Tag: چین

  • پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر-ہارون الرشید

    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا۔ طالب علم کو رتی برابر شبہ نہیں مگر وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا : ؎

    توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھنا اپنا
    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

    جیسا کہ سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا : ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار۔

    اتوار کی شب کراچی پہنچا اور اب بدھ کی دوپہر تک کئی باخبر لوگوں سے ملاقات ہو چکی۔ کچھ ان کے سوا بھی جو اندازوں اور افواہوں پہ بسر کرتے ہیں۔ ایک رائو انوار باقی ہیں۔ اُمید ہے کہ کچھ دیر میں ان کے نیاز حاصل ہونگے اور ایک حد تک تصویر مکمل ہو جائے گی۔
    بیس برس ہوتے ہیں‘ لاہور کے قوّت متخیلہ سے مالا مال ایک اخبار نویس دہلی پہنچے۔ کلدیپ نیئر سے ملاقات ہوئی تو فصاحت کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔ کچھ دیر ہنستے رہے۔ پھر پوچھا : کب سے آپ اس شہر پہ عنایت فرما رہے ہیں۔ ”سات دن سے‘‘ انہوں نے کہا۔ بزرگ اخبار نویس نے حیرت سے انہیں دیکھا اور بڑ بڑائے‘ نصف صدی سے دارالحکومت میں مقیم ہوں‘ مگر اس اعتماد سے گفتگو نہیں کر سکتا۔

    جو جانتے ہیں‘ وہ محتاط ہیں؛ چنانچہ فتویٰ صادر کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ جن کی کوئی ذمہ داری نہیں اور کسی کے سامنے وہ جوابدہ نہیں‘ وہ کچھ بھی ارشاد کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دوست نے کاروبار جن کی تگ و تاز کا مظہر ہے‘ کل شب سمندر کنارے کی ضیافت میں ہم سب کو مطلع کیا کہ کراچی میں رینجرز کا ہر چوتھا آدمی ذاتی کاروبار میں مصروف ہے۔ مزید برآں یہ کہ امسال پاکستانی فوج نے‘ شوال میں اربوں روپے کی چلغوزوں کی فصل کا نصف ہتھیا لیا۔ پہلی بات پر حتمی تبصرے سے مسافر نے گریز کیا۔ دوسری افواہ پر عرض کیا : اپنی ایک ماہ کی تنخواہ میں آپ کی نذر کروں گا‘ اگر آپ یہ الزام ثابت کر سکیں۔ اس پر تھوڑا سا وہ کسمسائے‘ حسب توفیق تھوڑا سا شرمائے اور یہ فرمایا : مارکیٹ میں اطلاع یہی ہے۔

    افواہوں اور مغالطوں کی اس گرم بازاری کے باوصف‘ خواص اور عامی‘ ملکی اور غیر ملکی‘ لیڈر اور اخبار نویس‘ این جی اوز کے بھڑبونجے‘ اپنی استعداد کے مطابق، مسلسل جس میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں، کچھ حقائق واضح ہیں اور کچھ سوالات پوری طرح نمایاں۔

    سب سے اہم یہ کہ 22 اگست سے پہلے کا کراچی اب کبھی بحال نہ ہو سکے گا۔ وہ دن جب الطاف حسین نے پاکستان کو دنیا کا کینسر کہا اور پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ دوسری جماعتوں سے یہ مختلف رہی ہے۔ ایم این اے، ایم پی اے، سیاسی کارکن اور عہدیدار، دوسری پارٹیوں میں بھی ہوتے ہیں۔ اس کا ایک لشکر ہے، تربیت یافتہ اور اشارے کا منتظر۔ خون بہانے کا عادی Trigger Happyسیکٹر انچارج، جن کے دفاتر تھے اور جو ایک مافیا کی تشکیل کا، اہم ترین حصہ تھے۔ صدر دفتر 90 سمیت، جس کا دوسرا نام بیگم خورشید ہال بھی ہے، یہ سب کے سب دفاتر اُجڑ چکے۔ فاروق ستار خواہ الٹے لٹک جائیں، ان کی بحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الیکشن وہ لڑ سکتے ہیں، ووٹ لے سکتے ہیں، تقریر فرما سکتے ہیں، صف بندی کرسکتے ہیں، مگر ہڑتال نہیں کرا سکتے۔ وہ کیا، کوئی اور بھی شہر کو خوف زدہ نہیں کرسکتا۔ بلیک میل نہیں کر سکتا۔

    غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر گرائے جا چکے، باقی برباد ہیں۔90 اب کبھی انہیں واپس نہ ملے گا۔ اس کا ایک بڑا حصہ سرکاری اراضی پر مشتمل ہے۔ جتنا جائز ہے، وہ الطاف حسین کے ایک بھائی کے نام ہے۔ پارٹی کا کوئی تعلق اس سے نہیں۔ کیا اسے گرا دیا جائے گا، یا کسی قومی ادارے کی شکل اختیار کرے گا۔ اس سوال پرسنجیدگی سے غوروفکر کا آغاز ابھی نہیں ہوا۔

    تربیت یافتہ قاتلوں میں سے ساڑھے چھ سو گرفتار ہیں، کچھ فرار ہو کر بیرون ملک چلے گئے یا ملک کے باقی حصوں میں۔ واپسی کے وہ آرزومند ہیں مگر واپس آ نہیں سکتے۔ پیر اور منگل کے دن واسع جلیل اور ندیم نصرت کی تقاریر سے آشکار ہے کہ وطن واپسی کی امید ختم ہو چکی۔ باقی زندگی وہ بھارت کا گیت گاتے رہیں گے۔ مہاجروں، بلوچوں اور پشتونوں کے لیے ”آزادی‘‘ کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ برطانوی حکومت سے کچھ زیادہ امید نہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکہ بہادراور بھارت کا وہ تزویراتی حلیف ہے اور کم از کم لندن کی ایم کیو ایم بھارت کے علاوہ‘ خود ان کا ایک اثاثہ۔چین کے ساتھ‘ پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی روابط‘ ارض پاک میں بیجنگ کی طرف سے‘ سینکڑوں ارب ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری کے امکان نے انکل سام کو ناراض کر دیا ہے‘ انگریز سرکار کو بھی‘ بھارت مشتعل ہے۔ اس کے لیڈر اعلان کر چکے کہ پاک چین تجارتی راہداری بنانے کی وہ اجازت نہ دیں گے۔

    بار بار جنرل راحیل شریف کا جملہ یاد آتا ہے‘ ایوان صدر اسلام آباد میں‘ صدر اشرف غنی کے اعزاز میں برپا تقریب میں‘ جو انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا۔ امریکہ کا وہ قصد رکھتے تھے۔ عرض کیا: افغانستان اور چین کے دورے تو کامیاب رہے‘ امید ہے ‘ اس کی بھی بھر پور تیاری آپ نے کی ہو گی۔ ایک ذرا سی تمہید کے بعد کسی توقف اور تامل کے بغیر کہا: اس خطے کی صورت حال یکسر بدل جائے گی۔

    چین کو امریکہ اب اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے۔ وہ امریکہ جو ستر برس سے ایک نیا عالمی نظام تشکیل دینے کے لیے سرگرم ہے اور جنرل ڈیگال کے بقول دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ پاکستان چین کا حلیف ہے ۔ دفاعی معاہدہ کوئی نہیں۔ مستقبل قریب میں ہو گا بھی نہیں لیکن پاکستان کی بقا اور استحکام‘ بیجنگ کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے امریکہ کے لیے اسرائیل کے۔ اسرائیل کے برعکس پاکستان ایک ناجائز ریاست نہیں۔ اس کے اندرونی معاملات میں چین کی کوئی مداخلت بھی نہیں۔ بھارتی عزائم اور دونوں کی مشترکہ ضروریات اب انہیں قریب تر لاتی جائیں گی۔ اڑی حادثے کے بعد‘ پاکستان کی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں‘ چین کو اس پر لازماً تشویش ہوگی۔ معلومات نہیں‘ تجزیے کی بنیاد پر میں عرض کرتا ہوں کہ تبادلہ خیال کاسلسلہ خاموشی سے جاری ہو گا۔ بعید نہیں کہ جلد ہی اعلیٰ سطح کا ایک چینی وفد پاکستان کا دورہ کرے۔

    امریکہ اور برطانیہ یہ پسند کریں گے کہ پاکستان کو بھارت کم از کم چھوٹا موٹا زخم لگانے میں کامیاب رہے۔ چین اسے ٹالنے کی کوشش کرے گا۔ نریندر مودی عوامی جذبات سے کھیلنے والے ایک اتھلے سیاستدان ہیں۔ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر پاکستان میں ان کے (کارندے) کمزور پڑ گئے۔ مہم جوئی اگر کی تو لازم نہیں کہ اسے محدود رکھ سکیں گے۔ پاکستان کو وہ نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر بھارت کا عالمی طاقت بننے کا خواب ہمیشہ کے لیے زمین بوس ہو جائے گا۔ یہ ہے پاکستان کا ایٹمی میزائل پروگرام اور یہ پاکستان کی فوج کھڑی ہے۔

    دہشت گردی کے خلاف تیرہ سالہ جنگ نے‘ جسے دنیا کی بہترین لڑاکا فوج بنا دیا ہے۔ وہ مستعد اور بیدار ہے۔ برطانیہ کے ایک ممتاز عسکری تھنک ٹینک کے بہت پہلے مرتب کئے گئے ایک مطالعے کے مطابق‘ خارجی خطرہ برپا ہوا تو پاکستانی قوم تیزی سے متحد ہو جائے گی۔ عمران خان کا احتجاج باقی نہ رہے گا۔ پرویز رشید‘ طلال چوہدری اور دانیال کی زبانیں بند کردی جائیں گی۔ منظر ہی دوسرا ہوگا۔
    ایک طرف پاکستان کا ایک ایک دشمن بے نقاب ہو رہا ہے۔ دوسری طرف لاحق خطرات کی شدت میں اضافہ ہے۔ ایک آدھ دن کی کسل مندی کے بعد بھارت کے مقابل‘ عسکری اور سیاسی قیادت ‘ایک ساتھ بروئے کار آئی ہے۔ اگلے چند دنوں میں زیادہ سرگرمی کا امکان ہے۔
    اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا۔ طالب علم کو رتی برابر شبہ نہیں مگر وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا: ؎

    توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھنا اپنا
    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

  • چین میں وسط خزاں کا تہوار – مولوی روکڑا

    چین میں وسط خزاں کا تہوار – مولوی روکڑا

    آج کے دن چائنیز وسط خزاں کا تہوار مانا رہے ہیں. چینی کیلنڈر کے آٹھویں مہینے کے 15th تاریخ کا پورا چاند چائنیز سال میں سب سے بڑا اور پورا چاند ہوتا ہے، اس دن کو چائنیز The Mid-Autumn Festival یا Mooncake Festival کے طور پر مناتے ہیں. 3500 سالہ پرانی روایت کے مطابق آج کے دن چاند کی عبادت، فصل کی کٹائی کا دن اور مون کیک کھائے جانے کا تہوار منانے کا دن ہے. اس تہوار کے جشن کا اہم حصہ رنگ برنگی کاغذ کی لالٹینوں کو روشن کرنا اور مون کیک کا قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تبادلہ کرنا ہوتا ہے.

    وسط خزاں کا تہوار چاؤ خاندان ( Zhou Dynasty) میں شروع ہوا تھا جو کہ تمام چائنیز Dynasty سے سب سے لمبی چائنیز Dynasty کہلاتی ہے، لیکن مون کیک کا تبالہ بعد میں Tang Dynasty کے وقت فیسٹیول کا حصہ بنا. اور Song Dynasty نے فصل کی کٹائی کو اس تہوار سے جوڑ دیا تھا.

