Tag: مذہب

  • غیرت کے نام پر قتل شیطانی فعل کیوں؟ اکرام اللہ اعظم

    غیرت کے نام پر قتل شیطانی فعل کیوں؟ اکرام اللہ اعظم

    انسان کا قتل کسی بھی معاشرے میں قابلِ قبول عمل نہیں ہے، اس کے باوجود ہر معاشرے میں اس کا وجود ثابت ہے۔ دنیا کے تمام قوانین قتل کو سب سے بڑا جرم مانتے ہیں اور اس کی سزا بھی سب سے سخت تجویز کرتے ہیں۔ ہابیل اور قابیل سے چلنے والا یہ سلسلہ نہ صرف ہنوز جاری ہے بلکہ آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ قتل کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے غیرت ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مسئلے کے تدارک کے لیے اس کی وجہ تلاش کرکے اس کو ختم کرنا چاہیے۔ اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کی وجہ جانے بغیر اس پر بات کرنا ہوا کو وٹے مارنے کے مترادف ہوگا۔

    قتل کی یہ قسم آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی بڑھ رہی ہے لہذا اس کے بڑھنے کی دیگر نسبتوں کو بھی دیکھنا ہوگا ۔

    ا۔ رابطے کی آسانی :
    ماضی قریب تک رابطے کے وافر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب نہ تھے۔ جتنی باتیں ایک صفحے کے خط میں لکھی جا سکتی تھی، اب اس سے کہیں زیادہ ایک برقی مراسلے میں کی جا سکتی ہیں۔ خط کے ساتھ جڑی مشکلات کو بھی جدید ذرائع نے ختم کر دیا۔ خط پہنچانا اور اس کا پکڑا جانا ایک بڑا مسئلہ ہوتا تھا اور پھر اسے چھپا چھپا کر رکھنا اور پڑھنا، سوشل میڈیا اور چیٹنگ کی سہولت نے وہ خوف ختم کر دیا ہے. پرانا ٹیلیفون جس کے بل پر رابطے کے سارے نمبر چھپ کر آ جاتے تھے جو یقیناََ مخرب اخلاق رابطوں کی نگرانی میں معاون ہوتے تھے، وہ بھی موبائل فون کی بدولت معدوم ہو گئے۔ ان تمام تر آسانیوں نے جہاں جائز رابطوں میں انقلاب برپا کیا وہیں ناجائز رابطوں اور تعلقات کی راہ بھی آسان تر کردی۔ یہ معاشرتی بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    ب۔ میڈیا :
    ریڈیو، اخبار اور ٹیلیویژن خبر کے بہترین ذرائع ہوا کرتے تھے۔ ہلکی پھلکی تفریح جس سے گھر کے سب افراد ایک ساتھ بیٹھ کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے، ریڈیو اور ٹیلیویژن کی خوبصورتی ہوا کرتی تھی۔ پھر سیٹیلائٹ چینلز کی بھرمار اور بےہودگی کا سیلاب آ گیا۔ عشق، محبت، افیئرز اور بے حیائی کو جس طرح سکرین پر دکھایا گیا گیا، اس نے سب سے پہلے تو ایک مرکزی ٹی وی سکرین کو تقسیم کرکے اس کا ایک ایک ٹکڑا ہر کمرے میں پہنچا دیا اور دوسرا تنہائی کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے کچے ذہنوں میں جو شیطانی فصل بوئی، اس کے لہلہاتے کھیت آج ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پر انٹرنیٹ اور سمارٹ فون نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

    ج۔ قانون :
    عالمی قوانین میں جس پیمانے پر بے حیائی کی پذیرائی کی گئی اس کی مثال ماضی میں ملنا ناممکن ہے۔ ناجائز اختلاط کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی جیسے مکروہات کو بھی قانونی چھتری فراہم کر دی گئی۔ ایسے گند کے کئی چھینٹے ہمارے ہاں بھی پڑے اور مساوات، انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے نام پر بےحیائی کی کئی شکلوں کو قانونی حیثیت مل گئی۔ معاشرتی ابتری میں ان آسانیوں نے ایک اہم اور خطرناک کردار ادا کیا۔

