اگر آپ لوگوں نے کسی مصروف بازار میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے جیب کترے کو مار کھاتے نہیں دیکھا تو شائد یہ بات اتنی مزیدار نہ لگے، کیونکہ میں صرف اشارے کرنے والا ہوں۔
۔
جیب کترے کو جب کچھ راہگیروں سے ایک دو ہاتھ پڑ چکے ہوتے ہیں تو ایک زرا نکلتے قد کا بندہ آگے بڑھتا ہے، اور اس جیب کترے کو کالر سے پکڑ لیتا ہے۔ اور ایک دو آواز دار ہاتھ جڑتا ہے۔ غور کیجیے گا، کرارے نہیں آواز دار، تاکہ اردگرد کے لوگوں کو لگے کہ ٹھیک ٹھاک مارا گیا ہے۔
۔
پھر وہ اسکو پولیس تھانے لے جانے کی دھمکی دیتا ہے اور ساتھ آٹھ دس گالیاں بھی۔ سین پر موجود سارے کردار مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اب اسکو سزا مل کر رہے گی۔ ویسے بھی ہر کسی کو اپنے کام پر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ پہلے پہل کی ایکسائٹمنٹ کے بعد شغل میلہ زرا کم ہوتا ہے تو یار لوگ چھٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔
۔
لمبے قد والا اسکو لے کر ایک طرف کو چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ صرف ایک دو اور لوگ اس کے ساتھ رہ جاتے ہیں۔ جن میں ایک شائد وہ ہوتا ہے جو جیب کترے کا آخری شکار ہوتے ہوتے بچتا ہے۔
۔
اب لمبے قد والا کہتا ہے، ٹھیک بھائی لوگوں آپ میں سے کون تھانے کچہری بھگتے گا، میں ہی اسکو لے جاتا ہوں۔ ساتھ وہ ایک آدھ دھول دھپا جیب کترے کو پھر لگاتا ہے۔ باقی لوگ بھی اپنی راہ لیتے ہیں۔ ڈھیٹ بندہ جسکی جیب کٹنے والی تھی ،رہ جاتا ہے، وہ تھانے ساتھ جانے پر مصر ہوتا ہے۔
۔
یہاں آکر لمبے قد والے کا لہجہ تھوڑا بدل جاتا ہے۔ وہ درشت لہجے میں اس سے پوچھتا ہے، تیرا کوئی نقصان تو نہیں ہوا نا ؟ تو چل پھر اپنی راہ ناپ۔ میں ہوں نا۔ جا جا شابش ۔ ۔ یہ بڑے خطرناک لوگ ہوتے ہیں، پورا گینگ ہوتا ہے ان کا۔ تم نہیں جانتے۔ چل بچے شابش، تو بھی نکل۔
۔
جیب کٹنے سے بچنے والا حیرانی سے ن ہ سمجھنے کے انداز میں اس لمبے قد والے کو دیکھتا سائڈ پر رک سا جاتا ہے۔ اور لمبے قد والا جیب کترے کو کالر سے پکڑے اگلی سڑک سے بائیں مڑ جاتا ہے۔
۔
جیسے ہی وہ دونوں اکیلے رہ جاتے ہیں، لمبے قد والا ایک لات اس جیب کترے کی کمر پر رسید کرتا ہے، اور کہتا ہے، الو کے پٹھے، کتنی بار کہا ہے، ہاتھ دیکھ بھال کر مارا کر۔ کھوتے کا کھوتا ہی ہے تو، سال ہو گیا تجھے ۔ آیندہ دھیان سے۔ اچھا ، چل اب روٹی شوٹی کھاتے ہیں۔ چل آجا۔
۔
آج کل بھی ایک لمبے قد والا جیب کترے کو دھول دھپا کر رہا ہے۔ اور تماشائی خوش ہو رہے ہیں کہ اب جیب کترا جیل جائے گا۔ بس تماشہ ختم ہونے کی دیر ہے۔ پھر روٹی شوٹی کھاتے بندے آپ خود ہی پہچان جائیں گے۔
Tag: حکمران
-
اب کیا ہوگا؟ محمود فیاض
-
دہشت گردی کا جرم اور اسلامی قانون – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
بعض اہل علم نے یہ رائے پیش کی ہے کہ دہشت گردی کا جرم حرابہ کی تعریف میں داخل ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی کہتے ہیں:
”قانون کی خلاف ورزی کی ایک شکل تو یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی جرم صادر ہو جائے تو اس صورت میں اس کے ساتھ شریعت کے عام ضابطہ حدود و تعزیرات کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کی کوشش کرے۔ اپنے شروفساد سے علاقے کے امن و نظم کو درہم و برہم کر دے، لوگ اس کے ہاتھوں اپنی جان، مال، عزت و آبرو کی طرف سے ہر وقت خطرے میں مبتلا رہیں۔ قتل، ڈکیتی، رہزنی، آتش زنی، اغواء، زنا، تخریب ترہیب اور اس نوع کے سنگین جرائم حکومت کے لیے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کردیں“۔مولانا اصلاحی نے یہ رائے آیت حرابہ کی تفسیر کے ضمن میں پیش کی ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے قرار دیا تھا کہ رجم کی سزا زانی محصن کے لیے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جو زنا کو عادت یا پیشہ بنائیں یا زنا بالجبر کا ارتکاب کریں۔ ان کے شاگرد جناب جاوید احمد غامدی نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے:
”محاربہ اور فسادفی الارض، یعنی اللہ اور رسول سے لڑنے اور ملک میں فساد بر پا کرنے کے معنی ان آیات میں یہی ہو سکتے ہیں کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور پوری جرأت و جسارت کے ساتھ اس نظام حق کو درہم بر ہم کرنے کی کوشش کرے جو شریعت کے تحت کسی خطہء ارض میں قائم کیا جا تا ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی حکومت میں جو لوگ زنا بالجبر کا ارتکاب کریں یا بدکاری کو پیشہ بنالیں یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بد معاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائیں یا اپنی دولت و اقتدار کے نشے میں غریبوں کی بہو بیٹیوں کو سر عام رسوا کریں یا نظم حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا قتل و غارت، ڈکیتی، رہزنی، اغوا، دہشت گردی، تخریب، ترہیب اور اس طرح کے دوسرے سنگین جرائم سے حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کریں وہ سب اسی محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرم قرارپائیں گے“۔یہ رائے ایک نئی اپچ کہلائی جاسکتی ہے مگر، جیسا کہ ہم دوسرے مقام پر تفصیل سے واضح کرچکے ہیں، اس کو قبول کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی قانون کے پورے ڈھانچے کی از سر نو تعمیر کی جائے۔ پہیہ نئے سرے سے ایجاد کرنے کے بجائے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جس قانونی نظام کو مسلمان اہل علم نے صدیوں کی محنت سے تعمیر کیا اور اس کے اندرونی تضادات کے ختم کرنے کی جستجو کی، اس کے قانونی اثرات کی توضیح میں عمریں صرف کیں، اس کے اندر رہتے ہوئے دہشت گردی کے جرم کی جگہ اور حیثیت معلوم کی جائے۔
فقہاء نے جس طرح اسلام کا فوجداری قانونی نظام تعمیر کیا ہے اس کے مطابق فساد فی الأرض کی ایک خاص قسم کو ہی حرابہ کہا جاسکتا ہے۔ مولانا اصلاحی اور جناب غامدی کی آرا کو بنیاد بناتے ہوئے مشہور کیس ”بیگم رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان“ میں وفاقی شرعی عدالت نے زنا بالجبر کو حرابہ قرار دیا اور سوال اٹھایا:
”کسی کے مال پر ہاتھ ڈالنا اگر محاربے کی تعریف میں شامل ہے تو کسی کی عزت لوٹ لینا اس میں کیوں شامل نہیں ہوسکتا؟ آخر ایک انسان کے پاس عزت و عفت سے بڑا سرمایہ اور یوں کسی کی عصمت دری کرنے سے زیادہ فساد اور کیا ہوسکتا ہے؟“
عدالت نے یہاں عزت و عفت کو ”سرمایہ“ قرار دیا ہے۔ ادب اور بلاغت کے لحاظ سے یہ کہنا شاید مناسب بھی ہے اور جذبات کو اپیل بھی کرتا ہے، لیکن قانونی لحاظ سے اسے سرمایہ قرار دینے پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پر عدالت نے یہ بحث نہیں کی کہ اسے مال متقوم سمجھا جائے گا یا غیر متقوم؟ اگر غیر متقوم ہو تو اس کو حرابہ کے تحت کیسے لایا جاسکتا ہے؟ اور اگر متقوم ہو تو کیا یہ بھی ماننا پڑے گاکہ اس سرمائے کے اتلاف پر ضمان بھی عائد کیا جائے گا؟ اگر ہاں تو اس تقویم کا معیار کیا ہوگا؟ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات اور بھی پیدا ہوتے ہیں اور عدالت کا یہ فیصلہ اندرونی تضادات کی ایک روشن مثال بن گیا ہے۔ہم نے ایک دوسرے مقام پر تفصیل سے حدود جرائم اور سزاؤں کے نظام پربحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ حدود سزائیں تو صرف بعض مخصوص جرائم کی مخصوص سزائیں ہیں جو صرف اسی وقت دی جاسکتی ہیں جب وہ جرائم ایک مخصوص ضابطے کے تحت ثابت کیے جائیں۔ نیز ان جرائم کے سلسلے میں ملزموں کو بعض مخصوص اضافی رعایتیں حاصل ہوتی ہیں، جن کی بنا پر ان سزاؤں کا نفاذ شاذ و نادر ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہ سزائیں فقہاء کی تقسیم کے مطابق حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور ان کے لیے ایک مخصوص قانون ہے۔ فرد کے حقوق پر عدوان کو فقہاء نے تعزیر کا نام دیا ہے اور اس کے لیے حدود کی بہ نسبت ہلکی شرائط رکھی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک نہایت محدود دائرے سے تعلق رکھنے والی سزائیں ہیں۔ وہ جرائم جن کا اثر چند افراد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ ان سے متاثر ہوتا ہے، بہ الفاظ دیگر جو فساد فی الأرض کا باعث بنتے ہوں، ان کو فقہاء نے ”حقوق الامام“ یعنی حکمران کے حقوق سے متعلق قرار دے کر ”سیاسۃ“ کے قاعدے کے تحت حکمران کو ان کے تدارک، سد باب اور ان کے لیے سزائیں تجویز کرنے کے اختیارات دیے۔ فی الحقیقت یہی سیاسہ کا تصور ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کے جرم کے خلاف شرعی قواعد کی روشنی میں مناسب قانون سازی کی جاسکتی ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی اس تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
