Tag: حکومت

  • سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    آپ پرسوں کی مثال لے لیجیے‘ پولیس نے کراچی میں دو لوگ گرفتار کر لیے‘ ایک پر اختلافی تقاریر کا الزام تھا اور دوسرے پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا‘ گرفتاری سے اگلے دن پچاس ساٹھ لوگ ملیر میں اکٹھے ہوئے اور نیشنل ہائی وے بند کر دی‘ آدھ گھنٹے میں ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہو گئیں‘ ریلوے کی مین لائین بھی قریب تھی‘ پاکستان ایکسپریس گزری‘ ہجوم نے ٹرین پر پتھراؤ شروع کر دیا‘ انجن کے شیشے ٹوٹ گئے‘ ٹرینوں کی آمدورفت بھی رک گئی‘ ہجوم کی وجہ سے دکانیں‘ پٹرول پمپس اور گھروں کی کھڑکیاں دروازے بھی بند ہو گئے۔

    پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کیے لیکن وہ ملزمان کی باعزت رہائی کے بغیر سڑک کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ عوام اس دوران دفتروں اور گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے‘ نیشنل ہائی وے پر سو کلو میٹر تک ٹریفک بلاک تھی‘ اسکول وینیں بھی پھنس گئیں اور ایمبولینسز بھی سٹک ہو کر رہ گئیں‘ مسافروں کی فلائیٹس بھی مس ہو گئیں اور نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے انٹرویو بھی نہ دے سکے‘ ڈیلیوری ٹرک بھی پھنس گئے اور ٹرالر اور کنٹینر بھی الجھ گئے‘ ہزاروں گاڑیوں نے لاکھوں ٹن دھواں پیدا کیا اور یہ مہلک دھواں بھی آبادیوں کے پھیپھڑوں میں جذب ہو گیا‘ میڈیا پہنچا اور اس نے عوام کو لائیو تھیٹر دکھانا شروع کر دیا۔

    یہ سلسلہ ساڑھے آٹھ گھنٹے چلتا رہا‘ پولیس نے اس دوران تین بار مذاکرات کیے لیکن یہ تینوں مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے‘ پولیس نے 13 گرفتار مظاہرین بھی سڑک کی ایک لین کھولنے کی شرط پر رہا کر دیے مگر احتجاجیوں نے رہائیوں کے باوجود سڑک نہ کھولی یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد پولیس مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو گئی‘ شیلنگ کی دیر تھی‘ مظاہرین بھاگ کر گلیوں میں غائب ہو گئے‘ پولیس نے پیچھا کیا‘ چند نوجوانوں نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا مگر یہ سلسلہ بھی ایک آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا‘ تاہم پولیس کو ٹریفک بحال کرنے میں چار گھنٹے لگ گئے‘ ساڑھے آٹھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ٹرینیں بھی بحال ہو گئیں لیکن اس دوران لوگوں کو جو کوفت‘ پریشانی اور تکلیف ہوئی‘ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

    یہ کیا ہے؟ یہ اس ملک کے ایک شہر کا ایک دن کا ایک واقعہ ہے‘ آپ اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا ملک کی تمام بڑی سڑکیں چیف جسٹس‘ آئی جی‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور پارلیمنٹ بن چکی ہیں‘ ملک میں جب بھی جس کا بھی دل چاہتا ہے یہ سڑک پر لاش رکھ کر ٹریفک بلاک کر دیتا ہے‘ یہ دو ٹائر لاتا ہے‘ سڑک کے درمیان رکھتا ہے‘ آگ لگاتا ہے اور نامنظور‘ نامنظور‘ گو‘ گو کے نعرے لگانے لگتا ہے اور یوں چند سیکنڈ میں بیچارے شہری اپنے تمام حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں‘ مریض ایمبولینس میں مر جاتے ہیں‘ مسافر فلائیٹس سے رہ جاتے ہیں‘ بچے اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پہنچ پاتے‘ دفتر جانے والے دفتر‘ گھر جانے والے گھر اور مارکیٹ جانے والے مارکیٹ نہیں پہنچتے اور لوگ نوکریوں‘ امتحانوں اور ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔

    آپ کسی دن شہر کی کسی مرکزی سڑک پر نکل جائیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی تماشا ضرور ملے گا‘ لوگوں کو پولیس تنگ کرتی ہے تویہ مرکزی سڑک پر سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں‘ لوگ جج تک اپنی فریاد پہنچانا چاہتے ہیں تویہ سڑک پر لیٹ جاتے ہیں اور یہ تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں‘ یہ اپنی کچی نوکری کو پکا کرنا چاہتے ہیں‘ یہ اپنے پے اسکیل کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور یہ اگر اپنے مریض کا بروقت آپریشن کرانا چاہتے ہیں تو یہ شہر کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے‘ میڈیا آئے گا‘ کیمرے اور مائیک لگیں گے اور ان کا کام ہو جائے گا لیکن ان کے کام کی وجہ سے جن ہزاروں لوگوں کو تکلیف پہنچی وہ کہاں جائیں‘ وہ کہاں فریاد کریں‘ یہ شاید ان لوگوں کا مسئلہ نہیں‘ عام لوگ خواہ جہنم میں چلے جائیں ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    آپ لاہور کی مال روڈ کو دیکھ لیجیے‘ یہ روڈ دس برسوں سے احتجاج کا شکار ہے‘ یہ ڈاکٹروں‘ نرسوں اور اساتذہ کی احتجاج گاہ بن چکی ہے‘ راولپنڈی میں مری روڈ‘ فیض آباد‘ ایکسپریس وے اور فیصل ایونیو بھی اکثر کسی نہ کسی دھرنے کا ہدف رہتی ہے‘ کراچی کی نیشنل ہائی وے اور شاہراہ فیصل پر بھی ٹائر جلتے بجھتے رہتے ہیں‘ کوئٹہ میں لاشیں سڑکوں پر رکھنے کا رواج عام ہے اور آپ اگر ذرا سی ریسرچ کریں گے تو آپ کو پشاور کی سڑکیں بھی احتجاج کا شکار نظر آئیں گی‘ آپ کسی دن جی ٹی روڈ کا جائزہ بھی لے لیں آپ کو یہ بھی جگہ جگہ سے بند ملے گی‘ آپ کو اس کے کسی نہ کسی پورشن پر کوئی نہ کوئی دھڑا قابض نظر آئے گا‘ یہ کیا ہے‘ یہ کیوں ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتا ہوں‘ کیسے؟

    کیا یہ سچ نہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک پاکستان پیپلزپارٹی نے تمام بڑی سیاسی کامیابیاں سڑکوں پر حاصل کیں‘ بھٹو کا سیاسی کیریئر ٹرین سے شروع ہوا تھا‘ یہ ایوب خان کی کابینہ سے نکلنے کے بعد ٹرین میں سوار ہوئے‘ ہر ریلوے اسٹیشن پر تقریر کی اور لاہور پہنچتے پہنچتے لیڈر بن گئے‘ اس دن ریلوے کا سارا شیڈول خراب ہو گیا تھا‘ ٹرینیں پانچ پانچ گھنٹے لیٹ تھیں‘ ایوب خان کے خلاف پوری تحریک سڑکوں پر پروان چڑھی‘ مشرقی پاکستان بھی سڑکوں پر بنگلہ دیش بنا‘ بھٹو کے خلاف تحریک نے بھی سڑکوں پر جنم لیا۔

    جنرل ضیاء الحق کو بھی سڑکوں نے الیکشن کرانے پر مجبور کیا‘ میاں نواز شریف کو بھی سڑکوں نے صنعت کار سے سیاستدان بنایا‘ بے نظیر بھٹو بھی سڑکوں کے ذریعے مشرق کی بیٹی بنی‘ عدلیہ بحالی کی تحریک بھی سڑکوں پر پروان چڑھی‘ جنرل مشرف کا یونیفارم بھی سڑکوں نے اتارا‘ آصف علی زرداری بھی سڑکوں کے ذریعے دبئی منتقل ہوئے‘ عمران خان کو بھی سڑکوں نے قائد تبدیلی بنایا اور میاں نوازشریف بھی اب سڑکوں کی وجہ سے پانامہ کے شکنجے میں آئے ہیں لہٰذا عوام جب یہ دیکھتے ہیں ہمارے سیاستدان سڑکیں‘ ریلوے ٹریک اور شہر بند کر کے عظیم قائدین بن جاتے ہیں۔

    یہ سڑک سے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں تویہ بھی سڑکوں کو امرت دھارا مان لیتے ہیں‘ یہ بھی فیل ہونے کے بعد سڑک بلاک کرتے ہیں اور پورا امتحانی نظام تبدیل کرا دیتے ہیں‘ یہ سڑک بلاک کر کے کچی نوکریوں کو پکا کرا لیتے ہیں‘ یہ اپنی تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں‘ یہ اپنی معطلی ری ورس کرا لیتے ہیں‘ یہ ایس ایچ او‘ ڈی ایس پی اور ایس پی کو فارغ کرا دیتے ہیں‘ یہ قاتل کو گرفتار کرا دیتے ہیں اور یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس پر مجبور کر دیتے ہیں‘ عوام سمجھتے ہیں سڑکیں ہماری عدالت‘ پولیس اسٹیشن‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم‘ صدر اور پارلیمنٹ ہیں‘ عوام کے یہ خیالات غلط بھی نہیں ہیں۔

    ملک میں جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ سڑکیں کریں گی اور جب الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن اور پانامہ لیکس پر لارجر بینچ سڑکیں بنوائیںگی تو پھر عوام انصاف کے لیے لاشیں سڑکوں پر کیوں نہیں رکھیں گے‘ یہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں بلاک کیوں نہیں کریں گے اور یہ پے اسکیل‘ نوکری کی بحالی اور مستقل ملازمت کے لیے سڑکوں پر پٹیشن دائر کیوں نہیں کریں گے ‘یہ ہو رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے۔

    ہمارے پاس اب دو آپشن بچتے ہیں‘ ہم سڑکوں کو اپنا آئین‘ قانون‘ ضابطہ‘ عدالت‘ سسٹم اور اقتدار اعلیٰ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ آئیں‘ یہ جتنی دیر سڑک بلاک رکھ سکیں ‘ یہ جتنے لوگوں کو بنیادی حقوق‘ سکون اور آرام سے محروم کر سکیں ان کے اتنے مطالبات مان لیے جائیں‘ انھیں اتنا انصاف دے دیا جائے یا پھر ہم یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔

