Tag: مذہب

  • چین میں دعوت دین اور اسلام کا مستقبل، ذاتی تجربہ – مجذوب مسافر

    چین میں دعوت دین اور اسلام کا مستقبل، ذاتی تجربہ – مجذوب مسافر

    مجذوب مسافر 1492ء کا سال اسلامی تاریخ کا انتہائی بدقسمت سال تھا کیونکہ اسی سال اندلس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر انتہا پسند عیسائیوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا. میں جب بھی تاریخ اندلس کا تنقیدی مطالعہ کرتا تو ایک سوال پوری شدت کے ساتھ ذہن میں ابھرتا تھا کہ آٹھ سو سال تک اس سرزمین پر حکومت کرنے کے باوجود وہ کون سی وجوہات تھیں کہ نہ صرف وہاں سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی بلکہ مسلمانوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا؟

    دیگر سیاسی و جنگی وجوہات کے ساتھ جو چیز میری سمجھ میں آ سکی وہ ہے مسلمانوں (خواہ وہ حکمران ہوں یا عوام) کی دعوت الی اللہ سے غفلت. ظاہر ہے کہ مسلمان اللہ کے اس فرمان ’لا اکراہ فی الدین‘ یعنی’دین میں کوئی جبر نہیں‘ کا پابند ہے لیکن اندلس کے مسلمان بدقسمتی سے اللہ کا دوسرا فرمان ’كنتم خير امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنكر‘ یعنی ’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کےلیے میدان میں لایا گیا ہے. تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘ کو بھول گئے اور مقامی لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے اور اسلام کے مطابق ان کی تربیت و تہذیب کرنے میں ناکام رہے. نتیجہ یہ نکلا کہ جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان سیاسی اور پھر جنگی آویزش شروع ہوئی تو پورا اندلس کم و بیش انتہا پسند عیسائی جنگجوؤں کے ساتھ کھڑا تھا اور مسلمان دوسری طرف اکیلے کھڑے تھے جو خود یا جن کے آباؤ اجداد شمالی افریقہ سے یہاں آئے تھے یعنی آٹھ سو سال بعد بھی مسلمان سرزمین اندلس پر اجنبی ہی سمجھے جاتے تھے.

    اس تاریخی مطالعے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جب کوئی دس سال پہلے اللہ نے چین میں آنے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع عطا کیا تھا تو خواہش تھی کہ جیسے اور جتنا ممکن ہو سکے، دین حق کی دعوت کا ابلاغ کیا جائے. اس سلسلے میں، میں نے ممکن حد تک کوشش کی کہ چین میں مقیم دوسرے ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر دعوت کا کام کیا جائے. کچھ نے اتفاق کیا تو کچھ نے اختلاف اور کسی نے مخالفت بھی کی اور کسی نے ڈرایا بھی کہ ’’یہ چین ہے بھائی، احتیاط کرو‘‘ نہیں معلوم کہ کیوں کچھ لوگوں کو دنیا کماتے وقت تو ’احتیاط‘ اور ’اعتدال‘ کے الفاظ یاد نہیں رہتے، مگر دین کے وقت سب یاد آ جاتا ہے.

    خیر اللہ کا نام لے کر اپنے کچھ چینی اور کچھ غیر چینی دوستوں کے ساتھ مل کر دعوت دین کی بنیاد رکھی. اصل ہدف مقامی چینی مسلمان اور ان کی اولادیں تھیں. اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے اس کام میں برکت عطا کی اور نہ صرف بےشمار چینی نسلی مسلمان واپس اسلام کی طرف لوٹے بلکہ بہت سے غیر مسلم چینیوں نے بھی اسلام قبول کر لیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے حالانکہ میں نے 2008ء کے شروع میں چین چھوڑ دیا تھا. 2011 میں جب دوبارہ یہاں آیا تو یہ دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ وہ لوگ اسی طرح متحرک اور دعوت کا کام کر رہے تھے.

