Tag: جنگ

  • حکمت یار کا افغان حکومت کے ساتھ معاہدہ-رحیم اللہ یوسفزئی

    حکمت یار کا افغان حکومت کے ساتھ معاہدہ-رحیم اللہ یوسفزئی

    raheemullah_yusufzai

    گلبدین حکمت یار وہم و گمان سے ماورا الائنس بنانے کے ماہر جانے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اُنھوں نے افغان صدر ،اشرف غنی کی مخلوط حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرکے سب کو حیران کردیا ہے ۔ تاہم یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ معاہدہ کب تک قائم رہے گا کیونکہ ان کے سابق معاہدے بہت جلد پٹری سے اتر گئے۔ حکمت یار کے زیادہ تر الائنسز اقتدار میں آنے کے لئے تھے ، لیکن افغانستان پر حکومت کرنے کی اُن کی کوشش کبھی بارآور نہ ہوسکی ۔ اس مرتبہ البتہ اُن کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکومت میں شریک نہیں ہوں گے ۔ اس کی بجائے وہ جنگ و جدل سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے مرکزی سیاسی دھارے میں آنا چاہیں گے ۔

    افغانستان اور بیرونی دنیا ، بشمول امریکہ اور اس کے اتحادیوں، نے اس امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ اسے جنگ زدہ افغانستان سے کشمکش کا خاتمہ کرتے ہوئے استحکام لانے کی طرف ایک قدم سمجھا جارہا ہے ۔ یہ معاہدہ علامتی اور زیادہ سے زیادہ سیاسی اہمیت ضرور رکھتا ہے لیکن اس کے تزویراتی یا عسکری اثرات زیادہ محسوس نہیں کیے جائیں گے کیونکہ حکمت یار کی حز ب ِ اسلامی کی صفوں میں امریکی اور افغان فورسز پر حملہ کرنے کے لئے زیادہ جنگجو موجود نہیں ۔ اس معاہدے پر عمل پیر ا ہونے میں حائل مشکلات نے آغاز سے ہی سر اٹھانا شروع کردیا۔ کابل کے صدارتی محل میں طے پانے والے اس معاہدے میں حکمت یار بذات ِ خود شریک نہیں تھے ۔ اُنہیں ایک ویڈیو کلپ میں مسودے پر دستخط کرتے دکھایا گیا۔ یہ کلپ کسی نامعلوم مقام، زیادہ امکان ہے کہ پاکستان میں کسی جگہ، پر بنایا گیا تھا۔ افغان دارالحکومت میں تحفظ کی ضمانت ملنے تک وہ صدر غنی کے محل میں ہونے والی تقریب میں شرکت نہیں کرسکتے تھے ۔

    اس معاہدے کی شرائط کے عملی نفاذ میں مخصوص حلقوں کی مخالفت ، سیکورٹی کی خراب ہوتی ہوئی صورت ِحال اور گاہے گاہے صدر غنی اور سی ای او، عبداﷲ عبداﷲ کے درمیان سرا ٹھانے والے اختلافات رکاوٹ ڈالیں گے ۔ کابل اور کچھ دیگر شہروں میں اس امن معاہدے کے خلاف سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے کیونکہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات پر حکمت یار کو ایمنسٹی دینے کی بجائے اُن کا احتساب چاہتے ہیں۔ تاہم حکمت یار اور ان کے ساتھیوں کو ملنے والی ایمنسٹی کوئی نادر مثال نہیں ،طالبان کے بعد قائم ہونے والی افغان پارلیمنٹ اور حکومت نے سابق دور کے مجاہدین اور جنگجو سرداروں، جن پر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور اپنے حریفوں کو قتل کرنے کے الزامات تھے ، کو بھی عام معافی دی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر جنگجوسابق صدر، حامد کرزئی کی حکومت کا حصہ تھے ۔ کچھ دیگر ارکان ِ پارلیمنٹ، وزرا ، کاروباری افراد اور انتہائی دولت مند ہیں۔

    حکمت یار کے ماضی کا طائرانہ جائزہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کابل پولی ٹیکنیک میں زمانہ طالب علمی میں اُنھوں نے افغانستان کی نوخیز اسلامی تحریک میں شرکت کی اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں سردار محمد دائود کی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت میں حصہ لیا ، اور پھر گرفتاری سے بچنے کے لئے فرار ہوکر پاکستان آگئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اُنکا، احمد شاہ مسعود اور دیگر اسلامی جہادیوں کا خیر مقدم کیا کیونکہ اُس وقت سردار دائود حکومت منحرف پاکستانی پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کو پناہ دے رہی تھی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک، گلبدین حکمت یار مجاہدین کے مختلف دھڑوں کا ساتھ دیتے ہوئے افغان حکمرانوں، جیساکہ دائود،نورمحمدترکئی، حفیظ اﷲ امین، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب ا ﷲ اور طالبان اورامریکی پشت پناہی سے بننے والی کرزئی حکومت کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔اس طرح اُنھوں نے ایک طویل اور تھکادینے والی، لیکن بے مقصد جنگ لڑی ہے ۔

    افغانستان میں کمیونسٹ دور میںحکمت یار نے افغان آرمی چیف اور وزیر ِ دفاع، جنرل شاہ نواز تانی کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کرتے ہوئے مارچ 1990 میں حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور جنرل تانی اپنے ساتھیوں سمیت ایک ہیلی کاپٹر میں فرار ہوکر پاکستان آگئے ۔ حکمت یار اسلامی جبکہ جنرل تانی کمیونسٹ نظریات رکھتے تھے لیکن اقتدار کی خاطر حکمت یار کو اُن سے معاہدہ کرنے میں کوئی عار نہ ہوا۔ اس کے کئی سال بعد تک ، دونوں پاکستان میں رہے ۔ جنرل تانی تو غیر اہم ہوتے ہوئے فراموش کردئیے گئے لیکن حکمت یار نے افغان سیاست میں اہمیت حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی ۔ 1990 ء کی دہائی میں حکمت یار نے کابل کے لئے ہونے والی خونی جنگ میں ازبک جنگجو سردار ، عبدالرشید دوستم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس وقت کابل صدر برہان الدین ربانی اور وزیر ِ دفاع احمد شاہ مسعود کے پاس تھا۔ حکمت یار اور دوستم کے درمیان ہونے والا اتحاد بھی غیر فطری تھا کیونکہ حکمت یار افغانستان میں حقیقی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے ، جبکہ دوستم کا پہلے تو اتحاد کمیونسٹوں کے ساتھ تھا،اس کے بعد اس نے اپنے بے رحم ملیشیا کے ذریعے افغان مجاہدین کے خلاف جنگ کی، اور پھر کچھ افغانستان مجاہدین کے ساتھ معاہدے بھی کرلئے ۔ نظریاتی تفاوت کی وجہ سے حکمت یار کا دوستم کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بھی دیر پا ثابت نہ ہوا ۔ آخر کارحکمت یار اس نتیجے پر پہنچے کہ ربانی اور احمد شاہ مسعود کی مخلوط حکومت کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں مجاہدین کی خانہ جنگی ختم ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ پاکستانی اور افغان ثالثوں کے ذریعے طے پانے والے اس معاہدے کے نتیجے میں حکمت یاروزیر ِاعظم بن گئے ، لیکن حقیقی طاقت صدر ربانی اور احمد شاہ مسعود کے پاس ہی رہی۔
    حکمت یار کی معاہدے کرنے کے علاوہ ممالک کی پسندیدگی کی چوائس تبدیلی ہوتی رہی۔1970 کی دہائی میں وہ پاکستان کے ساتھ وابستہ تھے ، اور پشاور میں آمد پر اُن سے مہمان ِ خصوصی کا سا سلوک کیا جاتا تھا۔ تاہم بعد میں اسلام آباد کاجھکائو طالبان کی طرف ہوگیا ۔ طالبان نے حکمت ِ یار اور مسعود کی فورسز کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیااور کابل پر حکومت قائم کرلی ۔ ستمبر 1996 ء میں حکمت یار کا جھکائوایران کی طرف دیکھا گیا۔ اُنھوں نے تہران میں رہائش اختیار کرلی، لیکن جلد ہی اُنہیں وہاں کے ماحول کی گھٹن کا احساس ہوا، اور وہ پاکستان لوٹ آئے ۔ اُس کے بعد وہ ایران کے ناقدرہے ہیں۔ اُن کی پاکستان کے ساتھ بھی دوستی نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد نے طالبان کو اہمیت دی تھی۔

    جہاں تک تازہ ترین معاہدے کا تعلق ہے تو بظاہر ایسا دکھائی دیتاہے کہ اس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے، اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان چاہتا تھا کہ حکمت یار افغان حکومت کا حصہ بن جائیں تاکہ کابل میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر کا تدارک کیا جاسکے ۔ اگر اس معاہدے کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو حکمت یار کا غنی حکومت سے معاہدہ ان کے طویل موقف کی نفی کرتا ہے کہ وہ ایسی حکومت کے ساتھ معاہدے میں شریک نہیں ہوسکتے جسے غیر ملکی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ اُن کا موقف رہا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں افغانستان سے نکل جائیں ، وہاں تازہ انتخابات ہوں اور شریعت نافذ کردی جائے ۔ بہرحال اس معاہدے کا حکمت یار اور ان کی جماعت کو فائدہ ہوگا کیونکہ وہ طویل صحرا نوردی کے بعد مرکزی سیاسی دھارے میں آجائیں گے ۔ یہ معاہدہ پریشانی کا شکار افغان حکومت کے لئے بھی فائدہ مند ہے کیونکہ وہ کئی برسوںسے امن معاہدہ کرنے کی کوشش میں ہے ۔ افغانستان میں امن کے لئے طالبان کےساتھ امن معاہدہ ناگزیر ہے ۔ حکمت یار کی حکومت میں موجودگی ایک توانا پیغام ضرور بھیجے گی کہ افغان حکومت اتنی بھی کمزور نہیں ہے جتنی طالبان کا دعویٰ ہے۔

  • کھوٹے مسلمان – عزیر احمد خان

    کھوٹے مسلمان – عزیر احمد خان

    بچپن میں ایک واقعہ پڑھا تھا کہ کسی بازار میں روز مرہ کے سامان کے لیے ساتھ ساتھ دو دکانیں تھیں۔ ایک دکان کسی مسلمان کی ملکیت تھی اور دوسری ایک عیسائی کی۔ مسلمان کی دکان پر گاہکوں کا خاصا رش رہتا تھا۔ ایک دفعہ کوئی شخص مسلمان کی دکان پر گیا اور ضرورت کی کوئی چیزطلب کی۔ اس پر مسلمان نے جواب دیا کہ وہ چیز میرے پاس موجود تو ہے مگر بہتر ہے کہ آپ وہ ساتھ والی دکان سے لے لیں جس کا مالک عیسائی تھا۔ گاہک نے اس کی وجہ پوچھی تو مسلمان دکاندار نے بتایا کہ آج صبح سے کافی گاہک اس کی دکان پر آ چکے ہیں اور اس کی اتنی آمدن ہو چکی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی روزی روٹی کا انتظام کر سکے، اس کے برخلاف ساتھ والے عیسائی دکاندار کے پاس صبح سے کوئی بھی نہیں آیا تو بہتر ہے کہ آپ یہ چیز اس سے خرید لیں تا کہ اس کا بھی گزارہ ہو سکے۔

    یہ بات سن کر گاہک ساتھ والے عیسائی دکاندار کے پاس چلا گیا اور اس سے وہ چیز طلب کی۔ ظاہر ہے عیسائی دکاندار ساری کارروائی دیکھ رہا تھا تو اس نے گاہک سے پوچھا کہ آپ تو ابھی ساتھ والی دکان میں گئے تھے اور وہ چیز وہاں موجود بھی ہے تو پھر میرے پاس کیوں آئے۔ اس سوال کے جواب میں گاہک نے ساری روداد سنا دی اور وہ عیسائی اس بات کو سن کر اتنا متاثر ہوا اور فوراََ ہی کلمہ پڑھ کر دینِ اسلام میں داخل ہو گیا۔