    سپریم کورٹ حکم جاری کرے ملک کا جو بھی شہری‘ لیڈر یا ادارہ کوئی مرکزی شاہراہ بند کرے گا ریاست اسے مجرم سمجھے گی‘ یہ اس کے خلاف پوری فورس استعمال کرے گی‘ یہ اس سے املاک اور شہریوں کی تکلیف کا ہرجانہ بھی وصول کر ے گی اور جو شخص ہجوم کو لیڈ کرے گا وہ سرکاری عہدے کے لیے ’’ڈس کوالی فائی‘‘ ہو جائے گا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کرے حکومت ملک میں درجن بھر تحریر اور تقسیم اسکوائر بنا دے‘ عوام نے جتنا احتجاج کرنا ہے یہ وہاں جا کر کریں لیکن انھیں سڑک بلاک کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا‘ یہ راستہ نہیں روک سکیں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان یہ کام بہت آسانی سے کر سکتے ہیں‘ یہ ایک حکم جاری کریں گے اور عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا اور اگر چیف جسٹس کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر یہ مہربانی فرما کر سڑکوں کو سپریم کورٹ کا درجہ دے دیں‘ یہ شاہراہوں کو فل بینچ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ سڑکوں پر آئیں اور اپنے فیصلے کرا لیں‘ نہ وکیل کا خرچہ اور نہ تاریخ پر تاریخ‘ بس دو ٹائر جلیں‘ دس گھنٹے ٹریفک بلاک ہو اورلوگوں کے مطالبات منظور ہو جائیں‘ بات ختم‘ انصاف ہو گیا۔

  • جمعیت علمائے اسلام کی ہر حکومت میں شمولیت، کتنی حقیقت کتنا افسانہ – عادل لطیف

    جمعیت علمائے اسلام کی ہر حکومت میں شمولیت، کتنی حقیقت کتنا افسانہ – عادل لطیف

    عادل لطیف مغربی تہذیب اپنی پوری چمک دمک، آب و تاب کے ساتھ، اسلامی تمدن، اسلامی روایات، اسلامی اخلاق و اقدار پر حملہ آور ہے، اسلامی تہذیب کے نشیمن کے ایک ایک تنکے پر بجلیاں گرائی جا رہی ہیں، یہ تہذیب عالم اسلام کے ایک بڑے طبقے پر فتح حاصل کر چکی ہے، اس کی تابانیوں کے سامنے، اس کی آنکھیں خیرہ، اس کا دل گردیدہ، اس کا دماغ مسحور اور اس کا شعور مفلوج اور مکمل مفلوج ہو چکا ہے. تہذیبوں کے اس تصادم میں ایک جماعت ہے جو ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے جس میں صنعتی، سائنسی، ٹیکنالوجی اور مادی ترقی پورے عروج پر ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب وتمدن، اسلامی اخلاق و ثقافت کسی تحریف و تاویل کے بغیر رائج ہو، ایک ایسا اسلامی معاشرہ جس میں مغرب کے بظاہر خوشنما لیکن درحقیقت جذام زدہ نظام اخلاق و تہذیب سے مرعوبیت کا ذرہ بھر شائبہ نہ ہو، مادی وسائل سے لیس ہونے کے ساتھ اس میں اسلام کی ایک ایک تعلیم اور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں پورے فخر مکمل یقین اور بھرپور اعتماد کے ساتھ اختیار کیا ہو، اس بارے میں کسی قسم کی مداہنت، مصلحت، معذرت اور رواداری کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو. ایک ایسا مسلمان معاشرہ جو دوسری قوموں کی تہذیب کو پورے احساس برتری کے ساتھ یہ کہہ کر رد کر دیتا ہو کہ کیا ہم اپنے نبی سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ان احمق قوموں کی تہذیب کی خاطر ترک کر دیں.

    اسلام کے اسی بلند اخلاق و کردار کے حاملین کی جماعت کا نام جمعیت علمائے اسلام ہے. اس روح و بدن کی کشمکش میں مغرب نے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے کیل کانٹوں سے لیس ہو کر جمعیت علماء اسلام کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے. یار لوگوں کو جمعیت علمائے اسلام کے خلاف کوئی اور ثبوت نہیں ملتا تو بڑے طمطراق سے یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ جمعیت تو اقتدار کی غلام گردش، وزارت کا نشہ، پروٹوکول کی مستی اور دولت کی ہوس کی خوگر ہے، تبھی تو یہ ہر حکومت کی اتحادی ہوتی ہے. یہ بات تو آئندہ سطور میں واضح ہو جائے گی کہ جمعیت نے کتنا وقت حکومت کے ساتھ گذارا ہے اور کتنا اپوزیشن میں، لیکن اس سے پہلے میں وقت کے ان بقراطوں سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ کیا کوئی جمہوری پارٹی الیکشن میں حصہ اس لیے لیتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھے یا استعفی دے کر اسمبلیوں سے باہر چلی جائے. ظاہر بات ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا، ہر پارٹی الیکشن لڑتی ہی اس لیے ہے کہ وہ ایوان کا حصہ بنے اور حکومت بنائے، جب ہر پارٹی ہی اقتدار چاہتی ہے تو جمعیت ہی مورد الزام کیوں؟ اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مفکر اسلام مفتی محمود رحمۃ اللۃ علیہ کی وفات کے بعد سے اور قائد جمعیت کی امارت کے شروع سے لے کر اب تک جمعیت کتنی مرتبہ حکومت کا حصہ رہی اور کتنی مرتبہ مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا.

    maulanafazlurrehman قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جمعیت نے پہلا انتخابی معرکہ 1988ء میں لڑا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ جمعیت مفتی محمود کے ساتھ ہی دفن ہوگئی ہے مگر الیکشن 1988ء کے نتائج نے بتادیا کہ جمعیت ابھی زندہ ہے۔ 360526 ووٹ لے کر جمعیت قومی اسمبلی کی 7 سیٹوں پر منتخب ہوئی اور مخالف قوتوں کو تاریخ ساز جواب دیا۔ 1988ء سے لے کر 1990ء تک اس اسمبلی میں جمعیت نے بھرپور انداز میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا.
    1990 کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے مجموعی طور پر 622214 ووٹ حاصل کرکے 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1990ء سے 1993ء کی اس اسمبلی میں بھی جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن میں رہی۔
    1993ء کے الیکشن میں جمعیت نے 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، 1993ء سے 1997ء تک کا یہ عرصہ بھی جمعیت اپوزیشن میں رہی۔
    1997ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 324910 ووٹ کے ساتھ 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1997ء سے 2002ء تک جمعیت نے یہ عرصہ بھی کامیابی کے ساتھ اپوزیشن میں گزارا۔
    2002ء کے الیکشن میں جمعیت نے متحدہ مجلس عمل کے محاذ سے انتخاب لڑتے ہوئے مجموعی طور پر 63 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2002ء سے 2008ء تک کا یہ وہ وقت تھا جس میں ایم ایم اے کی قیادت میں جمعیت نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی مگر مرکز میں حقیقی اپوزیشن کو فروغ دیا اور آج کی یہ اپوزیشن اسی رویہ کا تسلسل ہے جو ایم ایم اے نے متعارف کروایا تھا۔
    2008ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 766260 ووٹوں کے ساتھ 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اور آصف زرداری کی دعوت پر حکومت میں شریک ہوئی.
    2013ء کے الیکشن میں جمعیت نے 1461371 ووٹ کے ساتھ مجموعی طور پر 15 سیٹیں حاصل کیں، اور نوازشریف کی دعوت پر وفاقی حکومت میں شامل ہوئی۔

    اب اگر حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جمعیت علمائے اسلام نے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں 1988ء سے لے کر 2013ء تک تقریبا 20 سال اپوزیشن میں، جبکہ صرف چھ سال کے لگ بھگ کسی حکومت سے اتحاد میں گزارے. اس جائزہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جمعیت کے مخالف پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ پروپیگنڈہ محض افسانہ ہے. جمعیت مخالفین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جمعیت کوئی پانی کا بلبلہ نہیں ہے جو اٹھتا ہے، کچھ چلتا ہے، فنا ہو جاتا ہے، جمعیت کوئی ٹمٹماتا چراغ نہیں ہے جو چند بھڑکیں مار کر تاریکی کا حصہ بن جاتا ہے، جمعیت بہتی ندی کے کنارے ابھرنے والی جھاگ نہیں ہے جو خشکی تک پہنچنے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے. جمعیت ایک حقیقت ہے جس نے ملکی سیاست میں اپنے وجود کو تسلیم کروایا ہے، اس کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاست میں کیجیے، دروغ گوئی سے کام مت لیجیے، آخر جھوٹ کی کوئی حد ہوتی ہے.

  • آج کا اہم ترین سوال-خورشید ندیم

    آج کا اہم ترین سوال-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    پرویز رشید بہت دنوں کے بعد سینیٹ میں آئے تو ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ سوال یہ ہے کہ پرویز رشید نے آخر کون سا ایسا کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ سینیٹ میں ان کی پذیرائی محاذِ جنگ سے لوٹنے والے ایک بہادر سپاہی کی طرح ہوئی؟
    یہ آج کا اہم ترین سوال ہے۔ اگر ہم اس کو حل نہ کرسکے تو پاکستان کو عدم استحکام کے خدشات سے نہیں نکالا جا سکتا۔ بمشکل سال گزرتا ہے کہ سیاسی نظام کا سفینہ کسی گرداب میں پھنس جاتا ہے۔ ٹی وی کی چھوٹی سی سکرین سے ایک مہم اٹھتی ہے جو پورے ملک کا احاطہ کر لیتی ہے۔ یہ سکرین چوبیس گھنٹے قوم کو اضطراب میں مبتلا رکھتی ہے۔ قلم تلوار بنتے اور بے نیام ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہر مہم کا ہدف سیاسی قیادت ہوتی ہے۔ معاشرے کو باور کرا دیا جاتا ہے کہ اس ملک کے تمام مسائل کا سبب اہلِ سیاست ہیں، جب تک ان سے نجات کی کوئی صورت دریافت نہیں ہوتی ،اصلاحِ احوال کا کوئی امکان نہیں۔ لوگ حسبِ توفیق متبادل پیش کرتے اور ایک نسخہ کیمیا کے طور پراسے بازار میں لے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ایسے لوگ اس مہم کے سرخیل بن جا تے ہیں جن پر سیاست دان کی تہمت بھی دھری ہوتی ہے۔ اتنا اہتمام بہر حال ہوتا ہے کہ سرخیل کی پاک دامنی کے قصے بھی ساتھ ہی عام ہوتے رہیں۔اب یہ بھی واضح ہو چکا کہ اصل کہانی میں ان کا کردار صرف زیبِ داستاں کے لیے ہوتا ہے۔

    ایساں کیوں ہوتا ہے؟جب اصولی طور پر اس پر اتفاق ہے کہ جمہوریت ہی ہمارے مسائل کا حل ہے تو پھرمتبادل کی تلاش کیوں؟ سب جانتے ہیں کہ اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ریاستی اداروں میں اختیارات کی کشمکش ہے۔ ہم آج تک یہ نہیں جان سکے کہ ریاست میںقوت کا حقیقی مرکز کون سا ہے؟ ریاست کے موجودہ نظام میں، یہ تو ممکن نہیں رہا کہ کوئی ایک ادارہ قادرِ مطلق ہو۔ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا لیکن نظام کی بقا کے لیے لازم ہے کہ پلڑا کسی ایک جانب جھکا رہے۔کسی ایک کے پاس ویٹو کا حق ہو۔ صنفی اعتبار سے مرد اور عورت میںکوئی دوسرے سے برتر نہیں، مگر یہی مرد اورعورت جب خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو مشاورت کے اصول کے ساتھ یہ ناگزیر ہے کہ پلڑا کسی ایک جانب جھک جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ سنایا کہ خاندان کی سربراہی اس کے لیے ہے جو معاشی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ انسانی سماج کی تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر مرد ہی خاندان کا ”قوّام‘‘ رہا ہے، اس لیے اسلام نے خاندان کی سربراہی مرد کو سونپ دی۔

