Tag: جمہوریت

  • جمہوریت کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہو گا-اوریا مقبول جان

    جمہوریت کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہو گا-اوریا مقبول جان

    orya

    یوں لگتا ہے یہ ہمارا قومی رویہ ہے کہ اگر کوئی ہماری خامیاں بیان کرے‘ ہماری خرابیوں اور غلطیوں کے بارے میں سوال کرے تو ہم اس کا جواب دینے کے بجائے مخالف کی خامیاں‘ خرابیاں اور غلطیاں گنوانے لگ جاتے ہیں۔ سیاست دانوں میں تو یہ رویہ آپ کو ہر ٹی وی کے ٹاک شو میں بدرجہ اتم نظر آئے گا۔

    اس رویے پر ہمارے دانشور‘ تجزیہ نگار اور کالم نگار اکثر تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کبھی کسی نے ان کے نظریات و خیالات کی خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی‘ انھوں نے بھی اس کا جواب دینے کے بجائے تنقید کرنے والے کے نظریات و خیالات کے لتے لینے شروع کر دیے۔ اس رویے میں کمال ان دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے جو جمہوری نظام کے مدح خواں ہیں اور اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔

    اگر جمہوریت سے جنم لینے والی ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کے بارے میں گفتگو کی جائے تو وہ اس بہت بڑی اور بنیادی خرابی کا جواب نہیں دیں گے بلکہ فوراً اپنے آپ کو امت مسلمہ سے خارج کر کے پوری اسلامی تاریخ میں پائے جانے والی خرابیوں کا ذکر اس انداز سے کریں گے جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر تم جمہوریت نہیں مانتے ہو تو بتاؤ مسلمانوں نے خود کونسے کارنامے تاریخ میں چھوڑے ہیں اور کونسی قابل تقلید طرز حکومت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انھیں جمہوری نظام میں دفاع کے قابل صرف ایک ہی خوبی نظر آتی ہے کہ اس کے ذریعے ایک بدترین حاکم کو پانچ سال بعد حکومت سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے جب کہ آمریت میں تو آدمی قابض ہو جائے تو پھر یا مرنے سے جاتا ہے یا پھر جنگ و جدل سے۔

    کاش وہ تاریخ کے یہ ورق بھی الٹتے کہ خلافت کے اعلیٰ و ارفع نظام کے تیس سال سید الانبیاءﷺ کے تخلیق کردہ معاشرے کی مرہون منت تھے‘ جو تعصبات سے بالاتر تھا‘ ذمے داری کے خوف سے عہدہ لینے سے دور بھاگتا تھا۔ اپنے جانشین اولاد نہیں‘ اہل لوگوں کو چنتا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ رائے یا ووٹ کے لیے جاننے اور نہ جاننے والے کے درمیان تمیز رکھتا تھا۔ یہ ایک ایسا جمہوری معاشرہ نہیں تھا جس میں عظیم دانشوران اور مداحین جمہوریت کی رائے یا ووٹ ڈیڑھ سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کے برابر ہوتا ہے۔ جہاں ایک تہجد گزار‘عابد و زاہد اور ہیروئن کا دھندہ کرنے والے سے حکومت چلانے کے لیے برابر رائے لی جاتی ہے اور ان کا وزن بھی برابر ہوتا ہے۔

    ہم اپنا کاروبار چلانے‘ اپنی اولادوں کا رشتہ کرنے‘ بازار سے کوئی چیز خریدنے کے لیے بھی ان سے رائے لیتے ہیں جنھیں اس کا علم اور تجربہ ہوتا ہے۔ذاتی معاملات میں ہم جمہوری مزاج اور جمہوری رویے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی مالک نے اپنی فیکٹری کے مزدوروں سے ووٹ لے کر یہ فیصلہ کیا ہو کہ نیا یونٹ لگاؤں یا نہ لگاؤں‘ تمام جاننے والوں سے ووٹ لے کر بیٹی کا رشتہ کیا ہو‘ یا پھر محلے بھر کے افراد سے اکثریتی رائے کی بنیاد پر مکان میں ایک کمرے کا اضافہ کیا ہو۔ دنیا کے تمام انسانوں کی زندگیاں ہر معاملے کے بارے میں اہل الرائے یعنی رائے دینے کی اہلیت رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کے درمیان تقسیم ہوتی ہیں۔

    امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک دنیا کے کسی ملک میں بھی کوئی شخص اپنے ذاتی معاملے میں اس شخص سے رائے نہیں لے گا جو اس معاملے میں جاہل اور لاعلم ہو۔ لیکن جمہوریت کا یہ نظام انسانی رویوں کے بالکل برعکس تخلیق کیا گیا۔ لیکن میرے اللہ نے تو انسانوں کی درجہ بندی کر رکھی ہے۔’’اے نبی‘ کہہ دو‘ کوئی برابر ہوتے ہیں سمجھ والے اور بے سمجھ‘ اور سوچتے وہی ہیں جن کے پاس عقل ہے (الزمر۔9)۔ ایک اور جگہ تو اللہ نے واضح اعلان کر دیا۔ ’’اے نبی ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا فریفتہ کرنے والی ہو۔

    بس اے لوگو‘ جو عقل رکھتے ہو‘ اللہ کی نافرمانی سے بچو‘ امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی (المائدہ 100)۔ اللہ نے بار بار قرآن پاک میں انسانوں کی اکثریت کو نہ جانے والے‘ نہ شعور رکھنے والے اور نہ عقل رکھنے والے کہا ہے بلکہ رسول اکرمﷺ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ’’اے نبی اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو گے جو زمین پر بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں (الانعام:116)۔ یہی اکثریت کا ظلم و ناانصافی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں اقلیت سہہ رہی ہے اور اب امریکا کے عوام اس کا مزہ چکھیں گے۔

    جمہوریت کیسے آہستہ آہستہ اکثریت کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ تم اس ملک پر اپنی آمریت قائم کر سکتے ہو‘ امریکا میں ڈالے گئے گزشتہ سولہ سال کے ووٹوں کا PEW نے تجزیہ کیا ہے۔ یہ امریکا کا سب سے معتبر تحقیقی ادارہ ہے۔

    اس کے نزدیک سفید فام مذہبی تعصب نے ٹرمپ کی صدارت کی راہ ہموار کی۔ یہ تعصب 2000 کے الیکشن سے آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا اور اب یہ امریکی سیاست پر مکمل طور پر چھا گیاہے۔ جارج بش نے دوسری دفعہ جب 2004 میں الیکشن لڑا تو اسے سفید فام ایویلنیجکل عیسائیوں نے 78فیصد ووٹ دیے اور کیری کو 21فیصد‘ پروٹسنٹ عیسائیوں نے بش کو59فیصد اور کیری کو 40 فیصد سفید فام کیتھولک عیسائیوں نے بش کو56فیصد اور کیری کو 43فیصد جب کہ یہی کیتھولک اگر لاطینی امریکی یعنی ہسپانوی تھے تو انھوں نے بش کو 33فیصد اور کیری کو 65فیصد ووٹ دیے۔

    لوگ جو مذہب کو نہیں مانتے تھے ان میں سے 67فیصد نے کیری کو 31فیصد نے بش کو ووٹ دیا۔ چونکہ بش ایک شدت پسند اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا علمبردار تھا‘ اس لیے سفید فام عیسائی اکثریت نے اسے منتخب کروایا۔ یہ تعصب آہستہ آہستہ نکھرتا گیا اور ٹرمپ کو سفید فام ایویلنیجکل عیسائیوں نے 81فیصد‘ پروٹسنٹ عیسائیوں نے 58فیصد‘ سفید فام کیتھولک نے 60فیصد‘ اور عیسائیوںکے ایک صوفیانہ گروہ مورمون Mormon نے 61فیصد ووٹ ڈالے جب کہ ہلیری کلنٹن کو لا مذہب لوگوں نے 68فیصد اور ہسپانوی عیسائیوں نے 67فیصد ووٹ ڈالے۔ ٹرمپ امریکی جمہوریت میں سفید فام عیسائی اکثریت کے تعصب کو آہستہ آہستہ اس مقام پر لانے کی علامت ہے جہاں کئی سو سال بعد گوروں نے ایک بار پھر امریکا کو فتح کیا ہے اور یہ صرف ایک جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے۔

    جمہوریت کی جب بات ہوتی ہے تو اس کی اعلیٰ صفات اور اقدار کی بات ہوتی ہے‘ کوئی دنیا میں نافذ بدترین جمہوری حکومتوں کا ذکر نہیں کرتا‘ اچھی مثالیں دے کر ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ بہتر نظام ہے‘ آمریت کو گالی دینا ہو تو کسی کو سنگاپورکا لی کوآن ہوا یاد نہیں آتا‘ کوئی مہاتیر محمد کا نام نہیں لیتا جو اقتدار چھوڑ رہا تھا تو قوم رو رہی تھی۔ کوئی معیشت دانوں کے بتائے اس اصول کو بیان نہیں کرتا کہ قوموں کی ترقی ہمیشہ ایک خیرخواہ (Benevolent) آمر کے زمانے میں ممکن ہوتی ہے۔

    کوئی چین کی ترقی کا ذکر نہیں کرے گا۔ اسلام میں رائے کے لیے ایک معیار مقرر ہے۔ اگر ووٹ دینے کے لیے 18سال کی عمر کی شرط رکھی جا سکتی ہے تو پھر مزیدشرائط کے طور پر پڑھا لکھا ہونا‘ ایماندار ہونا‘ جرم سے پاک ہونا جیسی شرائط رکھ کر ووٹنگ کارڈ بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کوئی مشکل کی بات نہیں۔ یہ سب ممکن ہے اگر نیت نظام کے نفاذ کی ہو۔ آمریت میں تو آمر کے خلاف جلوس نکال کر تحریک چلا کر اسے نکالا جا سکتا ہے کیونکہ آمر ایک گالی ہوتا ہے۔ لیکن اگر جمہوریت میں اکثریت کی آمریت نافذ ہو گئی اور پھر وہ تاریک رات کی طرح سالوں پر محیط ہو گئی تو ایسے ظالموں کو تخت سے کون اتارے گا۔

    اقلیت کو اکثریت کے عذاب سے نجات کون دلائے گا‘ کیا ملک سے وہ ہجرت کر جائیں جیسے ٹرمپ کے جیتنے کے بعد امریکا کے عوام نے کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں شہریت کی اتنی درخواستیں جمع کروائیں ہیں کہ ان کے سسٹم بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے ان ملکوں میں جانے سے اگر وہاں بھی اکثریت کا تعصب جاگ گیا تو پھر کیا ہو گا۔ میرے عظیم دانشور کندھے اچکا کر کہیں گے جمہوریت میں اتنا تو برداشت کرنا ہو گا۔لیکن جو اپنا جمہوری وطن چھوڑ کر بھاگے اور دوسرے جمہوری ملک میں بھی اکثریت کی آمریت کے ظلم کا شکار ہو گئے تو ان کے لیے بقول ذوق

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

  • اوریا مقبول جان نےجمہوریت اور جمہوری نظام کا پردہ چاک کردیا

    اوریا مقبول جان نےجمہوریت اور جمہوری نظام کا پردہ چاک کردیا

    اوریا مقبول جان جمہوریت کا ضمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ الیکشن ہوں یا پارٹی سیاست، معاشرے میں موجود تضادات، تعصبات،گروہی اختلافات حتیٰ کہ ذاتی اور خاندانی دشمنیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا نام جمہوریت ہے۔ جب تک کسی بھی معاشرے کو دو یا دو سے زیادہ انتہاؤں میں تقسیم نہ کر دیا جائے جمہوری نظام کا پودا ثمر آور نہیں ہو سکتا۔ جیسا معاشرہ ہوگا ویسے ہی تعصبات جمہوری طرز سیاست میں کھل کر سامنے آتے جائیں گے۔ اگر معاشرے میں نظریاتی اور اعلیٰ انسانی مقاصد کے حصول کی سوچ میں اختلاف رکھنے والے اکثریت میں ہوں گے تو انتخابات اور پارٹی سیاست میں بھی ویسی ہی سوچ غالب رہے گی۔

    ایک گروہ اخلاقی اقدار، معاشرتی اصلاح اور قدیم خاندانی طرز زندگی کے احیاء کی بات کرے گا تو دوسرا معاشی ترقی، انسانی حقوق اور جدید بےلگام بدلتی اقدار کی حمایت میں آواز بلند کرے گا۔ نظریات کی یہ لڑائی جمہوری سیاست میں دونوں گروہوں کو اس قدر سخت مؤقف اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کوئی اپنی بات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں معاشرہ نظریاتی سیاست کے بجائے روایتی گروہی سیاست کا امین ہو اور دنیا کے اکثر معاشرے اسی طرح تقسیم ہوئے ہیں، وہاں جمہوری سیاست تعصبات، نفرت، غصہ، انتقام اور تصادم کے عروج پر ہوتی ہے۔

    گزشتہ تین سو سال کی جمہوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نظام نے انسانی حقوق، عدل و مساوات، عوام کی بالادستی اور آمریت سے نجات کے جو کھوکھلے نعرے بلند کیے تھے، وہ سب کے سب وقت گزرنے اور اس نظام کے بالغ ہونے کے ساتھ ہی تعصبات اور نفرتوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ ہر ملک کے جمہوری سیاسی نظام نے لوگوں کو ایک سبق سکھایا کہ یہ الیکشن سسٹم اور پارٹی سیاست تمام عوام کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ اکثریت کی بدترین آمریت کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی ایک گروہ جس کی اکثریت ہے اگر وہ کسی دوسرے کمزور اور چھوٹے گروہ کے خلاف متحد ہو جائے تو پھر وہ اسے جمہوری طور پر شکست دے کر اس کا جینا دوبھر کر سکتا ہے۔

    امریکی معاشرے کی دو سو تیس (230) سالہ جمہوری تاریخ کا نچوڑ آخر کار یہ نکلا کہ وہ تمام تر تعصبات اور نفرتیں جو دلوں میں موجود تھیں، انھوں نے جمہوری منافقت کا لبادہ تار تار کر دیا اور سفید فام اکثریت نے متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاہ فام امریکیوں، مسلمانوں اور تارکین وطن کی اقلیت کو کیسے شکست دیتے ہیں اور پورے امریکی معاشرے پر کیسے اپنے تعصب کا راج نافذ کرتے ہیں۔

    دنیا کا ہر جمہوری ملک اب اسی راستے پر گامزن ہے اور اس کا آغاز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سے ہوا تھا۔ وہ ملک جس کی سیاست کی بنیاد اس منافقت پر مبنی تھی کہ وہ سیکولر ہیں، تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ انسانوں کو رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر برابر سمجھتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو اس جمہوری سیاست اور جمہوری نظام کا کہ اس نے بار بار کے انتخابات سے بھارت میں موجود ہندو اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ اگر تم ہندو مذہب کے نام پر اکٹھا ہو جاؤ تو پھر تمہیں کوئی الیکشن میں شکست نہیں دے سکے گا۔ کوئی تمہیں اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکے گا۔ پھر وہی ہوا، جمہوری بھارت کی تخلیق کے ٹھیک انچاس (49) سال بعد 19 مارچ 1998ء میں متعصب ترین ہندو تنظیموں کی آشیرباد اور ہندو اکثریت ووٹ کی بدولت اٹل بہاری واجپائی ایک ہندو ’’مُلا‘‘ کی نفسیات لے کر حکمران بنا۔ لیکن ابھی جمہوری نظام کی منافقت جاری تھی۔ ابھی سیکولرازم، برابری اور انسانی حقوق کے نعروں کے بغیر پارٹی چلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ابھی شاید ہندو اکثریت کے دماغ میں اپنی اکثریت کی آمریت کے نفاذ کا سودا نہیں سمایا تھا، لیکن جمہوری انتخابات نے اس تعصب کو اور نکھار دیا، اور سنوار دیا۔ گجرات کی ریاست میں اسی بدترین ہندو اکثریت کی جمہوری آمریت نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کی صورت موجود تھی۔ اس نے جس طرح مسلمان اقلیت کے خون سے ہولی کھیلی، اس جمہوری تجربے نے پورے بھارت کے ہندو ووٹر کو یقین دلا دیا کہ اگر تم اکٹھے ہو جاؤ تو پھر ان مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کو کیسے غلام بنا سکتے ہو، کیسے ان کا قتل عام کرنے کے باوجود بھی ڈکٹیٹر نہیں، جائز جمہوری حکمران کہلا سکتے ہو۔ پھر وہی ہوا، گجرات کی جمہوری اکثریت کی آمریت پورے بھارت پر نریندر مودی کی صورت میں نافذ کر دی گئی۔

    بھارت کا جمہوری معاشرہ اپنے تعصبات کو نکھارنے اور سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں صرف پچاس سال میں کامیاب ہو گیا جبکہ امریکی معاشرے کو سفید فام اکثریت کے تعصبات کو نکھارنے، سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں دو سو تیس (230) سال لگ گئے اور بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ اور سوئے ہوئے امریکی سفید فام کے اندر چھپے ہوئے رنگ کے تعصب اور اس سوئے ہوئے امریکی عیسائی کے اندر سے مذہبی تعصب کو جگانے میں کامیاب ہو گیا اور آج جمہوریت کی معراج یعنی اکثریت کی آمریت امریکا میں نافذ ہو گئی۔

