Tag: خود کش حملہ

  • لبرل ازم کے خودکش حملے (2) – رضوان اسد خان

    لبرل ازم کے خودکش حملے (2) – رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان آج آپ کو دو کہانیاں سناتے ہیں، نتیجہ آپ خود ہی نکال لیجیے گا.

    پہلی کہانی:
    وہ قبائلی علاقے کا رہائشی تھا اور کراچی میں محنت مزدوری کر کے گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا. ایک دن فوجی آپریشن کے دوران اس کا گھر شیلنگ سے تباہ ہو گیا. بیوی بچے بھی ”کولیٹرل ڈیمیج“ میں مارے گئے. اس کا سب کچھ لٹ چکا تھا. جینے کا مقصد بھی ختم ہو چکا تھا. ایسے میں اس کی ملاقات جانی سے ہوئی. اس کی کہانی سن کر جانی نے اسے تسلی دی اور اپنے ساتھ لے جا کر اپنے باس سے ملوایا. انہوں نے اسے سمجھایا کہ بےبسی سے زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ بندہ انتقام لیتے ہوئے مر جائے. یہ بات اس کے دل کو لگی. الغرض انہوں نے اس کو ٹریننگ دی اور انتقام کی آگ سے بھرے ہوئے خود کش بمبار میں تبدیل کر دیا. یوں ایک روز وہ اپنی ”جیکٹ“ پہن کر شہر کے مصروف ترین بازار میں جا نکلا. اس کے ذہن میں وہ ”فیڈ شدہ“ خیالات گھوم رہے تھے کہ یہ سب لوگ ٹیکس اور ووٹ کے ذریعے اس فوج کو سپورٹ کرتے ہیں جس نے اس کے خاندان کو مارا، لہٰذا اس کے بیوی بچوں کی طرح ان لوگوں کو بھی جینے کا کوئی حق نہیں. بس بیوی اور بچوں کے خیال کا دل میں آنا تھا کہ اس نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور لیور چھوڑ دیا. ایک ہولناک دھماکہ ہوا اور بہت سے خاندان اس کے اپنے خاندان کی طرح اجڑ گئے.

