Tag: اسلام آباد لاک ڈاؤن

  • کون جیتا کون ہارا؟ فیصلہ آپ کریں – راجہ بشارت صدیقی

    کون جیتا کون ہارا؟ فیصلہ آپ کریں – راجہ بشارت صدیقی

    بشارت صدیقی کپتان نے دھرنا موخر کرنے کا اعلان کیا کیا کہ سیاسی مخالفین نے انہیں تنقید کے نشانے پر لیا، انہیں یوٹرن، بزدل ، ہارا ہوا جرنیل جیسے القابات سے نوازا۔ یکم نومبر کی شام ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر کپتان کے دو نومبر کے یوم تشکر کے اعلان کو ان کے مخالفین دیوانے کی بڑ قراردے رہے تھے۔ 2نومبر کو تحریک انصاف نے اسلام آباد کے قلب میں کامیاب شو کر کے ناقدین کے منہ بند کر دیئے وہ بھی اس حالت میں جب یکم نومبر کو تحریک انصاف کے کارکن سڑکوں پر مار کھا رہے تھے۔ جو لوگ کپتان کو طرح طرح کے القابات سے نواز رہے تھے ان کی درستگی کیلئے بیان کر دوں، تنقید وہ لوگ کرتے ہیں جو اکثر اخبار نہیں پڑھتی جن کا مطالعہ واجبی سا ہے، کپتان نے رائے ونڈ میں اعلان کیا تھا کہ بادشاہ سلامت تلاشی دیں یا مستعفی ہوں نہیں تو اسلام آباد لاک ڈائون کروں گا۔

    قارئین! جب پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو ملک میں ایک بحران نے جنم لیا کہ باشادہ سلامت اور ان کا خاندان خفیہ جائیدادوں کا مالک ہے جو ان کی آمدن سے زیادہ ہے۔ حکومت نے چالاکی یہ دکھائی کہ جن سینکڑوں لوگوں کا نام پانامہ شریف میں تھا سب کا معاملہ عدالت سے نمٹانے کی درخواست کر دی۔ عدالت نے مئی میں شکریے کے ساتھ یہ جواب دیا کہ بے اختیار کمیشن ہم نہیں بنا سکتے اس طرح ہم معاملے کو نمٹا نہیں سکیں گے اور یوں عدالت کی رسوائی ہو گی، عام آدمی کا عدالت سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی او آرز بنا کر دے تو ہم معاملے کو دیکھیں گے مگر حکومت راہ فرار اختیار کر رہی تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ 1947ء سے احتساب کا عمل شروع کیا جائے تا کہ سالوں لگ جائیں اور بادشاہ سلامت بچ جائیں جبکہ تحریک انصاف کا موقف تھا کہ احتساب بادشاہ سلامت سے شروع کیا جائے بے شک عمران خان اور ان کا خاندان بھی احتساب کی زد میں آئے۔ تحریک انصاف نے ہر آئینی حربہ اختیار کیا مگر نواز لیگ ان کو ہر موقع پر جل دیتی رہی۔

    تحریک انصاف نے رائے ونڈ جلسہ کیا تو سیاسی گرم حالات کی آنچ حکومت تک پہنچی۔ اس کے بعد دون نومبر کا اعلان ہوا۔ ملک ہیجان کی کیفیت میں چلا گیا۔ ایک صوبے کو پورے ملک سے کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ پنجاب پولیس منظم گروہ کی طرح نہتے مظاہرین پر شیلنگ کرتی رہی، لاٹھیاں برساتی رہی مگر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اپنے ہم وطن شہری نہیں بلکہ دشمن ملک کے لوگ ہیں۔ نہتے لوگوں پر ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال ہوا۔عورتوں کے بال تک نوچے گئے ۔کپتان کی اس کال کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ان کے کارکنوں نے ”نوازی فسطائیت” کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے اوپر برگر بچوں کا لگا ہوا داغ دھو ڈالا۔ا ن حالات میں سپریم کورٹ ان ایکشن ہوئی۔ وہ جو کل تک مان نہیں رہے تھے۔ سو پیاز سو جوتے کھا کر مان گئے۔ کپتان نے ایک زبردست سیاسی چال چلی اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقتور کا احتساب ہو رہا ہے۔

    تحریک انصاف کا مطالبہ ہی تلاشی لینے یا استعفے کا تھا جو سپریم کورٹ نے شروع کر دی ہے۔ عدالت روزانہ کی بنیادوں پر کیس کی سماعت کرے گی۔ پوری قوم کی نظریں عدالت عالیہ پر لگی ہوئی ہیں۔ شریف خاندان کا ماضی اتنا تابناک نہیں ۔ جسٹس سجاد علی شاہ کیس میں وہ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے تھے۔ سابق صدر پاکستان جسٹس (ر)رفیق تارڑ کو ججوں کو خریدنے کیلئے بریف کیس کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔یہ اپنا اقتدار بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

    عدالت عالیہ کیلئے تاریخی موقع ہے کہ بے رحم احتساب کرے۔ احتساب کی چھلنی سے ہر اس پھنے خان کو گزارے جس نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ سپریم کورٹ تحقیقاتی اداروں کو جھنجوڑ سکتی ہے جو خواب خرگوش میں ہیں۔ تحقیقاتی ادارے بھی عدالت عالیہ کے ساتھ پورا تعاون کریں اور وہ بے خوف ہو کر کام کریں۔ انہیں گیلانیوں، شاہوں ، قریشیوں، ٹوانوں، لغاریوں ، ترینوں، خانوں اور شریفوں کا لحاظ نہیں کرنا چاہیے کرپشن کے جو ثبوت ہیں وہ جوڈیشل کمیشن کے حوالے کریں، یہ کام ان کے لئے نیک نامی کا باعث بنے گا۔

    بادشاہ سلامت اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک کی تقدیر بدلی جائے اور آپ کا نام تاریخ میں امر ہو جائے تو بقدر کفاف وسائل اپنے پاس رکھ لیں اور باقی بحق سرکار منتقل کر دیں۔ آپ حوصلہ کریں اور حضرت علی کی طرح عدالت میں پیش ہوں کہ نہ کوئی چوبدار آپ کے ساتھ ہو اور نہ آپ کیلئے خصوصی دروازہ کھلے۔ عدالت عالیہ فیصلہ آپ کے خلاف کر دے تو آپ کے ماتھے پر شکن اور دل میں ملال نہ آئے۔
    جناب والا آپ ہمت کریں اور عمربن عبدالعزیز کی طرح اپنی اہل و عیال سے کہیں کہ بس اب بہت ہو چکا سارا مال سرکاری خزانے میں جمع کروا دیا جائے۔ جناب والا آپ حضرت عمر کی طرح یہ وصیت بھی کر دیں کہ میرے بعد ساری دنیا امیرالمومنین بن سکتی ہے مگر میرے خاندان کا کوئی فرد نہیں بن سکتا۔
    یقین کریں آپ یہ کام کر جائیں تو آپ کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ رہی بات کہ کپتان ہارا یا جیتا تو عرض کر دوں کہ وہ عدالت عالیہ میں اپنے ٹی او آرز دینے پر بضد تھے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو مان نہیں رہے تھے اب سب کچھ اچھے بچوں کی طرح کرنے پر تیار ہیں تو قارئین فیصلہ آپ کریں کہ کون ہارا اور کون جیتا؟
    پاکستان پیپلزپارٹی کی کپتان پر تنقید سمجھ میں آ رہی ہے وہ چاہتے تھے کہ کہ حالات کشیدہ ہو جائیں تو وہ حکمران جماعت سے ڈاکٹر عاصم اور ڈالر گرل ایان علی کی رہائی کا سودا کرتے مگر کپتان نے ان کے پلان پر پانی پھیر دیا۔