    امریکی معاشرے کے تعصب کے بارے میں ایک ایسی خاتون مصنفہ کا تبصرہ ان دنوں انتہائی مقبول ہے جس نے امریکی معاشرے کے تعصبات کو انتہائی نچلی سطح پر  پرکھا، دیکھا اور برتا ہے۔ بیتھنی سینٹ جیمز (Bethany St. James)۔ بیس سال تک Escort Service یعنی قانونی طوائف کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون جسے امریکی معاشرے میں آج بھی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اس نے اپنا یہ پیشہ ترک کیا۔ ایک چرچ میں جاکر مذہبی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکی معاشرے کی غلاظتوں پر مضامین لکھنے شروع کیے۔ اس نے اپنے تمام مضامین میں امریکی معاشرے کے اندر چھپے ہوئے تعصبات کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی اس کوشش کو ”Existance of Endurance” ’’یعنی برداشت کا وجود‘‘ قرار دیتی ہے۔

    اس نے امریکی معاشرے کی تصویر اپنے ایک مضمون Stereotyping and Prejudice in Beleive and Well in American Socity (امریکی معاشرے میں تعصبات اور لکیر کی فقیر زندگی بہت اہم ہیں)۔ اس مضمون میں وہ امریکی عوام کے تعصبات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔ ’’تمام اعلیٰ مقام اور پیشہ ور خواتین کنواری اور تنہا ہوتی ہیں۔ تمام لاطینی امریکی غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ تمام سفید فام اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ تمام ہم جنس پرست مرد بزدل اور نسوانی ہوتے ہیں۔ تمام عیسائی بائبل کا پرچار کرتے ہیں اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرتے ہیں۔ تمام سیاہ فام افریقی امریکی خیرات پر پلتے ہیں۔ تمام نیویارک کے رہنے والے اکھڑ اور بدتمیز ہیں اور تمام سیاستدان چالباز اور فراڈ ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہے کہ ان فقروں کے پڑھنے کے بعد آپ کے جسم میں ایک سنسنی ضرور دوڑی ہوگی۔ لیکن یہ امریکی معاشرے کی ایک بدترین حقیقت ہے اور یہ میں نے اپنی زندگی کے ان تجربات سے نچوڑی ہے جو مجھے ہر طرح کے امریکی کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحات میں حاصل ہوئے۔ اس نے اپنا شہرہ آفاق مضمون Steady Decline of Affection in America ’’امریکا میں جذبہ ترحم کا خاتمہ‘‘ لکھا تو ٹیلی ویژن پر اسے بلا کر رگیدنا  شروع کیا گیا۔ اس نے کہا کہ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ جب امریکیوں کی اکثریت یہ ماننے سے کو تیار نہ تھی کہ ایک طوائف بھی پڑھی لکھی ہو سکتی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ نہیں کیا۔ اس نے امریکی معاشرے میں تعصبات کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس کو معلوم ہوگیا کہ امریکا کا انسانی حقوق، برابری و مساوات اور جذبہ خیر خواہی کا لبادہ ایک منافقت ہے۔ امریکی سفید فام متعصب ہے، امریکی عیسائی مذہبی منافرت پر یقین رکھتا ہے اور امریکی عوام ایک اہم عہدے اور پیسے کے اعتبار سے کامیاب خاتون کو تنہا اور خاندانی طور پر ناکام تصور کرتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے ان تعصبات کو نعرہ بنا لیا تو پھر جمہوریت اور جمہوری نظام کا تو خمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ وہاں فتح اسی تعصب کی ہوتی ہے جس کی اکثریت ہو۔ اکثریت کا تعصب، اکثریت کی جمہوری آمریت قائم کرتا ہے اور بالآخر منافقت کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہ صرف ابھی دو جمہوریتوں بھارت اور امریکا میں ہوا ہے۔ باقیوں کا انتظار کرو۔

  • جمہوریت: کرپشن سے ہیر پھیر سے کارپوریٹ فنڈنگ تک – محمد زاہد صدیق مغل

    جمہوریت: کرپشن سے ہیر پھیر سے کارپوریٹ فنڈنگ تک – محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جمہوری نظام میں ”حکومت بنانا“ عام بندے کے بس کی بات نہیں، یہ امیروں کا کھیل ہے۔ یہ کھیل متعدد طرح سے کھیلا جاتا ہے۔

    • پارٹی کے لیڈران نہایت امیر لوگ ہوں۔ یہ امیر لوگ ایک پارٹی فنڈ بھی قائم کرتے ہیں جس کا مقصد الیکشن کے دنوں میں چند بااثر مگر نسبتا کم امیر امیدواروں کو سپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہ جمہوریت کا بالکل ابتدائی دور ہوتا ہے۔

    • جمہوری سیاست چونکہ کل وقتی پیشہ ہے اور بہت قربانی مانگتا ہے نیز الیکشن میں لگائی گئی رقم جوئے میں لگائی گئی رقم کی طرح آر یا پار نوعیت کی ہوتی ہے (سوچیے عبدالعلیم خان نے لاہور کے ضمنی الیکشن میں کتنے کروڑ روپے ہارے!) لہذا یہ رقم انویسٹمنٹ ہوتی ہے جس پر مختلف انداز میں ریٹرن کمایا جاتا ہے۔

    • اس ریٹرن کی بعض صورتیں ”ننگی کرپشن“ شمار ہوتے ہیں، مثلا رشوت و کمیشن۔ جمہوری پراسس جوں جوں آگے بڑھتا ہے، اس قسم کی ننگی کرپشن کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ لہذا وقت کے ساتھ ”ہیر پھیر“ کی نسبتا پیچیدہ مگر قانونی شکلیں ایجاد کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی عام صورتیں کک بیکس، ذاتی کاروبار کے ٹھیکے، سہولیات، لائسنس و قرضے وغیرہ ہوتی ہیں۔ اس قسم کی صورتیں بالعموم قانون کے دائرے کے اندر ہوا کرتی ہیں۔

    • جمہوری حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس قسم کے ”قانونی فوائد“ کو عوام سے چھپایا جائے مگرمیڈیا ”عوام کا شعور بیدار کرنے“ کے نام پر حکمرانوں کو بلیک میل کرنے کی غرض سے ایسی کہانیاں عام کرتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ملک کے کسی ”دوسرے جمہوری ادارے“ کے لوگ خبریں عام کرنے کا یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب جمہوری الیکشن کے لیے روپوں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، بلکہ مسابقت سخت ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے ساتھ یہ ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے۔

    • اس موڑ پر سیاسی انویسٹمنٹ کو فنانس کرنے کی یہ صورت سامنے آتی ہے کہ اب حکمران زیادہ تر اپنے ذاتی کاروبار کے لیے نہیں بلکہ ان کمپنیوں کو کاروباری سہولتیں اور ٹھیکے فراہم کرتے ہیں، جو ان کی الیکشن مہم کے لیے ان کے پارٹی فنڈ میں چندہ دیتے ہیں۔ چنانچہ امریکہ جیسے جمہوریت کے چیمپئن ملک میں یہ امر بالکل قانونی ہے کہ کارپوریشنز اپنے پسند کے امیدوار کی الیکشن مہم کو فنانس کریں۔ کمپنیاں یہ سب فنانسنگ فی سبیل اللہ نہیں کرتیں بلکہ اپنے مطلب کی پالیسیوں اور کاروباری فوائد کے لیے کرتی ہیں۔

    • جمہوریت کے اس سفر کو صرف پاکستان سے متعلق نہ سمجھا جائے بلکہ یہ دنیا کی ہر جمہوریت کی کہانی ہے۔ اب اگر اس بارے میں کوئی بندے کی رائے جاننا چاہتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس سفر میں کہاں کھڑی ہیں؟ تو مختصرا یہ کہ ”اس جمہوری سفر“ میں ن لیگ اس وقت ان معنی میں پاکستان کی سب سے ترقی یافتہ جماعت ہے کہ یہ آخری سطح کو بھی چھو چکی ہے (یعنی اب یہاں زیادہ زور ان کمپنیوں کو ٹھیکے دینے پر ہے جو اس کی اگلے الیکشن مہم کو فنانس کرنے والی ہیں)” پی ٹی آئی فی الوقت دوسری سطح پر کھڑی ہے جہاں جہانگیر ترین جیسے لوگ پارٹی کے جلسوں اور دھرنوں کو فنانس کرکے کے پی میں اپنے ذاتی کاروبار کو پھیلا رہے ہیں۔ پی پی پی اب بھی سب سے دقیانوسی جماعت ہے کہ یہ پہلی سطح سے بہت زیادہ آگے نہیں بڑھ سکی۔

