Tag: ثقافت

  • ثقافت اور مذہبیت – منیر احمد خلیلی

    ثقافت اور مذہبیت – منیر احمد خلیلی

    منیر خلیلی ثقافت کیا ہے؟ ثقافت کسی خطۂ ِ زمین اور کسی شہر اور بستی کے رہنے والے لوگوں کے عادات و اطوار ، مدتوں کے تجربات سے ماخوذ تصورات ، انہی تجربات ہی سے مقبول و مروج ہونے والی سماجی روایات ، وہاں کے رسوم و رواج سب ثقافت کی تعریف میں آتے ہیں۔ اس ثقافت کا رنگ بعض اوقات مذہب پر بھی غالب آ جاتا ہے اور تمام ثقافتی رسوم و روایات کوe baptizکر کے اور ’کلمہ پڑھا ‘ کرمذہبی تقدس فراہم کر دیا جاتا ہے۔ہمارے شہرہوں یا دیہات، ہر جگہ شادی بیاہ اور موت مرگ کی بہت سی ایسی رسمیں رائج ہیں جو خواہ کیسی ہی اوٹ پٹانگ اور بے معنی ہوں اور ان کا مذہب سے دور پار کا بھی کوئی تعلق نہ ہو لیکن ان کو ادا کرتے وقت ’درود‘ (دعا) کا اہتمام کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ گائوں اور محلے کے مولوی صاحب کو ان کے ادا کرنے کا کچھ نہ کچھ نقد یا اجناس کی صورت میںصلہ ضرور ملتا ہے اس لیے وہ نہ صرف یہ کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے بلکہ ان رسموں کو ’کلمہ پڑھانے ‘ اور بڑے سوز اور خضوع و خشوع کے ساتھ ’درود ‘ پڑھنے میں جاہل لوگوں سے بڑھ کر کردار ادا کرتے ہیں۔مہندی اور مائیوں اور اس طرح کی دسیوں تقریبات میں واہیات، حیا سوز اور اخلاق باختہ حرکات اور خلافِ شریعت رسوم سے پہلے مولوی صاحب سے ’درود‘ دلوایا جاتا ہے۔

    ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ ایک صاحبِ جائداد آدمی نے اپنے بیٹے کے ختنے کی’ تقریب ‘ اس دھوم دھام سے منائی تھی کہ ساری جائداد اس میں پھونک ڈالی تھی اور شاہانہ انداز میں ’مختون ‘ ہونے والا وہ صاحبزادہ جب بڑا ہواتو بیچارے کے پاس گزر بسر کے لیے بھی زمین اور روپیہ پیسہ نہیں بچا تھا۔ کوڑیوں کا محتاج بن کر اسے وہ گائوں ہی چھوڑنا پڑا تھا۔وہاں سے ساٹھ ستر کلو میٹر دور ایک دوسرے گائوں میں اپنے کچھ عزیزوں کے ہاں جا کر رہنے پر مجبور ہوا اور وہیں بیمار ہو کر مر گیا۔

