Tag: را

  • اسلام آباد کی جگتیں…-رؤف کلاسرہ

    اسلام آباد کی جگتیں…-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra

    ہم بھی مذاق کرنے سے باز نہیں آتے۔
    میرے دوست کاشف عباسی نے پوچھ لیا کہ الطاف حسین کا ٹرائل ہو گا کیونکہ اب چوہدری نثار علی خان نے برطانوی حکومت کو تمام تر ثبوتوں کے ساتھ ریفرنس بھیج دیا ہے؟

    میں نے جواب دیا: کاشف! جو بندہ یہ کہتا ہو کہ میرے پاس اعتزاز احسن، خورشید شاہ کے کرپشن کے ثبوت ہیں‘ یا جو یہ کہتا ہو کہ بلاول بھٹو کو پہلے اپنے باپ سے پوچھنا چاہیے کہ اس کے پاس سرے محل، دبئی میں محل اور سوئس بینکوں میں چھ ارب روپے کے برابر بینک بیلنس کہاں سے آیا‘ وہ کیا کارروائی کر سکتا ہے؟ باقی تو چھوڑیں ہمارے دوست چوہدری نثار علی خان تو رحمن ملک تک کا ٹرائل نہیں کر سکتے جن کے خلاف ان کے پاس لوٹ مار کے درجنوں ثبوت موجود ہیں۔ وہ الطاف حسین کو پاکستان لا کر ان کا ٹرائل کیا خاک کریں گے؟

    یہی دیکھ لیں کہ رحمن ملک کے خلاف چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کرکے ان کی وزارت کے دنوں کے کئی پول کھولے۔ بلیو پاسپورٹس ہوں یا پھر سفارتی پاسپورٹس، لاکھوں کی تعداد میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے ہوں یا پھر سیف سٹی پروجیکٹ پر بدعنوانیاں‘ کئی باتیں سامنے آئیں۔ رحمن ملک نے سفاری اور بلیو پاسپورٹس ٹکے ٹوکری کر دیے تھے۔ برطانوی شہری بھی پاکستانی سرکاری پاسپورٹس لے کر دنیا بھر میں پھرتے رہے۔ کبھی پاکستانی سرکاری افسران کو دنیا بھر کے ستر سے زائد ممالک میں ویزے کے بغیر انٹری ملتی تھی۔ رحمن ملک کی فیاضیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ تعداد گھٹ کر انتیس رہ گئی ہے۔ سب کو پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان میں مال لگا کر بلیو پاسپورٹ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ صومالیہ کے سرکاری پاسپورٹ کی ساکھ بھی پاکستانی سے زیادہ ہی ہو گی۔

    چوہدری نثار نے دعویٰ کیا کہ جناب زمین آسمان الٹا دیے جائیں گے‘ بلیو پاسپورٹس کی بے حرمتی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں ملیں گی۔ قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں بھی بڑھکیں ماری گئیں۔ قائمہ کمیٹیوں میں بھی بلند بانگ نعرے سننے کو ملے۔ پھر راجپوت‘ چوہدری نثار کے دل میں رحم اتر آیا۔ اچھے انسان ہیں‘ کسی کا برا نہیں چاہتے۔ کسی کو جیل جاتے نہیں دیکھ سکتے۔ انہی چوہدری نثار نے‘ جنہوں نے رحمن ملک دور کی کرپشن بے نقاب کی تھی‘ اپنی وزارت کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کے ذریعے یہ انکوائری کرائی اور کیس داخل دفتر ہو گیا۔ جناب اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ رحمن ملک کی جان لینا تھوڑی مقصود تھا۔ انہیں تھوڑا سا جھٹکا دینا مقصود تھا‘ دے دیا۔

    اسی طرح رحمن ملک دور کا بڑا سکینڈل سیف سٹی پروجیکٹ بھی تھا۔ موصوف کو پتہ چلا کہ وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی یہ پروجیکٹ شروع کر رہی ہے۔ فوراً ایک سمری لے کر دوڑے دوڑے وزیر اعظم گیلانی کے پاس گئے کہ جناب ان کے ہوتے ہوئے یہ کام اور کون کر سکتا ہے؟ گیلانی کو بھی ایسے سمجھدار پارٹنر کی ضرورت تھی ۔ فوراً یہ پروجیکٹ وزارت آئی ٹی سے لے کر رحمن ملک کی وزارت کو شفٹ کر دیا گیا۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ جس پروجیکٹ کی لاگت انہوں نے بارہ ارب روپے لگائی وہ تو اصل میں سات ارب روپے کا ہے۔

    چینی کمپنی کو پروجیکٹ شروع ہونے سے پہلے ہی سات ارب روپے ادا کر دیے گئے‘ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ مقدمہ چلا۔ وہاں روزانہ نئے نئے انکشافات ہوتے رہے، لیکن کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ پلاننگ ڈویژن نے بھی لکھ کر دے دیا کہ منصوبے کی اصل لاگت سات ارب روپے بنتی ہے لیکن رحمن ملک نے بارہ ارب روپے میں ہی ڈیل فائنل کی۔ یہ سب دستاویزات میرے پاس موجود ہیں۔ عدالت کا فیصلہ موجود ہے۔ چار سال قبل نیب کو سپریم کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کارروائی ہو چکی۔ نیب کے دل میں بھی چوہدری نثار کی طرح رحم ابھرا۔ اب رحمن ملک سب کا منہ چڑاتے پھرتے ہیں۔

    کچھ اور بھی سن لیں۔ ابھی ایک سرکاری دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ رحمن ملک کے دور میں نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کے سیکرٹ فنڈز سے عیاشیوں کی ایک نئی داستان رقم کی گئی۔ رحمن ملک نے دو کروڑ روپے سیکرٹ فنڈ سے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو ادا کرائے۔ اسی سیکرٹ فنڈ سے رحمن ملک اور دیگر کے لیے لندن کے دوروں کے لیے دو کروڑ روپے کی ٹکٹیں خریدی گئیں۔ اسی سیکرٹ فنڈ سے راولپنڈی کے ایک جیولر سے زیوارت خرید کر کسی کو تحفے کے طور پر بھی دیے گئے۔

    اس سے پہلے جب شعیب سڈل ڈی جی آئی بی بنے تو ان پر انکشاف ہوا کہ چالیس کروڑ روپے سے زائد رقم ان سے پہلے ڈی جی آئی بی نے نکلوا لی ہے۔ سابق ڈی جی آئی بی سے پوچھا گیا تو جواب ملا کہ انہوں نے وہ چالیس کروڑ روپے وزیر داخلہ رحمن ملک کو بیگوں میں بھر کر دیے تھے۔ شعیب سڈل یہ ساری فائل لے کر اس وقت کے وزیر اعظم گیلانی صاحب کے پاس چلے گئے اور انہیں سب کچھ بتایا۔ گیلانی صاحب بھی حیران ہوئے کہ رحمن ملک نے اتنی بڑی واردات ڈال دی اور انہیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ گیلانی صاحب نے رحمن ملک کا نک نیم رحمن بابا رکھا ہوا تھا۔ گیلانی صاحب نے توجہ سے چالیس کروڑ روپے کے اس نقد ڈاکے کی کہانی سنی۔ ابھی شعیب سڈل وہیں بیٹھے تھے کہ چند وفاقی وزرا ان کے دفتر میں داخل ہوئے۔ گیلانی سمجھدار تھے۔ انہوں نے سوچا‘ بہتر ہے ابھی چند گواہ بنا لیے جائیں کہ ان کے ساتھی وزیر نے کتنا بڑا ہاتھ مارا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔ شعیب سڈل کا خیال تھا کہ گیلانی صاحب کو یہ سب کچھ وزرا کو نہیں بتانا چاہیے تھا۔ یہ خبر سن کر وہاں موجود سب وزرا بھی اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا کر بیٹھ گئے۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس دن کے بعد گیلانی اور رحمن بابا کی پکی دوستی ہو گئی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

    یہ بات کسی وزیر نے ایوان صدر میں صدر زرداری کو جا سنائی کہ کیسے چالیس کروڑ روپے کا ڈاکا مارا گیا ہے۔ زرداری صاحب کا منہ بھی کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ان کے علم میں بھی یہ بات نہیں تھی۔ زرداری صاحب نے اگر اپنے بچپن کے دوست ذوالفقار مرزا کو معاف نہیں کیا‘ اور اس سے شوگر مل لے کر چھوڑی تو آپ کا کیا خیال ہے کہ سیالکوٹ کے اس معزز شہری کو بخش دیا ہو گا؟

