Tag: تبدیلی

  • بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب – انعا م الحق اعوان

    بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب – انعا م الحق اعوان

    انعام الحق اعوان ہرصبح اس امید کے ساتھ اخبارات دیکھتا ہوں کہ شاید آج پولیس کے ہاتھوں کوئی ظلم کا شکارنہ ہوا ہوگا، آج اشرافیہ کی سرپرستی میں حواکی بیٹی کی عصمت نہ لٹی ہوگی، جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے مزدور اور مزارعے کے ہاتھ اورکان نہ کاٹے گئے ہوں. عابداقبال! آپ پازیٹو پاکستان کے سفیر ہو لیکن کیا کروں کہاں سے لاؤں وہ امید کہ جو مسجد جیسی پاک دھرتی پر پھول بکھیر دے. معصوم زین کے قتل کی فریاد کروں، حافظ آباد کے ابوبکرکے لیے انصاف کی بھیک مانگوں یا لاہورکی 15 سالہ طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے بااثرحکومتی درندوں کو کیفر کردار تک پہچانے کی بات کروں. 69 برسوں سے پاکستان کے باسی اس اسلامی فلاحی ریاست کا انتظار کر رہے ہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کو تعبیر محمدعلی جناح نے دی تھی.

    لیکن درندوں کی طرح چیر پھاڑ کرنے والے کھوٹے سکے آج بھی یہاں بڑے سے بڑا جرم کر کے سکھ چین کی زندگی گزارتے ہیں اور جرم نہ کرکے بھی ایک 6 سالہ بچہ ’’بیگم صاحبہ‘‘ کے ہاتھوں اذیت سہتا ہے. کبھی خبرملتی ہے کہ اس معصوم کوگرم استری سے جلا دیا گیا اور کبھی یہ صدا دماغی توازن کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے کہ اس معصوم کو ہنٹر سے مار مار کر اس لیے لہولہان کر دیا گیا کہ اس نے ’’چھوٹے بابا‘‘ کے کھلونوں کو ہاتھ لگا کر اپنا بچپن محسوس کرنا چاہا تھا۔ لیکن شاید وہ بھول گیا تھا کہ غریب تو کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں، ان کا بچپن ہوتا ہے نہ جوانی اور نہ ہی بڑھاپا، ان کی زندگی کا ہر لمحہ موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔

    انھیں اس سے کیا غرض جن کے کندھوں پر اس اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، ان کے بلاول، حمزہ، سلیمان وقاسم اور حسن و حسین تو شہزادوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے گھوڑوں اور کتوں کو وی آئی پی رومز اور مربع میسر ہیں، غریب کا کیا ہے؟ یہ تو گندگی کے ڈھیر سے اپنے پیٹ کا جہنم بھر ہی لے گا، اسے کپڑوں کیاضرورت ہے؟ اس نے کون سا فارن وزٹ پرجانا ہے؟ انہی گلی محلوں میں ہی تو رہنا ہے۔

    مایوسی ہی مایوسی ہے، لیکن، ہاں ایک راستہ ہے جس سے غریب ہاری اور محنت کش کے حالا ت بدل سکتے ہیں کہ وہ بلٹ اور استحصال کے مقابلے میں اپنے بیلٹ کی طاقت ان کے حق میں استعمال کر دے جو کرپٹ اور بددیانت نہیں ہیں اور جن کا دامن صاف ہے. وہ جب سٹی ناظم کراچی کی حیثیت سے اقتدار کی مسند سنبھالتے ہیں تو اپنی دیانتداری اور قابلیت کے باعث 4 ارب کے بجٹ کو 42 ارب تک پہنچا دیتے ہیں، وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ بدترین جانی دشمن بھی ان کی کارکردگی کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نعمت اللہ خان جیسا حکمران آج تک کراچی کونصیب نہیں ہوا، جو اقتدارکی مدت مکمل ہوتے ہی مدت اقتدار کے دوران لی گئی تنخواہ کا چیک کاٹ کر صدقہ کرتا اور دامن جھاڑ کر خالی ہاتھ گھر روانہ ہوجاتا ہے۔ جب انھیں خیبرپختونخوا کے خزانے سونپے جاتے ہیں تو بھی ان کے رہن سہن میں فرق نہیں آتا، گھر کے دروازے پر لٹکا اور کپڑے کی بوری سے بنا ایک پردہ ہی سراج الحق کی بلٹ پروف سیکورٹی کا کام کرتا ہے. سرکاری فارن وزٹ کے دوران عالیشان ہوٹلز میں عوام کے کروڑوں روپے پھونکنے کے بجائے یہ جامع مسجد میں قیام کرتے ہوئے اپنے عوام کی امانتوں کا پاس کرتے ہیں، یہ بظاہر فقیراور درویش نظرآتے ہیں لیکن جب وہ ایک صوبے کے بدحال مالی حالات کواس کی صحیح ڈگر پر لاتے ہیں تو ورلڈ بنک اور عالمی ادارے ان کی کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ پھرجب ان کے ایک پارٹی رکن عنایت اللہ خان کو خیبرپختونخوا میں بلدیات کی منسٹری ملتی ہے تو وہ اسے چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہے، اپنی قابلیت اور بے لوث پارٹی ایڈوائزرز کے ساتھ مل کر دنیا بھر کے
    تجربات کا نچوڑ نکال کر ایسے لوکل گورنمنٹ انتخابات کرواتا ہے کہ فائلوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں ویلج کونسل کی صورت عوام کے حقوق ان کی دہلیز پر پہنچا دیتا ہے. وزارت سنبھالتے وقت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا جو محکمہ 26 کروڑ خسارے میں ہوتا ہے، دوسالوں میں ہی اسے 7ارب کے منافع پر لاکھڑا کرتا ہے۔

    عوام کواپنی تقدیر بدلنی ہے تو ان درویشوں کا دامن تھامنا ہوگا جو یہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹی قائد نہیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ کوماننے والوں کو اللہ کی ماننے کی دعوت دیتے ہیں، دن رات اسی کےلیے قائل کرنے میں مصروف ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ جس دن اللہ کی ماننے والوں کی تعداد قابل ذکر ہوئی، یہ تمام مسائل از خود حل ہوجائیں گے. اب فیصلہ عوام کے پاس ہے کہ وہ 69 برسوں سے اپنا خون چوسنے والے کرپٹ اور بددیانت سیاستدانوں کو خود پر مسلط رکھتی ہے یا اللہ کا خوف رکھنے والی قیادت پر اعتماد کرتی ہے.

  • تبدیلی کی لہر کی واپسی اور جوان خون – نورین تبسم

    تبدیلی کی لہر کی واپسی اور جوان خون – نورین تبسم

    ایک نیا پاکستان بنانے کا شور و غوغا ہے، مگر ”تبدیلی“ کی لہر جتنی تیزی سے آئی تھی اُتنی ہی سُرعت سے واپس جا چکی ہے۔ سونامی کے آنے کا پتہ چلا نہ ہی جانے کی راہ دکھتی ہے۔ جہاں بلند و بانگ دعوؤں کی طغیانیوں کے سمندر میں ڈوبنے والے ”جوان خون“ کی تعداد بڑھتی جاتی ہے وہیں لالچ، بےحسی اور ہوس اقتدار کا یہ کھارا پانی پلٹتے ہوئے سانس لیتے مردہ جسموں کو اُگلتا جاتا ہے۔ ہم عام عوام زندگی کے انتظار میں سراپا انتظار، ان سڑانڈ زدہ پٹے ہوئے مہروں کو اپنے مقدر کا ستارہ جان کر ایک بار پھر جوا کھیلنے کو تیار بیٹھے ہیں، ایک نیا پاکستان بنانے کی لاحاصل امید میں پرانے پاکستان کو مدفن بناتے ہوئے بےخبرلوگ نہیں جانتے کہ قبر پر نہ تو گھر بن سکتا ہے اور نہ ہی خوشی ملتی ہے۔ کہ ”قبریں نوحہ گر تو پیدا کر سکتی ہیں ثنا خوان نہیں.“

    قیمتی چیز اگر پرانی ہو جائے تو اُسے توڑ کو کبھی نیا نہیں بنایا جا سکتا۔ اُسے اُسی حالت میں احتیاط سے سنبھال کر سجایا سنوارا جاتا ہے۔ اس کا احترام کیا جائے تو ہی اس سے فیض اٹھایا جا سکتا ہے۔ غریب ماں ہو یا دھرتی ماں اُس سے فرار کسی صورت ممکن ہی نہیں۔ ترقی کی منازل طے کرنے کے بعد آگے سے آگے بڑھنا ہر فرد، معاشرے اور قوم کا بنیادی حق ہے. لیکن ! راستہ وہیں بنایا جاتا ہے جہاں پہلے سے راستہ بنا ہوا نہ ہو۔ پکی سڑک کو توڑ کر دوبارہ اسی جگہ پر سڑک بنانے کے دعوے کرنا سمجھ میں نہ آنے والی حماقت ہے اور ان نعروں پر یقین کر لینا اس سے بھی بڑی جہالت کے سوا کچھ نہیں۔

    تبدیلی بنے بنائے خیالات اور جمےجمائے فرسودہ نظریات سے بغاوت کا نام ہے۔ اس بغاوت کا حوصلہ اُن طبقات میں زیادہ ہوتا ہے جن کے پاس لٹانے کو بےقیمت جان کے سوا کچھ نہ ہو۔ عزت کی اُڑتی دھجیاں زندگی کو بےننگ و نام بنا دیں۔ جن کے پاس واپسی کا زادِ راہ موجود نہ ہو، وہی کشتیاں جلانے کا عزم لے کر میدانِ کار زارمیں اُترتے ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ بےہنگم عزم اور بےترتیب جوش و جذبے کے یہ طوفان جہالت اور اندھی عقیدت کے ساحلوں سے ٹکرا کر ہار مان لیتے ہیں۔ زمین میں رہنے والے زمین کی خاک ہی رہتے ہیں۔ غربت، بےکسی کے یہ سنگِ راہ قابل رحم سے زیادہ باعث عبرت بن جایا کرتے ہیں۔

    وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنا، اپنے رویوں، اپنے اصولوں پر نظرثانی کرنا، عمر کے بڑھتے ماہ و سال میں اپنے آپ کو بہتر سے بہتر تراشنا تبدیلی ہے۔ تخلیقِ انسانی پر نظر ڈالی جائے تو انسان اپنی زندگی کے ہر پل نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ معاشرے میں تبدیلی ہمیشہ اوپر سے آتی ہے۔ تبدیلی علم سے آتی ہے، تعلیم سے آتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ علم اور تعلیم انسان کو محتاط کر دیتے ہیں۔ تبدیلی کا اصل طوفان اس وقت رونما ہوتا ہے جب اہلِ علم و عقل بےحسی اور لاتعلقی کی چادر اتار کر عام انسان کی سطح پرآ کر نہ صرف حقوق کی بات کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے عملی قدم بھی اُٹھاتے ہیں۔ حق حلال سے کمانے والا مراعات یافتہ طبقہ اپنے ”حال“ کی آسائش میں رہتے ہوئے جب دوسروں کے حال کی فکر کرتا ہے چاہے اس میں اس کا ذاتی مفاد ہی کیوں نہ شامل ہو۔ سب سے بڑھ کر جب ناانصافی کا عفریت اُن کے اپنے دروازے پر دستک دیتا ہے تو اس لمحے جاگنا ہی پڑتا ہے، سنبھلنا ہی پڑتا ہےاور وقت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے کر بدمست ہاتھیوں کو سبق سکھانا ہی پڑتا ہے۔

    اس لمحے تبدیلی آ ہی جاتی ہے لیکن تماش بین بن کر نہیں، بلکہ تماشا بنا کر۔ قابلِ رحم اور قابلِ تضحیک بن کر نہیں بلکہ باعث عزت و تکریم بن کر، نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے ساتھیوں کے لیے۔ جوش خطابت اور شورِجنون دکھلا کر نہیں بلکہ دلائل سے اپنے حق پر ڈٹے رہ کر۔

    تبدیلی کا علم لے کر ضرور اٹھو! اپنے اپنے محاذ پر تبدیلی کا آغاز کرو لیکن، اپنے ”نظام“ میں رہ کر اس کی بحالی اور اپنے ”ماحول“ میں خود کو ایڈ جسٹ کرتے رہنے کی آخری کوشش کے بعد۔ پے در پے عجلت میں کیے گئے غلط فیصلوں اور سیاسی شعور کی ناپختگی سے قطع نظر مستقبل کا مؤرخ جب پاکستان میں تبدیلی کی لہر کے آغاز کے بارے میں لکھےگا تو عمران خان کا نام اس میں سرفہرست ہوگا۔ لیکن اس لہر کو مثبت سونامی میں بدلنے کے لیے عمران خان کو اپنے دوست نما دشمنوں کو پہچاننے کی دعا ہی دی جا سکتی ہے۔ ہر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا جن کا خاصا اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ہونا اُن کا ایمان ہے۔ جو چڑھتےسورج کو داد و تحسین کا گرہن لگا کر اس کو بےفیض بنا دیتے ہیں۔