    د۔ تربیت کی کمی:
    والدین کے لیے بچوں کی تربیت پہلے ہی ایک مشکل کام ہوا کرتا تھا جسے موجودہ افرا تفری اور شیطانی ہتھکنڈوں کی بھرمار نے تقریباََ ناممکن کر دیا ہے۔ اب معاشرے میں اپنا مقام قائم رکھنے کے لیے والدین کو زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا پڑتا ہے اور اسی طرح تعلیم کے نام پر بھی بچوں کو زیادہ تر گھر سے دور رہنا پڑتا ہے جس کے اچھے ثمرات کے ساتھ ساتھ مضر اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

    ح۔ مذہب سے دوری:
    جس طرح آج کے معاشرے میں مذہب کو حرف غلط باور کرایا جا رہا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ مذہب اور اس کے شعائر کو مذاق بنا کر نوجوان نسل کو مذہب سے دور کیا جا رہا ہے۔ جس کے دیگر بد اثرات کے ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری، پاکیزگی، شرافت اور حیا بھی سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔

    و۔ شادی میں مشکلات:
    اگرچہ مقامی رسم و رواج پہلے بھی شادی میں تاخیر کا سبب بنا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سختی میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی نے جہیز، گھر، گاڑی اور سٹیٹس کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو شادی جیسے مبارک رشتے سے کافی دور جا کھڑا کیا ہے۔ اور اسی بعد کا فائدہ اٹھا کر شیطان نے اوپر بیان کیے گئے تمام ذرائع بروئے کار لاکر زنا کا راستہ آسان بنا دیا ہے۔

    ز۔ معاشرتی منافقت:
    ان تمام حالات نے جہاں ہماری بہت سی دیگر اخلاقی اقدار کا قتل کیا وہیں ہمیں مجموعی طور پر منافق بنا دیا۔ ہم نے مغرب کی ان “سہولیات” کا خیرمقدم تو کھلی بانہوں سے کیا لیکن اس کے ذیلی اثرات کو کھلے دل سے قبول کرنے کے بجائے اپنی نام نہاد “غیرت” کا ہوا کھڑے کیے رکھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی جمے ہوئے مکھن کا برتن آگ پر رکھ کر یہ امید رکھے کہ مکھن پگھلے گا نہیں۔ اس سوچ کو بدترین منافقت کہا جا سکتا ہے۔ آج جس طرح مغربی معاشرہ بےراہ روی کا شکار ہے وہ تمام حالات اگر ہم نے قبول کر لیے ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنی “غیرت ” کو بھی اسی مغربی نہج پر لے آئیں جہاں والدین کی ذمہ داری صرف اولاد کو پال پوس کر تعلیم دلوانا اور ان کے بالغ ہوتے ہی ان کی مادر پدر آزادی قبول کرنا ہے، اب وہ جو مرضی گل کھلاتے پھریں، والدین انھیں روکنے ٹوکنے کے روادار نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے بےراہ روی کی فصل بو کر، اسے بے حیائی سے سینچا لیکن کاٹتے ہوئے یہ امید رکھی کہ مشرقی اقدار اور اخلاق کا زریں پھل گھر آئے گا۔

    اس نقطے پر جاگی ہوئی بےکار غیرت ہمیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے، اور قتل جیسے قبیح گناہ کا ارتکاب کرواتی ہے۔ لہذا بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایسی صورتحال میں غیرت کے نام پر قتل بھی ایک شیطانی فعل ہے جس سے سوائے شیطان کی خوشنودی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جو اس کی مذمت کرتے ہیں اگر وہ اپنے اس اقدام میں مخلص ہیں تو انھیں چاہیے کہ ان تمام پہلوؤں کی اصلاح پر بھی میدان میں آئیں۔ ورنہ یہ بھی ایک عظیم منافقت ہی ہو گی کہ جڑوں کی بجائے پھل کو کوسا جائے۔

  • اسلام، ایک مذہب مخالف تحریک – ادریس آزاد

    اسلام، ایک مذہب مخالف تحریک – ادریس آزاد

    ادریس آزاد رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک بنیادی طور پر ’’مذہب مخالف‘‘ تحریک تھی۔ ابراھیم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک تمام نہیں تو زیادہ تر انبیاء علیہم السلام کی جنگ اپنے وقت کے فراعین و نمارید کے ساتھ رہی یعنی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف۔ لیکن اسلام اپنے وقت کی مذہبی پیشوائیت کے خلاف آیا اور کلمہ اسلام کا آغاز تمام خداؤں کے انکار سے کیا گیا۔
    یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف ہمیشہ تین بڑی قوتیں برسرپیکار رہی ہیں۔
    ۱۔ جاگیردار
    ۲۔ سرمایہ دار
    ۳۔ مذہبی پیشوأ