[pullquote]فالسیاسۃ استصلاح الخلق بارشادھم الی الطریق المنجی فی الدنیا و الآخرۃ۔[/pullquote](پس سیاسۃ سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو دنیا و آخرت میں نجات دینے والا راستہ دکھاکر ان کی اصلاح کی جائے۔ )
ابن نجیم نے یہی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
[pullquote]و ظاھر کلامھم ھھنا أن السیاسۃ: ھی فعل شیء من الحاکم لمصلحۃ یراھا و ان لم یرد بذلک الفعل دلیل جزئی۔[/pullquote](یہاں فقہاء کے کلام کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ سیاسۃ سے مراد حاکم کا وہ اقدام ہے جو وہ کسی مصلحت کی بنیاد پر اٹھائے خواہ اس مخصوص فعل کے لیے کوئی خاص نص نہ پائی جائے۔)
یوں سیاسۃ کا تصور کا فی وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ تاہم بالخصوص فوجداری قانون کے حوالے جب اس اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہ سزائیں ہیں جو حاکم شرعی قواعد کی روشنی میں فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے مقرر کرتا ہے۔ اس قاعدے کے تحت حکمران کو صرف سزا دینے ہی کا اختیار حاصل نہیں ہے بلکہ جرائم کی روک تھام کے لیے بھی وہ مناسب احتیاطی اقدامات (preventive measures) اٹھاسکتا ہے۔ چنانچہ فقہائے احناف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے نصر بن حجاج کی مدینہ سے جلاوطنی کے اقدام کو بھی سیاسۃ قرار دیتے ہیں کیونکہ اگرچہ نصر نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا لیکن اس بات کا قوی اندیشہ وجود میں آگیا تھا کہ اس کے حسن کی وجہ سے کوئی خاتون فتنے میں پڑ جائے گی۔
تاہم یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ حکمران کا یہ اختیار مطلق نہیں ہے بلکہ اسے عدل کے متعلق اسلامی قانون کے قواعد عامہ کے تحت ہی اس اختیار کا استعمال کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اس کے اقدام کو سیاسۃ ظالمۃ قرار دیا جائے گا اور اس حکم کا ماننا جائز نہیں ہوگا۔ حموی کہتے ہیں:
[pullquote]السیاسۃ شرع مغلظ، و ھی نوعان: سیاسۃ ظالمۃ، فالشریعۃ تحرمھا، و سیاسۃ عادلۃ تخرج الحق من الظالم و توصل الی المقاصد الشرعیۃ، فالشریعۃ توجب المصیر الیھا و الاعتماد فی اظھار الحق علیھا۔ و ھی باب واسع۔[/pullquote](سیاسۃ سخت سزا کو کہتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں: ایک سیاسۃ ظالمۃ جسے شریعت حرام ٹھہراتی ہے اور دوسری سیاسۃ عادلۃ جو ظالم سے مظلوم کا حق حاصل کرتی ہے اور مقاصد شریعت کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے، پس شریعت اس سیاسۃ پر عمل کو واجب ٹھہراتی ہے اور حق کے غلبے کے لیے اس پر انحصار کو لازم کرتی ہے۔ اور اس سیاسۃ کا باب بہت وسیع ہے۔ )
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند اہم جرائم کا تذکرہ کیا جائے جن کے لیے احناف سیاسۃً سزائے موت کے قائل ہیں۔
ایک یہودی کی سزائے موت کا ذکر روایات میں اس طرح آیا ہے:
[pullquote]ان یھودیا رضخ رأس جاریۃ فی أوضاخ فامر رسول اللہ ﷺ بان یرضخ رأسہ بین حجرین۔[/pullquote](ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سر پتھروں سے کچل دیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے۔ )
احناف کا مؤقف ہے کہ یہ سزا قصاص نہیں تھی کیونکہ قصاص کے اثبات کے لیے مجرم کا اقرار یا اس کے خلاف دو عینی گواہوں کی شہادت ضروری ہوتی ہے، جبکہ اس قتل کے مجرم کو سزا واقعاتی شہادتوں اور قرائن کی بنیاد پر سنائی گئی تھی۔ اسی لیے احناف قصاص میں کیفیت میں مماثلت ضروری نہیں سمجھتے۔ شمس الائمۃ سرخسی اس روایت کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
[pullquote]و تاویل الحدیث أنہ أمر بذالک علی طریق السیاسۃ، لکونہ ساعیا فی الأرض بالفساد، معروفا بذلک الفعل۔ بیانہ فی ما روی أنھم أدرکوھا و بھا رمق، فقیل لھا: أ قتلک فلان؟ فأشارت برأسھا لا۔ حتی ذکروا الیھودی فأشارت برأسھا أن نعم ۔ و انما یعد فی مثل تلک الحالۃ من یکون متھما بمثل ذلک الفعل معروفا بہ۔ و عندنا اذا کان بھذہ الصفۃ، فللامام أن یقتلہ بطریق السیاسۃ۔[/pullquote](اور حدیث کی تاویل یہ ہے کہ آپ نے ایسا سیاسۃ کے طریق پر کیا کیونکہ وہ یہودی زمین میں فساد کا مرتکب تھا اور اس کے لیے معروف بھی تھا۔ اس کی وضاحت اس روایت میں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اس خاتون کو دیکھا تو اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی۔ تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا فلاں نے تمہیں قتل کیا؟ تو اس نے سر کے اشارے سے کہا کہ نہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس یہودی کا نام لیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے حالات میں اسی کا نام لیا جاتا ہے جو اس قسم کے کام کے لیے بدنام اور مشہور ہو۔ اور ہمارے نزدیک جب وہ اس صفت کا حامل ہو تو حاکم کو اختیار ہے کہ اسے بطریق سیاسۃ قتل کردے۔)
لواطت کے جرم کو بھی امام ابوحنیفہ زنا کے بجائے سیاسۃ کے تحت لاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کا اس جرم کی سزا کی نوعیت پر اختلاف تھا۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ لواطت کے مرتکبین کو آگ میں جلایا جائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ غیر محصن ہوں تو سو کوڑے دیے جائیں اور محصن ہوں تو رجم کیا جائے۔ جبکہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ کسی بلند مقام سے لڑھکایا جائے اور پھر پتھر مارے جائیں۔ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ سب سے زیادہ بدبودار جگہ میں قید کیے جائیں یہاں تک کہ بدبو کی وجہ سے وہ مر جائیں۔ سرخسی امام ابوحنیفہ کے موقف کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
[pullquote]الصحابۃ اتفقوا علی ان ھذا الفعل لیس بزنا، لانھم عرفوا نص الزنا، و مع ھذا اختلفوا فی موجب ھذا الفعل، و لا یظن بھم الاجتھاد فی موضع النص۔ فکان ھذا اتفاقا منھم أن ھذا الفعل غیر الزنا، و لا یمکن ایجاب حد الزنا بغیر الزنا۔ بقیت ھذہ جریمۃ لا عقوبۃ لھا فی الشرع مقدرۃ ، فیجب التعزیر فیہ یقینا۔ و ما وراء ذلک من السیاسۃ موکول الی رأی الامام، ان رأی شیئا من ذلک فی حق فلہ أن یفعلہ شرعاً۔[/pullquote](صحابہ کا اس پر اتفاق ہوا کہ یہ فعل زنا نہیں ہے، کیونکہ وہ زنا کے نص سے واقف تھے اور اس کے باوجود اس فعل کی سزا میں ان کا اختلاف ہوا، اور ان کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کریں گے۔ ان کی جانب سے اس امر پر اتفاق ہوا کہ یہ فعل زنا نہیں ہے۔ اور زنا کی حد کا غیر زنا کی سزا کے طور پر دینا ممکن نہیں۔ پس یہ فعل ایسا جرم ہوا، جس کے لیے شرع میں کوئی مقررہ سزا نہیں۔ لیکن اس میں سزا دینا یقینا ضروری ہے۔ اب اس سے آگے جو سیاسۃ ہے، وہ حاکم کی رائے کے سپرد ہے۔ اگر وہ کسی حق میں ایسی کوئی رائے رکھے تو شرعاً اسے اختیار ہے کہ وہ اس پر عمل کرے۔)
اسی طرح احناف کے نزدیک زانی غیر محصن کے لیے جلاوطنی کی سزا حد میں شامل نہیں ہے اور جن بعض روایات میں زانی غیر محصن کو جلاوطن کردینے کی سزا کا ذکر آیا ہے اسے وہ سیاسۃ پر محمول کرتے ہیں۔ بدایۃ المبتدی کے متن میں ہے:
[pullquote]و لا یجمع فی البکر بین الجلد و النفی الا أن یری الامام فی ذلک مصلحۃ، فیغربہ علی قدر ما یری۔[/pullquote](غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں کوڑوں اور جلاوطنی کو جمع نہیں کیا جائے گا، الا یہ کہ اگر امام کو اس میں مصلحت نظر آئے تو وہ اسے جس مدت تک مناسب سمجھے جلاوطن کرسکتا ہے۔ )
اس عبارت کی شرح میں ہدایۃ میں اس طرح کی گئی ہے:
[pullquote]و ذلک تعزیر و سیاسۃ، لأنہ قد یفید فی بعض الأحوال، فیکون الرأی فیہ الی الامام۔ و علیہ یحمل النفی المروی عن بعض الصحابۃ رضی اللہ عنہم۔[/pullquote](یہ جلاوطنی بطور تعزیر و سیاسہ کے ہوگی کیونکہ بعض حالات میں اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ پس اس معاملے میں حتمی فیصلہ امام کا ہے۔ اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے جلاوطنی کی جو سزا مروی ہے اسے اسی پر محمول کیا جائے گا۔ )