    آخری بات!
    ہر انسان ایک مداری ہے۔ کیا جانیے کب اُس کے تھیلے سے کیا نکل آئے؟ ہمیں اُس کے کرتب کو دیکھنا چاہیے، اُس کے حلیے کو نہیں۔ اپنے کرتب کی قیمت مانگنے پر چپکے سے کھسک جانے کا اختیار بہرحال ہمارے پاس ہے۔ بحیثیت قوم ہم سادہ لوح ہیں۔ نعروں اور بڑھکوں کے فریب میں آ جاتے ہیں۔ بڑے بڑے ”جھٹکوں“ نے ہمیں میچورٹی عطا نہیں کی۔ سنہرے وعدوں کی زنجیریں ہمیشہ بیڑیاں ہی ثابت ہوئی ہیں۔ تبدیلی کا حصہ ضرور بنیں لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ بھیڑ بھیڑیے کی کھال پہن کر بھی شکاریوں سے نہیں بچ سکتی اور گیدڑ شیر کا لباس پہن کر بھی بادشاہ نہیں کہلا سکتا۔

  • اور چولہا بجھ گیا – سید جواد شعیب

    اور چولہا بجھ گیا – سید جواد شعیب

    سید جواد شعیب دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا تو بیگم کا پریشان چہرہ بتا رہا تھا کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے. اس نے دریافت کیا تو بیگم گویا ہوئیں کہ سوئی گیس مکمل بند اور چولہا نہیں جل رہا، چائے کیسے بناؤں؟ وہ حیران تھا کہ مضافاتی علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا سنا تھا لیکن اس کے گھر کی گیس بند ہونے کی خبر نے اسے پریشانی میں ڈال دیاتھا۔ وہ سیدھا باورچی خانے گیا، گیس کی لائن چیک کی، کبھی چابی کبھی لائن کی لیکجیج ڈھونڈتا رہا لیکن پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔

    رات کے کھانےکا وقت ہوا تو ہوٹل سے کھانا منگوایا اور اس طرح رات گزاری اور صبح ہوگئی۔ صبح اس کی اہلیہ نے اٹھتے ہی پھر چولہا جلانے کی کوشش کی تو چولہا ٹھنڈا ہوچکا تھا، گیس آتی تو جلتا نہ، اس روز صبح کا ناشتہ بھی نہ بن سکا، اور بچوں کو لیے وہ گھر سے نکلا، راستے میں بچوں کے لنچ کا انتظام کیا اور اسکول چھوڑتا ہوا اپنے دفتر کے لیے نکل گیا۔ وہ شدید مضطرب اپنی گاڑی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ گھر جائے گا تو کیا کرے گا، وہ گہری سوچ میں ایسا ڈوبا کہ ڈوبتا چلاگیا، چند لمحوں میں وہ اپنے ماضی میں پہنچ چکا تھا، اسے یاد آ رہا تھا کہ جب وہ پیدا ہوا تو خود کو کراچی کے قدیم علاقے لیاری کی نسبتا پوش اور پڑھی لکھی بستی بہار کالونی میں پایا۔ اس علاقے کو قیام پاکستان کے بعد مشترکہ ہندوستان کے صوبہ بہار سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اسی لیے اس بستی کا نام بہارکالونی رکھ دیاگیا تھا۔

    اس کا ماضی ایک فلم کی طرح اس کے سامنے آگیا تھا۔ وہ اپنے بچپن میں خود کو بہار کالونی کی کشادہ گلیوں میں کھیلتے کودتے اور اچھے ماحول میں تربیت پاتا دیکھ رہا تھا،
    کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی اور اس کی سوچ کا تسلسل قائم نہ رہ سکا۔ اسے ماضی سے حال میں آنا پڑا، دفتر سے فون آرہا تھا، اس نے تسلی سے اسائنمنٹ ڈیسک کی ہدایات سنیں اور پھر دوبارہ سوچنے لگا کہ کتنی تیزی کے ساتھ تکمیل تعلیم، شعبہ صحافت سے وابستگی، ملازمت اور ازدواجی زندگی شروع ہوئی اور وہ اپنے والد کےبڑے خاندان کے اندر ہی ایک اور چھوٹے سے خاندان کا کفیل بن گیا۔ اسے یاد تھا کہ ابا بولا کرتے تھے کہ جب برصغیر کے مسلمانوں نے دوقومی نظریے کے تحت پاکستا ن کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ لگاتے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی تھی تو دادا، ابا اور تایا بھی پیش پیش تھے۔ 14 اگست 1947ء کو مملکت خداداد پاکستان وجود میں آیا تو دادا مرحوم اپنے دونوں بیٹوں اور سارے کنبے کو لیا اور ہندوستان کے صوبے بہار کے علاقے گیا سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ ابتداء میں ابا بتاتے تھے کہ ایک سو بیس گز کے دوپلاٹوں پر دیوار گھیرنے کے بھی پیسے نہیں تھے، جیسے تیسے جھگی نما گھر بنایا اور پاکستان میں قیام کو چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ والد اور تایا یتیم ہوگئے، دادا حالات کی سختی برداشت نہ کرسکے اور خالق حقیقی سے جاملے۔ ابا اور تایا نے یتیمی کے ساتھ ہی زندگی کا کٹھن سفرشروع کیا۔ محنت مزدوری سے کبھی نہ گھبرائے۔ کارخانے میں بیٹریاں بناتے، رنگ و روغن کا کام کرتے، پرچون کی دکان ہو یا اسٹیشنری کی دکان، کبھی کسی کام سے نہ گھبرائے اور اپنے خاندان کی کفالت کرتے رہے۔ چھوٹے بڑے سیلاب دیکھے، لسانی فسادات دیکھے، پینسٹھ اور 71ء کی جنگیں دیکھیں لیکن ہمت نہ ہاری اور مشکل وقت اپنی ہمت سے کاٹتے رہے اور اپنی اولاد کے لیے حتی الامکان آسانیاں، سہولت اور آسائشیں فراہم کرتے رہے۔

    اسے یاد تھا کہ صرف ابا ہی نے نہیں اس کی اماں نے بھی معاشی تنگی، غربت ہو یا گھرداری، ہر میدان میں ابا کا بھرپور ساتھ دیا، اور زندگی کا سفر آگے بڑھتا رہا، جھگی کی جگہ مکان نے لے لی۔ اور پھر مکان گھر میں تبدیل ہوگیا۔ کچے گھر پکے ہوگئے۔ کچھ مناظر تو یہ تھے جو والد والدہ کی آنکھوں سے وہ دیکھتا رہا لیکن کچھ ایسے منظر اسے یاد آ رہے تھے جو اس کی آنکھوں نے دیکھے تھے، جب وہ اپنے بھائی بہنوں کو دور دور سے پینے کا میٹھا پانی کنستر میں بھر بھر کر لاتے دیکھتا تھا، اور پھر خود بھی گیلن کے ذریعے اڑوس پڑوس سے پانی بھر کرلانا اسے یاد آرہاتھا، وہ وقت بھلا نہ سکا تھا۔ جب گھر پر پانی کی لائن لگی تو ہینڈ پمپ سے پانی کھینچا جاتا تھا، ایک بھائی پمپ چلاتا تھا تو دوسرا اس کے نیچے بیٹھ کر نہاتا تھا اور وہ بھی ایک سو ایک یا لائف بوائے صابن سے۔ اس وقت بجلی کی اس طرح لوڈ شیڈنگ نہیں ہوا کرتی تھی، کسی خرابی کی صورت ہی بجلی غائب ہوتی، تو بچوں کو بھی تفریح کا موقع مل جاتا تھا اور وہ گھرکے برآمدے، چھت یا گلی میں خوب کھیلا کرتے تھے۔

    وہ وقت تھا جب گھر کا تعمیراتی کام ہوتا تو سب بھائی بہن مزدور بن جاتے اور خود اینٹ اور بجری کا وزن اٹھاتے تو ابا مستری ہوتے، اس طرح چار پیسے بچائے جاتے تھے۔ تہواروں خصوصا عید پر اسے یاد تھا کہ گھر اور کمروں کی دیواروں پر سفیدی کی جاتی، چونا بھگو کر اس میں نیل ڈالتے اور بھائی بہن خود ہی کوچی سے دیوار پر سفیدی کرتے۔
    چربی کے گرم گرم پراٹھے بھی اس کی نظروں کے سامنے گھورم رہےتھے اور ہاں آج کا پیسہ کیسے بھلایا جاسکتا تھا۔ اسے یاد تھا کہ بچپن سے لڑکپن تک جیب خرچ کے عوض ابا روز بالترتیب پانچ پائی، دس پائی، چار آنہ پھر آٹھ آنہ دیا کرتے تھے اور میٹرک میں جا کر اس کا جیب خرچ ایک روپے مقرر ہوا۔ آج کے پیسے سے کبھی علی بھائی کی دکان سے کٹ کٹی، چاول کا چورا کھاتے تو کبھی رضا بھائی کی دکان سے پائی پائی کے بسکٹ گوبٹ، پاپڑ یا فانٹا کھایا کرتے تھے۔ جب گھر میں انڈے کا سالن بنتا تو مہر الہی کی دکان سے چٹکے اور ٹوٹے ہوئے انڈے سستے داموں لانا اسے یاد آ رہا تھا۔

    اسی اثنا میں وہ شاہین گورنمنٹ اسکول کی پرائمری کلاسز دیکھنے لگا، خود کو کبھی ٹاٹ تو کبھی دری اور ٹوٹے ہوئے ڈیسک پر کسی پریشانی کے بغیر پڑھتے دیکھ رہاتھا، پھر سیکنڈری کلاسز میں گیا تو غازی محمد بن قاسم گورنمنٹ اسکول کا حال بھی کچھ یہی تھا، لیکن اسکول کی حالت زار سے اس کا کوئی لینا دینا نہ تھا۔ اسے یاد آیا کہ کالج جانے کے لیے اسےپانچ روپے ملتے، تین روپے دوطرفہ کرایے کی مد میں اور دو روپے سے اکثر وہ ایس ایم سائنس کالج کے باہر آلو چھولے کی پلیٹ یا پھر ٹھنڈا شربت پیا کرتا تھا. اس زمانے میں فرد کا افراد سے اور افراد کا معاشرے سے رشتہ مضبوط تھا، بہارکالونی کی ترقی کا سفر بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ تھا، اس نے گندے بہتے نالوں کو سیوریج کے بہترین نظام میں بدلتے دیکھا تھا، اسے یاد تھا اس کا بچپن پانی کی لائنوں کی تنصیب اور کچی گلیاں اور سڑکیں پختگی کی جانب بڑھتے دیکھتے گزرا تھا.

    یادداشت پر زور ڈالنے پر بہار کالونی کی سنگل اسٹوری مکانات پر مشتمل آبادی میں گلیاں صاف کرتے پچھتر جمعدار بھی اسے یاد آگئے تھے لیکن پھر اس نے بچپن سے لڑکپن کی جانب بڑھتے بڑھتے ترقی کرتے، علاقے کا نقشہ بدلتے بھی دیکھا، جب سنگل اسٹوری مکانات کی جگہ بلند بالا پانچ چھ منزلہ عمارتوں نے لے لیں اور کھلے کھلے برآمدوں والے مکانات فلیٹوں میں تبدیل ہوگئے، جہاں آٹھ دس افراد رہتے تھے سو سے ڈیڑھ سو بسنے لگے، وہ خود اب ایک تین کمرے کے ایک فلیٹ میں مقیم تھا جہاں نہ دھوپ میسر تھی، بارش کا مزا،
    پانی، بجلی، گیس ،سیوریج کی سہولت آبادی کے تناسب سے اپ گریڈ کرنے والا کوئی نہ تھا، وقت گزرا سب کچھ بکھرنے لگا اب کچھ بچا نہ تھا کیوں کہ فرد فرد سے دور اور معاشرہ انتشار کا شکار ہو چکا تھا.