  • تین محکمے‘ تین سوال-اوریا مقبول جان

    تین محکمے‘ تین سوال-اوریا مقبول جان

    orya

    جمہوریت ہو یا آمریت‘ شہنشاہت ہو یا کمیونزم‘ کسی بھی نظام کے تحت قائم ریاست میں ایک عدالتی نظام ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ عدالتی نظام کتنا ہی مفلوج کیوں نہ ہو‘ اس کو بادشاہ کے فرامین یا پارلیمنٹ کے قوانین نے بے بس کیوں نہ کر دیا ہو‘ پھر بھی یہ تمام ریاستیں‘ عدالتی نظام کا ایک ہی اعلیٰ و ارفع مقصد بیان کرتے ہیں اور وہ ہے ’’ہر حال میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا‘‘۔ یہی اعلیٰ و ارفع مقصد دنیا کے ہر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی بنیادی ذمے داری تصور کیا جاتا ہے۔

    بادشاہ غلطی کر سکتا ہے‘ بے انصافی سے کام لے سکتا ہے‘ پارلیمنٹ قوانین بناتے وقت کسی کا حق غضب کر سکتی ہے‘ کسی چور‘ ڈاکو یا بددیانت کو تحفظ دے سکتی ہے‘ آمر یا ڈکٹیٹر کا تعصب لوگوں کو انصاف سے محروم کر سکتا ہے‘ لیکن ان سب کے خلاف دادرسی‘ فریاد یا انصاف اور عدل کی درخواست صرف اور صرف عدالت عظمیٰ میں کی جا سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی نے یہ الٹی گنگا نہیں بہائی کہ قاضی‘ جج یا عدلیہ کے خلاف بادشاہ‘ صدر‘ یا وزیراعظم کو اپیل یا درخواست دی جائے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ حرف آخر سمجھا جاتا ہے‘ کیونکہ سلطنت کے کسی اور ادارے کا مقصد اولیٰ ’’عدل و انصاف کی فراہمی‘‘ نہیں ہوتا۔ کوئی ادارہ تعلیم مہیا کرتا ہے تو کوئی صحت کی سہولیات‘ کوئی سڑکوں کا جال بچھاتا ہے تو کوئی امن و عامہ کی ذمے داریاں نبھاتا ہے۔

    اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے جب یہ ادارے کوتاہی کریں‘ بے انصافی سے کام لیں تو اس وقت عدالتی نظام انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ اسی لیے دنیا کے جدید ترین جمہوری معاشروں میں آئین کے اندر سپریم کورٹ کے اختیارات کے ضمن میں ایک شق یا آرٹیکل ایسا ضرور رکھا جاتا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات لامحدود ہوتے ہیں۔ وہ انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی بھی طریق کار اختیار کر سکتی ہے اور کسی بھی قانون میں پائی جانے والی بددیانتی اور ناانصافی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 184(3) اسی مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے آرٹیکل دنیا کے ہر ملک کے آئین میں موجود ہیں جو اپنے ملک کی عدالت کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے لامحدود اختیارات دیتے ہیں۔

    پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 184(3) کہتا ہے ’’آرٹیکل 199 کے احکام پر اثر انداز ہوئے بغیر عدالت عظمیٰ کو‘ اگر وہ یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب (1) کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلہ میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اختیار ہو گا‘‘۔

    یہ ہے وہ بنیادی مقصد کہ اگر کوئی عوامی اہمیت کا سوال درپیش ہو تو عدالت آرٹیکل 199 کے تحت دیے گئے وسیع اختیارات بھی اور اس کے علاوہ بھی کوئی حکم صادر کر سکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم نکتہ عوامی ’’اہمیت کا حامل‘‘ ہونا ہے اور دوسرا بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ ایک کرپشن فری اور مبنی پر انصاف حکومت‘ پاکستان کے عوام کا بنیادی حق ہے‘ جب کہ اس کرپشن کے حوالے سے حکومتی کرپشن اور بددیانتی اس وقت پاکستان کا سب سے اہم عوامی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے میں ’’عوامی اہمیت‘‘ کے مسئلہ کو سننا شروع کیا ہے۔

    اس وقت سے لے کر اب تک عوام سے نہیں بلکہ سیاسی افراد کی جانب سے ایک بحث کا آغاز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اس بحث کا عوام سے کوئی تعلق نہیں‘ عوام تو بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بحث کو چھیڑنے کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عدالت کے اعلیٰ و ارفع مقصد یعنی ’’انصاف کی فراہمی‘‘ کو متنازعہ بنایا جائے۔

    پاناما لیکس کا مسئلہ سپریم کورٹ تک اس لیے پہنچا کہ پاکستان میں کرپشن اور بددیانتی کے خاتمے کی ذمے داری تین اداروں کے پاس ہے۔ -1نیب‘-2 ایف آئی اے اور -3فیڈرل بورڈ آف ریونیو۔ اگر یہ تینوں ادارے اپنی ذمے داریاں نبھاتے توآج پاناما لیکس کا عفریت عوام کے دماغوں پر نہ چھایا ہوتا۔ اگر پاکستان کا کوئی محکمہ اپنی ذمے داریاں ادا نہ کرے تو سپریم کورٹ بلکہ ہائی کورٹ بھی ان کی درستگی کے لیے حکم جاری کر سکتی ہے۔

    سپریم کورٹ اگر اس کیس کے دوران نیب کے حکام کو بلا کر سوال کرے کہ تمہارے قانون کے مطابق اگر کسی حکومتی اہلکار یا فرد پر الزام ہو کہ اس نے کرپشن کی ہے‘ ناجائز ذرایع سے جائداد اور کاروبار کیا اور اپنے معلوم ذرایع سے زیادہ دولت کا مالک ہے تو نیب کا فرض ہے کہ وہ اس شخص کو بلائے اور اسے فرد جرم سنائے پھر یہ اس فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ بے قصور ہے۔ کیا نیب نے پاناما لیکس کے تمام کرداروں کو اس طرح نوٹس جاری کیے اور کیا جواب نہ آنے پر انھیں گرفتار کیا۔

    سپریم کورٹ ایف آئی اے کے حکام کو طلب کر کے یہ پوچھ سکتی ہے کہ کیا تمہارے علم میں آیا تھا کہ اس ملک کے کچھ لوگ جن کا یورپ یا بیرون ملک کوئی کاروبار نہیں‘ وہاں اچانک جائیداد خریدتے ہیں اور کاروبار کا آغاز کرتے ہیں۔ یقیناً پیسہ پاکستان سے گیا ہوگا‘ جسے منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔ تم ایک عام آدمی کو خاندان سمیت اٹھا لیتے ہو‘ کیا تم نے اس معاملے میں ایسا کیا۔سپریم کورٹ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام کو بلا کر سوال کر سکتی ہے کہ تمہارا ایک انسپکٹر اگر کوئی شخص ایک گاڑی خرید لے‘ چھوٹا سا گھر بنا لے تو اس کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ تمہارے سامنے ان لوگوں کی جائیدادیں ایسے بڑھتی چلی گئیں جیسے ان کو اعلیٰ قسم کھاد ملتی رہی۔ وہ مٹی کو ہاتھ ڈالتے تو وہ سونا بن جاتی۔ کیا تمہارے ریکارڈ کے مطابق یہ سب درست ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ انکم ٹیکس کے انسپکٹر سے لے کر کمشنر تک سب اس ’’قسمت کی باوری‘‘ کا بھید جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ ان پچاس سالوں کے بارے بھی جواب طلب کر سکتی ہے۔

    اگر یہ تینوں محکمے اپنی مجبوری کا اظہار کر دیں اور کہیں کہ ہم دباؤ کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ایک حکم نامے کے ذریعے تینوں محکموں کو فوراً ختم کردے اور اس کے افسران کو فارغ کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے ممکنہ سزا بھی سنا دے۔ صرف اس حکم نامے کی وارننگ کی دیر ہے‘ ملک بھر سے ایسے ہزاروں اہل کاروں کا ہجوم سپریم کورٹ کی طرف یہ کہتے ہوئے بھاگے گا کہ ہم اس کرپشن کی تحقیق کر سکتے۔ ہم اہل ہیں‘ ہم راضی ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جا سکتا تو پھر آئین کی کتاب سے آرٹیکل 184(3) کو کھرچ کر پھینک دینا چاہیے۔

