Tag: نکاح

  • خوشگوارزندگی سےخوفناک علیحدگی تک – جمال عبداللہ عثمان

    خوشگوارزندگی سےخوفناک علیحدگی تک – جمال عبداللہ عثمان

    جمال عبداللہ عثمان ’’ک ک‘‘ کی شادی اپنے تایا زاد سے ہوئی۔ جس وقت ’’ک ک‘‘ کی شادی ہو رہی تھی، وہ پانچ جماعتیں پڑھی تھیں۔ شادی کے بعد شوہر نے انہیں گھر پر بارھویں جماعت تک پڑھایا۔ اللہ نے تین بچوں کی نعمت سے بھی نوازا، لیکن ان کی زندگی میں تلاطم آگیا۔ شوہر کا رویہ یکدم بدلنے لگا۔ ہر وقت مارنے پیٹنے لگا۔ ایک دن ’’ک ک‘‘ نے تنگ آ کر ان سے طلاق مانگی۔ شوہر نے غصے میں آ کر تین بار ’’طلاق‘‘ کہہ ڈالی۔ ’’ک ک‘‘ کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان فساد کھڑا کرنے والا ہمارا قریبی رشتہ دار تھا۔ اس نے عملیات کے ذریعے ہمارے درمیان تفریق کر ڈالی، جبکہ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ شاید شوہر کو اپنی بیوی سے متعلق کچھ شبہات پیدا ہوگئے تھے۔ اس نے اس سلسلے میں اپنی بیوی سے بات کرنا مناسب نہ سمجھی اور دل ہی دل میں کڑھتا رہا اور یہی کڑھن طلاق کا سبب بنی۔ خوشگوار زندگی سے خوفناک علیحدگی تک کی دردناک تفصیل ملاحظہ کیجیے۔
    ٭
    ’’آپ اپنا نام اور ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟‘‘
    ’’میرا نام ’’ک ک‘‘ ہے۔ تاریخ پیدائش 1975ء ہے۔ میرے والد اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ دونوں بھائیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں، جبکہ بہنیں بھی اپنے گھروں میں خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ میں نے پانچویں جماعت تک پڑھا تھا۔ پھر میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ ہم لوگ اپنے تایا کے گھر میں رہے۔ مجھے پڑھنے کا زیادہ شوق بھی نہیں تھا اور والدہ نے کبھی توجہ نہیں دی، اس لیے اس وقت پانچ جماعتوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکی۔ بارھویں جماعت تک شادی کے بعد پڑھا۔ وہ بھی میرے سابق شوہر کی کوششوں سے ممکن ہوسکا۔‘‘

    ’’آپ کی شادی کہاں اور کن کے ساتھ ہوئی؟‘‘
    ’’جیسا کہ میں نے بتایا جس وقت میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی، میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میرے تایا کا ایک ہی بیٹا تھا۔ تائی کا انتقال پہلے ہی ہوگیا تھا۔ اس لیے تایا کو سہارے کی ضرورت تھی، لہٰذا وہ ہمیں اپنے گھر لے آئے۔ اللہ انہیں خوش رکھے، انہوں نے اپنے بچوں کی طرح ہمیں رکھا۔ اس وقت میرے بڑے بھائی کی عمر تقریباً 20 سال تھی۔ میرے تایا نے دو سال بعد ان کے لیے باہر کا انتظام کیا۔ جب ہمارے بھائی باہر گئے، حالات کافی بہتر ہوگئے۔
    میرے تایا نے اس وقت کہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی اس کے ساتھ کراؤں گا۔ جن کے ساتھ میری نسبت ہوئی، وہ بہت ذہین تھے۔ جب انہوں نے ماسٹر مکمل کیا، میرے چچا نے اس کی شادی سے متعلق میری امی کو یاد دہانی کرائی۔ امی نے انہیں کہا: ’’آپ کے ہمارے اوپر بےپناہ احسانات ہیں۔ میں بیٹی کے رشتے کا انکار نہیں کرسکتی، لیکن بات یہ ہے کہ لڑکا پڑھا لکھا ہے اور میری بیٹی صرف پانچ جماعتیں پڑھی ہیں۔ کل کو ایسا نہ ہو، ان دونوں کا گزارا نہ ہوسکے۔‘‘ میرے تایا نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا۔ اس نے رشتے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس طرح میری شادی ان کے ساتھ ہوگئی۔‘‘

    ’’آپ کی عمر اس وقت کتنی تھی؟‘‘
    ’’میں اس وقت تقریباً 19 سال کی تھی، جبکہ تایا کا لڑکا مجھ سے چار سال بڑا تھا۔‘‘

    ’’آپ کے ہاں پہلا تنازع کب شروع ہوا؟‘‘
    ’’ہماری شادی تقریباً 11 سال تک چلی۔ اس دوران مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے درمیان کبھی ایسی تلخ کلامی ہوئی ہو جسے یاد رکھا جاسکے۔ مجھے زندگی کی تمام سہولیات میسر تھیں، بلکہ میں اپنی زندگی پر رشک کرتی تھی۔ میری سہیلیاں بھی آتیں تو وہ بھی میری خوش قسمتی پر حیران ہوجاتیں۔ میرے شوہر نے مجھے دنیا کی ہر نعمت دی۔ یہاں تک کہ جب میری شادی ہوئی، میرے شوہر نے مجھے کہا کہ تمہیں مزید پڑھنا چاہیے۔ میں نے انکار کیا کہ میرے لیے اب پڑھنا ممکن نہیں، مگر وہ میرے لیے گھر پر کتابیں لائے اور خود پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ کئی کئی گھنٹے مجھے پڑھاتے اور چند مہینوں میں ایک اسکول سے آٹھویں کا امتحان بھی پاس کرا لیا۔ مجھے مزید پڑھنے کا شوق ہوا تو اس وقت ان کی مصروفیات زیادہ ہوگئی تھیں۔ میں نے محلے میں ایک خاتون سے بات کی، وہ میرے پاس آنے لگیں اور اس طرح میں نے چند سالوں میں 12 جماعتیں پرائیویٹ پاس کرلیں۔ اس عرصے میں اللہ نے مجھے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے بھی نوازا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میری زندگی ہر لحاظ سے قابل رشک تھی۔‘‘

    ’’پھر کیا ایسی بات ہوئی جس کی وجہ سے آپ کے درمیان علیحدگی ہوئی؟‘‘
    ’’دراصل انہی دنوں ہمارا ایک رشتہ دار ملازمت کے لیے کراچی آ گیا۔ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔ اس کے دوبچے بھی تھے۔ وہ مالی طور پر کافی کمزور تھا۔ میرے شوہر نے اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا۔ ہمارے گھر میں تین کمرے تھے۔ اسے کہا کہ کرائے پر کوارٹر لینے کی ضرورت نہیں، ایک کمرہ آپ استعمال کریں۔ میرے شوہر نے رشتہ دار کو جو کمرہ دیا، وہ بطورِ بیٹھک استعمال ہوتا تھا۔ اس کا دروازہ بھی باہر گلی کی طرف تھا، مگر ایک دروازہ گھر کی طرف بھی کھلتا تھا۔ وہ ہمارا رشتہ دار تھا۔ گاؤں میں بھی ہمارے گھر آنا جانا ہوتا تھا۔ یہاں بھی ایسے ہی آزادانہ آتا جاتا۔ جب کھانے کا وقت ہوتا، کھانے کے لیے آجاتا۔ وہ بظاہر اچھا تھا۔ میرا بہت احترام کرتا۔ میرے شوہر نے بھی مجھے کہہ رکھا تھا کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے مہمان ہیں، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ہمارے لیے تباہی کا پیغام لے کر آ رہا ہے۔‘‘

    آپ ذرا وضاحت کریں گی کس طرح؟‘‘
    ’’دراصل اس کے آنے کے بعد میرے شوہر کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور کچھ عرصے بعد وہ ایسا بدلے جس کا تصور میرے لیے مشکل تھا۔ ان کے ساتھ میرے تقریباً 10 سال گزر چکے تھے۔ کبھی انہوں نے تیز آواز میں میرے ساتھ بات نہیں کی تھی، لیکن اب وہ ایسے بدلے کہ ڈانٹ ڈپٹ ان کی عادت بن گئی۔ صبح دفتر جاتے، تب بھی کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتے۔ شام کو آفس سے آتے تب بھی کوئی بہانہ تیار ہوتا۔‘‘