    مسلمانوں کا یہ اعلیٰ اخلاق تھا جس کی وجہ سے اسلام دنیا کے کونے کونے میں پھیلا۔ اسلام کی فتح اگر تلوار اور طاقت کے زور سے ہونی ہوتی تو جنگیں تو پہلے بھی ہوا کرتی تھیں۔ لڑائی تو حضرت آدمؑ کی اولاد سے ہی شروع ہو چکی تھی مگر یہ صرف اور صرف مسلمانوں کا اعلیٰ اخلاق تھا جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا اور لوگوں کو وہ احساس ِ تحفظ اور اپنائیت ملا کہ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔

    اسی طرح کا ایک واقعہ غزوہ بدر کے بعد کا ہے کہ جب قیدیوں کو اناج سے بنی روٹی پیش کی گئی اور ان قیدیوں نے دیکھا کہ مسلمان خود کھجور اور پانی پر گزارہ کر رہے ہیں اور انہیں کھانے کے لیے روٹی پیش کر رہے ہیں اور جب ایک قیدی نے حفاظت پر مامور ایک صحابی سے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیاکہ آپؐ کا یہ حکم ہے کہ قیدیوں کا اچھے طریقے سے خیال رکھا جائے، اب کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ سب روٹی کھا سکیں تو ہم قیدیوں کو روٹیاں دے کر خود کھجور پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات تاریخ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔

    اب آئیے آج کی صورتحال کی طرف، کچھ دن پہلے ہمارے ٹی وی چینلز پر وہ ویڈیوز نشر کی گئیں جس میں دشمن کے فوجیوں کو ٹارگٹ کر کے دکھایا گیا، نہ صرف یہ، بلکہ کوئی ”بھارت باز آجا“ کی تحریک چلا رہا ہے اور کوئی ”رونا بند کرو“ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اس موقع پر میرا صرف اور صرف ایک ہی سوال ہے کہ ایسی قوم کہ جس کی میراث میں ایسی عظیم اخلاقی مثالیں موجود ہوں، کا ایسا طرز عمل ہونا چاہیے؟

    میں مانتا ہوں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے، اگر دشمن ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کرے تو ہمیں اس کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے، ہمیں اپنے دفاع کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے اور دشمن کو اس بات کا مکمل احساس بھی ہونا چاہیے کہ اس کا مقابلہ دفاعی لحاظ سے انتہائی مضبوط قوم سے ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ دشمن کو اس بات کا احساس بھی ہونا چاہیے کہ اس کا مقابلہ اخلاقی لحاظ سے بھی انتہائی مضبوط قوم کے ساتھ ہے۔ کسی انسان کو قتل کر کے اس کا کلیجہ چبا دینے سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا مگر اگر اس قاتل کے گھر کو بھی اگر میرے نبیؐ نے دارالامان قرار دیا ہے تو ہمیں بھی اس کے امتی ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔

    دشمن سے نفرت بھی کریں اور اس سے جنگ کے لیے بھی تیار رہیں مگر خدارا اخلاق کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیں، دشمن کو قتل ضرور کریں مگر اس طرح بار بار ویڈیو چلا کر اس کی تذلیل نہ کریں۔ یہ بات تو عام انسان بھی جانتے ہیں کہ جنگوں میں مارے جانے والوں کی لاشوں کا احترام کیا جاتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے سپاہی کوئی ذاتی لڑائی نہیں لڑ رہے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ان کی میت کا احترام کریں۔ یوں جلی اور کٹی پھٹی لاشیں سرعام میڈیا پر دکھا کر ہم کیا ثابت کر نا چاہتے ہیں؟ کیا اس سے نفرت کم ہو گی یا نفرت بڑھے گی؟

    خدارا ہوش کے ناخن لیں، اور اخلاق کے دامن کو ہاتھ سے مت چھوڑیں، اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر یہ خدا کے نام پر لڑائی کا نعرہ بھی مت لگائیں، اپنے مذہب کو بدنام بھی مت کریں۔ وہ واقعہ تو مشہور و معروف ہے کہ حضرت علیؑ نے صرف اس لیے تلوار میان میں ڈال دی کہ اب اس کافر نے میری طرف تھوکا ہے اور اگر اب میں نے اسے قتل کیا تو کہیں اس میں میرا ذاتی غصہ وجہ نہ بن جائے۔ اسلام تو وہ دین ہے کہ جس میں اگر کوئی غیر مسلم موت کو پہنچتا ہے تو مسلمان اس بات پر غمگین ہوتا ہے کہ آپؐ کا امتی بغیر ایمان کی دولت کے مر گیا۔

    اگر تو آپ اس اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو پھر تو آپ قرآن کی آیتوں پر اپنے نعرے بنائیں، صحابیوں کے نام پر اپنے دوستوں کے نام رکھیں اور شہیدوں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھیں، اگر اتنی ہمت نہیں ہے تو دنیا کی طرح اپنے ملک کی خاطر جو کرنا ہے کریں مگر اسلام کا نام استعمال نہ کریں، کیونکہ اس طرح کی غیرت جس کا مظاہرہ آج کل دیکھنے کو مل رہا ہے، آپ کو اچھا پاکستانی تو بنا سکتی ہے مگر یہ اچھا مسلمان کبھی نہیں بنا سکے گی اور ہم سب ”کھوٹے مسلمان“ رہیں گے۔

  • جنگ کی آرزو، مردم خور جبلت کی وراثت – فارینہ الماس

    جنگ کی آرزو، مردم خور جبلت کی وراثت – فارینہ الماس

    وہ دونوں بھائی رات بھر قبر کھودتے رہے۔ رتی رتی مٹی اپنے نوکیلے اور وحشی ناخنوں سے کھرچتے اور پاس ہی ننھی منی ڈھیریوں میں ڈھالتے چلے جاتے۔ قبر کی مٹی ابھی تازہ تھی۔پانی کی بوندوں سے اٹی سوندھی سوندھی مٹی کے ساتھ بھینی بھینی خوشبو بکھیرتے دلکش سرخ گلابوں تلے کوئی ابھی کچھ ساعتوں قبل ہی دنیا کے دل آزار بکھیڑوں سے مکتی پا کر گہری نیند سویا تھا۔ ابھی آج ہی کی گہری شام کے سائے تلے تو وہ وجود اس مٹی کی آغوش کو سونپا گیا تھا۔ دونوں بھائی کسی دور کی بیگانی قبر پر بیٹھے اس کی تدفین کا نظارہ کر رہے تھے۔ تازہ انسانی گوشت بنا کسی سرانڈ اور خراش سے پہلے، وہ خراش جو مٹی کے ہمجولی حشرات کے اس لاش کو بھنبھوڑنے سے ماس پر آجاتی ہے، جہاں کالا پڑتے لہو کی جمی ہوئی قطار گوشت کو بد ذائقہ اور بدنما کر دیتی ہے، اس سے پہلے کا انسانی گوشت ان دونوں بھائیوں کی مرغوب غذا تھا۔ انہیں اس مردم خوری کی خواہش پاگل کر رہی تھی۔ کام جلد از جلد نپٹانے کے لیے وہ وقتاً فوقتًا پاس رکھی کھرپیوں سے بھی مدد لے رہے تھے۔ پسینے کی غلیظ اور ناقابل برداشت باس بکھیرتے قطرے ان کے مکروہ چہروں کو اور بھی زیادہ کریہہ بنا رہے تھے۔ کسی کسی لمحے خوف کی تھر تھری ان کے وجود میں چھوٹتی لیکن فوراً ہی ان کے اندر کی درندگی اور ہوس ان کی گھبراہٹ پر قابو پاکر ان کے وجود میں پلنے والی وحشی بھوک کو جگا دیتی۔ انہیں انسانی وجود کی بوٹیاں نوچنی تھیں۔ بہت دن گزر گئے تھے انسانی لہو کا ذائقہ چکھے۔

    کہتے ہیں انسان کو انسانی ماس نوچنے کی عادت ورثے میں ملی ہے۔ نسل انسانی کے ارتقائی مراحل کی تفصیلات کا جائزہ لیں تو مردم خوری اس کی جبلت سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جنوب مغربی جرمنی میں دریافت ہونے والی، انسان کی تین ہزار سال پرانی قدیمی باقیات پر تحقیق کرنے سے بھی آدم خوری کے شواہد بآسانی مل جاتے ہیں۔گو کہ یورپ میں پتھر کے دور کے آغاز میں آدم خورموجود تھے۔ لیکن اگر تاریخی شواہد کا مزید مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ انسان کی مردم خوری کے آثار کسی ایک انسانی خطے میں نہیں بلکہ اس کائنات کی تقریباً تمام انسانی آبادیوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ رسم عموماً مذہبی تقریبات کا ایک خاص حصہ سمجھی جاتی تھی۔ کبھی سخت قسم کے قحط کی صورتحال میں بھی دشمن قبیلے کے افراد کو مار کر کھایا جاتا تھا۔ انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کسی رشتے دار کے مر جانے پر احتراماً بھی اس کے مردہ جسم کے کچھ حصے کو غذا کے طور پرکھایا جاتا تھا۔ بعض قبائل دنیا سے رخصت ہوجانے والے کے سر کو دفنا کر اس کا باقی ماندہ وجود اپنی خوراک کا حصہ بنا لیا کرتے۔ انیسویں صدی میں افریقہ اور بحرالکاہل کے بعض جزائر میں تحقیق کاروں نے ایسے علاقوں کی کھوج لگائی جو باقی دنیا سے بلکل کٹے ہوئے تھے اور ان کی غذا کا سب سے آسان وسیلہ مردم خوری ہی سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ میں بعض ایسے افریقی قبائل بھی پائے جاتے ہیں جو تبلیغ کے لیے آئے مشنری عیسائیوں کو سزا کے طور پر مار کر اپنی خوراک کا حصہ بناتے۔ تقریباً ایک ہزار سال پہلے ہندوﺅں میں ”آگوری قبیلہ“ بھی انسانی گوشت رغبت سے کھایا کرتا تھا۔ اس قبیلے کے سادھو گنگا جمنا سے انسانی لاشیں نکال کر ان کا بھوجن کرتے۔ ویسے تو عموماً قدیم ہندو بھی اپنے مُردوں کو شمشان گھاٹ میں جلایا کرتے تھے لیکن کچھ ہندو کبھی کبھار اپنے مُردوں کو گنگا جمنا میں بھی بہا دیا کرتے۔ اور جنہیں یہ سادھو نہ صرف طویل العمری پانے کی خاطر اپنے منہ کا نوالہ بناتے بلکہ ان کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ اس طریقے سے کچھ مافوق الفطرت شکتیوں کا حصول بھی ممکن ہو پاتا ہے۔ ایسے سادھو آج بھی شمالی بھارت کی پہاڑیوں میں قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ انڈونیشیا کے قریب بحرالکاہل میں واقع ملک نیوگنی کے دور افتادہ جنگلوں میں آج بھی مردم خور قبیلہ موجود ہے۔ فجی کو تو آدم خوری کی وجہ سے کسی زمانے میں ”آدم خوروں کا جزیرہ “ کہا جاتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران سردیاں شروع ہوئیں تو فوجیوں کے لیے پرندے ،چوہے اور دوسرے جانور دستیاب ہونا ختم ہو گئے تو ایسے کڑے وقت میں پیٹ کی آگ بجھانے کو فوجیوں نے مردہ اور سڑے ہوئے جسموں کو کھا کر اپنی بقاءکا انتظام کیا۔گویا مردم خوری کا تعلق بہت شدید حد تک انسان کی بھو ک سے رہا ہے۔ اور بہت ہی قلیل طور پر کسی ذہنی و دماغی عارضے سے۔

    شاید انسان اپنے ارتقاء کے پہلے مرحلے میں ایسا نہ رہا ہو شاید محض جڑی بوٹیاں اور جنگلی بیریاں ہی اس کی غذا رہی ہوں۔ پھر انسان کی وحشت کے ایسے دور کا آغاز ہوا جب اس نے جنگلی جانوروں سے اپنی جان کے تحفظ کی خاطر اپنا پہلا ہتھیار ایجاد کیا۔ وہ درختوں پر اپنا بسیرا کر کے، شکار کی تاک میں رہتا اور نا صرف اپنے ہتھیار سے خود اپنی جان محفوظ بناتا بلکہ ان جنگلی جانوروں کا شکار کر کے اپنی بھوک بھی مٹاتا تھا۔ لیکن پھر اس ہتھیار کو خود انسان پر بھی آزمایا جانے لگا۔ کبھی زندہ دشمن نما انسان کا شکار تو کبھی مردہ انسان کے جسم سے گوشت نوچنا اس نے سیکھ لیا۔ بعد ازاں جنگلوں سے نکل کر دریاﺅں اور پہاڑوں کا رخ کیا تو خوراک کی جدوجہد نے اسے جنگلوں کو کاٹ کر کھیتوں اور کھلیانوں میں بدلنا سکھایا۔ وہ اپنی وحشی فطرت کو قابو کرنے میں قدرے کامیاب ہوا ۔پھر لوہے کے ہتھیاروں کا استعمال بھی بڑھا ۔اور اس کے استعمال میں بھی بہت جدت اختیار کی گئی۔ لیکن جب دنیاوی سفر کو آسمانی ضابطے عطا ہوئے ،تو یہی آسمانی ضابطے ،انسانی اخلاقیات کو قانونی اور آئینی شقوں میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئے اور انسان کو انسان سے اماں ملی۔

