Tag: دیوبندی

  • مسلکی شناخت اور ”صرف مسلمان“ کا دعوی – تاج محمد

    مسلکی شناخت اور ”صرف مسلمان“ کا دعوی – تاج محمد

    آج کل ایک نئے فیشن نے زور پکڑا ہوا ہے کہ ہر کوئی خود کو ”صرف مسلمان“ کہلانے پر بضد ہے۔ مقبول عام جملہ یوں بن گیا ہے کہ ”میں نہ سنی ہوں، نہ شیعہ ہوں۔ نہ دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث ہوں، میں صرف مسلمان ہوں“. حد تو یہ ہے کہ فرقہ بندی کی گہری ہوتی ہوئی تقسیم در تقسیم سے وابستہ میرے کچھ دوست بھی سوشل میڈیا پر آ کے ”صرف مسلمان“ بن جاتے ہیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ ”صرف مسلمان“ بن کر فرقہ بندی ختم یا کم ہو سکتی ہے؟ اور یہ کہ ”کیا سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث“ ہونے سے کوئی مسلمان نہیں رہتا ہے؟

    آپ نے اپنا فیس بک کھولا ہوا ہے، اور یہ لکھنے جا رہے ہیں کہ آپ ”صرف مسلمان“ ہیں۔ لیکن ٹھہریے، امت کو کنفیوز کرنے سے پہلے خود سے ہی کچھ سوال کریں! کیا امامت اور خلافت دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت کے حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد اہل بیت اطہار کے ائمہ ہی ہیں؟ کیا حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم کی خلافتوں میں حضرت علی کی حق تلفی ہوئی تھی؟ (سوالات اور بھی ہیں، لیکن ان کو خوفِ فساد خلق سے ناگفتہ رہنے دیتے ہیں۔) ان سوالات کا جواب اگر آپ اثبات میں دیتے ہیں تو مبارک ہو، آپ شیعہ ہیں اور اگر نفی میں دیتے ہیں تو آپ سنی ہیں۔ اپنے اندر ایک بار پھر جھانک لیجیے، کیا فقہی معاملات میں اماموں کی تقلید ناجائز ہے؟ جو آدمی اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کے لیے کسی امام کی تقلید کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے؟ (یہاں بھی کچھ تلخ سوالات ہیں لیکن وہی فسادِ خلق کا خوف آڑے آ رہا ہے)۔ اگر ان سوالات کا جواب سر کی عمودی حرکت سے دے رہے ہیں تو لاکھ انکار کریں، آپ اہل حدیث ہیں۔ اور اگر افقی انداز میں سر ہلا رہے ہیں تو آپ (پاکستان کے تناظر میں) حنفی ہیں۔ پھرسے خود کو ٹٹولیں! کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم کل حاصل ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختارِ کل ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو آپ بریلوی ہیں اور نہیں میں ہے تو دیوبندی! پھر بھی اگر آپ کو ضد ہے کہ آپ، سنی شیعہ، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی کچھ نہیں بلکہ صرف مسلمان ہیں تو ان سوالات کا جواب ”ہاں“ اور ”نہیں“ کے علاوہ دیں۔ اور یقین جانیے اگر آپ کی فکر رسا کوئی درمیانی جنس کا جواب دریافت کر لیتی ہے تو آپ ”صرف مسلمان“ نام کے ایک اور فرقے کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، تاریخ میں جب بھی کوئی مسلکی شناخت کے خلاف تحریک چلائی گئی ہے اور اسے کامیابی ملی ہے تو اس کا آخری انجام ایک نئے مسلک کی صورت میں ہوا ہے۔ خود ہمارے دور میں جاوید احمد غامدی صاحب یہی آواز لے کر اٹھے تھے، لیکن دیکھیے، آج جتنا جمود غامدی صاحب کے کچھ متبعین میں پایا جاتا ہے، اتنا جمود کسی دور افتادہ گاوں میں بیٹھے ہوئے اس شخص کے اندر بھی نہیں ہوگا جس کا کل علم ”خلاصہ کیدانی“ تک محدود ہے۔

    اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف! میں اگر حنفی ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ میں نے ”دین کے اندر دین“ قائم کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب میں مسلمان نہیں رہا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سوچنے کے دو مختلف زاویوں میں، میں نے ایک زاویے کو منتخب کیا ہے۔ کوئی اگر شیعہ ہے تو کیا اس کا مطلب یوں لیا جائے کہ وہ خود کو مسلمان نہیں سمجھتا؟ یہ مسالک –غلط یا صحیح کی بحث سے ہٹ کر – مختلف فکری و قانونی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان شناختوں کی وجہ سے اسلام پر کوئی حرف آتا ہے۔ اسلام ان تمام مسالک سے وابستہ افراد کی پہلی شناخت ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اندر آنے والی فکری تقسیم کو اگر ریت میں سر دبا کر نظر انداز نہیں کرنا ہے تو اپنی وابستگی کا اظہار کرنا ضروری ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ کے نام پر خود کو ”معتدل اور روشن خیال“ مسلمان ظاہر کرنے والے یا تو پرلے درجے کے منافق ہوں گے یا پھر ایک نئے فرقے کی داغ بیل ڈال دیں گے۔

    مسئلہ کہاں ہے؟
    مسئلہ مسلکی وابستگی اور فکری شناخت میں نہیں ہے۔ مسئلہ عدم برداشت والی سوچ میں ہے۔ فکری تنوع ہر معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے لیکن یہ حسن تب تک ہوتا ہے جب تک دوسرےکے وجود کو برداشت، اس کی رائے کا احترام اور اس کے علم کا اعتراف کیا جائے۔ یہاں پر چلن یہ ہوا ہےکہ –چند مستثنیات کو چھوڑ کر– ہر انسان خود کو مکمل ٹھیک اور دوسرے کو مکمل غلط تسلیم کیے بیٹھا ہے۔ اس بیماری کا علاج بھی ہمیں دورِ قدیم سے امام شافعی نے تجویز کیا ہے کہ ”میری رائے درست ہے لیکن اس میں غلطی کا امکان ہے، آپ کی رائے خطا ہے لیکن اس میں درستی کا احتما ل ہے“۔ بس امام شافعی رحمہ اللہ کی اس سوچ کو اپنا کر شیعہ، سنی، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث بن کر رہنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ نام کے لا تعداد فرقے وجود میں آتے رہیں گے۔

  • کفر کی ترویج اب ایمان کی نشانی – کاشف جانباز

    کفر کی ترویج اب ایمان کی نشانی – کاشف جانباز

    کفر کی ترویج اب ایمان کی نشانی بنتی چلی جا رہی ہے، جب تک آپ دو چار فرقوں کے ماننے والوں کے گال پر کفر کے فولاد میں لپٹے فتوے کا تھپڑ نہ رسید کردیں آپ کے ایمان کا سیاہ چہرہ سرخ ہو ہی نہیں سکتا۔ جنہوں نے کفر کی تنسیخ کرنے کے لیے ایمان کا منور چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہ اب کفر کفر کی فتوی بازی میں محو ہو چکے ہیں۔ نیز آپ جتنے لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے، اسی طور آپ کا مؤمن ہونا مدلل ہوتا جائے گا۔

    کوئی مولانا طارق جمیل پر فتوی زنی کرتا ہے، کوئی ذاکر نائیک کو کافر نائیک کہتا ہے، بریلوی خود کو ماورا مخلوق تصور کرتے ہیں، دیوبندی دوسروں کو گمراہ گردانتے ہیں، یعنی جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ وہیں اپنے ایمان کی پٹاری کھول کے کفر کے ناگ کو اپنی ریا کاری کی بین پر نچوا کر کافر نامی تماشہ کرنے لگتا ہے۔ اور جو جو اس تماشے سے منہ پھیرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے، شاید ہی کوئی خوش قسمت ہو جو کسی کے تئیں کافر نہ ہو۔
    کفر جو گزرے وقتوں میں بہت بھاری چیز ہوا کرتا تھا اور جسے کسی پر عائد کرنے سے پہلے ہزار ہزار بار سوچا جاتا تھا، اج پھکّی کی اس پڑیا سا ہو چکا ہے جسے ہر بس میں ایک شخص دس دس روپے میں فروخت کر رہا ہوتا ہے۔ اس سراسیمگی میں اگر ”میں“ کافر ہوتا ہوں تو ”تو“ خود ہی کفر کے دائرے میں آ جاتا ہے اور اگر ”یہ“ کفر پر ثابت ٹھہرے تو ”وہ“ تو کافر ہونے سے کسی صورت بچ ہی نہیں سکتا۔ میں مؤمن اور تو کافر کی رٹ نے ہمیں ایمان سے تہی دست کردیا ہے۔

    حدیث مبارکہ کی رو سے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے یعنی اسے اپنے بھائی میں اگر کوئی برائی یا خامی نظر آئے تو اس کی اصلاح کرے جبکہ موجودہ وقت میں اس آئینہ کو صرف ایمان سے خارج صورت دکھانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت نام کا نازک آئینہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا ہے کیونکہ ہم نے آئینہ دکھانے کا غلط استعمال شروع کردیا ہے جس میں اصلاح کی جانب آتی راہ کا عکس دکھانا تھا، ہم نے اس میں دوزخ کی آتشیں مناظر بھر دیے ہیں۔ تبلیغ نرمی و جھکاؤ اور کردار مانگتی ہے، جب جب اس میں تلخی، اکڑ اور غوغا سرایت کر جائے تو اس کی تاثیر جاتی رہتی ہے۔

