Tag: دین

  • ایان علی سے الیاس گھمن تک – ظفر عمران

    ایان علی سے الیاس گھمن تک – ظفر عمران

    ظفر عمران جب ایان علی کا ”رنگے ہاتھوں“ پکڑے جانے والا واقعہ سامنے آیا، تو مجھے علم ہوا، کہ ایان علی کوئی ماڈل ہے۔ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ ہمیں گریبان میں جھانکنے کا بہت شوق ہے؛ خاص طور پہ جب یہ گریبان کسی عورت کا ہو۔ سوشل میڈیا پہ تو جو غلاظت پھیلائی گئی، سو پھیلائی گئی، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھی خُوب مسالا چھڑکا۔ میں کوئی پارسا نہیں کہ کہوں میں کچھ بُرا نہیں دیکھتا، بُرا نہیں کہتا، بُرا نہیں سُنتا۔ آپ مجھے نارسا کہ لیں۔ بے خبر سمجھیے۔ مجھے پروپگنڈا سُننے، دیکھنے سے بالکل دل چسپی نہیں رہی۔

    ہمارے یہاں مخالفین یا سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی جو مہم چلائی جاتی ہے، ایان علی جیسے اسکینڈل اس کی مثال ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا، کہ سیاست دان خامیوں سے پاک ہیں، لیکن سیاست دان نہیں، تو کون ہے، جس کے ہاتھ صاف ہیں؟ (افواہوں کے مطابق سیاست دان کا مال لے جاتے) رنگے ہاتھوں پکڑی جانے والی کا چالان عدالت میں پیش کرتے چار پانچ یا شاید چھہ مہینے لگا دیے گئے۔ مقصد کیچڑ اچھالنا تھا، اچھالا گیا۔ کیچڑ اچھالنے کا وقفہ بڑھایا گیا۔ (افواہوں کے مطابق ”سیاست دان“ سے بارگینگ کے لیے پریشر بڑھایا گیا) ایسے میں جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک کی چار چار لگائی گئیں۔

    شوبز سے وابستہ خاتون تو ویسے بھی پبلک پراپرٹی ہوتی ہے۔ تماش بینوں کی نظر میں وہ کسی فاحشہ سے کم نہیں ہوتی۔ شوبز سے جڑے ہونے کی وجہ سے میں اتنا کہتا ہوں کہ اس میدان میں کام کرنے والے ویسے ہی ہیں، جیسے کسی اسکول، مدرسے، اسپتال، عدالت، پولِس، فوج، کھیل، اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے؛ کام کرنے والیاں۔ بہتان تراشنے والے تو اسکول کالج میں پڑھنے پڑھانے والیوں، اسپتال میں کام کرنے والیوں سے لے کر، ہر اس عورت مرد پہ انگلی اٹھاتے ہیں، جو اپنے گھر کا نہ ہو۔ ایان علی کو چھوڑیے، سوشل میڈیا پہ دیکھ لیجیے، غیر لڑکیوں کی تصویروں کو فوٹو شاپ سے کیسے کیسے ”سنوارا“ جاتا ہے۔ کیا دین دار، اور کیا بے دین؛ کسی کی تخصیص نہیں۔

    گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پہ الیاس گھمن نامی کسی شخص پر الزام لگایا گیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا، میں پارسا نہیں، نارسا ہوں؛ بے خبر کہ لیجیے، تو الیاس گھمن کون ہے، نہیں جانتا۔ میں نے کسی ایسی پوسٹ کو نہیں‌ پڑھا، لیکن ”نیوز فیڈ“ میں آدھا ادھورا، ایک سطر، دو سطر پہ نظر پڑتی رہی۔ اندازہ ہوا کہ یہ صاحب دین کے معلم مشہور ہیں، اور ان سے ایک دُنیا واقف ہے۔ کچھ دین دار دوستوں کے بیان نظر سے گزرے، جن کا خلاصہ یوں ہے، کہ کسی پر بنا ثبوت الزام نہیں لگانا چاہیے، کیوں کہ دین کا معاملہ ہے۔ اچھی بات ہے، کسی پہ ایسا الزام نہیں لگانا چاہیے، جس کے آپ گواہ نہیں، یا ثبوت نہ ہو؛ کیوں کہ قانون، اخلاق، اور دین اس کی اجازت نہیں دیتے۔ بہتان مت تراشیں، نشانہ الیاس گھمن نامی دین کا رکھوالا ہو، یا ایان علی ماڈل/اداکارہ۔

    دین کے معلمین نے ایان علی پہ لگاے جانے والے بہتانوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔ دین کے اساتذہ نے سیاست دانوں پر لگاے گئے بہتانوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔ کچھ نے ایسا کیا ہوگا، لیکن اکثریت کی بات ہو رہی ہے۔ کاش دین کے معلم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوتے، اور ایک دوسرے کا مقام طے کرنے کے بجائے اخلاق سنوارنے پہ توجہ دیتے۔ اس پہ زور ہوتا کہ اے دین دارو! مسٹر ٹین پرسینٹ کہتے ہو، تو ثبوت مہیا کرنا ہوگا، ورنہ یہ بہتان ہے، اور بہتان کا گناہ یہ، سزا یہ مقرر ہے۔ کسی مریم کو گھر سے بھاگتے نہیں دیکھا، کسی سیتا وائٹ کی بچی کے تم گواہ نہیں ہو، ثبوت نہیں ہے، تو خاموش رہو۔ جن کے پاس ثبوت ہے، انھیں بولنے دو۔ لیکن ایسا کب ہوا؛ نہیں‌ ہوا۔ ہوتا تو دین دلوں میں اترتا، فرقہ پرستی کی میل نہ جمتی؛ لیکن معلمین اخلاق کا وہ نمونہ نہ پیش کر سکے؛ ایسا بھی ہو سکتا ہے، اس میں میری بے خبری کا، نارسائی کا عمل دخل ہو۔

    صاحب! دین کے معلمین کو بہتان کی تشریح کرنا اب یاد آیا ہے، جب انگلی ان کی طرف اٹھی ہے؟۔ ایان علی، بے نظیر، آصف علی زرداری، مریم نواز، سیتا وائٹ عمران خان، شیخ رشید کے اسیکنڈل اور ڈھیروں نام، ان کی باری ان کا ایمان نہیں جاگا، تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اے معصوم دین دارو، یہ بات سچ ہے، کہ کسی پہ بہتان لگانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے، اگر آپ پر، آپ ہی کے متعلق، یا آپ کی عزیز ترین ہستی کے بارے میں بہتان کی ایسی ہی گٹھڑی رکھ دی جاے، تو آپ یہ بوجھ اٹھا کر کتنی دور تک جا سکیں گے؟۔ کیا آپ دین کی تعلیمات سے دور رہ کر دین دار کہلانا پسند کریں گے؟

    (ظفر عمران تمثیل نگار، ہدایت کار، پروڈیوسر ہیں.)

  • الحاد کیسے پھیلتا ہے؟ سوال کیا ہے، جواب کیا؟ عبدالسلام فیصل

    الحاد کیسے پھیلتا ہے؟ سوال کیا ہے، جواب کیا؟ عبدالسلام فیصل

    جب سے انسان پیدا ہوا ہے تب سے اس میں ایک صلاحیت پائی جاتی ہے جس کو ہم شک و شبہ، حیرت یا سوال کرنے کی صلاحیت کہتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے ایک بڑے ہجوم میں جس کی تعداد کم و بیش 7 ارب سے بھی زیادہ ہے اور ہر انسان کے پاس اپنا دماغ، اپنی سوچنے کی صلاحیت موجود ہے، یہ کیسے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کون سا انسان عقل و فہم میں بہتر اور خیر والا ہے، اور کون سا انسان عقل و فہم میں برائی والا یا شر والا ہے؟ یہاں پر لازم آئے گا کہ اختلاف جنم لے۔ لیکن یہ اختلاف ایک ایسے شخص کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ جو عقل و فہم کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، اور خود کو نمایاں رکھنے کی کوشش میں لوگوں کے سامنے ایسے سوالات رکھتا ہے جس کا کوئی سر ہو نہ پاؤں تو آپ کبھی بھی اس شخص کو کسی نتیجہ پر نہیں پائیں گے۔ اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

    ملحد آپ سے سوال کر سکتا ہے کہ اگر ’’اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے‘‘؟ تو انسان کو ’’ آنکھیں‘‘ سامنے کی جانب کیوں عطا کیں؟ ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے کیوں نہ عطا کیں؟ تاکہ وہ آ گے اور پیچھے دونوں جانب دیکھ سکتا؟
    اب اہل منطق یہ سوال اٹھائیں گے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ انسان کا آگے والا حصہ کون سا ہے اور پیچھے والا حصہ کون سا؟ پھر یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ اگر انسان کی ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے ہوگی تو لازم بات ہے کہ انسان کے ناک کا ایک سوراخ بھی پیچھے ہونا چاہیے تھا؟ تا کہ وہ جس طرف سے بھی کسی بدبو دار چیز کو دیکھتا تو اس کی طرف اسی سمت میں متوجہ ہوتاَ؟
    پھر یہ سوال کیا جائے گا کہ لازم آتا ہے کہ ’’انسان کے آگے اور پیچھے 2 منہ بھی ہونے چاہیے تھے؟‘‘ تاکہ وہ اپنی خوراک کو جس طرف کی آنکھ سے بھی دیکھتا اسی طرف سے اس کے خیر و شر یعنی وہ خوراک اس کے کھانے کے لیے درست ہے یا نہیں سمجھ کر کھانا دونوں جانب سے کھا سکتا؟ پھر یہ سوال بھی تو کیا جا سکتا ہے؟ گردن کیوں دی گئی؟ کیا صرف کھانا نگل لینے کے لیے دی گئی؟ نہیں بلکہ اس کو اردگرد کے ماحول کو دیکھنے کے لیے حرکت کی طاقت عطا کی گئی؟ کیا وجہ ہے کہ انسان کو ایک کان کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں بھی دو آنکھیں دی جاتیں تا کہ گردن کی حرکت کی حجت و علت ختم ہو جاتی۔ اور انسان کی یہ محتاجی ختم ہو جاتی؟
    نوٹ: آپ اندازہ کریں کہ ملحد کے ایک سوال نے کیسے کیسے سوالات کو جنم دیا۔ اور پھر تصوراتی طور پر اگر ان سوالات کو حقیقی تجزیہ سے عمل میں لایا جائے تو سوچیں کہ انسان اگر مندرجہ بالا خصوصیات کا مالک ہوتا تو کتنا بےڈھنگا اور بد صورت تصور ہوتا۔

    ملحد اس بات کے قطع نظر کہ انسانی آنکھیں 180 ڈگری میں اپنے سامنے کی طرف سے دیکھ سکتی ہیں اور گردن کے مڑنے سے انسان اپنے اردگرد 180 ڈگری اینگل کے وژن سے دیکھ سکتا ہے۔ انسان کا ’’نضام انہضام، نظام دماغ، نظام پیشاب‘‘ فطری طور پر آنکھوں والی جانب اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر پائی جانے والی تبدیلیوں کو محسوس کر سکے۔ پیٹ کا درد، گردوں کا درد، دل کا درد سب کچھ سامنے کی طرف ہی انسان کو محسوس ہوتا ہے۔ ہندؤں کے بگھوان کی مورتی کو دیکھیں جس کے 6 منہ یا 4 ہاتھ ہیں؟ کیا وہ ایک کامل تخلیق ہے؟ یا ہم یہ کیسے مان لیں کہ جو مورتی خدا ہونے کا دعویٰ کرتی ہو وہ اتنی بد صورت ہواور اس میں اتنی قدرت موجود نہ ہو کہ وہ دو ہاتھوں، ایک منہ، اور دو ٹانگوں کے ساتھ ہوتے ہوئے ہر کام کو بجا لائے؟ کیا خدا بدصورت بھی ہوتا ہے؟ معاذ اللہ، کیا دنیا میں ایسے انسان نہیں پائے جاتے جن کو ایک دکھائی دینے والی چیز اچھی اور دوسروں کو بری لگتی ہے؟ اس بات سے قطع نظر کہ وہ یہ بات مانتا ہے کہ انسان ایک حادثاتی کرشمہ ہے۔ لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس قدر پیچیدہ انتظام کسی خالق کے بنائے بغیر تخلیق پا ہی نہیں سکتا۔

