Tag: چین

  • افغان طالبان کا دورہ چین اور امن – سجاد سلیم

    افغان طالبان کا دورہ چین اور امن – سجاد سلیم

    میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق افغان طالبان کے قطر آفس کے سربراہ عباس ستنکزئی کی قیادت میں طالبان کے وفد نے 18 سے 22 جولائی کے دوران چین کا دورہ کیا، جو کہ طالبان کے مطابق چینی حکومت کی دعوت پر کیا گیا۔ طالبان ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے دنیا میں بہت سے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور چین ان میں سے ایک ہے۔ طالبان کے مطابق چینی حکومت کو افغانستان پر بیرونی قبضے اور قابض فورسز کی جانب سے عوام پر کی گئی زیادتیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا، اور ان ایشوز کو عالمی فورمز پر اٹھانے میں چین سے مدد کی درخواست کی گئی ۔

    افغان طالبان کے دوسر ے ممالک کے ساتھ تعلقات کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے پاکستان اور ایران پر طالبان کے ساتھ تعلقات کے الزامات لگتے رہے ہیں، حال ہی میں روس سے تعلقات کی استواری کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں اور بعض نے تو یہ بھی دعوی کیا کہ بھارت بھی ان سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے. بعض یورپی اور دوسری کمپنیز بھی افغانستان میں اپنا کام مکمل کرنے کے لیے طالبان کو پیسے دیتی رہی ہیں، لیکن چین کے ساتھ طالبان کے تعلقات پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں جو کہ خطے کے لیے بڑ ی اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے، اور اس وقت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، اور اگلے چند برسوں میں امریکہ کو پچھاڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ طالبان کے اس دورہ چین کو افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

    سال کے آغاز میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے بننے والے چار ملکی گروپ میں افغانستان، امریکہ اور پاکستان کے علاوہ چین بھی شامل تھا۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے مطابق، طالبان کابل کو جنگ سے آزاد علاقہ قرار دینے پر رضا مند ہو چکے تھے مگر مئی 2016 میں طالبان سربراہ پر امریکی ڈرون حملے کے بعد یہ چار ملکی گروپ عملا غیر مئوثر ہوگیا، اور طالبان کی جانب سے ملا منصور کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کاروائیوں میں اضافے کے اعلان کی وجہ سے مذاکرات کا دروازہ تقریبا بند ہوگیاتھا، لیکن اس دورے سے مذاکرات کے امکانات دوبارہ روشن ہو گئے ہیں۔ دورے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ چین نہ صرف افغانستان میں امریکی کردار سے غیر مطمئن ہے بلکہ خطے کے مسائل کے حل کے حوالے سے اپنے کردار میں میں اضافے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، کیونکہ خطے میں بدامنی، چین کے معاشی مفادات کےلیے سے نقصان دہ ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ سی پیک جیسے بڑے منصوبوں کی کامیابی کے لیے خطے میں امن کا ہونا ضروری ہے۔

    سی پیک، افغانستان کے لیے بھی ایک نعمت سے کم نہیں،اس وقت کابل کا سمندر کے ساتھ سب سے مختصر اور سستا ترین روٹ بذریعہ کراچی ہی ہے اور گوادر کے آپریشنل ہونے کے بعد، گوادر روٹ اور بھی سستا ہو جائےگا، کیونکہ اس کے ذریعے سمندری فاصلہ اور بھی کم ہو جائے گا، لیکن بدقسمتی سے بھارت کے زیراثر افغان حکومت، سی پیک کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر رہی۔ نریندر مودی چند چھوٹے منصوبوں کو سی پیک کے متبادل کے طور پیش کر نے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں. اس کے مقابلے میں سی پیک کا بجٹ اور اثر بہت بڑا ہے جس کا خطے میں کسی بھی دوسرے معاشی منصوبے کے ساتھ مقابلہ و موازنہ ناممکن ہے۔ اس صورتحال کا سراسر نقصان افغان عوام کو برداشت کرنا پڑےگا۔ چین یہ چاہتا ہے کہ افغانستان بھی سی پیک سے فائدہ اٹھائے، جس سے یقینا افغانستان میں خوشحالی کے ساتھ امن و استحکام آئے گا۔