    رحمن ملک بڑے سمجھدار آدمی ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کی کرپشن اور سکینڈلز پر انکوائریوں سے بچنے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی لے لی اور اس کے سربراہ بن بیٹھے۔ وہ کمیٹی جس نے وزراتِ داخلہ کے سکینڈلز کی تحقیقات کرنا تھی‘ رحمن ملک کے ماضی کے ان سکینڈلز پر کارروائی کرنا تھی اس کا سربراہ خود رحمن ملک کو ہی بنا دیا گیا۔ الٹا اب رحمن ملک وزارتِ داخلہ کے افسران کو بلا کر کارروائی ڈالتے اور رعب جھاڑتے ہیں۔ کر لو جو کرنا ہے۔

    رحمن ملک اس حوالے سے بھی سمجھدار ہیں کہ انہوں نے اس کمیٹی کے اجلاس میں کبھی چوہدری نثار کے خلاف ایک لفظ بھی نہ بولا ہو گا۔ گزشتہ تین برسوں میں چوہدری نثار ایک دفعہ بھی رحمن ملک کی زیر صدارت اس کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ رحمن ملک نے بھی کبھی احتجاج نہیں کیا کہ باقی وزرا اپنی اپنی قائمہ کمیٹیوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی جوابدہی کی جاتی ہے‘ لیکن چوہدری نثار ایک دن بھی نہیں آئے۔ چوہدری نثار کو علم ہے کہ رحمن ملک کبھی گستاخی کی جرات نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس رحمن ملک کے کئی سکینڈلز کی فائلیں دراز میں رکھی ہیں۔ تین سال قبل جب چوہدری نثار علی اور اعتزاز احسن کے درمیان سینیٹ میں سخت لڑائی ہوئی اور پوری اپوزیشن واک آئوٹ کر گئی تھی کہ جب تک چوہدری نثار سینیٹ سے معافی نہیں مانگتے وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے اور اپوزیشن نے اپنے اجلاس پارلیمنٹ ہائوس کے لان میں شروع کر دیے تھے تو ایک دن جب سینیٹر سعید غنی نے چوہدری نثار علی خان پر تنقید کی کوشش کی تو رحمن ملک فورا دوڑے آئے اور بولے: ناں ناں‘ چوہدری نثار پر تنقید نہ کریں۔ بے چارے سعید غنی خاموش ہو گئے کیونکہ انہیں علم تھا کہ رحمن ملک کی جان چوہدری نثار کے پاس موجود پنجرے میں پھنسی ہوئی ہے۔

    اسی رحمن ملک کے خلاف مصطفیٰ کمال نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جب وہ وزیر داخلہ تھے تو دبئی میں ان کی موجودگی میں لندن سے آئے ہوئے ایک شخص نے ایم کیو ایم کی بھارتی خفیہ ایجنسی ”را‘‘ سے فنڈنگ پر بریفنگ دی گئی تھی۔ رحمن ملک کو پورا علم تھا کہ ایم کیو ایم را سے فنڈز لے رہی ہے۔ اس انکشاف پر چوہدری نثار نے رحمن ملک کا کیا بگاڑ لیا تھا کہ وہ اب چلے ہیں الطاف حسین کو لندن سے واپس لا کر ان پر غداری کا مقدمہ چلانے۔ وہ تو چوہدری اعتزاز احسن، خورشید شاہ، زرداری اور رحمن ملک کا منہ بند کرانے کے لیے ان کی کرپشن فائلیں اپنی درازوں میں رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہ چوہدری نثار کے پاس قوت ارادی ہے، نہ اختیار اور نہ ہی جرات۔

    میرے دوست‘ مذاق اور مخول کی بھی حد ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ حدیں بھی عبور ہو چکیں۔ اسلام آباد میں ہر نیا دن ایک نیا مخول، ایک نئی بڑھک، ایک نئی جُگت… ایک نیا سکینڈل اور ایک نیا مُک مُکا ہوتا ہے۔
    2

  • بے سبب نہیں-ہارون الرشید

    بے سبب نہیں-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    بے سبب نہیں کہ فوج مقبول ہے۔ ووٹ لینے کے باوجود سیاست دان اتنے ہرگز نہیں۔ بے سبب نہیں کہ پاکستان کا ہر دشمن پاکستانی فوج کا بھی دشمن ہے۔

    پی آئی اے کی بنکاک جانے والی پرواز میں خرابی پیدا ہوئی تو قریب ترین ہوائی اڈے کولکتہ میں اترنے کی اجازت مانگی گئی‘مگر انکار کر دیا گیا ۔ واپس کراچی آ کر ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی۔ یہ ہے بھارت کا اصل روّیہ اور ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔
    دانشوروں نے‘ جو ضمیر کی کسی ادنیٰ خلش کے بغیر‘ سوویت یونین کی گود سے اتر کر امریکہ کی گود میں بیٹھ گئے‘ دندان آز تیزکر لیے ہیں۔ پاکستان کو وہ کوس رہے ہیں۔ حیلے بہانے سے بھارت کی حمایت کر تے ہیں۔ اس ماحول میں علامہ طاہرالقادری نے سوال اٹھایا ہے کہ بھارت کو میاں محمد نواز شریف سے ہمدردی کیوں ہے؟ جب بھی وزیر اعظم مشکل میں ہوتے ہیں‘ پاکستان میں بھارتی تخریب کاری بڑھ جاتی ہے اور سرحدوں پر آگ برسنے لگتی ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟ اس پہلو کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ موصوف پرلے درجے کے مبالغہ پسند واقع ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ اتنے ہی مصلحت پسند بھی۔ ایک نیم سرکاری میڈیا گروپ نے یہ اطلاع دی ہے کہ چند سال قبل علامہ صاحب بھارت گئے تو گجرات بھی تشریف لے گئے۔ انہیں سرکاری مہمان قرار دیا گیا۔ قاتل مودی پر برائے نام تنقید سے بھی انہوں نے گریز کیا۔

    زخم کھل اٹھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد بھارتی عزائم پر بات کرنے سے گریز کیوں کرتی ہے؟ ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو جو شہید کر چکا ۔ پوری وادی کو جس نے فوجی کیمپ میں تبدیل کردیا ہے۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے‘ جب وہ نریندر مودی کے ساتھ‘ پاکستانی وزیر اعظم کی تصاویر دیکھتا ہے۔ کسی کو یہ سب کی سب جمع کرنی چاہئیں اور تمام بڑے شہروں میں ان کی نمائش کا اہتمام کرنا چاہیے۔ شاداں و فرحاں۔ اس قدر آسودہ کہ گویا مدتوں بعد‘ بچھڑے ہوئے دوست سے ملا ہو۔ ؎

    اے داغؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
    بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

    اس کے ساتھ ہی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے ساتھ ان کی تصاویر‘ جن میں ہمیشہ وہ ناراض‘ مضطرب اور بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد‘ راحیل شریف پہلے آدمی ہیں‘ بھارتی عزائم اور سازشوں پر جنہوں نے کھل کر بات کی۔
    وزیر اعظم نواز شریف واحد لیڈر نہیں‘ جن کا یہ طرزعمل ہے۔ جناب الطاف حسین نے تو کمال ہی کر دیا تھا ۔ دہلی میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی تخلیق‘ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی‘ جی ہاں! تاریخ کی سب سے بڑی غلطی۔ پیغمبروں کی مزاحمت سے بڑھ کر‘ شرک سے بڑھ کر‘ انبیاء کرام کو قتل کرنے سے بڑھ کر‘ قرآن کریم جن کا ذکر کرتا ہے۔ مدتوں ان کے اس بیان پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا رہا تاآنکہ عمران خان کے خلاف ایم کیو ایم نے کردار کشی کی تحریک برپا کی۔ برسوں بعد ٹی وی مذاکروں میں‘ تب حوالہ دیا جانے لگا جب رینجرز نے ایم کیو ایم سمیت قتل و غارت میں ملوث گروہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ جب ”را‘‘ کے ساتھ اس کے تعلقات طشت از بام ہو گئے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے رہنما اب بھی ایم کیو ایم کے خلاف چارج شیٹ سے گریز کرتے ہیں‘ دل جوئی کی کوشش کرتے ہیں‘ جیسے پرویز رشید کا دورہ کراچی۔

    ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ فساد سے بچنے کی کوشش ہے کہ ایم کیو ایم والے ذاتی حملوں پر اتر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم سے الگ ہو کر نئی پارٹی تشکیل دینے والے مصطفی کمال اور جماعت اسلامی کے سوا کوئی نہیں جو ڈٹ کر اس موضوع پر بات کرے۔ پاکستانی شہریوں کو بہیمانہ طور پر قتل کرنے والے ملک کے خلاف وہ بات بھی نہیں کر سکتے تو ان لیڈروں کی ہمیں ضرورت کیا ہے؟

    پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم کا وہ بیان دل پر لکھا ہے‘ خنجر سے گویا کسی نے کھود دیا ہو کہ بھارتیوں کو پاکستان سے دہشت گردی کی شکایت ہے۔ جی ہاں! پاکستان کو نہیں‘ جسے بھارت نے فوجی کارروائی سے دولخت کر ڈالا۔ بلوچستان کو الگ کرنے کا جو برملا اعلان کرتا ہے۔ مساجد‘ امام بارگاہوں‘ مارکیٹوں اور مزارات پر دھماکے کرنے والے مذہبی انتہا پسندوں کی مدد کرتا ہے‘ جن کے فکری اجداد نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ 1947ء سے افغانستان کی ایسی ہی جماعتوں کا مددگار ہے۔ اس بدقسمت ملک میں کرایے پر ملنے والے گروہ‘ جو اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ بھارت کے برہمن سے تاریخی طور پر اگران کا رشتہ ہے تو دشمنی کا۔ افغانستان کے ایک پہاڑی سلسلے کا نام کوہ ہندوکش ہے‘ جو غالباً محمود غزنوی کے دور سے چلا آتا ہے‘ جب لاہور سے لشکر روانہ ہوتے‘ باغات اور فصلیں اجاڑتے غزنی کے نواح تک جا پہنچتے حتیٰ کہ سبکتگین کے بعد‘ اس کے بیٹے محمود نے سلطنت سنبھالی۔ پے در پے سترہ حملے کر کے‘ اس نے بھارت کی کمر توڑ دی اور ایک ہزار برس کے لیے‘ اس کے دورِ غلامی کا آغاز ہوا۔ دراصل محمود کے دور ہی میں‘ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی‘ وگرنہ سرزمین عرب سے آنے والے‘ محمود غزنوی سے ڈیڑھ سو برس پہلے واپس چلے گئے تھے۔

    پاکستان قائم ہی اس لیے ہوا کہ کانگرس نے مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ 1940ء تک قائد اعظمؒ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔ بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی طرزِ فکر کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ جیسا کہ سرکاری طور پر جاری کی گئی سچّر رپورٹ کہتی ہے‘ ان کا حال شودروں سے بدتر ہے۔ کاروباری کبھی وہ تھے ہی نہیں۔ ہمیشہ سے کاشتکار اور سپاہی تھے۔ کاروبار کے راستے میں اب تو ہزار طرح کی رکاوٹیں ہیں۔ سب سے بڑی یہ کہ ہندوئوں میں بہت کم ہیں‘ جو کسی مسلمان سے خریداری کرنا پسند کریں۔ سرکاری اداروں میں‘ خاص طور پر انہیں فوج میں بھرتی کرنے سے حتیٰ الامکان گریز کیا جاتا ہے۔ نمائش کے طور پر چند ابن الوقت اور مفاد پرست مسلمان لیڈروں کو پارٹی میں گوارا کیا جاتا ہے۔ بیس فیصد آبادی کے ساتھ فوج اور سول سروس میں ان کی نمائندگی دو فیصد سے بھی کم ہے۔ کیا ہندو کئی گنا زیادہ ذہین ہوتے ہیں؟

    کئی بار بھارت کا مطالعاتی دورہ کرنے والے ایک دوست کل شام ملنے آئے۔ ایک عجیب سوال انہوں نے کیا : اگر پاکستان کشمیر سے دستبردار ہو جائے تو کیا پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے؟ ظاہر ہے کہ بالکل نہیں۔ کشمیر پہ جب خاموشی اختیار کی گئی‘ تب بھی عملاً پاکستان سے ان کا روّیہ بہتر نہ ہوا۔ پاکستان اگر بھارت کی بالادستی قبول کر لے تو کیا ہمیں معاف کر دیا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ قطعاً نہیں۔ بنگلہ دیشی مسلمانوں کے ساتھ کیا بھارت کا سلوک‘ پاکستانیوں سے بہتر ہے؟ بہت سے بنگالی پاکستان میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہیں گوارا کیا جاتاہے۔ جو بنگالی بھارت کا رُخ کرتے ہیں‘ انہیں شدید نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان کے تمام مسلمان خدانخواستہ ہندو مت قبول کر لیں تو کیا انہیں بخش دیا جائے گا؟ جی نہیں‘ ہرگز نہیں۔ ان کا دل تب ٹھنڈا ہو گا جب وہ ہمیں اپنے شودروں سے بھی بدتر حال کو پہنچا دیں۔ بھارتی برہمن کا مزاج یہی ہے‘ تاریخ اور روایات بھی ۔ شودر بھی کسی قدر معزز تھے‘ تاآنکہ وسطی ایشیا سے آنے والوں نے ان کی سرزمین پر قبضہ جما لیا۔ پاکستانی فوج اس بات کو سمجھتی ہے۔ انہیں واسطہ پڑتا ہے‘ انہیں ایک مکمل تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ قائد اعظمؒ اور بھٹو کے بعد کوئی سیاست دان نہیں آیا‘ جو اس تاریخی سچائی کا پورا ادراک رکھتا ہو‘ ان میں سے کوئی گہری جڑیں نہیں بنا سکا کہ اجتماعی لاشعور سے مکمل ہم آہنگی کے بغیر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

    بے سبب نہیں کہ فوج مقبول ہے۔ ووٹ لینے کے باوجود سیاست دان ہرگز نہیں۔ بے سبب نہیں کہ پاکستان کا ہر دشمن‘ پاکستانی فوج کا بھی دشمن ہے۔

    پس تحریر : اطلاعات یہ ہیں کہ اے آر وائی کے دفتر پر حملہ‘ کراچی میں بدامنی پھیلانے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے‘ جو کشمیر پر زچ ہونے والے بھارت میں بنایا گیا۔ قابلِ اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں وسیع پیمانے پر فساد کا مقصد‘ بھارت کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ مبینہ طور پر ندیم نصرت کے علاوہ حسین حقانی کو بھی اس میں ایک کردار سونپا گیا ہے۔

  • مظلوم کشمیریوں کا پاکستان پر احسان-حامد میر

    مظلوم کشمیریوں کا پاکستان پر احسان-حامد میر

    hamid_mir1

    مارک پیری ایک امریکی رائٹر ہے جو دفاعی امور اور علاقائی تنازعات پر بہت گہری نظر رکھتا ہے۔ مارک پیری نے جنوری 2012میں امریکہ کے معروف فارن پالیسی میگزین میں لکھا کہ اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد کی طرف سے پاکستان کے راستے ایرانی بلوچستان میں مداخلت کی جارہی ہے۔مارک پیری نے امریکی سی آئی اے کی کچھ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موساد کے ایجنٹ امریکی پاسپورٹ ا ستعمال کرتے ہیں اور امریکی سی آئی اے کے نمائندے بن کر بلوچ نوجوانوں کو عسکریت کی طرف راغب کرتے ہیں اور جو نوجوان راضی ہوجائیں انہیں جند اللہ میں بھرتی کرلیا جاتا ہے۔ یہ عسکری تنظیم ایرانی بلوچستان میں آزادی کی تحریک چلارہی ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ایران نے2010میں بڑے ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا۔ ریگی دبئی سے کرغزستان جارہا تھا۔ جب امارت ائیر لائنز کا ہوائی جہاز ایرانی حدود سے گزر رہا تھا تو ایرانی فضائیہ نے اس جہاز کو زبردستی بندر عباس ائیر پورٹ پر اتارا اور ریگی کو گرفتار کرلیا جو افغان پاسپورٹ پر سفر کررہا تھا۔

    ریگی نے ابتدائی تعلیم کراچی کے ایک مدرسے میں حاصل کی لیکن اسے شہرت 2007میں ملی جب وائس آف امریکہ کی فارسی سروس نے اس کا انٹرویو نشر کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ عبدالمالک ریگی ایک ڈاکٹر ہے جو ایران میں بلوچوں کے حقوق کے لئے مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔ مارک پیری کو یقین ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی طرف سے عبدالمالک ریگی جیسے نوجوانوں کو صرف پاکستان اور افغانستان سے نہیں بلکہ مشرقی وسطیٰ اور مغربی ممالک سے بھی بھرتی کیا جاتا ہے اور انہیں دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