    قران نے اپنے انداز میں ان قوتوں کو سمبولائز کیا ہے۔ جاگیرداری کی علامت فرعون، سرمایہ داری کی علامت قارون اور مذہبی پیشوائیت کی علامت ہامان کو قرار دیا ہے۔ اقبال کے مطابق یہ ایک مثلث ہے، جو صرف انبیاء کے زمانہ میں ہی قائم نہ تھی بلکہ ہمیشہ قائم رہی اور اب تک موجود ہے۔ خلافت راشدہ کے بعد کے مسلمان خلفاء کے دور میں یہ مثلث بہت مضبوطی کے ساتھ اسلامی اقدار کا چہرہ مسخ کرنے میں مصروف رہی اور قرون ِ وسطیٰ کی مسلم مذہبی پیشوائیت نے سابقہ تمام ادوار کے ریکارڈز توڑ دیے۔ بات یہ ہے کہ جب تک جاگیردار کو سرمایہ دار کا تعاون حاصل نہ ہو وہ عامۃ الناس کا خون نہیں پی سکتا لیکن یہ دونوں عوام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر انہیں مذہبی پیشوائیت کی تائید حاصل نہ ہو۔ فرعون جاگیردار تھا۔ قارون سرمایہ دار تھا اور ہامان مذہبی پیشوأ تھا۔ یہ ہامان ہی تھا جو لوگوں سے کہتا تھا کہ فرعون تمھارا خدا ہے۔ اگر اتنے بڑے مذہبی پیشوا کی تائید نہ ہوتی تو فرعون کبھی بھی خدائی کا دعویٰ نہ کرسکتا تھا۔

    سردارن ِ قریش (استعارۃً) فرعون اور نمرود کی اولاد نہیں تھے، بلکہ ہامان کی اولاد تھے۔ مکہ حجاز کا سب سے بڑا ’’مذہبی مرکز‘‘ تھا نہ کہ ممفس (مصر) یا بابل کی طرح کسی بڑی سلطنت کا دارالحکومت۔ مکہ سرمائے اور جاگیر کا نمائندہ ہرگز نہیں تھا بلکہ مذہبی پیشوائیت کا نمائندہ تھا۔ چنانچہ رسول اطھر صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک بنیادی طور پر مذہبیت کے خاتمے کی تحریک تھی۔ آپ نے اپنی پہلی دعوت میں ہی یہی فرمایا تھا کہ ’’قولوا لاالہ الا اللہ تفلحوا‘‘۔ کہہ دو کہ کوئی الہ نہیں سوائے اللہ کے، تم کامیاب ہوجاؤگے۔ ’’لا‘‘ کی شمشیر سے بھانت بھانت کے خداؤں کا سرقلم کرنے والی تحریک بعد میں خود ایک مذہب کیسے بن گئی، اس کی داستان الگ ہے۔ لیکن اس میں چنداں شک نہیں کہ اسلام کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک تحریک تھا جو مذہب کے خلاف اُٹھی تھی اور جسے قران نے ’’دین‘‘ کہہ کر پکارا۔ لیکن بدقسمتی سے ملوکیت کے دور میں دین اسلام نے بھی ایک مذہب کی شکل اختیار کرلی کیونکہ بلاتائید مذہب سلاطین و ملوک کےلیے اپنی حکومتیں قائم رکھنا ممکن نہیں تھا۔ خلفائے راشدین کے بعد اسلام میں بھی ملوکیت کا آغاز ہوگیا اور سلاطین نے مذہبی پیشوائیت سے باقاعدہ اسناد حاصل کرکے عامۃ الناس کا لہُو پینا شروع کردیا۔ مسجدوں میں سلطان کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا اور اسرائیلیات کے زیراثر ایسی ایسی احادیث کا ذخیرہ تیار کرلیا گیا تھا جن کے بارے میں یہ تصور بھی قرین ِ قیاس نہیں کہ رسول اطھر صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ فرمایا ہوگا۔ مثال کے طور پر قرون وسطیٰ کے مذہبی پیشوأ جمعہ کے خطبوں میں یہ حدیث پڑھا کرتے تھے،
    انّ السلطانَ ظل اللہ فی الارض
    سلطان زمین پر اللہ کا سایہ ہے
    یا
    من اہان السلطان فقد اہانہُ اللہ
    جس نے سلطان کی توہین کی اُس نے اللہ کی توہین کی۔
    سوال یہ ہے کہ رسول اطھر صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو کوئی سلطان موجود نہیں تھا۔ پھر رسول اطھر صلی اللہ علیہ وسلم نے سلطان کو اللہ کا سایہ کیونکر کہا ہوگا؟ یا سلطان کی توہین کو اللہ کی توہین کیوں قرار دیا ہوگا؟ یقیناً یہ روایات مستند کتب ِ احادیث میں ہونے کے باوجود ضعیف ہیں۔

