Tag: اہل حدیث

  • کیا اہل الحدیث، اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں؟ حافظ محمد زبیر

    کیا اہل الحدیث، اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں؟ حافظ محمد زبیر

    حافظ محمد زبیر حال ہی میں چیچنیا کے دار الحکومت گروزنی میں صوفی اسلام سے تعلق رکھنے والے علماء کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی ہے کہ جس کا موضوع یہ تھا کہ ”اہل سنت والجماعت کون ہیں؟“ اس کانفرنس کے اعلامیہ میں یہ بیان جاری کیا گیا کہ جو سلفی اہل علم صفات متشابہات کا لغوی معنی جاری کرتے ہیں، وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج ہیں کہ وہ مجسمہ ہیں یعنی اللہ عزوجل کی تجسیم کے قائل ہیں۔ مفتی منیب الرحمن صاحب نے اس بارے زاویہ نظر کے نام سے ایک کالم مرتب کیا ہے جو کہ روزنامہ دنیا اور دلیل میں شائع ہوا ہے۔ اورہمارے پیش نظر اس وقت یہی کالم ہے۔

    ہماری نظر میں کانفرنس کا اگر تو اصل مقصد یہ تھا کہ عالم اسلام میں پائی جانے والی تکفیری سوچ اور اس کے حاملین کو اہل سنت و الجماعت سے خارج قرار دیا جائے، تو اس حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور یہ نکتہ تمام مکاتب فکر کے اتحاد و اتفاق کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اور مفتی صاحب نے یہ اچھا لکھا ہے کہ داعش اور تکفیری، سلفی نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سلفیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

    اسی طرح بریلویوں میں بھی ان کے بعض بڑے تکفیری ہیں تو ان کے بارے کبار بریلوی علماء یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بریلویت کی طرف منسوب ہیں لیکن اصلا بریلوی نہیں ہیں کہ بریلویت تو دراصل غیر تکفیری سوچ ہے کہ جس کے امام پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ ہیں۔ تو اس طرح بریلویت کو بھی انتہا پسندی کے جراثیم سے پاک کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سلفیوں نے تکفیریوں سے لاتعلقی کا اعلان کر کے یہ کام کیا ہے۔

    لیکن اس کانفرنس کے اعلامیے میں اور پھر مفتی صاحب کے کالم میں جس طرح سے معاصر سلفیہ اور اہل الحدیث کو اہل سنت والجماعت سے خارج کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو واضح رہے کہ اہل الحدیث میں سے بہت سے علماء اہل سنت والجماعت میں سے بریلویوں اور دیوبندیوں کو خارج قرار دے کر یہی کام بہت احسن انداز میں ان سے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو اسلام اور اہل سنت کے دائرے کے اندر باہر کرنے سے امت میں کوئی اتحاد کی راہ ہموار نہیں ہونے لگی بلکہ فکری انتشار اور تعصب بڑھے گا۔

    وسائل اور اسباب ان کے پاس بھی ہیں کہ جنہیں آپ اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دے رہے ہیں، عالمی کانفرنسیں وہ بھی منعقد کروا سکتے ہیں، علماء اور جماعتیں بھی ان کے پاس ہیں اور جب وہ منظم انداز میں حکومتی سطح پر ایسی کانفرنسیں کروائیں گے کہ جن میں صوفیوں کو اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیں گے تو آپ لازما ان پر تنقید کریں گے۔ تو تنقید آپ کا حق بنتا ہے اور یہی حق دوسرے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ پس یا تو آپ اسے ایک مکالمہ مان لیں کہ آپ نے کالم لکھ کر اس پر ایک مکالمے کا آغاز کیا ہے کہ ”اہل سنت والجماعت کون ہیں؟“ تاکہ ہر دو طرف سے لوگ لکھیں اور پھر خود ہی قارئین طے کر لیں گے کہ کون ہیں؟ لیکن اگر آپ کا مقصد مکالمہ کے بجائے امت میں اتحاد کی راہ ہموار کرنا ہے، تو پھر اہل سنت والجماعت میں سے ایک معروف مکتب فکر کو نکال دینا، اتحاد کے بجائے اتنشار کی طرف کا سفر ہے۔

    اب جہاں تک علمی بات کا تعلق ہے تو سلفیہ کا جو موقف ہے، وہی صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور ائمہ اربعہ کا ہے البتہ چوتھی صدی ہجری میں جا کر امام ماتریدی رحمہ اللہ نے ان مسائل میں اپنے سلف کے مؤقف سے اختلاف کیا اور حنفیہ نے عقیدے میں ان کے موقف کو اختیار کر لیا اور ماتریدی کہلائے۔ صفات متشابہات میں سلف صالحین اور ائمہ اربعہ کا مؤقف تفویض نہیں بلکہ معلوم المعنی اور متشابہ الکیفیہ ہے جیسا کہ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صفات متشابہات میں تیسرا مسلک ”معلوم المعنی، متشابہ الکیفیہ اور حق ان میں مسلک ِثالث ہے اور یہی مذہب صحابہ وتابعین و ائمہ مجتہدین ومحدثین وفقہا واُصولیین محققین ہے۔“ ہم اس بارے مفصل گفتگو اپنے ایک مستقل مضمون ”کیا ائمہ اربعہ صفات الہیہ میں مفوضہ ہیں؟“ میں کر چکے ہیں جو کہ ماہنامہ محدث میں شائع ہوا ہے اور اس کا لنک یہاں دیا جا رہا ہے۔

    اب تجسیم کے طعن کے جواب کی طرف آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب تک متشابہ الکیفیہ کی قید ہے تو تجسیم لازم نہیں آتی کہ متشابہ الکیفیہ لفظ کے معنی ہی کا دوسرا پہلو ہے۔ متشابہ الکیفیہ سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقت من وجہ نامعلوم ہےجبکہ معلوم المعنی سے معلوم ہوا کہ حقیقت من وجہ معلوم ہے۔ پس سلفیہ حقیقت کے من جمیع الوجوہ ادراک کے قائل نہیں ہیں بلکہ من وجہ ادراک کے قائل ہیں۔آپ معلوم المعنی سے زیادہ متشابہ الکیفیہ کے پہلو پر زیادہ غور کریں تو سلفیہ کے موقف پر صحیح طور پہنچ جائیں گے۔
    دوسری بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک ”قدم“ کا حقیقی معنی ثابت ہے اور یہی اس کا مرادی معنی ہے۔ ”قدم“ اپنے حقیقی معنی میں نص ہے کہ تفویض اس لیے نہیں ہو سکتی کہ الزامی جواب یہ ہے کہ ”قدم“ سے کم از کم ”ید“ مراد نہیں ہے یعنی ایک دوسری ہی صفت۔ تو کچھ تو تحدید ہو گئی، جب کچھ تحدید ہو گئی تو تفویض نہ رہی۔ پس ”قدم“ اپنے حقیقی معنی میں ”ما سيق الكلام لاجلہ“ کے مقصود میں ہے لیکن متشابہ الکیفیہ کی قید کے ساتھ۔ اور اس پر مزید سوال یا غور وفکر یا وضاحت کرنے کے بدعت ہونے کے فتوی کے ساتھ۔
    تیسری بات یہ ہے کہ الزامی جواب میں سلفیہ یہ کہتے ہیں کہ اشاعرہ ماتریدیہ کے سات یا آٹھ صفات مان لینے سے اگرتجسیم لازم نہیں آتی تو ہمارے جمیع صفات کے مان لینے سے تجسیم کیوں لازم آتی ہے؟ کیا صفت کلام کے لیے منہ اور جبڑوں کے ہونے کا سوال پیدا نہیں کیا جا سکتا یا صفت ارادہ کے لیے دل کے ہونے کا سوال پیدا نہیں کیا جا سکتا یا صفت سماعت اور بصارت کے لیے کان اور آنکھیں ہونے کے سوالات پیدا نہیں ہو سکتے؟ اگرچہ ان سوالات کے جواب دینے میں خاص طور صفت کلام میں اشاعرہ ماتریدیہ بہت دور نکل گئے کہ کلام کو کلام نفسی بنا دیا اور قرآن مجید کو کلام الہی کی بجائے عبارت کلام بنا ڈالا حالانکہ قرآن مجید نے کہا کہ صفت کلام وہ ہے کہ جسے کلیم اللہ علیہ السلام نے سنا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم نے مکالمہ بھی کیا۔

