اٹھارہ بیس سال درس گاہوں میں جھک مارنا ………. اپنے والدین کے لاکھوں روپے جھونک دینا … مسلمان کے گھر پیدا ہونا … گھروں میں قرآن شریف کی موجودگی … محلے میں بیسیوں مسجدوں اور مدرسوں کا ہونا …. صبح شام مؤذنوں کی چیخ و پکار سننا …… آس پاس اتنی ساری دینی جماعتوں کا ہونا .
اور اس سب سے نکلتا کیا ہے؟
ایک ایسا ڈاکٹر ………….
کہ جو اپنے دنیاوی فائدے کے لیے ہڑتال کرے اور ایک معصوم بچی کو سسک سسک کے مرتا دیکھے .
لعنت ہے ایسی پڑھائی لکھائی پر ………. ایسی درس گاہوں پر …. ایسے ماحول پر ……
کہ جو ایک اچھا انسان تخلیق نہ کر سکے ….
کہ جس میں احساس ہو ……. انسانیت ہو ……. مروت ہو …. شرم ہو …….. حیا ہو ……. جو کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اپنی ضرورتیں بھول جائے .
ارے دولت ہی کمانی تھی تو اس مقدس پیشے میں کیوں آئے تھے؟
بن جاتے چور، ڈاکو ، اسمگلر، سیاستدان …….. کوئی ٹٹ پونجیے دکاندار ………. حلیم کی یا بریانی کی دیگ لگالیتے……… مل جاتے پیسے .
اب اس پیشے میں آئے ہو تو قربانی دو … اپنے مسیحا ہونے کا ثبوت دو .
یہ کیا کہ اپنے مفاد کے لیے آئے دن ہڑتالیں ……… احتجاج .
اگر اپنے مسائل اوپر تک پہچانے کے لیے ہڑتال ضروری بھی ہو…. تو پھر بھی ہر ہسپتال کی ایمرجنسی میں کام نہیں رکنا چاہیے .
یہ بحیثیت ڈاکٹر ………… مسلمان …………… اور انسان آپ پر فرض ہے کہ آپ تکلیف میں لوگوں کی مدد کرو .
کچھ شرم کرو کس کے ماننے والے ہو ……… جو بلی کے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے .
تم انسان کے بچے کو مرتا چھوڑ آئے .
Tag: احتجاج
-
ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا
-
بیرونِ دریا کچھ نہیں-ہارون الرشید
حافظِ شیراز نے کہا تھا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ بھلائی ہم آہنگی میں ہوتی ہے‘ فساد اور انتشار میں نہیں۔ ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیںعمران خان کی طرف سے محاصرے کی بجائے جلسے کے اعلان سے پہلے‘ ایک دانا آدمی کا خیال یہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان سے خلقِ خدا بیزار ہو جائے گی۔ کچھ دن میں سیاسی منظر یکسر بدل جائے گا۔ اچھا ہوا کہ دونوں نے سپریم کورٹ میں سر تسلیم خم کر دیا۔ علامہ طاہرالقادری کو صدمہ ضرور پہنچا۔ موقع سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ آخری تجزیے میں ان کا جھگڑا ذاتی ہے۔ مقاصد بھی ذاتی ہیں۔ کبھی وہ اس خاندان کے ممنونِ احسان تھے۔ آج اس کی مکمل پامالی کے آرزومند ہیں۔ شریف خاندان سے اختلاف بجا۔ اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ اگر وہ ایک اچھا فیصلہ کریں تو اس میں بھی کیڑے ڈالے جائیں۔ جی نہیں‘ فرمان یہ ہے: الصلّح خیر‘ بھلائی صلح صفائی میں ہوتی ہے۔
ایجی ٹیشن‘ دس بارہ دن اگر مزید جاری رہتا تو ہر چیز ہاتھ سے نکل جاتی۔ پاکستان کو نہیں‘ اس کا فائدہ دشمن کو پہنچتا۔ امریکہ ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے‘ اور بھارت بھی۔ بلا خوف و خطر ان کے کارندے سرگرم عمل ہیں۔ خدانخواستہ اسی آزادی سے اگر وہ بروئے کار رہے تو صورتِ حال خطرناک ہو سکتی ہے۔ عرب محاورے کے مطابق‘ جب زمین کا پیٹ‘ اس کی پیٹھ سے بہتر ہو جاتا ہے۔ اس لافانی شاعر میاں محمد بخش کی اصطلاح میں زندگی کیکر کے درختوں پر لٹکی دھجیوں جیسی ہو جاتی ہے۔
راستہ ابھی نکلا نہیں۔ ابھی فقط امکان نے جنم لیا ہے۔ ابھی یہ طے ہونا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کس طرح ہو گی۔ کمیشن اگر وجود پاتا ہے تو اس کا دائرہ کار اور اس کے اختیارات کیا ہوں گے۔ پیپلز پارٹی سمیت‘ اپوزیشن تحقیقات کے لیے ٹی او آرز‘ حدود اور قرینہ طے کر چکی۔ ظاہر ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی‘ ان ٹی او آرز پہ اصرار کریں گے۔ حالات سازگار ہیں کہ وہ ڈٹ جائیں۔ ہوش مندی شاید اس میں ہو گی کہ لچک پیدا کی جائے اور ایک آدھ ترمیم گوارا کر لی جائے‘ جس سے منصفانہ تحقیقات کا مقصد حاصل ہو جائے۔ نون لیگ بھی محسوس کرے کہ کوئی چیز اس پر مسلط نہیں کی گئی۔ کسی ایک فریق کی نہیں‘ عدل کی بالادستی ہونی چاہیے۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ سب چلے جاتے ہیں اور ملک باقی رہتا ہے۔ سیاست دان فیصلہ نہ کر سکیں تو عدالت کرے۔ قوم اس کی شکر گزار ہو گی۔
زیادہ بڑی تصویر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملحوظ‘ مستقبل کو رکھنا چاہیے۔ نواز شریف کل نہیں ہوں گے‘ عمران خان اور آصف علی زرداری بھی نہیں ہوں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی نہ ہو گا۔ ملک کو باقی رہنا ہے۔ عدل اور اعتدال کے ساتھ ہی وہ شادمان اور نمو پذیر ہو سکتا ہے۔
اللہ کے آخری رسولﷺ نے بدترین لوگوں کو معاف کر دیا تھا۔ اللہ اور رسولﷺ سے جنہوں نے دشمنی کی تھی۔ فتح مکّہ کے دن‘ کہہ دیا گیا کہ ان سے کوئی باز پرس نہ ہو گی۔ عام معافی کا نتیجہ تھا کہ چاروں طرف چراغ جل اُٹھے۔جب آ پہنچی اللہ کی مدد اور فتح کامل
اور تو نے‘ فوج در فوج لوگوں کو‘ اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیا۔
پس اپنے رب کی حمد و تسبیح کر اور استغفار کر
بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔کسی کا مقصد اگر نواز شریف کو دفن کرنا ہے۔ کسی کا مقصد اگر عمران خان کو تباہ کرنا ہے تو فساد وہ جاری رکھے۔ حق کی آواز امن اور بھلائی کی آواز ہے۔ اللہ کا شکر ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ ساری صلاحیت اس پر لگا دینی چاہیے کہ ملک دلدل سے باہر نکل سکے۔ ایسے حالات میں میڈیا کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔
زندگی کا کھلا میدان جب جنگل جیسا ہو جاتا ہے تو سچائی کے ساتھ ساتھ صبر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ تحمل اگر نہ ہو‘ تنگ نظری کا اگر تہیہ کر لیا جائے تو آدم زاد وحشی جانور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ مولانا روم نے کہا تھا: آدمی کی شخصیت فقط اس کا اندازِ فکر ہی ہوتی ہے‘ باقی تو گوشت اور ہڈیاں ہیں۔ تحریکِ انصاف کی جمعیت بکھر رہی تھی۔ عمران خان کنفیوژن کا شکار تھے۔ گھر سے وہ باہر نہ نکل سکے۔ دس لاکھ تو کیا‘ ایک لاکھ آدمی بھی اسلام آباد نہ پہنچ سکتے۔ شریف خاندان گھبراہٹ کا شکار تھا۔ محترمہ مریم نواز کچھ دن سے لاہور میں ہیں۔ جاتی عمرہ کے پڑوسیوں کا کہنا ہے‘ اتوار کو چار بار اسلام آباد سے آنے والا ہیلی کاپٹر وہاں اترا اور واپس گیا۔ قیاس یہ تھا کہ ایوان وزیر اعظم سے اہم فائلیں لاہور منتقل کی جا رہی ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی پولیس پختون خوا میں داخل ہو گئی۔ دوسرے صوبے کے وزیر اعلیٰ پر انہوں نے اذیت پہنچانے والی آنسو گیس برسائی۔ اندر سے میاں صاحب خوف زدہ تھے۔ ایسے میں اکثر وہ غلط فیصلہ کرتے ہیں۔ پرویز خٹک کو لبھانے کے لیے انہوں نے فون کیا۔ بھول گئے کہ ان کا دل زخمی ہے۔ بھول گئے کہ ان کے وہ فیض یافتہ نہیں۔ وہ محمود اچکزئی‘ مولانا فضل الرحمن‘ فاروق ستار یا اسفند یار نہیں۔ فراموش کر دیا کہ ایسے میں پختون مزاج کا خاصہ کیا ہوتا ہے۔
ایک بات تکرار کے ساتھ‘ ناچیز کہتا رہا۔ عدالت کا فیصلہ سبھی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ عمران خان کو دارالحکومت کے محاصرے کا منصوبہ ختم کر دینا چاہیے۔ حکومت کو کنٹینر ہٹانے چاہئیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ موقوف کرنا چاہیے۔ وقت بدل گیا ہے۔ حالات کے تقاضے اب مختلف ہیں۔ ایک دوسرے کو گوارا کرنا ہو گا۔ تشکیل پاتے جمہوری نظام میں ہر ایک کے حقوق ہیں‘ مگر ذمہ داریاں بھی۔ اوّل اوّل آزادی میں غیر ذمہ داری ہوتی ہے مگر تا بہ کے؟ آخرکار سبھی کو ڈسپلن قبول کرنا پڑتا ہے۔ ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا کہ تقدیر کیا ہے۔ سوال کرنے والے سے انہوں نے کہا کہ ایک ٹانگ اوپر اٹھا لو۔ ارشاد کیا‘ اب دوسری بھی۔ ”امیرالمومنین یہ تو ناممکن ہے‘‘ اس نے کہا۔ فرمایا: یہی تقدیر ہے۔بعض اخبارات زہر پھیلا رہے ہیں۔ اخبار نویسوں کی قابل ذکر تعداد‘ قومی مفاد کو فراموش کر چکی۔ بعض اخبار یکسر بے لگام ہیں۔ سرل المیڈا اور اس کے اخبار کا ماتم ابھی جاری تھا۔ اب ایک دوسرے انگریزی اخبار کے مضمون کا چرچا ہے۔ ایک محترمہ نے پاک فوج کی قیادت کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا ہے۔ یہ مضمون کیسے چھپ گیا؟ کچھ لوگ شریف خاندان کی تباہی کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کے قائل ہیں۔ اس طرح کچھ دوسرے پاک فوج کو کمزور‘ رسوا اور بے بس کرنا چاہتے ہیں۔ یہ این جی اوز والے ہیں‘ بھارت اور امریکہ کے دورے کرنے والے۔ وہ بین الاقوامی شہری ہیں۔ پاکستان ان کا وطن اور محبت نہیں۔ بہت سے ملکوں میں سے‘ وہ اسے ایک ملک سمجھتے ہیں۔ ان کی کوئی جذباتی وابستگی اس سے نہیں۔ یہ ان کا گھر نہیں۔ پاک فوج کے بارے میں وہ سی آئی اے اور افغانستان کی کسی بھی افواہ‘ کسی بھی یک طرفہ تجزیے کو قبول کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ سالانہ 100 ارب روپے ان تنظیموں پر صرف کرتے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی تحریریں بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ کے کام آتی ہیں۔