    فارن پالیسی میگزین میں مارک پیری کے مضمون کی اشاعت پر اسرائیلی حکومت بہت سیخ پا ہوئی کیونکہ اس سے قبل امریکی میڈیا میں یہ دعوے کئے گئے تھے کہ امریکی سی آئی اے ایرانی بلوچستان میں جنداللہ کی مدد کررہی ہے۔ اے بی سی نیوز نے اپریل2007اور سیمورہرش نے نیویارکر میگزین میں جولائی2007میں واضح طور پر دعویٰ کیا کہ سی آئی اے کی طرف سے جند اللہ کو مدد فراہم کی جارہی ہے۔ مارک پیری نے جنداللہ کا تعلق سی آئی اے کی بجائے موساد سے جوڑ دیاا ور کچھ عرصے کے بعد یہ دعویٰ بھی کردیا کہ اسرائیل نے آذربائیجان میں ایرانی سرحد کے پاس خاموشی سے کچھ فوجی اڈے حاصل کرلئے ہیں۔ مارک پیری نے موساد کے ایجنٹوں کی طرف سے امریکی پاسپورٹوں کے استعمال کے بارے میں تحقیق 2010میں شروع کی تھی جب برطانوی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ موساد کے ایجنٹ برطانوی پاسپورٹ استعمال کرکے دبئی گئے جہاں19جنوری2010کو ایک ہوٹل میں حماس کے ایک رہنما کو قتل کردیا گیا۔

    اس واقعہ کے کچھ ہفتوں کے بعد23فروری2010کو عبدالمالک ریگی دبئی سے کرغزستان روانہ ہوا تو ایران کو کیسے پتہ چل گیا کہ امارت ائیر لائنز کی پرواز میں جنداللہ کا کمانڈر انچیف افغان پاسپورٹ پر سفر کررہا ہے؟ کیا یہ کسی طاقتور خفیہ ادارے کی طرف سے موساد کو پیغام تھا کہ ہمارا نام استعمال کرنا بند کردو ورنہ ہم تمہارا بھانڈا پھوڑ دیں گے؟ عبدالمالک ریگی کی گرفتاری اور مارک پیری کے مضمون سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اکثر اوقات طاقتور خفیہ ادارے سب جانتے ہیں کہ کب اور کون مطلوب شخص کہاں سے کون سے ملک کے پاسپورٹ پر کدھر کو سفر کررہا ہے لیکن یہ خفیہ ادارے اپنی اپنی مصلحتوں کے تحت خاموش رہتے ہیں۔ مطلوب افراد کی شناخت کو اسی وقت بے نقاب کیا جاتا ہے جب کسی کو کوئی پیغام دینا مقصود ہو۔

    بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان کو ایک پیغام دینا تھا۔ نریندر مودی یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اگر پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی تحریک آزادی کی حمایت بند نہ کی تو بھارت بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کرے گا۔ انہوں نے غلطی یہ کی کہ مغربی ممالک میں موجود کچھ بلوچ علیحدگی پسندوں سے تقاضا کیا کہ وہ مودی کے بیان کی حمایت کے ساتھ ساتھ کشمیر میں تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیں۔ براہمداغ بگٹی اور دو خواتین نے مودی کے حکم پر من و عن عملدرآمد کیا لیکن تین بلوچ رہنمائوں نے مودی کے حق میں بیان دینے سے انکار کردیا۔ انکار کرنے والوں کا مؤقف تھا کہ ہمیں مودی کا شکریہ ادا کرنے میں کوئی تامل نہیں لیکن ہم کشمیریوں کی تحریک آزادی کی مذمت کرکے خود کو بھارتی خفیہ اداروں کا زرخرید غلام کیوں ثابت کریں؟ کیا پاکستان سے آزادی مانگنے کا مطلب بھارت کی غلامی ہے؟ مودی کے بیان کی کچھ بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے حمایت اور کچھ کی طرف سے اس بیان پر خاموشی انتہائی قابل غور ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کا ایک گروپ مودی کو ناقابل اعتبار سمجھتا ہے، کیونکہ مودی بیک وقت ایران، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ دوستی کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ یہ گروپ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کو متحد کرکے نئی ریاست بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔

    میری ذاتی معلومات کے مطابق نریندرمودی کے 15اگست 2016کے بیان نے ایران کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں کھلبلی مچادی ہے۔ امریکی اسکالر کرسٹین فیئر نے مارچ2009میں فارن پالیسی میگزین میں لکھا تھا کہ ایرانی بلوچستان کے شہر زاہدان میں بھارتی قونصلیٹ پاکستانی بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو پیسہ بھیج رہا ہے لیکن پاکستان کے پاس بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ تھا۔ پاکستانی اداروں نے بلوچستان سے ایک بھارتی جاسوس کلبوشن یادیو کی گرفتاری کو بہت بڑا بریک تھرو قرار دیا لیکن اس گرفتاری کے باوجود بلوچستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک نہیں توڑا جاسکا۔ 8اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے ایک بم دھماکے نے پاکستانی اداروں کے بڑے بڑے دعوئوں اور کارکردگی کے متعلق بہت سے سوالات پیدا کردئیے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے اس بم دھماکے کا ذمہ دار’’را‘‘ کو قرار دیا جبکہ داعش اور طالبان کے ایک گروپ نے بھی اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ متضاد دعوئوں نے بہت کنفیوژن پیدا کررکھی تھی لیکن نریندر مودی کے بیان نے بلوچستان میں آئندہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو’’را‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ اس بیان کے بعد ایران میں بھی یہ سوچا جارہا ہے کہ مودی ایران کا دوست ہے یا دشمن؟ کہیں بھارتی اور اسرائیلی خفیہ ادارے مل کر پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان میں کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہے ؟ کیا مودی نہیں جانتے کہ جند اللہ نے چابہار میں کئی حملے کئے ہیں اور یہ وہی علاقہ ہے جہاں بھارت کی طرف سے ایک بندرگاہ تعمیر کی جارہی ہے؟ کہیں بندر گاہ تعمیر کرنے کی آڑ میں تخریب کاری کے منصوبے تو نہیں بن رہے؟

    نریندر مودی کا 15اگست کا بیان ان کی زندگی کی بڑی سیاسی غلطیوں میں سے ایک شمار کیا جائے گا لیکن اہل پاکستان کو یہ قطعاً نہیں سمجھنا چاہئے کہ مودی کے اعتراف جرم کے بعد بلوچستان میں سب مسائل ختم ہوجائیں گے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ عوام کی اکثریت علیحدگی پسندوں کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ پاکستان اور ایران کو توڑ کر ایک نیا ملک بنانا بہت مشکل ہے لیکن بلوچوں کا احساس محرومی ایک حقیقت ہے جس سے ا نکار پاکستان سے محبت نہیں دشمنی ہے۔ جب تک یہ احساس محرومی ختم نہیں ہوگا تو پاکستان کے دشمنوں کو بلوچستان میں سازشوں کے جال بچھانے کے لئے مقامی افراد دستیاب رہیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کو15اگست کا بیان دینے پر کس نے مجبور کیا؟ کیا یہ پاکستانی وزیر اعظم کے کسی بیان کا ردعمل تھا؟ بالکل نہیں۔ مودی کو یہ بیان دینے پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طویل ترین ہڑتال نے مجبور کیا اور اسی ہڑتال کے باعث مودی اور براہمداغ بگٹی کا تعلق بے نقاب ہوا۔ کیا پاکستانی عوام اس مودی کو سارک کانفرنس کے موقع پر پاکستان آکر ایک اور تقریر کرنے کی اجازت دیں گے؟

  • ’’اعترافِ جرم‘‘-مجیب الرحمن شامی

    ’’اعترافِ جرم‘‘-مجیب الرحمن شامی

    m-bathak.com-1421245529mujeeb-ur-rehmaan-shamiپاکستان کے مقتدر حلقوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس اتفاق رائے میں بعض پاکستانی حلقے رخنے ڈال رہے تھے، اور طرح طرح کے سوالات اُٹھا کر اڑنگا لگا رہے تھے، اس کا حصول مودی صاحب کے چند الفاظ کی وجہ سے آسان ہو گیا۔ اب پاکستان میں کسی سیاست دان یا تجزیہ کار کو ہمت نہیں ہو پا رہی کہ وہ بلوچستان میں ”را‘‘ کی دخل اندازی کے الزام کو قبول کرنے سے انکار کرے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اُلجھ کر اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش میں مبتلا ہو۔

    کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد، ہسپتال میں اکٹھے ہونے والے وکلا کو جس طرح خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا، اور اِس صوبے کو پچاس سے زائد ممتاز قانون دانوں سے محروم کر دیا گیا، وہ کوئٹہ ہی نہیں پورے پاکستان کی تاریخ کا ایک بدترین سانحہ تھا (اور ہے)… حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اِس اجتماعی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے کہ جب ایک کمیونٹی کے سربراہ کو نشانہ بنایا جائے گا، تو اس کے ارکان خبر سنتے ہی ہسپتال کی طرف بھاگیں گے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر ان کا شکار کرنا ممکن ہو جائے گا۔ اِس سے پہلے کئی وارداتیں اِس طرح کی جا چکی تھیں، اور حملہ آور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

    کوئٹہ خود کش حملے نے جہاں وکلا کی ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، وہاں کم و بیش اتنی ہی تعداد میں انہیں زخمی بھی کر دیا۔ ان میں سے بہت سے اب بھی کراچی کے آغا خان ہسپتال میں زیر علاج ہیں… اس حملے کے فوراً بعد بلوچستان کے دبنگ وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اس کی ذمہ داری ”را‘‘ پر ڈال دی۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور حکومتی ترجمان انوارالحق کاکڑ نے اس موقف کے حق میں دلائل کے ڈھیر لگا دیے۔ ان کا کہنا تھا (اور ہے) کہ وارداتیا کوئی بھی ہو، اور اس کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرے، اس کے پیچھے ”را‘‘ کی منصوبہ سازی ہے کہ وہ افغان انٹیلی جنس کی معاونت کے ساتھ بلوچستان کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اسے سی پیک کی تعمیر میں رخنہ ڈالنے کی کوشش بھی قرار دیا،… اس پر بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان محمود اچکزئی نے اِس طرح اظہارِ خیال کیا، جس سے ذمہ داری قومی اداروں کی طرف منتقل ہو جاتی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”را‘‘ کا نام لے کر ہمارے ادارے اور ایجنسیاں اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں کر سکتے۔ کئی اور لوگوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی کہ ان کے خیال میں بھی ”را‘‘ کی کامیابی ہمارے اداروں کی ”ناکامی‘‘ تھی۔

    ہمیں13 اور 14اگست بلوچستان میں گزارنے اور مختلف تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی خدمت میں حاضر ہو کر شہدا کی بلندی درجات کے لیے دُعا کی۔ اپنے جوان بیٹے دائود اور کئی عزیزوں سے محروم ہو جانے والے ڈاکٹر عبدالمالک کاسی سے تعزیت کے لئے حاضر ہوئے۔ وکلا، میڈیا، سول سوسائٹی کے ارکان، فوجی حکام اور سیاسی قائدین سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ کوئٹہ حادثے کا صدمہ تو ہر شخص کو تھا، لیکن اوسان کسی کے بھی خطا نہیں تھے۔ ضعیف العمر ڈاکٹر عبدالمالک کاسی تک دہشت گردوں سے لڑنے اور انہیں شکست دینے کے لیے پُرعزم تھے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ یہ ہمارے قبیلے، ہمارے شہر یا ہمارے صوبے پر نہیں، پاکستان پر حملہ ہے، اور پاکستان کے دشمنوں کو شکست دے کر دم لیں گے۔ ہسپتال میں موجود زخمی بھی اپنے سے زیادہ، پاکستان کے لیے فکرمند تھے۔ اپنے مُلک کی سلامتی اُن کی اولین ترجیح تھی۔

    وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری اور سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض آزادی کی تقریبات میں شانہ بشانہ تھے، اور ایک دوسرے کی قوت بنے ہوئے تھے۔ الفاظ کا چنائو اپنا اپنا تھا، لیکن جذبہ اور لہجہ یکساں تھا… ہر جگہ پُرجوش تالیاں اُن کے حصے میں تھیں۔ زیارت میں قائد اعظم ریذیڈنسی کے احاطے میں ہونے والی پُرشکوہ تقریب میں بھی مقررین اور سامعین ایک ہی طرح سوچتے معلوم ہو رہے تھے… جنرل عامر ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک جذبہ ہے اور جذبے کو زوال آ سکتا ہے، نہ یہ ختم ہو سکتا ہے۔ ایک سپاہی کے طور پر وہ پاکستان اور اس کے لوگوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم تھے۔ وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے، بیرون مُلک بیٹھ کر تاریں ہلانے والوںکو اُن کی للکار تھی کہ ہمت ہے تو واپس آئو، اور انتخاب لڑ کر دکھائو۔ اگر ضمانت ضبط نہ ہوئی تو سیاست چھوڑ دوں گا۔

    وہ وزیر اعظم مودی کو بھی چیلنج دے رہے تھے کہ تم بلوچستان کا نام کشمیر کے ساتھ لیتے ہو، دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلوچستان میں لوگوں کے منتخب نمائندے حکومت کر رہے ہیں۔ پانچ سو سال سے اِس زمین کے وارث ہم ہیں اور ہم کسی کو اِس طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔ بلوچستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو اِس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ بھارت ان کی سرزمین کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ یہاں سے پکڑے جانے والے بھارتی نیوی کے ایک افسر… کلبھوشن یادیو… کا نام لے کر وہ سوال کرتے تھے کہ اور کیا ثبوت چاہیے؟ ثبوت مانگنے والوں کی خدمت میں مودی صاحب کا براہِ راست اعترافِ جرم تو پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 15 اگست کو مودی صاحب نے پوری دُنیا کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ ان کی اپنی آواز پورے جوش و خروش سے بلند ہوئی: ”مَیں لال قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ چند روز میں بلوچستان، گلگت اور پاکستانی ”مقبوضہ کشمیر‘‘ کے لوگوں نے تشکر اور (میرے بارے میں) بڑی نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے۔ ایسے لوگ جو یہاں سے بہت دور رہ رہے ہیں۔ جن سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی، جن کو مَیں نے کبھی دیکھا تک نہیں، انہوں نے ہندوستان کے وزیر اعظم کی قدر افزائی کی ہے۔ یہ سب ہم وطنوں کی انڈیا کے ایک سو پچیس کروڑ عوام کی قدر افزائی ہے‘‘۔ اِن الفاظ نے دور و نزدیک یہی پیغام بھیجا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کے سنجیدہ میڈیائی اور سیاسی حلقے بھی اِس پر سٹپٹا رہے ہیں، اور پاکستان میں اپنے اداروں کو بے اعتبار ثابت کرنے کی خواہش رکھنے والے بھی بوکھلا اُٹھے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے جو کام کر دکھایا ہے، اس کی انہیں داد ملنی چاہیے۔ پاکستانی ریاست، اس کے ادارے، اور اس کے عوام اِس اعترافِ جرم پر اُن کے شکر گزار ہیں ؎

    نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
    فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا

     

  • فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    بادشاہ خان فاٹا میں ریاستی رٹ کی بحالی تقریبا مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دوران غیر ملکی ریڈیو چینلز اور بیرونی امداد پر چلنے والی این جی اوز کو یہاں پروپیگنڈہ کرنے میں آزادی حاصل رہی، یہ غیر سرکاری تنظیمیں بیرونی ایجنڈے کے فروغ کے لیے سرگرم رہیں، کسی کو کینیڈا سے ڈیل کیا جاتا رہا تو کوئی جرمنی سے، یورپی اداروں نے اس دوران جاسوسی بھی کی جس کی ایک رپورٹ خود برطانوی نشریاتی ادارے نے چند روز قبل جاری کی ہے. محرومی کا شکار قبائلی جوان براہ راست ٹارگٹ تھے اور ہیں، مصنوعی چکاچوند اور چمک کے ذریعے ان کی برین واشنگ کی جاتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے. فاٹا کے اکثر علاقے الیکٹرونک میڈیا کی سہولت سے محروم ہیں، آج بھی اخبارات اور ریڈیو معلومات اور خبروں کا بنیادی ذریعہ ہیں. ان علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت آج بھی ہے، اسی وجہ سے مغربی میڈیا اور بیرونی ممالک کے ریڈیو چینلز نے فاٹا میں اس پر فوکس کیا ہوا ہے. انتہائی فعال ان چینلز کی نشریات پورے دن جاری رہتی ہیں۔ ان پروگرامات میں اکثر کا ٹارگٹ آڈینس قبائلی نوجوان ہیں، غیر محسوس طریقے سے بےحیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے. جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے، یہ ریڈیو جاگ اٹھتے ہیں اور گانے بجانے اور گفتگو کے نام پر قبائلی معاشرے میں رائج جوائنٹ فیملی سٹسم پر ضرب لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

