ہوم << جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز - ادریس آزاد

جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز - ادریس آزاد

ادریس آزاد دیانت داری ایک عمل ہے جو فی الحقیقت تربیتِ کردار کے مراحل میں سب سے مشکل بلکہ قریب قریب ناممکن الحصول ہے۔ اس کے مشکل ہونے میں سب سے بڑا معاون فرد کا ذاتی ماحول ہے۔ اگر میں نے شادی کرلی ہے تو اب میرے دو خاندان ہیں۔ پہلے ایک تھا۔ اب میرا سُسرال بھی میرا خاندان ہوگیا ہے۔ میرے اپنے شہر میں مراسم کے ساتھ ساتھ میرے سُسرالی شہر میں بھی میرے مراسم پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر میرے بچے ہوگئے ہیں تو اب مجھے دودھ بیچنے والے سے لے کر ڈاکٹر تک اور ڈاکٹر سے لے کر پرنسپل تک معاشرے کے اُن تمام کرداروں سے ناگزیر واسطہ پڑچکاہے جو اگر میں کنوارا ہوتا تو کبھی میرے تعلقات کی فہرست میں نہ ہوتے۔ اگر میں بزنس کرتاہوں تو بے شمار کلائیٹس میرے لیے ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ میں اُن کے گھر تحفے بھیجنے سے بھی باز نہیں آتا کیونکہ میں نہیں چاہتا وہ مجھے چھوڑ کر میرے کسی مدمقابل کے پاس جائیں۔ اگر میں ملازم ہوں تو میرے جُونیئرز سے لے کر افسران تک سب کے ساتھ میری کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوگئی ہے۔
جُوں جُوں میں معاشرے کے گہرے تانے بانے میں خود کو ایک دھاگے کی طرح بُنتا چلا جاؤنگا میرے لیے دیانتداری مشکل سے مشکل ترین ہوتی چلی جائے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جس پر میں نے احسان کیا ہے، اگر سامنے سے آرہا ہو تو میں یہ توقع نہ کروں کہ وہ مجھے انکساری کے ساتھ ملے گا؟
وہ معاشرے جن کے سکولوں میں بچوں کو اساتذہ کی طرف سے جسمانی تشدد کا سامنا رہتاہے وہاں کی نسلیں جھوٹ کی عادت کے ساتھ بڑی ہوتی ہیں۔ اگر دوچار نسلیں ایسی بڑی ہوجائیں تو اگلی نسلوں میں یہ عادت خودبخود منتقل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ سکول میں مار کے خوف سے بچہ ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتا اور رحم کی اپیل کی جیسی لجاجت کا مظاہرہ کرتاہے۔ چونکہ سکول روزانہ جانا ہوتاہے چنانچہ یہ جھوٹ فطرتِ ثانیہ بننے کے مقام تک ہمارے بچپن سے ہی پہنچ جاتاہے۔ اس پر مستزاد والدین کی سختی اور انکے سامنے بولے گئے جھوٹ ہیں۔ ایسے میں جب جھوٹ جو بددیانتی کی سب سے بری شکل ہے، میری تربیت کا حصہ ہو میں کیونکر توقع کرسکتاہوں کہ میں کبھی دیانتداری کو مستقل بنیادوں پر اختیار کرپاؤں گا؟ اب اس کا حل کیا ہے؟
ایک حل تو یہ ہے کہ اِن تمام آلائش ِ دنیا کے نزدیک بھی نہ جایا جائے۔ شادی نہ کی جائے۔ مکمل تجرد اختیار کیا جائے۔ اپنی ضروریات محدود کی جائیں اور سُکڑ ، سمٹ کررہتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ خاص طورپر اگر آپ علمی دنیا سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں یا محقق ہیں تو یہ اور بھی ضروری ہوجاتاہے۔
دوسرا حل یہ ہے کہ آپ اپنا علاج کریں اور قدم قدم پر خوداحتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ دیانتدار انسان بنانے کی تھراپی جاری رکھیں۔