    وہ انھی حالات میں لڑکپن سے جوانی میں تک پہنچا تھا، اور پھر ازدواجی زندگی شروع ہوئی، اور اب تین بچوں کا باپ ہے، ایک اچھے ادارے میں برسر روزگار اور معاشرے کا اہم حصہ بن چکا ہے، لیکن پھر آج ایک واقعے نے اسے برسوں پیچھے دھکیل دیا. وہ اپنے قابل فخر ماضی سے مطمئن اور حال سے خوش تھا لیکن بچوں کے مستقبل کے لیے مضطرب اور بےچین تھا کہ گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ کیونکہ آج اسے 2016ء کے پاکستان میں گھر کا چولھا جلانے کے لیے سلنڈر خرید کر گیس بھروانی پڑ رہی تھی۔

    ماضی کی ساری یادوں میں آج وہ برسوں پیچھے گیا لیکن اسے اپنے گھر پر گیس کا سلنڈر نظر نہ آیا۔ اماں ضرور بتاتی تھیں کہ وہ کس طرح مٹی کے چولھے میں گوبر سکھا کر کھانے بناتی تھیں، پھر مٹی کے تیل کا چولہا آیا، اور پھر وقت کے ساتھ گیس کے چولہے سے گھر پر کھانا پکنے لگا۔ آج جب دنیا ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے اور اس کا ماضی بھی ترقی کی جانب مسلسل بڑھتے قدموں کی عکاسی کر رہا تھا لیکن اب وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشانی کا شکار تھا، اور کیوں نہ ہوتا بجلی کے لیے اب اسے گھر پر جنریٹرلانا پڑا، جنریٹر کے لیے پٹرول مہنگا لگا تو گیس کا سہارا لیکن اب تو گیس بھی غائب تھی۔ بجلی،گیس، ٹیلی فون اور نکاسی آب و پانی کی سہولت سے محروم بھی تھا لیکن ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اسے تمام یوٹیلٹی بلز ٹیکسو ں کے ساتھ لازمی ادا کرنے پڑتے تھے۔ تنخواہ بنک میں آنے سے پہلے ہی اس سے انکم ٹیکس بھی وصول کیا جا رہا تھا۔

    وہ سوچ ہی رہا تھا کہ یک دم اس کے وجود سے ایک آواز آئی، میاں کیا سوچتے ہو، جو بویا ہے وہی تو کاٹو گے، وہ جیسے ہل کر رہ گیا جیسے اس کی الجھن سلجھتی نظر آرہی تھی. اسے خیال آیا کہ جب لوگ اپنے گھروں کو معاشرے سے الگ تھلگ رکھ کر کامیاب زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے، جب معاشرے کی ترقی کے لیے کردار ادا نہیں کریں گے تو معاشرہ اسی طرح انحطاط پذیری، تنزلی اور پسماندگی کا شکار ہوتا چلاجائے گا۔ اس کا وجود ہی اس کا محتسب بن کر سامنے آگیا تھا۔

    کوئی تھا جو جھنجوڑ رہا تھا، چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا،
    عقل کے اندھو! فرد سے افراد، افراد سے خاندان اور خاندانوں معاشرہ بنتا ہے۔ جب تم اپنے گھراور بچوں کی ترقی کے لیے ساری زندگی لگاتے تو اس معاشرے کی ترقی کے لیے تم نے کیا کردار ادا کیا۔ اس کا وجود ایک مثال دے رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے جب خریدار بازار سے کچھ خریدنے جاتا ہے تو چھان پھٹک، ٹھوک بجا کر اور مول تول کے بعد ہی کچھ خریدا کرتا ہے، اپنے بچوں کی بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت کے لیے، گھر کی تعمیر اور صفائی کے لیے معیار کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب بات گلی محلے علاقے شہر اور ملک کی آتی ہے تو ہمارا کردار کیا ہوتا ہے؟

    اسے کوئی جھنجوڑے جارہا تھا کہ چولہا ایسے ہی نہیں بجھ گیا، اس کے بجھنے کے ذمہ دار تم خود ہو، تمہارے والدین نے اپنی ذمہ داری پوری کی لیکن تم نے اسے آگے نہ بڑھایا،
    کیا تم خود اس معاشرتی تباہی، بنیادی سہولتوں سے محرومی کے ذمہ دار نہیں، اپنے بچوں اور گھر کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہو لیکن، لیکن جب علاقائی، شہری اور ملکی ترقی کے لیے انتخاب ہوتا ہے تو ذات برادری، رنگ نسل، مسلک، فرقے اور زبان کی آڑ میں نااہل قیادت چنتے ہو، اور پھر کہتے ہو، بجلی بند، پانی کم،گٹر بند، کچرا گند، اور اب پریشان ہو کہ گیس بھی بند، تم ہو ذمے دار اپنے بچوں کے مستقبل کی تباہی کے، تم ہو کوئی اور نہیں.

    ضمیر کی آواز اسے جھنجوڑے جا رہی تھی، اسے سمجھ آگیا تھا کہ اس کے گھر کا چولہا کیسے بجھ گیا؟ اگر وہ محلے شہر اور ملک کے لیے بھی چھان پٹک کر اہل، دیانتدار اور ایماندار لوگوں کو چنتا تو اس کے گھر کی طرح اور ہر ایک فرد کی طرح معاشرہ بھی ترقی کرتا، وہ طے کرچکا تھا، ارادہ باندھ چکا تھا، اس کے سامنے اس کا ماضی اور حال موجود ہے، اب اسے اپنے مستقبل کو خود سنوارنا ہے.
    کیسے؟ اب وہ خوب جان چکا ہے، لیکن یہ اسے اس وقت ہی سمجھ آیا، جب گھر کا چولہا بجھ گیا لیکن ابھی دیر نہیں ہوئی تھی، وہ گھر کا چولہا پھر سے جلا سکتا تھا۔ کاش کہ ملک کے ہر شہری کو چولہا بجھنے سے پہلے احساس ہوجائے اور کہیں دیر نہ ہوجائے کہ گھر اور معاشرہ ہر ایک فرد کی یکسر توجہ کا متقاضی ہے.

  • وہ کیا تبدیلی ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے؟ نعمان بخاری

    وہ کیا تبدیلی ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے؟ نعمان بخاری

    نعمان بخاری آجکل جو موضوع عام ہے اور جس پر سب کا اتفاق ہے وہ یہی کہ پاکستان کے اس فرسوہ ولایتی نظام اور کرپٹ حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے- ولایتی اس لیے کہ گزشتہ ستر سالوں سے ہم پر روس، برطانیہ، امریکہ اور اس کے حواریوں کے پتلے حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں- یہ سیاستدان لوگ نہایت چالاک، شاطر اور مکار ہیں! ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگلے الیکشن میں کس پارٹی کی حکومت ہوگی اور اسی پارٹی میں اپنے سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے اور لوٹ مار و کرپشن کیلئے شامل ہوتے ہیں، اپنے حربے آزماتے ہیں اور پھر حکمران بن جاتے ہیں- عوام ان سے تبدیلی کی امیدیں لگائے بیٹھتے ہیں اور تبدیلی آتی ہے لیکن ان حکمرانوں کے محلوں، ان کے اکاونٹس، اور ان کے فرعونی کبر میں اضافے کی صورت میں آتی ہے- غریب عوام کے روز ذلیل ہونے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی-

    یہ پاکستان جس مقصد کیلئے بنا ہے اس کو دہراتے ہوئے تین نسلیں گزر گئی لیکن کسی کو اس مقصد کے پورا کرنے کا خیال نہ گزرا، اور جنہوں نے کچھ کام کیا ان کو نہایت بے شرمی اور ظلم سے پھانسیاں دی گئیں- آج تک وہی انگریزوں کے غلاموں کی نسلیں ہیں، انگریزوں کی وفاداری پر ان کو ملی ہوئی جاگیریں ہیں اور ان کی ہمارے اوپر حکمرانی ہے- قیام پاکستان، بلکہ دو سو سال زائد عرصے سے یہی خاندان ہمارے اوپر حکمران ہیں، ان کی حکمرانی تبدیل نہ ہوئی نہ اس سسٹم کو تبدیل کرنے کی راہ آپ کو کوئی دکھائے گا- تبدیلی کیا ہے؟ میں سادہ الفاظ میں عام آدمی کا لیونگ سٹینڈرڈ اوپر جانے کو تبدیلی کہونگا، میں اک عام سوشل ورکر کو اسمبلی کا ممبر بننے کو تبدیلی کہونگا جس کے پاس مہنگے الیکشن کیلئے روپے نہیں ہوتے- میں اک عام آدمی اور اسمبلی کے ممبر کو یکساں انصاف ملنے کو تبدیلی کہتا ہوں- آج اگر کوئی لاکھ دعوے کریں سسٹم کو اچھا کرنے کی لیکن سٹیٹس کو وہی ہے، وہی ہٹو بچو کا شور ہے، سائرن ہیں اور عوام کو اپنی اوقات یاد دلانے کیلئے سڑکوں پر پروٹوکول کے قافلے اور سپشل گارڈز ہیں-

    پاکستان کے کلچر اور جسٹ ‘انکل نواز’ کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان منجھے ہوئے مکّار لوٹے جاگیرداروں، کرپٹ آفسروں، بی اے پاس کی جعلی ڈگریوں کے وزراء، اور جھوٹے وعدوں کے کلچر کی تبدیلی کی ضرورت ہے- اور یہ صرف ایک ہی نسخے سے آ سکتی ہے جو وہی مقصد ہے جس کیلئے یہ ملک بنا تھا- اس ملک کو ولایت و امریکہ کے غلاموں کی نہیں بلکہ محمدؐ کے غلاموں کی ضرورت ہے کونکہ جب دنیاوی عدالت کے خوف کے بجائے خوفِ خدا حکومتی زمےداری پورا کرنے کی بنیاد ہو، جب حکومت کو امانت سمجھا جائے تو کرپشن کہاں باقی رہیگی؟ پھر اس ملک و قوم اور اس کے وسائل کے ساتھ انصاف کا معامہ ہوگا- عزیز قارئین، اس بات کو کھلے دماغ سے سمجھا اور سمجھایا جائے کہ اگر اس ملک کو عوام دوست اور فلاحی بنانا ہے تو اسے صرف نام سے اسلامی جمہوریہ نہیں بلکہ شفاف الیکشن کے ذریعے حقیقی معنوں میں اسلامی ملک میں تبدیل ہونے کی ضرورت ہے-

  • جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز – ادریس آزاد

    جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز – ادریس آزاد

    ادریس آزاد دیانت داری ایک عمل ہے جو فی الحقیقت تربیتِ کردار کے مراحل میں سب سے مشکل بلکہ قریب قریب ناممکن الحصول ہے۔ اس کے مشکل ہونے میں سب سے بڑا معاون فرد کا ذاتی ماحول ہے۔ اگر میں نے شادی کرلی ہے تو اب میرے دو خاندان ہیں۔ پہلے ایک تھا۔ اب میرا سُسرال بھی میرا خاندان ہوگیا ہے۔ میرے اپنے شہر میں مراسم کے ساتھ ساتھ میرے سُسرالی شہر میں بھی میرے مراسم پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر میرے بچے ہوگئے ہیں تو اب مجھے دودھ بیچنے والے سے لے کر ڈاکٹر تک اور ڈاکٹر سے لے کر پرنسپل تک معاشرے کے اُن تمام کرداروں سے ناگزیر واسطہ پڑچکاہے جو اگر میں کنوارا ہوتا تو کبھی میرے تعلقات کی فہرست میں نہ ہوتے۔ اگر میں بزنس کرتاہوں تو بے شمار کلائیٹس میرے لیے ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ میں اُن کے گھر تحفے بھیجنے سے بھی باز نہیں آتا کیونکہ میں نہیں چاہتا وہ مجھے چھوڑ کر میرے کسی مدمقابل کے پاس جائیں۔ اگر میں ملازم ہوں تو میرے جُونیئرز سے لے کر افسران تک سب کے ساتھ میری کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوگئی ہے۔

    جُوں جُوں میں معاشرے کے گہرے تانے بانے میں خود کو ایک دھاگے کی طرح بُنتا چلا جاؤنگا میرے لیے دیانتداری مشکل سے مشکل ترین ہوتی چلی جائے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جس پر میں نے احسان کیا ہے، اگر سامنے سے آرہا ہو تو میں یہ توقع نہ کروں کہ وہ مجھے انکساری کے ساتھ ملے گا؟

