قدرت نے انسانوں میں حکمرانی کی طاقتور جبلت پیدا کی اور پھر آزمائش کے طور پر سب کو ایک محدود دائرے میں، جزوی حکمرانی بھی عطا کر دی۔ انسان تمام عمر اختیار کے اس دائرے کو وسیع کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتا ہے۔ اس وسعت کے لیے اسے قوت کی کسی نہ کسی شکل کی ضرورت ہوتی ہے۔ دولت، شہرت، اختیار، جسمانی قوت اور حسن، یہ تمام قوت کی گوناگوں صورتیں ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی چھوٹی سی سلطنت وسیع کرتے رہتے ہیں۔ جسقدر ہماری دولت بڑھے گی اسی حساب سے ہمارے اختیار کی دنیا وسیع ہو گی۔ ایک سب انسپکٹر جب انسپکٹر بنتا ہے تو اس کی مملکت کی سرحدیں مزید پھیل جاتی ہیں۔ ایک ماڈل جب ٹی وی اور فلموں میں کام شروع کرتا ہے تو اس کی شہرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہماری اس سلطنت کی رعیت وہ لوگ ہیں جن پر ہمارا بس چلتا ہے۔ سب سے زیادہ بے بس انسان وہ ہے جو ہم پر جذباتی انحصار رکھتا ہے۔ یہ غللامی کی ایسی زنجیر ہے جو اگرچہ نظر نہیں آتی لیکن اس سے رہائی ناممکن ہوتی ہے۔
چھوٹے بچے اوربوڑھے لاچار والدین بھی ہماری مملکت کے باشندے ہیں کیونکہ یہ مکمل طور پر ہم پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ان سے ہمارا سلوک ایک ظالم یا لاپرواہ ڈکٹیٹر جیسا ہے تو پھرایک فرعون میں اور ہم میں فرق صرف مملکت کی وسعت اور تنگی کا رہ جاتا ہے۔
ہم قوت کی ایک قسم، یعنی دولت پر زکواۃ بھی دیتے ہیں، ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اور صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں۔ لیکن باقی اقسام کے معاملے میں ہمارے دل پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ جسمانی طور پر طاقتور انسان کی زکواۃ یہی ہے کہ وہ بےبس اور کمزور لوگوں کا دفاع کرے، ان کا بوجھ اٹھائے۔ کلرک سے لے کر کمشنر تک، مختلف محکموں کے اہلکار بھی روزانہ اپنا دربار سجاتے ہیں۔ ان کی رعایا شکلیں بدل بدل کرداد رسی کے لئے حاضری دیتی ہے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں جن کے مسائل اگر روٹین سے ہٹ کر حل کئے جائیں تو یہ اختیارات کی زکواۃ ہو گی۔
ہم سب دن میں کتنے ہی کردار بدلتے ہیں۔ ایک لمحہ ہم اپنی سلطنت کے بادشاہ ہوتے ہیں تو دوسرے لمحے کسی اور کی رعایا بن جاتے ہیں۔ نادرا کے دفتر کے باہر موجود باوردی سپاہی کے لیے قطار میں کھڑی عورتیں رعایا ہیں۔ وہ حسن سلوک کے ذریعے ایک عادل حکمران بھی بن سکتا ہے یا پھر اپنے اختیار کے نشے میں ایک آمر جیسا رویہ بھی اختیار کر سکتا ہے۔
جب ٹی وی کی اینکر وہاں وارد ہوتی ہے تو سپاہی کی حیثیت ایک رعیت کی سی ہو جاتی ہے۔ یہ خاتون صحافی جو اپنے دفتر میں ایک رعایا کی حیثیت رکھتی تھی، جب نادرا کے دفتر پہنچتی ہے تو اپنے لامحدود اختیارات کا احساس اسے اس مختصر سی دھرتی کا مالک بنا دیتا ہے۔ اسی طرح وہ سپاہی جو وہاں ایک جابر حکمران بنا بیٹھا تھا، ایک لمحے میں ہی اپنی حیثیت کھو بیٹھا۔ یہ کایا پلٹ اس کی انا کو ٹھیس پہنچاتی ہے مگر وہ بے بسی سے اسے برداشت کرتا ہے۔ اسی دوران اینکر اپنے اختیار کی تلوار کو بے مہابا استعمال کرتی جاتی ہے اور آخر کار ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ رعایا کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ ایک تھپڑ کی شکل میں بغاوت پر اتر آتی ہے۔ یہ اس سارے قصے کی حقیقت ہے۔
ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ آخرت میں ہم سے صرف دولت کا حساب نہیں لیا جائے گا، بلکہ اختیار کی جو بھی صورت ہمیں عطا کی گئی ہے، اس کے لیے بھی ہم مکمل جوابدہ ہوں گے۔ یہ احساس اگر قلوب میں مستحکم ہو جائے تو اردگرد پھیلے دکھ اور المیے کسقدر آسانی سے ختم ہو جائیں۔
تبصرہ لکھیے