    سال میں دو تین بار اپنے آبائی علاقے کرم ایجنسی جانا ہوتا ہے ، اس بار بھی جانا ہوا. یہاں بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ یہی غیر ملکی ریڈیو چینلز ہیں، ہمیں بھی ریڈیو کے چینلز کے ذریعے خبریں سننا پڑیں. ایک ہفتے کے دوران یہ محسوس کیا کہ ایک منظم سازش کے تحت قبائل میں پروپیگنڈے اور ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے. ہر چینل کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کو بیکار اور لغویات کی جانب لایا جائے اور مزید احساس کمتری میں مبتلا کیا جائے، محرومیوں کو ہوا دی جائے. کیا پیمرا اس سنگین سازش سے بےخبر ہے؟ ان کی نشریات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے؟ پاکستانی ریڈیو چینلز بھی ان سے متاثر ہیں اور قبائلی نوجوانوں میں آگاہی وشعور کے بجائے بیرونی چینلز کی پیروی کرتے ہوئے ٖفضول پروگرامات نشر کرنے میں مصروف ہیں. ریڈیو فاٹا میں اہم تبدیلی لاسکتا ہے اور اس کے ذریعے تعلیم اور رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے. کئی نوجوان ہر وقت ریڈیو لیے نظر آئے، پوچھنے پر بتایا کہ اب عادت بن گئی ہے. ایک اور عجیب بات سامنے آئی، جمعہ کے دن ایک بجے سے دو بجے تک خصوصی فرمائشی پروگرامات ان چینلز سے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوانوں کے پسندیدہ گانے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوان اپنا نام ریڈیو پر سننے کے لیے انتظار کرتے ہیں، اس طرح ہزاروں نوجوانوں کی جمعہ کی نماز رہ جاتی ہے.

    اس ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چند برس پہلے قبائلی علاقوں میں سولر توانائی سے چلنے والے لاکھوں ریڈیو سیٹ تقسیم کیے گئے، وہ بھی بالکل مفت، تاکہ شمسی توانائی والے یہ سیٹ آسانی سے ان کے ایجنڈے کے فروغ میں معاون ثابت ہوں. اس کے بعد آگاہی و امداد کے نام پر غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم کی گئیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ان کی آڑ میں کئی غیر ملکی ادارے پختونستان کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے سرگرم ہیں، نوجوان خصوصی نشانے پر ہیں، ورکشاپس، سیمینارز، بڑی تنخواہیں، اعلی سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں. آزادی رائے کے نام پر انھیں گمراہ کیا جارہا ہے، نا پختہ ذہن کے نوجوان بیرونی ایجنڈے کو سمجھنے سے قاصر ہیں. انڈیا سمیت کئی ممالک اس سازش میں ملوث ہیں. اس وقت افغانستان کے صوبہ جلال آباد میں گریٹر پشتونستان منصوبے پر نہایت ہی سرگرمی کے ساتھ کام ہورہا ہے. فاٹا و خیبر پختونخوا سے تقریباً 2500 پڑھے لکھے بیروزگار پختون نوجوان جلال آباد میں مقیم ہیں، جبکہ کئی پڑے لکھے نوجوان کابل میں میڈیا سے منسلک ہوچکے ہیں اور ان کے اندر پاکستان کے خلاف اتنا زہر بھرا جارہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا. اس منصوبے کے مرکزی کرداروں میں ایک بڑی لسانی جماعت کے چند رہنما اور کچھ دوسرے رہنما اور این جی اوز کے کارندے شامل ہیں. خاموشی سے اس سازش پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے، را فنڈز مہیا کر رہی ہے جبکہ افرادی قوت افغان انٹیلیجنس این ڈی ایس فراہم کرتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ ریاستی ادارے اس سنگین سازش کو کیوں محسوس نہیں کر رہے؟ مغربی ریڈیو چینلز کے ذریعے کیا جانے والا پروپیگنڈہ ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے. را اور این ڈی ایس کی سازشوں کے سدباب کے لیے چیک اینڈ بیلنس مزید ضروری ہوگیا ہے. یہ قبائلی نوجوان ملک کی ترقی کے لیے قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں، ان کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کا فرض ریاست کا ہے. قبائل کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جائیں، ریاستی توجہ کی فوری ضرورت ہے. قبائل آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، دوسری طرف برہمداغ بگٹی کا تازہ ویڈیو بیان آپ کے سامنے ہے جس میں اس نے مودی کے بیان کو بلوچ عوام کے لیے اچھا قرار دیا ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ فاٹا میں بھی دشمن کی سازش کامیاب ہو، دشمن ہمارے لیے گڑھے کھود رہا ہے، بچنا ہم نے خود ہے، وقت کم ہے اور دشمن چاروں طرف پھیل چکا ہے، فوری طور پر غور کرنے اور لائحہ بنانے کی ضرورت ہے۔

  • شارٹ کٹ-ہارون الرشید

    شارٹ کٹ-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے‘ جوسچائی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔
    نیک نام جسٹس سردار احمد رضا خان کی صدارت میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو کمیشن کے ایک افسر نے اخبار نویسوں کو کمرۂ عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اخبار نویسوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ حکم تحریر طور پر جاری کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ایک فوجی عدالت ہے؟ پھر تمام وکلا نے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو حکم واپس لے لیا گیا۔

    عدالتیں خلا میں کام نہیں کرتیں۔ ملک کا مجموعی ماحول اثرانداز ہوتا ہے۔ گزشتہ کمیشن کے مقابلے میں موجودہ بڑی حد تک قابل اعتبار ہے، شدید عوامی تنقید کے ہنگام جس کے ایک ممبر جسٹس کیانی نے فرمایا تھا: اگر بے عزتی کا احساس ہوا تو چھوڑ کر ہم چلے جائیں گے، وگرنہ برقرار رہیں گے۔ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے لیے دلائل کے انبار دھرے ہیں۔

    2011ء میں اپنے اثاثے انہوں نے 16کروڑ اور 2013ء میں 26 کروڑ بتائے۔ کیا یہ قابل فہم ہے؟ 2013ء کے الیکشن میں کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے ہوئے انہوں نے لندن کے مکانات کا ذکر کیا اور نہ پراپرٹی کے کاروبار کا، جس کی مالیت 800 ملین ڈالر سے کم نہیں۔ پاناما کی ان کمپنیوں کا بھی نہیں، جو اس وقت بنائی گئیں جب حسین نواز نیکر پہن کر سکول جایا کرتے تھے۔ برطانوی مکانوں کے بارے میں میاں صاحب ‘ان کی اہلیہ محترمہ‘ صاحبزادی اور فرزندوں کے بیانات مختلف ہیں، اتنے مختلف کہ مضحکہ خیز۔ انتخابی دستاویزات میں دبئی کی اس سرمایہ کاری کا بھی انہوں نے ذکر نہ کیا، پاناما لیکس پر شور و غوغا کے بعد قومی اسمبلی کو جس پر انہوں نے اعتماد میں لیا۔ جدہ کی سٹیل مل کا حوالہ کیا اس میں موجود تھا، ان کے بقول جسے بیچ کر لندن کی جائیداد خریدی۔ چوہدری نثار علی خان اور صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ یہ خریداری 1992ء میں ہوئی۔ وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کو بھی ظاہر ہے کہ جوابدہی کرنا ہو گی، 2008ء اور 2013ء میں جنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے اثاثوں کی تفصیل چھپا رکھی۔ ان دنوں اپنا دربار وہ الگ سجاتی ہیں‘سرکاری صحافیوں کو جہاں سے ہدایات ملتی ہیں کہ آزاد اخبار نویسوں کی کردار کشی کی جائے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ گالی گلوچ تو کیا، آزاد اخبار نویس کو اپنی نوکری ، حتیٰ کہ جان تک کی پروا نہیں ہوتی ۔

    فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسر نے وضاحت کر دی ہے کہ قانون سمندر پار کمپنیاں بنانے والوں کے احتساب کی اجازت نہیں دیتا۔ شریف خاندان اگر منتقم مزاج اور سفاک بھٹو کے ہاتھوں اتفاق فائونڈری قومیائے جانے کے بعد دبئی میں سٹیل مل لگا سکتاہے ۔ جنرل مشرف کاہدف ہونے کے باوجود سعودی عرب میں اس سے بڑا کارخانہ تعمیرکر سکتاہے ۔ عرب حکمرانوں کی مدد سے سینکڑوں بھارتیوں کو اس میں کھپا سکتاہے ۔ اگر وہ اپنی شوگر مل میں دشمن ملک کے کاریگروں کو پناہ دے سکتاہے ، ممکنہ طور پر جو ”را‘‘ کے ایجنٹ بھی ہو سکتے ہیں تو کیا اس نے الیکشن کمیشن سے بچ نکلنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا؟ تمام بڑے سرمایہ داروں کو قانون دان دستیاب ہوتے ہیں ۔

    سبکدوشی کے بعد جسٹس لون کو شریف خاندان نے سینیٹر کا عہدہ عطا کیا تھا اور جسٹس رفیق تارڑ کو صدارت کا۔
    ہم فرض کرتے ہیں اور یہ فرض کرنے کا پورا جواز موجود ہے کہ الیکشن کمیشن کے تمام ارکان مکمل طور پر دیانت دار اور مکمل طور پر بے خوف ہیں ، عدالتیں مگر خلا میں کام نہیں کرتیں ۔ وہ قانون کے دائرے میں کارفرما ہوتی ہیں۔ شہادتوں پر وہ انحصار کرتی ہیں ۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ،ستمبر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے اور وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جمہوری نظام کو وہ پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ دبئی میں زرداری صاحب سے سینیٹر اسحٰق ڈار کی ملاقات کا مطلب کیا ہے ؟ ٹی او آر کمیٹی سے ایم کیو ایم کے راہِ فرار اختیار کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ ؎

    ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
    دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

    پنجابی ضرب المثل یہ ہے کہ فلاں آدمی تپتے ہوئے توے پر بیٹھ کر بھی کوئی بات کہے تو اعتبار نہ کیا جائے۔ زرداری خاندان ایک ہزاربار نواز شریف کو اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرے تو بھی اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اعتزاز احسن اور شیخ رشید ضرورسنجیدہ ہیں مگر غیظ و غضب کے جلو میں۔ غیظ و غضب میں شور و غوغا کیا جا سکتا ہے‘ دھمکیاں دی جا سکتی ہیں‘ مذاق اڑایا جا سکتا ہے‘ پیش گوئیاں کی جا سکتی ہیں، ظفر مندی ممکن نہیں ہوتی۔ ظفر مندی ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے پھر مستقل مزاجی سے جدوجہد اور ایثار و قربانی سے ممکن ہوا کرتی ہے ۔اعتزاز احسن چیختے رہ جائیں گے اور زرداری صاحب مفاہمت کر لیں گے دونوں کی اسی میں بقا ہے۔

    مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
    ہیولیٰ برقِ خرمن کا‘ ہے خونِ گرم دہقاں کا

    بیرسٹر اعتزاز احسن کے موقف اور لب و لہجے پر غور کیجیے۔ وہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ لوٹ مار قابل برداشت نہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کو من مانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ناجائز دولت سمیٹنے کے وہ خلاف ہوتے تو جناب آصف علی زرداری کا اتباع کیسے کرتے؟1993ء کی ایک شام ‘جب میاں محمد نواز شریف قومی اسمبلی میں سرے محل کا انکشاف کرنے والے تھے‘ بیرسٹر صاحب نے مجھ سے کہا تھا: اس عورت (بے نظیر )سے میں تنگ آ چکا ہوں ۔دو دن کے بعد ڈٹ کر انہوں نے محترمہ کا مقدمہ لڑا۔ اب وہ انہیں شہید کہتے ہیں‘ ایک روحانی مقام و مرتبے پر فائز۔ چوہدری نثار علی خان کے خلاف ہر روز وہ ایک بے معنی سی تقریر کرتے اور ان سے شکوہ سنج اخبار نویسوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اپنے بے لچک مزاج اور گاہے مردم بیزاری کا ارتکاب کرنے والے چوہدری صاحب بعض کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ مگر وہ بھکاری ہیں اور نہ خوشامدی۔ اپنے بل پر ضدی آدمی جیتا ہے۔ سیاست کی باریکیوں کو اعتزاز احسن اینڈ کمپنی سے وہ بدرجہا بہتر سمجھتا ہے ‘فصیح و بلیغ بھی ۔

    الیکشن کمیشن وزیر اعظم کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گا؟ ممکن ہے وہ انہیں نااہل قرار دے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ان کے حریفوں میں سے اکثر کا انجام بھی یہی ہو گا۔ جب ایشیا کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری‘ قائد انقلاب عمران خان ‘شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری سمیت سب کا۔

    کاش یہ لوگ ادراک کر سکتے‘ کاش نفی ٔذات پر کم از کم اس قدر وہ قادر ہوتے کہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت کھو نہ دیتے۔ پہلی بار یہ مشق نہیں‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں سینکڑوں سیاستدانوں کو ”ایبڈو‘‘کردیا گیا تھا ،بعض کو عدالتوں کے ذریعے۔ پھر کیا ہوا؟ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ فوج کاروبارِ حکومت چلا نہیں سکتی کہ جس کا کام اسی کو ساجھے ۔ سیاستدانوں کو برادری باہر کیا جا نہیں سکتا۔ طاقتور فوج ہے اور مقبول بھی ۔ کور کمانڈروں کا کیا یہ جی نہ چاہتا ہوگا کہ بدعنوان سیاستدانوں کو بحیرہ ء عرب میں اٹھا پھینکیں۔ مگر وہ پھینک نہیں سکتے۔ تجربات سے انہوں نے سیکھا ہے کہ انہی کے پامال حربوں پہ انہیں اترنا پڑتاہے۔ ان کا اپنا وقار جاتا رہتاہے اور آخر کار وہ ڈھے پڑتے ہیں ۔

    راستہ اور ہے ، حضورِ والا ! راستہ اور ہے ۔ ماضی کو بھول کر شائستہ مستقبل کی تلاش ۔ صاحبِ دانش جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا :تاریخ سے کبھی کوئی نہیں لڑ سکا۔ تاریخ سے کبھی کوئی نہ لڑ سکے گا۔ آخر ایک دن وقت یہ فرمان جاری کرے گا کہ فوج کو جو راہ انہوں نے سمجھائی تھی ؛اگرچہ مخمصے کے ساتھ مگر اب بھی جس پر وہ چل رہی ہے ، وہی قابلِ عمل ہے۔ بھائیوں کی نا م پر ان کی کردار کشی ایک الگ موضوع ہے ، اس پر پھر کبھی ۔

    قوموں کے مقدر نعرہ بازی سے نہیں بدلتے ، شعبدہ بازی سے نہیں ۔ تدبر کی ضرورت ہوتی ہے ، دانش ، حوصلہ مندی ، مستقل مزاجی اور رواداری کے ساتھ پیہم جدوجہد کی۔ کوئی مختصر راستہ نہیں ہوتا۔ بلوغت اور بالیدگی کے لیے قوموں کو عشروں کی ریاضت درکار ہوتی ہے ۔ نواز شریف کو اٹھا پھینکنا سہل نہیں اور اٹھا پھینکا تو عدم استحکام کے ایک نئے‘ سنگین تر دور کا آغاز ہوگا۔ ع

    سخت کوشی سے ہے تلخیٔ زندگانی انگبیں

    قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے ‘مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے، جو سچائی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔

  • ذمہ دارانہ رویہ-ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

    ذمہ دارانہ رویہ-ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

    Hussain
    کوئٹہ غم سے نڈھال ہے، کوئٹہ ہی کیا سارا پاکستان ہی غم سے نڈھال ہے۔ عربی زبان میں کہتے ہیں کہ آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اسی طرح صدمے برداشت کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اب تو غم کے ماروں کی قوت برداشت جواب دیتی محسوس ہوتی ہے۔ کسی ایک پیارے کی موت انسان کو صدمے سے نڈھال کر جاتی ہے اور یہاں تو خودکش بمبار نے آن واحد میں وہ قیامت ڈھائی کہ 71 لاشیں تڑپنے لگیں اور ایک سو سے زیادہ زخمی درد کی شدت سے کراہنے لگے۔ کوئٹہ میں میرے صحافی دوست عبدالقیوم کاکڑ نے بتایا کہ یہاں ہر گھر ماتم کدہ بنا ہوا ہے۔ اکثر گھروں میں صف ماتم بچھی ہے باقی گھروں میں غم واندوہ نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ شہید ہونے والوں کی اکثریت کوئٹہ کے نامور وکلاء کی ہے۔ ایک طرف دہشت گردوں کےپشتیبان اپنی خوئے بد چھوڑنے کو تیار نہیں دوسری طرف ہمارے حکمران اپنا رٹا رٹایا، چھپا چھپایا اور لکھا لکھایا بیان بدلنے کو تیار نہیں۔میاں نواز شریف فرماتے ہیں سیکورٹی ادارے دہشت گردوں کو پوری طاقت سے کچل دیں۔ ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ تاہم حکمران کبھی لندن کی عطریز فضائوں میں اور کبھی مری کی ٹھنڈی ہوائوں میں چین کی بانسری بجاتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے لئے اُن کے ڈھنڈورچی اور طبلچی کافی ہیں۔
    ساری دنیا میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ اوورسیز پاکستانی مضطرب و پریشان ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران صرف لاہور میں 931 بچے اغوا ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز کے ایک اخبار کی خبر ہے کہ شیخوپورہ میں مغوی بچے کی آنکھیں، دل اور گردے نکال کر لاش کھیت میں پھینک دی۔ سات سالہ سبحان کو تین روز پہلے اغوا کیا گیا تھا۔ قصور سے تین بچے اغوا ۔ ایسی خبریں روزانہ اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں۔ حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ تو کجا اُن کے ضمیر میں ہلکی سی بھی خلش پیدا نہیں ہوتی۔ یہی حکومتی طرز عمل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی نظر آتا ہے۔

    8 اگست 2013ء کوئٹہ میں ایک پولیس آفیسر کو اسی طرح ٹارگٹ کلنگ میں پہلے شہید کیا گیا اور جب لوگ ہزاروں کی تعداد میںشہید کی نماز جنازہ ادا کر رہے تھے تو سول اسپتال والے انداز میں وہاں خودکش بمبار نے خود کو اُڑا لیا اور اس طرح درجنوں افراد نے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا۔ تب بھی ہمارے حکمرانوں نے ایسے ہی سطحی وجذباتی بیانات دیئے تھے ۔ اتنے بڑے پیمانے پر برسوں سے مسلسل کی جانے والی دہشت گردی بغیر منصوبہ بندی اور فنڈنگ کے نہیں ہوسکتی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ اُن کے پاس را کی سازشوں کے مصدقہ ثبوت ہیں۔ چند برس پہلے پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو را کی بلوچستان میں دہشت گردی کے ثبوت پیش کئے تھے۔ پھر کیا ہوا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ بھارت ، افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا ہے، اپنے جاسوس بھیجتا ہے۔ چند بے راہ پاکستانیوں کو اپنے ہی وطن میں تخریبی کارروائیوں کے لئے فنڈ بھی مہیا کرتا ہے اور تخریب کاری کی تربیت بھی دیتا ہے۔

    گزشتہ ایک دو روز میں حکومتی اتحادیوں اور ترجمانوں نے بیان بازی کے شوق میں نہایت غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ گہرے پانی سے سوئی ڈھونڈ لینے والی ایجنسیاں دہشت گرد کیوں نہیں پکڑ پا رہیں۔ صرف را پر الزام سے کام نہیں چلے گا، تخریب کار ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں۔ اسی طرح محمد خان شیرانی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے لئے ہے یا ملک اسٹیبلشمنٹ کے لئے دن میں دو،دو بار حکومت سے مشورہ کرنے والے اچکزئی سے پوچھا جائے کہ وہ کس کا کھیل، کھیل رہے ہیں۔ جب حکومت اور اس کے اتحادی اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے تو پھر جو ادارہ یہ قومی فریضہ ادا کر رہا ہے اس پر اتنی تندو تیز تنقید سے کیا اندازہ لگایا جائے۔ حکومت ہی اس کی وضاحت کرے۔

    اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک دانشور کا بیان گردش کر کررہا ہے کہ اگر کشمیر میں دہشت گردی کی آزادی ہے تو پھر بلوچستان میں جنگ آزادی کیوں نہیں۔ اگر یہ کلمات فی الواقع کسی دانشور کے ہیں تو پھر یہ نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ اور حقائق کے منافی کلمات ہیں۔ وادی کشمیر ایک مقبوضہ اور متنازع علاقہ ہے۔ دوسری طرف بلوچستان اپنی آزاد مرضی سے پاکستان میںبہ رضا و رغبت شامل ہوا تھا۔ اب یہ وفاق کی ایک اکائی ہے۔ اس صوبے میں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں، جن کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی وجود میں آتی ہے۔ اس کے نمائندے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بنتے ہیں اور ہر جگہ اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی ان چینلز کو چھوڑ کر ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھاتا ہے تو وہ سرکشی کرتا ہے اور دہشت گردی کا مرتکب ہوتا ہے جس کی بیخ کنی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ شدید جرم ہے جس کا قلع قمع ضروری ہے۔

    آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کیلئے ضروری تھا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر صدق دل سے عمل درآمد کرتی۔ مگر نہ تو مختلف ایجنسیوں کے درمیان تعاون کا کوئی نظام وضع کیا جاسکا اور نہ ہی نیکٹا حقیقی معنوں میں وجود میں آئی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے نہ ہی مدرسہ اصلاحات نافذ کی جاسکی ہیں اور نہ ہی فرقوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے لئے کوئی ٹھوس کام ہوا ہے۔ اسی طرح کریمنل کوڈ میں بنیادی اصلاحات کی جو تجویز نیشنل ایکشن پلان میں دی گئی تھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے درست کہا کہ کیسے کوئٹہ کو خاص طور پر اس لئے بھی دہشت گردی کانشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ پاک، چین راہداری منصوبہ دشمن کی آنکھوں میں ہی نہیں ہمارے بعض دوستوں کی آنکھوں میں بھی کھٹکتا ہے۔

    را کی سازشوں اور سرگرمیوں کا زبانی کلامی تذکرہ کافی نہیں اس کا حقیقی تدارک بھی بے انتہا ضروری ہے۔ چند ماہ قبل بھارتی جاسوس کل بھوشن پکڑا گیا تھا۔ اس کی زبانی حکومت کو کئی سازشوں کا علم ہوا ہوگا مگر اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
    کراچی میں را کے ایجنٹوں کے بارے میں حکومت کے پاس مصدقہ ثبوت ہیں مگر اُن کے خلاف بھی کہیں کوئی ایکشن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ دہشت گردی کی ہر بڑی کارروائی کے بعد قوم آس لگا لیتی ہے کہ اب حکومت کی طرف سے کوئی ایسا پلان آئے گا جو روٹین سے ہٹ کر ہوگا جس میں پرانے حکومتی ایجنڈے پر خط تنسیخ پھیرنے کی بات ہوگی اور کہا جائے گا کہ اب ہم لوٹ مار کلچر سے خود بھی اجتناب کریں گے اور کسی اور کو بھی لوٹ مار نہ کرنے دیں گے۔ قوم ایسے بیان کی منتظر رہتی ہے جس میں کہا جائے کہ پاناما لیکس کی جس عدالت سے جس ادارے سے اور جس فورم سے چاہے تحقیق کروالیں ہم اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہیں۔ حکومت جب تک اخلاص نیت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گی اس وقت تک محض فوج کے ضرب عضب سے مکمل کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں۔

    حکومت نے کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف دنیا کے ہر فورم پر جانے کی بات کی تھی مگر اس کی اب تک نوبت نہیں آئی۔ ہماری حکومت کی اسی گومگو پالیسی سے شہ پاکر بھارتی سینہ زوری اور بھی منہ زور ہوگئی ہے۔ کشمیر میں ظلم و بربریت پر شرمندہ ہونے کے بجائے گزشتہ روز بھارت نے پاکستانی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ حوالے کیا ۔ کشمیر سے کسی بہادر علی کو گرفتار کر کے اس پر بے سروپا الزامات لگائے گئے ہیں تاکہ کل بھوشن کی گرفتاری جیسا تاثر دیا جائے۔ اگر پاکستانی حکومت اسی طرح سے بے بسی اور بزدلی کا مظاہرہ کرتی رہی تو بھارت ایک بار پھر ماضی کی طرح دنیا میں پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا رہے گا۔ اس وقت اگر کوئی شے دہشت گردی کے خلاف سوفیصد کامیابی کی ضمانت دے سکتی ہے تو وہ صرف حکومت کا ذمہ دارانہ رویہ ہے۔