    اہل مذہب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جو اعتراض آپ نے اہل مذہب اور خدا کے ماننے والوں پر کیا اسی کا اطلاق ہم آپ پر کرتے ہیں کہ انسان نے ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے بے شمار تبدیلیاں اپنے اندر دیکھیں. آخر کیا وجہ ہے کہ انسانی شعور ان تبدیلیوں پر قابو نہ پا سکا؟ یعنی ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا محتاج نہ رہتا؟ اور اپنی مرضی سے اپنے جسم کو ڈھال لیتا؟ اور جو سوال آج کے جدت پسند انسان کے ذہن میں پائے جا رہے ہیں وہی سوالوں کا حل انسانیت کے لیے خود پیش کرتا؟ ملحدین اس کا جواب کبھی بھی نہیں دے سکتے۔ حتیٰ کے قیامت آ جائے گی لیکن یہ لوگ شکوک و شبہات کی ایسی دلدل میں پھنسے رہیں گے اور موت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ یعنی سوالات کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا جائے جس سے نفس مسئلہ کی خوب اکھاڑ بچھاڑ ہو، اور ہر سوال سے کئی نقطے اور پہلو کھلتے چلے جائیں۔ پیچیدہ در پیچیدہ علم اس شخص کے حصے میں آئے جو دوسری جانب فریق مخالف کے پاس موجود نہ ہو۔ یہ وہ طریق کار ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے، اور اس نے دہریت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

    قارئین کرام! اگر انسان واقعی میں ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا حامل ہے تو آگ اس ماحول کا حصہ ہے، کیا وجہ ہے کہ ہندو ہزاروں سالوں سے انسان کو جلا رہے ہیں اور انسان جلتا جا رہا ہے؟ اگر واقعی جینیاتی تبدیلیاں انسان کی جسمانی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں، اور ابتدائی طور پر مادہ نے انسان کی پہلی حالت ہونے کا شرف حاصل کیا ہے اور ماحول سے چھپکلی، پھر ڈائینو سارس ، پھر بڑے دیوقامت بن مانس اور پھر بندروں کی شکل اختیار کر کے موجودہ انسانی شکل تک پہنچا ہے؟ تو لازم طور پر ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وقت کی رفتار انسان کو ایسا کرنے سے روک رہی ہے ورنہ ان تبدیلیوں پر اربوں سال نہ لگتے۔
    ہم ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ انسان کو دوڑنے سے سانس کیوں چڑھ جاتا ہے کیا یہ خامی نہیں؟ یا پھر یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انسانی آنکھ بھی تو اسی ماحول کی عطا کردہ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ انسانی آنکھ سورج کے نیچے یا سامنے کھڑے ہو کر اسے دیکھنے سے قاصر ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سوال کر دیا جائے کہ انسان یا مادہ کی میل اور فی میل سیکس کیوں تشکیل پائے؟ کیا وجہ ہے کہ جو ملحدین انسانیت کا نام لے لے کر عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے کی بات کرتے ہیں، یہ ماحول انسان کو صرف مرد رہنے دیتا یا پھر صرف عورت یعنی فی میل، آج کی یہ ہل چل جس میں عورت کے حقوق کے نام پر عورت کو جگہ جگہ ذلیل کیا جاتا ہے وہ نہ ہوتی؟

    کیا آپ یہ بات سمجھنے کو تیار ہیں کہ اگر دنیا میں صرف مرد ہی مرد پیدا ہوتے اور مرد ہی میں بچہ جننے کی طاقت ہوتی تو جنگوں میں لڑنے والے حاملہ مردوں کو تلواروں، گولیوں اور دوسرے ہتھیاروں سے جب قتل کیا جاتا تو کتنے مرد اولاد سے محروم ہو جاتے؟ کیا ملحد بتا سکتے ہیں کہ مردوں کو کیا کہا جاتا؟ ماں یا باپ؟ ملحدین اگر بیس سوال کر سکتے ہیں تو یقین مانیں کہ ان کے خلاف بیس ہزار سوال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ ان کے دماغ کو منتشر کر دیا جاتا ہے۔ ملحد کا کوئی سوال آپ کو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتا جبکہ مذہب آپ کو کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچا دیتا ہے۔

    مثلاً: ملحدین آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ’’ہم آپ کے نبی محمد ﷺ کو نہیں مانتے کیونکہ یہ سب قصے کہانیاں ہیں (معاذاللہ )، تاریخ میں کسی محمد ﷺ کا یا عیسی علیہ السلام کا کوئی وجود نہ تھا۔ تو اہل مذہب جواب دیں گے کہ اللہ کے انبیاء کو دیکھنے والی ایک بہت بڑی جماعت موجود تھی۔ محمد ﷺ کو دیکھنے والے ایک لاکھ سے زائد مسلمان صحابہ رضی اللہ عنھم موجود تھے، جن سے ان کے لاکھوں تابعین اور تبع تابعین نے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے نبی بنایا۔ ان کے خاندانوں اور ان کا سلسلہ نسب موجود ہے۔ آج بھی ان کی اولادیں موجود ہیں۔ جن سے تاریخ کی ضمانت لی جاتی ہے۔
    جبکہ ملحدین کے پاس اپنی تاریخ کا کوئی بھی پہلو محفوظ نہیں۔ وہ نہیں بتا سکتے کہ انسان نے سب سے پہلے کیا الفاظ بولے ؟ وہ نہیں بتا سکتے کہ ان الفاظ کو سننے والے کتنے تھے؟ یا تھے بھی یا نہیں؟ ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ ان میں کتنے میل اور کتنے فی میل تھے؟ انہوں نے علم کی ترسیل کس طرح کی، کوئی حتمی جواب موجود نہیں؟ سب سے پہلے جس انسان نے لباس پہنا اس کا کیا نام تھا؟ سب سے پہلے جس انسان نے آگ جلائی وہ کون تھا؟ یا کس انسان نے کس انسان کا نام رکھا؟
    نوٹ : یہ موازنہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے خیر و شر کو سمجھنے کی ایک مثال ہے۔
    یعنی کوئی بھی ملحد جو دین کو نہیں مانتا وہ آپ کو کسی نتیجہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن مذاہب نتیجہ خیز ہوتے ہیں اور دین اسلام نے مسلمانوں کو جن نتائج سے آگاہ کر دیا ہے اس کی مثال کسی مذہب میں موجود نہیں۔

    مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ نے کائنات کی تخلیق سے 50 ہزار سال پہلے تقدیر یعنی پلان مرتب کیا۔ پھر کائنات اور اس میں موجود اشیاء کی تخلیق کی۔ پہلا انسان آدم تھا، وہ ایک مرد تھا، اس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السلام کے ذریعے شیطان اور شیطان کے ذریعے آدم علیہ السلام کو آزمایا گیا۔ پھر ان کو جنت میں رکھا گیا۔ جنت میں اللہ نے ان کو ایک ابتلاء یا آزمائش میں مبتلا کیا۔ آدم سب سے پہلے بولے۔ آدم علیہ السلام کو علم دیا گیا۔ آدم علیہ السلام کو کثیر اولاد حوا علیھا السلام کے ذریعے عطا کی گئی۔ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السلام کو زمین میں موجود تین رنگوں کی مٹی سے پیدا کیا گیا۔ یعنی سرخ، سیاہ اور سفید ۔ آدم علیہ السلام سے اب تک کے لوگ سب اسی ابتلاء میں مبتلا ہیں۔ موت اس لیے دی جاتی ہے کہ انسان کے اعمال کا محاسبہ آخرت میں دیا جا سکے۔ قیامت قائم ہو۔ سب سے پہلی موت آدم کی اولاد کو ہی آئی۔ سب سے پہلے آدم کی اولاد ہی کو دفنایا گیا۔ انسان کو اس امتحان کا نصاب دیا گیا۔ وہ دین اسلام ہے۔ انسان کو اسی پر عمل پیرا ہو کر اللہ سے اپنے گناہوں سے نجات حاصل کرنی ہے۔ یہ ہے وہ نتیجہ جس تک دین رہنمائی کرتا ہے۔

    ملحد یہ سوال بھی کرتا ہے کہ انسان کو آگ میں کیوں ڈالا جائے گا، اگر آگ ہی میں ڈالنا تھا تو پیدا کیوں کیا۔ جبکہ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو وہ یہ سوال تب کرتے ہیں جب انہوں نے دین کی طرف سے پیش کردہ فلسفہ آزمائش کو پس پشت ڈال دیا ہوتا ہے اور اس کے بارے میں کوئی ملحد کچھ بھی علم نہیں رکھتا۔
    ملحد آپ سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ اللہ نے عورت کے حیض کو پلید قرار دیا ہے، وہ عورت کو اس کے بغیر بھی تو پیدا کر سکتا تھا جبکہ یہی سوال ہم ماحول کو خدا ماننے والوں سے کر سکتے ہیں کہ آپ کا نظریہ حقیقت پر مبنی ہے تو اس مسئلہ پر انسان نے اپنے ارتقاء میں جن بری تبدیلیوں سے اپنے جسم میں اچھی تبدیلیاں پیدا کیں، اس میں عورت بھی حیض سے نجات حاصل کر لیتی۔ آج کا ملحد سائنس کا ڈنکا بجانے میں مگن ہے، میڈیکل سائنس پر فخر کرتا ہے لیکن اربوں سالوں سے موت جیسی بیماری پر آج تک قابو نہ پا سکا؟

    آپ جانتے ہیں کہ اگر انسان واقعی ماحول کا بیٹا ہوتا اور اپنے اندر کی تبدیلیوں کا مالک خود ہوتا تو آج یہ دنیا جس کے 7 براعظم ہیں، انسانوں کے جم غفیر کے لیے تھوڑی پڑ جاتی۔ جو انسان آج 5یا 10مرلہ کی زمین کے لیے ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے، وہ کتنا جھگڑالو ہوتا۔ افزائش نسل کے لیے جانوروں کی حد تک اپنی طاقت کا استعمال کرتا۔ ممکن ہے ماں ، باپ ، بیٹی اور بہن بھائی جیسے مقدس رشتے وجود میں نہ ہوتے۔ جو توازن موت نے انسان اور اس کی زندگی اور اس کے معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار تبدیلیوں کی وجہ سے قائم رکھا ہے، وہ زندہ انسانوں کا وہ ہجوم جو شاید ایک کے اوپر ایک رہتا۔ اور کائنات کتنی غیر متوازی ہوتی۔

    ملحدین کا طریقہ واردات علوم فلاسفہ کی بنیاد پر ہے۔ ’’فلسفہ‘‘ کا معنی ’’عقل و دانش‘‘ سے محبت ہے، لیکن فلسفہ کی کوئی جامع تعریف موجود نہیں ۔مسائل کی تحقیق کے نام پر دوسرے علوم کے ’’قوانین‘‘ اور ’’اصول و ضوابط‘‘ کا ناقدانہ انداز میں جائزہ لے کر اپنی مرضی کی تردید کر دینے کا نام ’’فلسفہ‘‘ ہے۔ فلسفہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’دلیل‘‘ کسی چیز کو نہیں مانتے۔ اگر آپ کسی فلسفی کو دلیل کے طور پر قرآن کی آیت یا رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو پیش کریں گے تو فوری طور پر دلیل کو ایک مغالطہ کہے گا۔ لیکن جب آپ سائنسی حوالے سے کسی بھی اصول پر دلیل مانگیں گے، وہ تجربہ کو مثال بنا کر دلیل مانے گا۔ فلسفیوں کا یہ انداز فکر ان پر کڑی تنقید کرتا ہے جیسے ’’تجزیاتی فلسفہ‘‘ جس میں اشیاء کے اجزاء کو سمجھ کر کل کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس میں بے شمار خامیاں ہیں، اور اس کو مندرجہ ذیل مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
    آپ کے سامنے قرآن کا ایک جز لکھ دیا جائے گا۔ [pullquote]ومکرو مکر اللہ واللہ خیر الماکرین[/pullquote]