  • شکریہ کپتان – حسن تیمورجکھڑ

    شکریہ کپتان – حسن تیمورجکھڑ

    حسن تیمور تہمید کے طور پر میں ایک کہاوت سنانا چاہتا ہوں۔
    ایک گاؤں میں باپ بیٹا رہتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے بازارسے گدھا خریدا اور اسے لے کر پیدل گھرکی جانب چل پڑے۔ راستےمیں انہیں کچھ لوگ ملے جنہوں نے ان کامذاق اڑایا کہ دیکھو، گدھے کے ہوتے ہوئے بھی پیدل چلے جا رہے ہیں۔
    اس پر وہ دونوں باپ بیٹاگدھے پہ سوار ہوگئے۔
    کچھ دور چلے تو چند افراداور ملے، انہوں نے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا کہ دیکھو ان دو ظالم انسانوں کو جو اکٹھے ایک گدھے پر سواری کر رہے ہیں۔ یہ سن کردونوں شرمندہ ہوئے اور فیصلہ کیا کہ ایک بندہ سواری کرے گا اور ایک پیدل چلے گا۔
    باپ بیٹھا رہا، بیٹا پیدل چل پڑا۔ کچھ دور چلے تو کچھ لوگ اور ملے اور طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے بولے کہ دیکھو کیسا باپ ہے کہ خود مزے سے سواری کر رہا ہے اور بیٹا بےچارہ پیدل چلنے پہ مجبور ہے۔
    یہ سن کر باپ نیچے اترا اور بیٹے کو سوار کرا دیا۔ کچھ دور چلے تو ایک ٹولہ اور آن ملا، اور آپس میں باتیں کرنے لگا کہ دیکھو کیسا زمانہ آگیا، بزرگ باپ پیدل چل رہا ہے اور بیٹا سواری کے مزے لے رہا ہے ۔ یہ سن کر دونوں باپ بیٹا بڑا سٹپٹائے۔
    خیر انجام یہ ہوا کہ انہوں نے گدھے کو راستے میں پڑنے والی نہر میں پھینکا اور یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ اس دنیا میں لوگوں کو خوش کرنا ناممکن ہے۔

    اب آتے ہیں مدعے کی جانب۔
    میڈیامیں ہاہا کار مچی ہے کہ پٹھان ڈر گیا، کھلاڑی ہارگیا، نیازی نے ہتھیار ڈال دیے وغیرہ وغیرہ۔
    عمران خان کو آپ چاہے یوٹرن کا بادشاہ بولیں، سیاسی نابالغ بولیں، یا پھر نادان۔
    مگر میں اس فیصلے پراس کی نہ صرف تائید کرتا ہوں بلکہ خوش بھی ہوں۔
    میں پی ٹی آئی کا سپورٹر ہوں، اور ن لیگ کا حامی، پیپلزپارٹی کو پسند کرتا ہوں اور مسلم لیگ ق کامشکور ہوں۔
    ہر اس کام کے لیے جو وہ ملک کے لیے کرتے ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں قوم کی فلاح کے لیے ہو۔
    میں سخت مخالف ہوں ایسی سیاست کا جو اپنے مفاد، اپنی اولاد، اپنی جائیداد کے لیے ہو۔

    کپتان کا اسلام آباد لاک ڈاؤن کافیصلہ مجھے پہلے بھی سمجھ میں نہیں آیا اور بلاجواز سا لگا تھا۔
    شاید کپتان اپنے جارحانہ مزاج کی وجہ سے نااہل مشیروں اور سیاسی حریفوں اور حلیفوں کے لیے آسان شکار ہیں۔
    ماضی کی کئی شاندار غیر متوقع کامیابیوں نے ضرور ان کو بڑا لیڈر بنا دیا، مگر سیاسی بصیرت ایک الگ چیز ہوتی ہے۔
    کپتان نے ماضی قریب میں یکے بعد دیگرے کئی ایسی حرکات کیں (اللہ جانے کس کے کہنے پر کیں) کہ دل ٹوٹ گیا۔

    پانامہ لیکس کے معاملے پر سولو فلائٹ کی کوشش بھی ناکام رہی۔ لاہور میں مال روڈ پر دھرنا اور پھر شاہدرہ سے ہونے والی احتساب ریلی بھی ناقص حکمت عملی کے باعث ناکام رہے، اس سے سیاسی ساکھ کو اچھا خاصا دھچکا لگا۔

    خان صاحب کو شاید کسی فوجی مشیرکی معیت حاصل ہے جس کی سرشت میں جنگی جنون اور بےچینی بھری ہے۔ یہی مشیر خان صاحب کو بیٹھنے نہیں دے رہا۔ ورنہ تو ہر صاحب بصیرت کارکن، رہنما، سیاسی حلیف، رقیب، دانشور اور صحافی خان صاحب کو یہ باقی ماندہ عرصہ دھینگا مشتی کے بجائے مؤثر اپوزیشن کے ذریعے گزارنے کامشورہ دے رہے ہیں۔

    میں بھی انہی نکات کو یہاں دہرانا چاہتا ہوں کہ خان صاحب اب لیڈری چھوڑیں، اور سیاست پر آئیں۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں میں (بالخصوص پنجاب) میں مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے قومی اور عوامی معاملات پر قانون سازی میں پیش پیش رہیں۔ بھلے ان کی پیش کردہ قراردادیں اور بل اور تحریکیں منظور نہ ہوں، لیکن کم سے کم ان کی موجودگی کااحساس تو رہے، اور ووٹوں کا حق بھی کچھ ادا ہو۔

    پانامہ لیکس کو کسی کمیشن یا عدالت میں لے جا کر اسے یکسر ہی ختم نہ ہونے دیں۔ اسے اپنی طاقت کے طور پر انتخابات تک کے لیے بچا کر رکھیں تاکہ اپنے ووٹرز کے ساتھ ساتھ مخالفین کے باشعور ووٹرز کو بھی توڑ سکیں۔ (کیوں کہ کمیشن یا عدالت میں جیت حکمرانوں کی ہی ہونی ہے چاہے سو میں سے99 گواہ خلاف ہی کیوں نہ ہوں)