    یہ صرف صفات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جمیع امور غیبیہ کا ہے۔ جنت کا لفظ جو قرآن مجید نے استعمال کیا ہے، اس کا معنی معلوم ہے لیکن اس کا کوئی مصداق کامل ہمارے علم میں نہیں ہے۔ یعنی جنت کا معنی باغ ہے لیکن اس کی کیفیت متشابہ ہے۔ پس اگر کوئی یہ کہے کہ جنت سے مراد اسکول ہے یا ہسپتال ہے تو یہ تاویل کا طریقہ ہے اور اس کے جاری کرنے والوں کو متاولہ کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جنت کا معنی معلوم نہیں ہے تو یہ تفویض کا طریقہ ہے اور اسے اختیار کرنے والوں کو مفوضہ کہتے ہیں۔ اور کوئی اگر یہ کہے کہ جنت کا معنی معلوم ہے لیکن کیفیت متشابہ ہے کہ اس کا کوئی مصداق ہماری اس دنیا میں نہیں ہے تو یہ سلفی اسلوب ہے اور اسے ماننے والوں کو سلفیہ کہتے ہیں۔
    اور اگر تاویل کر بھی لی جائے تو مجاز مراد لینے کی صورت میں لفظ سے حقیقت زائل نہیں ہوتی، کیونکہ لفظ تو حقیقی معنی کا ظرف ہے۔ اگر حقیقت زائل ہو جائے تو لفظ قائم نہ رہے گا بلکہ ختم ہو جائے گا کیونکہ لفظ سے حقیقت کو زائل کر کے اس کے مجاز کا کوئی تصور ممکن نہیں ہے کہ مجاز تو حقیقت کی وجہ سے قائم ہے۔ اس کے علاوہ بھی جوابات ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ہم انہیں نقل نہیں کر رہے ہیں۔

  • مسلکی شناخت اور ”صرف مسلمان“ کا دعوی – تاج محمد

    مسلکی شناخت اور ”صرف مسلمان“ کا دعوی – تاج محمد

    آج کل ایک نئے فیشن نے زور پکڑا ہوا ہے کہ ہر کوئی خود کو ”صرف مسلمان“ کہلانے پر بضد ہے۔ مقبول عام جملہ یوں بن گیا ہے کہ ”میں نہ سنی ہوں، نہ شیعہ ہوں۔ نہ دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث ہوں، میں صرف مسلمان ہوں“. حد تو یہ ہے کہ فرقہ بندی کی گہری ہوتی ہوئی تقسیم در تقسیم سے وابستہ میرے کچھ دوست بھی سوشل میڈیا پر آ کے ”صرف مسلمان“ بن جاتے ہیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ ”صرف مسلمان“ بن کر فرقہ بندی ختم یا کم ہو سکتی ہے؟ اور یہ کہ ”کیا سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث“ ہونے سے کوئی مسلمان نہیں رہتا ہے؟

    آپ نے اپنا فیس بک کھولا ہوا ہے، اور یہ لکھنے جا رہے ہیں کہ آپ ”صرف مسلمان“ ہیں۔ لیکن ٹھہریے، امت کو کنفیوز کرنے سے پہلے خود سے ہی کچھ سوال کریں! کیا امامت اور خلافت دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت کے حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد اہل بیت اطہار کے ائمہ ہی ہیں؟ کیا حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم کی خلافتوں میں حضرت علی کی حق تلفی ہوئی تھی؟ (سوالات اور بھی ہیں، لیکن ان کو خوفِ فساد خلق سے ناگفتہ رہنے دیتے ہیں۔) ان سوالات کا جواب اگر آپ اثبات میں دیتے ہیں تو مبارک ہو، آپ شیعہ ہیں اور اگر نفی میں دیتے ہیں تو آپ سنی ہیں۔ اپنے اندر ایک بار پھر جھانک لیجیے، کیا فقہی معاملات میں اماموں کی تقلید ناجائز ہے؟ جو آدمی اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کے لیے کسی امام کی تقلید کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے؟ (یہاں بھی کچھ تلخ سوالات ہیں لیکن وہی فسادِ خلق کا خوف آڑے آ رہا ہے)۔ اگر ان سوالات کا جواب سر کی عمودی حرکت سے دے رہے ہیں تو لاکھ انکار کریں، آپ اہل حدیث ہیں۔ اور اگر افقی انداز میں سر ہلا رہے ہیں تو آپ (پاکستان کے تناظر میں) حنفی ہیں۔ پھرسے خود کو ٹٹولیں! کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم کل حاصل ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختارِ کل ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو آپ بریلوی ہیں اور نہیں میں ہے تو دیوبندی! پھر بھی اگر آپ کو ضد ہے کہ آپ، سنی شیعہ، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی کچھ نہیں بلکہ صرف مسلمان ہیں تو ان سوالات کا جواب ”ہاں“ اور ”نہیں“ کے علاوہ دیں۔ اور یقین جانیے اگر آپ کی فکر رسا کوئی درمیانی جنس کا جواب دریافت کر لیتی ہے تو آپ ”صرف مسلمان“ نام کے ایک اور فرقے کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، تاریخ میں جب بھی کوئی مسلکی شناخت کے خلاف تحریک چلائی گئی ہے اور اسے کامیابی ملی ہے تو اس کا آخری انجام ایک نئے مسلک کی صورت میں ہوا ہے۔ خود ہمارے دور میں جاوید احمد غامدی صاحب یہی آواز لے کر اٹھے تھے، لیکن دیکھیے، آج جتنا جمود غامدی صاحب کے کچھ متبعین میں پایا جاتا ہے، اتنا جمود کسی دور افتادہ گاوں میں بیٹھے ہوئے اس شخص کے اندر بھی نہیں ہوگا جس کا کل علم ”خلاصہ کیدانی“ تک محدود ہے۔

    اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف! میں اگر حنفی ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ میں نے ”دین کے اندر دین“ قائم کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب میں مسلمان نہیں رہا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سوچنے کے دو مختلف زاویوں میں، میں نے ایک زاویے کو منتخب کیا ہے۔ کوئی اگر شیعہ ہے تو کیا اس کا مطلب یوں لیا جائے کہ وہ خود کو مسلمان نہیں سمجھتا؟ یہ مسالک –غلط یا صحیح کی بحث سے ہٹ کر – مختلف فکری و قانونی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان شناختوں کی وجہ سے اسلام پر کوئی حرف آتا ہے۔ اسلام ان تمام مسالک سے وابستہ افراد کی پہلی شناخت ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اندر آنے والی فکری تقسیم کو اگر ریت میں سر دبا کر نظر انداز نہیں کرنا ہے تو اپنی وابستگی کا اظہار کرنا ضروری ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ کے نام پر خود کو ”معتدل اور روشن خیال“ مسلمان ظاہر کرنے والے یا تو پرلے درجے کے منافق ہوں گے یا پھر ایک نئے فرقے کی داغ بیل ڈال دیں گے۔