    شادی بظاہر ایک دنیاوی معاملہ ہے لیکن جیسا کہ حدیث میں ہے کہ یہ انبیاء کی سنت ہے اور ایک لڑکی اور لڑکے کے درمیان رفاقتِ حیات کے بندھن کے جائز اور حلال ہونے کے لیے اسلام نے اس کے لیے چندشرائط مقرر کی ہیں۔ایجاب و قبول نکاح کی بنیادی شرط ہے۔ایجاب و قبول کے معاً بعد مرد کی طرف سے بطورِ فرض مہربصورتِ نقد، زیور یا کسی اور مقبول و معروف صورت میں طے ہونا اور مرد کے اپنی نو منکوحہ کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم ہونے سے پہلے اس کی ادائیگی مذہب کی رو سے لازم ہے۔پھر نکاح کوخفیہ نہیں بلکہ علانیہ معاملہ قرار دیا گیا ہے ۔لڑکی اور لڑکے کی طرف سے کم از کم دودو گواہ موجود ہونے ضروری ہیں ۔آخری چیز ولیمہ ہے جس کا اہتمام خود نبی ﷺ نے بھی کیا اور اپنے صحابہ ؓ کو بھی تاکید کی ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ثقافت ہر جگہ ان تمام مذہبی تقاضوں پر حاوی ہو جاتی ہے ۔بے شمار فضول رسمیں وجود میں آ گئی ہیں جنہوں نے ازدواجی رشتے کے قیام کو لڑکی اورلڑکے والے خاندانوں کے لیے وبال بنا دیا ہے۔آتش بازی ، ڈھول ڈھمکے اور بینڈ باجے اور فضول اور بے ہودہ رسموں میں بے تحاشا اخراجات نے شادی کی دینی روح کو مار کر رکھ دیا ہے۔رشتہ داروں کی مالی حیثیت ہو یا نہ ہو اور وہ دل سے دینا چاہتے ہوں یا نہ چاہتے ہوں مگر ایسے ایسے ’دان ‘ ایجاد کر لیے گئے ہیںجن کا دینا برادری میں ناک رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔کوئی صدقہ زکوٰۃ دے یا نہ دے مگر یہ ’دان‘ سماجی رسموں کاایسا لازمہ بن گئے ہیں جن سے گریز و فرار ممکن نہیں ہوتا ۔

    بات صرف شادی بیاہ تک محدود نہیں ہے۔ موت مرگ کے موقعوں کے لیے بھی اس طرح کے ’دان‘ نکال لیے گئے ہیں۔مرنے والے کے لیے شریعت جو کچھ ضروری قرار دیتی ہے وہ حسبِ استطاعت کفن ، جنازہ کی نماز اور دفن تک محدود ہے۔مرنے والے کے لواحقین غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔انہیں کھانے پکانے کا ہوش نہیں ہوتا اس لیے اقارب اور پڑوسیوں کا اخلاقی فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ کم از کم دو تین روز تک ان کو کھانا فراہم کریں۔ لیکن ثقافتی رسموں نے الٹا مرنے والے کے غم زدہ لواحقین پر یہ بوجھ ڈال دیا ہے کہ وہ تدفین کے بعد ساری برادری کے کھانے کا اہتمام کریں ۔ اقارب اورلواحقین کے غم کے زخم بھلے مہینوں میں بھی نہ بھریں لیکن اسلامی تعلیم یہی ہے سوگ اور تعزیت تین دن ہی منائیں۔مگر ثقافتی روایت کے مطابق مرحوم یا مرحومہ کے اٹھ جانے کے بعد چالیس روز تک مختلف ناموں سے ایسی تقریبیں جاری رہتی ہیں جن کا خُدا کی شریعت میں کوئی ثبوت ہے اور نہ اجازت۔ ’فاتحہ‘ کے لیے آنے والوں کا سلسلہ توکئی کئی مہینوں تک چلتا رہتا ہے۔اسلام کے مزاج میں یہ لچک ہے کہ یہ جہاں پہنچا وہاں کی مقامی تہذیب و ثقافت کو اس نے یکسر ملیا میٹ نہیں کر دیا۔جو چیزیں روحِ شریعت کے منافی نہیں ہوتیں اور سماجی رشتوں کے استحکام میں مدد دیتی ہیں، اسلام ان کو جذب کر کے اپنی تہذیب کا حصہ بنا لیتاہے ۔ لیکن اُمت میں جب جَہل و ضلالت کا غلبہ ہو ا اور دینی شعور دھندلا گیاتو عیدَین ، ولادتِ نبیﷺ اور محرّم کے حوالے سے مقامی ثقافت کی بہت سی سراسر غیر اسلامی روایات پر ’اِسلامی‘ کا لیبل لگا دیا گیا۔