اسی طرح اپنی بیوی کے ساتھ غیر فطری طریقے پر مباشرت کی صورت میں دی جانے والی سزائے موت کو بھی احناف سیاسۃ قرار دیتے ہیں۔ یہی حکم عادی چور، جادوگر، داعی زندیق اور دیگر مفسدین کا ہے جن کے فساد کے خاتمے کے لیے اور لوگوں کو ان کے شر سے بچانے کے لیے انہیں سزائے موت دینا ضروری ہوجاتا ہے۔
ہماری رائے میں عرنیین، جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو وحشت ناک طریقے سے قتل کیا اور مال مویشی لوٹ کر بھاگ نکلے، کو دی جانے والی سزا بھی سیاسۃ ہی کی نوعیت کی تھی۔ پہلے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے، پھر ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں۔ اس کے بعد انہیں گرم صحرائی علاقے میں پھینک دیا گیا۔ پھر اسی حالت میں وہ سسک سسک کر مر گئے۔ اس سزا کو سیاسۃ قرار دینے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مجرموں کے اقرار یا ان کے خلاف دو عینی گواہوں کی شہادت کے بجائے واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر یہ سزا دی گئی تھی۔ نیز ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کے بعد ان کے بار بار مانگنے کے باوجود ان کو پینے کے لیے پانی نہیں دیاگیا، نہ ہی ان کے زخموں کی مرہم پٹی کی گئی۔ مزید برآں، قصاص میں کیفیت میں مماثلت ضروری نہیں ہے۔
پس دہشت گردی کے جرم سے نمٹنے کے لیے مسلمان حکمران کو سیاسۃ کے قاعدے کے تحت قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وہ شرعی قواعد اور ضوابط کا خیال رکھے گا کیونکہ اگر اس نے ان حدود سے تجاوز کیا تو وہ سیاسۃ ظالمۃ کا مرتکب ہوگا۔
(جہاد ، مزاحمت اور بغاوت سے اقتباسات)
-
اقتدار کی ہوس بری ہے – عابد محمود عزام
اقتدار کی ہوس انسان کو اندھا کردیتی ہے، دیوانہ اور سنگدل بھی، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس ہوس کا انجام براہے۔ مشہور ہے: ”اہل یونان نے ایک دیوی بنائی، بہت ہی عمدہ و خوبصورت۔ سفید مرمریں بدن پر تیکھے نقوش کھودے گئے۔ قامت میں نخرا اور کاٹھ میں ایک غرور بھرا۔ دیوی کو اٹھا کر ”ایتھنز“ کے مرکزی چوک میں رکھ دیا گیا۔ لوگ جمع ہوئے، سراپا ناز کے حسن اور اعضا کے توازن پر بے شمار داد دی گئی۔ تحسین کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ کسی نے آواز لگائی۔ ”لوگو! دیکھو دیوی کی تو آنکھیں ہی نہیں۔“ لوگوں نے چونک کر دیکھا، واقعی آنکھوں کی جگہ ہموار تھی۔ لوگ اعضا کے توازن اور نقوش کی جادوگری میں اتنے کھوگئے تھے کہ انھیں آنکھوں کی کمی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ ”ارے، اس کے تو پاﺅں بھی غیر انسانی ہیں۔“ کسی نے ہانک لگائی۔ لوگوں کی نظریں بے اختیار دیوی کے قدموں میں آپڑیں۔ دیوی کے پاﺅں نہیں تھے۔ بت تراش نے پنڈلیوں کے فوراً بعد پنکھ تراش دیے تھے، چیل کے لمبے لمبے بدصورت پنکھ۔ ”اوئے اس کا دل…“ مجمع میں سے آواز آئی۔ سب کی نظریں سینے پر جا الجھیں۔ وہاں عین دل کے مقام پر ایک سوراخ تھا اور اس سوراخ میں لوہے کا ایک بدصورت ٹکڑا۔ لوگ سنگ تراش کو ڈھونڈنے لگے۔ بت ساز حاضر ہوگیا۔ لوگوں نے مذمت شروع کردی۔ جب لوگ چیخ چیخ کر تھک گئے تو بت تراش نے اداس لہجے میں کہا۔ ”حضرات! یہ اقتدار کی دیوی ہے۔ اقتدار کی آنکھیں نہیں ہوتی ہیں، لہٰذا اقتدار کا پجاری اندھا ہوتا ہے۔ اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لہٰذا ہر وہ شخص جس میں رحم ہو، وہ بھی اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا اور حضرات! اقتدار کے پاﺅں بھی نہیں ہوتے، یہ اڑتا ہوا آتا ہے اور اڑتا ہوا واپس چلا جاتا ہے۔“
حقیقت یہی ہے کہ اقتدار کی ہوس ہر دور میں انسانوں کو اندھا، سنگدل اور دیوانہ بناتی آئی ہے۔ جس پر اقتدار کا بھوت سوار ہوجائے تو پھراقتدار کو حاصل کرنا اور اسے قائم رکھنا ہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جاتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ اقتدار کے نشے نے بھائی کو بھائی کے سامنے لا کھڑا کیا اور ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ مغلیہ دور حکومت میں اورنگزیب عالمگیر سب سے زیادہ پارسا بادشاہ گزرے ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سلطنت ہند کی سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باوجود اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے ٹوپیاں بنتے تھے اور قرآن مجید کی کتابت کرتے تھے۔
ان کی پارسائی کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے: ”اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں دہلی کے ایک بزرگ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت لکھ کے بند کی اور کہا: نماز جنازہ سے پہلے وصیت کھول کر پڑھی جائے۔ ان کی وفات کے بعد وصیت پڑھی گئی تو اس میں درج تھا کہ ان شراط پر پورا اترنے والا شخص ہی میرا جنازہ پڑھائے گا۔ وہ شرائط یہ ہیں: اس شخص نے پوری زندگی ہر نماز باجماعت پڑھی ہو۔ ساری زندگی نماز عشاءکے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہو۔ زندگی میں کبھی بھی نماز عصر کی چار موکدہ سنتیں نہ چھوڑی ہوں۔ وصیت سننے کے کافی دیر بعد اشک بار آنکھوں کے ساتھ بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر آگے بڑھے اور حضرت کی نماز جنازہ پڑھائی اور کہا: ”آپ نے آج اس بھرے مجمعے میں میرا پردہ چاک کردیا ہے۔“ ایسے پارسا انسان اورنگزیب عالمگیر کی زندگی کا بھی ایک حصہ اقتدار کے حصول کے لیے اپنے والد شاہجہان اور اپنے بھائیوں مراد بخش، شجاع اور دارا سے لڑتے گزرا۔
آج تک اقتدار نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی، اقتدار آتا بہت مشکل سے ہے، لیکن جاتے ہوئے پتا بھی نہیں چلتا۔ فرعون کو جب اس کے نجومیوں نے بتایا کہ ایک بچہ تمہارے اقتدار کے لیے خطرہ بنے گا تو فرعون پر یہ بہت شاق گزرا، اپنا اقتدار بچانے کی خاطر اس نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے شمار نومولود بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن اقتدار اس کا پھر بھی نہ بچ سکا اور فرعون دریا میں ڈوب کر عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔
نمرود کو جب اپنا اقتدار ڈولتا ہوا نظر آیا تو وہ بھی اقتدار کی ہوس میں ایسا اندھا اور دیوانہ ہوا کہ مقرب پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا، لیکن اس کا اقتدار انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فرانس کے بادشاہ لوئی شانزدہم بڑے ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کے ساتھ ایک عرصہ اقتدار پر براجمان رہا، لیکن عوام نے شاہی محل پر حملہ کرکے بادشاہ اور ملکہ کو قید کیا، بعد ازاں دونوں کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عالم اسلام کے دو عظیم فاتح تیمور لنگ اور بایزید یلدرم جب تقریباً آدھی دنیا فتح کرچکے تو بلاشرکت غیرے پوری دنیا کے اقتدار کا مالک بننے کے لیے دونوں نے آپس میں لڑکر لاکھوں مسلمانوں کو خون میں نہلادیا، لیکن برا ہو اس اقتدار کا، یہ پھر بھی جاتا رہا۔
اگر ماضی قریب میں جھانکیں تو تاریخ کی گواہی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی نے بڑی عیاشی، دبدبے اور جبر کے ساتھ حکومت کی، لیکن اس کا انجام عبرت سے لبریز ہے۔ اقتدار کی محبت میں غرق حسنی مبارک نے طویل عرصہ تکبر و نخوت کے ساتھ مصر پر راج کیا، لیکن عوام کے ہاتھوں ذلت سے دوچار ہوا۔ کرنل معمر قذافی نے نصف صدی جابرانہ طریقے سے لیبیا کے اقتدار کے مزے لوٹے، وہ بھی عوام کے انتقام کا نشانہ بنا۔ صدام حسین نے بھی اقتدار کی ہوس میں عراق کو ہائی جیک کیے رکھا۔ جب قدرت نے حساب برابر کیا تو صدام حسین کو پھانسی کا پھندا ملا۔ اقتدار کی بھوک نے پرویز مشرف کو ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کا خون کرنے پر مجبور کیا، لیکن اقتدار نے اس کے ساتھ بھی وفا نہ کی۔ اقتدار کی ہوس کی وجہ سے جنھوں نے پاکستان کو دولخت کیا سب کا انجام غیر طبعی موت کے ذریعے ذلت و رسوائی پر منتج ہوا۔اقتدار کی ہوس کا انجام برا ہے۔