    مسلمان آپس میں ریشم کی طرح نرم ہوتے ہیں نہ کی اپنی عبادتوں، ریاضتوں، تقوی اور زہد کو لے کر تکبر کا پہاڑ بن کر ویسا ہی سخت روپ دھار لیں۔ آج تو، تڑاک اور ڈنڈے سوٹوں سے دنیا تنگ آچکی ہے کیونکہ ان سے لگنے والے زخموں سے ابھی تک ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ لہذا اب اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو مرہم کی، لوگ ڈنڈا برداروں کو بہت دیکھ چکے، اب ان طبیبوں کی ضرورت ہے جو ان پر مرہم رکھ سکیں۔ جو کافر کہنے کے بجائے مؤمن بنانے والے ہوں، کفر کا فتوی کس کر ہوا ہو جانے والوں کی طرح نظروں سے اوجھل نہ ہوں بلکہ سامنے رہ کر اس کفر کے خاتمے کی سعی کریں۔ صرف غلط راستے پر ہونے کا کہہ کر دھتکارتے ہوئے اپنی راہ نہ لیں بلکہ صحیح راستہ دکھا کر اس پر چلنے کا سلیقہ بھی سکھائیں،جو”میں حق پر ہوں“ کے تیروں کو سینوں سے نکال کر ”ہم حق پر ہوں گے“ کی تفسیر بنیں۔ اسی طرح اس کفرِ نارسا کا خاتمہ ممکن ہے ورنہ اس ایمان کے سراب کو لے کر جو تبلیغ ہم نے شروع کر رکھی ہے، اس کی ترویج صرف ”کفر“ کو فروغ دے گی اور ایمان کی تنسیخ کر کے کسی ”میں“ یا ”تو“ کی نہیں بلکہ ”ہم“ کی تسخیر کردے گی جس کے بعد معاشرہ تو مسلمانوں کا ہوگا لیکن نظر سب کے سب کافر آئیں گے۔ لہذا ہمیں ”میں“ کے کنویں سے نکل کر”ہم“ کے سمندر میں اترنا ہوگا۔ ویسے بھی اس ”میں میں“ کے ڈنکے بہت بج چکے اب ”ہم ہم“ کی اذان دینا ہوگی تب ہی یہ کفر ٹوٹے کا اور ایمان دوام گیر ہوگا۔

  • یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    احمد علی جوہر آج ساڑھے گیارہ بجے دن میں مارکیٹ میں سودا سلف لینے کے لیے ایک دکان پر کھڑا تھا تو پی پی پی کے نغمے کی مخصوص دھن سنائی دی۔ آواز کی سمت نظر دوڑائی تو پیپلزپارٹی کی ایک ریلی آتی دکھائی دی۔ موٹر سائیکلوں، کاروں، سوزوکیوں اور ٹرکوں میں سوار ریلی کے شرکا کا میں نے جائزہ لیا۔

    یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ کراچی میں PPP کے جلسوں اور ریلیوں میں سندھی بھائی زیادہ شرکت کرتے ہیں جن کی اکثریت گوٹھوں کے رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ میری نظر ایک سوزوکی پر سوار کھڑے ایک باریش چہرے پر رک گئی۔ یہ کوئی معمولی باریش چہرہ، خط یا چھوٹی داڑھی والا face نہیں تھا۔ مکمل باریش یعنی داڑھی کو قینچی نہ لگانے والا سلفی چہرہ تھا۔ یہاں میرا مقصد سلفی یا داڑھی والوں پر تنقید نہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ چاہے بندہ سلفی ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو یا اہل تشیع، اس کے سامنے جب دین کے غلبے اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے، اور اس کے لیے صالح و دیانت دار قیادت کو ووٹ دینے کو کہا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا کیا کام سیاست میں۔ یہ کیا حکومت چلائیں گے؟ مجموعی طور پر عوام کی اکثریت کی یہی سوچ ہے چاہے مذہبی کیوں نہ ہوں۔ دیندار طبقہ پنج وقتہ نماز کا پابند ہے۔ اپنے مسلک کے مطابق دین پر عمل کرتا ہے مگر جب انتخابات کا معرکہ ہوتا ہے تو اس معاملے میں دین بھول جاتا ہے۔ووٹ ان کو دیتا ہے جو لادین، کرپٹ، بھتہ خور اور دہشت گرد ہیں۔ یہی سوچ اور رویہ ایسے فرد کو بھی صدارت اور گورنر کے منصب تک پہنچا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے جو کرپشن اور دہشت گردی کے حوالے سے مشہور ہوتا ہے۔

    ریلی کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب تک یہ سوچ اور رویے برقرار ہیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟

  • شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟ اوریا مقبول جان

    شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟ اوریا مقبول جان

    اوریا مقبول جان پوری امتِ مسلمہ میں کون ہے جو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو پوری امت کا مشترکہ اثاثہ نہ سمجھتا ہو۔ اقبال نے تو انہیں ’قافلہ سالارِ عشق‘ اور ’نکتۂ پرکارِ عشق‘ جیسے القابات سے یاد کیا۔ اقبال تو اس امت کی زبوں حالی پر نوحہ بھی یوں پڑھتا ہے کہ ’قافلۂ حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں‘۔ یہ الفاظ اور سیدنا امام حسین ؓ کی ذات سے عشق، اقبال کے ہاں ایک تسلسل کا نام ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جب بھی کہانی دہرائی جائے گی قافلہ سالاری سیدنا امام حسین ؓ کے سرکا تاج رہے گی۔

    کوفہ کی سرزمین پر کربلا کے المناک سانحے کے بعد بےوفائی کا ایک اور باب رقم ہو رہا تھا۔ حضرت علی ابن حسین زین العابدین کے فرزند حضرت زید بن علی، ہشام بن عبدالملک کے دور میں کوفہ تشریف لائے تو وہاں آپ نے ایک خطبہ ارشاد کیا‘ جس میں کہا:
    ’’اللہ کی قسم مجھے یہ چیز سخت ناگوار ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروں اور اس حالت میں کہ ان کی امت کو نہ میں نے معروف کا حکم دیا ہو اور نہ منکر سے منع کیا ہو‘‘۔
    کوفہ میں منصور بن المعتمر نے لوگوں سے زید بن علی کے لیے بیعت لینا شروع کی۔ اس زمانے میں اہلِ سنت کے امامِ اعظم امام ابو حنیفہ، بنی امیہ کے ظلم و تشدد کا مسلسل شکار ہو رہے تھے۔ منصور بن المعتمر اور امام ابو حنیفہ دونوں راتوں کو چھپ کر ملتے اور روتے رہتے۔ چند اور بزرگوں، مسلمہ بن کہیل اور نبیل الاعمش کی کوششوں سے کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید بن علی کی بیعت کر لی۔ حضرت زید نے جب قیام کا ارادہ کیا تو فضیل بن زبیر کو قاصد بنا کر ابوحنیفہ کے پاس بھیجا۔ یہاں امام ابو حنیفہ کا ایک تاریخی فقرہ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ انہوں نے کہا: [pullquote]’’خروجہ یضاھی خروج رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم البدر‘‘[/pullquote]

    (زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہﷺ کی بدر میں تشریف آوری سے مشابہ ہے۔)
    اس کے بعد حضرت زید نے دعوت جہاد دی اور فرمایا:
    ’’ہم تم کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تمہیں بلاتے ہیں کہ آئو ظالموں سے جہاد کرو‘‘۔
    اس پر چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی۔

    اس کے بعد بے وفائی کی ایک دلگداز داستان ہے، حیلوں اور بہانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایسے سوالات کوفہ والوں نے اٹھائے جو آج بھی اس امت مسلمہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ چال چلن بھی وہی رکھا جو کوفہ والوں کا مسلم بن عقیل اور سیدنا امام حسین ؓ کے ساتھ تھا۔ صبح جب حضرت زید بن علی میدان میں نکلے تو ان کے ساتھ اتنے ہی جانثار تھے جتنے رسول اللہﷺ کے ساتھ میدانِ بدر میں تھے یعنی 313۔ یوں امام ابوحنیفہ کے قول پر اللہ کی جانب سے مہر تصدیق ثبت ہوئی کہ ان کا خروج رسول اللہﷺ کی بدر میں آمد سے مشابہ ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک اور خونچکاں باب رقم ہوا اور یہ جانفروش شہید کر دیے گئے۔ اس وقت شیعانِ علی بھی موجود تھے اور اہلِ سنت بھی لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی ایک میں بھی اختلاف موجود نہ تھا۔ یہ تھی اس امت کی روایت جو صدیوں چلتی برصغیر تک پہنچی۔

    برصغیر میں مسلک شیعہ اور مسلک سنی باہم ساتھ ساتھ اپنے اپنے عقیدوں پر قائم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے صدیوں یہاں زندگی کرتے رہے۔ برصغیر میں مسلکی طور پر پہلا شیعہ خاندان سید سالار دائود غازی اور سید سالار مسعود غازی کا تھا، جو 1030 عیسوی میں اودھ کے علاقے میں آ کر آباد ہوا۔ ان کی اولاد میں سے سید عبداللہ زر بخش اور سید زید شہسوار نے بارہ بنکی کے قریب زید پور شہر آباد کیا۔ اسی دور میں ہندوستان کی چند ریاستوں کے سربراہ بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے جن میں اودھ‘ سندھ اور ملتان قابل ذکر ہیں۔ اس دور سے 1857ء میں انگریزوں کے قبضے تک یہاں ہر طرح کے حکمران برسر اقتدار آئے۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر مغل بادشاہوں تک، ان کی حکومتوں میں اہم عہدوں پر شیعہ بھی رہے اور سنی بھی۔ ان میں کبھی کبھار سیاسی نوعیت کا اختلاف ہو بھی جاتا لیکن وہ ان لوگوں کی ذاتی اقتدار کی جنگ ہوتی۔ یہ جنگ مسلک کی جنگ نہیں بنتی تھی۔ ہمایوں کی ایران سے واپسی کے بعد بہت سے ایرانیوں کی برصغیر آمد کے بعد اس مسلک کو فروغ ملا اور عزاداری، مرثیہ خوانی اور مرثیہ نویسی نے رواج پایا۔