    ریاست کے باب میں پاکستان کے آئین نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ ہم نے بطور اصول جو باتیں طے کی ہیں، ان میں سے ایک پارلیمانی نظام ہے۔ سادہ لفظوں میں ہم نے بطور قوم جس ریاستی بندو بست کو قبول کیا، اس میں اختیارات کا توازن پارلیمان کی طرف جھکتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ طاقت کا مرکز عوام ہیں۔ ان کی نمائندگی پارلیمان کرتا ہے،لہٰذا گھر کے نظام میں جو اہمیت مرد کی ہے، وہی ریاستی نظام میں پارلیمان کی ہے۔ ماضی بعید میں ہم کسی ایک آئین پر متفق نہیں ہو پائے لیکن 1973ء کے بعد تو ہم نے اجماع سے یہ مسئلہ حل کر دیا۔ بد قسمتی سے فوجی آ مریتوں نے اس اجماع کو اپنے بوٹوں تلے روند ڈالا۔ یہ کانامہ پہلے ضیاالحق صاحب اور پھر پرویز مشرف صاحب نے سر انجام دیا۔

    اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ ‘غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر‘۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مارشل لا میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش ہوئی جس میں اس بیانیہ کو چیلنج کیا گیا جس میں جمہور کو قوت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ضیا الحق صاحب نے نئے بیاننے کے لیے اسلام کا سہارا لیا۔کبھی یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کی اجازت نہیں۔کبھی شوریٰ سازی ہوئی۔کبھی علما نے مدد کی کہ اسلامی تاریخ کا پہلا مارشل لا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے لگا یا تھا۔ اسی بیانیے کو پرویز مشرف صاحب نے سیکولر یا غیر مذہبی استدلال کے ساتھ پیش کیا۔ اس میں ‘کرپشن کا خاتمہ‘ اور ‘سب سے پہلے پاکستان‘ کو نئے بیانیے کی بنیاد بنایا گیا۔ ضیا الحق صاحب کے سامنے پیپلز پارٹی ‘جمہور کی آواز‘ تھی۔ اس کے لبرل تشخص کے خلاف پہلے ہی مذہب کا بیانیہ کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہا تھا۔ ضیاالحق صاحب نے اسی کو جاری رکھا۔ مشرف صاحب کے سامنے مسلم لیگ ‘جمہور کی آواز‘ تھی۔ انہوں نے ‘کرپشن کے خاتمے‘ کو اپنے بیانیے کا مرکز قرار دیا کیونکہ ا س کی قیادت کے خلاف کرپشن کے الزام پہلے مو جود تھے۔ہماری قلبِ ماہیت یوں ہوئی کہ اب جمہور مخالف بیانیہ پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

    کیا ضیاالحق صاحب نے اسلام نافذکر دیا؟ کیا انہوں نے ہمیں وہ نظام دے دیا جس نے خلافتِ راشدہ کی یاد تازہ کرد ی؟ کیا مشرف صاحب نے کرپشن کا خاتمہ کر دیا؟ کیا سب سے پہلے پاکستان کے نعرے نے ملک کو داخلی اور خارجی چیلنجوں سے محفوظ بنا دیا؟ ان سب سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔ مجھے رتی برا بر شبہ نہیں کہ دونوں کا مقصد جمہور کے بجائے ایک دوسرے مرکزِ قوت کومستحکم کرنا تھا۔ ایک نے جمہور کی مرکزیت کو اسلام کے نام پر چیلنج کیا اور دوسرے نے کرپشن کے نام پر۔ دونوں میں ایک قدرِ مشترک یہ تھی کہ انہوں نے جمہور کے نمائندوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ایک نے بھٹو خاندان کوسکیورٹی رسک بنایا اور دوسرے نے شریف خاندان کو۔ قوم کا اجتماعی شعور اس بات کو کبھی قبول نہیں کر سکا کہ جس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے عمل کا آغاز کیا اور جس نے دنیا کے سامنے اس کا اعلان کیا، وہ سکیورٹی رسک کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو نوے ہزار فوجیوں کی رہائی کے لیے اندرا گاندھی سے مذاکرات کرتا رہا اور جو کارگل کے پس منظر میں پاک فوج پر منڈلاتے سائے کو ٹالنے کرنے کے لیے واشنگٹن میں ڈیرے ڈالے رہا، وہ دونوں سکیورٹی رسک کیسے ہو سکتے ہیں؟

    اس کے باوجود سیاست دانوں کی کردار کشی کا عمل جاری رہا۔ بظاہر جمہور کی رائے سے حکمران منتخب ہوئے لیکن یہ کشمکش ختم نہیں ہو ئی کہ طاقت کا مرکز کون ہے۔ انگریزی اخبار میں ایک خبر کی اشاعت اس قضیے کو برسرِِ زمین پر لے آئی جوزیر ِزمین ہمیشہ موجود رہا۔ منتخب حکومت کی صفِ اوّ ل کی قیادت جب باجماعت راولپنڈی پہنچی تو یہ واضح تھا اب بھی کون کس کو جواب دہ ہے؟ پرویز رشید کا سینیٹ میں استقبال دراصل اسی کا جواب ہے۔ پارلیمان کا ایک ایوان زبان ِحال سے یہ کہہ رہا ہے کہ اس ملک کا سیاسی نظام پارلیمانی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان بالا دست ہے۔ چیئرمین سینٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر فوج اور عدلیہ کا داخلی نظامِ احتساب ہے تو پارلیمان کے ایک رکن کا احتساب بھی پارلیمان ہی کرے گی۔

    گویا وہ بنیادی سوال اپنی جگہ مو جود ہے کہ پاکستان میںطاقت کا پلڑا کس جانب جھکنا ہے۔ اگر آئین پارلیمانی نظام کو بنیادی اصولوں میں شمار کرتا ہے تو پھر یہ پلڑا پارلیمان کی کی طرف جھکنا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر ریاستی ادارے
    بے وقعت ہو جائیںگے۔ فوج، عدلیہ ریاست کی ستون ہیں۔ ان کے کمزور ہونے سے ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے کس کو ریاست کا ‘قوّام‘ ماننا ہے۔ اگر ہم ویٹوکا حق کسی دوسرے کودینا چاہتے ہیں تو اس پر بھی کھل کر بات کرنی چاہیے۔
    مجھے معلوم ہے کہ اس مقدمے کے جواب میں لوگ سیاست دانوں کی کمزوریاں بیان کریں گے۔کہا جائے گا: وزیر اعظم خودکب پارلیمان میں آتے ہیں؟ ان کی خدمت میں پیشگی عرض ہے کہ وہ کوئی نئی دلیل لے کر آئیں۔ اس بات کا جواب بار ہا دیا جا چکا۔

  • ہُن کیہ کریے-ہارون الرشید

    ہُن کیہ کریے-ہارون الرشید

    haroon-rasheed

    اعمال کا دارومدار بے شک نیت پر ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ابھی سے ریاضت کیوں نہیں؟ ابھی سے شفافیت کیوں نہیں؟ حسنِِ نیت کا اظہار کیا نعرہ بازی میں ہوا کرتا ہے؟
    بلاول بھٹو نے عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی مرحوم کے بارے میں انکشافات کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا‘ وفاقی حکومت نے میرے مطالبات اگر نہ مانے تو پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے کمیشن کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کر دیں گے۔ سبحان اللہ!
    کیسے کیسے لیڈر ہیں‘ کیسے کیسے مشیر اور کیسے کیسے دانشور۔ معاشرے کو جب زوال آ لیتا ہے تو کیا کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس خوددار اور باوقار آدمی کی اگر وہ کردار کشی کریں گے‘ ایک عشرے سے لاہور کی مٹی اوڑھے جو سو رہا ہے تو جواب میں کیا سننا پڑے گا؟ کچھ سوالات اور بھی ذہن میں ابھرتے ہیں۔ اس کا خیال کیا یہ ہے کہ وہ بہت طاقت ور ہے؟ دوسروں کو وہ خوف زدہ کر سکتا ہے؟

    عالم تو یہ ہے کہ دو تین برس جزبز ہونے کے بعد‘ آخرکار اس نے ملک کے سب سے ناقبول اور ناکام لیڈر کی اطاعت قبول کر لی ہے۔ ان صاحب کا نام آصف علی زرداری ہے۔ ایک آدھ نہیں‘ تین فوجی آمر‘ ملک کے طاقتور کاروباری طبقات‘ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کی ایک قابل ذکر تعداد پیپلز پارٹی کے پہاڑ سے سر ٹکراتی رہی۔ چھیالیس برس میں یہ تمام لوگ کچھ نہ کر سکے۔ جناب آصف علی زرداری نے پانچ برس میں پارٹی کو نمٹا دیا۔ افتادگانِ خاک اور ترقی پسندوں کی بجائے‘ زرگروں کے ایک چھوٹے سے ٹولے کی جماعت اسے بنا دیا۔

    روپے پیسے کا جہاں تک تعلق ہے‘ بہت سے لوگ بلاول بھٹو سے حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ رکھنا بھی چاہیے کہ ان کے براہ راست کرپشن میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اس کا مطلب مگر یہ بھی نہیں کہ برطانوی یونیورسٹی کا گریجویٹ‘ والد گرامی کے کارہائے نمایاں سے یکسر بے خبر ہے۔ اس کے ذہن میں یہ سوال کیا کبھی نہ ابھرا ہو گا کہ سرے محل کیا تھا؟ سوئزرلینڈ کے کھاتے کیوں کھولے گئے؟ کس طرح ان کی وجہ سے پاکستانی سیاست برسوں تک بھونچال کا شکار رہی؟ ظاہر ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔

    سندھ کی صوبائی حکومت نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ ٹینکر بھر کر سرکاری پانی بیچنے والے ناجائز سرچشمے (HYDRANTS) کس کا کارنامہ ہیں؟ شہر کی سڑکوں پر لاکھوں سائن بورڈ بھی برسوں وہ دیکھتے رہے۔ ان میں سے ہر ایک بدعنوانی ہی نہیں بدذوقی کا بھی گواہ ہے۔ صوبے کے طول و عرض میں نامکمل عمارتوں کا بین بھی وہ سنتے ہوں گے۔ یہ راز ان سے پوشیدہ تو نہیں کہ سندھ میں ایک خاکروب کی نوکری بھی فروخت کی جاتی ہے۔ جب تک ہو سکا‘ ایک ایک سکول ٹیچر اور کانسٹیبل کی بھی۔
    خوف ایک ہتھیار ہے‘ سوچ سمجھ کر‘ دیکھ بھال کر جو برتنا چاہیے۔ چوک جائے تو تباہی‘ نشانے پر بیٹھ جائے‘ تب بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ کس کی زبان وہ بند کرنا چاہتے ہیں؟ عمران خان کی؟ آج تک کوئی کر سکا؟ مان لیجئے‘ وہ خاموش ہو جائیں‘ تحریک انصاف کے دوسرے لیڈر؟ فرض کیجئے‘ وہ بھی چپ کرا دیے جائیں۔ گلی کی نکڑ پر‘ حجام کی دکان پر‘ محلّے کے چائے خانے میں لاکھوں کارکنوں کی‘ کروڑوں بندگان خدا کی زبانیں کون بند کرے گا؟ ؎