فوج اور سول کی کشیدگی‘ اس خرابی کی جڑ ہے۔ فوج کو باقی رہنا ہے اور سیاستدانوں کو بھی۔ مفاہمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بقا اور زندگی کا یہی ایک راستہ ہے‘ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سب ہیجان کا شکار ہیں۔ ہم سب خود شکنی پر تُلے ہیں۔ ملک باقی رہے گا۔ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ ایسی سعید روحوں نے اس کی بنا استوار کی۔ تین چوتھائی ووٹروں نے ان کی تائید کی۔ خسارے میں وہ لوگ جائیں گے‘ اس سے جو بے وفائی کا ارتکاب کریں گے۔
کیا وہ دیکھتے نہیں کہ 1971ء میں‘ پاکستان توڑنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ کیا ہوا ان کا انجام؟
حافظِ شیراز نے کہا تھا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ بھلائی ہم آہنگی میں ہوتی ہے‘ فساد اور انتشار میں نہیں۔ ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں -
عمران خان کے احتجاج کے خلاف بیانیہ کی حقیقت – معین وڑائچ
عمران خان اور تحریک انصاف کے احتجاج کے خلاف دو قسم کے بیانیہ گھڑے گئے ہیں
1۔ سسٹم کو خطرہ
2۔ سی پیک کے خلاف سازش
ان دونوں دلیلوں کو لے کر عمران خان کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ کرپشن کہ خلاف بولے نہ احتجاج کرے کیونکہ اس سے جعلی ووٹوں سے آئی جموریت کو خطرہ ہوگا اور سی پیک والی انویسٹمنٹ ختم ہوجائے گی۔پہلی بات ہے سسٹم کو خطرہ
دنیا میں جموریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر انسان کو آزادی ہے کہ وہ حکومت کہ کسی بھی فعل کہ خلاف احتجاج کرسکے اگر کوئی حکومت غیر قانونی کام کرے تو اُن کو عدالت سزا دے سکے نیب اور دوسرے اینٹی کرپشن اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے اُس غیر قانونی کام کی تفتیش کریں اور عدلیہ سے سزا دلوائیں تاکہ جزا اور سزا کے قانون کی بدولت حکومت کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جو قانون کے خلاف ہو اور اپوزیشن کا مقصد ہوتا ہے کہ نشاندہی کرے تاکہ ادارے نوٹس لے سکیں ۔
فرض کریں پاکستان میں جموریت ہے اور یہ سب نہیں ہونے دیا جاتا تو کیا کیا جائے ؟
لوگ کہتے ہیں نظام کو چلنے دیا جائے اسی طریقہ سے بہتری آئے گی ۔
سوال یہ ہے کہ اگر ملک میں کرپشن وزیراعظم کرے گا تو کون سا ادارہ ایسا ہوگا کہ وہ کرپشن روکنے کی بجائے کرپشن خود نہ کرے ؟ جب کرپشن کو برداشت کیا جائے گا تو پھر دل کھل جاتا ہے پھر ہر بندہ چوری ہی کرتا ہے روکتا نہیں اور افریقی ممالک ہمارے سامنے ہیں کرپشن عوام سے لے کر رہنماؤں تک کو دیمک کی طرح کھا گئی اور وہ مُلک روٹی کہ ایک ایک نوالے کو ترستے ہیں چائنا کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں سسٹم چلتا رہا اور ترقی ہوئی
جی نہیں سرکار
وہاں سسٹم چلنے سے پہلے کرپشن میں ملوث وزیروں سے لے کہ عوام تک کو پھانسی کہ پھندوں سے لٹکایا گیا ۔دنیا میں جرم روکنے ک طریقہ جرم برداشت کرنا نہیں بلکہ جزا اور سزا کا نفاذ ہے۔آگے آ جائیں سی پیک پر
سی پیک مشرف دور سے شروع ہوا، گوادر مشرف دور میں بننی شروع ہوئی، ایسے معاہدے ریاست سے ہوتے ہیں نہ کہ حکومت سے… حکومت کوئی بھی ہو وہ چلتے رہتے ہیں.
سی پیک کا پاکستان کو فائدہ کب ہوگا؟ جب کرپشن نہیں ہوگی۔
مصر کی نہر سویز پروجیکٹ کی مثال لے لیں، وہ اربوں ڈالر سالانہ اُس راہداری سے کماتا ہے لیکن مصریوں کی حالت جوں کی تُوں ہے، کیوں؟ کیوں کہ کرپشن کا جن سر چڑھ کہ بول رہا ہے اور اربوں ڈالر یا تو باہر کہ بینکوں میں منتقل ہوجاتے ہیں یا مصر کہ اندر ہی کرپشن کا پیسہ چھپا دیا جاتا ہے۔دنیا کا ایک قانون ہے کہ اگر آپ جزا اور سزا کا قانون نافذ نہیں کرتے تو چوری رکتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے۔افریقی ممالک ایسے ہیں کہ وہاں ہیرے نکلتے ہیں لیکن کرپشن نے جڑ کاٹ کہ رکھی ہوئی ہے کیوں کہ عوام برداشت کرتی ہے اور لیڈر کھربوں پتی ہیں ۔یہ غلط فہمی ہے کہ جزا اور سزا کی بجائے برداشت کرو پچاس ساٹھ سال بعد سب ٹھیک ہوجاتا ہے ۔حرام کا پیسہ تباہی لاتا ہے خوش حالی نہیں ۔عوام کی اخلاقی حالت اس قدر نہ گرا ئیں کہ وہ یہ سمجھیں کہ جب وزیراعظم چور ہے تو ہم نے چوری کر کے کونسا پاپ کیا اور کون سی قیامت آگئی ۔اخلاقی بے حسی سے ترقی نہیں ہوتی لکھ لیں۔
-
لاک ڈاؤن کی سیاست کی حقیقت-(خصوصی تحریر)پروفیسر احسن اقبال
ملکی سیاسی منظرنامے میں پاکستان تحریک انصاف کا ظہور ایک مثبت انداز میں لیا گیا تھا جس نے شہری مِڈل کلاس سے اْن طبقات کو متوجہ کیا جو روائتی سیاسی جماعتوں میں جگہ نہ بناسکے، پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی بطور اسپورٹس مین سیاست میں آمد سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ ملک میں جمہوری اقدار کی مضبوطی کیلئے کچھ مثبت کر دکھائیں گے لیکن بدقسمتی سے خان صاحب نے شائستگی اور رواداری پر مبنی سیاست کی بجائے عدمِ برداشت اور متشدد سیاست کو پروان چڑھا کرنہ صرف نوجوان طبقے کو اشتعال انگیزی کی جانب مائل کیا بلکہ شہری مڈل کلاس کے ان طبقوں کو بھی مایوس کیا جو انہیں سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا تصورکرتے تھے ۔
میں پی ٹی آئی کی طرف سے 2نومبر کو اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی کال کے منفی مضمرات سے قوم کو باخبر کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں اور تین نکات پر قوم کی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہوں، اول خان صاحب کی سیاست کا محور بدقسمتی سے جمہوری نہیں بلکہ فاشزم اور انارکی کی سیاست کا فروغ ہے، دوئم دارالحکومت کو بند کرنے کا کوئی نیک مقصد نہیں بلکہ سیاسی مفاد میں ملکی معیشت کو نشانہ بنانا ہے، سوئم پی ٹی آئی سربراہ کی نظر میں جمہوری عمل اور اداروں کی کوئی توقیر نہیں اور وہ پے در پے انتخابی ناکامیوں سے مایوس ہو کر اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے جمہوریت کو داؤ پر لگانے پر تْلے ہوئے ہیں۔بیسویں صدی کے معروف مصنف و نقاد جارج ارول نے اپنے شہرہ آفاق مضمون “فسطائیت کیا ہے ؟”میں فاشزم کی تعریف وضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا رویہ جو دھونس پہ مبنی ہو ۔ خان صاحب پاکستان میں فسطائی اصولوں کے پیروکاری کی جیتی جاگتی مثال پائے جاتے ہیں جنکا مقصدِ سیاست صدیوں پرانے حکومت پر قبضے کیلئے دارالحکومت پر لشکر کشی کے نظام کا احیاء ہے جس میں سول اداروں کو تباہ کرنا اور عوامی نمائندوں کی تذلیل کرنا شامل ہے، فسطائیت کے پیروکار عمران خان ہر اْس شخص کو اپنا دشمن قرار دے دیتے ہیں جو اْن کے طرزِ سیاست سے اختلافِ رائے رکھتا ہو۔خان صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا مقصد پانامہ پیپرز پر تحقیقات کیلئے دباؤ ڈالنا ہے، میں یہ پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے کارکنوں کو کیوں حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے کی جرات نہیں کرتے کہ پانامہ ایشو پر پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مختلف پٹیشنز پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہو چکی ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف بھی اِس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ وہ اور انکی فیملی اعلیٰ عدلیہ کے روبرو حقائق پیش کرکے قانون کی حکمرانی یقینی بنائیں گے، تو پھر لاک ڈاؤن کا کیا جواز ہے؟
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ درحقیقت اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا مقصد عدلیہ کو اپنی مرضی کا فیصلہ سنانے کیلئے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے زیر دباؤ لانا ہے ۔خان صاحب نے اپنی سیاست کا آغاز احتساب کے خوش نما نعرے سے کیا تھاجس کا استعمال سیاسی مخالفین کے خلاف تو بھرپور انداز میں سامنے آیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خان صاحب احتساب پہ حقیقی معنوں میں یقین رکھتے ہوتے تو صوبہ خیبرپختونخواہ میں اپنی حکومت اور اپنی پارٹی میں احتساب کا مثالی نمونہ پیش کر پاتے ۔ اصلاح ہمیشہ اپنے گھر سے شروع کی جاتی ہے لیکن جب خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن کا سربراہ کرپشن کی سرکوبی کے لئے اپنی ذمہ داریاں آزادانہ پوری نہ کرنے دیئے جانے کی بناء پر احتجاجاََ استعفیٰ دیتا ہے تو خان صاحب کی طرف سے بالکل مختلف رویے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،
جسٹس (ر)وجہیہ الدین انٹراپارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں اور کرپٹ عناصر کی دھاندلیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو عمران خان جسٹس وجہیہ کو توہین آمیز طریقے سے پارٹی سے نکال باہر کرتے ہیں ۔ کے پی میں پی ٹی آئی کے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز وزیر اعلی کی سنگین کرپشن کی شکایت کرتے ہیں تو ان کی شکایات کی تحقیق کی بجائے ان کی سرزنش کی جاتی ہے ۔ وہی کرپٹ عناصر جن سے نام نہاد تحریکِ انصاف کو پاک ہونا چاہیے تھا ، عمران خان کے دائیں بائیں جلوہ افروز نظر آتے ہیں ۔ یہ سب کیا ہے؟ خان صاحب ؟ قوم جاننا چاہتی ہے کہ جب آپ نے قومی وطن پارٹی کے منسٹرز کو کرپشن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکومت سے فارغ کیاِ تو بِنا کسی صفائی کہ انہیں حکومت خیبرپختونخواہ نے واپس کابینہ میں شامل کرلیا۔ کیا انہوں نے پہلے غلط کیا تھا یا بعد میں ؟ خان صاحب کا ایک نکاتی ایجنڈا حکومت پر قابض ہونا ہے جسکی وجہ سے وہ دوغلی پالیسی رکھنے پر مجبور ہیں، ایک طرف سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے جب چاہیں اپنے سیاسی حریفوں پر کرپشن کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی سیاسی ضرورت کے لئے جب چاہیں جسے چاہیں ڈرائی کلین کر دیں۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی خراب کارکردگی نے بھی خان صاحب کی فریسٹریشن میں اضافہ کیا ہے، صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے17 ۔2016 کیلئے 161بلین روپے مختص کیے ہیں جو رواں برس کیلئے مختص کی گئی رقم سے 8فیصد کم ہیں،