    عمران خان صاحب! آپ کو چاہیے کہ قومی اسمبلی میں کرپشن کو قابل گردن زنی جرم قرار دینے کا بل لائیں، چاہے منظور ہو یا نہ، مگر پارٹی کے مؤقف کو تقویت ملے گی۔ اور پھر حکومت کے اقدامات پر کڑی نظر رکھیں اور ہر موقع پر اپوزیشن کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ووٹرز بالخصوص نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے نے آپ کو اسی کام کے لیے بھیجا تھا نہ کہ آئے روز سڑکوں پہ کینٹینرز لگوانے۔

    خان صاحب اپنے زیرحکومت صوبے میں اصلاحات پر زور دیں اور ان کی برابر تشہیر بھی کرتے رہیں، تاکہ عوام میں مقبولیت نہ صرف برقرار رہے بلکہ بڑھے بھی۔ ایک اچھا اور بروقت فیصلہ آپ کو دوبارہ سیاسی مقبولیت کی اس معراج پر پہنچا سکتا ہے جس کی آپ کو تمنا ہے۔ تے دنیا دی چھڈو، یہ کبھی کسی سے خوش نہیں ہوتی۔

    (حسن تیمور جکھڑ 92 نیوز سے بطور اسائنمنٹ ایڈیٹر وابستہ ہیں)

  • پاکستانی سیاست: دھرنوں سے یوم تَشکر تک – زیڈ اے قریشی ایڈووکیٹ

    پاکستانی سیاست: دھرنوں سے یوم تَشکر تک – زیڈ اے قریشی ایڈووکیٹ

    زیڈ اے قریشی پانامہ لیکس سے معاملے کا آغاز ہوا جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے لوگوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی بہت سی نامور شخصیات اس کی زد میں آگئیں۔
    کچھ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے اعلی عہدیداران مستعفی بھی ہوئے لیکن پاکستان میں کسی نے بھی اخلاقی جُرات کا مظاہرہ نہ کیا جس کے نتیجے میں اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت وقت کے قائد اور اُن کے خاندان کے خلاف تحقیقات کا علم بلند کرنا شروع کردیا. بڑے شریف صاحب نے قوم سے خطاب میں اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی حامی تو بھرلی لیکن بعد میں ٹال مٹول سے یہ معاملہ طول پکڑتا گیا۔ کبھی ٹی آر اوز کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی، کبھی اپوزیشن اور حکومت میں ڈیڈلاک آگیا تو کبھی اعلیٰ عدلیہ سے کمیشن قائم کرنے کے لیے لکھے گئے خط میں ابہام پائے گئے، دونوں اطراف سے جو بات لیت و لعل کا باعث بنی، وہ تھی کہ ”ہمارا احتساب نہ ہو دوسروں کو بَلی چڑھایا جائے“ کیونکہ پانامہ لیکس میں دونوں اطراف سے یعنی حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف کے لوگ شامل تھے۔

    حکومت وقت یوم آزادی سے اب تک کے تمام اکابرین سیاست کا احتساب کرنا چاہتی تھی اور اپوزیشن جماعتیں فقط وزیراعظم اور اُن کے خاندان کا تو یوں معاملہ اگر دہی کا تھا تو سب اس کو مدھانی میں ڈال کر خوب لَسی بناتے رہے لیکن طرفین اس معاملے کا قانونی حل تلاش کرنے سے قاصر رہے کیونکہ موجودہ ماحولِ سیاست میں سب جماعتوں کا اصل مقصد عوام کو بےوقوف بنانا اور کسی معاملے کو بھی ”ٹرک کی بتی“ بنا کر قوم کو اُس کے پیچھے لگانا ہوتا ہے۔

    اگر کسی بھی معاملے کا آسان حل تلاش کرنا ہو، اور نیت صاف ہو تو یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، لیکن ہمارے ہاں مقصود فقط سیاسی فوائد کا حصول ہوتا ہے۔ جب کبھی بھی آزادانہ انتخابات کی بات کی جائے یا کسی بھی معاملے کی شفاف تحقیقات کی تو ہمارے سیاسی قائدین اور اَکابرِین ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں، جن سے جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے لگتے ہیں اور پھر کوئی اور معاملہ از سرِ نو ”ٹرک کی بتی“ بنا کر پوری قوم کو اُس کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔

    اگر ہم اس دھرنے کی کال کو ہی دیکھ لیں تو عوام کو ایک پارٹی نے بےوقوف بنا کر اس کام کے لیے آمادہ کیا اور سادہ لوح لوگ تیار بھی ہو گئے اور یہ بات واقعی درست ہے کہ احتجاج ہر شخص اور فرد کا بنیادی، جمہوری اور قانونی حق ہے اور کسی کے بنیادی حق کو روکنا قانوناً جُرم ہے، لیکن کسی بھی شخص کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے استعمال سے کسی دوسرے شخص یا فرد کے حقوق تَلف کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اگر ایسا معاملہ ہو تو ”Conflicts of Rights“ کی صورتحال پیدا ہوگی، جس کی وجہ سے معاشرے میں اَنارکی پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے، ایسی صورتحال سے نمٹنے کی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہاں تو اُلٹی گنگا بہتی ہے کہ حکومت کچھ لوگوں کی خاطر پورے ملک کے عوام کے بنیادی حقوق مفلوج کردیتی ہے اور انجام کیا نکلتا ہے، افراتفری اور انتشار، جیسا کہ پچھلے چند دنوں سے پورے ملک میں ہوتا رہا ہے۔

    آج سپریم کورٹ کے فیصلے کا اتنا احترام ہو رہا ہے کہ دھرنے کی کال یوم تَشکر کی تقریبات میں بدل گئی ہے اور حکومت وقت نے بھی تحقیقات کو من و عن تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے تو میرے بھی چند سوالات بنتے ہیں.
    پہلا سوال یہ ہے!
    کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ماننا آپ کے لیے جائز نہیں تھا، صاحب اقتدار اور صاحب اغیار؟ میں عدالتی فیصلے کے قانونی پہلوؤں کی طرف ہرگز نہیں جاؤں گا کیونکہ انصافیوں نے دھرنے کی کال واپس لی تھی نہ حکومت وقت نے شاہراہیں کھلی رکھنے کے احکامات مانے تھے بلکہ دونوں اطراف نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے صوبائی تعصب کو پروان چڑھایا اور عدالتی فیصلے کی دھجیاں اُڑائیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔
    دوسرا سوال!
    اگر آپ نے عدالتی احکامات کو من و عن تسلیم کرنا ہی تھا تو یہ سب ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت تھی، پہلے ہی صبر کر لیتے کیونکہ آپ سپریم کورٹ میں کیس تو فائل کر چکے تھے اور تاریخ بھی مقرر ہوچکی تھی ۔
    تیسرا سوال!
    اگر عدالت یا عدالتی کمیشن اپنا فیصلہ سناتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ دونوں حریف فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے، جبکہ اصغر خان کیس پر عملدرآمد آج تک نہیں ہوا اور بھی بہت سے عدالتی فیصلوں پر آپ ہی لوگوں نے اُنگلیاں اُٹھائی ہیں۔
    وغیرہ وغیرہ۔