    کہتے ہیں انسانی ماس جب کسی کے منہ کو لگ جائے تو اس کی لت کبھی چھٹتی نہیں، وقتاً فوقتاً مختلف روپ میں ڈھل کر اس کی ہوس کو تسکین دے ہی لیتی ہے۔گو کہ وقت کے پنے بدلتے رہے۔ انسانی اخلاقیات کے ضابطے روز بروز نکھرتے رہے۔ انسان نے علم اور شعور کی منازل بھی بڑی سرعت سے طے کیں۔ وہ اپنے فلسفے اور خیال کی ندرت کے ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔اس کے افکار کو انوکھے پر لگ گئے ۔دریافت کا زمانہ آیا اور انسان اپنے ہنر اور بے پایاں صلاحیتوں کے عوض اس دنیا کی افضل ترین مخلوق بن گیا۔ لیکن انسان اپنی جبلت نہ بھول سکا۔ وہ محفوظ ہو کر بھی غیر محفوظ ہی رہا۔ وہ معاشرت کے انسانی جنگلوں میں بھی وحشت کے سبق کو قصہءماضی نہ بنا پایا۔ وہ بربریت کے اصولوں کو اخلاقی ضابطوں کے صحیفوں سے بدل نہیں پایا۔ وہ” آدم خوری “جیسے قبیہہ فعل کو آزماتا ہی رہا۔ اس کی ہوس اور وحشت، کامیابی کے زعم، انا کی تسکین اور طاقت کے حصول جیسے عناصر میں ڈھل گئی۔ انسان اپنی خونی جبلت کی تسکین خونی جنگوں سے کرتا رہا۔ کبھی مذہب اور سیاست کے نام پر ،کبھی فلسفے اور نظریے کے دام میں آ کر تو کبھی جمہوریت و آزادی کے حصول کی جدوجہد میں وہ جنگیں لڑتا رہا۔ اور اپنے جیسے لاکھوں انسانوں کے وجود نوچتا رہا اوربارود سے اس کی دھجیاں اڑاتا رہا۔ انسان نے تین ہزار سالوں میں پانچ ہزار جنگیں لڑیں۔ تیرھویں صدی عیسوی میں منگولوں کی قتل و غارت گری بحرالکاہل کے قریب سے اٹھی اور موت و ہلاکت کا یہ سلسلہ بحیرہ روم کے کناروں تک پھیل گیا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں لاکھوں کروڑوں انسانی وجود نگل گئیں۔ کئی خوبرو اور با صلاحیت ،غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل انسان بڑی بے دردی سے قبروں میں اتار دیے گئے۔ میدانوں میں لاشیں مکئی کی کٹی فصلوں کے ڈھیر کا نظارہ پیش کرنے لگیں۔ آسمان سے بارود مون سون کی بارش بن کر برستا رہا۔ ہیرو شیما میں 66 ہزار ،اور ناگا ساکی میں 39ہزار جیتے جاگتے انسان آن ہی آن میں لقمہءاجل بن گئے۔ ہٹلر کی مردم خوری کی جبلت 6 ملین انسان نگل گئی۔ انسان جیت گیا انسانیت ہار گئی۔ ان جنگوں کے علاوہ فلسطین میں 50 لاکھ اور کشمیر میں ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کا قتل، عراق میں2003ء سے اب تک پانچ لاکھ انسانوں کا قتل، شام میں چار لاکھ ستر ہزار بے گناہ شہریوں کا قتل انسان کی انسانیت کا منہ چڑاتا رہا۔ کون کہاں ،کیسے اور کس قدر انسانی خون اور لوتھڑوں کا تماشا برپا کیے ہوئے ہے یہ ایک طویل داستان ہے۔ لیکن کیا عالمی طاقتیں، عالمی ادارے مردم خور نہیں؟ جو اپنے مفادات کی خاطر غریب اور بے بس انسانوں کو لڑاتے اور مرواتے ہیں اور خود چپ سادھے رہتے ہیں۔ دل دھلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ جدید نیوکلئیر ہتھیار ان ہتھیاروں سے طاقت میں اس قدر مہلک ہیں کہ محض 50 ہتھیار استعمال کر کے 2 ارب لوگ ہلاک کیے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے آئن سٹائن سے جب کسی نے پوچھا کہ تیسری عالمی جنگ کیسی ہوگی تو اس نے جواب دیا ”تیسری عالمی جنگ کا تو مجھے علم نہیں لیکن چوتھی جنگ تلواروں اور ڈنڈوں سے ہو گی۔“ یعنی تیسری عالمی جنگ کی ہولناکی کی لپیٹ ایسی شدید ہو گی کہ انسانی تہذیب و تمدن کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گی۔

    اب پہلی کہانی کے باقی حصے کی طرف آئیں، دونوں بھائی بہت محنت اور ریاضت کے بعد اس لاش کو باہر نکال پائے۔ وہ بہت عجلت سے کفن کو کھول کر لاش کا جائزہ لینے لگے۔وہ11,12 سال کے ایک معصوم بچے کی لاش تھی۔ دونوں کے منہ سے رال ٹپکنے لگی وہ سوچنے لگے کہ اس لاش کو بوری میں بھر کر اطمینان سے اس کے پارچے بنا کر پکائیں گے۔ یکایک وہاں پولیس پہنچ گئی۔ شاید ان کے فرار سے پہلے ہی مخبری ہو چکی تھی۔ وہ یہ واردات پہلے بھی لاتعداد مرتبہ ڈال چکے تھے اور کم سے کم 40 انسانی لاشوں کو اپنی خوراک بنا چکے تھے۔ لیکن اس بار کامیاب نہ ہو سکے۔ ان پر مقدمہ چلا اور انہیں سزا بھی ہوئی لیکن انہیں کوئی پشیمانی نہ ہوئی۔ ان کی ہر پیشی پر لوگوں کا ہجوم بےقابو رہتا اور ہر کوئی اس مکروہ دھندے کو چلانے والے ذہنی بیمار درندوں کے منہ پر تھوکنا ، یا انہیں زدوکوب کرنا چاہتا تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ لاشوں کو کیوں کھاتے تھے؟ وہ کہنے لگے ”بھوک مٹانے کو“. کسی نے سوال داغا کہ کیا انہیں ایسا کرنے پر خود اپنے آپ سے نفرت محسوس نہیں ہو رہی؟ لیکن وہ کہہ رہے تھے۔”کون مردم خور نہیں۔ یہاں سب مردم خور ہیں۔ ہاں ہم میں اور ان میں انسانیت کا کچھ فرق ہے، لوگ زندہ انسانوں کا شکار کرتے ہیں اور ہم مردہ لوگوں کا۔“ کس کا فعل زیادہ قبیح ہے، اس کا فیصلہ مشکل تو نہیں۔

  • جنگ، امن اور چرچل – محمد عرفان ندیم

    جنگ، امن اور چرچل – محمد عرفان ندیم

    سر ونسٹن چرچل برطانیہ کے مشہور وزیراعظم تھے، انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کیا، وہ1901ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے 1965ء میں انتقال کرگئے۔ وہ ہوم سیکرٹری، نیوی اور فضائیہ کے سربراہ، وزیرجنگ، وزیر خزانہ اور اسلحے کے وزیر سے ہوتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔ 1936ء میں برطانوی وزیراعظم چیمبر لین نے ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی تو چرچل میدان میں کو د پڑا، یہی وہ وقت تھا جب چرچل کو برطانوی سیاست میں نمایاں ہونے کا موقع ملا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اسے ایڈ مرل کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کر لیا گیا اور وہ مئی 1940ء میں برطانیہ کا وزیراعظم بن گیا۔ ہٹلر نے خود کشی کی اور 1945ء میں جنگ ختم ہوگئی، برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، چرچل قائد حزب اختلاف بن گیا. یہ وہ دور تھا جب روس اور مغربی اتحادیوں میں سرد جنگ عروج پر تھی، چرچل نے اس سرد جنگ میں روس اور مغربی اتحادیوں میں اختلافات بڑھانے میں اہم کر دار ادا کیا، وکٹری کا نشان اور روس کے خلاف ’’آہنی پردے ‘‘ کی اصطلاح بھی اسی نے ایجاد کی۔ 1951ء کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کو دوبارہ منظم کیا، الیکشن ہوئے، قدامت پسند پارٹی جیت گئی، چرچل دوبارہ وزیر اعظم بنا اور 1955ء میں بڑھاپے کی وجہ سے سیاست سے الگ ہوگیا۔ ونسٹن چرچل کو سیاست کی دنیا کا امام کہا جاتا ہے، دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور جرمنی کی شکست میں اس نے اہم کردار ادا کیا. کہا جاتا ہے کہ اگر دوسری جنگ عظیم میں چرچل نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو تا۔ جرمنی کے بعد وہ روس کا بھی خاتمہ چاہتا تھا اور اس کے لیے اس نے مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر بھر پور لابنگ کی، امریکی صدر روزویلٹ نے اس لابنگ کی مخالفت کی جس کی وجہ سے روس بچ گیا۔ چرچل برطانوی نوآبادیات کی آزادی کا سخت مخالف تھا، اس نے صرف اس وجہ سے وزیراعظم بننے سے انکار کر دیا تھا کہ اسے بطور وزیراعظم ہندوستان کی آزادی کی تقریب کی صدارت کرنی پڑنی تھی۔چرچل اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کا سخت مخا لف تھا لیکن وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا دلدادہ تھا، بلنٹ اس کا ایک عربی دوست تھا، چرچل اس کی پارٹیوں میں جاتا تو عربی جبہ اور لباس زیب تن کرتا، اسلامی تہذیب کی طرف اس کا رجحان اس قدر شدید تھا کہ اس کے گھر والوں کو اس کے مسلمان ہونے کا ڈر رہتا، چرچل نے ایک بار خط میں لکھا کہ وہ پاشا بننا چاہتا ہے جس پر اس کی بھابھی نے اسے ایک خط تحریر کیا جس میں لکھا ’’مہربانی کر کے آپ اسلام قبول نہ کریں، میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ آپ میں مشرقی تہذیب کو قبول کرنے اور پاشا بننے کے رجحانات پائے جاتے ہیں ‘‘

    ونسٹن چرچل کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار قوم سے خطاب کے لیے اسے ریڈیو اسٹیشن جانا تھا، وہ سڑک پر آیا اور ایک ٹیکسی والے کو اشارہ کیا کہ اسے برٹش براڈ کاسٹنگ ہاؤس جانا ہے، ٹیکسی ڈرائیور نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ چرچل کی تقریر سننے جا رہا ہے، چرچل یہ سن کو جھوم اٹھا اور جیب سے ایک پاؤنڈ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا، ٹیکسی ڈرائیور نے پاؤنڈ دیکھا تو بولا ’’بھاڑ میں جائے چرچل اور اس کی تقریر، آپ بیٹھیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں، آپ جیسا رحم دل اور نیک انسان مجھے کہاں ملے گا‘‘ چرچل نے بتایا کہ میں ہی چرچل ہوں اور مجھے ہی تقریر کرنے جانا ہے تو ٹیکسی ڈرائیور بہت شرمندہ ہوا اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی، چرچل نے اسے سمجھاتے ہو ئے کہا ’’کوئی بات نہیں، روپیہ پیسہ اکثر تعلقات اور رشتے بھلا دیتا ہے‘‘. چرچل ایک بار پاگل خانے گیا اور وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا ’’آپ کا تعارف‘‘ اس شخص نے جواب دیا ’’میں پاگل خانے میں زیرعلاج تھا، اب صحت یاب ہوگیا ہوں اور آج گھر جا رہا ہوں ۔‘‘ اس نے چرچل کا تعارف پوچھا تو چرچل نے کہا ’’میں برطانیہ کا وزیراعظم ہوں‘‘، وہ شخص قہقہے لگانے لگا، آگے بڑھا اور بڑی ہمدردی کے ساتھ چرچل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’میاں فکر نہ کرو آپ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے، یہ بہت اچھا ہسپتال ہے، یہاں آنے سے پہلے میں بھی خود کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتا تھا لیکن اب میں مکمل طور پر ٹھیک ہوں.‘‘