گزشتہ تین برسوں سے صوبائی حکومت کے پاس کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبہ پیش کرنے کے لئے نہیں ہے۔معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے، اِس تناظر میں دیکھا جائے تو خان صاحب کی لاک ڈاؤن کی سیاست کا مقصد خدانخواستہ پاکستان کو معاشی طور پر سبوتا ژکرنا ہے، خان صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی آئینی مدت پوری ہونے تک پاکستان ترقی و خوشحالی کے کتنے زینے عبور کرچکا ہوگا اور انہیں 2018 کا انتخاب ہاتھوں سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے ،توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے 2018 تک 11ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گِرڈ میں شامل ہوچکی ہو گی جبکہ 1947 سے لیکر2013 تک ملک میں صرف 16ہزارمیگاواٹ کی بجلی پیدا کی گئی۔گزشتہ تین برسوں میں ملکی سیکیورٹی کے محاذ پر بھی بے شمار کامیابیاں کا حصول ممکن ہوا،2013 میں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا جارہا تھا آج دنیا پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے قومی ترقی کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں، آج اکنامک گروتھ ریٹ گزشتہ 8برسوں میں بلند ترین جبکہ شرح افراطِ زر کم ترین سطع پرہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے ،
رواں برس کے موسمِ گرما میں پاکستانی شہریوں کی طرف سے ڈومیسٹک ٹورازم کا تاریخی مظاہرہ کیا گیا جو عوام کے بہتر حالات اور ملکی معیشت پر اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ انہیں حقائق سے خوفزدہ ہوکرمسلم لیگ (ن) کے ناقدین موجودہ سیاسی نظام کو بادشاہت قرار دیتے ہیں، ایسی تنقید یا تو حقیقی صورتحال سے لاعلمی کی بناء پر یا بدیانتی پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ بادشاہت میں تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن موجودہ دورِ حکومت میں سیاسی حریف اور آزاد میڈیا 24گھنٹے حکومتِ وقت کو نشانہِ تنقید بناتا ہے اورجمہوریت پسند حکومت بھی تنقید برائے اصلاح کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔عوام نے حالیہ ضمنی انتخابات، لوکل باڈیز الیکشن، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات سمیت دیگر مواقعوں پر وزیراعظم نواز شریف کی پالیسیوں پر اظہارِ اعتماد کرتے ہوئے خان صاحب کی منفی سیاست کو مسترد کیا ہے۔جمہوری کلچر کا تو تقاضہ ہے کہ اب خان صاحب 2018 کے انتخابات کا انتظار اور تیاری کریں ۔ اگر انہوں نے زرداری دور کو 5 برس برداشت کیا تو آج ملک اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم اور بہتر ہے ۔
لیکن خان صاحب کا مسئلہ جمہوری عمل نہیں یا ملک کی ترقی نہیں بلکہ ذاتی سیاست ہے ۔ مشہور پولیٹیکل سوشیالوجسٹ لیری ڈائمنڈ کے مطابق ڈیموکریسی ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے جس میں کسی بھی قوم کیلئے بہتر سے بہتر جمہوری ملک بننے کی گنجائش موجود ہوتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی جمہوریت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ لیری ڈائمنڈ نے جمہوری حکومت کے طرزِ عمل بیان کیے تھے جن میں شہریوں کے پبلک دفاتر میں شمولیت کا حق، سیاسی اپوزیشن کی موجودگی اور شہری آزادی کی حفاظت سرفہرست تھے۔ سال 2008 ء سے پاکستان نے ان تین معاملات میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کی ہے اور مسلم لیگ (ن)حکومت بھی ملک میں جمہوری اقدار کو مزیدمضبوط کرنے کیلئے پرْعزم ہے،ہم ماضی کی مستردشدہ فسطائی طاقتوں جنہوں نے دو سال قبل بھی پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کیا تھا، کے حالیہ مذموم مقاصد کو ناکام بنانا اپناقومی فریضہ سمجھتے ہیں،ہم عوام کے سونپے گئے مینڈیٹ کو امانت کا درجہ دیکر قوم کی ترقی و خوشحالی پر مبنی اپنے ایجنڈے کو کامیابی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں،
ہم سمجھتے ہیں کہ 2 نومبر کے دن باشعورعوام مسترد شدہ عناصر کے عزائم کوہمیشہ کیلئے خاک میں ملا دیں گے ۔میں یہ واضح کرتا چلوں کہ ہم پرامن احتجاج کو جمہوری معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن خان صاحب کا اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنا خلافِ جمہوریت اورخلافِ آئین اقدام ہے، لشکر کشی کرکے ریاست کے معاملات کو معطل کرکے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگانے کی مثال دورِ جدیدکے کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملتی۔میں امید کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی اپنی احتجاجی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرتے ہوئے کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنے گی،میں پی ٹی آئی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات ایجنڈے پر بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی دعوت دیتا ہوں جو خان صاحب بھول چکے ہیں۔مسلم لیگ (ن)حکومت تمام اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک سے انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کیلئے سنجیدہ ہے تاکہ آئیندہ انتخابات میں کِسی کو بھی بے ضابطگیوں کی شکایت نہ کرنا پڑے اور ہم سب سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر مشترکہ طور پرپاکستان کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرانے میں کامیاب ہوسکیں۔
-
فاتح کون؟-خورشید ندیم
یہ پہلا حقیقی سیاسی معرکہ تھا جو عمران خان کو درپیش ہوا۔کیا وہ اس میں کامیاب ہو سکے؟
28 اکتوبر تمام سیاسی کرداروں کے لیے یومِ حساب تھا۔ تحریک انصاف نے 28 اور 29 اکتوبر کو 2 نومبر کے آخری معرکے کے لیے عوام میں تحریک پیدا کرنا تھی۔ انہی دنوں میں یہ طے ہونا تھا کہ فیصلہ کن مرحلے پر تحریکِ انصاف کی کامیابی کا کتنا امکان ہے۔ اس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو متحرک کرنا تھا۔ سیاست کے مبادیات سے واقف ایک عامی بھی جانتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت جس شہر میں قوت کا مظاہرہ کرتی ہے، اس کی کامیابی کا انحصار اصلاً اس شہر کے شرکا پر ہوتا ہے۔ باہر سے نسبتاً کم لوگ آتے ہیں۔ ان دو دنوں میں یہ معلوم ہو جاتا کہ کتنے لوگ اصل معرکے میں بھی شامل ہوں گے۔ اس بار تحریکِ انصاف کو پہلی بار ریاست کی قوت کا سامنا کرنا تھا۔دھرنا ایک مختلف عمل تھا جس میں ریاست نے مکمل آزادی دے رکھی تھی۔ لوگ اپنے کام کاج نمٹا کر، سرِشام تیار ہوتے اور پنڈال کا رخ کرتے‘ جیسے کسی میلے میں چلے ہوں۔ نوجوانوں کے لیے بطورِ خاص اس اجتماع میں ایک کشش تھی۔ شام ڈھلتے ہی جب میڈیا کی تیز و تند روشنیوں میں رنگ برنگے پیرہن اور توانائی سے بھرپور نوجوانوں کا جوش و خروش سماں باندھ دیتا تو ابرارالحق ہی کا نہیں، سب کا عمران خان کے جلسے میں ناچنے کو جی کرتا۔ دوسری طرف عمران خان صبح جاگتے، حسبِ معمول گھنٹہ بھر ورزش کرتے، من پسند ناشتہ کرتے، جو میڈیا کے شکریے کے ساتھ لوگ براہ راست دیکھتے اور ان کے منہ میں پانی آ جاتا۔ پھر وہ تیار ہوتے اور رات کے آغاز کے ساتھ جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوتے جہاں چاہنے والوں کے نعرے ان کا استقبال کرتے۔ رات ڈھلنے لگتی تو وہ اپنی آرام گاہ کا رخ کرتے۔ میڈیا لمحہ بہ لمحہ عوام کو اس سرگرمی میں شریک رکھتا۔ اس بارصورتِ حال مختلف تھی۔ اب امکان تھا کہ پولیس کی لاٹھیاں، وفعہ144 اور بند راستے ان کا استقبال کریں گے۔ کسی سیاسی جماعت اور لیڈر کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ ایسی مخالفانہ فضا میں وہ کس حد تک اپنی سخت جانی اور عوامی تائید کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
حکومت کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ریاست کی انتظامی صلاحیت اُس عوامی قوت پر قابو پا سکتی ہے، جس کا دعویٰ تحریکِ انصاف کر رہی ہے۔ اسے یہ بتانا تھا کہ عمران خان اب ایسے مقبول بھی نہیں ہیں کہ ان کے کہنے پر لاکھوں لوگ پولیس کی لاٹھیاں کھانے پر تیار ہوں۔ اگر وہ 28 اکتوبر کو محض ایک شہر کی پولیس کی مدد سے ایک جلسے کو ناکام بنا سکتی ہے تو 2 نومبر کو ایک بڑی قوت کے ساتھ بڑے مظاہرے پر بھی قابو پا سکتی ہے۔ اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس معرکے کی خاموش فریق تھیں۔ انہیں یہ ثابت کرنا تھا کہ حکومت کو زچ کرنا تنہا عمران خان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا، ان کی مجبوری ہے۔