    ملحداس آیت پر اعتراض کرے گا کہ اللہ قرآن میں خود کہہ رہا ہے کہ ’’ اور جو مکر کرے گا اللہ اس کے ساتھ مکر کرے گا اور اللہ بہتر مکر کرنے والا ہے.‘‘
    اس سے تو ثابت ہوا کہ اللہ مکر کر سکتا ہے بلکہ کرتا ہے، اس لیے اس قرآن میں جو بھی ہوگا اس کو ہم مکر بھی تسلیم کریں گے۔ اب ایک اہل دین’’اصول ترجمہ اور تفسیر‘‘ کو مدنظر رکھ کر سورۃ آل عمرآن کی اس آیت کا ’’سیاق و سباق‘‘ دیکھے گا۔ اس کے بعد لغوی اعتبار پر ’’مدعی معترض‘‘ کے پیش کردہ لفظ کا اصطلاحی معنی پیش کرے گا کہ عربی زبان میں ’’مکر‘‘ سے مراد تدبیر کرنا بھی ہے۔ پھر وہ اس آیت کے شان نزول کو بیان کرے گا۔ اس کے بعد سمجھائے گا کہ بنی اسرائیل کے مکر کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے قرآن میں اس آیت کو نازل کیا۔ اس کے بعد وہ اس آیت سے قبل اور بعد والی آیات پیش کر کے معاملہ صاف کر دے گا کہ بھائی یہ آیت تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی پر دلالت والی آیت سے قبل اللہ نے نازل فرمائی، اور معاملہ صاف ہو جائے گا۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ ملحدین سے ایسا سوال کر سکتے ہیں کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کے پاس ’’دین‘‘ کے علم میں ’’دین کی تاریخ‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ کیا اس کے پاس ’’اصول حدیث اور اصول تفسیر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ اور کیا اس کے پاس ’’عربی ادب اور گرامر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ جس سے یہ بات ثابت کی جا سکے کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کسی بھی مذہب یا دین جس کو ’’فلسفی‘‘ ایک کل کے طور پر مانتے ہیں اور اجزائے دین سے اپنی عقل کے تحت ’’کل‘‘ پر جو تجزیہ کرے گا وہ بالکل درست کرے گا؟ یہ ایک نہایت احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے۔

    فلسفی یا ملحدین دین کے ماننے والوں کے بد اعمال کو بنیاد بنا کر بطور حجت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بد قسمتی سے ایک عالم دین شراب پیتا ہے تو وہ کسی بھی دیندار کے سامنے یہ اعتراض رکھ سکتے ہیں کہ شراب کے حلال و حرام کا تصور بالکل غلط ہے۔ (معاذ اللہ ) کیونکہ میں نے ایک عالم کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ لیکن جب اس سے سوال کیا جائے گا کہ بھائی یہ بتاؤ؟ کیا اللہ نے دین اسلام میں شراب کو کسی جگہ بھی حلال کہا ہے تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی زنا کرتا ہے، ڈاکہ ڈالتا ہے، اور وہ نمازی بھی ہے تو شریعت نے کبھی اس کو نہ زنا کرنے کا حکم دیا ہے نہ ہی ڈاکہ ڈالنے کا۔ وہ اس کے اپنے نفس کی بد اعمالی ہے۔ اس کا تعلق کسی صورت دین سے نہیں ہے۔

    آج کے دور میں’’ملحدین‘‘ کے کام میں جتنی جدت موجود ہے، پہلے موجود نہ تھی۔ ملحدین عیسائیوں، قادیانیوں، منکرین حدیث، ہندوؤں، بدھ مت، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے کیے گئے اعتراضات کو جمع کرتے ہیں اور اس کو انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام زد عام کرتے ہیں۔ ان نظریات کو پھیلانے سے ملحدین کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کالج، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جو دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں، وہ ان کے ورغلاوے میں آ جاتے ہیں، اور آہستہ آہستہ دین سے مکمل دور ہو کر دہریے ہو جاتے ہیں۔ آج کی دہریت کو کیمونزم، سوشلزم، مارکس ازم، بدھ ازم، ہندو ازم جیسے نظریات کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ ایسے دہریوں کو ’’سیاسی فلسفی‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا کام صرف اور صرف اسلام کو نشانہ بنانا ہے۔ دینی ریاستوں میں رائج نظام کو بنیاد بنا کر اس کو بےجا ’’اسلام‘‘ پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً ’’ کرنل قذافی‘‘ نے اپنے ساتھ ’’خواتین گارڈ ز‘‘ رکھی تھیں۔ اب اس کو بنیاد بنا کر اسلام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ’’داعش‘‘ جیسی تنظیموں کو خود پروان چڑھاتے ہیں، اور ان سے مسلمانوں کا ہی قتل عام کروا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام ایک عدم برداشت اور دہشت گردی والا مذہب ہے۔ اسلام قتل و غارت کا درس دیتا ہے۔ میڈیا میں اربوں روپیہ انویسٹ کرتے ہیں، طالبان سے خود کش حملہ کی قبولیت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ اسلام نے کبھی کسی مسجد، کسی جلسہ یا جلوس یا کسی دوسری عبادت گاہ کو تباہ کرنے سے گریز کا حکم دیا ہے۔ لیکن اگر آپ ان ملحدین سے پوچھیں تو وہ تاریخ کی من گھڑت روایات بیان کرنے کے علاوہ کچھ جواب نہیں دے پاتے۔

    آج کے الحاد کو ’’تعلیمی فلسفہ‘‘ کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی یہ دیکھنے میں آیا کہ امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں ’’الحاد کیا ہے یا دہریت کیا ہے‘‘ کے عنوان سے کتب شامل کی گئی ہیں۔ اور یہ نچلی سطح پر سکولوں میں بھی رائج کی گئی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں ان کتب کو صرف روس اور چائنہ کے چند اداروں میں ہی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کا ایک انداز یہ دیکھنے کو ملا کہ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے تعلیمی بورڈ میں اسلام سے پھیلنے والی تعلیمات کو متشدد ثابت کیا گیا ہے۔ اور ایسی شخصیات جن کا تعلق صرف دین سے ہو اور خاص دین کی تعلیم دینا ان سے منسوب ہو ان شخصیات کے نام کتب نصاب سے نکال دیے گئے ہیں۔ جیسے پاکستان کی مثال لی جائے ’’خالدبن ولید‘‘ کا نام کتب نصاب سے نکالا گیا ’’ملالہ یوسفزئی‘‘ کا نام ڈال کر، اور ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا‘‘ کا نام نصاب سے نکالا گیا۔ ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کا نام نصاب میں ڈال دیا گیا۔ سورۃ الانفال، سورۃ الاحزاب جیسی سورتیں نصاب سے نکالی گئیں جس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ اس سے بچوں میں انتہا پسندی اور دہشتگردی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی کہ اس نصاب کو پڑھانے والے کیا یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ ساتھ ساتھ بچوں کی مثبت تربیت کو بھی مد نظر رکھیں کہ کل کو ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق کوئی منفی خیال نہ آئے۔

    چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے لیکن یہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں بہت بڑے بڑے مسائل پیدا کرتی ہیں۔ ایمانیات اور دینیات نفس میں نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ الحاد بندے میں تشکیک، شبہات اور غیرسنجیدگی، جلد بازی اور عدم ٹھہراؤ پیدا کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی ملحد اللہ کو نہیں مانتا، یہ بات سمجھ لیں کہ آپ جب بھی کسی ملحد سے بات کریں گے تو آپ کو اس میں خود پسندی سے زیادہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔
    اللہ مجھے اور آپ کو دین پر زندہ رکھے اور خاتمہ بالایمان فرمائے۔ آمین ۔

  • منفرد – ریاض علی خٹک

    منفرد – ریاض علی خٹک

    ریاض خٹک فضائے بسیط میں پھیلی اس وسیع کائنات میں، نظام شمسی کی جُھرمٹ میں تیسرے سیارے پر مشرق کی طرف ابھرتے سورج کو دیکھتے میں نے ہاتھ پھیلائے، اور سوچا میں زندہ ہوں اور میں منفرد ہوں. ایک طمانیت میری روح کو سرشار کرگئی.

    طلوع سحر جب سفیدی سے لالی اور لالی سے چمکتے روشن دن کی منزل پر تھا، تو شعور نے اپنے آس پاس دیکھا اور اپنے ہی جیسے ہم نفسوں کا عکس پایا، کیا ہم سب یکساں ہیں؟ یا ہر ایک منفرد ہے.

    دُنیا میں ہر طرف میرے جیسے ہم نفسوں کا عکس ہے، جتنی دیر کی روشنی اُس نے پائی اُتنی ہی دیر وہ منعکس ہوتا ہے. وہی دو آنکھیں, دو کان ناک منہ ہاتھ پیر، ہم سب یکساں ہی تو ہیں. پر اس یکسانیت میں ایک جیسے اجسام ہوتے بھی ہم الگ نظر آتے ہیں، ہر عکس کا اپنا ہی رنگ ہے، دو صنفوں میں تقسیم ان افراد میں کسی کی انگلیوں کی لکیریں دوسرے سے نہیں ملتیں، کسی کی آنکھ کی پُتلی کا نقش دوسرے سے یکساں نہیں، نہ کسی زبان کا نقش ملتا ہے.

    ایک جیسے ہوتے بھی ہم ایک نہیں، درد مشترک ہیں. درد زخم تکلیف، خوشی کی مسکراہٹ ہو کہ غم کا آنسو، ہم میں مشترک ہیں. مگر اس یکسانیت میں بھی ہم کسی کا درد سمجھ تو سکتے ہیں، اس کا درد لے نہیں سکتے.

    میرے جسم کی تکلیف پر آپ خوش ہو سکتے ہیں، آپ غمزدہ ہوسکتے ہیں، مگر آپ اس درد کا حصہ نہیں بن سکتے. ہمھارے احساسات مشترک ہیں مگر اس احساس کی کیفیت منفرد ہے.

    اس یکسانیت سے انفرادیت پر انسانیت کا نظام ایستادہ ہے. کسی کوہ و بیاباں میں پھتر پہاڑ سنگت نہیں دے سکتے، ذی روح چرند پرند دے سکتے ہیں. یہی چرند پرند اگر سنگت دے سکتے ہیں تو معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے، معاشرہ ہم نفسوں پر متشکل ہوتا ہے، جن کی ضروریات و خواہشات یکساں ہوتی ہیں.

    یہ معاشرہ انسانی طلب ہے، جو فرد سے خاندان محلہ گاؤں شہر سے ہوتا ملک و قوم تک وسیع تر ہوتا جاتا ہے. اس معاشرتی جوڑ کو قائم رکھنے واسطے اس منفرد انسان کو اس کے بنانے والے اللہ نے دین و مذہب دیا. دین ایک منفرد انسان کے احساسات و عمل کو ایک نظم دیتا ہے، اس نظم کی یکسانیت اس یکساں معاشرے کا جوڑ بنتا ہے. یہ جوڑ کیا ہے؟ یہ جوڑ اپنی انفرادیت پر دوسرے کی انفرادیت کو مسمار کرنے سے روکنا ہے. یہ وہ احساس ہے جو وہ حدود بتاتا ہے کہ کہاں تک آپ منفرد ہیں، اور کہاں سے دوسرے کی انفرادیت شروع ہوتی ہے. یہ باہمی احترام ہے. تسلیم کرنا ہے. تصدیق کرنا ہے.

