Tag: تحریک آزادی

  • جنت ارضی کشمیر کا بیانیہ – ارشد محمود ملک

    جنت ارضی کشمیر کا بیانیہ – ارشد محمود ملک

    کشمیر کو کرہ ارض پر جنت قرار دیا گیا ہے. یہ مشاہدہ جس نے بھی بیان کیا وہ فطرت کی حنا بندی کا فن خوب جانتا ہو گا. مگر المیہ یہ ہے کہ انسانوں کی غالب اکثریت فطرت سے زیادہ مادیت پر یقین رکھتی ہے. کشمیر کا جغرافیہ موسم اور قدرتی حسن اپنی مثال آپ ہے. یہاں بہتے دریا خوبصورت جھیلیں سرسبز و شاداب پہاڑ میٹھے پانی کے چشمے کنول کے پھول اور زعفران کے کھیت جہاں بے پناہ کشش رکھتے ہیں وہیں خوبصورت و شاداب چہرے اچھی قد قامت اور اچھے اخلاق کے حامل مرد و زن اضافی خوبی ہیں. لیکن کیا خوشگوار زندگی کے لیے یہی کافی ہے؟ یقیناً نہیں انسانی زندگی کے نکھار اور اسے دیگر معاشروں سے مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے دیگر عوامل کی ضرورت ہوتی ہے. جیسے حقیقی جنت میں جانا آسان نہیں ہے ویسے ہی اس تصور کی گئی جنت میں بھی داخلہ آسان نہیں. کشمیر کا ذکر آتے ہی بھارتی مظالم بارود کی بدبو خون کی ندیاں خواتین کی عصمت دری کے واقعات آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی صورت شعور کے پردے پر نمایاں ہو جاتے ہیں. کیا واقعی کشمیر کو اسی مسئلے کا سامنا ہے؟ میرے خیال میں یہ ایک بڑا اور سب سے حل طلب مسئلہ ہے. لیکن یہ واحد مسئلہ ہر گز نہیں ہے. کشمیر کے مسئلے کو از سر نو سمجھنے کی ضرورت ہے. اس پر حد سے زیادہ حساسیت پیدا کر لی گئی ہے. جس سے بحث محدود ہو گئی ہے. کشمیر محض متنازعہ علاقہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر انسانی مسئلہ ہے. سب سے بھیانک بات کشمیریوں کی عدم شناخت ہے. تین نسلیں بغیر شناخت کے درگور ہو گئی ہیں اور آگے بھی آثار نظر نہیں آ رہے جس سے مایوسی اور بد دلی کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے.

    بھارت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ابھی بہت کچھ لکھا جانا ہے اس ذیل میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا آج کے مضمون میں اس پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے ازادکشمیر کے مسائل اور یہاں پر بسنے والے افراد کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل میں عدم دلچسپی کو موضوع بحث بنایا جائے گا. کشمیر کا جہاں بھی ذکر آتا ہے اس میں کشمیریوں پر بات کم اور جغرافیہ پر بات زیادہ ہوتی ہے. بالخصوص آزاد کشمیر کے باسی تو اس ذیل میں کہیں نظر ہی نہیں آتے ہیں. اس کی وجوہات مختلف لوگوں کی نظر میں مختلف ہوں گی. میرا مشاہدہ عمومی نوعیت کا ہے اور اسے عمومی انداز میں ہی پیش کروں گا. میں کوشش کروں گا کہ کہ ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کراؤں جن کی بنیاد پر ہم لوگ اپنے اولین مسئلہ سے پہلو تہی کرتے ہیں. سیاسی پس منظر، معاشی مسائل، نظام تعلیم اور عدم تسلسل وہ بنیادی عوامل ہیں جنہوں نے لوگوں سے غور فکر کا ہتھیار چھین لیا ہے. اب فرداً فرداً ان امور کا اجمالی جائزہ پیش کرتا ہوں.

    سیاسی پس منظر ریاست کے ابتدائی ماہ و سال میں شرح خواندگی خوف ناک حد تک کم تھی اس لیے ایک بڑی اکثریت اپنے نفع و نقصان سے نابلد تھی. یہ جہاں ایک بہت بڑی کمزوری تھی وہیں اگر اسے درست انداز میں استعمال کیا جاتا تو یہ بہت بڑی طاقت بن سکتی تھی. نظریاتی وحدت کے لیے اس سے سازگار کیفیت کوئی نہیں ہو سکتی کہ آپ کے مخاطب افراد آپ کو پوری یکسوئی کے ساتھ سنتے ہوں اور آپ کی ہر بات پر یقین کرتے ہوں. لیکن بدقسمتی سے اس کمزوری کو کشمیریوں کی بیوقوفی سے تعبیر کیا گیا. قدرت اللہ شہاب مشتاق گورمانی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک کتابچہ لہراتے ہوئے لوگوں کو کہا کہ یہ قرآن ہے اور ہم کشمیر کو وہ تجربہ گاہ بناتے ہیں جہاں رب کی دھرتی رب کا نظام ہو گا. لوگ انتہائی جذباتی ہو کر یہ سب سن رہے تھے اور زیادہ تر آبدیدہ تھے. واپسی پر جب انہوں نے گورمانی سے دریافت کیا کہ کیا یہ واقعی قرآن تھا تو مسکرانے لگے. ان لوگوں کو سازش کے ذریعے اپنا گرویدہ بنانے کی کوشش کی گئی جو بدگمانی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے. اس کے بعد ایک مسلسل سلسلہ شروع ہو گیا اور جو اختلاف کی جسارت کرنے کی کوشش کرتا وہ غدار سمجھا جانے لگا. تحریک آزادی کشمیر کے کئی ہیرو گمنام ہو گئے. یہاں تک کہ شیخ عبداللہ جیسا فرد بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا سرکاری مہمان ہو گیا. اور کشمیری عملاً بھارت نواز اور پاکستان نواز میں تقسیم ہو گئے اور یہ تقسیم ہنوز برقرار ہے. اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا وہ دونوں جانب کے کشمیریوں کے درمیان رابطوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ دونوں جانب مقیم لوگ ایک دوسرے کے لیے غیر ہو گئے.

    بعد ازاں جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کر لیا گیا اور رہتی امیدیں بھی دم توڑ گئیں. اس کے بعد ایکٹ انیس سو چوہتر کے نفاذ نے ریاست کو باقاعدہ کالونی بنا دیا گیا اور چیف سیکریٹری اور وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کو وائسرائے کی حیثیت حاصل ہو گئی. کشمیریوں کی نمائندگی ان کے ہاتھوں سے نکل گئی. موجودہ نظام اسی انتظام کے زیر سایہ پھل پھول رہا ہے.

    معیشت اگر جغرافیہ کے تابع ہو تو وہ فطری انداز میں آگے بڑھتی ہے جس طرح پنجاب اور سندھ میں زراعت نے ایک بڑی اکثریت کو خوشحالی بہم پہنچائی ہے. ساحلی علاقوں میں صنعت نے ترقی کی ہے. سرحدی علاقوں میں تجارت نے فروغ پایا ہے ویسا کوئی انتظام کشمیر میں نظر نہیں آتا. ہم نے اگر جغرافیائی اہمیت کو استعمال نہیں کیا ہے تو ساتھ ہی ثقافت کو پس پشت ڈال کر جو تھوڑی بہت معاشی سرگرمیاں تھیں انہیں بھی مسدود کر دیا ہے. فی الحال کشمیر کا معاشی نظام کسی طفیلی معاشرے جیسا ہے. محکمہ تعلیم، برقیات پولیس اور کسی حد تک سول سروس میں نوکری اختیار کرنے کے علاوہ ذرائع آمدنی کے بہت ہی محدود ہیں. ریاست کے زیادہ تر لوگ بیرون ملک روزی کماتے ہیں. صنعتوں کی عدم موجودگی میں بہتر ہنر مند پیدا نہیں ہو رہے. پولی ٹیکنیک اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کی تعداد بھی آبادی کے تناسب سے مطابقت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے لوگ انتہائی نچلے درجے کی ملازمت اختیار کرتے ہیں. اس لیے عموماً لوگ فیصلہ سازی کے عمل میں دلچسپی نہیں رکھتے.

    نظام تعلیم کو اگر شرح خواندگی کے تناظر میں دیکھیں تو اس کو پاکستان کے دیگر حصوں سے بہتر قرار دیا جا سکتا ہے. لیکن اگر فکری تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں بھی حالت الحفیظ و الامان والی ہے. دس دس کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد طلباء و طالبات کو بنیادی تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے. اساتذہ کی غالب اکثریت سیاسی جماعتوں کے دم چھلوں کی صورت اختیار کر گئی ہے. نصاب تعلیم کے حوالے سے صورتحال مزید ابتر ہی کہلائی جا سکتی ہے. پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک کی ساری کتابیں حفظ بھی کر لی جائیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمارا طالب علم کشمیر کی تاریخ اور جغرافیہ پر ایک مضمون لکھنے کے قابل بھی نہیں ہو گا. ہمیں اس میدان میں توجہ کی اشد ضرورت ہے.
    عدم تسلسل ہمارا سب سے بھیانک معاشرتی رویہ ہے. جنگ آزادی کشمیر سے لے کر آج تک ہر میدان میں ادھورے کام ہمارے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں. تکمیل پاکستان کی منزل اگر مقصود ہے تو ہمیں انسانی وسائل کو بروئے کار لانے کی محنت کرنا ہوگی. جب تک ہم اپنے نوجوانوں کی فکری تربیت کا بندوبست نہیں کریں گے آپیں تپسی تے ٹھس کر سی والی جگہ پر کھڑے رہیں گے.

  • بھارتی صحافیوں کے وفد کا دورۂ کشمیر ‘تاثرات-افتخار گیلانی

    بھارتی صحافیوں کے وفد کا دورۂ کشمیر ‘تاثرات-افتخار گیلانی

    m-bathak.com-1421247195iftekhar-jelani

    حزب المجاہدین کے کمانڈر برھان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں تین ماہ سے جاری عوامی تحریک اور حال ہی میں سرحدی علاقہ اوڑی میں 18فوجیوں کی ہلاکت نے بھارت میں جہاں ایک طرف جنگی جنون برپا کر دیا ہے ، وہیں چند ہوشمند افراد حکومت اور میڈیا پر بھروسہ کرنے کے بجائے حالت کی تہہ تک جانے کی کوششیں بھی کررہے ہیں‘جس کا ادراک مجھے دہلی میں روزانہ ہو رہا ہے۔پچھلے دنوں ایک ہندی جریدہ سے وابستہ خاتون صحافی میرے آفس میں آدھمکی اور ایک ہی سانس میں پیلٹ گنوں کی طرح کشمیر پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں نے مشورہ دیا کہ میرے جوابات پر انحصار کرنے کے بجائے وہ کشمیر جاکر حالات کا خود مشاہدہ کرے اور واپس آکر مجھے بھی باخبر کرے۔ اسی طرح چند ہفتہ قبل ہندی اور مراٹھی کے معروف صحافیوں سنتوش بھارتیہ اور اشوک وانکھڑے بھی معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ ان کی بے چینی اور حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ آخر کشمیری بھارت کے جمہوری نظام کے خلاف کیوں صف آرا ہیں؟ میں نے ان کوبھی یہی مشورہ دیاکہ حقائق جاننے کیلئے وہ خود کھلے ذہن کے ساتھ سری نگر کا دورہ کریں اور ہوسکے تو جموں کے چناب ویلی اور پیر پنچال‘ علاقوں میں بھی جائیں۔

