پچھلے کچھ عرصے سے بعض کرم فرما اسلام اور تاریخ اسلام کے خلاف خامہ فر سائی میں مصروف ہیں۔ ایک صاحب کو ”خلافت اور جمہوریت“ کے موازنے کا شوق چرایا تو انہوں نے لمبا چوڑا مضمون لکھ ڈالا، جس میں خلافت کےاندر دنیا جہاں کی خرابیوں کو سمو دیا اور جمہوریت میں ساری کائنات کی فضیلتیں ثابت کر ڈالیں. دوسرے صاحب بار بار ایک سوال دہرائے جا رہے ہیں کہ ”تاریخِ اسلام میں کسی عالم دین نے آمریت کےخلاف بھی کبھی لب کشائی کی جرات کی؟“ یا ”کوئی مولانا آمریت کے خلاف لڑ کرشہید بھی ہوا؟“ ایک اور صاحب نے ہنود و یہود کے تتبع میں اسلام کو دہشت گردی کا منبع اور ماخذ ثابت کر ڈالا۔
ان اصحاب کے جواب میں میرے بہت سے دوستوں نےوہی رویہ جائز اور صائب جانا جس کا حکم اللہ تعالی نے کلام مجید میں فرمایا ہے کہ ”قا لوا سلاما“۔ یہی مناسب رویہ بھی ہے۔ مگر ایک اور اہم بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب ان لوگوں کو جواب نہ دیاجائے تویہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کہہ رہے ہیں، وہ حرف آخر اور حرف حق ہے، اسی لیے تو دوسروں کے پاس جواب ہی نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جہالت کا جواب نہ دینا یا ملنا دوسرے کے لاجواب ہونے کی دلیل ہے۔ پھر چونکہ ان سے تعلق رکھنے والے اکثر اصحاب کے خیالات اور اعتقادات بھی ان جیسے ہوتے ہیں تو وہ بھی تعریف و توصیف کےڈونگرے برسا کر ان کے حق میں نکل آتے ہیں۔ پھر معترض اپنے آپ کو برزجمہر سمجھنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کنوئیں کا ایک مینڈک ٹر ٹر کرتا ہے تو اس کے باقی ساتھی بھی ٹر ٹرکرنے لگ جاتے ہیں، اور پہلا مینڈک یہی سمجھتا ہے.کہ اس کی ہاں میں ہاں ملائی جا رہی ہے. یا جیسے ایک قوال سُرلگاتا ہے تو اس کے ساتھی سُر میں سُر ملا کر کورس شروع کر دیتے ہیں اور انہیں کوئی دوسری بات سنائی ہی نہیں دیتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی ہم ہیں۔ جب یہ صاحب کنوئیں سے باہر آئیں گے یا سُوریوں کے سُر خاموش ہوں گے تو پتہ چلے گا کہ حقیقت کچھ اور بھی ہے۔
پہلے تو خلافت کی شکست اور جمہوریت کی فتح کے گن گانے والوں سے عرض ہے کہ جناب پہلی بات تو یہ کہ خلافت اور جمہوریت تاریخِ کے مختلف ادوار میں نظام حکومت چلانے کے دو مختلف طریق کار ہیں. دونوں اپنے اپنے زمانے کے اصحابِ حل و عقد کے ذہن کی پیداوار، مختلف زمانوں میں انسان نے اپنے لیے جو مناسب طرزِ حکمرانی تصور کیا اسے اختیار کر لیا۔ جہاں تک اسلام اور قرآن و حدیث کا تعلق ہے تو اس میں صاحب اقتدار فرد جسے خلیفہ کہیں یا بادشاہ، صدر کہیں یا وزیر اعظم، اس کے انتخاب کا کوئی لگا بندھا طریقہ وضع نہیں کیا گیا اور نہ ہی نصِ قطعی سے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی طریقہ کا پابند بنایا۔ وہاں تو صرف ایک سادہ سا اصول بیان کر دیا گیا اور وہ اصول ہے ”امرھم شوریٰ بینھم“ ۔ باقی یہ فیصلہ اجتماعی بصیرت پر چھوڑ دیا گیا کہ اس اصول کی روشنی میں افراد اپنے لیے جو طریقہ مناسب سمجھیں، اسے اختیار کر لیں۔ اسی لیے چاروں خلفائے راشدین ؓ کا انتخاب مختلف طریقوں سے عمل میں آیا، اور چاروں طریقے ہی صحابہ کرامؓ کی اجتماعی بصیرت کا نمونہ ٹھہرتے ہیں. بعد میں خلافت ملوکیت میں بدل گئی. اگرچہ اسے بھی خلافت بنو امیہ، خلافتِ عباسیہ، خلافت فاطمیہ اور خلافت عثمانیہ کا نام دیا گیا مگر وہ ان معنوں میں خلافتیں نہیں تھیں، جس نہج پر خلافتِ راشدہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ بہر حال خلافت و ملوکیت کا اختلاف اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔
اصل بات جو فاضل معترضین اٹھا رہے ہیں، وہ اسلام کے ابتدائی سات آٹھ سو سالہ عہد کو آج کے جمہوری دور سے کم تر ثابت کرنا ہے، جس کے لیے اُس دور میں ہونے والی ہر قتل وغارت، ہر شورش و بدنظمی کا اس نظام کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ اس نظام کو اس دور کی دنیا کے دوسرے نظاموں سے تقابل کا ذریعہ بھی بنایا جاتا اور بتایا جاتا کہ اُس دور میں دوسرے خطے کے انسانوں نے جو نظام اپنے لیے وضع کیے تھے وہ کیسے تھے؟ جس طرح آج میرے جیسا کم علم پاکستانی جمہوریت پر تنقید کرتا ہے اور اس کا موازنہ یورپ کے ممالک سے کرتا ہے تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ صاحب یہ موازنہ درست نہیں، وہاں کی جمہوریت کو اس معیار تک پہنچنے کے لیے برسوں لگے، لہذا یہاں بھی اتنے نہیں تو چالیس پچاس سال ضرور دیں، پھر تقابل کیجیے گا۔ اسی طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے، اپنے ذرائع ہوتے ہیں لہذا آج کے جدید ذرائع نقل و حمل کے ساتھ سات ہزار سال پہلے کے ذرائع نقل و حمل کے حامل معاشرے کے نظام سے موازنہ کسی طرح جائز نہیں، مگر نہیں جناب! میں ایسا نہیں کہوں گا بلکہ میں تو چاہوں گا کہ ان سات آٹھ صدیوں پر جس طرح محدب عدسہ لگا کر اس کے عیب چن چن کر اور انہیں مزید بڑھا مزید تڑا کر پیش کیا جاتا ہے، ذرا اس طرح کی تنقیدی نظر اپنے محبوب جمہوری دور پر بھی ڈالی جائے۔
ہم تین سو سال پرانی جمہوریت کو زیرِ بحث نہیں لاتے- پچھلے سو سال کے جمہوری نظام کو کسوٹی پر کس لیتے ہیں، پھر دیکھتے ہیں اس دورِ جمہوری کی برکات وفضائل-
ان سو سالوں میں جو جمہوری دور کہلاتا ہے، اس نے دنیا کی دوعظیم جنگوں کی برکتیں عنایت کیں، جن میں کروڑوں جانوں کا ضیاع کل کی بات ہے- ایشیاء و افریقہ اور شمالی امریکن اقوام کی گردنوں میں غلامی کا طوق اس دور جمہوری کی رحمدلانہ عنایت ہے- 1946ء میں اقوامِ عالم کا جمہوری ادارہ قائم ہوتا ہے- ان تمام اقوام کی اجتماعی بصیرت کے حامل ادارے نے انسانیت کی فلاح کے جوکارنامے سرانجام دیے، وہ لکھنے کے لیے یہ مضمون نہیں بلکہ پوری ہارڈ ڈسک چاہیے، لہذا چند اشارے۔
جرمنی کے ٹکڑے، کوریا پہ حملہ، ویت نام کی تباہی، کوسوو، فلسطین، کشمیر، دو بار عراق، شام، لبنان، 46ء سے آج تک یہ آپ کے اسی عالمی جمہوری ادارے کے آزاد جمہوری افراد کی جمہوری قراردادوں کے کارنامے ہیں، جنھوں نے 70 سال تک لاکھوں انسانوں کو بارود سے اور لاکھوں کو مختلف ممالک پر پابندیاں لگانے والی قراردادوں نے بھوک و افلاس سے موت کے گھاٹ اتارا۔ یہ سب ایک عالم، خلیفہ یا شہنشاہ کی مرضی سے نہیں بلکہ آپ کی، موجودہ دور کے اجتماعی بصیرت کے حامل ادارے میں بیٹھے جمہوری اصولوں کی پاسداری کرانے والے صاحبِ فہم افراد کی برکات سے ہوا۔ طاقت کے نشے میں بدمست کسی بھی ملک کے حکمران کو اجازت ہے جسے چاہے بموں سے بھون دے ، آپ کی جمہوریت خاموش تماشائی ہے، مگر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کوئی کمزور ملک کوئی جوابی کارروائی کرے تو آپ کا بابرکت جمہوری ادارہ اسے سبق سکھانے اور اس ملک کی بےگناہ قوم کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے پروانے جاری کرنے کے لیے ہر وقت مستعد و تیار ہے۔ ذرا تقابل کیجیے اس دور کی کوتاہیوں، کمزوریوں کا اس جمہوری عہد کی برکتوں سے۔ اگر آپ میں انصاف کی ذرا سی رمق بھی ہو تو اُس دور کے ظالم آج کے دور کے ظالموں کے مقابلے پارسا نظر آئیں گے۔