    آئیں اس نظام کی، ان احساسات کی ترویج کریں، انہیں عام کریں کہ اس کے عام و تسلیم کرنے میں ہی انسانیت کی معراج ہے.

  • دین سے چڑ کیوں ہوتی ہے؟ قاضی عبدالرحمان

    دین سے چڑ کیوں ہوتی ہے؟ قاضی عبدالرحمان

    علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:
    براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
    ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں

    سفر لمبا ہو اور ریزرویشن نہ ہو تو ٹرین میں داخل ہوتے ہی پہلی فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح بیٹھنے کے لیے جگہ ملے. جگہ ملنے کے بعد دوسری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جگہ تھوڑی کشادہ ہو تاکہ سکون سے بیٹھا جاسکے. وہ بھی میسر آجائے تو خواہش ہوتی ہے کہ کہیں ونڈو سیٹ خالی ملے. چلیے وہ بھی مل گئی اور اب دل کی چاہت یہ ہے کہ آرام کے لیے جگہ بن جائے. یہ حرص و ہوس کا گراف کسی طرح قناعت پر مائل نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر وقت نعرہ ”ہل من مزید“ بلند کرتا ہے.

    یہی بات راقم کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایس ایس ہال میں محترم پروفیسر فراہیم صاحب نے دوسال قبل سمجھائی تھی. ان کی بات کو حافظہ کے اعتماد پر اپنے الفاظ میں نقل کرنے لگاہوں.
    ”انسان جب حاجات و ضروریات (Needs & Necessities) کی حد کو پھلانگتا ہے تو آرام وآسائش (Comforts & delights) کے علاقہ میں قدم رکھتا ہے. اسلام میں بنیادی ضروریات کی تکمیل کا درجہ فرض کا ہے جبکہ آرام وآسائش ناپسندیدہ ہے مگر قابل مواخذہ نہیں. جب آرام و آسائش پر بھی قانع نہیں ہوتا ہے تو تیسری منزل اسراف اور بہتات (Extravagance & excess) کی آتی ہے اور انسان حرام کاموں میں منہمک ہونے لگتا ہے. اب بھی اسے اگر رجوع کی توفیق نہ ہوئی تو وہ فاطر اور فطرت سے بغاوت کی اس منزل تک جا پہنچتا ہے جسے شہوات و لذات (Carnal desires & lust) کہتے ہیں. اب اسے دین کی ہر بات سے چڑ ہونے لگتی ہے. حرام در حرام کا مرتکب ہونے لگتاہے. اس کی پستی کی حد جانوروں تک کو شرمانے لگتی ہے. بالآخر وہ مرتد و ملحد ہو کر اسلام کے خلاف کمربستہ ہوجاتا ہے.

    یہ ہے حرص و ہوس کا وہ سفر جو دارین کے نقصان اور خسران کا سبب بن جاتا ہے. اسی لیے کہتے ہیں کہ ہم وقتا فوقتا اپنے آپ کا محاسبہ کرتے رہیں. روح جبریل کی آمیزش والے عشق کی عدالت میں گاہے گاہے حاضری دیتے رہا کریں، محض عقل پر بهروسہ نہ کریں، اس لیے کہ دنیا کی بڑی بڑی حماقتوں کے پیچھے اسی عقل کا ہاتھ ہے. عقل کا شجر بے ثمر ہے.

  • سنو صاحِب! ہمیں کچھ مت کہو – مولوی انوار حیدر تونسوی

    سنو صاحِب! ہمیں کچھ مت کہو – مولوی انوار حیدر تونسوی

    مولوی انوار حیدر المیہ یہ ہے کہ ہمارے بعض مسلمان دین کی تشریح غیردینی بنیاد پر کرتے ہیں. یہ احباب دینِ اسلام کو دیگر مذاہب کے قوانین، دیگر اقوام کے تمدن اور کسی دوسری سوسائٹی کے کلچر پر جانچنے کی مشق کرتے ہیں. جب دو متضاد تہذیبوں کا تقابل کیا جائےگا تب فرق تو لازم ہے مثلاً آپ ہندو تہذیب کا موازنہ جاپانی کلچر سے کریں گے تو یہ دونوں اپنی فی نفسہ خوبیوں کے باوجود ایک دوسرے سے متضاد ٹھہریں گے، پارسی رسومات کا موازنہ اسماعیلی رسومات سے کریں‌گے تو قُطبین کا فاصلہ لازم ٹھہرے گا، سیاہ و سفید کا تقابل کریں گے تو یہ دونوں بےزبان رنگ باہم مدغم نہ ہوں گے اور آپ کے نزدیک ضدی اور جھوٹے قرار پائیں گے. تقابل کے لیے بنیاد ایک ہونا لازم ہے. آپ دو اور تین کے عدد کو باہم ضرب دے سکتے ہیں مگر اِن کو کسی حرف کے ساتھہ ہرگز ضرب نہیں دے سکتے مثلاً پانچ ضرب الف. یہی حال اسلامی تہذیب اور غیرمذاہب کی تہذیب کے طرزِ زندگی کے تقابل کا ہے. تمام انسان مذہبی بنیادوں پر چند مشترکہ عقائد کے علاوہ تہذیب و اطوار اور رسوم و رواج میں کبھی ہم آہنگی حاصل نہیں کرسکتے یا تو آپ کو دوسرا طرز مکمل اختیار کرنا ہوگا یا اپنے پر ہی مکمل طور چلنا ہوگا.

    اسلام ایک مکمل دین ہے، محض عقائد و عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے جس کی بنیاد اللہ کا کلام اور پیغمبرِاسلام ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے، آپ اِس بنیاد کو چھوڑ تو سکتے ہیں مگر تبدیل نہیں کرسکتے. پیش آمدہ تمام معاملات و مسائل کو اِنہی دو بنیادوں پہ حل کرنا ہوگا، ہمہ قسم اندرونی خلفشار اور بیرونی مخالفت کے باوجود ایک کثیر تعداد کمیونٹی کا اِن مذکورہ دو بنیادوں پہ قائم رہتے ہوئے اپنی زندگی کو مکمل سہولتوں سے گذارنا اور مطمئن ہونا اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن و سنت سے حاصل تھیوری انسانی زندگی کے تمام مسائل کا بہتر اسلوب سے جواب دیتی اور انھیں حل کرسکتی ہے. اگر کسی مسلمان کی مطلوبہ ضروریات دین سے مہیا نہیں ہوتیں تو یقینی سی بات ہے کہ وہ اپنے دائرے اور ضرورت سے تجاوز کررہا ہے مثلاً آپ کی گنجائش دو گلاس پانی ہے اگر آپ چار گلاس پیئں گے تو یقیناً تکلیف ہوگی، آمدن سے زیادہ خرچ کریں گے تو پریشانی ہوگی، سو اپنی حد میں رہنا لازم ہے، اپنی راہ چلنا ضروری ہے. موٹروے پہ اپنی لین توڑ کے دوسری لین پہ جانے کی صورت میں آپ مجرم تصورٹھہرائے جاتے ہیں، جرمانہ لگتا ہے، اپنی لین میں چلنا ہوگا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ گاڑی زِگ زیگ دوڑانے لگ جائیں. یہی معاملہ دینِ اسلام کا ہے یہاں بھی اپنی لین میں رہنا ضروری ہے، جس نے سیدھا چلنا ہے اُس پہ لازم ہے کہ اپنی لین میں چلتا رہے، چنانچہ اسلام پسند ہر انٹرچینچ کو کراس کرنے کے بعد مسلسل اپنی ہی لین پہ آرہے ہیں.

    اگر کسی کو آج اعتراض یا خوف ہے کہ مذہبی طبقہ موجودہ سوسائٹی سے کٹ کے زندگی گزار رہا ہے تو بخدا وہ تسلی اور یقین رکھے کہ آئندہ صدی میں بھی یہ شکوہ برقرار ہوگا. دین بیزار لوگوں کو جس فکر پر جو اعتراض ہے، یہ فکر کسی کی خودساختہ نہیں ہے یہ تو منقولی ہے، منزل مِن اللہ ہے اور اِس فکر و اسلوب پر ہزار یا لاکھ نہیں کروڑوں لوگ خوش باش ہیں اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں، اُن کو وقت کے ساتھ بدلتی طبیعتوں سے مکمل بےنیازی میسّر ہے، روشن خیالی کے نام پر مروّ ج آزادخیالی نے اُن کو ذرا بھی متاثر نہیں کیا، وہ بقائمی ہوش و حواس اپنے طرزِ زندگی پر مطمئن ہیں. کسی کو حق حاصل نہیں کہ اُن کے طرزِ زندگی پر اعتراض یا مداخلت کرے. جو لوگ اعتراض کرتے ہیں اُن کے پاس ماسوائے تبدیلی کے مطالبہ کے کچھ بھی دلیل نہیں جبکہ مذہبی اقدار پر کاربند طبقہ دیگر لوگوں کی طرح دورِحاضر کے تمام ٹارگٹ حاصل کیے ہوئے ہے. دینی اقدار کو خود چھوڑ کے پیروکار پر اعتراض کرنا بھی شدت پسندی کی ایک قِسم ہے. تعجب اور حیرت ہے اُن لوگوں پر جو لائن پر چلنے والوں کو لائن توڑنے کی دعوت دیتے ہیں، زگ زیگ نہ کھیلنے پر طعنہ زنی کرتے ہیں. مستحکم قوانین کو توڑنا انتشار کا باعث ہوتا ہے، جو لوگ مسلمانوں کو دینی اقدار چھوڑ کر ماڈرن ازم اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں، اُن سےگذارش ہے کہ بےدینی کی انتہاپسندی ترک کردیں اور شرعی طرزِ زندگی اختیار کریں. اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو کم از کم اِتنا احسان کردیں کہ دین داروں کی زندگی میں مداخلت نہ کریں، اُنہیں اُن کی زندگی جینے دیں اُنہیں کچھ مت کہیں. شکریہ

  • زمانے کا علم اور حاملین مذہب – جمیل داوڑ

    زمانے کا علم اور حاملین مذہب – جمیل داوڑ

    سیرت کی کتابیں گواہ ہیں کہ جب آقاﷺ کو دین کی دعوت اور ترویج و اشاعت کا کام سپرد کیا گیا تو آپﷺ نے کسی خاص پلیٹ فارم تک محدود رہنے کے بجائے ہر اس فورم کا انتخاب کیا جہاں دین کی دعوت ممکن تھی. کوہ صفا پر چڑھنا ہو یا منڈیوں میں وارد ہونا، تہواروں میں شرکت ہو یا حج کے موقع پر ملاقاتیں، دعوتی خطوط کی لکھائی ہو یا وفود کی روانگی، جہاں کہیں بھی آپ ﷺ کو اپنے دعوتی کام کی انجام دہی ممکن نظر آئی، آپ نے کوئی کسراٹھا نہ چھوڑی، ہر ممکن موقع کو بھرپور انداز میں استعمال کرکے اپنا فریضہ سرانجام دیا.