    آخرکار ا ن دونوں صحافیوں اور ایک معروف تجزیہ کار پروفیسرابھے دوبے نے چار دن کشمیر میں گزارے۔ سنتوش بھارتیہ پارلیمان کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں خصوصاً مرکزی وزیر اور سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ کے قریبی جاننے والے مانے جاتے ہیں۔ واپسی پر بھارتیہ جی نے اپنے پرانے رفیق وزیراعظم نریندر مودی کو ایک طویل خط لکھا ہے ۔سنتوش بھارتیہ کے ہندی میں لکھے خط کے مندرجات میں یہاں نقل کرتا ہوں۔”پیارے وزیر اعظم صاحب! میں ابھی چار دن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹا ہوں۔ اور چاروںدن میں کشمیر کی وادی میں رہا اور مجھے یہ لگا کہ میںآپ کو وہاں کے حالات سے واقف کروں۔ مجھے یہ پورا یقین ہے کہ آپ کے پاس جموںو کشمیر کو لے کر خاص طور سے وادی کشمیر کو لے کر جو خبریںپہنچتی ہیں، وہ سرکاری افسروں کے ذریعہ اسپانسر شدہ خبریںہوتی ہیں، ان خبروں میںسچائی کم ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسامیکانزم ہو جو وادی کے لوگوں سے بات چیت کرکے آپ کو سچائی سے آگاہ کرائے تو میرا یقینی طور پر ماننا ہے کہ آپ ان حقائق کو نظر انداز نہیںکر پائیں گے۔ میں وادی میںجاکر مضطرب ہوگیا ہوں۔ زمین ہمارے پاس ہے، کیونکہ ہماری فوج وہاں پر ہے، لیکن کشمیر کے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اور میںپوری ذمہ داری سے یہ حقیقت آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں کہ 80 سال کی عمر کے شخص سے لے کر 6سال تک کے بچے کے دل میں بھارتی نظام کے بارے میں بہت زیادہ غصہ ہے۔ اتناغصہ ہے کہ وہ اس نظام سے جڑے کسی بھی شخص سے بات نہیں کرنا چاہتے۔

    اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ ہاتھ میں پتھر لے کر اتنے بڑے میکانزم کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اب وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں جس میںسب سے بڑا خطرہ قتل عام کا ہے اور یہ حقیقت میںآپ کو اس مقصد کو سامنے رکھ کر لکھ رہا ہوں کہ کشمیر میں ہونے والے صدی کے سب سے بڑے قتل عام کو بچانے میںآپ کا کردارسب سے اہم ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز اورہماری فوج میںیہ سوچ پنپ رہی ہے کہ جو بھی کشمیر میں نظام کے تئیںآواز اٹھاتا ہے‘ اسے اگر ختم کردیا جائے ، اس کی جان لے لی جائے ، اسے دنیا سے وداع کردیا جائے، تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہوسکتی ہے۔ہمارا نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے، دراصل وہ علیحدگی پسندتحریک نہیںہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر 80 سال کے ضعیف سے لے کر 6 سال کا بچہ تک‘ آزادی، آزادی ، آزادی کہے، تو ماننا چاہیے کہ گزشتہ 60 سالوںمیںہم سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں ۔۔ سکیورٹی فورسز پیلٹ گن چلاتی ہیں، لیکن ان کا نشانہ کمر سے نیچے نہیں ہوتا ہے، کمر سے اوپر ہوتا ہے، اس لیے دس ہزار لوگ زخمی پڑے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب !میں کشمیر کے دورے میں اسپتالوں میں گیا‘ مجھ سے دہلی میں کہا گیا کہ سکیورٹی کے چار پانچ ہزار افراد بھی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ ہزاروں کی تعداد ہمارے پرچار کا نظام بیان کرتا ہے جس پرکوئی یقین نہیں کرتا اور اگر ہے تو ہم صحافیوں کو ان جوانوں سے ملوائیے جو ہزاروں کی تعداد میں کہیں زیر علاج ہیں۔ ہم نے بچوں کو دیکھا جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں، جو کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ لہٰذا میں یہ خط بڑے یقین اور جذبے کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ ہم تینوں کئی بار کشمیر کی حالت دیکھ کر روئے۔ کشمیر کے لوگو ں کو اس بات کا رنج ہے، اس بات کا دکھ ہے کہ ہریانہ صوبہ میں اتنا بڑا جاٹ احتجاج ہوا، گولی نہیں چلی، کوئی نہیں مرا۔ راجستھان میں گوجر آندولن ہوا، کوئی آدمی نہیں مرا، کہیں پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ ابھی دریائے کاویری پانی کو لے کرکرناٹک میں، بنگلورو میں اتنا بڑا اندولن ہوا ، لیکن ایک گولی نہیں چلی۔لیکن کشمیر میں گولیاں چلتی ہیںاور کیوں کمر سے اوپر چلتی ہیںاور چھ سال کے بچوں پر چلتی ہیں؟‘‘

    سنتوش بھارتیہ کے مطابق کشمیر میں پولیس والوں سے لے کر تاجر، طلبہ، سول سوسائٹی ، قلم کار، صحافی، سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور سرکاری افسروں ‘سب نے ان سے کہا کہ کشمیر کا ہر آدمی ہندوستانی نظام کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ ”جس کے ہاتھ میںپتھر نہیںہے اس کے دل میں پتھر ہے۔ یہ تحریک عوامی تحریک بن گئی ہے ٹھیک ویسی ہی جیسی 1942 ء میں انگریزوں کے خلاف بھارت چھوڑو تحریک تھی یا پھر جے پرکاش تحریک تھی جس میں لیڈر کا کردار کم تھا اور لوگوں کا کردار زیادہ تھا۔ ــ‘‘ اس وفد نے وزیر اعظم ، مرکزی وزیروں اور حکمران بی جے پی کے لیڈران کی طرف سے بار بار پاکستان پر الزام تراشی کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے۔ بھارتیہ کے بقول‘ کیا پاکستان اتنابڑا ہے کہ وہ پتھر چلانے والے بچوںکو روز پانچ سو روپے دے سکتا ہے اور کیا ہمارا نظام اتنا خراب ہے کہ اب تک ایک شخص کو نہیںپکڑ پایا جو وہاں پانچ پانچ سو روپے بانٹ رہا ہے؟ انہوں نے مودی کو خط میں لکھا وہ خود سوچیںکہ جب کرفیو ہے ، لوگ سڑکوں پر نہیںنکل رہے تو کون محلے میں جارہا ہے پانچ سو روپے بانٹنے کے لیے۔ پاکستان کیا اتنا طاقتور ہے کہ پورے کے پورے 60 لاکھ لوگوں کو بھارت جیسے 125کروڑ کی آبادی والے ملک کے خلاف کھڑا کرسکتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ بیانات اور پاکستان پر الزام لگانا ان کو مذاق لگتا ہے اور کشمیر کے لوگوں کو بھی یہ مذاق ہی لگتا ہے۔

    بھارتی میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں‘”ہمارے ساتھی راجیہ سبھا میںجانے یا اپنا نام صحافت کی تاریخ میں فرسٹ کلاس میںلکھوانے کے لیے اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ ملک کے اتحاد اور سالمیت سے بھی کھیل رہے ہیں‘ لیکن وزیر اعظم صاحب تاریخ بے رحم ہوتی ہے، وہ ایسے صحافیوں کو محب وطن نہیں غدار مانے گی، کیونکہ ایسے لوگ جو پاکستان کا نام لیتے ہیں یا ہر چیز میں پاکستان کا ہاتھ دیکھتے ہیں، وہ لوگ دراصل پاکستان کے دلال ہیں،وہ ذہنی طور پر ہندوستان کے لوگوں میںاور کشمیر کے لوگوں میںیہ جذبہ پیدا کررہے ہیں کہ پاکستان ایک بڑا مضبوط، بڑا قادر اور بہت باریک بین ملک ہے۔ وزیر اعظم صاحب! ان لوگوں کو جب سمجھ میں آئے گاتب آئے گا یا سمجھ میں نہ آئے، مجھے اس سے تشویش نہیںہے۔ میری تشویش ہندوستان کے پیارے وزیر اعظم نریندر مودی کو لے کر ہے۔ نریندر مودی کو تاریخ اگر اس شکل میںدیکھے کہ انھوںنے کشمیر میں ایک بڑا قتل عام کرواکر کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ جوڑے رکھا،شاید وہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت افسوسناک تاریخ ہوگی۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ تاریخ نریندر مودی کو اس شکل میں جانے کہ اس نے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتا۔ انھیں وہ سارے وعدے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی جوساٹھ سال سے کشمیریوں کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ کشمیر کے لوگ سونا نہیںمانگتے ، چاندی نہیںمانگتے بس ان وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں ، جو ہم نے ان کے ساتھ کئے ہیں۔‘‘

    بھارتیہ جی کے مطابق کشمیر میں اس بار بقرعید نہیں منائی گئی، کسی نے نئے کپڑے نہیں پہنے، کسی کے گھر میں خوشیاں نہیںمنائی گئیں۔ ـ”کیا یہ ہندوستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پر طمانچہ نہیں ہے جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ ساری تحریک وہاں کی سیاسی قیادت کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کرگئی۔ جس کشمیر میں 2014ء میں الیکشن ہوئے، لوگوں نے ووٹ ڈالے، آج اسی کشمیر میںکوئی بھی شخص ہندوستانی نظام کے تئیں ایک لفظ ہمدردی کا کہنے کے لیے تیار نہیں ۔ میںآپ کو یہ سارے حالات اس لیے بتارہا ہوںکہ آپ پورے ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، آپ اس کا کوئی راستہ نکال سکیں۔ ‘‘ وفد نے مشاہدہ کیا کہ کشمیر کے گھروں میں لوگ شام کوایک بلب جلاکر رہتے ہیں، زیادہ تر گھروں میں یہ مانا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، اتنے قتل ہورہے ہیں، دس ہزار سے زیادہ پیلٹ گن سے زخمی لوگ ہیں، پانچ سو سے زیادہ لوگوں کی آنکھیںچلی گئی ہیں۔ ایسے وقت میں ہم چار بلب گھر میںجلاکرکیسے رہ سکتے ہیں۔” وزیر اعظم صاحب! میںنے دیکھا ہے کہ لوگ گھروں میںایک بلب جلا کر رہ رہے ہیں۔ میںنے کشمیر میںیہ بھی دیکھا کہ کس طرح صبح آٹھ بجے سڑکوں پر پتھر لگا دیے جاتے ہیں او رشام کو 6 بجے وہی لڑکے جنھوں نے پتھر لگائے ہوئے ہیں اپنے آپ سڑکوں سے پتھر ہٹادیتے ہیں۔ دن میں وہ پتھر چلاتے ہیں،شام کو وہ اپنے گھروں میں اس خدشے میں سوتے ہیں کہ نہ جانے کب سکیورٹی فورسز کے لوگ انہیںاٹھاکر لے جائیں، پھر وہ کبھی اپنے گھروں کو واپس لوٹیں یا نہ لوٹیں۔

    ایسی حالت تو انگریزوں کے دور حکومت میں بھی نہیں تھی۔ لیکن آج پہلی باریہ تحریک آزادی دیہاتوں تک پھیل چکی ہے۔ ہر پیڑ پر ہر موبائل ٹاور کے اوپر ہر جگہ پاکستانی جھنڈا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے بہت سے لوگوں کے دل میں کوئی پشیمانی نہیں تھی کہ کشمیر کے لوگ ہندوستان کے نظام کو، اقتدار کو چڑانے کے لیے جب ہندوستان کی کرکٹ میںہار ہوتی ہے، تو جشن مناتے ہیں وہ صرف پاکستان کی ٹیم کی جیت پر جشن نہیں مناتے خوش نہیں ہوتے اگر ہم نیوزی لینڈ سے ہار جائیں، اگر ہم بنگلہ دیش سے ہار جائیں، اگر ہم سری لنکا سے ہار جائیں، تب بھی وہ اسی طرح خوشی کا اظہار کرتے ہیں‘ کیونکہ انھیں یہ لگتا ہے کہ ہندوستانی نظام کی کسی بھی کامیابی کو مسترد کرکے اپنی مخالفت کا اظہار کررہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب !کیا اس نفسیات کو ہندوستان کی سرکار کو سمجھنے کی ضرورت نہیںہے؟ کشمیر کے لوگ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، تو کشمیر کی زمین لے کر کے ہم کیا کریں گے۔‘‘ دعا ہے کہ سنتوش بھارتیہ اور ان کے ساتھیوں کی باتیں بھارتی راہنماوٗں کے دلوں میں اتر جائیں، تاکہ جنوبی ایشیا واقعی امن کا گہوارہ بن جائے۔

  • کشمیر اور بلوچستان کا تقابلی جائزہ – رعایت اللہ فاروقی

    کشمیر اور بلوچستان کا تقابلی جائزہ – رعایت اللہ فاروقی

    رعایت فاروقی میں نے گزارش کی تھی کہ پاک بھارت معاملات کے حوالے سے ایک دوسرے کی پوسٹوں پر کمنٹس سے پرہیز کیا جائے لیکن میری ہی کل والی دو پوسٹوں پر سرحد پار سے کمنٹس ہوگئے ہیں۔ میں بھارت کو دشمن اور بھارتی مسلمان کو بھائی سمجھتا ہوں اور نہیں چاہتا کہ ان کے لیے کوئی پریشانی کھڑی ہو، اسی لیے دونوں ملکوں کے باہمی تنازعات پر ایک دوسرے سے نہ الجھنے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر میرے ہندوستانی بھائی! جب آپ کو چین نہیں آرہا تو اب آپ ہی طے کر لیجیے کہ آپ میرے انڈین دشمن ہیں یا مسلمان بھائی؟ تاکہ میں آپ سے ان دونوں میں سے کسی ایک ہی رشتے سے پیش آؤں.