دوسرے ممالک کو تو چھوڑئیے، پاکستان میں سیاست دان جو عوام کو آپس میں دست و گریباں کیے ہوئے ہیں، یہ صرف اقتدار کی ہوس ہی تو ہے۔ سیاست دانوں کو اس سے کچھ غرض نہیں کی ملک اور قوم کو کیا نقصان پہنچتا ہے، بس ان کے مفادات سلامت رہیں۔ جن کو اقتدار مل چکا، وہ محفوظ رہے اور جن کو نہیں ملا، ان کو مل جائے۔ عوام بھوکے مرجائیں۔ ایک دوسرے سے لڑیں۔ دنگا فساد کریں۔ ملک کو نقصان پہنچائیں۔ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔ سیاست کے نام پر گھر گھر میں نفرتیں جنم لینے لگیں۔ بھائی بھائی کا دشمن بن جائے۔ دوست دوست کے خون کا پیاسا ہوجائے۔ ان کو کوئی غرض نہیں۔ بس ان کو اقتدار مل جائے۔ان کی سیاست چمکتی رہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے مذہب فروخت کرنا پڑے، کوئی بات نہیں۔ غیرت داؤ پر لگ جائے، کوئی بات نہیں۔ جھوٹ بولنا پڑے، دھوکا دینا پڑے، عوام کو بے وقوف بنانا پڑے، کوئی بات نہیں۔ حکمرانوں کے غلط اقدامات کی حمایت کرنا پڑے، کوئی بات نہیں۔ بس کسی طرح اقتدار مل جائے۔ اقتدار کے حصول کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔اقتدار کے بھکاریوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، کیونکہ اقتدار کے بھکاریوں کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ میرے ملک کے سیاسی رہنما کارکنوں پر رحم کھائیں۔ ان کو اقتدار کے حصول کے لیے انہیں دوسروں کے لیے نفرتیں پالنے والا نہ بنائیں۔ کارکنوں کو اپنا کوا سفید کہنے پر مجبور نہ کریں۔ اپنے غلط کو ٹھیک کہنے پر مجبور نہ کریں۔ اعتدال کا سبق پڑھائیں۔ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کا سبق دیں، کیونکہ آج نفرتیں پھیلا کر اقتدار تو مل سکتا ہے، لیکن اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کل یہ اقتدار سلامت بھی رہتا ہے کہ نہیں۔ اگر غلط اقدامات سے اقتدار حاصل کیا تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ جب قدرت کی مار پڑتی ہے تو اقتدار، طاقت، عیش و طرب، حاکمیت اور فرعونیت کاسہ گدائی میں بدل جاتی ہے۔ اقتدار کی ہوس ہے ہی بری۔
-
قانون کی حکمرانی نہیں انصاف کی حکمرانی، فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان
دنیا میں جہاں کہیں سودی سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ جمہوری نظام نافذ ہے وہاں ایک تصور بہت عام ہے، ’’قانون کی حکمرانی یا قانون کی بالادستی‘‘ ۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انصاف کو قانون کے ماتحت ہونا چاہیے‘ اور قانون وہ ہے جسے عوام کے منتخب نمایندے اکثریت کی بنیاد پر بناتے ہیں۔ جمہوریت کو ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اگر اکیاون فیصد ممبران اسمبلی انچاس فیصد اقلیت کے خلاف ایک قانون منظور کر لیتے ہیں تو وہ اس ملک کا قانون بن جاتا ہے۔
چار سو کے لگ بھگ ارکان اسمبلی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایک قانون منظور کرتے ہیں کہ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وزراء کے مالی معاملات میں کوئی عدالت‘ ملک کا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ یا بددیانتی اور کرپشن کے خلاف کارروائی پر مامور محکمہ مداخلت نہیں کر سکتا۔ انھیں طلب نہیں کر سکتا‘ ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتا‘ اگر وہ ایسا کرے گا تو ان کا استحقاق مجروح ہو گا۔ایسے میں یہ ملک کا قانون بن جاتا ہے اور اس پر اگر مکمل طور پر عملدرآمد ہو جائے تو اسے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے۔
اس کے مقابلے میں ایک لفظ ہوتا ہے ’’انصاف کی حکمرانی‘‘۔ اس کا بنیادی مقصد اور ہدف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان انصاف کیا جائے۔ اگر کوئی طاقتور ایک قانون اپنے حق میں منظور کر والیتا ہے تو اس کو پس پشت ڈال کر کمزور‘ محکوم اور مجبور کو اس کا حق دلایا جائے۔ انصاف کی حکمرانی کے اصول کسی پارلیمنٹ یا کانگریس کے مرہون منت نہیں ہیں۔
یہ اصول ہر معاشرے کو صدیوں سے ازبر ہیں۔ اس لیے کہ یہ اصول دنیا کے ہر الہامی مذہب نے اصول ہدایت کے طور پر لوگوں کو سکھائے ہیں۔ انھیں اکیاون فیصد اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ سو فیصد لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی قانون کو سچ اور جھوٹ کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ دھوکا‘ فریب‘ بددیانتی‘ کرپشن‘ حق تلفی‘ قتل اور تشدد جیسے جرم بھی تعارف اور تعریف کے محتاج نہیں ہوتے۔
لوگوں کو یہ بھی خوب پتہ ہے کہ انصاف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب طاقتور ترین اور کمزور ترین کے درمیان کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ علاقہ‘ گروہ‘ قبیلہ‘ برادری یہاں تک کہ سیاسی پارٹی کا تعصب بھی انصاف کی حکمرانی کا تصور باطل کر دیتا ہے۔ اسی لیے انصاف کی حکمرانی کے تمام اصول ازلی‘ ابدی اور الہامی ہیں جب کہ قانون کی حکمرانی کے اصول انسانی اکثریت کے محتاج ہیں۔
انسانی معاشرے نے شروع دن ہی سے اپنے درمیان عدل اور انصاف کرنے کے لیے انسانوں کو ذمے داریاں سونپیں اور ادارے تخلیق کیے۔ جرگے سے پنچایت تک اور قاضی سے جج تک ایسے تمام ادارے اور فرد اس لیے منتخب کیے گئے کہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کریں گے۔ دنیا کے ہر ملک میں موجود کہانیوں کا آغاز ایک جیسے فقرے سے ہوتا ہے ’’ایک تھا بادشاہ جس کے دور میں اس قدر انصاف تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے‘‘۔
انصاف پہلے بھی جرگہ‘ پنچایت‘ قاضی اور جج کے پاس تھا اور آج بھی یہ انھی کی ذمے داری ہے۔ پہلے بادشاہ قاضی یا جج پر قدغن لگا کر اسے اپنے احکامات کا پابند کرتے تھے اور آجکل جمہوری معاشرے‘ قانون کی حکمرانی کے نام پر عدالتوں کے اختیار صلب کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انصاف کی بالادستی کی کہانی سناتی ہے جب کہ جمہوریت کی تاریخ پارلیمنٹ کی بالادستی کا درس دیتی ہے‘ یعنی اکثریت کی بالادستی۔
جس طرح بادشاہوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے انصاف کی حکمرانی کے علمبردار قاضیوں کے وجود سے تاریخ کی صفحات روشن ہیں‘ اسی طرح پارلیمنٹ کی آمریت کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے والے جج بھی دنیا کی ہر جمہوریت میں پائے جاتے ہیں۔ جب کبھی بھی کسی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ کیا وہ انصاف کی بالادستی کے لیے پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو مسترد کر سکتی ہے یا نہیں تو اس وقت عدالتوں کے سامنے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان مارشل Jan Marshall کا وہ شہرہ آفاق فیصلہ ضرور پیش ہوا جو انھوں نے مشہور مقدمے مربری بمقابلہ میڈیسن (Marbury VS Madisan) میں دیا تھا۔
1803ء میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا جس میں یہ بنیادی سوال سامنے آیا کہ اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کر لیتی ہے جو آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق جن میں انصاف کا حق بھی شامل ہے‘ اس سے متصادم ہے تو کیا عدالت اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
اس پر جسٹس مارشل کا تاریخی فیصلہ گونجتا ہے کہ انصاف کی حکمرانی ایک تصور ہے جس کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے اور اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے جس سے انصاف کے بنیادی حق پر ضرب لگتی ہے تو عدالت اسے منسوخ کر سکتی ہے اور عدالت کسی ایسی پابندی کو بھی نہیں مانتی جو کانگریس اس کے اس بنیادی اختیار کو محدود کرنے کے لیے لگاتی ہے جس کا مقصد انصاف کی حکمرانی‘ بالادستی اور فراہمی ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں اعلیٰ ترین عدلیہ کا یہ اختیار مسلم سمجھا گیا کہ اس کا بنیادی مقصد انصاف کی حکمرانی ہے کیونکہ اس کے بعد صرف اللہ تعالیٰ کی عدالت باقی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ایسے قوانین جو انصاف کی فراہمی سے روکیں‘ سپریم کورٹ انھیں ختم کر سکتی ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ بھی ایسی ہی ایک تاریخ مرتب کرنے جا رہی ہے۔ اس کا آغاز اس دن ہو گیا تھا جب انھوں نے حکومت کی جانب سے 1956ء کے تحت کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس طرح کی لامتناہی کوشش کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘ ہمیں بتائیں کس کس کے خلاف تحقیقات کرنا ہیں۔ حکومتوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے اور پھر اس کی سفارشات پر سانپ بن کر بیٹھا جائے جیسے ماڈل ٹاؤن واقعہ میں باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ ہے۔