اس ابتدائی معرکے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ راولپنڈی میں جلسہ نہیں ہو سکا۔ لوگوں کی بہت کم تعداد گھروں سے نکلی حالانکہ اس شہر کے دونوں حلقے عمران خان اور شیخ رشید نے جیتے ہیں۔ عمران خان گھر سے نکل ہی نہیں پائے۔ شیخ رشید نے ایک ڈرامائی منظر پیدا کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں گرفتار کیا جائے مگر انتظامیہ اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ سب چینلز نے دکھایا کہ انہوں نے بھرے بازار میں ناشتہ کیا‘ اور شام کو کئی ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دیے۔ میں راولپنڈی میں رہتا ہوں۔ میرا اپنا مشاہدہ یہ ہے کہ مری روڈ کے علاوہ پورے شہر میں حسبِ معمول سرگرمیاں جاری تھیں۔ مری روڈ کے کئی متبادل فراہم کر دیے گئے تھے۔ تحریکِ انصاف شہر کی زندگی کو متاثر نہیں کر سکی حالانکہ اب سڑکوں پر اتنا رش ہوتا ہے کہ پچاس افراد یہ کام باآسانی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے 29 اکتوبر کا اسلام آباد شہر کا دورہ بھی منسوخ کر دیا۔ گویا 2 نومبر کے لیے ٹیمپو بنانے کا سارا عمل معطل ہو گیا۔ یوں تحریکِ انصاف پہلے ہی امتحان میں ناکام ثابت ہوئی۔
27 اکتوبر کو اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کی جو گرفتاریاں ہوئیں، اس پر عمران خان نے جمعہ کو ملک گیر احتجاج کی اپیل کر رکھی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس اپیل کا کیا انجام ہوا۔ جتنا احتجاج ہوا ہے، وہ حسب توقع ہوا ہے۔ اس بات کا کون انکار کرتا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک قابلِ ذکر بلکہ اب تو وہ ملک کی دوسری بڑی جماعت ہے؛ تاہم اس واقعے سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس کی تنظیمی صلاحیت اور عوامی تائید اتنی نہیں ہے کہ وہ ریاست کو معطل کر دے‘ جیسا کہ اب عمران خان خیال کرنے لگے ہیں۔ اگر یہ واقعہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا ہوتا تو وہ اس سے کہیں موثر ملک گیر احتجاج کرتی۔
اس معرکے میں عمران خان ذاتی طور پر بھی متاثر نہیں کر سکے۔ چند سو کارکن رات بھر بنی گالہ میں پڑے رہے۔ انہوں نے اپنے تین سو کنال کے گھر کا دروازہ ان کے لیے نہیں کھولا۔ وہ یہ بھی کر سکتے تھے کہ رات کو باہر آتے اور کہتے کہ وہ یہ رات کارکنوں کے ساتھ گزاریں گے۔ وہ شب بھر ان سے غیر متعلق رہے۔ کاش وہ خواتین ہی کو اندر آنے کی دعوت دیتے۔ میں سوچتا رہا کہ ان کی جگہ اگر کوئی پاکستانی کلچر اور روایت سے واقف آدمی ہوتا تو اس کا رویہ کیا ہوتا؟ اگر چوہدری شجاعت ہوتے؟ اگر ان کارکنوں میں سیاسی حمیت ہوتی تو وہ فیض کی زبان میں یہ شکوہ تو ضرور کرتے: ؎
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہےاس واقعے کے بعد عمران خان کے بارے میں میری وہ رائے پختہ ہوئی‘ جس کا میں اظہار کرتا رہا ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں اس لیے پیدا ہوا ہوں کہ لوگ مجھ سے محبت کریں‘ میں کسی کے ساتھ محبت کرنے کا پابند نہیں ہوں۔
اس معرکہ میں حکومت کامیاب رہی اور اپوزیشن کی دوسری جماعتیں بھی۔ حکومت نے یہ ثابت کیا کہ عمران خان کی سیاسی قوت اتنی نہیں جو ریاست کے لیے چیلنج بن سکے۔ سیاسی جماعتوں نے لاتعلق رہ کر عمران خان کو پیغام دیا ہے کہ ان کی مدد کے بغیر وہ تنہا حکومت نہیں گرا سکتے۔ عوام نے بھی بتا دیا کہ وہ عمران خان کے موقف کی تائید کر سکتے ہیں‘ لیکن ان کے احتجاج کا حصہ نہیں بن سکتے۔ وہ زندگی کو مفلوج کرنے کے حق میں نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ‘تھرڈ امپائر‘ کی مدد کے بغیر حکومتیں نہیں گرائی جا سکتیں۔
عوام نے عمران خان کی احتجاجی سیاسی کو مسترد کر دیا ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوام نے انہیں مسترد کیا ہے۔ وہ چاہیں تو اب بھی اپنے طرزِ سیاست کو تبدیل کرتے ہوئے عوام کا پہلا انتخاب بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے لیکن انہیں ایک بار پھر واپسی کا راستہ چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اس بار ان کی مدد کو موجود ہے۔ وہ 2 نومبر کو اسلام آباد میں جلسہ کریں‘ اور یہ کہیں کہ وہ آئین اور عدالت کے احترام میں اسلام آباد کو بند کرنے کے پروگرام سے دست بردار ہو رہے ہیں لیکن کرپشن کے خلاف جدوجہد سے کبھی دست بردار نہیں ہوں گے۔ تحریکِ انصاف کے کارکن اور رہنما اس باب میں عوامی شعور بیدار کرتے رہیں۔ یوں وہ ایک ڈیڑھ سال کی محنت سے، اسے 2018ء کے انتخابات کا مرکزی نکتہ بنا دیں۔ ساتھ وہ کے پی کو اپنی اصلاحی کوششوں کا مرکز بنائیں۔
عمران خان کے پاس یہی ایک راستہ ہے۔ اس میں کامیابی کا امکان احتجاج سے کہیں زیادہ ہے۔ احتجاج کی سیاست ملک کے لیے تو نقصان دہ ہے ہی، ان کے لیے بھی سیاسی خود کشی ہے۔ اس کا اندازہ انہیں 28 اکتوبر کے واقعات سے ہو جانا چاہیے۔ یہ راستہ لیکن وہ اس وقت تک اختیار نہیں کر پائیں گے جب تک شیخ رشید جیسوں کی فکری راہنمائی سے باہر نہیں نکلتے۔ انہیں باشعور لوگوں کے مشورے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے اپنے ہی ہاتھوں، ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت کی بربادی ایک قومی المیہ ہو گی۔
-
پکی سڑک-ہارون الرشید
درویش سے پوچھاگیا:فلاں ‘فلاں اور فلاں درود آپ پڑھتے ہیں؟جواب ملا : فقط ابراہیمی درود پڑھتے ہیں‘ ہم پکّی سڑک پر چلتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ اخبار نویس کو خبر کبھی نہیں روکنی چاہیے۔ بات نکل جاتی ہے۔ تازہ تجربے سے ادراک ہوا کہ تجزیے کو بھی تھام کر نہ رکھنا چاہیے ۔سرحدوں پر کشیدگی کے ہنگام‘ غالباً اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں‘ ایک پیغام عمران خان کو بھیجا۔ اسد عمر سمیت تحریک انصاف کے ممتاز لیڈروں کواس کی نقل بھی۔ لفظ بہ لفظ درج ذیل:”براہِ کرم دارالحکومت کے محاصرے کا منصوبہ ملتوی کر دیجیے ۔ سرحدوں پر امن قائم ہونے تک یہ خطرناک ہو گا۔ تجارتی راہداری پر بات کرنے کے لیے چینی سفیر کو مدعو کیجیے۔ مدیران اخبارات اورکالم نگاروں سے ملاقاتیں کیجیے۔ محاصرے کے التوا کا اعلان کرنے کے بعد آپ کو پریس کانفرنس کرنی چاہیے۔ اخبارات کے لیے ایک مضمون لکھنا چاہیے‘ تین بڑے شہروں میں بھارتی عزائم پر سیمینار منعقد کرنے چاہئیں۔ خواہ آپ اپنے دفاتر میں کر یں۔ آپ کو کہنا چاہیے کہ پاکستانی عوام اور پاک فوج‘ ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف کشمیریوں سے قطعاً مخلص نہیں۔بھارت پہ ان کی پالیسی یکسر غلط ہے۔ بھارتیوں کے ساتھ ان کے کاروباری مفادات وابستہ ہیں۔ان موضوعات پر کافی معلومات مہیا ہیں‘‘۔
صاف صاف‘ تحریک انصاف کے لیڈروں سے عرض کیا کہ طالب علم کی رائے میں‘ ان کی حکمت عملی یکسر غلط ہے۔ 2018ء کے الیکشن سر پر کھڑے ہیں۔ پارٹی کی تنظیمی حالت ابتر ہے۔ مختلف دھڑے باہم متصادم ہیں۔ تنظیم اگر بہتر بنائی جائے ۔ اختلافات اگر نمٹا دیے جائیں۔ امیدواروں کے انتخاب کا آغاز کر دیا جائے۔ اہم ترین عنوانات … دہشت گردی‘ معیشت‘ خارجہ پالیسی‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل مل وغیرہ کے سدھار یا نجکاری‘ امن و امان‘ عدالتی نظام اور نوکر شاہی وغیرہ پر کمیٹیاں یا تھنک ٹینک بنا دیے جائیں۔ پاناما لیکس پر دریں اثناء دبائو جاری رکھا جائے۔
اسد عمر نے فون کیا اور کہا کہ اسلام آباد پہنچ کر تفصیل سے وہ تبادلہ خیال کریں گے۔ دارالحکومت وہ آئے مگر محاصرے کی مہم کا ایندھن بن گئے۔
اگست 2014ء کے دھرنے کا تجربہ ذہن میں تھا۔ جولائی2014ء میں خان نے مجھ سے کہا تھاکہ دس لاکھ مظاہرین کے ساتھ اسلام آباد پر وہ یلغار کریں گے ۔رتّی برابر مجھے شبہ نہ تھا کہ یہ ممکن نہ ہو گا۔ دس پندرہ گواہوں کی موجودگی میں‘ اپنی رائے سے انہیں آگاہ کر دیا اوروہ بھی بلند آواز میں۔کامیابی گمراہ کرتی ہے۔رائے ونڈ کے حیران کن جلسہ عام نے تحریک انصاف کی قیادت کو خواب دکھایا ۔ پاناما لیکس پر پیہم مذاکرات اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کی تکلیف دہ ہم سفری نے زچ کر ڈالا تھا۔ ناامیدی میں‘ امکان کی کرن یکایک پھوٹے تو جذباتی توازن بعض اوقات برقرار نہیں رہتا۔
پیپلز پارٹی کی ”غداری‘‘پہ کپتان ناراض تھا۔اسی عالم میںخود پسند علامہ طاہر القادری کے بارے میں‘ نہایت ہی سخت جملہ کہہ دیا۔ علّامہ نے آج تک اپنے اوّلین محسن شریف خاندان کو معاف نہیں کیا‘ جن کے بل پر آسودہ زندگی کا آغازکیا۔ عمران کو کیسے کریں گے؟ شہرت‘ دولت اور اقتدارکے حریص کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی ؎جامۂِ احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہااقبالؔ نے کہا تھا:براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے۔ ہوس چھپ چھپ کے سینوںمیںبنا لیتی ہے تصویریں ۔ ملّا کا نہیں یہ دوسروں کا ذکر ہے۔ واعظ کے بارے میں اس نے یہ کہا تھا ؎
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملاّ ہوں غازی2012ء کے دھرنے میں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود سمیت‘ تحریک کے کئی لیڈر علامہ طاہر القادری سے نامہ و پیام کے آرزومند تھے۔ خان کو قائل کرنے میں‘میں کامیاب رہا کہ ان سے دور رہے۔ بے برکت آدمی ہیں۔ دوسری بار وہ پھنس گیا۔
پیپلز پارٹی کے سوا‘ آئندہ الیکشن میں ہر سیٹ پر جو امیدوار کھڑا کرے گی ‘ باقی اپوزیشن پارٹیاں‘ عمران خاں کی مدد سے انکار کرتی ہیں۔ وہ حصہ مانگتی ہیں۔ الیکشن2018ء کے لیے علامہ صاحب30فیصد سیٹیں چاہتے ہیں جماعت اسلامی 20فیصد سے کم پہ راضی نہ ہوگی۔ چوہدری صاحبان حقیقت پسند ہیں مگر پھر بھی!…مجموعی طور پر کم از کم چالیس فیصد تو کپتان کو چھوڑنا ہی ہوں گی۔ زیادہ تر یہ ہار دی جائیں گی۔ قاف لیگ والے شاید کچھ لے مریں۔یہ ایک پہلو ہے۔ اس سے زیادہ یہ کہ دہلی اور کابل افراتفری پھیلانے پر تلے ہیں۔ اللہ کرے میرا اندازہ غلط ہو۔ کوئٹہ کا سانحہ آخری نہیں لگتا۔ امریکہ بھارت کی پشت پر ہے۔ چین اور ترکی کے سوا عملاً ہمارا کوئی دوست نہیں۔ وزیر اعظم سمیت کسی ایک بھی پاکستانی سیاستدان کو صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ شاکی ہیں ‘ وزیر اعظم کیا‘ایوان وزیراعظم کاعملہ بھی بات نہیں سنتا۔
اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا۔ وزیر اعظم نے تعزیت کی لوٹ آئے۔ چن چن کر نالائق افسر کوئٹہ بھجوائے جاتے ہیں۔ تحقیقات سامنے آئیں گی تو تصدیق ہو گی کہ پولیس کالج میں ایک بھی محافظ ڈیوٹی پر نہ تھا‘ جی ہاں! ایک بھی نہیں۔ آئی جی وہاں پہنچے ضرور لیکن کوئی اقدام نہ کیا۔ فوجی افسر پہنچے تو وہ جھوٹ بولتے رہے کہ انسداد دہشت گردی پولیس کے دستے اندر مصروف عمل ہیں۔ 48پولیس افسروں میں سے دو تہائی عموماً رخصت پر ہوتے ہیں۔ صرف چار مقامی افسر مستقل موجود پائے جاتے ہیں۔ آئی جی صاحب چیف سیکرٹری کا انتخاب ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے پاس بلوچستان کے لیے کوئی وقت نہیں۔ چیف سیکرٹری ‘ وزیر اعظم کے پسندیدہ ہیں۔ پوری کی پوری کھیپ بدل بھی جائے تو بہت زیادہ فرق واقع نہ ہو گا۔ وزیر اعظم کو بلوچستان سے دلچسپی ہی نہیں‘ صوبائی قیادت ناتجربہ کار ہے یا پرلے درجے کی بدعنوان ‘نتیجہ معلوم ‘ ملّاہیں‘ سردار ہیں‘ لیویز ہے اور سونے پہ سہاگہ اچکزئی خاندان ۔بیشتر ارکان اسمبلی ایسے ہیں کہ بیس تیس کروڑ سالانہ سے کم میں‘ جن کا پیٹ نہیں بھرتا۔
بھارت جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ سیرل المیڈاخود نہیں گئے ‘بھگا دیے گئے۔ بھارت سے ان کے رابطے ہیں۔ وفاق حکومت کو پروا ہے نہ اس میں عزم کہ اخبار اور رپورٹر کے باب میں پورا سچ بولے۔ فوج کے نئے سالار کاانتخاب ہونا ہے۔ترجیح اس میں یہ ہے کہ وزیر اعظم کا وفادار ہو اور فوج کے کردار کو محدود کر سکے۔ ظاہر ہے کہ اسے غیر موثر بنا کر ۔غیر موثر یعنی بے دل فوج‘ بھارتی‘ کابلی اور امریکی عزائم کا سامنا کیسے کرے گی؟ سی پیک کا کیا ہو گا؟ گوادر کا مستقبل کیا ہے؟ حتیٰ کہ ایٹمی پروگرام کا؟ خطرہ لاحق ہوا تو زرداری‘ اچکزئی‘ اسفند یار اور مولانا فضل الرحمن سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟ دودھ پینے والے مجنوئوںسے۔
کپتان کو لکھا :آپ غصے میں ہیں اور غصے میں فیصلے نہیں کیے جاتے۔ شہباز شریف پر جو الزامات انہوں نے عائد کئے ہیں وہ ثابت نہ کر سکیں گے‘ حالانکہ عصر حاضر کے شیر شاہ سوری اور قائد اعظم کا دامن صاف تو ہرگز نہیں۔ قومی خزانے کے باب میں اس سفاک ہیں۔ تین ارب کوہاٹ پہ لٹا دیے۔ صوبے کا آئندہ الیکشن جیتنے کے لیے ایک ہزار ارب روپے وہ بربادکر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کا دم غنیمت ہے کہ تجارت پیشہ حکمرانوں پر دبائورہے۔ کامرانی مگر موزوں تجزیے کی مرہون منت ہوتی ہے۔سیاستدان غرض کے بندے‘ میڈیا کا بڑا حصہ بکائو۔ پارٹی غیر منظم‘ لیڈر ناتجربہ کار‘ کارکن غیر تربیت یافتہ‘ تقریباً تمام حلیف شائیلاک کی طرح اپنا حصّہ مانگنے والے۔ فیصلہ کن جنگیں اس طرح کے لشکروں سے نہیں لڑی جاتیں؛ اگرچہ حکومت نے خود کو رسوا کر لیا اور کرتی چلی جائے گی۔
2014ء کے دھرنے میں‘ جنرل راحیل شریف سے‘ کپتان کی ملاقات کے ہنگام‘ پی ٹی آئی کے لیڈروں سے درخواست کی تھی کہ ان کی پیشکش قبول کر لیں۔فوج کی ضمانت سے‘ سانحہ ماڈل ٹائون اور دھاندلی کی زیادہ بہتر تحقیقات کے علاوہ شہباز شریف کی معزولی ممکن تھی۔ انہوں نے سن کر نہ دیا۔
اب کی بار عدالت نے راستہ کھول دیا ہے۔ تحریک انصاف شہرکا محاصرہ نہ کرے‘ حکومت کسی کو گرفتار کرے اور نہ کنٹینر لگائے۔ جلسے پر سمجھوتہ ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک تاریخی اجتماع ہو سکتا ہے۔ طوفان میں جرأت سے زیادہ حکمت درکار ہوتی ہے۔
درویش سے پوچھا:فلاں ‘فلاں اور فلاں درود آپ پڑھتے ہیں؟جواب ملا : فقط ابراہیمی درود ہم پڑھتے ہیں‘ ہم پکّی سڑک پرچلتے ہیں ۔ -
اگر دھرنا کامیاب ہو گیا-جاوید چوہدری
ہم فرض کر لیتے ہیں عمران خان دو نومبر کو اسلام آبادآتے ہیں‘شہر مکمل طور پر بند ہو جاتا ہے‘ سڑکوں پر ہوکا عالم ہوتا ہے‘ اسکول‘ کالج ‘ یونیورسٹیاں ‘ مارکیٹیں‘ بازار‘ شاپنگ سینٹر اور دکانیں لاک ڈاؤن ہو جاتی ہیں‘ ٹرانسپورٹ بند ہو جاتی ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں کام رک جاتا ہے‘ یہ بندش دس پندرہ بیس دن جاری رہتی ہے یہاں تک کہ سپریم کورٹ بھی دھرنے سے متاثر ہو جاتی ہے اور یہ میاں نواز شریف کو فیصلوں تک وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیتی ہے تو کیا ہو گا؟ پاکستان مسلم لیگ ن نیا وزیراعظم چن لے گی‘ میاں نواز شریف مری شفٹ ہو جائیں گے۔
یہ وکلاء کا پینل بنائیں گے اور یہ عدالت میں ثابت کر دیں گے ان کا نام پانامہ لیکس میں شامل نہیں‘ عدالت ان سے لندن کی پراپرٹی کے بارے میں پوچھے گی‘ یہ جائیداد کے مالکان کو عدالت میں پیش کر دیں گے‘ حسن نواز‘ حسین نواز اور مریم نواز جائیداد کو ’’اون‘‘ کر لیں گے‘ عدالت ان سے ’’منی ٹریل‘‘ پر سوال کرے گی‘ یہ عدالت کو 1973‘ 1978ء‘ 1999ء اور 2005ء کا ریکارڈ دے دیں گے‘ یہ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ پاکستان اور برطانیہ کے بینک ریکارڈز اور ٹیکس قوانین بھی پیش کر دیں گے‘ عدالت یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گی کہ میاں نواز شریف کا نام واقعی پانامہ لیکس میں شامل نہیں‘ لندن کی جائیداد ان کے بچے اون کر رہے ہیں۔
پانامہ‘ برطانیہ‘ سعودی عرب اور یو اے ای کے قوانین کے تحت یہ جائیداد یں ناجائز نہیں ہیں جب کہ پاکستان کے ٹیکس قوانین میں 1973ء سے 2013ء تک 13ٹیکس امیونٹیز آ چکی ہیں اور ان اسکیموں کی وجہ سے 40 سال کا کالا دھن سفید ہو چکا ہے چنانچہ عدالت شریف خاندان کو باعزت بری کرنے پر مجبور ہو جائے گی‘ یہ 2018ء کا الیکشن لڑیں گے اور خوفناک ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے لہٰذا پھر عمران خان کے دو نومبر‘ دھرنے‘ شہر کی بندش اور کامیابی کا کیا فائدہ ہوا‘ اس ساری ایکسرسائز کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا عمران خان یہ چاہتے ہیں؟ عمران خان کا جواب یقینا ناں ہو گا۔
ہم اب دوسرے امکان کی طرف آتے ہیں‘ ہم فرض کر لیتے ہیں عدالت میاں نواز شریف کو ’’ڈس کوالی فائی‘‘ کر دیتی ہے‘ یہ وزیراعظم نہیں رہتے تو کیا ہو گا؟ یہ لوگ احسن اقبال کو عارضی وزیراعظم بنائیں گے‘ میاں شہباز شریف پنجاب خواجہ حسان کے حوالے کریں گے‘ ایم این اے ’’الیکٹ‘‘ ہوں گے اور وزیراعظم بن جائیں گے‘ میاں نواز شریف پارٹی سنبھال لیں گے‘ یہ لوگ 2018ء کا الیکشن لڑیں گے‘ حکومت بنائیں گے‘ سینیٹ میں نشستیں پوری کریں گے‘ پارلیمنٹ میں بل پیش کر کے میاں صاحب کا جرم معاف کرائیں گے اور نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم بن جائیں گے اور اگر یہ ہو گیا تو وہ میاں نواز شریف صرف میاں نواز شریف نہیں ہوگا وہ زخمی شیر ہو گا اور وہ زخمی شیر کس کس کا کیا کیا حال کرے گا ہم اس کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
لہٰذا پھر عمران خان کے دو نومبر‘ دھرنے‘ شہر کی بندش اور کامیابی کا کیا فائدہ ہوا؟ اس ساری ایکسرسائز کا کیا نتیجہ نکلا؟ اور کیا عمران خان بوڑھے‘ کمزور اور بیمار شیر کو زخمی اور خوفناک دیکھنا چاہتے ہیں‘ عمران خان کا جواب یقینا اس بار بھی ناں ہو گا‘ ہم اب تیسرے امکان کی طرف آتے ہیں‘ ہم فرض کر لیتے ہیں دھرنے طویل ہو جاتے ہیں‘ عمران خان پیچھے ہٹتے ہیں اور نہ ہی میاں نواز شریف‘ سپریم کورٹ سیاست بازی میں نہیں الجھتی‘ کار سرکار بند ہو جاتا ہے‘ سرکاری میٹنگز‘ سرکاری دورے اور سرکاری فیصلے ملتوی ہو جاتے ہیں‘ کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں‘ اسٹاک ایکسچینج کریش کر جاتی ہے اور میڈیا ’’اوئے اوئے‘‘ کرنے لگتا ہے۔
یہ دیکھ کر فوج کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے اور یہ مارشل لاء لگادیتی ہے لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا فوج عمران خان کو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دے گی؟ کیا یہ پوری پاکستان مسلم لیگ ن پر پابندی لگا دے گی اور کیا یہ الیکشن کرائے گی اور آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا احتساب اگلی حکومت پر چھوڑ دے گی؟ جی نہیں‘ یہ پہلے ایل ایف اوز کے تحت احتساب کے قوانین بنائے گی‘ یہ خصوصی عدالتیں تشکیل دے گی اور پھر مجرموں کے خلاف مقدمے چلائے گی‘ ملک میں اس دوران مارشل لاء رہے گا‘ کیوں؟ کیونکہ فوج اگر احتساب سے پہلے مارشل لاء اٹھا لیتی ہے تو آئین بحال ہو جائے گا اور آئین بحال ہو گیا تو پاکستان مسلم لیگ ن اور شریف خاندان دونوں باہر آ جائیں گے۔
ہم ایک لمحے کے لیے یہ بھی فرض کر لیتے ہیں فوج الیکشن سے پہلے احتساب میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ احتساب صرف آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا ہوگا؟ کیا عمران خان‘ ان کے ساتھی‘ فوج کے سابق جرنیل اور جنرل پرویز مشرف احتساب کے بیلنے میں نہیں آئیں گے؟ اور اگر یہ لوگ بھی احتساب کا شکار ہو جاتے ہیں تو پھر دو نومبر‘ دھرنے اور شہر کی بندش کا کیا فائدہ ہوا؟ اور ہم اگر یہ بھی مان لیں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف جیلوں میں ٹھونس دیے جاتے ہیں اور عمران خان اور ان کی پارٹی احتساب میں کلیئر ہو جاتی ہے تو کیا گارنٹی ہے فوج آسانی سے بیرکس میں چلی جائے گی؟ ہماری تاریخ گواہ ہے فوج جب بھی اقتدار میں آئی یہ دس سال سے پہلے واپس نہیں گئی اور اس نے دوران اقتدار اپنی پارٹی بھی ضرور بنائی‘ یہ اگر اس بار بھی دس سال اقتدار میں رہتی ہے اور یہ کوئی نئی مسلم لیگ بنا لیتی ہے تو عمران خان کو کیا فائدہ ہو گا؟ کیا یہ سب کچھ اس لیے کر رہے ہیں؟ مجھے یقین ہے عمران خان کا جواب اس بار بھی ناں ہوگا۔