    دوسری گزارش پاکستانی دوستوں سے ہے۔ مجھے مایوسیاں پھیلانے والوں سے گٹر اور اس کے لال بیگوں سے بھی زیادہ کراہت آتی ہے۔ میری پوسٹوں پر مایوسیاں پھیلانے سےگریز کیجیے۔ آپ کہتے ہیں کہ شہلا رشید اگر یہاں ہوتی تو فلاں ہوجاتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پوسٹ مسئلہ کشمیر پر تھی، کشمیر کے ذکر پر بلوچستان کا حوالہ کوئی ہندوستانی دے تو سمجھ بھی آتا ہے کیونکہ دشمن ہے۔ آپ بھارت کی زبان کب سے اور کیوں بولنے لگے؟ دوسری بات یہ کہ کہ ہندوستان کی جن ریاستوں میں آزادی کا نعرہ لگ رہا ہے، وہاں ہونے والے مظالم آپ کو نظر نہیں آ رہے کیا؟ پچھلے تین ماہ میں سو کے قریب شہلا رشیدی قتل اور پانچ سو کے قریب اندھے نہیں کر دیے گئے کیا؟ وہ مارے گئے افراد اور نابینا کیے گئے لوگ کوئی عسکریت پسند نہیں ہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عام شہری ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ پاک فوج نے کتنے بلوچ نہتے شہری مارے ہیں؟ اور آپ مجھے بتائیں کہ بلوچستان کے کس شہر یا قصبے میں عام شہریوں نے نکل کر پاکستان سے آزادی کی بات کی ہے؟ تین حرام خور نوابوں کو ریاست نے بھتہ دینا بند کیا تو انہوں نے ریاست سے عسکریت کی بنیاد پر بھتے کے اجراء کی کوشش کی جسے وہ آزادی کی تحریک کا نام دیتے ہیں، اگر یہ کوئی تحریک ہے تو عام بلوچ شہری کے بغیر کیوں ہے؟ اور بلوچ قوم پرست پاکستانی پارلیمنٹ میں کیسے آ گئے؟ بلوچ شہریوں نے پاکستانی پالیمان میں اپنے نمائندے کیسے بھیج دیے ؟ کیا میر غوث بخش بزنجو جیسے بے مثال بلوچ لیڈر کا خوددار بیٹا میر حاصل خان بزنجو اور ان کی جماعت فرشتوں سے ووٹ لے کر آئی؟

    کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ جب بلوچ سرداروں کے علاقے میں کوئی غیر ملکی کمپنی پٹرول یا گیس کی تلاش کا پروجیکٹ شروع کرتی تو ریاست کے ساتھ معاہدے سے قبل ان سرداروں سے بات چیت ہوتی جس میں سردار چار سے پانچ کروڑ کیش، 100 ڈبل کیبنیں و لینڈ کروزریں مانگتا اور دو سو سے تین سو افراد کی ایک لسٹ دیتا کہ یہ اس پروجیکٹ پر ملازمت کریں گے۔ اگر ملازمت ہوتی تو قابل داد ہوتی لیکن یہ 300 افراد نہ سامنے آتے اور نہ ہی کہیں کام کرتے بلکہ ان کے ناموں کی کمپنی کے تنخواہ رجسٹر پر صرف انٹری ہوتی اور سردار کی طرف سے ان کے ناموں کے آگے لکھی تنخواہ ہر ماہ سردار ہی وصول کرتا۔ اسلام آباد کے مضافات میں قائم وہ ”بگٹی ہاؤس“ آج بھی موجود ہے جہاں اس قسم کی بعض ڈیلوں کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ جب نواب بگٹی کو سمجھایا جاتا تو وہ کہتے ”یہ تو میں غیر ملکیوں سے لے رہا ہوں، پاکستانی خزانے کو نقصان نہیں پہنچا رہا“ کل کو پاکستان کا ہر نواب، ہر خان، ہر ملک، ہر چوہدری اور ہر وڈیرہ اسی طرح سے بیرونی سرمایہ کاروں کو لوٹنا شروع کردے تو آپ ہی بتائیے کہ یہ ملک چل سکے گا؟ ریاست ایک حد تک ہی بلیک میل ہو سکتی ہے، جب وہ حد تمام ہوئی تو نواب بگٹی کا سانحہ پیش آیا۔

    بلوچستان کے موجودہ حالات بھتوں کے خاتمے کا نتیجہ ہیں، وہاں کوئی آزادی کی تحریک نہیں، اگر ریاست آج ہی اعلان کردے کہ کل سے وہ دوبارہ بھتہ دینے کے لیے تیار ہے تو سارے عسکریت پسند گھروں کی راہ لے لیں گے لیکن ریاست طے کر چکی ہے کہ اب یہ بلیک میلنگ قبول نہیں اور یہ فیصلہ تب کیا گیا جب گوادر پورٹ کی تعمیر تقریبا پوری ہو گئی اور اس کے نتیجے میں بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی تقدیر بدلنے کا مرحلہ آگیا۔

    میرے نادان پاکستانی نوجوانو ! پہلی بار آپ کے سامنے وہ کڑوا سچ رکھ دیا گیا ہے جو سردار آپ کو اس لیے نہیں بتاتا کہ وہ یہ بھتے لیتا رہا ہے اور ریاست اس لیے نہیں بتاتی کہ وہ بھتے دیتی رہی ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ کیا مسئلہ کشمیر بھی ایسا ہی ہے ؟ کیا وہاں بھی چند سرداروں کے بھتے کا مسئلہ ہے؟ کیا علی گیلانی کا پورا نام ”سردار علی گیلانی بگٹی“ ہے ؟ کیا میر واعظ عمر فاروق وہاں کا ”سرادر میر واعظ عمر فاروق مینگل“ ہے؟ کیا یاسین ملک آپ کو ”نواب یاسین ملک زہری“ نظر آتا ہے اور کیا وہاں پٹرول اور گیس کے معاہدوں پر پیش آنے والا بھتے کا کوئی تنازعہ تحریک آزادی کہلاتا ہے؟ کیا وہاں اس وقت کوئی ایک بھی مطلوبہ عسکریت پسند ہے؟ کیا وہاں عوام سڑکوں پر نہیں ہیں؟ کیا وہاں ہر قصبے میں پاکستان کے پرچم نہیں لہرائے جا رہے؟ کیا وہاں شہید ہونے والے پاکستانی پرچوں میں دفن نہیں کیے جا رہے؟ اور کیا آپ کو بلوچستان میں بھارت کی کھلم کھلا مداخلت نظر نہیں آ رہی؟ کیا کشمیر پر پاکستان کا اپنی آزادی کے پہلے روز سے دعویٰ نہیں؟ کیا بلوچستان پر کبھی بھی بھارت کا کوئی دعویٰ رہا ہے؟ کیا بلوچستان کشمیر کی طرح پاکستان اور بھارت کے مابین موجود ایک متنازعہ علاقہ ہے؟ اور کیا ان دونوں ملکوں کے تنازع کو اقوام متحدہ نے قبول کرکے وہاں کسی استصواب رائے کے حق میں قرار داد منظور کر رکھی ہے؟

  • ہے کوئی اس باپ بیٹے جیسا؟ فیض اللہ خان

    ہے کوئی اس باپ بیٹے جیسا؟ فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان جب جہاد دہشت گردی کا متبادل بنا دیا گیا، جب آزادی کے لیے مسلح مزاحمت کو انتہا پسندی کے عنوان سے جوڑ دیا گیا ، جب کشمیر کی تحریک آزادی کو کیا اپنے کیا پرائے سبھی فراموش کرچکے تھے، جب نحیف و نزار سید علی گیلانی بھولی بسری یاد بننے لگا تو ایسے میں برہان الدین وانی وادی کے افق پہ روشن ستارے کی طرح نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی سحر انگیز شخصیت کے سبب نوجوانوں کے دلوں پہ راج کرنے لگا. زمین کا بیٹا ہونے کے سبب کشمیریوں کو اس پہ بڑا مان بھی تھا، جلد ہی ہنسنے کھیلنے والے اس حریت پسند نے اپنی خوبصورت جوانی ہند کے خلاف تحریک پہ لٹا دی اور یوں ہوا کے دوش پہ کئی دیے جلا گیا، وہ سرینگر میں پاکستان کا پرچم بن کر ابھرا تھا، وہی پاکستان جو بدلے حالات میں کشمیریوں کو یوں بھلا چکا تھا جیسے امریکا ہمیں۔ لیکن اس جوان سال شہید نے لہو سے جو دیپ روشن کیا، اس نے ہر صاحب دل کو نئی راہیں سجھا دیں۔ یہاں تک کہ نواز شریف سرکار نے برہان وانی کو سرکاری سطح پر شہید قرار دیا، طویل عرصے بعد مؤقف اختیار کیا کہ بات ہوگی تو صرف کشمیر پر!

    اور تو اور، عاصمہ جہانگیر جیسی ہند دوست شخصیت نے بھی مجبور ہوکر سول سوسائٹی کو متحرک اور لبرل حلقوں سے اپیل کی کہ اس معاملے کو لے کر اٹھ کھڑے ہوں، انہوں نے مودی کو چالاک لومڑ سے تشبیہ دی. یہ بھی یاد رہے کہ خوفناک چھروں کے استعمال سے بینائی کھونے والے کشمیریوں کے معاملے کو جبران ناصر نے اس شاندار انداز سے نمایاں کیا کہ عالمی میڈیا بھی اس کا نوٹس لینے پہ مجبور ہوا، بلاشبہ وہ متاثر کن کاوش تھی جس میں ہندی سماج و سیاست کے بڑوں کے چہرے چھروں سے نشان زدہ دکھائے گئے تھے۔ اسی طرح ایک پاکستانی نوجوان گلوکار نے ایک زبردست گانا تخلیق کیا ہے جسے بی بی سی کے مطابق یوٹیوب پہ لاکھوں کشمیری دیکھ و سن چکے ہیں اور کشمیری اس گانے ” کشمیر کی آزادی تک انڈیا کی بربادی تک جنگ رہے گی“ کی رنگ ٹون موبائل فون پہ دھڑا دھڑ لگا رہے ہیں۔

    کشمیر کا معاملہ ایک بار پھر نمایاں ہے تو اس میں صرف اور صرف کشمیریوں کی قربانی ہے، ہمارا کوئی کردار نہیں، یہی وجہ ہے کہ کشمیری نوجوان آج بھی نعرہ لگاتا ہے کہ ”ترقی نہیں آزادی چاہیے۔“

    ہم پاکستانیوں کی جانب سے کشمیری عوام کو محبتوں بھرا سلام قبول ہو، خاص طور پہ وانی کے والد محترم کو جو یہ کہہ کر اس تحریک کی نظریاتی اساس کو واضح کرتے ہیں کہ ”پہلے اللہ پھر بیٹا، پہلے رسول پھر بیٹا، پہلے قرآن پھر بیٹا“۔ ہے کوئی اس جیسا باپ بیٹا؟

  • سن اے میرے کشمیر سن – طارق حبیب

    سن اے میرے کشمیر سن – طارق حبیب

    میرے کشمیر! ہم شرمندہ ہیں کہ ہم تیرے خلوص کا قرض نہیں چکا سکتے، ہمارے ارباب اختیار تو تجھ سے دامن چھڑانے کا ہر اوچھا ہتھکنڈہ آزما چکے، مگر سلام ہے تیری استقامت کو، کہ نہ ہم نے بےوفائی کی روش بدلی اور نہ تو نے رسم وفا چھوڑی۔
    میرے کشمیر! تیری وادیاں مثل جنت ہیں اور ہم نے کبھی جنت کمانے کا سوچا ہی نہیں۔ تم نے ہم سے امید لگا لی تھی اور ہم ٹھہرے تاجر، ہوس زر ہمارے قلوب و اذہان پر سوار ہے۔
    سن اے میرے کشمیر سن! یہاں سب ارباب اختیار تاجر ہیں، بہنوں کے تاجر، بھائیوں کے تاجر، خام مال کے تاجر، اور تو اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیرے بھی کوڑیوں کے مول فروخت کردیتے ہیں۔