    قرآن مجید کا حکم بھی یہی ہے کہ (اے مسلمانو) جس قدر طاقت تم سے بن پڑے ان ( کفار ) کے مقابلے کے لیے طاقت تیار رکھو. حصول طاقت کے جہاں اور بہت سے ذرائع ہیں، وہاں ایک ذریعہ الیکٹرانک و پرنٹ اور سوشل میڈیا بھی ہے. میڈیا آج کے دور میں سب سے بڑی طاقت ہے جس نے معاشرے کے دل ودماغ کو اپنے ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے. میڈیا چاہے تو دن کو رات اور رات کو دن بنا کر دکھائے. سفید کو کالا اور کالے کو سفید کرنا اس کے لیے لمحوں کا کام ہے. چاہے تو چند ہی لمحات میں کسی کو بام عروج پر پہنچائے اور چاہے تو تنزلی اور بدنامی کی اتاہ گہرائیوں میں گرادے. میڈیا کی طاقت اور اس کے اثر ونفوذ سے ایک آندھا ہی انکار کرسکتا ہے.

    اسلام پسند طبقہ میڈیا سے اس لے آنکھیں چراتا ہے کہ اس کے خیال میں میڈیا فحاشی و عریانی اور برائیوں کا مرکز ہے حالانکہ نبی کریم ﷺ کی زندگی بتاتی ہے کہ آپ ﷺ نے برائیوں کے موجودگی کے علی الرغم دعوتی سلسلہ جاری رکھا. تاریخ بتاتی ہے کہ حج کے اجتماعات میں مختلف برائیاں شامل تھیں، یہاں تک کہ ننگا طواف کیا جاتا تھا لیکن آپ ﷺ نے دعوت کا کام برقرار رکھا، تجارتی میلوں میں شراب کباب کی محفلوں کا دور دورہ رہتا تھا. لاکھ عیش کوشیوں اور بدمستیوں کے ماحول کے باوجود آپ ﷺ وہاں جاتے تھے اور دعوت کا فریضہ ادا فرماتے تھے. تاریخ بتاتی ہے کہ انھی اجتماعات میں آپ ﷺ کی دعوت سن کر بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے. مدینہ کے مسلمانوں کی اکثریت تو حج کے اجتماعات میں دعوت کے طفیل مسلمان ہوئی تھی.

    نوجوان اہل علم، دانشوران، قوم وملت کے وفادران، مدرسہ اور سکول و کالج کے گریجویٹس سے مؤدبانہ عرض ہے کہ آخر کب تک آپ میڈیا کو ناسور قرار دے کر اپنا دامن بچاتے رہیں گے؟ کب تک الرجی کا شکار ہو کر آپ کے ہاتھ کانپتے رہیں گے؟ آج کے دور میں نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت میڈیا کر رہا ہے، مغربی و ہندووانہ تہذیب کو زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے. دین کے حوالے سے نت نئے شبہات و اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں. ایسی حالت میں غفلت کی چادر اوڑھ لینا کس طرح قرین انصاف ہو سکتا ہے؟

    مجھے یقین ہے کہ ایک دن ضرور آپ انگڑائی لے کر اس میدان کو سب سے بڑا جہاد قرار دے کر قدم رنجہ فرمانے کی کوشش کریں گے، اپنے ریمارکس اور فتوؤں سے رجوع کریں گے لیکن اس وقت کیا فائدہ جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا. آج موقع ہے، کل کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہ ملے گا

  • دین میں غلو – رضی الاسلام ندوی

    دین میں غلو – رضی الاسلام ندوی

    رضی الاسلام ندوی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) عقبہ کی صبح (یعنی 10 ذی الحجۃ کو ، جب صرف جمرۃ العقبۃ پر کنکریاں ماری جاتی ہیں) رمی جِمار (کنکریاں مارنے) کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے کنکریاں لانے کا حکم دیا. اس وقت آپ سواری پر تھے. میں نے آپ ﷺ کو سات چھوٹی چھوٹی کنکریاں لا کر دیں. آپﷺ نے انھیں اپنے ہاتھوں میں لیا اور فرمایا : ’’اتنی ہی چھوٹی کنکریاں استعمال کرنی چاہییں.‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے ارشاد فرمایا :
    [pullquote]’’اِیّاکُم وَ الغُلُوُّ فی الدِّینِ ، فَإنَّمَا اَھلَکَ مَن کانَ قَبلَکُم الغُلوُّ فِی الدِّینِ ‘‘(نسائی: 3057 ،ابن ماجہ :3029 ) [/pullquote]

    ’’دین میں غلو سے بچو، اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں غلو کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے.‘‘
    اس حدیث سے دین کا مزاج بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے. عقائد کا معاملہ ہو، یا عبادات کا، یا تہذیب و معاشرت کا، اسلام اعتدال کی روش پر چلنے کا حکم دیتا ہے اور غلو اور انتہا پسندی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے.

    عیسائیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معاملے میں غلو کرکے انہیں خدا بنالیا. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میرے بارے میں ویسی مبالغہ آمیزی نہ کرو، جیسی نصارٰی نے عیسی کے معاملے میں کی. میں صرف اللہ کا بندہ ہوں، لہذا مجھے صرف اس کا بندہ اور رسول کہو.‘‘(بخاری :3445)

    آپﷺ نے ایک موقع پر دیکھا کہ ایک شخص وضو کرتے ہوئے بہت زیادہ پانی بہا رہا ہے _آپﷺ نے فرمایا: ’’فضول خرچی نہ کرو، اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! کیا وضو میں بھی فضول خرچی ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، تم بہتی نہر کے کنارے بیٹھے ہو، تب بھی ضرورت سے زائد پانی کا استعمال نہ کرو.‘‘ (ابن ماجہ:425)

    ایک مرتبہ آپ ﷺ نےدیکھا کہ مسجد نبوی میں ایک رسّی بندھی ہوئی ہے. دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ اسے ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بندھوایا ہے. رات میں نفل نمازوں کی کثرت سے جب وہ تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں. آپ ﷺ نے رسّی کھلوادی اور فرمایا : ’’جب تک آدمی نشاط محسوس کرے تب تک نماز پڑھے، جب تھک جائے تو سو جائے .‘‘ (بخاری:1150،مسلم:784)

    آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص تیز دھوپ میں میدان میں کھڑا ہے. پتہ چلا کہ اس نے نذر مانی ہے کہ وہ روزہ رکھے گا اور اس حال میں نہ کسی سے بات چیت کرے گا نہ سائے میں بیٹھے گا. آپﷺ نے فرمایا :’’اس سے کہو کہ وہ بات چیت کرے، سایہ حاصل کرے، بیٹھ جائے، البتہ اپنا روزہ پورا کرے _‘‘

    اللہ کے رسول ﷺ کی ایک مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ کھانے کی فلاں چیز میں ناپسند کرتا ہوں . آپ ﷺ نے فرمایا :’’تمھارے دل میں کوئی ایسی چیز نہ پیدا ہونے پائے جس سے تمھارا عمل نصرانیت کے مشابہ ہوجائے.‘‘ (ابوداؤد 3784،احمد5/226 )

    ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی کے کسی پہلو میں غلو پسندیدہ نہیں ہے. اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے سختی سے روکا ہے اور میانہ روی کی تاکید فرمائی ہے.

  • اسلام میں انسانی قتل کی ممانعت – امیرجان حقانی

    اسلام میں انسانی قتل کی ممانعت – امیرجان حقانی

    امیر جان حقانی یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسلام دین امن ہے۔ اسلام کے اولین سنہری دور کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام نے معاشرتی امن اور سماجی انصاف کے لیے جتنی فکری اور عملی کوششیں کی ہیں، اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ہے۔ اسلام کبھی بھی فکری طور پر مفلوج اور مبہم نہیں رہا ہے۔ اسلام کا پیغام کسی مخصوص علاقہ ، نسل یا زبان اور مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ تمام انسانیت کے لیے عام پیغام ہے اور اہل کتاب کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ قرآن و حدیث میں احکامات صادر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے کہ’’ قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم، الا نعبد الا اللہ و لانشرک بہ شیئا‘‘ اس ایت کی روشنی میں ہمیں یہ پیغام واضح طور پر ملتا ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کو توحید کی دعوت دی ہے اور شرک سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے۔ یہ دونوں موضوعات اہل کتاب اور اسلام کے مابین مشترک ہیں، تاہم بعد میں ان کے مذہبی پیشواؤں نے اس آفاقی پیغام میں تحریف کی ہے۔ قرآن نے اس مشترک پہلو کی طرف بےحد خوبصورت پیرائے میں دعوت دی ہے۔ اور اسلام نے اسلامی مملکت و ریاست کے اندر بھی اہل کتاب اور دیگر غیر مسلم کی حفاظت کا صرف حکم نہیں دیا بلکہ حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے، میثاق مدینہ، بہترین حکمرانی اور سماجی انصاف کے لیے یادگار معاہدہ ہے، مدینہ منورہ میں پہنچ کرآنحضرت ﷺ نے سماجی انصاف اور معاشر ے میں قیام امن کے لیے جملہ اقوام سے ایک عمرانی معاہدہ بین الاقوامی اصول پر کیا تاکہ معاشرتی اور مذہبی اختلافات اور تنازعات میں قومی وحدت قائم رہے، اور سماجی انصاف کا قیام ہوسکے۔ اس معاہدہ میں مختلف مسالک، مذاہب زبان و نسل اور علاقہ کے لوگوں کے درمیان قیام امن اور آشتی کے ساتھ رہنے کے لیے بہترین رہنمائی ملتی ہے۔اس معاہدے کے جستہ جستہ فقرے یہ ہیں۔۔قاضی سلیمان منصور پوری، اپنی مشہور کتاب ’’رحمۃ اللعالمین‘ ‘ میں لکھتے ہیں کہ:
    1. انہم امۃ واحدۃ، یہ سب لوگ ایک ہی قوم سمجھے جائیں گے۔
    2. وان بینہم النصح و النصیحۃ والبر دون الاثم، معاہدہ اقوم کے باہمی تعلقات، باہمی خیرخواہی، خیراندیشی اور فائدہ رسانی کے لیے ہوگا، ضرر اور گناہ کا نہ ہوگا۔
    3. وأن النصر للمظلوم، مظلوم کی مدد ونصرت کی جائے گی۔
    4. وان یثرب حرام جرفہا لاہل ہذہ النصیحۃ، مدینے کے اندر کشت و خون کرنا معاہدہ کرنے والے سب قوموں پر حرام ہے۔(ص ۹۱،۹۲،ج نمبر اول)

    موجودہ دور میں گڈ گورننس (Good governance) کی اصطلاح چلی ہے۔گڈ گورننس اور اچھی طرز حکمرانی کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ کے صفحات سے بھری پڑی ہیں۔ ہم ایک مثال عرض کیے دیتے ہیں۔ علامہ کوثرنیازی صاحب لکھتے ہیں: ’’امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ گشت کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک غیر مسلم کو دیکھا جو بھیک مانگ رہا تھا۔ آپ ؓ نے اس سے پوچھا، تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اب میں کمانے کی سکت نہیں رکھتا، امیرالمؤمنین نے یہ سن کر فرمانے لگے کہ ’’افسوس ہے عمر ؓ پر جس سے اس کی جوانی کے زمانے میں جزیہ تو لیا لیکن بوڑھا ہوگیا تو اس سے اپنے حال پر چھوڑ دیا‘‘ حکم دیا کہ اس کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کیا جائے (کتاب: اسلام ہمارا رہنما ہے، ص،۹۳)۔ اس واقعہ سے ہم آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مسلمان حکومت غیر مسلموں کے ساتھ جس رواداری اور سماجی انصاف دینے کے فراخدالانہ مظاہرہ کر رہی ہے دنیا کا کوئی دوسرا نظام حکومت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    مسلم ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق بھی بہت ہی واضح طور پر موجود ہیں۔ سماجی انصاف مہیا کرنے میں مسلم ریاست اور مسلمان حکومت و حکمرانوں کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں، اگر ایک مسلمان کسی ذمی (غیر مسلم ) کو قتل کرڈالے تو فقہ حنفی کے رو سے اس مسلمان کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا کہ قاتل مسلم ہے اور مقتول غیر مسلم ہے کہہ کر کوئی ناانصافی کی جائے یا امتیاز روا رکھا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’ من قتل معاھداً لم یرح رائحۃ الجنۃ‘‘(۔ محمد بن اسماعیل البخاری، الصحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب اثم بن قتل معاہداًبغیر جرم: جلد اول، ص ۴۴۸، ا) یعنی: ’’ ذمی کو قتل کرنے والا مسلم کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا‘‘۔ جان بہت عزیز چیز ہے، اور اسلام نے تو غیر مسلموں کی شراب، صلیب اور سور (خنزیر) کے گوشت تک کو نقصان نہ پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری اور بدائع الصنائع فی الترتیب الشرائع میں مذکور ہے کہ’’ولو اتلف مسلم أو ذمی علی ذمی خمراً اور خنزیراًً یضمن‘‘ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی(غیر مسلم) کی شراب ضائع کرے یا کسی عیسائی کی صلیب توڑ دے تو بطور جرمانہ اسے شراب اور صلیب کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔( جلد ۷،ص ۱۶۷)۔