ہم اب چوتھے اور آخری امکان کی طرف آتے ہیں‘ ہم فرض کر لیتے ہیں‘ واقعات عمران خان کی اسکیم کے مطابق چلتے ہیں‘ شہر بند ہو جاتا ہے‘ سپریم کورٹ پورے شریف خاندان کو ڈس کوالی فائی کر دیتی ہے‘ میاں نواز شریف کے تخت سے اترتے ہی پارٹی تتر بتر ہو جاتی ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے 90 فیصد سینیٹرز‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز عمران خان کی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں‘ سپریم کورٹ ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنا دیتی ہے‘ یہ حکومت نیا الیکشن کمیشن بنا کر الیکشن کرا دیتی ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے لوٹے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ عمران خان کو وزیراعظم بنوا دیتے ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟
کیا عمران خان ایک آزاد اور خود مختار نیب بنا سکیں گے؟ کیا یہ صاف اور شفاف احتساب کے لیے نئے قوانین تیار کر سکیں گے؟ جی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ اگر نئے قوانین بن گئے‘اگر ملک میں آزاد اور خود مختار نیب بن گیا تو وہ تمام پارلیمنٹیرینز بھی زد میں آ جائیں گے جو احتساب سے بچنے کے لیے ن لیگ کے اصطبل سے پی ٹی آئی کے رِنگ میں آئے تھے چنانچہ یہ کبھی عمران خان کو نئی قانون سازی نہیں کرنے دیں گے اور یوں عمران خان بھی میاں نواز شریف بن جائیں گے‘ یہ بھی حکومت بچانے میں لگ جائیں گے چنانچہ پھر عمران خان کو اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا یہ دو نومبر کے ذریعے ملک بھر کے لوٹوں کو اپنے گرد جمع کرنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ ایک نئی ق لیگ بنانا چاہتے ہیں‘ مجھے یقین ہے عمران خان کا جواب اس بار بھی ناں ہوگا۔
ہم اگر ان چاروں امکانات کو سامنے رکھیں تو ہمیں ماننا ہوگا‘ ان میں سب کچھ ممکن ہے اگر ممکن نہیں تو وہ احتساب ہے! دونومبر کا کوئی بھی نتیجہ نکلے لیکن اس نتیجے سے پانامہ لیکس کا حل نہیں نکلے گا‘ کیوں؟ کیونکہ اس کے لیے قانون ضروری ہے اور ہمارے ملک میں آف شور کمپنیوں ‘ بیرون ملک جائیدادوں اور ماضی کی پراپرٹی کے خلاف کوئی ٹھوس قانون موجود نہیں لہٰذا آپ کچھ بھی کر لیں‘ آپ خواہ اسلام آباد کو دس سال کے لیے بند کر دیں لیکن سڑکوں اور تالوں سے کوئی قانون نہیں نکلے گا‘ آپ کو قانون کے لیے بہرحال پارلیمنٹ میں جانا ہو گا اور عمران خان پارلیمنٹ کے بجائے یہ قانون فیض آباد‘ زیرو پوائنٹ اور ڈی چوک میں تلاش کر رہے ہیں‘ یہ کیسے ممکن ہے؟
آپ اس لاک ڈاؤن کے ذریعے میاں نواز شریف کو چند ماہ کے لیے سسٹم سے باہر ضرور رکھ سکتے ہیں لیکن آپ ملک کو احتساب کا شفاف سسٹم نہیں دے سکتے چنانچہ آپ خدا کے لیے ملک پر رحم کریں‘ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ جائیں‘ قانون بنائیں اور ملک کے تمام بدمعاشوں کو پکڑ لیں‘ عوام کو بے وقوف نہ بنائیں‘ یہ بے چارے بے وقوف بن بن کر تھک چکے ہیں‘ یہ دو نومبر کا مقصد جان گئے ہیں‘ یہ سمجھ گئے ہیں دو نومبر سے دو ہزار محتاج باپ بن سکتے ہیں لیکن اس سے احتساب کی گود ہری نہیں ہو سکتی‘یہ جان گئے ہیں پانامہ درمیان میں رہ جائے گا اور پائجامہ آگے آ جائے گا‘ ملک پیچھے چلا جائے گا اور نئے لٹیرے آگے آ جائیں گے‘ کیا عمران خان یہ چاہتے ہیں!
-
ایک چھوٹا سا سوال-ہارون الرشید
چھوٹا سا ایک سوال یہ ہے: اگر کسی نے کچھ چرایا نہ ہو تو تلاشی دینے میں تامّل کیا؟ عجیب بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے چرایا بھی کچھ نہیں اور تلاشی کی بات سننے کے روادار بھی نہیں۔لندن پلان کا شوشہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس سے زیادہ یہ کہ انکشاف قومی اسمبلی کے سپیکر نے کیوں کیا؟ تحریکِ انصاف ایسی معمولی پارٹی اور عمران خان ایسے معمولی آدمی کے بارے میں بات کرنا وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف یا خادمِ پنجاب کے شایان شان نہیں۔ وزرا کی ایک فوج ظفر موج بھی تو ہے۔ ادھر عمران خان ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں‘ ادھر ان میں سے کوئی نمودار ہوتا ہے۔ پھر وزارت اطلاعات کے دفتر میں ایک عدد پریس کانفرنس برپا کی جاتی ہے۔ ایک آدھ نہیں بعض اوقات دو تین وزیر یا وزارت کے امیدوار فکر و نظر کے موتی رولتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے سپیکر کا منصب بہت ہی معتبر مانا جاتا ہے۔ ابھی کل تک اس بدنصیب ملک میں بھی اس عہدے کی کچھ آبرو باقی تھی۔ فخر امام‘ ملک معراج خالد‘ حامد ناصر چٹھہ‘ گوہر ایوب ایسے لوگ اس پر فائز رہے۔ بارہا حکومتوں کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ فخر امام نے تو اپنے عہدے کی قربانی ہی دے دی۔ جناب ایاز صادق کیا اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ایوان سے باہر خاموشی ہی روا رکھیں؟ متنازعہ موضوعات پر اظہار خیال سے ہی گریز کریں؟
سپیکر صاحب کا مسئلہ کچھ اور لگتا ہے۔ 2013ء میں ان کی کامرانی‘{ کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ عدالت نے‘ ظاہر ہے کہ دھاندلی کی بنیاد پر۔ دوسری بار کی کامیابی بھی مشکوک ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ لاہور کے دوسرے حلقوں سے کم از کم اٹھارہ‘ انیس ہزار ووٹ اس حلقے میں منتقل کئے گئے‘ جبکہ کئی ہزار اس حلقے سے نکال کر دوسروں میں پہنچا دیئے گئے۔ قانونی طور پر یہ عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ چند درجن یا چند سو ووٹ‘ یہاں سے وہاں چلے جاتے ہیں‘ پانچ برس میں! ایک طریق کار ہے‘ الیکشن کمیشن سے ایک عدد فارم حاصل کرنا پڑتا ہے‘ مندرجات اس میں رقم ہوتے ہیں۔ دفتری کارروائی سے گزر کر‘ یہ سلسلہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ اب کی بار چند سو ووٹوں سے سردار ایاز صادق کی خیرہ کن فتح میں‘ اس عمل کا سراغ ہی نہیں ملتا۔ دستِ غیب نے راتوں رات کرشمہ کر دکھایا۔
ہمارے سیاسی نظام کی‘ جسے جمہوریت ہی کہا جاتا ہے‘ روایت یہی ہے کہ شاذ ہی انتخابی تنازعات کا ایک آدھ برس میں فیصلہ ہوا کرتا ہے۔ اکثر اگلے الیکشن تک معاملے کو گھسیٹا جاتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے حلقوں کی صورت حال یہی ہے۔ معلوم نہیں‘ الیکشن کمیشن کا مصرف کیا ہے؟ نون لیگ اگر سچی ہے تو معلوم نہیں کہ بروقت فیصلے وہ کیوں ممکن نہیں بناتی۔ سپیکر صاحب والا تنازعہ تین برس تک جاری رہا۔ سیاسی اخلاقیات کا کم از کم تقاضا یہ تھا کہ وہ اس منصب پر فائز نہ کئے جاتے۔ جس امیدوار کے بارے میں یقین ہی نہیں کہ واقعی وہ قومی اسمبلی کا ممبر ہے‘ اسی کو سپیکر بنانا کیوں ضروری تھا؟ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان وہ توازن کیسے قائم رکھ سکتا ہے؟ نازک فیصلے اسے صادر کرنا ہوتے ہیں۔ ایک جج کی سی غیر جانبداری اور انصاف پسندی کا مظاہرہ وہ کیسے کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ سرکاری بیساکھیوں کی اسے ضرورت رہتی ہے۔ احساسِ جرم کا وہ شکار رہتا ہے۔
اسی ذہنی کیفیت میں سپیکر صاحب فریق بن گئے ہیں اور وہ بھی اس لشکر ایسے فریق‘ جس کا ذکر اس روز اعتزاز احسن نے کیا۔
پختہ کار جمہوریتوں میں سپیکر کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے۔ ایک مدت پوری کرنے کے بعد‘ دوسری بار وہ سپیکر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرے تو مخالف جماعت اکثر امیدوار ہی کھڑا نہیں کرتی۔ لگتا ہے کہ ایاز صادق صاحب کو ابھی تک اپنے سپیکر ہونے کا یقین نہیں آیا۔ اسلام آباد میں‘ ایک معروف کاروباری تنظیم کی تقریب چند ماہ قبل منعقد ہوئی۔ سپیکر صاحب مہمان خصوصی تھے۔ فراواں حیرت کے ساتھ دیکھا گیا کہ دس پندرہ منٹ تک ان کا تعارف کرایا جاتا رہا۔ محترم خاتون سیکرٹری سے‘ جو تعلیمی دنیا کی جانی پہچانی شخصیت ہیں‘ وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے بتایا: یہ تعارف نامہ خود سپیکر صاحب کی طرف سے بھجوایا گیا۔ ”ہم نے تو اس کا ایک تہائی حصہ ہی پڑھ کر سنایا‘‘۔ مکمل دستاویز ان کے ہاتھ میں تھی‘ جس کی نقل ازراہ کرم‘ انہوں نے مجھے عطا کر دی۔ بوریت کا‘ قارئین کی ناراضی کا اندیشہ ہے‘ وگرنہ میں اسے نقل کرتا۔ اس میں یہ بھی درج ہے کہ تین برس میںکب کب‘ کس کس ملک‘ کس کس شہر کو ان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ذہنی مریضوں کے عالمی دن پر‘ آج ایک ماہر نفسیات نے کہا کہ اکثر پاکستانی لیڈر طبّی معائنے کے محتاج ہیں۔ خیر‘ سپیکر صاحب تو ذہنی طور پر بہت مستعد اور کارگر نظر آتے ہیں۔ کسی ماہر نفسیات کو مگر ان کی اتنی سی مدد ضرور کرنی چاہیے کہ انہیں سپیکر ہونے کا یقین آ جائے۔ پھر سرکاری دانشوروں میں سے کسی کو انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے منصب کے تقاضوں کا خیال رکھیں تو اس سے ان کی عزت میں اضافہ ہو گا‘ کمی ہرگز نہ آئے گی۔