گزشتہ سات ماہ سے نواز شریف حکومت اس خط کا جواب نہیں دے رہی تھی اور تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر ٹی او آر کی بانسری بجائی جا رہی تھی۔ دوسری جانب وہ ادارے جن کی ذمے داری تھی کہ پاکستانی تاریخ کے اتنے بڑے اسکینڈل پر تحقیقات کا آغاز کرتے جیسے نیب‘ ایف آئی اے‘ اور ایف بی آر‘ وہ صرف اس لیے اپنی نااہلی کا اظہار کرتے رہے کیونکہ وزیراعظم کے خاندان کے لوگوں کے نام اس میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقی دو سو کے قریب افراد جن کا نام پانامہ لیکس میں تھا ان پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔
حکومت کو اندازہ تھا کہ جیسے اس ملک میں باقی اسکینڈل دفن ہو جاتے ہیں‘ ویسے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دفن ہو جائے گا‘ لیکن عمران خان کی پاکستانی سیاست پر یہ مہربانی یاد رکھی جائے گی کہ اس نے پانامہ لیکس کے اس اسکینڈل کو دفن نہیں ہونے دیا۔ یہ اسکینڈل زندہ رہا اور اس نے 20 کروڑ عوام کو مضطرب‘ بے چین اور بے خواب رکھا۔ لوگ مسلسل سوچتے تھے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ کیا یہ اس وقت کھولا جائے گا جب حکومت ختم ہو گی اور پوری ن لیگ پکارے گی کہ یہ ایک سیاسی انتقام ہے لیکن نہیں‘ ایسا نہ ہو سکا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر لیا کہ انصاف کی حکمرانی اور بالادستی صرف اور صرف انھی کا فریضہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس کیس کو سنیں گے اور قوم کو بے یقینی کے عذاب سے نکالیں گے۔ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی دفعہ 184(3) کے مطابق جو اختیارات ہیں‘ ان کے تحت وہ عوامی اہمیت کے ہر معاملے میں کسی بھی قسم کا حکم جاری کر سکتی ہے اور آرٹیکل 190 کے تحت اس حکم کے نفاذ کی ذمے داری پاکستان میں موجود ہر انتظامی اور عدالتی فرد یا ادارے پر ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ طے کرے گا کہ پاکستان میں اگر پوری پارلیمنٹ بھی انصاف‘ عدل اور اخلاق کے خلاف متحد ہو جائے‘ سپریم کورٹ اکیلی اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کی بنیادی ذمے داری انصاف کی حکمرانی ہے قانون کی حکمرانی اس کے تابع ہے۔
نوٹ:میرے نام سے فیس بک پر بہت سے خیر خواہوں نے مختلف قسم کے پیج بنا رکھے ہیں جو میرے نام سے منسوب ہیں‘ لیکن ایک پیچ Orya Maqbool Jan Official ایسا پیج ہے جس سے لوگ اکثر یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ یہ میرا اصل پیج ہے۔ میرا اس پیج سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس پر شایع شدہ مواد کا ذمے دار ہوں۔ میرے ذاتی فیس بک پیج کا ایڈریس یہ ہےhttps://m.facebook.com./oryamj/۔
-
بادشاہ ننگا ہے – داؤد ظفر ندیم
یہ کہانی نہ صرف حکایات کے مجموعے میں شامل ہے بلکہ دنیا کے اکثر علاقوں میں لوک کہانی کے طور پر موجود ہے۔ مگر کمال ہے کہ ہر زمانے میں ایک نئے انداز میں اس کہانی کو سمجھا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک علاقے پر بڑا زبردست بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کو نئے نئے تجربوں اور کاموں کا شوق تھا۔ اس دور میں ہمسایہ ممالک سے تجارتی قافلے اور سوداگر لوگ آتے تھے۔ ہنر مند آتے تھے۔ اسی دور میں ایک ہمسایہ ملک کے بادشاہ کے دربار سے کچھ لوگ آئے، انھوں نے بادشاہ کو بتلایا کہ وہ کپڑے بنانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں، بادشاہ نے ان سے کہا کہ میں ایک ایسا لباس چاہتا ہوں جو کبھی کسی نے نہ پہنا ہو، انھوں نے کہا کہ ہم ایسا لباس تیار کر دیں گے جو اس سے پہلے کسی نے نہ پہنا ہو۔ چنانچہ بڑے زور و شور سے اس لباس کی تیاری کی گئی۔ اس دور کے مؤرخوں نے متفقہ طور پر حیرت انگیز طریقے سے اس لباس کی تعریف لکھی ہے۔ ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ بہت سے بادشاہوں نے طرح طرح کے خوبصورت دھاگوں سے لباس تیار کروایا مگر یہ اعزاز اسی عظیم بادشاہ کے حصے آیا کہ اس نے غیر مرئی دھاگوں سے اپنے لباس کو تیار کیا۔ ایک دوسرا مورخ لکھتا ہے کہ دوسرے کپڑے انسان کے اپنی قدرتی خوبصورتی کو چھپا دیتے ہیں مگر اس لباس کی خاصیت یہ تھی کہ یہ بادشاہ کی اپنی خوبصورتی کو نہیں چھپاتا تھا۔ ایک تیسرا مؤرخ لکھتا ہے کہ اس لباس کا خاصا یہ تھا کہ اس کے کمال کاریگری کو دیکھنے کے لیے انسان کو ایک خاص طرح کا زاویہ نظر چاہیے تھا جوکہ ہر انسان کو میسر نہیں تھا۔
جب بادشاہ یہ بے مثل لباس پہن کر نکلا تو ہر درباری نے کمال انداز میں اس کے لباس کی تعریف کی۔ رعایا کے معتبر لوگوں کو دارالحکومت میں قطار در قطار کھڑا کیا گیا۔ درباریوں نے ان کو بتلایا کہ بادشاہ ایک خاص لباس زیب تن کرکے آرہے ہیں آپ کا فرض ہے کہ آپ اس لباس کی شان میں کچھ نہ کچھ کہیں۔ انھوں نے بتلایا کہ یہ ہمسایہ ملک سے خاص کاریگر آئے ہیں، یہ دو سلطنتوں کی دوستی کا مسئلہ ہے، آپ اس لباس کی تعریف کریں۔ کچھ درباریوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں ترقی اور خوشحالی کے لیے موجودہ بادشاہ کا وجود بہت ضروری ہے اس لیے کوئی غیر ذمہ دار بات زبان سے نہ نکالیں۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ جب بادشاہ عوام کے درمیان آیا تو اس کا لباس دیکھ کر عوام کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کئی لوگوں کی زبان سے کچح لفظ نہ نکل سکا۔ لباس کی خوبصورتی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے ہوش ہی گم ہو چکے تھے، وہ حواس باختہ ہو کر دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں کچھ باکمال اور باہوش لوگ ایسے تھے جنہوں نے بادشاہ کے لباس کی شان اور عظمت بیان کرنے میں سبقت حاصل کی، ایسے میں بادشاہ کی نظر ایک دور کھڑے بچے پر پڑی جو بڑی حیرت سے بادشاہ کو دیکھ رہا تھا۔ بادشاہ کو بچے کے دیکھنے کا انداز بہت پسند آیا۔ اس نے اپنے ایک مصاحب کو حکم دیا کہ اس بچے کو بادشاہ کے سامنے لایا جائے۔ بہت سے درباریوں نے بادشاہ کو روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ بچے نادان ہوتے ہیں، وہ شاہی پروٹوکول سے ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے اس بچے کو نہ بلایا جائے مگر بادشاہ نے بچے کو بلایا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس بچے نے اپنی نادانی، کم عمری، ناتجربہ کاری اور کم علمی کے باعث ایسی کم عقلی کی بات کی جو اس کی ناپختگی کو ظاہر کرتی تھیں مگر اس سے بادشاہ کو سخت شرمندگی ہوئی اور اس نے محل واپسی کا فیصلہ کیا۔ مؤرخ بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ بعض اوقات نادان اور کم علم لوگ کسی عالی مرتبہ بادشاہ کی رنجش کا باعث بنتے ہیں۔
مگر لوک کہانی لکھنے والے درباری مؤرخوں کی طرح مصلحت کے پابند نہیں ہوتے، وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ کا ننگا پن کتنے ہی طریقوں سے کیوں نہ چھپایا جائے، کوئی نہ کوئی بندہ ایسا سامنے آجاتا ہے جو مصلحت اور شاہی آداب کے تقاضوں کو نہیں جانتا ہوتا اور بتلا دیتا ہے کہ بادشاہ ننگا ہے۔ اس کے بعد بادشاہ کتنے ہی پردوں اور غلافوں کو اپنے اوپر کیوں نہ چڑھا لے، رعایا کو علم ہو جاتا ہے کہ ہمارا بادشاہ ننگا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اب بادشاہت کا دور ختم ہوچکا۔ میڈیا میں ایسے ایسے دانشور ہیں جو حکمرانوں کو ناگریز ثابت کرتے ہیں اور اس نے جو اپنے اوپر غلاف چڑھائے ہوتے ہیں، ان کے بارے مباحثے اور مذاکرے کرتے ہیں، مگر پھربھی کسی نہ کسی طرف سے یہ خبر لیک ہوجاتی ہے کہ بادشاہ ننگا ہے اور جب ایک دفعہ یہ خبر لیک ہوجائے تو پھر جو بھی جتن کرلیا جائے، عوام سے یہ چھپایا نہیں جا سکتا کہ بادشاہ ننگا ہے۔
-
حکمرانی کی جبلت اور سپاہی کا تھپڑ! مجاہد حسین خٹک