    مون کیک کے بارے میں مشہور ہے کہ Yuan Dynasty کے وقت منگولوں کے خلاف چینی بغاوت کے دوران مون کیک کی ڈسٹربیوشن نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا. اس وقت کے باغی رہنما Zhu Yuanzhang نے منگولوں کے دارالحکومت میں منگولوں کی حکمرانی کے جشن کی آڑ میں ہزاروں مون کیک چینی باشندوں میں تقسیم کیے تھے، اور مون کیک کے اندر کاغذ کے ٹکڑے پر چینی باشندوں کے لیے ایک پیغام چھوڑا تھا کہ ”آٹھویں مہینے کے 15th تاریخ کو منگولوں کو مار ڈالو.“ یہ منصوبہ بندی کامیاب ہوئی اور منگولوں کو ہلاک کیا گیا اور شکست دی گئی. بعد میں Zhu Yuanzhang نے Ming Dynasty کی بنیاد رکھی. آج بھی چائنیز اس فیسٹیول کو مناتے ہیں، اور چاند کی پوجا کرتے ہیں. چین کے علاوہ یہ تہوار ویتنام اور فلپائن میں بھی منایا جاتا ہے.

  • افغاانستان، ایران اور بھارت کی مکروہ تکون – عمران زاہد

    افغاانستان، ایران اور بھارت کی مکروہ تکون – عمران زاہد

    عمران زاہد افغانستان، بھارت اور ایران کی بڑھتی ہوئی قربتیں ہمارے لیے انتہائی خوفناک منظرنامہ پیش کر رہی ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ ہمارے تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے، روزبروز تناؤ آتا جا رہا ہے۔ اشرف غنی، مودی اور روحانی تینوں اس اتحاد کو اسٹریجک شراکت داری سمجھتے ہیں۔ بھارت ایران میں چاہ بہار کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عسکری اور معاشی منصوبوں پر بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت اس اتحاد کو پاکستان کے تین اطراف سے گھیرنے کے منصوبے کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں معاشی نفوذ کے موقع کے طور پر بھی لے رہا ہے۔

    اس سارے منظر نامے میں ہم چین کے ساتھ پینگیں بڑھا کر ہر طرح کے خطرات سے نچنت ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہماری قیادت اس پیچیدہ بساط پر دشمنوں کے بیسیوں مہروں میں گھری صرف راہداری منصوبے کی توپ سے شہ مات کرنے کا سوچ رہی ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ جناب! معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں رہا۔
    ہماری حکومت نے برضا و رغبت ہمسائیوں کے باب میں خارجہ پالیسی کو عسکسری قیادت کو سونپ رکھا ہے۔ حکومت کی خارجہ معاملات میں عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ کوئی ڈھنگ کا وزیرِخارجہ تک تعینات نہیں کیا سکا۔ بہت سے خارجہ معاملات میں وزیرِ داخلہ کو بیان دینا پڑتا ہے۔ لیکن عسکری قیادت سے اس ضمن بہت زیادہ توقعات رکھنا بھی زیادتی ہوگی۔ عسکری ذہن کو حکم دینے یا حکم لینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ خارجہ امور کے داؤ پیچ سے عسکری ذہن کلیتاً نابلد ہوتا ہے۔ ماضی میں عسکری حوالوں سے جنرل ضیاءالحق شاید وہ شاذ مثال ہیں، جو خارجہ امور میں عدیم النظیر مہارت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔

    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے چار میں سے تین ہمسائے ہمارے خلاف محاذ بنا چکے ہیں اور ہمارا سارا انحصار چوتھے ہمسائے پر ہو چکا ہے۔ جو بجائے خود ایک خطرناک بات ہے۔ چین کی اپنی مجبوریاں اور مفادات ہیں۔ جہاں تک اس کے مفادات اجازت دیں گے وہ ہمارے ساتھ کھڑا رہے گا، لیکن اس سے زیادہ اس سے کوئی توقع رکھنا زیادتی ہوگی۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چین بتدریج بھارت سے بھی اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات کونئی جہتیں دے رہا ہے۔ بقول اکرم ذکی، پہلے ہند چین بھائی بھائی کا نعرہ مقبول ہوا تھا، اب ہند چین بائے بائے (Buy, Buy) کا نعرہ مقبول ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو ایک عظیم تر معاشی اکائی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں سالانہ باہمی تجارت 100 ارب ڈالر کا ہندسہ چھونے کو ہے، جبکہ ہمارے پاس لے دے کے بیالیس ارب ڈالر کا معاشی راہداری منصوبہ ہے، جس کی تکمیل میں کئی برس درکار ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سینکڑوں اربوں کا کاروبار اس راستے سے ہوگا۔

    چین کے بھارت کے ساتھ ہی نہیں، ایران کے ساتھ بھی گہرے معاشی تعلقات ہیں۔ 2015ء کے آخر میں چینی صدر نے ایران کے دورے کے دوران، اگلے دس سال میں باہمی تجارت کو 600 بلین ڈالر تک بڑھانے کے منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ علاوہ ازیں گوادر کے التوا کی صورت میں ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ چین کے لیے گوادر کا نعم البدل بن سکتا ہے۔
    :
    ان حالات میں پاکستان کو اپنے ہمسائیوں سے دوستانہ تعلقات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اور نہیں تو کم از کم اس مکروہ اتحاد کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے پاس تیل ہے، بھارت کے پاس سستی افرادی قوت ہے، ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم صرف ذہانت سے ہی اپنا رستہ بنا سکتے ہیں۔ سمارٹ موو ہی ہماری بقا اور کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے۔
    :
    افغانستان کا پاکستان سے محبت اور نفرت کا پیچیدہ رشتہ ہے۔ افغان جہاد کے دنوں میں خاد پاکستان میں دھماکے کرواتی تھی۔ اس کے بعد جب موقع آیا کہ ہم اپنی دوست حکومت قائم کروا لیں، ہم نے امریکی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مفلوج حکومت قائم کروائی، جس کا نتیجہ افغانستان میں خون خرابے اور باہمی مناقشوں کی صورت میں سامنے آیا۔ حتٰی کہ ہمیں ساری بساط الٹ کر نئی بساط بچھانی پڑی جس میں بادشاہ کا مہرہ طالبان کو بنایا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ہم نے اس بساط کو بھی الٹ دیا اور نئی بساط بچھائی جس میں بادشاہ کا عہدہ اپنے مخالفین کو بخشا۔ شاید ہمارے کارپرداز یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح سے مخالفتیں ختم ہو جائیں گی اور محبت کے زمزمے بہنا شروع ہو جائیں گے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ بہرحال ماضی سے آگے بڑھتے ہیں۔

    ابھی حالیہ دنوں میں افغانستان میں ایک مثبت پیش رفت گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی کا افغان حکومت سے معاہدہ ہے۔ پاکستان پندرہ سال پہلے اپنے دوستوں (طالبان) کی حکومت ختم کروا کے مخالفین کی حکومت قائم کروانے کا جو سیاسی گناہ کر چکا ہے، آج اس کے کفارے کا وقت ہے۔ گلبدین حکمت یار ہمیشہ پاکستان کے دوست رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی حکومت ہمیشہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں میں شامل رہی ہے۔ اپنے محسنین اور مہمانوں کو دشمن بنانا تو کوئی ہم سے سیکھے۔ پاکستان میں تیس لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ بہت سے یہیں رچ بس گئے ہیں۔ یہاں ان کے گھربار اور کاروبار موجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ پاکستان مہمان نوازی کے بعد جب پیٹھ پھیرنے پر آتا ہے تو اپنی مہمان نوازی پر ہی مٹی ڈال دیتا ہے۔ چند ماہ سے افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ یوں باور کرایا جا رہا ہے کہ گویا پاکستان کے سب مسائل کی وجہ یہ پناہ گزین ہیں۔ بخدا، اپنی نیکی کو ضائع مت کیجیے۔ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا ہی ہے تو دھکے تو مت دیجیے۔ عزت و احترام اور گفت و شنید سے اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں افغاستان میں اپنے دوستوں کو سیاسی عمل میں شامل کروا کے حکومتی حلقوں میں اپنا رسوخ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

    ایران کی پاکستان سے سردمہری کی وجوہات میں (سعودی ایران پراکسی وارکے پس منظر میں) پاکستان کا سعودیہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا، ان کی چاہ بہار کے مقابلے میں گوادر بندرگاہ اور معاشی راہداری کا منصوبہ بنانا اور ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کو التوا میں رکھنا شامل ہے۔

    پاکستان نے ایران اور سعودیہ کی پراکسی وار میں انتہائی محتاط موقف اپنایا ہے۔ حتٰی کہ یمن کے معاملے میں پاکستانی فوج سعودیہ بھیجنے سے انکار پر سعودی حکومت کو بھی دھچکا پہنچا۔ امارات کے وزیر نے تو برسرعام پاکستانی پالیسی پر تنفر کا اظہار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری کمزور سیاست کے سبب ہمیں ایران سے بھی اس پالیسی پر کوئی داد نہ مل سکی۔

    اب وقت ہے کہ ایران کو دیرینہ دوست اور ہمسایہ ہونے کی نسبت سے اعتماد میں لیا جائے۔ سعودی ایرانی کشمکش کو کم کروانے کے لیے ثالثی مہم شروع کی جائے۔ ایران بھی پاکستان کی معاشی راہداری میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کر چکا ہے۔ ایران سے پہلے وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ایران کی یہ خواہش پاکستان، چین اور ایران تینوں کے مفاد میں ہے۔ یہ تینوں فریقین کے لیے ایسی win-win صورتحال ہے کہ اس سے ایسی علاقائی معاشی اکائی وجود میں آئے گی جس سے ایران کے بہت سے مفادات بھی وابستہ ہوں گے۔ اس سے بھارت کے ایران پر بڑھتے ہوئے سائے یقیناً سمٹنا شروع ہو جائیں گے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد پاک بھارت ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ کسی استعماری طاقت کو اس سے تکلیف ہوتی ہے تو ہو، ہمیں اپنے مفادات میں قدم قدم آگے بڑھتے جانا چاہیے۔

    اس تکون کا تیسرا اور اہم ترین ملک بھارت ہے۔ ہمارا اختلاف قدیم ہے اور اس کے جلد حل ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اس سے دوستی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ دونوں ممالک میں کشمیر کا ایسا مسئلہ ہے کہ پاکستانی نقطہ نظر سے جس کا، بادی النظرمیں، جنگ کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس وقت تک جب تک ہم اس مسئلہ کو حتمی طور پر حل کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے، بھارت کو اس کے اندر ہی مصروف رکھنے کی پالیسی اپنانی پڑے گی۔ جب تک یہ پالیسی موجود تھی، پاکستان میں امن و شانتی تھی، پاکستان نے جب سے یہ پالیسی چھوڑی، پاکستان دہشت گردی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔

    پاکستانی قیادت سے گزارش ہے کہ وزارت خارجہ کو بےوزیر رکھنے کے بجائے صاحبزادہ یعقوب سا کوئی وزیرِ خارجہ تعینات فرمائیے۔ صاحبزادہ کے ساتھ کوئی ضیاء الحق کی سوجھ بوجھ والا حکمران بھی تو ہو۔ خیر، جو میسر ہے، اسی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ عسکری قیادت سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اس میں ارتکاز کی ضرورت ہے۔ خارجہ معاملات کو سیاسی حکومت کو سنبھالنے دیں۔ اگر یہ معاملات مکمل طور پر حکومت کے سر پر نہیں چھوڑے جا سکتے تو بھی دونوں قیادتوں کو مشورے اور میل ملاقاتوں کے ذریعے ایک صفحے پر آ جانا چاہیے ورنہ ہمارا دشمن اتنا بےرحم ہے کہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