    دوسری کہانی:
    وہ ایک متوسط گھرانے کی لڑکی تھی. آرٹ کی شروع سے ہی شوقین تھی، اس لیے لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلہ لے رکھا تھا. کالج کے ماحول اور کیبل پر نت نئے فیشن اس کو لبھاتے تو اپنے جیب خرچ کو کھانے پینے پر اڑانے کے بجائے ماڈل بننے کا سامان لے آتی. ہر ایک کی نظروں کا مرکز بننا اسے خوب پسند تھا. مگر جب کچھ اوباش لڑکے حد سے گزرتے تو اسے غصہ بھی خوب آتا. وہ ہمیشہ انہیں مزہ چکھانے کے منصوبے سوچتی مگر بات اکثر خیالی پلاؤ تک ہی محدود رہتی. پھر ایک روز اس کی سہیلی نے اسے بتایا کہ ایک نئی کمپنی مارکیٹ میں اپنی لان لانا چاہ رہی ہے. اسے این سی اے کے سٹوڈنٹس بطور ماڈل اور ایڈورٹائزنگ ٹیم کے درکار ہیں. وہ فوراً آڈیشن کےلیے کمپنی کے سی ای او کے پاس پہنچی. اسے 5 دیگر لڑکیوں کے ساتھ سیلیکٹ کر لیا گیا.
    اسے بتایا گیا کہ کمپنی کا نام ہی ”ڈی وائی او ٹی“ ہے جو کہ ”ڈو یور اون تھنگ“ کا مخفف ہے. اور ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جس طرح ہر کسٹمر کو ہماری لان کا ڈیزائن اپنی پسند کے مطابق ڈھالنے کی”آزادی“ ہے، بالکل اسی طرح ہر انسان اپنے فیصلے اور عمل میں ”آزاد“ ہونا چاہیے. ہم کسی سماجی، معاشرتی، مذہبی پابندی کو نہیں مانتے اور اسی کا عملی اظہار کر کے ہم دنیا کو اپنا پیغام دیں گے.
    اور پھر 5 ستمبر کی دوپہر یہ ٹیم لاہور کے انارکلی بازار میں پہنچ گئی. دیگر لڑکیاں آس پاس کی دکانوں پر ونڈو شاپنگ کرنے لگیں اور ”یہ“ بازار کے درمیان چل پڑی. اچانک ٹیم کا ایک لڑکا نمودار ہوا اور اسے چھیڑنے لگا. فیڈ کیے گئے الفاظ اس کے دماغ میں گونج اٹھے کہ میں آزاد ہوں، میں جو چاہوں کروں. کسی کو مجھے روکنے اور ہراساں کرنے کا حق نہیں. ساتھ ہی سابقہ لفنگوں کے واقعات کا اس کی نظروں کے سامنے گھومنا تھا کہ اس نے اپنی چادر اتار کر پرے پھینک دی: گویا کہ مذہب اور روایات کی علامت کے قلادے کو گلے سے اتار پھینکا. بیک گراؤنڈ میں دوسرے ممبر نے ڈیک پر نامور انگریزی گلوکارہ ”بی یونسے“ (Beyoncé) کا گانا ”Who Run The World“ چلا دیا اور ”رحمت“ نامی اس لڑکی نے اس کی دھن پر تھرکنا جو شروع کیا تو پورے بازار کی نگاہوں کیلئے ”زحمت“ بن گئی. ارد گرد کی ٹیم ممبرز بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئیں اور ”فیمن ازم“ کا نہایت ”بازاری“ انداز میں پرچار کرتا، یہ نغمہ ان کے دل کی آواز بن کر اپنے اپنے گھروں کی عزت، ان خواتین کو بھی ”بازاری“ بنا گیا.
    اگلے دن رحمت بی بی نے فیس بک پر یہ ویڈیو ان ”فاتحانہ“ الفاظ کے ساتھ شیئر کی کہ ”انسان ننگا پیدا ہوتا ہے جبکہ بعد میں اسے متضاد اخلاقیات اور اقدار کے لامتناہی لباس میں لپیٹ دیا جاتا ہے.“ یعنی بین السطور یہ واضح پیغام ہے کہ ان جیسی خواتین علامتی اور حقیقی، ہر دو قسم کا لباس اتار پھینکنے اور اپنی پیدائشی حالت میں واپس لوٹنے کو بے چین ہیں.
    …………..
    تو جناب یہ تھیں دو کہانیاں، دو عدد خودکش حملوں کی، جن میں کچھ ”شر پسند عناصر“ کے بھڑکانے پر، خود کش حملہ آور کے دماغ میں پیدا ہونے والا ”خلل“، اسے ایک ایسے عمل کو کر گزرنے پر مجبور کر دیتا ہے، جو ایک ”دھماکے سے“ اس کی اپنی ہی آئیڈیالوجی کو، لوگوں کے اذہان میں بھک سے اڑا دیتا ہے. شاید اسی لیے اسے ”خودکش حملہ“ کہتے ہیں.

  • بالآخر وہ ہو گیا جس کا خدشہ تھا – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    بالآخر وہ ہو گیا جس کا خدشہ تھا – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش فرانس، ترکی، عراق، صومالیہ اور افغانستان میں گزشتہ دو اڑھائی ہفتوں میں ہوئے دہشت گردی کے بڑے حملوں کے بعد یہ خطرہ بہت بڑھ گیا تھا کہ پاکستان کو بھی جلد ٹارگٹ کیا جائے گا۔ سو آج کوئٹہ میں ایک بڑی کارروائی ہوئی جس میں ایک خبر کے مطابق لگ بھگ 90 افراد کی شہادت کا امکان ہے۔

    چرکا لگ گیا۔ باقی باتیں ثانوی بھی ہیں اور ایک معمول کی کارروائی بھی۔ حکمرانوں کا عزم، سیکورٹی اداروں کی وضاحتیں اور سوشل میڈیا پر آہ و بکا اور طعن و تشنیع۔

    غور کرنے کی بات البتہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہوئے اس دھماکے کے خدوخال یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے خلاف برسرپیکار قوتوں کا کسی سطح پر ایک بڑا اتحاد وجود میں آ چکا ہے جس کی یہ پہلی کاروائی ہے، مکرر عرض ، پہلی کارروائی۔

