قانون کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کا فیصلہ (ان کے کئی دیگر فیصلوں کی طرح) میری سمجھ سے باہر ہے۔
اسلام آباد میں ممکنہ طور پر ہونے والے دھرنے کے خلاف تین ایک ہی طرح کی رٹ پٹیشنز اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں۔
پہلا دل چسپ کام تو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے آفس نے کیا کہ یہ تین پٹیشنز تین مختلف ججز صاحبان کے سامنے لگا دیں۔
پہلی پٹیشن جسٹس عامر فاروق صاحب کی عدالت میں آئی۔ پٹیشنز ان کو قائل نہیں کرسکے کہ اس معاملے میں عدالت کو حکم نامہ (رٹ) جاری کرنا چاہیے کیونکہ رٹ ”غیر معمولی دادرسی“ (extraordinary remedy) سمجھی جاتی ہے جو صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے جب عام قانونی راستے کھلے نہ ہوں۔ مزید یہ کہ عام طور پر دادرسی تب دی جاتی ہے جب کسی کے قانونی حق کی خلاف ورزی ہو۔ خلاف ورزی سے قبل محض اس اندیشے پر، کہ خلاف ورزی ہوجائے گی، ”پیش بندی پر مشتمل دادرسی“ (anticipatory relief) نہیں دی جاتی۔ علاوہ ازیں عام قانونی حقوق کی خلاف ورزی پر بھی رٹ نہیں جاری کی جاتی جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ دستور میں مذکور ”بنیادی حقوق“ (Fundamental Rights) میں سے کسی کی خلاف ورزی ہوئی ہے، یا اس کی خلاف ورزی کا قوی اندیشہ ہے۔ جسٹس صاحب نے انھی امور کی وجہ سے پٹیشنر کو اسلام آباد کے چیف کمشنر کے دفتر سے رجوع کا حکم دے کر پٹیشن کو چیف کمشنر کے سامنے درخواست میں تبدیل کرکے چیف کمشنر کو حکم دیا کہ اس پر جلد فیصلہ سنا دیں۔
میرے نزدیک قانونی اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلہ بالکل صحیح تھا۔
دوسری پٹیشن جسٹس محسن کیانی صاحب کے سامنے آئی۔ انھوں نے اس بنیاد پر اس پٹیشن پر فیصلے سے معذوری ظاہر کی کہ جب اسی نوعیت کی ایک پٹیشن جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں زیر التوا ہے تو اسی عدالت کا دوسرا بنچ کیسے اس کی سماعت کرسکتا ہے؟ انھوں نے کیس واپس چیف جسٹس کی طرف بھیجا کہ اسے بھی جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں ہی لگادیا جائے۔
میری رائے میں قانونی اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی بالکل صحیح تھا۔ تاہم چیف جسٹس صاحب کے آفس نے اس پٹیشن پر سات نومبر کی تاریخ دی! اس کی وجہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے!۔ بہرحال اس پٹیشن پر فیصلہ ابھی باقی ہے۔
تیسری پٹیشن، جو پہلی پٹیشن کے تقریباً ہفتے بعد دائر کی گئی ہے، وہ آئی جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کی عدالت میں جو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چودھری صاحب کو آئیڈیلائز کرتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ وہ تمام قانونی اصول نظر انداز کیے جو جسٹس عامر فاروق کے فیصلے کی بنیاد بنے، بلکہ انھوں نے قانون کا وہ بنیادی اصول بھی نظرانداز کردیا جس کی بنا پر جسٹس محسن کیانی نے اس دوسری پٹیشن کی سماعت سے انکار کیا تھا۔ مزید یہ کہ پٹیشنر نے جو ریلیف مانگا، وہ سارا کا سارا جسٹس صدیقی صاحب نے دے دیا۔
قانون اور دستور کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے مجھے کہنے دیں کہ یہ فیصلہ کسی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ قانونی پوزیشن یہ تھی کہ ایک ہی نوعیت کی پٹیشنز کو ایک ہی بنچ کے سامنے آنا چاہیے تھا۔ مزید یہ کہ جب ایک ہی عدالت کے دو سنگل بنچوں نے دو متصادم فیصلے سنائے ہیں تو اب لازم ہوگیا ہے کہ اسی عدالت کا بڑا بنچ (ڈویژن بنچ جو دو ججوں پر مشتمل ہوتا ہے) ان فیصلوں کے خلاف اپیل کی اکٹھے سماعت کرے۔ چنانچہ سپریم کورٹ میں اپیل سے قبل اس وقت ”انٹرا کورٹ اپیل“ کا راستہ کھلا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے بڑے بنچ میں اپیل کی جانی چاہیے۔ اپیل کرنا یا نہ کرنا تو متاثرہ فریق کا معاملہ ہے۔
قانون کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے جج صاحبان جوش اور جذبے میں آ کر قانونی اصول بھول جاتے ہیں۔ ایک ہی عدالت کے دو بنچ ایک ہی معاملے میں ایک دوسرے کے 180 ڈگری مخالف فیصلے دیں تو بدگمانیوں کے لیے تو گنجائش پیدا ہو ہی جاتی ہے، بالخصوص جب قانون کے بنیادی اصولوں کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے