ہوم << کھوٹے مسلمان - عزیر احمد خان

کھوٹے مسلمان - عزیر احمد خان

بچپن میں ایک واقعہ پڑھا تھا کہ کسی بازار میں روز مرہ کے سامان کے لیے ساتھ ساتھ دو دکانیں تھیں۔ ایک دکان کسی مسلمان کی ملکیت تھی اور دوسری ایک عیسائی کی۔ مسلمان کی دکان پر گاہکوں کا خاصا رش رہتا تھا۔ ایک دفعہ کوئی شخص مسلمان کی دکان پر گیا اور ضرورت کی کوئی چیزطلب کی۔ اس پر مسلمان نے جواب دیا کہ وہ چیز میرے پاس موجود تو ہے مگر بہتر ہے کہ آپ وہ ساتھ والی دکان سے لے لیں جس کا مالک عیسائی تھا۔ گاہک نے اس کی وجہ پوچھی تو مسلمان دکاندار نے بتایا کہ آج صبح سے کافی گاہک اس کی دکان پر آ چکے ہیں اور اس کی اتنی آمدن ہو چکی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی روزی روٹی کا انتظام کر سکے، اس کے برخلاف ساتھ والے عیسائی دکاندار کے پاس صبح سے کوئی بھی نہیں آیا تو بہتر ہے کہ آپ یہ چیز اس سے خرید لیں تا کہ اس کا بھی گزارہ ہو سکے۔
یہ بات سن کر گاہک ساتھ والے عیسائی دکاندار کے پاس چلا گیا اور اس سے وہ چیز طلب کی۔ ظاہر ہے عیسائی دکاندار ساری کارروائی دیکھ رہا تھا تو اس نے گاہک سے پوچھا کہ آپ تو ابھی ساتھ والی دکان میں گئے تھے اور وہ چیز وہاں موجود بھی ہے تو پھر میرے پاس کیوں آئے۔ اس سوال کے جواب میں گاہک نے ساری روداد سنا دی اور وہ عیسائی اس بات کو سن کر اتنا متاثر ہوا اور فوراََ ہی کلمہ پڑھ کر دینِ اسلام میں داخل ہو گیا۔
مسلمانوں کا یہ اعلیٰ اخلاق تھا جس کی وجہ سے اسلام دنیا کے کونے کونے میں پھیلا۔ اسلام کی فتح اگر تلوار اور طاقت کے زور سے ہونی ہوتی تو جنگیں تو پہلے بھی ہوا کرتی تھیں۔ لڑائی تو حضرت آدمؑ کی اولاد سے ہی شروع ہو چکی تھی مگر یہ صرف اور صرف مسلمانوں کا اعلیٰ اخلاق تھا جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا اور لوگوں کو وہ احساس ِ تحفظ اور اپنائیت ملا کہ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ غزوہ بدر کے بعد کا ہے کہ جب قیدیوں کو اناج سے بنی روٹی پیش کی گئی اور ان قیدیوں نے دیکھا کہ مسلمان خود کھجور اور پانی پر گزارہ کر رہے ہیں اور انہیں کھانے کے لیے روٹی پیش کر رہے ہیں اور جب ایک قیدی نے حفاظت پر مامور ایک صحابی سے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیاکہ آپؐ کا یہ حکم ہے کہ قیدیوں کا اچھے طریقے سے خیال رکھا جائے، اب کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ سب روٹی کھا سکیں تو ہم قیدیوں کو روٹیاں دے کر خود کھجور پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات تاریخ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔
اب آئیے آج کی صورتحال کی طرف، کچھ دن پہلے ہمارے ٹی وی چینلز پر وہ ویڈیوز نشر کی گئیں جس میں دشمن کے فوجیوں کو ٹارگٹ کر کے دکھایا گیا، نہ صرف یہ، بلکہ کوئی ”بھارت باز آجا“ کی تحریک چلا رہا ہے اور کوئی ”رونا بند کرو“ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اس موقع پر میرا صرف اور صرف ایک ہی سوال ہے کہ ایسی قوم کہ جس کی میراث میں ایسی عظیم اخلاقی مثالیں موجود ہوں، کا ایسا طرز عمل ہونا چاہیے؟
میں مانتا ہوں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے، اگر دشمن ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کرے تو ہمیں اس کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے، ہمیں اپنے دفاع کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے اور دشمن کو اس بات کا مکمل احساس بھی ہونا چاہیے کہ اس کا مقابلہ دفاعی لحاظ سے انتہائی مضبوط قوم سے ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ دشمن کو اس بات کا احساس بھی ہونا چاہیے کہ اس کا مقابلہ اخلاقی لحاظ سے بھی انتہائی مضبوط قوم کے ساتھ ہے۔ کسی انسان کو قتل کر کے اس کا کلیجہ چبا دینے سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا مگر اگر اس قاتل کے گھر کو بھی اگر میرے نبیؐ نے دارالامان قرار دیا ہے تو ہمیں بھی اس کے امتی ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔
دشمن سے نفرت بھی کریں اور اس سے جنگ کے لیے بھی تیار رہیں مگر خدارا اخلاق کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیں، دشمن کو قتل ضرور کریں مگر اس طرح بار بار ویڈیو چلا کر اس کی تذلیل نہ کریں۔ یہ بات تو عام انسان بھی جانتے ہیں کہ جنگوں میں مارے جانے والوں کی لاشوں کا احترام کیا جاتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے سپاہی کوئی ذاتی لڑائی نہیں لڑ رہے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ان کی میت کا احترام کریں۔ یوں جلی اور کٹی پھٹی لاشیں سرعام میڈیا پر دکھا کر ہم کیا ثابت کر نا چاہتے ہیں؟ کیا اس سے نفرت کم ہو گی یا نفرت بڑھے گی؟
خدارا ہوش کے ناخن لیں، اور اخلاق کے دامن کو ہاتھ سے مت چھوڑیں، اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر یہ خدا کے نام پر لڑائی کا نعرہ بھی مت لگائیں، اپنے مذہب کو بدنام بھی مت کریں۔ وہ واقعہ تو مشہور و معروف ہے کہ حضرت علیؑ نے صرف اس لیے تلوار میان میں ڈال دی کہ اب اس کافر نے میری طرف تھوکا ہے اور اگر اب میں نے اسے قتل کیا تو کہیں اس میں میرا ذاتی غصہ وجہ نہ بن جائے۔ اسلام تو وہ دین ہے کہ جس میں اگر کوئی غیر مسلم موت کو پہنچتا ہے تو مسلمان اس بات پر غمگین ہوتا ہے کہ آپؐ کا امتی بغیر ایمان کی دولت کے مر گیا۔
اگر تو آپ اس اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو پھر تو آپ قرآن کی آیتوں پر اپنے نعرے بنائیں، صحابیوں کے نام پر اپنے دوستوں کے نام رکھیں اور شہیدوں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھیں، اگر اتنی ہمت نہیں ہے تو دنیا کی طرح اپنے ملک کی خاطر جو کرنا ہے کریں مگر اسلام کا نام استعمال نہ کریں، کیونکہ اس طرح کی غیرت جس کا مظاہرہ آج کل دیکھنے کو مل رہا ہے، آپ کو اچھا پاکستانی تو بنا سکتی ہے مگر یہ اچھا مسلمان کبھی نہیں بنا سکے گی اور ہم سب ”کھوٹے مسلمان“ رہیں گے۔

Comments

Click here to post a comment