    ’’انہیں آپ کے حوالے سے کوئی غلط فہمی تو نہیں ہوگئی تھی؟‘‘
    ’’مجھے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ اس رویے کے نتیجے میں میرا بھی دل اُچاٹ ہوگیا تھا، مگر میں ان کے احسانات یاد کرتی تو میرا دل ان کے لیے نرم پڑجاتا۔ ایک دن جب میں بہت پریشان ہوئی، میں نے اپنی پڑوس کی ایک خاتون سے ان کے رویے کا تذکرہ کیا۔ میری پڑوسن نے بتایا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے شوہر پر کسی نے ”کچھ“ کر لیا ہو۔ میں ان چیزوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتی تھی، لیکن جب انسان پریشان ہوتا ہے، وہ ایسی ہر بات پر یقین کرلیتا ہے۔ ایک دن صبح سویرے میرے شوہر نے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد مجھے مارا پیٹا۔ میں بہت روئی۔ میرا برا حال ہونے لگا۔ دوپہر کے وقت ہمارا رشتہ دار آیا۔ اس نے میری سرخ آنکھیں دیکھیں تو وجہ پوچھنے لگا۔ میں پریشان تھی۔ میں اپنے دل کا حال کسی کو بتانا چاہتی تھی۔ لہٰذا اس کے سامنے اپنے دُکھ رکھ دیے۔ پھر میں نے اسے پڑوسی خاتون کی بات بتائی۔ ہمارے رشتہ دار نے کہا آپ پریشان نہ ہوں، میرا ایک عامل دوست ہے، میں اس سے آپ کے لیے ایسا تعویذ لاکر دوں گا کہ آپ کے شوہر کا رویہ پہلے جیسا ہوجائے گا، بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہوجائے گا۔‘‘

    ’’کبھی آپ نے شوہر کے بدلتے رویے پر ان کے ساتھ کوئی بات کی؟‘‘
    ’’میں نے ایک دو بار بات کرنے کی کوشش کی، مگر مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ میں نے ان سے کئی بار کہا کہ آپ مجھے میرا قصور بتادیں۔ اگر مجھ میں کوئی کمی ہے، میں اسے دور کرنے کی کوشش کروں گی۔ وہ ہر بار یہی کہتے کہ تم اپنا کردار ٹھیک کرو۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا چاہتے تھے اور اگر کچھ چاہتے تھے تو اس کا کھل کر اظہار کیوں نہیں کیا؟ جب بہت سوچا، پھر ذہن میں آیا کہ شاید میرے شوہر کو کچھ غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اس لیے ہمارے گھر میں جو رشتہ دار رہتا تھا، میں نے ایک دن اس سے درخواست کی کہ وہ یہاں سے کہیں اور چلا جائے۔ جب اس سے بات کی، وہ خاصا پریشان ہوا، مگر بالآخر بوریا بستر اُٹھا کر قریب میں کہیں اور کوارٹر کرائے پر لے لیا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ شاید اب میرے شوہر کا رویہ کچھ بہتر ہوجائے، لیکن تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘

    ’’آپ کے رشتے دار تب بھی آپ کے گھر آتے جاتے رہے یا بالکل ہی رشتہ ناتا توڑ دیا؟‘‘
    ’’جی! وہ آتا تھا، خصوصاً جب میرے شوہر گھر پر نہیں ہوتے تھے۔ اگرچہ مجھے اس کا آنا اچھا نہیں لگتا تھا، مگر میں کیا کرتی۔ یہاں اور کوئی میرا نہیں تھا۔ جب وہ آتا، میں اس کے سامنے اپنا دُکھ بیان کرتی۔ اس طرح میں سمجھتی تھی کوئی تو ہے جو میرا دکھ درد سن رہا ہے۔ ایک دن وہ آیا تو بڑا خوش تھا۔ کہنے لگا کہ تمہارے لیے ایسے تعویذ لے کر آ رہا ہوں کہ تمہارا شوہر تمہارا غلام بن جائے۔ میں بھی بڑی خوش ہوئی اور اس سے تعویذ لے کر اس کی ہدایات کے مطابق رکھ لیے۔‘‘

    ’’تعویذ کے بعد ان کا رویہ ٹھیک ہوگیا؟‘‘
    ’’اس دن جب وہ شام کو آ رہے تھے، میں بڑی خوش تھی۔ میرے ذہن میں تھا کہ تعویذ نے اپنا اثر دکھایا ہوگا، لیکن اس دن وہ پہلے سے بھی زیادہ بھڑکے ہوئے تھے۔ مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی جب چند دن بعد وہ ایسے ہوگئے جیسے میں نے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہو۔ وہ میری شکل دیکھتے ہی آگ بگولا ہوجاتے۔ گالیاں دیتے، اگر میں کوئی بات کرتی، مجھ پر تشدد کرنے لگ جاتے۔ میں اتنی پریشان ہوئی جس کی انتہا نہیں۔ ایک دن میں بہت اُداس تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہمارا وہ رشتہ دار آگیا۔ میں نے اسے تازہ حالات بتائے۔ کہنے لگا: ’’تم کیوں اپنی زندگی برباد کر رہی ہو؟ اس سے سیدھی سیدھی بات کرو۔ اسے بولو کہ تم نے مجھے خریدا نہیں ہے۔ اگر نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو۔ آپ دیکھیں گی وہ یقیناً بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگا۔“
    میں بے وقوف تھی، اس کی باتوں میں آگئی۔ شام کو میرے شوہر گھر آئے۔ حسبِ معمول غصے سے بپھرے ہوئے تھے۔ میں کھانا رکھ رہی تھی۔ انہوں نے گالیاں دینا شروع کردیں۔ میں خاموش رہی۔ ان کا پارہ مزید چڑھنے لگا۔ جب میں تنگ ہوگئی، میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ مجھ سے تنگ ہوگئے ہیں تو مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ وہ غصے میں تھے، مگر میرے منہ سے یہ الفاظ سن کر میرا منہ دیکھنے لگے۔‘‘

    ’’کیا آپ کو یقین تھا کہ آپ کے شوہر اس پر عملدرآمد نہیں کریں گے؟‘‘
    ’’جی! میں یہی سمجھ رہی تھی کہ یہ محض انہیں چپ کرانے کا ایک ہتھیار ہے جس میں مجھے کامیابی ملی۔ اب انہوں نے جب بھی مجھے گالیاں دیں، میں نے انہیں یہی کہا ’’اگر نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو۔‘‘ اور وہ خاموش ہوجاتے، میرا منہ تکنے لگ جاتے۔ ایک دن اسی طرح وہ آفس سے آئے۔ میں کھانا لگارہی تھی، انہوں نے حسبِ عادت گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جب وہ آخری حد تک چلے گئے اور میری پٹائی شروع کردی، میں نے ایک بار پھر وہی بات دُہرائی، لیکن اب شاید وہ ذہنی طورپر اس کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ مجھے نہیں رکھ سکتے، مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’طلاق دے دوں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں طلاق دے دو۔‘‘ انہوں نے پھر پوچھا، میں نے پھر اپنی بات دُہرائی۔ میں نے تیسری بار وہی بات کہی۔ انہوں نے تین بار وہ لفظ دُہرایا جس سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ شاید انہیں بھی اندازہ ہوگیا تھا، اس لیے وہ گھر سے نکل گئے۔ میں اپنا سر پیٹ رہی ہوں اور بچے مجھ دیکھ کر رو رہے ہیں۔ میں ساری رات روتی رہی، وہ نہیں آئے۔ اگلی صبح ہوئی، تب بھی نہیں آئے۔ دوپہر کے وقت ہمارا وہ رشتہ دار آیا۔ اس نے مجھے تسلی دی اور ایک ایسی بات کہہ دی جس نے میرے تن بدن میں آگ لگادی۔ اس نے کہا تم پریشان نہ ہونا، میں تمہارے ساتھ شادی کرنے کو تیار ہوں۔ اس وقت میرا غم کی شدت سے سینہ پھٹ رہا تھا۔ میں نے اسے گالیاں دے کر گھر سے نکالا۔‘‘

    ’’مختصراً بتادیں کہ وہ رشتہ دار کہاں گیا اور آپ کے سابق شوہر کا کیا بنا؟‘‘
    ’’میں نے گاؤں میں اپنے بھائیوں کو فون کیا، انہیں مختصر طور پر یہ خوفناک داستان سنائی۔ ایک بھائی فوری کراچی آئے۔ میں نے شروع سے آخر تک ساری صورتِ حال ان کے سامنے رکھی۔ میں نے انہیں رشتہ دار کا بھی بتایا۔ تعویذ کا بھی ذکر کیا۔ میرے بھائیوں نے مجھ سے وہ تعویذ منگوائے اور کسی عامل کے پاس لے گئے۔ جب ان تعویذوں کی جانچ پڑتال ہوئی، پتا چلا سارا فساد اسی شخص نے کھڑا کیا ہے۔ اسی نے ہمارے درمیان تفریق پیدا کی ہے۔ میرا بھائی اس کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے قسم کھائی تھی، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس رشتے دار کو جب معلوم ہوا، وہ فرار ہوگیا۔ آج کئی سال ہوچکے ہیں، اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ میرے سابق شوہر نے بعد میں مکان میرے نام کرایا۔ وہ گاؤں چلے گئے۔ ذہنی اذیتوں سے گزرتے رہے اور اب سنا ہے کہ ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ آج مجھے کسی چیز کی کمی نہیں۔ بھائیوں کی طرف سے مکمل سپورٹ ہے۔ اپنا مکان کرائے پر دے رکھا ہے، لیکن جب اپنا وہ وقت یاد کرتی ہوں، دل بہت اُداس ہوجاتا ہے۔ سوچتی ہوں کاش! میں ایسا نہ کرتی۔ اب اس اُمید پر جی رہی ہوں کہ بچوں کا اچھا مستقبل دیکھ سکوں۔‘‘

  • جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے – نجم الحسن

    جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے – نجم الحسن

    نجم الحسن ”مہر“ یہ لفظ اسلامی دنیا اور پاکستان میں بالخصوص ایک بہت عام نام ہے، مثلا ”مہر بانو“ جو کہ جگن کاظم کے نام سے جانی جاتی ہیں، شاید بہت ساروں کو نہیں پتہ ہوگا۔ بہر کیف میں یہاں مہر لڑکی کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں اس مہر کی بات کر رہا ہوں جسے مہرفاطمی، حق مہر بھی کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! اس رقم کی بات کر رہا ہوں جو مسلمانوں میں دولہا نکاح ہونے پر اپنی دلہن کو دیتا ہے۔ یہ رقم یا تو نکاح کے فورا بعد دی جاتی ہے یعنی ”مہر معجل یا مہر غیر مؤجل“ یا جب لڑکی چاہے تب لے سکتی ہے جو کہ ”مہر غیر معجل یا مؤجل“ کہلاتا ہے۔ اسلامی شریعت نے حق مہر ادا کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں لگائی ہے، مرد اپنی زندگی میں کسی بھی وقت جب چاہے اسے ادا کرسکتا ہے اور اگر وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی اس قابل نہ ہو پائے کہ ادا کرسکے تو اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ میں سے حق مہر ادا کیا جائے گا اور یہ قرض ہوگا۔ اگرچہ میری نظر میں چونکہ بندہ اس قابل ہی نہیں کہ حق مہر ادا کر سکے تو اس کو شادی کرنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے، تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے، شریعت میں ایسی کوئی قدعن نہیں۔ مگر ہاں جو امر ضروری ہے وہ یہ ہےکہ مہر طے ہوتی نکاح سے پہلے ہے اور یہ طے ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا آسانی سے میں نے لکھ دیا۔

    تو تو میں میں ہوتی ہے۔ دلیلیں دی جاتی ہیں۔شریعت کی بات ہوتی ہے۔حیثیت کی بات ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ لڑکے کی اتنی حیثیت نہیں تو مہر اتنا کیوں، اور اسی دوران دو نوں خاندانوں میں نفرتیں، ناپسندیدگیاں اور ناچاقیاں اپنی جڑیں جمانا شروع کردیتی ہیں۔ دوریاں بڑھ جاتی ہیں اگر چہ قربتوں نے ابھی پنپنا شروع بھی نہیں کیا ہوتا۔ مطلب شادی تو ہوجاتی ہے لیکن مہر کے جھگڑے کی کھٹاس لے کر۔ اور یہ کھٹاس لڑکی کے لئے طعنوں کی وجہ بن جاتی ہے کہ اس کے گھر والوں نے مہر کے لیے کتنا ہنگامہ کیا تھا۔ مہر طے ہوتے وقت لڑکی والوں کو بدگمان بتایا جاتا ہے۔انہیں جال میں پھنسایا جاتا ہے کہ یہ تو بدظن ہیں جو مہر کی رقم کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ارے جس نے بیٹی دے دی تو پھر مہر کا کیا۔
    مگرحیرانی اس وقت ہوتی ہے جب لڑکے والوں کو کسی بات میں شریعت یاد نہیں آتی۔ بس یاد آتی ہے تو مہر کی رقم لکھواتے وقت۔ ایسے ہو جاتے ہیں جیسے ان سے بڑا کوئی مولوی یا پاک و پاکیزہ نہیں۔اگر یہ نہ ہوتے تو اسلام کی جڑیں ہل گئی ہوتیں۔ ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں جیسے اسلام صرف ان کو کندھوں پر ہی ٹکا ہے۔ اور ایسا دباؤ بنایا جاتا ہے کہ چند روپیوں کا مہر ہی لڑکی والوں کو لکھواناپڑتا ہے۔تاہم اگر دیکھا جائے تو مہر کی رقم لڑکی کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتی ہے۔ مکمل زندگی گزارنے کے لئے بس ایک سہارا ہوتی ہے، ایک آس ہوتی ایک ڈھارس ہوتی ہے۔جو لڑکے والے کم سے کم لکھوانا چاہتے ہیں۔

    جب لڑکی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے۔تو لڑکے کی پسند اور نا پسند کا پٹارا بھی کھل جاتا ہے۔ یہ پسند والی فہرست اتنی تگڑی ہوتی ہے کہ بیٹی کا ہونا لوگ بوجھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔اور یہ پسند بتانے والے لڑکے وہ ہوتے ہیں جو کبھی گھر میں پسند کی سبزی بھی پكوا کر نہیں کھا پاتے۔ اور گھر سے باہر یہ ہی بتاتے ہیں کہ آج قورما کھایا، اور آج بریانی کھائی۔ اور ہاں، بیٹے نے اگر کچھ اپنی مرضی کی ڈیمانڈ گھر میں کر دی تو ماں باپ کے ڈائیلاگ ایسے ہوتے ہیں، نالائق کرتا کچھ نہیں، اور مطالبہ ایسے کرتا ہے جیسے سب کچھ کما کے گھر میں اس نے ہی رکھا ہے۔

    اتنا ہی نہیں اگر بیٹا جواب دے دے تو کہتے ہیں، کر نہ کرتوت لڑنے کو مضبوط۔ ‘ مگر یہی ماں باپ جب بیٹے کے لئے دلہن لینے جاتے ہیں تو ان کا منہ لڑکی کے گھر والوں کے سامنے اسی نالائق بیٹے کے لئے ایسے پھٹتا ہے کہ پوچھو مت۔ اگر ان ماں باپ کا بس چلے تو لڑکی کا پورا گھر ہی سر پر اٹھا لائیں۔ اس وقت انہیں شریعت یاد نہیں آتی۔

    بارات کی بات ہوتی ہے توبول دیا جاتا ہے ہمارے اتنے سو باراتي آئیں گے۔ اگر لڑکی والے کہیں کہ تھوڑے کم باراتی لے آنا تو وہی شان بگھارتے ہوئے کہیں گے۔ اجی ماشا اللہ سے کنبہ ہی اتنا بڑا ہے، اور پھر ہمارا لوگوں سے اتنا ملنا جلنا ہے۔لڑکے کے دوست ہیں، احباب ہیں، جان پہچان کے لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو اب آپ ہی بتایئں کم باراتی کیسے لائیں، کسے انکار کریں۔انکار کریں گے تو ہمارے رشتہ دار ناراض ہو جائیں گے۔ اس وقت لڑکے والوں کو لڑکی والوں کی حیثیت نظر نہیں آتی۔ ہاں اس وقت اپنی حیثیت ضرور یاد آ جاتی ہے جب مہر کی باری آتی ہے۔ پھر ممياتے ہیں، جی ہماری تو اتنی حیثیت ہی نہیں۔

    کوئی ناراض نہ ہو جائے اس وجہ سے بارات میں کسی کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔لیکن نیا نیا رشتہ ہونے کے باوجود لڑکی والوں کی ناراضگی کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ طویل چوڑی بارات لے کر جائیں گے۔ چاہے لڑکی والوں کی حیثیت ہو یا نہ ہو۔ اور اگر پھر لڑکی والوں کی طرف سے خاطر داری میں نمک بھی کم رہ جائے تو لڑکے کا پھوپھا مختلف ننگا ناچ کرے گا۔ پھپھو (پھوپھی) کی زبان الگ لمبی راگ الاپے گی، خالو (مسے) الگ بڑبڑائےگا۔ تب لڑکے والوں کو نہیں لگے گا کہ وہ کتنی بے غیرتی دکھا رہے ہیں۔ کھانے کو برا بتاتے وقت نہ شریعت یاد آئے گی اور نہ سنت۔ ہاں اگر لڑکی والے مہر کی بات کریں گے تو ضرور لگے گا۔ دیکھو تو صحیح پوری لڑکی دے دی اور مہر کے چند پیسوں کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ مطلب اگر وہ مہر کی بات بھی کریں تو ان کا وہ بات کرنا جھگڑنا نظر آتا ہے۔ جہیز مانگنا، ہر بات میں اپنی چلانا، آپ نئے نئے رسم و رواج بتا کر لڑکی والوں سے وصولی کرنا، لڑکے والوں کو داداگيري یا رنگداری مانگنے جیسا نظر نہیں آتا۔

    شریعت کے مطابق مہر ”مہرفاطمی“ ہوتا ہے جس کے تحت موجودہ دور میں تقریبا 150 تولا چاندی یا اس کی رقم بنتی ہے۔ مہرفاطمی مطلب جب نبی محمد ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے ہوا تو مہر کی رقم اس دور کے حساب سے طے کی گئی۔یہ رقم موجودہ دور میں انتہائی کم ہے، اس لیے ہی لڑکے والوں کو مہر کے وقت شریعت یاد آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمی باندھ لو۔لیکن انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ جہیز کا لین دین نہیں ہوا تھا۔ جہیز مانگنا تو لڑکے والوں کا پیدائشی حق جیسا لگتا ہے۔ جہیز لیتے وقت ان کی شریعت جہیز میں کسی صندوق میں بند ہو جاتی ہے۔ اور صندوق کی چابی پتہ نہیں کہاں کھو جاتی ہے۔حقیقت میں ہم شریعت کو ایک لبادہ سمجھ بیٹھے ہیں، جب ٹھنڈک محسوس ہوئی اوڑھ لیا اور جب گرمی لگے تو اتار پھینکا۔

