Tag: نکاح

  • قبل از نکاح بلڈ سکریننگ بل – رضوان اسد خان

    قبل از نکاح بلڈ سکریننگ بل – رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان رشید ایک مزرود پیشہ آدمی ہے. دیہاڑی لگ گئی تو ٹھیک ورنہ فاقہ. گاؤں کے عمومی رواج کے مطابق اس کی شادی اس کی خالہ زاد بہن سے کر دی گئی تھی جو کہ پیدائش سے ہی اس کی “منگ” تھی. پہلا حمل تیسرے ماہ میں ہی ضائع ہوگیا. دوسری بار میں اللہ نے چاند سا بیٹا دیا. پورے خاندان نے خوب خوشیاں منائیں. 6 ماہ تک بچہ خوب پھلا پھولا اور ہر ایک کی آنکھ کا تارا بنا رہا. پھر اس کی ماں نے محسوس کیا کہ اس کا رنگ دن بدن پھیکا پڑتا جا رہا ہے. گاؤں کے ڈاکٹر کو دکھایا، اس نے چند شربت لکھ دیے پر افاقہ نہ ہوا. پھر جب اس کا پیٹ بھی بڑھنا شروع ہو گیا اور رنگ پیلا پھٹک پڑ گیا تو والدین کو تشویش ہوئی اور شہر کے بڑے ہسپتال لے گئے. ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو اس کے چہرے کے تاثرات کچھ بدل سے گئے. اس نے کچھ مہنگے ٹیسٹ لکھ دیے کہ یہ کروا لائیں، ان کے بعد ہی مرض کی تشخیص ہو گی؛ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس کے جسم میں خون کیوں نہیں بن رہا. جیسے تیسے رشید نے مشہور اور مہنگی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائے تو ڈاکٹر صاحب نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ ان کے چاند کو “تھیلیسیمیا” جیسا موذی مرض ہے اور یہ کہ اس کی زندگی کا دار و مدار اب مسلسل انتقال خون پر ہوگا. ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہ موروثی بیماری ہے اور کزن میرج سے اس کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے. مزید یہ کہ اگلے ہر حمل میں بڑے ہسپتال سے لازمی چیک اپ کروائیں. گاؤں میں گھر والوں کو پتہ چلا تو ڈاکٹر پر دو حرف بھیجے اور بچے کو پیر صاحب کے پاس دم کروانے لے گئے. اگلے چند دنوں میں جب بچہ آخری سانسوں پر آ گیا تو پھر شہر کو دوڑے جہاں چار بار خون لگا تو تب جا کر بڑی مشکل سے جان بچی. اگلا حمل بھی گاؤں کی جدی پشتی ماہر دائی کی زیر نگرانی گزرا. اس بار بھی بیٹا ہوا. مگر وائے قسمت،….. نہیں، بلکہ وائے حماقت، یہ بچہ بھی 6 ماہ کی عمر میں پیلاہٹ کا شکار ہوا اور بالآخر “تھیلیسیمیا” کا مریض نکلا.

    یہ اکیلے رشید کی کہانی نہیں بلکہ وطن عزیز میں سالانہ 8000 ‘رشیدوں’ کے گھر کزن میرج اور حمل کے دوران نامکمل چیک اپ اور سب سے بڑھ کر ‘جہالت’ کی بدولت اس موذی مرض میں مبتلا بچے پیدا ہو رہے ہیں. ان بچوں کو اور ان کے والدین کو پھر باقی عمر علاج کے سلسلے میں جس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک الگ المیہ ہے. اور جس گھر میں دو بچے تھیلیسیمیا کے ہوں، ان کی کسمپرسی کا میں اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.

    حال ہی میں پنجاب حکومت نے ایک نہایت مستحسن اقدام کے تحت تھیلیسیمیا کی سکریننگ اور علاج کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا تھا اور کئی شہروں میں اس ادارے کے دفاتر قائم کیے گئے. لیکن انگریزی کہاوت ہے “Prevention is better than Cure” یعنی اسباب کا سد باب علاج سے بہتر ہے. اسی سمت درست قدم اٹھاتے ہوئے حکمران جماعت کے سینیٹر چوہدری تنویر خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ایسا بل پیش کرنے جا رہے ہیں جس کے مطابق نکاح سے قبل لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے خون کے سکریننگ ٹیسٹ کروانے لازم ہوں گے جن سے ہیپٹائیٹس، ایڈز اور تھیلیسیمیا جیسے موذی امراض کی قبل ازوقت تشخیص اور اگلی نسل میں ان کی منتقلی کو روکنے میں سہولت ہو گی. ان ٹیسٹوں کے بغیر نکاح رجسٹرار نکاح نامہ جاری نہیں کر سکے گا.

    میڈیکل حلقوں سے اس قسم کی قانون سازی کے لیے بڑے عرصے سے مطالبات جاری تھے. حالیہ اقدام سے اس جانب اہم اور مثبت پیش رفت ہوگی. واضح رہے کہ کئی مفتیان نے حمل کے پہلے تین ماہ کے اندر بچے میں تھیلیسیمیا کی تشخیص کی صورت میں اسقاط حمل کے جواز کا فتوی دے رکھا ہے. البتہ یہ اقدام اس لحاظ سے اہم ہے کہ نہ ایسے حمل ہوں اور نہ ان کے اسقاط کی نوبت آئے.