  • راجہ لوگو! تمہاری یہ جمہوریت – سنگین زادران

    راجہ لوگو! تمہاری یہ جمہوریت – سنگین زادران

    راجہ لوگو تمہاری جمہوریت پر سو جان سے قربان ہو جاؤں گا، اگر مجھے صرف اتنا بتا دو کہ پچھلے 45 سال سے بھٹو خاندان لاڑکانہ کو پینے کا صاف پانی، معیاری تعلیم، اچھے ہسپتال دے سکا یا نہیں؟ میں تمہاری طرح جمہوریت کے قصیدے گایا کروں گا لیکن صرف اور صرف اتنا بتا دو کہ شریف خاندان پچھلے 40 سال میں صرف لاہور ضلع کے تمام افراد کا معیارِ زندگی بدلنے میں کامیاب ہوا کہ ناکام رہا؟ گویا اضطراب ہے اور بلا کا ہے کہ میں سوچتا ہوں تو دماغ میں ابھرنے والے شرارے میری نسوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں۔ ایک طرف بھٹو خاندان کے 45 سال اور ایک ضلع لاڑکانہ نہ سیدھا ہو سکا۔ دوسری طرف شریف خاندان کے 40 سال ہیں اور ایک ضلع لاہور بھی سیدھا نہ ہوا۔ جن کی نظریں شہر لاہور کی چکا چوند پر جمی ہیں وہ ذرا ضلع لاہور کی باقی تحصیلوں کا حال احوال پتہ کریں۔ باہر جانے کی ضرورت نہیں، لاہور ضلع کےسرکاری ہستپالوں کا ہی حال دیکھ لیں۔
    ایک غیر معمولی بات جو اس ملک میں بہت خاموشی سے رائج کر دی گئی ہے، وہ جمہوریت کو مذہب کا درجہ دینا ہے۔ شاید آپ کو عجیب لگے لیکن فی الوقت دنیا بھر میں جمہوریت کو مذہب کا ہی درجہ حاصل ہے۔ صدرِامریکہ نے کبھی اپنی تقریروں میں یہ نہیں کہا کہ We believe in God. ہاں امریکہ سمیت کئی دیگر عالمی راہنماؤں کے منہ سے یہ جملہ آپ نے ضرور سنا ہو گا We believe in Democracy، پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ یہاں جمہوریت کے خلاف بات کرنا جرم ہے اور جمہوریت کی توہین کرنا اس سے بھی بڑا جرم۔ جیسے جمہوریت ہی وہ مقدس سیاسی نظام ہے جس کی تکمیل کےلیے ہم پاکستانیوں کو اس ملک میں پیدا کیا گیا۔ جمہوریت ہے کیا دراصل؟ سیاست کی چاٹی میں عیاری کی مدھانی ڈال کر ذاتی مفاد کا مکھن نکالنا ہی جمہوریت ہے۔

    اور آپ کو پتہ ہے کیا کہ جمہوریت کے خلاف بات کرنے سے ان کے پیٹ پہ لات کیوں پڑتی ہے؟ ایک کام کیجیے، اپنے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں اور اپنے حلقے کے ایم این اے اور ایم پی ایز کے موجودہ اثاثوں کی تفصیل پتہ کریں۔ موجودہ اثاثوں کا موازنہ ان کے آباؤ اجداد کے اثاثوں سے کریں، آپ کو جواب مل جائے گا کہ جمہوریت کے خلاف بات کرنے سے ان لوگوں کے پیٹ پر لات کیوں پڑتی ہے۔ سمجھ نہیں آئی تو پھر سمجھاتا ہوں۔ حاکم علی زرداری سندھ کا معمولی وڈیرہ تھا، جائیدادیں لمبی چوڑی نہیں تھی، بیٹے کی بیوی سیاست دان تھی اور پھر بیٹا آصف علی زرداری بھی سیاست میں آ گیا۔ جائیدادیں، جاگیریں اور اثاثے پہلے سندھ سے بڑھ کر ملک بھر میں پھیلے، پھر پاکستان سے نکل کر سوئس بینکوں تک چلے گئے۔ یہی کچھ حال شریف خاندان کا ہے۔ میاں شریف چنگے بھلے رئیس انسان بھی تھے تو بھی ان کا اتنا سبب نہیں تھا کہ جائیدادیں پانامہ تک پہنچ جاتیں۔ تو میرے جیسا یا کوئی بھی انسان جو جمہوریت کو کسی سامراجی سامری کا بچھڑا بنا کر پوجنے پہ تیار نہیں ہے، جب معاشرے کے خوبصورت چہرے سے جمہوریت کا میک اپ اتار کے دیکھتا ہے تو اسے بدبودار، بھیانک اور مکروہ قسم کے کیڑے اس چہرے میں رینگتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیوں کہ جمہوریت کے علمبرداروں سے 45 سالوں میں لاڑکانہ اور 40 سالوں میں لاہور نہ بدلا گیا۔ غریب کے منہ سے البتہ نوالہ چھنتا رہا، اس کی ہڈیوں سے پہلے ماس اتارا گیا پھر گوشت نوچا گیا پھر ہڈیوں میں موجود گودا تک چوس لیا گیا۔ یہ جمہوریت اور اس کا جھانسہ مزید نہیں۔ کسی کے پیٹ پہ لات پڑتی ہے پڑ جائے لیکن جمہوریت کے نام پر عام فرد کے منہ سے روٹی چھینے کا عمل مزید نہیں۔

  • اعتدال کی سیاست اور ہماری ذمہ داری – بشارت حمید

    اعتدال کی سیاست اور ہماری ذمہ داری – بشارت حمید

    پچھلے چند ہفتوں سے وطن عزیز میں جاری سیاسی گرما گرمی نے اس ملک میں عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری لانے کی بجائے اسے مزید اجیرن ہی کیا ہے۔ ویسے تو سیاسی جلسے جلوسوں سے اس مخصوص علاقے کے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جہاں وہ عملی طور پر وقوع پذیر ہو رہے ہوں لیکن مجموعی طور سارے ملک کے عوام پریشانی کا سامنا کرتے ہیں۔
    10 سے 12 فیصد ووٹ حاصل کر کے بننے والی عوام کی نام نہاد نمائندہ حکومت ہو یا اس بہتی گنگا کے فائدے سے محروم رہ جانے والی اپوزیشن جماعتیں، کسی کو بھی عوام الناس کے دکھ درد اور تکالیف کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا۔
    اسی طرح عوام میں سے جو لوگ ان سیاسی لیڈروں کے سپورٹر ہوتے ہیں، ان کے لیے تو یہ لیڈر دیوتا کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ انکی کہی گئی ہر بات کو پورے یقین کے ساتھ من و عن قبول کر کے پھر اس کا ہر فورم پر دفاع کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں چاہے وہ سیاسی راہنما ذاتی کردار میں انتہائی برے کردار کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔
    نہ جانے کیوں ہم ان تعصبات کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں کہ اپنی پسند کی سیاسی جماعت کے لئے اپنے قریبی رفقاء اور دوست احباب سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جتنے دیوانہ پن کا مظاہرہ ہم سیاسی جماعتوں کے لیے کرتے ہیں اگر اتنا ہی ہم اللہ اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کے لیے کریں تو ولایت کا رتبہ پا جائیں۔
    ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سیاسی وابستگی جس مرضی جماعت کے ساتھ رکھیں لیکن اعتدال کا رویہ اپنائیں۔ کسی کی مخالفت میں اتنا متشدد نہ ہو جائیں کہ اسکی چھوٹی سی غلطی ہمیں پہاڑ جیسی لگے اور اپنے ممدوح لیڈر کے بلنڈرز بھی ہماری نظر سے اوجھل رہیں۔ پھر اس مخالفت کو اس حد تک نہ لے جایا جائے کہ اپنے قریبی حلقے بھی اس وجہ سے دور ہو جائیں۔
    نظریات کی سیاست پرانے وقتوں میں ہوا کرتی تھی اب تو پیسہ بنانے کی سیاست رہ گئی ہے اللہ کرے کہ کوئی ایسا لیڈر اس ملک کو ملے جو اسکی ڈائریکشن سیدھی کر دے لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنے دائرہ کار میں خود اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا رویہ اور کردار ایک اچھے مسلمان اور ذمہ دار شہری کا ہونا چاہیئے۔
    ایک چھوٹی سی مثال دوں گا جب ہم باتھ روم استعمال کرتے ہیں تو بعد میں پانی بہانے کی ذمہ داری اگلے آنے والے پر چھوڑ آتے ہیں اسی طرح کسی پارک میں فیملی یا دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر کچرا بجائے کسی قریبی کوڑادان میں ڈالنے کے اسی جگہ پھینک آتے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اللہ کے بندو یہ شہر، یہ ملک بھی ہمارا ہی ہے اور ہم نے ہی اسے ٹھیک کرنا ہے اگر ہم اپنے ذمے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ہر کام حکومت کے کرنے کا نہیں ہوتا۔ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں۔
    ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ تم پیسے کا حساب سیدھا رکھو گے تو روپوں کا حساب خود بخود سیدھا ہو جائے گا یعنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو درست سمت میں رکھو گے تو بڑے معاملات خود بخود ٹھیک ہوتے چلےجائیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرنا شروع کر دے تو ان شاءاللہ ہم اس ملک کو پرامن اور پرسکون بنا سکتے ہیں۔
    قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی اس قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کر لے۔ علامہ اقبال نے اسی بارے کہا تھا۔
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