    چین کے ساتھ تعلقات افغان طالبان کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے اپنی سنجیدگی کا اظہار کریں اور دنیا کے سامنے افغانستان میں مستقل امن کے لیے اپنا لائحہ عمل پیش کریں، جو قابل عمل اور تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ چین طالبان کو، اپنے شدت پسندی سے متاثر، مغربی علاقے زن جیانگ کے حوالے سے بڑا خطرہ تصور کرتا رہا ہے، اور اس دورے میں چینی حکومت نے یقینا اپنے تحفظات طالبان وفد کے سامنے پیش کیے ہوں گے، اور ہو سکتا ہے کہ ان تحفظات کو دور کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہو۔ اگر چین کے تحفظات دور ہو جاتے ہیں، تو وہ عالمی برادری کو افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا اور بعد میں پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے قائل کر سکتا ہے۔ اس دورے سے خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

  • ایک بیمار کالم…عبدالقادر حسن

    ایک بیمار کالم…عبدالقادر حسن

    m-bathak.com-1421902610abdul-qadir-hassan

    اگر کوئی انسان بیمار نہیں پڑتا تو اس میں کچھ کمی ضرور ہے ورنہ وہ انسان ہی کیا جو زندہ ہو اور بیمار نہ ہو چنانچہ میں جب کبھی بیمار پڑتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ میں زندہ اور بخیروعافیت ہوں۔ گزشتہ دنوں میں ایک اسپتال میں تھا جہاں مجھے ایک وہیل چیئر پر بٹھا دیا گیا مجھے بڑا لطف آیا کہ میں ایک کرسی پر سوار ہوں اور میرے جیسے انسان اس کرسی کو چلا رہے ہیں لیکن جب اسی دوران یہ کرسی کسی چیز سے ٹکرائی اور میرے انگوٹھے کا ناخن اس کی زد میں آ گیا اور اپنے مرکز سے ہل جل گیا جیسے ان دنوں کئی سیاستدان اپنے اپنے مرکز سے ہلے ہوئے ہیں کبھی ایک جماعت میں دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کسی دوسری جماعت میں، انھیں اب تک معلوم نہیں کہ ’منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی‘۔ اسی طرح میرا ناخن بھی اپنے مرکز سے ہل گیا اور اب تک اسے معلوم نہیں کہ وہ کس باغ کا بوٹا ہے۔

    میں اس بات کو اپنے سیاستدانوں تک لے جا سکتا ہوں اور قارئین کو پریشان نہیں کرتا بلکہ انھیں بتاتا ہوں کہ ان کے لیڈر کیا ہیں اور کیا تھے۔ وہ کس باغ کی بوٹی ہیں اور اب کس باغ میں پرورش پا رہے ہیں۔ مرحوم و مغفور نوابزادہ نصراللہ خان فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اکثر سیاست دان فوج کے گملے میں پیدا ہوتے ہیں اور اب تک اسی باغ میں ہیں جہاں ان کا یہ گملا جڑ پکڑ چکا ہے۔