    غرض جیسے ابراھیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام یا باقی انبیاء کی تحریکیں سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف اُٹھی تھیں ویسے ہی اسلام مذہبیت اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف اُٹھا تھا۔ ریاست مدینہ اپنی کنہ اور ماہیت میں ایک سیکولر سٹیٹ تھی جو ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کو گرانے کا حکم جاری کرتی تھی۔مسجد نبوی، کسی مذہبی مرکز سے زیادہ ایک کمیونٹی سینٹر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔ ریاست مدینہ میں دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کا ماحول تھا۔ اسلام اگر مذہب ہوتا تو قبلہ کبھی ایک جگہ سے دوسری جگہ اور پھر واپس پہلی جگہ منتقل نہ ہوتا۔ قبلہ کی تبدیلی سے متعلق آیات کا سیاق و سباق دیکھیں تو واضح ہوجاتاہے کہ بیت المقدس سے واپس مسجد حرام کو قبلہ بناتے وقت قران نے اس بات کا باقاعدہ اظہار کیا کہ یہود سے قبول اسلام کی توقع عبث ہے۔
    فرض کریں اگر یہود اسلام قبول کرلیتے تو کیا ہمارا قبلہ مسجد حرام ہوتی؟ یقیناً ایسی صورت میں وہ آیات بھی نازل نہ ہوئی ہوتیں جن میں قبلہ دوبارہ تبدیل کردینے کا حکم صادر ہوا۔ غرض یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام کسی مادی مقام کو پوجنے کا درس دینے والا ’’مذہب ِ محض‘‘ ہرگز نہیں تھا۔ مکہ کے تمام سردار کس بنا پر سردار تھے؟ محض اس بنا پر کہ وہ خانہ کعبہ کی توسط سے ہی اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔ ابولہب کون تھا؟ اور کیوں وہ اسلام کا اس قدر مخالف تھا؟ محض اس لیے کہ اسلام خانہ کعبہ کے ساتھ جڑی ہوئی تمام مذہبیت کا قلع قمع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور یہی بات ابولہب کے لیے ناقابل برداشت تھی۔
    ایک بات بہت اہم ہے۔ ہم جو کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں وہ خداؤں کے انکار سے شروع ہوتاہے۔ یوں کہنا بالکل بے جا نہ ہوگا کہ اسلام اپنے وقت کے خداؤں کا انکار کرنے کے لیے دنیا میں آیا اور اس نے الاللہ سے پہلے ’’لا‘‘ کی تلوار چلا کر تمام تر مذہبیت اور توھمات کو انسانیت کے رگ و پے سے نکال دینے کی تدبیر کی۔

  • دہریت کا آخری دور – ادریس آزاد

    دہریت کا آخری دور – ادریس آزاد

    12983425_10206383337009150_3234894972904837408_o رچرڈ ڈاکنز کی ایک ویڈیو پچھلے دنوں مشہورہوئی جس میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی ہوگی؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’’ایک سیل سے‘‘۔ اُن سے مکرر پوچھا گیا کہ وہ سیل کہاں سے آیا ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’’ممکن ہے کسی اور نظام ِ شمسی کے کسی اور سیارے پر زندگی کی ترقی ہماری ترقی سے لاکھوں سال پہلے ہوئی ہو اور وہ ارتقا میں ہم سے لاکھوں سال آگے ہوں۔ ممکن ہے انہوں نے زندگی کی ایک ایسی شکل ڈیزائن کی ہو جیسی ہمارے سیارے پر ہے اور انہوں نے ہی ہمارے سیارے پر سیڈنگ یعنی زندگی کا بیج بویا ہو‘‘