    پورے مغلیہ دور میں کسی ایک معمولی سے شیعہ سنی فساد یا دنگے کی کوئی خبر موجود نہیں۔ یہاں تک کہ روبنسن (Robinson) جیسا مُؤرخ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو تقسیم کا درس دینے کے لیے ”Sepratism among Indian Muslims“ لکھی، وہ بھی کسی ایک واقعے کا تذکرہ نہ کر سکا جس میں شیعہ سنی فساد نظر آتا ہو۔ حالانکہ التمش سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک پورے برصغیر پر فقہ حنفیہ نافذ تھی اور قاضی اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے، سب اس پر متفق تھے اس لیے کہ دونوں مسالک کے علماء یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے جو قانون نافذ کرنے کے لیے ہوتے ہیں ان میں دونوں کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ چوری، زنا، جھوٹ، غیبت، قتل میں کوئی شیعہ سنی نہیں ہوتا اور ان سب کی سزا مقرر ہے۔ زکوٰۃ اور عشر میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ جو اختلافات تھے وہ فروعی نوعیت کے تھے اور جو الزامات تھے وہ بھی مجمع باز خطیبوں اور ذاکروں کے پیدا کردہ تھے یا پھر افسانہ طراز مؤرخوں نے انہیں ہوا دی۔ یہی اس امت کی اصل روح تھی کہ اختلاف کی عزت کی جائے اور نیت کو اعمال کا معیار سمجھا جائے۔

    پہلا شیعہ سنی فساد 1906ء میں لکھنؤ میں ہوا جو انگریز حکمرانوں کی ’’برکت‘‘ کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد 1907ء اور 1908ء میں بھی فسادات ہوئے اور معاملہ باہم افہام و تفہیم سے علماء نے طے کر لیا اور مسلم معاشرے میں رواداری قائم رہی۔ 1906ء کے فسادات کیسے ہوئے؟ اب یہ کوئی راز نہیں۔ کوئی شخص بھی برطانیہ میں انڈیا آفس لائبریری میں تمام مکتوبات دیکھ سکتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل 18 اپریل 1939ء کے اس خط میں موجود ہے جو گورنر ہیگ (Heig) نے وائسرائے لنلتھگؤ (Linlithgow) کو تحریر کیا۔ یہ خط اس لیے تحریر کیا گیا تھا کہ 1939ء میں پھر فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ لکھنؤ میں جہاں محرم کے دنوں میں تعزیہ اور علم کے جلوس نکلا کرتے تھے، وہیں سنی اپنی مساجد میں مدح صحابہ کے نام سے مجلس منعقد کیا کرتے تھے، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ 1906ء میں انگریز نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ’’مدح صحابہ‘‘ ایک نئی اختراع ہے اس لیے محرم کے دو دنوں، چہلم اور یومِ شہادتِ علی کے دن اس پر پابندی ہوگی۔ یہ اقدام دنیا کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ ہم نے یہ امن کے لیے کیا ہے، لیکن اصل میں یہ ایسی شرارت تھی جس نے آگے چل کر اس فساد کا بیج بویا۔ اس کی تفصیل Heig papers MSS.EUR.F.125.102 IOR میں موجود ہے اور انڈیا آفس لائبریری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد پورے برصغیر میں محرم کے جلوسوں کے روٹوں کے لائسنس انگریز ڈپٹی کمشنروں نے جاری کیے۔ آپ تمام شہروں کے روٹ ملاحظہ کریں تو ان میں شرارتاً خاص طور پر ایسے مقامات شامل کیے گئے جہاں آج نہیں تو کل کسی بھی وقت فساد برپا ہو سکتا ہے یا کروایا جا سکتا ہے۔

    1935ء میں چہلم کے دن کچھ مقامات پر ’’مدح صحابہ‘‘ پر پابندی کو غیر قانونی سمجھ کر سنی مساجد میں توڑا گیا۔ اس کے بعد 1936ء میں ذوالحج سے صفر تک کے مہینوں میں ہر جمعہ کو مدح صحابہ کو معمول بنایا گیا، قانون کی خلاف ورزی پر انگریزوں نے ہزاروں سنیوں کو گرفتار کر لیا حالانکہ دوسری جانب سے کوئی احتجاج نہ تھا۔ آگ لگانے کے لیے یہ کافی تھا۔ فسادات شروع ہوئے۔ جھانسی ڈویژن کے کلکٹر جسٹس ایلسوپ (Allsop) کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ 1909ء کے احکامات میں کیا تبدیلیاں کی جائیں۔ 28 مارچ 1938ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ: The Sunni recitation were allowable in theory, but were actually provocative and should be disallowed. آگ بڑھانے کے لیے یہ فقرے کافی ثابت ہوئے کہ ’’سنی مدح صحابہ کتابی طور پر تو صحیح ہے لیکن عملی اظہار شرانگیزی ہے اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ سنیوں نے اس پر سول نافرمانی کی ایک تحریک شروع کی۔ ادھر ملک میں انتخابات کے بعد جمہوریت آ گئی تھی۔ کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی۔ 31 مارچ 1939ء کو کانگریس حکومت نے مدح صحابہ پر سے پابندی اٹھا دی اور سول نافرمانی کی تحریک ختم ہو گئی۔ لیکن اس دوران دونوں جانب گزشتہ پچاس سال سے نفرت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ یوں مارچ، اپریل اور مئی 1939ء میں شیعہ مسلک کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ اٹھارہ ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو دونوں گروہوں نے منصف مقرر کیا لیکن چونکہ اختلافات کو اس طرح پالا گیا تھا کہ دوسری جانب سے تبریٰ کو بھی سرعام کرنے کی اجازت مانگ لی گئی اور اس پر از خود عمل بھی شروع ہو گیا جس پر شدید فسادات نے جنم لیا۔ یہ تمام معاملات اور کہانی گورنر ہیگ کے خطوط میں درج ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد 1940ء میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے عوامی مقامات پر مدح صحابہ اور تبریٰ پر پابندی لگا دی۔

    یہ ہے وہ تاریخ کہ آگ بھی خود بھڑکائی اور پھر اسے ایک دوسرے کے گھروں میں سلگنے کے لیے چھوڑ دیا۔ کس قدر بدنصیب ہیں ہم اور کس قدر ناسمجھ ہیں ہمارے فرقہ پرست کہ محرم کے جلوسوں کے وہ روٹ جنہیں انگریز ڈپٹی کمشنروں نے فساد کے ممکنہ امکانات کے لیے ڈیزائن کیا تھا، اسے کربلا کی طرح مقدس سمجھتے ہیں اور مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہر سال یہ قوم دعائیں کرتی ہے فسادات سے نجات کے لیے، دنیا بھر کی انتظامیہ ان مقامات پر کھڑی ہوتی ہے، لیکن پھر بھی فساد ہو جاتا ہے اور کوئی مل بیٹھ کر ان سب کو محفوظ راستوں پر لے جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ کس قدر بدقسمت ہیں ہم کہ انگریز جو لکیریں کھینچ گیا، اسے مقدس سمجھ کر خون بہاتے ہیں۔ صوبے انگریز نے بنائے، آپ انہیں بدل کر دکھائیں، ضلعوں‘ تحصیلوں میں ردوبدل پر فساد، جلوس کے قدیمی روٹ پر جھگڑا۔ کوئی ہے جو عقل سیکھے۔ اس برصغیر میں نفرت کا بیج بونے والے انگریز کے قانون اور احکامات کو بدل دے۔ اس سارے فساد پر آج بھی انگریز فاتح ہے جو نفرت کا بیج بو گیا۔

    ایک اور بہت بڑا سوال امتِ مسلمہ میں مسلکی اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم برداشت اور خونریزی کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس برصغیر میں موجود تیس سے چالیس ہزار انگریز ہی اس کے واحد ذمہ دار ہیں؟ کیا ہمارے علماء نفرت کی آگ میں حصے دار نہیں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے ایک مسلسل عمل کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نفرت کا سبق نہیں پڑھایا؟

    برصغیر کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہرمکتبۂ فکر کے جیّد ترین علما نے مدتوں اس بات پر اپنی توانائیاں صرف کیں کہ مخالف مسلک کے عقائد اور ان کے علما کی تحریروں میں کون سے نقائص ہیں۔ زور دار اور پُر جوش رسالے لکھے اور تمام مکاتبِ فکر کے مدرسوں میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس کے بعد منبر و محراب ہاتھ آئے تو اپنی شعلہ بیانیوں کا سارا زور مخالف کو کذّاب، بےدین، گمراہ، اور بالآخر کافر کہنے پر صرف کیا۔ شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث سب نے اس میں پورا پورا حصہ ڈالا۔ ردِّ بریلویت، ردِّ دیوبندی، ردِّشیعہ اور ردِّ غیرمقلدین جیسے موضوعات پر آپ کو ایک وسیع مواد ہر مکتبۂ فکر میں مل جائے گا۔ وہ، جن کے اسلاف قرآن و سنت کے ہر پہلو کو لوگوں پر روشن کیا کرتے تھے، جو کبھی پوری دنیا میں کفرو شرک کے مقابلے میں توحید کے علمبردار تھے، جو سیّدالانبیاءﷺ سے عشق کی مشعل روشن کرنے کے نقیب ہوا کرتے تھے، ان کا سارا زورِ بیان اس بات پر صرف ہونے لگا کہ فلاں شخص یا گروہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، فلاں دل میں سیّدالانبیاءﷺ کے احترام کی مشعل روشن ہے یا بجھ چکی۔ مشرک، بدعتی، گستاخِ رسول، منکرینِ اولیاء، گستاخِ صحابہ اور منکرینِ اہل بیت جیسے موضوعات ہمارے مذہبی اکابرین کا پسندیدہ موضوع بن گئے۔