  • مجموعہ گناہ ہے شادی آج – محمد عمیر اقبال

    مجموعہ گناہ ہے شادی آج – محمد عمیر اقبال

    عمیر اقبال بزرگوں سے سنا تھا کہ ان کے زمانے میں شادیاں اتنی سادگی سے ہوتی تھیں کہ اس کی مثال عصر حاضر میں ملنا تو درکنار تصور بھی محال ہے۔ اس تصور کا فقدان ہی اتنا بڑا جرم ہے جس کی پاداش میں آج کم و بیش پوری قوم ایک شدید مصیبت سے دوچار ہے۔ احقر اس مسئلہ کے حل کے لیے کچھ معروضات پیش کرے گا، لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ایک دو عبرت انگیز اور افسوس ناک واقعات ملاحظہ کر لیے جائیں:

    بھائی صاحب! زکوۃ کی رقم کی مد میں آپ کچھ مدد کردیجے۔
    خیریت کیا مسئلہ درپیش ہے؟
    مکالمے کی ابتداء سلام دعا کے بعد کچھ اس قسم کے الفاظ سے دو باہم شناسا نوجوانوں کے درمیان ہوئی۔
    آگے سنیے! خالہ کی بیٹی کی شادی ہے فلاں تاریخ کو، میرے پاس جو رقم تھی وہ دے دی ہے، لیکن ابھی بھی کسر باقی ہے، اگر آپ تعاون کردیں تو آسانی ہوجائے گی.
    تعاون میں کوئی حرج تو نہیں لیکن اگر ان پیسوں کو مہندی، مایو، خورا، ڈھولک اور اس جیسی لایعنی اور غیر ضروری رسومات میں خرچ کیا تو خود سوچیے اس سے بہتر تو یہ تھا کہ اصل حق دار اس رقم سے چند دنوں کے لیے ہی سہی، اپنی بنیادی ضروریات پوری کرلیتے۔
    نہیں نہیں بھائی جان! ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اصل میں لڑکی والوں نے نکاح والے دن مہمانوں کو کھانا کھلانا ہے۔ بے چارے غریب لوگ ہیں اتنی استطاعت نہیں رکھتے، اس لیے مانگنے کی نوبت آ پہنچی ہے۔
    اس کی آخری بات سے نوجوان سوچ میں پڑ گیا اور بالآخر مدد نہ کرنے کا فیصلہ کرکے اگلی ملاقات میں اس کو انکار کرنے کا تہیہ کر لیا۔ مگ ٹھہریے! اتنی جلدی اس پر سنگ دل ہونے کا دعوی نہ کیجیے۔ ابھی بات مکمل کہاں ہوئی ہے۔ ایک اور خون جلانے والا واقعہ آپ کا منتظر ہے:

    شب عروسی کے لباس میں دلہن بنی وہ بھولی بھالی لڑکی خوشیاں منانے اور اپنی نئی زندگی کے حسین خواب دیکھنے کے بجائے کسی گہرے کرب و فکر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کی ہم جولیاں اس کو مسلسل حوصلہ دینے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!
    میں اس وقت کم سنی کے دور میں تھا،جب میں نے اپنے بڑوں سے اس مجبور لڑکی کی بپتا سنی۔ غربت نے چاروں طرف ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ عمر ڈھلتی جارہی تھی۔ دور دور تک کوئی مناسب جوڑ نظر نہیں آرہا تھا۔ آخر ایک طویل انتظار کے بعد ایک اچھا رشتہ مل ہی گیا۔ جہیز کیے نام پر لباس، زیورات اور دوسری ضروریات کا معقول انتظام گھر سے ہی ہوگیا۔ لیکن ابھی ایک معرکتہ الآراء مسئلہ باقی تھا اور وہ تھا باراتیوں کو کھانا کھلانا۔

    مجھے یاد پڑتا ہے کہ کراچی کے ایک دور دراز علاقے میں ہال کی بکنگ اور کھانے سمیت کل خرچہ ایک لاکھ بیس ہزار یا اس سے کچھ اوپر بنا۔ اس مسکین لڑکی کی شادی کے لیے یہ پیسہ کیسے جمع کیا گیا، یہ بتانے کا حوصلہ نہیں مگر حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ اس رقم کا اکثر حصہ صدقہ خیرات اور زکوۃ پر مبنی تھا۔ لوگوں کے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے بریانی، بوتلیں اور دیگر لوازمات رکھے گئے۔ مگر اس کے باوجود اپنی نئی حیات کا آغاز کرنے والی وہ دنیا کے جھمیلوں میں الجھی ہوئی معصوم لڑکی اس غم میں ہلکی ہوئی جارہی تھی کہ اگر کھانا کم پڑگیا اور اسے ہضم کرنے کے لیے مہمانوں کو سبز قہوہ نہ ملا تو میری عزت کا کیا ہوگا؟ ایک دوشیزہ کے ہاتھ پیلے ہونے کا یہ روح فرسا واقعہ جب میں نے بچپن میں اہل خانہ سے سنا تو اس ناسمجھی کی حالت میں بھی چونکے بغیر نہ رہ سکا۔

