Tag: آمریت

  • تین محکمے‘ تین سوال-اوریا مقبول جان

    تین محکمے‘ تین سوال-اوریا مقبول جان

    orya

    جمہوریت ہو یا آمریت‘ شہنشاہت ہو یا کمیونزم‘ کسی بھی نظام کے تحت قائم ریاست میں ایک عدالتی نظام ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ عدالتی نظام کتنا ہی مفلوج کیوں نہ ہو‘ اس کو بادشاہ کے فرامین یا پارلیمنٹ کے قوانین نے بے بس کیوں نہ کر دیا ہو‘ پھر بھی یہ تمام ریاستیں‘ عدالتی نظام کا ایک ہی اعلیٰ و ارفع مقصد بیان کرتے ہیں اور وہ ہے ’’ہر حال میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا‘‘۔ یہی اعلیٰ و ارفع مقصد دنیا کے ہر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی بنیادی ذمے داری تصور کیا جاتا ہے۔

    بادشاہ غلطی کر سکتا ہے‘ بے انصافی سے کام لے سکتا ہے‘ پارلیمنٹ قوانین بناتے وقت کسی کا حق غضب کر سکتی ہے‘ کسی چور‘ ڈاکو یا بددیانت کو تحفظ دے سکتی ہے‘ آمر یا ڈکٹیٹر کا تعصب لوگوں کو انصاف سے محروم کر سکتا ہے‘ لیکن ان سب کے خلاف دادرسی‘ فریاد یا انصاف اور عدل کی درخواست صرف اور صرف عدالت عظمیٰ میں کی جا سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی نے یہ الٹی گنگا نہیں بہائی کہ قاضی‘ جج یا عدلیہ کے خلاف بادشاہ‘ صدر‘ یا وزیراعظم کو اپیل یا درخواست دی جائے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ حرف آخر سمجھا جاتا ہے‘ کیونکہ سلطنت کے کسی اور ادارے کا مقصد اولیٰ ’’عدل و انصاف کی فراہمی‘‘ نہیں ہوتا۔ کوئی ادارہ تعلیم مہیا کرتا ہے تو کوئی صحت کی سہولیات‘ کوئی سڑکوں کا جال بچھاتا ہے تو کوئی امن و عامہ کی ذمے داریاں نبھاتا ہے۔

    اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے جب یہ ادارے کوتاہی کریں‘ بے انصافی سے کام لیں تو اس وقت عدالتی نظام انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ اسی لیے دنیا کے جدید ترین جمہوری معاشروں میں آئین کے اندر سپریم کورٹ کے اختیارات کے ضمن میں ایک شق یا آرٹیکل ایسا ضرور رکھا جاتا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات لامحدود ہوتے ہیں۔ وہ انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی بھی طریق کار اختیار کر سکتی ہے اور کسی بھی قانون میں پائی جانے والی بددیانتی اور ناانصافی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 184(3) اسی مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے آرٹیکل دنیا کے ہر ملک کے آئین میں موجود ہیں جو اپنے ملک کی عدالت کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے لامحدود اختیارات دیتے ہیں۔

    پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 184(3) کہتا ہے ’’آرٹیکل 199 کے احکام پر اثر انداز ہوئے بغیر عدالت عظمیٰ کو‘ اگر وہ یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب (1) کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلہ میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اختیار ہو گا‘‘۔

    یہ ہے وہ بنیادی مقصد کہ اگر کوئی عوامی اہمیت کا سوال درپیش ہو تو عدالت آرٹیکل 199 کے تحت دیے گئے وسیع اختیارات بھی اور اس کے علاوہ بھی کوئی حکم صادر کر سکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم نکتہ عوامی ’’اہمیت کا حامل‘‘ ہونا ہے اور دوسرا بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ ایک کرپشن فری اور مبنی پر انصاف حکومت‘ پاکستان کے عوام کا بنیادی حق ہے‘ جب کہ اس کرپشن کے حوالے سے حکومتی کرپشن اور بددیانتی اس وقت پاکستان کا سب سے اہم عوامی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے میں ’’عوامی اہمیت‘‘ کے مسئلہ کو سننا شروع کیا ہے۔

    اس وقت سے لے کر اب تک عوام سے نہیں بلکہ سیاسی افراد کی جانب سے ایک بحث کا آغاز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اس بحث کا عوام سے کوئی تعلق نہیں‘ عوام تو بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بحث کو چھیڑنے کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عدالت کے اعلیٰ و ارفع مقصد یعنی ’’انصاف کی فراہمی‘‘ کو متنازعہ بنایا جائے۔

    پاناما لیکس کا مسئلہ سپریم کورٹ تک اس لیے پہنچا کہ پاکستان میں کرپشن اور بددیانتی کے خاتمے کی ذمے داری تین اداروں کے پاس ہے۔ -1نیب‘-2 ایف آئی اے اور -3فیڈرل بورڈ آف ریونیو۔ اگر یہ تینوں ادارے اپنی ذمے داریاں نبھاتے توآج پاناما لیکس کا عفریت عوام کے دماغوں پر نہ چھایا ہوتا۔ اگر پاکستان کا کوئی محکمہ اپنی ذمے داریاں ادا نہ کرے تو سپریم کورٹ بلکہ ہائی کورٹ بھی ان کی درستگی کے لیے حکم جاری کر سکتی ہے۔

    سپریم کورٹ اگر اس کیس کے دوران نیب کے حکام کو بلا کر سوال کرے کہ تمہارے قانون کے مطابق اگر کسی حکومتی اہلکار یا فرد پر الزام ہو کہ اس نے کرپشن کی ہے‘ ناجائز ذرایع سے جائداد اور کاروبار کیا اور اپنے معلوم ذرایع سے زیادہ دولت کا مالک ہے تو نیب کا فرض ہے کہ وہ اس شخص کو بلائے اور اسے فرد جرم سنائے پھر یہ اس فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ بے قصور ہے۔ کیا نیب نے پاناما لیکس کے تمام کرداروں کو اس طرح نوٹس جاری کیے اور کیا جواب نہ آنے پر انھیں گرفتار کیا۔

    سپریم کورٹ ایف آئی اے کے حکام کو طلب کر کے یہ پوچھ سکتی ہے کہ کیا تمہارے علم میں آیا تھا کہ اس ملک کے کچھ لوگ جن کا یورپ یا بیرون ملک کوئی کاروبار نہیں‘ وہاں اچانک جائیداد خریدتے ہیں اور کاروبار کا آغاز کرتے ہیں۔ یقیناً پیسہ پاکستان سے گیا ہوگا‘ جسے منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔ تم ایک عام آدمی کو خاندان سمیت اٹھا لیتے ہو‘ کیا تم نے اس معاملے میں ایسا کیا۔سپریم کورٹ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام کو بلا کر سوال کر سکتی ہے کہ تمہارا ایک انسپکٹر اگر کوئی شخص ایک گاڑی خرید لے‘ چھوٹا سا گھر بنا لے تو اس کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ تمہارے سامنے ان لوگوں کی جائیدادیں ایسے بڑھتی چلی گئیں جیسے ان کو اعلیٰ قسم کھاد ملتی رہی۔ وہ مٹی کو ہاتھ ڈالتے تو وہ سونا بن جاتی۔ کیا تمہارے ریکارڈ کے مطابق یہ سب درست ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ انکم ٹیکس کے انسپکٹر سے لے کر کمشنر تک سب اس ’’قسمت کی باوری‘‘ کا بھید جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ ان پچاس سالوں کے بارے بھی جواب طلب کر سکتی ہے۔

    اگر یہ تینوں محکمے اپنی مجبوری کا اظہار کر دیں اور کہیں کہ ہم دباؤ کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ایک حکم نامے کے ذریعے تینوں محکموں کو فوراً ختم کردے اور اس کے افسران کو فارغ کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے ممکنہ سزا بھی سنا دے۔ صرف اس حکم نامے کی وارننگ کی دیر ہے‘ ملک بھر سے ایسے ہزاروں اہل کاروں کا ہجوم سپریم کورٹ کی طرف یہ کہتے ہوئے بھاگے گا کہ ہم اس کرپشن کی تحقیق کر سکتے۔ ہم اہل ہیں‘ ہم راضی ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جا سکتا تو پھر آئین کی کتاب سے آرٹیکل 184(3) کو کھرچ کر پھینک دینا چاہیے۔

  • جمہوری تماشا – احسان کوہاٹی

    جمہوری تماشا – احسان کوہاٹی

    مظہر حسین
    مظہر حسین

    مظہر حسین اسلام آباد کے نواحی علاقے ڈھوک حیدر علی کا خوشحال شخص تھا، ذاتی گھر کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی زمین بھی تھی، پھر ایک ٹرک بھی تھا، باحیا باوفا بیوی اور تین پھول سے بچوں کے ساتھ زندگی مالی پریشانیوں سے فاصلے پر بڑے سکون سے گزر رہی تھی لیکن یہ فاصلہ اس وقت اچانک ختم ہو گیا جب 1997ء میں مظہر حسین کا کسی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا، یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے ڈھوک حیدر علی کے دو خاندانوں کو آمنے سامنے لے آیا، تعلقات ملنا جلنا ختم ہوگیا، دونوں خاندانوں کے لوگوں کا سر راہ سامنا بھی ہو جاتا تو نظریں پھیر لی جاتیں، یہ رنجش وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھنے لگی اور پھر وہ ہوا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔

    اس جھگڑے کو آٹھ ماہ ہوئے تھے کہ مظہر حسین کے مخالف کے چچا محمد اسماعیل کا قتل ہو گیا، مقتول کے بھائی منظور نے مقدمے میں مظہر حسین پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ملزم نامزد کر دیا، پولیس نے پھرتی دکھائی، مظہر حسین کو محمداسماعیل کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا، تفتیش ہوئی اور پولیس نے مظہر حسین کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کر دیا، پھر رائج طریقہ کار کے مطابق مظہر حسین پر فرد جرم عائد کردی گئی جس کا اس نے انکار کیا اور مقدمے کی سماعت کے لیے ایک اچھا وکیل کر لیا، مقدمہ چلتا رہا، عدالت میں پیشیوں پر پیشیاں پڑتی رہیں، مظہر حسین کی مالی آسودگی تنگ دستی میں بدلنے لگی، مظہر حسین کا بوڑھا باپ عدالتوں کے چکر پر چکر کاٹنے لگا، وہ اپنے بوڑھے وجود کے ساتھ ہر پیشی کی صبح مظہر حسین کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھ کر امید دلاتا ہوا گھر سے عدالت کے لیے نکل جاتا اور شام ڈھلے ڈھلکے ہوئے کاندھوں کے ساتھ واپس آتا تو مظہر حسین کی اہلیہ سمجھ جاتی کہ آج پھر تاریخ پڑ گئی ہے۔

    دوسری طرف مقتول کے خاندان والوں نے مظہر حسین کو پھانسی دلوانے کا مصمم اراداہ کر رکھا تھا، انہوں نے عینی شاہدین پیش کر دیے، گواہوں نے قرآن اٹھا کر حلفیہ بیان دے دیا کہ جی قاتل مظہر حسین ہی ہے، اسی نے محمد اسماعیل کا خون کیا ہے، پولیس کے پیش کیے جانے والے شواہد اور گواہوں کے بیان پر عدالت نے ملزم مظہر حسین کو مجرم قرار دے دیا اوراکیس اپریل2004ء کو مظہر حسین کو تین لاکھ روپے جرمانہ اور سزائے موت سنا دی۔