    مغل بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں کے آباء و اجداد کا تعلق ایران سے تھا۔قدرت نے اسے ظاہری حسن کے علاوہ ذہانت، معاملہ فہمی اور انتظامی صلاحیتوں سے بھی خوب نوازا تھا۔ ان سب سے بڑھ کر وہ اپنے مسلک کے معاملے میں ایک مشنری جذبہ رکھنے والی خاتون تھی۔ جب مغل شہنشاہ کے حرم میں داخل ہوئی تو اسی مشنری جذبے کو بروئے کار لا کر اس نے اپنے مسلک کی تبلیغ کے لیے ایرن سے علماء اور ذاکرین بلانے شروع کیے ۔یہ سلسلہ نور جہاں کی موت کے بعد بھی جاری رہا۔مغلیہ سلطنت مذہب کے لحاظ سے مسلمان اور اپنے مزاج کے اعتبار سے ’سیکولر‘ تھی۔ اورنگزیب کا عہد نکال دیا جائے تواکبر، جہانگیراور شاہجہان بلکہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے عہد تک مذہبیت ’ ثقافت ‘میں دبی رہی۔جب تاج دارانِ اودھ نے شیعہ مسلک اختیار کیا توان میں بھی نور جہاں والا مشنری جذبہ عود کر آیا۔ ایران اور اودھ کے علمی حلقوں میں interaction میں تیزی آ گئی۔عُلماء اور ذاکر مذہبیت سے زیادہ مسلکی رسموں کے اسیر تھے۔ گزشتہ صدی میں ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی تحقیق سے یہ حقیقت دریافت کی تھی کہ شیعہ مسلک نے جو کچھ رائج کر رکھاہے وہ نہ حُب و عقیدتِ اہلِ بیت ہے اور نہ غمِ مظلومینِ کربلا ہے۔سب رسمیں صفوی بادشاہوں کی اختراعات ہیں۔ وہ اختراعات جب اودھ میں پہنچیں توان پر لکھنئو کی مقامی ثقافت کے رسوم و رواج کا رنگ بھی چڑھ گیا۔

    نقادانِ فن اس امر پر متفق ہیں کہ اردوشاعری میںمرثیہ کی صنف نے جو ترقی لکھنئو میں کی بر صغیر کا کوئی اور علاقہ اس کامقابلہ نہیں کر سکتا۔ انیس اور دبیر اور ان کے شاگردوںنے اس صنف کو گویا معراج پر پہنچا دیا تھا۔ انیس اور دبیر کے یا کسی بھی دوسرے لکھنوی شاعر کے مرثیے پڑھیں ان میں اتنی زیادہ ’مقامیت ‘ ہے کہ یوں لگتا ہے سانحۂ ِ کربلا عراق میں نہیں بلکہ اودھ ہی کے کسی میدان میں ہوا تھا۔ مرثیہ نگاروں نے شہدائے کربلا کی زبانوں سے جو کچھ کہلوایا یا ان سے منسوب کیااس کی زبان اور طرزِ اظہار و بیان پر لکھنو کی ’مقامیت‘ کا مکمل رنگ چڑھا ہوانظر آتا ہے۔یہ مرثیے ہمیں لکھنوی تہذیب و ثقافت میں گندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔

    مقامی سطح پر وضع کیے گئے ان طور طریقوں نے شہدائے کربلا کے غم کے اظہار میں ’مقامیت ‘ کوٹ کوٹ کر بھر دی ۔ماتم کا وہی انداز سامنے آیا جو لکھنو اور کسی حد تک شمالی ہند میں ہندو اور مسلمان سب میں تھا۔ کربلا میں ابتلا و آزمائش اور غم و اندوہ سے گزرنے والی اہلِ بیت کی عالی قدر مظلوم بیبیوں کے اظہارات کو بھی ’مقامیت‘ کے اسی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ مجھے سوشل میڈیا پر ایک شیعہ عالم کی اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوا کہ عاشورا کے ماتم کی روایات کا مذہب کے مقابلے میںمقامی ثقافتوں سے تعلق زیادہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماتم کے طور طریقوں میں جو نئے انداز سامنے آ رہے ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ اور جس قدر ثقافتی رسوم میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیںاور انسانی مزاجوں میں فرقہ وارانہ تعصبات بڑھ رہے ہیں ان کا عکس ماتم کے طریقوں میں بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔یہی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں شرقِ اوسط کے اندر مسلکی آویزشوں میں جو شدت پیداہوئی ہے اس کی جھلک بھی شہدائے کربلا کے ماتم میں در آتی جا رہی ہے۔