  • خلافت بمقابلہ جمہوریت اور علمائے حق کی شہادت – عارف گل

    خلافت بمقابلہ جمہوریت اور علمائے حق کی شہادت – عارف گل

    عارف گل پچھلے کچھ عرصے سے بعض کرم فرما اسلام اور تاریخ اسلام کے خلاف خامہ فر سائی میں مصروف ہیں۔ ایک صاحب کو ”خلافت اور جمہوریت“ کے موازنے کا شوق چرایا تو انہوں نے لمبا چوڑا مضمون لکھ ڈالا، جس میں خلافت کےاندر دنیا جہاں کی خرابیوں کو سمو دیا اور جمہوریت میں ساری کائنات کی فضیلتیں ثابت کر ڈالیں. دوسرے صاحب بار بار ایک سوال دہرائے جا رہے ہیں کہ ”تاریخِ اسلام میں کسی عالم دین نے آمریت کےخلاف بھی کبھی لب کشائی کی جرات کی؟“ یا ”کوئی مولانا آمریت کے خلاف لڑ کرشہید بھی ہوا؟“ ایک اور صاحب نے ہنود و یہود کے تتبع میں اسلام کو دہشت گردی کا منبع اور ماخذ ثابت کر ڈالا۔

    ان اصحاب کے جواب میں میرے بہت سے دوستوں نےوہی رویہ جائز اور صائب جانا جس کا حکم اللہ تعالی نے کلام مجید میں فرمایا ہے کہ ”قا لوا سلاما“۔ یہی مناسب رویہ بھی ہے۔ مگر ایک اور اہم بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب ان لوگوں کو جواب نہ دیاجائے تویہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کہہ رہے ہیں، وہ حرف آخر اور حرف حق ہے، اسی لیے تو دوسروں کے پاس جواب ہی نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جہالت کا جواب نہ دینا یا ملنا دوسرے کے لاجواب ہونے کی دلیل ہے۔ پھر چونکہ ان سے تعلق رکھنے والے اکثر اصحاب کے خیالات اور اعتقادات بھی ان جیسے ہوتے ہیں تو وہ بھی تعریف و توصیف کےڈونگرے برسا کر ان کے حق میں نکل آتے ہیں۔ پھر معترض اپنے آپ کو برزجمہر سمجھنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کنوئیں کا ایک مینڈک ٹر ٹر کرتا ہے تو اس کے باقی ساتھی بھی ٹر ٹرکرنے لگ جاتے ہیں، اور پہلا مینڈک یہی سمجھتا ہے.کہ اس کی ہاں میں ہاں ملائی جا رہی ہے. یا جیسے ایک قوال سُرلگاتا ہے تو اس کے ساتھی سُر میں سُر ملا کر کورس شروع کر دیتے ہیں اور انہیں کوئی دوسری بات سنائی ہی نہیں دیتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی ہم ہیں۔ جب یہ صاحب کنوئیں سے باہر آئیں گے یا سُوریوں کے سُر خاموش ہوں گے تو پتہ چلے گا کہ حقیقت کچھ اور بھی ہے۔

    پہلے تو خلافت کی شکست اور جمہوریت کی فتح کے گن گانے والوں سے عرض ہے کہ جناب پہلی بات تو یہ کہ خلافت اور جمہوریت تاریخِ کے مختلف ادوار میں نظام حکومت چلانے کے دو مختلف طریق کار ہیں. دونوں اپنے اپنے زمانے کے اصحابِ حل و عقد کے ذہن کی پیداوار، مختلف زمانوں میں انسان نے اپنے لیے جو مناسب طرزِ حکمرانی تصور کیا اسے اختیار کر لیا۔ جہاں تک اسلام اور قرآن و حدیث کا تعلق ہے تو اس میں صاحب اقتدار فرد جسے خلیفہ کہیں یا بادشاہ، صدر کہیں یا وزیر اعظم، اس کے انتخاب کا کوئی لگا بندھا طریقہ وضع نہیں کیا گیا اور نہ ہی نصِ قطعی سے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی طریقہ کا پابند بنایا۔ وہاں تو صرف ایک سادہ سا اصول بیان کر دیا گیا اور وہ اصول ہے ”امرھم شوریٰ بینھم“ ۔ باقی یہ فیصلہ اجتماعی بصیرت پر چھوڑ دیا گیا کہ اس اصول کی روشنی میں افراد اپنے لیے جو طریقہ مناسب سمجھیں، اسے اختیار کر لیں۔ اسی لیے چاروں خلفائے راشدین ؓ کا انتخاب مختلف طریقوں سے عمل میں آیا، اور چاروں طریقے ہی صحابہ کرامؓ کی اجتماعی بصیرت کا نمونہ ٹھہرتے ہیں. بعد میں خلافت ملوکیت میں بدل گئی. اگرچہ اسے بھی خلافت بنو امیہ، خلافتِ عباسیہ، خلافت فاطمیہ اور خلافت عثمانیہ کا نام دیا گیا مگر وہ ان معنوں میں خلافتیں نہیں تھیں، جس نہج پر خلافتِ راشدہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ بہر حال خلافت و ملوکیت کا اختلاف اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔

    اصل بات جو فاضل معترضین اٹھا رہے ہیں، وہ اسلام کے ابتدائی سات آٹھ سو سالہ عہد کو آج کے جمہوری دور سے کم تر ثابت کرنا ہے، جس کے لیے اُس دور میں ہونے والی ہر قتل وغارت، ہر شورش و بدنظمی کا اس نظام کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ اس نظام کو اس دور کی دنیا کے دوسرے نظاموں سے تقابل کا ذریعہ بھی بنایا جاتا اور بتایا جاتا کہ اُس دور میں دوسرے خطے کے انسانوں نے جو نظام اپنے لیے وضع کیے تھے وہ کیسے تھے؟ جس طرح آج میرے جیسا کم علم پاکستانی جمہوریت پر تنقید کرتا ہے اور اس کا موازنہ یورپ کے ممالک سے کرتا ہے تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ صاحب یہ موازنہ درست نہیں، وہاں کی جمہوریت کو اس معیار تک پہنچنے کے لیے برسوں لگے، لہذا یہاں بھی اتنے نہیں تو چالیس پچاس سال ضرور دیں، پھر تقابل کیجیے گا۔ اسی طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے، اپنے ذرائع ہوتے ہیں لہذا آج کے جدید ذرائع نقل و حمل کے ساتھ سات ہزار سال پہلے کے ذرائع نقل و حمل کے حامل معاشرے کے نظام سے موازنہ کسی طرح جائز نہیں، مگر نہیں جناب! میں ایسا نہیں کہوں گا بلکہ میں تو چاہوں گا کہ ان سات آٹھ صدیوں پر جس طرح محدب عدسہ لگا کر اس کے عیب چن چن کر اور انہیں مزید بڑھا مزید تڑا کر پیش کیا جاتا ہے، ذرا اس طرح کی تنقیدی نظر اپنے محبوب جمہوری دور پر بھی ڈالی جائے۔

    ہم تین سو سال پرانی جمہوریت کو زیرِ بحث نہیں لاتے- پچھلے سو سال کے جمہوری نظام کو کسوٹی پر کس لیتے ہیں، پھر دیکھتے ہیں اس دورِ جمہوری کی برکات وفضائل-
    ان سو سالوں میں جو جمہوری دور کہلاتا ہے، اس نے دنیا کی دوعظیم جنگوں کی برکتیں عنایت کیں، جن میں کروڑوں جانوں کا ضیاع کل کی بات ہے- ایشیاء و افریقہ اور شمالی امریکن اقوام کی گردنوں میں غلامی کا طوق اس دور جمہوری کی رحمدلانہ عنایت ہے- 1946ء میں اقوامِ عالم کا جمہوری ادارہ قائم ہوتا ہے- ان تمام اقوام کی اجتماعی بصیرت کے حامل ادارے نے انسانیت کی فلاح کے جوکارنامے سرانجام دیے، وہ لکھنے کے لیے یہ مضمون نہیں بلکہ پوری ہارڈ ڈسک چاہیے، لہذا چند اشارے۔

    جرمنی کے ٹکڑے، کوریا پہ حملہ، ویت نام کی تباہی، کوسوو، فلسطین، کشمیر، دو بار عراق، شام، لبنان، 46ء سے آج تک یہ آپ کے اسی عالمی جمہوری ادارے کے آزاد جمہوری افراد کی جمہوری قراردادوں کے کارنامے ہیں، جنھوں نے 70 سال تک لاکھوں انسانوں کو بارود سے اور لاکھوں کو مختلف ممالک پر پابندیاں لگانے والی قراردادوں نے بھوک و افلاس سے موت کے گھاٹ اتارا۔ یہ سب ایک عالم، خلیفہ یا شہنشاہ کی مرضی سے نہیں بلکہ آپ کی، موجودہ دور کے اجتماعی بصیرت کے حامل ادارے میں بیٹھے جمہوری اصولوں کی پاسداری کرانے والے صاحبِ فہم افراد کی برکات سے ہوا۔ طاقت کے نشے میں بدمست کسی بھی ملک کے حکمران کو اجازت ہے جسے چاہے بموں سے بھون دے ، آپ کی جمہوریت خاموش تماشائی ہے، مگر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کوئی کمزور ملک کوئی جوابی کارروائی کرے تو آپ کا بابرکت جمہوری ادارہ اسے سبق سکھانے اور اس ملک کی بےگناہ قوم کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے پروانے جاری کرنے کے لیے ہر وقت مستعد و تیار ہے۔ ذرا تقابل کیجیے اس دور کی کوتاہیوں، کمزوریوں کا اس جمہوری عہد کی برکتوں سے۔ اگر آپ میں انصاف کی ذرا سی رمق بھی ہو تو اُس دور کے ظالم آج کے دور کے ظالموں کے مقابلے پارسا نظر آئیں گے۔

