پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ زیرِ بحث رہے ہیں. عسکری اور سول اداروں کے مابین اختیارات کا جھگڑا کیوں پیدا ہوتا ہے؟ پاکستان میں یہ بات قابلِ توجہ ہے ورنہ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عسکری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔
ہمارے سیاستدان ہمیشہ سے یہ دہائی دیتے آئے ہیں کہ عسکری ادارے انہیں کام نہیں کرنے دیتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عسکری حکام انہیں کام کیوں نہیں کرنے دیتے، آیا انہیں کام کرنا آتا بھی ہے یا نہیں، یہ بات قابلِ غور ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں کشمیر کے معاملے پر بین الاقوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں بہتر بنانے کے لیے حکومت نے 22 اراکینِ پارلیمنٹ کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھیجے جانے والے معزز اراکین کشمیر کے تنازعے کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ پاکستان اور ہندوستان کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟ اور سب سے بڑھ کر جانے والے معزز اراکین سفارتکاری کے رموز سے کتنا واقف ہیں۔ ان معزز اراکین کی قابلیت دیکھنے سے حکومتی سنجیدگی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔کسی کو قابلیت بارے غلط فہمی ہو تو روس جانے والے وفد کے رکن منظور وسان کی گفتگو سن لے.
آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے کہ جو جس کی ذمہ داری ہے ادا کرے مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اور دوسرے اداروں پر اضافی ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر فوج کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ فوج زلزلوں قدرتی آفات، شہروں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن، شہروں کی حفاظت اور فوجی عدالتوں کی صورت میں عدالتوں تک کا بوجھ اٹھاتی ہے، ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ بجلی کی میٹر ریڈنگ تک عسکری اداروں کو کرنی پڑی۔ ایسے میں اگر فوج اضافی اختیارات اپنے پاس رکھتی ہے تو کیا برا ہے۔ سب آئین آئین کا ورد کیوں شروع کر دیتے ہیں۔ اضافی ذمہ داریاں دیتے وقت کسی کو آئین یا سویلین بالادستی کیوں یاد نہیں رہتی۔
جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو وہ دنیا بھر بشمول امریکہ و برطانیہ حکومت اور عسکری ادارے مل کر چلاتے ہیں اور فیصلے عسکری اداروں سے مشاورت کے بعد کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدان اس معاملے میں کلی اختیارات تو چاہتے ہیں مگر ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ چلیں ایک لمحے کے لیے تسلیم کر لیتے ہیں کہ عسکری اداروں کی وجہ سے سول حکومت کی کارکردگی خارجہ پالیسی کے میدان میں خراب ہے۔ کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ تعلیم و صحت اور دیگر شعبوں میں سیاستدانوں کی مثالی کارکردگی کس وجہ سے ہے؟ جمہوریت کی خاصیت یہی ہے کہ فرد واحد کی بجائے ادارے کام کرتے ہیں مگر سب نے دیکھا کہ اسی نام نہاد جمہوری حکومت میں حریف ملک کا وزیراعظم بغیر ویزے کے آتا ہے اور اداروں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ ویسے ایک بات کی راقم کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ انہیں کام کرنے نہیں دیا جاتا مگر کرپشن کے میدان میں اس مثالی کارکردگی کا راز کیا ہے؟
تبصرہ لکھیے