Tag: جوائنٹ فیملی سسٹم

  • جوائنٹ فیملی سسٹم اور ہمارے لکھاری – محمد عرفان ندیم

    جوائنٹ فیملی سسٹم اور ہمارے لکھاری – محمد عرفان ندیم

    عرفان ندیم آپ یہ مثالیں دیکھیں:
    کسی انسان کی جان لینا گناہ ہے لہذا سزائے موت بھی گناہ ہے،
    انسانی اعضاکو کاٹنا جرم ہے سرجن انسانی اعضا کاٹتا ہے لہذا وہ بھی مجرم ہے۔

    یہ ہے خلاصہ اس تحریرکا جو چند دن پہلے حیا حریم کے نام سے دلیل کے پلیٹ فارم پر شائع ہوئی ہے۔ محترمہ حیا حریم نے بڑی جسارت کرتے ہوئے ہمارے مروجہ خاندانی نظام کو ہندوانہ نظام سے تعبیر کیا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس دلائل و شواہد پیش کرتیں، انہوں نے قاری حنیف ڈار کی تحریر کا اقتباس پیش کرتے ہوئے اسے حوالے کے طور پر پیش کیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنا بڑا موقف پیش کرتے ہوئے اور اتنی بڑی جسارت کرتے ہوئے انہوں نے کوئی ٹھوس حوالہ کیوں پیش نہیں کیا، حوالے سے مراد ضروری نہیں تھا کہ اصول اربعہ سے ہی کوئی دلیل پیش کی جاتی بلکہ تاریخی حوالہ بھی پیش کر دیتیں توشاید ان کی تحریر کا کوئی مطلب سمجھ میں آ جاتا، فیا للعجب۔

    اس تحریر کو مختلف پہلوؤں کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے اس تحریر میں موجود منطقی مغالطوں کی نشان دہی کی ضرورت ہے کہ محترمہ نے کس طرح کمال مہارت یا کمال جہالت سے اپنے غلط موقف کو صحیح بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ محترمہ اپنا مقدمہ قائم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہمارے مروجہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑے بھائی کو سب کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے اور ایسا ہندومت میں ہوتا ہے لہذا ہمارا خاندانی سسٹم بھی ہندوانہ ہے اور ہمار ے ستر فیصد گھرانے اس سسٹم کی آگ میں جل رہے ہیں. سب سے پہلے میں محترمہ سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے ستر فیصد کا جو حوالہ دیا ہے آپ کی اس ریسرچ کا ماخذ کیا ہے؟ کیا آپ وہ ماخذ قارئین کے ساتھ شیئر کرنا پسند کریں گی؟ جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے تووہ اس سے بہت دور ہے۔ محترمہ نے ستر فیصد گھرانوں کو دلیل بنا کے پیش کیا ہے اور یہ دلیل سراسر غلط ہے، ایسی دلیل کو unrepresentative sample کہتے ہیں، اس دلیل میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ آپ پورے ملک سے اپنی مرضی کا مواد منتخب کریں اور اسے نمائندہ بنا کر پیش کر دیں. یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ شہر کے چند کاروباری افراد کا ڈیٹا جمع کر یں اور نتیجہ پیش کر دیں کہ اس شہر میں لوگوں کی آمدنی بہت زیادہ ہے۔ حیا حریم نے بھی یہی کیا ہے کہ اپنی مرضی کا مواد منتخب کر کے اور اپنے حلقے اور جاننے والے گھروں کو مد نظر رکھ کر اسے سب مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر پیش کر دیا کہ خاندانی نظام میں تو ہوتا ہی یہی ہے۔

    حیا حریم نے اپنی تحریر کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے کہ مجبوری صرف سڑک پر بھیک مانگنا نہیں ہوتی۔ اور اپنی اس بات کو خاندانی نظام کے خلاف بطور دلیل پیش کیا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ کو ئی دلیل نہیں اور اگر بالفرض ہم اس بات کو دلیل مان لیں تو ایسی دلیل کو appeal to emotion کہتے ہیں یعنی آپ مخاطب کو علمی وعقلی دلیل پیش کرنے کے بجائے اس کے جذبات سے اپیل کریں، یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک بچہ کہتا ہے کہ ابو میرے تمام دوست بریک ٹائم روزانہ چاکلیٹ کھاتے ہیں اور میں ان کا منہ دیکھتا رہتا ہوں لہذا مجھے بھی آپ چاکلیٹ دینے آیا کریں، مذکورہ دلیل میں جذبات سے اپیل کیا گیا ہے حالانکہ اس دلیل کا مقدمے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔

    حیا حریم نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا مروجہ خاندانی سسٹم اس لیے ٹھیک نہیں اور ہندوانہ ہے کہ اس میں وراثت ٹھیک طرح تقسیم نہیں ہوتی اور اس میں عدل وانصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا ، یہ دو الگ الگ باتیں ہیں جنہیں آپس میں گڈ مڈ کر دیا گیا ہے ، بات جوائنٹ فیملی کی ہو رہی تھی اور اصل مقدمہ یہ تھا کہ جوائنٹ فیملی سسٹم ٹھیک ہے یا نہیں ، ہندوانہ ہے یا اسلامی لیکن محترمہ نے اصل مقدمے کو تقسیم وراثت اور عدل وانصاف کی بحث میں الجھا دیا ہے ایسی دلیل کو red herring کہتے ہیں ، اس میں ہوتا یہ ہے کہ مخالف آپ کو اصل مقدمے کی بجائے غیر ضروری بحثوں میں الجھا دیتا ہے اور اصل مقدمہ پس منظر میں چلا جاتا ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے استاد کہے کہ کل میں نے آپ سے یہ سبق سننا ہے اور آگے سے اسٹوڈنٹ کہنا شروع کر دیں سر یہ سبق کیا ہوتا ہے اور سنا کیسے جاتا ہے ۔ مذکورہ دلیل میں حیا حریم نے اصل مقدمے کی بجائے بات کو غیر ضروری مباحث میں الجھا دیا ہے حالانکہ کسی کو اس بات سے انکار نہیں کہ تقسیم وراثت میں عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے۔

    محترمہ نے اس سے بھی بڑی جسارت یہ کی کہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے غلط مقدمہ قائم کیا اور پھر خود ہی اس سے نتیجہ اخذ کر لیا۔ کہتی ہیں جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑے بھائی کو سب کی خاطر قربانی دینی پڑتی ہے، بیوی کے نفقے اور اولاد کے پیسے فیملی پر خرچ کرنے پڑتے ہیں اور پھر اس مقدمے سے خود ہی نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہندوانہ ہے ایسی دلیل کو fallacy of irrelevance کہتے ہیں کہ آپ مقدمے کے ایسے قضیے اور دلائل پیش کریں جو نتیجے سے غیر متعلق ہوں اور انہیں زبردستی اس نتیجے کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ مخالف کو خاموش کروایا جاسکے۔ حیا حریم نے جو مقدمہ قائم کیا ہے وہ نتیجے سے ہی غیر متعلق ہے، مقدمہ تو یہ ہے کہ بڑے بھائی کو فیملی کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے اس سے کسی کو اختلا ف نہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے اخذ ہو گیا کہ یہ سسٹم ہندوانہ ہے ۔یہ دلیل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ تمہیں بھوک لگی ہے ، باہر سردی ہے لہذا کرکٹ کھیلنے چلتے ہیں ۔ یہ ہے اس ساری سوچ اوذہنیت کا خلاصہ جو محترمہ نے اپنی مختصر سی تحریر میں پیش کی ہے ۔

    منطقی مغالطوں کی نشاندہی کے بعد ہم اس تحریر کے دوسرے پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں کہ مروجہ خاندانی نظام اسلام کے اصول معاشرت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ۔ مذکورہ تحریر میں سارا زور اس بات پر صرف کیا گیا ہے کہ چونکہ بڑے بھائی کو فیملی کے لیے سب سے ذیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور ایسا ہندو گھرانوں میں ہوتا ہے لہذا جیسے تیسے بھی ہو اس سسٹم کو ہندوانہ قرار دیا جائے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے ، مہذب اور سلجھے ہوئے خاندانوں میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا جو محترمہ نے منظر کشی کی ہے ، بڑا بھائی عموما والد کے ساتھ مل کر گھر اور کارو بار کو سنبھالتا ہے پھر جیسے جیسے چھوٹے بھائی جوان ہوتے جاتے ہیں وہ والد اور بھائی کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں ، یہ ہے اصل تصویر جو اس وقت ہمارے معاشرے میںر ائج ہے ۔ رہی یہ بات کہ بڑے بھائی اور بھابی کو سب سے ذیادہ محنت کرنی پڑتی ہے تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر چھوٹے بھائیوں میں سے کوئی بڑا ہوتا تو اسے بھی یہ سب کرنا پڑتا ، اب یہ اللہ کی مرضی کہ اس نے بڑے بھائی کو پہلے دنیا میں بھیج دیا اور چھوٹے کو بعد میں ۔ دوسری بات یہ کے اگر بڑے بھائی کو دوسروں سے ذیادہ محنت کرنی پڑتی ہے تو اس کے عوض وہ بہت سارے فوائد بھی سمیٹ رہا ہوتا ہے ، مثلا بڑے بھائی کی اولاد جوائنٹ فیملی میں ہی پل کر جوان ہو جاتی ہے اور اسے الگ سے بچوں کے اخراجا ت برداشت نہیں کرنے پڑتے ۔ عموما بڑا بھائی کمانے کے لیے گھر سے دور جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی بیوی اور بچے جوائنٹ فیملی میں مطمئن اور محفوظ رہتے ہیں ، ذرا تصور کریں اگر بڑا بھائی ملک سے باہر ہو اور بیوی کو اکیلے گھر میں رہنا پڑے تو اس کے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں ؟ مزید برآں بڑے بھائی کو جو عزت و احترام ملتا ہے وہ چھوٹوں کے حصے میں کم ہی آتا ہے ،بڑے بھائی کی اولاد کو جو پیار محبت ملتا ہے وہ چھوٹوں کی اولاد کو نہیں ملتا۔ یہ وہ فوائد و ثمرات ہیں جو بڑے بھائی اور بھابھی کو جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے مل رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔

    محترمہ کے بقول ہندو معاشروں میں بڑا بیٹا قربانی کا بکرا بنتا ہے اور ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا ہے لہذا ہمارا خاندانی نظام ہندوانہ ہے ، میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا صرف مشابہت کی بنیاد پر کسی نظام پر اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا حکم لگایا جا سکتا ہے ؟ کیا کسی نظام کو غیر اسلامی ڈکلیئر کرنے کے لیئے ٹھوس دلائل اور شواہد درکا ر نہیں ہوتے ؟ کل کو اگر کوئی اٹھ کر کہتا ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا مسلم معاشروں میں استعمال کیاجاتا ہے اور یہ غیر مسلموں کی ایجاد ہے او ر ان معاشروں میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا مسلم معاشرے بھی غیر مسلم معاشرے ہیں تو ایسی صورتحال میں ہم کہاں جائیں گے اور یہ روش ہمیں کہاں لے جائے گی۔ ہر پیش آمدہ حکم اور ہر نئی روایت کی دلیل خلفائے راشدین کے طرز عمل اور ان کے معاشرے سے ڈھونڈنا کوئی عقل مندی نہیں کیونکہ سنت الہیہ یہ ہے کہ وہ احکام کے نزول میں ایک مجموعی ضابطہ حیات بیان کرکے جزئیات اور فروعیات کو انسانی عقلوں پر قیاس کر کے ان سے پہلو تہی کر لیتی ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام غیر مسلموں اور دشمنوں کے ساتھ تو حسن سلوک کا حکم دے لیکن ایک گھر کے اندر رہنے والے دو سگے بھائیوں کو اس حکم کا مخاطب نہ ٹھہرائے ، اسلام چالیس گھروں تک ہمسائیگی کے آداب تو سکھائے لیکن دو بھائیوں کو جوائنٹ فیملی میں رہنا نہ سکھائے ۔ نبی اکرم کی ساری زندگی حسن سلوک اور خوش اخلاقی کا بہترین نمونہ ہے لیکن اس کے باوجود محترمہ کو ایک گھر میں حسن سلوک کے ساتھ اکٹھے رہنے والے بھائی اچھے نہیں لگتے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ جیسے ہی شادی ہو بڑا بھائی اپنی گھر والی کو لے کر الگ ہو جائے باقی والدین جانیں اور ان کے بچے ۔محترمہ نے اگر دین اسلام کے حکامات ، ان کی تعبیر و تشریح اور مقاصد شریعت کوٹھیک طرح سمجھا ہوتا تو وہ کبھی بھی یہ بے تکی تحریر لکھنے کی جسارت نہ کرتیں ۔کاش یہ سطحی تحریر لکھنے سے پہلے محترمہ سوچ لیتی کہ معاشرتی اقدارو روایات بھی کوئی چیز ہوتی ہیں، ہمارے مشرقی معاشروں میں جوائنٹ فیملی سسٹم کو آج بھی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ وہ عورت جو شادی کے فورا بعد بھائیوں کو آپس میں لڑوا دے اور گھر سے الگ ہو جائے وہ آج بھی معاشرے میں مطعون ٹھہرتی ہے ۔ اس سسٹم میں موجود غلطیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کی بات تو کی جا سکتی تھی لیکن سرے سے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دے دینا بہت بڑی جسارت تھی۔

    آخر میں، میں سوشل میڈیا کے کردار کے حوالے سے بھی بات کرنا چاہوں گا، کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوشل میڈیا جن جرائم اور زیادتیوں کے خلاف میدان میں آیا تھا، آج وہ خود ان جرائم میں ملوث ہو چکا ہے۔ میں سوشل میڈیا کا ایک خاموش قاری ہوں اور چیزوں کو دیکھتا اور ان کا تجزیہ کرتا رہتا ہوں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوشل میڈیا بھی شہرت اور ریٹنگ کے چکر میں اپنے اصل میدان سے بہت دور نکل گیا ہے اور ریٹنگ کی بھوک میں ہر طرح کی اخلاقیات سے آزاد ہو گیا ہے۔ محض ریٹنگ بڑھانے کے لیے سنسنی خیزی پھیلائی جاتی ہے۔ آپ مذکورہ تحریر کو دیکھ لیں، محض سنسنی خیز عنوان کی وجہ سے اسے اتنی ریٹنگ ملی ورنہ آپ دل تھام کر بتائیے کہ موضوع کی مناسبت سے تحریر کے ساتھ انصاف کیا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی مکمل تحریر نہیں تھی بلکہ محض چند بکھری ہوئی باتیں تھی اور اس میں بھی آدھی تحریر قاری حنیف ڈار کی تھی جسے اقتباس کی صورت میں اصل تحریر کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ تحریر کی ابتدائی سطریں شعر کے انداز میں لکھی گئی تھیں جسے بعد میں نثر کے پیرائے میں ڈھال دیا گیا تھا۔ اتنے اہم اور نازک موضوع کو بلا کسی ٹھوس دلائل و شواہد کے پیش کر دینا اور صدیوں سے رائج ایک نظام کو بیک جنبش غیر اسلامی قرا ر دے دینا اور اس پر مستزاد کہ سینئر قلم کاروں کا اس تحریر کو شیئر کرنا یہ سب سوشل میڈیا کی ’’برکات‘‘ ہی تو ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا کے طفیل کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے اصحاب فکر و نظر کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لکھنے کے شوقین نئے لکھاری ہر اچھے برے موضوع پر طبع آزمائی کر رہے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کی ان سرگرمیوں سے اسلام، ملک اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کچے ذہن ، محدود مطالعے اور مشہور ہونے کے شوق نے نئے لکھا ریوں کوحقیقت سے بہت دور کر دیا ہے۔ اب بھی اگر ہم نے سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے کو ئی ضابطہ اخلاق وضع نہ کیا تو یہ روش ہمیں بہت دور لے جائے گی اور ہماری آنے والی نسلوں میں ایسے لکھاری اور دانشور پیدا ہوں گے جو صدیوں سے رائج اقدار و روایات کو بغیر کسی ٹھوس دلیل اور شواہد کے غیر اسلامی اور غیر مذہبی قرار دے دیں گے ۔

  • کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

    کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل کچھ روز قبل”دلیل“ پر خاندانی نظام کے غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے ایک تحریر سامنے آئی جس میں کوئی اسلامی دلیل موجود نہ تھی۔ اس تحریر کے استدلال کی کل بنیاد ”بڑے بھائی پر ہونے والے مظالم“ کا حوالہ تھی جس کا برادر عامر خوکوانی صاحب نے تفصیلا جواب دیا ہے۔ اس تحریر میں خاندانی نظام کو اس کے وسیع تر معاشرتی و سیاسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے اور جدید مارکیٹ سوسائٹی سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ مسئلے کے اس پہلو کو چونکہ عام طور پر نظر انداز کرکے خاندانی نظام پر گفتگو کی جاتی ہے، لہذا بات سمجھانے کے لیے کچھ طوالت اختیار کرنا پڑی ہے جس کے لیے معذرت۔

    آج دنیا میں جس پیمانے پر غربت، افلاس، عدم مساوات و استحصال پایا جاتا ہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس قدر بڑے پیمانے پر پائے جانے والی غربت، افلاس و عدم مساوات کوئی حادثہ نہیں بلکہ غالب سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم کا نتیجہ ہے۔ مگر جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے نظام کو جو انسانیت کی ایک عظیم اکثریت کو ظلم کی چکی میں پیس رہا ہے اس پر فدا ہوا چلا جارہا ہے اور اسے ہی اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے بیٹھا ہے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے، فی الوقت ذرائع کی تقسیم میں برصغیر کی طرز کے جوائنٹ فیملی سسٹم کی اہمیت واضح کرنا مقصود ہے۔

    تمام انسانی معاشرے انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اشیاء کی پیداوار اور انہیں تقسیم کرنے کی کسی نہ کسی ترتیب کو جاری رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اشیاء کی پیداوار کے عمل میں حصہ لینے کی صلاحیت ہر انسان میں بوجوہ مساوی نہیں ہوتی، اس صلاحیت میں تفاوات ایک فطری چیز ہے۔ لیکن پیداواری صلاحیت کے اس تفاوت کا عمل صرف (consumption) کے تفاوت کے ساتھ کیا تعلق ہے، کیا ایک فرد کا جائز حق صرف اسی حدتک ہے جس قدر اس نے پیداواری عمل میں حصہ لیا یا اس سے کچھ زیادہ، اور اگر زیادہ تو کس بنا پر؟ علم معاشیات میں یہ نہایت اہم سوالات ہیں جس پر Development Economists کی بہت سی آراء پائی جاتی ہیں۔ یہ سوال اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ پیدواری صلاحیتوں میں تفاوات پایا جاتا ہے بلکہ آبادی کا وہ حصہ جو براہ راست پیدوار ی عمل میں حصہ لیتا ہے (یعنی employed) وہ بالعموم غیر پیدواری آبادی (بچے، بوڑھے، گھریلو خواتین ، معذور وغیرھم) کے مقابلے میں کم ہوتا ہے (اور پختہ مارکیٹ سوسائٹی میں امیروں میں کم بچے پیدا کرنے اور اوسط آبادی کی عمر بڑھتے چلے جانے کے رجحانات کی بنا پر یہ شرح مزید کم ہوتی چلی جاتی ہے)۔ افراد کے مابین صرف کے تفاوت کو کم سے کم رکھنا قدیم سے لے کر جدید تمام انسانی معاشروں میں ایک جائز و مطلوب مقصد سمجھا جاتا رہا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انسان کسی نہ کسی روابط کی ترتیب کو اختیار کرتے رہے ہیں۔