    میں دراصل اس سارے معاملے سے ایک ہی بات سمجھ سکا ہوں کہ ”یہ ہے پاکستانی سیاست“ اب یہ سمجھنے کی بات ہے کہ دراصل پاکستانی سیاست ہے کیا؟
    یہ وہ سیاست ہے، جس میں NRO بھی کبھی جائز ہوجاتے ہیں اور کبھی کوئی بھی معاہدہ یا بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ عوام کو ہمیشہ کسی نہ کسی ”ٹرک کی بتی“ کے پیچھے لگا کر اپنی سیاست چمکانا اور اپنے مذموم مقاصد کا حصول ہی سیاستدانوں کی سیاست ہے، ہماری بدقسمتی ہے، کہ ہماری قوم کی یادداشت بہت کمزور ہے اور ہمیشہ ہم بہت جلد اِن کی پرانی کارروائیوں کو بھول کر پھر پاکستانی سیاستدانوں کی ہمدردی میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ہمیشہ عوام کا مقدر رسوائی ہی ہوتا ہے۔

  • دھرنا ہوگا، لوگ مریں گے – حسن تیمورجکھڑ

    دھرنا ہوگا، لوگ مریں گے – حسن تیمورجکھڑ

    حسن تیمور دھرنے ہوں گے، مرنے ہوں‌گے۔
    جلسے ہوں گے، جلوس نکلیں گے۔
    ریلیاں چلیں گی، پوسٹر لگیں گے۔
    بینرز سجیں گے، کتبے اٹھیں گے۔
    لوگ مریں گے۔

    دفاتر پہ تالہ ہوگا، کارخانےنہیں چلیں گے۔
    روزگار سکڑے گا، بھوکا سسکےگا۔
    مزدور مریں گے۔

    رستے بند ہوں گے۔
    سڑکوں پہ فولادی دیواریں کھڑی ہوں گی۔ خاردارتاریں بچھیں گی۔
    انسانی زنجیریں روکیں گی۔
    کسی کامستقبل داؤ پہ لگے گا توکسی کی زندگی۔
    ایمبولینس نہیں چلے گی، مریض مریں گے۔

    طاقت کے ہوتے خاموش رہنا مشکل ہے۔
    طاقت ابھرے گی۔ وحشت ناچے گی۔
    ہنگامے ہونگے۔ لاٹھی چلے گی۔
    لوگ مریں گے۔

    ہجوم ہوگا۔ مظاہرین بپھریں گے۔
    املاک ٹوٹیں گی۔ دروازے اکھڑیں گے۔ آگ لگے گی۔
    لوگ مریں گے۔

    ہلچل مچےگی۔ ایوان ہلیں گے۔
    برج الٹیں گے۔ پانسے پلٹیں گے۔
    لوگ مریں گے۔

    ملک جلے گا۔ تماشہ بنے گا۔
    صوبے لڑیں گے۔ ریاست بکھرے گی۔ دنیا ہنسے گی۔
    لوگ مریں گے۔

    تجارت رکے گی۔ معیشت دبے گی۔
    رویپہ گرے گا۔ مہنگائی بڑھے گی۔ غربت ڈسے گی۔
    لوگ مریں گے۔

    تعلیم روٹھے گی۔ صحت بگڑے گی۔
    کھیل چھوٹیں گے۔ روگ پھوٹیں گے۔
    رونقیں ڈوبیں گی۔ اندھیرے چھائیں گے۔
    لوگ مرجائیں گے۔

    سیاست بدلے گی۔ نفرت بڑھے گی۔
    برداشت گھٹے گی۔ روایت پڑے گی۔ سلسلے چلیں گے۔
    لوگ مریں گے۔

    برائی پھیلے گی۔ دوزخ دہکے گی۔
    ابلیسیت ناچے گی۔۔ آدمیت کانپے گی۔
    لوگ مریں گے۔

    انا نکلے گی۔ انااکڑے گی۔
    انا للکارے گی۔ انا دھتکارے گی۔
    انا بپھرے گی۔ اناپھنکارےگی۔
    دونوں بچیں گے۔ لوگ مریں گے۔
    (حسن تیمور جکھڑ دس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، 92 نیوز میں اسائنمنٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں)

  • ریاست کا بیانیہ اور اسلام آباد دھرنا – محمد تنویر اعوان

    ریاست کا بیانیہ اور اسلام آباد دھرنا – محمد تنویر اعوان

    تنویر اعوان اگرآپ تاریخ کا جائزہ لیں تو حیران ہوجائیں گے کہ برصغیر مختلف قوموں کا دیس تھا ۔جن کی ثقافت،مذہب،رنگ ونسل،زبان ایک دوسرے سے مختلف تھی۔جب انگریز آیا تو اس نے اسی چیز کا فائدہ اٹھا کرلوگوں کو تقسیم کیا اور اپنی حکومت کی راہ ہموارکی۔چونکہ مسلمانوں سے اقتدارچھیناگیا اس لئے مسلمانوں کو ہی معتوب ٹھرایاگیا اور ہندوؤں سے راہ رسم بڑھائی گئی۔ہندو بھی اسی موقع کی تلاش میں تھے کیوں کہ حکمران کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہوں ہندوؤں کو کسی صورت کسی مسلمان کی حکمرانی گوارہ نہ تھی۔شاید ہندوصدیوں سے اسی انتظار میں تھے کہ کب انہیں مسلمانوں کی حکمرانی سے نجات ملے اورانگریز کی صورت میں انہیں یہ موقع میسرآہی گیا۔ہندو انگریز گٹھ جوڑ نے مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کیا۔مسلمانوں پر سرکاری نوکریوں کے دروازے تقریباً بند تھے اور57ء کی جنگ آذادی کے بعد تو مسلمان ہوناہی ہندوستان کے مسلمانوں کا جرم بن گیا۔
    بہرحال ہم سانحات کا زکر کریں گے تو بات طویل ہوجائے گی۔کوئی ایسا ظلم نہ تھا جو مسلمانوں پر نہ کیا گیا ہو۔اس کے باوجودمسلمان ہندوؤں کیساتھ مل کر جہدوجہدکرنا چاہتے تھے متحدہ ہندوستان میں ہی رہنا چاہتے تھے۔باوجود اس کے کہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔مسلمانوں نے حتی الامکان کوشش بھی کی لیکن ہندومسلمانوں کی برداشت کرنے کو قطعاً تیار نہیں تھے ۔پے درپے ایسے واقعات ہوئے کہ مسلمانوں کے دل میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا کہ ہندوہمارے دوست نہیں ہیں اور انگریز چلا بھی جاتا ہے تو ہندو ہمیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔اب صورتحال گمبھیر تھی لیکن اب تک کوئی ایسی راہ سجھائی نہ دے رہی تھی کہ کیسے آذادی حاصل کی جائے اورایسا سوچنا سودمند بھی ہوگا کہ نہیں کیوں کہ 57کی جنگ اذادی کے اثرات مسلمانوں کے سامنے تھے ۔یہ جنگ ہندومسلم نے ملکر لڑی تھی لیکن سزا مسلمانوں کو ہی ملی ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہندوبظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے لیکن درپردہ ان کے انگریز سے روابط تھے۔