    مجھے یقین ہے کہ آپ کا چند منٹ پہلے کا وہ غصہ جو سائل کو ٹرخادینے کی وجہ سے نمودار ہوا تھا، رفو چکر ہوگیا ہوگا۔ یہ دو حقیقی واقعات ذکر کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ کس طرح دنیا داری نبھانے کے چکر نے لڑکی اور لڑکی والوں کو کس مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگر صرف مالی امداد کر دینے سے مسئلہ حل ہوجاتا تو اس پر کسی کو کیا اشکال؟ لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک غیر ضروری اور غیر شرعی رسم کو پورا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا لڑکی والوں کا کھانا کھلائے بغیر نکاح حرام ہوتا ہے؟ یا یہ کوئی نازل شدہ فرمان ہے جس پر عمل کیے بنا اور کوئی آپشن نہیں۔ آپ کہیں گے یہ معاشرت ہے، مانا معاشرت ہے مگر شریعت تو نہیں! اور معاشرت بھی تو ہم افراد سے مل کر ہی بنتی ہے۔ معاشرے کا تانا بانا بھی تو ہمارے ہی ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ جتنا چاہے الجھادیں، جتنا چاہے سلجھادیں۔ والدین شاید کہیں گے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی بیٹی کو دھوم دھام سے رخصت کریں اور تو اور لڑکی کی بھی یہی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی شادی ایک یادگار کے طور پر لوگوں کے ذہنوں پر نقش رہے۔ مگر آپ نے کبھی یہ سوچا کہ اس پل دو پل کی خواہش کی تکمیل کے لیے کتنی غریب بچیوں کی شادیاں جوئے شیر لانے کے برابر ہوگئی ہیں ۔ لاشعوری طور پر lower class کے لیے بھی اسی طرح کا نہیں تو اس سے کم پیمانے پر ہی نکاح کی تقریب کا انتظام و اہتمام واجب ہوجاتا ہے۔آپ نے تو اپنے ارمان جی بھر کر پورے کر لیے لیکن وہ غریب جسے اپنی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں، وہ سو دو سو لوگوں کے کھانے کا انتظام کہاں سے کرے گا؟ پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو وہ زمانے کے اس قبیح دستور کا حصہ نہ بن کر لعنت ملامت اور تھرڈ کلاس تبصروں کا شکار ہوں، یا قرض اور چندہ وغیرہ جمع کرکے خود کو لوگوں کے احسان کے بوجھ تلے دبالیں اور اپنی ہستی بستی زندگی اجیرن کرلیں۔

    لہذا اے اہل ثروت! اس بگڑی ہوئی صورت حال پر آپ ہی کو قابو پانا ہے۔تقریبات کا دائرہ محدود کرنے میں آپ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بیٹی کی خوشیوں میں اپنے پیاروں کو شریک کرنا ہر ماں باپ کا ارمان ہوتا ہے۔ لیکن گزارش بس اتنی ہے کہ دکھاوے سے دونوں طرف سے اجتناب کیا جائے۔ اس تقریب کو اتنی حیثیت نہ دی جائے کہ نہ کرنے کی استطاعت یا ارادہ رکھنے والا لوگوں کی طعن و تشنیع کی زد میں آئے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ اور سادگی ہو. حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، نے اپنی دعوتِ ولیمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے کپڑے پر خوشبو کا پیلا رنگ دیکھ کر اندازہ لگایا اور پوچھا کہ شاید تم نے نکاح کر لیا ہے، لیکن ذرہ برابر ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا کہ مجھے ولیمے میں نہیں بلایا۔ بتائیے! یہاں تو ولیمے جیسی عظیم سنت کو سادگی سے کرنے کی ترغیب دی جارہی ہےاور ہم کیا کرتے ہیں، اللہ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

  • غیرت کے نام پر قتل شیطانی فعل کیوں؟ اکرام اللہ اعظم

    غیرت کے نام پر قتل شیطانی فعل کیوں؟ اکرام اللہ اعظم

    انسان کا قتل کسی بھی معاشرے میں قابلِ قبول عمل نہیں ہے، اس کے باوجود ہر معاشرے میں اس کا وجود ثابت ہے۔ دنیا کے تمام قوانین قتل کو سب سے بڑا جرم مانتے ہیں اور اس کی سزا بھی سب سے سخت تجویز کرتے ہیں۔ ہابیل اور قابیل سے چلنے والا یہ سلسلہ نہ صرف ہنوز جاری ہے بلکہ آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ قتل کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے غیرت ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مسئلے کے تدارک کے لیے اس کی وجہ تلاش کرکے اس کو ختم کرنا چاہیے۔ اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کی وجہ جانے بغیر اس پر بات کرنا ہوا کو وٹے مارنے کے مترادف ہوگا۔

    قتل کی یہ قسم آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی بڑھ رہی ہے لہذا اس کے بڑھنے کی دیگر نسبتوں کو بھی دیکھنا ہوگا ۔