    خاندان بطور ایک اکائی اس مسئلے کا ایک عمدہ تاریخی حل رہا ہے، وہ اس طرح کہ ایک خاندان (اگر وہ واقعی خاندان ہے) میں بالعموم افراد کے صرف کا حصہ یا تو مساوی ہوتا ہے اور اگر اس میں تفاوت ہو بھی تو کسی پر فاقوں کی نوبت نہیں آتی۔ اس کی جھلک ہم ہمارے یہاں شہروں کے بچھے کچھے خاندان کے تصور میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک گھر کے بچوں، کمانے والوں، خواتین، بوڑھوں، معذور افراد (اگر کچھ ہوں) وغیرھم سب کا معیار زندگی تقریبا مساوی ہوتا ہے، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ والد صاحب خود تو مرغ مسلم اڑاتے اور رات کو اے سی لگا کر سوتے ہوں مگر نہ کمانے والے افراد کو دال روٹی اور صحن میں بستر ملتا ہو۔ اگر کسی رشتے دار پر ناگہانی آفت (مثلا بیماری یا بے روزگاری) آجائے تو خاندان کے بھلے لوگ آج بھی اس کی ضروریات و علاج کا پورا بندوبست کرتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ خاندان تمام قسم کے افراد (یہاں تک کہ نکموں جن کی ذمہ داری سوشل سیکورٹی کے نام پر اب ریاست پر ڈال گئی ہے) کی معاشی ضروریات اور مسائل کو سمونے (انٹرنلائز) کرنے کا ایک نظام ہے۔ اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں یہ سب کچھ محبت، خلوص، صلہ رحمی و ایثار جیسے خوبصورت جذبات کے تحت کرنے کا نام ہے۔

    اب آتے ہیں جدید مارکیٹ سوسائٹی کی طرف۔ اس کے لیے مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے تعلق کو سمجھنا لازم ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تنویری معاشی مفکرین نے یہ فرض کیا کہ ایک فرد کا جائز حق صرف اسی قدر ہے جس قدر وہ کمپنی کے نفع میں اضافے کا باعث ہو (اس سب کے پیچھے ان مفکرین کا مخصوص تصور ”قدر“ ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں)۔ یورپی ممالک استعماری دور میں ایک طرف دنیا بھر سے لوٹ مار کر کے اپنے یہاں دولت کے انبار جمع کر رہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے ان مقبوضہ نوآبادیاتی علاقوں میں بالجبر مارکیٹ سوسائٹی اور سرمایہ دارانہ سٹیٹ سٹرکچر کو فروغ دیا (اور یہ عمل آج بھی جاری ہے)۔ مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے مابین لازمی تعلق ہے جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں:
    1) مارکیٹ نظم معاشرے کی روایتی اجتماعیتوں کو تحلیل کرکے معاشرتی زندگی کو فرد پر منتج (individualize) کر دیتا ہے، یوں عمل صرف انفرادی ہوجاتا ہے۔
    2) مارکیٹ نظم میں ایک فرد کا کل پیداوار میں حصہ اس بنیاد پر متعین ہوتا ہے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی) کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ مارکیٹ صرف مستعد (efficient) لیبر ہی کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
    3) نفع خوری پر مبنی مارکیٹ نظم کا پابند پیداواری نظام ذرائع کو انہی اشیاء کی پیداوار کیلئے استعمال کرتا ہے جن سے حصول نفع ممکن ہو، لہذا مارکیٹ نظم معاشرے کے اسی طبقے کی خواہشات و ترجیحات کی تسکین کا سامان پیدا کرتا ہے جو زیادہ قیمت ادا کرنے لائق ہوں (مثلا یہ نظام ہر سال امریکی و یورپی عوام کے کتوں اور بلوں یعنی پیٹس (pets) کیلئے اربوں ڈالرز کے کھلونے پیدا کرتا ہے مگر افریقہ اور ایشیا کے غریبوں کیلئے گندم نہیں)
    4) سرمایہ دارانہ ریاست چونکہ سرمائے کی باجگزار ریاست ہوتی ہے لہذا وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرتی ہے جس سے سرمایہ بڑی بڑی کارپوریشنز، صنعتوں اور شہروں میں مرتکز ہوتا چلا جائے (کیونکہ ارتکاز سرمایہ کے بغیر بڑھوتری سرمایہ ممکن نہیں)

    ان سب کے درج ذیل نتائج نکلتے ہیں:
    1) آبادی کی وہ اکثریت جو efficient نہ ہونے کی بنا پر مارکیٹ کا حصہ نہیں بن پاتی انکے روزگار کے مواقع ناپیدہوجاتے ہیں، مارکیٹ نظم اور سرمایہ دارانہ ریاست ذرائع کے عظیم ترین حصے کو بڑے شہروں میں منتقل کردیتی ہے (اور فرد کے ان کا حصہ بننے کی کوشش میں روایتی اجتماعیتیں تحلیل ہوجاتی ہیں)، یوں معاشی، معاشرتی و سیاسی ناہمواری کو فروغ ملتا ہے
    2) عمل صرف کے انفرادی ہونے نیز خاندان اور روایتی اجتماعیتوں کی حفاظت نہ ہونے کی بنا پر یہ عظیم اکثریت غربت و افلاس کا شکار ہوگئ۔ روایتی مذہبی معاشروں میں عمل صرف ہمیشہ اجتماعی (خاندان کے لیول پر مبنی) رہا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا عمل صرف کے لئے سب اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے۔ جدید معاشی مفکرین نے اس رویے کو غیر عقلی باور کرایا، اس کے مقابلے میں جدید معاشیات ایک فرد کو اپنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو بطور جائز و عقلی مقصد قبول کرنے کا درس دیتی ہے۔
    3) چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت ہوتا ہے لہذا سرمایہ دارانہ معاشروں میں تقسیم دولت میں بھی زبردست عدم مساوات پائی جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک خودکار نظام کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے (جو لوگ ایک سائیکل میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ efficient ہوتے ہیں دوسرے سائیکل میں ان دونوں کا فرق بڑھنا لازم بات ہے)
    4) ان معاشروں میں سیاسی و سماجی قوت بھی اسی طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہوجاتی ہے جسکے ذریعے یہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں کارپوریشنز اور بڑے کاروباری طبقے کے ہاتھ کروڑوں مزدوروں کے استحصال کی قوت آجاتی ہے جسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ریاست کے کاندھوں پر ڈالی جاتی ہے جو اسی طبقے کی باجگزار ہوتی ہے
    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی آبادی کا وہ عظیم ترین حصہ جو نان پراڈکٹو ہے وہ سب کہاں جائیں ؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کیلئے دو آپشنز کھولے ہیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے۔ یہاں انکا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ روابط کی کونسی تریب رحمت ہے۔

    چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ہے جن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام ”بے کار“ (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں ”پاگل“ افراد کہ اس کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن ”’کام نہ ہونے“ کی کیفیت کا نام ہے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندہوں پر اٹھائیں جسکی یہ بالعموم متحمل نہیں ہوپاتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کے لیے جس قدر ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ہوتے (ظاہرہے انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ہوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر قوم اکٹھی کرسکیں اور یہاں ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ہے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رہتا ہے۔ یہ اس نظام کا ایک دیرینہ تضاد ہے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ہے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency ) ہی کے نام پر۔

    سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کیلئے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ہے۔ جوں جوں مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم پختہ ہوتا چلا جاتا ہے، بے یارومددگار اور نادار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان مظالم کا مداوا کرنے کیلئے این جی اوز و خیراتی ادارے سامنے آنے لگتے ہیں جو اغراض کی اس معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریبا ہر غیر محفوظ طبقے کیلئے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ (جس کا کام اور شناخت ہی یہی ہوتی ہے) وجود میں آجاتا ہے،] مثلا اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ اور اسی طرح ‘حقوق کی جدوجہد’ (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق، میراثی و بھانڈ کے حقوق کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز) وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام ”فلاحی ادارے“ مل کر ایک طرف مارکیٹ نظم کا گند صاف کرکے اسے فرد کے لیے قابل قبول بناتے ہیں (کہ اسے یہ بدنما دکھائی نہ دے کہ چلو اگر ظلم ہو رہا ہے تو کوئی اس کا مداوا بھی کررہا ہے) تو دوسری طرف نظام سے حقوق مانگنے کی ذہنیت کو پختہ کرکے فرد کو نظام سے پرامید رھنے پر راضی کرتے ہیں۔