    جس طرح اسے ملٹی سٹیج پلان کیا گیا، اس کے لیے اس سطح کی ٹارگٹ سیلیکشن جو ایک بھیڑ کو جنم دے، پھر ہسپتال میں ایک دوسری کارروائی۔ اس تمام کی پلاننگ، ریکی، اور کوارڈینیشن کسی انٹیلیجنس ایجنسی سے کم سطح کا کام نہیں۔ خطہ کی صورتحال (بالخصوس افغانستان اور مقبوضہ کشمیر)، پاکستان میں امن کی بحالی اور سی پیک و دیگر معاشی امکانات پاکستان کے بدخواہوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں جو انہیں کچھ بھی کرنے پر آمادہ کر سکتےہیں۔ خود کش حملہ آورکے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ کہاں سے دستیاب ہیں، مزید یہ کہ اگست کا مہینہ پاکستان کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے اور بلوچستان میں یا بلوچستان سے باہر کون اس مہینہ کو خون رنگ کرنے میں دلچسپی رکھ سکتا ہے۔ چند ہی روز قبل، کوئٹہ میں یوم آزادی کےحوالہ سے پاکستانی پرچموں کی فروخت کے ایک سٹال پر فائرنگ سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

    اس وقت جس بات سے سب سے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے وہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ ہے، بالخصوص 15 اگست تک۔

    یہ ٹرینڈ اگر کسی ایسے ہی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے جس کا خدشہ اوپر ظاہر کیا گیا تو یہ دوسرے شہروں میں بھی ضرور ہوگا۔ کراچی، اسلام آباد اور پشاور یا کوئی اور بڑا لیکن نسبتا کم توجہ والا شہر اس کا ممکنہ ہدف ہو سکتے ہیں۔

    اس وقت فوری ضرورت اس بات کی ہے :

    کوئٹہ سانحہ کے ذمہ داروں تک جلد از جلد پہنچا جائے۔
    ہیومن انٹیلیجنس نیٹ ورک کو وسعت دی جائے۔
    نیکٹا، اگر سچ میں کچھ ہے تو اس کو بھی اب فعال کر ہی لیا جائے اور اس کی ہیلپ لائن کے نمبر بھی بار بار مشتہر کیے جائیں۔
    ہمسایہ ممالک کے باہمی انٹیلیجنس گٹھ جوڑ تک رسائی کی کوشش بھی یقیناً جاری ہوگی۔ اس کے بغیر کارروائیاں روکنا مشکل ہو گا۔

    یہ بھی اہم ہے کہ دہشت گردوں کو مار بھگانے کے دعوے نہ کیے جائیں۔ اگر دہشت گردی یورپ جیسے منضبط اور اعلی دفاعی ٹیکنالوجی والے ممالک میں ممکن ہو چکی ہے تو پاکستان میں اس کے امکانات ہمیشہ بہت زیادہ رہیں گے۔ کم از کم آئندہ 2 سے پانچ سال تک تو ضرور۔

    اس لیے یہ وقت ایک زیادہ فعال اور دور رس پلاننگ کا متقاضی ہے۔ دہشت گردی کی موجودہ لہر میں دو ٹرینڈ بہت واضح ہیں، پراپر پلاننگ اور ریکی ، سافٹ اہداف پر حملہ کیونکہ مقصد صرف اموات کی تعداد زیادہ رکھنا ہے۔ یہ نہایت سفاک حکمت عملی ہے۔ اس کا توڑ ہیومن انٹیلی جنس کے جامع اور مربوط نیٹ ورک اور عوام کی اس نیٹ ورک میں رضاکارانہ شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔

    افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مستقبل کے خطرات ہماری قومی ترجیح نظر نہیں آ رہے۔ کہیں سول ملٹری کشمکش کی باتیں ہیں تو کہیں آوے اور جاوے کا غلغلہ۔ یہ سب باتیں قوم اور متعلقہ اداروں کی توجہ مسلسل تقسیم کیے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی بنیاد کو وسیع اور توجہ کو مرکوز کر رہی ہیں۔