    میرے کشمیر تو نہ سمجھ سکا، یہ تیری نہیں ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم جنت کے خواہشمند نہیں۔ جن دو دھڑوں کے درمیان تم پھنس گئے ہو، انھوں نے تجھے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ تجھے شہ رگ اور اٹوٹ انگ قرار دینے کا نعرہ صرف بجٹ بڑھانے کا حیلہ ہے۔ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں یہ کم ظرف۔

    ہاں یاد ہے جب تیری آزادی کے لیے لڑنے والوں کو بےیار و مددگار چھوڑ کر سمجھا گیا کہ اب ختم ہوجائیں گےمگر ماں کے مجروں کا قصہ گو آٹھ سال تک یہ نہ سمجھ سکا کہ جہاد تو بس اللہ کے لیے ہے اور تاقیامت ہے۔ پھر ساتھ کٹھ پتلیوں کو ملا کر تجھے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بنایا گیاتھا۔ عادت جو ہوگئی تھی لڑے بغیر ٹکڑے کرانے کی، مگر اللہ سایہ سلامت رکھے بزرگ شیر گیلانی کا، جو اللہ کی مدد سے اس چال کو بھانپ گیا اور رب کی عطا کردہ فراست سے یہ چال واپس انھی پر پلٹ دی۔

    میرے کشمیر تو ہم سے امید لگائے بیٹھا تھا، ہم کہ جنھوں نے تیری وادیوں کو تصویروں کی صورت بیچا، تیرے حسین مناظر کو سپنوں کا رنگ دے کر ان خوابوں کی تجارت کی، تیرے سینے پر تیری بیٹیوں کی لٹتی عصمتیں، بزرگوں کے ناتواں و لاغر تشدد زدہ جسم اور تیرے نوجوانوں کے لاشے، ہم نے انھیں عالمی منڈی میں رکھ کر بھائو خوب بڑھایا۔ جب ضرورت پڑی جہاد کشمیر کا نعرہ لگایا اور جب دل چاہا جہاد روک دیا اور سیاست کا نعرہ لگا دیا۔ کشمیر کمیٹی کے مال سے پیٹ کو دوزخ بناتے یہ حالت ہوگئی کہ شدید بارش میں نہ پائوں کی انگلیاں گیلی ہوتی ہیں اور نہ ایڑیاں۔

    ہم نے تیری سسکیاں بیچیں، تیری آہیں بیچیں، تیری فریادیں بیچیں، اور پھر تو جاگ اٹھا. میرے کشمیر! تو جاگ اٹھا، تجھے جاگنا تھا۔ تیری ایک نسل ہماری بےوفائی کی بھینٹ چڑھ گئی، مگر اب تیری اگلی نسل تیار ہے۔ بنیے کے سروں کی پکی فصل کاٹنے کے لیے تیار ہے، اپنے بزرگ کمانڈر سید علی گیلانی کے زیر سایہ تیار ہے۔

    60 دنوں کی کامیاب ہڑتال کے ساتھ ایک ایک گھر کی خبر گیری کرکے تیرے بیٹوں نے نئے سرے سے منظم ہونے کا ثبوت دے دیا، دنیا کو حیران کردیا۔ ان ساٹھ دنوں میں جدوجہد عروج پر رہی، بنیا سٹپٹا گیا اور اناپ شناپ بکنے لگا۔ سخت کرفیو، مواصلاتی نظام منقطع، بیرونی رابطے ختم، مگر تحریک جاری، پورے زوروشور سے جاری، بغیر کسی ”حمایت و سپورٹ“ کے جاری۔ تنظیم کی شکل تو تمہارے بیٹوں نے دوسری ”تنظیموں“ کو سمجھائی۔ اسی ہنگامی صورتحال میں اشیائے خوردونوش مہنگی ہونے کے بجائے سستی ہوگئیں، ضروریات زندگی گھر گھر پہنچانے کا انتظام انتہائی منظم طریقے سے کیا گیا، مواصلاتی نظام نہ ہونے کے باوجود آپسی رابطے انتہائی مضبوط کرلیے گئے۔ کسی گھر میں چولہا بجھنے دیا نہ امیدکی لو۔ تم نے پسپائی کے خوف کو پسپا کردیا۔

    میرے کشمیر بس تیرے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا گو ہیں، تیری تحریک کے لیے تیری آزادی کے لیے دعا گو ہیں، تیری تحریک بغیر ”سہارے“ کے منزل کی جانب گامزن ہے۔ بس اب جو تیری ان کامیابیوں کو پھر سے اپنے کندھوں پر سجا کر فروخت کرنے کے خواہشمند ہیں، ان سے بچنا ہے۔ ان شاء اللہ اب تیرے ہزاروں برہان وانی تیار اور عملی جدوجہد میں مصروف ہیں، تجھے کرائے کے پیشہ وروں کی ضرورت نہیں۔
    اللہ تیرا حامی و ناصر ہو۔ آمین

  • یہ تحریک اب نہیں تھمنے کی – کفیل اسلم

    یہ تحریک اب نہیں تھمنے کی – کفیل اسلم

    آج اخبار پڑھنے کو کھولا تو دو بیانات پڑھ کر قابلِ مسرت حیرانگی ہوئی۔ دو بھارتیوں کے بیانات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ جموں و کشمیر کی صورتحال اب جے بھارت کے کیل کانٹے سے لیس بےرحم سورمائوں کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ حالیہ پرتشدد واقعات میں کشمیر نے قربانی کی نئی مثال قائم کی ہے۔ برہان وانی رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت (ان شاءاللہ) پر اٹھنے والی حریت کی سرشار لہر مہینوں گزرنے کے باوجود تاحال نہیں بیٹھی۔

    پہلا بیان کانگریس کے سینئیر عہدیدار مانی شنکر کا ہے جو فرماتے ہیں کہ ”کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں، فوجی ایکٹ اور سختیاں کشمیریوں کی جدوجہد نہیں روک سکتیں.“ جبکہ دوسرا بیان بھارت خفیہ ایجینسی را کے سابق سربراہ نے مشہور جریدے اکنامکس ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”برہان وانی کشمیریوں کا آئیکون تھا۔ کشمیر کی صورتحال سن 1990ء والی ہوچکی ہے جو کسی طور بھارت سے سنبھل نہیں پا رہی.“ فیاللعجب۔ واضح رہے کہ کشمیر کا سودا کرنے والے مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے نے پچھلے دنوں میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”کشمیر کسی طور پر بھارت کا اٹوٹ نہیں۔ وہ ایک الگ خطہ ہے۔ اسے بھارت کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے.“

    ایک طرف بھارت کی طرف سے مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور اٹوٹ انگ کی گردان ہو رہی ہے. نریندر مودی کی ہٹ دھرمی بھی باقی ہے، موصوف شاید احمقوں کی جنت سے باہر نہیں آئے۔ اب بھی اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے والے مودی کو اندازہ نہیں کہ کشمیری بھارت سے صرف ایک چیز چاہتے ہیں اور وہ ہے ”آزادی“. اس اٹل حقیقت کی گونج اب خود بھارت کے ایوانوں اور میڈیا ہائوسز سے لے کر سیاستدانوں اور سول سوسائٹی تک سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھانے پر مودی نے معاملہ سے توجہ ہٹانے کے لیے پہلے بلوچستان کے معاملے کو چھیڑ دیا جو شاید کارگر ثابت نا ہوا تو پھر کراچی را اور اس کے کارندوں کو آگے کر دیا۔

    کشمیری روز بروز تقویت پکڑنے والی تحریک کی للکار اب مین سٹریم میڈیا اور عام آدمی تک پہنچ گئی ہے۔ شاید یہ بھارتی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کشمیریوں کے معاملے پر بھارتی خود آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کرفیو کے 2 ماہ، 60 ارب کا نقصان، شہداء کی طویل فہرست، اور لاتعداد زخمی۔ مگر کشمیریوں کا جذبہ سرد نہیں ہو رہا. اب بھی ہر جگہ ایک نعرے کی گونج ہے ”ہم کیا چاہتے، آزادی“
    دنیا جان گئی ہے، بھارت کو بھی جان لینا چاہیے کہ یہ تحریک اب نہیں تھمنے کی۔ ان شاءاللہ منزل سے ہمکنار ہو کر رہے گی.

  • اپنے ہی مخالف – طارق محمود چوہدری

    اپنے ہی مخالف – طارق محمود چوہدری

    tariq-mehmood-ch-300x360 مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم اپنی ٹیم کو میدان میں اترنے سے پہلے ہی شکست دینے کی بھرپور تیاری کر لیتے ہیں۔ بات صرف کرکٹ ٹیم کی نہیں۔ وہ کرکٹ ٹیم ہو یا سفارتی میدان میں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے اتری کوئی سفارتی ٹیم۔ اس کے سب سے پہلے مدمقابل ہم خود ہوا کرتے ہیں۔ پھر ہم سادہ لوح مگر زود رنج توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنا کیس بین الاقوامی سطح پر جیت کر آئیں گے۔ این ایس جی کا معاملہ ہو یا مسئلہ کشمیر۔ بین الاقوامی طاقتوں کو اپنے موقف سے کائل کر کے، دلیل کی جنگ جیت کے آئیں گے۔ ہم، ہمہ وقت حالت جنگ میں رہنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا بولا، لکھا گیا ہر لفظ بین الاقوامی میٹنگوں میں میزبان کی فائل میں موجود رہتا ہے۔ سو ہمارا مقدمہ دلیل کی جنگ میں بے وزن ہی رہتا ہے۔ ہمارے وفود اسی لئے ناکام لوٹتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ہمارا مقدمہ بالخصوص کشمیر پر نہایت مضبوط اور ہمارا موقف سچا ہے۔

    وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے ایک نیا اقدام کیا۔ 20 سینئر پارلیمانی ارکان کی ایک ٹیم بنائی۔ اس ٹیم کو مختلف ممالک بھی الاٹ کر دیے گئے۔ یہ ممبر الگ الگ اور گروپوں کی شکل میں گلوبل ویلج کے مختلف ممالک کا دورہ کریں گے اور مسئلہ کشمیر کو نئے انداز سے اجاگر کریں گے۔ ایک طرح کی ٹریک ٹو ڈپلومیسی سمجھ لیجئے۔ سفارت کاروں کی حیثیت تو سرکاری ملازم یا نمائندے کی طرح ہی ہوا کرتی ہے۔ سو ان کی رائے، دلائل اور آرگومنٹ کو سرکاری حیثیت میں ہی لیا جاتا ہے۔ جبکہ ٹریک تو ڈپلومیسی میں ایسا نہیں ہوتا۔ معاشرے کے نمایاں افراد، سابق جج، ریٹائرڈ جنرل، دانشور، شاعر، سابق کھلاڑی، معروف آرٹسٹ اور عوام کے منتخب نمائندے۔ سب اپنے ملک کے عوام کا موقف لیکر کسی دارالحکومت میں اترتے ہیں تو ان کی رائے کو بغور سنا جاتا ہے۔ ان کی باتوں کو وزن دیا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی ان کی بات سنتی ہے۔ تھنک ٹینکس اور رائے عامہ مرتب کرنے والے ادارے ان کو دعوت دیکر بلاتے ہیں۔ ایسی ایکسرسائز سے، بیرون ملک میں ایک موافق لابی جنم لیتی ہے اور آہستہ آہستہ ایسے افراد اور طبقات جنم لیتے ہیں جو مستقبل میں کام آتے ہیں۔