    دھیان رہے خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کے لیے ان اداروں کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ہے۔ مثلا بیمار ہونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اس کا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کے لیے اس کے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ہوتاہے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ہوا کرتا ہے)۔ مگر جب فرد اکیلا ہو (جیسا کہ مارکیٹ نظم میں اس کا حال ہوتا ہے) تو معاشرے کے کسی فرد کو اس کی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہذا ضرورت ہے کہ اس کے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں (اور جب ایک دفعہ ادارہ بن جاتا ہے تو لوگ اس ذمہ داری سے گلوخلاصی حاصل کرلیتے ہیں کہ ادارہ ہے نا، وہ یہ کام کردے گا)۔ بالکل اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کردیا گیا ہو جہاں ”پروفیشنل“ (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کر دیے گئے ہوں۔ خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، محبت اور صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رھتا اور دل لگی کرتا ہے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے (کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ہوتا ہے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ہے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مارکیٹ نظم ایک طرف معاشرے کو انفرادیت پر منتج کرکے اور دوسری طرف ذرائع کے ارتکاز کو بڑھا کر غربت، افلاس و ناداری کو فروغ دیتا ہے۔

    جدید دنیا میں دو ارب سے زیادہ سسکتے انسان کہیں آسمان سے نہیں ٹپکے اور نہ ہی درختوں پر اگے ہیں، یہ اس ‘ترقی یافتہ’ نظام کے مظالم کا شاخسانہ ہیں، وہ نظام جس پر ہمارا جدید مسلم ذہن فریفتہ ہوا چلا جارہا ہے، دین کو جس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کی فکر میں گھلا چلا جارہا ہے، جس کی چکا چوند کے آگے اسے اپنی تاریخ و طرز معاشرت ہیچ دکھائی دیتی ہے۔ خدا کا شکر کیجیے کہ ابھی ہمارے یہاں وسیع تر خاندان (extended family) کے باقیات ابھی کچھ نہ کچھ باقی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں نادار افراد اس نظام کےتحفظ میں ہیں، اگر یہ جلد ہی ختم ہوگیا تو یہ کروڑوں لوگ امیروں کو نوچ کھائیں گے کیونکہ ہماری ریاست میں فی الوقت انہیں سنبھالنے کی صلاحیت نہیں۔

    اب غور کیجیے! برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ”محبت و صلہ رحمی کے جذبات“ کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے، جبکہ مارکیٹ نظم ان کے لیے اغراض پر مبنی پروفیشنل اداروں کا محتاج ہے۔ کیا اغراض سے متحرک افراد سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ان نادار افراد کا ویسا دھیان رکھیں گے جیسا محبت و صلہ رحمی سے مغلوب لوگ رکھتے رہے ہوں گے؟ سوچیے کون سا معاشرتی نظم انسانیت کے لیے رحمت تھا؟ چنانچہ جہاں یہ جدید نظام پختہ ہوچکا وہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہمارے لوگ اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ماشاء اللہ جی کیا عمدہ بندوبست ہے وہاں، کیا انسانیت و اعلی اخلاقیات ہیں! یعنی جو مقام (انسانیت کا تعلق محبت و رحمی رشتوں سے کٹ کر پروفیشنل اداروں سے جڑ جانا) مقام افسوس تھا ہمارے یہاں کے مرعوب ذہن نے اسے مقام عجب سمجھ لیا ہے۔ ذرا سوچیے ایک ایسا دین جو پڑوسیوں، بیماروں، مردے کے حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ہو، اس کے ماننے والے آج اپنے یہاں بھی ایسے پروفیشنل اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مطمئن ہو رہے ہیں۔ گویا ان کے خیال میں سول سوسائٹی مقاصد دین کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ مقام عبرت ہے۔

  • جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنا کیوں ضروری ہے؟ فیصل اقبال

    جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنا کیوں ضروری ہے؟ فیصل اقبال

    فیصل اقبال کچھ اشکالات کا جائزہ لیتے ہیں ۔
    ”دیور موت ہے.“ (بخاری)
    لیکن اس حدیث کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ آپ نے تسیرے محلے میں جا کر الگ رہنا ہے؟
    حضور نبی کریم ﷺ نے تمام امہات المؤمنین کے لیے علیحدہ حجرے بنوائے تھے. درست، لیکن اس سے یہ تھوڑی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ایک کنال کا علیحدہ گھر لینا ہے، ورنہ ”پردہ“ متاثر ہوگا.
    ایک دو کمرے یا گھر کا ایک پورشن کافی نہیں ہے ویسے؟ ہاں کھانے کی الگ جگہ کا انتظام کرنا چاہیں تو کوئی مضائقہ نہیں.
    اور یہ جو علیحدہ حجروں سے آپ دلیل دیتے ہیں، ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ اتنے چھوٹے تھے کہ ایک فرد سو رہا ہے تو دوسرے کونماز کے لیے جگہ کم پڑ جاتی تھی.
    اصل بات جو بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ دیور کو نامحرم سمجھا جائے؛ ہنسی مذاق اور تنہائی سے پرہیز کیا جائے، جس طرح باقی نامحرموں سے ضرورت کی بات کی جاسکتی ہے، اسی طرح دیور سے بھی کی جاسکتی ضرورت کے وقت بات کی جائے.
    یعنی ہم نہ وہ ہندووانہ خاندانی رہائش کا نظام صحیح سمجھتے ہیں، جس میں دیور، جیٹھ اور دیگر نامحرم رشتہ داروں کی کوئی پہچان ہی نہیں، سب ”اپنے“ ہیں، اور نہ والدین اور دیگر رشتہ داروں کو الگ چھوڑ کر ویسٹرن طرز کی میاں بیوی کی بالکل الگ رہائش.

    گھر کیسا ہونا چاہیے یہ سیچویشن کیس ٹو کیس ویری کرے گی.
    آپ یہ دیکھیں کہ جس کو میسر ہی تین کمروں کا مکان ہے، اُسے آپ الگ گھر لے کر دینے کے لیے بلاوجہ فورس کر رہے ہیں. تین کمرے ہیں، ایک میں اس کا بھائی بھابھی رہ رہے ہیں، دوسرے میں ماں باپ ہیں، تیسرے میں وہ رہ لے تو مسئلہ کیا ہے؟
    اور ہاں امیر یوں کرسکتے ہیں کہ مثلاً ایک کنال جگہ ہے تو وہاں حسب ضرورت تین یا چار کونوں میں چار پانچ مرلے کے گھر بنا لیں. یا پھر ایک بڑا گھر جس میں ایک بیسمنٹ ہو،گراؤنڈ فلور اور فرسٹ فلور. سب بچوں کو ایک ایک پورشن دے دیا جائے.
    مسئلہ کیا؟
    آپ یہ بھی دیکھیں کہ رسول اللہﷺ نے جوگیارہ سال کے بچوں کا بستر الگ کرنے کا کہا ہے تو اس کا یہ مطلب بنتا ہے کہ ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ کمرہ دیا جائے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ بستر علیحدہ ہو، کمرہ علیحدہ ضروری نہیں۔
    اس بات کو سمجھیں
    کہ ماں باپ کی دیکھ بھال بھی کرنی ہے شوہر نے.
    ایک مثال سے بات سمجھیں!
    رات کو ایک فرد جلدی سو جاتا ہے لیکن صبح کی نماز روزانہ مس کردیتا ہے، دوسری طرف ایک بندہ ساڑھے تین بجے سوتا ہے لیکن اس کے باوجود فجر کی نماز جماعت سے ادا کرتا ہے تو کس کا عمل بہتر ہوا؟
    اس طرح آپ الگ گھر میں رہتے ہیں لیکن محرم نا محرم کی تقسیم کا خیال نہیں، باہر نکلتے وقت دوپٹہ کا التزام نہیں، کوئی مہمان آئے تو اس سے پردہ نہیں، اور دوسری طرف کوئی جوائنٹ سسٹم میں رہتے ہوئے بھی پردے کا انتظام کرتا ہے تو بتائیں کیا بہتر ہوا؟
    مسئلہ الگ یا اکٹھے رہنے کا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ End Result کیا نکل رہا ہے۔

    ایک اور بات جو بطور داعی آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا:
    موجودہ معاشرے کی شیپنگ اسلامی نہیں. نسلوں بعد کسی لڑکے یا لڑکی کو اللہ دین کا فہم عطا کرتا ہے. وہ نوک جھونک کرتا/کرتی ہے کہ فلاں چیز گھر میں غیر اسلامی ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، یہ کام یوں کرلو وغیرہ.
    اب اگر تو آپ نے معاشرے کو اسلامائز کرنا ہے توخدارا خود اور اپنے شوہر کو وہاں ہی رہنے دیں. (ہم یہ بالکل نہیں کہ رہے کہ پردے پہ کمپرومائز کریں) بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ وہیں ایڈجسٹ ہو کر گھر والوں میں پردے کا شعور پیدا کریں، اور دیگر معاملات میں بھی
    [pullquote]وأنذر عشيرتك الاقربين[/pullquote]

    کے مصداق ماحول کو ٹھیک کریں.