    وہ معاشرے جن کے سکولوں میں بچوں کو اساتذہ کی طرف سے جسمانی تشدد کا سامنا رہتاہے وہاں کی نسلیں جھوٹ کی عادت کے ساتھ بڑی ہوتی ہیں۔ اگر دوچار نسلیں ایسی بڑی ہوجائیں تو اگلی نسلوں میں یہ عادت خودبخود منتقل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ سکول میں مار کے خوف سے بچہ ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتا اور رحم کی اپیل کی جیسی لجاجت کا مظاہرہ کرتاہے۔ چونکہ سکول روزانہ جانا ہوتاہے چنانچہ یہ جھوٹ فطرتِ ثانیہ بننے کے مقام تک ہمارے بچپن سے ہی پہنچ جاتاہے۔ اس پر مستزاد والدین کی سختی اور انکے سامنے بولے گئے جھوٹ ہیں۔ ایسے میں جب جھوٹ جو بددیانتی کی سب سے بری شکل ہے، میری تربیت کا حصہ ہو میں کیونکر توقع کرسکتاہوں کہ میں کبھی دیانتداری کو مستقل بنیادوں پر اختیار کرپاؤں گا؟ اب اس کا حل کیا ہے؟

    ایک حل تو یہ ہے کہ اِن تمام آلائش ِ دنیا کے نزدیک بھی نہ جایا جائے۔ شادی نہ کی جائے۔ مکمل تجرد اختیار کیا جائے۔ اپنی ضروریات محدود کی جائیں اور سُکڑ ، سمٹ کررہتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ خاص طورپر اگر آپ علمی دنیا سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں یا محقق ہیں تو یہ اور بھی ضروری ہوجاتاہے۔

    دوسرا حل یہ ہے کہ آپ اپنا علاج کریں اور قدم قدم پر خوداحتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ دیانتدار انسان بنانے کی تھراپی جاری رکھیں۔
    دونوں طریقے مشکل ہیں لیکن دوسرا ہرلحاظ سے زیادہ بہتر ہے۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں ڈیل کارنیگی ( مارکیٹ مصنف) ۔۔۔ شخصیت کو باوقار بنانے کے گُر بتایا کرتا تھا۔ اس نے کئی کتابیں لکھیں۔ ایک کتاب میں اُس نے جھوٹ چھوڑنے کا بڑا ہی قابل ِ عمل طریقہ لکھا، وہ یہ کہ، کسی کو بتائے بغیر ایک ٹائم مقرر کرلیں۔ مثلاً شام نو بجے سے دس بجے تک کا وقت مقرر کرلیں اور خود سے وعدہ کرلیں کہ آئندہ اس دوارنیے میں ، مَیں جھوٹ بالکل نہیں بولونگا۔ اگر اس گھنٹے میں آپ کا کوئی دوست آپ سے ایسا سوال کردیتاہے جس کا جواب سچ میں دیتے ہوئے آپ ہچکچاتے ہیں تو خاموش رہیں لیکن اپنی قسم نہ توڑیں اور گھنٹہ پورا ہونے پر جھوٹ بول دیں۔ لیکن اُس گھنٹے میں نہ بولیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک ایک منٹ کرکے اُس دورانیے کو ہرروز بڑھانا شروع کردیں۔ ایک منٹ بہت معمولی وقت ہے ، اس لیے آپ کو محسوس بھی نہ ہوگا اور آپ ایک وقت آئے گا کہ یکسر بدل چکے ہونگے۔ آپ کبھی جھوٹ نہ بولتے ہوں گے۔

    لیکن ان تمام طریقوں سے بدرجہابہتر ہے خود کو سچ اور دیانتداری کے فوائد کا اِس درجہ قائل کرنا کہ یقینِ قلبی پیدا ہوجائے۔ مثال کے طور پر ایک گوالا بالکل ملاوٹ نہیں کرتا تو وہ بظاہر دوسرے گوالوں کی نسبت گھاٹے کا سودا کررہا ہے لیکن اگر وہ صبر کے ساتھ ایسا ہی کرتا رہتاہے تو آہستہ آہستہ اُس کے دُودھ کی شہرت دُور دُور تک پھیلنے لگ جاتی ہے۔ اسے زیادہ دُودھ لانا پڑیگا اور اب وہ زیادہ بڑا کاروباری بن جائیگا۔ یعنی بالکل اِس حد تک یعنی خالصتاً دنیاوی فوائد ہوتے ہیں بشرطیکہ سچ کو فی والواقعہ سچ ہی کے طور پر بولا جائے ۔ مولاعلیؓ کا قول کتنا صادق ہے کہ ’بدترین ہے وہ جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہو‘۔ یعنی عام جھوٹ تو بدتر ہیں لیکن ایسا جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہو بدترین ہے۔ اور ہم یہ بدترین جھوٹ زندگی کے ہر معاملے میں بولتے ہیں۔ کاروبار سے لے کر تعلیم تک، ہرجگہ، ہروقت ہم یہی ایسے ہی جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں جن میں تھوڑا سا سچ شامل ہوتاہے۔ ’’جناب بالکل بالکل، میں آپ کو پہچان گیاہوں۔ آپ شکیل صاحب کے گاؤں کے ہیں نا؟ شکیل صاحب! اپنے مہربان ہیں۔ جب بھی ہمارے شہر آنا ہو تو ہمارے ہاں ہی قیام کرتے ہیں۔ آپ سے یہ کام تھا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سچ صرف اتنا ہوسکتاہے کہ ممکن ہے شکیل صاحب زندگی میں ایک آدھ رات کسی اور کے ساتھ اس شخص کے گھر ایک رات چند گھنٹے رکے ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور باقی سارا جھوٹ ہوسکتاہے۔ اور بدترین اس لیے ہوتاہے ایسا جھوٹ کہ ہمیشہ اِس کے نتائج میں مخلوق ِ خدا کا لازمی طور پر نقصان ہوتاہے۔ اس کے برعکس دوسرا یعنی عام جھوٹ بعض اوقات بے ضرر بھی ہوسکتاہے اور بعض اوقات مفید بھی جسے دروغ ِ مصلحت آمیز کہا جاتاہے لیکن وہ جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہے اور جو ہماری روز مرہ زندگی کا خاصہ ہے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک بھی ہوتاہے اور ہم خود کو جھوٹا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ ہم نے ’’کب جھوٹ بولا۔ سچ ہی تو بتایا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے اپنے پاس عذر اور جواز ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں گلٹی جیسے احساس سے بھی محفوظ رکھتاہے اور تربیت ِ باطنی کے بچے کچھے چانسز بھی جاتے رہتے ہیں۔ اِسی جھوٹ کو بددیانتی کہتے ہیں۔

    حسن ِ عمل کا تعلق تقریر اور تحریر سے قطعاً نہیں ہے۔ کل ایک دوست میری اس بات پر پریشان ہورہے تھے کہ میں نے یوں کیوں کہہ دیا کہ ’’عمل کبھی فلسفہ کا موضوع نہیں رہا‘‘۔ میں اصل میں ان کو اپنا مدعا سمجھا ہی نہیں پایا۔ غلطی میری اپنی ہے۔ عمل ضرور فلسفہ کا موضوع رہا ہے۔ لیکن جو میں نے کہنا چاہتاہوں وہ بالکل اور بات ہے۔ میں مثال سے سمجھاتاہوں۔ اب انقلاب تو فرانس میں بھی آیاہے اور روس میں بھی۔ ان انقلابوں کے پیچھے فلسفی ہیں۔ مثلاً روس کے انقلاب کے پیچھے مارکس جیسا فلسفی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مارکس کے نظریات و افکار کی وجہ سے روس میں انقلاب آیا۔ رائٹ؟

    اس کے برعکس سارے تاریخ دان انقلاب، تو ’’فتح مکہ‘‘ کو بھی کہتے ہیں۔ کیا وہ انقلاب بھی ایسا ہی تھا؟ یعنی جیسا مارکس کے نظریات کی وجہ سے روس میں آیا؟
    ویسا ہی انقلاب تھا وہ جو رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے مکہ میں آیا؟
    کیا فتح مکہ والا انقلاب رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے فقط نظریات و عقائد اور خیالات و افکار کی ترویج و تبلیغ کی وجہ سے آیا؟
    ذرا غور کریں گے تو محسوس ہوگا کہ وہ انقلاب اس وقت آیا جب پوری کی پوری شخصیتیں بدلتیں چکی تھیں۔ ایک شخص جو دس سال پہلے کوئی قاتل، چور، اچکا، بددیانت تھا۔ اب وہ امن کا علمبردار، محافظ، مددگار اور امانت دار بن چکا تھا۔ اس عملی تبدیلی نے اس کی شخصیت کو اندر سے ہی بدل دیا تھا۔ وہ محض انقلابی تقریریں سن کر منقلب نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک پراسیس سے گزرا تھا۔ اور اس پراسیس کا تعلق چونکہ یقین ِ قلبی کے ساتھ ہے دماغ کے ساتھ ہے ہی نہیں سو یہ فلسفے کا موضوع اُصولاً بن ہی نہیں سکتا۔ اور یہ تھا میرا مدعا کہ عمل فلسفے کا موضوع نہیں بن سکتا۔

    میرا تو یہ بھی ماننا ہے کہ فلسفہ کا وجود عمل سے اخذ ہوا ہے۔ نیکی پہلے آئی ہے اور فلسفہ بعد میں۔ اور ایک چیز جو خود منبع و ماخذ ہے وہ اپنے بطن سے نمودار ہونے والے دریا کا مشاہدہ کربھی کیسے سکتی ہے؟ ایک زمانہ جانتاہے کہ نیکی اور برائی دونوں کے اثرات چہرے پر دکھائی دیتے ہیں۔ سالہاسال کی حرکتیں شکلوں کو بھی ویسا ہی بنا دیتی ہیں۔ نیکی سے چہرے پر ایک خاص قسم وقار کیوں پیدا ہوجاتا ہے؟ صاحب ِ کردار لوگوں کی آنکھوں میں ایک الگ قسم کی کشش کیوں پیدا ہوجاتی ہے۔ دِل ان کی طرف کیوں کھنچتاہے۔ ظاہر ہے یہ سوال تو آسان ہیں اور ان کے جوابات بھی آسان ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی جتنے عرصہ میں نمودار ہوئی اس عرصہ میں کیا ایسا ہوتا رہا کہ جسم بدل گیا۔ آنکھیں بدل گئیں۔ ہارمونز بدل گئے؟ سچ کا اور ہارمونز کا کیا تعلق ہے آپس میں؟
    اسی لیے اقبال نے کہا ہے کہ
    راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز
    جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز

  • نظام کی تبدیلی مگر کیسے؟ شاہد اقبال خان

    نظام کی تبدیلی مگر کیسے؟ شاہد اقبال خان

    جب کسی ملک میں کرپشن کو اخلاقی سند مل جائے، انصاف چند طاقتوروں کی باندی بن جائے، دولت کی گردش امیروں کے گھر سے امیروں کے گھر تک چکر کاٹتی رہے، لوگ ہجرت پر مجبور ہوں تو یہ نظام کی مجموعی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔ ایسے میں نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی کہیں یا بداعمالی، پاکستان بھی اسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کیسے ممکن ہو؟

    اس کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں نظام کو سمجھنا پڑے گا۔ کسی بھی ملک کے تمام اداروں جیسے کہ سکول، کالجز، یونیورسٹیز، ہسپتال، پولیس، عدالتیں، ریونیو، کسٹم، پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل اور ایسے تمام اداروں کے مجموعی ڈھانچے یا فریم ورک اور ان کے طریق کار کو مجموعی طور پر نظام کہتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کا براہ راست مطلب سیاسی، انتظامی اور معاشی نظام کی تبدیلی ہوتا ہے۔ اس نظام کی تبدیلی کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے ہمیں کارپوریٹ سیکٹر کے تبدیلی کے نظام کو سمجھنا پڑے گا اور اسے ملکی نظام کی تبدیلی کے طریقہ کار سے جوڑنا پڑے گا۔