    گزشتہ چالیس سالوں سے میں ہر مکتبہ فکر کے علما کی دھواں دار تقریروں سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ کانفرنس توحید کے نام پر منعقد ہوتی ہے لیکن تقریریں پڑوس کی مسجد کے امام اور اس کے اسلاف کی ہرزہ سرائی کے ذکر سے بھری ہوتی ہیں، مجلس میلاد سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سجائی جاتی ہے اور شعلہ بیانیاں اپنے اسلاف کی تعریف و توصیف اور دوسروں کی گستاخیوں کی داستانیں بیان کرنے پر صرف ہو جاتی ہیں۔ آلِ رسول ﷺ کی محفلوں کا تو غضب ناک پہلو یہ ہے کہ فقرے گھما پھرا کر ایسے بولے جاتے ہیں کہ پوری بستی جو اس محفل میں شریک نہیں، یزید کی فوج قرار دے دی جاتی ہے۔ ادھر بات شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شروع ہوتی ہے مگر کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ جوشِ خطابت لوگوں سے دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں کے لیے کفر کے نعرے نہ لگوا دے۔ یہ تقریریں اور یہ ’’علمی‘‘ مواد اور تحقیق و تنقیص کا یہ عمل ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے، لیکن ان ڈیڑھ سو سالوں سے ایک سو بیس سال انتہائی امن اور سکون کے ہیں۔ کوئی دنگا، فساد، سر پھٹول یا قتل و غارت نہیں۔ لیکن گزشتہ تیس سال ایسے ہیں کہ جیسے ہر لمحہ سولی پر لٹکا ہوا ہو۔

    ان تیس سالوں میں ایسا کیا ہوگیا؟ اگر آج ہم نے اس پر غور نہ کیا تو اگلے سوسال ہم ایک دوسرے کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ان تیس سالوں میں اس مسلم خطے کے سیاسی حالات میں ایسی اہم تبدیلیاں آئیں جن کا اثر یہاں کے صدیوں پرانے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی حالات پر پڑا۔ ایک پُرسکون جھیل جیسی مسلم معاشرت میں ہلچل مچ گئی۔ افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں اور ایران میں انقلاب آگیا۔ یہ دونوں واقعات جنگ عظیم اوّل کے بعد مسلم اّمہ کی خلافت کی مرکزیت کے ختم ہونے اور جدید سیکولر قومی ریاستوں کے بعد سب سے بڑے واقعات تھے۔ ایران میں، انقلاب نے جہاں سیکولر قومی ریاست کی بنیادیں ہلادیں، وہیں افغانستان کا جہاد بھی خلافتِ اسلامیہ کے قیام کا نعرہ لے کر اٹھا اور طالبان کی صورت قائم حکومت نے مغرب کی سیکولر ریاستیں قائم کرنے کی جدوجہد کو غارت کر دیا۔ ان انقلابات کے نتیجے میں پورے خطے میں ایک بےیقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی اور وہ تمام حکمران جنہیں پہلی جنگِ عظیم کے بعد مغرب نے اپنے کا سہ لیسوں کی حیثیت سے مسلّط کیا تھا، اپنے ممکنہ انجام کی وجہ سے خوفزدہ ہوگئے اور یوں ایک کشمکش اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اس کشمکش اور جنگ کا ایندھن وہ مواد بنا جو سو دو سال سے اس امت کے مختلف مسالک کے علماء نے وقتاً فوقتاً تحریر کیا تھا۔ ا یک دوسرے کے ردّ میں لکھی گئی کتابیں اور کفر کے فتوے گرد آلود تہہ خانوں سے نکالے گئے اور پھر انہیں چاروں جانب پھیلا دیا گیا۔

    اسی زمانے میں ایک اور چیز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پہلے ان تمام علماء اور ذاکرین کے بےمحابہ خطاب صرف اپنی اپنی مساجد اور امام بارگاہوں تک محددو تھے لیکن جس طرح اس دور میں پہلے آڈیو کیسٹوں اور ویڈیو کیسٹوں نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جیسے فنکاروں کو مقبولیت بخشی، ویسے ہی ان علماء اور ذاکر ین کی آڈیو اور وڈیو کیسٹوں نے انہیں راتوں رات ملکی اور غیر ملکی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ کیسٹیں عام دکانوں پر دستیاب ہونے لگیں۔ شیعہ ذاکر کی کیسٹ سنی گاہک کے ہاتھ میں اور سنی مقرر کی کیسٹ شیعہ گاہک کے ہاتھ میں آگئی۔ مدتوں ان لوگوں کو ان کے مولوی بتایا کرتے تھے کہ فلاں مسلک کا مولوی یا ذاکر ہمارے بارے میں یہ کہتا ہے اور پھر نفرت کا بیج بویا جاتا تھا۔ لیکن اب تو وہ سب کچھ ایک دلیل کے طور پر مخالف فرقے کے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا۔ وڈیو اور آڈیو سے سب کچھ سی ڈی اور ڈی وی ڈی پرمنتقل ہوتا چلا گیا۔ ادھر گھر گھر کمپیوٹر آیا تو یہ سارا نفرت انگیز مواد عام آدمی کی دسترس میں چلا گیا۔ آڈیو، ویڈیو کیسٹ یا سی ڈی اور ڈی وی ڈی خریدنے کے لیے پھر بھی زحمت اٹھانا پڑتی تھی، بازار جانا پڑتا تھا لیکن جیسے ہی انٹرنیٹ آیا تو یہ تمام مواد یوٹیوب سے ہوتا ہوا فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس کی صورت میں ہر شخص کے گھر یہاں تک کہ موبائل تک جا پہنچا۔ اب نہ دکان پر جانے کا ترددّ، نہ کیسٹ اور سی ڈی خریدنے کی زحمت، راہ چلتے موبائل پر انٹرنیٹ کھولو اور نفرت کے ثبوت کے طور پر کسی بھی مولوی یا ذاکر کی تقریر سنا کر آگ لگوا دو۔

    یہاں ایک عجیب منطق پیش کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر ہر طرح کا جھوٹ اور افواہ چل رہی ہوتی ہے، لیکن یہ جھوٹ اور افواہ نہیں بلکہ ہمارے اپنے مذہبی قائدین کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو ہوتی ہے جسے ایک عام کمپیوٹر جاننے والا شخض بھی بڑی آسانی سے پہچان سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اور امام بارگاہ میں بولی جانے والی نفرت کی زبانیں اب گھروں کے دالانوں تک جا پہنچی ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم ایسا نہیں کہتے، یہ ہم پر الزام ہے، اس کے جواب میں سامنے والا موبائل پر کسی نہ کسی کی تقریر نکال کر سنا دیتا ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس نے اس سیاسی اور علاقائی طور پر پیچیدہ صورتحال کو ایندھن فراہم کیا، آگ لگائی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ اس سارے طوفان میں نہ دیوبندی کو فتح حاصل ہوئی نہ بریلوی کو، نہ شیعہ جیتا اور نہ اہل حدیث۔ مسکراہٹ ان چہروں پر ہے، رقص کناں وہ لوگ ہیں جو مدتوں سے یہ خواہش دل میں دبائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کو اللہ، اس کے رسولؐ اور عقائد سے برگشتہ کیا جائے۔ یہ لوگ ہیں جو اس مواد کو اکٹھا کرتے ہیں، کبھی کالم کی صورت پروتے ہیں اور کبھی کسی ٹاک شو میں دھینگا مشتی کرواتے ہیں۔

    لوگ سوال کرتے ہیں، حل کیا ہے! جس نے درد دیا ہے وہی دوا دے گا۔، اس امت کے تمام علماء کو اکٹھا ہونا پڑے گا اور ان سب لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا جن کی نفرت پر مبنی تقریریں اور مواد ہمارے درمیان موجود ہے اور ایسے سارے مواد، سی ڈیز اور کیسٹوں کو سر عام جلانا ہوگا، ورنہ اہل نظر مسجدوں اور امام بارگاہوں میں جبہّ و دستار اور عمامے خون سے رنگین دیکھ رہے ہیں ۔

  • فرقہ واریت اور ہماری الجھتی گتھیاں – عبدالمتین

    فرقہ واریت اور ہماری الجھتی گتھیاں – عبدالمتین

    فرقہ واریت ایک ایسا زہر ہے جس کا تریاق تقریباً سب ہی کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی اس کارخیر میں بھرپور شریک رہتے ہیں جو خود براہ راست اس مرض کا شکار ہیں. جب کبھی فرقہ واریت کے اجزائے ترکیبی کو زیر بحث لایا جاتا ہے تو ہمارا رویہ کچھ یوں ہوتا ہے جیسے ہمیں اس مرض کی الف ب تک نہیں پتا اور اس کے بعد جب ہمارے ہی کرتوتوں کے نتیجہ میں فرقہ واریت اپنا کام کر جاتی ہے تو ہم کچھ اس انداز سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں جس کی داد دیے بنا ہمارے کمالات کی داستان ادھوری رہ جاتی ہے۔

    اس فتنہ سے بیزار کچھ امت کا درد رکھنے والے اس کے حل کی یہ تجویز دیتے دکھائے دیتے ہیں کہ ہمیں ہر قسم کی مسلکی جماعت سے کلیتا علیحدگی اختیار کرنی ہوگی. یہ نکتہ اپنے ظاہری اعتبار سے بہت ہی کارگر اور دل کو چھوتا محسوس ہوتا ہے لیکن ذرا نتیجہ خیزی کی طرف آئیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر مکاتب فکر کے حامل افراد رہتے ہوں، وہاں ایک ایسی جماعت کی اٹھان ہوتی ہے تو اسے ایک حریف کے طور پر لیا جائے گا اور یہ اقدام فقط کشمکش اور اضطراب کا باعث ہی بن سکے گا اور بس۔