    جس وقت مظہر حسین کو سزا سنائی گئی، اس کی اہلیہ کی عمرمحض چھبیس برس تھی، اس کا بیٹا شہباز صرف آٹھ سال کا تھا، منجھلی بیٹی ارم پانچ برس اور چھوٹا بیٹا زعفران تو صرف چھ ماہ کا شیر خوار تھا، مظہر حسین کا بوڑھا باپ فائلیں اٹھا اٹھا کر وکیلوں کے آسرے دلاسے پر عدالتوں کے چکر کاٹتا رہا اور پھر ہمت ہی نہیں زندگی بھی ہار گیا. مظہر حسین کے والد کے انتقال کے بعد اس کے تایا اور چچا نے مقدمے کی پیروی کی لیکن ہمارے ملک میں انصاف کے حصول کے لیے مینار پاکستان جیسے دس میناروں کی سیڑھیاں بھاری جیبوں کے ساتھ ساتھ غیر شروط طور پر چڑھنا پڑتی ہیں، ان بوڑھوں میں اتنی سکت بھلا کب تھی، وہ گھسٹ گھسٹ کر چلتے رہے اور زندگی ہار کر اپنے بھائی کے پاس اس جہاں میں پہنچ گئے۔

    مظہر حسین کا اب کوئی پرسان حال نہیں تھا، ساری جمع پونجی خرچ ہو چکی تھی، بچے رل گئے تھے، اہلیہ شوہر کے ہوتے سوتے بیوہ ہو چکی تھی، جب تک مظہر حسین کے والد تایا اور چچا زندہ تھے، وہ مظہر حسین کا مقدمہ لڑ رہے تھے، ان کی آنکھیں بند ہوئیں تو ان کی اولادوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں کہ کون کب تک ساتھ دیتا. مظہر حسین کی ’’بیوہ‘‘ اور بیٹی ہاتھوں کے کشکول اٹھائے اللہ تعالی سے دعائیں مانگتے رہتے کہ قدرت کوئی معجزہ دکھا دے، ہماری عدالتوں سے انصاف کا حصول معجزہ ہی تو ہے۔ مقدمہ سیشن کورٹ کی حدود پھلانگ کر ہائی کورٹ پہنچ گیا، ادھر مظہر حسین کے بچے بھی لڑکپن کی حدود پھلانگ چکے تھے، باپ کی جیل نے ان کی معاش ہی نہیں ان کی زندگی بھی تباہ کر کے رکھ دی تھی، وہ اسکول جا سکے نہ اپنا کیرئیر بنا سکے. ایک کے حصے میں کرین کے گیئر اور دوسرے بھائی کے ہاتھوں میں ٹرک کا اسٹیئرنگ آیا اور ’’مجرم باپ‘‘ کی شہزادی بیٹی بالوں میں چاندی کے تار آنے کا انتظارکرنے لگی۔

    مقدمہ اسی طرح چلتا رہا، مظہر حسین کے بھائی محمد افضل نے اپنے بھتیجوں بھتیجی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس برے وقت میں ان کا ساتھ دینے لگا، وہ بھائی کا مقدمہ کسی نہ کسی طرح لڑتا رہا، اس عرصے میں مقدمہ کی فائل سیشن کورٹ سے ہوتی ہوئی ہائی کورٹ اور پھر وہاں سے سپریم کورٹ آچکی تھی. محمد افضل نے سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی تھی، سیشن کورٹ سے سپریم کورٹ تک اس مقدمے کی عمر انیس برس ہو چکی تھی لیکن یہ انیس برس ایک بےوسیلہ شہری کی زندگی کا فیصلہ کرنے کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں؟ معزز عدلیہ ابھی تک حتمی فیصلہ نہ کر سکی فیصلہ کیا کرتی، مقدمے کی پیشی ہوتی تو سماعت بھی ہوتی، یہاں تو سماعت ہی نہیں ہو رہی تھی، فیصلہ تو بعد میں ہوتا کہ مظہر حسین مجرم ہے یا اسے باعزت بری کر دیا جائے۔

    مظہر حسین کے بھائی نے 2010ء میں اپنے بھائی کی پھانسی کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی تھی، یہ اپیل چھ برس تک فائلوں میں کہیں دبی رہی، جن فائلوں کو اٹھانے والے بااثر ہاتھ نہ ہوں، ان فائلوں کا نصیب ایسا ہی ہوتا ہے، اسے اتفاق کے سوا کیا نام دیا جائے کہ چھ اکتوبر 2016ء کو سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کے سامنے یہ فائل آگئی، جسٹس آصف سعید کھوسہ بنچ کے سربراہ تھے، پولیس کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف پیش ہوئے لیکن مدعی اور مجرم کی طرف سے حیرت انگیز طور پر کوئی پیش نہ ہوا، اس عرصے میں مجرم کے وکیل شاہد عباسی صاحب جج بن چکے تھے اور صرف جج ہی نہیں ہائی کورٹ کے جج ہو چکے تھے، ایک جج کس طرح عدالت میں وکیل بن کر پیش ہوتا سو وہ پیش نہ ہوئے، جسٹس کھوسہ کے دل میں جانے کیا آئی، وہ سماعت ملتوی کرنے کے بجائے مقدمے کی فائل کھول کر بیٹھ گئے، وہ جیسے جیسے فائل پڑھتے گئے ان کی آنکھیں کھلتی چلی گئیں، تھوڑی ہی دیر میں بنچ کو اندازہ ہوگیا کہ مجرم کو اس مقدمے میں پھنسایاگیا ہے اور وہ بےگناہ ہے. جسٹس کھوسہ نے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ
    ’’ہم نے فلموں میں سنا تھا کہ جج صاحب مجھے میری زندگی کے بارہ برس لوٹا دیں لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک شخص انیس برس سے جیل میں بے گناہ پڑا ہے، اسے اس کے یہ انیس برس کون لوٹائے گا؟‘‘

    سپریم کورٹ نے مظہر حسین کو باعزت رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے لیکن مظہر حسین تو ان احکامات سے پہلے ہی رہا ہوچکا تھا، اس کے دل نے دو برس قبل ہی اس کا مزید ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا، اسے مارچ 2016ء کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ وہ بےجان لاش بن کر جہلم جیل کے پھاٹک سے باہر آگیا، مظہر حسین کی زندگی ہی میں بیوہ کی زندگی گزارنے والی اس کی اہلیہ حقیقی معنوں میں بیوہ اور اس کے بچے یتیم ہوگئے. مظہر حسین کو اس کے اہل خانہ نے چارکندھوں پر لیا اور اسے منوں مٹی تلے دفنا دیا، جیل انتظامیہ نے ڈیتھ سرٹیفکٹ بھی جاری کر دیا لیکن کسی وجہ سے یہ سرٹیفکٹ مظہر حسین کی فائل میں نہ لگ سکا اور وہ فائل سرکتی کھسکتی ہوئی جسٹس کھوسہ کے سامنے آگئی، شاید قدرت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کے ساتھ ہونے والا کھلواڑ دکھانا مقصود تھا۔

    سعودی شہزادہ
    سعودی شہزادہ

    اب اسی اکتوبر2016ء کا ایک منظر یہ بھی دیکھ لیں، یہ ایک کھلا میدان ہے جس میں ایک شخص کوگھٹنے موڑ کر بٹھایا گیا ہے، اس کا سرجھکا ہوا اور ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے، چہرے پر چڑھے نقاب کے سبب اس کے پیلے زرد چہرہ اور تھرتھراتے ہوئے لب نہیں دیکھے جا سکتے، اس کے پیچھے ایک تنومند جلاد ننگی تلوار لیے کھڑا ہے اور پھر وہ چمکتی ہوئی تلوار بلند ہوتی ہے، بجلی کی سرعت سے اپنے ہدف کی طرف لپکتی ہے اور شخص کا سر کندھوں سے کاٹ کر زمین پر گرا دیتی ہے. جانتے ہیں یہ قلم ہونے والا سر کس کا تھا؟ یہ سعودی شاہی خاندان کے نوجوان ترکی بن سعود الکبیر کا تھا، سعودی شاہ کے عزیز پر الزام تھا کہ اس نے تین برس قبل اپنے دوست کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا، مقدمہ اس ملک کی عدالت میں پیش ہوا جہاں جمہوریت کی ’’ج‘‘ بھی نہیں، کھلی بادشاہت ہے. مقدمہ قاضی کے پاس پہنچا، ملزم کے گھر والوں نے قصاص دینا چاہا، ملزم اور وہ بھی شاہی خاندان کا اور شاہی خاندان بھی سعودیہ کا، صرف سوچا ہی جا سکتا ہے کہ ملزم کے ورثا نے کیا کیا پیشکش نہ کی ہوگی، اگر کوئی یہ کہے کہ ڈالروں سے بھرے ٹرک کی چابیاں سامنے رکھی ہوں گی تو غلط نہیں ہوسکتا، ان کی حیثیت اس سے بھی زیادہ تھی اور پھر سعودی شہزادے کی عمر بھی بمشکل بیس بائیس برس رہی ہوگی، ماں باپ عزیز و اقارب نے کیا کیا نہ کوششیں کی ہوں گی لیکن مقتول کے گھر والوں نے قصاص میں سعودی شہزادے کے سر کے سوا کچھ قبول کرنے سے انکار کر دیا، سو تین برس بعد ہی فیصلہ ہوگیا، سعودی شہزادے کا کٹا ہوا سر زمین پر تھا اور یہ زمین وہی ہے جہاں 73ء کے آئین کے تناظر میں کوئی حیلہ بہانہ تراشتا ہے نہ کوئی این آر او کے تحت جیل کے پھاٹک کھول کر قاتلوں کو رہا کردیتا ہے۔

    سیلانی کو مظہر حسین اور ترکی بن سعود ایک بہن کی ٹیلی فون کال پر یاد آگئے، بلدیہ ٹاؤن سے فون کرنے والی بہن کا کہنا تھا کہ اس کے کزن نے مردان میں ان کے والد کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے، ڈیڑھ سال ہونے کو ہے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو رہا، ان کے شوہر کا ایک پاؤں کراچی میں ہوتا ہے اور دوسرا مردان میں، اس مقدمے بازی سےگھریلو حالات متاثر ہو رہے ہیں، وہ بیچاری سیدھی سادی گھریلو خاتون معلوم ہو رہی تھیں. سیلانی سے عمران خان کا نمبر مانگنے لگیں کہ ان سے عدالتوں کی شکایت لگائیں گی اور جلد انصاف مانگیں گی جو ان کا حق ہے۔ سیلانی کو سادہ مزاج بہن کی اس سادگی پر بےاختیار مظہر حسین یاد آگیا، اس نے چاہا کہ وہ بہن کو مظہر حسین کی کہانی سنائے اور بتائے سمجھائے کہ وہ سعودی عرب کی بادشاہت میں نہیں جمہوریت کی فضا میں سانس لے رہی ہے، وہ جمہوریت جو بدترین ہو کر بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے صرف ملک ریاض اور پرویز مشرف ہی استفادہ کر سکتے ہیں، آپ نے مقدمہ جیتنا ہے تو اپنے بیٹے کو ملک ریاض یا پرویز مشرف بنائیں ورنہ جس حال میں ہیں، رب کا شکر ادا کریں۔ یہ سوچتے ہوئے سیلانی چشم تصور سے بنا جرم کیے انیس برس کی قید کاٹنے والے مظہر حسین کا جنازہ جہلم جیل کے پھاٹک سے نکلتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • جمہوریت اور دانشور – شہیر شجاع