    ہمارے ہاں عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ جونہی ہماری جانب سے مسئلہ کشمیر پر کوئی بیان داغا جائے۔ دنیا بھر کے ممالک اور ان کی حکومتیں لشکر لیکر بھارت پر چڑھ دوڑیں اور بھارتی حکمرانوں کے کان پکڑ کر مقبوضہ کشمیر کو ہمارے حوالے کر دیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا، نہ ہوگا۔ اپنا کیس جیتنے کیلئے بین الاقوامی برادری میں اپنے حمایتی پیدا کرنا ہوتے ہیں۔ رائے عامہ کو اپنے حق میں بیدار کرنا ہوتا ہے۔ جمہوری ممالک میں رائے عامہ کی اہمیت بہت زیادہ ان کے حکمران اپنے عوام، اپنے ووٹر کی بات کو توجہ سے سنتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ وہ ان کی رائے کو نظرانداز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ جمہوری حکومتیں، عوام کے ٹیکس سے چلتی ہیں۔ جمہوری ملکوں میں حکومتیں انگلی کے اشارے سے نہیں اٹھتیں۔ بلکہ عوام کے ووٹوں سے وجود میں آتی ہیں۔ وہ دھرنوں کے ذریعے نہیں بنتیں۔ بلکہ الیکشن کے راستے پر چل کر ایوان اقتدار میں داخل ہوتی ہیں کیونکہ وہ عوام کو جواب دہ ہوا کرتی ہیں۔ لہٰذا ایسے اقدامات ہمیشہ سودمند اور بارآور ہوا کرتے ہیں۔ لیکن برا ہو اس تعصب اور سیاست کا۔ اس خواہ مخواہ کی سیاست کا۔ جس میں ہر حال میں مخالفت کی جاتی ہے۔ سو! ادھر وزیراعظم پاکستان نے سینئر ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل اپنی بین الاقوامی ٹیم کا اعلان کیا تو فوری طور پر میدان سیاست کی انڈر نائنٹین ٹیم میدان میں آ گئی۔ یہ بھول کر کہ مسئلہ کشمیر ایسے حساس اور قومی ایشو پر بنائی گئی ٹیم سرکاری نہیں۔ پاکستانی ٹیم ہے اب حکومت نمائندگی نہیں کرتی۔ بلکہ پارلیمان کی ٹیم ہے جو عوام کی نمائندہ نہیں۔ میرے خیال میں تو ٹیم کے ارکان نام پڑھے بغیر اس پر تنقید کر دی گئی۔ حالانکہ اس میں اپوزیشن کی نمائندگی بھی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ تنقید کے کوڑے برساتی زبانوں پر تالا لگانے کیلئے اس میں پی ٹی آئی کو نمائندگی دے تاکہ اس ٹیم کو حب الوطنی اور افادیت کا سرٹیفیکیٹ مل جائے۔

    اب اس ٹیم کی کمپوزیشن ہی کو دیکھ لیں۔ کیسے کیسے ایکسپرٹ اس ٹیم میں شامل ہیں۔ ایسے افراد جو کسی دوسرے ملک جائیں گے تو ان کو غور سے سنا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن نہ صرف چیئرمین کشمیر کمیٹی ہیں بلکہ اعلیٰ سطح کے نامور عالم دین بھی ہیں۔ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک میں ان کے گہرے روابط ہیں۔ نمایاں بین الاقوامی مسلم تنظیموں تک ان کی رسائی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کی رائے کا احترام ہے۔ لیکن ان کی مخالفت کی جاتی ہے تو صرف سیاسی بنیاد پر۔ سیاسی حریف سمجھ کر۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم خان نہ صرف کئی وزرائے اعظم کے ساتھ بطور ملٹری سیکرٹری کام کر چکے ہیں بلکہ سٹیل ملز اور واہ آرڈیننس فیکٹریز کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سفارت کاری کو بغور دیکھا ہے۔ بڑے اداروں کی سربراہی کے طور پر بین الاقوامی معاہدوں کو ڈیل کیا ہے۔ دفاع اور خارجہ امور کے شعبوں میں انہوں نے تعلقات استوار کئے ہیں۔ ان کا وہ تجربہ یقینی طور پر کام آئے گا۔ رضا حیات ہراج کئی دفعہ وفاقی وزارتوں پر فائز رہے ہیں۔ کامرس اور ٹریڈ کے وزیر کے طور پر ان کی ایک موثر لابی ہے۔ وہ بین الاقوامی طور طریقوں سے واقف ہیں۔ اسی طرح مخدوم خسرو بختیار خارجہ امور کے وزیر مملکت کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ سفارتی ذمہ داریوں نے ان کو بین الاقوامی تھنک ٹینکس کا آشنا بنا دیا ہے۔ اس طرح معروف تاجر رہنما قیصر شیخ ہیں۔ تاجروں کی سیاست اور بین الاقوامی تجارتی تنظیموں سے روابط ان کا خصوصی شعبہ ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ محارت مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں کام آئے گی اور پھر مشاہد حسین ہیں جو صحافت سے ایڈیٹری، پھر سیاست۔ وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ عالمی سطح کے دانشور اور لکھاری ہیں۔ سینٹ آف پاکستان کے ممبر ہیں۔ وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے ان کو دعوت دیکر بلاتے اور ان سے رہنمائی لیتے ہیں۔ وہ علاقائی سیاست، سفارت کا معتبر نام ہیں۔ ان کا لکھا ایک ایک لفظ پڑھا سنا جاتا ہے۔ اعجاز الحق سینئر رکن پارلیمنٹ ہیں۔ ان کے والد مرحوم ضیاء الحق گیارہ سال پاکستان کے آرمی چیف اور صدر مملکت رہے۔ کون سا ایسا ملک ہے جہاں ان کی جان پہچان نہ ہو۔ ایک زمانہ ان کے بین الاقوامی کردار کا متعرف ہے۔ سو ایسی ٹیم کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ ان کو طنز کے نشتر چھبوئے جا سکیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہر کو جاری و ساری ہوئے آج 56 واں روز ہے۔ اس عرصہ میں مقبوضہ کشمیر کے عوام 64 ارب کا معاشی خسارہ برداشت کر چکے۔ مقبوضہ وادی میں خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید کمی ہے۔ بچوں کیلئے دودھ ناپید ہے۔ سو سے زائد افراد کو شہید کیا جا چکا۔ سات ہزار مکانات کو منہدم کیا جا چکا۔ ایک ہزار سے زائد افراد نابینا ہو چکے۔ 18 لاکھ سے زائد پیلٹ گن کے چھرے فائر کئے جا چکے۔ اب بھارتی میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ مرچیں اور سپرے کرنے والی گن کے استعمال پر غور کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی سفارتی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ پرائم منسٹر یو این اسمبلی میں دبنگ خطاب کرنے جا رہے ہیں۔ ان کے خطوط کے جواب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھارتی مظالم پر اظہار تشویش کیا ہے۔ او آئی سی تاریخ میں پہلی مرتبہ بآواز بلند بولی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا داخلی معاملہ تسلیم کرنے سے انکار کر چکی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنے دفاتر بھارت سے کلوز کر چکی۔ ہیومن رائٹس واچ کا ایشیا چپٹر مودی پر برس رہا ہے۔ بھارتی اپوزیشن علی الاعلان کہہ چکی کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات کا ذمہ دار پاکستان نہیں۔ مودی اور بی جے پی ہے۔ ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت پر سفارتی یلغار وقت کا تقاضا ہے۔ کشمیر کا حل قومی اتفاق رائے پر مبنی مسئلہ ہے۔ اس پر سیاست نہ کی جائے۔ سیاست کیلئے اور کئی موضوع ہیں۔ وہاں طبع آزمائی کی جائے۔ اپنی ہی ٹیم کے خلاف کھیلنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

  • بھارت میں جاری آزادی کی تحریکوں کا عروج – محمد عبداللہ

    بھارت میں جاری آزادی کی تحریکوں کا عروج – محمد عبداللہ

    محمد عبداللہ مہذب دنیا میں عامۃ الناس کی بالادستی، فیصلے اور اختیارکی قوت عوام کے پاس ہونا، سیاسی اور سماجی طور پر آزاد اور باشعور ہونا جمہوریت کہلاتا ہے۔ جمہوریت کے دعویدار ہمیشہ سے یہ دعوے کرتے آئے ہیں کہ عوام کی سوچ، فکر، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی آزادی جمہوریت سے بہترکوئی نہیں دے سکتا۔ مگر ایک ایساملک بھی ہے جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت گردانتا ہے اور دن رات یہ راگ الاپتا ہے کہ دنیا میں اگر کسی جگہ پر عوام کو شخصی آزادی اور فیصلے کی قوت حاصل ہے تو وہ اس ملک میں ہے۔ یہ ملک دنیا میں بھارت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دعوے کی روشنی میں جب ہم بھارت کی درون خانہ سیاست و معاشرت اور شخصی و سماجی آزادی کا بغور جائزہ لیتے ہیں توحالت اس دعوے کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ بھارت وہ ملک ہے جہاں ذات پات، نسل و برادری، مذہب اور رسم و رواج کے نام پر انسانی حقوق کی جی بھر کر تذلیل کی جاتی ہے۔ حقوق انسانی کے چارٹرز کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ مذہب، عقیدہ اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کو ہراساں کرنا، ان کا قتل عام کرنا، کاروبار اور جائیداد کو نذر آتش کرنا، معمول کی بات ہے اور ستم یہ کہ یہ سارے کام حکومت کی محفوظ چھتری تلے سرانجام دیے جاتے ہیں. نتیجتاً خوف و ہراس اور تشدد و غارت گری کی ایک فضا تشکیل پاتی ہے اور مجبور و مقہور قومیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوری انداز اپناتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ مظاہروں، ہڑتالوں اور احتجاج کاسلسلہ شروع ہوتا ہے، مگر جمہوری حکومت پر جمہوری انداز گراں گزرتا ہے، اور وہ بزور قوت دبانے اور جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، بےبس اور لاچار لوگوں کا ناحق خون بہایا جاتا ہے۔ جب لوگ اپنے پیاروں کے تڑپتے لاشے اور کاروبار اور جائیداد کو نذرآتش ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ ہتھیار اٹھاکر اپنے حقوق کے لیے مسلح تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں۔

    عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام علاقوں میں فقط کشمیر میں ہی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور صرف کشمیر سے ہی آزادی اور علیحدگی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں مگر یہ تاثر درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورا بھارت آتش فشاں بنا ہوا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب (خالصتان)، تامل ناڈو، آسام، ناگا لینڈ، تری پورہ، منی پورہ، میزورام سمیت شمال مشرقی بھارت کی کئی ریاستوں میں آزادی کی مضبوط تحریکیں چل رہی ہیں۔ حال ہی میں دلت کمیونٹی بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور اس نے بھی احتجاج اور مظاہروں کا رستہ اپنا لیا ہے۔ وہ بھی لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آ رہی ہے۔ اگرچہ بھارت نے افسپاجیسے کالے قوانین بنا کر ان تحریکوں کو بزور قوت دبانے کی کوشش کی ہے مگر
    ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
    لہو پھر لہو ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے
    کے مصداق یہ تحریکیں تیزی کے ساتھ ابھر رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں جہاں کشمیرکی تحریک میں تیزی آئی، وہیں پورے بھارت میں آزادی کی دیگر تحریکوں میں بھی تیزی دیکھنے کو آئی ہے۔ ناگالینڈ کے معاملے میں تو بھارت ان کو پاسپورٹ اور جھنڈا تک علیحدہ دینے کو تیار بیٹھا تھا۔ ان تحریکوں میں بھارتی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں نوجوانوں نے حصہ ڈالا ہے، تعلیمی اداروں میں ان تحریکوں کے حق میں جلسے جلوسوں اور سرگرمیوں سے ان کی آواز باہر کی دنیا تک پہنچ رہی ہے۔ جواہرلال نہرویونیورسٹی اوراس کے بعد ملک کی دیگر بڑی یونیورسٹیز میں ان تحریکوں کے حق میں ہونے والے احتجاج کی بازگشت پوری دنیامیں سنی گئی اور دنیا بھر میں تبصرے ہونے لگے کہ بھارت انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور اپنی تعلیم کے مؤثر استعمال کے ساتھ ان نوجوانوں نے آزادی کی تحریکوں کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ بھارتی افواج اپنے تمام تر مظالم اور قوت کے ساتھ بھی ان تحریکوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں۔

    کشمیر کے علاوہ بھارت کے160سے زائد اضلاع پر ماؤنواز باغیوں اور نکسل باڑیوں کاقبضہ ہے۔ آندھراپردیش، جھاڑ کھنڈ، اڑیسہ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ، مہاراشٹرا اور بوج مرہ وغیرہ کے92 ہزار مربع کلومیٹر پر ان باغیوں کی حکومت ہے۔ ان کی اپنی عدالتیں اور اپنا پولیس کانظام ہے۔ حکومت کا کوئی کارندہ وہاں پر نہیں مار سکتا۔ پوری انتظامیہ قتل کر دی جاتی ہے۔ خود بھارت کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان ماؤنواز باغیوں کی تعداد60 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ان کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے، اب تک یہ ہزاروں بھارتی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارچکے ہیں۔ بھارت کی انتظامی اور فوجی مشینری ان کے سامنے مکمل طور پر بےبس ہو چکی ہے۔ گزشتہ ماہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں سترہ فوجی ان کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح بہار میں نکسلوں نے گھات لگا کر بھارت کے بیس کوبرا کمانڈوز کو قتل اور دس کو شدید زخمی کر دیا۔ باغیوں کی طرف سے بھارتی فوج اور انتظامی مشینری پر یہ ایسی کاری ضرب ہے جو ابھی تک ہضم نہیں ہو رہی ہے۔