    رچرڈ ڈاکنز کو جدید ’’ماڈرن ویسٹرن کیپٹالسٹ ایتھزم‘‘ کا بابا آدم مانا جاتا ہے۔ خدا کا انکار اُن کی زندگی کا سب سے بڑا مِشن رہا ہے، لیکن مذکور ہ بالا انٹرویو میںhqdefault انہوں نے علی الاعلان تسلیم کیا ہے کہ ممکن ہے ہمارے سیارۂ زمین پر موجود زندگی کسی ذہین مخلوق کے ذہن کی تخلیق ہو۔ اتنا تسلیم کرلیا تو گویا کمتر درجے کا سہی لیکن ہمارے لیے ایک ذہین خالق یعنی ڈیزائنر تسلیم کرلیا۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتاہے، ’’کم ازکم‘‘۔ سو کم ازکم رچرڈ ڈاکنز یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زمین پر موجود زندگی کا سارا پروگرام کسی ذہین خالق کا بنایا ہوا ہو سکتا ہے، یعنی آرگومنٹ آف ڈیزائن کو کلیۃً رد نہیں کیا جاسکتا۔

    آرگومنٹ آف ڈیزائن فلسفے کی ایک مشہور دلیل ہے۔ iqbalallamaعلامہ اقبال نے اپنے خطبات ’’تشکیلِ جدید ‘‘ کے باب دوم کا آغاز ہی اُن تین مشہور آرگومنٹس سے کیا ہے جو وجودِ خدا کے حق میں فلسفیوں نے آج تک دیے۔ انہیں عربی میں ادلّۂ ثلاثہ بھی کہتےہیں،

    ۱۔ دلیل کونی (Cosmological Argument)

    ۲۔ دلیل غائی (Teleological Argument)

    ۳۔ دلیل وجودی (Ontological Argument)

    ان میں دلیلِ غائی کو ’’آرگومنٹ آف ڈیزائن‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس دلیل کے مطابق اس کائنات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی ذہین مخلوق کی ایجاد ہے۔ ہرشے میں غایت پائی جاتی ہے۔ مثلاً جانور میٹھا پھل زیادہ شوق سے کھاتے ہیں تو میٹھے پھل کی گھٹلیاں بھی دوسرے درختوں کے مقابلے میں زیادہ زمین پر گرتی ہیں۔ درخت کو کس نے بتایا کہ وہ اپنے پھل کو میٹھا اور خوش ذائقہ بنا دے تو اس کی نسل ہمیشہ باقی رہ سکتی ہے؟ ثابت ہوا کہ کسی نے پہلے سے ڈیزائن کر رکھاہے۔ یہ ہے دلیل غائی یا ٹیلیو لاجیکل آرگومنٹ۔ رچرڈ ڈاکنز جو ’’ڈاکنسٹ تحریک‘‘ یعنی ’’ڈاکنزم‘‘ کے بانی ہیں ۔ اُن کی مشہور کتابوں کے نام ہی بنیادی طور پر آرگومنٹ آف ڈیزائن کی نفی کرتے ہیں۔ مثلاً ’’دی سیلفیش جین‘‘ (The selfish gene) یا ’’بلائینڈ واچ میکر‘‘ یعنی ’’اندھا گھڑی ساز‘‘ وغیرہ ڈاکنز کے ابتدائی دور کی مشہور ترین کتابیں ہیں۔ شروع شروع کے مباحث اور مناظروں میں ڈاکنز آرگومنٹ آف ڈیزائن کی شدید مخالفت کرتاتھا لیکن اکیسویں صدی میں فلکیات کی کوانٹم کی بے پناہ تھیوریز کے بعد اب ڈاکنز نے کچھ عرصہ سے یہ تسلیم کرنا شروع کردیا ہے کہ ’’ڈیزائن تو ہو سکتا ہے لیکن وہ ڈیزائن خدا نے نہیں بنایا۔ کسی اور سیّارے پر کوئی ہم سے زیادہ ذہین مخلوق ہو سکتی ہے اور وہ چاہے تو ایسا ڈیزائن بنا سکتی ہے‘‘۔

    ڈاکنز کے شاگرد اور جانشین اور سخت لہجے کے سپیکر ’’لارنس کراؤس‘‘ Lawrence-Krauss-Filthy-Communist-Jewسے سوال کیا گیا کہ ’’کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم سب کسی اور کا لکھا ہوا پروگرام ہوں اور کسی کمپیوٹر کی ڈسک میں چل رہے ہوں؟‘‘ تو انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا، ’’ممکن ہے، ضرور ممکن ہے، لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ جس نے وہ پراگرام لکھا وہ ’خدا‘ ہی ہے؟‘‘