    مکرر عرض کروں گا کہ مخالفین کے پاس وسائل ہیں، ہمارے پاس استعمال کرنے کے لیے صرف ذہانت بچی ہے۔ دل کھول کر اس خزانے کو استعمال کر لیجیے۔ کوئی بہت توپ ذہانت بھی درکار نہیں ہے۔ بس یہی ذہانت عامہ ہی کافی ہے۔

  • صنعت کے ایان علی – رضوان الرحمن رضی

    صنعت کے ایان علی – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی کم وہ بیش چار سال کے عرصے کے بعد چین نے ایک مرتبہ پھر خام مال کی عالمی منڈیوں میں دخل اندازی فرما دی ہے اور اقتصادی خبریں دینے کے حوالے سے معتبر سمجھے جانے والے امریکی ادارے ’’بلوم برگ ‘‘ کی اس ہفتے کی رپورٹ کے مطابق، عالمی منڈی میں کوئلے کے نرخ اٹھارہ ماہ کی بلند ترین سطح پر دیکھے جا رہے ہیں اور نرخوں میں بڑھوتری کا رحجان روز افزوں ہے۔ جواز اس کا یہ فراہم کیا جا رہا ہے کہ چین اپنے کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی دینے کے لیے وہاں پر ایندھن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئلے کے ’’مستقبل کے سودوں‘‘ کو اپنے نام لکھ رہا ہے اور بےتحاشا لکھ رہا ہے۔

    اس سے قبل چین نے ایندھن کی عالمی منڈی کے علاوہ خام دھاتوں کی دوسری منڈیوں میں بھی جو دھماچوکڑی مچائی تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سونے اور خام تیل کی قیمتیں کہاں سے کہاں تک گئی تھی، اس کے حوالے سے بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ چینیوں سے بڑا جواری ماں نے کرہ ارض پر پیدا ہی نہیں کیا۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ اپنی ضرورت سے تین یا چارگنا مانگ عالمی منڈی میں اُس وقت ڈالتے ہیں جب وہ اپنی ضرورت کا بیشتر حصہ خرید چکے ہوتے ہیں۔ اور جب عالمی منڈی کے نرخ ان کی قیمتِ خرید کے دگنے سے بڑھ جاتے ہیں تو یہ اس ساری مہم کے آغاز میں اپنا سستا خریدا گیا مال ان بھاری نرخوں پر فروخت کر کے منڈی سے نکل جاتے ہیں اور ہم جیسی معیشتیں رہ جاتی ہیں پسنے کے لیے۔ یوں ان کو اپنی صنعتوں کے لیے خریدا گیا خام مال تو مفت میں پڑجاتا ہے اور جب یہ دوسرے ممالک کو عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں سے بھی کم قیمت پر اپنا تیار مال بیچتے ہیں تو دنیا کی کوئی معیشت ان کے مقابلے میں کھڑی نہیں ہو پاتی۔

    عالمی منڈی میں گذشتہ چار سال تک سکون رہا ہے۔ ایسے وقت میں ہمارے ملک کے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں رہے ہیں اور مقامی صنعت کاروں کے منافع جات کسی قطار شمار میں نہیں آ رہے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر خام دھاتوں اور ایندھن کے علاوہ زرعی اجناس کی قیمتیں گذشتہ چار سال کی کم ترین سطح پر رہیں۔ لیکن ہمارے انتہائی پیشہ ور اور ایماندار صنعت کاروں نے خام مال میں اس کمی کا اثر اپنی پیداوار کی قیمتوں کو کم کر کے عوام کو منتقل نہیں کیا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں عام صارف کو عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں اس کمی کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوسکا۔

    اب آپ پام آئل سے بننے والے گھی کی مثال ہی لے لیجیے۔ عالمی منڈی میں اس وقت بناسپتی گھی کا خام مال یعنی پام آئل اپنے چار سال پہلے کی قیمتوں کے نصف سے بھی کم پر ہے تو کیا گھی یا خوردنی تیل کی قیمتوں میں آپ کو اس قدر کمی نظر آئی؟ نہیں ناں؟ یہی حال باقی پیداواری اجناس کا ہے۔ صرف ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی جن کا خام مال مقامی تھا اور مقصد یہ تھا کہ پاکستانی کسان کا رگڑا نکل جائے۔ کیا ربڑ سے بننے والی اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوئی؟ جی نہیں تو پھر تیار ہو جائیے کہ اب ملک میں مہنگائی کا ایک سونامی آنے والا ہے۔ ان گرمیوں میں ہمارے صنعت کاروں نے ساڑھے چھ سو ارب روپے کی صرف خواتین کی لان ہی فروخت کر ڈالی لیکن اس پر کوئی انکم ٹیکس یا سیلز ٹیکس اس لیے خزانے میں نہ جا سکا کیوں کہ یہ پیداواری یونٹ برآمدی مال بنانے کے حوالے سے معروف اور رجسٹر ہیں۔ ہماری مقامی تیار مال کی مقامی منڈی بھی کسی بھی یورپی ملک کے مقابلے میں بڑی ہوگئی ہے، اس کی دستاویز بندی سے ٹیکس کے حوالے سے ملکی معیشت کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

    اس اثناء میں ایف بی آر بھی حماقت کر بیٹھا ہے. اس نے الیکٹرانک دستاویزبندی کا عمل برآمدات سے شروع کر دیا ہے، درآمدات کی باری ابھی آنا باقی ہے۔ یعنی ایف بی آر نے برآمدات کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے صنعت کار جو ایک کنٹینر بھیج کر بینک والوں سے مل ملا جعل سازی کر کے اس ایک کنٹینر کے عوض پانچ چھ کنٹینر کی قیمتوں کے برابر زائد رقوم ملک میں لے آیا کرتے تھے، وہ سلسلہ بند ہوگیا اور یوں ہمارے ایماندار صنعت کاروں اور تاجروں نے یہ اضافی رقوم دبئی کی جائیدادوں میں جھونک دی ہے جس کے نتیجے میں وہاں پراپرٹی کی قیمتیں ایک دم بڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔ یوں ہماری برآمدات میں سات ارب ڈالر تک کی کمی ظاہر ہو رہی ہے۔

    اب درآمدات کی دستاویز بندی کا آغاز ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو ٹیکس چوری کا خاتمہ ہو گا تو ایف بی آر کے لال بجھکڑوں کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں ہماری درآمدات میں پندرہ ارب ڈالر تک کی کمی ہو سکتی ہے کیوں کہ آج تک ہمارے درآمد کنندگان بھی اندرونِ ملک سے سرمایہ باہر منتقل کرنے کے ’’ایان علی‘‘ بنے ہوئے ہیں۔

    اس وقت ہر درد دل رکھنے اور پاکستان کے معاشی حالات سے تھوڑا بہت آگاہ شخص اس امر پرپریشان ہے کہ اگلے سال ہمیں کم از کم بارہ ارب ڈالر قرضوں کی واپسی کے مد میں بین الاقوامی مہاجنوں کو ادا کرنے ہیں، موجودہ معیشت میں یہ سکت نہیں تو یہ کیسے ادا ہوں گے ؟ کیوں کہ برآمدات رو بہ زوال ہیں اور پاکستان کو زرِ مبادلہ کے سب سے بڑے ذریعے یعنی عرب ممالک کی معیشتوں کا تودیوالیہ نکل رہا ہے ایسے میں زرمبادلہ کے یہ سوتے بھی خشک ہو جائیں گے ۔ان سے عرض ہے کہ جب ہماری درآمدات میں شفافیت آ جائے گی تو اسی معیشت میں سے یہ رقوم نکل آئیں گی۔ ویسے بھی دبئی سے تو ہم اپنا پیسہ ہی ٹیکس بچانے کے لئے ’’تین فی صد کا چکر ‘‘لگوا کر ہی واپس لاتے ہیں ناں؟ تو وہ انکم ٹیکس کے قانون میں موجود سقم کے باعث اب بھی آتا رہے گا۔

    اس دوران پنجاب میں پورے زرداری دور میں بجلی اورگیس کی عدم دستیابی کے باعث بند رہنے والی ملکی صنعت کا یہ ستر فی صد حصہ بھی آخر کار پوری صلاحیت سے چلنا شروع ہو گیا ہے کیوں کہ ایل این جی کی درآمد کے ساتھ ہی پنجاب کو صنعتوں کو سات سال بعد گیس کی بندش سے استثنیٰ ملا ہے جب کہ گذشتہ سال سے صنعتوں کے لئے میاں نواز شریف کی پنجابی حکومت نے ان صنعتوں کے لیے بجلی کی بندش بھی ختم کر دی ہے۔ ایسے میں یہ صنعت بھی تو اپنا کچھ نہ کچھ کردار ادا کرے گی۔ پنجاب کے صنعت کاروں کو تو اب پتہ چلا ہے کہ سارے منافعے کس جگہ رکھے جاتے ہیں۔

    ایسے میں جب کہ ملک میں ایک کروڑ کے قریب چھوٹی اور بڑی کھالیں انتہائی کم قیمت نرم اور اعلیٰ معیار کھالیں ہماری صنعت کو دستیا ب ہوں گی تو اندازہ کر لیں کہ ہمارے ایمانداری صنعت کاروں کی منافع خوری کہا جا کر ٹھہرے گی؟ سعودی عرب کے بعد (جہاں حج کرنے والے سنتیس لاکھ غیر ملکی ہوتے ہیں) یہ دنیا میں حلال کئے جانے والے جانوروں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یاد رہے کہ حلال طریقے سے جانور ذبح کرنے ، اور اس خون آہستہ آہستہ بہانے سے اس کی کھال میں وہ نرمی اور چمک آ جاتی ہے کہ جو جھٹکا کئے گئے جانور کو نصیب نہیں ہوتی اس لئے دنیا میں جانے مانے فرانس کے فیشن ڈیزائنر پاکستانی جانوروں کی کھالیں نام لے کر طلب کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے برآمدکنندگان اس کے پورے دام وصول کرنے کی بجائے ایک فون کال پر ہی یہ سستے داموں فراہم کرنے پر راضی ہو جائیں لیکن پھر بھی اس قدر کمائی ہو ہی جاتی ہے کہ بندہ برج الخلیفہ کے عقب میں شاندار رہائش رکھ کر باقی عمر سکون سے گذاری جا سکے۔

  • علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان الرحمن رضی

    علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کے‌‌‌ لیے چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزارشریف کے سرحدی گائوں حیراتان کی خشک بندرگاہ پر پہنچی ہے۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ کل ہی بھارتیوں کے زیرانتظام افغان فوج کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ، ٹوئٹر کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ ایران کا افغانستان کے سرحد ی گائوں ’خاف‘ تک ریلوے لائن بچھانے کا کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور افغانستان کے عبداللہ عبداللہ نے چاہ بہار بندرگاہ کو جلد از جلد شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اور روس کے بعد اب ایران بھی افغانستان کے ساتھ براستہ ریلوے لائن منسلک ہو گیا ہے۔

    حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت خطے کے باقی ممالک، بشمول بھارت، افغانستان کے ساتھ کسی نہ کسی طور تیزی سے جُڑ رہے ہیں، انہوں نے افغان طالب علموں کے لیے تعلیمی وظائف کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی تکلف نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے جن سرحدی علاقوں نے قدرتی طور پر افغانوں کے لیے تعلیمی بیس کیمپ بننا تھا، وہاں ہم نے ایران کے زیراثر قبائل کو بسا کر، نہ ختم ہونے والی فرقہ ورانہ جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ افغانستان کی فوج کے افسران کی تربیت بھارت میں ہو رہی ہے، حالانکہ ہماری تو افغان پالیسی رہی ہی ہماری فوج کے ہاتھ میں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ پاکستان کے دینی مدارس سے چن چن کر نکالے گئے افغان طلبہ کو بھارتی مسلم دینی اداروں میں دھڑا دھڑ داخلے دیے جا رہے ہیں۔ جب افغانستان کے ساتھ مختلف مسائل کے باعث طورخم اور چمن کے بارڈر بند ہوتے ہیں تو ایران اپنے بارڈر کھول دیتا ہے اور بھارت ہوائی جہازوں کے ذریعے وہاں سے مال اور مسافر اٹھاتا ہے۔ ایسے میں میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر کچھ عناصرایسے بھی پیدا ہو گئے ہیں جو مسلسل افغان مہاجرین کے نام پر افغان قوم کو گالم گلوچ کر تے رہتے ہیں تاکہ گذشتہ چالیس سال کی میزبانی سے جو گڈ وِل افغانوں کی نوجوان نسل میں پیدا ہوئی ہے، اس کا بیڑہ غرق کیا جا سکے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کو پہچاننے اور قومی زندگی سے تلف کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ کسی مشرقی یا مغربی ہمسایہ ملک کے گھس بیٹھیے ایجنٹ تو نہیں؟

    یہاں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ ان دو مزید ریل رابطوں کے قائم ہونے سے قبل افغانستان تک ریل کے صرف دو ہی راستے ہوا کرتے تھے، ایک طورخم تک کا راستہ اور دوسرا چمن کا راستہ۔ ان دونوں راستوں پر ٹرین چلا کرتی تھی۔ لیکن جب مرحوم ضیاء الحق کے دور میں پاک فوج نے امریکیوں کو افغانستان کے لیے خدمات پیش کیں اور اشیاء کی نقل و حمل کے کاروبار میں چھلانگ لگائی تو بہانہ روس کے خلاف افغان جنگ کا بنایا اور پشاور سے طورخم اور کوئٹہ سے چمن کے ریلوے لائنوں کو سامان کی نقل و حمل کے لیے بالکل ہی ترک کردیا۔ حالاں کہ دنیا بھر میں ایسے ریل راستے جن پر مال گاڑیاں نہ دوڑیں وہاں ریلوے کا کاروبار ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوا کرتا ہے۔ اب صرف اس ریلوے پٹڑی کو زندہ رکھنے کے لیے پشاور سے لنڈی کوتل تک ایک ٹرین کبھی کبھار چلائی جاتی ہے یا شاید وہ بھی نہیں۔ پہلے اسے دونوں افغان جنگوں کا بہانہ بنا کر بند رکھا گیا اور اب تخریب کاری کا۔ اس کی بعض برانچ لائنوں کو یا تو مقامی افراد اکھاڑ کر لے گئے ہیں یا پھر ان کو ویسے ہی نئے منصوبوں کے تحت سڑکیں بناتے وقت انہیں زمین میں دفن کر دیا گیا ہے۔
    تاہم ہمیں ریلوے کے حکام نے بتایا ہے کہ کوئٹہ سے چمن تک ایک مسافر ٹرین روزانہ چلتی ہے جس میں مسافر کم اور (سمگلنگ کا) سامان زیادہ ہوتا ہے۔ اس ٹرین کو ایک نجی ٹھیکیدار چلاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں ٹکٹ کوئی نہیں خریدتا۔ ریلوے نے ایک آدھ دفعہ اسے بھی بند کرنے کی کوشش کی تو اس سے مستفید ہونے والے کوئٹہ کے پختون بپھر گئے کہ یہ تجارت (دراصل سمگلنگ ) کرنا ان کا قانونی اور نسلی حق ہے اور ایسا کرنے کا حق انہیں بھٹو مرحوم نے ایک تاریخی جلسے میں اعلان کرتے ہوئے دیا تھا جس میں انہوں نے اُس وقت کے افغان صدر کے گنجے سر پر ہل چلانے کی بڑھک لگائی تھی۔ بعد کی آنے والی حکومتوں نے عافیت اسی میں جانی کہ اسے نہ چھیڑا جائے اور اسے ایسے ہی چلتے رہنے دیا جائے۔ اگر طورخم اور چمن کی سرحدوں تک افغان راہداری تجارت کے کنٹینرز بذریعہ ریل بھجوائے جائیں تو پاکستان کی قومی شاہراہوں پر رش کم ہوگا بلکہ سمگلنگ کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی اور ان روٹس پر ریلوے بھی منافع بخش ادارہ بن جائے گا۔

    حکومتِ پاکستا ن کے مختلف عہدیداروں اور ہمارے فوجی اداروں کے مختلف ادوار کے رویوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ کابل میں پاکستان مخالف جذبات کیوں پائے جاتے ہیں۔ وہاں پر پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں اور ہمارا قومی پرچم جلانے والوں کی سیاسی و معاشرتی اوقات اتنی ہی ہو جتنی پشاور میں اے این پی کی یا پھر کوئٹہ میں ہزارہ کی۔ یعنی اقلیت ہونے کے باوجود ، انتہائی اہم عہدوں پر قابض ہونے کی وجہ سے انتہائی موثر! لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہم پہلے سے موجود زمینی اور نسلی رابطوں کو غیر موثر یا بند کرنے پر کیوں مُصر ہیں؟

    ویسے قیامِ پاکستان کے وقت جب ہمیں مغربی پاکستان کی ریلوے ملی تھی تو اس کے اُس وقت تک کے مجوزہ منصوبوں میں ریلوے کے رابطوں کو طورخم سے جلال آباد تک اور چمن سے قندھار تک بڑھانا شامل تھا۔ ریلوے کے ان رابطوں میں اس توسیع کے بغیر ہم ان روٹس سے کمائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ دنیا بھر میں ریلوے کو منافع میں چلانے کا ایک ہی اصول ہے یعنی مسافروں کے علاوہ صرف سامان کی نقل و حمل۔ دنیا میں ریلوے کے صرف وہی روٹس کامیاب مانے جاتے ہیں جن پر مال گاڑیاں چلائی جا رہی ہوں، صرف مسافر ڈھو کے کوئی بھی ریل چلانے والا ادارہ کبھی بھی منافع کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین شاہراہِ ریشم کے جن بھی راستوں پر ریلو ے کو بحال کر رہا ہے، وہاں پر وہ مسافر ٹرینوں کے بجائے مال گاڑیاں چلا رہا ہے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ ستر سال گذر گئے، ہم نے اس کے بالکل برعکس کیا ہے، مال گاڑیاں بند کی ہیں اور مسافر ٹرینیں چلائی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج بھی تمام تر دعووں کے باوجود ریلوے کا خسارہ چھتیس ارب روپے ہے اور اس بات پر خوش ہیں کہ کم از کم چل تو رہا ہے۔ یہ تو نہیں ہو رہا کہ زرداری دور کی طرح سولہ ارب روپے کا خسارہ بھی ہو اور کوئی ٹرین بھی وقت پر نہ چل پا رہی ہو؟

    اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ ہماری روڈ ٹرانسپورٹ میں اس قدر منافع بخش ہو گئی ہے کہ ترجیح یا تو منشیات سمگلنگ میں ہے یا پھر سڑک کی ٹرانسپورٹ میں۔ ایک ٹرک والا ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا کمی کے باعث چھ سے آٹھ ماہ میں اپنے ٹرک کی قیمت واپس وصول کر لیتا ہے۔ دنیا کے کس کاروبار میں ایسا ہوتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کے بھائیوں پر زمینوں کے کاروبار میں پیسے بنانے کے علاوہ ٹرکوں کے ذریعے افغانستان میں ایساف اور نیٹو افواج کو نقل و حمل کی خدمات پر پیسے کمانے کا الزام بھی ہے۔ اور وہ جو چند جرنیلوں کو’نشانِ عبرت‘ بنانے کے تاریخی واقعات میڈیا کے ذریعے قوم کے کانوں میں سے اتارے جا رہے ہیں، وہ بھی اسی ٹرانسپورٹ کے شعبے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔

    ایسے میں کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم افغانستان کے ساتھ کسی بھی ہمسایہ ملک یا اس کی کسی بھی پراکسی کے اثر سے نکل کر اپنی آزادانہ دوطرفہ تعلقات کی پالیسی کو ازسرِ نو تشکیل دیں؟

  • مودی میاں کی ہی سن لو – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    مودی میاں کی ہی سن لو – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش اگر کوئی شخص پاکستان میں جاری فکری مباحث، نیشنل سیکورٹی کو لاحق خطرات اور قومی وحدت سے متعلق تمام اشکال دور کر دے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ وہ ایک محسن اور مربی کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے کیا؟
    اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ کون ہے وہ اللہ کا بندہ؟
    امید ہے آپ میں سے بیشتر اس تک پہنچ چکے ہوں گے. جو دوست ابھی گومگو میں ہیں، یا اس میں رہنا چاہتے ہیں، ان کے لیے عرض کیے دیتا ہوں. وہ ہیں جناب عزت مآب نریندر دامودرداس مودی، وزیراعظم ہندوستان.

    یہ اسی شخص کا کمال ہے کہ ہندوستان سے محبتِ نیازمندانہ کے علمبردار دوستوں کو یہ باور کروایا کہ وہ ہر وقت پاکستان کو یہ نہ الزام دیا کریں کہ اسے ”خوامخواہ“ ہندوستان دشمنی کا بخار چڑھا رہتا ہے. نہایت شان سے فرمایا کہ ہم ہی ہیں وہ جنہوں نے مکتی باہنی کے ساتھ بنگلہ دیش بنایا. پھر یہیں ٹھہر نہیں گئے. ہندوستان کے یوم آزادی پر بلوچستان اور گلگت بلتستان پر اپنے عزائم کا صریح اعلان بھی جاری فرما دیا، اور اسی سانس میں ان کا غائبانہ اظہار تشکر بھی قبول فرمایا. اگلے مرحلہ میں یہ بتایا کہ کلبھوشن بیچارہ تو کیا بیچتا ہے، براہمدغ بگٹی، مری برادران اور حامد کرزئی سمیت ان کے اصل اثاثے کون کون اور کہاں ہیں. کسی فوری مصروفیت کی وجہ سے کراچی کا تذکرہ نہیں کر پائے غالباً، تاہم جلد یا بدیر اس پر بھی بات ضرور کریں گے، کیونکہ بات کیے بغیر وہ رہ نہیں سکتے.