    جمہوریت اور دانشور – شہیر شجاع

    دانشوران پاکستان کا آج کل کا موضوع ”جمہوریت اور دشمنان جمہوریت“ ہے۔ خوب جم کر دلائل ، نقطہ نظر و مؤقف کے ساتھ صفحات سیاہ کیے جا رہے ہیں۔

    بقول کالم نگار مؤقف جانبداری پر مبنی ہوتا ہے جبکہ تجزیہ غیر جانبدار ،اسی لیے تجزیہ کار کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ سو قاری جو حق و سچ کی تلاش میں، اپنی فکر کو وسعت دینے کی تگ و دو میں مختلف فیہ خیالات کو اپنے ذہن میں قید کر کے اس کو شعوری میکنزم کا حصہ بناتا ہے۔ اس کے بعد اس کا شعور ایک خبر برآمد کرتا ہے۔ حالیہ ایک کالم، محترم کالم نگار نے موقف و تجزیہ کی تعریف کرنے کے بعد ، خود ایک کالم نگار کی نگارش پر تجزیہ فرمایا۔ جس پر بلا کم و کاست کہا جا سکتا ہے کہ وہ تجزیہ جانبداری پر مبنی تھا یا کج فہمی پر۔

    اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد یا تو میں اپنے ذہن کا نتیجہ مکمل سمجھ کر اپنا موقف پیش کردوں ؟ یا اپنے آپ کو کند ذہن یا کم عقل کہہ کر رد کردوں۔ میری نظر سے وہ کالم بھی گزرا جس کا حضرت نے تجزیہ فرمایا۔ جس میں مخالف کالم نگار جمہوریت کو بہتر کہنے کے بعد آمریت کے مثبت پہلووں کو سامنے لیکر آتے ہیں جس کے تجزیے میں جناب فرماتے ہیں کہ ”یہ سراسر تضاد ہے اور تجزیے کی نہیں موقف کی نمائندگی ہے ۔ اور موصوف دراصل آمریت کی نمایندگی فرما رہے ہیں۔“ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہم میں تنقیدی شعور ناپید ہوچکا ہے؟ اور محض موقف کی ہی نمائندگی رہ گئی ہے؟ یا یوں کہا جائے کہ آپ نے جو فرمایا وہی اصل ہے باقی فصل ہے ۔

    پاکستان میں جمہوریت نام کی جو فصل ہے اس سے فوائد سیاستدانوں نے زیادہ اور عوام نے کم سمیٹے ہیں جبکہ آمریت میں کم از کم عوام کو بقدر بہتر حصہ ملا ہے۔ اسی طرح کیونکہ رائے عامہ میں بحث کا موضوع جمہوریت و آمریت ہے سو ایک موازنہ پیش کردینے سے کیونکر تجزیہ یہ کیا جائے کہ اس موازنے کا مقصد آمریت کو بہتر اور جمہوریت کو بدتر گردانا جائے ؟ نقاد دراصل جمہوریت کی تنقید نہیں سیاستدانوں اور آمروں کے ادوار کا موازنہ کر رہا ہے کیونکہ پاکستان میں ظاہر اور عمل میں یہی دو ادوار ہیں۔ امکان پر موازناتی تجزیہ نہیں کیا جا سکتا شاید کہ یوں بحث جمہوریت بمقابلہ آمریت کے بجائے، جمہوریت بروزن گڈ گورننس بمقابلہ بیڈ گورننس کی جانب منتقل ہوجائے۔ اور حقیقی موضوع اور مطمح نظر بھی یہی ہے۔

    کرپشن کی تعریف میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، مکاری، خود غرضی، بد دیانتی و دیگر برائیاں شامل ہوجاتی ہیں، تو کیا ایسے شخص کو اپنا دامن صاف کیے بنا اس عہدے پر قائم رہنا چاہیے؟ میڈیا نے اس جنگ کو ن لیگ بمقابلہ عمران خان بنا دیا ہے۔ اگر مان لیا جائے ن لیگ عوام کی منتخب اکثریتی نمائندہ جماعت ہے تو تحریک انصاف بھی منتخب اقلیتی جماعت ہے۔ تو کیا جمہوریت کے معنی یوں لیا جائے کہ اقلیتی نمائندگی کا کوئی وجود نہیں ؟ اور جو بھی حکمران جماعت کا ووٹر نہیں اس کو اپنے حقوق پر بات کرنے کا بھی کوئی حق نہیں؟ یہ جمہوریت کے نام پر مذاق نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کی سیاست پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس کے طریقہ کار کو صحیح یا غلط کہا جا سکتا ہےمگر عوام کی نمائندگی کا مذاق اڑانا کسی طور جمہوریت کو زیبا نہیں یہ بادشاہی اطوار ہیں۔

    پھر جب محترم دانشوران ملت یوں لفظوں کے کھیل سے عام اذہان کو پراگندہ کرنے لگیں گے تو پھر اعتماد کا منہج یا ماخذ تاریک ہوجائے گا۔ یہ گورننس کا مسئلہ ہے۔ یہ انصاف کا معاملہ ہے۔ یہ دیانت و بدیانتی کا کیس ہے۔ اس کو جمہوریت سے آپ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ کرپٹ عناصر اس ڈھال کے پس پردہ محفوظ ہوجائیں۔ یہ الفاظ نہایت خوبصورت ہیں کہ ”جمہوریت کو چلنے دیا جائے“ اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ مخالف جمہوریت کا دشمن ہے۔ آپ منتخب حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑے ہونے سے مانع ہو رہے ہیں۔ اگر بلاحدود احتجاج غیر سیاسی فعل کہا جا سکتا ہے تو حکمرانوں کو بددیانتی ، جھوٹ فریب وغیرہ سے چھوٹ دینا کیونکر قابل قبول ہو سکتا ہے۔ طاقت کا منہج وفاق ہے۔ اور جب وفاق ہی آئین کی پاسداری نہ کرے۔ اپنے وعدے وفا نہ کرے۔ مکر و فریب ہمہ وقت اس کے ساتھ موجود ہوں۔ پھر مخالف سے آپ توقع کریں کہ وہ جی حضوری کرتے ہوئے آپ سے انصاف طلب کرے؟

    شاید جمہوریت یہی ہے کہ انصاف کے طلبگار کی چمڑی نہیں ادھیڑی گئی۔ اس کے ہاتھ پیر نہیں کاٹے گئے کیونکہ جمہوریت آڑے آگئی۔ جناب من جمہوریت کو داغدار آپ کر رہے ہیں۔ جمہوریت سے اعتماد اٹھنے کا سبب بھی آپ ہو رہے ہیں ۔ بقول شاعر
    ہم ہیں بے راہ تو کیا راہنما تم بھی نہیں
    قافلے کے لئے پیغام درا تم بھی نہیں
    جن پہ تھا صحن گلستاں میں چراغاں کا مدار
    ان خزاں سوز چراغوں کی ضیا تم بھی نہیں
    حق ہمارا نہ سہی نظم چمن میں لیکن
    آشیانے کے مقدر کے خدا تم بھی نہیں

    ریاست کے تمام ادارے مفلوج ہیں یا روبوٹکس اصول پر کام کر رہے ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کے جو بھی ادارے ہیں انہیں آزاد کرنے میں حکومت مانع ہے۔ سیکورٹی ادارے سیاسی ورکر بن چکے ہیں۔ پارلیمان میں عوامی نمائندے پارٹی یا ذاتی مفادات کا تحفظ کے لیے یکجا ہوتے ہیں۔ ایک بد اعتمادی کی فضا چہار سو پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں بیک قلم جنبش گورننس کو پس پشت ڈال کر جمہوریت کو موضوع بنانا یا مخالف کو طعنہ دینا عقلی و منطقی دانش نہیں۔ اس سے اذہان مزید منتشر ہی ہوں گے اور آمریت کی طلب میں اضافہ ہوگا ۔

  • جو کام عمران خان کا دھرنا نہ کر سکا – ایاز امیر

    جو کام عمران خان کا دھرنا نہ کر سکا – ایاز امیر

    ایاز امیر بہت شکریہ، سرل المیڈا
    آپ نے اور میرے دوست، ظفر عباس نے وہ کچھ کر دکھایا جو دھرنے بھی نہ کرسکے ۔ جس جمہوریت کی عظمت کے ہم رطب الساں رہتے ہیں، کو ایسی ضرب لگی کہ اسے سنبھلنے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔ اس کہانی کے پیچھے مخفی زبان خصوصی انعام کی حقدار ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ آخر کار جمہوریت سنبھل جائے لیکن ہماری جمہوریت کے چیمپئن، شریف برادران نہیں سنبھل پائیں گے ۔ ذرا سوچیں کہ جس چیز سے شیخ رشید کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگے، وہ شریف برادران کے لئے کیسے اچھی ہوسکتی ہے ؟آپ کی کہانی کی اشاعت کے بعد سے شیخ صاحب کے صحت مند لبوں پر جاندار مسکراہٹ کا سفر جاری ہے ۔ موجودہ حکمران محاورے کے مطابق ’’بم کو لات مارنے‘‘ کا شغف رکھتے ہیں، لیکن وائے قسمت، کافی عرصہ سے کوئی ’’بم ‘‘ دکھائی نہیں دے رہاتھا، ٹانگ میں کھجلی سی ہونے لگی تھی، مایوسی بڑھتی جارہی تھی ۔ لیکن پھر اچانک یہ کہانی ایک بم کی طرح نمودار ہوئی تو وہ اپنی طبیعت پر کیسے جبر کرسکتے تھے ؟چونکہ دیر بعد موقع ہاتھ آیا تھا ، اس لئے شریف برادران اور ان کی بقراطی ٹیم نے اسے ایسی جما کر لات ماری کہ تمام سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا۔

    صورت ِحال پہلے سے ہی خراب تھی،حالات دھماکہ خیز ہوتے جارہے تھے ، عمران خان دارالحکومت کی طرف مارچ کرکے اسے بند کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما گیٹ پر دی جانے والی درخواستوں کی سماعت بھی شروع ہواچاہتی ہے ، تاہم قانونی موشگافیاں اکثر اوقات دھماکہ خیز رجائیت کا ساتھ نہیں دیتیں۔ اس تمام ماحول میں آگ بھڑکانے کے لئے ایک چنگاری درکار تھی، جو اس کہانی نے فراہم کردی۔ اس نے جنرل اسٹاف کو انڈیا کی طرف سے درپیش خطرے سے بھی زیادہ برہم کردیا۔ کہانی کی ٹائمنگ ، خاص طور پر جب انڈیا سرحد پار دہشت گردی کی دہائی دے رہا تھا، بھی بہت اہم ہے ۔ پہلے تو سیکرٹری خارجہ کی طرف سے پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کا ذکر، جس کی وجہ ’جہادی پالیسیاں ‘ ہیں، اور پھر جہادی عناصر کی پشت پناہی کی وجہ سے آئی ایس آئی چیف پر تنقید ۔ حیرت ہوتی اگر یہ صورت ِحال اسٹیبلشمنٹ کومشتعل نہ کردیتی۔