    مسئلہ کہاں ہے؟
    مسئلہ مسلکی وابستگی اور فکری شناخت میں نہیں ہے۔ مسئلہ عدم برداشت والی سوچ میں ہے۔ فکری تنوع ہر معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے لیکن یہ حسن تب تک ہوتا ہے جب تک دوسرےکے وجود کو برداشت، اس کی رائے کا احترام اور اس کے علم کا اعتراف کیا جائے۔ یہاں پر چلن یہ ہوا ہےکہ –چند مستثنیات کو چھوڑ کر– ہر انسان خود کو مکمل ٹھیک اور دوسرے کو مکمل غلط تسلیم کیے بیٹھا ہے۔ اس بیماری کا علاج بھی ہمیں دورِ قدیم سے امام شافعی نے تجویز کیا ہے کہ ”میری رائے درست ہے لیکن اس میں غلطی کا امکان ہے، آپ کی رائے خطا ہے لیکن اس میں درستی کا احتما ل ہے“۔ بس امام شافعی رحمہ اللہ کی اس سوچ کو اپنا کر شیعہ، سنی، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث بن کر رہنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ”صرف مسلمان“ نام کے لا تعداد فرقے وجود میں آتے رہیں گے۔

  • کفر کی ترویج اب ایمان کی نشانی – کاشف جانباز

    کفر کی ترویج اب ایمان کی نشانی – کاشف جانباز

    کفر کی ترویج اب ایمان کی نشانی بنتی چلی جا رہی ہے، جب تک آپ دو چار فرقوں کے ماننے والوں کے گال پر کفر کے فولاد میں لپٹے فتوے کا تھپڑ نہ رسید کردیں آپ کے ایمان کا سیاہ چہرہ سرخ ہو ہی نہیں سکتا۔ جنہوں نے کفر کی تنسیخ کرنے کے لیے ایمان کا منور چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہ اب کفر کفر کی فتوی بازی میں محو ہو چکے ہیں۔ نیز آپ جتنے لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے، اسی طور آپ کا مؤمن ہونا مدلل ہوتا جائے گا۔

    کوئی مولانا طارق جمیل پر فتوی زنی کرتا ہے، کوئی ذاکر نائیک کو کافر نائیک کہتا ہے، بریلوی خود کو ماورا مخلوق تصور کرتے ہیں، دیوبندی دوسروں کو گمراہ گردانتے ہیں، یعنی جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ وہیں اپنے ایمان کی پٹاری کھول کے کفر کے ناگ کو اپنی ریا کاری کی بین پر نچوا کر کافر نامی تماشہ کرنے لگتا ہے۔ اور جو جو اس تماشے سے منہ پھیرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے، شاید ہی کوئی خوش قسمت ہو جو کسی کے تئیں کافر نہ ہو۔
    کفر جو گزرے وقتوں میں بہت بھاری چیز ہوا کرتا تھا اور جسے کسی پر عائد کرنے سے پہلے ہزار ہزار بار سوچا جاتا تھا، اج پھکّی کی اس پڑیا سا ہو چکا ہے جسے ہر بس میں ایک شخص دس دس روپے میں فروخت کر رہا ہوتا ہے۔ اس سراسیمگی میں اگر ”میں“ کافر ہوتا ہوں تو ”تو“ خود ہی کفر کے دائرے میں آ جاتا ہے اور اگر ”یہ“ کفر پر ثابت ٹھہرے تو ”وہ“ تو کافر ہونے سے کسی صورت بچ ہی نہیں سکتا۔ میں مؤمن اور تو کافر کی رٹ نے ہمیں ایمان سے تہی دست کردیا ہے۔

    حدیث مبارکہ کی رو سے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے یعنی اسے اپنے بھائی میں اگر کوئی برائی یا خامی نظر آئے تو اس کی اصلاح کرے جبکہ موجودہ وقت میں اس آئینہ کو صرف ایمان سے خارج صورت دکھانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت نام کا نازک آئینہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا ہے کیونکہ ہم نے آئینہ دکھانے کا غلط استعمال شروع کردیا ہے جس میں اصلاح کی جانب آتی راہ کا عکس دکھانا تھا، ہم نے اس میں دوزخ کی آتشیں مناظر بھر دیے ہیں۔ تبلیغ نرمی و جھکاؤ اور کردار مانگتی ہے، جب جب اس میں تلخی، اکڑ اور غوغا سرایت کر جائے تو اس کی تاثیر جاتی رہتی ہے۔

    مسلمان آپس میں ریشم کی طرح نرم ہوتے ہیں نہ کی اپنی عبادتوں، ریاضتوں، تقوی اور زہد کو لے کر تکبر کا پہاڑ بن کر ویسا ہی سخت روپ دھار لیں۔ آج تو، تڑاک اور ڈنڈے سوٹوں سے دنیا تنگ آچکی ہے کیونکہ ان سے لگنے والے زخموں سے ابھی تک ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ لہذا اب اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو مرہم کی، لوگ ڈنڈا برداروں کو بہت دیکھ چکے، اب ان طبیبوں کی ضرورت ہے جو ان پر مرہم رکھ سکیں۔ جو کافر کہنے کے بجائے مؤمن بنانے والے ہوں، کفر کا فتوی کس کر ہوا ہو جانے والوں کی طرح نظروں سے اوجھل نہ ہوں بلکہ سامنے رہ کر اس کفر کے خاتمے کی سعی کریں۔ صرف غلط راستے پر ہونے کا کہہ کر دھتکارتے ہوئے اپنی راہ نہ لیں بلکہ صحیح راستہ دکھا کر اس پر چلنے کا سلیقہ بھی سکھائیں،جو”میں حق پر ہوں“ کے تیروں کو سینوں سے نکال کر ”ہم حق پر ہوں گے“ کی تفسیر بنیں۔ اسی طرح اس کفرِ نارسا کا خاتمہ ممکن ہے ورنہ اس ایمان کے سراب کو لے کر جو تبلیغ ہم نے شروع کر رکھی ہے، اس کی ترویج صرف ”کفر“ کو فروغ دے گی اور ایمان کی تنسیخ کر کے کسی ”میں“ یا ”تو“ کی نہیں بلکہ ”ہم“ کی تسخیر کردے گی جس کے بعد معاشرہ تو مسلمانوں کا ہوگا لیکن نظر سب کے سب کافر آئیں گے۔ لہذا ہمیں ”میں“ کے کنویں سے نکل کر”ہم“ کے سمندر میں اترنا ہوگا۔ ویسے بھی اس ”میں میں“ کے ڈنکے بہت بج چکے اب ”ہم ہم“ کی اذان دینا ہوگی تب ہی یہ کفر ٹوٹے کا اور ایمان دوام گیر ہوگا۔

  • یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    احمد علی جوہر آج ساڑھے گیارہ بجے دن میں مارکیٹ میں سودا سلف لینے کے لیے ایک دکان پر کھڑا تھا تو پی پی پی کے نغمے کی مخصوص دھن سنائی دی۔ آواز کی سمت نظر دوڑائی تو پیپلزپارٹی کی ایک ریلی آتی دکھائی دی۔ موٹر سائیکلوں، کاروں، سوزوکیوں اور ٹرکوں میں سوار ریلی کے شرکا کا میں نے جائزہ لیا۔

    یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ کراچی میں PPP کے جلسوں اور ریلیوں میں سندھی بھائی زیادہ شرکت کرتے ہیں جن کی اکثریت گوٹھوں کے رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ میری نظر ایک سوزوکی پر سوار کھڑے ایک باریش چہرے پر رک گئی۔ یہ کوئی معمولی باریش چہرہ، خط یا چھوٹی داڑھی والا face نہیں تھا۔ مکمل باریش یعنی داڑھی کو قینچی نہ لگانے والا سلفی چہرہ تھا۔ یہاں میرا مقصد سلفی یا داڑھی والوں پر تنقید نہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ چاہے بندہ سلفی ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو یا اہل تشیع، اس کے سامنے جب دین کے غلبے اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے، اور اس کے لیے صالح و دیانت دار قیادت کو ووٹ دینے کو کہا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا کیا کام سیاست میں۔ یہ کیا حکومت چلائیں گے؟ مجموعی طور پر عوام کی اکثریت کی یہی سوچ ہے چاہے مذہبی کیوں نہ ہوں۔ دیندار طبقہ پنج وقتہ نماز کا پابند ہے۔ اپنے مسلک کے مطابق دین پر عمل کرتا ہے مگر جب انتخابات کا معرکہ ہوتا ہے تو اس معاملے میں دین بھول جاتا ہے۔ووٹ ان کو دیتا ہے جو لادین، کرپٹ، بھتہ خور اور دہشت گرد ہیں۔ یہی سوچ اور رویہ ایسے فرد کو بھی صدارت اور گورنر کے منصب تک پہنچا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے جو کرپشن اور دہشت گردی کے حوالے سے مشہور ہوتا ہے۔

    ریلی کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب تک یہ سوچ اور رویے برقرار ہیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟

  • اہل السنۃ والجماعۃ کون؟ – مفتی منیب الرحمن

    اہل السنۃ والجماعۃ کون؟ – مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن ’’اَھلُ السُّنَّـۃ والجماعۃ کون؟‘‘ کے عنوان سے روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر یکم اکتوبر 2016ء کو میرا کالم چھپا۔ یہ کالم بعد ازاں دلیل پر بھی شائع ہوا. اس پر دلیل پر حافظ یوسف سراج صاحب کا بہ اندازِ استہزاء ردِعمل پڑھ کر حیرت ہوئی، یہ کسی صاحب علم کا انداز نہیں ہوتا، بہرحال یہ شِعار اُن کومبارک ہو، علامہ اقبال نے کہا ہے:
    اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے، لیکن
    جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا

    میں نے گروزنی کانفرنس کے بارے میں سنا تو اُس وقت تک اس پر کچھ نہیں لکھا، جب تک کہ مجھے ثقہ ذرائع سے اس کا متن دستیاب نہیں ہوا، میرا مزاج اندھیرے میں تیر چلانا نہیں ہے۔ یہ آرٹیکل میں نے کسی مسلکی جریدے میں نہیں لکھا، بلکہ ایک مؤقّر قومی روزنامے میں لکھا ہے اور اس کا مقصد اہلِ علم اور خاص طور پر اپنے ملک کے دینی طبقات کو حالاتِ حاضرہ کے بارے میں آگہی دینا تھا۔ میں نے نہایت دیانت داری سے یہ بھی لکھا کہ یقینا شام کے حالات کے تناظر میں اِسے روس اور ایران کی آشیرباد بھی حاصل ہوگی اور اہلِ تشیُّع کی ویب سائٹس نے اس کی خوب تشہیر بھی کی، لیکن چیچنیا کی اِس پیش رفت کا اصل مُحَرِّک اُن کے اپنے داخلی مسائل ہیں، کیونکہ وہاں عسکریت پسند یا خارجی تکفیری تحریکیں زیرِ زمین موجود ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا کہ اسے یہاں کے مسلکی خلافیات کا شاخسانہ قرار دیا جائے، بلکہ اس میں شیخ الازہر سمیت عالَمِ عرب کے نمائندے شامل تھے۔ حافظ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ چند سال پہلے الجامعۃ الازہر میں
    [pullquote]’’التوَسُّط بینَ الْغُلُوِّ وَالتَّطَرُّفْ، تحتَ فِکرِ امام ابی الحسن الاشعری‘‘[/pullquote]

    کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے، سو فسادی عناصر نے عالمی سطح پر امتِ مسلمہ کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ سعودی علماء نے اس کانفرنس کا نوٹس لیا اور انہیں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی پڑی، اگر یہ مسئلہ ایک مزاحیہ کالم کی مار ہوتا تو یقینا وہ آپ کی مدد لیتے اور مورچہ فتح کر لیتے، لیکن ناگواری کے باوجود بعض حقائق کا سامنا کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ میں نے اُن کا مؤقف بھی بیان کیا اور اُس پر ڈاکٹر عبداللطیف سعید فُودہ نے جو وضاحتی بیان جاری کیا، اُسے بھی بیان کر دیا ہے۔ عام قارئین کی آگہی کے لیے میں نے چند اصطلاحات کی وضاحت کی اور اُس میں، میں نے اپنی سوچ شامل نہیں کی۔ حافظ صاحب نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کسی کو’’اہلُ السنّہ والجماعہ‘‘ میں داخل یا خارج کرنے کے لیے میرے ایما پر یہ کانفرنس منعقد ہوئی ہو۔

    المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوچنے کا انداز محدود ہے اور ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ پتھر ہماری طرف ہی پھینکا گیا ہے۔ حضورِ والا! یہ مسئلہ عالَمی فورم پر اٹھایا گیا ہے اور اس کا تناظر بھی عالَمی ہے اور خاص طور پر شام اور خود چیچنیا کے حالات کے زیرِ اثر ہے۔ داعش تو بہت پہلے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں قائم ہوچکی تھی، لیکن کافی عرصے سے یہ زیرِ زمین چلی آ رہی تھی۔ جب اُس نے ایک خطے پر قبضہ کر کے اپنا اقتدار قائم کیا اور اُن کا فساد کھل کر دنیا کے سامنے آیا، تو ناگزیر طور پر سعودی عرب کے علماء کو انہیں خارجی اور تکفیری قرار دے کر ان سے برات کا اعلان کرنا پڑا، کیونکہ اب یہ بلا اُن کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس کی تپش انہیں قریب تر محسوس ہو رہی ہے۔ یہاں کے اہل حدیث علماء کی بھی خروج اور بغاوت پر کتابیں سامنے آچکی ہیں اور توحید کی اقسام (توحیدِ ربوبیت ،توحیدِ الوہیت اور توحید ِاسماء و صفات) پر توحیدِ حاکمیت کا اضافہ بھی سلفی مکتبِ فکر کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔

    میرا کالم پڑھ کر وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا یاسین ظفر نے بہ حیثیت مجموعی اس کی تحسین کی اور کہا کہ ہمارے حوالے سے یہ جملہ ڈال دیا ہوتا: ’’آج کل کے سلفی، تکفیری اور خارجی نظریات سے برملا برات کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ مسلکی خلافیات اور کلامی مسائل میں نے اختراع نہیں کیے، یہ پہلے سے چلے آرہے ہیں اور نہ ہی میں نے مذکورہ کالم میں براہِ راست انہیں اپنا موضوع بنایا ہے۔ میرا مقصد تو یہ تھا کہ ہمارے اہلِ علم کو عالَمی سطح پر ان حرکیات کے بارے میں آگہی حاصل ہو۔ البتہ مجھ سے یہ ریمارکس دینے کا’’جرم‘‘ ضرور سرزد ہوا ہے کہ سعودی عرب کے علماء کو امت کی مشکلات کے عالمی تناظر کا ادراک کرتے ہوئے توسُّع اختیار کرنا چاہیے اور امتِ مسلمہ کے تمام مکاتبِ فکر کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر مُثبت رابطے کے لیے کوئی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ یہ دورِ حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔

    (مفتی منیب الرحمن، چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان، صدر تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان، سیکرٹری جنرل اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان، مہتمم دارالعلوم نعیمیہ اہلسنت پاکستان)

  • شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟ اوریا مقبول جان

    شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟ اوریا مقبول جان

    اوریا مقبول جان پوری امتِ مسلمہ میں کون ہے جو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو پوری امت کا مشترکہ اثاثہ نہ سمجھتا ہو۔ اقبال نے تو انہیں ’قافلہ سالارِ عشق‘ اور ’نکتۂ پرکارِ عشق‘ جیسے القابات سے یاد کیا۔ اقبال تو اس امت کی زبوں حالی پر نوحہ بھی یوں پڑھتا ہے کہ ’قافلۂ حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں‘۔ یہ الفاظ اور سیدنا امام حسین ؓ کی ذات سے عشق، اقبال کے ہاں ایک تسلسل کا نام ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جب بھی کہانی دہرائی جائے گی قافلہ سالاری سیدنا امام حسین ؓ کے سرکا تاج رہے گی۔

    کوفہ کی سرزمین پر کربلا کے المناک سانحے کے بعد بےوفائی کا ایک اور باب رقم ہو رہا تھا۔ حضرت علی ابن حسین زین العابدین کے فرزند حضرت زید بن علی، ہشام بن عبدالملک کے دور میں کوفہ تشریف لائے تو وہاں آپ نے ایک خطبہ ارشاد کیا‘ جس میں کہا:
    ’’اللہ کی قسم مجھے یہ چیز سخت ناگوار ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروں اور اس حالت میں کہ ان کی امت کو نہ میں نے معروف کا حکم دیا ہو اور نہ منکر سے منع کیا ہو‘‘۔
    کوفہ میں منصور بن المعتمر نے لوگوں سے زید بن علی کے لیے بیعت لینا شروع کی۔ اس زمانے میں اہلِ سنت کے امامِ اعظم امام ابو حنیفہ، بنی امیہ کے ظلم و تشدد کا مسلسل شکار ہو رہے تھے۔ منصور بن المعتمر اور امام ابو حنیفہ دونوں راتوں کو چھپ کر ملتے اور روتے رہتے۔ چند اور بزرگوں، مسلمہ بن کہیل اور نبیل الاعمش کی کوششوں سے کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید بن علی کی بیعت کر لی۔ حضرت زید نے جب قیام کا ارادہ کیا تو فضیل بن زبیر کو قاصد بنا کر ابوحنیفہ کے پاس بھیجا۔ یہاں امام ابو حنیفہ کا ایک تاریخی فقرہ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ انہوں نے کہا: [pullquote]’’خروجہ یضاھی خروج رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم البدر‘‘[/pullquote]

    (زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہﷺ کی بدر میں تشریف آوری سے مشابہ ہے۔)
    اس کے بعد حضرت زید نے دعوت جہاد دی اور فرمایا:
    ’’ہم تم کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تمہیں بلاتے ہیں کہ آئو ظالموں سے جہاد کرو‘‘۔
    اس پر چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی۔

    اس کے بعد بے وفائی کی ایک دلگداز داستان ہے، حیلوں اور بہانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایسے سوالات کوفہ والوں نے اٹھائے جو آج بھی اس امت مسلمہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ چال چلن بھی وہی رکھا جو کوفہ والوں کا مسلم بن عقیل اور سیدنا امام حسین ؓ کے ساتھ تھا۔ صبح جب حضرت زید بن علی میدان میں نکلے تو ان کے ساتھ اتنے ہی جانثار تھے جتنے رسول اللہﷺ کے ساتھ میدانِ بدر میں تھے یعنی 313۔ یوں امام ابوحنیفہ کے قول پر اللہ کی جانب سے مہر تصدیق ثبت ہوئی کہ ان کا خروج رسول اللہﷺ کی بدر میں آمد سے مشابہ ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک اور خونچکاں باب رقم ہوا اور یہ جانفروش شہید کر دیے گئے۔ اس وقت شیعانِ علی بھی موجود تھے اور اہلِ سنت بھی لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی ایک میں بھی اختلاف موجود نہ تھا۔ یہ تھی اس امت کی روایت جو صدیوں چلتی برصغیر تک پہنچی۔

    برصغیر میں مسلک شیعہ اور مسلک سنی باہم ساتھ ساتھ اپنے اپنے عقیدوں پر قائم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے صدیوں یہاں زندگی کرتے رہے۔ برصغیر میں مسلکی طور پر پہلا شیعہ خاندان سید سالار دائود غازی اور سید سالار مسعود غازی کا تھا، جو 1030 عیسوی میں اودھ کے علاقے میں آ کر آباد ہوا۔ ان کی اولاد میں سے سید عبداللہ زر بخش اور سید زید شہسوار نے بارہ بنکی کے قریب زید پور شہر آباد کیا۔ اسی دور میں ہندوستان کی چند ریاستوں کے سربراہ بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے جن میں اودھ‘ سندھ اور ملتان قابل ذکر ہیں۔ اس دور سے 1857ء میں انگریزوں کے قبضے تک یہاں ہر طرح کے حکمران برسر اقتدار آئے۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر مغل بادشاہوں تک، ان کی حکومتوں میں اہم عہدوں پر شیعہ بھی رہے اور سنی بھی۔ ان میں کبھی کبھار سیاسی نوعیت کا اختلاف ہو بھی جاتا لیکن وہ ان لوگوں کی ذاتی اقتدار کی جنگ ہوتی۔ یہ جنگ مسلک کی جنگ نہیں بنتی تھی۔ ہمایوں کی ایران سے واپسی کے بعد بہت سے ایرانیوں کی برصغیر آمد کے بعد اس مسلک کو فروغ ملا اور عزاداری، مرثیہ خوانی اور مرثیہ نویسی نے رواج پایا۔

    پورے مغلیہ دور میں کسی ایک معمولی سے شیعہ سنی فساد یا دنگے کی کوئی خبر موجود نہیں۔ یہاں تک کہ روبنسن (Robinson) جیسا مُؤرخ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو تقسیم کا درس دینے کے لیے ”Sepratism among Indian Muslims“ لکھی، وہ بھی کسی ایک واقعے کا تذکرہ نہ کر سکا جس میں شیعہ سنی فساد نظر آتا ہو۔ حالانکہ التمش سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک پورے برصغیر پر فقہ حنفیہ نافذ تھی اور قاضی اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے، سب اس پر متفق تھے اس لیے کہ دونوں مسالک کے علماء یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے جو قانون نافذ کرنے کے لیے ہوتے ہیں ان میں دونوں کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ چوری، زنا، جھوٹ، غیبت، قتل میں کوئی شیعہ سنی نہیں ہوتا اور ان سب کی سزا مقرر ہے۔ زکوٰۃ اور عشر میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ جو اختلافات تھے وہ فروعی نوعیت کے تھے اور جو الزامات تھے وہ بھی مجمع باز خطیبوں اور ذاکروں کے پیدا کردہ تھے یا پھر افسانہ طراز مؤرخوں نے انہیں ہوا دی۔ یہی اس امت کی اصل روح تھی کہ اختلاف کی عزت کی جائے اور نیت کو اعمال کا معیار سمجھا جائے۔