  • شادی کے تین طریقے – فرقان علی

    شادی کے تین طریقے – فرقان علی

    فرقان علیشادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا لڈو ہے کہ جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے. سیانے کہتے ہیں کہ شادی کے اس لڈو کو نہ کھانے سے کھا کر پچھتانا زیادہ بہتر ہے۔ ہمارے یار دوست جوماضی میں اس لڈو کو کھانے کا تجربہ کرچکے ہیں، وہ اس لڈو کے بارے میں کچھ اس طرح سے رائے دیتے ہیں کہ! شادی کا لڈو کھانا اتنا مشکل نہیں جتنا اسے ہضم کرنا۔ خواتین و حضرات گو کہ ہم نے شادی بےشک ایک ہی کی ہے مگر باراتیں بہت دیکھی ہیں اور ساتھ ساتھ ان کے نتائج بھی۔ یعنی کبھی شادی کو محبت کا آغاز بنتے دیکھا تو کبھی شادی محبت کا انجام ثابت ہوئی۔ ہمارے ملک میں شادیوں کی تقریبات تقریبا ایک ہی طرز پر ہوا کرتی ہیں، و ہی رسمیں، و ہی ڈھول ڈھمکا، وہی ہلا گلا، بھنگڑے، شور شرابا یعنی فل ٹائم موج میلہ اور ان موج میلوں میں بعض اوقات لڑائی جھگڑا بھی۔ خیر قصہ مختصر، اگر آپ شادی شدہ ہیں تو ہماری طرف سے آپ احباب کو شادی مبارک اور نہیں تو پھر ہماری طرف سے آپ کو خیر مبارک۔

    مستقبل میں اگر آپ اس لڈو کو کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کی سہولت کے خاطر شادی کرنے کے تین طریقے اور ان کے فوائد اور نقصانات بتائے دیتے ہیں، باقی آپ کی قسمت۔
    طریقوں کے ساتھ ساتھ ان کے جملہ حقوق بھی آپ کو دیےجاتےہیں، وہ بھی بالکل مفت ،اب آپ کا جس طریقے پر بھی دل مانے، ٹھوک ڈالیں۔

    1. یہ ایک قدیم اور سب سے زیادہ قابل اعتبار طریق کار ہے۔ اس طریقے میں دولہا دولہن کے والدین آپس میں مل جل کے رشتہ طے کرتے ہیں اور اس میں بڑوں کی پسند کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ والدین چونکہ کے تجربہ کار ہوتے ہیں اور انھوں نے زندگی کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا ہوتا ہے اور بحیثیت والدین وہ اپنی اولاد کے مزاج سے بھی واقف ہوتے ہیں تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیے ایسے شریک حیات کا انتخاب کریں جو ان کے گھر، ان کے ماحول، ان کے طورطریقوں اور معاشی حالات سے ہم آہنگ ہو۔ اس لیے نمبر ایک طریقہ پر کی گئی شادیوں کی کامیابی کےنتائج باقی طریقوں کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہوتے ہیں۔ آج کل اس طریقے میں والدین میرج بیورو کی بھی خدمات حاصل کرتے ہیں جس کے لیے بہرحال احتیاط لازم ہے.

    2. جیسا کہ نمبر سے ہی ظاہر ہے کہ یہ دونمبر طریقہ ہے لیکن آج کل اس طریقے پر ہونے والی شادیوں کا چرچا بھی عام ہے۔ ویسے اس طریقہ کو کسی طور بھی قابل بھروسہ نہیں کہا جا سکتا اور اس سے بچنے میں ہی انسان کی عافیت ہے۔ یہ صرف میری ذاتی رائے نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس طریقے پر کی گئی شادیوں کی کامیابی کے امکانات پچاس فیصد سے بھی کم ہیں اور بعض اوقات تو اس طریقے پر کی گئی شادیاں سال بھر بھی نہیں چل پاتیں۔ میری اتنی وضاحت کرنے پر اب تو آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ نمبر دو طریقہ ہے کیا؟ جی جناب بالکل صحیح سمجھے، یعنی نمبر دو طریقے میں لڑکا لڑکی خود ہی مل جل ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں، زندگی ساتھ گزارنے کے عہد و پیمان بھی ہوجاتے ہیں اور اس کا دو نمبر پہلو یہ بھی ہے کہ خود ہی مل جل کے شادی بھی کر لیتے ہیں اور بعد میں اس کی اطلاع والدین کو دے دی جاتی ہے۔ اسے ساری زندگی دولہا دلہن لو میرج کہتے اور معاشرہ بھاگ کر کی جانے والی شادی۔ ویسے آج تک مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس طریقے پر کی جانے والی شادی کو بھاگ کر کی جانے والی شادی کیوں کہتے ہیں۔ آیا دولہا دولہن اس میں بھاگتے بھاگتے قاضی کے پاس جاتے ہیں یا پھر قاضی بھاگتے پھرتے نکاح پڑھاتا ہے؟ خیر اس کا انجام بھی اکثر بھاگنے میں ہی نکلتا ہے۔

    3. گو کہ یہ طریقہ نمبر دو کے بھی بعد میں آتا ہے تاہم نمبر دو سے کافی بہتر ہے۔ اس طریقے پر عمل کرنے والے حقیقی معنوں میں اس قابل ہوتے ہیں جن سے محبت کی جائے یا وہ کسی سے محبت کریں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ محبتیں کیا ہوتی ہیں اور انھیں کیسے نبھایا جاتا ہے۔ اس طریقے پر عمل کرنے والے لوگ اگر ایک دوسرے کو پسند کر لیں تب بھی اپنے والدین کی مرضی کے خلاف نہیں جاتے۔ اگر والدین کی پسند شامل ہوگئی تو پھر ہوگیا منہ میٹھا۔ اگر نہیں تو پھر یہ والدین کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی نئی محبت کو پانے کے لیے اپنوں کی دی ہوئی پرانی محبتیں نہیں بھولتے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ شادی ایک نیک کام ہے اور نیک کاموں کو کبھی دو نمبر طریقے سے نہیں کیا جاتا۔ ہمارے نزدیک یہ طریقہ باقی کے دونوں طریقوں سے بہتر ہے اور اسے پذیرائی بھی ملنی چاہیے تاکہ فریقین (والدین اور اولاد) میں افہام و تفہیم برقرار رہ سکے اور کسی کو کسی سے گلہ نہ ہو.

    (فرقان علی دس سال سے کویت میں مقیم ہیں، ایک فیشن برانڈ سے وابستہ ہیں اور ساتھ جزوقتی بلاگر ہیں)

  • صحابہ کرام ؓ  کا ازدواجی معاشرہ – راحیل جاڈا

    صحابہ کرام ؓ کا ازدواجی معاشرہ – راحیل جاڈا

    یہ جملہ جو اس تحریر کا عنوان ہے حقیقت میں ہمارے معاشرے کی دکھتی رگ ہے. آپ اس جملے کو بنیاد بنا کر آج کل پھیلتی بےراہ روی کا تجزیہ کرلیں، آپ اس فحاشی کی جڑ تک پہنچ جائیں گے. ایک عجیب ہی دنیا آپ کے سامنے آئے گی، میں آپ کے سامنے اس حوالے سے دور صحابہ کی چند خصوصیات رکھتا ہوں, آپ انہیں پڑھ کر ذرا غور کریں کہ اگر ان امور پر کوئی شخص ہمارے معاشرے میں عمل کرنا شروع کریں تو لوگ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں

    1. بیٹی کے والد خود اپنی بیٹی کا رشتہ پیش کر دیتے تھے اور اس میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا.
    2. عورت طلاق یافتہ بھی ہوجاتی تو اگلا نکاح اس کے لیے آسان تھا.
    3. عورت بیوہ بھی ہوجاتی بلکہ ایک سے زائد مرتبہ بھی بیوہ ہوجاتی تو عدت سے فراغت پر نکاح کے پیغامات مل جاتے بلکہ ایسے واقعات بھی ہیں کہ ایک وقت میں تین پیغامات جمع ہو گئے اور کسے اختیار کیا جائے اس کے لیے مشورہ کرنا پڑا.
    4. ان کے بوڑھے بھی اگر نیا نکاح کر لیتے تو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا.
    5. بڑی عمر کے مرد چھوٹی عمر کی عورت اسی طرح بڑی عمر کی عورت چھوٹی عمر کا مرد آپس میں نکاح کرلیتے تو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا.
    6. پیغام نکاح رد ہوجاتے تو گھروں میں لڑائیاں پیدا نہیں ہوتی تھیں
    7. ایک کے بعد دوسری بیٹی ایک ہی شخص کے نکاح میں تو خود نبی علیہ السلام نے دی ہے.
    8. قبیلے اور خاندان کا معزز شخص ایک گھر کے لڑکے کی بات دوسرے گھر میں چلا دیتا تھا اور اس کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا.
    9. نکاح کو غنی بننے کا سبب اور ذریعہ سمجھا جاتا تھا.