  • نئی نسل مطالعہ اور اخلاقی اقدار سے کیوں دور ہو رہی ہے؟ رحمان گل

    نئی نسل مطالعہ اور اخلاقی اقدار سے کیوں دور ہو رہی ہے؟ رحمان گل

    رحمان گل ”نئی نسل کو مطالعے کا شوق نہیں۔“ یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور جملہ جو سننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ ”نئی نسل اپنی ثقافتی و اخلاقی اقدار سے دور ہوتی جا رہی ہے۔“ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ امر توجہ طلب ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

    پہلا جملہ کہ نئی نسل کو مطالعے کا شوق نہیں اپنی جگہ حقیقت ہے۔ اس ضمن میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں جو یقیناً درست وجوہات تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
    پہلا سوال: کیا بچوں کے لیے مطلوبہ مقدار میں معیاری اور دلچسپ ادب تخلیق ہو رہا ہے؟
    دوسرا سوال: اس حوالے سے درس گاہیں اور اساتذہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
    تیسرا سوال: گھر میں مطالعے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے؟ میرے خیال سے یہ بنیادی سوال ہے۔
    چوتھا اور آخری سوال: کیا معاشرہ اور اہلِ دانش اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟

    ایک وقت تھا کہ جب تفریح کے ذرائع محدود تھے اور جرائد و رسائل تفریح کا ذریعہ تھے، تب مطالعہ کے شوق کی آبیاری بہت سہل تھی مگر آج وقت بدل چکا اور تفریح کے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ اور دلکش ذرائع موجود ہیں ان حالات میں مطالعے کا شوق پروان چڑھانے کے لیے نئے زمانوں کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اہلِ دانش اور مطالعے کی عادی افراد اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ اس طرح کہ اپنے زیرِ مطالعہ کتب پر تبصرے کیے جائیں، کتابوں سے متعلق رائے دی جائے، اور نئے پڑھنے والوں کی اس ضمن میں رہنمائی کی جائے۔ معاشرہ میں کتابیں تحفتاً دینے کے رواج کو فروغ دیا جائے۔ یہ درست ہے کہ دلیل جیسی ویب سائٹس کے آنے سے لوگوں میں مطالعے کا شوق بڑھا ہے مگر اس سے جملہ معترضہ کی خاطر خواہ تشفی نہیں ہوتی۔

    دوسرا جملہ کہ نئی نسل اپنی ثقافت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ واقعی بہت پریشان کن ہے اور یہ صرف جملہ نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔ اس ضمن میں معاشرے، ذرائع ابلاغ اور اہلِ دانش کا کردار نا ہونے کے برابر ہے اور شاید انہیں اس حوالے حالات کی سنگینی کا اندازہ بھی نہیں۔ ایسے میں جب دنیا ایک عالمی گاوں کی صورت اختیار کر چکی ہے اور ثقافتوں کا ادغام جاری ہے اور بڑی ثقافتیں چھوٹی ثقافتوں کو نگلتی جا رہی ہیں، ہمیں اپنی ثقافت کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ درست ہے ثقافتیں اثر قبول کرتی ہیں مگر ایسا نہ ہو کہ پاکیستانی ثقافتیں اثر قبول کرتے کرتے اپنی بنیاد ہی گم کر بیٹھیں۔ اس ضمن میں فنکار برادری جو کہ عموماً ثقافت کی علمبردار/ نمائندہ سمجھی جاتی ہے، کا کردار بھی مایوس کن ہے اور فنکاروں کی ایک بڑی تعداد دوسری ثقافتوں سے مرعوب نظر آتی ہے۔ ذرائع پر مکمل طور پر بیرونی ثقافتوں کا غلبہ ہے اور جو تھوڑی بہت مقامی پیداوار ہے فلموں اور ڈراموں کی وہ بھی بیرونی ثقافتوں سے مرعوب ہے۔ ایسے حالات میں جب ہر طرف بیرونی ثقافتوں کی یلغار ہو نئی نسل کیسے اپنی ثقافت کو اپنائے۔
    ہم نئی نسل کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں بس اسی طرح کا ماحول فراہم کرنا ہوگا بقول شاعر
    ؂ ذرا نم تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