تو وہ لندن پلان؟… شیخ رشید اگر اس لیے لندن پہنچے ہیں کہ علامہ طاہرالقادری کو دھرنے میں شرکت پر آمادہ کریں تو یہ قابل فہم ہے۔ ان کی ساری سیاست اس طرح کی شعبدہ بازیوں سے روشن رہتی ہے۔ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ‘ ان کی ممتاز پارٹی کو حاصل ہے اور وہ بھی عمران خان کے طفیل۔ وہ ٹی وی پر سنسنی خیز ٹی وی انٹرویوز کے بل پر زندہ ہیں‘ جو مقبولیت کی دوڑ میں دیوانے ٹی وی میزبانوں کی ضرورت ہیں۔ تحریکِ انصاف کو علّامہ صاحب سے سلسلٔہِ جنبانی کے لیے ان کی ضرورت بہرحال نہ تھی۔ عمران خان سے‘ وہ ایک ٹیلی فون کال کے فاصلے پر ہیں۔ چوہدری سرور سے میری بات ہوئی‘ جب وہ لندن کے ہوائی اڈے سے باہر نکل رہے تھے۔کہا کہ وہ فقط کشمیر پر پاکستان کا موقف اجاگر کرنے آئے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ بہت سی اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ ہے۔ تفصیل واپسی پر وہ بیان کر دیں گے۔ جہانگیر ترین سے رابطہ نہ ہو سکا مگر ان کے قریبی دوست اسحٰق خان خاکوانی نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں سے ملنے گئے ہیں‘ چار پانچ دن میں لوٹ آئیں گے۔ چوہدری سرور سے پوچھا گیا: دونوں ایک جہاز سے کیوں تشریف لے گئے؟ کہا؛ یہ محض اتفاق ہے۔ میری معلومات کے مطابق دونوں کے مراسم کچھ ایسے خوشگوار نہیں۔ عمران خان نے اگر اپنی پارٹی کے دو لیڈروں کا گروپ بھیجنا ہوتا تو ان دونوں کا انتخاب ہرگز نہ کرتا۔
عصر حاضر کے سب سے بڑے علّامہ‘ تحریک انصاف سے ناراض ہیں۔ ان کے دورے کا پروگرام طے شدہ ہے اور وطن واپسی کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ دو عدد نیم سرکاری اخباروں میں لندن پلان کے سلسلے میں سازشوں کی تفصیلات چھپی ہیں۔ مگر یہ زیادہ تر 2014ء کے دھرنے کی روداد پر مشتمل ہیں یا اس دعوے کی تفصیل کہ وقائع نگار نے اس سے پہلے قوم کو کس طرح باخبر رکھا۔ شواہد اس میں کوئی نہیں۔ فرض کیجئے‘ تحریکِ انصاف والے غلط بیانی کے مرتکب ہیں تو کچھ دن میں بات کھل جائے گی۔
باخبر لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت نے اب کی بار مظاہرین سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق پروپیگنڈے کی یہ مہم‘ اسی لیے شروع کی گئی۔ فی الحال لیڈر اور دانشور کرتب دکھائیں گے۔ پولیس کو بعد میں برتا جائے گا۔ گرفتاریاں ہوں گی‘ ضرورت پڑی تو لاٹھیاں برسیں گی اور شاید کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ ایک آدھ دن کے لیے عمران خان کو بھی نظربند کیا جا سکتا ہے۔ خدانخواستہ خون بہا تو کپتان کو فساد فی الارض کا مرتکب اور واجب القتل قرار دے دیا جائے گا۔ میڈیا سیل موجود ہے۔ محقق مہیاّ ہیں۔
چھوٹا سا ایک سوال یہ ہے: اگر کسی نے کچھ چرایا نہ ہو تو تلاشی دینے میں تامّل کیا؟ عجیب بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے چرایا بھی کچھ نہیں اور تلاشی کی بات سننے کے روادار بھی نہیں۔ -
عمران خان اور طالبان-خورشید ندیم
کیا عمران خان طالبان کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں؟
طالبان کا ایجنڈا کیا تھا؟ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور اس کی آڑ میں حکومت پر قابض ہونا۔ طالبان نے جو مقدمہ مذہب کے نام پرقائم کیا، عمران خان وہی مقدمہ احتساب کے نام پر پیش کر رہے ہیں۔ طالبان کا مقدمہ کیا تھا؟ پاکستان کے حکمران مرتد ہوچکے۔ یہ طاغوت کے ساتھی ہیں۔ ان کی حکومت ناجائز ہے، اس لیے اس کے خلاف خروج جائز ہی نہیں، اب لازم ہے۔ عمران خان کا مقدمہ کیا ہے؟ پاکستان کے حکمران کرپٹ ہیں۔ نوازشریف حقِ اقتدار کھو چکے۔ ان کی حکومت ناجائز ہے۔ اس لیے ہم انہیں حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ ایک کی زبان اور اصطلاحیں مذہبی ہیں اور دوسرے کی عصری سیاست سے مرتب ہوئی ہیں۔ اگر طالبان غلط تھے تو عمران خان کیسے درست ہیں؟ اگر عمران خان ٹھیک کر رہے ہیں تو طالبان کیسے غلط کر رہے تھے؟مجھے تشویش ہے کہ اس ملک کے دانش ورطبقے کو معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں، الا ما شااللہ۔ یہ عمران خان اور نواز شریف کے مابین معرکہ نہیں ہے۔ لوگ ظلم کرتے ہیں جب اس کی یہ تعبیر کرتے ہیں۔ یہ تصادم آئین اور آئین شکنی کا ہے۔ یہ جمہوریت اور انقلاب کا ہے۔ اس بحث میں یہ بات بے معنی ہے کہ وزیرِ اعظم کون ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے کا نام کیا ہے۔ سادہ سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں آئین موجود ہے، ادارے موجود ہیں، تبدیلی کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس لیے آج اہم سوال یہ نہیں کہ عمران خان درست کہہ رہے ہیں یا غلط۔ سوال یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس کا انجام کیا ہوگا؟
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ تصادم عوام اور حکمران طبقے کے مابین نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جسے عوامی اعتماد حاصل ہے۔ وہ اس پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت ہے جسے عوام نے منتخب کیا۔ حکومت کے افراد کو کرپٹ مان لیا جائے تو بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں عوام کے سب سے بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مشرف جیسے کسی آمر کے خلاف مقدمہ نہیں ہے جس نے مرضی کا فیصلہ نہ دینے پر عدالتِ عظمیٰ کو معطل کردیا تھا۔ ایسی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت شرعاً، اخلاقاً اور قانوناً جرم ہے۔ عمران خان نے دراصل بغاوت کا اعلان کیا ہے۔ یہی وہ اہم بات ہے جسے رائے ساز طبقہ نظر انداز کر رہا ہے۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں فوجی آمریتوں کے خلاف بغاوت نہیں ہوتی، آئینی اور منتخب حکمرانوں کے خلاف ہوتی ہے جب میڈیا اور عدلیہ آزاد ہوتے ہیں اور لوگ احتجاج کاحق بھی استعمال کر تے ہیں۔
عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اگر وزیرِ اعظم نے استعفیٰ نہ دیا یا اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہ کیا تو وہ انہیں حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ عملاً اس کی دوصورتیں ممکن ہیں: ہجوم سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لے یا ان کے دروازے بند کر دے تاکہ اہلکار اندر نہ جا سکیں۔ موجودہ دور میں حکومت کسی فردِ واحد کا نام نہیں۔ نواز شریف بھی اداروں کے توسط سے حکومت کرتے ہیں۔ حکومت کو کام سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام حکومتی اداروں کو معطل کردیا جائے۔ عمران خان کے الفاظ میں وہ اسلام آباد کو بند کردیں گے۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ یہ دھرنا نہیں ہے۔ کیا اس نقطہ نظر کو کیانام دیا جا سکتا ہے؟ کیا اسے کوئی سنجیدہ آدمی ”احتجاج جمہوری حق ہے‘‘ کی دلیل فراہم کرسکتا ہے۔ عمران خان کا موقف اگر درست مان لیا جائے تو بھی اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ایک غیر آئینی اقدام ہوگا۔
اب اس موقف کو سیاسی حوالے سے دیکھیے؛ نوازشریف ایک مقبول سیاست دان ہیں۔ اس ملک میں ان کا ایک حلقہ ہے۔ جب عمران خان نوازشریف کواس طرح للکاریں گے تو کیا ان کے حامی خاموش رہیں گے؟ اگر کے پی میں کوئی صوبائی حکومت کے خلاف یہی رویہ اپنائے توایک ردِ عمل تو وہ ہے جو حکومت کی طرف سے سامنے آئے گا۔ دوسرا وہ ہے جو تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے غصے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ نوازشریف سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق، وہ ایک سیاسی عصبیت کی علامت ہیں۔ جب ان کی حکومت کو اس طرح غیرآئینی طورپر ختم کر نے کی کوشش ہو گی تو اس کا ردِ عمل ہوگا۔گویاایک تصادم ناگزیر ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو اگر خدا نخواستہ پیدا ہو گئی تو پھر پاکستان کو خانہ جنگی سے نہیں بچا یا جا سکے گا؟ کیا عمران خان اسی کے لیے سرگرداں ہیں؟
یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دیگر سیاسی جماعتیں ان کی تائید میں نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی مختلف سیاسی عصبیتوں کی نمائندہ ہیں، جیسے پیپلزپارٹی یا جمعیت علمائے اسلام۔ اس سے بھی واضح ہے کہ عمران خان ایک اقلیتی گروہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایک اقلیتی گروہ کو اگر یہ حق دے دیا جائے کہ وہ خود ہی مدعی ہو، خود ہی منصف اور ساتھ ہی وہ قوتِ نافذہ بھی ہاتھ میں لے لے تو پھر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ مذہبی انتہا پسند بھی اس ہجوم کا حصہ بن جائیں اوراس کی آڑ میں دارالحکومت پر قبضے کی کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اس سے بہتر موقع انہیں کبھی نہیں مل سکتا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جب دارالحکومت کو بند کیا جائے گا تو ریاست بھی ردِ عمل کا اظہار کرے گی۔ ایسے صورتِ حال میں قانون حکومت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرے۔ پہلے مرحلے پر پولیس متحرک ہوگی اور اگر معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جا تے ہیں تو وزیراعظم فوج بھی طلب کر سکتے ہیں۔ فوج کے لیے لازم ہے کہ وہ حکومت کا حکم مانے۔ انکار کی صورت میں مارشل لا کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا، الّا یہ کہ نوازشریف اردوان ثابت ہوں۔ یہ حالات عام شہریوں کے جان و مال کو کس طرح ارزاں بنا دیں گے، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔
پرویز خٹک نے ایک اور ظلم کیا ہے۔ انہوں نے اسے پختونوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے سنڑل کمیٹی میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکم دیں تو وہ سب پختون باہر نکل آئیں گے جو راولپنڈی اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں ایک گروہ پہلے ہی مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ وہ پنجاب کے راہنما ہیں۔کیا پرویز خٹک اس کوپختون پنجابی جھگڑا بنانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ یہ سوچ ملک کے لیے کتنی خطرناک ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر کوئی صریع الاثر زہر ہے جو اس ملک کی رگوں میں اتا را جا سکتا ہے؟
یہ و قت معاملات کو افراد کے تناظر میں دیکھنے کا نہیں۔ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جو کام طالبان اسلام اور طاغوت کے نام پر نہیں کر سکے، مجھے خدشہ ہے کہ عمران خان،خاکم بدہن، احتساب اور کرپشن کے نام پر کرگزریں گے۔ سخت ظلم ہو گا اگر اس ملک کے دانش ور اس قضیے کو نوازشریف اور عمران خان کے تناظر میں دیکھیںگے۔ یہ فیصلہ کن گھڑیاں ہیں، پاکستان کے لیے بھی اورعمران خان کے لیے بھی۔ میں اب بھی عمران خان کے بارے میں خوش گمان ہوں کہ وہ دل سے فساد نہیں چاہتے۔
کاش وہ اپنے طرزِ عمل کے نتائج پر غور کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر رحم کرے اور عمران خان پر بھی۔ -
کپتان کی ٹیم-عمار چوہدری
اب سمجھ آیا‘ ہمارے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزیراطلاعات آئے روز بھاگم بھاگ چین کے دوروں پر کیوں جاتے ہیں۔ جب سے بھارت نے جنگ کے شعلے بھڑکائے ہیں اور اس کے جواب میں چین نے ہر طرح سے پاکستان کا ساتھ دینے کی حامی بھری ہے تب جا کر احساس ہوا کہ یہ دورے کیوں ہوتے تھے اور حکومت چین کے ساتھ تعلقات کیوں مضبوط کرنا چاہتی تھی۔ خطے میں چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے بھارت پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی مات دینے کا خواہشمند ہے۔ فرانس کے ساتھ چھتیس رافیل طیاروں کی بھارتی ڈیل کی بھی یہی وجہ ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ طیاروں کے حصول کے بعد ترکی سے لے کر چین تک سبھی اس کے نشانے پر آ جائیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فرانس میں بنے یہ جہاز تین سے چار ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ان میں نہایت ہی طاقتور قسم کے ریڈار نصب ہیں اوریہ چھ میزائل ایک ساتھ فائر کرسکتے ہیں۔اہم ترین یہ کہ یہ جہاز زمین سے ساٹھ ہزار فٹ کی اونچائی سے دشمن کو ٹارگٹ کر سکتا ہے۔ انہی معاملات کی بنا پر چین کا جھکائو بھارت کے برعکس پاکستان کی طرف زیادہ ہے کیونکہ چین کو معلوم ہے کہ امریکہ خطے میں برتری دلانے کیلئے بھارت کو ہلہ شیری دے رہا ہے۔
امریکہ دراصل کانٹے سے کانٹا نکالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہ خود تو چین کی معیشت کو براہ راست کچوکے لگانے کی پوزیشن میں نہیں‘اسی لئے بھارت کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلا رہاہے۔ معاشی طور پر چین امریکہ سے زیادہ مستحکم نظر آتا ہے کہ اس وقت امریکہ کئی ٹریلین ڈالر کا چین کا مقروض ہے اور چین سے ہزاروں اشیا بادل نخواستہ برآمد کرنے پر مجبور ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء کے وسط تک امریکہ کی وفاقی حکومت، ریاستیں اور مقامی حکومتیں چین کی 18.5ٹریلین ڈالرز کی مقروض تھیں۔ یہ قرض بڑھ کر اب 21.6ٹریلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے ۔ امریکی حکومت کے ذمہ چینی قرض کی یہ دستاویزات خود امریکی محکمہ خزانہ اور فیڈرل ریزرو نے تیار کی تھیں۔امریکہ نے اپنے کل قرضوں کا ساڑھے چھ سے سات فیصد چین اور جاپان سے لیے ہیں۔ امریکی حکام جاپانی قرضوں سے اس قدر پریشان نہیں جتنا چین سے لیے گئے بھاری قرضے ان کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں کیونکہ جاپان کی معیشت چین کی طرح تیزی سے ترقی نہیں کر رہی۔ امریکہ میں آپ کو ایک چھوٹا سا چین بھی ابھرتا نظر آئے گا۔ جس طرح افغانوں نے پاکستان میں تیزی سے کاروباری میدان میں قدم جمانے شروع کر دئیے ہیں‘ اسی طرح امریکہ میں چینی بستیاں آباد ہونے لگی ہیں۔
امریکہ کے دل نیویارک کے وسط میں لندن کے سکھوں کی آبادی والے سائوتھ ہال جیسے کئی علاقے ہیں جہاں ہر طرف چینی ہی چینی دکھائی دیتے ہیں۔امریکہ میں چینی باشندوں کی تعداد چالیس لاکھ کے قریب ہے ۔ایک امریکی رپورٹ کے مطابق پینسٹھ فیصد چینی امریکہ میں ذاتی گھر کے مالک ہیں۔ یہ تعداد امریکی شہریوں سے چودہ فیصد زیادہ ہے یعنی چینیوں کے پاس امریکہ میں اپنا گھر رکھنے کی استطاعت امریکیوں سے بڑھ چکی ہے۔ امریکہ میں چینی باشندے تعلیم‘ معیشت اور لائف سٹائل کے معاملے میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ چینی قوم دنیا میں جہاں جاتی ہے اپنا رنگ جما دیتی ہے۔ چین میں چینی اشرافیہ بھی نمو پا رہی ہے اور یہ عرب شہزادوں کے بعد لندن اور نیویارک کے مہنگے ترین سٹورز میں شاپنگ کرنے والی دوسری قوم بن چکی ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں جو چین کی اہمیت پوری طرح نہیں سمجھ سکے۔ دو سال قبل دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کے آنے کی تاخیر ہوئی تب بھی اپوزیشن کو معاملے کی نزاکت کا احساس نہ ہوا۔ آج جب بھارت خطے میں پاکستانی کی جنگی و سفارتی کامیابی کی وجہ سے حیران و پریشان ہے تو اس کی وجہ پاک چین تعلقات ہی ہیں جن کی وجہ سے بھارت کوئی بڑی جارحیت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
گزشتہ روز چین نے بھارت کا پانی بند کیا تو ہم خوشی سے چھلانگیں لگا رہے ہیں اور بھارت دیواروں سے ٹکریں مارنے پر مجبور ہے۔ چینی نیوز ایجنسی کے مطابق پانی کی بندش سے دریائے برہم پترا کے پانی میں چھتیس فیصد کمی ہو گی جس سے بھارت کی پانچ ریاستیں متاثر
ہوں گی۔ چین سے نکل کر برہم پترا دریا بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں ارونا چل پردیش اور آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش تک جاتا ہے۔بھارتی ماہرین کے مطابق یہ پاک بھارت کشیدگی میں سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی بھارتی کوششوں کے تناظر میں سفارتی اشارا ہے۔بھارت کو دوسری منہ کی اس وقت کھانا پڑی جب چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی میںمسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق بھارتی قرارداد پراپنے ویٹو میں چھ ماہ کی توسیع کر دی جس پر بھارتی رہنما جل بھن کر رہ گئے۔چینی وزیر خارجہ کے مطابق دہشت گردوں کی فہرست میں کسی کو شامل کرنے کا معاملہ بغیر شواہد کے نہیں ہونا چاہیے۔بھارت کو آگے چل کر مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔سی پیک وہ دوسرا بڑ امنصوبہ ہے جو خطے میں پاکستان اور چین کو نہ صرف ایک دوسرے کے قریب تر کردے گا بلکہ خطے کی معاشی ترقی میں بھی اضافہ کرے گا۔امریکہ ‘بھارت اور افغانستان نے ایک ٹرائیکا بنا رکھا ہے جس میں سے خطے کے اہم ترین ممالک چین او رپاکستان کو خارج کر دیا ہے۔ اس ٹرائیکا کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان دوری پیدا کرنا اور سی پیک جیسے منصوبوں میں رخنہ ڈالنا ہے۔اس ٹرائیکا کے اجلاس بھی امریکہ میں ہوتے ہیں۔ امریکہ بھارت اور افغانستان کے ذریعے سی پیک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا۔ سی پیک منصوبے کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے اکٹھے کیا تھا۔ اس وقت سے یہ دشمن قوتوں کو کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ضرب عضب آپریشن بھی سی پیک کی تکمیل میں معاون بن رہا ہے۔ ان سب کامیابیوں کے بعد بھارت کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے بال نوچے یا پھر سرجیکل سٹرائیک جیسی بے بنیاد درفنطنیاں چھوڑے۔
سرحدی کشیدگی کے باوجود تحریک انصاف نے رائے ونڈ جلسہ کیا ۔ اب محرم کے بعد وہ اسلام آباد بند کرنا چاہتی ہے۔ اس کامطلب ہے کہ اسلام آباد یا ملک کو چلنے کے لئے ایک ماہ اور مل گیا ہے۔ جلسے میں عمران خان نے کہا کہ سرحدی کشیدگی کے باعث فوج کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے ورنہ یہیں بیٹھ جاتے۔سوال یہ ہے کہ ایک ماہ بعد بھی کشیدگی رہی تو کیا وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے یا پھر کوئی نیا اعلان کریں گے۔جس انداز میں انہوں نے مخالفین کو پکارا‘ اب ان کی تحریک مولا جٹ قسم کی تحریک بنتی جا رہی ہے جس کے ہدایت کار شیخ رشید جیسے لوگ ہیںجنہوں نے اپنی تقریر کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا کہ عمران خان حکم دیںتو رائے ونڈ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ معلوم نہیں شیخ رشید کس مار پر ہیں لیکن عمران خان کو کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت‘ آدھی زندگی مغرب میں تعلیم اور قیام‘ نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر جیسی کامیابیاں اور پڑھی لکھی متاثر کن شخصیت کا امیج اور دوسری طرف ایک ایسے سیاستدان کی قربت جو جلا دو ‘ مار دو‘ آگ لگا دو کی پالیسی پر اسی طرح عمل پیرا ہے جیسے کہ بھارت میں شو سینا۔
کرکٹ ورلڈ کپ جیت کی وجہ صرف عمران خان کی کارکردگی نہیں تھی بلکہ پوری ٹیم نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا تھا۔ خان صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ کامیابی کے لئے مضبوط ٹیم کا ہونا ضرور ی ہے تو پھر جس ٹیم کا نائب کپتان شاہ محمود قریشی اور اوپننگ بیٹسمین شیخ رشیدجیسا کھلاڑی ہو‘ وہاں اکیلے کپتان کی ڈبل سنچری کسی کام آ سکے گی؟