    ہماری پیپلز پارٹی والے شاید برا منائیں کہ ان کا لیڈر بھی فوج کے گملے کی پیداوار تھا اور اس نے اسی گملے میں ابتدائی پرورش پائی تھی اور پھر بعد میں بھی اسی گملے کی آب و ہوا میں جوان ہوا اور اپنے اس پیدائشی گملے کے محافظ کی جان کا دشمن بن گیا۔ اپنے فوجی محافظ کو ایک آسمانی مخلوق قرار دینے والے نے اسے زمین پر پٹخ دیا لیکن وہ کپڑے جھاڑ کر اٹھا اور چپکے سے گھر چلا گیا جہاں اس کا وہ تاریخی بستر اس کے انتظار میں تھا جہاں سے اٹھ کر وہ کبھی اسلام آباد سے چین گیا تھا اور پھر عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کے درمیان محبت اور تعلقات کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوا جو اب تک چل رہا ہے ایک اٹوٹ سلسلہ۔ ہمارے بعض پاکستانی لیڈروں نے اسے توڑنے پھوڑنے کی بار بار کوشش کی مگر بھٹو اور چواین لائی نے اس سلسلے کو ایسی مضبوطی کے ساتھ باندھا تھا کہ یہ خود بھٹو کے ساتھیوں سے بھی ٹوٹ نہ سکا۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی کہانی ایک مثال ہے جو اس خود غرض دنیا نے پہلی بار دیکھی ہے اور یہ عوامی جمہوریہ چین اور اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی رگ و پے میں اتر چکی ہے۔

    تعجب کیا جاتا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے سیکولرازم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلام ازم میں یہ رشتہ کیسے بندھ گیا اور پھر اسے دونوں ملکوں کے عوام کے خلوص اور نیک نیتی نے ایسے جکڑ دیا کہ یہ دنیا بھر میں ایک مثال بن گیا۔ چین دشمن امریکا نے اپنے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے پوری کوشش کی مگر امریکا تعلق کی اس عمارت کی ایک اینٹ بھی نہ ہلا سکا جس میں چینی اور پاکستانی عوام کے خلوص اور محبت کے خون کی آمیزش تھی اور جس کی رگوں میں خون اتر چکا تھا۔

    بات فوج کی ہو رہی تھی جس کے گملوں میں ہمارے سیاستدانوں کی سیاست نے پرورش پائی لیکن اس وقت میں ذاتی بات کر رہا ہوں کہ میرے پاؤں کا انگوٹھا اپنے مرکز سے ہل گیا ہے اور اس وقت خود اسے بھی معلوم نہیں کہ وہ پاؤں کے کس مرکز میں تھا اور اب کہاں ہے۔ اس انگوٹھے پر پٹی ایسی کس کر باندھ دی گئی ہے کہ بقول پٹی ساز کے اب ہلے گا نہیں لیکن میں نے عرض کیا کہ یہ اگر ہلا نہیں تو واپس کیسے جائے گا جہاں کا وہ جم پل ہے اور جہاں اس نے ایک عمر گزار دی ہے۔ بہر کیف مجھ سے زیادہ سمجھدار میرا وہ باورچی ہے جس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ ہاتھ کی انگلیوں سے لکھتے ہیں پاؤں کے انگوٹھے سے نہیں اس لیے متفکر نہ ہوں اور آپ کی وجہ سے ہماری روٹی بھی چلتی رہے گی‘ بس ہماری دعا ہے کہ آپ کے ہاتھوں کی انگلیاں اور دماغ کی توانائیاں سلامت رہیں یہی کافی ہے اور آپ کے پاؤں اپنی حد کے اندر رہیں اور مداخلت نہ کریں۔ ویسے ہمارے ایک ایڈیٹر تھے جو کہتے تھے کہ میں پاؤں کی انگلیوں سے بھی فلاں سے زیادہ بہتر لکھ سکتا ہوں، بدقسمتی سے ایک دن وہ دفتر کی سیڑھیوں سے گر گئے اور ان کے پاؤں زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد دفتر میں مشہور ہو گیا کہ اب ایک نئے ایڈیٹر کی ضرورت پڑ گئی ہے جو پاؤں ہاتھوں دونوں کی انگلیوں سے لکھ سکے تاکہ اخبار ایڈیٹر کے کسی حادثے سے محفوظ رہے۔ ایک لطیفہ کہ ہمارے اسی دفتر میں اور کالم نویس ایسے تھے جو لنگڑا کر چلتے تھے۔