    یہ بات کہ مسلمانوں کا کوئی عالم یا مولوی کھی شہید ہوا نہ کسی نے ظلم کے خلاف آوز اٹھائی۔
    معترضین کے علم و تحقیق کا میں ادنٰی سا قدر دان ہوں۔ ان کے علم کی بیکرانی کا اندازہ بھی ہے مگر ان کی تاریخ اسلام سے یہ لاعلمی کسی تعصب کا نتیجہ لگتی ہے یا پھر تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، احمد بن حنبل، امام سرخسی، امام ابن تمیمیہ، لاکھ کوڑے کھائیں، قید ہوں، برسرِ بازار رسوا کیے جائیں، آپ کی نظر میں جچتے نہیں کیونکہ ان کوڑوں سے ان اصحابِ عزیمت کی موت واقع نہیں ہوئی۔ تاریخ حریت میں جو کارنامے علمائے اسلام نے انجام دیے، وہ اتنے روشن اور درخشاں ہیں کہ شاید ان کی معمولی جھلک آپ کو دوسرے مذاہب یا تہذیبوں میں نظر آسکے۔ ہاں اندھا تعصب نہ دیکھنے دے تو اور بات ہے۔ خلقِ قران کے مسئلے پر امام احمد ابن حنبل کا کام ایسا اعلی و ارفع ہے کہ وہ اس وقت کے علماء کے سر کا تاج تھے۔ مگر وہ سینکڑوں علماء جو اس فتنہ میں اس مسئلے کی وجہ سے شہید ہوئے، کبھی ان کے بارے میں پڑھیے۔

    میں آپ کو تاریخ میں زیادہ دور نہیں لے جانا چاہتا اور جانتا ہوں کہ میری طرح بہت سے پڑھنے والوں کی دور کی نظریں کمزور ہیں، اس لیے قریب سے چند مثالیں دیتا ہوں۔
    برصغیر میں 1857ء کی جنگ، دہلی میں انگریزوں کے خلاف فتوی دینے والے 33 علماء کے ساتھ جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ دہلی کے بعد آگرہ، فتح گڑھ، لدھیانہ، فتح پور، جالندھر، فیض آباد الغرض کون سا محاذ تھا جہاں علماء پیش پیش نہ تھے، شہادت پیش نہ کی اور جنگ کے اختتام پر توپوں سے باندھ کر اڑائے نہ گئے۔ عظیم اللہ خان، مولانا احمداللہ شاہ، مولوی و ہاج الدین، مولوی رضی اللہ بدایونی، شاہ غلام بولن سیوہاروی، مفتی عنایت اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا سید عالم علی، مولوی علاء الدین، مولوی عبدالقادر لدھیانوی، الغرض کتنے نام گنوائیں۔ دہلی کے فتوی پر دستخط کرنے والوں میں ایک نام غالب کے دیرینہ کرم فرما مفتی صدرالدین آزردہ کا بھی ہے جو غالب پر قرضے کے ایک مقدمے میں جج تھے۔ غالب کے پاس دینے کو ایک کوڑی نہ تھی لہذا مفتی صاحب نے انھیں جیل بھیجنے کے بجائے اپنی جیب سے قرضہ ادا کیا تھا۔ جنگ کے بعد یہ بھی زیرعتاب آئے، تمام دولت ضبط ہوئی اور تنگ دستی کی حالت میں چل بسے۔ اس کے بعد سرکار نے رحم کھاتے ہوئے ان کی بیوی کے لیے وظیفہ مقرر کیا، جس پر غالب نے اس طرح نمکِ حلالی کا حق ادا کیا کہ انگریز افسر کو خط لکھا کہ اس وظیفے کا اصل حقدار تو میں ہوں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ پھر سکھوں کے ہاتھوں بالا کوٹ میں سید احمد، شاہ اسماعیل اور ان کے ساتھی علماء شہید ہوئے. انگریز دور میں مالٹا و کالاپانی کی اسیری اور جیلیں بھگتانے والے علمائے کرام ہی تھے. مصر میں اخون المسلمون کے سید حسن البنا، عبد القادر عودۃ اور سید قطب وہاں ناصروں اور ساداتوں کے ہاتھوں شہید ہوئے. یہ سب علما ہی تھے.

    قاہران وقت اور جابرانِ حکومت کے سامنے کھڑے ہونے، انھیں للکارنے اور شہید ہونے والے، فرقے کی تخصیص نہ مسلک کا لحاظ، ہر فرقے، ہر مسلک، ہرگروہ کا عالم اس فہرست میں شامل ہے. پھر بھی آپ کو کچھ نظر نہیں آتا تو یہ آپ کی نظر کی کمزوری ہے، علمائے اسلام اس الزام سے مبرا ہیں. اسلام، تاریخِ اسلام اور علمائے اسلام پر اپنی ناقدانہ خامہ فرسائی سے بہتر ہے کہ اپنی تحریری جولانگاہی کا مرکز و محور اپنے پسندیدہ مضامین شعر و شاعری اور سوشلزم تک محدود رکھیں تو بہتر ہوگا.

  • نواز شریف، فوج اور پنجابی اشرافیہ – مجاہد حسین خٹک

    نواز شریف، فوج اور پنجابی اشرافیہ – مجاہد حسین خٹک

    مجاہد حسین خٹک اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب نے پاکستان کے انتخابی نظام میں موجود خامیوں کو پوری طرح سمجھ لیا ہے اور وہ اس پوزیشن میں آ چکے ہیں کہ الیکشن Manipulate کر کے اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ انہیں پنجاب کے مخصوص شہروں سے ہی اتنی نشستیں مل جاتی ہیں کہ وہ صوبے کے دیگر حصوں سے تھوڑے سے مفاد پرست سیاست دانوں کو ملا کر حکومت بنا سکتے ہیں۔ اگر کوئی کمی بیشی ہو جائے تو آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کاسہ گدائی ہاتھ میں تھامے ان کے در پر بیٹھی ہوتی ہے۔

    1985ء سے پنجاب پر ان کے خاندان کی حکمرانی ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے دانشوروں کی ایک بڑی کھیپ وہ خرید چکے ہیں۔ بیوروکریسی ان کے انگوٹھے کے نیچے تڑپ تڑپ کے نیم جان ہو چکی، عدلیہ میں ان کے ممنون احسان لوگوں کی شمولیت کئی دہائیوں سے مسلسل جاری ہے۔ یہی لوگ آگے جا کر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز بنتے ہیں۔ یہ تمام عناصر مل کراس پنجابی اشرافیہ کی تشکیل کرتے ہیں جس سے جنوبی پنجاب اور ملک کے تین دوسرے صوبوں میں شدید نفرت کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کے اس گروہ میں سرمایہ داروں کو بھی شامل کرلیں تو یہ ایک بہت طاقتور مافیا بن جاتا ہے جس کے لیے نواز شریف کے حق میں انتخابی نظام ہائی جیک کر لینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

    تاہم اشرافیہ کا یہ کلب صرف اتنا ہی نہیں کرتا بلکہ نواز شریف کی حکومت کے اردگرد ایک طاقتور حصار بھی قائم کر لیتا ہے۔ یہ حصار ایک کثیرالسطحی (Multi-layered) نظام ہے۔ ہرسطح حکومت پر ہونے والے وار خود پہ سہتی ہے جس کی وجہ سے حملہ آور حصار کی ہر دیوار پر اپنی توانائیاں خرچ کرتے کرتے جب آخری سطح تک پہنچتا ہے تو نیم جان ہو چکا ہوتا ہے۔ اس حصار کا پہلا دائرہ بیوروکریسی ہے جو شہر اور قصبے کی سطح پر طاقتور برادریوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ دوسری سطح پولیس کی ہے جس کے ذریعے مخالفین کی سرکوبی کی جاتی ہے۔ اس نظام کی سب سے آخری سطح عدلیہ ہے جو اس وقت میدان عمل میں آتی ہے جب حملہ آور اپنی توانائیاں خرچ کر کے واپسی کا باعزت رستہ مانگ رہا ہوتا ہے۔ پچھلے دھرنے میں عمران خان نے اس سطح کو بھی روند ڈالا تھا لیکن اس وقت تک اس کا غنیم اس قدر نڈھال ہو چکا تھا کہ نواز شریف پر آخری حملہ کرنے کی طاقت ہی نہیں بچی تھی۔