    کس کس کی زباں روکنے جائوں تری خاطر
    کس کس کی تباہی میں تیرا ہاتھ نہیں ہے

    جناب آصف علی زرداری اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ معاف کیجئے‘ وہ لوگ سیاست کی حرکیات سے یکسر بے خبر ہیں‘ جن کا خیال یہ ہے کہ دیہی سندھ ان کے چنگل سے نجات نہیں پا سکتا۔ حالیہ ایک سروے میں سندھ کے 68 فیصد رائے دہندگان نے جمہوریت پر فوجی حکومت کو ترجیح دینے کا اظہار کیا۔ کوئی بھی آمریت کو پسند نہیں کرتا۔ آزادی پر غلامی کو کون ترجیح دیا کرتا ہے۔ اب بھی مگر وہ غلام ہی ہیں۔ بلیک میلنگ کا شکار‘ وڈیرے کے علاوہ ڈاکو اور پولیس کے ستم میں مبتلا۔ کسی کا مال محفوظ ہے‘ عزت اور نہ جان۔ خوش فہمی یہ ہے کہ بلاول کو اگر اقتدار ملا تو وہ مختلف ہوں گے۔ حسنِ ظن ہی چاہیے‘ پنجابی کا محاورہ اگرچہ یہ ہے کہ دھان والے گائوں ”پرالی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں‘ مگر حسنِ ظن ہی اختیار کر لیجئے۔ آخر اس میں نقصان ہی کیا ہے؟ چالیس برس کی عمر سے پہلے صاحبزادہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ آئندہ کے ان برسوں میں بدگمانی سے خود کو اذیت کیوں دی جائے؟ ؎

    رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
    ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

    معلوم یہ ہوا کہ عنان ابھی تک زرداری صاحب کے دست مبارک میں ہے۔ بلاول کے اعلان سے انکشاف ہوا کہ عدالتی کمیشن کو وہ مسترد کر سکتے ہیں۔ ایسے کسی اقدام کا فائدہ کسے ہو گا؟ ظاہر ہے قائد اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کو۔ عمر کم سہی‘ دنیا دیکھی ہے‘ کتنی سرزمینیں‘ کتنے المناک حادثے؟ جناب بلاول بھٹو دودھ پیتے بچے تو نہیں کہ اس اعلان کے مضمرات سے بے خبر ہوں۔ ظاہر ہے کہ گرامی قدر والد نے انہیں حکم دیا ہے۔ چلیے حکم نہیں دیا‘ سمجھایا ہو گا۔

    میثاقِ جمہوریت کے تاریخی دن سے‘ دونوں پارٹیوں میں بنیادی ہم آہنگی ہمیشہ موجود رہی۔ وہ میثاق جو امریکہ اور برطانیہ کے ایما پر طے پایا۔ جس کا مقصد پاکستان کو سکم اور بھوٹان نہیں تو زیادہ سے زیادہ بنگلہ دیش بنانا ہے۔ بھارت کا حاشیہ بردار۔ اس معاہدے کی سترہویں شق یہ کہتی ہے: کسی تعصب کے بغیر‘ افغانستان اور بھارت سے خوشگوار مراسم بحال رکھے جائیں گے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت‘ پاکستان کے ساتھ خواہ زیادتی کریں‘ ظلم کا ارتکاب کریں‘ اسے برباد کریں‘ تب بھی تعلقات ان سے خراب نہیں کئے جائیں گے۔ علاقے میں بھارتی بالادستی کس کا خواب ہے؟ اسی کا‘ اسرائیل کو جس نے مشرقِ وسطیٰ کا تھانیدار بنا رکھا ہے۔ عراق‘ لیبیا‘ مصر اور شام کو جس نے طوفان کے حوالے کر دیا۔ فارسی کا شاعر کہاں یاد آیا ؎

    صبا بہ لطف بگو آں غزالِ رعنا را
    کہ سر بہ کوہ و بیاباں تو دادہ ای ما را

    اے بادِ صبا‘ اس سے غزالِ رعنا سے کہنا کہ تو نے مجھے کوہ و بیاباں کے حوالے کر دیا۔ بعض کو محبت برباد کرتی ہے‘ افراد کو اقوام کو مرعوبیت تباہ کر ڈالتی ہے۔ مغرب کے علم اور تجربات سے استفادہ ایک چیز ہے‘ مرعوبیت بالکل دوسری۔ سیکھنے کی آرزو‘ فطری‘ مثبت اور تعمیری ہے۔ دوسرا انداز فکر احساس کمتری کا آئینہ دار۔ وہ جو برصغیر کا مرض ہے۔ خوئے غلامی کا ثمر۔ جاگیرداری کا حاصل۔ احساس کمتری ہی نہیں‘ ریاکاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی امراض۔ ذہن محدود ہو جاتے ہیں۔ خواب تو کجا‘ سامنے کی سچائی کو بھی پا نہیں سکتے۔ نوشتۂ دیوار بھی دیکھ نہیں سکے ؎

    بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
    دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے

    ماتم کرنا چاہیے ماتم‘ خود کو کن کے حوالے ہم نے کر دیا۔ یہ ہیں بلاول بھٹو‘ ہم پر حکومت کرنے کا جو خواب دیکھتے ہیں۔ ادھر میاں محمد نواز شریف ہیں۔ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود‘ ہر روز اربوں روپے جو بانٹ رہے ہیں۔ یہ ہیں جناب عمران خان‘ جن کا خیال یہ ہے کہ معاشروں کی عظمت و بالیدگی کا انحصار فقط ایک فرد پہ ہوتا ہے۔ ڈھنگ کے ایک لیڈر پر… اور یہ لیڈر وہ خود ہیں۔

    ہرگز انہیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ خود ان کی پارٹی میں بدعنوان بھرے پڑے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ بدعنوان کیا‘ نوسر باز۔ ان سے نجات حاصل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ ہرگز کوئی فکر نہیں کہ ابھی سے پولیس‘ نوکر شاہی‘ نجکاری‘ ایف بی آر‘ صنعت و زراعت‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور سٹیل مل کے لیے تھنک ٹینک بنانے چاہئیں۔ ورنہ وہ ناکام رہیں گے۔ ورنہ وہی ہو گا‘ نومبر 1996ء کا الیکشن جیتنے کے بعد جو نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا۔ اپنے مشیروں کے ساتھ اوّلین اجلاس میں انہوں نے پہلا جملہ یہ ارشاد کیا تھا‘ ”ہُن کیہ کریے‘‘ اب کیا کریں؟
    اعمال کا دارومدار بے شک نیت پر ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ابھی سے ریاضت کیوں نہیں؟ ابھی سے شفافیت کیوں نہیں؟ حسنِ نیت کا اظہار کیا نعرہ بازی میں ہوا کرتا ہے؟

  • نرم و نازک جمہوریت – ثقلین مشتاق

    نرم و نازک جمہوریت – ثقلین مشتاق

    ثقلین مشتاق وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
    دھرنا دینے اور شہر بند کرنے سے جمہوریت کو خطرہ ہے،
    طالبعلموں کا تعلیمی حرج ہوتا،
    شہریوں کی نظام زندگی مفلوج ہوتی ہے،
    ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
    اگلے روز ٹیلی وژن پر خبر سنی کہ
    ایک سیاسی جماعت کے جلسے کو روکنے کے لیے
    وزیراعظم کے حکم پر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
    شہر میں دفعہ 144 نافذ کردیا،
    نہتے شہریوں کو گرفتار کیا گیا اور
    اُن پر شیلنگ کی گئی،
    شہر کو سیل کردیا،
    تمام تعلیمی ادارے ہفتے کے لیے بند کردیے گئے۔