    اس مشکل صورتحال میں سرسیداحمد خان نے دو قومی نظریہ پیش کرکے مسلمانوں کوایک راہ دکھادی۔اور پھر برصغیر کے طول وعرض میں “تیرامیرارشتہ کیا۔ لاالہ الااللہ “کے نعرے گونجنے لگے۔پاکستان کا مطلب کیا ۔لاالہ الااللہ کے نعروں کی صدائیں بلند ہونے لگی۔جب ایسا ہوا تو وہ جوکہ قوم اسلام کی ماننے والی تھی لیکن لوگ رنگ و نسل،زبان ،قومیت،ثقافت میں مختلف تھے۔وہ اسلام کے نام پر ایک ہوجاتے ہیں۔گویا کہ 57کی جنگ آذادی کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ صرف آذادی کیلئے لڑی گئی تھی۔لہذاپوری قوم اس میں شریک نہ تھی ۔یہاں معاملہ اسلام کا تھا ۔مسلمانان ہند ایک ہوئے۔اس دوران کوئی ایسا اجلاس نہیں ہے کوئی ایسا جلسہ نہیں ہے جہاں لفظ مسلمان نہ استعمال ہوا ہو۔درجنوں مثالیں موجود ہیں۔چاہے23مارچ1940ء کی قراردادپاکستان کو ہی اٹھاکردیکھ لیں۔مسلمانان ہند نے اسلام کے نام پر بالآخر پاکستان جیسا وطن حاصل کرہی لیا۔مختلف زبانیں بولنے والے اسلام کے نام پر ایک قوم بن گئے۔

    اب ملین ڈالر کاسوال ہے کہ کیا پاکستان بننے کے بعد اسلامی نظام نافذ کیا گیا؟۔بالکل بھی نہیں یہاں پر بھی انگریز کے غلام جاگیرداروں اور وڈیروں نے پس پردہ رہ کر حکومتی باگ ڈورسنبھال لی۔قائد اعظم کو بھی یہ فرمانا پڑ گیا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔قائداعظم کی پرسرارموت اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔کچھ قوتیں اسلام کے نفاذ میں نہ صرف رکاوٹ تھیں بلکہ ایسا کرنے کی کوشش کرنے والوں کو راہ سے ہی ہٹا دیا گیا۔شہید ملت لیاقت علی خان کا وقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

    اب انگریز کے غلاموں کو خدشہ تھا کہ جب یہ قوم انگریز کے خلاف کھڑی ہوسکتی ہے ہندوؤں کے خلا ف کھڑی ہوسکتی ہے۔تو ہمارے جاگیردارانہ سمراج کے خلاف بھی کھڑی ہوسکتی ہے۔لہذاوہی تقسیم کرواورحکومت کروکی انگریز والی پالیسی استعمال کی گئی ۔مسلمانوں میں فرقہ واریت کو مہمیز دی گئی۔صرف اسلام کا تعلق ہی ان میں بھائی چارے کو قائم رکھ سکتا تھا۔اب جب کہ وہ بنیاد جس پر مسلمان ایک ہوئے تھے اس بنیاد کو ہی توڑنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ ہوا کہ وہ لوگ جو مختلف قومیت، لسانیت، رنگ ونسل اور زبان کے حامل تھے اور صرف اسلام کے نام پر ایک ہوئے تھے۔ ان میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ کچھ عالمی طاقتوں اورکچھ ہمارے ناعاقبت اندیش رہنماؤں کی مہربانی ہے کہ پاکستان میں ہی مہاجر، پٹھان، سندھی، بلوچی کی اصطلاح عام ہوگئی۔ یہ حالات بگڑتے چلے گئے۔ فرقہ وارانہ قتل ہوئے۔ لسانیت کی بنیاد پر قتل ہوئے۔ قومیت رنگ ونسل اور زبان کی بنیادپر بھی فساد ہوئے۔

    ان سب عوامل کے نتیجے میں عوام اپنے بنیادی حقوق بھول گئی۔اب کوئی بھی صوبہ ترقی کرے تو باقی صوبوں کی عوام بجائے اپنے صوبے کے حکمرانوں سے حساب لینے کے دوسرے صوبے کی ترقی پر شبہات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔یعنی کہ قوم کو باہم دست و گریبان کردیا گیا ہے ہر دور میں یہ اصطلاح مختلف رہی ہے کہ کبھی جیالے اور جماعتی ٹکراتے تھے۔پھرمہاجراورپٹھا ن ٹکرائے۔پنجابی اور بلوچی میں نفرت کو پروان چڑھایاگیا۔ایسی درجنوں مثال ہیں یہ تعصب برسوں کی محنت سے ممکن ہواہے۔

    ان سب مسائل کا حل ممکن ہے لیکن اس کے لئے اسلام کو نافذ کرنا ہوگا۔ہمارا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی اسلام سے دوری ہے تاریخ ثابت کرچکی ہے ہمارا حال گواہی دے رہا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی چلتا ہو یہاں پراسلام کے نظام کے سواکچھ نہیں چل سکتا۔گو کہہ ہم کہتے ہیں کہ انسان کا اصل مسئلہ روٹی کپڑا اورمکان ہے ماضی میں ایسا باور بھی کرایاگیا لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی والے جو کہ پڑھے لکھے بھی ہیں تفرقہ بازی سے بھی پاک ہیں ایمانداراوردیانتدار بھی ہیں۔قوم کی قیادت کی اہلیت بھی رکھتے ہیں ۔اپنی جماعت کے اندرمکمل اسلامی شورائی جمہوریت کا نظام بھی رکھتے ہیں۔انہیں روٹی کپڑا مکان کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اس کے باجود اسلامی نظام کی ہی بات کرتے ہیں ۔دوسری طرف عمران خان ہے جس کے ساتھ بھی پڑھے لکھے ہرطبقے کے لوگ ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلامی فلاحی مملکت ہو یہ نظام کرپٹ ہے اس میں کسی کا احتساب ممکن نہیں ہے۔تو ہم ماننے پر مجبور ہیں کہ مسئلہ نظام میں ہے اگر نظام ٹھیک ہوگا تو ہی لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان میسر ہوگا۔