    سیکرٹری خارجہ تو اپنے آپ کو فارغ سمجھیں۔ اگر وہ کسی واشنگٹن پوسٹنگ کی امید لگائے ہوئے تھے ، تو اُسے بھول جائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ قربانی کے اور بکرے بھی ہوں، لیکن فوجی قیادت کچھ اور بھی چاہے گی۔ کیا؟یہ تو ہم فی الحال نہیں جانتے ۔ اس پر دوآراء ہوسکتی ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ کچھ ایسے دائمی شکرے بھی ہیں جو ہمیشہ امید سے رہتے ہیں کہ فوج کچھ کر گزرے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے ۔ کچھ دوسرے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ موجودہ عالمی ماحول میں، اور جب کہ جنرل راحیل شریف کی مدت تمام ہوا چاہتی ہے، کسی قسم کی براہ ِراست مداخلت خارج ازامکان ہے ۔ ٹرپل ون بریگیڈ کی پیش قدمی سے زیادہ پاکستانی تنگ آچکے ہیں۔ حاصل ہونے والے طویل تجربات کے بعد اس پر کم و بیش قومی اتفاق ِ رائے ہوچکا کہ فوج کے اقتدار سنبھالنے سے حالات مزید خراب ہوجاتے ہیں۔

    تاہم اس وقت فوج کا برہم ہونا ہی واحد پیش رفت نہیں ، کچھ اور ہلچل بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ شریف فیملی کے سمندر پار اکائونٹس اور جائیداد کے بارے میں پاناما اسکینڈ ل اپنی جگہ پر موجود ہے ، اور اس کا کریڈٹ عمران خان کے استقلال کو جاتا ہے ۔ اُنھوں نے دور افتادہ دیہات میں بھی اس لفظ کو زبان ِ زدخاص وعام کردیا ۔ یہ اسکینڈل اُنہیں اسلام آباد مارچ کا جواز فراہم کررہا ہے ۔ خطرناک بات یہ ہے کہ موجودہ لانگ مارچ پرامن ماحول میں نہیں ہونے جارہا ، اس وقت حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان ڈان کی کہانی کی وجہ سے تنائو کا تاثر موجود ہے ۔ یہ عمران خان کی پلاننگ نہ تھی، حتیٰ کہ شیخ رشید کے فرشتے بھی خواب نہیں دیکھ سکتے تھے کہ ایسی نعمت ِ غیر مترقبہ ہاتھ لگ جائے گی۔ لیکن اب چونکہ ایسا ہوچکا، اس لئے اسلام آباد مارچ کی دھار تیز تر ہوتی جارہی ہے ، اور حکومت کو کسی حلقے کی طرف سے خیر خواہی کی توقع نہیں۔ اس کے پاس وسائل صرف اسلام آباد اور پنجاب پولیس کی صورت ہوں گے، لیکن ان کے موثر ہونے کا بھرم 2014 ء کے دھرنے چاک کرچکے ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ حکومت کے ترکش میں کوئی تیر نہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نہایت تندہی سے تمام انتظامات کوحتمی شکل دے رہی ہے کیونکہ اس مرتبہ عمران خان نے ہر چیز کو دائو پر لگا دیا ہے ۔ اگر وہ کافی تعداد میں لوگوں کو اسلام آبادلانے میں کامیاب ہوگئے اور اگر دارالحکومت کی طرف آنے والی رابطہ سڑکیں بلاک ہو گئیں تو حکومت کا تختہ الٹنے کا چیلنج پورا ہوجائے گا۔ اگر عمران خان ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ اُن کی حتمی ناکامی ہوگی۔ اس پر اُن کے دشمن اور ناقدین جشن منائیں گے۔

    جلد ہی نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا مرحلہ بھی قریب ، جبکہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول آرمی چیف اپنی مدت پوری کرکے گھر جانے والے ہیں۔ دوسری طرف شریف برادران ،جن کی سیاسی تاریخ میںخوش قسمتی کا باب نمایاں ہے ، بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ابھی قسمت نے اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا، اور یہ اُن کے دشمن ہیں جو ایک مرتبہ پھر ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ شریف برادران کے حامیوں میں سازش کی تھیوریاں بھانپنے کی خصوصی مہارت ودیعت کی گئی ہے، خاص طور پر جب اُن کے رہنما مشکل حالات سے دوچار ہوں۔ 2014 ء کے دھرنوں کے دوران اُنھوں نے سازش کی دہائی دی تھی، اب بھی بو سونگھ رہے ہیں ۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ پاناما گیٹ آئی ایس آئی کاپلان کردہ نہیں، اور ڈان کی کہانی آئی ایس آئی نہیں بلکہ وزیر ِاعظم کے دفتر کی طرف سے آئی ہے ۔ چاہے آئی ایس آئی جو بھی طاقت رکھتی ہو، وہ عمران خان کے جلسے، جیسا کہ رائے ونڈ میں دیکھنے میں آیا، مینج نہیں کرسکتی ۔ اگر دونومبر کو اسلام آباد کی طرف عوام چلے آئے تو ایسا پی ٹی آئی اور عمران خان کے پیغام کی وجہ سے ہوگا، اس میں کسی کا نادیدہ ہاتھ فعال نہیں ہوسکتا۔

    آئی ایس آئی نے نواز شریف کےلئے مسائل پیدا نہیں کیے ہیں۔ لندن فلیٹس اور سمندر پار اکائونٹس سے لے کر ڈان کی کہانی تک وہ اپنے تمام مسائل کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ اور پھر ان کا حل تلاش کرنے کی بجائے وہ توقع کررہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا ۔ یہ راستہ صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عمران عملی میدان میں قدم رکھنے کی بجائے حسابی موشگافیوں کی بحث میں الجھ جائیں ، اورتاریخ گواہ ہے کہ شریف برادران ایسی موشگافیوں کے ماسٹر ہیں۔ پریس کانفرنس اور ٹی وی ٹاک شوز، جو آج کی پاکستانی سیاست کے لئے سکہ رائج الوقت ہیں، کے الفاظ گھاگ سیاست دانوں کے لئے ویسے ہی ہیں جیسے بطخ کے پروں پر پانی۔ شریف برادران گزشتہ 35 برسوں سے سیاسی اکھاڑے میں ہیں۔ الفاظ سے متاثر ہونے والے شخص کا اس گلی میں کیا کام؟بھٹو اور ان کے خلاف 1977 ء میں جمع ہونے والے پی این اے کے رہنما عوامی سیاست دان تھے، لیکن پھر بعض وجوہ کی بنا کر یہ فن ختم ہوتا گیا۔ عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنھوں نے اس فن کو پھر سے زندہ کردیا ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر پٹیشنز لامتناہی وقت کے لئے گردش میں نہیں رہیں گی۔ یہ معمول کے لمحات نہیں ہیں۔ ہم ایک سنجیدہ کارروائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صرف نجومی اور کاہن ہی بتاسکتے ہیں کہ آنے والے واقعات کیا رخ اختیار کریں گے۔

  • یہ سویلین بالادستی کا ایشو نہیں – محمد عامر خاکوانی

    یہ سویلین بالادستی کا ایشو نہیں – محمد عامر خاکوانی

    چند دن پہلے کسی قاری نے ایک تحریر کا لنک بھیجا جس میں کہا گیا کہ ملک میں سول بالادستی کی جنگ جاری ہے، اس لئے ہم سب جمہوریت پسندوںکو سویلین حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ دراصل قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر انگریزی اخبار میںشائع ہونے والی متنازع خبر کے بعد جو بحث چل شروع ہوئی، یہ تحریر بھی اسی کا حصہ تھی۔ جن صاحب نے وہ لنک بھیجا، ان کا سوال تھا:”سول بالادستی کی اس کشمکش میں آپ اپنی پوزیشن بھی واضح کریں اور جائزہ لیں کہ کہیں آپ غلط کیمپ میں تو موجود نہیں‘‘۔

    سوال دلچسپ ہے، سیدھا سادا جواب تو یہی بنتا ہے کہ صاحبو ہماری حمایت کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔ ایک جمِ غفیر ہے جو جمہوریت کے حق میں نعرے مارتا، تلوارسونت کر دشمن کھوج رہا ہے۔کچھ کے چیک بندھے ہیں تو بعض ماضی کے احسانات کا بدلہ چکانے کے درپے۔ سنا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں ایک خاص قسم کا سیل بھی قائم ہے، جہاں نجانے کتنے لوگ مانیٹرنگ، ڈرافٹنگ، فنڈنگ، فیڈنگ اور معلوم نہیں کس کس کام میں جتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات کہ آخری تجزیے میں کوئی حربہ کام نہیں آتا۔ ہسپانوی ادب میں ڈان کیخوٹے نام کا ایک بہت دلچسپ کردار ہے، اس کا بھی یہی کام تھا کہ تلوار نکالے ہمہ وقت ہوائوں سے جنگ لڑی جا رہی ہے۔ سفر کرتے ایک پن چکی نظر آئی تو اپنا گھوڑا دوڑا کر اس پر پل پڑا کہ یہ شائد کوئی عجیب الخلقت دشمن ہے۔ ہمارے ہاں سویلین بالادستی اور جمہوری اداروں کے بعض بزعم خود حامی بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اس اخبارنویس کو ان سب سے ہمدردی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ کوئی سویلین یا ملٹری بالادستی نہیں بلکہ بیڈ گورننس ہے، عوامی زبان میں بری بلکہ شائد بدترین حکمرانی۔ افسوس تو یہ ہے کہ کوئی سویلین حکمران تھا یا ملٹری ڈکٹیٹر، ہر ایک نے الا ماشااللہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بدترین گورننس کا مظاہرہ کیا ۔ ویسے تو اعداد وشمار کی ایک الگ ہی جنگ ہے۔ کوئی سویلین حکمران کے ادوار کے معاشی، سماجی ترقی کے اشاریے سناتا ہے تو کوئی فوجی حکمرانوں کے دور میں ہونے والی معاشی ترقی اور آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر آ جانے کے دلائل دیتا ہے۔

    ہر ایک کے پاس اپنا نقشہ، اپنے دلائل اور اپنا ہی تخیل ہے، مکمل بات کوئی نہیں کرتا۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں معاشی انڈیکیٹر اچھے رہے تواسی دور میں فرقہ ورانہ تنظیموں کے بھوت نے آنکھ کھولی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا پھیل گیا کہ پھر سنبھالے نہ سنبھلا۔ ایم کیو ایم بھی اسی دور کا تحفہ تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میںمعیشت بہتر رہی، ملک آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر آیا، تاریخ میں پہلی بار غیر ملکی قرضہ کم ہوا، روپیہ مستحکم رہا مگر اسی دورمیں لال مسجد کی مس ہینڈلنگ ہوئی جس کے بعد وہ طوفان اٹھا جس نے ہزاروں جانیں لے لیں۔ بلوچستان میں بلاجوا ز آگ بھڑکائی گئی جو ابھی تک نہیں بجھ پائی۔ سویلین حکومتوں کی کہانیاں تو سب کے سامنے ہیں۔ صرف پچھلے آٹھ برسوں کو دیکھ لیں، ملک پر کس قدر غیر ملکی قرضہ چڑھ گیا، حال یہ ہے کہ دفاعی بجٹ جو چالیس سال سے ہمارے ترقی پسندوں، لبرلزکی تنقیدکا ہدف بن گیا،اس سے دوگنا بلکہ ڈھائی گنا زیادہ بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے۔ نوبت یہاں آپہنچی کہ قرضوںکی قسطیں واپس کرنے کے لئے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
    واپس پہلے سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ کیا یہ واقعی سول بالادستی کی جنگ ہے، جس میں ہم سب کو اپنے حکمرانوں کا ساتھ دینا چاہیے؟ جواب دینے سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ سویلین حکومت آخر کن امور میں بالادستی چاہتی ہے؟