    پہلا شیعہ سنی فساد 1906ء میں لکھنؤ میں ہوا جو انگریز حکمرانوں کی ’’برکت‘‘ کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد 1907ء اور 1908ء میں بھی فسادات ہوئے اور معاملہ باہم افہام و تفہیم سے علماء نے طے کر لیا اور مسلم معاشرے میں رواداری قائم رہی۔ 1906ء کے فسادات کیسے ہوئے؟ اب یہ کوئی راز نہیں۔ کوئی شخص بھی برطانیہ میں انڈیا آفس لائبریری میں تمام مکتوبات دیکھ سکتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل 18 اپریل 1939ء کے اس خط میں موجود ہے جو گورنر ہیگ (Heig) نے وائسرائے لنلتھگؤ (Linlithgow) کو تحریر کیا۔ یہ خط اس لیے تحریر کیا گیا تھا کہ 1939ء میں پھر فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ لکھنؤ میں جہاں محرم کے دنوں میں تعزیہ اور علم کے جلوس نکلا کرتے تھے، وہیں سنی اپنی مساجد میں مدح صحابہ کے نام سے مجلس منعقد کیا کرتے تھے، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ 1906ء میں انگریز نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ’’مدح صحابہ‘‘ ایک نئی اختراع ہے اس لیے محرم کے دو دنوں، چہلم اور یومِ شہادتِ علی کے دن اس پر پابندی ہوگی۔ یہ اقدام دنیا کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ ہم نے یہ امن کے لیے کیا ہے، لیکن اصل میں یہ ایسی شرارت تھی جس نے آگے چل کر اس فساد کا بیج بویا۔ اس کی تفصیل Heig papers MSS.EUR.F.125.102 IOR میں موجود ہے اور انڈیا آفس لائبریری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد پورے برصغیر میں محرم کے جلوسوں کے روٹوں کے لائسنس انگریز ڈپٹی کمشنروں نے جاری کیے۔ آپ تمام شہروں کے روٹ ملاحظہ کریں تو ان میں شرارتاً خاص طور پر ایسے مقامات شامل کیے گئے جہاں آج نہیں تو کل کسی بھی وقت فساد برپا ہو سکتا ہے یا کروایا جا سکتا ہے۔

    1935ء میں چہلم کے دن کچھ مقامات پر ’’مدح صحابہ‘‘ پر پابندی کو غیر قانونی سمجھ کر سنی مساجد میں توڑا گیا۔ اس کے بعد 1936ء میں ذوالحج سے صفر تک کے مہینوں میں ہر جمعہ کو مدح صحابہ کو معمول بنایا گیا، قانون کی خلاف ورزی پر انگریزوں نے ہزاروں سنیوں کو گرفتار کر لیا حالانکہ دوسری جانب سے کوئی احتجاج نہ تھا۔ آگ لگانے کے لیے یہ کافی تھا۔ فسادات شروع ہوئے۔ جھانسی ڈویژن کے کلکٹر جسٹس ایلسوپ (Allsop) کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ 1909ء کے احکامات میں کیا تبدیلیاں کی جائیں۔ 28 مارچ 1938ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ: The Sunni recitation were allowable in theory, but were actually provocative and should be disallowed. آگ بڑھانے کے لیے یہ فقرے کافی ثابت ہوئے کہ ’’سنی مدح صحابہ کتابی طور پر تو صحیح ہے لیکن عملی اظہار شرانگیزی ہے اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ سنیوں نے اس پر سول نافرمانی کی ایک تحریک شروع کی۔ ادھر ملک میں انتخابات کے بعد جمہوریت آ گئی تھی۔ کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی۔ 31 مارچ 1939ء کو کانگریس حکومت نے مدح صحابہ پر سے پابندی اٹھا دی اور سول نافرمانی کی تحریک ختم ہو گئی۔ لیکن اس دوران دونوں جانب گزشتہ پچاس سال سے نفرت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ یوں مارچ، اپریل اور مئی 1939ء میں شیعہ مسلک کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ اٹھارہ ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو دونوں گروہوں نے منصف مقرر کیا لیکن چونکہ اختلافات کو اس طرح پالا گیا تھا کہ دوسری جانب سے تبریٰ کو بھی سرعام کرنے کی اجازت مانگ لی گئی اور اس پر از خود عمل بھی شروع ہو گیا جس پر شدید فسادات نے جنم لیا۔ یہ تمام معاملات اور کہانی گورنر ہیگ کے خطوط میں درج ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد 1940ء میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے عوامی مقامات پر مدح صحابہ اور تبریٰ پر پابندی لگا دی۔

    یہ ہے وہ تاریخ کہ آگ بھی خود بھڑکائی اور پھر اسے ایک دوسرے کے گھروں میں سلگنے کے لیے چھوڑ دیا۔ کس قدر بدنصیب ہیں ہم اور کس قدر ناسمجھ ہیں ہمارے فرقہ پرست کہ محرم کے جلوسوں کے وہ روٹ جنہیں انگریز ڈپٹی کمشنروں نے فساد کے ممکنہ امکانات کے لیے ڈیزائن کیا تھا، اسے کربلا کی طرح مقدس سمجھتے ہیں اور مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہر سال یہ قوم دعائیں کرتی ہے فسادات سے نجات کے لیے، دنیا بھر کی انتظامیہ ان مقامات پر کھڑی ہوتی ہے، لیکن پھر بھی فساد ہو جاتا ہے اور کوئی مل بیٹھ کر ان سب کو محفوظ راستوں پر لے جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ کس قدر بدقسمت ہیں ہم کہ انگریز جو لکیریں کھینچ گیا، اسے مقدس سمجھ کر خون بہاتے ہیں۔ صوبے انگریز نے بنائے، آپ انہیں بدل کر دکھائیں، ضلعوں‘ تحصیلوں میں ردوبدل پر فساد، جلوس کے قدیمی روٹ پر جھگڑا۔ کوئی ہے جو عقل سیکھے۔ اس برصغیر میں نفرت کا بیج بونے والے انگریز کے قانون اور احکامات کو بدل دے۔ اس سارے فساد پر آج بھی انگریز فاتح ہے جو نفرت کا بیج بو گیا۔

    ایک اور بہت بڑا سوال امتِ مسلمہ میں مسلکی اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم برداشت اور خونریزی کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس برصغیر میں موجود تیس سے چالیس ہزار انگریز ہی اس کے واحد ذمہ دار ہیں؟ کیا ہمارے علماء نفرت کی آگ میں حصے دار نہیں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے ایک مسلسل عمل کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نفرت کا سبق نہیں پڑھایا؟

    برصغیر کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہرمکتبۂ فکر کے جیّد ترین علما نے مدتوں اس بات پر اپنی توانائیاں صرف کیں کہ مخالف مسلک کے عقائد اور ان کے علما کی تحریروں میں کون سے نقائص ہیں۔ زور دار اور پُر جوش رسالے لکھے اور تمام مکاتبِ فکر کے مدرسوں میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس کے بعد منبر و محراب ہاتھ آئے تو اپنی شعلہ بیانیوں کا سارا زور مخالف کو کذّاب، بےدین، گمراہ، اور بالآخر کافر کہنے پر صرف کیا۔ شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث سب نے اس میں پورا پورا حصہ ڈالا۔ ردِّ بریلویت، ردِّ دیوبندی، ردِّشیعہ اور ردِّ غیرمقلدین جیسے موضوعات پر آپ کو ایک وسیع مواد ہر مکتبۂ فکر میں مل جائے گا۔ وہ، جن کے اسلاف قرآن و سنت کے ہر پہلو کو لوگوں پر روشن کیا کرتے تھے، جو کبھی پوری دنیا میں کفرو شرک کے مقابلے میں توحید کے علمبردار تھے، جو سیّدالانبیاءﷺ سے عشق کی مشعل روشن کرنے کے نقیب ہوا کرتے تھے، ان کا سارا زورِ بیان اس بات پر صرف ہونے لگا کہ فلاں شخص یا گروہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، فلاں دل میں سیّدالانبیاءﷺ کے احترام کی مشعل روشن ہے یا بجھ چکی۔ مشرک، بدعتی، گستاخِ رسول، منکرینِ اولیاء، گستاخِ صحابہ اور منکرینِ اہل بیت جیسے موضوعات ہمارے مذہبی اکابرین کا پسندیدہ موضوع بن گئے۔