    ا۔ رابطے کی آسانی :
    ماضی قریب تک رابطے کے وافر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب نہ تھے۔ جتنی باتیں ایک صفحے کے خط میں لکھی جا سکتی تھی، اب اس سے کہیں زیادہ ایک برقی مراسلے میں کی جا سکتی ہیں۔ خط کے ساتھ جڑی مشکلات کو بھی جدید ذرائع نے ختم کر دیا۔ خط پہنچانا اور اس کا پکڑا جانا ایک بڑا مسئلہ ہوتا تھا اور پھر اسے چھپا چھپا کر رکھنا اور پڑھنا، سوشل میڈیا اور چیٹنگ کی سہولت نے وہ خوف ختم کر دیا ہے. پرانا ٹیلیفون جس کے بل پر رابطے کے سارے نمبر چھپ کر آ جاتے تھے جو یقیناََ مخرب اخلاق رابطوں کی نگرانی میں معاون ہوتے تھے، وہ بھی موبائل فون کی بدولت معدوم ہو گئے۔ ان تمام تر آسانیوں نے جہاں جائز رابطوں میں انقلاب برپا کیا وہیں ناجائز رابطوں اور تعلقات کی راہ بھی آسان تر کردی۔ یہ معاشرتی بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    ب۔ میڈیا :
    ریڈیو، اخبار اور ٹیلیویژن خبر کے بہترین ذرائع ہوا کرتے تھے۔ ہلکی پھلکی تفریح جس سے گھر کے سب افراد ایک ساتھ بیٹھ کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے، ریڈیو اور ٹیلیویژن کی خوبصورتی ہوا کرتی تھی۔ پھر سیٹیلائٹ چینلز کی بھرمار اور بےہودگی کا سیلاب آ گیا۔ عشق، محبت، افیئرز اور بے حیائی کو جس طرح سکرین پر دکھایا گیا گیا، اس نے سب سے پہلے تو ایک مرکزی ٹی وی سکرین کو تقسیم کرکے اس کا ایک ایک ٹکڑا ہر کمرے میں پہنچا دیا اور دوسرا تنہائی کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے کچے ذہنوں میں جو شیطانی فصل بوئی، اس کے لہلہاتے کھیت آج ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پر انٹرنیٹ اور سمارٹ فون نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

    ج۔ قانون :
    عالمی قوانین میں جس پیمانے پر بے حیائی کی پذیرائی کی گئی اس کی مثال ماضی میں ملنا ناممکن ہے۔ ناجائز اختلاط کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی جیسے مکروہات کو بھی قانونی چھتری فراہم کر دی گئی۔ ایسے گند کے کئی چھینٹے ہمارے ہاں بھی پڑے اور مساوات، انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے نام پر بےحیائی کی کئی شکلوں کو قانونی حیثیت مل گئی۔ معاشرتی ابتری میں ان آسانیوں نے ایک اہم اور خطرناک کردار ادا کیا۔

    د۔ تربیت کی کمی:
    والدین کے لیے بچوں کی تربیت پہلے ہی ایک مشکل کام ہوا کرتا تھا جسے موجودہ افرا تفری اور شیطانی ہتھکنڈوں کی بھرمار نے تقریباََ ناممکن کر دیا ہے۔ اب معاشرے میں اپنا مقام قائم رکھنے کے لیے والدین کو زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا پڑتا ہے اور اسی طرح تعلیم کے نام پر بھی بچوں کو زیادہ تر گھر سے دور رہنا پڑتا ہے جس کے اچھے ثمرات کے ساتھ ساتھ مضر اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

    ح۔ مذہب سے دوری:
    جس طرح آج کے معاشرے میں مذہب کو حرف غلط باور کرایا جا رہا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ مذہب اور اس کے شعائر کو مذاق بنا کر نوجوان نسل کو مذہب سے دور کیا جا رہا ہے۔ جس کے دیگر بد اثرات کے ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری، پاکیزگی، شرافت اور حیا بھی سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔

    و۔ شادی میں مشکلات:
    اگرچہ مقامی رسم و رواج پہلے بھی شادی میں تاخیر کا سبب بنا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سختی میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی نے جہیز، گھر، گاڑی اور سٹیٹس کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو شادی جیسے مبارک رشتے سے کافی دور جا کھڑا کیا ہے۔ اور اسی بعد کا فائدہ اٹھا کر شیطان نے اوپر بیان کیے گئے تمام ذرائع بروئے کار لاکر زنا کا راستہ آسان بنا دیا ہے۔

    ز۔ معاشرتی منافقت:
    ان تمام حالات نے جہاں ہماری بہت سی دیگر اخلاقی اقدار کا قتل کیا وہیں ہمیں مجموعی طور پر منافق بنا دیا۔ ہم نے مغرب کی ان “سہولیات” کا خیرمقدم تو کھلی بانہوں سے کیا لیکن اس کے ذیلی اثرات کو کھلے دل سے قبول کرنے کے بجائے اپنی نام نہاد “غیرت” کا ہوا کھڑے کیے رکھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی جمے ہوئے مکھن کا برتن آگ پر رکھ کر یہ امید رکھے کہ مکھن پگھلے گا نہیں۔ اس سوچ کو بدترین منافقت کہا جا سکتا ہے۔ آج جس طرح مغربی معاشرہ بےراہ روی کا شکار ہے وہ تمام حالات اگر ہم نے قبول کر لیے ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنی “غیرت ” کو بھی اسی مغربی نہج پر لے آئیں جہاں والدین کی ذمہ داری صرف اولاد کو پال پوس کر تعلیم دلوانا اور ان کے بالغ ہوتے ہی ان کی مادر پدر آزادی قبول کرنا ہے، اب وہ جو مرضی گل کھلاتے پھریں، والدین انھیں روکنے ٹوکنے کے روادار نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے بےراہ روی کی فصل بو کر، اسے بے حیائی سے سینچا لیکن کاٹتے ہوئے یہ امید رکھی کہ مشرقی اقدار اور اخلاق کا زریں پھل گھر آئے گا۔