  • اپنا آپ کہیں ہم کھو نہ دیں – شکیلہ سبحان شیخ

    اپنا آپ کہیں ہم کھو نہ دیں – شکیلہ سبحان شیخ

     شکیلہ سبحان شیخنئے دور کی نئی باتیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں. ایک دور تھا جب کسی شخص کی عزت اس کی تعلیم، تہذیب، نظریات، خوش اخلاقی اور بلند خیالی کی وجہ سے کی جاتی تھی، چاہے وہ کوئی امیر ہو یا پھر غریب۔ وہ گھرانہ ہی اعلیٰ کہلاتا تھا جس کے پاس تعلیم، تہذیب اور رکھ رکھائو تھا۔ جبکہ آج کے دور میں معاشرے میں صرف ان لوگوں کی عزت کی جاتی ہے جن کے پاس پیسہ ہو یا پھر وہ منہ بنا بنا کر انگلش بولتے ہوں. یہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے. ہم نے اپنی تہذیب، اپنا کلچر اور اپنی زبان تو کہیں گم کر دی ہے.

    حال ہی میں ایک نجی یونیورسٹی میں ایک ورکشاپ میں جانا ہوا۔ یونیورسٹی جدید طرز کے مطابق بہت خوب صورت بنی ہوئی ہے، بڑے بڑے کلاس رومز، جدید کمپوٹر لیب، کینٹین، پلے گرائونڈ، اور بہترین اساتذہ جو دیار غیر سے فارغ التحصیل ہو کر آئے ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو ہر معلومات اور آگہی دے رہے ہیں مگر افسوس کہ اپنی تہذیب اور اپنی زبان کے علاوہ۔ اُس ورکشاپ میں بہت اچھی اچھی باتیں سکھائی جا رہی تھی،گفتگو اور طرز تکلم بھی سیکھا گیا لیکن تمام کی تمام انگریزی میں. اچھی بات ہے ہمیں دوسری زبان پر بھی عبور حا صل ہونا چاہیے لیکن اپنی مادری زبان کا کیا ہوگا؟ اس کو پس پشت پر ڈال کر مغربی زبان کو اہمیت دی جائے گی؟ ہم مغربی تہذیب میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ بس ممی، ڈیڈی، پاپا، مام ہی زبان سے نکلتا ہے، باباجانی، ابو، امی، اماں جیسے الفاظ کی مٹھاس تو کہیں گم کردی گئی ہے. زبان تو زبان، لباس بھی مغربی ہوتا جارہا ہے، اُس تعلیمی ادارے میں بیشتر ٹیچرز مغربی لباس میں ملبوس تھیں۔ کہتے ہیں استاد طالب علم کے لیے مثالی کردار ہوتے ہیں، سوچنے کی بات ہے جب استاد مغربی تہذیب کی پیروی کر رہے ہوں تو طالب علم کا کیا حال ہو گا. یہ صرف ایک ادارے کی بات نہیں ہے، تقریباً ہر پرائیویٹ یونیورسٹی اور کالج کا یہی حال ہے۔