    دوسری صورت میں (جو کہ بالکل جائز ہے) اگر الگ جا کر تیسری جگہ قیام پذیر ہوتے ہیں تو وہ گھرانہ شکر کرے گا کہ جان چھوٹی مولوی صاحب / عالمہ صاحبہ بات بات پر ہمیں قرآن و سنت کی بات سناتے تھے.
    اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔

  • کیا واقعی مشترکہ خاندانی نظام ہندوؤں‌کا نظام ہے؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا واقعی مشترکہ خاندانی نظام ہندوؤں‌کا نظام ہے؟ محمد عامر خاکوانی

    دلیل پر اس حوالے سے تحریر شائع ہوئی، جس میں‌ کہا گیا کہ مشترکہ خاندانی نظام یا جوائنٹ فیملی سسٹم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ ہندوؤں‌کے ساتھ رہنے کی یادگار ہے، جہاں‌ بڑا بیٹا جائیداد کا وارث ہوتا ہے اور پورا خاندان اکٹھا گزارا کرتا ہے، وغیرہ۔ کیا واقعی ایسا ہے؟

    پہلے تو یہ کہ اس مضمون میں شروع سے ایک بات فرض‌کر لی گئی اور پوری گفتگو اسی نکتے کے گرد گھومتی رہی۔ وہ یہ کہ گھر کا بڑا بیٹا ہی گھر چلا رہا ہے اور باقی گھر والے یعنی چھوٹے بہن بھائی، بھتیجے، بھانجے اس کی کمائی کھا رہے ہیں، وہ اپنے بچوں‌کا حق مار کر بھیتجیوں کو موٹرسائیکل لے کر دے رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

    یہ مفروضہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام صرف یہ نہیں ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی گھر میں‌ بڑا بیٹا جلدی سیٹل ہوگیا اور اپنی خوشحالی کی وجہ سے اس کا گھر چلانے میں کنٹری بیوشن دوسروں سے کچھ زیادہ ہوا، مگر یہ کوئی بنیادی شرط نہیں‌ہے۔ ہم نے ایسے کئی گھر دیکھے جہاں‌چھوٹا بھائی یا منجھلا اپنے پروفیشن یا کاروباری صلاحیتوں کی وجہ سے نسبتآ آگے نکل گیا اور اپنے بڑے بھائیوں‌کی کمزور مالی حالت دیکھتے ہوئے اس نے ایثار کر لیا۔

    بنیادی طور پر مشترکہ خاندانی نظام کا مطلب ہے گھر کے ایک سے زیادہ یونٹس کا یکجا ہو کر رہنا۔ نوے فیصد سے زیادہ کیسز میں والد ہی گھر کا سربراہ ہوتا ہے، مگر جب اس پر بڑھاپا وارد ہوگیا اور اس کے دو، تین یا چار بیٹے جوان ہوگئے، کمانے لگے تو ایک خاص وقت تک وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں، رہ جاتے ہیں۔ ایسے معاملات میں عام طور سے والدہ ہی فنانس منسٹر ہوتی ہے اور سب بچے اپنی اپنی تنخواہ یا آمدنی سے ایک خاص حصہ والدہ کو دے دیتے ہیں، وہی پھر گھریلو معاملات چلاتی ہیں، مکان کا کرایہ، بلز، راشن، کھانے پینے کے اخراجات وغیرہ۔ اب اس کا انحصار مختلف خاندانوں‌، ان کے مالی حالات اور زمینی حقائق پر ہے۔ اگر والد نے ہمت کر کے اپنا آبائی گھر بنا لیا اور کوشش کر کے ڈبل، ٹرپل سٹوری یہ سوچ کر بنا ڈالی کہ کل کو میرے بچے اکٹھے ہو کر رہ جائیں گے تو وہاں پر زیادہ آسانی رہتی ہے۔ مختلف بھائی مختلف پورشنز میں‌ رہتے ہیں اور بل وغیرہ کی شیئرنگ ہی ہوتی ہے، اس میں بھی بجلی کے سب میٹر کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ کہیں‌ پر کھانا مشترک ہوا تو پھر دوسرا معاملہ ہے، ورنہ اکثر و بیشتر کیسز میں کچن الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ اب اس کی بھی کئی صورتیں‌ ہو سکتی ہیں۔ کبھی تو ایسا کہ راشن مشترک ہے، مگر کھانا ہر بہو اپنے انداز میں‌بنا لے گی، اپنے خاوند اور اپنے معروضی تقاضوں‌کے مطابق۔ جیسے میرے جیسے کسی صحافی نے رات کو ایک دو بجے آنا، تین چار بجے سونا ہے تو پھر وہ ناشتہ آٹھ بجے نہیں کر سکے گا، اس کا ناشتہ برنچ ٹائپ ہوگا، گیارہ بارہ بجے، جبکہ پورا گھر صبح ناشتہ کر لے گا اپنے اپنے حساب سے۔ بعض گھرانوں‌ میں ابھی تک ایک ہی دسترخوان کی شرط موجود ہے کہ سب گھر والے کھانا اکٹھا کھائیں گے، کم از کم ناشتہ اور رات کا کھانا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب والد بڑھاپے کے باوجود مالی اعتبار سے بھی مضبوط ہو اور اولاد سعادت مند، والد کے حکم کو ماننے والی۔ ایک آسان صورت یہ نکال لی جاتی ہے کہ اوپر نیچے رہنے والے بھائی اپنااپنا کچن ہی الگ بنا لیتے ہیں، یوں‌ راشن وغیرہ بھی الگ الگ آتا ہے، کبھی کسی ضرورت میں ایک دوسرے سے خام یا پکا ہوا کھانا لے لیا، اچھے ہمسائیوں‌کی طرح۔

    اب یہ جو شیئرنگ کی صورت ہے، جس میں ماں‌یا باپ کے کہنے کے مطابق ہر بھائی گھر چلانے کے لیے اپنا شیئر ڈالتا ہے، اس میں‌کیا برائی ہے؟ یہ تو ممکن ہے کہ سب سے چھوٹا بھائی اگر ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو پھر ظاہر ہے وہ کنٹری بیوٹ نہیں‌ کر سکتا، اس سے یہ تقاضا بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اپنی بہتر مالی حالت کی وجہ سے ایک بھائی کچھ زیادہ کنٹری بیوٹ‌کر ڈالتا ہے تو اس میں اس کی بیوی کو برا نہیں ماننا چاہیے۔ یہ فطری بات ہے اور اس کے خاندان کا اپنے فرزند پر حق بھی ہے۔ رہی یہ بات کہ بڑا بھائی اپنے مسٹنڈے بھتیجے کو موٹر سائیکل لے کر دے اور اپنے بچوں‌کا حق مار دے تو بھیا یہ مفروضہ صورتحال ہی ہے۔ ہم نے تو ایسا ایثار کرنے والے کم ہی دیکھے، دو تین فیصد بمشکل۔ ستر اسی فیصد تو ایسے ہیں جو اپنا شیئر ایمانداری سے دے دیں‌، بڑی بات ہے۔ جو دو چار اچھی مثالیں ہیں، ان سے کسی عورت کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ صلہ رحمی کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اور کوئی ایثار کرے گا تو وہ یقین رکھے کہ رب تعالیٰ کےخزانے میں کوئی کمی نہیں، اس سے بڑھ کر منصف مزاج اور حق ادا کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ جو دس دے گا، اسے ستر، سو بلکہ ہزاروں بھی مل سکتے ہیں۔

    ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بہت سے کیسز میں‌ بڑے بیٹے کی کامیابی میں پورے خاندان کا حصہ، قربانی اور کوششیں شامل ہوتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسے اچھی تعلیم دلوانے، اکیڈمی وغیرہ میں‌ پڑھانے کے لیے چھوٹے بچوں کو نسبتا ہلکے سکولوں‌میں‌ پڑھانا اور اکیڈمی بھیجنے کی عیاشی سے گریز کرنا پڑ جاتا ہے۔ ماں‌باپ اپنا پیٹ کاٹ کر بڑے بیٹے پر محنت کرتے ہیں، خود بہت سی لذات سے برسوں‌ محروم رہ جاتے ہیں اور فطری طور پر کسی لوئر مڈل کلاس گھر میں بڑے بچے یا بچوں‌کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی قیمت چھوٹوں کو بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ بعد میں جب تعلیم مکمل ہوئی اور بڑے بیٹوں‌ کو ثمرات ملنے لگیں تو کیا وہ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ اپنے بچوں تک محدود رکھ دیں۔ ایسا تو دین کہتا ہے نہ اخلاقیات نہ منطق۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بہت بڑی اکثریت کے کیسز میں اس بڑے لڑکے کی محنت، کوششوں‌ میں اس کے ماں باپ، چچا، ماموں وغیرہ تو شامل رہے ہوتے ہیں، کسی نہ کسی صورت میں، اس کی بیوی تو اس پوری فلم میں ہوتی ہی نہیں۔ تیس سال کی عمر میں شادی ہوئی اور لڑکی جو تیس سال کے بعد زندگی میں شامل ہوئی، اگلے دو برسوں کے دوران ہی وہ چاہتی ہے کہ پچھلی انتیس تیس برسوں میں جو گھر والے اس کے خاوند کی زندگی کا حصہ رہے، وہ اب اچانک ہی دنیا سے ہی غائب ہوجائیں۔ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ سوچ ہی انتہائی خود غرضی کا مظہر ہے۔

    ہندوؤں میں رواج ایک الگ معاملہ ہے، اس کا ہمارے مشترکہ خاندانی نظام سے کوئی موازنہ نہیں۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام جہاں‌ جہاں‌کامیاب ہے تو وہ اخوت و بھائی چارہ کے جذبات اور صلہ رحمی کی تلقین کے باعث۔ دل میں‌خوف خدا رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ اگر میں نے صلہ رحمی سے کام لیا اور اپنے وسائل میں اپنے بھائی بہنوں‌کو شامل کیا تو رب خوش ہوگا۔ اس کا یہ جذبہ مستحسن ہے اور مطلوب بھی۔