    ایک دن ایک صاحب ملازمت کے لیے آئے اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک کالم نویس ہیں۔ مرحوم عالی رضوی ایڈیٹر تھے انھوں نے ان کی بات غور سے سنی اور کہا کہ آپ مہربانی کر کے چل کر دکھائیں۔ وہ دفتر کے برآمدے میں ایک طرف چل کر دوسری طرف گئے تو عالی صاحب نے کہا معافی چاہتا ہوں ہم صرف کسی لنگڑانے والے کو ہی کالم نویس رکھ سکتے ہیں جب کہ آپ صحیح چل سکتے ہیں۔

    قارئین کرام! ان دنوں میں بھی اپنے انگوٹھے کے زخم کی وجہ سے رک رک کر چلتا ہوں اور خدا کرے مجھے بھی کوئی ایسا ایڈیٹر مل جائے جو میری لنگڑاہٹ کی وجہ سے مجھے ملازمت دے دے یا میری ملازمت پکی کر دے۔ یہ ایک نیم بیمار کالم نویس کی کہانی تھی اسے پڑھ لیجیے۔

  • ہنزہ کے انمول لمحے…جاوید چوہدری

    ہنزہ کے انمول لمحے…جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    صبح کے چار بجے تک ’’ایگل نیسٹ‘‘ (Eagle Nest) میں اندھیرا تھا، میں بالکونی میں بیٹھا تھا، میرے سامنے پہاڑ اندھیرے کی چادر اوڑھ کر لیٹے تھے، آسمان پر گہرا سکوت تھا، وادی میں چیری، سیب، خوبانی اور انجیر کے درختوں کے نیچے دریا بہہ رہا تھا، فضا میں خنکی تھی اور اس خنکی میں گرمیوں کی مٹھاس تھی، چار بج کر پانچ منٹ پر چوٹیاں سفید ہونے لگیں، راکا پوشی نے اندھیرے کے لحاف سے منہ باہر نکالا، دائیں بائیں دیکھا اور پھر دوسری آٹھ چوٹیاں بھی  لحافوں سے باہر آنے لگیں۔ ’’لیڈی فنگر‘‘ میری دائیں جانب پیچھے کی طرف تھی، میں نے گردن گھما کر دیکھا، لیڈی فنگر کا سفید کلس بھی اندھیرے کا طلسم توڑ کر باہر آ چکا تھا، اس کے ہمسائے میں برف کا سفید گنبد تھا، اس کی چاندی بھی چمک رہی تھی۔

    اب وہاں برف کی چاندی تھی، خنک ہوا تھی، لیڈی فنگر کا سفید کلس تھا، راکاپوشی کے بدن سے سرکتی چادر تھی، انجیر، خوبانی، سیب اور چیری کے درختوں کے نیچے بہتا دریا تھا، دور نگر کی مسجد سے فجر کی نماز کا بلاوا تھا ’’ایگل نیسٹ‘‘ کی بالکونی تھی، ہنزہ کا سویا ہوا قصبہ تھا،ال تت فورٹ کا اداس واچ ٹاور تھا، بلتت فورٹ کے دکھی جھروکے تھے اور وقت میں گھلتا ہوا وقت تھا اور پھر وہ لمحہ آگیا جس کی تلاش میں صدیوں سے لوگ یہاں آ رہے ہیں، ایگل نیسٹ کی ان چٹانوں پر بیٹھ رہے ہیں، رات کو دن میں بدلتے دیکھ رہے ہیں، میں نے کھلی آنکھوں سے راکا پوشی کی چوٹیوں کو سفید ہوتے، پھر اس سفیدی کو سونے میں ڈھلتے اور پھر اس سونے کو چمکتے دیکھا، وہ لمحہ مقدس تھا، انمول تھا،  میں نے دوبارہ لیڈی فنگر کی طرف دیکھا، لیڈی فنگر کا بالائی سرا دیے کی جلتی بتی بن چکا تھا اور لیڈی فنگر اب لیڈی فنگر نہیں رہی تھی، وہ موم بتی بن چکی تھی، میرے اندر سے آواز آئی ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ’’بے شک، بے شک‘‘۔