    غرض آج کے عہد کا دہریہ (ایتھسٹ) یہ تسلیم کرتا ہے کہ ہمارا ڈیزائنر کوئی اور ہو سکتا ہے اور یہ عین سائنسی بات ہے۔ اب پیچھے رہ جاتاہے ، وہ خدا جسے کسی نے نہیں بنایا۔ جو خود سے ہے، جو ازل سے ہے اور جو ہمیشہ رہے گا، جو حی و قیوم ہے اور جو سب سے بڑی عقل کا مالک ہے۔ سو اُس خدا کے وجود سے ہنوز رچرڈ ڈاکنز کو انکار ہے۔ مجھے یونہی خیال آ رہا تھا کہ ٹیکنکلی رچرڈ ڈاکنز کے خیال اور مذہب کے خیال میں چنداں فرق نہیں۔

    رچرڈ ڈاکنز اس کائنات کے بارے میں یہ مانتے ہیں کہ اسے کسی نے نہیں بنایا، یہ خود سے ہے، اور اسی کائنات نے سیارے پیدا کیے اور ان میں زندگی اور ذہانت پیدا کی۔ سٹرنگ تھیوری کے بعد رچرڈ ڈاکنز اس امکان کو بھی رد نہیں کرسکتے کہ کائنات (عالمین) ایک نہیں کئی ہیں۔ نظریہ اضافیت کے بعد رچرڈ ڈاکنز اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ کسی شخص کا ایک منٹ کسی اور شخص کے کئی سالوں کے برابر بھی ہوسکتاہے۔ ڈاکنز خود مائیکروبیالوجسٹ ہیں۔ وہ ڈی این اے کے انٹیلیجنٹ لینگوئج ہونے، اس میں تبدیلیوں کے امکان، میوٹیشن کے مافوق العقل وجود اور نئی نئی مخلوقات کی پیدائش سے کب انکار کر سکتے ہیں؟ انسان کبھی مکمل طور پر نان وائلنٹ مخلوق بن کر کسی خوشنما باغ میں ایسے رہ رہا ہو کہ اُسے ہزاروں سال موت نہ آئے، اس امکان سے بھی ایک مائیکروبیالوجسٹ عہد حاضر میں انکار نہیں کرسکتا۔

    اس سب پر مستزاد یہ ایک خاصی مشہور تھیوری بھی ہے کہ یہ کائنات سانس لیتاہوا ایک ذہین فطین جاندار ہے جو فورتھ ڈائمینشنل ہے۔ علاوہ بریں ’’پین سپرمیا‘‘ بھی ایک تھیوری ہے کہ کائنات حیات سے چھلک رہی ہے اور خلا میں اڑتے ہوئے پتھروں میں بھی ڈی این اے یا ابتدائی حیات کے امکانات مضمر ہیں۔

    پھر سوچتاہوں کہ ڈاکنز کا اصل مسئلہ خدا نہیں ہے۔ نہ ہی مذہب ہے اور نہ ہی مذہبی ہونا ہے۔ ڈاکنز اور اس کے ماننے والوں کا اصل مسئلہ وہ ’’سیٹ آف رُولز‘‘ ہے جسے نظامِ حیات کہتے ہیں۔ مذہب بھی ایک سیٹ آف رُولز پیش کرتاہے جسے کمانڈمنٹس کہا جاتاہے۔ ڈاکنز اور اس کے ماننے والوں کو اُس سیٹ آف رُولز کے ساتھ اختلاف ہے۔ مزید باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ اختلاف بنیادی طور پر نظریۂ علم کا اختلاف ہے یعنی ایپسٹمالوجی کا۔ مذہب کے نزدیک ’’وحی‘‘ ایک برتر سورس آف نالج یعنی ایک ایسا ذریعۂ علم ہے جو ہمارے کمتر شعور کے لیے ہمیشہ رہنما کا کام دے سکتاہے۔ دہریت کو یہ خیال مکمل طور پر نان اکیڈمک لگتاہے۔ یہ بات بھی غلط نہیں کہ یہ سارا خیال حسّی علوم کی ترقی کے بعد اکیڈمک محسوس ہونے لگا ہے۔ یہی کوئی سترھویں صدی عیسویں سے لے کر اب تک۔ اس سے قبل چونکہ حسّی علوم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا تو دنیا کا ٹوٹل وژن ہی مختلف تھا۔اگر ڈاکنسٹس اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ ہم کسی اور زیادہ ذہین ہستی کا بنایا ہوا ڈیزائن ہوسکتے ہیں تو وہ اس امکان کو کیوں رد کردیتے ہیں کہ ہم تک پہنچنے والی رہنمائی یعنی وحی بھی اُس برتر شعور کی جانب سے بھیجی ہوئی ہدایت ہو سکتی ہے؟