قدرت نے انسانوں میں حکمرانی کی طاقتور جبلت پیدا کی اور پھر آزمائش کے طور پر سب کو ایک محدود دائرے میں، جزوی حکمرانی بھی عطا کر دی۔ انسان تمام عمر اختیار کے اس دائرے کو وسیع کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتا ہے۔ اس وسعت کے لیے اسے قوت کی کسی نہ کسی شکل کی ضرورت ہوتی ہے۔ دولت، شہرت، اختیار، جسمانی قوت اور حسن، یہ تمام قوت کی گوناگوں صورتیں ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی چھوٹی سی سلطنت وسیع کرتے رہتے ہیں۔ جسقدر ہماری دولت بڑھے گی اسی حساب سے ہمارے اختیار کی دنیا وسیع ہو گی۔ ایک سب انسپکٹر جب انسپکٹر بنتا ہے تو اس کی مملکت کی سرحدیں مزید پھیل جاتی ہیں۔ ایک ماڈل جب ٹی وی اور فلموں میں کام شروع کرتا ہے تو اس کی شہرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہماری اس سلطنت کی رعیت وہ لوگ ہیں جن پر ہمارا بس چلتا ہے۔ سب سے زیادہ بے بس انسان وہ ہے جو ہم پر جذباتی انحصار رکھتا ہے۔ یہ غللامی کی ایسی زنجیر ہے جو اگرچہ نظر نہیں آتی لیکن اس سے رہائی ناممکن ہوتی ہے۔
چھوٹے بچے اوربوڑھے لاچار والدین بھی ہماری مملکت کے باشندے ہیں کیونکہ یہ مکمل طور پر ہم پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ان سے ہمارا سلوک ایک ظالم یا لاپرواہ ڈکٹیٹر جیسا ہے تو پھرایک فرعون میں اور ہم میں فرق صرف مملکت کی وسعت اور تنگی کا رہ جاتا ہے۔
ہم قوت کی ایک قسم، یعنی دولت پر زکواۃ بھی دیتے ہیں، ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اور صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں۔ لیکن باقی اقسام کے معاملے میں ہمارے دل پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ جسمانی طور پر طاقتور انسان کی زکواۃ یہی ہے کہ وہ بےبس اور کمزور لوگوں کا دفاع کرے، ان کا بوجھ اٹھائے۔ کلرک سے لے کر کمشنر تک، مختلف محکموں کے اہلکار بھی روزانہ اپنا دربار سجاتے ہیں۔ ان کی رعایا شکلیں بدل بدل کرداد رسی کے لئے حاضری دیتی ہے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں جن کے مسائل اگر روٹین سے ہٹ کر حل کئے جائیں تو یہ اختیارات کی زکواۃ ہو گی۔
ہم سب دن میں کتنے ہی کردار بدلتے ہیں۔ ایک لمحہ ہم اپنی سلطنت کے بادشاہ ہوتے ہیں تو دوسرے لمحے کسی اور کی رعایا بن جاتے ہیں۔ نادرا کے دفتر کے باہر موجود باوردی سپاہی کے لیے قطار میں کھڑی عورتیں رعایا ہیں۔ وہ حسن سلوک کے ذریعے ایک عادل حکمران بھی بن سکتا ہے یا پھر اپنے اختیار کے نشے میں ایک آمر جیسا رویہ بھی اختیار کر سکتا ہے۔
جب ٹی وی کی اینکر وہاں وارد ہوتی ہے تو سپاہی کی حیثیت ایک رعیت کی سی ہو جاتی ہے۔ یہ خاتون صحافی جو اپنے دفتر میں ایک رعایا کی حیثیت رکھتی تھی، جب نادرا کے دفتر پہنچتی ہے تو اپنے لامحدود اختیارات کا احساس اسے اس مختصر سی دھرتی کا مالک بنا دیتا ہے۔ اسی طرح وہ سپاہی جو وہاں ایک جابر حکمران بنا بیٹھا تھا، ایک لمحے میں ہی اپنی حیثیت کھو بیٹھا۔ یہ کایا پلٹ اس کی انا کو ٹھیس پہنچاتی ہے مگر وہ بے بسی سے اسے برداشت کرتا ہے۔ اسی دوران اینکر اپنے اختیار کی تلوار کو بے مہابا استعمال کرتی جاتی ہے اور آخر کار ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ رعایا کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ ایک تھپڑ کی شکل میں بغاوت پر اتر آتی ہے۔ یہ اس سارے قصے کی حقیقت ہے۔
ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ آخرت میں ہم سے صرف دولت کا حساب نہیں لیا جائے گا، بلکہ اختیار کی جو بھی صورت ہمیں عطا کی گئی ہے، اس کے لیے بھی ہم مکمل جوابدہ ہوں گے۔ یہ احساس اگر قلوب میں مستحکم ہو جائے تو اردگرد پھیلے دکھ اور المیے کسقدر آسانی سے ختم ہو جائیں۔
-
ہمارے غیر سیاسی حکمران – پروفیسر رشید احمد انگوی
کیا آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ آج ملک کی حکمرانی غیرسیاسی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ مگر یہ سچ ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ووٹروں یعنی عوام کو ایک منظم اورمسلسل سرکاری پالیسی کے تحت جاہل وبے خبر رکھنے کے ساتھ ساتھ مخصوص عصبیتوں کا شکار رکھا گیا ہے۔دنیا بھر میں سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے سے پہلے سالہاسال سیاسی جدوجہد کرنا پڑتی ہے ( جس طرح آج عمران خان کر رہا ہے) اوراس راہ میں کبھی جیلوں میں جانا پڑتا ہے کبھی کوئی اورسزائیں بھگتنا پڑتی ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی میدانِ سیاست میں انٹری ایسی کسی بھی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ نہیں بلکہ لوہے کی صنعت سے وابستہ ایک صاحب نے ضیاء الحق کے دور میں گورنر پنجاب جنرل جیلانی سے کسی سطح پر کوئی ڈیل کی اورمحض پیسے ٹکے کی بنیاد پر بچوں کو سیاست میں بھرتی کرادیا اورانہوں نے اپنی کاروباری مہارتوں کو کام میں لاکر لفافے وغیرہ ٹیکنالوجی استعمال کرکے سیاست کو بھی خاص الخاص کاروبار بنا لیا اور انجام برطانیہ کے فلیٹ اورپانامہ کے خزانوں کی صورت میں بچے بچے کی زبان پر ہے اورگلی گلی میں خاص قسم کا شور برپا ہے۔ یہ انجام ہے اس ڈیل اورکاروباری سٹائل میں سیاست کا۔
آج ملک عالمی تباہیوں ٗ سازشوں ٗ بربادیوں کی زد مین ہے مگر ادھر کوئی وزیر خارجہ تک نہیں ٗ اندرونی بیرونی مسائل کا حل سمدھیوں اورخواجگان جیسوں کے ہاتھوں میں محدود ہے۔ کیبنٹ اس کمال کی کہ اب کے وزرائے ذی وقار کی باہم بات چیت نہ ہونے کے قصے عام ہیں اورآخری حکومتی کارنامہ صرف یہی کہ وزیر ٗ مشیر ٗ وکیل پنامہ کی آفت میں مگن ہیں اورنوبت بایں جارسید کہ اخباری رپورٹر کا نام تک ای سی ایل میں ہے۔ماشاء اللہ کیا کمال کی حکمرانی جس پر جتنا بھی سردھن لیں کم ہے۔عدالت حکم جاری فرماتی ہے کہ خود ہی احکام جاری نہ کردیا کرو پہلے کیبنٹ کے سامنے رکھا کرو۔شان دار تاریخ یہ رقم ہوئی کہ حاکم اعظم بیرون ممالک میں کسی صوبائی وزیر اعلیٰ کو لے کر جانا چاہیں تو صرف وہی ایک ہستی مراد ہو۔پانامہ لیکس کے ردِّ عمل میں تو جو کچھ چھ ماہ سے ہورہا ہے اس کا تذکرہ بچے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا کریں گے۔پارلیمنٹ کی قدردانی کا یہ ہال ہے کہ سینیٹ کو قانونی طور پر ’’ڈھنگے‘‘بنانے پڑے کہ عالی مرتبت کو ایوان میں لایا کرے۔ کہاں صدیوں سے مسلمانانِ ہند کے خوابوں کی تعبیر کے لیے بنی مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ٗ اورکہاں حکمرانانِ عالی مقام کا سیاسی شعور واحساس ذمہ داری کا مقام۔راقم یونیورسٹیوں کے سیاسیات وتاریخ کے ماہرین سے درخواست گزار ہے کہ ’’میاں شریف وجنرل جیلانی ڈیل‘‘کی تفصیلات پاکستانی قوم کے سامنے لائی جائیں۔ آج جب خاندانِ شریفاں نے سیاست ونظم وطن کو تہس نہس کرڈالا ہے ۔’’زی اے این‘‘تگڑم نے کم وبیش تین عشروں میں سیاست کو اپنے مخصوص انگوں میں رنگ دیا ہے تو خدارا اب تو ریاست مالکوں کے سپرد کردی جائے ۔ امریکہ وبرطانیہ جیسے ممالک کے سربراہانِ وطن زیادہ سے زیادہ دوبارہ منتخب ہوسکتے ہیں اور پھر سیاست سے ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں مگر ادھر تین عشروں بعد بھی اپنی نسلوں کو مسلط کرنے کا جنون دماغوں پر سوار ہے۔
جمہوریت تبدیلی اورعدمِ موروثیت کا نام ہے ۔ امریکیوں نے نکسن جیسے پاپولر صدر کو واٹر گیٹ سے منسوب جرم میں صدارت سے ہٹا دیا مگر واٹر گیٹ سے ہزاروں گنا اہم پانامہ پیپرز یہاں کے حاکموں کا بال بیکا تک نہیں کررہے۔ لگتا ہے قوم بارش کے لیے دیا کی طرح اب ربِّ کائنات کے حضور آنسوئوں کی جھڑیاں لگا کر ’’یااحکم الحاکمین‘‘کاوردکرکے پانامہ جمہوریت کے احتتام کی التجائیں کرے۔تاریخ کا عجب نظارہ ہے ۔ بڑے بڑے جغادری سیاستدان باہم متحد ہوکر جسدِ واحد بن گئیں ہیں اورتن تنہا میاں والی کا جی داری غیور بیٹا’’فرزندِ پاکستان ٗ عمران خان ‘‘بیس کروڑ عوام کا مقدمہ لڑ رہا ہے ۔راقم نے خان کے کئی انٹرویوسنے ہیں اوردل کی گہرائیوں سے گواہی دیتا ہے کہ لمحہ موجود میں پاکستان کا واحد اللہ والا سیاست دان عمران خان ہے۔ اسے لفافہ بردار اینکر جب ستا ستا کر پوچھتے ہیں کہ آپ کو تو فلاں فلاں سیٹوں پر شکست ہوئی ٗ آپ کے ساتھ تو ملک کا کوئی سیاستدان نہیں ٗ تو یہ خان جواب میں بس اتنا ہی کہتا ہے کہ مجھے کسی کے ساتھ دینے نہ دینے کی پرواہ نہیں ٗ میں تواپنے اللہ کے حضور عرض کرسکوں گا کہ میں نے مقدور بھر کوشش کی اورکرپٹ حکمرانوں کے خلاف ڈٹا رہا ۔ یہی جذبہ اورجرأت وحمیت خان صاحب کو نوجوانوں کی آنکھوں کی تارابناتی ہے اوروہ سیاست دانوں کے اس جھرمٹ میں نمایاں شان کے ساتھ سرخرو دکھائی دیتا ہے ۔کوئی شک نہیں کہ آج ’’پاکستان کی آن ٗ پاکستان کی شان ٗ فرزندِ پاکستان ٗ عمران خان‘‘نعرے نہیں عظیم سچائی ہے۔قومی قیادتوں نے جو مایوس کن کردار ادا کی اورملک کے خزانے لوٹ کر بیرونِ ملک دولت کے انبار جمع کیے ہیں تو ان حالات کو سیاسی شاعروں نے اپنے انداز میں سپردِ قلم کیا ہے ۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پانامہ ہووے ٗ لندن ہوے ٗ تے چاہے سوئس
