ہوم << منفرد - ریاض علی خٹک

منفرد - ریاض علی خٹک

ریاض خٹک فضائے بسیط میں پھیلی اس وسیع کائنات میں، نظام شمسی کی جُھرمٹ میں تیسرے سیارے پر مشرق کی طرف ابھرتے سورج کو دیکھتے میں نے ہاتھ پھیلائے، اور سوچا میں زندہ ہوں اور میں منفرد ہوں. ایک طمانیت میری روح کو سرشار کرگئی.
طلوع سحر جب سفیدی سے لالی اور لالی سے چمکتے روشن دن کی منزل پر تھا، تو شعور نے اپنے آس پاس دیکھا اور اپنے ہی جیسے ہم نفسوں کا عکس پایا، کیا ہم سب یکساں ہیں؟ یا ہر ایک منفرد ہے.
دُنیا میں ہر طرف میرے جیسے ہم نفسوں کا عکس ہے، جتنی دیر کی روشنی اُس نے پائی اُتنی ہی دیر وہ منعکس ہوتا ہے. وہی دو آنکھیں, دو کان ناک منہ ہاتھ پیر، ہم سب یکساں ہی تو ہیں. پر اس یکسانیت میں ایک جیسے اجسام ہوتے بھی ہم الگ نظر آتے ہیں، ہر عکس کا اپنا ہی رنگ ہے، دو صنفوں میں تقسیم ان افراد میں کسی کی انگلیوں کی لکیریں دوسرے سے نہیں ملتیں، کسی کی آنکھ کی پُتلی کا نقش دوسرے سے یکساں نہیں، نہ کسی زبان کا نقش ملتا ہے.
ایک جیسے ہوتے بھی ہم ایک نہیں، درد مشترک ہیں. درد زخم تکلیف، خوشی کی مسکراہٹ ہو کہ غم کا آنسو، ہم میں مشترک ہیں. مگر اس یکسانیت میں بھی ہم کسی کا درد سمجھ تو سکتے ہیں، اس کا درد لے نہیں سکتے.
میرے جسم کی تکلیف پر آپ خوش ہو سکتے ہیں، آپ غمزدہ ہوسکتے ہیں، مگر آپ اس درد کا حصہ نہیں بن سکتے. ہمھارے احساسات مشترک ہیں مگر اس احساس کی کیفیت منفرد ہے.
اس یکسانیت سے انفرادیت پر انسانیت کا نظام ایستادہ ہے. کسی کوہ و بیاباں میں پھتر پہاڑ سنگت نہیں دے سکتے، ذی روح چرند پرند دے سکتے ہیں. یہی چرند پرند اگر سنگت دے سکتے ہیں تو معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے، معاشرہ ہم نفسوں پر متشکل ہوتا ہے، جن کی ضروریات و خواہشات یکساں ہوتی ہیں.
یہ معاشرہ انسانی طلب ہے، جو فرد سے خاندان محلہ گاؤں شہر سے ہوتا ملک و قوم تک وسیع تر ہوتا جاتا ہے. اس معاشرتی جوڑ کو قائم رکھنے واسطے اس منفرد انسان کو اس کے بنانے والے اللہ نے دین و مذہب دیا. دین ایک منفرد انسان کے احساسات و عمل کو ایک نظم دیتا ہے، اس نظم کی یکسانیت اس یکساں معاشرے کا جوڑ بنتا ہے. یہ جوڑ کیا ہے؟ یہ جوڑ اپنی انفرادیت پر دوسرے کی انفرادیت کو مسمار کرنے سے روکنا ہے. یہ وہ احساس ہے جو وہ حدود بتاتا ہے کہ کہاں تک آپ منفرد ہیں، اور کہاں سے دوسرے کی انفرادیت شروع ہوتی ہے. یہ باہمی احترام ہے. تسلیم کرنا ہے. تصدیق کرنا ہے.
آئیں اس نظام کی، ان احساسات کی ترویج کریں، انہیں عام کریں کہ اس کے عام و تسلیم کرنے میں ہی انسانیت کی معراج ہے.

Comments

Click here to post a comment