فرانس، ترکی، عراق، صومالیہ اور افغانستان میں گزشتہ دو اڑھائی ہفتوں میں ہوئے دہشت گردی کے بڑے حملوں کے بعد یہ خطرہ بہت بڑھ گیا تھا کہ پاکستان کو بھی جلد ٹارگٹ کیا جائے گا۔ سو آج کوئٹہ میں ایک بڑی کارروائی ہوئی جس میں ایک خبر کے مطابق لگ بھگ 90 افراد کی شہادت کا امکان ہے۔
چرکا لگ گیا۔ باقی باتیں ثانوی بھی ہیں اور ایک معمول کی کارروائی بھی۔ حکمرانوں کا عزم، سیکورٹی اداروں کی وضاحتیں اور سوشل میڈیا پر آہ و بکا اور طعن و تشنیع۔
غور کرنے کی بات البتہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہوئے اس دھماکے کے خدوخال یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے خلاف برسرپیکار قوتوں کا کسی سطح پر ایک بڑا اتحاد وجود میں آ چکا ہے جس کی یہ پہلی کاروائی ہے، مکرر عرض ، پہلی کارروائی۔
جس طرح اسے ملٹی سٹیج پلان کیا گیا، اس کے لیے اس سطح کی ٹارگٹ سیلیکشن جو ایک بھیڑ کو جنم دے، پھر ہسپتال میں ایک دوسری کارروائی۔ اس تمام کی پلاننگ، ریکی، اور کوارڈینیشن کسی انٹیلیجنس ایجنسی سے کم سطح کا کام نہیں۔ خطہ کی صورتحال (بالخصوس افغانستان اور مقبوضہ کشمیر)، پاکستان میں امن کی بحالی اور سی پیک و دیگر معاشی امکانات پاکستان کے بدخواہوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں جو انہیں کچھ بھی کرنے پر آمادہ کر سکتےہیں۔ خود کش حملہ آورکے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ کہاں سے دستیاب ہیں، مزید یہ کہ اگست کا مہینہ پاکستان کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے اور بلوچستان میں یا بلوچستان سے باہر کون اس مہینہ کو خون رنگ کرنے میں دلچسپی رکھ سکتا ہے۔ چند ہی روز قبل، کوئٹہ میں یوم آزادی کےحوالہ سے پاکستانی پرچموں کی فروخت کے ایک سٹال پر فائرنگ سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
اس وقت جس بات سے سب سے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے وہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ ہے، بالخصوص 15 اگست تک۔
یہ ٹرینڈ اگر کسی ایسے ہی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے جس کا خدشہ اوپر ظاہر کیا گیا تو یہ دوسرے شہروں میں بھی ضرور ہوگا۔ کراچی، اسلام آباد اور پشاور یا کوئی اور بڑا لیکن نسبتا کم توجہ والا شہر اس کا ممکنہ ہدف ہو سکتے ہیں۔
اس وقت فوری ضرورت اس بات کی ہے :
کوئٹہ سانحہ کے ذمہ داروں تک جلد از جلد پہنچا جائے۔
ہیومن انٹیلیجنس نیٹ ورک کو وسعت دی جائے۔
نیکٹا، اگر سچ میں کچھ ہے تو اس کو بھی اب فعال کر ہی لیا جائے اور اس کی ہیلپ لائن کے نمبر بھی بار بار مشتہر کیے جائیں۔
ہمسایہ ممالک کے باہمی انٹیلیجنس گٹھ جوڑ تک رسائی کی کوشش بھی یقیناً جاری ہوگی۔ اس کے بغیر کارروائیاں روکنا مشکل ہو گا۔
یہ بھی اہم ہے کہ دہشت گردوں کو مار بھگانے کے دعوے نہ کیے جائیں۔ اگر دہشت گردی یورپ جیسے منضبط اور اعلی دفاعی ٹیکنالوجی والے ممالک میں ممکن ہو چکی ہے تو پاکستان میں اس کے امکانات ہمیشہ بہت زیادہ رہیں گے۔ کم از کم آئندہ 2 سے پانچ سال تک تو ضرور۔
اس لیے یہ وقت ایک زیادہ فعال اور دور رس پلاننگ کا متقاضی ہے۔ دہشت گردی کی موجودہ لہر میں دو ٹرینڈ بہت واضح ہیں، پراپر پلاننگ اور ریکی ، سافٹ اہداف پر حملہ کیونکہ مقصد صرف اموات کی تعداد زیادہ رکھنا ہے۔ یہ نہایت سفاک حکمت عملی ہے۔ اس کا توڑ ہیومن انٹیلی جنس کے جامع اور مربوط نیٹ ورک اور عوام کی اس نیٹ ورک میں رضاکارانہ شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مستقبل کے خطرات ہماری قومی ترجیح نظر نہیں آ رہے۔ کہیں سول ملٹری کشمکش کی باتیں ہیں تو کہیں آوے اور جاوے کا غلغلہ۔ یہ سب باتیں قوم اور متعلقہ اداروں کی توجہ مسلسل تقسیم کیے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی بنیاد کو وسیع اور توجہ کو مرکوز کر رہی ہیں۔
تبصرہ لکھیے