    اس نقطے پر جاگی ہوئی بےکار غیرت ہمیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے، اور قتل جیسے قبیح گناہ کا ارتکاب کرواتی ہے۔ لہذا بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایسی صورتحال میں غیرت کے نام پر قتل بھی ایک شیطانی فعل ہے جس سے سوائے شیطان کی خوشنودی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جو اس کی مذمت کرتے ہیں اگر وہ اپنے اس اقدام میں مخلص ہیں تو انھیں چاہیے کہ ان تمام پہلوؤں کی اصلاح پر بھی میدان میں آئیں۔ ورنہ یہ بھی ایک عظیم منافقت ہی ہو گی کہ جڑوں کی بجائے پھل کو کوسا جائے۔

  • طلاق کا بڑھتا رحجان – سحر فاروق

    طلاق کا بڑھتا رحجان – سحر فاروق

    سحر فاروق ایک اخبار میں سٹی کورٹ کی تصویر کے ساتھ یہ کیپشن درج دیکھا کہ سٹی کورٹ میں طلاق کے رجسٹرڈ کیسسز کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی ہے، یہ پڑھ کر دل پر منوں وزنی بوجھ محسوس ہوا کہ اف خدایا یہ ہمارا معاشرہ کس نہج پر گامزن ہوگیا ہے کہ خدا کو مبغوض ترین فعل کے ہم کتنی دیدہ دلیری سے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پھر ٹی وی پر دکھائے جانے والے بچوں کی ماں یا باپ کو حوالگی کے مناظر بھی ذہن میں گردش کرنے لگے اور دکھ کی ایک لہر نے گویا جکڑ لیا کہ خاندانی نظام کا واحد حصار بچا ہے جس کے ہم اپنے ناعاقبت اندیش فیصلوں کے سبب خود ہی دشمن بن رہے ہیں۔

    کسی ایک فریق کو ذمہ دار قرار دینا عقل مندی کا تقاضا نہیں ہو سکتا، پھر وہ کون سے عوامل ہیں جو نتائج اتنے بھیانک سامنے آرہے ہیں؟ ایک جوڑے نے مختلف العقیدہ ہونے کے باوجود محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر شادی کی۔ دو سال اچھے گزرے اور اب اولادکے عقائد اور ان کی مذہبی تربیت کی وجہ سے بات علیحدگی تک جا پہنچی ہے کیونکہ ماں اور باپ دونوں ہی بچے کواپنے عقیدے کا پیروکار بنانا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں ممکنہ طور پر پیش آنے والا یہ سنجیدہ مسئلہ اس قابل تھا کہ سوچ بچار اور کسی نتیجے پر پہنچ کر ہی شادی جیسے مقدس بندھن کا آغاز کیا جاتا لیکن محض جذبات کی رو میں بہہ کر کیا جانے والافیصلہ ایک خاندان ٹوٹنے پر منتج ہوا.

    اگر ہم اپنا جائزہ لیں، اپنے رویوں کو پرکھیں، کسی وقت کسی رسالے میں پڑھی گئی لو اسٹوری کو اپنے ذہن کے پردوں میں پھر سے فرض کریں، جذبات، احساسات اور رومان کی چاشنی کا تڑکہ بھی لگا لیں کہ کس ایک متوسط خاندان کا چشم و چراغ اپنی سفید پوشی کے بھرم کے ساتھ پڑھائی اور خاندان کی کفالت کو جاری رکھتے ہوئے کسی پری وش پر دل ہار بیٹھتاہے، اپنے محسوسات کی ترسیل کا مناسب انتظام کرتا ہے اور بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے. خیر خواہ اور ہمدرد دونوں کو معاشرتی حیثیت کا فرق سمجھاتے ہیں، آئندہ پیش آنے والے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا، الٹا سمجھانے والے ظالم سماج ٹھہرتے ہیں. ہم میں سے اکثریت اس فرضی کہانی میں بھی چاہتی ہے کہ اختتام اچھا ہو اور دونوں کسی طرح مل جائیں. اگر پوچھیں کیوں؟ جواب ملے گا’’ کیونکہ محبت ہے دونوں کے درمیان‘‘. یہی سوچ اور حقائق سے دانستہ نظریں چراتی فکر ہمارا المیہ بن چکی ہے اور معذرت کے ساتھ اگر یہاں دکھایا جاتا کہ دونوں نے خاندان سے کٹ کر بھی اپنی محبت کو پا لیا تو ایک تعداد اس کو بھی سراہنے کے لیے موجود ہوگی. ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے’جز‘ کو ’کل‘ سمجھ لیا ہے۔ محبت جیسے سچے اور پاکیزہ احساس سے انکار نہیں لیکن یہ ’’مکمل زندگی‘‘ نہیں، زندگی کا ایک ’جز‘ ہے، اور جہاں کسی ایک شے یا جزبے کے پیچھے پوری زندگی تج دینے کا فیصلہ کیا جائے گا، بگاڑ یہیں جنم لے گا۔

    اصل اور حقیقی زندگی اس جملے کے بعد شروع ہوتی ہے کہ’’پھرشہزادہ اور شہزادی ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے‘‘. ہمارا ٹی وی، فلم، ڈرامہ ہو یا رسالہ جات، محبت کو پا لینا ہی کامیابی دکھاتے ہیں، مگر جب کسی جمیلہ و مہرالنساء پر زندگی اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ آشکار ہوتی ہے تو وہ محبت جس کے لیے وہ سب قربان کر آئی تھی، بےوقوفی لگتی ہے. اسی طرح وہ راشد ماجد اپنے مسائل سے بےحال بکھرے بالوں کے ساتھ محبوبائوں کو دیکھ کر منٹ نہیں لگاتے اپنی محبت کا خمار اتارنے میں. وہ تمام فرق جنہیں وہ جان بوجھ کر نظر انداز کر آئے تھے، اہم لگنے لگتے ہیں، نتیجہ علیحدگی۔ بس اتنی سی کہانی ہے۔