    کشمیرکے بعد دوسری لمبے عرصے تک چلنے والی تحریک خالصتان کی ہے جو بھار ت میں بسنے والے سکھوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خاتمے کے لیے شروع کی اور بالآخر یہ خالصتان کے مطالبے پر منتج ہوئی۔ سکھوں کی بےشمار تنظیمیں ہیں جواس تحریک میں شعلہ جوالا کا کام کر رہی ہیں۔ ان میں اکالی دل، ببرخالصہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ سکھ بھی اب یونیورسٹیوں اوراسی طرح دیگر کئی ممالک میں اپنی تحریک کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔ چنددن قبل برطانیہ میں ہونے والے مظاہرے میں خالصتان تحریک کے لیے احتجاج کرنے والوں نے اس طرح کے نعرے لگائے:
    پنجاب خالصتان کا
    کشمیرپاکستان کا
    ان کے علاوہ آسام میں مسلم یونائٹیڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام اور تری پورہ و منی پورہ وغیرہ میں بھی لوگ مسلسل آزادی کے لیے کاوشوں میں مصروف ہیں۔ کشمیر کی حالیہ تحریک میں آنے والی شدت کا اثر دوسری تحریکوں پر بھی پڑا ہے اور لوگ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ دہرانے لگے ہیں۔ بھارت گیس کے اس غبارے کی مانند بنتا جا رہا ہے جو پریشر سے کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔

  • آزادی پاکستان کا سفر – میاں عتیق الرحمن

    آزادی پاکستان کا سفر – میاں عتیق الرحمن

    میاں عتیق الرحمن انگریز سرکار نے 1857ء تک سندھ ، دکن ، وسط ہند، دہلی اور تمام مشرقی علاقوں پر عملًا تسلط قائم کر لیا تھا، ان علاقوں کے مسلم نواب اور ہندو راجے سب انگریز کی بالادستی مجبوراً قبول کر چکے تھے۔ مگر یہ جبر وہاں کے عوام قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں تھے۔ یہ بات انگریز بھی جانتے تھے کہ ہندوستان کے عوام پر بغیر اعلان کے حکمرانی کی جا سکتی ہے مگر اعلانیہ انگریز حکومت کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی اتنی بغاوتیں سر اٹھائیں گی کہ پھر ہندوستان میں ٹکنا مشکل ہو جائے گا۔ انگریز افسروں کی بڑھتی ڈھٹائیوں نے فوج کے مقامی سپاہیوں کو سب سے پہلے بغاوت پر مجبور کیا اور10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی برطانوی چھائونی سے مقامی سپاہیوں کی بغاوت سے اس کا آغاز ہوا، ان فوجیوں میں اکثریت برہمن ہندئووں کی تھی۔ انہوں نے انگریز افسروں کو موت کے گھاٹ اْتارا اور ’’چلودلی‘‘ کے نعرے لگاتے دہلی روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنا اور سارے ہندوستان کا شہنشاہ قرار دیدیا۔ اس اقدام پر مسلمان متزلزل اور شک میں مبتلاتھے۔ا پنے اندر بہت سی خرابیاں رائج ہونے کے باوجود اسلام پر عمل کرنے کو ترجیح دیتے اور اسی کی طرف رجوع کرتے تھے، علمائے کرام کو بڑا مقام حاصل تھا اور مستند علمائے کرام کا ایک فتوی پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو حرکت کے لیے کافی ہو جاتا تھا. حالات کا ادراک کرتے ہوئے شاہ اسماعیل شہیدؒکی جماعت مجاہدین سے وابستگی رکھنے والے مولانا فضل حق خیرآبادی اور علامہ نواب صدیق حسن خان قنوجیؒ کے استاد مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی نے دہلی کی جامع مسجد میں مسلمان علماء کو یکجا کرکے انگریز کے خلاف فتوی جاری کر وایا جس نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو یکجا کر دیا۔ اس کی وجہ سے انگریز راج کو انتہائی خدشات لاحق ہو گئے، مگر انہوں نے کچھ ابن الوقتوں کو ساتھ ملا کر ظلم و ستم کی دردناک داستانیں رقم کرتے ہوئے دہلی کو تاراج کیا اور 1858ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کرکے تاج برطانیہ کے ماتحت کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔ آنے والے چند ہی مہینوں میں بغاوت کرنے والے برہمنوں کے ہم مذہبوں نے انگریزوں کی ایسی وفاداری اختیار کی کہ وہ انہیں بھول کرصرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع ہوگئے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی کو فتوی دینے کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد انگریز کامیابی سے ہندوستان پر قابض ہوگئے اور یہ قریب 90 سال تک جاری رہا.

    انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آزادی کا اجتماعی شعور شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے گھرانے میں پیدا ہوا۔ شاہ عبد العزیز ؒنے ہندوستان کو دارلحرب قرار دیا اور اسی فتوے نے بعد میں انگریز کے خلاف جنگ آزادی کی بنیاد رکھی تھی۔ جنگ آزادی میں اہم عملی کردار جماعت مجاہدین نے ادا کیا تھا اور اسے سید احمد اور شاہ اسماعیل شہیدین بالا کوٹ نے 1826ء سے شروع کیا تھا۔1831ء میں ان کی شہادت کے بعد مجاہدین کو دوبارہ صف بندی میں 4 سال کا عرصہ لگا، اس دوران شیخ ولی محمد پھلتی اور مولانا نصیر الدین منگلوری امیر جماعت رہے۔ پھر ان کے بعد مولانا نصیر الدین دہلوی 1840ء ، حاجی سید عبد الرحیم جون 1841ء، مولانا عنایت علی1846ء ، مولانا ولایت علی1852ء، پھر مولانا عنایت علی 1858ء، مولانا عبد اللہ بن ولایت علی1902ء، مولانا عبد الکریم1915ء، نعمت اللہ1921ء اور رحمت اللہ 1947ء تک امیر رہے۔ یوں1826ء سے جماعت مجاہدین کا یہ سلسلہ قیام پاکستان 1947ء پر منتج ہوا۔

    1947ء میں پاکستان کے قیام میں کروڑوں لوگوں کی جہد مسلسل، لاکھوں لوگوں کی جانوں کے نذرانے، معذوری اور بے شمار لوگوں کا ٹپکتا خون کھپا ہے، جو گواہی دے رہا ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان کے لیے اپنے خون کا دریا بنانا پڑا اور پھر اسے عبور بھی کرنا پڑا تھا۔ ایک بار تحریک پاکستان کے ایک جلسہ میں ہندو بلوائیوں نے طنزیہ نشتر چلایا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ تو یہ نشتر مسلمانوں کی تحریک کے لیے روح رواں بن گیا۔ اس طنزیہ نشتر کا فورا جواب آیا کہ ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ بس یہ کہنا تھا کہ کہ کنفیوز قوم اور سیاستدانوں نے اپنی تحریک کو اس رخ پر موڑ دیا، رخ موڑنا تھا کہ قوم یکجا ہوگئی اور خواب حقیقت ہونے لگے۔ اس رخ کی مناسبت سے قوم نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مستحق بنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمتوں، عنایتوں اور برکتوں کا سمندر انڈیل دیا۔ رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور مہینے اور مہینے کی سب سے با برکت رات کو یہ ملک عطا کر دیا گیا۔ یوں پاکستان27 رمضان المبارک 1366ھ بمطابق 14 اگست 1947ء کو تہجد سے ذرا پہلے معرض وجود میں آیا۔

    27 ویں رمضان المبارک کی رات لاہور، پشاور اور ڈھاکہ کے ریڈیو سٹیشنوں سے 11بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری پروگرام نشر کیا اور رات بارہ بجے سے کچھ پہلے پاکستان کی شناختی دھن لگائی گئی۔ پھر لاہور سے جناب ظہور آذر کی آواز میں انگریزی زبان میں اعلان کیا گیا کہ آدھی رات کے وقت آزاد اور خود مختار پاکستان وجود میں آ جائے گا۔ پھر پورے بارہ بجے پہلے انگریزی میں اور پھراردو میں کہا گیا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔ انگریزی میں ظہور آذر اور اردو میں مصطفی علی ہمدانی نے اعلان کیا۔ مولاناقاری ازہر القاسمی نے قرآن پاک کی سورۃ فتح کی تلاوت کی پھر ترجمہ نشر ہوا۔ بعد میں خواجہ خورشید انور کا مرتب کردہ ایک سازینہ بجایا گیا۔ پھر سنتو خان اور ان کے ساتھیوں نے علامہ اقبال کی نظم ساقی نامہ کے کچھ اشعار پیش کیے اور ٹرانسمیشن کا اختتام شاعر حفیظ ہوشیارپوری کی تقریر پر ہوا۔ پشاور ریڈیو سے بھی آدھی رات کے وقت آفتاب احمد بسمل نے اردو میں اور عبداللہ جان مغموم نے پشتو میں پاکستان کے قیام کا اعلان کیا اور قرآن مجید کی تلاوت کا شرف قاری فدا محمد کے حصے میں آیا جبکہ نشریات کا اختتام جناب احمد ندیم قاسمی کے اس نغمے پر ہوا کہ ’’پاکستان بنانے والوں کو پاکستان مبارک ہو‘‘. ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن سے بھی اسی طرح کا اعلان انگریزی میں جناب کلیم نے کیا اور بنگالی زبان میں اس کا ترجمہ بھی نشر کیا گیا۔ اگلی صبح کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان کا قومی پرچم لہرایا۔

    پاکستان میں جھنڈا لہرائے جانے کے بعد فرانس کے شہر مائیسن (Miosson) میں لہرایا گیا۔ وہاں9 سے17 اگست تک کے لیے چھٹی انٹرنیشنل اسکائوٹ میٹنگ جاری تھی، برصغیر سے بھی اس میں شرکت کے لیے سکائوٹ دستہ گیا ہوا تھا۔ پاکستان کے قیام کے اعلان کے بعد رات کو دو فرانسیسی گرل گائیڈ نے پاکستانی پرچم کی سلائی کی اور صبح لہرا دیا۔ پرچم کے لیے ہرے رنگ کا کپڑا شملہ کے ایک ہندو سکائوٹ مدن موہن نے اپنی پگڑی سے اور سفید رنگ ملتان کے ایک سکائوٹ عباس علی گردیزی نے اپنی قمیص پھاڑ کر فراہم کیا تھا۔ پاکستان کا پہلا ترانہ جو ملک سے باہر گایا گیا تھا‘ وہ میجر سید ضمیر جعفری کا لکھا ہوا تھا اس کا عنوان ’’خیرمقدم‘‘ تھا جس کے بول کچھ اس طرح تھے:
    جو ستارے کھو چکے تھے اپنی کرنیں اپنی ضَو
    وہ ستارے ضو فگن انجم فشاں ہونے لگے
    ایشیا خوش ہو کہ اے مظلوم انسانوں کی خاک
    تیرے فرزندوں کے پرچم پْرفشاں ہونے لگے
    اس ترانے کی دھن کیپٹن مسعود احمد ماشو نے ترتیب دی تھی جو اْن دنوں سنگاپور میں اخبار ’’جوان‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔

    قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے دہلی، لندن، واشنگٹن، کابل، قاہرہ اور رنگون (برما) میں سفارتخانے قائم کیے گئے۔ دہلی میں زاہد حسین، لندن میں حبیب ابراہیم رحمت اللہ، رنگون (برما) میں سردار اورنگزیب خان کو ہائی کمشنر اور واشنگٹن میں ایم اے اصفہانی اور کابل میں آئی آئی چندریگر کو سفیر مقرر کیا گیا۔ یہ لوگ زیادہ تر بیوپاری تھے، ان میں ایک دو سیاستدان بھی تھے۔ سب سے اہم کام پاکستان کو اسلامی ممالک میں متعارف کرانا تھا، ان ممالک میں آہستہ آہستہ سفارتخانے کھولے گئے۔ دبئی میں قیام پاکستان کے وقت ہندوستانی کرنسی چلتی تھی۔ شاید اسی لیے وہاں اکثر لوگ آج بھی درہم کو روپیہ کہتے ہیں اور زیادہ تر انڈیا کے لوگ بطور ورکرکام کر رہے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے بعد وہاں لوگوں میں معروف ہوا کہ پاکستان اور ہندوستان الگ الگ اور ایک دوسرے کے دشمن ملک ہیں۔ قاہرہ اور ایران میں تو شروع میں کوئی سفیر مقرر نہیں کیا جا سکا تھا۔ کچھ عرصہ بعد عبدالستار سیٹھ کو قاہرہ میں اور راجا غضنفر علی خان کو ایران میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے سفارتخانوں کے لیے مناسب جگہیں بھی میسر نہ تھیں۔ امریکا میں پاکستانی سفارتخانہ ایک ہوٹل کے کمروں میں تھا۔ دہلی میں صرف 3 افراد پر مشتمل عملہ او صرف ایک ٹائپ رائٹر تھا اور کوئی گاڑی بھی نہیں تھی۔ یہی حال باقی ممالک میں سفارتخانوں کا تھا۔