    میں جمعہ کی صبح ہنزہ پہنچا، میرا بیٹا شماعیل دو ہفتے پہلے یہاں سے ہو کر آیا تھا، اسلام آباد گلگت فلائیٹ پی آئی اے کی بہت بڑی مہربانی ہے، یہ اس پوشیدہ زمین کا چمکدار دنیا سے واحد فضائی رابطہ ہے،  یہ فلائیٹ دنیا کی خوبصورت لیکن خطرناک ترین فضائی روٹ ہے، جہاز گلگت ائیر پورٹ پر لینڈنگ سے پہلے ایسی تکون میں داخل ہوتا ہے جہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے ہیں، یہ جگہ پونجی کہلاتی ہے، اس جگہ ہمالیہ، کوہ ہندو کش اور قراقرم آپس میں ملتے ہیں چنانچہ گلگت کی لینڈنگ دنیا کی خطرناک ترین لینڈنگز میں شمار ہوتی ہے۔

    میں گلگت سے گاڑی لے کر ہنزہ روانہ ہوگیا، پاکستان نے چین کی مدد سے حال ہی میں شاہراہ قراقرم دوبارہ تعمیر کی، یہ سڑک انسانی معجزے سے کم نہیں، آپ کو سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑوں کے درمیان موٹروے جیسی رواں سڑک ملتی ہے، یہ سڑک ہنزہ کو گلگت سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر لے آئی ہے،  ہمارے بائیں جانب گہرائی میں دریا بہہ رہا تھا، دریا کے اوپر اترائیوں پر کھیت اور باغ تھے، ان کے اوپر سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑ تھے اور ان کے درمیان ماضی کی شاہراہ ریشم اور آج کی قراقرم ہائی وے بہہ رہی تھی، میں دو گھنٹے میں ہنزہ پہنچ گیا۔ہنزہ48 دیہات اور قصبوں کی خوبصورت وادی ہے، یہ وادی اسماعیلی کمیونٹی اور طلسماتی حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔

    ہنزہ آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے چین کے سفید ہنوں نے آباد کیا اور یہ ہنوں کی وجہ سے ہنزہ کہلایا، دریا کے ایک کنارے پر ہنزہ ہے اور دوسرے کنارے پر نگر۔ یہ دونوں شہر دو بھائیوں کی ملکیت تھے، یہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، یہ پیاس صدیوں تک چلتی رہی، نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں پر حملے کرتے رہے اور ہنزہ کے سپاہی نگر کی کی فصلیں، باغ اور جانور اجاڑتے رہے، یہ دشمنی آج تک قائم ہے، آج بھی نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور ہنزہ کے لوگ نگر کے باسیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں، ہنزہ کے حکمرانوں نے نگر کے حملہ آوروں اور شاہراہ ریشم سے گزرتے قافلوں پر نظر رکھنے کے لیے 1100 سال پہلے دریا کے کنارے خوبصورت قلعہ تعمیر کیا، یہ قلعہ ال تت فورٹ کہلاتا ہے، مقامی زبان میں ال تت اِدھر کو کہتے ہیں اور بلتت اُدھرکو، ال تت کی تعمیر کے تین سو سال بعد بلتت کا قلعہ بھی تعمیر کیا گیا، یہ قلعہ آج بھی وادی کے دوسرے کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں موجود ہے، بادشاہ گرمیوں اور سردیوں کے مطابق اپنی رہائش گاہ تبدیل کرتے رہتے تھے۔