    یہ چند باتیں تمثیلا ذکر کردیں وگرنہ باتیں تو اور بھی بہت ہیں. اب ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے معاشرے کا جائزہ لیں. باپ اگر اپنی بیٹی کا رشتہ خود پیش کردے تو کیا کیا القابات اس کے والد کو مل جائیں؟ کیا کیا مفروضے قائم ہو جائیں؟ یہ آپ سب جانتے ہیں نتیجہ یہ کہ بھول کر بھی والد کی زبان نہیں ہلتی، چاہے بیٹی کی عمر ڈھل جائے اور وہ یہ خوشی سے نہیں معاشرے کے ڈر سے نہیں کرتا.

    طلاق یافتہ اور بیوہ کے نکاح کی بات تو رہنے ہی دیں، اب تو لڑکی کی منگنی بھی ٹوٹ جائے تو ماں باپ کی نیندیں اڑ جاتی ہیں کہ خدا جانے اب کیا ہوگا، کیا کیا قصور میری بیٹی کا نکالا جائےگا، کیا کیا الزام اس پر ڈالے جائیں گے چاہے وہ بے قصور ہی کیوں نہ ہو. عمر کے تفاوت کی اہمیت تو اس قدر بڑھ گئی کہ بعض خاندانوں میں بڑی عمر کی لڑکی سے شادی گویا حرام سمجھی جاتی ہے.

    میری عرض یہ ہے کہ رسومات کی کھچڑی تو ایک طرف رہنے دیں، یہ اسباب بھی معاشرے کو بےراہ روی کی طرف دھکیلنے کے لیے کم نہیں ہے. کیونکہ بات سیدھی سی ہے یہ موازنہ صحابہ کے زمانے اور ہمارے زمانے کا ہے، ہم جتنے بھی جدید تہذیب یافتہ ہوجائیں معاشرہ تو ان کا ہی بہتر تھا. خیر تو اب بھی اسی جیسے ماحول بنانے میں ہے. جس معاشرے کا آخری نکتہ یہ تھا کہ نکاح آسان کردیے جائیں تو بدکاری خود ہی منہ چھپا لے گی.

  • رواجوں کے قیدی – ریاض علی خٹک

    رواجوں کے قیدی – ریاض علی خٹک

    ریاض خٹک شادی سُنت ہے، شادی معاشرتی ضرورت ہے، شادی دو زندگیوں کا، دو خاندانوں کا ملاپ ہے، شادی ایک نئے خاندان کی شروعات ہے. شادی پاکیزگی ہے، شادی فطرت ہے، اور فطرت کی پاکیزہ تعمیر ہے.

    شادی ایک کرنی چاہیے، یا دو تین چار، اس پر بھائی بہنوں نے ہر موقف پر سیر حاصل بحث کرلی ہے. ہم اور آپ نے یہ پڑھ بھی لی ہیں. اس بحث سے صرف نظر کرتے اس بحث کے پسِ منظر میں جاتے ہیں. یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں حالات اس نہج پر آجائیں کہ زنا کرنا آسان ہو جائے اور نکاح کرنا مشکل ہو. وہاں تعدد ازواج نہیں، سببِ گناہ کی تلاش زیادہ اہم ہوتی ہے.

    لفظ شادی کیا ہے؟ جب یہ لفظ زندگی میں آتا ہے، تو آج کوئی لڑکی کا باپ کیا سوچتا ہے؟ شادی کرنے والا لڑکا، اس کا خاندان کیا سوچتا ہے؟ اہم اس لفظ کا وہ پہلا تاثر دیکھنا ہے. آج شادی کا مطلب لڑکی کے والد کے لیے اور لڑکے اور اس کے خاندان کےلیے بہت سی رسموں کا نام بن گیا ہے. وہ رسمیں جن کی ادائیگی میں خون پسینہ کی کمائی فضولیات کی نظر ہوتی ہے. قرضوں کے بوجھ چڑھتے ہیں. یہ سنت رسموں و رواجوں کی ملمع کاریوں میں سنت نہیں فرض نہیں ایک بڑا بوجھ بن جاتی ہے.

    شادی کیا ہے؟ عبدالرحمان بن عوف نبی علیہ السلام کی محفل میں آئے تو کپڑوں پر زعفران کا نشان تھا, نبی پاک نے پوچھا عبدالرحمان کیا ماجرا ہے؟ عبدالرحمان بن عوف نے کہا اے نبی انصار کی ایک خاتون سے شادی کر لی. آپ علیہ السلام نے پوچھا، کتنا مہر دیا؟ کہا ایک نواۃ سونا. نواۃ کجھور کی گھٹلی کو کہتے ہیں. آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے کہا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک بکری یا بکرے یا چھترے کا ہی ہو. ولیمہ کرو.

    شادی نکاح کی یہ میراث ہم نے پائی، آج شادی کیا ہے؟ منگنی سے شروع رسموں کا سیلاب، رشتے کی تلاش کی دعوتیں، منگنی کی رسمیں، شادی، مہندی، مایوں، برات، شادی ہالز، جہیز، ڈشوں کے انتخاب رخصتی کی رسموں سے ہوتے گود بھرائی تک پہنچ گئیں. خاندان کے دور نزدیک کے مہمانوں کے کارڈز ہر تقریب کا ڈریس کوڈ، موویز، بیوٹی پارلر، کُل ملا کر نکاح و شادی کو رواجوں کے انبار میں ایسا دبا دیا گیا کہ سنت ہی بھاری لگنے لگی.

    اسلام قناعت و سادگی سکھاتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ رواجوں پر قدغنیں ڈالی جائیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان رواجوں کو ذمہ داری بنا دیا جاتا ہے، اس ذمہ داری کو گلیمرائز کرلیا جاتا ہے. اس گلیمر میں اس کا وزن اتنا بڑھ جاتا ہے کہ شادی بوجھ لگتی ہے. ایسا بوجھ جو دوسری تیسری کا تصور مٹا دے.

    دوسری تیسری شادی کو معتوب کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، غریب کی بیٹی ان رواجوں کی زنجیروں میں جہیز کے طوق سے بندھ جاتی ہے. بالوں میں چاندنی اتر آتی ہے لیکن رواجوں کی زنجیریں وہ کھول نہیں پاتی.

    آئیں ان رواجوں سے بغاوت کریں، اپنے اور اپنے اردگرد سے ان رواجوں کی زنجیروں کے حصار توڑیں. تب مسئلہ دوسری تیسری کا نہیں بنے گا. ہر فرد اپنے تقاضے اور ضرورت پر فیصلہ کرے گا.

  • زنا اور ناجائز بچے – مبین امجد

    زنا اور ناجائز بچے – مبین امجد

    مبین امجد چند دن جاتے ہیں کہ ایک تصویر دیکھی تھی جس میں کسی نومولود بچے کو شاپر میں ڈال کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا گیا تھا۔ قسمے دیکھ کر دل لرز گیا تھا۔ آئے دن ہمارے اس اسلامی ملک کی سڑکوں چوراہوں پر کتے بلیاں نومولود بچوں کی نعشوں کو اٹھائے نظر آتے ہیں۔ اور دل خون کے آنسو روتا ہے مگر ہم کچھ کر نہیں سکتے سوائے کڑھنے کے اور جلنے کے۔ کیونکہ بات یوں ہے کہ جب معاشرہ بد چلن ہو جائے تو اس طرح کے واقعات معمول بن جایا کرتے ہیں۔ کہنے والے تو اس بچے کو حرامی کہیں گے نا مگر میں کہتا ہوں کہ حرامی تو وہ ہیں جو اس کو اس دنیا میں لانے کا سبب بنے۔ میں کہتا ہوں حرامی تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے وقتی ابال اور لذت کی خاطر النکاح من سنتی کو پس پشت ڈال کر عارضی تعلق کو ترجیح دی۔

    جب کوئی بےشرم ماں اس معصوم کلی کو یوں کوڑے کے ڈھیڑ میں پھینکتی ہوگی تب ایک بار بھی ممتا نہ تڑپی ہوگی۔ تب ایک بار بھی انسانیت نہ لرزتی ہو گی۔ میں کہتا ہوں زمین کا کلیجہ پھٹ کیوں نہیں جاتا۔ یہ ٹھیک ہے لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں اور پھر اپنے گناہوں پہ پردہ ڈالنے کے لیے ان معصوموں کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ مگر تب کیا کریں گے جب ان کی زبانوں پہ مہر لگ جائے گی اور ان کے اعضا چیخ چیخ کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ تب کہاں چھپیں گے۔ تب تو یہ بچہ بھی ان کو گریبان سے پکڑے گا۔ بتاؤ کیا جواب دو گے؟

    ان بد بختوں کو شاید دوہرا عذاب ہوگا ایک زنا کا اور ایک قتل کا۔ مگر اللہ بڑا غفور رحیم ہے شاید بخش دے۔ مگر اس معاشرے کو شاید نہیں بخشے گا جس نے نکاح کو اس قدر مشکل اور زنا کو اس قدر آسان بنا دیا کہ ایسے روح فرسا واقعات ہماری اس سوسائٹی میں ہونے لگے۔ یاد رکھیے اقبال نے کہا تھا کہ
    فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
    کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