    قیام پاکستان کے بعد ہمارے پاس کوئلہ تھا نہ لوہا، بینک تھا نہ انشورنس کمپنیاں، فوجی ہیڈکوارٹرز اور نہ ہی انتظامی ہیڈکوارٹرز۔ تقسیم برصغیر کے چند روز پہلے کراچی میں کام شروع ہوا تھا۔ پرانی بیرکوں میں بیٹھ کر ملازمین کام کرتے تھے۔ فائلوں کے ساتھ جو سرکاری ملازمین بذریعہ ٹرین سوار ہو کر براستہ راجپوتانہ کراچی جاتے، ان میں سے اکثر کے سر کٹے ہوئے اور فائلیں خون آلود ہوتیں۔ پاکستان کے حصے کے جو 75 کروڑ روپے تھے وہ بھی بھارتی حکومت نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسے میں بہاولپور، حیدرآباد دکن، کراچی، احمد آباد، بمبئی، مدراس اور وہاڑی کے مسلمان سیٹھوں، نوابوں اور زمینداروں نے تقریباً 70 کروڑ روپے اکٹھے کرکے پاکستان کو دیے۔ جب بھارت نے قیام پاکستان کے فورا بعد یہ دیکھ لیا کہ پاکستان ہمارا محتاج نہیں رہا تو گاندھی جی کو خیال گزرا کہ اس موقع پر مکاری سے کام چلایا جائے تو انھوں نے پاکستان کو رقم نہ دینے پر حکومت کو مرن برت رکھنے کی دھمکی دے ڈالیجو صرف دھمکی تک ہی محدود رہی۔

    پاکستان کے حصے میں آنے والی مسلمان فوج کا ایک بریگیڈ بھی ان علاقوں میں نہیں تھا جن علاقوں میں پاکستان بننا تھا۔ جو چند یونٹ ان علاقوں میں تھے، ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں۔ یونٹوں میں افراد کی تعداد بھی پوری نہ تھی۔ 3جون 1947ء کو اعلان پاکستان کے ساتھ ہی مسلمان یونٹوں سے ہندو، سکھ اور گورکھوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے بھارت جانا شروع کر دیا تھا۔ بعض بھارتی فوجی یونٹ جو موجودہ خیبرپختونخوا میں تھے، انہیں بحفاظت بھارت پہنچانا بھی پاکستانی افواج کے ذمے تھا۔ عام شہریوں کی پاکستان سے بھارت روانگی اور حفاظت بھی افواج پاکستان کے کندھوں پر تھی۔

    بھارت میں مہاراجہ پٹیالہ کی قیادت میں سکھ پنجاب میں از سر نو اپنی حکومت بنانے کی کوشش کرنے لگے اور ہندو پاکستان پر قبضہ کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ ہندووں نے سکھوں کو استعمال کرکے مسلمانوں کو قتل کرنے والی غنڈہ تحریکیں چلوا دیں۔ ذاتی غنڈے رکھ کر راشٹریہ سیوگ سنگھ اور اکالی دل منظم کی گئی۔ مندروں اور گورودواروں کو ہر قسم کے جدید اسلحے، بم، گرینیڈ، رائفلوں، تلواروں، بھالوں اور کلہاڑیوں سے بھر دیا گیا تھا۔ نوجوان سکھوں اور 70 ہزار سابق سکھ فوجی رضاکاروں کو مسلح کرکے مسلمانوں پر چھوڑا گیا۔ مشرقی پنجاب میں ماسٹر تارا سنگھ اور گیانی کرتار سنگھ نے مسلمانوں کو مارنے کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ 18اگست 1947ء کو مسلمانوں نے عیدالفطر کی نماز کھلے میدانوں میں پڑھی تو سکھ ان پر ٹوٹ پڑے۔ امن و امان قائم رکھنے کے سلسلے میں جو مشترکہ طور پر پنجاب بائونڈری فورس تشکیل دی گئی تھی، سکھ ریاستیں ان کے دائرہ اختیار سے باہر تھیں اور وہی سکھ ریاستیں سکھ جوانوں اور رضاکاروں کے مسلح جتھے بھیج رہی تھیں۔ پہلے سے تیار سازش کے تحت پولیس سے اسلحہ جمع کر لیا گیا تھا کیونکہ پولیس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مسلمان لڑکیوں ، عورتوں اور بچیوں کو امرتسر سے واہگہ تک لانے والی بسوں کا ڈرائیور سکھوں کو بنایا جاتا تھا جو سکھ بلوائیوں سے ملے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ان گاڑیوں کو اس جگہ پر آ کر روک دیتے تھے جہاں سکھ جتھے انتظار میں ہوتے تھے، پھر وہ بچوں اور عمر رسیدہ خواتین کو قتل کر دیتے اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے. قیام پاکستان کے لیے ہماری مائوں اور بہنوں کی کتنی عصمتیں لٹیں اور کتنے ہی کنویں ناموس کی حفاظت کے لیے دوشیزائوں کی لاشوں سے بھرے پڑے ملے، ان کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ کشیدہ حالات میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ شاید قائداعظم بھی کراچی پہنچنے سے پہلے قتل کر دیے جائیں۔

    قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والی فوج کو 13میجر جرنلز، 40 بریگیڈیئرز، 53 کرنلز کی ضرورت تھی جبکہ صرف ایک میجر جنرل، 2 بریگیڈیئر 6 کرنل دیے گئے تھے۔ میجر اور کپتانوں میں بھی 1950شارٹ سروس یا ایمرجنسی کمشن آفیسر تھے۔ اسی وجہ سے حکومت برطانیہ کی مدد سے رضاکار برطانوی افسروں میں سے 355 افسر چنے گئے تھے۔

    سب سے بڑا مسئلہ لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری کا تھا جنہیں بھارتی علاقوں سے بحفاظت نکال کر پاکستان لانا اور پاکستان سے جو ہندو سکھ جا رہے تھے انہیں بھارت پہنچانا تھا۔ پھر موجودہ خیبرپختونخوا یعنی پاکستان کی مغربی سرحد پر نگاہ رکھنا اور سب سے اہم بات پاکستان کے نام پر وجود میں آنے والی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی متعین کردہ سرحدوں کی حفاظت کرنا انتہائی مشکل مسئلہ تھا مگر افواج پاکستان نے کمال ہمت اور جرات سے ہر قسم کی ذمہ داری نبھائی۔ امرتسر اور واہگہ کے درمیان مہاجرین کے پیدل قافلوں کی حفاظت کے لیے کافی عرصے سے 5/13فرنٹیئر فورس رائفلز کی دو کمپنیوں کے جوان مسلسل ڈیوٹی کی وجہ سے انتہائی تھک کر بیمار ہوگئے تھے مگر پھر بھی وہ اپنی ڈیوٹی ادا کرنے میں تامل نہیں کر رہے تھے۔ اور حکومت کی طرف سے ملنے والے اپنے راشن کو بڑی فراخ دلی سے مہاجرین میں بانٹ دیتے تھے۔ مہاجرین بھی ہیضہ، ملیریا جیسے امراض کا شکار ہو چکے تھے۔ جو جس جگہ پر جس انداز اور اختیارات کے ساتھ تھا وہ اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔

    پاکستان آزاد ہوا تو کوئی سندھی تھا نہ کوئی پنجابی اور نہ ہی کوئی بلوچ اور پٹھان، سب مسلمان تھے اور ایک اللہ کو ماننے والے اور اسی کے پیروکار تھے۔ 1940ء کو منٹو پارک لاہور کی قرارداد اسی کا ترجمان تھی اور مقاصد کے تعین میں اسلامی مملکت کا قیام اہم تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ان اہم اور تاریخی لمحات میں ڈھائی گھنٹے تقریر کی، اور اس تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں اور ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں اورسماجی عادات سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ لوگ نہ تو اآپس میں شادی کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں اور یقیناً یہ لوگ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر مختلف خیالات اور تصورات پر محیط ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا محمد علی جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا اور ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1941ء سے 23 مارچ کے دن ہندوستان بھر میں یوم پاکستان منانا شروع کر دیا تھا اگرچہ قرارداد میں اس وقت تک پاکستان کا لفظ شامل نہیں ہوا تھا۔ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے۔ 1943ء میں قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں قرارداد لاہور کے لیے پاکستان کا لفظ قبول کرتے ہوئے اسے قرارداد پاکستان قرار دیا اور قائداعظم اور مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کے کنونشن 1946ء نے بہتر اور واضح شکل دی۔ اس قرارداد میں جو مطالبہ پیش کیا گیا تھا، اس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور 14 اگست 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

    کلمے کی بنیاد پر لاکھوں مسلمانوں نے جس مملکت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اسلام کے لیے نہیں بلکہ سیکولر یا لبرل ازم کے لیے بنائی گئی تھی تو اس سے بڑی بد دیانتی اور ہٹ دھرمی کیا ہو سکتی ہے؟ لاکھوں لوگوں اور آزادی کے شہیدوں کی روحوں کو دکھ پہنچانے اور ان کی قربانیوں کو ضائع کرنے اور قائداعظم کی فراست اور ان کے رفقاء کی محنت اور تحریک کو قولاً اور فعلا فضول اور لغو کہنے کے سوا اس دعوے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور یہاں تمام مسائل کا حل اسلام کا نفاذ ہی ہے۔ اگر اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جائے گا تو ہماری ناکامی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے عناصر کو ہدایت اور سمجھ نصیب فرمائے۔

  • میں نے پاکستان بنتے دیکھا – محمد عتیق الرحمٰن

    میں نے پاکستان بنتے دیکھا – محمد عتیق الرحمٰن

    عتیق الرحمن قیام پاکستان بیسویں صدی کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ اس نے دنیا کو باور کروایا کہ اسلام کے متوالے اپنا علیحدہ تشخص برقرار کھنا چاہتے ہیں اور اس کی خاطر قربانیاں دینے کو بھی تیار ہیں۔ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے اس ملک کی انگریزوں، ہندوئوں اور سکھوں نے مخالفت کی۔ انہیں منظور ہی نہ تھا کہ مسلمان پھر سے برصغیر میں سراٹھاسکیں۔ ہندو انگریز کے بعد حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے بلکہ اس کی تعبیر میں بھی سرگرداں تھے۔ مسلمانوں نے ان کے اس خواب کو دیکھتےاور ان کی چانکیہ سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا، سکھوں نے بھی کے ساتھ مل کر مخالفت کی بلکہ مسلمانوں پر مظالم توڑے لیکن قیام پاکستان کے بعد جب ہندو انتہاپسندی کی افتاد ان پر پڑی تو تاریخ نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کا فیصلہ درست اور بروقت تھا۔

    قیام پاکستان سے پہلے کی جدوجہد میں مسلمانان برصغیر کی لاتعداد قربانیاں ہیں جو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور شاید ان پر گرد بھی پڑچکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت جو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ بیتی اور جو کچھ ان کے ساتھ ہندوئوں اور سکھوں نے کیا، آج بھی وہ مہاجرین یادکرتے ہیں تو ان کی راتوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں۔ اپنے گھر سے پورا خاندان لے کر نکلنے والا مسلمان پاکستانی زمین پر خون کا دریا عبور کر کے اکیلا پہنچا تو اس پر کیا بیتی تھی، یہ بس وہی جانتاہے۔ یہ سب ہوا، مسلمانان برصغیر نے خون کا دریا عبور کیا اور پاکستانی سرزمین پر پہنچ کرثابت کیا کہ ہم اسلام کی خاطر ایک ایسے ملک میں جمع ہو رہے ہیں جو کل کو اسلامی دنیا کا سردار بن کر ابھر ے گا۔