    کارپوریٹ سیکٹر میں تبدیلی کے دو طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ پہلی اپروچ کو ٹاپ ٹو باٹم (Top to bottom) اپروچ کہتے ہیں۔ اس کے مطابق کسی بھی نظام کو بدلنے کے لیے ہمیں اس کمپنی کے سربراہ یا سی ای او کو بدلنا پڑتا ہے۔ نیا سربراہ ایک الگ سوچ اور وژن کے ساتھ آتا ہے۔ وہ سب سے پہلے کمپنی کے میمورینڈم میں تبدیلی کرتا ہے جس سے کمپنی کے بنیادی قوانین میں تبدیلی آتی ہے۔ وہ کمپنی کے لیے ایک منفرد پالیسی لے کر آتا ہے۔ وہ ان تمام مینیجرز کو بھی اپنے عہدوں سے ہٹا دیتا ہے جو ایماندار نہ ہوں یا کمپنی کی اس پالیسی کی خلاف مزاحمت کریں۔ یہ سی ای او اور تمام مینیجرز پالیسی اور وژن کے مطابق کام شروع کرتے ہیں اور کچھ سالوں میں پوری کمپنی کا نظام بدل جاتا ہے۔ سٹیو جابز نے ایپل کو اسی طریقے سے دوبارہ سے کامیابی کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا تھا۔ ایسے ہی کسی ملک کے نظام میں تبدیلی کے لیے ایک نیا حکمران ایک الگ سوچ اور الگ وژن کے ساتھ حکومت میں آ کر قانون میں کچھ ضروری تبدیلیاں کرے، اپنی کابینہ میں قابل اور ایماندار لوگ لائے اور تمام اداروں کے سربراہ ایماندار، قابل اور پروفیشنل لوگوں کو لگائے تو کچھ سالوں میں پورا نظام خودبخود بدل جائے گا۔ مہاتیر محمد اس کی بہت عمدہ مثال ہے۔

    تبدیلی کی دوسری اپروچ باٹم ٹو ٹاپ (Bottom to top) اپروچ ہے۔ اس کے مطابق کمپنی میں نچلے لیول پر موجود ملازمین اور یونینز کے لیڈرز کمپنی میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرکے تمام ملازمین کو ان خامیوں کے بارے میں آگہی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ نہ تو خود اس فرسودہ نظام پر عمل کریں اور نہ ہی کمپنی کے مالکان کو اس پر عمل کرنے دیں۔ اس سلسلے میں احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے کمپنی کے کرتا دھرتا کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ناانصافی کا نظام تبدیل کریں۔ کمیونسٹ تحریک اس کی تاریخی مثال ہے۔ اس اپروچ کو ملکی نظام سے اس طرح سے جوڈا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کو ان کے حقوق، ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور نظام کی خرابیوں کے بارے میں آگہی فراہم کریں اور انہیں اس بات پر قائل کریں کہ وہ اس نظام کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر کے حکومت سے نظام کی تبدیلی ممکن بنائیں۔ انقلاب فرانس اور نیلسن منڈیلا کی تحریک اس کی شاندار مثالیں ہیں۔

    ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بطور رہنما ان دونوں طریقوں کو وقت کی مناسبت سے استعمال کیا۔ انہوں نے عرب کے لوگوں کو جہالت کی تاریکی سے اٹھا کر انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کیا اور ان کے حقوق کے لیے ہر سطح پر اور ہر طریقے سے نہ صرف تحریک چلائی بلکہ جنگ بھی لڑی اور جب برسراقتدار آئے تو اپنے اور صحابہ کرام کے بہترین کردار کے ذریعے حکومتی نظام کو بدل ڈالا۔ ہمیں اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.

  • عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں – نوشین صدیقی

    عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں – نوشین صدیقی

    نوجوان کسی بھی قوم کا بہترین سرمایہ ہوتے ہیں۔ فطرت انسانی میں ودیعت کردہ سچائی ہے کہ انسانی زندگی کی بہار عمرِ جوانی میں مضمر ہے۔ نوجوان دراصل آگ ہیں۔ دھیرے دھیرے پھیلتے ہیں، بامِ عروج پر جا پہنچیں تو ہاتھوں کو جلا دیتے ہیں، اور ان کے ایندھن کی بنیاد پر استوار عمارت شعلے کے بجھنے کے بعد بھی چنگاری رکھتی ہے اور خود پر نگاہ غلط ڈالنے والے کو جلا کر بھسم کر دینے کی صلاحیت بھی۔ یہ بات صحیح ہے کہ شمع جب تک خود نہ جلے اجالا نہیں ہوتا، پھول جب تک شاخ سے جدا نہ ہولے گلے کا ہار نہیں بنتا اور نوجوان جب تک اپنا خون نہ بہائے قوم سرخرو نہیں ہو سکتی، اگر قوم کے نوجوان ہونہار و بے باک فرزندان کی طرح سنجیدہ کوششوں سے گریز نہ کرتے ہوئے، قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح نہ دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں تو تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے اور اگر نوجوان عیش پرستی، بے راہ روی، گمراہی اور ثقافت کی بغاوت کے علمبردار بن جائیں تو غلامی کی طویل زنجیریں ان کے گلے کا طوق بن جائیں اور غلامی اس قوم کا پیڑ جس کے آنگن میں ایسے بے حس نوجوان پلتے ہوں۔

    تاریخ گواہ ہے کہ نوجوان جس کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں، اگر ان کی رگوں میں کوئی جذبہ خون بن کر دوڑتا ہے تو ان کی فولادی فطرت اس جذبے کو اپنے لہو سے رنگ حقیقت میں ڈھال کر دم لیتی ہے۔ نبی ﷺ کی اطاعت کرنے والے سابقون الاولون بیشتر نوجوان ہی تھے۔ حضرت علی نے جوانی میں اپنی بہادری کے قصوں کے سبب آفاق گیر شہرت پائی۔ حضرت یوسف تن تنہا، بے سروسامان، اجنبی ملک میں غلام بنا کر بیچ دیے گئے۔ جب قید خانے میں ڈالےگئے تو 17 برس کے تھے۔ بعد میں اپنے اعلی اخلاق، حقیقی اسلامی سیرت اور حکمت کی بدولت مصر کے حکمران بنائے گئے۔ اصحاب کہف بھی نوجوان تھے۔ سکندر اعظم جب یونان کا بادشاہ بنا تو اس کی عمر بھی 17 سال تھی۔ سترہ سالہ اسامہ بن زید کو نبی ﷺ نے شام کی سرحد پر سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید کو ان کی جرات کے سبب سیف اللہ کا لقب ملا۔ محمد بن قاسم کی سترہ سالہ قیادت نے سندھ میں پہلی دفعہ اسلام کے دروازے وا کیے۔ سرسیّد احمد خان، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کی جو ان مثلث نے برصغیر کا جغرافیہ بدل دیا۔

    اقبال کی شاعری نے شاہین کی دریافت کی، محمد علی کو جناح بنادیا۔ طارق نے ساحل اندلس پر کشتیاں جلا کر فتوحات کیں۔ راشد منہاس نے اپنی جان قربان کر کے قوم کو سربلند کر دکھایا۔ کئی غیرت مند نوجوانوں نے ناموس رسالت پر قربان ہو کر اسلام کی لاج رکھ لی۔ خود اس وقت مغرب میں عموماً نوجوان ہی اسلام قبول کر رہے ہیں، مثلاً مریم جمیلہ نے 1962میں، ڈاکٹر بلال فلپس نے 1971ء میں، یوسف اسلام (سابقہ نام Cat Steven) اور امام زید شاکر نے 1977ء میں اسلام قبول کیا۔ ان سب کی عمریں 17 سے 21 سال کے درمیان تھیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم کے نوجوان صالح ہوں اور وہ اپنے نصب العین میں سنجیدہ ہوں تو وہ بنی نوع انسان کے لئے بھی خیر و بھلائی کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں عالم کفر کی نسبت نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ یہ نوجوان امت مسلمہ کا بہت بڑا اثاثہ ہیں۔جب کسی قوم کے نوجوان بیدار ہوں تو اسے دنیا کی کوئی قوم شکست نہیں دے سکتی۔

    ماضی میں کی جانے والی یہ انفرادی کاوشیں، کامیابیاں اور قربانیاں حال میں بھی اجتماعی فخر کا باعث ہیں، اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ ایک چراغ سے ہزار چراغ جلتے ہیں۔ قطرے مل کر دریا بناتے ہیں اور دریائی انقلاب روایتی ہتھکنڈوں کو غیر مؤثر ثابت کر دیتے ہیں، انقلاب نوجوانوں کا شاخسانہ ہیں اور روحِ امم کی حیات کشمکش انقلاب نحیف ضعیف افراد کے لہو سے آہ و فغاں اور سسکیاں و آہیں ہی بلند ہوتی ہیں جبکہ نوجوان شہید کہلاتے ہیں اور نوجوانوں کے لہو کے متعلق ایک شاعر نے کیا ک خوب کہا ہے کہ
    شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
    لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰة ہے

    چین کے نوجوان جب تک منظم نصب العین کی طرف گامزن نہ تھے آبادی کا ریلا کہلاتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں والوں کی اس دنیا میں کوئی اہمیت نہ تھی مگر آج جب ان چھوٹی آنکھوں کے پیچھے پیچھے مارٹن لوتھر کے وضع کردہ تخیل تک رسائی ہو چکی ہے۔ دنیا کے ہر ملک نے چین کی حیثیت مان لی ہے۔ بقول شاعر

    قوم کی حالت کو بدلنے کے لیے تعمیر کی طرف مائل کرنے کے لیے نوجوانوں کو بے حسی، نفسا نفسی اور خود غرضی کے لبادے تلے چھپے دل کو اولاً مشقت اور سفر کی طرف مائل کرنا ہو گا اور سفر کے لیے راہ چاہیے، راہ کے لیے چراغ چاہیے، چراغ کے لیے روشنی چاہیے، روشنی کے لیے جگنو چاہیے، جگنو کے لیے درد کا مارا چاہیے، درد کا مارا ہونے کے لیے درد چاہیے، درد کے لیے فکر چاہیے، فکر کرنے کے لیے سوچ چاہیے، سوچ کے لیے عمل چاہیے کیونکہ بغیر عمل کے سوچ وہ راستہ ہے جس کی کوئی منزل نہیں اور عمل کرنے کے لیے نوجوان کی اشد ضرورت ہے۔ قوم کی تعمیر کے لیے نوجوانوں کو نظریاتی اختلافات کو پسِ پشت ڈالنا ہوگا، باہمی داخلی رنجشوں کا خاتمہ کرناہوگا، بیرونی مداخلت پر آواز اٹھانے کے لیے وحدت و یگانگت کی اہمیت سے پہلو تہی کرنے کی عادت کو ترک کرنا ہوگا۔ شخصی ذاتی انفرادی اصلاح کا بیڑا اٹھانا ہوگا۔ زمین وزر کو کل نہیں بلکہ جز جاننا ہوگا۔ مرکز واحد پر مرتکز کرنا ہوگا۔ جہالت کی مخالفت کر کے علم کو عام کرنے کی سعی کرنی ہو گی۔ اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم اکیلے کچھ بھی نہیں، ہماری پہچان کوئی بھی نہیں، قوم ہے تو ہم ہیں. ہماری پہچان ہے۔ درخشاں مستقبل کی بنیاد حال میں کیے گئے عوام کے فیصلوں پر منحصر ہوگی۔ کل کو سنوارنے کے لیے آج کو بہتر بنانا ہے۔ کھیل کا میدان ہو یا صحافت کا شعبہ، سیاسی منڈی ہو یا علمی معرکے، نوجوانوں کی شمولیت کی اشد ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو اگر قوم کی اکائی کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ جہاں کچھ نوجوان بےحسی کا لبادہ اوڑھے قوموں کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں، وہیں قوم کی اساس اور طاقت نوجوان ہی ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت کا مسئلہ ہو یا ملک کے داخلی حالات اگر نوجوان ان پر سیر حاصل معلومات رکھتے ہوں تو مسائل بنیاد سے ہی قابل حل لگنے لگیں۔

    اگر نوجوانوں کی دلچسپی کا مرکز قومی مسائل کو بنا دیا جائے تو قومی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے با آسانی چھوٹے بڑے معاملات سے نمٹ لیا جائے۔ اگر نوجوان ایسے ہی دلچسپی پرامن معاشرے کے قیام کے لیے دکھائیں تو کوئی اس ملک کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ معاملہ بھی خود میں وسعت رکھتا ہے کہ عصرِ حاضر میں صرف جذبات اور جوش کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے دانشمندی اور ہوش سے کام لینا ہوگا۔ مثلاً مسلمانوں کے بھیس میں کسی کو دہشت گردی کرتے دیکھ کر مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھ لینا کم عقلی ہے جبکہ مسلمانوں اور ان منافقین کے مابین فرق کو سمجھنا عقلمندی ہے۔ احتجاج برائے احتجاج اور تنقید جیسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ معاملے کی تہہ میں جائے بغیر صرف سنی سنائی پر یقین کرنے سے گریز کرنا ہوگا، ذاتی معاملات کو وجہ اختلاف بنا کر کسی قومی شخصیت کے بخیے ادھیڑنے سے اجتناب کرنا ہوگا کیونکہ ایک اونٹ کا مالک بھی اس کے دام خود بڑھاتا ہے جبکہ قومی شخصیت تو دنیا کے سامنے ہم سب کی عکاسی کرتی ہے۔ حکمرانوں پر تنقید کرتے وقت یہ بات مدِنظر رکھنا ہوگی کہ انہیں حکومت کے لیے ہم نے چنا ہے۔ غصے کا اظہار توڑ پھوڑ کی شکل میں کرنے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ اس طرح ہم اپنی ہی چیزوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو غصے کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔ تحمل کے فقدان کے سبب کوئی بھی کسی دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں۔ کوئی مر رہا ہو اور ”ایک بوند پانی ایک بوند پانی“ چیخ رہا ہو تب بھی کوئی نظر اس پر کرم نہ کرے گا. ماؤں کے بیٹے ہنستے کھیلتے گھروں سے جاتے ہیں اور واپسی کفن میں لپیٹے ہوئے وجودوں کی ہوتی ہے۔
    درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
    اک دل انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں

    وہ دور گزر گیا کہ آنکھیں کبوتر کی طرح بند کر لی جائیں. آپ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ایک کا بہادرانہ عمل صدیوں بعد بھی قابلِ تقلید رہےگا اور ایک کی بزدلانہ روش کے لیے پوری قوم کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریباں میں جھانکنا ہوگا، اس بات کو ماننا ہوگا کہ کوئی ہمارے اختیار میں نہیں مگر ہم تو اپنے اختیار میں ہیں نا! لہذا ہمیں اپنے نفس کو اس راہ کا پیروکار بنانا ہو گا جس کی منزل ہماری قوم کی ترقی ہو۔ اپنی جانوں کے نذرانے کو اپنے ملک کے لیے ارزاں سمجھناہوگا۔ اپنے شعبوں کو ذریعہ کمائی سمجھنے کے بجائے عین عبادت سمجھناہوگا۔ لسانی اختلافات کو زبانی جھگڑوں کی شکل دے کر غیروں کو انگلی اٹھانے سے باز رکھناہوگا۔ فطرت کے عین تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کی بہار یعنی نوجوانی میں ایسا کردار وضع کرنا ہوگا جس کی آنے والی نسلیں پیروی کر سکیں. وہ گفتار کا انداز اپنانا ہوگا جو قابلِ تقلید ہو. موت کا وہ طریقہ اپنانا ہوگا جس پر عالم رشک کریں اور آنے والے لوگ معمار قوم کی فہرست میں ہمارا نام بھی جلی حروف میں لکھیں۔ اگر نوجوانوں کے جدت پسند مغربانہ شکنجے میں پھنسے دماغوں میں یہ سوچ سرایت کرجائے تو یہ نا ممکن نہیں کہ قوم تعمیر کی وہ آفاق گیر سرحد پار کر لے کہ دیگر اقوام عالم اس پر رشک کریں اور تقلید کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہیں. دوسرے لوگوں کے لیے خود کو مشعل راہ بنانے کے لیے ہمیں مہذبانہ رویے کو اپنانا ہوگا، نئی نسل کے کچے ذہن پر اچھی تربیت کے پکے نقوش چھوڑنے ہوں گے اور خاموش انقلاب کا بیڑا اٹھانا ہوگا۔ اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ مہنگائی یا وسائل کا فقدان بلاشبہ جھنجھٹ کا سبب بنتا ہے مگر آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی کو سمجھنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہم کاٹھ کے الو بن کر ہر غیر ضروری چیز کو خود پر برداشت کریں، اس کے برعکس ہمیں مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں کرنی ہوں گی۔ بیرونی دباؤ کا خاتمہ معاشرے میں امن کے قیام کے لیے بہت ضروری ہے. تعلیم کو صرف ذہنی نشوونما کے لیے محدود کر دینا درست نہیں بلکہ اس سے ہماری ظاہری حالت و فعل میں بھی تبدیلی آنی چاہیے. حسد و کینہ کے نقصانات سے آگاہی کے لیے نوجوانوں کی سطح پر سیمینار منعقد کروانے چاہیے. کسی کے اچھے عمل سے خائف ہو کر اس کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے اسے بڑھاوا دینا چاہیے۔ اخلاقی قدروں کو خصوصی اہمیت دی جانی چاہیے۔ اگر ان سب اقدامات کو مدِ نظر رکھ کر ہر شخص ذاتی تربیت کر لے تو قوم کی پرامن اور مثبت تعمیر میں کوئی بھی چیز مانع نہ ہوگی۔

  • یہ جمہوریت کس بلاکانام ہے؟سمیع اللہ ملک

    یہ جمہوریت کس بلاکانام ہے؟سمیع اللہ ملک

    sami ullah malik

    سبزعینک لگاکر دیکھنے سے سبزۂ گل نہیں اگتے،خوش حالی پکارنے سے خوشحالی نہیں آتی، ”نظام بدل دیں گے” کانعرہ لگانے سے کب بدلا ہے نظام!”روٹی’کپڑا اورمکان دیں گے” اچھاہے یہ نعرہ،لیکن بے جان لفظ ہیں یہ سب، جب تک فراہم نہیں ہوجاتے۔ انصاف، انصاف کی گردان بے اثررہتی ہے ۔جب عدالتوں میں انصاف نہ ملے یاملنے میں اس قدرتاخیرہوجائے کہ مدعی خاک ہوجائیں تو حقوق انسانی کتابوں میںد رج رہ جاتے ہیں ،چاہے آبِ زر سے لکھے ہوئے ہوں اورانسان خاک بسرہوں۔ خواب،خواب رہتاہے جب تک تعبیرنہ پائے۔ خواہش،تمناہی رہتی ہے جب تک آسودہ نہ ہوجائے۔ الفاظ کی بازی گری’تقریروں کاسرکس اور اچھلتے کودتے مسخرے،بس جی بہلانے کے لئے تواچھاہے لیکن جی کے بہلنے سے کب بدلاہے کچھ۔ چلتے پھرتے مسخروں کی اچھل کود کودیکھئے اورجی بہلائیے۔

    اتنے سارے مائیک دیکھتے ہی غبارے کی طرح پھول کرکپاہوجاتے ہیں اورپھر دیکھتے اوردیکھتے چلے جائیے۔ جناب لوگوں کوروٹی چاہئے،گزربسرکیلئے روزگاردرکارہے،انصاف چاہئے، روٹی کپڑامکان چاہئے، بدل دیں گے ہم نظام، کٹ مریں گے ہم اپنے عوام پر،پہاڑچھید کر دودھ کی نہریں نکالیں گے،اپنے خون سے سینچ دیں گے یہ گلشن۔،”اگراقتدارمیں آکرپہلے چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ کاخاتمہ نہ کیاتومیرانام بدل دینا”وغیرہ وغیرہ لیکن اپنے نام کی تختیاں توہرروزنصب ہورہی ہیں لیکن ترجیحات بالکل ہی تبدیل ہوگئی ہیں۔عوام کے ساتھ ساتھ ہم بھی سردھنتے رہتے ہیں۔ واہ،واہ… جیوے بھئی جیوے۔ کوئی سرپھراسوال کربیٹھے کہ جناب ایسے کیسے بدلے گا نظام،کیا خالی خولی لفظوںسے پیٹ بھریں گے؟توپھر رعونت سے تنی گردن ذرا سی خم ہوتی ہے:”جناب آپ دیکھتے جائیں” یہی تودیکھ رہے ہیں۔عوام جودل میں سوچ رہے ہوں قیادت اسے بھانپ لیتی ہے اور اس کانہ صرف اظہارکرتی ہے بلکہ خودکواس کانمونہ بناکرپیش بھی کرتی ہے۔اوریہ جواقبال بابے نے میرِ کاررواں کے لئے شرائط بتائی ہیں:

    نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
    یہی ہے رختِ سفر میرِ کاررواں کے لئے

    کوئی آپ کوایسانظرآتاہے؟عوام کیاچاہتے ہیں اوروہ پکار پکار کر تھک گئے ہیں۔ چیخ چیخ کران کے گلے بیٹھ گئے ہیںلیکن کون سن رہاہے،ان کے دل کی پکار!بس اپنی کہے چلے جاتے ہیں۔ انہیں سامنے کی چیزنظرنہیں آتی۔ہم ان سے بصیرت اور فراست کے طلبگارہیں۔اندھوں سے بلندنگاہی کے طلبگار…سخن دلنواز تو تب ہوجب آپ میں اخلاص کا دریا بہہ رہاہو۔ جاں پرسوز کو رہنے دیجئے،یہ توبہت مقامِ بلند ہے،بہت کٹھن ہے… سوز تودل کا جوہرہے،یہاں دل ہی نہیں توجوہرکی تلاش کے کیامعنی! یہ سوہنی دھرتی جہاں بچے گٹروں میں گرکرمرجاتے ہیں اور مزدور ایڑیاں رگڑرگڑ کر،جہاں خودکشیاں دکھوں کامداوا بن جائیں،خاک بسراپنے لختِ جگر کے گلے میں برائے فروخت کا بورڈ لٹکائے سڑک پرکھڑے ہوں،جہاں بیمار ہسپتالوں میں دم توڑرہے ہیں،جہاں زندہ لوگوں کومردہ خانے میں رکھ دیاجائے،جہاں جعلی ادویات کے بیوپاری انسانوں کوموت کے گھاٹ اتار رہے ہوں،

    نوجوان سڑک چھاپ رہے ہوں،جہاں مظلوم قید اور ظالم آزاد ہوں، جہاں دین کوبھی تجارت بنالیاگیاہو،جہاں پرظلم کے نظام کی حکمرانی ہو اور وحشت رقص کناں، جہاں دانشوری اپنے محلات میں محوآسائش وآرام ہو اورآنکھ کھلتے ہی انقلاب، انقلاب پکارنے لگے۔ ایسے خوش فہمی کے موسم میں ہم جی رہے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں انقلاب کے ساز ہیں اور ہم انہیں بجا رہے ہیں۔ہمارے ہاتھ تالیاں پیٹ پیٹ کرلہولہان ہوگئے ہیں۔ہمارے خواب روٹھ گئے ہیں۔اب ہمیں چاندبھی روٹی نظر آتا ہے۔ مہنگائی نے جینادوبھرکردیاہے ،آٹا’بجلی ‘پانی ہمارا وظیفۂ جاں ہے۔ ایسے میں جب کوئی اپنی لاکھوں کی گاڑی میں بیٹھ کرہاتھ ہلاکرانقلاب کانعرہ لگائے توہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔کوئی بے روزگارنوجوان وزیراعلیٰ کی گاڑی کے پیچھے جیوے جیوے کانعرہ لگاتے ہوئے دوڑرہاہوتوپولیس کے ہتھے چڑھ کرپٹتاہے اور سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتاہے۔کیایہی ہے انقلاب؟

    جن چہروں کوہم روزانہ ٹی وی اسکرین پرمائیک کے پیچھے سے ارشادفرماتے سنتے ہیں،ایسے چہرے کب انقلاب لائے ہیں!اداکار اچھے ہیں،ہرکردار میں ڈھل جاتے ہیں۔خوب مزے اڑاتے ہیں،ڈیل ڈیل کرکے پاک پوتربن جاتے ہیں اور اشراف کہلاتے ہیں۔ ہم اورآپ سادہ ہیں۔سادہ ہیں یابے وقوف؟سادگی تواچھی خوبی ہے لیکن بے وقوفی ؟چلئے رہنے دیتے ہیں۔ذرا سوچئے تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی،سراب کوپانی سمجھنے والوں نے کب فلاح پائی ہے؟ دھوکا ہی دھوکا ‘فریب…سب کچھ بکاؤ…سب کچھ۔ دنیابھی دین داری بھی۔ وہ جواقتدارکے حصول کیلئے پاکستان میں آزمودہ گھسے پٹے سیاسی چہروں کو ساتھ ملاکرتبدیلی کادن رات نعرہ لگاکرقوم کی نوجوان نسل کونت نئے خواب دکھا کرہلکان ہوئے جارہے ہیں،اپنی جماعت میں انتہائی شریف النفس ایماندارقانون دان ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین صاحب کومحض اس لئے برداشت نہ کرپائے کہ انہوں نے اپنی ہی جماعت کے بدعنوان عناصرکی نشاندہی کی اورمسلسل دوسال سے زائداس کی اصلاح کیلئے انتھک کوشش کرتے رہے بالآخردل برداشتہ ہوکرانہوں نے مستعفی ہوکراس تبدیلی سے اپنی جان چھڑالی جبکہ اس سے قبل کئی دیگرپرانے ساتھی بھی تحریک انصاف میں انصاف مفقودہونے پر جماعت کوداغِ مفارقت دے چکے ہیں۔