    اسی طرح کچھ مصلحین فرقہ واریت کا حل اس صورت کو گردانتے ہیں کہ ہر کس و ناکس وہی موقف اپنائے جو یہ صاحب یا فرقہ پرست اپنائے ہوئے ہیں مثلاً ایک بریلوی یہ کہہ کر فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہ رہا ہے کہ سب کے سب لوگ دعوت اسلامی کے معتقد بن جائیں، اسی طرح ایک دیوبندی یہ کہہ کر اس آگ کو بجھانے کی سعی کر رہا ہے کہ تمام ہی لوگ تبلیغ دین کے لیے رائےونڈ کا رخ کریں اور ایک اہل حدیث یہ کہتے ہوئے کہ سب کے سب رفع یدین کو ارفع و اعلیٰ سمجھیں۔ مذکورہ قسم کی تگ و دو فرقہ واریت کو مزید چار چاند تو لگا سکتی ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں کیونکہ جس قسم کے نعروں سے ہم یہ کام کرنا چاہ رہے ہیں ان کی گونج بسم اللہ کے گنبد تک ہی محدود ہوسکتی ہے، اس سے آگے نہیں، جبکہ ضرورت اس صدا کی ہے جس سے عالم کفر کے دل دہل جائیں اور وہ اپنے آپ کو سمیٹنے کی سی صورت اپنالیں ۔

    سو لازم ہے کہ ہم ممکنات کی دنیا میں قدم رکھ کر ان مسائل کا حقیقی تجزیہ کریں اور ابتداء اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنی اس بیٹھک سے کریں جس میں ہم اپنے خیالات کا اظہار برملا کرتے رہتے ہیں، کیونکہ فرقہ واریت کا سیلاب اپنے آپ ہی نہیں آیا، یہ ان کاروائیوں کے سبب آیا ہے جو ہم اتحاد کے بند کو توڑنے کے لیے کرتے آرہے ہیں اور جب وہ بند ٹوٹ کر بہنے لگتا ہے تو ہم اپنی چھوٹی چھوٹی کشتیاں لگا کر ایک دوسرے پر الزام تھوپ رہے ہوتے ہیں۔

  • فقہ میں برصغیری مزاج کا ستم – فضل ہادی حسن

    فقہ میں برصغیری مزاج کا ستم – فضل ہادی حسن

    فضل ہادی حسن برصغیر میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی خدمات کے سب معترف ہیں. ان کے افکار کو قرآن وحدیث کے علوم کے منبع اور مصدر و مرجع کا مقام حاصل ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں برصغیر کا خطہ بڑا ظالم ثابت ہوا بالخصوص دینی تعلیم و تعلّم کے حوالے سے۔
    اول:
    مسلک احناف کو دو دھڑوں میں تقسیم کرکے علمائے احناف کے ساتھ ظلم کیا گیا۔ ایک طرف مشربی و مسلکی مسائل پر توجہ زیادہ ہونے لگی تو دوسری طرف فقہ المقارن برائے نام اور ایک تذکرہ تک محدود ہونے کی وجہ سے اختلافی مسائل میں اعتدال مفقود اور سختی نمایاں ہوگئی ۔
    دوم:
    علمائے احناف کی دیوبندیت اور بریلویت میں تقسیم سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وسعت پیدا ہوتی (فقہ و تنقیح، مسائل، رویہ ومزاج میں ) جس طرح مذاہب اربعہ کے وجود سے دینِ اسلام کی وسعت اور آفاقیت نمایاں ہوتی ہے، مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور صورتحال سب کے سامنے ہے. برصغیر کے اس فقہی و مشرَبی مزاج نے وسعت تو دور کی بات، ہر مسئلہ کو محدود، بےلچک اور ذہنوں کو مقید و محصور کرکے جہاں انھیں مسلکی طوق پہنایا وہیں تنگ نظری اور متشددانہ سوچ کا باعث بھی بنا۔
    سوم:
    علمائے احناف اور فقہ حنفی کے ساتھ اہل حدیث اور اہل تشیع بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اس مزاج نے انہیں بھی متاثر کیا اور وہ بھی تنگ نظری اور بعض فقہی آراء میں حد درجہ غلو کا شکار رہے ہیں ۔

    اس کا مطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ من جملہ یہ سارے مکاتب فکر اور اس کے پیروکار اس خاص بر صغیری مزاج کے شکار ہوئے ہیں۔ بلکہ ہر فقہ و مشرب سے تعلق رکھنے والوں میں معتدل اور فقہ حنفی / مکتب اہل حدیث / اہل تشیع کے اصل وارث اور پیروکار موجود ہیں۔
    جس طرح آغاز میں ذکر کیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ کی خدمات کا اہل برصغیر کھبی انکار نہیں کر سکتے، ہر فقہ و مسلک کے پیروکار ان کو اپنا امام اور سند مانتے ہیں۔ اور اسی سند کو ہی قابل فخر و غرور اور علم و فضل کا آلہ سمجھا جانے لگا ہے۔
    (( برصغیر کے احناف اور فقہ حنفی کی تقسیم کا تنقیدی جائزہ ))

  • لمحۂ فکریہ کی رسوائی – محمد دین جوہر

    لمحۂ فکریہ کی رسوائی – محمد دین جوہر

    محمد دین جوہر ذہن اور تاریخ ہم قدم ہو تو لمحۂ فکریہ تارِ حریرِ دو رنگ ہے۔ جب تاریخ کوئے ملامت بن جائے اور ذہن کھانچہ، تو لمحۂ فکریہ سگِ آوارہ اور سنگِ باراں کے خوف سے اُدھر نہیں آتا۔ ہم نے تاریخ کے کوئے ملامت میں اسے ایک استہزائیہ کلیشے بنا دیا ہے۔ ایسی رسوائی پہ بھلا یہ کیوں آئے؟ اور اگر آئے بھی تو کیا لائے؟ لمحۂ فکریہ اب جلاوطن ہے، لیکن تاریخ کے اسی کوئے ملامت میں زندگی فیصلہ در فیصلہ روبرو تو ہے۔ سوچنا تو موقوف ہو چکا، لیکن فیصلے قرض خواہوں کی طرح درپے آزار ہیں، ان کا کیا کریں گے؟ ہم نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ:
    (۱)۔ کیا بریلویوں کو ”مشرک“ قرار دینا ضروری ہے یا سیکولر فکر کا سامنا کرنا زیادہ اہم ہے جو ہمارے رہے سہے معاشرے کی مذہبی بنیادوں ہی کو کھود رہی ہے؟
    (۲)۔ کیا دیوبندیوں کو ”گستاخ“ قرار دینا زیادہ ضروری ہے یا لبرل اباحیت پسندی کا مقابلہ کرنا زیادہ مطلوب ہے جو ہمارے معاشرے میں باقی ماندہ دینی ذہن اور کردار کو چٹ کر رہی ہے؟
    (۳)۔ کیا اہل حدیث کو ”کافر“ قرار دینا زیادہ ضروری ہے یا الحاد اور بے دینی کے سامنے کھڑے ہونا زیادہ ضروری ہے جو ہمارے رہے سہے علوم کو بھی مٹائے جاتے ہیں؟

    ان امور پر فیصلہ کرنا موجودہ حالات میں ہماری ملی بقا کی شرط اول ہے۔ فرقہ واریت ہماری دو صدیاں کھا چکی ہے، اسے اور کتنی صدیاں دان کرنی ہیں؟ فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھانے کو اب ہمارے پاس کیا رہ گیا ہے؟ اگر ہمارا دل ابھی بھرا نہیں، تو اپنے توشہ دان کو دیکھ لینے میں کیا حرج ہے؟ ان دو صدیوں میں ہماری فرقہ وارانہ جھک جھک ہمارا دماغ چاٹ گئی ہے، دل کی جگہ سل رکھ دی ہے، اور ہم کوئی علمی اور فکری بات کرنے کے بھی قابل نہیں رہ گئے ہیں۔ فرقہ واریت نے ہماری دینی روایت کے غیر فرقہ وارانہ اور تہذیبی پہلوؤں کو اس حد تک فنا کر دیا ہے کہ وہ اب معدوم ہونے کو ہیں۔ فرقہ وارانہ ذہن نے ایک طرف اسلام کی تہذیبی معنویت کو مجروح کیا ہے، تو دوسری طرف عصری دنیا کو دیکھنے میں بھی حجاب بن گیا ہے۔ ہمارا فیصلہ ابھی تک فرقہ واریت کے حق میں ہے، اور ہم اس پر نظرثانی کے تیار نہیں رہے، اور بتدریج اس کی صلاحیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

    ایک اور فیصلہ بھی ہماری توجہ کا متقاضی ہے کہ ہمارے معاشرے اور کلچر میں سوچ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کیا اپنے کلچر میں ہم نے اس کی گنجائش باقی رہنے دی ہے یا نہیں؟ کیونکہ ثقہ علوم کی طرف واپسی کے بغیر فرقہ واریت سے نجات ممکن نہیں۔ فرقہ واریت اجتماعی ذہن کی حالتِ انکار کا نتیجہ ہے، اور اس کا مداوا صرف سوچ اور ثقہ علوم سے ہی ممکن ہے۔ ہمارے ہاں جعلی علوم کی بھرمار نے فرقہ واریت سے نکلنے کے راستے مسدود کر دیے ہیں، اور ہم تکفیر کی دلدل میں گھر گئے ہیں۔ تکفیر کی سرگرمی ہمارے تمام علمی اور مذہبی داعیات اور کاموں پر مکمل طور پر غالب آ چکی ہے۔ فرقہ واریت روایتِ علم کی نراجیت ہے جو جلد یا بدیر سماجی اور سیاسی نراجیت میں ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔

    تہذیبی شکست اور سیاسی مغلوبیت کی صورت حال میں اس وقت سیکولر فکر اور کلچر، لبرل طرز زندگی اور سماجی رویے، اور دین بیزاری اور الحاد سونامی کی طرح مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ اور ہماری زیادہ تر مذہبی اور نام نہاد ”علمی“ دلچسپی اور سرگرمی ایک دوسرے کو ”مشرک“، ”گستاخ“ اور ”کافر“ قرار دینے میں کھپ گئی ہے۔ فرقہ واریت کی وبا سے ہماری آنکھیں مندی جاتی ہیں، دماغ شل ہیں، ارادہ معطل ہے اور دل مردہ ہیں۔ فرقہ واریت اس وقت ہماری زندہ اور واقعاتی مذہبی روایت ہے۔ ہمارا غالب مذہبی ڈسکورس فرقہ واریت اور اس کے نتائج میں پیدا ہونے والی تکفیریت ہے جو علی الاطلاق مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کی پہچان بن گئی ہے۔ فرقہ واریت تاریخ سے حالت انکار میں پیدا ہوتی ہے، اور شدید ترین ثقافتی اور فکری داخلیت رکھتی ہے۔

    ہماری کلاسیکل دینی روایت میں عمل اور فتویٰ، اور عقیدہ اور علم جڑی ہوئی چیزیں تھیں، اور عقیدہ علم الکلام اور فلسفیانہ علوم کا موضوع تھا، یعنی فکر کا موضوع تھا، فتوے کا نہیں۔ عقیدے کی کلامی اور علمی بحث مکمل ہو لے تو کہیں ضمناً فتوے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب عقیدہ فتویٰ بازی میں گھرا ہوا ہے۔ جب عقیدے کی بحث فکری علوم میں قائم ہو کر جاری نہ رہ سکے، اور فتوے میں منتقل ہو جائے تو فرقہ واریت سامنے آتی ہے جو ایک لاینحل مسئلہ بن جاتی ہے۔ عقیدے کی تعبیرات و تشریحات، عقیدے کی فتوے میں توسیط، اور عقلی علوم کے خاتمے سے فرقہ واریت مذہب کے واحد ڈسکورس کے طور پر باقی رہ جاتی ہے، جس کا حتمی نتیجہ تکفیریت کے علاوہ کسی موقف میں سامنے نہیں آ سکتا۔ فرقہ واریت ہماری ذہنی پستی اور نفسی دنانیت کا اظہار نہیں ہے، اس کی واقعیت ہے۔ فرقہ واریت علمی اور فکری تشکیلات کا نام نہیں ہے، یہ مذہب سے جواز یافتہ نفرت کی سماجی اور ثقافتی تشکیل ہے۔ فرقہ واریت کی وجہ سے ہم بیک وقت روایت کی طرف ثمرآور واپسی اور عصری دنیا سے بامعنی تعلق سے محروم ہو چکے ہیں۔ ”احیائے اسلام“ کے سیاسی منصوبوں کی آڑ میں ہم نے ”احیائے علم“ کے امکانات ہی کا خاتمہ کر دیا، جس کی وجہ سے علم دشمنی ہمارے معاشرے اور کلچر کا جزو اعظم ہے۔ علم دشمنی کے خمیر سے اٹھائے گئے ”احیائے اسلام“ کے سیاسی منصوبوں نے فرقہ واریت کو زبردست تقویت دے کر اسے ہماری سیاسی اور سماجی شناخت بنا دیا ہے۔ لیکن ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ دنیا میں سیاسی احیا کا کوئی منصوبہ علمی احیا کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

    ہر معاشرے کے بڑے تہذیبی مظاہر میں سے ایک علم ہے، اور ہمعصر دنیا میں علمی سطح پر ہمارا واحد تہذیبی مظہر اب یہی فرقہ واریت اور تکفیریت ہے۔ اگر ہم فکر مغرب کے سامنے سپرانداز ہیں، سائنسی علم کے دریوزہ گر ہیں، اور مغربی کلچر اور لبرل طرز زندگی کا شکار ہیں تو یہ سب کچھ بلا وجہ نہیں۔ حملہ آور تہذیبی افکار کا مقابلہ صرف تہذیبی افکار ہی سے ہو سکتا ہے، اور تہذیبی سطح پر مذہبی علوم میں ہمارا کوئی غیر فرقہ وارانہ موقف باقی نہیں رہا۔ سیکولرزم، لبرلزم اور الحاد کا مقابلہ بریلوی، دیوبندی یا اہل حدیث بن کر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس پوزیشن پر کھڑے ہو کر یہ چیزیں دکھائی نہیں دیتیں، صرف فرقے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خطرات اس وقت نظر آتے ہیں جب گھر کی فصیلوں سے پرے غنیم کے لشکروں کو دیکھنے والی آنکھ باقی رہ گئی ہو۔ ہمارا تاریخی ادراک حق و باطل کے تناظر میں”کارزارِ کفر و دیں“ پر استوار ہے۔ ”کارزار کفر و دیں“ کا اکھاڑہ تاریخ ہے، گھر کا آنگن نہیں ہے۔ مذہب جدید دنیا کا مسئلہ نہیں رہا، اور اس نے ہمیں تاریخ سے بھی بے دخل کر دیا ہے۔ اب کفر و دیں کا کھیل ہم اپنے گھر آنگن میں کھیلتے ہیں، کیونکہ ہم اسے تاریخ میں دیکھنے دکھانے کا یارا نہیں رکھتے۔ چونکہ تاریخ بھی غنیم کی مٹھی میں ہے، اس لیے وہ بھی اوجھل ہے۔ لیکن ہم سوچتے ہیں کہ غنیم کی اس مٹھی میں ہمیں دینے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے، اس لیے وہ غنیم بھی نہیں لگتا، کوئی محسن ہی دکھائی دیتا ہے، اور اسی کی دریوزہ گری ہمارا کلچر ہے۔

    تہذیب مغرب کی طاقت، معیشت، علم اور کلچر کا ہر ریلا مسلمانوں کے لیے سامانِ فنا ہے۔ لیکن فرقہ پرست مسلمان کو ان سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس کو خطرہ دوسرے فرقے سے ہے۔ ان خطرات کا ادراک اس وقت ممکن ہے جب ہم مسلمان ہونے کی غیرفرقہ وارانہ معنویت سے واقف اور اس کے حامل ہوں۔ فرقہ پرست مذہبی آدمی تاریخ کو اور اس کے بطون میں گھات لگائے ہوئے خطرات کو دیکھنے کی آنکھ سے محروم ہوتا ہے۔ اس کے لیے سیکولرزم، لبرلزم، سرمایہ داری کلچر اور مغربی سیاسی غلبہ وغیرہ سب افسانوی باتیں ہیں۔ اور جو آدمی ان کا ذکر کرے وہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ یہ چیزیں اس کے حاشیۂ خیال میں بھی بار نہیں پاتیں۔ اور بسا اوقات ایسی باتوں کو ”خلاف اسلام“سرگرمی تصور کیا جاتا ہے۔ فرقہ پرست آدمی کے عمل اور ذہن کی دنیا میں سب سے بڑی حقیقت اس کے دوسرے ہم مذہب کی ”بد نیت“ اور ”بد عقیدہ“ ہے، جس کے بارے میں اس کا موقف پہلے سے طے شدہ ہے۔ فرقہ وارانہ مذہبی ذہن روئے ارض پر پھیلی ہوئی عصری دنیا کا کوئی فکری اور تہذیبی تصور قائم نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ دنیا بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے خانوں میں بٹی ہوئی نہیں ہے، اس لیے یہ موجود ہی نہیں ہے۔ چونکہ وہ علم اور تاریخ کی صرف فرقہ وارانہ معنویت سے واقف ہے، اور یہ سانچے جدید علوم اور جدید دنیا پر لاگو نہیں ہوتے، اس لیے اس کے نزدیک نہ وہ علوم موجود ہیں، اور نہ ہی دنیا موجود ہے۔ فرقہ وارانہ مذہبی ذہن اپنی علمی اور تاریخی مہمات فرقہ واریت میں رہتے ہوئے مکمل کر کے فتح کے شادیانے بجاتا اور سرخوشی سے معمور رہتا ہے۔

    فرقہ واریت کی اساس عقیدے کے قضیے کو فتوے سے حل کرنے کی کوشش سے فراہم ہوتی ہے۔ عقیدے کے قضیے کا اصل تناظر اشاعرہ اور معتزلہ کی علمی اور فکری جدلیات ہے، اور عصر حاضر میں اس کی توسیط کا ذریعہ بھی عقلی اور فکری علوم ہی ہو سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ فتوے سے حل نہیں ہو سکتا، اور پنچائتی اور سیاسی طریقے پر اسے حل کرنے کا کوششیں دراصل اسے دوام دینے کی تزویرات ہیں۔ اگر ہم نے اس مسئلے کو اپنے تہذیبی فکری تناظر میں رہ کر حل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو آج ہمیں داعش، تحریک طالبان، الشباب اور بوکو حرام کے ساتھ ساتھ داخلی فرقہ واریت کے عفریت کا سامنا نہ ہوتا۔