    معاہدہ بیت المقدس‘ذمی رعایا کے حقوق کی ایک مقدس دستاویز ہے۔ حضرت عمر ؓ نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد وہاں کے شہریوں سے ایک معاہدہ کیا۔ ذمیوں کو جو سماجی حقوق حضرت عمرؓ نے عطا کیے وہ اس زمانے کی غیرمسلم سلطنتیں غیر قوموں کے لیے سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتی تھی۔ بیت المقد س کا معاہدہ خود حضرت عمرؓ کے الفاظ میں ترتیب دیا گیا، اس کے چند جملے یہاں درج کیے جاتے ہیں۔ شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی نے الفاروق (سوانح عمری حضرت عمرفاروقؓ) میں لکھا ہے ’’ہذا مااعطی عبداللہ عمر امیر المؤمنین اھل ایلیا من الامان اعطاھم امانا لِأنفسہم واموالہم وکنا یسہم وصلبانہم وسقیمہا وبریھا و سایرملتہا انہ لایسکن کنایسہم ولاتہدم ولا ینتقض منہا ولا من خیرھا ولامن صلبہم ولامن شئی من اموالہم ولایکرھون علی دینہم ولا یضار احدہم‘‘یعنی:’’یہ وہ امان ہے جواللہ کے غلام امیر المؤمنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی‘ یہ امان ان کی جان و مال‘ گرجا‘ صلیب‘ تندرست‘ بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی ‘ نہ ڈھائے جائیں گے‘ نہ ان کو یا نہ ان کے احاطے کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا‘‘۔(ص۲۵۸)

    غیرمسلم رعایا کی شرائط کو پورا کرنے کا حکم بھی اسلامی احکام میں واضح طور پر ملتا ہے۔ شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی نے الفاروق میں لکھا ہے کہ’’حضرت عمرؓ نے شام کی فتح کے بعد حضرت ابوعبیدہ ؓ کو غیرمسلم رعایا کے حوالے سے جو خصوصی حکم جاری کیا اس میں یہ یادگار اور بے مثا ل الفاظ مرقوم تھے’’وامنع المسلمین من ظلمہم والاضرار بہم واکل اموالہم الا بحلہا ووفّ لہم بشرطہم الذی شرطت لہم فی جمیع مااعطیتہم‘‘یعنی’’مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کریں‘ نہ ان کو نقصان پہنچائیں‘ نہ ان کے مال بے وجہ کھائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان سے کی ہیں سب وفا کرو‘‘۔(ص۲۶۱)

    اسلام سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی انسا ن نہ سفاک ہوسکتا ہے نہ دہشت گرد اور نہ ہی درندہ صفت، اور نہ ہی بے گناہ انسانوں کے قتل عام سے اسے کوئی ذہنی و قلبی راحت مل سکتی ہے۔ اسلام جس طرح غیر مسلموں کے ساتھ امن اور معاشرتی رواداری کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے اسی طرح اسلام آپس میں بھی اتفاق او اتحاد اور امن وآشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر ۹۳ میں خدائے ذوالجلال کا واضح ارشاد ہے :[ومن یقتل مؤمنا متعمداََ فجزاہ جھنم خالداََ فیھا و غضب اللہ علیہ و لعنہ اعدلہ عذابا عظیما] جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو عمداََ یعنی قصدا جان بوجھ کر قتل کر ڈالے تو اس کی سزا ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے‘ اللہ رب العزت کا غضب ہے‘ اس کی لعنت اور پھٹکار ہے‘ اور ایسے لوگو ں کے لیے بڑا دردناک والمناک عذاب تیار ہو چکا ہے۔ امام بخار ی ؒ نے صحیح بخاری میں ایک حدیث نقل کی ہے جو حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے: [لایشیر احدکم علی اخیہ بالسلاح فانہ لایدری لعل الشیطان ینزع مافی یدہ ‘ وفی روایۃ ینزع بالعین فیقع فی حفرۃ من النار] یعنی فرمایا کہ کبھی بھی اپنے مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کیا کرو‘ ممکن ہے کہ ہتھیار میں جو کچھ ہے وہ لگ جائے تو تم جہنم کے گڑھے میں گر پڑو یعنی آپ کے اشارہ کرنے سے تلوار چل گئی اور مسلمان کا خون ناحق ہوگیا تو ایک ایسے فعل کا ارتکاب ہو جائے گا جس کی پاداش عذاب جہنم ہے۔ ایک اورحدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے مرفوعاََ مروی ہے: [ زوال الدنیا کلھا اھون علی اللہ عن قتل رجل مسلم‘] اسی روایت کی تخریج امام نسائی نے ان الفاظ میں کی ہے [ قتل المؤمن اعظم عنداللہ من زوال الدنیا] یعنی آقائے نامدار نبی رحمت سرور کائنات ﷺ نے فرمایا ہے کہ’’ اللہ کے نظروں میں تمام دنیا کے زائل یعنی نیست و نابود ہوجانے نے بھی بڑھ کر جو چیز ہے و ہ ایک مؤمن مسلمان کا قتل ہے۔ آپ نے آیت کریمہ اور احادیث مبارکہ میں ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالی ٰ نے قتل مسلم کو کتنا بڑا جرم قرار دیا ہے اور اس آدمی کا انجام جہنم بتایا ہے اور اس پر لعنت و پھٹکار کی ہے اور آپ ﷺ نے بھی واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ مسلم کا خون کتنا قیمتی ہے۔ احادیث مذکورہ سے تو واضح ہو جاتا ہے کہ از روئے مذاق و دل لگی بھی کسی مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ اٹھانا یا اس کو ڈرانے کے لیے کسی بھی قسم کے ہتھیار کا رخ اس کی جانب کرنا یا اشارہ کرنا شرعاََ جائز نہیں ہے۔ ذرا ہمیں اپنی حالت زار کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے خون مسلم کو کتنا ارزاں سمجھا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں قتل مسلم مذاق بن چکا ہے ، خدا تعالی ٰ کے ارشادات اور نبی کریم ؐ کے فرمودات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے شرک کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی اور کفر نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگین کرے۔

    روشنیوں کا شہر کراچی غریبوں کے خون سے سرخ ہوگیا ہے۔ کراچی ایک شہر ہے جہاں پورے ملک کے باسی رہتے ہیں۔ پورے ملک کے ہر علاقے کے نام سے کراچی میں کالونیاں بنی ہوئی ہیں مثلاََ گلگت کالونی، کشمیر کالونی‘ پنجاب کالونی‘ مانسہرہ کالونی‘بلوچ کالونی‘ غرض ہر صوبے کے مختلف علاقوں کے ناموں والی کالونیاں کراچی میں ہیں اور وہاں اس علاقے کے لوگ فروکش ہیں مگر لسانیت، علاقائیت پر روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بےگناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ نہ قاتل کو معلوم نہ مقتول کو۔ بلوچستان تو مشرفی آمریت کے دور سے مسلسل جل رہا ہے اور جلانے کے لیے ایندھن مہیا کرنے والے کوئی بھی ہوں مگرماچس کی تیلی سے آگ بھڑکانے والے اپنے مسلمان بھائی ہیں۔گلگت بلتستان بھی کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، سالوں میں کوئی قتل ہوتا تھا، اگر کوئی ذاتی دشمنی میں قتل ہوتا تو قاتل کبھی بھی اپنے آپ کو چھپاتا نہیں تھا بلکہ وہ فخریہ اعلان کرتا کہ جی ہاں! میں نے قتل کیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ دوسرے لوگ اذیت اور خوف و ہراس سے بچ جاتے تھے۔ مگر چند سالوں سے یہ پرامن علاقہ بےگناہ مسلمانوں کے خون سے بھر چکا ہے، خون آشامی کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ خونیں ورادتیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔گلگت میں بھی قتل و خون کی ہولی کھیلنے کے لیے پلان جوب ھی تیار کرتا ہو اور اس کے لیے فنڈنگ کوئی بھی کرتا ہو مگر ایک دوسروں کے گلے کاٹنے کی ’’خدمت عالیہ‘‘ مقامی لوگ ہی انجام دیتے ہیں۔ پتنگ کی ڈوری جہاں کہیں سے بھی ہلائی جائے مگر پتنگ گلگت سے ہی اُڑے گا اور گلگت کا ہی پتنگ کٹے گا‘ اور کٹ کر کرچی کرچی ہوکر ہواؤں کے دوش بکھر جائے گا۔

    سیرت نبویؐ اور احادیث نبویؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قتل مسلم سے بڑھ کر کون سا فعل ہے جو خدا کے عرش اور جلال و غیرت کو ہلا دے اور اس کی لعنتیں بارش کی طرح آسمانوں سے نہ برسیں‘ جس مؤمن کا وجود اللہ کو اس قدر محبوب و محترم ہواور لائق و فائق ہوکہ تمام دنیا کا زوال اس کی ہلاکت کے مقابلے میں ہیچ بتلائے‘ اسی کا خون خود ایک مسلمان کے ہاتھوں سے ہو‘ اس سے بڑھ کر شریعت الہی کی کیا توہین ہوسکتی ہے؟ جس بدبخت انسان کا احساس ایمانی یہاں تک مسخ ہو جائے کہ باوجود دعوائے مسلم ومؤمن کے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرے بلکہ اس کو کار خیر بھی سمجھے‘ تو یاد رہے کہ وہ یقینا مسلمانوں کا خون نہیں بہاتا بلکہ وہ تو پروردگار عالم کے کلمہ توحید کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور شانِ کبریائی کو بٹہ لگانا چاہتا ہے۔ سو‘ ایسوں کو [ ان عذابی لشدید] کے لیے تیار رہنا چاہیے.