    غرض یہ مذہب نہیں جس کے پاس بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا، بلکہ یہ دہریت ہے جس کے پاس بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا، کیونکہ اب اس تھیوریز کے رَش کے دور میں کہ جب ’’لازproof-god-exists1 آف سائنس‘‘ کی پیدائش کا زمانہ گزر چکا ہے اور ’’تھیوریزآف سائنس‘‘ کی شدت کا زمانہ چل رہا ہے، کون انکار کرسکتاہے کہ حسی سائنس چند دہائیاں بھی مزید اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکتی ہے۔ سائنس پر عقلیت (ریشنلزم) پوری طرح غلبہ پانے کے قریب ہے اور وہ دن دُور نہیں جب حسیّت (امپرسزم) کے مقابلے میں دوبارہ عقلیت دنیا پر راج کرنے لگےگی. آپ غور کریں تو آپ کو فوراً یاد آئے گا کہ ’’ہاں بالکل! گزشتہ کئی دہائیوں سے سائنس نے کوئی ’لا‘ (قانون) پیش نہیں کیا۔ جب بھی پیش کی تھیوری پیش کی‘‘۔ اب اس بات سے حتمی طور پر کیا نتیجہ نکلتاہے؟ دیکھیے! سائنس میں ’’لا‘‘ آنے کا مطلب ہوتا ہے کہ ’’تجربی سائنس‘‘ کا عمل جاری ہے اور بار بار کے تجربہ سے فزیکل قوانین اخذ کیے جارہے ہیں، لیکن تھیوریز کی بہتات کا مطلب ہے کہ ’’عقلی سائنس‘‘ کا عمل جاری ہے، جسے فلسفے کی زبان میں’’ ریشنل ایکٹیویٹی‘‘ کہتے ہیں۔ اب جو لوگ جانتے ہیں، وہ بخوبی اس فرق سے واقف ہیں جو ریشنل(عقلی) اور حسّی( تجربی) میں علمیات کی رُو سے پایا جاتاہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔

    جب تک دنیا پر ریشنلزم کا غلبہ رہا دنیا مابعدالطبیعات (میٹافزکس) کی دیوانی رہی۔ ریشنلزم سے نفرت کا آغاز بھی تو مابعدالبطیعات میں بڑے پیمانے پر شروع ہوجانے والی لایعنی بحثوں سے ہوا تھا۔ امام غزالی نے تہافہ الفلاسفہ اِسی غصے میں لکھی تھی کہ فلسفی سب کچھ ’’عقل‘‘ کو ہی ماننے لگ گئے تھے۔ کانٹ نے ’’تنقید عقل محض‘‘ فقط اِسی لیے لکھی تھی کہ مغربی فلاسفہ عقل سے استخراج (deduction) کرتے، خدا کے وجود پر دلائل دیتے اور بحثیں کرتے اور میٹافزکس کے زور پر ساری مسیحت اور اُس کے سارے عقائد کے بھنڈر کھول کر بیٹھ جاتے۔ تب کانٹ نے تنگ آکر ’’عقل‘‘ کے وہ لَتے لیے کہ آج تک دنیا کانٹ کے عقل پر کیے گئے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتی۔ پھر کانٹ نے حسی علوم اور عقلی علوم کا ایک امتزاج، ’’سنتھیٹک اے پری آری‘‘ پیش کیا جسے اکیڈمک سطح پر عالمگیر پذیرائی ملی اور یوں دنیا بدلی اور یوں دنیا سائنسی ہوئی۔

    آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سائنس کے نئے قوانین نہیں آرہے بلکہ مسلسل سائنسی تھیوریاں آرہی ہیں۔ سائنسی تھیوری پیش کرنا ایک خالص عقلی سرگرمی ہے، نہ کہ تجربی۔ ایک سائنسدان اپنے ٹیبل پر بیٹھ کر ریاضی کی مساواتوں کو ایک دوسرے سے اخذ کرتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک تھیوری بنتی ہے۔سو یہ زمانہ یعنی اکیسویں صدی کا دور، یعنی ہمارا دور اب پھر سے عقلیت کا دور ہے نہ کہ تجربیت کا۔ یہ ہے بنیادی آرگومنٹ، جو اس مضمون میں، میرے پیش نظر ہے۔