    یہاں ایک ایسا طبقہ بھی پایا جاتا ہے جسے اسلام سے خدا واسطے کا بیر ہے وہ پاکستان کے ہرمسئلے کا ذمہ دار اسلام کو ہی سمجھتا ہے ۔اس طبقے کے بقول ہمیں متبادل نظام کی طرف جاناچاہیے یہ بھی مانتا ہے کہ موجودہ نظام خراب ہے۔لیکن رٹ وہی ہے کہ ذمہ داری مولوی ہے۔ایک بازگشت جو ہمیں عرصے سے سنائی دے رہی ہے ماضی میں بہت شدت سے ابھری تھی لیکن سامنے جو لوگ تھے وہ فولاد تھے ا نہوں نے دلائل کے انبارمیں کہیں دفن کردیا تھا اب پھر راکھ سے چنگاریاں اڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔متبادل بیانیہ پیش کیا جارہا ہے کہ مذہبی ریاست ناکام ہوچکی ہے۔حالانکہ کوئی بتائے تو پاکستان میں کب مذہب نافذ ہواہے ؟ کب اہل مذہب حکمران ہوئے ہیں ؟پاکستان اسلام کے نام پر ضرور بنا لیکن اسلام کو تو کبھی آنے ہی نہیں دیا گیا کیوں کہ اسلام اندھی تقلید کادرس نہیں دیتا اسلام دلائل سے بات کرتا ہے اسلام حقوق کی بات کرتا ہے، اسلام انسانیت کادرس دیتا ہے۔ یقیناًانسایت کا لبادہ اوڑھے یہ طبقہ ایسے اسلام کو قبول نہیں کرسکتا جو کہ ایک غریب کے بچے کو بھی ان کے برابر لا کھڑا کرے اور کہے کہ تم دونوں برابر ہو۔ ان کا بنیادی مسئلہ اسلام ہے، چاہے وہ جماعت اسلامی کی صورت میں پڑھالکھا ماڈرن مسلمان ہو چاہے جمعیت علمائے اسلام کی صورت میں مدارس سے پڑھا لکھا ماڈرن مولوی ہوچاہے وہ فیضان مدینہ سے فارغ التحصیل کیوں نہ ہو، یہ طبقہ کسی صورت اسلام کو قبولنے کو تیار نہیں ہے۔

    آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ طبقہ اور حکمران اسلام کا نفاذ نہیں چاہتے۔کچھ مثالوں کے ذریعے ان وجوہات کا احاطہ کرتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ میں دیکھیں تو خلیفہ وقت کھڑے ہوتے ہیں تو ایک شخص کہتا ہے کہ ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے جب تک آپ اپنے کُرتے کے اضافی کپڑے کی بابت نہ بتادیں ۔اور خلیفہ وقت کو بھرے مجمعے میں جواب دینا پڑتا ہے اسے مطمئن کرنا پرتاہے۔یہی خلیفہ وقت کہتے ہیں کہ اگر دجلہ کے کنارے بھوک سے کتا بھی مر گیا تو حساب عمر سے ہوگا۔جی ہاں تاریخ انہیں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے۔داماد رسول شیر خداحضرت علی رضی اللہ عنہ جب عدالت میں حاضر ہوتے ہیں فیصلہ ان کے خلاف اورایک یہودی کے حق میں سنایا جاتا ہے اور باوجود حق پر ہونے کے حضرت علی رضی اللہ عنہ فیصلہ قبول کرلیتے ہیں ۔یہ اسلام کا عدل ہے جو کہ ایسی ان گنت مثالوں سے بھرا پڑا ہے حکمرانوں کو معلوم ہے کہ اسلام نافذ ہوا تو اسلامی نصاب بھی دینا پڑے گا اور جب مسلمان اپنی تاریخ پڑھیں گے تو سوال بھی کریں گے ۔پھر عام عوام کی حکمرانی ہوگی ہم سے حکمرانی چھن جائے گی پھر ہم عوام کے خادم ہوں گے جنہیں ہم کمی کمین کہتے ہیں وہ اصل حکمران ہوں گے۔اسی لئے انہوں نے اسلام سے ہی ان لوگوں کو دور کردیا اور روٹی کپڑا اور مکان میں لگادیا ۔حالانکہ یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے جسے ادا کرکے وہ کوئی احسان نہیں کرتی۔

    تعلیم سے ناآشناں میرے دیس کی عوام شعور سے بھی اتنی ہی دور ہے جتنا قطب شمالی قطب جنوبی سے دور ہے۔ہمیں ہمارے حقوق کا علم نہیں ہے۔کسی نے کبھی بھی ہمیں ہمارے حقوق کے بارے میں نہیں بتایا۔مولانامودودی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑی کوشش کی کہ لوگوں کو قرآن کی طرف لیکر آئیں لیکن لوگ بھٹو کے روٹی کپڑا اورمکان کے پیچھے بھاگے۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے ہم بجلی کے تار،گلی کی نالی،سڑک پکی کرانے،پانی کی ٹنکی بنانے کے بدلے ووٹ دیتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے کام بھی کروایاہے۔ارے بھائی یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے یہ ہی سب تو کرنا ہوتا ہے۔اس میں کوئی خاص کام کیا ہوتو بات بنتی ہے۔لیکن حقوق کے متعلق شعور نہ ہونے سے ایسا ہی ہے۔پھر ہمارے ٹیکس کے پیسے سوئزرلینڈ میں پڑے ہیں ۔پہلے تو ہم کہا کرتے تھے کہ اپنا کیا جاتا ہے۔لیکن عمران خان نے ماحول بدل دیا ہے ۔خان نے لوگوں کو بتادیا ہے کہ تمہارے یہ حقوق ہیں تمہارا پیسہ باہر کے ممالک میں ہے۔لوگ صحیح کہتے ہیں کہ اس بندے کوسیاست نہیں آتی ۔کیونکہ اس سے پہلے جنہیں یہ سب پتا ہوتا تھا وہ مک مکا کرلیتے تھے۔آدھے تیرے آدھے میرے ۔لیکن یہاں عمران خان سب کچہ چٹھہ عوام کے سامنے لے آیا۔اب عوام میں ایک شعوربیدار ہوا ہے۔اب لوگ رسیدیں مانگنے لگ گئے ہیں ۔ اسلام آباد میں کچھ ہو نہ ہو۔عوامی شعور میں اضافہ ضرور ہوگا۔

    آخری بات اتنی سی ہے کہ اسلام آباد بند کرنے سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوگی۔ اس کے لئے اسٹریٹ پاور درکار ہے، ماضی میں جماعت اسلامی نے اس کا مظاہر ہ بھی کیا جہاں قاضی حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ماریں کھائیں، ہر گلی چوراہے پر جماعتیوں نے ڈنڈے کھائے۔ جس سے امن ومان کی صورتحال خراب ہوئی لیکن اب ایسا نہیں ہے تحریک انصاف مقبول جماعت بہت ہے لیکن یہاں نظریاتی لوگ کم ہیں ۔ایسا مشکل ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان آنسو گیس کی شیلنگ اورربڑ کی گولیوں کا سامنا کرپائیں۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ پختونخوا کے نوجوان جو کہ زبان کے معاملے میں اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں زبان کے پکے اور کھرے ہوتے ہیں ۔تو پشتون کارکنان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور مذاحمت کریں جس کے نتیجے میں امن و مان کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عمران خان کا مقصد صرف شعور کی بیداری ہے۔عمران خان کا ہرجلسہ لوگوں کو اپنے حقوق سے متعلق نئی معلومات دیتا ہے۔اسی طرح یہ دھرنا بھی پرامن انداز اختتام پذیر ہوگا، اگر حکومت نے بوکھلاہٹ میں خود ہی جمہوریت ڈی ریل کروا کر سیاسی شہید بننے کی کوشش نہ کی توکچھ بھی نہیں ہوگا۔