    کچھ خیر اندیش اس پر بھی جزبز رہتے تھے کہ ہر تخریب کاری پر ”سی پیک“ کا نام کیوں لیا جاتا ہے کہ اس کو ناکام بنانے کے ہتھکنڈے ہیں یہ سب. ہمارے ہاں کسی نے اس بےزاری کا نوٹس لیا ہو یا نہیں، مودی صاحب نے اس ابہام کو فوراً دور کرنے کا فیصلہ کیا اور جی 20 سمٹ کے موقع پر سارا وقت چینی صدر کو سی پیک کی مخالفت پر ٹیوشن دیتے رہے. اب چینی صدر ہی نالائق نکلے کہ کوئی بات پلے ہی نہ پڑی ان کے. غالباً زبان کا فرق آڑے آ گیا.
    زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
    اسی جی 20 سربراہ اجلاس میں مودی نے پاکستانی قوم کا ایک اور مغالطہ دور فرما دیا. ہم لاکھ مہاجر، سندھی، پنجابی، سرائیکی، پٹھان، بلوچی، کشمیری، بلتی و دیگر بنتے رہیں، انہوں نے یہ سب ماننے سے انکار کیا اور مشفقانہ سرزنش سے کام لیتے ہوئے تمام پاکستانیوں کو ”ایک قوم“ قرار دیا. انہوں نے فرمایا کہ ایک قوم تمام دہشت گردی کی ذمہ دار ہے. اللہ اللہ .. کیسی خوبصورت بات کی، ایک قوم !!
    یہ نہ دیکھیں کہ ایک قوم کے ذمہ کیا لگایا انہوں نے. یہ دیکھیں کہ دشمن ہمیں ایک قوم سمجھتا ہے جبکہ ہم ایسا سمجھنے میں خاصی دقت محسوس کرتے رہے ہیں. دشمن کا ارادہ اس ”ایک قوم“ کے خلاف ہے، اور اس کا جواب دینے کے لیے بھی ایک قوم کا ردعمل ہی درکار ہوگا.
    اب بتائیے کیا ارادہ ہے !!
    ہماری نہ سنو ….. مودی میاں کی ہی سن لو!

  • آخری معرکہ اور شام کی مقدس زمین – ساجدہ فرحین فرحی

    آخری معرکہ اور شام کی مقدس زمین – ساجدہ فرحین فرحی

    ساجدہ فرحین فرحی ایک امریکی ویب سائٹ ورلڈ سوشلسٹ کے مطابق پانچ سالہ شامی بچے امران کی کچھ روز پہلے شائع ہونے والی تصاویر امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ پر چھائی رہیں جو دراصل امریکی حمایت یافتہ باغیوں نے فراہم کی تھیں۔ ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ سی این این نے بچے کی تصاویر کی مارکیٹنگ کی ہے اور سی این این کی نیوز کاسٹر نے رونے کا ڈرامہ کیا کیونکہ یہ بچہ روسی بمباری میں زخمی ہوا تھا، شاید اسی لیے امریکہ کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اُٹھی جو عراق اور افغانستان میں امریکہ بمباری کا شکار بچوں پر سوئی رہتی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے سرخی لگائی (حلب میں مصائب کا نشان) اور برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے تو بچے کی خبر کے ساتھ یہ تحریر کیا کہ شام کے بچوں کی خاطر ہمیں شام کو پھر سے نو فلائی زون قرار دینا چاہیے۔ ورلڈ سوشلسٹ کے تجزیے کے مطابق روس، ایران، ترکی اور چین کی قربت امریکہ کے لیے پریشان کن ہے کیونکہ یہ سب کچھ مشرق وسطی اور اس میں موجود توانائی کے ذخائر پر امریکی اجارہ داری کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ احمد ابھی امران کی تصاویر حساس افراد کے ذہنوں میں تازہ تھی کہ حلب میں بمباری کے باعث ملبے میں دبے گیارہ سالہ احمد کو ایک گھنٹے کی کوششوں کے بعد نکال لیا گیا. احمد کا پورا خاندان اس بمباری کے دوران شہید ہوچکا ہے۔ رواں ماہ اگست کے دوران حلب میں ایک سو چالیس سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں اور اس پانچ سالہ جنگ کے دوران پچاس ہزار بچے مارے جاچکے ہیں۔

    عمران 1 بہرحال شامی بچہ امران ایک حقیقت ہے جو اس جنگ میں بمباری سے زخمی ہوا اور اُس کا زخمی بھائی علی دو دن بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دار فانی سے کوچ کر گیا۔ علی بھی اب سے کچھ ماہ قبل ترکی کے ساحل پر شامی جنگ سے دور جانے والے خاندان کی ہجرت کے دوران ڈوب جانے والے ایلان کردی کے پاس ہوگا جہاں بمباری ہوگی نہ خانہ جنگی، شامی بچوں کو اب صرف مرنے کے بعد ہی سکون میسر آسکتا ہے، شام میں رہتے ہیں تو امران کی طرح حال ہوتا ہے، نکلنے کی کوشش کریں تو ایلان کردی کی طرح موت اُن کی منتظر ہوتی ہے۔ شامی بچے کبھی بشار الاسد کی حکمرانی کے بھینٹ چڑھتے ہیں تو کبھی باغیوں کی بغاوتوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ امران اور ایلان تو صرف ایک علامت بن گئے شامی جنگ کی جنہوں نے تھوڑی دیر کے لیے سہی، دنیا کے بےحس ضمیر کو جھنجھوڑا ورنہ اب تک پانچ برسوں سے جاری اس شامی جنگ میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ لاکھوں شامی باشندے ہجرت کر چکے ہیں مگر اب بھی ایک کروڑ اسی لاکھ شامی اپنے اس جنگ زدہ وطن کے باسی ہیں۔ جنگ سے قبل شام کی آبادی دو کروڑ پینتالس لاکھ تھی۔اب تک اس جنگ میں لقمہ اجل بننے والے افراد کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ صرف ان افراد کے نام پڑھنے کے لیے آپ کو انیس گھنٹے درکار ہوں گے اور یہ نام اکٹھا کیے ہیں شام میں کام کرنے والے نیٹ ورک وائلیشنز ڈاکیو منٹیشن سینٹر نے، اس نیٹ ورک نے شام میں ہلاک شدگان افراد کی ہلاکت کی وجوہات کا ڈیٹا بھی جمع کیا ہے۔

    اگر شام کی تاریخ کی بات کی جائے توشام سریانی زبان کا لفظ ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت سام بن نوح سے منسوب ہے۔ طوفان نوح کے بعد حضرت سام اسی علاقے میں آباد ہوئے۔ یہ مبارک سرزمین پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کی سر پرستی میں ایک ہی خطہ تھی جسے بعد میں انگریزوں اور فرانس کی پالیسیوں نے چار ملکوں (شام، لبنان، فلسطین اور اردن) میں تقسیم کر دیا لیکن قرآن و حدیث میں جہاں بھی ملک شام کا ذکر ہے اس سے مراد ان چار ممالک پر مشتمل پورا خطہ ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بابرکت و فضیلت جگہ مسجد اقصی ہے جسے قبلہ اول بھی کہتے ہیں۔ سورہ الانبیاء آیت 71 میں ارشاد باری تعالی ہے: ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام عراق سے مقدس سر زمین ملک شام ہجرت فرما گئے۔
    سورہ الانبیاء آیت 81 میں ارشاد باری تعالی ہے: ہم نے تند و تیز ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا، جو ان کے فرمان کے مطابق اسی زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی ہے یعنی ملک شام کی سر زمین۔
    ایک دفعہ رسول ﷺ نے صحابہ کرام سے کہا کہ کیا تم جانتے ہو اللہ سبحان تعالیٰ شام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں. (ابودائود، مسند احمد)
    رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، شام والو! تمہارے لیے خیر اور بہتری ہو۔شام والو! تمہارے لیے خیر اور بہتری ہو۔ تمہارے لیے خیر اور بہتری ہو۔ صحابہ کرام نے سوال کیا کس لیے یا رسول اللہ ﷺ تو آپ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتوں نے خیر و بھلائی کے اپنے بازو اس ملک شام پر پھیلا رکھے ہیں۔ (ترمذی، مسند احمد)
    رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے اللہ ہمیں برکت عطا فرما ہمارے شام میں، ہمیں برکت دے ہمارے یمن میں۔ آپ ﷺ نے یہی کلمات تین یا چار مرتبہ دہرائے (بخاری، ترمذی، مسند احمد، طبرانی)

    عمران آخر شام میں ایسی کیا خاص بات ہے جو امریکہ، اسرائیل، ایران، سعودی عرب، ترکی، روس، فرانس اور چین سمیت تمام ممالک اس جنگ کا براہ راست و بالواسطہ حصہ بنے ہوئے ہیں، کوئی اپنی پراکسی وار لڑ رہا ہے تو کوئی اپنے سپر پاور ہونے کی دھاک بٹھاناچاہتا ہے۔ شام کی سرزمین مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ حضرت عیسٰی کا نزول اور حق و باطل کا آخری معرکہ بھی اسی جگہ برپا ہوگا۔ احادیث کے مطابق حضرت امام مہدی حجاز مقدس سے ہجرت فرما کر اسی سرزمین پر قیام پذیر ہوکر مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ انجام دیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول بھی اسی علاقے یعنی دمشق کے مشرق میں واقع سفید مینار پر نماز فجر کے وقت ہوگا اور یہ علاقہ قیامت سے قبل اسلام کا مضبوط قلعہ و مرکز بنے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے شب معراج میں دیکھا کہ فرشتے موتی کی طرح ایک سفید عمود اٹھائے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا: تم کیا اٹھائے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ اسلام کا ستون ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کو شام میں رکھ دیں۔ ایک مرتبہ میں سویا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ عمود الکتاب (ایمان) میرے تکیہ کے نیچے سے نکالا جارہا ہے۔ میں نے سوچا کہ اللہ تعالی نے اس کو زمین سے لے لیا جب میری آنکھ نے اس کا تعاقب کیا تو دیکھا کہ وہ ایک بلند نور کی مانند میرے سامنے ہے یہاں تک کہ اس کو شام میں رکھ دیا گیا (طبرانی) اور کہا جاتا ہے کہ جب بھی شام میں فتنے پھیلیں گے وہاں ایمان میں اضافہ ہوگا۔ (مسند احمد، طبرانی)۔
    رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر اہل شام میں فساد برپا ہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں. میری امت میں ایک جماعت دمشق اور بیت المقدس کے اطراف میں جہاد کرتی رہے گی لیکن اس جماعت کو نیچا دکھانے والے اور اس جماعت کی مخالفت کرنے والے اس جماعت کو نقصان نہیں پہنچا پائیں گے اور قیامت تک حق انھی کے ساتھ رہے گا۔(ترمذی، ابن ماجہ)
    نبی ﷺ نے ایک دفعہ قیامت کی چھ نشانیاں بتائیں جن میں سے ایک نشانی یہ بھی ہوگی کہ تمہارے اور بنی اصفر (صیہونی طاقتوں) کے درمیان جنگ ہوگی۔ ان کی فوج کی 80 ٹکڑیاں ہوں گی اور ہر ٹکڑی میں1200 فوجی ہوں گے۔ اس دن مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ نامی جگہ میں ہوگا جو دمشق شہر کے قریب واقع ہے۔
    آپ ﷺ نے فرمایا، قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکلے، لوگ اس پر جنگ کریں گے اور ہر سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔ ہر بچنے والا سمجھے گا کہ شاید میں ہی اکیلا بچا ہوں.(مسلم)
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ لڑتا رہے گا دمشق کے دروازوں اور اس کے اطراف اور بیت المقدس کے دروازوں اور اس کے اطراف، ان کی مخالفت کرنے والے والا ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور وہ حق پر قائم رئیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