یہ بات کہ مسلمانوں کا کوئی عالم یا مولوی کھی شہید ہوا نہ کسی نے ظلم کے خلاف آوز اٹھائی۔
معترضین کے علم و تحقیق کا میں ادنٰی سا قدر دان ہوں۔ ان کے علم کی بیکرانی کا اندازہ بھی ہے مگر ان کی تاریخ اسلام سے یہ لاعلمی کسی تعصب کا نتیجہ لگتی ہے یا پھر تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، احمد بن حنبل، امام سرخسی، امام ابن تمیمیہ، لاکھ کوڑے کھائیں، قید ہوں، برسرِ بازار رسوا کیے جائیں، آپ کی نظر میں جچتے نہیں کیونکہ ان کوڑوں سے ان اصحابِ عزیمت کی موت واقع نہیں ہوئی۔ تاریخ حریت میں جو کارنامے علمائے اسلام نے انجام دیے، وہ اتنے روشن اور درخشاں ہیں کہ شاید ان کی معمولی جھلک آپ کو دوسرے مذاہب یا تہذیبوں میں نظر آسکے۔ ہاں اندھا تعصب نہ دیکھنے دے تو اور بات ہے۔ خلقِ قران کے مسئلے پر امام احمد ابن حنبل کا کام ایسا اعلی و ارفع ہے کہ وہ اس وقت کے علماء کے سر کا تاج تھے۔ مگر وہ سینکڑوں علماء جو اس فتنہ میں اس مسئلے کی وجہ سے شہید ہوئے، کبھی ان کے بارے میں پڑھیے۔
میں آپ کو تاریخ میں زیادہ دور نہیں لے جانا چاہتا اور جانتا ہوں کہ میری طرح بہت سے پڑھنے والوں کی دور کی نظریں کمزور ہیں، اس لیے قریب سے چند مثالیں دیتا ہوں۔
برصغیر میں 1857ء کی جنگ، دہلی میں انگریزوں کے خلاف فتوی دینے والے 33 علماء کے ساتھ جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ دہلی کے بعد آگرہ، فتح گڑھ، لدھیانہ، فتح پور، جالندھر، فیض آباد الغرض کون سا محاذ تھا جہاں علماء پیش پیش نہ تھے، شہادت پیش نہ کی اور جنگ کے اختتام پر توپوں سے باندھ کر اڑائے نہ گئے۔ عظیم اللہ خان، مولانا احمداللہ شاہ، مولوی و ہاج الدین، مولوی رضی اللہ بدایونی، شاہ غلام بولن سیوہاروی، مفتی عنایت اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا سید عالم علی، مولوی علاء الدین، مولوی عبدالقادر لدھیانوی، الغرض کتنے نام گنوائیں۔ دہلی کے فتوی پر دستخط کرنے والوں میں ایک نام غالب کے دیرینہ کرم فرما مفتی صدرالدین آزردہ کا بھی ہے جو غالب پر قرضے کے ایک مقدمے میں جج تھے۔ غالب کے پاس دینے کو ایک کوڑی نہ تھی لہذا مفتی صاحب نے انھیں جیل بھیجنے کے بجائے اپنی جیب سے قرضہ ادا کیا تھا۔ جنگ کے بعد یہ بھی زیرعتاب آئے، تمام دولت ضبط ہوئی اور تنگ دستی کی حالت میں چل بسے۔ اس کے بعد سرکار نے رحم کھاتے ہوئے ان کی بیوی کے لیے وظیفہ مقرر کیا، جس پر غالب نے اس طرح نمکِ حلالی کا حق ادا کیا کہ انگریز افسر کو خط لکھا کہ اس وظیفے کا اصل حقدار تو میں ہوں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ پھر سکھوں کے ہاتھوں بالا کوٹ میں سید احمد، شاہ اسماعیل اور ان کے ساتھی علماء شہید ہوئے. انگریز دور میں مالٹا و کالاپانی کی اسیری اور جیلیں بھگتانے والے علمائے کرام ہی تھے. مصر میں اخون المسلمون کے سید حسن البنا، عبد القادر عودۃ اور سید قطب وہاں ناصروں اور ساداتوں کے ہاتھوں شہید ہوئے. یہ سب علما ہی تھے.
قاہران وقت اور جابرانِ حکومت کے سامنے کھڑے ہونے، انھیں للکارنے اور شہید ہونے والے، فرقے کی تخصیص نہ مسلک کا لحاظ، ہر فرقے، ہر مسلک، ہرگروہ کا عالم اس فہرست میں شامل ہے. پھر بھی آپ کو کچھ نظر نہیں آتا تو یہ آپ کی نظر کی کمزوری ہے، علمائے اسلام اس الزام سے مبرا ہیں. اسلام، تاریخِ اسلام اور علمائے اسلام پر اپنی ناقدانہ خامہ فرسائی سے بہتر ہے کہ اپنی تحریری جولانگاہی کا مرکز و محور اپنے پسندیدہ مضامین شعر و شاعری اور سوشلزم تک محدود رکھیں تو بہتر ہوگا.
تبصرہ لکھیے