    یہ درست ہے کہ عربوں‌ میں ہماری طرز کا خاندانی نظام نہیں تھا، مگر یاد رکھیے کہ وہ قبائلی نظام تھا اور قبائلی سادہ معاشرت پر مبنی، جس میں‌دو منزلہ، تین منزلہ آبائی گھر نہیں تھے، خیموں‌میں رہائش رکھی جاتی تھی یا کچے چھوٹے مکان۔ ویسے تو قبائلی نظام بھی ایک لارجر مشترکہ خاندانی نظام کی طرح ہے، جس میں بہت سی چیزیں شیئر کرنا پڑتی ہیں بلکہ دوسروں کی دوستیاں اور دشمنیاں بھی اپنانی پڑتی ہیں۔ آج کی جدید شہری زندگی سے اس زمانے کا موازنہ کرنا سادگی اور بھولپن ہے، مگر اسلام کی سپرٹ کہیں‌ پر مشترکہ خاندانی نظام سے نہیں روکتی۔ اسلام تو نام ہی ایک دوسرے سے محبت، بھائی چارہ، صلہ رحمی، ایثار اور قربانی دینے کا ہے۔ اس میں تو پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قول ہے کہ انہیں‌یوں لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو وراثت میں حق نہ مل جائے۔ وہ خدا کیا بھائی بہنوں‌کو دور کر دینے کی تلقین کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی عرب ملک میں چلے جانے اور وہاں مقیم ہو جانے والے شخص کے ذاتی تجربات تلخ ہوں کہ ہمارے ہاں دبئی، سعودی عرب چلے جانے والے سیٹھ سمجھے جاتے تھے اور پورا گاؤں ان سے امیدیں‌ لگا بیٹھتا تھا، ایسے میں ممکن ہے کسی اوورسیز پاکستانی کو ضرورت سے زیادہ کنٹری بیوٹ کرنا پڑا ہو، مگر پاکستان میں آج جس طرح مادیت پرستی کا چلن عام ہوگیا، خودغرضی بڑھ رہی ہے اور سنگل فیملی یونٹ‌کا رواج بڑھ رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے مشترکہ خاندانی نظام پر تنقید کے بجائے اس کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔

    مشترکہ خاندانی نظام میں‌ ظاہر ہے کچھ خامیاں بھی ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بھائی اپنی بیویوں‌کی پڑھائی پٹی پڑھ کر آپس میں بلا وجہ الجھ پڑتے ہیں اور نوبت وہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اگر اکٹھے رہے تو بول چال ہی جاتی رہے گی، اس لیے الگ الگ ہوجائیں تاکہ رسمی تعلقات تو رہ جائیں۔ جگہ کی تنگی، چھوٹے مکان کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی والدہ یعنی ساس کے مزاج کے باعث بہوؤں یا کسی ایک بہو کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ بچوں‌کی آپس کی لڑائیوں میں اگر بڑے شامل ہوجائیں تو تلخی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر دل بڑا نہ کرنا بھی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ فلانی توے پر گھی میں تربتر پراٹھے پکاتی ہے، اپنے حصے سے زیادہ گھی لگا دیتی ہے، یا اچھی بوٹیاں پہلے خود نکال لیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسی عامیانہ سوچ اور تنگ نظری سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کی تلخ باتوں کو نظرانداز کرنے اور کبھی ہنس کر ٹال دینے کی روش اپنانی پڑتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کو سپیس دی جائے تو بہت سے معاملات از خود سلجھ جاتے ہیں۔

    آپس میں رہنے کے دیگر فوائد کے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں بلز وغیرہ شیئر ہوجائیں، کچن کی شیئرنگ ہو تو اخراجات خاصے کم ہوجاتے ہیں۔ پھر گھرانہ کچھ محفوظ بھی محسوس کرتا ہے۔ گھر میں مرد زیادہ ہوں‌ تو آج کل کے خطرات کے دور میں بچت رہتی ہے۔ ایک بھائی مصروف ہے تو دوسرا سودا سلف لا سکتا ہے، ایمرجنسی میں‌ کسی کو ہسپتال لے جانا ہو، وہ ہو جاتا ہے۔ اگر ہم مشترکہ خاندانی نظام میں کچھ سوچی سمجھی اصلاحات لے آئیں، ’’مضبوط مرکز‘‘ کے بجائے ’’ڈھیلا ڈھالا وفاقی نظام‘‘ یا’’کنفیڈریشن‘‘ ہی قائم کر لیں تو معاملہ احسن طریقے سے چل سکتا ہے۔ اگر مختلف وجوہات کی بنا پر اکٹھا رہنا ممکن نہیں‌، تب بھی ایسی بےرحمی سے اس تصور کو رد کرنا اور اسے غیر اسلامی اور ہندوؤں سے منسوب کرنا تو ظلم کے مترادف ہے۔

  • جوائنٹ فیملی سسٹم کی بڑی خرابیاں – لائبہ خان

    جوائنٹ فیملی سسٹم کی بڑی خرابیاں – لائبہ خان

    جوائنٹ فیملی سسٹم میں بہت ساری خرابیاں ہیں .ان سب خرابیوں کو تحریر کرنا ایک مشکل کام ہے. اس لیے اس تحریر میں جوائنٹ فیملی سسٹم کی صرف بڑی بڑی خرابیاں تحریر کروں گی.
    ‏1. سیاہ و سفید کا مالک صرف اور صرف فیملی کا بڑا ہوتا ہے جو کہ غلط ہے.
    ‏2. فیملی کا بڑا غلط فیصلہ بھی کرے تو سب کے لیے ماننا لازم ہے.
    ‏3. بڑے کے کسی غلط فیصلے سے اختلاف کرنے والا باغی شمار ہوتا ہے.
    ‏4. اگر بڑے کے بچے کسی بھی وجہ سے نہ پڑھ سکیں تو باقی بھائیوں کے بچے بھی نہیں پڑھ سکیں گے.
    ‏5. شادی کے لیے لڑکا اور لڑکی کی رائے لینے کا کوئی تصور نہیں.
    ‏6. آپ اپنے بچوں کے چھوٹے چھوٹے خواہشات بھی پورے نہیں کر سکتے.
    ‏7. بچوں کے بہت سارے حقوق ادا نہیں کیے جاتے.
    ‏8. سب سے بڑی خرابی یہ کہ اسے اسلامی کہا جاتا ہے مگر یہ کہاں سے اسلامی ہے.

  • مشترکہ خاندانی نظام، نعمت ہے یا زحمت؟ ریحان اصغر سید

    مشترکہ خاندانی نظام، نعمت ہے یا زحمت؟ ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید جوائنٹ فیملی سسٹم اسلامی نہیں ہندوانہ نظام ہے ! نامی بلاگ جو کچھ دن پہلے دلیل پر ہی شائع ہوا ہے، نظروں سے گزرا۔ بلاگ میں مخصوص پاکستانی انداز میں ایک انتہائی مؤقف لیتے ہوئے اپنے حق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ پڑھ کے یہ احساس ہوا کہ اس وسیع موضوع کے بہت سے گوشوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں یہ دو انتہائی سنجیدہ موضوعات ہیں جھنیں ایک ہی بلاگ میں بھگتانے کی کوشش کی گئی ہے۔

    پہلا یہ کہ یہ سوال اہم نہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام ہندوانہ نظام ہے یا نہیں؟ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام اسلام مخالف ہے؟
    دوسرا یہ کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستانی معاشرے کے لیے زیادہ موزوں اور سود مند ہے یا نہیں؟

    مذکورہ بلاگ کے نام میں پہلے موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور متن میں اسے دوسرے موضوع کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بہتر یہ ہو گا کہ ان کو علیحدہ علیحدہ موضوع بحث بنایا جائے۔ پہلے دوسرے سوال پر بات کر لیتے ہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک رحمت ہے یا زحمت؟

    حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ سے کسی نے دریافت کیا، حضرت، شادی کرنا سنت ہے یا واجب؟
    آپ نے فرمایا، جو طاقت رکھتا ہو اور اس کے گناہ میں پڑ جانے کا قوی اندیشہ ہو اس کے لیے فرض ہے۔ جو طاقت رکھتا ہو لیکن نفس پر قدرت رکھتا ہو اس کے لیے واجب ہے۔ صحت مند لیکن تنگ دست کے لیے سنت ہے اور نامرد کے لیے حرام ہے۔

    ایسا ہی کچھ معاملہ مشترکہ خاندانی نظام کا بھی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کہیں اسےاپنانا مجبوری ہے، کہیں یہ خیر کا باعث ہے اور کہیں یہ ٹوٹ پھوٹ اور ناکامی کا شکار ہے۔ بیشتر جگہوں پر یہ یہ واحد چوائس اور مجبوری کے طور پر نافذ ہے اور جب آپ کے پاس کوئی دوسری چوائس نہ ہو تو بہتر ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں رہتے ہوئے نظام میں آنے والی خرابیوں کو دور کر کے بہتری کی طرف سفر جاری رکھا جائے۔

    اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 37 فیصد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یعنی تقریباً سات کروڑ لوگ روٹی اور فاقے کے درمیان ڈول رہے ہیں کسی قسم کی جائیداد اور اس کی تقسیم ان کے لیے دیوانے کا خواب ہے ۔ ایک دو کمرے کے مکان میں چھ سے لے کر درجن تک لوگ رہتے ہیں۔ تمام تر مسائل اور مشکالات کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے رکھنا ان کی مجبوری ہے۔

    اگر پاکستان کی اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس کی بات کریں تو جوائنٹ فیملی سسٹم ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ سب لوگ اپنے الگ الگ شاندار محل نما گھروں اور مختلف شہروں، ملکوں میں مقیم ہوتے ہیں۔ اگر کہیں اکٹھے ہوں بھی تو پورشن اور ہانڈی روٹی علحیدہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس ہی رہ جاتی ہے۔ ان میں سرکاری ملازم بھی ہوتے ہیں اور درمیانے اور چھوٹے کاروباری لوگ بھی۔ روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت کو بھی آپ ان میں شامل کر لیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس میں مشترکہ خاندانی نظام وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس طبقے کے لیے بھی اس نظام کا متبادل ڈھونڈنا آسان نہیں۔ کمر توڑ مہنگائی، محدود آمدنی، کم وسائل، مہنگے پلاٹ، بےپناہ تعمیری لاگت، اور کرایہ کے گھر کے جھنجھٹوں کی وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام سے چاہ کر بھی چھٹکارا پانا اس طبقے کے لیے بھی آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر مسائل اور سوال ہیں۔