    یوں محسوس ہوتاہے کہ جاویدہاشمی کی بغاوت کے بعدنویدخان،اکبرایس بابر،ایڈمرل(ر)جاویداقبال ،حفیظ اللہ نیازی کے بعدسیف اللہ نیازی کابھی پارٹی کوچھوڑجاناپارٹی کی اندرتیزی سے ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کاواضح اشارہ ہے اوریہ بھی شنیدہے کہ اندرونِ خانہ معاملات اس قدر گھمبیرہوچکے ہیں کہ شاہ محمودقریشی بھی ایساکوئی فیصلہ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں جس کے بعدپارٹی کے باقی ماندہ رہنماؤں نے ایک مرتبہ پھرپورے ملک سے اپنے کارکنوں کواکٹھاکرکے جلسے جلوسوں کاسہارالیکر اپنی باقی ماندہ پارٹی کوبچانے کیلئے بھرپورکوششیں شروع کردی ہیں اورموصوف ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے آئے دن اورعوام کے کمزورحافظے سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف شہروں کے نظام کوتلپٹ کرنے کیلئے بڑی دلیری سے دندناتے پھررہے ہیں۔

    اگرآپ اسی میں خوش ہیں توپھر روتے کیوں ہیں؟ہنسیں،کھیلیں،موج اڑائیں۔اسے ہی اگرزندگی کہتے ہیں تو موت کوکیاکہتے ہیں؟عزتِ نفس کیاہوتی ہے؟حقوقِ انسانی کیا ہوتے ہیں؟آزادی کیاہوتی ہے؟خودمختاری کی تعریف کیا ہے اور یہ جمہوریت کس بلاکانام ہے کہ جب بھی حکمرانوں کوان کے انتخابی وعدے یاددلائیں توجمہوریت پرلرزہ طاری ہوجاتاہے۔اب یہ توآپ ہی مجھے بتائیے کہ جمہوریت کی کیاخوبیاں ہیں، میں تو دورجدیدکی نئی لغت سے ناآشنا ہوں۔ویسے بھی پاک چین کوریڈورکی تکمیل اوراب بھارت کے جنگی جنون کے طفیل اگلے دوسال موجودہ جمہوری حکومت کوگزارنے کیلئے کوئی مشکل بھی نہیں……!ایک مرتبہ پھرجمہوریت کے نام پرسیاسی جماعتیں عوام کوتقسیم کرکے ایوانِ اقتدار پرقبضے کیلئے اپنے دانت تیزکرناشروع کردیں گی! کچھ بھی تونہیں رہے گاجناب…بس نام رہے گااللہ کا۔

    دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
    حریمِ کبریا سے آشنا کر
    جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
    اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر

  • عمران خان کا اخلاقی مقدمہ-خورشید ندیم

    عمران خان کا اخلاقی مقدمہ-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    عمران خان حکومت گرانے نکلے ہیں۔ ان کا مقدمہ اخلاقی ہے۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ اس سفرمیں انہیں افراد کے ساتھ بطور زادِ راہ ،اخلاقی برتری کی بھی ضرورت ہے؟

    ان کا تازہ ترین ارشاد،وہی رشتے والا،بتا رہا ہے کہ اخلاقیات کے باب میں ان کا کھیسا خالی ہو چکا ۔ قانون کی عدالت میں ان کا مقدمہ کمزور ہے، آج سے نہیں ہمیشہ سے ہے۔ دھاندلی سے لے کرپاناما تک، کسی عدالت کے سامنے وہ اپنا دعویٰ ثابت نہیںکر سکے۔ اس سے صرفِ نظر کیجیے کہ سیاست میں ایک عدالت عوامی بھی ہوتی ہے۔ اگر آپ عوام کو باور کرا سکیں کہ آپ کا حریف اخلاقی طور پر کم تر ہے تو اس عدالت میں آپ جیت سکتے ہیں۔ زرداری صاحب نے اپنا مقدمہ قانون کی کسی عدالت میں نہیں، عوامی عدالت میں ہارا ہے۔ عمران خان اخلاقی میدان میں اپنا مقدمہ ہار رہے ہیں۔

    مولانا ابوالکلام آزاد نے جب خلافتِ الٰہیہ کے قیام کی جدوجہد کو خیرباد کہا اور کانگرس کے فورم پر قومی سیاست کے لیے متحرک ہوئے تو مولانا مودودی نے لکھا کہ یہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ عمران خان کا اخلاقی زوال میرے نزدیک ہمارے عہد کی سب سے بڑی ٹریجدی ہے۔ قوم کو ایک موقع ملا تھا کہ وہ روایتی سیاست سے خود کو آزاد کرتی۔ اسے عمران خان کی صورت میں ایک متبادل دکھائی دیا تھا۔ ان کی اخلاقی برتری ہی اصل برتری تھی۔ افسوس کہ انہوں نے اسے بے رحمی سے اقتدار کی بے مہار خواہش پر قربان کردیا۔ اخلاقی برتری کا مقدمہ وہ ہار چکے۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا! آدمی اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا فرمان ہے کہ گفتگو کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ عمران خان کی گفتگو ہمارے سامنے ہے۔ انہیں تو اس قوم پر یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ دوسرے راہنماؤں سے زیادہ اخلاقی روایت کا احترام کرنے والے ہیں۔ وہ اب بھی کہتے ہیں: لیڈر کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ ان کا غالی سے غالی معتقد کیا یہ کہہ سکتا ہے کہ عمران خان کا کلام کذب سے پاک ہے؟ وہ بلا تحقیق الزام لگاتے اور پھر دہراتے ہیں۔ توجہ دلانے پر بھی متوجہ نہیں ہوتے۔ہماری روایت میں تو جھوٹ کی تعریف یہی ہے کہ بلا تحقیق بات کی تشہیر کی جائے۔

    پھر اخلاقیات کی جو تعریف انہوں نے معاشرے میں متعارف کرائی ہے، میری روایت اور مذہب اسے بھی قبول نہیں کرتا۔ اخلاقیات محض یہ نہیں ہے کہ کوئی آدمی پیسے روپے کے معاملے میں کرپٹ ہو۔ میرے اخلاقیات کا دائرہ میرے سارے رویے کی تہذیب کرتا ہے۔ وہ میری جبلتوں کو ایک نظم کا پابند کرتا ہے۔میرے اخلاقیات کے نظام کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں کہ بھوک لگے تو سامنے پڑی چیز اُٹھا لوں اور شکم سیری کا سامان کروں۔مجھے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ یہ میری ہے بھی یا نہیں۔میرا اخلاقی نظام گفتگو کے آداب سے لے کر چھوٹے بڑے کی تمیز کو محیط ہے۔اخلاقیات کو محض پیسے ٹکے کے معاملہ تک محدود کرنا مغرب کا درس ہے۔ میری اخلاقی روایت میرے پورے وجود کی تطہیر کا مطالبہ کرتی ہے۔

    اب مالی معاملات پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے!پہلے آف شور کمپنیوں کی بات ہوئی۔معلوم ہوا کہ جناب نے اُس وقت یہ کمپنی بنائی جب پاکستان میں گنے چنے لوگوں کو اس حیلے کاعلم تھا۔پھر جائداد کی تفصیلات کا ذکر ہوا۔عمران خان نے ہمیں بتا یا کہ بنی گالہ کا گھر ان کے لیے جمائما کا تحفہ ہے۔اب جمائما کا بیان حلفی سامنے آگیا ہے کہ گھر عمران ہی کا تھا۔بے نامی میں میرے نام تھا۔اب چونکہ طلاق ہو چکی،اس لیے میں اسے واپس کر رہی ہوں۔اس خستہ اخلاقی پیرہن کو مروجہ سیاست نے خستہ تر کر دیا ہے۔سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔اگر آپ دوسروں کو بے لباس کر نا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ آپ کی کھال ہی آپ کا اپنا لباس ہو۔جب تک کھال قائم رہے،کوئی آپ کو بے لباس نہ کر سکے۔اللہ سب کے ستر کو قائم رکھے۔

    میں جانتا ہوں کہ اس کے جواب میں کیا کہا جا ئے گا:نوازشریف کون سا پارسا ہے؟شریف خاندان کی اخلاقیات کیا ہیں؟عمران خان کے الفاظ دہرائے جائیں گے :چور ،ڈاکو ،کرپٹ وغیرہ وغیرہ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جوابی الزام تراشی ہمیشہ شکست کا اعلان ہوتی ہے۔یہ اس بات کا اظہار ہے اپنے دفاع میں آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔دوسرا یہ کہ فرض کیجیے دوسرے بھی ایسے ہی ہیں تو پھریہ برائیوں میں انتخاب کا معاملہ ہے،مثالی قیادت اور کرپٹ قیادت میں چناؤ نہیں ہے۔تیسرا پہلو ایک اور ہے اور وہ مجھ جیسے لکھنے والوں کے لیے ہے:عمران خان کے خلاف تنقید کرتے وقت تمہاراقلم خوب رواں ہوتا ہے مگر نوازشریف کی بات ہوتی ہے تو لگتا ہے قلم کا رہرو کسی بے ہموار سڑک پر آ نکلا ہے۔مجھ پر اس سوال کا جواب واجب ہے۔

    نوازشریف صاحب کے بارے میں جو سوال بھی اٹھ رہے ہیں، لازم ہے کہ وہ ان کا جواب دیں۔یہ سوال اہم ہے کہ ان کے بچوں کے پاس لندن کے فلیٹس خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟یہ درست ہے کہ پاناما لیکس میں ان کا نام نہیں۔یہ دلیل قانون کی عدالت کے لیے کفایت کرتی ہے لیکن عوام کی عدالت کے لیے کافی نہیں۔کم سن بچوں کی دولت،سب جانتے ہیں کہ والد ہی کی عطا ہے اگر اس کا کوئی دوسرا معلوم ماخذ نہیں ہے۔ نوازشریف صاحب کو لازماً اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ اس کا جواب دے چکے۔قوم کے نام خطاب اور پارلیمنٹ میں،انہوں نے اپنا مؤقف پیش کر دیا۔اب ایک فریق مطمئن نہیں۔اس کا کہنا ہے کہ اس میں سچ کو چھپایا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جب اختلاف ہو جائے،کیا کرنا چاہیے؟

    ہر آدمی اس کا یہ جواب دے گا کہ پھر انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔میں بھی یہی کہتا ہوں۔تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی نے اس کے لیے عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دی۔عدالت نے منگل کو ان درخواستوں کو قابلِ سماعت قرار دے کر حکم دیا ہے کہ یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلا یا جا ئے۔اس کا مطلب ہے کہ ریاستی ادارے کام کر رہے ہیں۔عمران خان کا مقدمہ یہ ہے کہ ادارے غیر فعال ہیں۔یہ نوازشریف کے خریدے ہوئے ہیں۔میں اس موقف کو درست نہیں سمجھتا۔ سماجی اخلاقیات کا شعور یہ کہتا ہے کہ نظم اجتماعی کو باقی رکھنے کے لیے اداروں ہی سے رجوع کر نا چاہیے۔ہم ان کے فیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتے ہیں مگر ہم انہیں بے توقیر نہیں کر سکتے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اب ججوں کا انتخاب حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

    اس معاملے کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق سیاسی ارتقا سے ہے۔ اس قوم کو ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ شریف خاندان اس قوم کو جو دے سکتا تھا،وہ دے چکا۔جو لے سکتا تھا،وہ بھی لے چکا۔اس قوم کو ایک نئے وژن،ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے۔عمران خان متبادل قیادت ہو سکتے تھے۔اس لیے نہیں کہ وہ غلطیوں اور گناہوں سے پاک ہیں،اس لیے کہ وہ روایتی سیاست کا حصہ نہیں تھے۔ان کی اخلاقی بنیادیں نسبتاً مضبوط تھیں۔افسوس کہ انہوں نے اس امتیاز کو ختم کر دیا۔آج وہ سر تا پا روایتی سیاست کا حصہ ہیں۔اگر انتخاب روایتی سیاست دانوں ہی میں کر نا ہے توجھگڑاکس بات کا ؟

    عمران خان نے اخلاقی برتری کو گنوادیا۔یہ شایدہمارے عہد کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔وہ روایتی سیاست کے سفر میں اتنا آگے نکل چکے کہ ان کی پہچانی ہوئی صورت بھی اب پہچانی نہیں جا تی۔جب ساری جد دجہدچہرے بدلنے کی ہے تو پورے ملک کو فساد میں کیوںمبتلاکیا جائے ؟اس کارِ خیر کے لیے 2018ء کا انتظار کیوں نہ کیا جائے۔