  • حکومتی اداروں میں  بدعنوانی کے نئے نئے  رنگ اور اسکا حل : عادل عزیز

    حکومتی اداروں میں بدعنوانی کے نئے نئے رنگ اور اسکا حل : عادل عزیز

    عادل عزیز
    خیر اب تو رشوت لیتے ہوئے اور دیتے ہوئے کوئی عیب نہیں سمجھا جاتاہے۔ یہ بات ذہنومیں راسخ ہو گئی ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اور پھر ہرکام جلدی ہوجانے کی جلدی میں بہت سے طریقوں سے بدعنوانی کی جاتی ہے۔نا جائز کام تو خیرنا جائز ہے ہی ہے اور اس کے لیئے نا جائز ہتھ کنڈے استعمال کیئے جاتے ہیں ظلم کی بات یہ ہے کے جائز کام کے لیئے بھی جیب گرم کرنا بہت ضروری ہے۔اب یہ بیماری بیماری نہیں رہی۔ مرض کا علاج اس وقت ہی ممکن ہے جب مریض سمجھے کے میںمرض میں مبتلا ہو گیا ہوں، اگر غلط کام اس انداز سے کیا جائے کہ یہ تو ہمارا حق اور ثواب کا کام ہے تو پھر کیا کیجئے۔ہاں تو بدعنوانی کے نئے نئے اندازجیسے نچلی سطح پر ہزار دو ہزار سے ہتیلی گرم کرنا ،بڑے صاحب سے ملنے کے لیئے سو دو سو لگانابجلی کے تار درست کروانے پر پانچ ،چھے سو دینا وغیرہ،پھر تھوڑاا ٓگے چلئے تحفے تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے، اور ہم محبتیں بڑھارہے ہیںکیا اس سیٹ پر ہم نہ ہوتے تو بھی یہ صاحب ہمیں یہ تحائف پیش کرتے ہر گز نہیں ہم اور آپ کون ہوتے ،یہ تو اس سیٹ کی کرشمہ سازی ہے میاں۔
    بہر طور ان تحائف میں فروٹوں کی ٹوکریاں اور پیٹیاں، گاڑی کی چابیاں، بھابھی جی کیلیئے قیمتی کپڑے ،زیور، گھر کے لیئے قالین،زیب و آرائش کے لیئے سامان، اب تو سیدھے سیدھے پلاٹ اور بنے بنائے محلات پیش کیئے جاتے ہیں، سفارش کے لیئے قائد کو ہم جیب میں رکھتے ہیںجب ضرورت پڑی با با جی کو لا کھڑا کیا۔اب تو حد ھوگئی ہے عمرہ کے لیئے بھیجا جاتا ہے اور حج کروائیا جاتا ہے جس سے اللہ بھی راضی افسر بھی راضی اور کام بھی ھوگیا،اف۔۔۔۔ کیا کیجئے۔افسران کے اہلکار یہ کام بڑی دھوم دھام سے بڑے جوش خروش بڑے خشوع کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں سائل کو اتنے چکر لگوائیں گے کہ وہ خود بخودچلا اٹھتا ہے جی آپ حکم کیجئے کرنا کیا ہے، پھر کہیں گے باہر اجینٹ(چٹی دلال) موجود ہے اس سے بات کرلیں ،مناسب دام پر کام کر دے گا ،میرا بتایئے گا آپ کو گھر پر سب کچھ مل جائے گا، اگر کوئی ان کے اشارے کنائے نہ سمجھ پائے تو فرماتے ہیں آپ بھی بڑے سادہ ہیں۔خواہ مخواہ میں خوار ہو رہے ہیں۔
    بس ایجنٹ کو مل لیجئے۔خیر یہ تو وہ بد عنوانی ہے جو ہم سب کو پتا ہے، حکومتی ،اکثر چھوٹے بڑے پرزے اپنی سیٹ پرہمیشہ اس وقت حاضر ہونگے جب سورج نصف نہار ہو گیا ہواور دفتر میں اکتاہٹ کا عالم یہ کہ چھٹی سے گھنٹا دو گھنٹے پہلے نکل جائیں گے گھر کے کچھ کام بڑے ضروری کرنے ہیں۔ علاوہ ازیں نوکری کے ساتھ ساتھ اپنے نجی کارو بار چلا رہے ہوتے ہیںجن کا تعلق بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اپنے دفتر سے، محکمہ سے ہوتا ہے اگر نہ بھی ہو تو اپنے بزنس کو آفس ٹائم میں چلائیا جا رہا ہوتا ہے ، بد عنوانی کی یہ قسم تو حکوتی اداروں کو سیونک کی ترح چاٹے چلی جارہی ہے۔ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ احادیث اور قرانی آیات جا بجا لگی نظر آیں گی جن کا تعلق بد عنوانی سے ہوگا اور ان آیات کے نیچے کارو بارے سیہ کاری رواں دواں یوں نظر آئے گا جیسے عبادت کی جارہی ہو۔الامان الحفیظ۔ایک واقعہ یاد آیا فوری اور دستی انصاف کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہمارے ایک دوست سڑک پر پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اہلکار نے کہا کہ میاں آپ کو تو حوالات کی دھول چاٹنی پڑے گی اس کے بعد کورٹ کچہری کے چکر علحدہ ،کم و پیش آپ دو تین ماہ تو خوب زلیل ہونگے میرے پاس فوری اور دستی انصاف موجود ہے معاملہ یہیں ختم سمجھیئے۔
    لہذا فوری انصاف مہیا کیا گیا اورذلا لت و رسوائی سے بھی محفوظ رہے اور وقت بہت قیمتی چیز ہے جسے موصوف نے بچائیا۔ان تمام مسائل سے ہر پاکستانی کو نبرد آزما ء ہونا پڑتا ہے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔مگر اس دوزخ کے با زار کو کیسے ٹھنڈا کیا جائے؟کیسے اس کارو بار کو بند کیا جائے؟اچھا یہ کوئی مشکل کام نہیں خصوصاََ حکومتی اداروں سے رشوت کی بیخ کنی کوئی دشوار نہیں۔اس میں صرف حکومتی نیت کا عمل دخل ہے، کرنا یہ ہوگا کہ ایک عام پاکستانی کا ہر روز کا خرچہ جمع کیجئے ،کیا ہے؟۔ مثال کے طور پر ایک آدمی اور اسکا خاندان یعنی دو بچے اور ایک زوجہ محترمہ کی ہر روز کی ضروریات کیا ہیں، با زار سے دال ،آٹا ،گھی،شکر، نمک،مرچ، دودھ،اور مکان کا کرایہ، معلوم کیجیئے اور اس میں میڈیکل ، تعلیم اور کپڑا جوتے کے اخرا جات شامل کر لیجیئے اور بنیادی ماہانہ مشاہرہ بنائے جو بھی قیمت ٹھرے ملازمت دیتے وقت کم ازکم ہر ملازم کی تنخواہ مندرجہ بالا اخراجات کے مطابق مقرر کی جائے۔اور مختلف محکمانہ مشاہروں میں جو تفاوت ہے اس کا دور کرنا بھی از حد ضروری ہے علاوہ ازیںایک ہی شعبہ میں کام کرنے والے مختلف افراد یعنی اہلکار اور افسران کے مشاہروں میں بھی خاطر خواہ امتیاز نہیں ہونا چا ہئے۔
    پھر دیکھئے بد عنوانی کا قلع قمع ہوتا ہے یا نہیں۔ ایسے میں حکومت کو اور بہت سے محکموں کی ضرورت نہیں، جیسے انسدادِ بدعنوانی اور دیگر ایسے کئی ایک ادارے ان کے اخراجات اور مشاہروں کی مد میں آنے والے روپوں کی بھی بچت ہو گی ۔یایوں سمجھئے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بنسری۔ایسے میں کوئی اسطرح کا کیس سامنے آتا ہے تو پھر وہ شخص سخت ذہنی مریض ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے اور اسکا علاج کیا جائے اس کے با وجود ،عادت قائم رہتی ہے تو اس شخص کی آنے والی نسلوں پر بھی حکومتی دروازے بند کر دیئے جائیں اور ایسے شخص کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جائے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ جب پاکستان وجود میں آگیا تو اس کے بعد ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے جو کمیشن بنا اس کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی مگر یہ کہ کہہ کر رد کردی گئی یہ تو کمیونسٹ سوچ ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔اس کے بعد کی جو صورتِ حال ہے ہم سب کے سامنے ہے۔
    (راقم فری لانس صحافی ہے گزشتہ دس برس سے اس شعبہ سے وابستہ ہے)
    عادل عزیز

  • حکومت کے سیاسی جرائم اور پی ٹی آئی کے احسانات-سلیم صافی

    حکومت کے سیاسی جرائم اور پی ٹی آئی کے احسانات-سلیم صافی

    saleem safi

    سی پیک ایک منصوبہ نہیں بلکہ منصوبوں کی ماں ہے ۔ یہ پاکستان اور خطے کی ترقی کی چابی نہیں بلکہ دروازہ ہے ۔ یہ ملک کی مختلف اکائیوں کو ہی نہیں بلکہ خطے کے ممالک کوآپس میں جوڑنے کی زنجیر ہے ۔ یہ پاکستان اور افغانستان کو جرمنی اور فرانس بناسکتا اور بھارت کو پاکستان کے قدموں میں بٹھاسکتا ہے(انشاء اللہ)۔یہ پختون پٹی اور بلوچستان میں جاری تشدد کے مرض کے لئے تریاق ہے ۔ یہ اپنی روح کے مطابق آگے بڑھے تو پاکستان کو آگے بڑھنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ یہ صرف معاشی نہیں بلکہ معاشرتی اور تزویراتی انقلاب کا بھی پیش خیمہ بن سکتا ہے لیکن افسوس کہ اس منصوبے کو میاں محمد نوازشریف صاحب اور احسن اقبال صاحب نے ذاتی، خاندانی ، علاقائی اور سیاسی منصوبہ بنانے کی کوشش کی ۔ پختونخوا حکومت کی نااہلی ،عمران خان صاحب کی غلط ترجیحات، محمود خان اچکزئی صاحب کےمک مکا اور مولانا فضل الرحمان صاحب کا اپنے ڈی آئی خان کے لئے ایک سڑک پر سودے بازی کی وجہ سے وفاقی اور پنجاب حکومت کو فری ہینڈ مل گیا اور انہوں نے اس منصوبے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا، جوانہوں نے ملکی اداروں کے ساتھ روا رکھا ہے ۔

    تبھی تو میرا ایمان ہے کہ یہ پروجیکٹ ،جس کی مسلم لیگ(ن) کی قیادت بہت کریڈٹ لینا چاہتی ہے ، وقت آنے پر اس کے گلے کا پھندا بنے گا اور اسی پروجیکٹ کی وجہ سے پاکستان اور چین کی آئندہ نسلیں انہیں اپنا مجرم سمجھیں گی ۔ مجھے یقین ہوچلا ہے کہ موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے اس پروجیکٹ سے متعلق تنازعات ختم ہوسکتے ہیں اور نہ اس کی روح کے مطابق اس کی تکمیل ہوسکتی ہے ۔ تبھی تو میں سب سے بڑھ کر اس حکومت کے خاتمے کا متمنی ہوں اور میں سجدہ شکر بجالانے میں دیر نہیں لگائوں گا جب مجھے اس کے خاتمے کی نوید ملے گی ۔

    سی پیک کی طرح میرا دوسرا بڑا درد سر دہشت گردی اور انتہاپسندی ہے ۔ اسے نہ صرف اس ملک کی اکثریت (بحوالہ پلڈاٹ سروے) ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں میرے ملک کی فوج اور پولیس اپنے ہی شہریوں کے ساتھ لڑنے اور قربانیاں دینے پر مجبور ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم انتہائی پیارے اور قریب ترین دوستوں کے ساتھ سے محروم ہوگئے اور اسی عفریت کے نتیجے میں میرے باپ دادا کی سرزمین گزشتہ ایک دہائی سے جہنم بنی ہوئی ہے ۔ اسی کے نتیجے میں ایک طرف ہماری فورسز کے لاکھوں جوان گھروں سے دور رہنے پرمجبور ہیں اور اسی ہی کی وجہ سے لاکھوں قبائلی سالوں سے بے گھر ہوکر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی عفریت عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کوخراب کررہا ہے اور اسی کی وجہ سے میرے پاکستانی اور بالخصوص پختون پوری دنیا میں بدنام ہورہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ میاں نوازشریف صاحب اور ان کی ٹیم کی ترجیحات میں یہ مسئلہ سرے سے شامل ہی نہیں ۔ وہ خود اس ایشو کو سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ خوشامدیوں پر مشتمل ان کی ٹیم اسے سمجھتی ہے ۔ اس مسئلے کے حل کے لئے سول ملٹری ہم آہنگی ضروری ہے اور ماضی کا سبق یہی تاثر دیتاہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن میاں نوازشریف کے دور میں سول ملٹری تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے ۔ اس تناظر میں بھی موجودہ حکومت کا خاتمہ میری دلی آرزو ہے کیونکہ کوئی بھی جماعت یا کوئی بھی حکومت انسانوں کی زندگیوں سے اہم نہیں ہوسکتی ۔