دونوں طریقے مشکل ہیں لیکن دوسرا ہرلحاظ سے زیادہ بہتر ہے۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں ڈیل کارنیگی ( مارکیٹ مصنف) ۔۔۔ شخصیت کو باوقار بنانے کے گُر بتایا کرتا تھا۔ اس نے کئی کتابیں لکھیں۔ ایک کتاب میں اُس نے جھوٹ چھوڑنے کا بڑا ہی قابل ِ عمل طریقہ لکھا، وہ یہ کہ، کسی کو بتائے بغیر ایک ٹائم مقرر کرلیں۔ مثلاً شام نو بجے سے دس بجے تک کا وقت مقرر کرلیں اور خود سے وعدہ کرلیں کہ آئندہ اس دوارنیے میں ، مَیں جھوٹ بالکل نہیں بولونگا۔ اگر اس گھنٹے میں آپ کا کوئی دوست آپ سے ایسا سوال کردیتاہے جس کا جواب سچ میں دیتے ہوئے آپ ہچکچاتے ہیں تو خاموش رہیں لیکن اپنی قسم نہ توڑیں اور گھنٹہ پورا ہونے پر جھوٹ بول دیں۔ لیکن اُس گھنٹے میں نہ بولیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک ایک منٹ کرکے اُس دورانیے کو ہرروز بڑھانا شروع کردیں۔ ایک منٹ بہت معمولی وقت ہے ، اس لیے آپ کو محسوس بھی نہ ہوگا اور آپ ایک وقت آئے گا کہ یکسر بدل چکے ہونگے۔ آپ کبھی جھوٹ نہ بولتے ہوں گے۔
لیکن ان تمام طریقوں سے بدرجہابہتر ہے خود کو سچ اور دیانتداری کے فوائد کا اِس درجہ قائل کرنا کہ یقینِ قلبی پیدا ہوجائے۔ مثال کے طور پر ایک گوالا بالکل ملاوٹ نہیں کرتا تو وہ بظاہر دوسرے گوالوں کی نسبت گھاٹے کا سودا کررہا ہے لیکن اگر وہ صبر کے ساتھ ایسا ہی کرتا رہتاہے تو آہستہ آہستہ اُس کے دُودھ کی شہرت دُور دُور تک پھیلنے لگ جاتی ہے۔ اسے زیادہ دُودھ لانا پڑیگا اور اب وہ زیادہ بڑا کاروباری بن جائیگا۔ یعنی بالکل اِس حد تک یعنی خالصتاً دنیاوی فوائد ہوتے ہیں بشرطیکہ سچ کو فی والواقعہ سچ ہی کے طور پر بولا جائے ۔ مولاعلیؓ کا قول کتنا صادق ہے کہ ’بدترین ہے وہ جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہو‘۔ یعنی عام جھوٹ تو بدتر ہیں لیکن ایسا جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہو بدترین ہے۔ اور ہم یہ بدترین جھوٹ زندگی کے ہر معاملے میں بولتے ہیں۔ کاروبار سے لے کر تعلیم تک، ہرجگہ، ہروقت ہم یہی ایسے ہی جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں جن میں تھوڑا سا سچ شامل ہوتاہے۔ ’’جناب بالکل بالکل، میں آپ کو پہچان گیاہوں۔ آپ شکیل صاحب کے گاؤں کے ہیں نا؟ شکیل صاحب! اپنے مہربان ہیں۔ جب بھی ہمارے شہر آنا ہو تو ہمارے ہاں ہی قیام کرتے ہیں۔ آپ سے یہ کام تھا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سچ صرف اتنا ہوسکتاہے کہ ممکن ہے شکیل صاحب زندگی میں ایک آدھ رات کسی اور کے ساتھ اس شخص کے گھر ایک رات چند گھنٹے رکے ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور باقی سارا جھوٹ ہوسکتاہے۔ اور بدترین اس لیے ہوتاہے ایسا جھوٹ کہ ہمیشہ اِس کے نتائج میں مخلوق ِ خدا کا لازمی طور پر نقصان ہوتاہے۔ اس کے برعکس دوسرا یعنی عام جھوٹ بعض اوقات بے ضرر بھی ہوسکتاہے اور بعض اوقات مفید بھی جسے دروغ ِ مصلحت آمیز کہا جاتاہے لیکن وہ جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہے اور جو ہماری روز مرہ زندگی کا خاصہ ہے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک بھی ہوتاہے اور ہم خود کو جھوٹا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ ہم نے ’’کب جھوٹ بولا۔ سچ ہی تو بتایا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے اپنے پاس عذر اور جواز ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں گلٹی جیسے احساس سے بھی محفوظ رکھتاہے اور تربیت ِ باطنی کے بچے کچھے چانسز بھی جاتے رہتے ہیں۔ اِسی جھوٹ کو بددیانتی کہتے ہیں۔