    اگر گھر میں چار پانچ بھائی رہتے ہیں، والد کی وفات کے بعد اگر وہ مکان بیچ دیں تو بہنوں کو بھی حصہ دینے کے بعد ان کے پاس شاید آٹھ دس لاکھ بھی حصہ نہیں آئے گا۔ ظاہر ہے ان پیسوں میں پلاٹ ملنا ہی مشکل ہے، سب کے گھر کیسے بنیں گے؟ چھوٹے اور طالب علم بھائی اپنا کرایہ اور دیگر اخراجات کیسے پورے کریں گے؟ چھوٹی بہنیں اور والدہ کہاں جائیں گی؟ ایک اوسط مڈل کلاس لڑکی کی شادی پر آٹھ سے دس لاکھ جہیز اور دوسرے اخراجات آتے ہیں، والد کے بعد وہ کون پورے کرے گا؟

    عموماً کاروبار بڑے بھائی ہی سنبھالتے ہیں۔ اگر بیرون ملک بھیجا گیا تھا تو والدین نے جمع پونجی اور زیوارت بیچ کے بھیجا تھا۔ بڑے لڑکوں کی شادی بھی والد صاحب خود کر جاتے ہیں جس میں لگنے والے لاکھوں کا خرچہ بھی انھوں نے اُٹھایا تھا۔ یہ اضافی وسائل اور سہولیات دوسرے بھائیوں کے حصے میں تو نہیں آئیں؟ اگر کوئی شخص اس حال میں دنیا سے چلا گیا کہ اس کے دو تین بچے سیٹل اور دو تین بچے پڑھ رہے ہیں ۔ بچوں کے لیے طالب علمی اور نوکری ملنے تک کا مرحلہ بہت حساس ہوتا ہے، اگر ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیا جائے تو ہر گھر میں کچھ بچوں کا مستقبل تباہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ گھر اور کاروبار کی فوری بندر بانٹ سے کاروبار بھی ختم ہو جائے گا اور سب کے سروں سے اپنی چھت بھی چھن جائے گی اور امید ہے بیشتر نوجوان کچھ ہی عرصے میں اپنا حصہ ضائع کر کے سڑک پر آ جائیں گئے (یہاں وارثت اور قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کی تاویل نہیں دی جا رہی، اس بات کی وضاحت اگلے بلاگ میں کی جائے گی.)

    دوسری طرف مشترکہ خاندانی نظام سے کچھ حقیقی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جس کا ذکر مذکورہ بلاگ میں بھی کیا گیا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ان مسائل کا شکار طبقے کی بھی دو تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کے وہ گھر ہیں جس میں تین چار بھائی اپنے بال بچوں اور والدین کی زندگی کی صورت میں ان کے سمیت ایک گھر میں رہتے ہیں، سب برسرروزگار ہیں، کوئی نوکری کرتا ہے تو کوئی دکان، کوئی رزق کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہے لیکن اس کے بیوی بچے اسی گھر میں رہتے ہیں، بچے بڑے ہو رہے ہیں، ان کی آپسی لڑائیوں، خواتین کی گھریلو سیاست اور بھائیوں کی آمدنی کے تفاوت کی وجہ سے دلوں میں نفرتیں اور دوریاں جنم لے رہی ہیں لیکن کوئی بھی فی الحال علحیدہ کرایہ کا یہ اپنا گھر افورڈ نہیں کر سکتا۔ یا سب نے مکان کی تعمیر میں حصہ ڈال رکھا ہے، کوئی بھی گھر چھوڑنے کو تیار نہیں، بعض دفعہ والدین آسودہ اور صاحب جائیداد ہوتے ہیں، ان کی خوشنودی بھی عزیز رکھنی پڑتی ہے۔ اور کچھ لوگ واقعی ہی سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشی طور پر کمزور بہن بھائیوں کی مدد کریں اور ان کو سہارا دیں، اس سے بعض دفعہ ان کے اپنے بیوی بچوں کے حقوق کچھ متاثر ہوتے ہیں لیکن یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

    اکثر مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل کی وجہ معاشی کمزوری، معاشی ناہمواری، والدین کی ایک دو بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کی کامیابی کے لیے والدین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بہتر ہو کہ والدین بچپن سے ہی بڑے بچوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ جب بوجھ بڑے بچوں پر پڑے تو چھوٹے بچوں کو جلد سے جلد عملی زندگی کے لیے تیار کیا جائے اور کامیاب ہونے کی صورت میں بھائی اور ان کے بچوں کے ساتھ ان سے بڑھ کے نیکی اور احسان کریں۔ والدین سب بچوں سے ہر معاملے میں یکساں سلوک کریں۔ کماؤ اور بیرون ملک بچوں کے بچوں کی خصوصی نگہداشت اور پروٹوکول ان کا حق ہے، سب بھائیوں اور بہنوں سے یکساں اور پیار والا سلوک کیا جائے۔ کمانے والے کے پیسوں سے بنائی گئی جائیداد اس کے نام پر ہی خریدی جائے۔ اگر سارے بچے آسودہ حال ہیں اور اکٹھے نہیں رہنا چاہتے تو ان کو ایموشنل بلیک میل کر کے اکٹھا رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ گھر بناتے ہوئے پورشن اور نقشہ ہی اس حساب سے ترتیب دیا جائے کہ بعد میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی علیحدہ رہائش اختیار کی جا سکے۔ بچوں کی لڑائیوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے، جب ایک ہی گھر میں رہنا ہے تو تحمل، درگزر اور برداشت، سے کام لیا جائے۔ اولاد کو والدین ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے حقوق کے معاملے میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر والدین کی حق تلفی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی زرعی زمین یا دوسری وارثت ہے تو اس کی جلد سے جلد منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، بلکہ اگر حکومت اگر کوئی ایسا قانون بنا دے کہ جس میں زمین کی مقررہ حد کی وارثت میں مالک کے فوت ہوتے ہی شرعی طریقے کے مطابق اس کی تقیسم متعلقہ حق داروں میں خودکار طریقے سے ہو جائے تو کافی مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔

    مشترکہ خاندانی نظام کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں لیکن پاکستان کی عوام کے موجودہ حالات کے لحاظ سے نہ صرف کافی موزوں ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور سماجی نظام زندگی سے کافی ہم آہنگ ہے۔ کیوں کہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جہاں ایک اکائی ایک خاندان کا نظام رائج ہے وہاں ویلفیئر حکومتیں کام کر رہی ہیں، سوشل قرضوں کا نظام مؤثر ہے۔ نابالغ، طالب علموں، اور بوڑھے لوگوں کی بہبود اور پرورش کوئی مسئلہ نہیں۔ علحیدہ مکان بنک فنانس پر لینا یا کسی بھی برسر روزگار شخص کے لیے کرایہ کا مکان اور ہانڈی روٹی اس کی کل آمدنی کا تیس سے پچاس فیصد بنتا ہے، جبکہ پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ یہاں مشترکہ خاندانی نظام کے علاوہ کوئی سوشل سکیورٹی کا نظام میسر نہیں ہے، اس لیے ابھی مشترکہ خاندانی نظام ہی ہمارے بچاؤ کی واحد صورت ہے۔

    اگلے بلاگ میں قرآن و حدیث اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں ہم دیکھیں گے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام واقعی ہی اسلام کی آئیڈیالوجی سے متصادم ہے؟

  • کیا جوائنٹ فیملی سسٹم اسلام کے خلاف ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

    کیا جوائنٹ فیملی سسٹم اسلام کے خلاف ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل بعض معاملات کے بارے میں ہمارے یہاں یہ عجیب طرز استدلال پایا جاتا ہے کہ انہیں غیر اسلامی ثابت کرنے کے لیے بس انہیں ”ہندوانہ“ کہہ دیا جائے، یوں گویا دلیل کا حق ادا ہوگیا۔ اور یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جائے کہ ”یوں صحابہ کے دور میں نہ ہوتا تھا“ جبکہ یہ بات کسی عمل کے خلاف اسلام ہونے کی سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں۔ اس طرز استدلال کی ایک تازہ مثال دلیل پر شائع ہونے والی ایک حالیہ تحریر ہے جس کے مطابق مشترکہ خاندانی نظام غیر اسلامی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ ہندوانہ ہے، مگر تحریر میں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ یہ کن معنی میں ہندوانہ ہے؟ کیا اس کے ہندوانہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کا معاشرتی نظام ویداؤں یا بھگوت گیتا میں درج ہے؟ یا یہ ان معنی میں ہندوانہ ہے کہ یہ صرف ہندوستان میں پایا جاتا ہے؟ نیز کیا یہ انہی معنی میں ہندوانہ ہے جن معنی میں ذات پات کا نظام ہندوانہ ہے؟ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے مشترکہ خاندان کے اس ہندوانہ نظام کو تو عام طور پر قبول کیا مگر برھمن و شودر جیسی اونچی نیچی ذات کے ہندوانہ نظام کو قبول نہ کیا؟