    بات دور نکل گئی ہم واپس آتے ہیں، چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو شکست سے بچایا تھا، جنگ کے فورا بعد برطانیہ میں الیکشن ہوئے تو برطانوی عوام نے چرچل کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا. برطانوی عوام کا کہنا تھا کہ چرچل ایک جنگی ہیرو ہے اور اب ہمیں جنگ نہیں امن چاہیے، اس لیے چرچل برطانیہ کی تعمیر نو اور امن کے لیے موزوں امیدوار نہیں۔ برطانوی عوام نے مناسب وقت پر درست فیصلہ کیا تھا، برطانوی عوام جانتے تھے کہ چرچل ایک جنگجو ہے اور ایک جرنیل سے صرف جنگ کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چرچل اگر الیکشن جیت جاتا تو دنیا ایک نئی جنگ میں مبتلا ہوجاتی۔

    برطانوی عوام اور یورپ وہ سبق آج سے ستر سال پہلے سیکھ چکا تھا جو پاک انڈیا عوام، میڈیا اور حکمران ستر سال بعد بھی نہیں سیکھ سکے۔ پاکستان اور انڈیا کے عوام ہر دو ماہ بعد جنگ جنگ کھیلنے لگ جاتے ہیں، ایشیا کے اکثر خطے آج بھی جنگ کی لپیٹ میں ہیں ،کبھی شمالی اور جنوبی کوریا آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی پاک بھارت فوجیں بارڈر پر آ جاتی ہیں، کبھی روس اور چین کے حالات خراب ہو جاتے ہیں اور کبھی عرب اسرائیل تنازع زور پکڑ لیتا ہے. یہ براعظم ایشیا کی بدقسمتی ہے کہ یہ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے سانحات سے سبق نہیں سیکھ سکا. جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی ایشیا میں کروڑوں افراد ہلاک ہوئے لیکن ایشیا نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا اور آج ایک بار پھر ایشیا کے دو اہم ممالک، ان کا میڈیا اور ان کے عوام جنگ کے لیے پر تول رہے ہیں. یہ ثابت کرتا ہے کہ ایشیائی عوام کا شعور آج بھی 1945ء کے یورپی عوام سے بہت پیچھے ہے، ان لوگوں نے 1945ء میں سیکھ لیا تھا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی اور یہ پورے کے پورے ملک ہڑپ کر لیتی ہے لیکن ایشیائی عوام آج بھی جنگوں کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ جنگوں کی پٹاری سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

    آپ دنیا کا نقشہ اپنے سامنے میز پر پھیلائیں اور دنیا کے 260 ممالک کی فہرست بنائیں، اس فہرست میں آپ ترقی یافتہ ممالک کو الگ کریں، آپ کو نظر آئے گا کہ ترقی یافتہ ممالک صرف اس لیے ترقی یافتہ ہیں کہ وہاں امن اور قانون ہے اور ان ممالک نے اپنے ہمسائیوں سے جنگ بندی کے معاہدے کیے ہوئے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا صرف اس لیے پیچھے ہے کہ وہاں امن ہے نہ قانون اور یہ ممالک اپنے ہمسائیوں سے الجھے رہتے ہیں۔ آج پاکستان اور بھارت اپنا دفاعی بجٹ کم کر دیں تو اگلے دس سال میں ان ممالک سے غربت ختم ہو جائے گی اور اگلے پندرہ سال میں یہ ممالک ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک کہلائیں گے۔ میں پاک بھارت میڈیا، عوام اور حکمرانوں کے جنگی جنون کو دیکھتا ہوں تو سر پکڑ لیتا ہوں کہ ڈیڑھ سے پونے دو ارب آبادی والے خطے میں کوئی بھی ایسا نہیں جو جنگ کے بجائے امن کی بات کرے اور یہ بات سمجھ سکے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ہیروشیما اور ناگا ساکا جیسے وہ مسائل پیدا کرتی ہیں جن کے زخم ستر سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بھرتے۔

  • ممکنہ پاک بھارت جنگ اور جدت پسند بیانیہ کی اگلی قسط – ابن علی

    ممکنہ پاک بھارت جنگ اور جدت پسند بیانیہ کی اگلی قسط – ابن علی

    جب تاتاری عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے تو مجھے یقین ہے کہ اُس وقت کے جدت پسندوں نے ’اسلام کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہ ہونا‘ ضرور ثابت کیا ہو گا۔ ان کے فتویٰ کو عالم اسلام میں پذیرائی ملے بغیر بھی ہرگز نہ رہی ہوگی۔ پھر اس کے شواہد تو ملے ہی ہیں کہ وقت کے کچھ ’مسلم فقہاء‘ اُس دوران ہلاکو کے ہم رکاب تھے جو اغلباً اپنے اُس عہد میں ’سیکولرازم‘ کے حق ہونے کی شہادت دینے اٹھے ہوں گے۔ لوگ ان پر مخصوص فرقے سے ہونے کا شبہ کر بیٹھے۔ ان ’فقہاء‘ کے بہت سے پیروکاروں نے مسلم زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھنے کے باعث مسلم خطوں کے سٹرٹیجک راز تاتاریوں کو حاصل کر کے دیے اور کچھ خطیر مہمات بھی ان کےلیے انجام دی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اور اس کے اہل خانہ بھی ان میں سے بعض کی نشاندہی پر گرفتار ہوئے تھے۔ اگر وہ ہلاکو سے اس بات کی تنخواہ لیتے تھے تو یہ ایک ’پروفیشنل سروس‘ تھی، دین کو اس سے کیا؟ یہ اُس طرف ہوگئے تو کیا، اِدھر کے لوگ کیا تنخواہ پر نہیں لڑتے؟! یہ تو تنخواہ کا مسئلہ ہے، خواہ اِدھر سے لیں یا اُدھر سے، اس کو دین کا مسئلہ آپ نے کیسے بنا دیا؟ ہاں اگر وہ نیشن سٹیٹ کے احکام توڑ بیٹھے ہوں تو ضرور یہ دین کا مسئلہ ہے، کیونکہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمانوں پر حملہ آور لشکروں میں شمولیت کرنے والے سب مسلمانوں نے اُس فوج کو جائن کرنے سے پہلے وہاں کی شہریت حاصل کی تھی۔ (محض خیرسگالی میں کوئی مدد کر دینے پر البتہ جدت پسند فقہ میں دو قول پائے جاتے ہیں!)۔ بس یہ ایک ہی پہلو کہ بہت سے لوگ حصولِ شہریت کے بغیر ہی جنگ میں شامل ہوئے ہوں، قابل اعتراض ہو سکتا ہے کیونکہ مسلم آبادیوں پر حملہ آور ہونا فی نفسہ تو گناہ نہیں۔ اذانوں کے دیس کو تاراج کرنا بجائےخود تو قابل مواخذہ نہیں۔ موجب اعتراض چیز دین کی نگاہ میں صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ حملہ آور ریاست کی شہریت رکھے بغیر اور محض دوستی اور خیرسگالی میں تو آیا کسی نے یہ کام نہیں کر لیا؟ (جس طرح کچھ مفتی حضرات نے ویزہ ویلڈ valid رہے بغیر کر لیے گئے حج کو باطل ٹھہرایا ہے، اور بلاشبہ کچھ اعمال ادائےشرط کے بغیر انجام پائیں تو باطل ٹھہرتے ہیں!)۔

    پس مسئلہ کسی مسلم بستی پر حملہ آور ہلاکو یا مودی کے ہم رکاب ہونے کا نہیں اور نہ پانچ لاکھ کشمیریوں کے خون کا ہے اور نہ مسجدوں کے دیس پاکستان کو خون میں نہلانے یا صفحۂ ہستی سے ختم کر ڈالنے کا یا جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی ایک ابھرتی ہوئی (ایٹمی) قوت کو خدانخواستہ ریزہ ریزہ کر کے عالم اسلام کے شرقی نصف حصے میں مسلمانوں کو ان کے سب سے بڑے سہارے سے محروم (بلکہ یتیم) کر ڈالنے (اور اس کے نتیجے میں امتِ اسلام کے اٹھنے کی کوششوں کو سو سال پیچھے دھکیل دینے) کا ہے۔ ایسے سب اعتبارات مسئلہ کو دیکھنے کے معاملہ میں سراسر لغو ہیں۔ مسئلے کی ’شرعی مناط‘ صرف اور صرف نیشن سٹیٹ کے احکام ہیں! ان کو توڑا گیا تو شریعت مداخلت کےلیے میدان میں آئے گی، ورنہ مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں۔ آپ ایک ’’اسلام آباد‘‘ کی بات کرتے ہیں، ہم کہتے ہیں ’’اسلام بول‘‘ کیوں نہ ہو، بلکہ نیشن سٹیٹ کے احکامِ مقدسہ کی پابندی برقرار ہو تو ’’حجاز شریف‘‘ کی استثنا بھی شاید ہی کسی دلیل سے ہو سکتی ہو۔ آپ اگر ایک پیشہ ور پائلٹ ہیں تو جائیے ایسے کسی بھی مسلم شہر کو ’فلیٹ‘ کر آئیے اور احساسِ گناہ کا شائبہ تک پاس نہ آنے دیجیے، ایک نہایت معتبر فتویٰ آپ کو آخر تک حاصل ہے۔

    اغلب یہ ہے کہ عالم اسلام میں بہت بار یہ ایکشن ری پلے ہوا ہو۔ جس وقت صلیبی اپنے نیزے بھالے اٹھائے بلادِ اسلام کو تاراج کرتے آ رہے تھے، ضرور اس وقت کچھ ’محققین‘ ایسے ہوں گے جو اس قتال کو دین سے نہ جوڑنے کے حق میں زبردست علمی دلائل دے رہے ہوں اور اس جنگ کے ’معاشی محرکات‘ پر سیرحاصل گفتگو فرما رہے ہوں۔ بلکہ ’بیت المقدس پر مسلمانوں کا کوئی حق نہ ہونے‘ والی تحقیق اس موقع پر کچھ اور بھی جوش سے پیش ہونے لگی ہو، کچھ توقف ہوگا تو بس یہ کہ بیت المقدس بجائے عیسائیوں کے یہودیوں کو پیش کیا جاتا تو بزعم خویش (سورۃ المائدۃ کی ایک آیت میں وارد) قرآنی حکم کی روح زیادہ صحیح طور پر پوری ہوتی۔ (حالانکہ پردۂ غیب میں یہ فضیلت ہمارے آج کے جدت پسندوں کے حق میں لکھ رکھی ہوئی تھی، اُنہیں اُس دور میں یہ کیسے مل سکتی تھی اور اُس وقت بھلا وہ یہودی کہاں سے لاتے؟)۔