    ہنزہ کے بادشاہ میر کہلاتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1972ء میں پہلے نگر کو پاکستان میں شامل کیا گیا اور پھر 1974ء میں ہنزہ بھی پاکستان کا حصہ بن گیا، یہ دونوں شہر اس سے قبل آزاد ریاستیں تھیں، حکومت نے شمولیت کے بدلے نگر اور ہنزہ کے حکمران خاندانوں کو خصوصی مراعات دیں، دونوں کو اسلام آباد میں پانچ پانچ کنال کے پلاٹس، وظیفہ اور خصوصی اسٹیٹس دیا گیا، نگر کے حکمران آہستہ آہستہ کاروباری دنیا میں گم ہو گئے جب کہ ہنزہ کا حکمران خاندان سیاست میں آگیا ، میر غضنفر علی خان اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر ہیں، ان کے صاحبزادے سلیم خان والد کی خالی نشست پر صوبائی اسمبلی کاالیکشن لڑ رہے ہیں، اسلام آباد کی پوش سڑک مارگلہ روڈ پر ہنزہ ہاؤس 30 سال سے گزرنے والوں کو ہنزہ کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے، خاندان کے پاس پرانی کاروں کا خوبصورت بیڑہ بھی ہے، یہ لوگ جب اپنی پرانی قیمتی کاروں میں سڑک پر نکلتے ہیں تو لوگ ان کی سرخ رنگ کی نمبر پلیٹ اور اس پر ہنزہ ون اور ہنزہ ٹو دیکھ کر رک جاتے ہیں، آغا خان فاؤنڈیشن نے ہنزہ میں بے تحاشہ کام کیا۔

    فاؤنڈیشن نے پورا ال تت گاؤں دوبارہ بنا دیا، ال تت گاؤں کی پرانی گلیوں اور قدیم ساخت کے مکانوں میں تاریخ بکھری پڑی ہے، ال تت فورٹ کا شکوہ بھی دل میں اتر جاتا ہے، بادشاہ کہاں بیٹھتا تھا، ملکہ کہاں رہتی تھی، درباری کہاں آتے تھے، قیدیوں کو زیر زمین قید خانے میں کس طرح رکھا جاتا تھا، شاہی خاندان کے واش روم کی غلاظت قید خانے میں قیدیوں پر کیوں گرائی جاتی تھی، قیدیوں کو قلعے کی کس دیوار سے پھینک کر سزائے موت دی جاتی تھی اور حملے کے دوران شاہی خاندان کو کس کمرے میں چھپا دیا جاتا تھا اور انھیں کس طرح سرنگ سے گزار کر پانی کے تالاب تک لایا جاتا تھا،یہ ساری کہانیاں ہوش ربا ہیں، ال تت گاؤں کے درمیان تالاب ہے، یہ تالاب گلیشیئر کے ٹھنڈے پانی سے لبا لب بھرا تھا، گاؤں کے نوجوان اور بچے تالاب میں نہا رہے تھے، خواتین انگور کی بیلوں کے نیچے بیٹھی تھیں اور بوڑھے تھڑوں پر بیٹھ کر جوانی کے قصے سنا رہے تھے، قلعے کے ساتھ چھوٹا سا گھریلو ریستوران تھا،ریستوران کا سارا اسٹاف خواتین پر مشتمل تھا، یہ خواتین گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں،  میں دو گھنٹے ریستوران میں بیٹھا رہا، کھانا تازہ اور دیہاتی تھا، خاتون نے بتایا ریستوران آغا خان فاؤنڈیشن نے بنایا، اسٹاف کو ٹریننگ ’’سرینا‘‘ نے دی اور یہ وادی کا مقبول ترین ریستوران ہے۔