    یاد رکھیے زنا ایک قرض ہے اور قرض ہر حال میں لوٹانا ہی ہوتا۔۔۔اور ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ اللہ پاک نے اس کی مذمت میں فرمایا۔
    [pullquote]وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إنَّہ كَانَ فَاحِشَۃ وَسَاءَ سَبِيلا[/pullquote]

    خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔ (سورۃ اسراء آیت نمبر 32)

    اللہ پاک کے اس قدر صریح حکم کے بعد بھی ہم اس قدر ذلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں اتر چکے ہیں کہ اسے ہم معمولی گناہ تصور کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا بھگتان ہم اس دنیا میں بھی بھگتیں گے اور آخرت میں بھی اس کا بدلہ بہت برا ہے۔

    وہ لوگ جو اسلام کی شرعی سزاؤں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بچہ انسان نہیں ہے۔ کیا تم جو مرضی کھیل کھیلو اور پھر عزتوں کو بچانے کیلیے یوں قتل عام کرتے پھرو وہ غیر انسانی نہیں ہے۔ تب انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔مگر شاید تمہارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں کیوں کہ تم نے نصاب کوئی اور پڑھا ہے اور میں نے سوال کوئی اور پوچھ لیا۔ مگر یاد رکھیے یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ میں نے آپ جیسوں کو بعد میں روتے اور اپنے سر میں خاک ڈالتے دیکھا ہے۔ مگر سمجھ تب آتی ہے جب اللہ کی پکڑ میں آجاتے ہیں۔

    مگر شاید گناہ کا احساس گناہ جاتا رہے تو معاشرے یوں ہی شکست و ریخت کا شکا ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جب ایسے حالات ہوجائیں تو پھر کوئی بھی نوٹس نہیں لیتا۔ کوئی پوچھتا تک نہیں۔ بلکہ ہر کوئی اپنے چند ٹکے کھرے کرنے کیلیے آنکھوں پہ پٹی باند ھ لیتا ہے۔ اگر میری بات کا یقین نہیں تو آپ پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے اخبار میں چھپنے والا یہ اشتہار دیکھ لیں۔

  • بیٹی کی شادی از  انجینئر عمر حسین

    بیٹی کی شادی از انجینئر عمر حسین

    بیٹی کی شادی کے لئے ان کے پاس دو راستے تھے، یا تو ایک دینی مزاج رکھنے والے پڑھے لکھے مگر not well established لڑکے سے شادی کر دیں، یا پھر دین سے دور مگر امیر اور well established لڑکے سے کردیں۔۔۔۔!!
    انہیں پتا تھا کہ رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن انہوں نے well established لڑکے کا انتخاب کیا، بات چلی اور پکی ہو گئی، شادی کی تاریخ بھی آن پہنچی،،، چونکہ وہ دین سے دور تھا، تو شادی میں نکاح کے خطبہ کے علاوہ کچھ بھی اسلام کی جھلک نظر نا آئی، لڑکے والوں نے جہیز سمیت دیگر مطالبات بھی رکھے جو پورے کرنے پڑے، خیر ہنسی خوشی شادی ہو گئی،، لیکن شادی کے اگلے مہینے لڑکے کی نوکری ختم ہوئی پھر ان کا خاندانی کاروبار ڈوب گیا، قرضے اتارتے اتارتے، وہ سڑک پر آگئے۔۔۔۔۔! چونکہ اس لڑکے اور اس کے خاندان کا دینی مزاج بھی کوئی خاص نہیں تھا، چنانچہ تازہ شادی کے باوجود گھریلو ناچاکی بھی پیدا ہو گئی۔
    ۔
    دوسری طرف دینی مزاج رکھنے والے مگر not well settled لڑکے کو ایک دینی مزاج رکھنے والی لڑکی کا ہی رشتہ مل گیا، ان کی بھی شادی ہو گئی، لیکن نا تو جہیز ہوا نا ہی مہندی، نا بارات آئی۔۔۔۔۔ سادہ طریقہ سے سنت نبوی ﷺ کے مطابق ،مسجد میں جمعہ کے وقت نکاح ہوا، تمام اخراجات سادگی کے ساتھ لیکن دولہے کے خاندان کی طرف سے ہی ادا ہوئے ۔ بغیر کسی بوجھ اور تکلف کے لڑکی کو رخصتی بھی ہو گئی۔ مغرب کے بعد ولیمہ تھا،جس میں سادگی سے لڑکے اور لڑکی کے قریبی عزیزوں نے شرکت کی. اگلے ہی ہفتے لڑکے کو اچھی خاصی تنخواہ پر نوکری مل گئی؛ چونکہ شادی کی بنیاد مکمل طور پر سنت نبوی ﷺ پر تھی، دونوں میاں بیوی اور سسرال میں محبت و الفت بھی خوب پیدا ہوئی۔۔۔ اور ہنسی خوشی زندگی گزرنے لگے۔

    میرے نبی محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سچ ہی فرمایا تھا۔۔ کہ
    رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ::: اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا ) سُنن الترمذی و سنن ابن ماجۃ

    وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (بیہقی)

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو(مسند احمد)

    ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کے بارے میں تُم لوگوں کو جو حُکم دِیا ہے اُس میں اُس کی اطاعت کرو ، اللہ نے تُم لوگوں سے تونگری(رزق میں برکت) دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا

    وَقَالَ عُمَرُ ، عَجِبْتُ لِمَنِ ابْتَغَى الْغِنَى بِغَيْرِ النِّكَاحِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:
    اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا ، میں اس کے بارے میں حیران ہوں جو نکاح کیے بغیر تونگری (غنیٰ /رزق میں برکت ) چاہتا ہے ، جبکہ اللہ عَز ّو جَلَّ تو کہتا ہے کہ، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا(معالم التزیل فی تفسیر القران، المعروف بالتفسیر البغوی)

    عن عبداللہ بن مسعود،،،التَمِسُوا الغِنَى فِي النِّکاح ،،، يَقُولُ اللہُ تَعالیٰ ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ُ)کے بارے میں روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا )نکاح میں تونگری تلاش کرو ،،، اللہ تعالیٰ کہتا ہے،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں(تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا ، ( تفسیر الطبری)

    اللہ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ جو خبر کروائی ہے حق ہے کہ
    لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا :::اگر تُم لوگ اللہ پر توکل کا حق ادا کرتے ہوئے توکل کرو تو یقیناً وہ تم لوگوں کو اُس طرح رزق دے گا جِس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ صُبحُ کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ ہوتے ہیں(سُنن ابن ماجہ)

    بیٹی کی شادی کے لئے ان کے پاس دو راستے تھے، یا تو ایک دینی مزاج رکھنے والے پڑھے لکھے مگر not well established لڑکے سے شادی کر دیں، یا پھر دین سے دور مگر امیر اور well established لڑکے سے کردیں۔۔۔۔!!

    انہیں پتا تھا کہ رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن انہوں نے well established لڑکے کا انتخاب کیا، بات چلی اور پکی ہو گئی، شادی کی تاریخ بھی آن پہنچی،،، چونکہ وہ دین سے دور تھا، تو شادی میں نکاح کے خطبہ کے علاوہ کچھ بھی اسلام کی جھلک نظر نا آئی، لڑکے والوں نے جہیز سمیت دیگر مطالبات بھی رکھے جو پورے کرنے پڑے، خیر ہنسی خوشی شادی ہو گئی،، لیکن شادی کے اگلے مہینے لڑکے کی نوکری ختم ہوئی پھر ان کا خاندانی کاروبار ڈوب گیا، قرضے اتارتے اتارتے، وہ سڑک پر آگئے۔۔۔۔۔! چونکہ اس لڑکے اور اس کے خاندان کا دینی مزاج بھی کوئی خاص نہیں تھا، چنانچہ تازہ شادی کے باوجود گھریلو ناچاکی بھی پیدا ہو گئی۔
    ۔
    دوسری طرف دینی مزاج رکھنے والے مگر not well settled لڑکے کو ایک دینی مزاج رکھنے والی لڑکی کا ہی رشتہ مل گیا، ان کی بھی شادی ہو گئی، لیکن نا تو جہیز ہوا نا ہی مہندی، نا بارات آئی۔۔۔۔۔ سادہ طریقہ سے سنت نبوی ﷺ کے مطابق ،مسجد میں جمعہ کے وقت نکاح ہوا، تمام اخراجات سادگی کے ساتھ لیکن دولہے کے خاندان کی طرف سے ہی ادا ہوئے ۔ بغیر کسی بوجھ اور تکلف کے لڑکی کو رخصتی بھی ہو گئی۔ مغرب کے بعد ولیمہ تھا،جس میں سادگی سے لڑکے اور لڑکی کے قریبی عزیزوں نے شرکت کی. اگلے ہی ہفتے لڑکے کو اچھی خاصی تنخواہ پر نوکری مل گئی؛ چونکہ شادی کی بنیاد مکمل طور پر سنت نبوی ﷺ پر تھی، دونوں میاں بیوی اور سسرال میں محبت و الفت بھی خوب پیدا ہوئی۔۔۔ اور ہنسی خوشی زندگی گزرنے لگے۔