  • 2018ء-محمد اظہار الحق

    2018ء-محمد اظہار الحق

    izhar

    کھلا میدان تھا۔ دو سانپ تھے۔ ایک نے دوسرے کی دُم منہ میں دبائی۔ دوسرے نے پہلے کی! دونوں نے ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے کو ہڑپ کر گئے۔ میدان صاف تھا۔

    میدان صاف ہے۔ مسلم لیگ نون کو چیلنج کرنے والی کوئی فیصلہ کن قوت میدان میں نہیں۔ اگر کوئی معجزہ نہ برپا ہؤا۔ اگر الیکشن کے روز آسمان سے پتھر نہ برسے، اگر اُس دن زمین نہ دھنسی، اگر اُس دوپہر کو سورج کے بجائے روشنی بکھیرنے کے لیے چاند نہ مامور کر دیا گیا اور اگر کسی تیز چیخ نے دلوں کا رُخ پھیر نہ دیا تو 2018ء میں بھی مسلم لیگ ہی فتح کا پرچم لہرائے گی۔ شاعر نے کہا تھا؎

    علم اے حُسن! تیری فتح کے لہرا رہے ہیں
    بریدہ سر ہیں عاشق اور واپس آرہے ہیں

    سندھ میں پیپلز پارٹی کی دُم ایم کیو ایم کے منہ میں ہے ۔کراچی، حیدرآباد، سکھر میں سندھ کارڈ نہیں چل سکتا نہ چلے گا۔ رہا اندرون سندھ، تو سید، مخدوم، پیر، جاگیردار جو صدیوں سے حکمران ہیں، 2018ء میں بھی کامیاب ٹھہریں گے۔ جہاں عوام بینائی واپس لانے کے لیے جھروکے سے درشن دینے والی شخصیت کا روئے مبارک دیکھنا کافی سمجھیں وہاں ووٹ دیتے وقت بھی یہی عقل بروئے کار آئے گی۔ مسلم لیگ نون کا چراغ وہاں پہلے جلانہ اب جلے گا۔ ممتاز بھٹو، غوث علی شاہ اور کئی اور سیاسی شخصیات شریف برادران کو خدا حافظ کہہ چکی ہیں۔ یوں بھی تخت لاہور کی جو برانچ اسلام آباد میں قائم ہے، اس کے مخصوص طرزِ عمل سے سندھی وزیر ہمیشہ شاکی ہی رہے۔ کوئی مانے نہ مانے، وفاق کا دارالحکومت لاہور ہے۔ اسلام آباد سیکنڈ کیپیٹل ہے۔ صدر ایوب خان نے ڈھاکہ میں سیکنڈ کیپیٹل بنایا۔ نام اس کا ایوب نگر رکھا۔ سیکنڈ کیپیٹل فرسٹ کیپیٹل بن گیا اور ایوب نگر تاریخ کی مٹی میں مل کر مٹی ہو گیا۔ قبر بنی نہ کتبہ۔ مگر کوئی نہیں جو عبرت پکڑے۔

    پنجاب میں مسلم لیگ نون کی گاڑی میں تحریک انصاف کوئی ڈینٹ نہیں ڈال سکی۔ لاہور کا ضمنی انتخاب ہو یا چیچہ وطنی کا، ذرا سی کسر رہ جاتی ہے اور یہ ذرا سی کسر ہی کسرِ نفسی کا کام دیتی ہے یعنی نفس کو توڑ کر دو ٹکڑے کر دیتی ہے۔ پشاور کے ایک شاعر تھے۔ مرحوم ہو چکے۔ اچھا کہتے تھے۔ پڑھتے اس سے بھی زیادہ اچھے تھے مگر آشنایانِ فن ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے! پنجاب سے بالعموم اور وسطی پنجاب سے بالخصوص مسلم لیگ نون اکثریت حاصل کرے گی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں اور سب ٹھوس ہیں۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد وسطی پنجاب کا دل ہیں۔ یہ دل شریف برادران کی مٹھی میں ہے۔ تاجروں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان کے لیے شریف برادران کے دل میں نرم گوشہ ہے۔ ٹیکس سے لے کر شاہراہوں تک، ایف بی آر سے لے کر وزارتِ تجارت تک، ہر جگہ انہیں فوائد پہنچائے گئے ہیں۔

    تین عشروں سے زیادہ عرصہ ہو چکا کہ پنجاب پر شریف برادران کا غلبہ ہے۔ غبی سے غبی شخص کے لیے بھی یہ عرصہ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ وہ ایک ایک ضلع کی سیاسی حرکیات سے واقف ہیں۔ ایک ایک انتخابی حلقے کا نقشہ ان کے دفتر کی میز پر نہیں، ان کے ذہنوں کی میزوں پر پھیلا ہے۔ انہیں معلوم ہے کس حلقے میں کون سی برادری فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ کس کو خریدنا ہے۔ کس سے غفلت برتنی ہے۔ کس کو کس کے مقابلے پر کھڑا کرنا ہے۔ یہ سیاسی حرکیات پست سطح کی ہیں مگر ان کا وجود حقیقت ہے۔ تحریکِ انصاف کے پاس تجربہ نہیں اس لیے علم بھی نہیں۔ یہ وہ علم نہیں جو ایم بی اے سے حاصل ہو۔ یہ وہ علم ہے جس کی تدریس ڈیروں میں، بیٹھکوں میں، چوپالوں میں، حویلیوں میں، ڈرائنگ روموں میں ہوتی ہے۔ اس تدریس میں ڈایا گرام سازش سے بنتے ہیں۔ چاک کرنسی سے بنتے ہیں اور بلیک بورڈ وسیع و عریض جاگیروں سے وجود میں آتے ہیں۔

    اس سے پہلے کہ تحریک انصاف کے مستقبل کا امکانی نقشہ کھینچیں، ایک اور زبنیل کا ذکر ضروری ہے جو مسلم لیگ نون کے پاس ہے۔ سیاست کے دو زرخیز ترین دماغ شریف برادران کے ساتھ ہیں۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن۔ عمران خان کا دھرنا جب خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا تو زرداری صاحب ہی نے دست گیری کی ؎

    دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست
    در پریشان حالی و درماندگی!

    عام حالات میں پیپلز پارٹی لاکھ مسلم لیگ نون کی مخالفت کرے مگر پریشان حالی اور درماندگی میں پیپلز پارٹی ہی مسلم لیگ نون کے کام آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو کیا پڑی ہے کہ حلیفوں کو چھوڑ کر اقتدار ایسی قوت کو لینے دے جو حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے۔ دونوں ایک کشتی میں سوار ہیں۔ دونوں کی مال و دولت جائدادیں محلات کارخانے بیرون ملک ہیں۔ دونوں ایک ایک پارٹی کے مالک ہیں۔ دونوں سیاسی جاگیردار ہیں۔ دونوں کے پاس سیاسی ہاریوں کی فوجیں ہیں۔ خواجہ سعد رفیق ہوں یا خواجہ آصف، خاقان عباسی ہوں یا حنیف عباسی، کائرہ صاحب ہوں یا رضا ربانی یا اعتزاز احسن یا شیری رحمن، سب زرداریوں اور شریفوں کی اولاد کے سامنے دست بستہ ہیں اور تابعِ فرمان! پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن نہیں سکتی اور متبادل بہترین حکومت پیپلز پارٹی کے لیے مسلم لیگ نون ہی کی ہو گی۔
    مولانا فضل الرحمن سے لاکھ اختلافات سہی، کرسیوں اور مراعات پر ان کی عقابی نظریں گڑی ہونے سے بھی کسی کو انکار نہ ہو گا مگر اس کا کیا کیجیے کہ سیاسی مستقبل میں جو کچھ ان کی نظر پہلے دیکھ لیتی ہے، دوسروں کو وہ دیر میں نظر آتی ہے۔ وہ جذبات کو اپنے اوپر حکمرانی نہیں کرنے دیتے۔ سوچتے ہیں ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی دوراندیشی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ شدید مذہبی ہونے کے باوجود وہ ”دفاع پاکستان کونسل‘‘ جیسے پلیٹ فارموں سے دور رہتے ہیں اس لیے کہ انہیں معلوم ہے ایسے پلیٹ فارم بنانے والی قوتیں، عام طور پر، انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتیں اور منظرِ عام پر رہنے کے لیے بیساکھیاں استعمال کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مولانا فضل الرحمن مذہبی بلاک کے اندر بائیں بازو کی نمایندگی کرتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ان کا نام صدام حسین یا قذافی کے ساتھ لیا جاتا رہا مگر مشرق وسطیٰ کے کسی بادشاہ کے ساتھ ان کی نسبت کبھی پڑھنے یا سننے میں نہ آئی۔

    ایک برات لڑکی والوں کے گاؤں روانہ ہو رہی تھی۔ سارے نوجوان تھے۔ کسی نے مشورہ دیا، لڑکو! ساتھ کسی تجربہ کار چٹ داڑھیے کو لے چلو، کیا خبر، تم پر کیا بیتے، جس نے زندگی کی دھوپ چھاؤں چکھی ہو گی کام آئے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک معمر شخص کو بھی ساتھ لے لیا۔ وہی ہؤا جس کی سیانوں نے پیشگوئی کی تھی۔ لڑکی والوں نے شرط رکھی کہ براتی دس سالم پکے ہوئے بکرے کھائیں گے تو لڑکی روانہ کی جائے گی۔ نوجوان براتیوں کے ہوش اڑ گئے۔ بابے کی طرف دیکھا۔ بابا مسکرایا۔ کہنے لگا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جوابی شرط یہ رکھو کہ تمہاری شرط منظور ہے مگر دس بکرے دسترخوان پر ایک ساتھ نہیں آئیں گے۔ ایک ایک رکھا جائے گا اور ایک بکرے اور دوسرے کے درمیان اتنے منٹ کا وقفہ ہو گا۔ ایسا ہی کیا گیا۔ براتی شرط جیت گئے۔ عام مشاہدہ ہے کہ توے سے گرم گرم پھلکے اترتے جائیں تو کھاتے وقت حساب کتاب نہیں رہتا۔ معمول سے بہت زیادہ کھانا کھا لیا جاتا ہے۔ سو، مسلم لیگ نون کے براتیوں پر جب بھی مشکل وقت پڑا، دونوں شاطر دماغ سیاست دان انہیں کسی نہ کسی ترکیب نمبر چھ سے ضرور آگاہ کریں گے۔رہی تحریک انصاف! تو شاید ہی اس حقیقت سے کوئی انکار کرے کہ اس کا گراف گر چکا ہے اور رکنے میں نہیں آ رہا۔ شادیاں کرنا ہر شخص کا انفرادی فعل ہے اور ذاتی معاملہ، مگر عمران خان نے جس طرح اپنے آپ کو تماشا بنایا اور خالص نجی معاملات میڈیا پر پیش ہوئے اس سے ذہنی کچاپن کھُل کر ثابت ہوا۔ یہی رویہ ان کا سیاسی معاملات میں بھی ہے۔ ایک لہر تھی جو گلے گلے آئی مگر پھر اُتر گئی۔ اگست کا اسلام آباد کا دھرنا تحریکِ انصاف کا نصف النہار تھا۔ اگر وہ اس وقت لچک دکھاتے تو یہ عروج برقرار رہتا۔

    ایک بہت بڑا سبب اُن کا گراف گرنے کا ان کے سیاسی حلیف ہیں۔ شیخ الاسلام طاہر القادری اور شیخ رشید! کتنے سنجیدہ لوگ ان دونوں کو ووٹ دیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری صاحب کے پیروکار کثیر تعداد میں ہیں مگر اس جذباتی اور شیخ پرست قوم میں جو بیس بائیس کروڑ کی تعداد میں ہیں، لاکھوں مریدوں کا حصول چنداں مشکل نہیں۔ یہاں تو پیر سپاہی لاکھوں کا مجمع لگا لیتا تھا۔
    عمران خان کی سیاسی ناپختگی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کے حلقے کو فنڈز دیے اور سیاسی فائدہ اُٹھایا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے بھی ایک مدرسہ کو فنڈ دیے اور سیاسی نقصان اُٹھایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس مدرسہ کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ انہیں چیلنج کیا گیا کہ مین سٹریم کی تعریف ہی کر دیکھیں مگر انہیں ان معاملات کا ذرہ بھر ادراک نہیں!
    کاغذ کا دامن تنگ ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو خیبرپختونخوا سے کم نشستیں ملیں گی۔ بہت ہی کم! کیا عجب اگلی حکومت صوبے میں اے این پی اور جے یو آئی (ف) کے اشتراک سے بنے۔ واللہ اعلم۔