    یہ جذبہ اتنا سستا نہیں ہے جتنا کہ ہم نے بنا دیا ہے. محبت کریں اور کروائیں اس وقت جب نبھا سکنے کا ظرف ہو۔ فرق چاہے ذات برادری کا ہو، معاشی حیثیت کا ہو یا کوئی اور مٹایا جا سکتا ہے لیکن اس صورت میں جب برداشت کا عنصر موجود ہو لیکن بدنصیب اور بد قسمت معاشرہ ہمارے ہاتھوں ہی عدم برداشت کا شکار ہے، آپ بھی اسی کا حصہ ہیں آپ بھی نہیں کرتے برداشت تو مزید بگاڑ کا سامان بھی نہ کریں. اس بے رحم معاشرے کے ہاتھوں میں broken family کے حساس بچوں کی تعداد نہ بڑھائیں. بات بہت دور جا نکلے گی. ابھی سے سنبھال لیجیے

  • شادی ایک اہم فیصلہ، کیسے کریں؟ زمان خالد

    شادی ایک اہم فیصلہ، کیسے کریں؟ زمان خالد

    زمان خالد زندگی میں دو فیصلے بڑے اہم ہوتے ہیں، ایک کون سا پیشہ اپنایا جائے، دوسرا شادی کس سے کی جائے. دونوں فیصلوں کا اثر طویل مدت کا ہوتا ہے اور پوری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ پیشے کا فیصلہ اہم تو ہے لیکن اس معاملے میں غلطی کی اصلاح کی گنجائش موجود رہتی ہے، پیشے بدلنے کے مواقع آتے رہتے ہیں، مگر شادی کا فیصلہ غلط ہو جائے، تو یہ باقی زندگی کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے، کہ ساری زندگی اس کے ساتھ گزارنی ہے. معاشرے میں دوسری شادی کرنا بھی آسان نہیں ہے، بالعموم یہ بس ایک دفعہ ہی ہوسکتی ہے. برادری سسٹم ہے، طلاق کی صورت میں بدنامی ہوتی ہے، گلی محلے میں چلنا پھرنا دشوار ہو جاتا ہے، رشتہ دار ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، قتل تک بھی نوبت آ جاتی ہے. اب بھی بہت سارے ایسے علاقے موجود ہیں جہاں منگنی یا شادی ٹوٹنے پر بندوق نکل آتی ہے. شادی کے بعد اگر جلدی بچے ہو جائیں تو پھر اس رشتہ کو باقی رکھنا مجبوری بن جاتا ہے. اس لیے یہ فیصلہ زندگی کا سب سے مشکل اور انتہائی اہم فیصلہ ہے. اب جبکہ شادی ہونی ہی ایک دفعہ ہے تو اس فیصلے میں نہایت احتیاط برتنی چاہیے. اس حوالے سے درج ذیل نکات کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے.

    1. شادی کےلیے کوئی عمر 15 سال یا 30 سال مختص نہیں ہے. دیکھنا یہ چاہیے کہ آیا لڑکا یا لڑکی وہ ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں؟ کیا ذمہ داریوں کی تفہیم ہے. اگر لڑکا یا لڑکی ذمہ دار نہیں ہے، تو اس کی عمر چاہے 30، 40 سال ہی کیوں نہ ہو، کامیابی کے چانسز کم ہوں گے۔ شادی دراصل ذمہ داریوں کا دوسرا نام ہے۔ ایک غیر ذمہ دار انسان کے ساتھ شادی تو شاید چل جائے مگر ایک خوبصورت تعلق نہیں بن سکے گا.

    2. والدین ہمارے لیے نہایت قابل احترام ہیں. بہت سارے فیصلوں میں ان کی مرضی شامل ہوتی ہے. لباس سے لے کر سکول تک، سائنس پڑھنی ہے یا آرٹس، انجنئیرنگ میں جانا ہے یا میڈیکل اختیار کرنی ہے، سب فیصلوں میں ان کی پسند کا خیال رکھا جاتا ہے. شادی کے معاملے میں بھی ان کی رائے اہمیت کی حامل ہے مگر اپنی سوچ و عقل کا بھی استعمال کریں. اسلام نے بھی آپ کو اپنی رائے کا حق دیا ہے. دیکھیں کہ والدین کس نقطہ نظر سے میرے لیے رشتہ سوچ رہے ہیں۔ اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں اور اپنا نقطہ نظر بتائیں. والدین کے ساتھ کبھی لڑائی مت کریں کیونکہ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ لڑائی کرنے سے کوئی مسئلہ حل ہوا ہو۔ ان کی رضامندی اس لیے بھی ضروری ہے کہ انھیں ناراض کرکے بندہ خوش نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ اور والدین کی مرضی کا اشتراک ہوجائے تو فیصلہ یقینا اچھا ہوگا.