  • اسلامی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے – مولانا جلال الدین عمری

    اسلامی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے – مولانا جلال الدین عمری

    اس وقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اتنی ترقی کہ ایک صدی قبل شاید اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سی مادی دشواریوں پر قابو پالیا گیا ہے۔ مختلف قسم کی آسانیاں اور سہولتیں وجود میں آئی ہیں اور دنیا زیادہ پرکشش ہوگئی ہے۔ آمد و رفت کے تیز رفتار ذرائع کی وجہ سے مسافتیں کم ہوگئی ہیں، خیالات کی ترسیل اور ابلاغ آسان ہوگیا ہے، جو معلومات چھوٹے سے دائرے میں محصور ہوتی تھیں وہ عام ہو رہی ہیں۔ نشر و اشاعت ایک وسیع انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جو چیز چھپتی ہے وہ گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے۔ میڈیا اتنا طاقت ور ہے کہ ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو دنیا کے سامنے لے آتا ہے اور اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ معیشت بہتر ہوئی ہے، پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، خوش حالی آئی ہے، معیار زندگی بلند ہوا ہے، صحت اور تندرستی کی طرف توجہ ہے۔ امراض کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ طبی سہولتیں فراہم ہیں، اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سب باتوں کے مظاہر ہر طرف دیکھے جا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس ترقی کا پورا فائدہ اصلاً ایک چھوٹے سے طبقہ ہی کو حاصل ہے، لیکن عام آدمی بھی کسی نہ کسی درجے میں اس سے فیض یاب ہو رہا ہے۔
    یہ آج کی سائنسی ترقی اور اس کے فوائد اور ثمرات کا حال ہے۔ دوسری طرف سماجی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر پوری دنیا زوال اور پستی کی شکار ہے۔ اس سے نکلنے کی کوئی راہ اسے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ موجودہ دور انسان کے بعض بنیادی حقوق کو تسلیم کرتا ہے، ان میں زندہ رہنے، عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے، وسائل حیات سے بلاامتیاز فائدہ اٹھانے، عقیدہ اور مذہب پر عمل کرنے، اظہارِ خیال اور عمل کی آزادی جیسے حقوق شامل ہیں۔ یہ حقوق قانوناً تو حاصل ہیں لیکن عملاً پامال ہو رہے ہیں۔ عام آدمی ان کی حفاظت نہیں کر پا رہا ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کی حکم رانی کا ہر طرف چرچا ہے، لیکن ظلم و زیادتی کی حکومت ہے اور عدل و انصاف کا حصول آسان نہیں رہ گیا ہے، انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ پرسکون اور امن و امان کی زندگی گزارے، لیکن فتنہ و فساد اور اضطراب کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے، مساوات اور برابری کے دعوے ہیں لیکن کم زور افراد اور قومیں طاقت ور افراد اور قوموں کا ہدف ستم بنی ہوئی ہیں اور ان کا ہر سطح پر استحصال ہورہا ہے۔ انسان کے سامنے مال و دولت اور عیش و عشرت کے سوا اور کوئی مقصد نہیں رہ گیا ہے، اس کے لیے غلط سے غلط اقدام میں بھی اسے تامل نہیں ہوتا۔ اخلاق اور قانون پر خواہشات نفس غالب آگئی ہیں اور ترقی کے نام پر بے حیائی اور جنسی آوارگی کو فروغ مل رہا ہے۔ انسان جنسی جذبہ کی تسکین کے لیے سماج اور قانون کی بندشوں کو توڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ خاندان سے انسان کا جو فطری اور جذباتی تعلق تھا وہ ٹوٹ رہا ہے، الفت و محبت، خدمت اور ایثار و قربانی کی جگہ خود غرضی کی فضا پرورش پا رہی ہے۔ اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود معاشرے کے رگ و ریشے میں فساد پوری طرح پھیل چکا ہے اور بسااوقات نہ چاہتے ہوئے بھی آدمی کو اس کے کڑوے کسیلے پھل کھانے پڑ رہے ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ دور حاضر کے اس بگاڑ کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ صحیح نظریۂ حیات سے محروم ہے۔ اس نے انسان کو مادی لحاظ سے تو بہت کچھ دیا، لیکن اس کائنات اور خود انسان کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر نہیں فراہم کر سکا۔ اس کی فکری اساس غلط ہے اس لیے وہ ایک طرف پیش قدمی کر رہا ہے تو دوسری طرف پستی کا شکار ہے۔ متوازن اور ہمہ جہت ترقی اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کی بنیاد صحیح فکر پر ہو۔
    بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اگر موجودہ دور کی فکری اساس غلط ہے تو اس نے اتنی ترقی کیسے کی ہے؟ کیا غلط فکر کے ساتھ اس طرح کی ترقی ممکن ہے؟
    اس کا جواب یہ ہے کہ مادی ترقی کے لیے صحیح نظریۂ حیات کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی اس ترقی کا امکان ہے۔ قرآن مجید نے اس معاملے میں ہماری راہ نمائی کی ہے۔ اس نے عبرت و نصیحت کے لیے بعض قدیم قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ان کا فلسفۂ حیات غلط تھا، لیکن مادی ترقی کی راہیں ان پر بند نہیں تھیں۔ ان کے سامنے صرف دنیا تھی اور وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ چناں چہ انھوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھایا اور خوب ترقی کی۔ قوم عاد جسمانی طور پر بڑی توانا اور تندرست قوم تھی۔ قوت و طاقت میں اس وقت اس جیسی کوئی دوسری قوم نہ تھی (الفجر: 6،7)۔ اس قوم نے تفریح اور عیش کی خاطر اور شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے بڑی بڑی عمارتیں اور قلعے اس طرح تعمیر کیے جیسے اسے اسی دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس کے علاقے میں عمدہ زراعت تھی، سرسبز و شاداب باغات تھے اور چشمے رواں تھے۔ اسے افرادی قوت بھی حاصل تھی۔ طاقت کا یہ عالم تھا کہ کسی پر یہ قوم ہاتھ ڈالتی تو اس کے شکنجے سے نکالنا آسان نہ تھا۔ (الشعراء: 123۔134)
    قومِ ثمود کا بھی یہی حال تھا اس کے علاقے میں زراعت کو بڑا عروج حاصل تھا، پھلوں کی خوب پیداوار تھی، اس کے کارناموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر بڑی مہارت کے ساتھ مکانات تعمیر کیا کرتی تھی۔ (الفجر، الشعراء: 147۔149)
    مصر میں فرعون کا بڑا دبدبہ تھا، وہ بڑی فوجی طاقت کا مالک تھا، اس کے لیے جگہ جگہ خیمے لگتے تھے، ملک میں خوش حالی تھی، باغات تھے، چشمے تھے، دولت کے خزانے تھے اور شاندار مکانات تھے۔ (الفجر:10، الشعراء: 57،58)
    قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ اور ان جیسی دوسری قوموں کی نادانی یہ تھی کہ وہ مادی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھی تھیں۔ اس سے آگے سوچنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انھیں اپنے علم و فن پر بڑا ناز تھا اور کسی راہ نمائی کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھیں۔ اللہ کے رسولوں نے انھیں راہ ہدایت دکھائی لیکن اسے انھوں نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دن پورے ہونے لگے، ان کی مادّی ترقی انھیں ہلاکت سے نہ بچا سکی اور وہ تباہ و برباد ہوگئیں۔
    قریشِ مکہ نے اللہ کے رسول محمد ﷺ کی مخالفت کی تو قرآن نے کہا کہ تم سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور قوموں نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی ہدایت قبول کرنے سے انکار کیا تو صفحۂ زمین سے مٹا دی گئیں۔ ان کے مقابلے میں تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر تم اللہ کے رسول کی مخالفت کر رہے ہو تو اپنے انجام پر غور کرلو۔
    وَکَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَ مَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَیْنٰھُمْ فَکَذَّبُوْا رُسُلِیْقف فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ
    (سبا:45)
    ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی تکذیب کی، حالاں کہ جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا اس کے عشر عشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے۔ انھوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو (دیکھو کہ) میرے انکار کا کیا انجام ہوا۔
    قرآن مجید نے بعض قوموں کا نام لے کر بھی قریش مکہ کو تنبیہ کی ہے۔ ایک جگہ فرمایا:
    کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّ فِرْعَوْنَ ذُو الْاَوْتَادِ161لا وَ ثَمُوْدُ وَ قَوْمُ لُوْطٍ وَّ اَصْحٰبُ لْءَیْکَۃِط اُولٰٓءِکَ الْاَحْزَابُ۔ اِنْ کُلٌّ اِلاَّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (ص:12۔14)
    اُن سے پہلے جھٹلا چکی ہے قوم نوح (قوم) عاد اور فرعون جو میخوں والا تھا۔ (قوم) ثمود، قوم لوط اور ایکہ والے (حضرت شعیبؑ کی قوم) یہ سب بڑی طاقتیں۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب ان پر آکر رہا۔
    اس طرح قرآن نے یہ حقیقت واضح کی کہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کو دریافت کرنے اور ان کو کام میں لانے سے مادّی ترقی ممکن ہے۔ جو قوم اس پر عمل کرے گی، اس پر مادّی ترقی کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ لیکن اس ترقی کو کنٹرول کرنے اور پوری زندگی کو صحیح سمت دینے کے لیے صحیح نظریۂ حیات کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی فساد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
    اسلام اس معاملے میں ہماری رہ نمائی کرتا ہے۔ وہ صحیح نظریۂ حیات پیش کرتا ہے۔ وہ ان تمام سوالات کا اطمینان بخش جواب دیتا ہے جو انسان کے ذہن میں اس وسیع کائنات اور خود اس کی ذات کے بارے میں ابھرتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا کیا ہے؟ کیسے وجود میں آئی، کیا یہ ہمیشہ رہے گی یا اس کی رونق کبھی ختم ہوجائے گی؟ انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے، اسے جو مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں ان کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے اس کی ہدایت اور رہ نمائی کا کیا انتظام کیاہے؟ اس کی آخری منزل کیا ہے؟ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے؟
    اسلام ان بنیادی سوالات کا جواب ہی نہیں فراہم کرتا بلکہ ان کی اساس پر زندگی کا ایک پورا نظام پیش کرتا ہے۔ اس سے ہر گوشۂ حیات میں متوازن ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور آدمی کو قلبی سکون اور راحت بھی حاصل ہوتی ہے۔
    ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ مذہب کی تعلیمات سے آدمی کو چاہے روحانی سکون حاصل ہوجائے لیکن مادّی ترقی ممکن نہیں ہے۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ اس خیال کی تردید کی ہے، اس لیے کہ یہ مادہ پرست ذہن کی پیداوار ہے۔ اس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔
    یہود اپنی دنیا داری میں مشہور ہیں۔ اس کے لیے انھیں کوئی بھی غلط اور ناجائز طریقہ اختیار کرنے میں کبھی تامل نہیں رہا۔ یہ ایمان کی کم زوری اور اس احساس کا نتیجہ تھا کہ دین کی راہ سے دنیا حاصل نہیں کی جاسکتی۔ قرآن نے کہا اگر وہ دین پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں تو دنیا ان کے قدم چومنے لگے گی، زمین اپنے خزانوں کے مونھ کھول دے گی اور آسمان سے نعمتوں کی بارش شروع ہوجائے گی۔
    وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ اْلِانْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْط مِنْھُمْ اّمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ (المائدۃ:66)
    اگر یہ توریت اور انجیل کو اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کے رب کی جانب سے ان کے لیے نازل کی گئی تھیں، تو رزق ان کے اوپر سے بھی اترتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی اُبلتا۔ لیکن ان میں سے ایک چھوٹی سی جماعت سیدھی راہ پر ہے اور ان میں کے زیادہ تر برے کام کر رہے ہیں۔
    یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اسلام دین و دنیا کی فلاح کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کا مطالعہ اسی رخ سے ہونا چاہیے، لیکن مختلف اسباب کی بنا پر مغرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام اس حیثیت سے دنیا کے سامنے نہ آنے پائے۔ اس نے اسلام کو سمجھنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس نے اسے دیکھا تو صرف اس نقطۂ نظر سے دیکھا کہ اسے کس طرح ناقابلِ قبول اور ناقابلِ عمل قرار دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر اعتراضات کا جو سلسلہ اپنی تہذیب کے غلبہ کے بعد شروع کیا وہ اب تک جاری ہے بلکہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں بعض پہلوؤں سے شدت بھی آگئی ہے۔ اس کے خلاف علمی، سیاسی، تہذیبی ہر طرح کے محاذ کھول دیے گئے ہیں۔ اس کی تصویر اس طرح مسخ کی جا رہی ہے کہ اس کی طرف کسی کی توجہ نہ ہو اور اسلام کا نام آتے ہی لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں۔
    اسلام کے بارے میں مغرب کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام موجودہ فکر اور تہذیب کے لیے زبردست چیلنج ہے۔ اس کی نظریاتی اور عملی قوت کو مخالف طاقتیں پوری طرح محسوس کررہی ہیں اور اس سے خوف زدہ ہیں۔ یہاں بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
    1۔ جو بھی شخص اسلام پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر موجودہ تہذیب کا متبادل بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے، جس کا اس نے جواب نہ دیا اور اس کا حل نہ پیش کیا ہو۔ چاہے اس کا تعلق عقیدہ اور فکر سے ہو، عبادات و اخلاق سے ہو، تہذیب و معاشرت سے ہو، معیشت و سیاست سے ہو یا مادیت و روحانیت سے۔ کسی معاملے میں اس کے نقطہ نظر سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام نے اسے نظر انداز کیا ہے یا اس سلسلے میں راہ نمائی نہیں کی ہے۔
    2۔ آج قیادت کا منصب مغرب کو حاصل ہے۔ پوری دنیا پر عملاً اسی کی حکومت ہے اور ہر جگہ اسلام کے ماننے والوں کو بری طرح دبایا اور کچلا بھی جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ اسلام کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ خود مغرب میں اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ یقین بھی اسلام کے ماننے والوں میں عام ہے کہ اس کے پاس ایک بہتر اور برتر نظامِ فکر و عمل ہے، صحیح عقیدہ اور فکر ہے، بہتر اخلاقیات ہیں، اعلیٰ تہذیب و تمدن ہے اور سیاست کے ایسے اصول ہیں جو دنیا کو بے لاگ عدل و انصاف فراہم کرسکتے ہیں اور جن کے ذریعے ہر طرح کے ظلم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کی برتری کا یہ یقین صرف ان لوگوں میں نہیں ہے، جو دورِ جدید سے بے خبر اور ’قدامت پسند‘ سمجھے جاتے ہیں، بلکہ ان افراد میں بھی پرورش پا رہا ہے، جو مغرب میں پیدا ہوئے، اس کی گود میں پلے بڑھے اور جن کی تعلیم و تربیت ان کے اداروں میں ہوئی اور جن کی ذہن سازی میں وہ مستقل لگے ہوئے ہیں۔ مغرب کے لیے تشویش کا پہلو یہہے کہ اسلام کے بارے میں وہ مسلمانوں کے ذہن کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہے۔ وہ مغرب کے فکر کو برداشت تو کر رہے ہیں، قبول نہیں کر رہے ہیں۔
    3۔ اس وقت عالم اسلام میں، بلکہ پوری دنیا میں ایسی تحریکیں موجود ہیں جو اسلام کو ایک غالب قوت کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ اس صورتِ حال پر قانع اور مطمئن نہیں ہیں کہ دنیا پر فرماں روائی غیر اسلامی افکار کی ہو اور اسلام محکوم بن کر رہے۔ ان تحریکات کے طریقۂ کار میں حالات کے لحاظ سے فرق ضرور ہے لیکن یہ سب اسلام کو سربلند اور غالب دیکھنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مغرب کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ ان تحریکات کے اثرات پھیل رہے ہیں۔ یہ آج کم زور ہیں لیکن کل طاقت ور ہوسکتی ہیں۔ اس احساس کے تحت مسلم راہ نماؤں اور ان کی نمایاں شخصیتوں کی تصویر بگاڑی جا رہی ہے، مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو بدنام کیا جا رہا ہے، اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ اسلامی تحریکیں دستوری اور قانونی طریقے سے بھی کامیاب نہ ہونے پائیں اور کامیاب ہوں تو انھیں اقتدار میں آنے سے کسی نہ کسی طرح روک دیا جائے۔
    4۔ مغرب کو یہ فکر بھی پریشان کر رہی ہے کہ مسلم ممالک مادی لحاظ سے بھی اس موقف میں ہیں کہ وہ اس کے حریف بن سکتے ہیں۔ کسی فکر کو آگے بڑھانے اور اسے غالب کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ اسے حاصل ہیں۔ ان وسائل پر گو اس وقت عملاً قبضہ مغربی طاقتوں ہی کا ہے۔ وہ ہر قیمت پر اپنا یہ قبضہ باقی رکھنا چاہتی ہیں، اس لیے کہ یہ ان کی مادی ترقی، خوش حالی اور اقتدار کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے انھوں نے بیشتر ممالک کے سربراہوں کو قابو میں کر رکھا ہے۔ وہ ان کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور ان کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جو مسلم ملک ان کے خلاف جانے کا ارادہ کرتا ہے، اسے ختم کرنے کی ہزار تدبیریں ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن یہ صورتِ حال دائمی نہیں ہے، یہ بدل سکتی ہے۔ وہ آزادانہ فیصلے اور اقدامات کرنے کے موقف میں ہوسکتے ہیں۔ اس وقت غالب امکان اس کا ہے کہ ان کے وسائل و ذرائع اسلام کی سربلندی کے لیے استعمال ہوں۔ یہ چیز مغرب کے لیے باعث تشویش ہے۔
    اسلام، مسلم ممالک اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں مغرب کے عزائم مخفی نہیں ہیں۔ ہر صاحب دانش انھیں سمجھ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کی فکری اور تہذیبی کم زوریاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اسلام کو سمجھنے کا رجحان بھی ابھر رہا ہے اور وہ مغرب کے عین مراکز میں خاموشی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی فطری خوبیاں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ یہ صورت حال بہ ظاہر اسلام کے حق میں ہے لیکن خود اسلام کے ماننے والوں کو مختلف قسم کی کم زوریوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جب تک وہ ان پر قابو نہ پالیں اور اسلام کا نمونہ نہ پیش کریں اسلام کی سربلندی کی تمنا پوری نہیں ہوسکتی۔ یہاں بعض کم زوریوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
    1۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی اساس پر امت مسلمہ وجود میں آئی ہے۔ وہ اس پر اپنے ایمان و یقین کا آج بھی اظہار کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح اسی سے وابستہ ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس کی پوری زندگی دین کے تابع ہو اور اس کا ہر قدم دین کی راہ نمائی میں اٹھے، لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ دین کی اس پر گرفت کم زور پڑ چکی ہے، جو شخص دین دار تصور کیا جاتا ہے، اس کی پہچان یہ تو ہے کہ وہ نماز روزے اور بعض اخلاقیات کا پابند ہے، باقی یہ کہ اس کی شخصیت اس حیثیت سے نمایاں نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے لیے بھی درد مند دل رکھتا ہے اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح پوری ملت کی کوئی مضبوط دینی پہچان نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو ایک محدود دائرے میں۔ سماجی یا معاشرتی سطح پر اس کا دینی کردار دنیا کے سامنے نہیں ہے۔
    2۔ آدمی کے اخلاق سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے اور اس کی عزت اور احترام پر وہ خود کو مجبور پاتا ہے۔ اس سے آگے اگر کوئی قوم اخلاق و کردار کا ثبوت فراہم کرنے لگے تو اس کا اعتبار قائم ہو جاتا ہے۔ دنیا اس پر بھروسہ کرنے لگتی ہے اور اس کی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سیرت و کردار کے لحاظ سے یہ امت کہیں بھی نمایاں نہیں ہے۔ اس کے متعلق یہ تصور نہیں ہے کہ وہ اخلاق کی پابند ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے راست باز اور قول و قرار کے پابند ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے، رشوت نہیں لے سکتے اور کسی غیر اخلاقی حرکت کا ارتکاب نہیں کرسکتے۔ اس میں شک نہیں کہ امت کبھی ایسے افراد سے خالی نہیں رہی اور آج بھی ایسے افراد دیکھے جاسکتے ہیں، جن کے اخلاق قابل رشک ہیں اور وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے بھی جاتے ہیں، لیکن بہ حیثیت مجموعی امت کا کوئی اخلاقی امتیاز نہیں ہے، بلکہ اس کی اخلاقی کم زوریاں اس کی خوبیوں کے مقابلہ میں زیادہ نمایاں ہیں۔ اس میں جب تک تبدیلی نہ ہو امتکا اعتبار قائم نہیں ہوسکتا۔
    3۔ مغرب کے سیاسی اقتدار اور اس کی تعلیم و تہذیب کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر قائم ہے۔ اس کے فروغ سے امت کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کے اندر بھی دین و دنیا کی تقسیم عمل میں آگئی۔ دینی اور دنیوی یا سیکولر تعلیم کے الگ الگ ادارے وجود میں آگئے اور دونوں کے میدان کار بھی الگ ہوگئے۔ امت نے عملاً یہ تسلیم کرلیا کہ علمائے دین انفرادی اور شخصی امور و معاملات میں دینی راہ نمائی فراہم کریں گے اور سیکولر تعلیم پائے ہوئے افراد کی قیادت اجتماعی اور سیاسی امور میں ہوگی۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ربط و تعلق اور ایک دوسرے کے علم اور تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت نہیں رہی۔ اس وجہ سے امت سخت کشمکش میں ایک مدت سے مبتلا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قیادت تقسیم نہیں ہوسکتی۔ اگر تقسیم ہوگی تو اس کا ایک متعین رخ نہ ہوگا، بیشتر معاملات میں وہ تضاد کا شکار ہوگی اور کبھی ذہنی اور عملی یک سوئی اسے حاصل نہ ہوگی۔ اس امت کو زندگی کے ہر میدان میں اور ہر معاملہ میں دینی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت آج کے حالات میں اسی وقت پوری ہوسکتی ہے، جب کہ علمائے دین اور سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کے درمیان بہت ہی مضبوط ربط و تعلق ہو، دونوں ایک دوسرے کے علم و تجربہ سے فائدہ اٹھائیں، جس طبقہ میں جس پہلو سے کمی ہے اسے دور کرنے میں اسے تامل نہ ہو اور دونوں طبقات مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کریں۔ کوئی دوسرا مقصد ان کے سامنے نہ ہو۔
    4۔ مسلمان ایک امت ہیں۔ ان کے درمیان اصول اور اساساتِ دین پر اتفاق ہے۔ البتہ تفصیلی احکام و مسائل میں اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات دورِ اول سے چلے آرہے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ان اختلافات نے بہت ہی ناپسندیدہ شکل اختیار کرلی ہے۔ اس کا اثر شخصی، سماجی اور معاشرتی تعلقات پر پڑ رہا ہے۔ آپس میں دوری پائی جاتی ہے اور ہر فریق دوسرے کو حریف کی حیثیت سے دیکھنے لگا ہے۔ دین و شریعت اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے رویہ میں تبدیلی آئے اس کے لیے بعض باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
    یہ اختلافات اصول میں نہیں فروع میں ہیں، جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے۔ ان اختلافات کی نوعیت زیادہ تر علمی ہے۔ اسے علمی موضوع ہی ہونا چاہیے۔ اسلامی اخوت کا تقاضا ہے کہ ان کا اثر آپس کے تعلقات پر نہ پڑنے پائے۔ بسا اوقات ہمارے نزدیک اپنے یا اپنے گروہ کے مفاد کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ ہم اسی کے لیے سوچتے اور تدبیر کرتے ہیں۔ ملت کا مفاد پیچھے چلا جاتا ہے۔ ملت کا وسیع تر مفاد پیش نظر ہو تو ہم اپنے اختلافات پر قابو پاسکتے ہیں اور اتحاد و اتفاق کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
    یہ ایک حقیقت ہے کہ امت کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ اپنے حدود میں رہیں اس کے اندر انھیں برداشت کرنے کا مزاج پیدا ہوجائے تو وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ہوگی۔ اسی لیے اب مغرب کی بھی کوشش ہے کہ ان اختلافات کو ہوا دی جاتی رہے تاکہ یہ امت آپس ہی میں دست و گریباں رہے اور اصل حریف کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے۔