    پانچویں، چھٹی و مابعد صدیوں میں مسلمانوں کا وہ عظیم جہاد، جس کے نتیجے میں ہند میں شہروں کے شہر بتوں سے خالی ہو کر مسجدوں اور قرآن کی درس گاہوں میں ڈھلے اور دیویوں کے بجائے یہاں خالص اللہ کی عبادت ہونے لگی اور ہر جانب محمدﷺ کا کلمہ پڑھا جانے لگا، فداہ ابی و امی… خاصا مشکل ہے اُس وقت کچھ نکتہ ور یہ نکتہ اٹھانا بھول گئے ہوں کہ آج نہ تو صحابہ کا دور ہے اور نہ ہند کو فتح کرنے کی مہم پر روانہ ہونے والی فوج کوئی صحابہ یا فرشتوں پر مشتمل، لہٰذا دین اور مذہب سے اس جنگ کا کیا تعلق ہو سکتا ہے، پس اس کے معاشی محرکات اور اس کی سیاسی و تزویراتی جہتوں ہی کا اعتبار کرو، اس کے تہذیبی یا عقائدی جوانب پر توجہ مرکوز کرنا درست نہیں۔ البتہ ان کے روکنے سمجھانے کے باوجود جب یہ شہروں کے شہر اسلام کے مفتوح ہو گئے اور اذانوں کی گونج یہاں ہر طرف سنائی دینے لگی تو ایسے بہت سے نکتہ ور اپنے اُن اشکالات اور شبہات کو اٹھا کر اِن مفتوحہ شہروں میں آ بیٹھے ہوں گے تاکہ خلقِ خدا جو اس جہاد کے نتیجے میں خیر سے اسلام میں داخل ہو ہی گئی ہے اب کہیں ’حقیقی اسلام‘ سے ناواقف نہ رہ جائے اور مولویوں کی تحریک پر یا بادشاہوں کے ساتھ لگ کر آگے کسی ملک کو اذانوں کے دیس میں ڈھالنے نہ چل دے۔ اور پھر ’حقیقی اسلام‘ کے وہ دروس شروع ہو گئے ہوں گے جو ہند کو اسلام کا گڑھ بنا دینے پر منتج ہونے والی جنگ کا ’مذہب سے کوئی تعلق نہ ہونے‘ کی دلیلوں سے لبریز ہے۔

    میرا خیال ہے ایسے لوگ ہمیشہ سے ہم میں رہے ہیں، کچھ مخصوص عوامل نے آج ان کی آواز کچھ غیرمعمولی طور پر اونچی کرا دی، تو اور بات ہے۔ ہمارا کوئی دَور ایسی آوازوں سے خالی نہیں رہا۔ آپ خاطر جمع رکھیے۔ اِس وقت صرف کشمیر کے ان مظلوم مسلمانوں کی صدا پر کان دھریے جو ستر سال سے ہندو کے ظلم تلے کراہ رہے ہیں، اور اب تو بخدا یہ معاملہ دیکھنا بس سے باہر ہے۔ سلام کیجیے اس قوم کے صبر اور حوصلہ کو جو ہندو کے نیچے رہنے سے مسلسل انکاری ہے اور اس کو مسلم شناخت کا ایک ملک بنا رکھنے پر ہی مُصر ہے۔ سبھی کو معلوم ہے، کشمیری مظلوموں کا یہ کیس ہی جنوب ایشیا کے ان دو ملکوں کے مابین اس تلخی کا سبب چلا آرہا ہے اور اس نزاع میں ریڑھ کی ہڈی سن 48ء سے لے کر آج تک یہی ایک مسئلہ ہے۔ خواہ ظاہر میں اس پاک بھارت کشیدگی پر جو بھی رنگ آئیں مگر اس کی تہہ میں پچھلے سات عشروں سے یہی ایک مسئلہ بول رہا ہے، یعنی کشمیر کا مسئلہ جوکہ اسلامی پیمانوں پر بھی اور انسانی پیمانوں پر بھی، ہر پہلو سے ہماری ہمدردی اور نصرت کا حق رکھتا ہے، اور جس کےلیے ہمارے اِن اسلامی نکتہ وروں کی زبان سے شاید ہی کبھی کوئی کلمۂ خیر بولا گیا ہو۔ اُن مجبور و مقہور مسلمانوں کےلیے اِن کے لہجوں میں شاید ہی کبھی دکھ اور پریشانی ٹپک کر آئی ہو۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جدت پسند فتوے کسی وقت لبرل اور سیکولر کیس کو ’مذہبی دلیلوں‘ کے سہارے سے محروم رہنے دیں؟ کسی موقع پر اپنا یہ ’اسلامی کردار‘ ادا کرنا بھول جائیں؟

    حضرات! یہ وقت ہے قوم کے لہجوں میں ایک زوردار یکسوئی لانے کا۔ دشمن ہماری یکجہتی دیکھ کر ہی ان شاءاللہ پیچھے ہٹے گا۔ اپنی یہ یکجہتی اس موقع پر دشمن کو ضرور دکھائیے اور اِدھراُدھر کے فتووں میں ہرگز مت آئیے۔ ہم اللہ کے فضل سے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے۔ جس صاحبِ نظر کو کشمیر میں بھارتی زیادتی، ظلم، بربریت اور وحشت نظر نہیں آ رہی اس کےلیے بصیرت اور بصارت ہر دو کی دعا کیجیے۔ وہ اپنے فکر و نظریہ میں کسی شرابِ افرنگ سے بری طرح مدہوش ہے، ورنہ صورتِ واقعہ ہرگز پیچیدہ نہیں۔ کشمیر میں بھارت کا ظالم ہونا اظہر من الشمس ہے۔ یہ مظلوم کشمیری دین میں ہمارے بھائی ہیں اور ان کی نصرت ہمارا دینی فرض۔
    [pullquote]الْمُسْلِمُ أخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُہ وَلَا يَخْذُلُہ [/pullquote]

    ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ وہ(کسی کے ظلم کےلیے) اس کو بےیارومددگار چھوڑتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)۔

    پھر حملوں کی باتیں بھی ہماری طرف سے نہیں بھارت کی طرف سے ہو رہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے ایسی کسی جارحیت کی صورت میں اگر ہمیں لڑنا پڑتا ہے تو اپنے دین، عقیدے اور اسلامی مفاد سے اس کا تعلق کیوں نہیں؟
    [pullquote] وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّہ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اھلُھا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا (النساء: 75)[/pullquote]

    ’’بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کےلیے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا‘‘۔(ترجمہ جوناگڑھی)

  • کیا پاکستان بھارت جنگ ٹل گئی ہے؟ عمران زاہد

    کیا پاکستان بھارت جنگ ٹل گئی ہے؟ عمران زاہد

    عمران زاہد جنگ ٹلی نہیں، بس طریقہ تبدیل ہوا ہے
    اس وقت بھارت پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک چکا ہے۔ گزشتہ روز بھی بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں معاہدے کے مطابق ساٹھ ہزار کیوسک روزانہ پانی کے بجائے صرف چھ ہزار کیوسک پانی چھوڑا گیا۔ اس سے پاکستانی فصلوں کپاس، گنا اور مکئی کے تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔
    :
    آج بھارتی وزیرِاعظم مودی نے سندھ طاس معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے اہم اجلاس بلا لیا ہے۔ آکاش وانی نے اس اجلاس کی خبر دیتے ہوئے بتایا کہ ورلڈ بینک، جو اس معاہدے کا ضامن ہے، کی رپورٹ کے مطابق اسی (۸۰) فیصد پانی پاکستان کو مل رہا ہے اور بھارت خسارے میں جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مودی سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔
    :
    دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی دریا برہماپترا چین کے علاقے سے بھارت میں آتا ہے۔ بھارت کو خوف ہے کہ ان کے کسی ایڈونچر کے جواب میں چین ان کا پانی نہ روک لے۔
    :
    قائدِ اعظم رح نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے۔ ان کے اس فرمان کی اہمیت بھارت کی اس سازش سے دوچند ہو جاتی ہے۔ پاکستان آنے والے سارے دریا کشمیر میں سے نکلتے ہیں۔ بھارت نے ہماری شاہ رگ کو دبوچ رکھا ہے۔ وہ جب چاہے خون کے بہاؤ کو منقطع کر سکتا ہے۔
    :
    ایسے میں پاکستان کو پانی کے مزید ذخیرے بنانے کی ضرورت ہے۔ کالاباغ ڈیم جیسے مفید ڈیم کی راہ میں جو سیاسی رکاوٹیں ہیں انہیں حکمت سے سلجھایا جانا چاہیے۔ یہ قوم کی زندگی و موت کا معاملہ ہے۔
    :
    علاوہ ازیں، ہتھیار باندھ کے رکھیے کہ یہ جنگ کشمیر کے لیے ہو نہ ہو، پانی کے لیے ضرور لڑنی پڑ سکتی ہے۔

  • یہ لوگ اس وقت تک-جاوید چوہدری

    یہ لوگ اس وقت تک-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    پورے ملک میں توپوں کی دھنا دھن‘ جنگی طیاروں کی چنگھاڑ اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ تھی‘ سڑکوں پر دور دور تک لاشیں پڑی تھیں‘ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں‘ سڑکیں ختم ہو چکی تھیں‘ بجلی اور پانی بند تھا‘پبلک ٹرانسپورٹ دم توڑ چکی تھی‘ خوراک سپلائی ٹوٹ چکی تھی اور ہر گلی‘ ہر محلے سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور زخمیوں کی دہائیوں کے سوا کوئی آواز نہیں آتی تھی‘ پندرہ لاکھ زخمیوں کا علاج ممکن نہیں تھا چنانچہ ملک میں محب وطن شہریوں کے دو اسکواڈ بن گئے‘ ایک اسکواڈ شہر میں نکلتا تھا‘ اسے جہاں کوئی معمولی زخمی ملتا تھا‘ وہ زخم پر مرہم پٹی کے بجائے زخمی کی آنکھیں بند کرتا تھا اور اس کا پورا عضو کاٹ کر پھینک دیتا تھا‘ دوسرا اسکواڈ سنگین زخمی تلاش کرتا تھا اور انھیں گولی مار کر زندگی کے عذاب سے رہائی دے دیتا تھا‘ یہ پولینڈ کی صورتحال تھی‘ جرمن فوج نے یکم ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر حملہ کیا‘ یہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز تھا‘ یہ حملہ ستمبر کمپیئن کہلاتا ہے۔

    یہ کمپیئن ایک مہینہ چھ دن چلی‘ پولش فوج کی تعداد ساڑھے نو لاکھ تھی‘ جرمنی‘ سلواکیہ اور سوویت یونین کی بیس لاکھ فوج نے پولینڈ پر حملہ کر دیا‘ جارح فوج کو 4959توپوں‘ 4736 ٹینکوں اور 3300 جنگی طیاروں کی سپورٹ حاصل تھی‘ یہ آئے اور پولینڈ میں مہینے میں ایک لاکھ 99 ہزار 700 لاشیں بچھا دیں اور یوں آرٹ‘ کلچر اور موسیقی کا مرکز پولینڈ ایک مہینے میں راکھ کا ڈھیر بن گیا‘ ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاشیں ہی لاشیں تھیں اور انھیں اٹھانے والا کوئی نہیں تھا‘ میں چھ بار پولینڈ گیا‘ میں جس شہر میں بھی گیا مجھے وہ وار میوزیم لگا‘ اس کی دیواروں پر 75 سال بعد بھی جنگ کے زخم تھے‘ آپ کو آج بھی وارسا اور کراکوف شہر کی گلیوں‘ بازاروں اور محلوں سے خون کی بو آتی ہے۔

    جنگ کیا ہوتی ہے آپ پولینڈ کے لوگوں سے پوچھیں‘ یہ آپ کو بتائیں گے جنگیں ہوتی کیا ہیں اور انسان کو ان سے کیوں نفرت کرنی چاہیے‘ آپ پولینڈ نہیں جا سکتے تو آپ یورپ کے کسی شخص‘ کسی خاندان سے پوچھ لیں ’’جنگ کیا ہے؟‘‘ آپ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھیں گے‘یورپ نے یکم ستمبر 1939ء سے دو ستمبر 1945ء تک مسلسل چھ سال جنگ بھگتی‘ ان چھ برسوں میں یورپ‘ امریکا اور جاپان کے 6 کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے‘ امریکا نے آخر میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم گرائے‘ ہیرو شیما میں دو منٹ میں ایک لاکھ 40 ہزار لوگ جب کہ ناگاساکی میں 75 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور جو زندہ بچے وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے‘ جنگ عظیم دوم میں یورپ کا کوئی شہر سلامت نہیں رہا تھا‘ بجلی‘ پانی‘ سڑکیں‘ ریل کا نظام‘ اسکول‘ کالج اور خوراک ہر چیز مفقود ہو گئی تھی۔

    آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی یورپ میں عالمی جنگوں سے قبل سور نہیں کھایا جاتا تھا‘ لوگ پورک سے نفرت کرتے تھے لیکن جب جنگوں کے دوران خوراک کی قلت ہو گئی تو لوگوں نے سور کھانے شروع کر دیے اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے پورک اب پورے یورپ کی خوراک بن چکا ہے‘ جنگ کے بعد یورپ سے مرد ختم ہو گئے تھے چنانچہ یورپ شادی کا سسٹم ختم کرنے پر مجبور ہوگیا‘ عورت صرف عورت اور مرد صرف مرد بن کر رہ گیا‘ آپ جنگوں کے دوران یہودیوں کی داستانیں پڑھیں‘ آپ اندر سے دکھی ہو جائیں گے‘ سیکڑوں ہزاروں یہودی خاندان دو دو برس گٹڑوں میں رہے‘ ان کی ایک پوری نسل گٹڑوں میں پیدا ہوئی اور اس نے سیوریج کا پانی پی کر کھڑا ہونا سیکھا‘ آپ یورپ کی پہلی جنگ عظیم بھی دیکھئے‘ یہ جنگ 28 جولائی 1914ء سے 11 نومبر 1918ء تک چار سال تین ماہ چلی‘ یورپ نے ان سوا چار برسوں میں ساڑھے چار کروڑ لوگوں کی قربانی دی۔

    یہ جنگ آسٹریلیا اور نیوزی کی ہر ماں کی گود اجاڑ گئی‘ ترکی کا جزیرہ گیلی پولی قبرستان بن گیا‘ آپ آج بھی جزیرے کے کسی کونے سے مٹی کی مٹھی بھریں‘ آپ کو اس میں انسان کے جسم کی باقیات ملیں گی‘ آپ ان باقیات سے پوچھیں‘ جنگ کیا ہوتی ہے؟ یہ آپ کو جنگ کا مطلب سمجھائیں گی اور آپ کو پھر بھی پتہ نہ چلے تو آپ ویتنام‘ افغانستان اور افریقہ کے جنگ زدہ ملکوں سے پوچھ لیں‘ ویتنام کے لوگوں نے ساڑھے 19 سال جنگ بھگتی‘ افغانستان پچھلے 35 برسوں سے لاشیں اٹھا رہا ہے جب کہ افریقہ کے ملکوں نائیجیریا‘ لائبیریا‘ سیرالیون‘ایتھوپیا‘ صومالیہ‘ یوگنڈا ‘ گنی اورسوڈان میں جنگ نے قحط کو جنم دیا اور یہ قحط اب افریقہ کے ہر شخص کی آنکھوں میں لکھا ہے‘ آپ ان آنکھوں سے پوچھ لیں جنگ کیا ہوتی ہے؟ یہ آپ کو بتائیں گی انسان جب اپنے والد‘ اپنے بچے اور اپنی بیوی کا گوشت ابال کر کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے یا یہ جب اپنے لخت جگر کو زخموں سے رہائی دلانے کے لیے گولی مارتا ہے تو اس کا دل‘ اس کی روح کہاں کہاں سے زخمی ہوتی ہے‘ یہ باقی زندگی کیسے زندہ رہتا ہے؟ یہ لوگ آپ کو بتائیں گے!

    ہم برصغیر پاک و ہند کے لوگوں نے بدقسمتی سے اصلی اور مکمل جنگ نہیں دیکھی‘ ہندوستان کی تمام جنگیں محدود تھیں‘ ہم پنجابی سینٹرل ایشیا کے ہر حملہ آور کا اٹک کے پل پر استقبال کرتے تھے‘ اسے ہار پہناتے‘ سپاہیوں کو خوراک اور گھوڑوں کو چارا دیتے تھے اور سیدھا پانی پت چھوڑ کر آتے تھے‘ یہ ہماری تاریخ تھی‘ تاریخ نے ایک بار پلٹا کھایا اور انگریز پانی پت سے لاہور آ گیا‘ ہم نے اسے بھی ہار پہنائے اور سیدھا جلال آباد جھوڑ کر آئے‘ انگریز باقی زندگی افغانوں سے لڑتے رہے اور ہم ان کے سہولت کار بنے رہے‘ ہم 1857ء کی جنگ آزادی کو ہندوستان کی عظیم جنگ کہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے‘ یہ جنگ دہلی سے 75 کلو میٹر کے فاصلے پر میرٹھ میں شر وع ہوئی اور دہلی پہنچ کر ختم ہو گئی۔

    یہ پوری جنگ دہلی کے مضافات میں لڑی گئی تھی اور پنجاب‘ سندھ‘ ممبئی‘ کولکتہ اور ڈھاکا کے لوگوں کو جنگ کی خبر اس وقت ہوئی جب ملبہ تک سمیٹا جا چکا تھا اور بہادر شاہ ظفر رنگون میں ’’ کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں‘‘ لکھ رہا تھا‘ ہم اگر 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کا تجزیہ بھی کریں تو یہ جنگیں ہمیں جنگیں کم اور جھڑپیں زیادہ محسوس ہوں گی‘ 1965ء کی جنگ چھ ستمبر کو شروع ہوئی اور 23 ستمبر کو ختم ہو گئی‘ پاکستان اور بھارت 17 دن کی اس جنگ کو جنگ کہتے ہیں‘ یہ دونوں ملک ہر سال اس جنگ کی سالگرہ مناتے ہیں‘ 65ء کی جنگ میں چار ہزار پاکستانی شہید اور تین ہزار بھارتی ہلاک ہوئے تھے‘ یہ جنگ بھی صرف کشمیر‘ پنجاب اور راجستھان کے بارڈر تک محدود رہی تھی‘ ہندوستان اور پاکستان کے دور دراز علاقوں کے عوام کو صرف ریڈیو پر جنگ کی اطلاع ملی جب کہ 1971ء کی جنگ تین دسمبر کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر کو ختم ہو گئی۔

    اس جنگ میں میں 9 ہزار پاکستانی شہید ہوئے اور 26 ہزار بھارتی اور بنگالی ہلاک ہوئے‘ آپ کسی دن ٹھنڈے دل کے ساتھ 13 اور 17 دنوں کی ان جنگوں کو یورپ کی چار اور چھ سال لمبی جنگوں اور ان تین ہزار‘ چار ہزار‘ 9 ہزار اور 26 ہزار لاشوں کو یورپ کی ساڑھے چار کروڑ اور چھ کروڑ لاشوں کے سامنے رکھ کر دیکھیں‘ آپ لاہور اور ڈھاکا پر حملے کو دیکھیں‘ آپ 1965ء کے پٹھان کوٹ اور چونڈا کے حملوں کو دیکھیں اور پھر ہیرو شیما‘ ناگا ساکی‘ پرل ہاربر‘ نارمنڈی‘ ایمسٹرڈیم‘ برسلز‘ پیرس‘ لندن‘ وارسا‘ برلن اور ماسکو پر حملے دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں ’’جنگ کیا ہوتی ہے؟‘‘ آپ کے جسم کا ایک ایک خلیہ آپ کو جنگ کی ماہیت بتائے گا‘ ہم دونوں ملک جنگ سے ناواقف ہیں‘ ہم جانتے ہی نہیں ’’جنگ کیا ہوتی ہے؟‘‘ چنانچہ ہم ہر سال چھ ماہ بعد ایٹم بم نکال کر دھوپ میں بیٹھ جاتے ہیں‘ بھارت ممبئی کے حملوں‘ پارلیمنٹ پر دہشت گردی‘ پٹھان کوٹ اور اڑی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد جنگ کی دھمکی دیتا ہے اور پاکستان معمولی واقعات پر ’’ہم نے یہ ایٹم بم شب برات پر چلانے کے لیے نہیں بنائے‘‘ کا اعلان کر دیتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں نہیں جانتے جنگ کیا ہوتی ہے‘ ایٹم بم کیا ہے اور یہ جب پھٹتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟۔

    میں بعض اوقات سوچتا ہوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ ہو جانی چاہیے‘ یہ دونوں ملک جی بھر کر اپنے جنگی ارمان پورے کر لیں‘ یہ اپنے سارے ایٹم بم چلا لیں تا کہ یہ ایک بار برصغیر کے 110 شہروں کو موہن جو داڑو بنا دیکھ لیں‘ یہ خیر پور سے گوا تک پانچ دس کروڑ لاشیں بھی دیکھ لیں‘ یہ عوام کو دوا اور خوراک کے بغیر بلکتا بھی دیکھ لیں‘ یہ زندگی کو ایک بار بجلی‘ ٹیلی فون‘ پانی‘ سڑک‘ اسپتال اور اسکول کے بغیر بھی دیکھ لیں اور یہ پچاس سال تک معذور بچے پیدا ہوتے بھی دیکھیں‘ یہ تب جنگ کو سمجھیں گے‘یہ اس کے بعد جاپان اور یورپ کے لوگوں کی طرح جنگ کا نام نہیں لیں گے‘ یہ اس وقت یورپ کی طرح اپنی سرحدیں کھولیں گے اور بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں گے اور یہ اس وقت اڑی اور کوئٹہ کو امن کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیں گے‘ راوی اس وقت چین ہی چین لکھے گا‘ اس سے پہلے ان بے چین لوگوں کو چین نہیں آئے گا‘ یہ ہیرو شیما اور وارسا بننے تک جنگ جنگ کرتے رہیں گے۔

  • اپنے گھوڑے تیار رکھّو-ہارون الرشید

    اپنے گھوڑے تیار رکھّو-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    پاکستان اس بحران سے انشاء اللہ سرخرو ہو گا۔ مقدمہ ہمارا مضبوط ہے اور وقت کا دھارا انشاء اللہ ہمارے حق میں بہے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کریں۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ فرمایا: اپنے گھوڑے تیار رکھّو!
    پندرہ برس ہوتے ہیں‘ باخبر اور نکتہ رس زہیر رانا نے بی بی سی بھارت پر ایک مباحثہ دیکھا۔ فعال طبقات سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے بھارتی‘ اتفاق رائے کے ساتھ انہوں نے قرار دیا کہ بھارت کو‘ پاکستان پر حملہ کر دینا چاہیے۔

    1947ء میں کشمیر پہ کس نے قبضہ کیا ۔ 1971ء میں پاکستان کو کس نے دولخت کیا ۔ بھارتی مسلمانوں کو شودروں سے بدتر حالت میں کس نے پہنچایا کہ فوج‘ سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں ان کا حصّہ برائے نام ہے۔ سیاچن اور سرکریک میں کس نے جارحیت کی۔ کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں دہشت گردوں کا مددگار کون ہے۔ ایران‘ افغانستان میں قونصل خانوں اور رابطہ افسروں کا جال کس نے بچھایا۔ ایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں جو پاکستان کو قصور وار سمجھتے ہیں۔ بھارتی نہیں‘ پاکستانی بزرجمہر۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت نے غلطیوں کا ارتکاب نہیں کیا‘ مشرقی پاکستان‘ مقبوضہ کشمیر اور کارگل میں۔ سوال یہ ہے کہ جارح کون ہے اور اپنے عوام کو کس نے جنگی بخار میں مبتلا کر رکھا ہے؟

    صرف اُڑی حادثے کے بعد‘ پاکستانی اور بھارتی میڈیا کا ایک جائزہ ‘ اس سوال کا مسکت جواب فراہم کرنے کو کافی ہے۔ بھارت میں اخبار نویس‘ حتیٰ کہ سنجیدہ صحافی‘ پاکستان کو سبق سکھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بالکل برعکس‘ پاکستانی صحافت امن کی حامی ہے ۔
    وزیراعظم نوازشریف نے سوال اٹھایا ہے کہ بارہ مولا میں بھارتی بریگیڈ پر خودکش حملے کے چند گھنٹے بعد ہی یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے ہے؟ بالکل بجاطور پر انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تحقیقات کے لیے چند گھنٹے نہیں کم از کم کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔

    پاکستان کی دفاعی پالیسی بھارت پر مرتکز (India Centric) ہے۔ این جی اوز کے کارندے اور بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر دانشور ارشاد کرتے ہیں۔ پانچ برس ہوتے ہیں یہی بات مائیکل ملن نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کہی تھی۔ ہمیشہ دلیل سے بات کرنے والے فوجی مدبر نے کہا : امریکیوں کو ایک نظر‘ بھارتی فوج کی Deployment پر ڈالنی چاہیے۔ کہاں کہاں ان کے دستے تعینات ہیں۔ پاکستان کی پالیسی‘ بھارت پہ مرتکز نہیں بلکہ پاکستان بھارت کے اعصاب پر سوار ہے۔

    ہیجان طاری ہو جائے یا اپنے تعصب اور مفاد کے لیے کوئی گروہ اندھا ہو جائے تو عقل رخصت ہوتی ہے۔ ہود بھائی سمیت ان دانشوروں کے انداز فکر کا جائزہ لیجئے‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت میں جو ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ آج یہی پروگرام برصغیر میں امن کی ضمانت ہے۔