    گزشتہ چالیس سالوں سے میں ہر مکتبہ فکر کے علما کی دھواں دار تقریروں سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ کانفرنس توحید کے نام پر منعقد ہوتی ہے لیکن تقریریں پڑوس کی مسجد کے امام اور اس کے اسلاف کی ہرزہ سرائی کے ذکر سے بھری ہوتی ہیں، مجلس میلاد سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سجائی جاتی ہے اور شعلہ بیانیاں اپنے اسلاف کی تعریف و توصیف اور دوسروں کی گستاخیوں کی داستانیں بیان کرنے پر صرف ہو جاتی ہیں۔ آلِ رسول ﷺ کی محفلوں کا تو غضب ناک پہلو یہ ہے کہ فقرے گھما پھرا کر ایسے بولے جاتے ہیں کہ پوری بستی جو اس محفل میں شریک نہیں، یزید کی فوج قرار دے دی جاتی ہے۔ ادھر بات شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شروع ہوتی ہے مگر کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ جوشِ خطابت لوگوں سے دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں کے لیے کفر کے نعرے نہ لگوا دے۔ یہ تقریریں اور یہ ’’علمی‘‘ مواد اور تحقیق و تنقیص کا یہ عمل ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے، لیکن ان ڈیڑھ سو سالوں سے ایک سو بیس سال انتہائی امن اور سکون کے ہیں۔ کوئی دنگا، فساد، سر پھٹول یا قتل و غارت نہیں۔ لیکن گزشتہ تیس سال ایسے ہیں کہ جیسے ہر لمحہ سولی پر لٹکا ہوا ہو۔

    ان تیس سالوں میں ایسا کیا ہوگیا؟ اگر آج ہم نے اس پر غور نہ کیا تو اگلے سوسال ہم ایک دوسرے کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ان تیس سالوں میں اس مسلم خطے کے سیاسی حالات میں ایسی اہم تبدیلیاں آئیں جن کا اثر یہاں کے صدیوں پرانے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی حالات پر پڑا۔ ایک پُرسکون جھیل جیسی مسلم معاشرت میں ہلچل مچ گئی۔ افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں اور ایران میں انقلاب آگیا۔ یہ دونوں واقعات جنگ عظیم اوّل کے بعد مسلم اّمہ کی خلافت کی مرکزیت کے ختم ہونے اور جدید سیکولر قومی ریاستوں کے بعد سب سے بڑے واقعات تھے۔ ایران میں، انقلاب نے جہاں سیکولر قومی ریاست کی بنیادیں ہلادیں، وہیں افغانستان کا جہاد بھی خلافتِ اسلامیہ کے قیام کا نعرہ لے کر اٹھا اور طالبان کی صورت قائم حکومت نے مغرب کی سیکولر ریاستیں قائم کرنے کی جدوجہد کو غارت کر دیا۔ ان انقلابات کے نتیجے میں پورے خطے میں ایک بےیقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی اور وہ تمام حکمران جنہیں پہلی جنگِ عظیم کے بعد مغرب نے اپنے کا سہ لیسوں کی حیثیت سے مسلّط کیا تھا، اپنے ممکنہ انجام کی وجہ سے خوفزدہ ہوگئے اور یوں ایک کشمکش اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اس کشمکش اور جنگ کا ایندھن وہ مواد بنا جو سو دو سال سے اس امت کے مختلف مسالک کے علماء نے وقتاً فوقتاً تحریر کیا تھا۔ ا یک دوسرے کے ردّ میں لکھی گئی کتابیں اور کفر کے فتوے گرد آلود تہہ خانوں سے نکالے گئے اور پھر انہیں چاروں جانب پھیلا دیا گیا۔

    اسی زمانے میں ایک اور چیز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پہلے ان تمام علماء اور ذاکرین کے بےمحابہ خطاب صرف اپنی اپنی مساجد اور امام بارگاہوں تک محددو تھے لیکن جس طرح اس دور میں پہلے آڈیو کیسٹوں اور ویڈیو کیسٹوں نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جیسے فنکاروں کو مقبولیت بخشی، ویسے ہی ان علماء اور ذاکر ین کی آڈیو اور وڈیو کیسٹوں نے انہیں راتوں رات ملکی اور غیر ملکی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ کیسٹیں عام دکانوں پر دستیاب ہونے لگیں۔ شیعہ ذاکر کی کیسٹ سنی گاہک کے ہاتھ میں اور سنی مقرر کی کیسٹ شیعہ گاہک کے ہاتھ میں آگئی۔ مدتوں ان لوگوں کو ان کے مولوی بتایا کرتے تھے کہ فلاں مسلک کا مولوی یا ذاکر ہمارے بارے میں یہ کہتا ہے اور پھر نفرت کا بیج بویا جاتا تھا۔ لیکن اب تو وہ سب کچھ ایک دلیل کے طور پر مخالف فرقے کے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا۔ وڈیو اور آڈیو سے سب کچھ سی ڈی اور ڈی وی ڈی پرمنتقل ہوتا چلا گیا۔ ادھر گھر گھر کمپیوٹر آیا تو یہ سارا نفرت انگیز مواد عام آدمی کی دسترس میں چلا گیا۔ آڈیو، ویڈیو کیسٹ یا سی ڈی اور ڈی وی ڈی خریدنے کے لیے پھر بھی زحمت اٹھانا پڑتی تھی، بازار جانا پڑتا تھا لیکن جیسے ہی انٹرنیٹ آیا تو یہ تمام مواد یوٹیوب سے ہوتا ہوا فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس کی صورت میں ہر شخص کے گھر یہاں تک کہ موبائل تک جا پہنچا۔ اب نہ دکان پر جانے کا ترددّ، نہ کیسٹ اور سی ڈی خریدنے کی زحمت، راہ چلتے موبائل پر انٹرنیٹ کھولو اور نفرت کے ثبوت کے طور پر کسی بھی مولوی یا ذاکر کی تقریر سنا کر آگ لگوا دو۔

    یہاں ایک عجیب منطق پیش کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر ہر طرح کا جھوٹ اور افواہ چل رہی ہوتی ہے، لیکن یہ جھوٹ اور افواہ نہیں بلکہ ہمارے اپنے مذہبی قائدین کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو ہوتی ہے جسے ایک عام کمپیوٹر جاننے والا شخض بھی بڑی آسانی سے پہچان سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اور امام بارگاہ میں بولی جانے والی نفرت کی زبانیں اب گھروں کے دالانوں تک جا پہنچی ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم ایسا نہیں کہتے، یہ ہم پر الزام ہے، اس کے جواب میں سامنے والا موبائل پر کسی نہ کسی کی تقریر نکال کر سنا دیتا ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس نے اس سیاسی اور علاقائی طور پر پیچیدہ صورتحال کو ایندھن فراہم کیا، آگ لگائی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ اس سارے طوفان میں نہ دیوبندی کو فتح حاصل ہوئی نہ بریلوی کو، نہ شیعہ جیتا اور نہ اہل حدیث۔ مسکراہٹ ان چہروں پر ہے، رقص کناں وہ لوگ ہیں جو مدتوں سے یہ خواہش دل میں دبائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کو اللہ، اس کے رسولؐ اور عقائد سے برگشتہ کیا جائے۔ یہ لوگ ہیں جو اس مواد کو اکٹھا کرتے ہیں، کبھی کالم کی صورت پروتے ہیں اور کبھی کسی ٹاک شو میں دھینگا مشتی کرواتے ہیں۔