    یونیورسٹی سے واپسی کے بعد دل مضطرب رہا اور سوچتی رہی کہ کیا ہم بے راہ روی کا شکار ہو تے جارہے ہیں؟ ہماری تہذیب جو خدا پرستی اور فکر آخرت کی اساس پر قائم ہے اور عفت و عصمت کے ستونوں پر کھڑی ہے، مغرب کی دنیا پرست اور آزاد تہذیب سے مغلوب ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ممکن ہے کہ ہم قوم پرستی کے جذبے سے مغرب کے خلاف کھڑے ہوں، مگر تہذیبی طور پر مغربی انداز فکر کو قبول کرچکے ہیں۔ آج معیارِ زندگی بلند کرنے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اور دنیاوی لذتوں اور تعیشات کو زندگی کا مقصد بنا لینے کا جو عمل شروع ہوگیا ہے، اس کے نتائج ہمارے کھوکھلے اخلاقی وجود کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ ہم دنیا بھر سے اسلام کے نام پر لڑتے ہیں، مگر انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنے سیرت و کردار میں وہ مثالی نمونہ پیش نہیں کرپاتے جو صحابہ کرام یا ان کے بعد بھی مسلمانوں کا شعار تھا۔ مثالی ہونا تو دور کی بات ہے ہم معمول کا وہ اخلاقی رویہ بھی پیش نہیں کرپاتے جس کی توقع بحیثیت ایک اچھے انسان سے کی جاسکتی ہے.

    آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھی جا رہی ہے کہ وہاں ’’ہم نصابی‘‘ لیکن درحقیقت غیر تعمیری سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں غیر نصابی پروگرامز اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جا رہی ہیں۔ سالانہ تقریبات، مقابلہ حسن، فیشن شوز، ملبوسات کی نمائش، کیٹ واک اور کبھی ڈانس مقابلوں کے عنوان سے پروگرامز کے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی، ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر جو وبا پھیل رہی ہے، وہ ہمارے معاشرے اور تمدن کودیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ’’ٹاپ ا سٹارز‘‘ بنائے جا رہے ہیں۔

    معاشرے اپنی تہذیب، تمدن اور ثفاقت سے پہچانے جاتے ہیں، سوچتی ہوں کہ ہمارا ملک کس تہذیب سے پہچانا جائے گا؟ کیا مغربی تہذیب سے؟ جبکہ یہ تو ایک اسلامی ملک ہے، ہماری اپنی تہذیب اور ثفاقت ہے، ہمارا اپنا لباس بہت خوب صورت ہے، پھر ہم کیوں اس کو ترک کر کے دوسروں کی پہچان اپنا رہے ہیں؟ یہ ہم کس راہ پر گامزن ہیں؟ کیا ہمارے ملک سے ہماری زبان، ثفاقت بلکل ختم ہو گئی ہے.

    اسی شام ایک بہت نفیس اورسادہ طبیعت کے مالک معروف کالم نگار و شاعریعقوب غزنوی صاحب سے روزنامہ امت کے دفتر میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ان کی گفتگو سے مستفید ہوئے تو دل کو سکون ملا کہ آج بھی ہمارے درمیان ایسی مثالی کردار موجود ہیں جن کی وجہ سے ہماری زبان اور تہذیب زندہ ہے. ان کا تعلیمی سفر کیسا تھا؟ انہوں نے لالٹین کی روشنی میں تختی پر لکھ لکھ کر وہ تعلیم حاصل کی تھی جو آج کی نسل ہر آسائش ہونے کے باوجود بھی حاصل نہیں کر سکتی، ان کی اچھی اچھی باتیں سن کر میں نے صبح و شام کا موزانہ کیا، صبح کیا سبق سیکھا اور شام میں کیا سیکھا؟ وہاں لبر ل لوگوں کی زبان سے قرآن کا ترجمہ سن کر کیسا لگا تھا اور ابھی ان سے اسلام کی تاریخ سن کر کیسا لگ رہا ہے۔ ہمیں یقوب غزنوی صاحب جیسے قلم اور زبان سے محبت کرنے والے لوگوں کو اپنا مثالی کردار بنانا چاہیے جنہوں نے اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے ہی بڑی جدوجہد سے کامیابی حاصل کی نہ کہ ان لوگوں کو اپنا مثالی کردار بنائیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مغرب میں گزرا اور وہی سے تعلیم حاصل کی اور آج وہ ہمارے ملک بھی مغربی تہذیب اور ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمیں مغرب کے بجائے اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب کواجاگر کرنا ہے! ہماری اپنی زبان جو مٹھاس، ہماری اپنی تہذیب میں جو آداب و شائستگی ہے، ہمارے اپنی ثقافت میں جو پاکیزگی ہے وہ مغرب میں نہیں۔