    نوازشریف نے بھی مارٹن لوتھر کی طرح تمام عمر ایک خواب دیکھا ہے مگر اس کی نوعیت یکسر مختلف ہے۔ وہ ہر صورت فوج کو ایک مغلوب حالت میں اشرافیہ کے اس کلب کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اسے بخوبی معلوم ہے کہ جونہی فوج اس کی گرفت میں آ گئی، اس کے خاندان کو اگلی کئی نسلوں تک حکمران رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ باقی صوبے جتنے بھی ناراض رہیں، فوج کے ذریعے انہیں اپنی اوقات میں رکھنا ممکن ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے چیلنج کرنے والا کوئی بھی ادارہ باقی نہیں رہے گا۔ اس کے برعکس فوج یہ سمجھتی ہے کہ وہ خود اشرافیہ کے اس کلب کا حاکم بننے کا حق رکھتی ہے۔ اقتدار کے کیک کو وہ بطور ایک غالب فریق کے کھانا چاہتی ہے۔ اسے کوئی اعتراض نہیں کہ اس کیک کے کچھ ٹکڑے نوازشریف اور باقی ادارے لے جائیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں جاری اس کشمکش کی شاخسانے مسلسل ہمارے سامنے احتجاجی تحریکوں کی صورت میں آتے رہتے ہیں۔

    نواز شریف کے اس سارے ماڈل میں ایک اہم خامی ہے۔ اقتدار کے کھیل میں شامل دیگر سیاست دان یہ جانتے ہیں کہ انتخابی نظام کی خرابیاں انہیں کبھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گی۔ وہ نہ ہی طویل عرصہ سے پنجاب پر حکمران رہے ہیں جس کی وجہ سے بیوروکریسی ان کے حق میں کام کرے اور نہ ہی عدلیہ میں اپنے لوگ شامل کرا سکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے چور رستے تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کا دور اقتدار کبھی بھی پرسکون نہیں ہوتا۔ دیگر سیاست دان فوج سے ہاتھ ملا لیتے ہیں اور حکومت کو مسلسل دباؤ میں رکھتے ہیں۔ نواز شریف پر جب بہت دباؤ آجائے تو وہ فوج سے سمجھوتہ کر لیتا ہے جبکہ باقی سیاست دان صرف وعدہ فردا پر ہی ٹرخا دیے جاتے ہیں۔

    عمران خان کی پارلیمنٹ سے بےزاری اور فوج کی طرف واضح رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ انتخابی نظام سے اپنی امیدیں ختم کر بیٹھا ہے، تاہم چونکہ وہ خود سر انسان ہے، اس لیے فوج اسے حکومت میں لانے سے ہچکچاتی ہے۔ یہ بات اب یقینی نظر آتی ہے کہ فوج اور نواز شریف ایک فیصلہ کن جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شاید عمران خان اسی وقت کا منتظر ہے جب اس جنگ کا فائنل راؤنڈ شروع ہو اور اسے اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہونے کا موقع مل سکے۔

    میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر نواز شریف کی جگہ کوئی مدبر سیاست دان اقتدار میں ہوتا تو وہ انتخابی نظام کو شفاف بنانے کی کوشش کرتا اور اداروں کو خودمختاری دیتا تاکہ اقتدار کے دیگر کھلاڑیوں کے پاس اپنی قسمت آزمائی کے لیے ایک ایسا میدان موجود رہے جہاں وہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے میچ جیت سکیں۔ اس سے غیر ضروری جھگڑے پیدا نہ ہوتے اور ملک ترقی کی جانب گامزن رہتا۔ لیکن شاید ابھی ایک لمبا انتظار ہمارے نصیب میں لکھا ہے۔ اس وقت تک اس ساری کشمکش کو میں جمہوریت کا نام دینے سے گریزاں ہی رہوں گا۔

  • مفاداتی جنگ میں بیٹی کا مان ٹوٹا – نوفل ربانی

    مفاداتی جنگ میں بیٹی کا مان ٹوٹا – نوفل ربانی

    نوفل ربانی جمہوری ہڑبونگ کی کارستانیوں میں، ایک بچی کے سامنے اس کے والد کو تھپڑ مارنا، وہ بھی فاضل وکیل کا،
    اور پنڈی میں ایک نومولود کا آنسو گیس سے دم توڑنا،
    لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کا لازمی نتیجہ ہیں.
    بیٹی کے لیے سب سے آئیڈیل اور سب سے مہان ہستی سب سے زیادہ محفوظ شیلٹر اس کا باپ ہوتا ہے، زندگی کی دھوپ میں باپ ہی بیٹی کا وہ شجر سایہ دار ہے جس کی چھاؤں کے مان پر وہ زمانے کی چلچلاتی دھوپ سے لڑتی ہے۔ باپ بیٹی کا وہ آئیڈیل ہوتا ہے جس کی خمیدہ کمر کو وہ تلوار تیر کمان سمجھتی ہے اور باپ ہی”دشمن“ سماج کے مقابلے میں اس کا اسلحہ ہوتا ہے.
    مولانا ابو عیسی صاحب نے ایک دفعہ جب میں ان کے ساتھ سفر میں تھا میری بیٹی کا فون آنے پر کہا،
    نوفل! ”میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ باپ کی اصل اولاد تو بیٹیاں ہوتی ہیں۔“
    لارڈ میکالے کے نصاب کے قانون دان نے تھپڑ نہیں مارا بلکہ ایک بیٹی کا اسلحہ تلف کیا۔ ایک بیٹی کا سایہ دار درخت کاٹ دیا۔ ایک بیٹی کے آئیڈیل کو اس کے سامنے ذلیل کیا۔
    پتہ ہے کیوں کیا؟
    عمران خان صاحب کی کال پر، جمہوریت کی بقا کے لیے، نواز شریف کی تلاشی کے لیے، اپنا وزارت عظمی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے۔
    اگر یہ وکیل اس آدمی کو فقط بچی کو سکول چھوڑنے جانے کے جرم میں قتل کر دیتا تو مجھے دکھ تب بھی ہونا تھا لیکن مجھے آج اس کی تذلیل پر اس کے قتل سے زیادہ دکھ ہے۔
    وہ قتل ہوجاتا تو میں دل کو تسلی دیتا کہ جمہوریت جیسی ”نعمت“ کے حصول میں قربانی تو دینی پڑتی ہے۔ لیکن انصاف کے متوالے اور قانون کے رکھوالے اور عمران خان کے جیالے نے تبدیلی کے استعارے اور عقل سے پیادے نے بیٹی کے سامنے باپ کو تھپڑ مار کر اس بیٹی کو زندہ درگور کیا ہے.
    مجھے ان ریاستی سپاہیوں پر بھی دکھ ہے جنہوں نے پرسوں عمران کے یوتھ فیسٹول پر ہلہ بولا اور عورتوں کو مارا،گھسیٹا، بال نوچے، ہاتھ لگایا۔
    یہ سب جہالت ہے، ابوجہل کی فکری وراثت ہے، یہ بنت حوا پر ہونے والا ظلم سیکولر اور لبرل الفاظ گھسیٹوں کو نظر نہیں آئے گا کیونکہ یہ سب ماسی جمہوریت اور اس کے کارندے کر رہے تھے.
    اشتہار میں تھرکنے پر اعتراض کے خلاف تو ان کی آنتوں میں انفیکشن ہوگیا تھا، حقوق نسواں خطرے میں پڑگئی تھی مگر یہاں چار سو خاموشی رہی۔
    مجھے افسوس ان عزت مآب والدین پر بھی ہے جو انجانے میں اس اخلاق سے عاری اور اصول سے خالی مفاداتی جنگ میں ان ”آبگینوں“ کو بھیج رہے ہیں۔ یہ سرمایہ داروں کی مفاداتی جنگ آپ کے جذبات کے کندھوں پر سوار ہوکر کھیلی جارہی ہے، اس لیے جان کر جیو۔

  • نرم و نازک جمہوریت – ثقلین مشتاق

    نرم و نازک جمہوریت – ثقلین مشتاق

    ثقلین مشتاق وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
    دھرنا دینے اور شہر بند کرنے سے جمہوریت کو خطرہ ہے،
    طالبعلموں کا تعلیمی حرج ہوتا،
    شہریوں کی نظام زندگی مفلوج ہوتی ہے،
    ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
    اگلے روز ٹیلی وژن پر خبر سنی کہ
    ایک سیاسی جماعت کے جلسے کو روکنے کے لیے
    وزیراعظم کے حکم پر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
    شہر میں دفعہ 144 نافذ کردیا،
    نہتے شہریوں کو گرفتار کیا گیا اور
    اُن پر شیلنگ کی گئی،
    شہر کو سیل کردیا،
    تمام تعلیمی ادارے ہفتے کے لیے بند کردیے گئے۔