    تب پھر سےایک بار دنیا بدل جائے گی۔ دہریت کا نام و نشان تک نظر نہ آئے گا۔ اور وحی کی مابعدالطبیعات کو ایک بار پھر ریاضیاتی عقیدت کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ تب وحی کس شے کو سمجھا جائے گا، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ممکن ہے بولتی ہوئی فطرت کو ہی کُل وحی سممجھ کر ایک دہریت زدہ نیا مذہب سامنے آجائے۔

    اگر سوچیں تو برکلے، ہیگل، کانٹ جیسے لوگ آئن سٹائن سے کم دماغ نہ تھے۔ خود آئن سٹائن کے ہی دور میں نیلز بوھر جیسے سائنسدانوں کا اعتقاد حسّیت سے اُٹھ چکا تھا۔ اقبال نے تشکیل کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’وہ دن دُور نہیں جب مذہب اور جدید سائنس میں ایسی ایسی مفاہمتیں دریافت ہونے لگیں گی کہ جو ہماری سوچ سے بھی ماروا ہیں، کیونکہ جدید فزکس نے اپنی ہی بنیادوں کی تدوین شروع کردی ہے‘‘(مفہوم)۔

  • اسلام اور انسانیت – قاضی حارث

    اسلام اور انسانیت – قاضی حارث

    13713507_10205280484611378_968149985_nمکہ میں ایک گانے والی ہوا کرتی تھی، جب تک لوگ اس کے گانے سنتے تھے تو بڑے عیش و آرام تھے، جب سننے والے نہ رہے تو فقر و فاقہ کی نوبت آگئی۔ یہ گانے والی مدینہ میں رحمۃ للعالمین ﷺ کے پاس آتی ہے۔ حضور ﷺ پوچھتے ہیں : تم تو گانا گاتی تھیں اب یہ فقر و فاقہ کیسے؟
    جواب آتا ہے: بدر میں سرداروں کے مارے جانے کے بعد اب کوئی نوازتا ہی نہیں۔
    حضور علیہ السلام اپنے رشتہ داروں کو حکم صادر فرماتے ہیں کہ اس کی مدد کرو۔ اور پھر حسب استطاعت اس کی مدد کردی جاتی ہے۔
    گانے والی، کافرہ، دشمنوں کی سرزمین سے آئی ہوئی تھی لیکن کوئی بات بھی حضور ﷺ کی سخاوت اور رحمت میں آڑے نہ آئی۔ رحمۃ للعالمین ﷺ تھے، صرف رحمۃ للمسلمین تھوڑی تھے۔
    فرمایا: ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کو قتل کیے جانے کے مترادف ہے۔
    سورہ مائدہ آیۃ 32
    جی ہاں وہاں بھی انسان (نفس) کا ذکر ہے مسلمان یا عیسائی وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ وہ رب العالمین ہے، صرف رب المسلمین تھوڑی ہے۔
    عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بوڑھے ذمی سے خراج وصول کرنے جاتے ہیں تو وہ رو کر بتاتا ہے کہ اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، خراج دینا تو دور کی بات! سیدنا عمر فاروق رو پڑتے ہیں اور اس کا خراج معاف کرکے بیت المال سے اس کا وظیفہ جاری کرتے ہیں۔ وہ بوڑھا مسلمان نہ تھا لیکن انسان تو تھا نا!
    جو لوگ اسلام اور انسانیت کو الگ الگ ذکر کرتے ہیں وہ نادان ہیں۔ اصل میں مذھبِ اسلام ہی انسانیت ہے۔ اگر دین اسلام اور اس کے نظام پر کما حقہ عمل کیا جائے تو یہی نظام انسانیت کی فلاح کا باعث ہے اور انسانیت کی بہبود کے لیے اس سے بہتر نظام کوئی اور نہیں۔
    مکہ والوں سے شدید تکلیفیں برداشت کرنے اور ہجرت پر مجبور کیے جانے کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر انسانیت کے ناتے سب کو عام معافی دے دینا۔ اس سے بڑا کوئی سبق انسانیت کا ہوگا؟ اسی رویے نے سب پر یہ بات آشکارا کی کہ اسلام ہی انسانیت کا اصل مسیحا ہے اور لوگ جوق در جوق مسلمان ہوئے۔
    ایک ایک انسان کے پاس صرف اس نیت سے جانا کہ وہ جنت میں چلا جائے اور دوزخ کی تکلیفوں سے بچ جائے۔ یہ بھی انسان دوستی ہی کی مثال ہے۔
    اسلام اور انسانیت دو الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