    عراق کے تیل کے ذخائر کے لیے امریکہ عراق میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ داخل ہوا جس کے بعد عراقیوں پر زندگی تنگ کردی گئی. اس سے پہلے عراق پر لگائی گئی معاشی پابندیوں کے باعث پانچ لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر جاں بحق ہوئے تھے۔ ایک سازش کے تحت مصر کی منتخب جمہوری حکومت پر جنرل سسی نے آمریت کا شب خون مارا، اسی دوران شام کے حالات بھی بگڑتے گئے۔ مختلف روایات کے مطابق جب مصر کے حالات خراب ہوں گے تو پھر خطے کے مزید علاقوں کے بھی حالات بتدریج خراب ہوتے جائیں گے اور یہ کہا جاتا ہے کہ جب پیلے جھنڈے والے مصر میں داخل ہوجائیں تو اہل شام کو چاہیے کہ وہ زمین دوز سرنگیں کھود لیں۔ شام میں آخری جنگ کو رسول ﷺ نے ملحمتہ الکبری کہا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی مدد یمن سے کی جائے گی اور مغرب کی طاقتوں سے یہ جنگ اعماق اور دابق کے مقام پر لڑی جائے گی. یہ دونوں علاقے حلب سے پنتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر اور ترکی سے قریب ہیں۔

    اس وقت تمام بڑی قوتیں اس ارض مقدس پر صف آرا ہیں، ہر قوت خود کو حق پر ظاہر کرتی ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہم ہی حق پر ہیں مگر جیسے جیسے مزید ممالک اس جنگ میں شامل ہوتے جارہے ہیں، حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں اور اب وقت ثابت کرے گا کہ خدا کی نصرت کس کے ساتھ ہے اور اگر یہی وہ آخری معرکہ ہے تو اللہ کی خوشنودی و رضا کے لیے ہی لڑنے والے فتح سے ہمکنار ہوں گے۔

  • چین میں دعوت دین اور اسلام کا مستقبل، ذاتی تجربہ – مجذوب مسافر

    چین میں دعوت دین اور اسلام کا مستقبل، ذاتی تجربہ – مجذوب مسافر

    مجذوب مسافر 1492ء کا سال اسلامی تاریخ کا انتہائی بدقسمت سال تھا کیونکہ اسی سال اندلس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر انتہا پسند عیسائیوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا. میں جب بھی تاریخ اندلس کا تنقیدی مطالعہ کرتا تو ایک سوال پوری شدت کے ساتھ ذہن میں ابھرتا تھا کہ آٹھ سو سال تک اس سرزمین پر حکومت کرنے کے باوجود وہ کون سی وجوہات تھیں کہ نہ صرف وہاں سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی بلکہ مسلمانوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا؟

    دیگر سیاسی و جنگی وجوہات کے ساتھ جو چیز میری سمجھ میں آ سکی وہ ہے مسلمانوں (خواہ وہ حکمران ہوں یا عوام) کی دعوت الی اللہ سے غفلت. ظاہر ہے کہ مسلمان اللہ کے اس فرمان ’لا اکراہ فی الدین‘ یعنی’دین میں کوئی جبر نہیں‘ کا پابند ہے لیکن اندلس کے مسلمان بدقسمتی سے اللہ کا دوسرا فرمان ’كنتم خير امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنكر‘ یعنی ’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کےلیے میدان میں لایا گیا ہے. تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘ کو بھول گئے اور مقامی لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے اور اسلام کے مطابق ان کی تربیت و تہذیب کرنے میں ناکام رہے. نتیجہ یہ نکلا کہ جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان سیاسی اور پھر جنگی آویزش شروع ہوئی تو پورا اندلس کم و بیش انتہا پسند عیسائی جنگجوؤں کے ساتھ کھڑا تھا اور مسلمان دوسری طرف اکیلے کھڑے تھے جو خود یا جن کے آباؤ اجداد شمالی افریقہ سے یہاں آئے تھے یعنی آٹھ سو سال بعد بھی مسلمان سرزمین اندلس پر اجنبی ہی سمجھے جاتے تھے.

    اس تاریخی مطالعے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جب کوئی دس سال پہلے اللہ نے چین میں آنے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع عطا کیا تھا تو خواہش تھی کہ جیسے اور جتنا ممکن ہو سکے، دین حق کی دعوت کا ابلاغ کیا جائے. اس سلسلے میں، میں نے ممکن حد تک کوشش کی کہ چین میں مقیم دوسرے ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر دعوت کا کام کیا جائے. کچھ نے اتفاق کیا تو کچھ نے اختلاف اور کسی نے مخالفت بھی کی اور کسی نے ڈرایا بھی کہ ’’یہ چین ہے بھائی، احتیاط کرو‘‘ نہیں معلوم کہ کیوں کچھ لوگوں کو دنیا کماتے وقت تو ’احتیاط‘ اور ’اعتدال‘ کے الفاظ یاد نہیں رہتے، مگر دین کے وقت سب یاد آ جاتا ہے.

    خیر اللہ کا نام لے کر اپنے کچھ چینی اور کچھ غیر چینی دوستوں کے ساتھ مل کر دعوت دین کی بنیاد رکھی. اصل ہدف مقامی چینی مسلمان اور ان کی اولادیں تھیں. اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے اس کام میں برکت عطا کی اور نہ صرف بےشمار چینی نسلی مسلمان واپس اسلام کی طرف لوٹے بلکہ بہت سے غیر مسلم چینیوں نے بھی اسلام قبول کر لیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے حالانکہ میں نے 2008ء کے شروع میں چین چھوڑ دیا تھا. 2011 میں جب دوبارہ یہاں آیا تو یہ دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ وہ لوگ اسی طرح متحرک اور دعوت کا کام کر رہے تھے.

    اس بار مسلمانوں کے بجائے براہ راست غیر مسلموں کے ساتھ مکالمہ شروع کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ چینی نسل کے لوگ اسلام کو سمجھیں اور اللہ اگر توفیق دے تو اسے قبول بھی کریں. عوام کو دعوت دینے اور اعلی تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ مکالمہ میں کافی فرق ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں، لیکن اس کام کا بھی فائدہ ہوا. لوگوں تک درست پیغام درست طریقے سے پہنچانے کے لیے خود بھی اچھی خاصی تیاری کرنی پڑتی ہے جس سے اپنا مطالعہ وسیع ہوتا ہے. میری دعوت کا اصل میدان میرا اپنا آفس ہے. یہاں پیشہ وارانہ معاملات میں اعلی کارکردگی کو دعوت کو بنیاد بنانا پڑتا ہے کیونکہ اگر پیشہ وارانہ معاملات میں کمزوری ہو تو اپنے کیریئر کو نقصان ہو نہ ہو’ دعوت دین کا نقصان بہرحال ہوتا ہے کہ پھر ایسے بندے کی باتوں کو لوگ اہمیت نہیں دیتے. ظاہر ہے پیشہ وارانہ ذمہ داری ٹھیک طرح سے ادا نہ کی جائے تو نہ صرف یہ کہ رزق مشکوک ہو جاتا ہے بلکہ انسان کی شخصیت کو بھی دھندلا جاتی ہے. اللہ ہمیں اس خرابی سے بچائے. آمین. شعوری طور پر کوشش کی کہ میرے کولیگز مذہب کو زیر بحث لائیں،گاہے اس میں کامیابی ہوتی ہے اور گاہے ناکامی لیکن ایک چیز ضرور ہوئی ہے کہ ان کے مذپب بالخصوص اسلام کے بارے میں سوالات اٹھانے سے مجھے اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملتا ہے. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تقریبا تمام کولیگز کو اسلام کا ابتدائی تعارف ضرور حاصل ہو چکا ہے. ایک کولیگ آج کل چینیوں کو اسلام سے متعارف کروانے کے لیے بلاگ بھی لکھ رہا ہے. اللہ میرے حال پر بھی رحم کرے اور ان کو بھی اسلام کی نعمت عطا فرمائے. آمین

    چینی اکثر مسئلہ غلامی، عورتوں کے بارے میں اسلام کی تعلیمات، جہاد اور دور جدید میں اسلام کے قابل عمل ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں. سب سے زیادہ سوال یہ ہوتا ہے: ’’ہم نے سنا ہے کہ مسلمان کئی کئی عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں‘‘. یہ سنتے ہی میں اکثر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتا ہوں. بہرحال اپنی سی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو درست معلومات پہنچائی جائیں. ویسے میں نے جب ان کو عورت کے معاملات کے بارے میں قرآن کی تعلیمات اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کی وضاحت کی تو میری فی میل کولیگز حیران اور خوشی سے اچھل پڑیں اور کہنے لگیں کہ:’’ہم بھی مسلمان ہونا چاہتی ہیں‘‘ تاہم ایک خالص مادیت پرست معاشرے میں ایسے جذبات زیادہ دیر تک برقرار رہنا کافی مشکل ہوتا ہے. اللہ کرے کہ یہ جذبات مستقل شکل اختیار کر لیں.

    چین میں سید مودودی، سید قطب اور محمد قطب کی کتابیں بالکل شروع میں ہی ترجمہ ہو گئی تھیں اور سید مودودی کا ’’مقدمہ تفہیم القرآن‘‘ جیبی سائز کے ترجمہ قرآن کے شروع میں لگا ہوا ہوتا ہے. اسی طرح خطبات اور دینیات وسیع پیمانے پر چھپتی اورپڑھی جاتی ہیں. اس کے علاوہ یوسف القرضاوی کی کتب اور مولانا زکریا کی فضائل اعمال کے ترجمے بھی دستیاب ہیں، تاہم چونکہ اکثر ترجمے کافی عرصہ پہلے ہوئے تھے اور اب جبکہ چینی زبان میں کافی تبدیلیاں ہو چکی ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کتابوں کے جدید چینی زبان میں ترجمے تیار کیے جائیں. نیت ہو تو اللہ راستے بھی بنا دیتا ہے، دوستوں کےلیے خوشخبری کہ اس کا راستہ بن چکا ہے، اور سفر جاری ہے-

    اس ساری کوشش کا مقصد یہ ہے کہ چین مستقبل قریب کی معاشی اور فوجی سپر پاور نہیں بلکہ شاید میگا پاور بن رہا ہے. اس ملک میں جس نظریے کے ماننے والے جتنے زیادہ اور جتنے طاقتور ہوں گے، اتنا ہی اس نظریے اور اس کے حاملین کے لیے بہتر ہوگا. اور جس نظریے کے اثرات کم ہوں گے، اس کے حاملین کے لیے کوئی اچھا منظر شاید نہیں بن سکے گا. یہاں لاکھوں غیر ملکی مسلمان آتے ہیں، پڑھتے، کام اور کاروبار کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے اکثریت نے جلد یا بدیر اپنے اپنے ملکوں کو واپس ہی جانا ہوتا ہے. یہاں رہنا چینیوں نے ہی ہے لہذا ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اندلس سے سبق سیکھیں اور میدان عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے خالی نہ چھوڑیں جو پوری قوت اور وسائل کے ساتھ چینیوں کو اپنے اپنے مذہب کے کی طرف لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں.

    میرے جیسے گناہگار ایسی ہی کوشش میں اپنا حصہ ادا کرنے کی کوشش میں مصروف مصروف ہیں. اللہ جانتا ہے. اللہ ہی تو جانتا ہے.