    میرے نبی محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سچ ہی فرمایا تھا۔۔ کہ
    رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ::: اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا ) سُنن الترمذی و سنن ابن ماجۃ

    وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (بیہقی)

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو(مسند احمد)

    ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کے بارے میں تُم لوگوں کو جو حُکم دِیا ہے اُس میں اُس کی اطاعت کرو ، اللہ نے تُم لوگوں سے تونگری(رزق میں برکت) دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا

    وَقَالَ عُمَرُ ، عَجِبْتُ لِمَنِ ابْتَغَى الْغِنَى بِغَيْرِ النِّكَاحِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:
    اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا ، میں اس کے بارے میں حیران ہوں جو نکاح کیے بغیر تونگری (غنیٰ /رزق میں برکت ) چاہتا ہے ، جبکہ اللہ عَز ّو جَلَّ تو کہتا ہے کہ، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا(معالم التزیل فی تفسیر القران، المعروف بالتفسیر البغوی)

    عن عبداللہ بن مسعود،،،التَمِسُوا الغِنَى فِي النِّکاح ،،، يَقُولُ اللہُ تَعالیٰ ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ُ)کے بارے میں روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا )نکاح میں تونگری تلاش کرو ،،، اللہ تعالیٰ کہتا ہے،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں(تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا ، ( تفسیر الطبری)

    اللہ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ جو خبر کروائی ہے حق ہے کہ
    لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا :::اگر تُم لوگ اللہ پر توکل کا حق ادا کرتے ہوئے توکل کرو تو یقیناً وہ تم لوگوں کو اُس طرح رزق دے گا جِس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ صُبحُ کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ ہوتے ہیں(سُنن ابن ماجہ)

  • لڑکیاں رشتے کا بلاوجہ انتظار کیوں کرتی ہیں؟ طاہرہ عالم

    لڑکیاں رشتے کا بلاوجہ انتظار کیوں کرتی ہیں؟ طاہرہ عالم

    طاہرہ عالم بیٹیوں کی شادی، اور ان کے لیے کسی اچھے رشتے کا انتظار والدین اور گھر والوں کےلیے روح فرسا معاملہ ہوتا ہے. بیٹیاں کبھی بھی زحمت نہیں ہوتیں لیکن نجانے کیوں جب بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں توان کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا بلکہ گھر والے بہت ہی برے انداز میں منہ بسور کے کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے، اللہ خیر کرے! اور اللہ پاک خیر ہی کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیٹیاں ماں باپ کی آنکھوں کا نور بن جاتی ہیں، ان کے دکھوں کو اپنا دکھ اور ان کی خوشیوں کو اپنی زندگی سمجھنے لگتی ہیں۔ کب بچپن کو خدا حافظ کہہ دیتی ہیں اور والدین کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ وقت جیسے پر لگا کے اڑجا تا ہے، اور پھر والدین کو ان کا گھر بسانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے. کیونکہ ہمارے یہاں یہ ایک رسم ہے کہ لڑ کی والے بیٹیوں کا رشتہ لے کر نہیں جاتے تو چار و ناچار بس انتظار ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے کہ کوئی اچھا رشتہ خود ہی چل کر آئے.

    عزیز و اقارب اور ملنے جلنے والے دوست احباب کے کان میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ ہماری بچی کے لیے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈیں۔ اچھا رشتہ ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے مگر ہر خواب کو کہاں تعبیر ملتی ہے، ہر خواب کہاں شرمندہ تعبیر ہوتا ہے. ایک اندازے کے مطابق ہر گھر میں کم از کم دو بچیاں اچھے رشتوں کے انتظار میں زندگی کی حسین بہاریں برباد کر رہی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اچھا رشتہ کیا کوئی’’ کمپنی‘‘بنا کر بھیجے گی۔ اگر ہم اپنے گھر، ارد گرد اور رشتے داروں میں نظر ڈالیں تو ہمیں لڑکوں کی تعداد کم اور اوپر سے فارغ پھرتے نظر آتے ہیں، جب ہم اپنے لڑکوں کی پرورش کی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دے رہے تو معاشرہ کہاں سے اچھے رشتے مہیا کرے گا؟ اگر کسی خاندان میں چار بیٹے ہیں تو تین کے پاس ڈھنگ کی نوکری نہیں اور اگر کوئی کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہے تو تنخواہ اتنی کم کہ بےچاروں کا اپنا گزارا مشکل ہے تو ایسے میں بیوی کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے. بس یہی سوچ گھر والوں کو رشتے ڈھونڈنے سے روکتی ہے. دوسری جانب لڑکی والے ایسے کم آمدنی والے لڑکے سے رشتہ جوڑنا نہیں چاہتے، ان والدین کے خیال میں بیٹی خوش نہیں رہے گی اور اس کے شوہر کو بھی پالنا پڑے گا.

    آج کل اچھے رشتے کی بنیاد دولت کی ریل پیل ہی کو سمجھا جانے لگا ہے. بےجوڑشادیاں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے. اگر لڑکا 45 سال کا ہے مگر گاڑی، بنگلہ، بینک بیلنس اور اپنا کاروبار رکھتا ہے تو اسے بہت آسانی سے20 سال یا اس سے بھی کم عمر لڑکی کا رشتہ مل جاتا ہے، اس طرح وہ لڑکیاں جو پہلے ہی عمر کا بیشتر حصہ گزار چکی ہوتی ہیں ایک بار پھر پیچھے بہت پیچھے دھکیل دی جاتی ہیں۔ اگر کسی کو وقت پہ کوئی اچھا رشتہ مل بھی جا تا ہے تب بھی تاخیر ضر وری ہے کیونکہ نمود و نمائش کے لیے بروقت رقم موجود نہیں ہوتی۔ لڑ کی والے اچھا خاصا جہیز کا انتظا م کر رہے ہو تے ہیں تو لڑ کے والے بری بنانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔ بیس ہزار کے عوض ملنے والے شا دی ہال ایک لاکھ سے بھی تجاوز کرگئے ہیں۔ یہ دکھاوا بھی شادی جیسے مقدس فریضے کو مکمل کرنے میں بہت بڑی رکاو ٹ بنتا جا رہا ہے۔ جہیز اب مانگا نہیں جاتا کیونکہ ہمیں عادی بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ جہیز میں کیا کیا دینا ہے۔ اپنی ناک کو کیسے بچانا یا اونچا کرنا ہے۔

    چھوٹی عمر کی لڑ کیوں کی شادی زیادہ عمر والے مردوں کے ساتھ ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن اگر کوئی لڑ کی لڑ کے سے عمر میں بڑی ہو تو اللہ معا ف کرے، گھر والے کیا اور باہر والے کیا، سب طعنے مار کر ناک میں دم کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات رشتہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فریضہ بھی سیاست کی نظر ہوگیا ہے۔ کبھی لڑکی نہیں پسند تو کبھی گھر والے اور دوسری جانب بھی معاملات اس سے مختلف نہیں ہوتے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو لڑکے اور لڑ کیاں، آدمی اور خاتون کی فہرست میں شامل ہو تے چلے جا ئیں گے، بےجوڑ شادیاں ہوتی ر ہیں گی، اور نتیجے میں طلاق عام ہوتی جائےگی، اور معاشرہ ایسے بچوں کا گڑ ھ بن جائے گا جو ماں باپ کے بغیر ’’نا نکے‘‘ یا پھر’’ دادکے‘‘ میں عدم تحفظ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

    ان تمام باتوں کی جڑ صرف وقت پر شادی نہ ہونا اور بلاوجہ اچھے رشتوں کی تلاش ہے۔ جب کوئی صنعت اس طرح کی پروڈکس بنا ہی نہیں رہی تو مارکیٹ میں مہیا کیسے ہوگی؟ وقت پہ شادی کا مطلب کیا ہونا چاہیے، عمر کا کوئی تعین تو ہے نہیں اور پھر مقدر کی بھی بات ہوتی ہے لیکن کیا یہ درست ہے جو اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ لڑکے کی مائیں اور بہنیں مختلف لڑکیوں کو دیکھنے جاتی ہیں، دعوت اڑاتی ہیں اور پھر آخر میں یہ کہہ دیتی ہیں کہ ہم بعد میں آپ کو بتاتے ہیں. اس طرح درجنوں لڑکیوں کے معصوم دلوں سے کھیلتی ہیں، اور یہ بات بھول جاتی ہیں کہ وہ خود بھی بیٹیاں رکھتی ہیں۔ بعد میں نتیجہ یہ سنایا جاتا ہے کہ استخارہ میں منع ہوگیا ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکی والے اس بنا پہ بھی رشتوں سے منع کر دیتے ہیں کہ لڑکے کا اپنا گھر تک تو ہے نہیں، آدھی سیلری تو کرائے کے مکان میں ہی ختم ہوجائے گی۔