    لوگ سوال کرتے ہیں، حل کیا ہے! جس نے درد دیا ہے وہی دوا دے گا۔، اس امت کے تمام علماء کو اکٹھا ہونا پڑے گا اور ان سب لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا جن کی نفرت پر مبنی تقریریں اور مواد ہمارے درمیان موجود ہے اور ایسے سارے مواد، سی ڈیز اور کیسٹوں کو سر عام جلانا ہوگا، ورنہ اہل نظر مسجدوں اور امام بارگاہوں میں جبہّ و دستار اور عمامے خون سے رنگین دیکھ رہے ہیں ۔

  • فرقہ واریت اور ہماری الجھتی گتھیاں – عبدالمتین

    فرقہ واریت اور ہماری الجھتی گتھیاں – عبدالمتین

    فرقہ واریت ایک ایسا زہر ہے جس کا تریاق تقریباً سب ہی کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی اس کارخیر میں بھرپور شریک رہتے ہیں جو خود براہ راست اس مرض کا شکار ہیں. جب کبھی فرقہ واریت کے اجزائے ترکیبی کو زیر بحث لایا جاتا ہے تو ہمارا رویہ کچھ یوں ہوتا ہے جیسے ہمیں اس مرض کی الف ب تک نہیں پتا اور اس کے بعد جب ہمارے ہی کرتوتوں کے نتیجہ میں فرقہ واریت اپنا کام کر جاتی ہے تو ہم کچھ اس انداز سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں جس کی داد دیے بنا ہمارے کمالات کی داستان ادھوری رہ جاتی ہے۔

    اس فتنہ سے بیزار کچھ امت کا درد رکھنے والے اس کے حل کی یہ تجویز دیتے دکھائے دیتے ہیں کہ ہمیں ہر قسم کی مسلکی جماعت سے کلیتا علیحدگی اختیار کرنی ہوگی. یہ نکتہ اپنے ظاہری اعتبار سے بہت ہی کارگر اور دل کو چھوتا محسوس ہوتا ہے لیکن ذرا نتیجہ خیزی کی طرف آئیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر مکاتب فکر کے حامل افراد رہتے ہوں، وہاں ایک ایسی جماعت کی اٹھان ہوتی ہے تو اسے ایک حریف کے طور پر لیا جائے گا اور یہ اقدام فقط کشمکش اور اضطراب کا باعث ہی بن سکے گا اور بس۔

    اسی طرح کچھ مصلحین فرقہ واریت کا حل اس صورت کو گردانتے ہیں کہ ہر کس و ناکس وہی موقف اپنائے جو یہ صاحب یا فرقہ پرست اپنائے ہوئے ہیں مثلاً ایک بریلوی یہ کہہ کر فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہ رہا ہے کہ سب کے سب لوگ دعوت اسلامی کے معتقد بن جائیں، اسی طرح ایک دیوبندی یہ کہہ کر اس آگ کو بجھانے کی سعی کر رہا ہے کہ تمام ہی لوگ تبلیغ دین کے لیے رائےونڈ کا رخ کریں اور ایک اہل حدیث یہ کہتے ہوئے کہ سب کے سب رفع یدین کو ارفع و اعلیٰ سمجھیں۔ مذکورہ قسم کی تگ و دو فرقہ واریت کو مزید چار چاند تو لگا سکتی ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں کیونکہ جس قسم کے نعروں سے ہم یہ کام کرنا چاہ رہے ہیں ان کی گونج بسم اللہ کے گنبد تک ہی محدود ہوسکتی ہے، اس سے آگے نہیں، جبکہ ضرورت اس صدا کی ہے جس سے عالم کفر کے دل دہل جائیں اور وہ اپنے آپ کو سمیٹنے کی سی صورت اپنالیں ۔

    سو لازم ہے کہ ہم ممکنات کی دنیا میں قدم رکھ کر ان مسائل کا حقیقی تجزیہ کریں اور ابتداء اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنی اس بیٹھک سے کریں جس میں ہم اپنے خیالات کا اظہار برملا کرتے رہتے ہیں، کیونکہ فرقہ واریت کا سیلاب اپنے آپ ہی نہیں آیا، یہ ان کاروائیوں کے سبب آیا ہے جو ہم اتحاد کے بند کو توڑنے کے لیے کرتے آرہے ہیں اور جب وہ بند ٹوٹ کر بہنے لگتا ہے تو ہم اپنی چھوٹی چھوٹی کشتیاں لگا کر ایک دوسرے پر الزام تھوپ رہے ہوتے ہیں۔

  • فقہ میں برصغیری مزاج کا ستم – فضل ہادی حسن

    فقہ میں برصغیری مزاج کا ستم – فضل ہادی حسن

    فضل ہادی حسن برصغیر میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی خدمات کے سب معترف ہیں. ان کے افکار کو قرآن وحدیث کے علوم کے منبع اور مصدر و مرجع کا مقام حاصل ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں برصغیر کا خطہ بڑا ظالم ثابت ہوا بالخصوص دینی تعلیم و تعلّم کے حوالے سے۔
    اول:
    مسلک احناف کو دو دھڑوں میں تقسیم کرکے علمائے احناف کے ساتھ ظلم کیا گیا۔ ایک طرف مشربی و مسلکی مسائل پر توجہ زیادہ ہونے لگی تو دوسری طرف فقہ المقارن برائے نام اور ایک تذکرہ تک محدود ہونے کی وجہ سے اختلافی مسائل میں اعتدال مفقود اور سختی نمایاں ہوگئی ۔
    دوم:
    علمائے احناف کی دیوبندیت اور بریلویت میں تقسیم سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وسعت پیدا ہوتی (فقہ و تنقیح، مسائل، رویہ ومزاج میں ) جس طرح مذاہب اربعہ کے وجود سے دینِ اسلام کی وسعت اور آفاقیت نمایاں ہوتی ہے، مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور صورتحال سب کے سامنے ہے. برصغیر کے اس فقہی و مشرَبی مزاج نے وسعت تو دور کی بات، ہر مسئلہ کو محدود، بےلچک اور ذہنوں کو مقید و محصور کرکے جہاں انھیں مسلکی طوق پہنایا وہیں تنگ نظری اور متشددانہ سوچ کا باعث بھی بنا۔
    سوم:
    علمائے احناف اور فقہ حنفی کے ساتھ اہل حدیث اور اہل تشیع بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اس مزاج نے انہیں بھی متاثر کیا اور وہ بھی تنگ نظری اور بعض فقہی آراء میں حد درجہ غلو کا شکار رہے ہیں ۔

    اس کا مطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ من جملہ یہ سارے مکاتب فکر اور اس کے پیروکار اس خاص بر صغیری مزاج کے شکار ہوئے ہیں۔ بلکہ ہر فقہ و مشرب سے تعلق رکھنے والوں میں معتدل اور فقہ حنفی / مکتب اہل حدیث / اہل تشیع کے اصل وارث اور پیروکار موجود ہیں۔
    جس طرح آغاز میں ذکر کیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ کی خدمات کا اہل برصغیر کھبی انکار نہیں کر سکتے، ہر فقہ و مسلک کے پیروکار ان کو اپنا امام اور سند مانتے ہیں۔ اور اسی سند کو ہی قابل فخر و غرور اور علم و فضل کا آلہ سمجھا جانے لگا ہے۔
    (( برصغیر کے احناف اور فقہ حنفی کی تقسیم کا تنقیدی جائزہ ))