اتوں اتوں تِن تے وچوں سارے اک
سارے لٹیرے آپ وچ اک جان
اکو نعرہ سب دا لٹوتے پھٹو ٗ لٹو تے پھٹوایک اورنمونہ ملاحظہ ہو:
سوئس پارٹی ہووے کہ پنامہ والے ہوں
ہماری سیاست کے بڑے نمونے ہیں
نمونے سے بڑھ کر یہ تو عجوبے ہیں
اورقارون سے ملتے ان کے قاروبے ہیں
پناما سلسلے کا ایک اورشعر ملاحظہ ہو:
عمران خان ہووے ٗ شیدا ٹلی ہووے یا کوئی ہور
پنامہ تاں جیویں’’چھیڑ‘‘ بن گئی شریفاں دی
تاریخ کے پس منظر میں ایک سوال دیکھئے:
امریکیاں نے نکسن نوں کاہدے لئی ہٹایا سی
کیا واٹر گیٹ دا جرم پنامہ نالوں وڈا سی؛ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈروں کے ساتھ پیروں جیسی عقیدت شروع کردیتے ہیں ۔ جب کہ جمہوریت تقاضا یہ ہے کہ افراد اورپارٹیوں کو کام کا موقعہ دیا جائے اوران کی کارکردگی پر آئندہ کی نئی صف بندی کی جائے۔خاندانی وراثت کا جمہوری سیاست سے دور کا بھی کوئی تعلق اورواسطہ نہیں ہوتا۔
-
ڈالرگرل اور ڈالر بوائے – سیّد محمّد اشتیاق
پاکستانی قوم یوں تو آئے دن، دل دہلادینے والی ہولناک خبروں کے ساتھ بدعنوانیوں کے قصّے بھی سنتی رہتی ہے لیکن چند گھنٹوں یا دنوں بعد سب بھلا بیٹھتی ہے، اب اس کو قساوت قلبی کہیں یا کچھ اور، بہرحال ز ندہ قوموں کی یہ نشانیاں نہیں ہوتی ہیں۔
چند ماہ قبل کرنسی اسمگلنگ کا ایک کیس پکڑا گیا، جس نے کافی شہرت پائی اور جو خاتون یہ کام سر انجام دے رہی تھیں،ان کو ان کی سابقہ وجہ شہرت کی وجہ سے عوام میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی، ان کو ڈالرگرل کے خطاب سے بھی نوازا گیا، وکلاء کی قانونی موشگافیوں کے بعد ان کی رہائی تو عمل میں آگئی لیکن تفتیشی افسر کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے، رہائی کے بعد ان کو ایک سرکاری یونیورسٹی میں بھی مدعو کیا گیا، گو کہ جس طالب علم نے ان کو یہ عزت بخشی تھی، یونیورسٹی سے اخراج کا سامنا کرنا پڑگیا، اب بھی وقتا فوقتا، پیشیوں کے وقت قابل ذکر تذکرہ اخباروں میں اور TV پر ڈالر گرل کو مل جاتا ہے۔
ہم قوم سے یہی گزارش کرسکتے ہیں کہ ڈالر گرل کے ساتھ ذرا ہر زمانے کے ڈالر بوائے کو بھی یاد رکھیں، جن کی وجہ سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک، ہر دور حکومت میں ایک ڈالر بوائے موجود رہا، جو حکمرانوں کی کرپشن کو جاری و ساری رکھنے کے لیے، غیر ملکی اداروں سے ڈالروں میں قرضے لیتا رہا، جس کی وجہ سے قوم کا ہر بچہ پیدائش سے لے کر موت تک مقروض رہتا ہے۔گزشتہ 8 سالہ جمہوری دور میں جتنا قرضہ لیا گیا ہے، وہ1947ء سے لے کر2007ء کے مجموعی قرضے سے زیادہ ہے. اسی طرح سابقہ حکومت کے 5 سالہ دور میں جتنا قرضہ لیاگیا، اس سے زیادہ قرضہ موجودہ حکومت کے 3 سالہ دور میں لے لیا گیا ہے، یعنی قرضوں کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں لیکن عوام کی حالت میں کوئی بہتری رونما نہیں ہو رہی ہے. گیس، بجلی اور اشیائے صرف کی قیمتیں گزشتہ 8 سالہ عوامی دور میں، عوام کے لیے دگنی سے بھی زیادہ کردی گئی ہیں، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے پاکستانیوں کی اکثریت محروم ہے، مریضوں کے لیے سرکاری اسپتال میں بستر اور دوائیاں دستیاب نہیں ہیں، عوام کی اکثریت نجی اسپتال میں علاج کرانے سے قاصر ہے لیکن حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کو عوام کے ٹیکس کے پیسے سے بیرون ملک علاج کرانے کی سہولت حاصل ہے، پینے کا صاف پانی جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اکثریت اس سے محروم ہے.
حکمران اورنج لائن ٹرین کی شکل میں اہلیان لاہور کو 214 ارب کا تحفہ دینے پر مصر ہیں اور دوسری طرف پورے پنجاب کے لیے صحت کی مد میں موجودہ صوبائی بجٹ میں200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس سے حکمرانوں کی ترجیحات کاا ندازہ ہوجاتا ہے۔ انتخابات کے وقت کیا گیا، لوڈشیڈنگ کے خاتمے، کڑے احتساب، مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ ہو یا ہر منصوبے میں شفافیت کا، کوئی بھی اب تک پورا نہیں کیا گیا ہے، عوام کے ٹیکس کے پیسے سے عیاشی کرنے کے باوجود بھی حکمرانوں کا دل نہیں بھرتا، ملکی ترقی یا عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں اپنا مالی حصہ رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ 8 سالہ دور میں بھی ماضی کی طرح حکمرانوں کی بدعنوانیوں کے بےشمار قصے منظر عام پر آئے، جس میں نندی پور اور پانامہ لیکس سر فہرست ہیں۔ ان میں سے کچھ عدالتوں کی بھی زینت بنے لیکن ملزمان کمال ہوشیاری سے عدالتوں سے قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر عوام کے سینے پر مونگ دلنے کو پہلے کی تیار ہیں۔ زراعت کا شعبہ، جس پر معیشیت کا دارومدار ہے، حکومت کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے اس سال پیداوار اور کھپت کے لحاظ سے،گزشتہ 15 سالوں میں سب سے نچلی سطح پر رہا، تجارت میں توازن کے اعداد و شمار بھی کوئی حوصلہ بخش نہیں ہیں۔
قومی ادارے بھی زبوں حالی کا شکار ہیں، کچھ تو عملا بند پڑے ہیں، جیسے ملک کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ اسٹیل مل! مردم شماری 1998ء بعد سے اب تک نہیں ہوئی ہے، گزشتہ 2 سال سے صوبوں کو این ایف سیNFC ایوارڈ سے رقم کا اجراء نہیں ہوسکا ہے۔ کراچی حیدرآباد سڑک کی تعمیر جاری ہے، جس میں تاخیر کی وجہ سے حادثات کا رونما ہونا معمول بن گیاہے۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا کی سڑک ہو یا قائدآباد سے اسٹیل مل تک نیشنل ہائی وے کی تعمیر کا معاملہ ہو، حکام خواب غفلت میں ہیں۔ کراچی جو منی پاکستان بھی کہلاتا ہے، پاکستان کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، کورنگی انڈسٹریل ایریا اور قائدآباد سے اسٹیل مل تک بےشمار صنعتیں اور کارخانے قائم ہیں، لاکھوں لوگوں کا روزگار ان صنعتوں اور کارخانوں سے وابستہ ہے، جو سڑکوں کی اس ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔ ان تمام حالات میں، اب یہ سوچنا عوام کا کام ہے کہ حکمران ہم کو دھوکہ دے رہے ہیں یا ہم بخوشی خود یہ دھوکہ کھا رہے ہیں۔ آخر یہ ا ربوں ڈالر، جو ڈالر بوائز ہمارے نام پر لیتے ہیں، کہاں جارہے ہیں؟ کیونکہ عوام کی اکثریت تو اب تک پسماندگی کا شکار ہے۔ جس دن عوام میں یہ شعور بیدار ہوگیا کہ ہم ذات، برادری، نسل اور زبان سے بالا تر ہوکر، ووٹ کے ذریعے سیاستدانوں کا احتساب کر سکتے ہیں، وہ دن ڈالر بوائز کا پاکستان میں آخری دن ہوگا۔
-
قصور وار کون ہے؟ قدسیہ مدثر
جس معاشرے میں غربت ایک گالی بن گئی ہو، غریب فاقوں کے سبب خود کشی کر لے ، غربت کا مارا بچہ والد کے انتقال کے بعد خاندان کا واحد کفیل بن کر دیہاڑی کے چند روپے کمائے تا کہ بیمار ماں کا علاج کروا سکے مگر دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے سبب وہ علاج نہ کروا سکے اور بےبسی کی تصویر بنے ماں کو قبر میں اتار دے تو اس کا قصور وار کون ہے؟
تھر میں خوراک اور علاج کی ناقص سہولیات کی وجہ سے موت کی آغوش میں جانے والے بچوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہو۔ سرکاری ہسپتال چوہوں کی آماجگاہ بن چکے ہوں اور آئے روز بچوں کے ہاتھ ناک کاٹ رہے ہوں۔ سرکاری ہسپتال میں معذور بچی کی بھی عزت محفوظ نہ ہو اور حکومت ان سب پر عملا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہو تو سمجھاؤ، کس کا گریبان پکڑیں، قصور وار کون ہے؟
فیصل آباد الائیڈ ہسپتال میں خراب مشینری کے سبب ٩ ماہ میں ٢ہزار ٩٨ بچے جاں بحق ہو جائیں، بہاولنگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتال میں ١٢٢ بچوں کی ہلاکت سامنے آئے، لاہور میں صحت،تعلیم، نکاسی آب کی ٧٨٨ اسکیمیں فنڈز کی منتظر ہوں اور لاہور کے کسی سرکاری ہسپتال میں کالے یرکان اور بون سکین ٹیسٹ کی سہولت میسر نہ ہو، اور عوام بےبسی اور لاچاری سے حکمرانوں کی طرف سوالیہ نشان بنے دیکھ رہے ہوں تو بتائیں قصور وار کون ہے؟
ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری کے سبب ایک دیہاڑی دار مزدور مجبور باپ جب خالی ہاتھ گھر لوٹے اور بچوں کی منتظر نگاہیں باپ کے ہاتھوں میں پھل اور گوشت تو دور کی بات سوکھی روٹی نہ دیکھ پائیں، بھوک سے بلک اور ترس رہے ہوں تو سمجھائیں کہ قصور کس کا ہے؟
ملک کے سنگین معاشی اعداد و شمار کے بعد جب یہ خبر پڑھنے کو ملے کہ ملک کے وزیراعظم نے خاندان سمیت غریب عوام کا پیسہ بیرونی ممالک کے اکاؤنٹس میں جمع کروا رکھا ہے، بےنام ناموں سے بزنس کمپنیاں قائم ہو چکی ہیں اور بچے چند سالوں میں اربوں کے مالک بن گئے ہیں جبکہ دوسری طرف غریب عوام 3 سالوں میں مزید 500 ارب قرضوں میں پھنس چکے ہوں، اور پھر بھی وہ کرسی پر قوم کا مقدر بن کر بیٹھے رہیں تو بتائیے کہ قصوروار کون ہے؟
قوم کو تعلیم اور علاج سے محروم رکھ کر، اسے میٹرو کی لال بتی کے پیچھے لگانے والے حکمران خود معدے جیسی معمولی بیماری کے علاج کے لیے بھی بیرون ملک فرار ہو جاتے ہوں، تو اس جمہوریت نما بادشاہت کا ذمہ دار کون ہے، یہ بادشاہت کس کے کندھوں پر قائم ہے، قصورا کون ہے؟
کیا یہ المیہ نہیں کہ حکمرانوں کے اثاثہ جات پانامہ لیکس میں عیاں ہو رہے ہیں، دنیا کے بہت سے ممالک میں ان کی جائیدادیں ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، خاندانوں کے خاندان اور وزیروں کے وزیر کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں، جن کے لیے اپنے ملک کی قدر چند میٹرو بسوں اور سڑکوں کے سوا کچھ نہیں۔ ذرا غور تو کرنا چاہیے نا کہ یہ سب کس کی بدولت ممکن ہو رہا ہے اور کون قصور وار ہے؟
سچی بات یہ ہے کا قصوروار کوئی اور نہیں یہی مجبور، بےبس، تعلیم و علاج اور سہولیات سے محروم عوام ہے جو بار بار ان کو لا بٹھاتی ہے اور یہ عد میں اسی کرسی اقتدار تک لانے والی عوام کا خون چوستے ہین۔ اب تو سب کچھ بےنقاب ہو چکا ہے، چہروں سے ماسک ہٹ چکا ہے، اب بھی اگر میرے وطن کی عوام مسیحا کی تلاش میں پھر انھی حکمرانوں کو مسیحا سمجھے تو میں کس کو قصوروار سمجھوں، کس کا گر یبان پکڑوں اور کس سے اپنے ملک کی شکستہ خالی کا رونا روؤں؟
-
آپ ہمیں روٹی پھینک کر کیوں دیتے ہیں – صائمہ بتول
ڈوبتا سورج اس کے جھریوں زدہ چہرے پر چند لکیروں کا اضافہ کر ر ہا تھا۔ جونہی اس کی نظر کسی بچے کے زرد چہرے پر پڑتی اس کی مامتا گویا چھلنی ہو جاتی اور گھر کے در و دیوار کی خستہ حالی کی کہانی بچوں کی چیخوں کی زد میں آ کر دب جاتی۔ لیکن وہ جس دور میں زندہ تھی اس دور کو انسانیت کی رہنمائی کرنا تھی، قیامت تک رہنمائی۔ اسے ہمت دکھانی تھی۔ اپنے شکستہ وجود کو سمیٹ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کئی دن کے سرد چولہے میں چند لکڑیاں جھونک کر آگ جلائی تاکہ چولہے سے اٹھتا دھواں بچوں کی بھوک کو تسلی دے۔ لکڑیاں چنتے ہوئے وہ بچوں کی نظروں سے بچا کر کچھ پتھر بھی اٹھا لائی تھی۔ وہ پتھر مٹی کی ہنڈیا میں ڈال کر اس نے چولہے پر چڑھا دیے، تمام کرب و الم کو مسکراہٹ میں چھپا کر بولی، بچو! ابھی کھانا تیار ہو جائے گا اور تم سب پیٹ بھر کر کھانا کھا سکوگے۔ تین دن کے مسلسل فاقے کے بعدچولہے سے اٹھتا دھواں اور اس پر چڑھی ہنڈیا بچوں کے زرد چہرے پر مسکراہٹ لے آئی۔ بچوں کو مسکراتا دیکھ کر اس کی مامتا کو بھی سکون آ گیا لیکن اگلے ہی لمحے ہنڈیا میں پکنے والے پتھروں کا خیال اس کے قرار کو کرب میں بدلنے کو کافی تھا۔
کھانے کی امید نے بچوں میں ایک توانائی بھر دی تھی اور وہ خوشی میں کھیلنے لگے تھے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کھیل پائے تھے کہ آنتیں بھوک سے مڑنے لگیں اور بھاگ کر ماں کے پاس آ کر پوچھتے کہ کھانا کب پکے گا۔ آنکھوں کی نمی کو پلکوں سے پیچھے دھکیلتے ہوئے وہ مسکرا کے انھیں تسلی دیتی، بس تھوری دیر میرے بچے! لیکن کب تک دن ڈھلتے ڈھلتے آخر غروب ہو گیا۔ ہر طرف تاریکی چھا گئی۔ رات کے سناٹے میں بچوں کی سسکیوں کی آوازیں اس کے دل پر آرے کی طرح چلنے لگیں۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو بچوں پر ہی برس پڑی۔ بھوک کے ستائے بچے ماں کی ڈانٹ سن کر زور و شور سے رونے لگے یہاں تک کہ ان کے رونے کی آواز گھر سے باہر جانے لگی۔ یکایک گھر کا دروازہ زور سے بجا۔ وہ دروازے پر پہنچی تو اپنے سامنے ایک پر ہیبت اجنبی کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ ”رات کے اس پہر بچوں کو کیوں رلاتی ہو؟“، اجنبی کی بارعب آواز گونجی۔ اجنبی کے سوال میں رعب کے ساتھ کچھ ایسی شفقت تھی کہ جس ہمت کی دیوار کو وہ بچوں کے سامنے تھام کر کھڑی تھی، دھڑام سے گر گئی، کانپتے لہجے مین بولی، ”حاکم وقت کی جان کو روتے ہیں، تین دن سے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، ان کی تسلی کو ہنڈیا میں پتھر ڈال کر چولہے پر چڑھا رکھا ہے تاکہ پرامید ہو کر کم از کم سو ہی جائیں، لیکن آج تو نیند بھی ان کی آنکھوں سے روٹھ گئی ہے“۔ اس کے الفاظ نے اجنبی کے چہرے کی رنگت کو متغیر کر دیا۔ یہاں تک کہ اسے دروازے کا کواڑ پکڑ کے خود کو سہارا دینا پڑا۔ اگلے لمحے اجنبی پلٹا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا رات کی تاریکی میں غائب ہوگیا۔ اس نے پلٹ کر بچوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور آنسو بہت تواتر سے اس کے چہرے پر بہنے لگے۔
دروازہ دوبارہ بجا۔ وہی اجنبی کاندھے پر ایک بڑی بوری اُٹھائے دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ حیرت سے اجنبی کو دیکھنے لگی۔ اجنبی اندر آنے کی اجازت چاہ رہا تھا۔ اجنبی کی پر ہیبت اور شفیق شخصیت میں نہ جانے ایسا کیا اثر تھا کہ وہ بغیر کسی توقف کے اس کے سامنے سے ہٹ گئی۔ اجنبی نے جلدی سے بوری کو کھولا، اسے آٹا گوندھنے کی ہدایت دیتے ہوئے خود سامان خورد و نوش نکالنے لگا۔ وہ تیزی سے سامان نکالنے کے ساتھ ساتھ اسے کھانا پکانے کی ہدایت دیتا جا رہا تھا اور وہ کسی ہپناٹائز کیے ہوئے معمول کی طرح اس کی ہدایت پر عمل کرنے لگی تھی۔ سامان نکال کر وہ جلدی جلدی سبزی کاٹنے لگا۔ جس روانی سے اس کی چھری سبزی پر چل رہی تھی اسی روانی سے اس کی آنکھوں کا جھرنا آنسوؤں کی برسات کر رہا تھا۔ بچے حیرت کی تصویر بنے اس اجنبی کو دیکھ رہے تھے جو ایک طرف تو کسی ہمالہ کی طرح مظبوط اور سنگلاخ نظر آتا تھا، دوسری طرف اس کے آنسو اس کے دلی گداز کو ظاہر کر رہے تھے۔ جیسے ہی آگ ذرا ہلکی ہونے لگتی وہ اپنے لمبے وجود کو سمیٹ کر زمین کے ساتھ لگ کر چولہے میں پھونکیں مارنے لگتا مبادا کھانا پکنے میں لمحے بھر کی دیر ہو جائے۔ ساتھ ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگتا جس کو دیکھ کر بچے ہنسنے پر مجبور ہو جاتے۔ اب کھانا بس پکنے ہی والا تھا۔ اس کی تسلی ہوئی تو حاکم وقت کی شکایت کے دفتر کھول کر بیٹھ گئی، ”وہ حاکم ہے، اسے ہمارا کفیل بنایا گیا ہے تو پھر وہ ہمارے دکھوں سے ناواقف کیوں ہے؟“ اس کے سوالات اجنبی کے دماغ پر کوڑے کی طرح برس رہے تھے۔ یہاں تک کہ اجنبی کا پورا وجود ان ضربوں سے لرزنے لگا۔
لو جی! کھانا پک گیا! جب اس نے اعلان کیا تو بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ اجنبی کبھی پلیٹ میں کھانا ڈالتا، کبھی ایک بچے کے منہ میں نوالہ ڈالتا کبھی دوسرے کے۔ یہاں تک کہ بچے خوب سیر ہو گئے۔ ان کے زرد چہرے اب بہت پر سکون لگ رہے تھے۔ انھیں پر سکون دیکھ کر اجنبی بھی بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگی، ”تم اس قابل ہو کہ تمھیں ہمارا حاکم بنایا جائے“۔ اجنبی ہاتھ باندھ کر اٹھ کھڑا ہوا، اور التجا کرنے لگا کہ حاکم وقت کو معاف کر دو۔ لیکن وہ تنک کر بولی، ”نہیں، ہرگز نہیں، میں اس شخص کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ روز قیامت اس کا گریبان ہوگا اور میرا ہاتھ، میں اس سے اپنے بچوں کی بھوک، ایک ایک سسکی کا حساب مانگوں گی“، یہ سن کراجنبی کا رنگ متغیر تھا۔ لرزتے وجود سے بولا۔ جو سزا دینا چاہو اسی دنیا میں دے لو، خدا را میں حاضر ہوں، روز قیامت معاف کر دینا۔ اس کی زبان گنگ ہوگئی، اظہار تشکر میں اس کے آنسو زبان بن گئے۔
آج ایک فوٹیج نظروں سے گزری جس میں ایک آٹھ دس سالہ بچی وزیراعظم سے پوچھ رہی تھی
”آپ ہمیں روٹی پھینک کر کیوں دیتے ہیں.“
اور وزیر اعظم اس معصوم سوال پر لاجواب ہو کر رہ گئے تو حضرت عمر کے زمانے کا یہ واقعہ کسی فلم کی طرح میری نظروں میں چلنے لگا۔ جی ہاں! وہی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جن کے بارے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.