہے اور اسے کامیابی ملی ہے تو اس کا آخری انجام ایک نئے مسلک کی صورت میں ہوا ہے۔ خود ہمارے دور میں جاوید احمد غامدی صاحب یہی آواز لے کر اٹھے تھے، لیکن دیکھیے، آج جتنا جمود غامدی صاحب کے کچھ متبعین میں پایا جاتا ہے، اتنا جمود کسی دور افتادہ گاوں میں بیٹھے ہوئے اس شخص کے اندر بھی نہیں ہوگا جس کا کل علم ”خلاصہ کیدانی“ تک محدود ہے۔

    اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف! میں اگر حنفی ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ میں نے ”دین کے اندر دین“ قائم کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب میں مسلمان نہیں رہا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سوچنے کے دو مختلف زاویوں میں، میں نے ایک زاویے کو منتخب کیا ہے۔ کوئی اگر شیعہ ہے تو کیا اس کا مطلب یوں لیا جائے کہ وہ خود کو مسلمان نہیں سمجھتا؟ یہ مسالک –غلط یا صحیح کی بحث سے ہٹ کر – مختلف فکری و قانونی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان شناختوں کی وجہ سے اسلام پر کوئی حرف آتا ہے۔ اسلام ان تمام مسالک سے وابستہ افراد کی پہلی شناخت ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اندر آنے والی فکری تقسیم کو اگر ریت میں سر دبا کر نظر انداز نہیں کرنا ہے تو اپنی وابستگی کا اظہار کرنا ضروری ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ کے نام پر خود کو ”معتدل اور روشن خیال“ مسلمان ظاہر کرنے والے یا تو پرلے درجے کے منافق ہوں گے یا پھر ایک نئے فرقے کی داغ بیل ڈال دیں گے۔

    مسئلہ کہاں ہے؟
    مسئلہ مسلکی وابستگی اور فکری شناخت میں نہیں ہے۔ مسئلہ عدم برداشت والی سوچ میں ہے۔ فکری تنوع ہر معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے لیکن یہ حسن تب تک ہوتا ہے جب تک دوسرےکے وجود کو برداشت، اس کی رائے کا احترام اور اس کے علم کا اعتراف کیا جائے۔ یہاں پر چلن یہ ہوا ہےکہ –چند مستثنیات کو چھوڑ کر– ہر انسان خود کو مکمل ٹھیک اور دوسرے کو مکمل غلط تسلیم کیے بیٹھا ہے۔ اس بیماری کا علاج بھی ہمیں دورِ قدیم سے امام شافعی نے تجویز کیا ہے کہ ”میری رائے درست ہے لیکن اس میں غلطی کا امکان ہے، آپ کی رائے خطا ہے لیکن اس میں درستی کا احتما ل ہے“۔ بس امام شافعی رحمہ اللہ کی اس سوچ کو اپنا کر شیعہ، سنی، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث بن کر رہنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ نام کے لا تعداد فرقے وجود میں آتے رہیں گے۔

  • یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    احمد علی جوہر آج ساڑھے گیارہ بجے دن میں مارکیٹ میں سودا سلف لینے کے لیے ایک دکان پر کھڑا تھا تو پی پی پی کے نغمے کی مخصوص دھن سنائی دی۔ آواز کی سمت نظر دوڑائی تو پیپلزپارٹی کی ایک ریلی آتی دکھائی دی۔ موٹر سائیکلوں، کاروں، سوزوکیوں اور ٹرکوں میں سوار ریلی کے شرکا کا میں نے جائزہ لیا۔

    یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ کراچی میں PPP کے جلسوں اور ریلیوں میں سندھی بھائی زیادہ شرکت کرتے ہیں جن کی اکثریت گوٹھوں کے رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ میری نظر ایک سوزوکی پر سوار کھڑے ایک باریش چہرے پر رک گئی۔ یہ کوئی معمولی باریش چہرہ، خط یا چھوٹی داڑھی والا face نہیں تھا۔ مکمل باریش یعنی داڑھی کو قینچی نہ لگانے والا سلفی چہرہ تھا۔ یہاں میرا مقصد سلفی یا داڑھی والوں پر تنقید نہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ چاہے بندہ سلفی ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو یا اہل تشیع، اس کے سامنے جب دین کے غلبے اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے، اور اس کے لیے صالح و دیانت دار قیادت کو ووٹ دینے کو کہا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا کیا کام سیاست میں۔ یہ کیا حکومت چلائیں گے؟ مجموعی طور پر عوام کی اکثریت کی یہی سوچ ہے چاہے مذہبی کیوں نہ ہوں۔ دیندار طبقہ پنج وقتہ نماز کا پابند ہے۔ اپنے مسلک کے مطابق دین پر عمل کرتا ہے مگر جب انتخابات کا معرکہ ہوتا ہے تو اس معاملے میں دین بھول جاتا ہے۔ووٹ ان کو دیتا ہے جو لادین، کرپٹ، بھتہ خور اور دہشت گرد ہیں۔ یہی سوچ اور رویہ ایسے فرد کو بھی صدارت اور گورنر کے منصب تک پہنچا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے جو کرپشن اور دہشت گردی کے حوالے سے مشہور ہوتا ہے۔

    ریلی کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب تک یہ سوچ اور رویے برقرار ہیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟

  • اہل السنۃ والجماعۃ کون؟ – مفتی منیب الرحمن

    اہل السنۃ والجماعۃ کون؟ – مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن ’’اَھلُ السُّنَّـۃ والجماعۃ کون؟‘‘ کے عنوان سے روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر یکم اکتوبر 2016ء کو میرا کالم چھپا۔ یہ کالم بعد ازاں دلیل پر بھی شائع ہوا. اس پر دلیل پر حافظ یوسف سراج صاحب کا بہ اندازِ استہزاء ردِعمل پڑھ کر حیرت ہوئی، یہ کسی صاحب علم کا انداز نہیں ہوتا، بہرحال یہ شِعار اُن کومبارک ہو، علامہ اقبال نے کہا ہے:
    اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے، لیکن
    جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا

    میں نے گروزنی کانفرنس کے بارے میں سنا تو اُس وقت تک اس پر کچھ نہیں لکھا، جب تک کہ مجھے ثقہ ذرائع سے اس کا متن دستیاب نہیں ہوا، میرا مزاج اندھیرے میں تیر چلانا نہیں ہے۔ یہ آرٹیکل میں نے کسی مسلکی جریدے میں نہیں لکھا، بلکہ ایک مؤقّر قومی روزنامے میں لکھا ہے اور اس کا مقصد اہلِ علم اور خاص طور پر اپنے ملک کے دینی طبقات کو حالاتِ حاضرہ کے بارے میں آگہی دینا تھا۔ میں نے نہایت دیانت داری سے یہ بھی لکھا کہ یقینا شام کے حالات کے تناظر میں اِسے روس اور ایران کی آشیرباد بھی حاصل ہوگی اور اہلِ تشیُّع کی ویب سائٹس نے اس کی خوب تشہیر بھی کی، لیکن چیچنیا کی اِس پیش رفت کا اصل مُحَرِّک اُن کے اپنے داخلی مسائل ہیں، کیونکہ وہاں عسکریت پسند یا خارجی تکفیری تحریکیں زیرِ زمین موجود ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا کہ اسے یہاں کے مسلکی خلافیات کا شاخسانہ قرار دیا جائے، بلکہ اس میں شیخ الازہر سمیت عالَمِ عرب کے نمائندے شامل تھے۔ حافظ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ چند سال پہلے الجامعۃ الازہر میں
    [pullquote]’’التوَسُّط بینَ الْغُلُوِّ وَالتَّطَرُّفْ، تحتَ فِکرِ امام ابی الحسن الاشعری‘‘[/pullquote]

    کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے، سو فسادی عناصر نے عالمی سطح پر امتِ مسلمہ کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ سعودی علماء نے اس کانفرنس کا نوٹس لیا اور انہیں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی پڑی، اگر یہ مسئلہ ایک مزاحیہ کالم کی مار ہوتا تو یقینا وہ آپ کی مدد لیتے اور مورچہ فتح کر لیتے، لیکن ناگواری کے باوجود بعض حقائق کا سامنا کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ میں نے اُن کا مؤقف بھی بیان کیا اور اُس پر ڈاکٹر عبداللطیف سعید فُودہ نے جو وضاحتی بیان جاری کیا، اُسے بھی بیان کر دیا ہے۔ عام قارئین کی آگہی کے لیے میں نے چند اصطلاحات کی وضاحت کی اور اُس میں، میں نے اپنی سوچ شامل نہیں کی۔ حافظ صاحب نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کسی کو’’اہلُ السنّہ والجماعہ‘‘ میں داخل یا خارج کرنے کے لیے میرے ایما پر یہ کانفرنس منعقد ہوئی ہو۔

    المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوچنے کا انداز محدود ہے اور ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ پتھر ہماری طرف ہی پھینکا گیا ہے۔ حضورِ والا! یہ مسئلہ عالَمی فورم پر اٹھایا گیا ہے اور اس کا تناظر بھی عالَمی ہے اور خاص طور پر شام اور خود چیچنیا کے حالات کے زیرِ اثر ہے۔ داعش تو بہت پہلے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں قائم ہوچکی تھی، لیکن کافی عرصے سے یہ زیرِ زمین چلی آ رہی تھی۔ جب اُس نے ایک خطے پر قبضہ کر کے اپنا اقتدار قائم کیا اور اُن کا فساد کھل کر دنیا کے سامنے آیا، تو ناگزیر طور پر سعودی عرب کے علماء کو انہیں خارجی اور تکفیری قرار دے کر ان سے برات کا اعلان کرنا پڑا، کیونکہ اب یہ بلا اُن کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس کی تپش انہیں قریب تر محسوس ہو رہی ہے۔ یہاں کے اہل حدیث علماء کی بھی خروج اور بغاوت پر کتابیں سامنے آچکی ہیں اور توحید کی اقسام (توحیدِ ربوبیت ،توحیدِ الوہیت اور توحید ِاسماء و صفات) پر توحیدِ حاکمیت کا اضافہ بھی سلفی مکتبِ فکر کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔

    میرا کالم پڑھ کر وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا یاسین ظفر نے بہ حیثیت مجموعی اس کی تحسین کی اور کہا کہ ہمارے حوالے سے یہ جملہ ڈال دیا ہوتا: ’’آج کل کے سلفی، تکفیری اور خارجی نظریات سے برملا برات کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ مسلکی خلافیات اور کلامی مسائل میں نے اختراع نہیں کیے، یہ پہلے سے چلے آرہے ہیں اور نہ ہی میں نے مذکورہ کالم میں براہِ راست انہیں اپنا موضوع بنایا ہے۔ میرا مقصد تو یہ تھا کہ ہمارے اہلِ علم کو عالَمی سطح پر ان حرکیات کے بارے میں آگہی حاصل ہو۔ البتہ مجھ سے یہ ریمارکس دینے کا’’جرم‘‘ ضرور سرزد ہوا ہے کہ سعودی عرب کے علماء کو امت کی مشکلات کے عالمی تناظر کا ادراک کرتے ہوئے توسُّع اختیار کرنا چاہیے اور امتِ مسلمہ کے تمام مکاتبِ فکر کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر مُثبت رابطے کے لیے کوئی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ یہ دورِ حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔

    (مفتی منیب الرحمن، چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان، صدر تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان، سیکرٹری جنرل اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان، مہتمم دارالعلوم نعیمیہ اہلسنت پاکستان)