    اس مقام پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشرتی نظام کے غیر اسلامی ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تحریر میں اس ضمن میں واحد دلیل یہ دی گئی ہے کہ ”صحابہ کے دور میں ایسی معاشرت نہ تھی“۔ پہلی بات تو یہ کہ صحابہ کے دور میں کسی امر کا موجود نہ ہونا اس کے غیر اسلامی ہونے کی کوئی دلیل ہے ہی نہیں، یہ دلیل نہیں ایک غلط العام تصور ہے۔ پھر یہ دلیل پیش کرتے وقت یہ فرض کرلیا جاتا ہےگویا حاضر و موجود ”سول سوسائٹی“ (اغراض پر مبنی جدید مارکیٹ معاشرت)، جو ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور جس میں ہم صبح سے لے کر رات تک سانس لیتے ہیں، یہ تو ماشاء اللہ عین خیر القرون کی سنت اور پوری اسلامی تاریخ کا تسلسل ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کو تہس نہس کرکے ہمارے معاشروں پر غالب آتی یہ جدید معاشرت بھی تو یورپ و امریکہ سے نکلی ہوئی ”جدیدیانہ“ ہے، تو اس کا کیا؟

    اب اگر بات موازنے کی ہی ہے تو یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام اگرچہ آئیڈیل نہیں (جو کہ درحقیقت کوئی بھی ورکنگ نظام نہیں ہوتا لہذا اس میں ہمیشہ اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے) مگر اسلامی اقدار (محبت، صلہ رحمی، حفظ مراتب، ادب و احترام، ایک دوسرے کا خیال و ایثار، پڑوس و میل جول وغیرھم) کے تحفظ اور فرد کی ان اسلامی اقدار کے مطابق تربیت کا ایک نسبتا بہتر طریقہ معاشرت ہے (نیز اس کے بہت سے معاشی فوائد بھی ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں)۔ اس کے مقابلے میں جدید مارکیٹ سوسائٹی کا ان اسلامی اقدار کے پھیلاؤ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انہیں نیست و نابود کرنے کا انتظام ہے۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں علماء نے بلاوجہ ہی اس طرز معاشرت کو قبول نہیں کیے رکھا۔ معاملات کو متنوع پہلوؤں سے سمجھے بنا علماء پر سست روی کا الزام دھرنا بس ایک فیشن ہے ۔

  • جوائنٹ فیملی سسٹم، اسلامی نہیں ہندووانہ نظام ہے – حیا حریم

    جوائنٹ فیملی سسٹم، اسلامی نہیں ہندووانہ نظام ہے – حیا حریم

    مجبوری صرف سڑک پر بیٹھ کر بھیک مانگنا ہی نہیں ہوتی۔
    مجبوری صرف کسی فٹ پاتھ پر ٹھیلا لگانے کا نام نہیں ہوتا۔
    مجبوری کسی کے دروازے پر جاکر جھاڑو لگانے کا ہی نام نہیں ہوتا۔
    مجبوری کبھی اچھے خاصے انسان کی بھی ہوتی ہے، جب وہ سب سے بڑا بھائی ہو۔
    مجبوری کبھی اس برداشت اور تحمل کا نام بھی ہوتا ہے جو گھر کی بڑی بہو کو سہنی پڑتی ہے۔
    اور یقین مانیے، یہ سب اس جوائنٹ فیملی سسٹم کا نتیجہ ہے جہاں ایک انسان گھر بھر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگاتا ہے، اور باقی سب مزے سے اس کی کمائی ہضم کرجاتے ہیں، صرف یہ سوچ کر کہ باقی سب چھوٹے ہیں اور وہ بڑا ہے، اس کی ذمہ داری ہے۔
    پھر اسی ذمہ داری کے تناظر میں مشرقی مرد اپنی تمام تر صلاحیتیں کمانے پر لگا دیتا ہے۔
    اپنے بچوں کے کھلونوں کے پیسوں سے چھوٹے بھائی کو موٹرسائیکل دلواتا ہے۔
    تو کبھی اپنی بیوی کے نفقے سے بھائی کے بچوں کو کمپیوٹر خرید کر دیتا ہے۔
    اور یہ سب اس جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے ہے۔
    قاری حنیف ڈار لکھتے ہیں:
    ”صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے ہاں تو یہ جوائنٹ سسٹم والی اکائی سرے سے تھی ہی نہیں جسے ہم پاکستانی معاشرے کی بہت بڑی خوبی اور بنیادی اکائی سمجھ رہے ہیں حالانکہ یہ اصلاً ہندوانہ نظام ہے، جس میں چونکہ جائیداد کا وارث سب سے بڑا بیٹا ہوتا ہے لہذا قربانی کا بکرا (بَلی کا بکرا) بھی اسی کو بننا ہوتا ہے۔ مگر اسلامی نظام میں تو وراثت سب میں برابر تقسیم ہوتی ہے، پھر قربانی کا بکرا بڑا بیٹا ہی کیوں؟ نسل در نسل مشترکہ خاندان اسلامی احکامات کے خلاف ہے، جس میں وراثت عدل سے تقسیم ہوتی ہے نہ رشتے ناطے عدل پر قائم ہوتے ہیں، بظاھر اتفاق مگر اندر ہی اندر دشمنیاں اور منافقتیں پلتی ہیں۔ ایک حکیم خدا ایسا ظالم نظام کبھی نہیں بنا سکتا، قرآن کہتا ہے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ (قل منہ او کَثُر) جائیداد تقسیم کرو۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں یہ نسلوں تک تقسیم نہیں ہوتی۔ چاچا، تایا، کزن، ملَیر پھُپھیر سن کچکانڑ مچی ہوئی ہوتی ہے، کوئی ایک وارث مجبور ہو کر اپنی زمین بیچتا ہے تو پچاس شفعے والے کھڑے ہو جاتے ہیں، یوں پہلے مقدمے بازیاں، پھر قتل بازیاں شروع ہو جاتی ہیں۔“

    اس موروثی خاندانی نظام کی وجہ سے ہی گھر گھر فسادات مچے ہوئے ہیں۔ کچھ کہنے والا یا اپنے اور اپنے بچوں کے حق کا مطالبہ کرنے والا زن مریدی اور مفاد پرست کا طعنہ دے کر عاق کر دیا جاتا ہے۔ اور خاموش رہنے والا سالہا سال تک کولہو کا بیل بنا اپنے جوان بھائیوں اور ان کے بچوں کو پالتا رہتا ہے۔ ہمارے اردگرد بسنے والے 70 فیصد اسی المیے کا شکار گھرانوں میں پلنے والے جوان جہان بھائیوں کو اپنے لیے خود بھی ہاتھ پیر چلانا چاہییں بجائے اس کے کہ بڑے بھائی پر بوجھ بن جائیں اور وہی انہیں مفت میں کھلائے بھی، اور آئی ٹی ماسٹر اور انجینئر بھی بنائے۔

  • عورت اور پردے! ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    عورت اور پردے! ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    بچپن میں کزن نے چھیڑا، ماں نے سمجھایا پردہ رکھو، بھائی ہے، ماموں کا بیٹا ہے، چچا زاد ہے.
    کچھ سال گزرے تو سکول کالج کے رستے میں کھڑے لڑکوں نے آوازے کسے. ماں کو شکایت کی تو ماں نے کہا پردہ رکھو. بھائیوں کو پتہ لگا تو ایسا نہ ہو کہ غیرت میں کوئی مسئلہ بن جائے. پردہ رکھو.

    اگر باپ بھائی تک بات چلی بھی گئی تو گلی کے نکڑ پر کھڑے مجنوں تو غائب ہوئے یا نہیں، لڑکی ضرور پردے کے نام پر گھر میں بٹھا دی جائے گی. تعلیم سے ہاتھ دھوئے گی. کسی کے جرم کی قیمت اپنی تعلیم اور کیرئیر سے محرومی کی صورت میں چکا ئے گی. اور اگر تعلیمی سلسلہ بحال رہا، تب بھی خدا جانے کتنے پردوں کی امانت کا بوجھ اٹھائے تعلیم جاری رکھے گی.

    شادی ہو گی تو میکے کے مان سلامت رکھنے کے لیے ادھر کے پردے رکھے گی اور میکے میں سسرال کی عزت بنانے کے لیے سسرالیوں کے پردے رکھتی رہے گی.

    چند سال بعد شوہر کہیں متوجہ ہو جائے گا تو میکے اور سسرال کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اپنی وقعت بنائے رکھنے کے لیے شوہر کے پردے رکھے گی.
    کام زیادہ تھا، اوور ٹائم کر رہے تھے، میٹنگ تھی، ایک مسکراہٹ کے ساتھ سارے پردے سنبھال سنبھال کر رکھتی عورت کبھی جب اپنی ذات کے اندر جھانکتی ہے تو تہہ در تہہ پردہ بن چکی ہوتی ہے.

    حق کے لیے آواز اٹھائے تو مار کھائے، نہ اٹھائے تو حق گوائے. مار کھا کر زخم چھپاتی عورت، نیل پر ہنس کر ”گر گئی تھی“ کہتی عورت، پردے دار عورت، پردہ شعار عورت، دوسروں کے پردے رکھتی رکھتی اپنے آپ سے پردے رکھنے لگتی ہے. دوسروں سے زیادہ خود کو فریب دے رہی ہوتی ہے. یہ سب حقیقت سے فرار ہے. اگر پردے نہ رکھے تو ایک ایک کر کے ہر رشتہ کھو دے، زندہ نہ رہ پائے. اور صرف عورت ہی رشتے نہ کھوئے، اس کا شوہر اور بچے بھی رشتوں سے محروم ہو جائیں.

    یہ جو جوائنٹ فیملی کو اکثر مرد فخر سے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے آپس کے اختلافات کے باوجود ہم بھائی اکٹھے رہ رہے ہیں. دراصل اس کی بنیاد اس جوائنٹ فیملی کی ایک ایک عورت کے سنبھال کر رکھے پردوں نے فراہم کی ہوتی ہے. کوئی ایک عورت اپنے زباں کے تالے کھول دے تو خاندان کا شیرازہ بکھر جائے. اور مرد کی گردن کا سریا ہمیشہ کے لیے ٹیڑھا ہو جائے.