  • بلوچستان، عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (آخری قسط)-اوریا مقبول جان

    بلوچستان، عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (آخری قسط)-اوریا مقبول جان

    orya

    بلوچستان کے انتظام و انصرام کو انگزیز دور سے ہی برصغیر کے باقی خطوں سے بالکل علیحدہ طرز پر استوار کیا گیا تھا۔ ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر اور پولیٹیکل ایجنٹ رابرٹ سنڈیمن نے اس وقت اپنی مشہور ’’فاروڈ پالیسی‘‘ پر حکومت برطانیہ سے منظوری کے بعد عمل درآمد کا آغاز کیا جب انگریز اس خطے کے بلوچ قبائل سے جنگ میں بری طرح شکست کھا رہا تھا۔ سندھ اور پنجاب فتح ہو چکے تھے لیکن زار روس کے مقابلے میں خود کو مستحکم کرنے کے لیے انگریز کو بلوچستان کا خطہ بھی درکار تھا۔ یہاں کے سنگلاخ پہاڑ ایک فصیل کا کام دے سکتے تھے۔

    اسی لیے اس نے سبی کے اردگرد شروع ہونے والے پہاڑی سلسلوں میں آباد بلوچ قبائل سے جنگ شروع کر دی۔ آغاز میں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو سنڈیمن نے ایک تجویز پیش کی کہ اس علاقے کے بلوچ اور پشتوئی قبائل کو ان کے قدیم رواج کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے‘ ان کی قبائلی خود مختاری کا احترام کیا جائے‘ یہاں کے قبائلی دستور کو انگزیزی قانون کا حصہ بنا دیا جا ئے اور علاقے میں امن عام اور انصاف کی ذمے داری سرداروں کو دے دی جائے۔ اس کے بدلے میں سرداروں کو تاج برطانیہ کا وفادار ہونے پر قائل کر لیا جائے۔

    اسی کی کوکھ سے لیویز سسٹم نے جنم لیا۔ انگریز قبیلے کے سردار کو لیویز کے سپاہی رکھنے کے لیے ڈپٹی کمشنر یا پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے رقم فراہم کرتا اور وہ بدلے میں انگریز کو ایک پرامن خطہ عطا کرتے۔ یہاں حالات پرامن چاہیے تھے کہ سرحدی علاقہ تھا اور سردار وفادار چاہیے تھے کیونکہ یہاں ذرا سا بھی اختلاف یا احتجاج برداشت نہیں ہو سکتا تھا۔ قبیلے کی قوت نافذہ نے انگریز کو یہاں سو سال تک بے خوف و خطر حکمران رکھا۔ خان آف قلات ہو یا کوئی اور نواب یا سردار سب انگریز سے ’’خانہ نشینی‘‘ الاؤنس وصول کرتے تھے جس کا مطلب ہے کہ تم گھر میں بیٹھے رہو اور وظیفہ کھاؤ۔

    البتہ انگریز ان سرداروں کے علاوہ بھی لوگوں میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے دوستیاں پالتا اور ایجنٹ بناتا۔ لیکن اس نے قبیلے کی روایات کے مقابلے میں کسی غیر سردار کو سردار بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ایک دو ناکام کوششوں کے بعد اس نے یہ سب بھی ترک کر دیا۔ البتہ اس نے ان سرداروں کے ذریعے افغانستان میں خفیہ طور پر اپنے ایجنٹ پھلائے ہوئے تھے جو بارڈر کے اس پار واقع روس کے افغانوں کی خبر دیتے رہتے تھے۔

    پاکستان نے اس انتظام کو ورثے میں لیا تھا۔ جہاں قبائل سرداری نظام اور انتظامیہ کا گٹھ جوڑ انگریز کا تحفہ ہے وہیں افغانستان سے مسلسل دشمنی بھی انگریز ہی کا تحفہ ہے۔ تمام سرحدی تنازعات اسی دور کی پیداوار ہیں۔ بلوچستان اپنے علاقائی اور سرحدی اہمیت کی وجہ سے ہر دور میں عالمی طاقتوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل خطہ رہاہے۔ 1917ء میں جب روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو اسے دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے 1920ء میں آذربائیجان جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا‘ اس کے شہر باکو میں کمیونسٹ تنظیموں کا عالمی اجلاس منعقد ہوا۔

    اس میں بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں یہ طے ہوا تھا سوویت یونین ہندوستان میں قومیتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کر کے کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سب سے زیادہ انقلابی جدوجہد کی داستانیں اس خطے میں رقم ہوئیں۔ افغانستان روس کا ہمیشہ سے حلیف رہا ہے‘ اور پاکستان امریکا کا حواری۔ 1979ء میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو بلوچستان کی سرزمین بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اس خطے میں وہ سب کھیل کھیلا گیا جس نے روس کو شکست سے دوچار کیا اور گوادر جس کے خواب کبھی روسی رہنما دیکھا کرتے تھے کریملین کی گلیوں میں ناکام و نامراد لوٹ گئے۔

    افغانستان پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کے زیر اثر رہا۔ پہلے 8 سال قتل و غارت اور اگلے پانچ سال مثالی امن و امان۔ اسی ادھیڑ بن میں امریکا  دہشتگردی ختم کرتے وہاں آ گھسا۔ پاکستان اس جنگ میں اس کا حلیف تھا لیکن امریکا نے ایک بے وفا معشوق کی طرح دوستیاں اور آشنائیاں ہمارے دشمنوں سے رکھیں۔ بھارت امریکی سائے میں افغانستان میں مستحکم ہوا اور اس کے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے دلآرام اور زرنج تک ایک سڑک بنا ڈالی۔ اس سب کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ بلوچستان کے اہم ترین خطے کا متبادل پیش کر کے اس خطے کو پسماندگی‘ جہالت اور خونریزی کے سمندر میں دھکیل دینا۔ جس دن سے گوادر کے ساحل پر بندگاہ تعمیر کرنے کی مشینری پہنچی کم از کم سات ایسے ممالک تھے جنہوں نے بلوچستان کی بدامنی میںنمایاں کردار ادا کیا۔ ان کا بنیادی مقصد چین کو اس بندرگاہ کی دسترس رکھنے سے روکنا تھا بلکہ ایسا کرنے سے وہ چین کی معیشت کو الٹا گھومنے پر مجبور کر سکتے تھے۔ اور ان سب کا سرپرست ا مریکہ جس کے اشاروں پر یہ سب ناچتے ہیں۔

    اس لیے گوادر کے راستے چین کی تجارت ان تمام بڑے بڑے تجارتی مراکز کی موت ہے جو اس خطے میں تیزی سے بلند و بالا عمارتوں کا جنگل بنے ہیں۔ بھارت‘ امریکا اور ایران گٹھ جوڑ اس خطے میں بالادستی بھی چاہتا ہے اور چین کی معاشی ناکہ بندی بھی۔ دوسری جانب چین کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوتا تو چین کی معیشت کا بلبلہ ایسے پھٹے گا کہ رہے نام اللہ کا۔ عالمی طاقتوں نے اس معاشی راہداری کو روکنے کے لیے اس کے دونوں جانب فتنوں اور شرارتوں کا جال پھیلایا ہے۔ کشمیریوں کی پاکستان سے الحاق کی جدوجہد کو ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کی طرف اس کار خ موڑا جا رہا ہے۔

    حیران کن بات ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تمام این جی اوز اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی اچانک کشمیر کی یاد آ گئی ہے۔ وہ اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ اگر کشمیر کو اقوام متحدہ کے کنٹرول کے لیے دس سال کا وقت دے دیا جائے تو ظاہر ہے یہ امریکا کے کنٹرول میں ہو گا۔ یوں گلگت بلتستان سے جموں تک ہر جگہ خود بخود امریکیوں کو رسائی مل جائے گی اور چین کا گھیرا تنگ۔ ایسا ہوا تو بلوچستان چاہے جو کچھ کرے معاشی راہداری نہیں بن سکے گی۔ اور اگر کشمیری پاکستان سے ملنے پر ڈٹے رہے تو آزاد بلوچستان اور پھر گوادر کو اگلے کئی سالوں تک کھنڈر بنانا۔ اس کے لیے آزاد بلوچستان ضروری ہے لیکن یہ آزاد بلوچستان بلوچوں کے لیے نہیں ہو گا‘ امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے ہو گا۔

    حالات کی خرابی دخل اندازی کا موقع دے گی اور پھر رہے نام اللہ کا۔ مگر اس سے پہلے کہ بلوچ اور پشتون پاکستان سے علیحدہ ہوئے تو ان کا حشر یقینا اسے پرندے جیسا ہو گا جس کی تاک میں بلے‘ بھیڑیئے اور کتے ہوتے ہیں کہ پرندہ گھونسلے سے گرے اور وہ اسے دبوچ لیں۔ ایجنڈا صرف ایک ہے بلوچستا کو انگولا کی طرح پسماندہ اور خون خرابے میں گم رکھا جائے تا کہ یہاں پسماندگی بڑھے‘ تحریکیں چلیں اور ایک دن یہ پرندہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ یہ ایجنڈا خوب ہے لیکن اس کی کوکھ سے یہ خطہ ایسی جنگ کی طرف نکل جائے گا جس کے نتیجے میں بہت سے نقشے بدلیں اور بہت سی لکیریں مٹ جائیں گی۔

    حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے

    حصہ دوم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے

  • انٹر ڈسٹرکٹ سرکولر ریلوے پراجیکٹ، خیبرپختونخوا کے عوام سے ایک ظالمانہ مذاق – محمد اشفاق

    انٹر ڈسٹرکٹ سرکولر ریلوے پراجیکٹ، خیبرپختونخوا کے عوام سے ایک ظالمانہ مذاق – محمد اشفاق

    محمد اشفاق خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھیجی گئی 3 اگست کی رپورٹ کے مطابق کے پی کے حکومت نے پشاور، نوشہرہ، چارسدہ اور مردان کے درمیان 220 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی سرکولر ٹرین پراجیکٹ کے لیے چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ 1.6 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمت کی ایک یادداشت پہ دستخط کیے ہیں. مزید تفصیلات بھی پریس ریلیز میں موجود ہیں مگر ٹھہریے ذرا یہیں رک جائیے.

    کس کمپنی کے ساتھ، چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی یعنی CCCC کے ساتھ. برسبیلِ تذکرہ یہ وہی کمپنی ہے جسے ورلڈ بنک 2009ء میں فلپائن کے روڈز کنسٹرکشن کے ایک میگا پراجیکٹ میں (جسے ورلڈبنک فنانس کر رہا تھا) بےایمانی اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت ڈی بار کر چکا ہے. اب 2017ء تک یہ کمپنی ورلڈبنک کے فنانس کیے گئے کسی پراجیکٹ میں شریک نہیں ہوسکتی. چائنیز حکومت کی کوششوں سے 2011ء میں اس فیصلے کا دوبارہ سے جائزہ لے کر بھی ورلڈبنک نے اسے درست قرار دیا.

    اب جناب عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم سے پہلا سوال یہ ہے کہ 1.6 ارب ڈالر کا میگا پراجیکٹ سائن کرنے سے پہلے کیا انھوں نے کمپنی کی ساکھ اور عمومی شہرت کے بارے میں ذرا سی تحقیق کی زحمت بھی نہیں کی؟ جو معلومات اس عاجز کو پانچ منٹ گوگل سرچ کر کے مل گئیں، وہ ان کی لائق فائق انتظامیہ کو کیوں نہ مل سکیں؟

    اب کچھ اور آگے بڑھیے، پریس ریلیز میں مہیا کردہ اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ، مجوزہ روٹ اور دیگر تکنیکی معاملات پہ اب یہ کمپنی کام شروع کرے گی. پراجیکٹ کی فنانسنگ کا باقاعدہ معاہدہ اس کے بعد ہوگا.
    دوسرا سوال یہ ہے کہ حضورِ والا جب فزیبلٹی رپورٹ بنی ہے نہ روٹ طے ہوا ہے تو تخمینہ لاگت کیسے نکل آیا؟ آپ نے پوچھا کہ ٹرین چلانی ہے، خرچہ کتنا ہوگا؟ انہوں نے کہا جناب وہی جو اورنج لائن پہ پنجاب کا ہو رہا ہے؟ اب یہاں لامحالہ اورنج لائن میٹرو کا ذکر ہوگا، تو عرض کرتا چلوں کہ اس کی فزیبلٹی جانے کب کی بن چکی تھی بلکہ پراجیکٹ کے آغاز سے دو سال قبل دوبارہ کروائی گئی تھی. اس لیے اس کی لاگت کا تخمینہ کرنا بہت آسان تھا، جبکہ یہاں محض تھُوک میں پکوڑے تلنے پہ اکتفا کیا گیا ہے.