  • دو نومبر، تلاشی، استعفی یا پھر ناکامی – سید انور محمود

    دو نومبر، تلاشی، استعفی یا پھر ناکامی – سید انور محمود

    انور محمود دو نومبر کو کیا ہوگا؟ بظاہر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسلام آباد کا گھیراؤ کریں گے، اسلام آباد میں کاروبار زندگی بند کریں گے اور وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کا نام پاناما لیکس میں آنے کی وجہ سے انکے خلاف مظاہرہ کریں گے۔ 24 اکتوبر کو سخاکوٹ ملاکنڈ میں پارٹی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کشتیاں جلاکر اسلام آباد جارہے ہیں، ہمارا مقابلہ کرپشن کے شہنشاہ نواز شریف سے ہے۔ کرپشن ٹولے کے جعلی کھلاڑیوں میں ایزی لوڈ اسفند یار، کرپٹ زرداری، فضل الرحمن، اچکزئی، شو باز، امیر مقام، اکرم درانی شامل ہیں۔ دو نومبر کو اسلام آباد میں دس لاکھ افراد جمع ہونگے (نوٹ: دس لاکھ افراد جمع کرنے کا دعوی عمران خان نے 2014 کے دھرنے سے پہلے بھی کیا تھا جس میں وہ ناکام رہے تھے) اور اتنی تعداد میں عوام جمع ہونے کے بعد نواز شریف خود یا تو تلاشی دیں گے یا مستعفی ہوجائیں گے۔ عمران خان نے نواز شریف پر ایک بہت ہی خطرناک الزام یہ بھی لگایا کہ ’’جب بھی نواز شریف پر کوئی دباؤ پڑتا ہے، کنٹرول لائن پر ماحول گرم ہوجاتا ہے، وزیراعظم خود کو اور اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے بھارتی و اسرائیلی لابی سے اپیلیں کررہے ہیں۔‘‘

    حزب اختلاف کی جماعتیں وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کا نام پاناما پیپرز میں آنے کے بعد سے ان سے اپنی پوزیشن صاف کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں تاہم نواز شریف حزب اختلاف کی جماعتوں کا کوئی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس ضمن میں ملک بھر میں تحریک احتساب بھی شروع کر رکھی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دو نومبر2016ء کو اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد جاکر اس کو بند کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی 2014ء میں عمران خان نے علامہ طاہر القادی کے ساتھ ملکر 14 اگست 2014ء کواسلام آباد کا گھیراؤ کیا تھا اور 126 دن کا دھرنا دیا تھا۔ یہ دھرنا شاید اور چلتا لیکن 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں 132 بچوں سمیت 148 افراد مارے گئے جس کی وجہ سے عمران خان نےاپنا دھرنا ختم کردیا تھا۔ اگست 2014ء سے دسمبر 2014ء تک عمران خان کا سارا احتجاج یا اسلام آباد میں دھرنا 11مئی 2013 کےانتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تھا۔

    نواز شریف کابینہ کےوزرا جو ماہانہ آٹھ کروڑ روپے سے زیادہ تنخواہ تو سرکاری خزانے سے لیتے ہیں لیکن نوکری نواز شریف اور انکے اہل خانہ کی کرتے ہیں، حسب دستوروفاقی وزیر اطلات پرویز رشید سمیت وفاقی وزرا خواجہ آصف، عابد شیرعلی، خواجہ سعد رفیق، اسحاق ڈار، احسن اقبال،چوہدری نثار علی خان، محمد زبیر، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، صوبائی وزیر قانون راناثنا اللہ، ممبرقومی اسمبلی دانیال عزیز،سینیٹر نہال ہاشمی، مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری اور طارق فضل چوہدری کریز پر موجود ہیں اور نواز شریف کو بچانے کےلیے صبح سے شام تک کسی نہ کسی صورت میں عمران خان کے خلاف الزامات پر الزامات لگاتے ہیں، سب سے زیادہ شوکت خانم ہسپتال کے مالی معاملات کے بارئے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس میں دھاندلی کیں گیں ہیں، پہلے یہ الزام ممبرقومی اسمبلی دانیال عزیز نے لگائے تھے اب وہی الزام وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار لگارہے ہیں جبکہ پاناما پیپرز اورشوکت خانم ہسپتال کے مالی معاملات دو علیدہ کیس ہیں، ابھی تو نواز شریف کو پاناما پیپرز کا جواب دینا لازمی ہے۔

    نواز شریف کومزید سیاسی توانائی دینے کے لیے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کےسربراہ محمود خان اچکزئی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان موجود ہیں، اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما اورقائد حزب اختلاف خورشیدشاہ نے نواز شریف کو عمران خان کی جارحانہ بولنگ سے بچانے کی امید دلائی ہے۔ خورشیدشاہ کا کچھ دن پہلے فرمانا تھا کہ عمران خان کا اسلام آباد بند کرنا غیر آئینی ہے۔ جبکہ جاپان میں موجود مسلم لیگ ن کے سیکریٹری اطلاعات مشاہداللہ خان کا کہناتھا کہ عمران خان کا اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان اقدام بغاوت ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاناما کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد مظاہرےکاکوئی جواز نہیں، اسلام آباد بند کرنےکا اعلان عوام اور ملک کے ساتھ دشمنی ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمان نے ایک ملاقات کے بعد فرمایا کہ ان کے خیال میں‘‘اسلام آباد بند کرنے کا اعلان غیر جمہوری اورغیر آئینی ہے۔ تو پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوازشریف کا پاناما پیپرز کا معاملہ لٹکائے رکھنا اور اسپیکر قومی اسمبلی کو اس معاملے میں اپنے حق میں استمال کرنا کیا غیر جمہوری اورغیر آئینی نہیں ہے؟۔

    وزیر اعظم نواز شریف اپنے خلاف اس صورت حال کو اپنے انداز سےکنٹرول کرتے ہوئےنظر آئے۔ گذشتہ دنوں وہ کئی کئی گھنٹوں پرمشتمل پے درپے ملاقاتیں کررہے تھے، پانچ روز میں پانچ بڑے اجلاس ہوئے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے گذشتہ تین سال میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ جس وقت ملک کو قومی اتحاد کی ضرورت ہے، ملک سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، اپوزیشن لیڈرعمران خان نے کشمیر کے مسئلے پر پارلیمنٹ کے دو روزہ مشترکہ اجلاس کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کردیا کہ ‘میں نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں مانتا وہ ایک کرپٹ شخص ہے۔ میں ایک کرپٹ شخص کی بلائی گئی کسی بھی کانفرنس اور مشترکا پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کر کے اس کے ہاتھ مضبوط نہیں کرنا چاہتا۔ وہ کشمیر کی آڑ میں پاناما پیپرز میں بیان کیے گئے الزامات سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں’۔نوازشریف اور عمران خان دونوں کا دعویٰ تو یہی ہے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، کشمیری قوم بھارتی فوج سے لڑ رہی ہے جبکہ نوازشریف اور عمران خان ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ دونوں کے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے سے ذاتی طور پرنفرت کشمیریوں سےہمدردی پر غالب آگئی ہے۔

    نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ’’وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا پختہ ارادہ ہے کہ اپوزیشن سیاستدان عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے وہ تمام احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہر صورت میں روک دیے جائیں گے، جن کے ذریعے اسلام کو بند کرانے کی کوشش کی جائے گی جبکہ تحریک انصاف اپنے احتجاج کے ساتھ اسلام آباد میں حکومتی دفاتر اور ٹرانسپورٹ کو بند کرا دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘‘ پاکستان کے اندر اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، نہ حکومت عمران خان کا کوئی مطالبہ ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی عمران خان حکومت کو کوئی رعایت دینے کو تیار ہیں۔ کسی بھی طرح کےپرتشدد یا آئین سے ہٹ کرکوئی بھی عمل ملک کےلیے نقصان دہ ہوگا۔ دو نومبر کو کیا ہوگا یہ تو دو نومبر کو ہی پتہ چلےگا کہ نواز شریف نےتلاشی دی یا استعفیٰ یا عمران خان کو 2014 کے دھرنے کی طرح پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ایک ایسے وقت جب ہمارئے سیاست دانوں کوقومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ آپس میں لڑرہے ہیں ، کیا اس طرح ہمارا موجودہ سیاسی نظام باقی رہ پائے گا؟

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا عجیب و غریب فیصلہ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    اسلام آباد ہائیکورٹ کا عجیب و غریب فیصلہ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق قانون کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کا فیصلہ (ان کے کئی دیگر فیصلوں کی طرح) میری سمجھ سے باہر ہے۔
    اسلام آباد میں ممکنہ طور پر ہونے والے دھرنے کے خلاف تین ایک ہی طرح کی رٹ پٹیشنز اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں۔

    پہلا دل چسپ کام تو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے آفس نے کیا کہ یہ تین پٹیشنز تین مختلف ججز صاحبان کے سامنے لگا دیں۔

    پہلی پٹیشن جسٹس عامر فاروق صاحب کی عدالت میں آئی۔ پٹیشنز ان کو قائل نہیں کرسکے کہ اس معاملے میں عدالت کو حکم نامہ (رٹ) جاری کرنا چاہیے کیونکہ رٹ ”غیر معمولی دادرسی“ (extraordinary remedy) سمجھی جاتی ہے جو صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے جب عام قانونی راستے کھلے نہ ہوں۔ مزید یہ کہ عام طور پر دادرسی تب دی جاتی ہے جب کسی کے قانونی حق کی خلاف ورزی ہو۔ خلاف ورزی سے قبل محض اس اندیشے پر، کہ خلاف ورزی ہوجائے گی، ”پیش بندی پر مشتمل دادرسی“ (anticipatory relief) نہیں دی جاتی۔ علاوہ ازیں عام قانونی حقوق کی خلاف ورزی پر بھی رٹ نہیں جاری کی جاتی جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ دستور میں مذکور ”بنیادی حقوق“ (Fundamental Rights) میں سے کسی کی خلاف ورزی ہوئی ہے، یا اس کی خلاف ورزی کا قوی اندیشہ ہے۔ جسٹس صاحب نے انھی امور کی وجہ سے پٹیشنر کو اسلام آباد کے چیف کمشنر کے دفتر سے رجوع کا حکم دے کر پٹیشن کو چیف کمشنر کے سامنے درخواست میں تبدیل کرکے چیف کمشنر کو حکم دیا کہ اس پر جلد فیصلہ سنا دیں۔
    میرے نزدیک قانونی اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلہ بالکل صحیح تھا۔

    دوسری پٹیشن جسٹس محسن کیانی صاحب کے سامنے آئی۔ انھوں نے اس بنیاد پر اس پٹیشن پر فیصلے سے معذوری ظاہر کی کہ جب اسی نوعیت کی ایک پٹیشن جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں زیر التوا ہے تو اسی عدالت کا دوسرا بنچ کیسے اس کی سماعت کرسکتا ہے؟ انھوں نے کیس واپس چیف جسٹس کی طرف بھیجا کہ اسے بھی جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں ہی لگادیا جائے۔
    میری رائے میں قانونی اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی بالکل صحیح تھا۔ تاہم چیف جسٹس صاحب کے آفس نے اس پٹیشن پر سات نومبر کی تاریخ دی! اس کی وجہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے!۔ بہرحال اس پٹیشن پر فیصلہ ابھی باقی ہے۔

    تیسری پٹیشن، جو پہلی پٹیشن کے تقریباً ہفتے بعد دائر کی گئی ہے، وہ آئی جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کی عدالت میں جو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چودھری صاحب کو آئیڈیلائز کرتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ وہ تمام قانونی اصول نظر انداز کیے جو جسٹس عامر فاروق کے فیصلے کی بنیاد بنے، بلکہ انھوں نے قانون کا وہ بنیادی اصول بھی نظرانداز کردیا جس کی بنا پر جسٹس محسن کیانی نے اس دوسری پٹیشن کی سماعت سے انکار کیا تھا۔ مزید یہ کہ پٹیشنر نے جو ریلیف مانگا، وہ سارا کا سارا جسٹس صدیقی صاحب نے دے دیا۔
    قانون اور دستور کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے مجھے کہنے دیں کہ یہ فیصلہ کسی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ قانونی پوزیشن یہ تھی کہ ایک ہی نوعیت کی پٹیشنز کو ایک ہی بنچ کے سامنے آنا چاہیے تھا۔ مزید یہ کہ جب ایک ہی عدالت کے دو سنگل بنچوں نے دو متصادم فیصلے سنائے ہیں تو اب لازم ہوگیا ہے کہ اسی عدالت کا بڑا بنچ (ڈویژن بنچ جو دو ججوں پر مشتمل ہوتا ہے) ان فیصلوں کے خلاف اپیل کی اکٹھے سماعت کرے۔ چنانچہ سپریم کورٹ میں اپیل سے قبل اس وقت ”انٹرا کورٹ اپیل“ کا راستہ کھلا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے بڑے بنچ میں اپیل کی جانی چاہیے۔ اپیل کرنا یا نہ کرنا تو متاثرہ فریق کا معاملہ ہے۔

    قانون کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے جج صاحبان جوش اور جذبے میں آ کر قانونی اصول بھول جاتے ہیں۔ ایک ہی عدالت کے دو بنچ ایک ہی معاملے میں ایک دوسرے کے 180 ڈگری مخالف فیصلے دیں تو بدگمانیوں کے لیے تو گنجائش پیدا ہو ہی جاتی ہے، بالخصوص جب قانون کے بنیادی اصولوں کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