حسن ِ عمل کا تعلق تقریر اور تحریر سے قطعاً نہیں ہے۔ کل ایک دوست میری اس بات پر پریشان ہورہے تھے کہ میں نے یوں کیوں کہہ دیا کہ ’’عمل کبھی فلسفہ کا موضوع نہیں رہا‘‘۔ میں اصل میں ان کو اپنا مدعا سمجھا ہی نہیں پایا۔ غلطی میری اپنی ہے۔ عمل ضرور فلسفہ کا موضوع رہا ہے۔ لیکن جو میں نے کہنا چاہتاہوں وہ بالکل اور بات ہے۔ میں مثال سے سمجھاتاہوں۔ اب انقلاب تو فرانس میں بھی آیاہے اور روس میں بھی۔ ان انقلابوں کے پیچھے فلسفی ہیں۔ مثلاً روس کے انقلاب کے پیچھے مارکس جیسا فلسفی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مارکس کے نظریات و افکار کی وجہ سے روس میں انقلاب آیا۔ رائٹ؟
اس کے برعکس سارے تاریخ دان انقلاب، تو ’’فتح مکہ‘‘ کو بھی کہتے ہیں۔ کیا وہ انقلاب بھی ایسا ہی تھا؟ یعنی جیسا مارکس کے نظریات کی وجہ سے روس میں آیا؟
ویسا ہی انقلاب تھا وہ جو رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے مکہ میں آیا؟
کیا فتح مکہ والا انقلاب رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے فقط نظریات و عقائد اور خیالات و افکار کی ترویج و تبلیغ کی وجہ سے آیا؟
ذرا غور کریں گے تو محسوس ہوگا کہ وہ انقلاب اس وقت آیا جب پوری کی پوری شخصیتیں بدلتیں چکی تھیں۔ ایک شخص جو دس سال پہلے کوئی قاتل، چور، اچکا، بددیانت تھا۔ اب وہ امن کا علمبردار، محافظ، مددگار اور امانت دار بن چکا تھا۔ اس عملی تبدیلی نے اس کی شخصیت کو اندر سے ہی بدل دیا تھا۔ وہ محض انقلابی تقریریں سن کر منقلب نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک پراسیس سے گزرا تھا۔ اور اس پراسیس کا تعلق چونکہ یقین ِ قلبی کے ساتھ ہے دماغ کے ساتھ ہے ہی نہیں سو یہ فلسفے کا موضوع اُصولاً بن ہی نہیں سکتا۔ اور یہ تھا میرا مدعا کہ عمل فلسفے کا موضوع نہیں بن سکتا۔
میرا تو یہ بھی ماننا ہے کہ فلسفہ کا وجود عمل سے اخذ ہوا ہے۔ نیکی پہلے آئی ہے اور فلسفہ بعد میں۔ اور ایک چیز جو خود منبع و ماخذ ہے وہ اپنے بطن سے نمودار ہونے والے دریا کا مشاہدہ کربھی کیسے سکتی ہے؟ ایک زمانہ جانتاہے کہ نیکی اور برائی دونوں کے اثرات چہرے پر دکھائی دیتے ہیں۔ سالہاسال کی حرکتیں شکلوں کو بھی ویسا ہی بنا دیتی ہیں۔ نیکی سے چہرے پر ایک خاص قسم وقار کیوں پیدا ہوجاتا ہے؟ صاحب ِ کردار لوگوں کی آنکھوں میں ایک الگ قسم کی کشش کیوں پیدا ہوجاتی ہے۔ دِل ان کی طرف کیوں کھنچتاہے۔ ظاہر ہے یہ سوال تو آسان ہیں اور ان کے جوابات بھی آسان ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی جتنے عرصہ میں نمودار ہوئی اس عرصہ میں کیا ایسا ہوتا رہا کہ جسم بدل گیا۔ آنکھیں بدل گئیں۔ ہارمونز بدل گئے؟ سچ کا اور ہارمونز کا کیا تعلق ہے آپس میں؟
اسی لیے اقبال نے کہا ہے کہ
راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز
جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز

Comments

Click here to post a comment