    واشنگٹن کے بعد‘ ماسکو سے مراسم خراب ہونے کے بعد‘ چین نے ایٹمی پروگرام کا ڈول ڈالا۔ ایک موزوں پہاڑی مقام پر ایٹمی میزائل نصب کرنے کے بعد‘ انہوں نے امریکہ سے مراسم بہتر بنانے کا اشارہ دیا تو ہنری کسنجر منہ میں گھاس لے کر بیجنگ پہنچے۔ پاکستان ان مذاکرات کا رابطہ کار تھا۔ عالمی امن کے لیے اس نے ایک بے مثال خدمت انجام دی۔ ایک بار پھر امریکیوں کے سر میں انتقام کا سودا ہے۔ برطانیہ اس کا پوڈل ہے۔ اب کی بار ان کا مسئلہ چین کی فروغ پذیر معیشت اور دنیا بھر میں بڑھتا ہوا اس کا رسوخ ہے۔ بھارت اس لیے ان کا تزویراتی حریف ہے کہ نئے عالمی نظام (New World Order) میں‘ امریکہ اور اس کا پوڈل‘ ایک تھانیدار کا کردار چاہتے ہیں۔ جنوبی سمندروں کے تنازعے پر اسی لیے تیل چھڑکا گیا۔

    بھارتیوں کا خناس یہ ہے کہ وہ ایک عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ صرف اس لیے ان کی مددگار نہیں کہ چین کا گھیرائو مقصود ہے۔ بلکہ اس لیے بھی کہ مشرق وسطیٰ میں وہ اسرائیل کے بل پر غلبے کا آرزو مند ہے۔

    ایک ناجائز ریاست تشکیل دی گئی اور پورے کا پورا مغرب‘اس کی پشت پر آن کھڑا ہوا۔ ٹھیک اس وقت پاکستان وجود میں آیا۔ تب کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ ایک دن وہ ایٹمی پروگرام کے علاوہ دنیا کی بہترین لڑاکا فوج کا حامل ہو گا۔ چین اور ترکی کا حلیف۔بندوں کے اپنے منصوبے ہیں اور اللہ کے اپنے۔ فرمایا: مکروا و مکراللہ واللہ خیرالماکرین۔ انہوں نے تدبیر کی اور اللہ نے تدبیر کی اور بے شک اللہ ہی بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔

    پاکستان کی موجودگی میں‘ بھارت اس خطے کا آقا نہیں بن سکتا ۔بی بی سی کے لیے بھارتی اخبار نویس سوتک بسواس کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارتی عوام کارروائی کے خواہش مند ہیں مگر بھارتی فضائیہ‘ پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ امریکہ‘ چین اور سعودی عرب پر دبائو ڈالنا چاہیے۔ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔ اسے تنہا کر دیا جائے تو بھارت اپنی جنگ جیت لے گا۔

    نفرت اور تعصب کے باوجود‘ اس رائے میں احتیاط کی جھلک ہے۔ تاریخی شعور سے بے بہرہ تمام انتہا پسند وں کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ جو آگ وہ بھڑکا چکے آسانی سے اب بجھا نہیں سکتے۔ آزاد کشمیر یا کسی اور حصے میں چھوٹے سے کسی علاقے پر قبضہ کر کے‘ پاکستان کو بیچارگی میں مبتلا کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا اس لیے کہ بھارتی فوج اگر پاکستانی حدود کے اندر ہو تو اس چھوٹے جوہری بم کے خوف سے لرزتی رہے گی۔ لائن آف کنٹرول کوگرم کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے بہانے‘ بوفور توپوں سے بمباری بھی مگر اس کا جواب دیا جائے گا ۔ضروری نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں‘ جہاں عظیم اکثریت مسلمان ہے اور پہلے ہی زخم خوردہ ۔ بڑے پیمانے کی جنگ کا اندیشہ نہیں کہ دنیا اس کی متحمل ہے اور نہ بھارت۔ پاکستان کو مغلوب کرنے کی خواہش‘ بھارت میں بہت ہے مگر اس کی قیمت بہت ہو گی۔ شدید مشکلات میں وہ ہمیں مبتلا کر سکتا ہے مگر خود اپنی تباہی کو دعوت دے کر۔ پاکستان کے اندر اس کے ہتھیار کند ہو چکے۔ الطاف حسین کے ساتھ ”را‘‘ کا معاہدہ یہ تھا کہ جنگ کی صورت میں پاکستانی افواج کو کراچی کے ساحل سے محروم کر دیا جائے گا۔ محمود اچکزئی اور اسفند یار سمیت‘ دانشوروں کی کھیپ فکری اور نظریاتی انتشار پیدا کر سکتی تھی موجودہ حالات میں مگر وہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ امن ہی واحد راستہ ہے ۔مذاکرات ہی واحد راستہ۔

    بھارتی جنون برقرار ہے مقبوضہ کشمیر کے شہری قتل کئے گئے اور انہیں پاکستانی قرار دیا گیا آزاد کشمیر میں داخل ہو کر دہشت گردوں کو قتل کرنے کا دعویٰ سامنے آیا بعض بھارتی شہروں میں عام لوگوں کو جنگ کے لیے تیار رہنے کو کہا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی بحریہ کو انتہائی چوکس کر دیا گیا ہے، حملے یا پاکستان کا رخ کرنے والے بحری جہازوں کی راہ روکنے کے لیے؟
    بھارتی قیادت اپنے پیدا کردہ بھنور میں ہے بڑے پیمانے کی نہ سہی‘ اپنے ووٹروں کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے نریندر مودی کوئی احمقانہ حرکت ضرور کریں گے، خواہ یہ دہشت گردی کی کارروائیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ مذہبی فرقہ پرستوں‘ افغانستان کی این ڈی ایس ‘ طالبان یا کراچی میں بچے کھچے کارندوں کی مدد سے۔ ہر چیز کی مگر ایک قیمت ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں فاصلہ کم ہوا ہے۔ پہلی گولی چلتے ہی سیاسی آویزش ختم ہو جائے گی۔
    جارحیت کا اندیشہ ہے مگر پاکستانی قیادت ہیجان میں مبتلا ہے اور نہ عوام۔ ذہنی کشیدگی بھارت پر مسلط ہے۔ فوج پر ‘ سول قیادت پر‘ میڈیا اور بھارتی عوام میں ۔ خود کردہ را علاجے نیست ۔

    ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ عالمی میڈیا جنگ کا اہم ترین میدان ہے، حکومتیں اگر نہیں سنتیں تو مقبوضہ کشمیر میں خون ریزی اور ستم گری کے شواہد دنیا بھر کے میڈیا اور فعال طبقات تک پہنچاناچاہئیں ۔خود کشمیریوں کی طرف سے وزیراعظم کے خصوصی پیغام بروں کو جکارتہ ‘ استنبول ‘ ماسکو سمیت دنیا بھر کے دارالحکومتوں کا رخ کرنا چاہیے۔ ارکان اسمبلی نہیں‘ مشاہد حسین ایسے لوگ ‘ہنر مند اور فصیح۔
    پاکستان اس بحران سے انشاء اللہ سرخرو ہو گا۔ مقدمہ ہمارا مضبوط ہے اور وقت کا دھارا انشاء اللہ ہمارے حق میں بہے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کریں۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ فرمایا: اپنے گھوڑے تیار رکھّو!

  • دشمنی کا قرض-اسد اللہ غالب

    دشمنی کا قرض-اسد اللہ غالب

    1101601095-1

    بھارتی لالہ یہی سننا چاہتا تھا، سو اس نے سن لیا، ایک بار نہیں ، دو بار بلکہ بار بار سننے کو ملے گا۔

    آرمی چیف کے یوم دفاع کے خطاب نے پاکستانیوںکا ڈھیروں کے حساب سے خون بڑھا دیا۔اور بھارتیوں کا خون خشک کر دیا۔

    اس دعوے کی صداقت میںمجھے رتی بھر شک و شبہ نہیں، جنرل راحیل شریف نے جو کہا ہے ، وہ اسے۷ پورا کر کے دکھا سکتے ہیں۔اس پوزیشن میں تو ہم 1987 میں بھی تھے جب جنرل ضیاا لحق نے بھارت جا کر راجیو گاندھی کے کان میںکہا تھا کہ مہاراج! فوجیں سرحد سے پیچھے ہٹاتے ہو یا واپس جا کر نیوکلیئر بٹن دبا دوں، اور دنیا نے دیکھا کہ برا س ٹیکس کے پردے میںجس عیاری سے بھارت نے ہماری سرحدوںپر فوجیںمورچہ زن کی تھی، اسی پھرتی سے اس نے چھاﺅنیوں کی راہ لی۔2002 میں مبینہ ممبئی سانحے کا بدلہ لینے کے لئے بھارت نے ایک بار پھر جارحابہ انداز سے فوجیں سرحد پر لگا دیں،ا س کے وزیر دھمکی دے ہے تھے کہ وہ سرجیکل اسٹرائیک کر سکتے ہیں جس میں کم از کم مریدکے میں جماعت الدعوہ کے دفاتر یااسلام ا ٓباد میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا مگر پاکستان نے اس ازلی دشمن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے بزن کا اشارہ دے دیا،

    ہمارے متوالے ہوا باز چوبیس گھنٹے فضاﺅںمیں پہرہ دینے کے لئے اڑتے رہے،حتی کی بھارتی فوج کو ایک بار پھر خاک چاٹنا پڑی اورا سنے واپسی کی راہ لی، آج 2016 گزرنے کو ہے اور پوری دنیادہشت گردی کی جنگ ہار چکی ہے جبکہ صرف پاکستان فاتحانہ انداز میںمسکرا رہا ہے۔پاک فوج کا لوہا ساری دنیا مانتی ہے مگر بھارت ہمیں ایٹمی بلیک میلنگ کا شکار کررہا ہے،ا سے زعم ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی طاقت ہے تو یہ طاقت اس کے پاس بھی ہے، بس جیتے گا وہ جو پہل کرے گا، اور وہ پہل کے لئے پر تول رہا ہے، یہ ہے وہ خناس جو مودی کے ذہن کو خراب کر رہا ہے اور جس نے برصغیر کی ڈیڑھ ارب کی آبادی کی سلامتی کو داﺅ پر لگا رکھا ہے مگر جنرل راحیل نے ایک بار نہیں، کئی بار کہا ہے کہ جیسی جنگ چاہتے ہو، لڑ لیتے ہیں ،اب بھی انہوں نے یہی عزم دہرایا ہے کہ روایتی یا غیر روایتی ہر نوع کی جنگ کے لئے تیار ہیں۔دودن قبل انہوں نے کہا تھا کہ ہر دشمن کو پچھاڑنے کے لئے تیار ہیں۔

    جنرل راحیل کی جو نئی بات میرے دل کو لگی ہے ، وہ ہے قرض چکانے کا عزم ۔ میرے ذہن میں وہ سارے قرض گھوم گئے ہیں جو ہم نے بھارتی بنیئے سے چکانے ہیں۔اس نے آزادی کے فوری بعد حیدرا ٓباد دکن اور جونا گڑھ پر قبضہ کیا، پھرا سنے کشمیر میں فوجیں اتار دیں اور جب ہمارے مجاہدین نے اس سے دست پنجہ کیا تو پنڈت نہرو نے سلامتی کونسل کے سامنے داد فریاد کی ا ور جنگ بندی کی قرارداد اس شرط پر منظور کروا لی کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ آزادانہ ، غیر جانبارانہ استصواب کے ذریعے کروایا جائے گا، یہ وعدہ پورا نہیں ہوا، اب پہلا قرض یہ ہے کہ یا تو استصواب منعقد ہو یا پھر ہم اسے اسی انداز میں کشمیر سے باہر نکالیں جس طرح وہ یہاں گھس آیا تھا، اگر اسے جارحیت کا حق تھا تو ہمیںکیوںنہیں۔

    قرضے کی فہرست میں پاکستان کو دو لخت کرنا بھی شامل ہے۔بھارت نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ورغلایا ، انہیں دہشت گردی کی تربیت دینے کے لئے کلکتہ میں کیمپ قائم کئے، اور پھرمکتی باہنی کے دہشت گردوں کے شانہ بشانہ خود بھارتی افواج نے بھی مشرقی پاکستان پر یلغار کر دی اور بزور طاقت پاکستان کو دو لخت کر دیا، ہمیں اس سرینڈر کا بدلہ چکانا ہے۔