    بھارتی علاقوں سے کئی خاندان ہجرت کر کے پاکستان کو نکلے تھے جن میں سے کئی کو پاکستان نصیب ہوا، کئی کو شہادت نصیب ہوئی، کئی کو ہندوئوں اورسکھوں نے غلام بنالیا، کئی مسلمان مائوں بہنوں کی عصمتیں لوٹ لی گئیں، کچھ لٹی پٹی پاکستان پہنچ گئیں، کچھ نے عزت و ناموس بچانے کے لیے اپنے آپ کوختم کرلیا اور کچھ کو اب تک ہندوئوں اور سکھوں سے آزادی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ ایسا ہی ایک سفرنامہ پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ صاحب کا ہے جسے انہو ں نے ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔ یوم آزادی کے حوالے سے ان کے سفر نامے کا کچھ حصہ میں قارئین کے سامنے رکھ رہاہوں۔

    پٹیالہ کے تاریخی مقام بٹھنڈہ کے محلہ کھٹیکاں میں یکم دسمبر 1940ء کو پیدا ہونے والے متین الرحمن کی عمر قیام پاکستان کے وقت سات سال تھی۔ ان کے والد میونسپلٹی میں سینٹری انسپکٹر تھے۔ محلہ کھٹیکاں میں چندگھر سکھوں کے، دوچار ہندوئوں کے اور باقی مسلمانوں کے تھے، اسی وجہ سے اس کو مسلمانوں کا محلہ سمجھا جاتا تھا۔ اگست 1947ء کا مہینہ گرم تو تھا لیکن گرمی کی شدت میں کمی آگئی تھی۔ بچوں کو عید کا بےصبری سے انتظار تھا لیکن اس بار عید کا موسم ذرا عجیب سا تھا، جیسے جیسے عید کا دن قریب آ رہاتھا گلی میں نعروں کا مقابلہ بڑھ رہاتھا۔ جے ہند، پاکستان زندہ باد، ست سری اکال اور اللہ اکبر جیسے نعرے متین الرحمٰن نے ان ہی دنوں سنے اور سیکھے۔ فسادت کے بعد قرب وجوار کے مسلمان بھی ان کے محلے میں آگئے۔ ان کے محلے کامحاصرہ کیا گیا جس کی وجہ سے انہیں محاصرہ توڑ کر قافلے کی صورت میں نکلنا پڑا۔ 47ء کی عید الفطر کے ڈیڑھ ہفتے بعد ایک رات دوسرے پہر فساد زدہ شہر کی غیرمحفوظ گلیوں سے ان کا قافلہ اسٹیشن تک پہنچا۔ قافلے کے شہری حدود سے نکلنے اور ویرانے میں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی کسی حادثے یا واقعے کے سبب بھگڈر مچی اور قافلہ دوحصوں میں بٹ گیا۔ ایک میں والدین، تیسرے چھوٹے بھائی اور بہن اور دوسرے حصے میں متین الرحمن اور ان کا بھائی معین تھے جس نے قریبی گائوں کی جانب سفر شروع کر دیا۔ اب دوسرے قافلے کی کوئی ترتیب اور حفاظتی اقدامات نہ تھے۔ مردوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ نہتی بھی تھی۔رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی۔ غیر ہموار سا میدانی راستہ، جگہ جگہ جھاڑیاں کٹی ہوئی تھیں اور کٹے ہوئے سرکنڈوں کے گٹھے تھے۔ سرکنڈوں کے درمیان سے گزرنا دشوار تھا، ہاتھوں اور چہروں پر خراشیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک موٹر کی آواز سے قافلے میں پھر بھگڈر مچ گئی، لوگ افراتفری میں جھاڑیوں کے اندر کود کر چھپنے لگے۔ سلطان چاچا (محلے دار) نے لڑکوں (متین، معین اور چچا کا بیٹا امین اللہ) کو زمین پر لٹا کر سرکنڈوں کے گٹھے بکھیردیے۔ جب موٹر کی آواز غائب ہوئی، لڑکوں کو نکالاگیا تو سرکنڈوں کی چھال کی پھانسوں سے جسم کے کھلے حصوں پر خراشیں آچکی تھیں اور کہیں کہیں سے خون رس رہا تھا۔

    سحر کے قریب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے متین الرحمن لکھتے ہیں کہ اب ہمارا سفر نہر کے کنارے کسی سڑک پر ہو رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک دلدوز چیخ ابھری۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو چچی (محلےدار کی بیوی) چار پانچ سکھوں کے نرغے میں تھی۔ چچی نے نہر میں چھلانگ لگا دی تھی اور ایک سکھ بالوں سے پکڑ کر باہر کھینچ رہاتھا۔ چچا تیزی سے واپس بھاگے اور ایک سکھ کا گنڈاسہ چھین کر بالوں سے کھینچنے والے سکھ پر حملہ کردیا۔ باقی سکھوں نے چچا پر حملہ کر دیا۔ قافلے کے کچھ مرد چچا کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور دوبدو لڑائی ہوئی، قافلے میں بھگڈر کی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ صبح کا اجالا پھیلنے پر قافلے کا سفر ازسرنو شروع ہوا لیکن اس میں مجھے چچا دکھائی دیے نہ چچی۔ سورج چڑھ آیا تو غالباََ وہ گائوں دکھائی دیا جو منزل تھی۔گائوں میں داخل ہونے والی گلی کے قریب پہنچے تو ’’جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘ والی کیفیت سے دوچارہوئے۔گلی سے ننگی پنڈلیوں تک پیلے رنگ کے چغوں میں ملبوس اکالی سکھوں کا جتھا برآمد ہوا جن کے ہاتھوں میں خون آلود تلواریں اور بگلوسوں میں ننگی کرپانیں لٹک رہی تھیں۔ کپڑوں اور ہاتھوں پر خون کے دھبے لیے وہ ست سری اکال اور دوسرے نعرے لگا رہے تھے۔ ڈرے سہمے بچے کھچے قافلے کو گھیرے میں لے کر گائوں سے کچھ دور ہٹایاگیا۔ اکالیوں میں ایک سکھ ڈھول پیٹ رہاتھا، کبھی کبھی سنکھ بجایا جاتا۔ قافلہ پریشان سا مضطرب سوچ رہاتھا کہ سکھ اب انتظار کس کا کر رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد گائوں سے دھواں اٹھنا شروع ہوا اور پھر اس سے شعلے لپکنے لگے۔ فضا میں ناگوار سی بو پھیلنا شروع ہوئی جو لاشوں کے جلنے کی بو تھی۔ پاکستان کی آزادی کی قیمت ادا کرنے والے ان گمنام جانثاروں کے خون اورگوشت کے بھننے کی بو جو محض مسلمان ہونے اور پاکستان کے تصور سے ہمدردی کے جرم میں جل رہے تھے۔ فضا دہشت ناک ترین اور مجنونانہ انداز میں پیٹے جانے والے ڈھول کی لرزہ خیز آواز، دھوئیں، آگ، جلتی لاشوں کی بو، برستی راکھ، بھوک سے بلکتے بچوں کی آوازیں اور اکالیوں کے نعروں سے معمور تھی۔ سنکھ کی کریہ آواز میں اضافہ ہوا اور ایک سکھ نے نوعمرماں کی گود میں شیرخوار بچے کے پیٹ میں تلوار کی نوک جھونکی اور بچے کو نوک شمشیر پر فضا میں بلند کر دیا۔ ننھی سی جان سے خون کا فوارہ ابلا، ممتا تلوار کی نوک پر لٹکے بچے کو چھیننے کے لیے جھپٹی تو دوسری تلوار نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اس کے بعد خوفناک رقص شروع ہوا۔ ہرطرف تلواریں اور ان سے کٹتے ہوئے جسم دکھائی دے رہے تھے اور ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔

    متین الرحمن مزید لکھتے ہیں کہ ہم دونوں بھائی دوسروں کے خون میں نہاچکے تھے لیکن مجھ میں ایک دو منٹ سے زیادہ اس کیفیت کو دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔ مجھ پر کوئی گرا اور پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو ایک لاش کے نیچے میرا سر دبا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے اپنا سر اور ریت میں دبا ہوا اپناچہرہ نکالا، گرم ریت سے منہ، ناک اور آنکھوں میں اذیت ناک جلن ہو رہی تھی۔ طبیعت کچھ سنبھلی تو معین کی تلاش شروع کی جو کہ قریب ہی لاش کے نیچے نیم بےہوشی میں دبا ہواتھا۔ منظر دیکھا تو ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں، کچھ زخمی تھے لیکن چلنے پھرنے سے معذور اور بری طرح زخمی تھے۔ ہمیں دیکھ کر زخمیوں نے پانی مانگا۔ قریبی کھیت کو پانی دینے والا نالہ تھا جس میں قمیض ڈبوڈبو ان زخمیوں کے منہ میں نچوڑتے رہے۔ کئی زخمیوں نے پانی پی کر ہمارے سامنے آخری ہچکی لی۔ متین الرحمن لکھتے ہیں کہ ’’آخری ہچکی لے کر زندگی کا سفر ختم کر دینے کا غم انگیز منظر ذہن کو کیسا مائوف کر دینے والا ہوتا ہے ،اس تاثر کو میں آج تک فراموش نہیں کرسکا ۔‘‘ اس کے بعد متین الرحمن اور ان کے بھائی زندہ دفن ہونے سے بچے اور اک کھیت میں کچھ عرصہ اذیت ناک طریقے سے چھپ کرگذارا، سکھوں کے ہاتھوں زخم کھائے، پھر ایک سکھ کی پناہ میں آئے اور پھر اسی سکھ کے غلام بننے سے بچے اور آخر کار ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچے جہاں انہیں انار کلی میں مشہور جوتوں کی دکان چاولہ بوٹ ہائوس کے مالک نیک دل شخصیت شیخ افتخار الدین نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ جس کے کچھ عرصہ بعد یہ اپنے والدین سے مل گئے۔

    یہ کہانی صرف ایک متین الرحمن کی نہیں بلکہ 1947ء میں جو پاکستان آئے ان سب کی ہے۔ میرے ایک دوست کی والدہ نے بتایا تھا کہ ان کا خاندان ہجرت کرکے جب پاکستان پہنچا تو 15 افراد کے خاندان میں سے صرف 2 لوگ زندہ تھے۔ قیام پاکستان کے وقت جو ظلم و ستم مسلمانوں پر ہوا آج بھی وہ لوگ محسوس کر کے آہیں بھرتے ہیں جن کے سامنے مائوں بہنوں کی عصمتوں کاجنازہ نکلا، مائوں کے سامنے بچوں کو انیوں پر پرویا گیا، بیویوں کے سامنے سہاگ کاٹے گئے اور بیٹوں کے سامنے باپ کا سرتن سے جدا کیا گیا۔ یہ سب کس لیے تھا؟ اتنی قربانیاں، آگ وخون کا دریا، زمین و جائیداد کی قربانی، اپنی جائے پیدائش کی قربانی کس لیے تھی؟ کیا یہ صرف ایک ملک کے لیے تھا؟ نہیں یہ قربانیاں اور عصمتوں کی قربانیاں دین اسلام کے لیے تھیں۔ 14 اگست 1947ء سے لے کر اگست2016ء تک کا سفر ماضی بن چکا لیکن پاکستانی قوم کو اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل اسلام کے مطابق محفوظ اور روشن بنانا ہے۔

    بھارت و کشمیر میں آج بھی مسلمانوں کا ہندوئوں نے جینا حرام کیا ہوا ہے۔ کشمیر میں عیدالفطر کے بعد سے لے کر اب تک مسلسل ظلم وستم ، پیلٹ گن کا استعمال اور مسلسل کرفیو سے قحط کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ کشمیریوں کو پیلٹ گن کے ذریعے ہمیشہ کے لیے اندھا بنایا جا رہا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ آئے دن بھارت میں مسلمانوں پر ظلم وستم کی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی ہیں۔پاکستان بن گیا اور ہم ہندو کے ظلم و جبر سے محفوظ ہوگئے تو کیا ہمارا فرض پورا ہوگیا؟ کشمیر و بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کون کرے گا؟ جن کو آج بھی مسلمان اور پاکستان کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ ان مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا کرنا ہمارا مذہبی واخلاقی فرض ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے عالمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگست کے مہینے میں آئیے اس کے متعلق سوچیں اور کچھ عملی اقدامات کی طرف توجہ دیں۔