    میرا تیسرا بڑا درد سر اس وقت پاکستان کے وفاق کو لاحق خطرات اور لسانی یا علاقائی بنیادوں پر تنائو ہے ۔ میں ایک عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ پسماندہ علاقوں اور کراچی میں ایک نئےاور خطرناک قسم کے قوم پرستانہ جذبات سامنے آرہے ہیں ۔ قوم پرست لیڈروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے لیکن نوجوان نسل میں ایک نئی طرح کے قوم پرستانہ خیالات اور ریاست کے خلاف نفرت کے جذبات جنم لے رہے ہیں ۔ پہلے سے موجود قوم پرست لیڈروں کو تو دبایا بھی جاسکتا ہے، انہیں سیاسی لالچ بھی دیا جاسکتا تھا اور انہیں مختلف طریقوں سے بھی رام کیا جاسکتا تھا لیکن اب کی بار جو نوجوان دلائل کی بنیاد پر انتہاپسندانہ قسم کے خیالات کے ساتھ سامنے آرہے ہیں ، ان کا کوئی لیڈر معلوم نہیں ۔ یوں اگر اس نسل کے جذبات عمل کے روپ میں ڈھل گئے تو ریاست پاکستان کے لئے ان پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔ امریکہ ، ہندوستان اور دیگر پاکستان مخالف ممالک کی ایجنسیاں اور میڈیا بڑے شاطرانہ طریقے سے ان جذبات کو مزید ہوا دے رہے ہیں ۔ مختلف لسانی اکائیوں کے انتہاپسند نوجوانوں کو باہم منسلک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ مذہبی عسکریت پسندوں اور ان کے ملاپ کی بھی سازشیں زور پر ہیں ۔ دوسری طرف وقت اور تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ میاں نوازشریف کی حکومت میں پاکستان کے چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں کی محرومیاں مزید بڑھ جاتی ہیں ۔ اب کی بار تو انہوں نے اپنی حکومت کو مکمل طور پر ایک صوبے کا نہیں بلکہ ایک مخصوص علاقے کی حکومت بنا دیا ہے اور یوں ان کی حکومت اس حوالے سے پاکستان کی سلامتی کے لئے بھی خطرہ بنتی جارہی ہے اور یہ وجہ بھی مجھے موجودہ حکومت کے خاتمے کا متمنی بناتی ہے ۔

    مذکورہ تناظر میں اگر کوئی اٹھ کر آئینی اور جمہوری طریقے سے مسلم لیگ(ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کو ختم کرے گا ، تو میں اسے اپنا اور اس قوم کا محسن سمجھوں گا۔ لیکن شرط اس کی یہ ہے کہ طریقہ آئینی اور جمہوری ہو۔ میں اس حکومت کو سیاسی شہادت کے عالی مقام پر فائز نہیں دیکھ سکتا ۔ میری خواہش ہوگی کہ عوامی ووٹ کے ذریعے اس کا اس سے بھی بدتر حشر ہو، جو گزشتہ انتخابات میںپیپلز پارٹی کا ہوا ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ تحریک انصاف جب بھی اس حکومت کے خاتمے کے لئے اٹھتی ہے تو غلط وقت پر ، غلط طریقے سے اٹھتی ہے ۔ دھرنوں کے نتیجے میں سول ملٹری تعلقات نہ صرف خراب ہوگئے بلکہ اس میں موجود توازن مزیدبگڑگیا۔ میڈیا جو اس حکومت پر چیک رکھتا تھا اور جو حکومت کے مذکورہ اور اس قسم کے دیگر جرائم پر اس کی پکڑ کرسکتا تھا کا امیج تباہ ہوگیا۔ وہ آپس میں لڑ پڑا یا پھر اس کی کریڈبلیٹی اتنی خراب ہوئی کہ وہ حکومت کے محاسبے کے قابل ہی نہ رہا ۔ اسی طرح عدلیہ، حکومت کا محاسبہ کرسکتی تھی لیکن دھرنوں کے بعد اسے بھی اپنی بقا کی فکر لاحق ہوگئی۔ بدقسمتی سے اب ایک بار پھر عمران خان صاحب غلط وقت پر (ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی اور پاکستان کی عالمی تنہائی کے تناظر میں ) ، غلط طریقے سے (پرامن احتجاج کی بجائے اسلام آباد بند کرنے کا اعلان ) ، میدان میں نکلے ہیں یا پھر نکالے گئے ہیں ۔ ماضی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت تنہا اور اپوزیشن متحدہوتی تھی لیکن جس طریقے سے تحریک انصاف تکبر اور بدتمیزی کی سیاست کررہی ہے ، اس کی وجہ سے حکومت کے سب اتحادی اس کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ اپوزیشن تقسیم درتقسیم کاشکا ر ہوگئی ۔

    پیپلز پارٹی اگرچہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لے رہی ہے اور اس کی حکومت میں کرپشن کی بہتات کا تاثر کسی بھی دوسری حکومت سے زیادہ تھا لیکن میرے دردسر کی حیثیت رکھنے والے مذکورہ ایشوز پر پیپلز پارٹی کا موقف لائق تحسین ہے ۔ دوسری طرف عمران خان صاحب نے پہلے لاہور کے چار حلقوں اور اب پاناما پر سیاسی اور صحافتی فضا کو جس طرح مکدر رکھا ، اس کی وجہ سے نواز حکومت کے مذکورہ قومی اور سیاسی جرائم نہ سیاست کے موضوعات بن سکے اور نہ صحافت کے ۔ تبھی تو خورشید صاحب کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ میاں نوازشریف کے سب سے بڑے محسن عمران خان ہیں ۔ تماشہ یہ ہے کہ پختونخوا اسمبلی توڑنے اور قومی اسمبلی سے سچ مچ مستعفی ہونے کا غیرمضر اور آئینی و قانونی راستہ وہ اختیار نہیں کررہے ہیں لیکن وہ پرتشدد راستہ اپنارہے ہیں جس میں دوسروں کے بچوں کے مرنے کا خطرہ ہے ۔ خود تو ان کے گوئبلز اور دوسرے درجے کی قیادت اسمبلیوں کی تنخواہیں اور مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں لیکن دوسروں سے جانوں کی قربانی طلب کی جارہی ہے ۔تبھی تو خدشہ ہے کہ اب کی بار اخلاقی جواز سے محروم رہ جانے والی میاں نوازشریف کی حکومت مزید مضبوط نہ ہوجائے۔

  • معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے – محمد عامر خاکوانی

    معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی پچھلے چند دنوں سے آزادی صحافت کے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا میں بحث جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ غلغلہ مچا کہ بیچ میں دس محرم کی چھٹی کی وجہ سے اخبار شائع نہیں ہوا، اور پڑھنے والوں کے پاس فیس بک یا نیوز ویب سائٹس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں بچی تھی۔ مجھے یہ بحث اس لحاظ سے خوش آئند لگی کہ چلو اس بہانے اس پرانی آزادی صحافت والی بحث کے کئی پہلو واضح ہو جائیں گے۔ میرے نزدیک یہ معاملہ آزادی صحافت سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا تھا۔ ویسے صحافت اور اہل صحافت کی بات تو بعد میں آتی ہے، اصل بات یہ تھی کہ کیا نیشنل سکیورٹی کے ایشو پر ایک انتہائی اعلیٰ سطحی اجلاس کی کارروائی لیک ہوئی یا نہیں؟ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری بحث میں یہی نکتہ اٹھایا گیا۔ بہت سے دوستوں نے اس سے اتفاق کیا، بعض کو یہ شکوہ تھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہہ کر سویلین حکومت نے کون سی غلطی کی؟ اس پر انہیں سمجھایا کہ تمام جھگڑے میں اس پر کوئی بحث نہیں کہ کس نے میٹنگ میں کیا کہا اور کیوں کہا، اصل بات یہ ہے کہ اتنے اہم سطح کے اجلاس کے منٹس اگر لیک ہو کر صحافیوں تک پہنچ سکتے ہیں تو پھر ایسی اطلاعات غیر ملکی ایجنسیوں تک پہنچنے سے کون روک سکتا ہے؟ اصل اہمیت اس لیکیج کی ہے، جسے انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اگر وزیر داخلہ نے اس پر سختی سے نوٹس لیا اور اس کی بھرپور تحقیقات کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو ایسا کرتے ہوئے وہ حق بجانب ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے بھی اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لینے اور اصل حقیقت کا کھوج لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے۔ سویلین حکومت پر چارج شیٹ لگانے کی کسی کو ضرورت نہیں؛ تاہم جو واقعہ ہوا، اس پر تحقیقات حکومت ہی نے کرنا ہے، اسی کا یہ کام ہے۔ سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنا البتہ جلد بازی تھی۔ جو صحافی اپنی خبر پر سٹینڈ لے رہا ہے، اسے ملک سے باہر فرار ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اچھا ہوا کہ بعد از خرابی بسیار صحافی کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔

    بہت سا دہ سا نکتہ ہے، جسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ یا تو انگریزی اخبار میں چھپنے والی سیرل المیڈا کی سٹوری غلط ہے یا درست۔ اگر غلط ہے، جیسا کہ حکومت اور ادارے کہہ رہے ہیں تو یہ نہایت سنگین ایشو ہے۔ کسی بھی اخبار یا چینل میں ایسی حساس نوعیت کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔ صحافت کی وادی پُرخار میں دو عشروں سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد اس کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ جہاں کچھ خبریں میڈیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں بہت سی خبریں میڈیا پر چھپوانے یا چلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ صحافی ہو یا میڈیا ہاؤس، ہر کوئی استعمال ہونے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کہیں پر غلطی سے کوئی شائع یا نشر کر دے تو پھر اس پر اصرار نہیں کیا جاتا، اس کی معذرت کر لی جاتی ہے، اور آئندہ کے لیے محتاط رویہ اپنایا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنی سٹوری پر سٹینڈ لے تو پھر اس سے پوچھا جانا چاہیے، اس کے پاس کچھ ثبوت ہیں تو پیش کر دیں۔ ایسا کرنے میں آزادی صحافت کو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا۔ آزادی صحافت کو سب سے زیادہ نقصان غیرذمہ دارانہ، نان پروفیشنل صحافتی طرز عمل سے پہنچتا ہے۔ ایک منٹ کے لیے فرض کر لیں کہ یہ خبر درست ہے، تب بھی اس قسم کی نیشنل سکیورٹی سے متعلق خبریں نہایت احتیاط سے ڈیل کی جاتی ہیں۔ جس انداز میں اسے چھاپا گیا، وہ درست نہیں تھا۔ سٹوری کی کنسٹرکشن ٹھیک نہیں تھی، ایسی قطعیت کے ساتھ ایسی خبریں نہیں دی جاتیں، جس میں نام بھی واضح ہوں اور ان کے مکالمے بھی، گویا رپورٹر نے میٹنگ میں بیٹھ کر اسے رپورٹ کیا ہو۔ ہم نے اپنے سینئرز سے دو باتیں سیکھیں، ایک: ایسے انداز میں خبر دی جائے یا لکھا جائے کہ ابلاغ بین السطور (Between The Lines) ہو جائے اور کوئی اعتراض بھی نہ کر پائے، دوسرا یہ کہ وہ نہ چھاپا جائے، جسے بعد میں ثابت نہ کیا جا سکے۔ ایسی خبر جس میں رپورٹر خود یہ لکھ رہا ہے کہ جس کسی سے رابطہ کیا گیا، اس نے تصدیق نہیں کی۔ جب کوئی کنفرم کرنے پر تیار ہی نہیں تو بھیا پھر خبر کیوں دے رہے ہو؟ اس معاملے میں ایک اور اینگل نظر آ رہا ہے، یہ کہ کسی نے دانستہ طور پر ایک غلط اور بےبنیاد خبر پلانٹ کی۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں یہی بات کہی گئی۔ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے، یہ نہ ہو کہ کل کو کسی اخبار یا چینل میں پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کوئی بےبنیاد سٹوری چل جائے اور پھر معلوم ہو کہ اس کی بنیاد پر دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ بن جائے۔