    حکومتوں کے کرنے کے چار پانچ کام سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں ۔پہلا کام اپنے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یعنی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کو صحت، تعلیم کی سہولتیں دینا، صاف پانی کی فراہمی، سستے انصاف کو یقینی بنانا اور مارکیٹ اکانومی کو اس طرح ریگولرائز کرنا کہ عام آدمی کا استحصال نہ ہو ، ضروریات زندگی کی اشیا مناسب داموں میں ملیں اور ان سب کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔ اب ایک منٹ کے لئے ٹھیرکر سوچ لیںکہ سویلین حکومت کو یہ سب کام کرنے کے لئے کس پر بالادستی قائم کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ نے ہماری صوبائی حکومتوں کو مجبور کر رکھا ہے کہ وہ پولیس کے نظام کی اصلاح نہ کریں؟

    کرپٹ پولیس اہلکاروں کو نکالنے، ظالم افسران کے احتساب، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے معاملہ کو سفارش اور سیاسی اثرورسوخ سے پاک کرنے سے کس نے روکا ہے؟کیا پولیس افسران اپنے من پسند تھانوں میں پوسٹنگ کے لئے لاکھوں کی رشوتیں اسٹیبلشمنٹ کو دیتے ہیں؟ اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات لانے سے کس نے روکا ہے؟ عام آدمی کو ہسپتالوں میں ذلیل ہونے سے کس نے بچانا ہے؟ لاہور میں آخری ہسپتال پچیس تیس سال پہلے جناح ہسپتال کی شکل میں بنا تھا۔ اس کے بعد ہسپتال بنانے سے کس نے روکا؟ آج لاہور ایک کروڑ آبادی کا شہرہے، بھائی صاحب کس نے کہا ہے کہ یہاں اور ہسپتال نہ بنائو، سرکاری سکولوں، کالجوں کی حالت بہتر نہ بنائی جائے۔ صاف پانی مہیا نہ کیا جائے۔ ساٹھ ستر ارب روپے سے لاہور کے پندرہ بیس ٹرانسپورٹ روٹس میں سے ایک روٹ پر میٹرو بس چلائی گئی، ڈیڑھ سو ارب سے زائد سے اورنج ٹرین بن رہی ہے، تیس ارب روپے جیل روڈ کو سگنل فری بنانے کی عیاشی پر خرچ ہوئے۔ اس کا چوتھا حصہ بھی اگر درست طریقے سے خرچ کیا جاتا تو شہر کو صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو جاتی۔ جناح جیسے دو ہسپتال بن جاتے، سیوریج ٹھیک ہو جاتا اور لاہوریوںکی تکلیف میں نمایاں کمی ہو جاتی۔کس نے سویلین حکمرانوں کو ایسا کرنے سے روکا؟ کراچی کی حالت تو لاہور سے بھی گئی گزری ہے، اسے دیکھ کر ہی خوف آتا ہے۔

    ہر کوئی جانتا ہے کہ صرف چار پانچ سال پہلے تک دالوں کی قیمتیں کنٹرول میں تھیں، پھر اچانک اس میں کارٹل مافیا آگیا یا کچھ ہوا کہ دال ماش اور مسر، مونگ وغیرہ دوگنی مہنگی ہوگئیں۔ اب تو دال مرغی کے گوشت سے بھی زیادہ مہنگی ہوچکی۔ کسی نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کو کس طرح ٹھیک کرنا ہے، مہنگائی کم کرنے کا کیا فارمولہ بنایا جائے؟ جب شاہی خاندان خود کاروبار شروع کر دے، مرغیوں کی فیڈ سے لے کر دودھ، دہی اور نجانے کس کس شعبے میں گھس جائے تو پھر ناجائز منافع خوری کو کس نے روکنا ہے؟

    اگر صرف اپنی پسند کی خارجہ پالیسی نہ بنانے کا دکھ دامن گیر ہے تو صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی سویلین حکمران نے ملک میں ایک بھی ایسا اچھا تھنک ٹینک بنایا ہے جو خارجہ پالیسی بنانے کے حوالے سے سفارشات دے سکے؟ نیشنل سکیورٹی ایشوز پر سویلین کی معاونت کے لئے کو ن سے تھنک ٹینک یا یونیورسٹیوں کی اکیڈیمیا کی دانش کو بروئے کار لانے کا میکنزم بنایا گیا؟ چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی یو بوٹس کے خالصتاً عسکری ایشو پر انگلش یونیورسٹیوں کی معاونت حاصل کی۔ بھارت سے تعلقات کیسے ہونے چاہییں،اس پر اپنی علمی، ماہرانہ ‘ان پٹ‘ دینے کے لئے کون سے اور کتنے تھنک ٹینک بنائے گئے؟ یا پھر یہی کافی ہے کہ شہنشاہ معظم نے ایک سہانی صبح اٹھ کر سوچا کہ یار بہت ہوگئی، آج سے بھارت ہمارا دوست ہے۔ کیا اس طرح خارجہ پالیسی بنتی ہے؟ اس طرح سویلین بالادستی قائم کی جاتی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے توہمیں یہ عرض کرنے کی اجازت دیں کہ حضور والا! اصل مسئلہ بالادستی نہیں اہلیت اور ناکافی تیاری کا ہے۔ سویلین کی راہ میں اصل رکاوٹ وہ خود اور ان کی بیڈ گورننس ہے۔

  • جمہوریت کے حوالے سے تین اہم مغالطے – محمد عامر خاکوانی

    جمہوریت کے حوالے سے تین اہم مغالطے – محمد عامر خاکوانی

    ہمارے ہاں جو مختلف فکری بحثیں اہل علم و قلم میں چلتی رہتی ہیں، ان میں سیاسی اعتبارسے نمایاں ترین جمہوریت کی بحث ہے۔ہر کچھ عرصے کے بعد یار لوگوں کو جمہوریت کا مقدمہ لڑنے کا خیال آ جاتا ہے۔ نت نئے دلائل تراشے جاتے اور حکومت وقت پر تنقید کرنے والوں کوصبر وتحمل سے کام لینے کا بھاشن دیا جاتا ہے۔ایسا مجبوراً اس لئے بھی کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدان جمہوریت کا محض نام لیتے اور اسے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، ورنہ ان کا جمہوریت اور جمہوری نظام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ڈکٹیٹرشپ کی پیداوار ہیں اور کسی نہ کسی آمر نے انہیں سیاسی قوت بخشی۔ کسی نے آمرِ وقت کو ڈیڈی کہا تو کسی نے اپنی خدمت سے وہ مقام حاصل کر لیا کہ ڈکٹیٹر اپنی اولاد کے بجائے سیاسی جانشینوں کو دعا ئیں دینے اور اپنی عمر بھی اسے لگ جانے کا مژدہ سناگیا۔جب تک اسٹیبلشمنٹ ان کی مجبوری تھی، انہوں نے اس کے ساتھ ہاتھ ملائے رکھا اور جب ان کی بے پناہ ، لامحدود قوت حاصل کرنے کی خواہش کے سامنے اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ بنی، تب انہیں سب خامیاں اسی میں نظر آنے لگیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ موجودہ سیاسی نظام یا حکمران جماعت پر تنقید کرتے ہیں، ان کا مقصد جمہوریت یا سیاست کو مطعون کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔میرے جیسے لوگ غیر جمہوری رویوں کی اصلاح چاہتے اور جمہوریت کے نام پرسیاسی استحصال سے بیزار ہیں۔اس حوالے سے تین چار عام فکری مغالطے پائے جاتے ہیں، انہیں سمجھ لیا جائے تواس ایشو کی تفہیم مشکل نہیں اورخلط مبحث سے بچا جا سکتا ہے۔

    جمہوریت بمقابلہ آمریت :
    سب سے پہلا مغالطہ یہی ہے۔ پاکستان میں جیسے ہی کسی سویلین حکومت پر تنقید ہو، اس کے حامی فوری طور پر آمریت کی دہائی دینے لگتے ہیں۔ انہیں یہی لگتا ہے کہ کہیں کسی آمر کے لئے راہ ہموار نہ کی جا رہی ہو۔ شائد اس لئے کہ ماضی میں فوجی آمر آتے بھی رہے ہیں اور ہرباراہل قلم کے ایک حلقے نے بھی ان کا استقبال کیا۔ماضی کے تلخ تجربات اپنی جگہ، مگر بہرحال جمہوری اصلاحات کی بات ہم لوگوں نے ہی کرنی ہے۔ اگر ہماری انتخابی نظا م سو گنا مہنگا ہوچکا ہے، تین چار ارب کا الیکشن تین چار سو ارب تک جاپہنچا ہے تو اس خطرناک حد تک پہنچے الیکشن سسٹم کو نیچے لانا، لوئرمڈل کلاس نظریاتی کارکنوں کو دوبارہ اس میں شامل کرنے کی بحث انٹیلی جنشیا ہی نے کرنی ہے ۔اس طرح صرف جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگائے رکھنا اور سیاسی جماعتوں کو غیر جمہوری انداز میں چلانے رکھنے پر تنقیدکا پورا جواز بنتا ہے۔اب یہی دیکھ لیجئے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس تین ، ساڑھے تین سال بعد ہو رہا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ الیکشن کمیشن کی پابندی ہے اور نام نہاد سہی ،پارٹی الیکشن کرانے مقصود ہیں۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں اس کا تصور تک نہیں کہ حکمران جماعت کئی سال تک اپنی مرکزی کمیٹی کا اجلاس تک نہ بلائے ،مگر جس ملک میں کئی کئی ہفتے، مہینے کابینہ کا اجلاس تک نہ بلایا جائے، وہاں سیاسی جماعت بیچاری کی کیا اوقات ہے۔ اس لئے جمہوریت کا نام لیوا سیاستدانوں پر تنقید لازمی ہوگی،مگر براہ کرم اس نکتہ چینی کو آمریت کی حمایت میں نہ ڈالا جائے۔ اصل موازنہ اچھی جمہوریت بمقابلہ بری جمہوریت کا بنتا ہے۔ جمہوریت بمقابلہ آمریت والے فارمولے کا کوئی بھی سنجیدہ اہل قلم حامی نہیں ہوسکتا۔ دنیا بھر میں یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ حکومت چلانا سیاستدانوں کا کام ہے، فوج کا نہیں۔فوج اپنے معاملات دیکھے ، جسے اس کے علاوہ کوئی اور نہیںنمٹا سکتا، زیادہ سے زیادہ عسکری ماہرین کی آﺅٹ پٹ نیشنل سکیورٹی امور میں چاہیے ہوتی ہے، کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی یا نیشنل سکیورٹی کونسل کے ذریعے یہ کام آسانی سے ہوسکتا ہے۔