  • فرقہ واریت اور علما کی علمی و کتابی آرا کی اشاعت – ڈاکٹر محمد شہباز منج

    فرقہ واریت اور علما کی علمی و کتابی آرا کی اشاعت – ڈاکٹر محمد شہباز منج

    Exif_JPEG_420 ادارۂ امن و تعلیم اسلام آباد اور اقبال بین الاقوامی ادارہ براے تحقیق و مکالمہ کے زیراہتمام اسلام آباد اور نتھیا گلی میں 26تا 30 جولائی 2016ء کے دوران منعقدہ کانفرنس بعنوان ’’بین المسالک ہم آہنگی کا بیانیہ اور لائحۂ عمل‘‘، میں موضوع سے متعلق بہت سے اہم بحثیں ہوئیں۔ راقم نے بھی اپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا اور اس پانچ روزہ کانفرنس کے مباحثے اور مکالمے کا حصہ رہا (بعض اہم امور کے بارے میں ان شاء اللہ گاہے گاہے، کچھ مزید طالب علمانہ گزارشات پیش کی جائیں گی) ایک بحث یہ رہی کہ: علما کی علمی و کتابی باتوں یا فتووں کو عوام الناس میں نہیں آنا چاہیے؛ جب علمی باتیں مناظروں اور نیم خواندہ خطیبوں کے ہتھے چڑھتی ہیں، تو فرقہ واریت اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک اس طرح کی بات اہل علم کی نجی اور احباب کی محفلوں میں طنز و مزاح کے انداز میں کی گئی باتوں کی حد تک درست مانی جاسکتی ہے، لیکن تصانیف اور فتووں کو اس میں شامل کرنا ایک فضول و لا حاصل امر ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے، ان کی ذمہ داری اٹھانے سے بچنے اور خود کو یا دوسروں کو دھوکہ ینے کی کوشش بھی دکھائی دیتی ہے۔

    ذرا سوچیے! کیا تصانیف اور فتاویٰ کوئی خفیہ دستاویز ہوتی ہیں، جن کو عوام میں نہیں جانا چاہیے، یا کسی طریقے سے عام لوگوں کو ان تک رسائی سے روکا جا سکتا ہے؟ کیا دین ِ اسلام کا مزاج اس کو قبول کرتا ہے کہ علما کا علمی موقف اور ہو اور عوامی موقف اور، کتابوں میں وہ کچھ لکھیں اور عوام سے کچھ اور کہیں! مثلاً کتابوں میں لکھا ہو کہ ’’شیعہ کافر ہیں، وہ اس اس طرح سے صحابہ کرام کی گستاخی اور تحریف قرآن وغیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘، یا ’’دیوبندی کافر ہیں، وہ گستاخی رسولﷺ و آلِ رسول کے مرتکب ہیں۔‘‘، یا ’’بریلوی بدعتی اور مشرک ہیں۔‘‘ اور ان مواقف کے حق میں میں کتاب وسنت اور علماے سلف کی کتابوں سے دلائل پیش کیے گئے ہوں، اور جب آپ کے یہ مواقف عوام کی سطح پر آ کر تباہی کا باعث بنیں، تو آپ کہیں، ہمارا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ ہمارے لوگ دوسروں کو کافر کافر، یا بدعتی و گستاخ وغیرہ کہتے، اور ان سے لڑائیاں کرتے پھریں۔سوال یہ ہے کہ آپ نے جو موقف اختیار کیا تھا، وہ اسلام کا مطالبہ تھا یا نہیں؟ اگر وہ اسلام کا مطالبہ تھا، تو اس کو چھپانے اور ایک خاص حلقے تک محدود رکھنے کا آپ کے پاس شرعی و اخلاقی جواز کیا ہے؟ اگر وہ اسلام کا مطالبہ نہیں تھا، تو آپ کے پاس اسلام کے نام پر اسے کتاب اور فتوے کی شکل میں سامنے لانے کا کیا شرعی و اخلاقی جواز ہے؟ اگر یہ آپ کا ذاتی موقف تھا، اور شرع کی صحیح پوزیشن آپ پر اس معاملے میں واضح نہیں تھی، تو آپ نے اس پر کتاب کیوں لکھی؟ اگر آپ کا خیال یہ تھا کہ میں نے جو کتاب لکھی ہے، وہ صرف خاص لوگ پڑھ سکتے ہیں، عوام نہیں، تو کیا آپ نے کتاب چھاپتے ہوئے، اس کے سرورق پر اس کی وضاحت کی تھی؟ کیا اسلام کے نام پر چھپی ہوئی اس نوع کی کوئی کتاب ایسی بھی ہو سکتی ہے، جسے پڑھنے کے لیے بندے کو کسی باقاعدہ نصابی تعلیم و تربیت سے گزارنے کی شرط عائد کی جا سکے؟ نیز کیا ایسی کسی شرط کو ملحوظ خاطر رکھنا عملاً ممکن ہے؟ کتاب تو لوگ شائع ہی اس لیے کرتے ہیں کہ بات زیادہ سے زیادہ پھیلے اور وہ لوگ بھی اس سے آگاہ ہوں، جو قبل ازیں آگاہ نہیں تھے، سو کیا ایک موقف کو کتابی شکل میں شائع کر کے چھپایا جا سکتا ہے، بہ طور خاص بات کی نشر و اشاعت کے موجودہ تیز ترین اور وافر ترین ذرائع کے ہوتے ہوئے؟

    جناب عالی! آپ سے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ یہ بات دھوکہ کھانے یا دینے کے علاوہ کچھ نہیں کہ آپ کسی فرقے یا گروہ و افراد کے خلاف کتابیں لکھیں اور فتوے جاری فرمائیں اور جب ان کے خوف ناک نتائج سامنے آئیں، تو کھسیانے ہو رہیں کہ ہمارا مقصد یہ نہیں تھا! حق یہ ہے کہ ایسے فتووں اور کتابوں کی بنیاد پر جو قتل و غارت اور فساد ہو، اس سے ایسے مفتی اور مصنفین بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

    آپ واقعی مسلکی ہم آہنگی اور اتحاد کے خواہاں ہیں، تو ہمت کریں؛ اعلی ظرفی کا ثبوت دیں، اور وہ یوں کہ اگر آپ کی کوئی کتاب امت اور سوسائٹی میں تباہی و فساد کا سبب بنی ہو، اور آپ کو کسی موقع پر اس کا احساس ہوگیا ہو، تو اس سے برات کا اظہار کریں۔ اگر آپ نے یا آپ کے کسی بزرگ نے ایسا کوئی فتوی دیا یا کتاب لکھی تھی، اور پھر انھیں یا آپ کو احساس ہوگیا کہ ایسا کرنا درست نہیں تھا، تو ان بزرگوں کو یا ان کے بعد آپ کو، ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے، ان کے موقف سے برات کا اظہار فرمانا چاہیے۔اگر آپ ایسا نہیں کرتے توچند صورتیں ہوں گی: یا توآپ بھی اسی موقف کے قائل ہیں، اس صورت میں آپ کا درس اتحاد اور فرقہ واریت کی مخالفت اور مسلمانوں کو اس سے بچانے کی خواہش کا اظہار ، اس مقصد کے لیے منعقدہ ورکشاپس اور کانفرنسز میں شرکت ایک دکھاوا ہے، اور ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کا مصداق۔ یا آپ اس موقف کے قائل نہیں ہیں، اس صورت میں آپ کو اس سے برات کا اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے، اگر آپ قائل تو نہیں، لیکن اس سے برات کا اظہار بھی نہیں کرتے، تو بھی یہ دوغلا پن ہوگا، جو ایک عالم کو زیب نہیں دیتا۔

    علم میں ارتقا ہوتا رہتا ہے؛ آدمی اپنی آرا بدلتا رہتا ہے، ضروریاتِ زمانہ کا لحاظ دنیوی ہی نہیں دینی امور میں بھی بہت اہمیت کاحامل ہے، بہت سے فتوے ایک زمانے میں درست مانے گئے، اگلے زمانے میں ان کی تردید ہوگئی؛ ان سے الٹ فتوے سامنے آگئے۔ کیا ضروری ہے کہ وہ فتوے ، جن کا باعثِ فساد و مصیبت ہونا، آپ پر واضح ہوگیا، اسے آپ سینے سے لگائے رہیں۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ اس سے صاحب فتویٰ بزرگ کی مخالفت اور توہین ہوگی، تو یہ آپ کی علمیت نہیں، سطحیت کی علامت ہے. کسی کی رائے سے اختلاف کا یہ مقصد کبھی نہیں ہوتا کہ آپ اس کی توہین کے درپے ہیں، یا اس کو جہنم میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ (اگرچہ ، بد قسمتی سے ہمارے یہاں یہ رویہ عام پایا جاتا ہے؛ بزرگوں کی آرا اور فتووں کی تردید یا ان سے اختلاف کو ان کی توہین اور ان کی بزرگی و ورع کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔)

    مسلکی ہم آہنگی اور اتحاد کی بات کرنی ہے، تو کافرسازی پر مبنی فتووں اور کتابوں سے برات ضروری ہے۔ یہ مسئلہ نہیں کہ فلاں فرقے کے فلاں بزرگ نے دوسرے کے خلاف یہ لکھا، اگر وہ بزرگ خود یا اس مسلک کے بعد کے ذمہ دار اور مسلکی ہم آہنگی کے پرچارک اس سے الگ ہو جائیں، تو معاملے کی سنگینی کو کم کیا اور مسلکی ہم آہنگی کی طرف حقیقی قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔

    مذکورہ کانفرنس میں جب ایک شیعہ صاحب علم دوست نے مسلکی ہم آہنگی سے متعلق امام خمینی کے افکار پیش کیے، تو میں نے کہا کہ سنیوں کے بعض لوگ اپنی شدت پسندی کا ایک جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ امام خمینی نے صحابہ کرام اور امہات المونین سے متعلق نازیبا الفاظ لکھے ہیں۔ تو ان صاحب علم اور کانفرنس میں موجود دیگر شیعہ علما نے کہا کہ امام خمینی کی ’’کشف الاسرار‘‘ ان کی ابتدائی زندگی کی کتاب ہے، جس سے انھوں نے انقلاب کے بعد برات کا اظہار کیا اور اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا؛ اس کتاب پر ایران میں میں بھی پابندی ہے، یہ کتاب ایران میں آپ کو وہاں بھی نہیں ملے گی، جہاں امام خمینی کی تمام کتابیں اہتمام سے رکھی گئی ہیں۔ جب اس کے بعد کے ایڈیشنوں سے متعلق سوال ہوا، تو شیعہ دوستوں نے کہا کہ یہ کتاب پاکستان میں ’’سپاہ صحابہ‘‘ کی طرف سے چھاپی جاتی ہے، اور پتہ اصل نسخے کا دے دیا جاتا ہے، ورنہ ایران میں یہ کتاب نہیں چھپتی۔

    جب مولانا زاہد الراشدی نے مسلکی ہم آہنگی کے حوالے سے لیکچر دیا، تو میں نے ان سے سوال کرتے ہوئے کہا: شیعہ اہلِ علم نے ’’کشف الاسرار‘‘ سے برات کا اظہار کیا اور امام خمینی کے حوالے سے کہا کہ وہ اسے اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے تھے، اس سے واضح ہوا کہ سنجیدہ شیعہ علما کے ہاں اس بات کا احساس و ادراک ہے کہ اصحاب ثلاثہ یا دیگر صحابہ و امہات المومنین سے متعلق نازیبا الفاظ غلط اور قابل مذمت رویہ ہیں، اور اتحاد کی راہ میں رکاوٹ؛ سنجیدہ شیعہ علما کا یہ رویہ نہیں ہونا چاہیے، یا انھیں یہ زیب نہیں دیتا، تو کیا آپ (مولانا زاہد الراشدی) اپنے والد گرامی (دیوبندیوں میں نہایت ہی قابلِ احترام اور معتبر سمجھے جانے والے بزرگ مولانا سرفراز خان صفدر مرحوم) کی ’’ارشادالشیعہ‘‘ (جن میں شیعوں کی تکفیر کی گئی ہے) سے برات کا اظہار کرتے ہیں؟ مولانا نے جواب دیا، ہم تو ’’ارشادالشیعہ‘‘ کے بعد بھی اہلِ تشیع سے دستِ تعاون بڑھاتے آ رہے ہیں، اور مختلف اتحادوں میں ان کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ’’سیاسی‘‘ نوعیت کا جواب تھا، جس سے یہ مطلب لینا ممکن نہیں تھا کہ مولانا زاہدالراشدی ’’ارشاد الشیعہ‘‘ میں اپنے والد گرامی کے موقف سے متفق نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لیکچر کے بعد میں مولانا زاہد الراشدی کو الوداع کہنے اور ملنے کےلیے ہال سے باہر آیا اور چلتے چلتے ان سے کہا کہ آپ نے میرے سوال کا جو جواب دیا ہے، وہ اہلِ تشیع سے متعلق آپ کی فراخ دلی کا ثبوت ہے، اور ازراہ تفنن زیر بحث معاملے میں ان کے والد صاحب کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ’’ارشادالشیعہ‘‘ کے باوجود اہل تشیع سے قربت و تعلق کی بات کر کے گویا فرما دیا کہ:’’مات المفتی مات الفتوی‘‘ تو مولانا راشدی نےفرمایا: نہیں نہیں، میں نے یہ نہیں کہا۔ تو میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا: آپ نے نہیں کہا، لیکن میں نے اخذ کر لیا۔

    لطیفہ اور مزاح اپنی جگہ، تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں سے برملا اختلاف کی ہمت نہیں رکھتے، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اس رویے کے اثرات نہ ہوں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ آپ ایک طرف مسلکی ہم آہنگی کی کانفرنسوں میں ایک گروہ کو اپنے مذہب کا ایک فرقہ کہیں اور اپنے علمی اور کتابی موقف میں اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں۔ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علماے کرام اپنے عوامی طبقے میں اپنی مقبولیت کھونے کے ڈر سے اس موقف کا بھی اظہار نہیں کرتے، جس کے وہ خود قائل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس نوعیت کے سوالات میں واضح طور پر دفاعی نظر آتے اور ’’سیاسی‘‘ بیانات دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • ٹیکسی ڈرائیور اور مولانا طارق جمیل – محمد بلال خان

    ٹیکسی ڈرائیور اور مولانا طارق جمیل – محمد بلال خان

    محمد بلال خان کچھ دیر قبل والد گرامی کو ڈائیوو اڈے چھوڑنے جارہا تھا، ٹیکسی لی، بیٹھتے ہی کچھ دیر بعد ڈرائیور نے بات چیت شروع کی، والد صاحب مزاجاً کم گو ہیں اس لیے ڈارئیور کے کچھ سوالات کے مختصر جواب دیتے رہے، ڈائیور نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے تو بابا جی نے ایبٹ آباد کا بتایا، کہنے لگا کہ میں بھی ایبٹ آباد کے نواحی علاقے علی آباد سے ہوں۔ میں اور بابا نے اپنی زبان میں کوئی بات چیت کی تو ڈرائیور نے فوراً کان کھڑے کرلیے اور کہنے لگا کہ آپ گلگتی زبان تو نہیں بول رہے، میں نے کہا آپ درست سمجھے ہیں، کہنے لگا کہ دس بارہ سال سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کئی گلگتی ملے، اس لیے زبان کا اندازہ ہوا. ڈرائیور کو میں نے بتایا کہ علی آباد گیا ہوا ہوں تو وہ بہت خوش ہوا، دراصل علی آباد ایبٹ آباد شہر سے میلوں دور کشمیر اور ایبٹ آباد کو ملانے والے کوہالہ پل کے پاس لگ بھگ دو ہزار فٹ بلند پہاڑی پر واقع خوبصورت ترین اور ٹھنڈا علاقہ ہے. 2015ء میں تبلیغی چلے کے دوران ہماری ابتدائی تشکیل علی آباد ہوئی تھی.

    تبلیغی جماعت کا سن کر ڈرائیور کہنے لگا کہ میں پکا بریلوی المسلک ہوں، ایک عمر تک تبلیغیوں، دیوبندیوں اور وہابیوں سے بلا کی نفرت کرتا تھا، اپنی مجالس میں ان کے خلاف تقاریر سن سن کر نفرت میں اضافہ ہوتا رہتا۔ مگر میں سوچ بچار اور غور و فکر کرنے والا اور بنیادی دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوں، اور اب فرقہ واریت سے متنفر ہوچکا ہوں، جس کا سب سے بڑا سہرا مولانا طارق جمیل کو جاتا ہے. دو سال سے مولانا طارق جمیل کو سن رہا ہوں، ایک مقام پر بھی اس شخص نے نفرت نہیں سکھائی، میں اپنے پیر و مرشد کی طرح طارق جمیل صاحب کا بھی شیدائی ہوں۔ اس نے بتایا کہ میرا بڑا بھائی دیوبندی ہے، میں بریلوی ہوں، ایک گھر میں رہتے ہیں، وہ ختم پڑھنے اور گیارہویں چالیسویں کا قائل نہیں، مگر مسلکی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کو کبھی معیوب خیال نہیں کیا، مگر یہ فرقہ کی نفرت اس قدر شدید ہے کہ مجھ سا درمیانی سطح کا مسلمان انہی وجوہات کی بنیاد پر دین اور دینداروں سے بیزار ہو جاتا ہے.

    والد محترم دیوبندی عالم ہونے کے باوجود فروعی اختلافات کی بنیاد پر فرقہ بندی کو پسند نہیں کرتے، ڈرائیور سے کہنے لگے کہ ایک ایک مسلک میں چھ چھ فرقے ہونا صرف اور صرف چند مولوی نما فسادیوں کے پیٹ کا مسئلہ ہے، اور لیڈری و رہبری کا شوق چند علمائے سو کو لے ڈوبا ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی آپسی نفرت میں پھیلاؤ زیادہ آیا ہے. ڈرائیور کچھ دیر خاموش رہا، پھر کہنے لگا کہ آپ دعا کریں اللہ مجھے بھی ان تبلیغ والوں کی طرح نرم دل، خدمت گزار اور دین کی دعوت دینے والا بنائے، انہیں جتنی بھی گالم گلوچ کرو، اتنی ہی محبت سے دین کی دعوت دیتے ہیں، یہی چیز مجھے گھائل کرتی ہے۔

    کاش کہ ہر مسلک میں مولانا طارق جمیل اور مفتی تقی عثمانی جیسے دیوبندی، ثاقب رضا مصطفائی اور مفتی منیب الرحمٰن جیسے بریلوی اور علامہ احسان الہیٰ ظہیر شہید اور ڈاکٹر ذاکر نائک جیسے اہلحدیث ہوں، جو فرقہ نہیں دین سکھاتے ہوں، نفرت نہیں محبت کا درس دیتے ہوں، انتہا پسندی نہیں اعتدال سکھاتے ہوں تو ہر جانب کس قدر خوشیاں، محبتیں، پیار اور بھائی چارہ ہو۔ مولانا طارق جمیل کی محبتوں کے چرچے سنے، ان کے بیانات کے شیدائی ہر مسلک میں دیکھے، ہر مقام پر ان کی محبت میں ہر طبقے کے افراد کو گرفتار پایا، اگرچہ مولانا طارق جمیل کی بہت سی باتوں سے مجھے اور آپ کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے، مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ ایک ایسا فرد ہے جو فنا فی اللہ اور فنا فی الدین ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے دین کے مبلغین اور علمائے کرام کو ہمیشہ سلامت رکھے، جو امت کی اصلاح چاہتے ہیں۔ آمین