    3. سیرت یا صورت؟
    ویسے تو سیرت کی بات کی جاتی ہے لیکن فیصلے کے وقت شروع صورت سے ہی کرتے ہیں۔ صورت کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اسے بہت زیادہ اہمیت دیں گے تو شاید یہ اچھا فیصلہ ثابت نہ ہو. کردار کو ترجیح نہ دینا پختہ سوچ کی علامت نہیں ہے، اور سوچ پختہ نہ ہو تو صحیح ٖفیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیرت اور کردار کو ترجیح دینے کی ہدایت فرمائی ہے

    4. صنف مخالف کی نفسیات سمجھیں
    مرد اور عورت کو اللہ تعالٰی نے بہت مختلف پیدا کیا ہے. دو نوں کی نفسیات، قول و فعل، سوچ و کردار، اظہار و انکار سب مختلف ہے. ذہنی تناؤ(Stress and tension) کے لیے دونوں کا رد عمل مختلف ہوتا ہے. اس تناظر میں دونوں کی نفسیات سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ غلط فیصلے کا امکان بڑھ جائے گا.

    5. جذبات اور حقیقت؟
    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ زیادہ خوشی یا غم کی حالت میں فیصلہ نہ کرو۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کل معاشرے میں محبت کے جذباتی رواج کی وجہ سے اکثر غلط فیصلہ ہو جاتا ہے. جذباتی ہونے کی صورت میں ذہن ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا۔ ایک ہی چوائس سامنے رکھنے سے کئی چیزیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں. حقیقت پسندانہ سوچ سے تصویر کے دونوں رخ سامنے آ جاتے ہیں اور اچھے ٖفیصلے میں مدد دیتے ہیں. نوجوان لڑکے لڑکیاں جذبات میں چاند ستاروں کے توڑنے اور مرنے کی باتیں کرتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، آج کل کوئی کسی کے لیے خلوص سے دعا نہیں کرتا، مرنا تو دور کی بات ہے.

    6. انڈین فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں.
    فلموں کا مرکزی خیال، لڑکی اور لڑکے کی محبت یا شادی ہوتی ہے، اور یہ زیادہ تر شادی سے پہلے کی کہانی پر مبنی ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر یہی دکھایاجاتا ہے کہ کس طرح لڑکا باقی لوگوں کی پٹائی کرکے لڑکی حاصل کرتا ہے، اس کی زندگی کا واحد اور سب سے بڑا مقصد لڑکی کو حاصل کرنا ہی ہوتا ہے. ولن بالعموم ہیروئن کا بھائی یا والد ہوتا ہے، اور ہیرو اسے مار کر لڑکی سے شادی کر لیتا ہے. ان سب باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے. کوئی عشق میں مبتلا ہو تو فلمیں اسے اور جذباتی بنا دیتی ہیں اور جذبات میں غلط فیصلہ ہو جاتا ہے. فلمی کہانیوں کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے. مثال کے طور پر یہ یہ کم ہی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد اس جوڑے کی کامیاب زندگی دکھائی گئی ہو حالانکہ اصل کہانی تو شادی کے بعد شروع ہوتی ہے

    7. مفت کے مشورے سے بچیں-
    عمومی طور پر مشکل فیصلہ کرتے وقت نزدیکی دوستوں سے مشورہ کیا جاتا ہے. اور دوست وہ ہوتے ہیں جنھیں ان معاملات کی سمجھ ہوتی ہے نہ وہ درست فیصلے میں کوئی مدد دے سکتے ہیں. مشورہ لینا لازمی ہو تو کسی دانا بندے سے لیں، جسے زندگی کی اونچ نیچ معلوم ہو.

    میرے خیال میں ان امور کا خیال رکھا جائے تو ایک اچھے جیون ساتھی کی تلاش میں آسانی اور بہتر فیصلے کی توقع کی جا سکتی ہے.

  • خرد کا نام جنوں – نسرین غوری

    خرد کا نام جنوں – نسرین غوری

    nasreen-ghori ہمارے معاشرے میں خاص کر شہری معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا الزام خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔
    شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اور معاہدے دو یا زائد فریقوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں ورنہ وہ معاہدے نہیں سمجھوتے کہلاتے ہیں۔ لہذہ شادی بھی ایک ایسا ہی معاہدہ ہے جو ایک مرد اور ایک خاتون کے درمیان برابری کی بنیاد پر طے ہوتا ہے اور اسے برابری کی بنیاد پر ہی جاری رہنا چاہیے۔ لیکن برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرے میں یہ معاہدہ شاذ و نادر ہی برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں شادی دراصل شوہر کی ہوتی ہے۔

    یہ ایک یک طرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں دوسرے فریق کا کام صرف پہلے فریق کا حکم بجالانا فرض کرلیا جاتا ہے۔ دوسرا فریق یعنی بیوی پہلے فریق یعنی شوہر کی download-131مرضی کے مطابق سانس لے گی، اس کے خاندان کی خدمت بجا لائے گی۔ اس کی جنسی ضروریات اس کی مرضی اور فریکوئنسی کے مطابق پوری کرے گی، اس کی اجازت سے لوگوں سے میل ملاقات کرے گی، اس کی مرضی اور اجازت کے مطابق ملازمت کرے گی یا نہیں کرے گی۔ گویا اس کی اپنی کوئی شخصیت ، مرضی یا ضروریات نہیں ہیں۔

