مجبوری صرف سڑک پر بیٹھ کر بھیک مانگنا ہی نہیں ہوتی۔
مجبوری صرف کسی فٹ پاتھ پر ٹھیلا لگانے کا نام نہیں ہوتا۔
مجبوری کسی کے دروازے پر جاکر جھاڑو لگانے کا ہی نام نہیں ہوتا۔
مجبوری کبھی اچھے خاصے انسان کی بھی ہوتی ہے، جب وہ سب سے بڑا بھائی ہو۔
مجبوری کبھی اس برداشت اور تحمل کا نام بھی ہوتا ہے جو گھر کی بڑی بہو کو سہنی پڑتی ہے۔
اور یقین مانیے، یہ سب اس جوائنٹ فیملی سسٹم کا نتیجہ ہے جہاں ایک انسان گھر بھر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگاتا ہے، اور باقی سب مزے سے اس کی کمائی ہضم کرجاتے ہیں، صرف یہ سوچ کر کہ باقی سب چھوٹے ہیں اور وہ بڑا ہے، اس کی ذمہ داری ہے۔
پھر اسی ذمہ داری کے تناظر میں مشرقی مرد اپنی تمام تر صلاحیتیں کمانے پر لگا دیتا ہے۔
اپنے بچوں کے کھلونوں کے پیسوں سے چھوٹے بھائی کو موٹرسائیکل دلواتا ہے۔
تو کبھی اپنی بیوی کے نفقے سے بھائی کے بچوں کو کمپیوٹر خرید کر دیتا ہے۔
اور یہ سب اس جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے ہے۔
قاری حنیف ڈار لکھتے ہیں:
”صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے ہاں تو یہ جوائنٹ سسٹم والی اکائی سرے سے تھی ہی نہیں جسے ہم پاکستانی معاشرے کی بہت بڑی خوبی اور بنیادی اکائی سمجھ رہے ہیں حالانکہ یہ اصلاً ہندوانہ نظام ہے، جس میں چونکہ جائیداد کا وارث سب سے بڑا بیٹا ہوتا ہے لہذا قربانی کا بکرا (بَلی کا بکرا) بھی اسی کو بننا ہوتا ہے۔ مگر اسلامی نظام میں تو وراثت سب میں برابر تقسیم ہوتی ہے، پھر قربانی کا بکرا بڑا بیٹا ہی کیوں؟ نسل در نسل مشترکہ خاندان اسلامی احکامات کے خلاف ہے، جس میں وراثت عدل سے تقسیم ہوتی ہے نہ رشتے ناطے عدل پر قائم ہوتے ہیں، بظاھر اتفاق مگر اندر ہی اندر دشمنیاں اور منافقتیں پلتی ہیں۔ ایک حکیم خدا ایسا ظالم نظام کبھی نہیں بنا سکتا، قرآن کہتا ہے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ (قل منہ او کَثُر) جائیداد تقسیم کرو۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں یہ نسلوں تک تقسیم نہیں ہوتی۔ چاچا، تایا، کزن، ملَیر پھُپھیر سن کچکانڑ مچی ہوئی ہوتی ہے، کوئی ایک وارث مجبور ہو کر اپنی زمین بیچتا ہے تو پچاس شفعے والے کھڑے ہو جاتے ہیں، یوں پہلے مقدمے بازیاں، پھر قتل بازیاں شروع ہو جاتی ہیں۔“
اس موروثی خاندانی نظام کی وجہ سے ہی گھر گھر فسادات مچے ہوئے ہیں۔ کچھ کہنے والا یا اپنے اور اپنے بچوں کے حق کا مطالبہ کرنے والا زن مریدی اور مفاد پرست کا طعنہ دے کر عاق کر دیا جاتا ہے۔ اور خاموش رہنے والا سالہا سال تک کولہو کا بیل بنا اپنے جوان بھائیوں اور ان کے بچوں کو پالتا رہتا ہے۔ ہمارے اردگرد بسنے والے 70 فیصد اسی المیے کا شکار گھرانوں میں پلنے والے جوان جہان بھائیوں کو اپنے لیے خود بھی ہاتھ پیر چلانا چاہییں بجائے اس کے کہ بڑے بھائی پر بوجھ بن جائیں اور وہی انہیں مفت میں کھلائے بھی، اور آئی ٹی ماسٹر اور انجینئر بھی بنائے۔
تبصرہ لکھیے