    نام نہاد جمہوریت :
    اصل اعتراض یہی ہے کہ ملک میں نام نہاد جمہوریت قائم ہے۔ سیاستدانوں کو صرف اپنے اقتدار کے لئے جمہوریت کا نام استعمال نہیں کرنا چاہیے ، جس نظام نے انہیں حکومت دی اور دوسروں سے ممتاز بنایا، اس کے ان پر کچھ قرض بھی ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کو جمہوری نظام کی پہلی اور سب سے اہم سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے بہت سے ممالک میں بیشتر محکمے اور ذمہ داریاں لوکل گورنمنٹ یعنی بلدیاتی اداروں کے پاس ہیں ۔ نیویارک کے میئر کی طاقت دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان سے زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ پورا ایک سال ہوگیا، مگرپنجاب اور سندھ میںبلدیاتی ادار ے فنکشنل ہی نہیں ہوسکے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلزپارٹی حکمران ہیں، دونوں کی قیادت جمہوریت کی رٹ لگاتی اور خود کو اس کا عظیم چیمپین سمجھتی ہیں، مگر ان کی پوری کوشش ہے کہ بلدیاتی ادا رے اپنا کام شروع نہ کر سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے تمام اضلاع میں مسلم لیگ ن کے حامی جیتے ہیں، ایسا نہیں کہ انہیںخدشہ ہے کہ زیادہ تر اضلاع میںا پوزیشن کے میئروغیرہ بن کر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکیں گے۔ کسی ایک ضلع میں بھی اپوزیشن کی اکثریت موجود نہیں۔ اس کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب، صوبائی حکومت اورخود جناب وزیراعظم کو ذرا بھر جلدی نہیں کہ بلدیاتی نظام اپنا کام شروع کر ے اور لوگ مقامی سطح پر اپنے منتخب کونسلرز،چیئرمین وغیرہ سے کام کرا سکیں۔

    موروثی سیاست:
    جب موروثی سیاست پر تنقید ہو تومسلم لیگ ن یا دیگر سٹیٹس کو کی حامی جماعتوں کے کارکن اور میڈیا میں موجود ان کے حامی برہم ہوجاتے ہیں۔ انہیں شائد یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس تنقید سے موجودہ یا آنےوالے سیاسی شہزادوں، شہزادیوں کا کیرئر خطرے میںپڑ جائےگا۔ اس لئے بڑے شدومد سے اس کی مخالفت کی جاتی اور مختلف ممالک سے اس کی مثالیں ڈھونڈ کر پیش کی جاتی ہیں۔ یہاں بھی اعتراض بہت سادہ ہے۔ آئین ہر ایک کو سیاست کرنے کا حق دیتا ہے۔ ہم میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بڑے سیاستدان کے بیٹے یا بیٹی کو سیاست کرنے سے روک سکے۔ کوئی روکنا بھی نہیں چاہتا۔ یہ البتہ کہا جاتا ہے اور ایسا منطقی اعتبار سے درست ہے کہ اپنے بڑے باپ یا ماں کی وجہ سے کسی کو سیاست میں جمپ نہ ملے۔ جو بھی آنا چاہتا ہے، وہ آئے اور سیاسی کارکن کے طور پر اپنا کیرئر شروع کرے۔ جمہوری مراحل سے گزرنے کے بعد اگر اس میں ہمت یا قوت ہوگی تو وہ پارٹی میں اہم منصب حاصل کر لے گا۔ اس کے برعکس عام مشاہدہ یہی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں دراصل خاندانی جائیداد کے طور پر ڈیل کی جاتی ہیں۔ لیڈر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس بچے کو سامنے لے آنا ہے اور پھر تمام ضابطے ، دستور توڑ کر اسے مرکزی جگہ مل جاتی ہے۔ بعض اوقات تو بغیر الیکشن لڑے ہی اہم ذمہ داریاں تفویض کر دی جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ صاحبزادہ ایم این اے ہے،اسکی جگہ مرکز اور قومی اسمبلی ہے، مگر والد صاحب کی اشیرواد پر صوبائی معاملات وہ چلا رہا ہے، بلکہ کبھی تو پوری پوری صوبائی حکومت اس کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ہم نے تو ایسا بھی دیکھا کہ یونیورسٹی میںتعلیم حاصل کرنے والے نوجوان کو ملک کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ بنا دیا گیا اور پھر وہ منظر دیکھا گیا کہ سیاست میں بال سفید کرنےوالے تجربہ کار سیاستدان سرجھکائے بیٹھے ہیں اور برخوردار صدارت فرما رہے ہیں۔ یہ وہ نام نہاد جمہوریت اور موروثی سیاست ہے ، جس سے بیزاری ظاہر کرنا اور اس پر تنقید کرنا ہم سب کے لئے لازمی ہے۔

    وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا:یہ وہ فقرہ ہے جس کی مدد سے ہر قسم کی تنقید ٹالی جا سکتی ہے۔ بڑی سے بڑی بات کے جواب میںصرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کو وقت ہی کتنا ملا؟ وقت گزرنے کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ فقرہ نہ صرف غلط اورکوڑا کرکٹ صاف کرنے کے بجائے قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش ہے۔ بھائی خود بخود کیوں سب ٹھیک ہوجائے گا؟ جب استحصال کرنے والوں کو آپ روکیں گے ہی نہیں، ان کی غیر مشروط حمایت کریں گے تو وہ اپنے طور طریقے آخر کس بنا پر تبدیل کر لیں گے؟مجھے تویہ لگتا ہے کہ آمروں سے زیادہ نقصان جمہوریت کو ایسے ہی نادان دوستوں نے پہنچایا ہے۔ جمہوری نظام کی خامیوں کو دور کرنے، سیاستدانوں کو ٹف ٹائم دینے کی جنہوں نے کوشش ہی نہیں کی۔ جب سویلین حکومتوں کے بلنڈرز کی وجہ سے سب کچھ جاتا رہے، تب ایسے ہمدردوں کو احساس ہوتا ہے، مگرتب تک آمریت کی سیاہ رات امڈ آتی ہے اور پھر برسوں تک جدوجہد کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔

  • فوج پر سویلین بالادستی کے مضمرات – مجاہد حسین خٹک

    فوج پر سویلین بالادستی کے مضمرات – مجاہد حسین خٹک

    مجاہد حسین خٹک بات کا آغاز اس سوال سے کرتے ہیں کہ ایک فوجی آمر اور ایک جمہوری رہنما میں اساسی فرق کیا ہے؟

    اس کا فوری جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ایک غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر آتا ہے جبکہ دوسرا آئین کے بتائےگئے طریق کار سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتا ہے، ایک کی قوت کا منبع بندوق ہے جبکہ دوسرا ووٹ کی طاقت سے حکمرانی کا جواز حاصل کرتا ہے، اور یہی ان دونوں میں اساسی فرق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مفروضہ معاملات کی سطحی تفہیم کا نتیجہ ہے۔ جب کسی بڑے مسئلے کا ایک جزو الگ کر کے دیکھا جائے تو ذہن غلط نتائج اخذ کرتا ہے۔

    فوجی حکمران اپنے اقتدار کا آغاز بندوق کی نوک پر کرتا ہے لیکن جلد ہی اس کے اقدام کو عدالتیں جواز بخش دیتی ہیں۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عدالتوں کے جج اس کے اپنے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کچھ عرصہ بعد اس کے تمام تر اقدامات پر پارلیمنٹ بھی مہر تصدیق ثبت کر کے انہیں قانونی جواز فراہم کر دیتی ہے۔

    پوری دنیا میں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن کا اطلاق ماضی پر ہوتا ہو۔ اسی روایت کے مطابق ہماری منتخب شدہ اسمبلیاں ہر فوجی حکمران کے غیر آئینی اقدام کو قانونی جواز بخشتی رہی ہیں۔ اب انہیں جعلی قرار مت دیجیے کیونکہ جن افراد پر مشتمل قومی اسمبلی نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی جواز فراہم کیا تھا، کم و بیش وہی لوگ آج کی پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں آج بھی وہی ہیں جو پرویز مشرف کے دور کی پارلیمنٹ میں موجود تھیں۔

    ہو سکتا ہے کہ آپ فوجی حکمرانوں کے دور میں منعقد ہونے والے انتخابات کو مشکوک قرار دے دیں۔ ٹھیک بات ہے۔ مجھے اتفاق ہے مگر پھر جمہوری حکمرانوں کے دور میں ہونے والے انتخابات بھی اسی طرح ہی مشکوک ہیں۔ 2013ء میں ہونے والے انتخابات میں جن حلقوں کے تھیلے کھولے گئے ہیں وہاں سے بدترین گھپلوں کی دیمک ہی باہر نکلی ہے۔ اس لیے پرویز مشرف کے دور والی پارلیمنٹ ہو یا نواز شریف کو منتخب کرنے والی اسمبلی، دونوں کا قانونی جواز ایک ہی جیسا مشکوک یا مضبوط ہے۔

    ہم اپنے سوال کی طرف واپس آتے ہیں کہ سویلین اور فوجی حکمرانوں میں اساسی فرق کیا ہے؟

    میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں میں ایک ہی فرق ہے اور وہ ہے فوج کے ادارے پر اختیار کا ہونا یا نہ ہونا۔ فوجی حکمران ایک ایسا سیاست دان ہے جسے فوج کے ادارے پر مکمل اختیار حاصل ہو جبکہ ایک سویلین حکمران ایک ایسا سیاست دان ہے جو فوج کے منہ زور گھوڑے پر کاٹھی نہیں ڈال سکتا۔

    فوجی حکمران اس طاقتور ادارے پر گرفت کی وجہ سے اپنے عرصہ اقتدار کو طول دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ ریاست کے تمام اداروں کو اپنی آہنی گرفت میں لے کر بےبس کر دیتا ہے۔ وہ سپریم کورٹ سے بھی اپنی بات منوا لیتا ہے کیونکہ اس کے پاس بندوق کی طاقت ہے۔ وہ تمام ریاستی اداروں کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ جب چاہے میڈیا کا گلہ گھونٹ دیتا ہے، بیوروکریسی کو بھی اپنے اشاروں پر نچاتا ہے۔ گویا تمام ادارے ریاست کے بجائے اس کی خدمت پر معمور ہوتے ہیں۔

    لیکن ایک منٹ کے لیے ٹھہریے۔ کیا ہمارے دانشور دن رات یہ واویلا نہیں مچائے رکھتے کہ سویلین حکمرانوں کو فوج پر مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیے؟ اگر ان کی یہ تمنا پوری ہو جائے اور ایک فوجی اور سویلین حکمران میں موجود بنیادی فرق مٹ جائے تو کیا ہم اپنی تاریخ کا پہلا سویلین ڈکٹیٹر نہیں دیکھیں گے؟

    تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ نواز شریف کو فوج پر وہی اختیار حاصل ہو جاتا ہے جو پرویز مشرف کو حاصل تھا تو اس کا کیا نتیجہ نکلےگا؟ یقین کریں کہ حسنی مبارک سے بھی زیادہ بڑا ڈکٹیٹر نمودار ہوگا۔ جن پرائیویٹ چینلز کو مشرف دور میں لائسنس ملے تھے، وہ نواز شریف صاحب کے دور میں یا تو حکومت کے قصیدے پڑھتے نظر آئیں گے یا پھر ان کا لائسنس ختم کر دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کا جج کوئی گلو بٹ ہوگا اور بیوروکریسی مکمل طور پر اپنی آزادی و خودمختار کھو بیٹھے گی۔ امیرالمؤمنین بننے کا شوق چوکڑیاں بھرتے ان کے دل کی چراگاہ سے نمودار ہوگا اور اس دفعہ اسے روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔

    حکمران ملکی سطح پر رسہ گیری کریں گے اور پولیس کا محکمہ ان کے پالتو غنڈوں کا کردار ادا کرے گا۔ فوج کا ادارہ ایسے تباہ ہوگا کہ ملک کو شام اور لیبیا جیسے حالات سے بچانے کے قابل ہی نہیں رہےگا۔ حکمرانوں اور ان کے کاسہ لیسوں کے کاروبار پوری دنیا میں پھیل جائیں گے اور سب سے بڑا لمیہ یہ ہو گا کہ یہاں انتخابات اسی طرح منعقد ہوں گے جس طرح ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے ریفرنڈم ہوئے تھے۔ ہر دفعہ حکمران 99 فی صد ووٹ لے کر منتخب ہوگا۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری گتھی کا کیا حل ہے؟ اصل میں خرابی کی جڑیں اس سوچ میں پیوستہ ہیں کہ جس قسم کی جمہوریت الیکشن کی صبح جنم لے، اگلے پانچ سال پوری قوم اس کی تمام تر من مانیاں برداشت کرے۔ حکمرانی کے قانونی جواز کا ڈھنڈورا اس قدر شدت سے پیٹا جاتا ہے کہ جمہوریت کے دیگر لوازمات نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انتخابات جمہوریت کا صرف ایک پہلو ہیں۔ اداروں کی خودمختاری اس سے زیادہ اہم ہے۔ اصولی طور پر اداروں کو ریاست کے لیے کام کرنا چاہیے نہ کہ حکومت کے لیے۔ سٹیٹ بنک ہو یا بیوروکریسی، عدلیہ ہو یا احتساب کے ادارے، ان تمام کو حکمرانوں کے دست برد سے محفوظ رہنا چاہیے۔ جو سویلین حکومت اداروں کی مضبوطی کو اپنا مشن بنا لے گی، جس کے دور میں میرٹ پر لوگوں کی تقرریاں ہوں گی، وزیراعظم پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوگا اور اس بات کو یقینی بنائےگا کہ سیاست دان کسی افسر کا تبادلہ نہ کرا سکیں اور عدلیہ مکمل طور پر خود مختار ہوگی، ایسی حکومت ہی اس بات کی حقدار ہو گی کہ فوج کا ادارہ اس کی بالادستی قبول کر لے۔ چونکہ یہ بات یقینی ہوگی کہ وزیر اعظم میرٹ کا قتل عام نہیں کرے گا، اس لیے فوج سمیت تمام اداروں کو سویلین حکومت کی بالادستی قبول کرنا پڑے گی۔

    جو لوگ دن رات فوج پر سویلین بالادستی کا راگ الاپتے رہتے ہیں، انہیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے۔

  • میاں نوازشریف کا المیہ – فیض اللہ خان

    میاں نوازشریف کا المیہ – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان میاں نوازشریف اور اتحادیوں کا المیہ یہ ہے وہ آتے ہی فوج سے پنگے شروع کردیتے ہیں اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بجلی کی تاروں اور اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں انگلی کرنے کا انجام زوردار جھٹکے کی صورت میں نکلتا ہے. خیر سے میاں صیب اس میں خود کفیل ہیں ۔

    نصیب اچھے ہوں تو ہمیں اردگان جیسا مدبر ملتا جس نے اقتدار پر قبضہ کرنے میں مشہور طاقتور ترین فوج کو فقط کارکردگی کی بنیاد پر پیچھے کیا۔ عوامی طاقت اور رائے عامہ تب ساتھ ہوتی ہے جب آپ روٹی کپڑا مکان فراہم اور تھانہ کچہری، پولیس، تعلیم، روزگار اور صحت کے معاملات نمٹا چکے ہوتے ہیں ۔

    موٹی عقل والوں کو کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کے بقول داخلہ، دفاع اور خارجہ میں ہی مرضی چاہتی ہے، باقی ملک اور وزارتیں آپ کی ہیں، کام کریں، کارکردگی دکھائیں اور عوامی اعتماد سے نہ صرف وہ تینوں وزارتیں عملا واپس لے لیں بلکہ طاقتور اداروں کو آئین کا پابند اور بیرکوں تک محدود کر دیں۔ ورنہ جو گھٹیا طریقے اختیار کر رہے ہیں، وہ آپ ہی کی گردن کا پھندا بنیں گے. ن لیگ کے شیروں میں کتنا دم خم ہے سب جانتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ایک گلو بٹ بھی باہر نہیں نکلے گا، پہلے بھی نہیں نکلا تھا، اور میاں فیملی کی بادشاہت کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہو کل کو دانیال عزیز اور طلال چوھدری وغیرہ پھر سے کسی آمر کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہے ہوں اور آپ جدہ میں بیٹھے ان کے منہ کے ساتھ اپنی عقل کو تک رہے ہوں۔

    فیصلے جرات کے ساتھ ضرور کریں، مگر تدبر کا ہونا بہت ضروری ہے. اجلاس کی کارروائی میڈیا کو لیک کرنے سے وفاقی حکومت، میاں برادران اور ن لیگی قیادت کا اعتماد مجروح ہوا ہے، خبر کے درست یا صحیح ہونے کا معاملہ نہیں، بات اقدار کی ہے جسے پامال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

    مقتدر اداروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں سویلینز پر اعتماد کی شرح کو بلند کرنا ہوگا، تلخیوں کے ساتھ گھر نہیں چل سکتے، ملک تو دور کی بات ہے، کروڑوں لوگوں کے نمائندے پر اعتماد کرنا پڑے گا، ان کی خامیوں کو اچھے انداز میں حل کرکے ملک کو صراط مستقیم پرگامزن کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں مشکل فیصلوں نے ملک کو جہنم بنا دیا تھا۔

    اصولوں کی پاسداری سول و ملٹری تعلقات کو بہتر بنا سکتی ہے، میڈیا پر بیانات سے کسی کا بھلا نہیں جگ ہنسائی ہی ہو رہی ہے.

  • سول ملٹری اختیارات کا جھگڑا، حقیقت کیا ہے؟ رحمان گل

    سول ملٹری اختیارات کا جھگڑا، حقیقت کیا ہے؟ رحمان گل

    رحمان گل پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ زیرِ بحث رہے ہیں. عسکری اور سول اداروں کے مابین اختیارات کا جھگڑا کیوں پیدا ہوتا ہے؟ پاکستان میں یہ بات قابلِ توجہ ہے ورنہ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عسکری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

    ہمارے سیاستدان ہمیشہ سے یہ دہائی دیتے آئے ہیں کہ عسکری ادارے انہیں کام نہیں کرنے دیتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عسکری حکام انہیں کام کیوں نہیں کرنے دیتے، آیا انہیں کام کرنا آتا بھی ہے یا نہیں، یہ بات قابلِ غور ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں کشمیر کے معاملے پر بین الاقوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں بہتر بنانے کے لیے حکومت نے 22 اراکینِ پارلیمنٹ کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھیجے جانے والے معزز اراکین کشمیر کے تنازعے کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ پاکستان اور ہندوستان کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟ اور سب سے بڑھ کر جانے والے معزز اراکین سفارتکاری کے رموز سے کتنا واقف ہیں۔ ان معزز اراکین کی قابلیت دیکھنے سے حکومتی سنجیدگی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔کسی کو قابلیت بارے غلط فہمی ہو تو روس جانے والے وفد کے رکن منظور وسان کی گفتگو سن لے.

    آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے کہ جو جس کی ذمہ داری ہے ادا کرے مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اور دوسرے اداروں پر اضافی ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر فوج کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ فوج زلزلوں قدرتی آفات، شہروں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن، شہروں کی حفاظت اور فوجی عدالتوں کی صورت میں عدالتوں تک کا بوجھ اٹھاتی ہے، ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ بجلی کی میٹر ریڈنگ تک عسکری اداروں کو کرنی پڑی۔ ایسے میں اگر فوج اضافی اختیارات اپنے پاس رکھتی ہے تو کیا برا ہے۔ سب آئین آئین کا ورد کیوں شروع کر دیتے ہیں۔ اضافی ذمہ داریاں دیتے وقت کسی کو آئین یا سویلین بالادستی کیوں یاد نہیں رہتی۔

    جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو وہ دنیا بھر بشمول امریکہ و برطانیہ حکومت اور عسکری ادارے مل کر چلاتے ہیں اور فیصلے عسکری اداروں سے مشاورت کے بعد کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدان اس معاملے میں کلی اختیارات تو چاہتے ہیں مگر ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ چلیں ایک لمحے کے لیے تسلیم کر لیتے ہیں کہ عسکری اداروں کی وجہ سے سول حکومت کی کارکردگی خارجہ پالیسی کے میدان میں خراب ہے۔ کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ تعلیم و صحت اور دیگر شعبوں میں سیاستدانوں کی مثالی کارکردگی کس وجہ سے ہے؟ جمہوریت کی خاصیت یہی ہے کہ فرد واحد کی بجائے ادارے کام کرتے ہیں مگر سب نے دیکھا کہ اسی نام نہاد جمہوری حکومت میں حریف ملک کا وزیراعظم بغیر ویزے کے آتا ہے اور اداروں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ ویسے ایک بات کی راقم کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ انہیں کام کرنے نہیں دیا جاتا مگر کرپشن کے میدان میں اس مثالی کارکردگی کا راز کیا ہے؟

  • ہلکی ہلکی آنچ-محمد اظہار الحق

    ہلکی ہلکی آنچ-محمد اظہار الحق

    izhar

    ترمذ کی خنک شام تھی۔ ہم سب غیر ملکی مندوب ایک کھلے میدان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ سامنے، کچھ فاصلے پر سٹیج تھا۔ سٹیج پر کوئی کرسی یا ڈائس نہیں تھا۔ بیٹھے ہوئے گھنٹہ بھر ہو گیا تو بڑھتی ہوئی سردی میں کچھ مندوبین اپنی گاڑیوں اور بسوں سے اوورکوٹ لینے کے لیے اُٹھے تو سکیورٹی کے افراد نے بتایا کہ اب کوئی شخص اِس جگہ سے اُٹھ کر باہر نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے مندوبین سے ملنے آنا ہے اور ان کی آمد پر سکیورٹی کا یہی انداز ہوتا ہے۔
    ساتھ ایرانی مندوب بیٹھا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کا ایک نیا جھونکا آیا اور اس نے بے ساختہ منوچہری دامغانی کا شعر پڑھا ؎

    خیزد و خز آرید کہ ہنگامِ خزاں است
    بادِ خنک از جانبِ خوارزم وزان است

    اُٹھو، ریشمی چادر اوڑھو کہ خزاں آن پہنچی۔ خوارزم کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔
    ترمذ کا شہر! خنک شام! پچھلی رات خوارزم سے واپس پہنچے تھے۔ ایسے میں ایک ایرانی کی زبان سے برمحل، بے ساختہ شعر، سبحان اللہ سبحان اللہ! تیر کی طرح دل میں پیوست ہو گیا۔ پاک و ہند میں فارسی پڑھنے پڑھانے والوں نے منوچہری دامغانی کو کبھی کوئی خاص لِفٹ نہیں دی۔ واپس آ کر پہلی فرصت میں کوئٹہ کے کتاب فروشوں کی معرفت ایران سے منوچہری کا دیوان منگوایا۔