    شادی جسے دراصل companionship یا ہمسفری ہونا چاہیے، ایک خوشی اور سکون دینے والے خاندان کی بنیاد ہونا چاہیے۔ دراصل آقا اور غلام کا رشتہ بنا دی گئی ہے جس میں غلام اگر آقا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو ٹھیک ورنہ ۔۔ ۔ ارے بھائی اگر ایسا ہی ہے تو شادی کیوں کرتے ہو، ایک کتا پال لو، سارے حکم بجالائے گا ، ساتھ میں دم بھی ہلائے گا اور سامنے پیروں میں لوٹنیاں بھی لگائے گا۔

    بہت ساری خواتین بلکہ خواتین کی اکثریت ایسی ہی شادی کے رشتے میں زندگی گزار رہی ہوتی ہیں ، جہاں خوشی اور سکون کے بجائے ناگواری اور بے سکونی ہے، خوف ہے، یا پھر انہیں یہی بتایا گیا ہے کہ ایک بیوی کا یہی فرض ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ ایک غلام کی سی زندگی گزارے سو وہ اسی حال میں مگن ہیں ، انہیں ادراک ہی نہیں کہ وہ ایک بیمار رشتے میں بندھی ہیں۔

    اب اگر تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ خواتین اپنے آقاوں کی روش سے سمجھوتہ نہیں کرتیں اور ایک ناگوار ، غیر صحتمند رشتے سے الگ ہوجاتی ہیں تو یہ الزام ان کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ رائے عامہ ہمیشہ طاقتور اور اکثریت کے حق میں ہوتی ہے، سو جو طاقتور مردوں نے مشہور کردیا، عوام کی اکثریت نے بھی اسے من و عن قبول کرلیا۔

    ایکسکیوزمی ۔ ۔ ۔

    یہ خواتین کی تعلیم یا ملازمت نہیں ، مردوں کی فیوڈل نفسیات اور ان کی آقا بننے اور بنے رہنے کی خواہشات ہیں جو معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھنے کی اصل وجوہات ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ کم از شہروں کی حد تک خواتین تعلیم اور ملازمت کے باعث ذہنی طور پر ترقی کر گئی ہیں لیکن مرد اپنی فیوڈل نفسیات کے باعث خواتین کو اپنے برابر یا کچھ معاملات میں اپنے سے بہتر قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ایک تعلیم یافتہ بیوی گھریلو فیصلہ سازی میں رائے دینے سے نہیں ہچکچاتی، اور ایک ملازمت پیشہ بیوی خانگی معاملات میں صرف رائے ہی نہیں دیتی بلکہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے اور کر بھی لیتی ہے ۔ یہ بیوی غلط بات برداشت کرنے کے بجائے منہ پر کہہ بھی دیتی ہے اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ صرف صنف کی بنیاد پر شوہر کو اپنا غلط بھی درست بنانے کا حق ہے۔ اور یہ بات شوہر حضرات سے برداشت نہیں ہو پاتی، نتیجہ روز روز کے جھگڑے، مار پیٹ تعلقات اس نہج پر لے آتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ بیوی کو علیحدگی کا فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ شادی بندہ کرتا ہے ایک باعزت ، پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے۔ اور جب کسی رشتے میں یہ باقی نہیں رہتا تو ایسے بیمار ، کمزور اور ناخوشگوار تعلق سے لٹکے رہنےسے بہتر ہے کہ الگ ہوکر پرسکون زندگی گزاری جائے۔

    جو خواتین کم تعلیم، کوئی اور معاشی سہارا نہ ہونے کے باعث، یا خاندانی /سماجی دبائو کے تحت ایسی ناخوشگوار شادی شدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں ان کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کے ساتھ ساتھ انکی اولاد بھی اس صورت حال سے منفی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ اور اگر ان خواتین کو بھی موقع یا سہارا ملے تو وہ بھی ایسے بیمار رشتے سے باہر نکلنے کو ترجیح دیں گی کہ بار بار رونے سے ایک بار رونا بہتر ہے۔

    تو خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر طلاق کا بوجھ رکھنے کے بجائے مردوں کو مورد الزام ٹھہرائییے جو خواتین کی تعلیم، ملازمت اور ذہنی ترقی سے مطابقت پیدا نہیں کرسکے، جو خاتون کو انسان کا درجہ نہیں دے سکے ، اور جو برابری کی بنیاد پر خاتون کو حیات میں برابر کا شریک نہیں کرسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد اب اپنی سوچ کو ترقی دیں، خواتین کے بارے میں اپنی سوچ کو بدلیں، انہیں انسان سمجھیں، ان سے انسان والا سلوک کریں تاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے۔ ایسا نہیں کہ معاشرے میں ایسے مرد نہیں ، ہیں لیکن بہت کم تعداد میں۔ اور ایسے مردوں کو یہ معاشرہ بہت آرام سے زن مرید کہہ کر فارغ ہوجاتا ہے۔

    خدارا اس معاملے میں اسلام کو نہ گھسیٹ لائیے گا ، کیونکہ اسلام نے عورت کو جو حقوق اور آسانیاں دی ہیں وہ آپ خواتین کو اگلے ہزار سال تک نہیں دے سکیں گے۔ اس لیے اس مضمون کو پاکستانی معاشرے میں رائج سماجی رویوں کی روشنی میں ہی پڑھ لیں۔ بڑی مہربانی ہوگی ۔

    پی ایس: جس کو اس مضمون کا مرکزی خیال سمجھ نہ آئے وہ محض الفاظ کی پکڑ کرکے بحث و مباحثے سے گریز کرے۔