    اس ایشو پر بات کرتے ہوئے مجھے چند سال پہلے امریکہ میں کم و بیش ایسا ہی ایک معروف کیس یاد آ گیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ بنام لیوس لبی ایک معروف تنازع تھا، جو صدر بش کے دور میں مشہور ہوا اور آزادی صحافت کی بحثیں ان دنوں امریکہ میں بھی ہوتی رہیں۔ عراق پر امریکہ کے حملے سے یہ تنازع جڑا ہوا تھا۔ دراصل امریکی حکومت نے صدام حکومت کے خلاف لمبی چوڑی چارج شیٹ بنائی جس میں یہ دعویٰ کیا کہ عراقی آمر کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) موجود ہیں، جو امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی چارج شیٹ میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ عراقی حکومت نے نائجر سے یورینیم کا ییلو کیک مواد حاصل کیا تاکہ ڈرٹی بم بنائے جا سکیں۔ اس پر بعد میں عراق جنگ کے ایک مشہور ناقد جوزف ولسن کا نیویارک ٹائمز میں آرٹیکل شائع ہوا، جس میں اس نے اس امر کی تردید کی کہ عراقی حکومت نے نائجر سے یورینیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ جوزف ولسن کو نائجر فیکٹ فائنڈنگ مشن پر بھیجا گیا تھا اور اس نے اس الزام کی مکمل تحقیقات کی تھی۔ ولسن کے اس مضمون کا ری پبلکن انتظامیہ نے سخت برا منایا کیونکہ اس سے ان کی پوری چارج شیٹ غلط ثابت ہوئی تھی۔ ولسن کے اس مضمون کے بعد دو تین اخبارات میں ولسن کے خلاف تنقیدی مضامین شائع ہوئے اور بعض رپورٹس میں اشارتاً یہ بھی کہا گیا کہ جوزف ولسن کی بیوی ولیری پلیم ولسن سی آئی اے کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ ایک سنگین لیکیج تھی، کیونکہ ولیری پلیم سی آئی اے کے لیے خفیہ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی تھی۔ ولسن اور اس کی بیوی نے اس پر خاصا احتجاج کیا اور مختلف آٖفیشلز کو خطوط لکھے، جس پر آخرکار اس معاملے کی تحقیقات شروع ہوئی کہ آخر ری پبلکن انتظامیہ میں کون شخص تھا، جس نے یہ اطلاع صحافیوں کو لیک کی۔ لمبی چوڑی تحقیقات کے بعد ثابت ہو گیا کہ لیوس سکوٹر لبی نے، جو اس وقت نائب صدر ڈک چینی کے چیف آف سٹاف تھے، دو تین صحافیوں سے ملاقاتیں کیں اور ولسن پر تنقید کرتے ہوئے اس کی بیوی کے سی آئی اے کے لیے کام کرنے کا حوالہ دیا۔ معروف صحافی جوڈتھ ملر کو، جو ان دنوں نیویارک ٹائمز کے لیے کام کر رہی تھیں، عدالت نے بلایا۔ ملر نے اپنا سورس ظاہر کرنے سے انکار کر دیا اور توہین عدالت پر تین ماہ کے لیے جیل بھیج دی گئی۔ ٹائم کے ایک رپورٹر کو بھی جیل جانے کا خطرہ تھا، مگر پھر اس نے اپنے نوٹس عدالت کے ساتھ شیئر کیے، بعض دیگر صحافیوں کو بھی تفتیش کے لیے بلایا گیا۔ لیوس لبی پر پانچ الزامات تھے، ان میں سے چار ثابت ہو گئے۔ عدالت نے اسے ڈھائی سال قید کی سزا، ڈھائی لاکھ ڈالر جرمانہ اور کئی سو گھنٹے کمیونٹی سروس کے علاوہ دو سال پروبیشن میں رکھنے کا حکم سنایا۔ قید کی سزا بعد میں صدر بش نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ختم کر دی، مگر جرمانہ اور دیگر سزائوں کا لیوس لبی کو سامنا کرنا پڑا۔ اس کا وکالت کا لائسنس اگلے کئی برسوں کے لیے معطل ہو گیا، ایک تھنک ٹینک کا وہ ایڈوائزر تھا، سزا ملتے ہی وہ ملازمت ختم ہو گئی۔ نیشنل سکیورٹی کے ایشوز لیک کرنے کے جرم میں شاندار کیریئر کے حامل لیوس لبی کا سب کچھ خاک میں مل گیا۔

    یہ اس ملک کا احوال ہے، جہاں سے آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے ضابطوں، قوانین اور نعروں نے جنم لیا۔ ہر معاملہ مگر نعرے بازی سے حل نہیں ہو سکتا۔ نیشنل سکیورٹی ایشوز دنیا بھر میں نہایت سنجیدگی اور احتیاط سے لیے جاتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو یہ بات سیکھنا ہو گی۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ قوانین کا احترام کرنا سیکھا جائے اور اس کا دنیا بھر میں ایک ہی طریقہ ہے۔ کوئی خواہ کس قدر طاقتور ہو، اس پر قوانین کا اطلاق کیا جائے، مجرم کو سزا ملے اور بےگناہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔

  • سول ملٹری اختیارات کا جھگڑا، حقیقت کیا ہے؟ رحمان گل

    سول ملٹری اختیارات کا جھگڑا، حقیقت کیا ہے؟ رحمان گل

    رحمان گل پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ زیرِ بحث رہے ہیں. عسکری اور سول اداروں کے مابین اختیارات کا جھگڑا کیوں پیدا ہوتا ہے؟ پاکستان میں یہ بات قابلِ توجہ ہے ورنہ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عسکری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

    ہمارے سیاستدان ہمیشہ سے یہ دہائی دیتے آئے ہیں کہ عسکری ادارے انہیں کام نہیں کرنے دیتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عسکری حکام انہیں کام کیوں نہیں کرنے دیتے، آیا انہیں کام کرنا آتا بھی ہے یا نہیں، یہ بات قابلِ غور ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں کشمیر کے معاملے پر بین الاقوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں بہتر بنانے کے لیے حکومت نے 22 اراکینِ پارلیمنٹ کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھیجے جانے والے معزز اراکین کشمیر کے تنازعے کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ پاکستان اور ہندوستان کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟ اور سب سے بڑھ کر جانے والے معزز اراکین سفارتکاری کے رموز سے کتنا واقف ہیں۔ ان معزز اراکین کی قابلیت دیکھنے سے حکومتی سنجیدگی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔کسی کو قابلیت بارے غلط فہمی ہو تو روس جانے والے وفد کے رکن منظور وسان کی گفتگو سن لے.

    آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے کہ جو جس کی ذمہ داری ہے ادا کرے مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اور دوسرے اداروں پر اضافی ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر فوج کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ فوج زلزلوں قدرتی آفات، شہروں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن، شہروں کی حفاظت اور فوجی عدالتوں کی صورت میں عدالتوں تک کا بوجھ اٹھاتی ہے، ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ بجلی کی میٹر ریڈنگ تک عسکری اداروں کو کرنی پڑی۔ ایسے میں اگر فوج اضافی اختیارات اپنے پاس رکھتی ہے تو کیا برا ہے۔ سب آئین آئین کا ورد کیوں شروع کر دیتے ہیں۔ اضافی ذمہ داریاں دیتے وقت کسی کو آئین یا سویلین بالادستی کیوں یاد نہیں رہتی۔

    جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو وہ دنیا بھر بشمول امریکہ و برطانیہ حکومت اور عسکری ادارے مل کر چلاتے ہیں اور فیصلے عسکری اداروں سے مشاورت کے بعد کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدان اس معاملے میں کلی اختیارات تو چاہتے ہیں مگر ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ چلیں ایک لمحے کے لیے تسلیم کر لیتے ہیں کہ عسکری اداروں کی وجہ سے سول حکومت کی کارکردگی خارجہ پالیسی کے میدان میں خراب ہے۔ کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ تعلیم و صحت اور دیگر شعبوں میں سیاستدانوں کی مثالی کارکردگی کس وجہ سے ہے؟ جمہوریت کی خاصیت یہی ہے کہ فرد واحد کی بجائے ادارے کام کرتے ہیں مگر سب نے دیکھا کہ اسی نام نہاد جمہوری حکومت میں حریف ملک کا وزیراعظم بغیر ویزے کے آتا ہے اور اداروں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ ویسے ایک بات کی راقم کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ انہیں کام کرنے نہیں دیا جاتا مگر کرپشن کے میدان میں اس مثالی کارکردگی کا راز کیا ہے؟

  • سیرل المیڈا کی سٹوری، ڈان اخبار اورحکومت کی چالاکیاں – محمد عامر خاکوانی

    سیرل المیڈا کی سٹوری، ڈان اخبار اورحکومت کی چالاکیاں – محمد عامر خاکوانی

    صاحبو! یہ آزادی صحافت کا معاملہ ہرگز نہیں‌ ہے۔ سیرل المیڈا کوئی منہاج برنا یا حسین نقی ہے نہ ہی ڈان آزادی صحافت کا مقدمہ کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ صحافت، ایک حد سے زیادہ پرجوش صحافی کا معاملہ ہے، جس نے ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگل لیا اور اب زبان جلنے پر سی سی کر رہا ہے۔ اس معاملے میں اصل کردار حکومت کی چالاکیوں اور حکومتی مشیروں کی اوورسمارٹنس کا ہے، جسے ہرگز نظر انداز نہیں‌کرنا چاہیے۔

    بات سادہ سی ہے کہ اخبارنویس کے پاس خبریں بہت سی آتی ہیں، کچھ کو حکومتیں چھپوانا چاہتی ہیں تو کچھ کو چھپانا۔ افراد، تنظیموں، محکموں کے حوالے سے بہت سا مواد اخبارنویسوں کی میزوں، کمپیوٹرز اور موبائلز میں گردش کرتا رہتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کسی خبر کو ثابت بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بہت سی سینہ گزٹ خبریں، اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومتی افواہیں، ڈرائنگ رومز میں کہی جانے والے گپیں، قصے کہانیاں، گوسپ اخبار نویسوں‌کی دسترس میں ہوتی ہیں، انہیں مگر شائع یا نشر نہیں کیا جا سکتا، نہیں‌کیا جاتا۔ یہ سوچ کر کہ یہ کل کو انہیں ثابت کرنا پڑا تو کیسے کیا جائے گا؟ خبر دینے والا باخبر شخص، وزیر، مشیر کچھ بھی سہی، مگر وہ آف دی ریکارڈ کچھ کہہ رہا ہے یا کچھ بتانے کے بعد صاف کہہ دیتا ہے کہ میں کل کو اسے کنفرم نہیں کروں گا، تو پھر یہ خبر نہیں رہتی، یہ صرف بیک گرائونڈر کے کام آتا ہے۔ اخبارنویس اس کی روشنی میں خبر کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں، آن دی ریکارڈ کسی اہم آفیشلز سے ایسی بات اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی بنیاد پر خبر فائل کی جا سکے، یا پھر ایسی خبریں بین السطور شائع کی جاتی ہیں، اشاروں‌ کنایوں میں، کوئی سمجھے نہ سمجھے۔ یا پھر یہ کالم نگاروں‌کے کام آتی ہیں جو بین السطور لکھنے کے ماہر ہوتے ہیں، کوئی لطیف اشارہ، استعارہ، کسی حکایت، لوک کہانی، فرضی واقعے کی آڑ میں وہ خبر بریک کی جاتی ہے یا اپنے سمجھدار قارئین تک پہنچائی جاتی ہے۔ اسلام آباد رہنے والے اخبار نویس تو خبروں کے ہجوم میں زندگی گزارتے ہیں، میرے جیسے کم آمیز، گوشہ نشین قسم کے صحافی کے پاس بھی کئی افواہ نماخبریں گھومتے گھامتے پہنچ جاتی ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں وہ افواہ بغیر کسی ثبوت کے خبر بنا کر فائل کر دوں۔ ویسے اگر خبر فائل کر بھی دی جائے تو ایسی حساس نوعیت کی خبریں اعلیٰ ترین ادارتی اپروول کے بغیر شائع نہیں ہوسکتیں۔ صرف ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ مالکان کی سطح پر منظوری لازم ہے۔ جو خبر ڈآن نے چھ اکتوبر کو شائع کی، معلوم ہوتا ہے کہ اس پر غور و فکر نہیں کیا گیا یا بہت اچھی طرح غور و فکر کرنے کے بعد ہی شائع کیا گیا، مستقبل کے خطرات کا بخوبی اندازہ کر کے۔ یاد رہے کہ ایسا صرف مالکان کی منظوری ہی سے ہونا ممکن ہے۔