    ہمیں مژدہ یہ سنایا گیا ہے کہ اس سے چاروں مذکورہ بالا اضلاع کے شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات فراہم ہوں گی بلکہ اس کو صوابی تک بڑھانے کا آپشن بھی موجود ہے، نیز اسی کے تحت پشاور تا اسلام آباد بھی ایک تیزرفتار سروس چلائی جائے گی.
    تیسرا سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ پشاور تا اسلام آباد موجودہ ٹریکس پہ تو ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار پچاسی سے ایک سو پانچ کلومیٹر ہوتی ہے، نیز وہ ٹریک پاکستان ریلوے کی ملکیت ہے جو آپ کے اس منصوبے میں شریک ہی نہیں، تو اب آپ کیا پشاور تا اسلام آباد 220 کلومیٹر کی رفتار سے ٹرین چلانے کے لیے نیا ٹریک بچھائیں گے؟ لگ بھگ ڈیڑھ سو کلومیٹر پہ لگ بھگ چالیس فٹ چوڑائی کے حساب سے دو کروڑ سکوائر فٹ سے زیادہ اراضی درکار ہوگی، اس کی قیمت کا تخمینہ قارئین خود لگاتے رہیں.

    اب معاملہ یہ ہے کہ آپ پشاور صدر سے بائسیکل پہ سوار ہو کر نوشہرہ کو نکلیں تو بھی ایک گھنٹے میں اپنی منزل پہ پہنچ سکتے ہیں. پشاور سے آپ ایک گھنٹے سے بھی کم میں چارسدہ پہنچ سکتے ہیں اگر براستہ نوشہرہ نہ جائیں تو، اور اگر نوشہرہ سے چارسدہ جائیں تو بھی اٹھائیس کلومیٹر کا فاصلہ اتنے ہی وقت میں طے ہوگا. چارسدہ سے مردان بھی محض چالیس کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے. ان سب راستوں پہ ہزاروں پبلک و پرائیویٹ گاڑیاں ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہیں، سڑک بہترین ہے اور وقتا فوقتا مرمت ہوتی رہتی ہے. اگر آپ نے پشاور سے براہ راست مردان جانا ہو تو موٹروے کی بدولت یہ فاصلہ بھی محض ساٹھ منٹ کا رہ گیا ہے. اس سے زیادہ وقت آپ کو کارخانو مارکیٹ سے بالاحصار چوک تک پہنچنے میں لگ جاتا ہے. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا واقعی اس روٹ پہ 1.6 ارب ڈالر سے ٹرین چلانے کی ضرورت ہے؟ یہ چوتھا سوال ہے.

    پانچواں سوال یہ ہے کہ میٹرو اور اورنج لائن پہ ہم جیسوں کا سب سے بڑا اعتراض جس میں تحریکِ انصاف والے ہمارے ہمنوا تھے، یہی تھا کہ اتنی خطیر رقم اگر تعلیم اور صحت پہ خرچ کی جاتی تو پنجاب کی کایا پلٹ سکتی تھی، تو کیا خیبرپختونخوا میں سو فی صد شرح خواندگی اور سو فی صد آبادی کو طبی سہولیات کی فراہمی کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے جو آپ اربوں ڈالر سے بلٹ ٹرین چلانے چلے ہیں؟

    اب کچھ دوست کہیں گے کہ جناب اورنج لائن تو صرف ایک شہر میں چلائی گئی ہے جبکہ ہماری سرکولر ریلوے چار اضلاع کو ملائے گی، تو عرض یہ ہے کہ پشاور اور مردان کے اندر ٹریفک کا مسئلہ جتنا گھمبیر ہے، ان دونوں شہروں کے درمیان اس کا عشرعشیر بھی نہیں. آپ ایک جنگلا بس پشاور میں چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو دوسری مردان چلا لیتے. یہ چاروں اضلاع تو پہلے بھی ایسے باہم ملے ہوئے ہیں کہ ایسے کسی منصوبےکی ضرورت ہی نہیں تھی. پشاور سے نوشہرہ، نوشہرہ سے چارسدہ اور چارسدہ سے مردان کل فاصلہ 107 کلومیٹر بنتا ہے. آپ کو پشاور سے مردان ڈائریکٹ روٹ بھی دستیاب ہے، پشاور سے چارسدہ بھی، اور پشاور سے نوشہرہ بھی، گویا ٹرین چلے یا نا چلے عوام کو قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا.

    کہاں کے عوام کو فرق پڑتا ہے، اب یہ بھی سنتے چلیے. ہری پور سے بالاکوٹ کا فاصلہ 102 کلومیٹر، اپروچ صرف ایک روٹ سے ممکن، سیاحتی علاقہ، شاہراہ قراقرم کا حصہ اور انتہائی گنجان آباد ہونے کے سبب واحد ہائی وے پر بے تحاشا رش، ہری پور سے ایبٹ آباد کے انتالیس منٹ رش آورز میں گھنٹوں پہ محیط ہوجاتے ہیں، اسی طرح ایبٹ آباد سے مانسہرہ رش کے اوقات میں جانا کتنی بڑی دردسری ہے یہ بھی وہاں جو ایک بار بھی گیا ہو اسے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے. سیاحت کے سیزن میں وہاں کے حالات ہم اسی عید پہ ایک بار پھر دیکھ آئے ہیں

    آپ کہیں گے کہ سیاست کے سینے میں دل کہاں. یہ بھی بجا فرمایا حضور، مگر آئیے کوشش کرتے ہیں یہ دیکھنے کی کہ بطور ایک سیاسی منصوبے کے بھی اس کے خان صاحب اور ان کی جماعت کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے تھے.
    ایک یہ کہ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ آبادی کے ہزارہ ڈویژن میں کے پی کے حکومت کے خلاف کئی تحفظات پائے جاتے ہیں، علیحدہ صوبے کےلیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد بھی موجود ہے. یہاں ووٹ بھی نون لیگ اچھے خاصے کھینچ کے لے جاتی ہے اور تین سال میں ایسا لگ رہا تھا کہ اگلے الیکشن میں ہزارہ ڈویژن خان صاحب کی جماعت کے ہاتھوں سے مکمل نکل سکتا ہے. خان صاحب کی جانب سے اس ایک منصوبے کا اعلان ہوا کا رخ ان کے حق میں بدل سکتا تھا. یہ وہ منصوبہ ہوتا جو نون لیگ ہزارہ کے عوام کو دینے میں ناکام رہی. جبکہ یہ ان کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ انھیں ایک متبادل راستہ بھی دیا جائے.
    دوم یہ کہ ہری پور سے بالاکوٹ تک چلنے والی ٹرین سے سیاحت کو بے پناہ فروغ حاصل ہوتا اور منصوبے کی لاگت بہت کم وقت میں وصول ہو جاتی.
    تیسرا یہ کہ جنگلوں، ندیوں، آبشاروں اور دریاؤں سے گزرتی یہ ٹرین بجائے خود بہت بڑی ٹورسٹ اٹریکشن ثابت ہوتی اور دنیا کے خوبصورت ترین ریلوے ٹریکس میں اس کا شمار ہوتا. یہاں جو اصحاب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس علاقے میں ریلوے ٹریک بچھانا ناممکن یا بہت زیادہ دشوار ہے یا منصوبے کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی، ان سے عرض ہے کہ حضور! عمر گزری ہے انھی پہاڑوں کی سیاحی میں. آپ خٹک صاحب کے مشیرِ خصوصی برائے ٹرانسپورٹ جنہوں نے اس یادداشت پہ دستخط فرمائے ہیں، کو میرے ساتھ بھیج دیجیے، یہ عاجز ہری پور سے مانسہرہ تک انھیں خود ایسے روٹ کی نشان دہی کروا سکتا ہے جہاں ٹریک بچھانا ایسا ہی ہے جیسا پوٹھوہار ریجن میں.
    چوتھا, آخری اور سب سے بڑا فائدہ پتہ ہے کیا تھا؟ چھوٹے میاں صاحب نے کمال چالاکی و مہارت سے اورنج لائن کو زبردستی سی پیک منصوبے میں شامل کروا دیا جبکہ اس کی وہاں کوئی جگہ ہی نہیں بنتی تھی، جبکہ شاہراہ ریشم پہ، یعنی کہ سی پیک کے مرکزی روٹ پہ واقع اس منصوبے پہ تو چینی خود اش اش کر اٹھتے، کیونکہ سی پیک منصوبے پہ ایک بڑا اور وزنی اعتراض یہ بھی ہے کہ ریلوے ٹریکس روڈز کی نسبت زیادہ سستے اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں، ایسے میں یہ منصوبہ اگر ایک دو ارب ڈالر مزید بڑھا کر کے پی کے حکومت چلاس تک لے جاتی تو چینی اسے فنانس کر کے نہ صرف دعائیں دیتے عمران خان کو، بلکہ ریکارڈ وقت میں اسے مکمل کروا کر بھی دکھاتے. اس ایک منصوبے سے خیبرپختونخوا کی کایا پلٹ جاتی. ملکی سطح پہ بھی خان صاحب کی دوراندیشی، وژن اور تدبر کی دھاک بیٹھ جاتی، ایک ہاتھ سے پھسلتا ہوا ڈویژن ان کی جھولی میں آ گرتا اور چونکہ ہزارہ میں سب سے زیادہ سیاح پنجاب سے آتے ہیں تو اہلِ پنجاب اس منصوبے پہ رشک کرتے اور اگلے الیکشن میں یقینا خان صاحب سے بہتر سلوک کرتے، مگر ظاہر ہے کہ جو خوبیاں ان میں سرے سے ناپید ہیں، ان کی دھاک بھلا کیونکر بیٹھے.

    آخری تجزیے میں یہ بیکار، پھسپھسا اور احمقانہ فیصلہ صرف الیکشنز اور اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کہ عوام محض نمائشی اقدامات پہ ووٹ دیتے ہیں. گزشتہ الیکشن کے بعد جس صوبے کے عوام کو پنجاب کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار اور بالغ نظر قرار دیا گیا تھا، گویا اب انھی کو بیوقوف سمجھنے کی غلطی کی جا رہی ہے.
    گویا تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ نون کی حکمت عملی کو اپنا لیا.
    گویا شہباز شریف اور عمران خان کے وژن میں بال برابر فرق بھی نہ رہا.
    گویا اب بھوکے ننگے عوام کو دو بڑے صوبوں میں ٹرین کے جھولے دے کر بہلایا جاتا رہے گا.
    چھٹا، آخری اور بہت گھسا پٹا سوال خان صاحب سے یہ کہ جناب وہ تبدیلی کیا ہوئی جس کا آپ وعدہ کیا کرتے تھے؟

    ہر گزرتے دن کے ساتھ بدقسمتی سے یہ ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ خان صاحب سر سے پاؤں تک ایک روایتی سیاستدان ہی ہیں اور مزید بدقسمتی یہ کہ دستیاب قیادت میں وژن کے لحاظ سے بدترین بھی