    رشتہ طے کرتے وقت دونوں طرف مادی اشیا کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ والدین اگر اپنے مطالبات کو درمیانے درجے میں لے آئیں اور تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے مستقبل کے فیصلے وقت پر کرلیں اور اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ خود ان کا بیٹا یا بیٹی کتنے لائق ہیں؟ اور دوسروں کی نظر میں کتنے بہترین ہوسکتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں اپنے گریبان میں جھانک لیں تو دوسروں کی برائی یا کمی آپ کو کمی نہیں لگے گی، کوئی اچھا فیصلہ کر پائیں گے ، اور کسی لڑکی یا لڑکے کو بلاوجہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

  • منگنی اسلامی رسم ہے یا زبردستی کی، کیا اسلام میں اجازت ہے؟ حوریہ ذیشان

    منگنی اسلامی رسم ہے یا زبردستی کی، کیا اسلام میں اجازت ہے؟ حوریہ ذیشان

    ہمارے ہاں جن رسومات کو زبردستی شادی کا حصہ بنادیا گیا ہے، ان میں سے ایک رسم منگنی کی بھی ہے۔ منگنی عرف عام میں وعدہ نکاح کو کہتے ہیں جس کی اسلام میں اجازت ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 235 میں اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں:
    ”اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم عورتوں کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دو۔“

    یعنی اسلام میں نکاح کا پیغام دینے کی اجازت ہے بلکہ پیغام کے بعد ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لینے کی بھی اجازت ہے، ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انھوں نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔‘‘

    لیکن ہمارے ہاں اسے پیغام اور وعدہ سے بڑھا کر ایک رسم کی شکل دے دی گئی ہے۔ سونے کی انگوٹھی، زیوارت اور تحفے تحائف پر اتنی رقم خرچ کی جاتی ہے جس سے کسی غریب کی بیٹی کی شادی ہو جائے۔ لڑکی لڑکے کا ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا، تصاویر بننا، تحفے تحائف دینا اور مرد و عورت کی مخلوط تقریب۔ یہ سب وہ کام ہیں جن کی شریعت میں بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا تو بہت ہی غلط کام ہے کیونکہ شادی سے پہلے مرد عورت ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور نامحرم ہیں اور نامحرم کو چھونا سخت گناہ ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ کسی وجہ سے رشتہ ٹوٹ جائے تو منگنی پر بنائی ہوئی تصاویر کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے، جاننے کی نہیں لیکن یہاں منگنی کے بعد ایک دوسرے سے رابطہ رکھا جاتا ہے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لیا جائے، ملنا ملانا نہ بھی ہو تو بھی ٹیلی فون پر بات چیت کرنا عام سی بات ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور شادی کے بعد زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔ حالانکہ یورپی ممالک میں شادی سے پہلے ایک دوسرے سے ملنا ملانا عام سی بات ہے وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ کر شادی کرتے ہیں لیکن پھر بھی بہت کم جوڑے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پوری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزاریں ورنہ اکثر کی چند سال بعد ہی طلاق ہوجاتی ہے۔

    ہمارے ہاں دو بڑے طبقے ہیں، ایک ان والدین کا جو اولاد کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے اور لڑکے لڑکی کی رائے لینا پسند ہی نہیں کرتے اور اپنی مرضی کے فیصلے ان پر ٹھونستے ہیں۔ دوسری طرف ان بچوں کا جو والدین کی رائے لینا ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ شادی سے پہلے ہی کبھی شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں اور کبھی سیر و تفریح کے لیے۔ والدین بےچارے پوچھنے کی جرات تک نہیں کرسکتے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دو انتہائیں ہیں، اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔

    آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ نکاح کے پیغام کے بعد دونوں گھرانے کھانے یا چائے پر کسی جگہ اکھٹے ہوجائیں، وہاں سب کی موجودگی میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیں گے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ مگر افسوس ایسا بہت کم لوگ ہی کرتے ہیں یا تو بالکل بھی دیکھنے نہیں دیا جاتا یا پھر مکمل آزادی دے دی جاتی ہے کہ جیسے مرضی گھومیں پھریں، باتیں کریں۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ سنت کے مطابق کریں کیونکہ اللہ نے سنت میں آسانی اور سکون رکھا ہے۔ جس قدر ہماری زندگی سنتوں سے مزیں ہوتی جائے گی اتنا ہی ہماری زندگی میں سکون آتا جائے گا اور ہماری زندگیاں آسان ہوتی جائیں گی کیونکہ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت پر چلنا بہت آسان ہوتا ہے۔

  • شادی نہ کرنے پر ٹیکس کا نفاذ – زیڈ اے قریشی

    شادی نہ کرنے پر ٹیکس کا نفاذ – زیڈ اے قریشی

    زیڈ اے قریشی آج کل معاشرتی برائیاں اپنے عروج پر ہیں جس کی بنیادی وجہ دین اسلام سے دوری یا دنیاوی خواہشات کا انبار ہے۔ ہمارے معاشرے میں ”کورٹ میرج“ کرنا آسان فعل بنتا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ دین سے دوری ہے، وہ کیسے؟ اسلام میں حکم ہے جب بچہ جوان ہو جائے تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اُس کا ”فرض“ ادا کر دیں لیکن ہمارے معاشرتی نظام نے ”شادی“ کو مشکل اور ”زنا“ کو آسان ترین بنا دیا ہے۔

    جب انسان بالغ ہوتا ہے تو جنسِ مخالف کی کشش اُس پر طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے، اگر اس کی یہ فطری ضرورت جائز طریقے سے پوری نہ کی جائے تو وہ بچہ ”فرسٹریشن“ کا شکار ہو جائےگا۔ ”فرسٹریشن“ ایک ایسی بیماری ہے جو بہت سے مختلف عوامل سے انسانوں کو لاحق ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ رویوں میں عدم توازن ہوتا ہے، جن میں سے ایک وجہ شادی کا بروقت نہ ہونا بھی ہے۔ جب کسی انسان کی جائز ضرورت پوری نہ ہو تو وہ ”فرسٹریٹڈ“ ہو جاتا ہے، اُس میں ذہنی تناؤ بڑھنے لگتا ہے اور اُس کی رغبت گناہوں یا کسی بھی ایسے فعل میں بڑھتی ہے جس سے وہ وقتی سکون حاصل کرسکے۔ اس کے نتیجہ میں وہ کسی انتہاہ پسند کے ہاتھوں ”ٹریپ“ بھی ہو سکتا ہے، مثلا:ً سٹریٹ کرائم، دہشت گردی، جنسی تعلقات/(کورٹ میرج ) وغیرہ وغیرہ میں ملوث ہو جانا۔

    دراصل ہمارا معاشرہ اور حکومت وقت موجودہ دور میں مغرب سے بہت زیادہ متاثر ہیں جس کی وجہ سے ”سول سوسائٹیز“ وغیرہ کو بھی بہت جلدی ہی اپنے حقوق یاد آجاتے ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی کسی بھی سوسائٹی کو کبھی بھی اپنی مذہبی تعلیمات یاد نہیں آئیں۔ کیونکہ اسلام کے وہ ٹھیکدار نہیں!

    خیر بات ہو رہی تھی معاشرتی برائیوں کی تو ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی قسم کوئی کسر ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس کی وجہ سے کوئی بھی شریف انسان اپنے بچوں کے ساتھ آج کل کے انٹرٹینمینٹ پروگرام نہیں دیکھ سکتا۔ افسوس کہ نہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کو قانون سازی کے لیے تجاویز دینا یاد آتا ہے اور نہ ہی ہمارے ایوانوان میں بیٹھے ہوئے کارندوں کو ان معاشرتی برائیوں اور بے راہ رویوں کے سدباب کے لیے قانون سازی یاد آئی۔

    ایک مثال بڑی قابل غور ہے کہ!
    چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے ہمیں اس سے ہی سبق سیکھنا چاہیے کہ جب ان کی آبادی بڑھنے لگی تو انھوں نے اس کے سدباب کے لیے فوراً قانون سازی کی اور دو سے زیادہ بچوں پر پابندی لگا دی اور ہاں اگر کوئی صاحب استطاعت ہے اور وہ دو سے ذیادہ بچے پیدا کرنا چاہے تو وہ بچے پیدا کرے لیکن حکومت کو ٹیکس ادا کرے جس سے حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا This is called give & Take policy۔

    اگر یہی فارمولہ پاکستان میں نافذ کیا جائے کہ ہر شخص اپنے بچوں کی شادی Age of Magority یعنی 18 سال کی عمر تک کرے گا اور اگر کوئی صاحب استطاعت ہے اور شادی نہیں کرنا چاہتا تو بےشک شادی نہ کرے لیکن حکومت کو ٹیکس ادا کرے، اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے،
    1. معاشرتی برائیوں میں کمی
    2. کورٹ میرج کا خاتمہ
    3. خاندانی نظام مضبوط
    4. بدکاریوں میں کمی
    5. شادی کا نظام آسان
    6. حکومت کی آمدنی
    7. فرسٹریشن کا خاتمہ
    8. نوجوانوں کی ذہنی پختگی

    ان سب فوائد سے بڑھ کر دین اسلام کا نفاذ ہوگا اور ایک خوبصورت اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا۔
    عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی!
    کیونکہ، دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