    سیرل المیڈا سے میری ملاقات ہے، افغانستان کا سفر ہم نے ایک وفد میں اکٹھے کیا تھا۔ سادہ شخصیت کا مالک، نرم مزاج سیرل ایک پروفیشنل صحافی لگا مجھے۔ یہ اندازہ ہوا کہ وہ خبر کے معاملے میں بہت زیادہ پرجوش تھا۔ کابل ہی میں ایک رفیق نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل افغانستان کے شمالی علاقوں میں اس نے سیرل کے ساتھ سفر کیا اور کئی بار زندگی موت کا معاملہ بن گیا۔ انہیں‌خدشہ تھا کہ کسی کو یہ علم ہوگیا کہ ایک غیر مسلم صحافی سفر کر رہا ہے تو پھر تو موت یقینی ہے، بےپروا اور خاموش طبع نوجوان سیرل المیڈا نے مگر یہ رسک لیا۔

    اس خبر کو چھاپتے وقت میرے خیال میں سیرل المیڈا دانستہ یا غیر دانستہ طور پر استعمال ہوا ہے۔ ایک ضرورت سے زیادہ پرجوش صحافی کی طرح اس نے گرم لقمہ نگل لیا، نتائج و عواقب سے بے خبر ہو کر۔ یہ اس طرح کی خبر تھی، جس کی تردید آنا لازم تھا، یہ بھی یقینی تھا کہ جن لوگوں سے بقول اس کے اس نے بات کی، ان میں سے بعد میں کوئی بھی اسے کنفرم نہیں‌کرے گا، کوئی اتنی جرات نہیں کرے گا کہ پبلک میں‌کھڑا ہو کر سٹینڈ لے سکے۔ ایسے میں احتیاط کرنا چاہیے تھی، جو نہیں کی گئی، سیرل کے لیے مسائل پیدا ہوئے تو اس کی ذمہ داری خود اس کی اپنے نان پروفیشنل رویے پر عائد ہوتی ہے۔

    یہ خبر یوں شائع کی گئی جیسے حکومتی حلقوں سے اس ٹاپ سیکرٹ میٹنگ کے منٹس اسے فراہم کیے گئے، سیرل المائیڈہ نے ان منٹس کو یوں‌ ہی روانی میں شائع کر دیا۔ اس قسم کی خبریں یوں قطعیت سے ہرگز نہیں شائع کی جاتیں۔ اسے عمدگی سے بنایا گیا نہ ہی صحافتی تقاضوں کے مطابق اسے ڈیل کیا گیا۔ اس میں تمام فریقوں‌ کا مؤقف شامل نہیں، لوگوں کے نام تک انتہائی قطعیت سے بیان کر دیے گئے، کیا رپورٹر نے یہ نہیں سوچا کہ کل کو جب اس پر سوال اٹھے گا تو پھر اس خبر کو وہ کس طرح ثابت کرے گا؟ کیا صرف یہ بات خبر کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ڈان نے اسے چھاپا ہے یا سیرل المیڈا نے اسے فائل کیا ہے؟ ظاہر ہے اس سے خبر کنفرم نہیں ہوجاتی۔ ڈان ایک اہم اخبار ہے، جس کی مناسب قسم کی کریڈیبلٹی ہے، اگرچہ پچھلے چند برسوں میں ڈان نے اپنے کئی قابل احترام صحافیوں‌ کو کھونے کے ساتھ اپنی کریڈیبلٹی اور معیار میں بھی خاصی کمی لائی ہے۔بہرحال ڈان پھر بھی ایک مناسب حوالہ ہے، مگر یہ خبر کی تصدیق کے لیے کافی نہیں، ہاں قاری یہ سوچ سکتا ہے کہ ڈان نے خبر چھاپی ہے تو اس کے پاس اس کے ثبوت موجود ہوں گے۔ ڈان کو وہ ثبوت پریس کونسل یا دیگر متعلقہ فورمز پر پیش کرنے چاہییں۔

    جہاں‌تک اس سٹوری کا تعلق ہے جس میں سول ملٹری کے مابین اختلافات کی نوید سنائی گئی اور یہ بتلایا گیا کہ فوج اور ایجنسیوں کی وجہ سے سویلین حکومت کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے۔ اس سٹوری کے بارے میں دو باتیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ خبر غلط ہے، دوسری یہ کہ خبر درست ہے اور اس ٹاپ سیکرٹ میٹنگ کی تفصیلات کسی نے رپورٹر تک لیک کی ہیں۔ اگر یہ خبر درست ہے اور یہ واقعہ اسی طرح پیش آیا جیسا نقشہ ڈان کی سٹوری میں کھینچا گیا تو یہ نہایت پریشان کن بات ہے۔ ایک انتہائی ٹاپ سیکرٹ میٹنگ کے منٹس یعنی اس کی نمبر وار تفصیلات کون ایک اخبارنویس کو بغرض اشاعت دے سکتا ہے۔ یہ قومی جرم سے کم نہیں۔ اگر اس قدر اہم کلاسیفائیڈ میٹنگز کی تفصیلات رپورٹرز تک پہنچائی جا سکتی ہیں تو پھر کسی کے پاس بھی یہ اطلاعات جا سکتی ہیں۔ را جیسی ملک دشمن تنظیموں کو پھر تو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہماری حکومت اتنی غیر ذمہ دار ہے کہ اداروں کو نقصان پہنچانے کے لیے وہ کلاسیفائیڈ معلومات بھی لیک کر دیتی ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور جس شخص نے ایسا کیا، اسے سزا ملنی چاہیے۔ ہم ایسی آزادی صحافت کے قطعی قائل نہیں جس کے صفحات ملکی مفاد کی دھجیاں اڑا کر ترتیب پاتے ہوں، ملک دشمن قوتوں کا جو ہتھیار بنے۔

    اگر یہ خبر درست نہیں تو پھر اخبار اور رپورٹر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ نہایت سادہ بات ہے۔ ایک انتہائی اہم کلاسیفائیڈ میٹنگ کی تفصیل ایسے من گھڑت انداز میں بنا کر، فرض کر کے لکھنا، چھاپنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ یہ ہمارے صحافتی ضابطہ اخلاق کے بھی خلاف ہے اور ہمارے نیشنل سکیورٹی معاملات اس سے بری طرح‌ متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر آج اس جھوٹی خبر کو برداشت کر لیا گیا تو کل کو کوئی ایسا بڑا دھماکہ ہوسکتا ہے جس سے ملک شدید بحران کا شکار ہوجائے۔

    اگر یہ خبر درست ہے اور حکومت نے خود لیک کرائی تاکہ قومی اداروں کو دبائو میں‌ لیا جا سکے اور اب مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اس خبر کی تردید کی جا رہی ہے، تب یہ معاملہ بہت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ ایسی حکومت کو ملک چلانے کا کوئی حق نہیں۔ تاہم یہ انتہائی سنگین صورت ہے اور اب جبکہ حکومت کی جانب سے سخت ترین تردید جاری کی جا چکی ہے، ہم فرض کر لیتے ہیں کہ حکومت کا مؤقف درست ہے اور اخبار اور رپورٹر نے یہ من گھڑت خبر شائع کی ہے۔

    ایسی صورت میں یہ ہرگز آزادی صحافت کا معاملہ نہیں بلکہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ صحافت کا ایشو بن جاتا ہے۔ اخبار نے خبر شائع کی، اس پر سٹینڈ لیا جا رہا ہے، رپورٹر مصر ہے کہ وہ درست ہے۔ ایسی صورت میں انہیں اپنی خبر کے حوالے سے ثبوت دینے چاہییں۔ آخر کن بنیادوں پر انہوں‌ نے اتنی بڑی خبر دی اور پھر اس پر سٹینڈ بھی لے رہے ہیں؟ وہ چیزیں متعلقہ فورمز پر سامنے آنی چاہییں، تب تک رپورٹر کو آزادی صحافت کے نعرے کے پیچھے پناہ نہیں ڈھونڈھنی چاہیے۔ میڈیا اور ہم صحافیوں پر الزام لگتا ہے کہ یہ لوگ مافیا سے کم نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس ڈان ٹائپ، مافیا سٹائل سے نکل کر ملکی قوانین کا احترام کرنا سیکھا جائے، بغیر ثبوت کے غیر ذمہ داری سے کچھ نہ شائع کیا جائے۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ جس نے ایسا کیا، جس نے ایسا کرایا، انہیں قانون کے دائرے میں‌لایا جائے۔

    اطلاعات کے مطابق سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے فوج یا حساس اداروں نے نہیں کہا، یہ پھرتیاں بھہ حکومت نے دکھائی ہیں، شاید دنیا کو دکھانے کے لیے کہ ہمارے ادارے کس قدر آزادی صحافت کے مخالف ہیں یا پھر صحافتی اداروں کو قومی اداروں کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے یا پھر فوج کا نام بدنام کرنے کے لیے۔ جو حکومت اس خطرناک دور میں کہ جب دشمن ملک جنگ کی تیاری میں ہے اور دھمکیاں دے رہا ہے، اپنے اداروں کے یہ سلوک کرے، اس سے کسی بہتری کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے.

    صاحبو! یہ آزادی صحافت کا معاملہ ہرگز نہیں‌ ہے۔ سیرل المیڈا کوئی منہاج برنا یا حسین نقی ہے نہ ہی ڈان آزادی صحافت کا مقدمہ کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ صحافت، ایک حد سے زیادہ پرجوش یعنی صحافی کا معاملہ ہے، جس نے ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگل لیا اور اب زبان جلنے پر سی سی کر رہا ہے۔ اس معاملے میں اصل کردار حکومت کی چالاکیوں اور حکومتی مشیروں کی اوورسمارٹنس کا ہے، جسے ہرگز نظر انداز نہیں‌ کرنا چاہیے ۔