    بھارت نے 1984 میں چوروں کی طرح سیاچین میں ان موچوں پر قبضہ کر لیا جنہیںپاک فوج سردیوں کے پیش نظر ہمیشہ چھوڑ کر نیچے اترآتی تھی، ا س محاذ پر تب سے لڑائی جاری ہے اور یہ دنیا کا بلند تریں محاذ ہے،نواز شریف نے وزیر اعظم بننے سے قبل کہا تھا کہ ہمیںاپنی فوج وہاں سے نکال لینی چاہئے مگر بھارتی آرمی چیف اڑ گیا کہ پاکستان جائے، ہم نہیں جائیں گے۔اب پاکستان کو یہ قرض بھی اتارنا ہے ۔

    ایک قرض کارگل کے شہیدوںکا ہے۔انہوںنے برق رفتاری سے سیاچین کا بدلہ تو اتار لیا، جس طرح بھارت ہمارے متروکہ مورچوںمیں گھس آیا تھا،ا سی طرح ہمارے مجاہدین نے کارگل میں بھارتی متروکہ مورچے قبضے میں لے لئے اور بھارتی فوج نے اگلے موسم میں واپسی کی کوشش کی تو اسے تہہ تیغ کر دیا گیا، یہ تو ہمارے اپنے اندر کی پھوٹ تھی جس نے بھارت کو ایک ہاری ہوئی جنگ میں فتح دلوا دی۔ مگر کرنل شیر خاں نشان حیدر اور لا لک جان نشان حیدر کا خون اب بھی اس قرض کا بدلہ چکانے کا منتظر ہے۔

    سندھ طاس نے پاکستان کو کشمیر کے دو دریاﺅں کے پانی کا حق دیا تھا جو وقت کے ساتھ بھارت نے ہم سے چھین لیا اور ان دریاﺅں پرا س طرح کے بند باندھ لیئے کہ ان کاسارا پانی بھارت کے استعمال میں چلا گیا ہے ا ور پاکستان ان دریاﺅں کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ بھارت کی ا س آبی دہشت گردی کا بدلہ ہم نے نہ چکایا تو وہ وقت دور نہیںجب خدا نخواستہ پاکستان بنجر، بے ا ٓب و گیاہ اور ویران ریگستان میں تبدیل ہو جائے گا۔

    اور حالیہ قرض کی فہرست بہت لمبی ہے، یہ ستر ہزار شہدا کے خون کا قرض ہے جو دہشت گردی کی جنگ کی نذر ہوئے اور اب کسی کو شک نہیں رہا کہ دہشت گردوں کے پیچھے بھارت اور ا سکی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے، بھارتی وزیر اعظم نے خود اعتراف جرم کر لیا ہے اور وہ مستقبل کی دہشت گردی کے منصوبوں کو بھی عیاںکر چکا ہے جو بلوچستان، آزاد کشمیرا ور گلگت بلتستان میں شروع کئے جا ئیں گے۔
    آرمی چیف نے جو کہا ، اس پر میرا آنکھیںبند کر کے ایمان ہے، ہم یہ قرض اتار سکتے ہیں ۔آج یا کل، راحیل شریف یا ان کا جانشین، نواز شریف یا ان کا جانشین ۔یہ فیصلہ قوم کو کرنا ہے۔

  • وسعت اللہ خان ، ایم اے ، پی ٹی ایس ڈی-وسعت اللہ خان

    وسعت اللہ خان ، ایم اے ، پی ٹی ایس ڈی-وسعت اللہ خان

    wusat

    مرتا وہ نہیں جو مر جاتا ہے۔ مرتا  وہ ہے جو  مرنے والے کے بعد  بھی زندہ رہتا ہے۔

    یہ بات مجھے بھی رفتہ رفتہ سمجھ میں آئی تھی۔ بس آپ کو تصور کرنا پڑے گا ایک بم دھماکے کا، اندھا دھند فائرنگ کے ایک واقعہ کا اور پھر ان کا جو زخمی ہو گئے اور ان زخموں کے ساتھ  ایسے گردونواح میں زندہ ہیں کہ جس میں نفسا نفسی اور لپاڈکی کا خمیر ملا دیا گیا ہو۔ جگہ کی قید نہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور نام رکھ لیں یا چار سدہ یونیورسٹی یا گلشن اقبال پارک لاہور یا سول اسپتال کوئٹہ یا مردان کی کچہری کچھ  بھی۔ نام میں کیا رکھا ہے۔

    ایک برطانوی فلاحی ادارے ایکشن آن آرمڈ وائلنس نے دھشت گردی سے  جسمانی طور پر متاثر ہونے والوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعے میں پاکستانی متاثرین کی سمپلنگ کی گئی ہے اور بطور خاص ایسوں کی جو آئی ای ڈی (امپروائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس) کا نشانہ بنے۔

    آئی ای ڈیز ایسی اشیا کی شکل میں بنائے جاتے ہیں جنھیں دیکھ کے بظاہر شبہہ نہیں ہوتا کہ یہ بھی جان لیوا ہو سکتے ہیں۔ جیسے دیوار میں لگی اینٹ کو کھوکھلا کر کے اس میں بارود بھر دیا جائے اور پھر اسے دوبارہ دیوار میں چن دیا جائے اور پھر ریموٹ کنٹرول سے پھاڑ دیا جائے (یہ طریقہ عراق میں استعمال ہوا اور اب پاکستان تک آ گیا ہے)۔ یا پارکنگ میں کھڑی سیکڑوں موٹر سائیکلوں اور کاروں میں سے کوئی ایک پھٹ جائے۔ یا بچے نے راستے میں پڑا کھلونا اٹھا لیا اور وہ پھٹ گیا۔ یا ڈاک سے کوئی پیکٹ ملا اور وصول کرتے ہی اس نے آپ کا ہاتھ اڑا دیا۔ یا سبزیوں کا ٹھیلہ چلتے چلتے  اڑ گیا وغیرہ وغیرہ۔

    برطانوی فلاحی ادارے نے اپنی تحقیق کا موضوع آئی ای ڈیز کو اس لیے بنایا  کہ اس وقت دنیا میں جتنے بھی لوگ دھماکا خیز مواد سے زخمی ہوتے ہیں ان میں سے دو تہائی آئی ای ڈیز کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور نشانہ بننے والوں میں نوے فیصد عام شہری ہوتے ہیں۔ اس وقت چار ممالک کے شہری آئی ای ڈیز سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ پہلے نمبر پہ  شام، پھر عراق، پھر پاکستان اور پھر افغانستان۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پچھلے بارہ برس کے دوران  ایک لاکھ سے زائد افراد ان آئی ای ڈیز کی زد میں آ کر معمولی سے لے کے شدید زخموں تک کا شکار ہو چکے ہیں۔ (ان میں مرنے والے شامل نہیں)۔ زخمیوں کی اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل نہیں جو بارودی سرنگوں کا شکار ہوئے۔

    جو لوگ کسی بندوق کی گولی سے زخمی ہوتے ہیں ان کا علاج نسبتاً آسان ہے کیونکہ جسم پر گولیوں کے زخم عموماً  الگ الگ لگتے ہیں۔ لیکن خودکش بم یا آئی ای ڈیز سے لگنے والے زخم اور ان کے جسمانی و نفسیاتی اثرات خاصے پیچیدہ ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے علاج کے لیے خصوصی تربیت یافتہ طبی عملہ اور سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔ لیکن جن ممالک میں یہ سہولتیں موجود ہیں وہ ایسے حملوں کا بہت کم شکار ہوتے ہیں اور جن ممالک میں بنیادی طبی سہولتوں کے لالے ہیں سب سے زیادہ متاثرین بھی وہیں ہیں۔

    چنانچہ اب ہو یہ رہا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک جہاں صحت کی سہولتوں پر ویسے ہی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر رقم خرچ ہوتی ہے  سرکاری اسپتالوں پر ہر وقت دہشت گردی کے ہاتھوں زخمی ہونے والے کا بے پناہ دباؤ رہتا ہے اور ان علاج گاہوں کو جو تھوڑا بہت بجٹ ملتا ہے وہ ان زخمیوں کی دیکھ بھال میں صرف ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں باقی بیماروں کو بستر ملنے محال ہو جاتے ہیں۔ تنگ آ کے وہ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ صحت مند مسیحاؤں کے ہاتھوں بھی لٹ لٹا جاتے ہیں اور گھوم پھر کر دوبارہ گھر کے بستر پر اللہ کے آسرے کی لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے واپس پڑ جاتے ہیں۔

    مرنے والے کے ورثا کو ایک سہولت یہ ہوتی ہے کہ وہ رونے پیٹنے کے بعد خود کو زندہ رکھنے کی معاشی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں لیکن جس گھر میں کوئی واحد کفیل کسی بھی دن محنت مزدوری پر جاتے ہوئے اچانک کسی بم یا آئی ای ڈی کا شکار ہو کر ناکارہ ہو جائے اس کے گھر والوں پر دہری مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے۔ انھیں لازماً کوئی ایسا کام ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ اپنا پیٹ بھی بھریں اور بستر پر پڑے زخمی کماؤ پوت کا بھی علاج کروائیں۔ چنانچہ بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات فوراً پسِ پشت چلی جاتی ہیں۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملکوں میں کوئی یونیورسل ہیلتھ انشورنس تو ہے نہیں۔ سارا نظام ’’جو جتنا افورڈ کر سکے‘‘  کی بنیاد پر رواں ہے۔ گویا زندہ بھی اپنے خرچے پے رہو اور مرو بھی اپنے خرچے پے۔

    یونیورسل ہیلتھ انشورنس نظام نہ ہونے کے سبب زخمیوں کے ورثا اکثر مخیر حضرات کی راہ دیکھتے ہیں۔ کسی کو کوئی خدا ترس مل جاتا ہے بہت سوں کو نہیں ملتا اور پھر وہ کوئی قرضہ دینے والا ڈھونڈتے ہیں۔ ہاں واقعے کے فوراً بعد زخمیوں اور ان کے اہلِ خانہ کو شہرت البتہ مل جاتی ہے۔ ٹی وی رپورٹروں اور کیمروں کا چند گھنٹے کے لیے تانتا بندھ جاتا ہے۔ سماجی کارکن اور سیاستداں عیادت کے لیے آتے ہیں۔ گلدستہ زخمی کے سینے پے رکھ دیا جاتا ہے تا کہ فوٹو میں تھوڑا رنگ آ جائے۔ جذباتی حکومتیں فی زخمی ایک سے دس لاکھ روپے تک کی مالی امداد کا اعلان بھی کرتی ہیں۔ کوئی جوشیلا مقتتدر سیاستداں مرنے یا زخمی ہونے والے کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھانے کا اعلان بھی کر ڈالتا ہے۔ لیکن اگلا ہی دن ’’تو کون میں کون‘‘  کی سفاکی کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ حقیقت کا تپتا سورج متاثر اور اس کے اہلِ خانہ کو جھلسانا شروع کر دیتا ہے۔

    ابھی تو میں نے ان کا تذکرہ نہیں کیا جنھیں بظاہر کوئی جسمانی زخم نہیں۔ بس وہ اندر سے چھلنی ہو کر شدید ڈیپریشن کے آکٹوپس کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں اور یہ آکٹوپس ان روحانی زخمیوں کو  آہستہ آہستہ سینت سینت کے چباتا ہے۔

    حکومتوں کو یہ تو یاد رہ جائے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ایک سو سات ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے۔ ساٹھ ہزار جانیں گئی ہیں۔ مگر یہ کون یاد رکھے یا رکھوائے گا  کہ اٹھارہ کروڑ میں سے نو کروڑ افراد کو ان حالات نے پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے کنوئیں میں دھکا دے دیا ہے۔ یوں سمجھئے کہ پی ٹی ایس ڈی ذہنی عدم توازن کی بھول بھلئیاں میں داخلے کا صدر دروازہ ہے۔ پر سننے میں کانوں کو بہت بھلا لگتا ہے جیسے پی ٹی ایس ڈی کوئی اعلی تعلیمی ڈگری ہو۔ مثلاً وسعت اللہ خان ایم اے ، پی ٹی ایس ڈی…