    یہ ازبکستان میں جلال الدین خوارزم شاہ کی 700ویں برسی کا ہنگامہ تھا۔ پاکستان سے ہم دو مندوب تھے۔ یہ فقیر اور ڈاکٹر این بی بلوچ۔ تاشقند سے خصوصی پرواز کے ذریعے دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین کو خیوا لے جایا گیا جہاں کانفرنس کا انعقاد تھا۔ وہاں سے ترمذ۔ یہاں مقصد کانفرنس کی تفصیلات بتانا نہیں۔ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف کے اندازِ حکومت کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد صدر صاحب تشریف لائے۔ مندوبین کے تو وہ قریب بھی نہیں پھٹکے‘ نہ ہی ان کی موجودگی میں کوئی اپنی جگہ سے ہِل سکا۔ سٹیج پر کھڑے ہو کر انہوں نے تقریر کی۔ دائیں بائیں دیگر وزرا اور صوبائی عمائدین کھڑے تھے۔ جہاں جاتے سخت سکیورٹی کی وجہ سے سٹیج پر بیٹھنے سے گریز کرتے‘ حاضرین کے نزدیک جانے کا سوال ہی نہ تھا۔

    تاشقند سے لاہور کا فاصلہ سات سو بتیس میل اور اسلام آباد کا پانچ سو باسٹھ میل ہے۔ ‘نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر‘۔ کتابوں میں تو درست ہے تاہم حقیقت میں ان مسلمان ملکوں سے ہمارا تعلق اتنا ہے کہ اسلام کریموف کی وفات کی خبر یک کالمی سرخی کی دو سطروں پر مشتمل تھی۔ ان کے جنازے میں افغان صدر اشرف غنی شریک تھے۔ ایران سے وزیر خارجہ آئے تھے۔ پاکستان سے کوئی نہ تھا۔
    اسلام کریموف تقریباً ستائیس برس ازبکستان کے حکمران رہے۔ یہ شدید آمریت کا دور تھا۔ اِس آمریت کے ڈانڈے اُن 127 برسوں سے ملتے ہیں جو اہلِ تاشقند نے روسیوں کی غلامی میں گزارے۔ 1865ء میں زار کی فوج نے تاشقند فتح کیا تو عیسائی راہب صلیب اٹھائے شہر میں داخل ہونے والے لشکر کے آگے آگے تھا۔ پھر اشتراکی انقلاب آیا۔ سوویت یونین کی ستر سالہ غلامی، زار کے زمانے سے بھی بدتر تھی۔ رسم الخط، لباس سب کچھ بدل گیا۔ ہندوستان پر اس کے مقابلے میں برطانوی سامراج کی حکومت تھی۔ شاید ہندوستانیوں کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے حصے میں برطانوی آقا آئے۔ برطانیہ میں جمہوریت تھی۔ بھارتی اور پاکستانی اُس آمریت کا سوچ بھی نہیں سکتے جس نے وسط ایشیائی ریاستوں کو اپنے خوفناک جبڑوں میں جکڑا ہوا ہے۔ مغل سلطنت کا زوال تاریخ کا مرحلہ تھا جس کا آنا ناگزیر تھا۔ برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کرکے گریٹ گیم کھیلی اور اس کامیابی کے ساتھ کہ افغانستان کو بفر ریاست بنا کر، جنوب کی طرف مسلسل بڑھتے ہوئے روسیوں کو دریائے آمو کے اُس پار روک دیا۔ فائدے بچھو اور سانپ کے بھی ہوتے ہیں اور استعمار کے بھی۔ جمہوریت، مقامی حکومتیں اور مالیات کا مستحکم نظام، استعمار ہی کے تحفے ہیں۔

    بظاہر کریموف نے سوویت یونین کے انہدام پر ازبکستان کی آزادی کا اعلان کیا مگر اسلوب حکمرانی وہی رکھا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ کے جی بی کی جگہ نیشنل سکیورٹی بیورو بنا ڈالی۔ ہر شخص دوسرے سے بات کرتے ہوئے خوف زدہ رہتا۔ بارڈر بند کر دیے۔ درآمدات پر ستر فیصد ٹیکس نافذ کیا۔ الیکشن منعقد کرائے مگر یہ الیکشن عجیب و غریب تھے۔ ہر دفعہ نوے فیصد ووٹ کریموف کو پڑتے! 2000ء کے انتخابات میں تو کریموف کے حریف امیدوار نے خود ووٹ کریموف کے حق میں ڈالا۔

    برطانیہ اور امریکہ نے اپنی روایتی منافقت سے کام لیتے ہوئے کریموف کی شدید آمریت کو سہارا دیا اس لیے کہ یہ آمریت انہیں راس آئی تھی۔ 2003ء میں کامن ویلتھ کے دفترِ خارجہ نے ازبکستان کو برطانیہ کا اہم ساتھی قرار دیا اور ”تصدیق نامہ‘‘ جاری کیا کہ ”ازبک افواج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہی نہیں‘‘۔ 2004ء میں تاشقند میں برطانوی سفیر کریگ مُرّے نے کریموف کی مجرمانہ سرگرمیوں کو صدام سے تشبیہہ دی تو برطانوی حکومت نے اپنے سفیر کو بیک بینی دو گوش ملازمت سے فارغ کر دیا۔

    کریموف اپنے سیاسی مخالفین پر بھی اسلامی انتہا پسندی ہی کا لیبل لگاتے۔ 2005ء میں وادیٔ فرغانہ کے شہر اندجان میں بغاوت ہوئی۔ عوامی ہجوم نے جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس پر کریموف کی افواج نے شہر میں قتل عام کیا اور نہتے عورتوں اور بچوں کو بھی نہ چھوڑا۔ اب کے برطانیہ کو شرم آئی اور اس نے اس قتل عام کو انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا‘ مگر امریکہ نے ”صبر‘‘ کی تلقین کی اور ازبک عوام کو تلقین کی کہ ”پُرامن‘‘ جدوجہد کریں۔ ”پُرامن‘‘ جدوجہد کی تلقین امریکہ اُن عوام کو کر رہا تھا جنہیں فٹ بال کھیلنے پر بھی ازبک پولیس گرفتار کر لیتی تھی۔ الزام یہ لگتا تھا کہ فٹ بال کھیل کر یہ افراد جسمانی فِٹنس کی تیاری کر رہے ہیں تا کہ انتہا پسندوں کے ساتھ شامل ہو سکیں۔ کریموف کا حکم تھا کہ باغیوں کے سروں میں گولی ماری جائے۔ ”ضرورت پڑی تو میں خود انہیں گولی ماروں گا‘‘۔ ان کا یہ قول بہت مشہور ہوا۔

    کریموف کی ماں تاجک اور باپ ازبک تھا۔ انہوں نے کریموف کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ کریموف کا بچپن وہیں گزرا۔ طبیعت میں سختی اور مزاج میں جو تشدد تھا، اس کی ایک وجہ کچھ مبصرین کے نزدیک یتیم خانے کا ماحول بھی تھا۔ بڑی بیٹی گلنارہ کو جب کرپشن کے الزام میں پکڑا گیا تو عینی شاہدین کے مطابق پہلے باپ نے گلنارہ کو چہرے پر تھپڑ رسید کیا‘ پھر بے تحاشہ زدوکوب کیا‘ اور پھر گھر میں مقید کر دیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ بیٹی کے ساتھ سیاسی اختلاف تھا اور کرپشن محض بہانہ تھی۔ سرکاری اجلاس کے دوران کریموف کو غصہ آتا تو موصوف حاضرین پر سنگِ مرمر کا بھاری سگریٹ دان بھی دے مارتے۔

    1992ء میں یہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تعلقات نارمل تھے۔ تین چار پروازیں ہفتہ وار تاشقند جاتیں۔ چمڑے کے تاجر اُن دنوں تاشقند کے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے عام پائے جاتے۔ پھر تعلقات میں سردمہری در آئی۔ زبانی روایت یہ کہتی ہے کہ ازبکستان میں جو دھماکے ہوئے تھے ان میں کچھ ایسے افراد بھی ملوث تھے‘ جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھے‘ اگرچہ وہ افراد پاکستان نہیں تھے۔ اس کے بعد پاکستانیوں کو ویزا دینے میں سختی برتی جانے لگی۔ اس زبانی روایت کی تصدیق مشکل ہے مگر جس فراخ دلی سے ہمارے ادارے غیر ملکیوں کو نوازتے ہیں اور چند ٹکوں کی خاطر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بانٹتے پھرتے ہیں، اُس کے پیشِ نظر یہ روایت کچھ ناممکن بھی نہیں۔

    وسط ایشیا کی یہ ریاستیں بجلی، گیس اور معدنیات کا خزانہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی اِن ریاستوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک وجہ نااہلی اور وژن کی کمی ہے۔ ایک بار اس کالم نگار کو تاشقند میں بتایا گیا کہ پاکستان کے سفیر گاف کھیلنے کے علاوہ کسی شے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ رہے ہمارے کیریئر ڈپلومیٹ، تو انہیں امریکہ یا یورپ سے باہر تعینات کیا جائے تو ان کی اکثریت یوں بے کل رہتی ہے جیسے طوطا پنجرے میں پھڑپھڑاتا ہے۔ ہمارے اکثر سفارت کاروں کی ارضِ موعود (Promised Land) ولایتی ممالک ہی ہیں۔ اس کے برعکس بھارت نے ابتدا ہی سے اِن ریاستوں پر بھرپور توجہ دی۔ بھارت کا لمبا چوڑا ثقافتی مرکز تاشقند میں ایک مدت سے کام کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اس آڑ میں جاسوسی بھی ہوتی ہو گی۔ تاشقند یونیورسٹی میں ہندی کا مضبوط شعبہ ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں وسط ایشیائی طلبہ اردو سیکھنے کے لیے بھارتی یونیورسٹیوں میں جاتے رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ بھارت کی برآمدات اِن ملکوں میں بے تحاشا ہیں۔ وہاں کی تعمیری، بینکاری اور دیگر سرگرمیوں میں بھارتی پیش پیش ہیں۔ یہ ریاستیں بھارتی فلموں کی بہت بڑی منڈی بھی ہیں۔ عرصہ ہوا اِس کالم نگار نے اُس وقت کے سیکرٹری اطلاعات کو تجویز دی تھی کہ پاکستانی ڈراموں کو وہاں عام کرنے کی کوشش کی جائے لیکن یہ تجویز بھی ردّی کے اُس بڑے ڈرم میں چلی گئی جہاں ہر مفید تجویز اپنے عبرتناک انجام کو پہنچتی ہے۔ جس ملک میں ہر پالیسی چند مخصوص طبقات کے مفاد میں بنتی ہو وہاں ہم جیسے احمقوں کی، جو صرف اور صرف ملک کے نقطۂ نظر سے سوچتے ہیں، کون سنتا ہے اور کون سنے گا! ؎

    بہت ہی تیز مہک اور ہلکی ہلکی آنچ
    وطن کی خاک ہے یا آتشیں گلاب ہے یہ