    ایگل نیسٹ ہنزہ کا خوبصورت ترین مقام ہے، یہ لیڈی فنگر کے سائے میں انتہائی بلندی پر واقع ہے، یہ جگہ ریٹائرڈ فوجی جوان علی مدد کے پردادا کی تھی، علی مدد نے 1990ء کی دہائی میں اس جگہ ایک کمرہ بنایا اور اس پر ’’ایگل نیسٹ‘‘ لکھ دیا، اس کمرے نے پوری چوٹی کو ’’ایگل نیسٹ‘‘ کا نام دے دیا، یہ ہوٹل اب 41 کمروں کا خوبصورت ’’ریزارٹ‘‘ بن چکا ہے، یہ وادی کی ’’پرائم لوکیشن‘‘ ہے، آپ کو یہاں سے ہنزہ اور نگر کی وادیاں بھی دکھائی دیتی ہیں اور ہنزہ کی گیارہ چوٹیاں بھی، یہ ہوٹل بنانا اور اس ہوٹل کے گرد گاؤں آباد کرنا انسانی معجزہ ہے اور علی مدد اس معجزے کا ’’آرکی ٹیکٹ‘‘ ہے، یہ رات تک اپنے ہوٹل میں اس طرح پھرتا رہتا ہے جس طرح خوش حال دادا اپنی صحت مند آل اولاد کے درمیان خوش خوش پھرتا ہے، علی مدد نے اس مشکل جگہ سڑک بھی پہنچائی،پانی بھی اور زندگی کی دوسری سہولتیں بھی، یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور یہ ہوٹل اب ہنزہ کا ’’آئی کان‘‘ بن چکا ہے۔

    دنیا کے خواہ کسی بھی کونے سے کوئی مسافر آئے وہ ’’ایگل نیسٹ‘‘ ضرور پہنچتا ہے، ہوٹل میں کمرہ خوش نصیبی سے ملتا ہے، آپ یہاں سے لیڈی فنگر اور راکا پوشی کے سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں، وہ چٹان بھی ایگل نیسٹ ہوٹل کے ساتھ ہے جہاں سے11 چوٹیاں نظر آتی ہیں، یہ تمام چوٹیاں 6 ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں،یہ دنیا میں اس نوعیت کا واحد مقام ہے، آپ دس منٹ کی کوشش کے بعد دنیا کی اس چھت پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آپ دائرے میں گھوم کر گیارہ برفیلی چوٹیاں دیکھ سکتے ہیں، یہ مقام طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت سیاحوں کی ’’عبادت گاہ‘‘ بن جاتا ہے، لوگ صبح کے وقت یہاں سے سورج کو گیارہ چوٹیوں پر دستک دیتے دیکھتے ہیں۔

    آنکھوں کے سامنے برف پوش چوٹیاں اندھیرے کا نقاب الٹ کر سامنے آتی ہیں، پھر ان کے رخساروں پر سورج کا سنہرا پن اترتا ہے، پھر یہ سنہرا پن چمکنے لگتا ہے اور پھر پوری وادی میں نیا دن طلوع ہو جاتا ہے، یہ جگہ غروب آفتاب کے وقت ایک بار پھر مقدس ہو جاتی ہے، آپ اگر یہاں کھڑے ہوں تو سورج آپ کی نظروں کے سامنے اپنی کرنیں سمیٹے گا اور سونے کے لیے راکا پوشی کے برفیلے غاروں میں گم ہو جائے گا، صبح اور شام ایگل نیسٹ کے دو خوبصورت انمول وقت ہیں، یہ لائف ٹائم تجربہ ہیں اور میں دو دن یہ لائف ٹائم تجربہ کرتا رہا یہاں تک کہ میں کل سوموار کی صبح گلگت آنے سے پہلے بھی بالکونی میں بیٹھ کر راکا پوشی پر صبح صادق کو اترتے دیکھتا رہا، وادی میں اس وقت روحوں کے قہقہے اور فرشتوں کے پروں کی آوازیں آ رہی تھیں اور زندگی وقت کی تال پر رقص کر رہی تھی۔

    وہ ایک انمول لمحہ تھا۔