    اس بار مسلمانوں کے بجائے براہ راست غیر مسلموں کے ساتھ مکالمہ شروع کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ چینی نسل کے لوگ اسلام کو سمجھیں اور اللہ اگر توفیق دے تو اسے قبول بھی کریں. عوام کو دعوت دینے اور اعلی تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ مکالمہ میں کافی فرق ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں، لیکن اس کام کا بھی فائدہ ہوا. لوگوں تک درست پیغام درست طریقے سے پہنچانے کے لیے خود بھی اچھی خاصی تیاری کرنی پڑتی ہے جس سے اپنا مطالعہ وسیع ہوتا ہے. میری دعوت کا اصل میدان میرا اپنا آفس ہے. یہاں پیشہ وارانہ معاملات میں اعلی کارکردگی کو دعوت کو بنیاد بنانا پڑتا ہے کیونکہ اگر پیشہ وارانہ معاملات میں کمزوری ہو تو اپنے کیریئر کو نقصان ہو نہ ہو’ دعوت دین کا نقصان بہرحال ہوتا ہے کہ پھر ایسے بندے کی باتوں کو لوگ اہمیت نہیں دیتے. ظاہر ہے پیشہ وارانہ ذمہ داری ٹھیک طرح سے ادا نہ کی جائے تو نہ صرف یہ کہ رزق مشکوک ہو جاتا ہے بلکہ انسان کی شخصیت کو بھی دھندلا جاتی ہے. اللہ ہمیں اس خرابی سے بچائے. آمین. شعوری طور پر کوشش کی کہ میرے کولیگز مذہب کو زیر بحث لائیں،گاہے اس میں کامیابی ہوتی ہے اور گاہے ناکامی لیکن ایک چیز ضرور ہوئی ہے کہ ان کے مذپب بالخصوص اسلام کے بارے میں سوالات اٹھانے سے مجھے اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملتا ہے. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تقریبا تمام کولیگز کو اسلام کا ابتدائی تعارف ضرور حاصل ہو چکا ہے. ایک کولیگ آج کل چینیوں کو اسلام سے متعارف کروانے کے لیے بلاگ بھی لکھ رہا ہے. اللہ میرے حال پر بھی رحم کرے اور ان کو بھی اسلام کی نعمت عطا فرمائے. آمین

    چینی اکثر مسئلہ غلامی، عورتوں کے بارے میں اسلام کی تعلیمات، جہاد اور دور جدید میں اسلام کے قابل عمل ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں. سب سے زیادہ سوال یہ ہوتا ہے: ’’ہم نے سنا ہے کہ مسلمان کئی کئی عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں‘‘. یہ سنتے ہی میں اکثر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتا ہوں. بہرحال اپنی سی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو درست معلومات پہنچائی جائیں. ویسے میں نے جب ان کو عورت کے معاملات کے بارے میں قرآن کی تعلیمات اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کی وضاحت کی تو میری فی میل کولیگز حیران اور خوشی سے اچھل پڑیں اور کہنے لگیں کہ:’’ہم بھی مسلمان ہونا چاہتی ہیں‘‘ تاہم ایک خالص مادیت پرست معاشرے میں ایسے جذبات زیادہ دیر تک برقرار رہنا کافی مشکل ہوتا ہے. اللہ کرے کہ یہ جذبات مستقل شکل اختیار کر لیں.

    چین میں سید مودودی، سید قطب اور محمد قطب کی کتابیں بالکل شروع میں ہی ترجمہ ہو گئی تھیں اور سید مودودی کا ’’مقدمہ تفہیم القرآن‘‘ جیبی سائز کے ترجمہ قرآن کے شروع میں لگا ہوا ہوتا ہے. اسی طرح خطبات اور دینیات وسیع پیمانے پر چھپتی اورپڑھی جاتی ہیں. اس کے علاوہ یوسف القرضاوی کی کتب اور مولانا زکریا کی فضائل اعمال کے ترجمے بھی دستیاب ہیں، تاہم چونکہ اکثر ترجمے کافی عرصہ پہلے ہوئے تھے اور اب جبکہ چینی زبان میں کافی تبدیلیاں ہو چکی ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کتابوں کے جدید چینی زبان میں ترجمے تیار کیے جائیں. نیت ہو تو اللہ راستے بھی بنا دیتا ہے، دوستوں کےلیے خوشخبری کہ اس کا راستہ بن چکا ہے، اور سفر جاری ہے-

    اس ساری کوشش کا مقصد یہ ہے کہ چین مستقبل قریب کی معاشی اور فوجی سپر پاور نہیں بلکہ شاید میگا پاور بن رہا ہے. اس ملک میں جس نظریے کے ماننے والے جتنے زیادہ اور جتنے طاقتور ہوں گے، اتنا ہی اس نظریے اور اس کے حاملین کے لیے بہتر ہوگا. اور جس نظریے کے اثرات کم ہوں گے، اس کے حاملین کے لیے کوئی اچھا منظر شاید نہیں بن سکے گا. یہاں لاکھوں غیر ملکی مسلمان آتے ہیں، پڑھتے، کام اور کاروبار کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے اکثریت نے جلد یا بدیر اپنے اپنے ملکوں کو واپس ہی جانا ہوتا ہے. یہاں رہنا چینیوں نے ہی ہے لہذا ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اندلس سے سبق سیکھیں اور میدان عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے خالی نہ چھوڑیں جو پوری قوت اور وسائل کے ساتھ چینیوں کو اپنے اپنے مذہب کے کی طرف لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں.

    میرے جیسے گناہگار ایسی ہی کوشش میں اپنا حصہ ادا کرنے کی کوشش میں مصروف مصروف ہیں. اللہ جانتا ہے. اللہ ہی تو جانتا ہے.

  • اسلام، ریاست اورسیکولرزم-خورشید ندیم

    اسلام، ریاست اورسیکولرزم-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    سیاست اگر کسی نظامِ ِاخلاق کی پابند ہے تو اسے مذہب سے لاتعلق نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا میں انسانوں کی غیر معمولی اکثریت آج بھی مذہب ہی کو اخلاقیات کا ماخذ سمجھتی ہے۔ اخلاق کو مابعدالطبیعات کے بجائے طبیعات سے متعلق کرنے کی کوشش ایک جدید تجربہ ہے۔ ابھی ہمیں اس معاشرے کا انتظار ہے جو طبیعاتی نظامِ اخلاق (Humanism) کی بنیاد پر تشکیل پائے گا۔جدید مغربی معاشرہ اب بھی مسیحی اخلاقیات پر کھڑا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مذہب سیاست سے متعلق کیسے ہوگا؟ میں ان کالموں میں اس سوال کو زیر بحث لایا ہوں اور اس ضمن میں تیونس کے نئے تجربے میں بڑی روشنی دیکھتا ہوں۔ تیونس ہی نہیں، ملائشیا اور بالخصوص انڈونیشیا بھی، جہاں اس باب میں غورو فکر کی ایک توانا روایت قائم ہو چکی ہے۔

    ریاست اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک جدید تصور ہے۔ اس لیے اسلامی ریاست کی بحث بھی ہماری روایت میں اجنبی ہے۔ دورِ حاضر کے بعض اہلِ علم بھی یہی بات کہہ رہے ہیں جو دین کی روایتی تفہیم پر یقین رکھتے ہیں اور فہمِ دین کے باب میں فقہا و محدثین ہی کے منہج کو درست سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون اعتباری شخصیت کے تصور کو نہیں مانتا۔ اس لیے قانونی اور فقہی اعتبار سے ریاست اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے بیانئے کی بحث میں جب یہی با ت جاوید احمد غامدی صاحب نے کہی تو اسے سیکولرزم اور جدیدیت قرار دیا گیا اور ہمارے معروف روایتی علما ان کی رد میں متحرک ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ریاست اسلامی ہوتی ہے۔یہ اہلِ علم یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ریاست جدید ادارہ ہے تو یہ مقدمہ بھی بے بنیاد ہے کہ جہاد کے لیے ریاست کا ہو نا ضروری ہے۔

    یہ بحث، صواب اور نا صواب کے پہلو سے قطع نظر ،یہ بتا رہی ہے کہ مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کی صورت گری، بایں معنی ایک اجتہادی امر ہے کہ اس کا تعین ایک عہد کے معروف سیاسی حقائق سے ہے۔ مثال کے طورپر ریاست موجودہ شکل میں پہلے موجود نہیں تھی، اس لیے ایک رائے یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا تصور دراصل تصورِ خلافت کا متبادل ہے۔ روزن تھال سے لے کرحمید عنایت تک ، بہت سے اہلِ علم یہی کہتے ہیں۔ مولانا مودودی کے علمی کام میں جس طرح حکومتِ الہیہ یا اسلامی ریاست کے تصور کو ماضی سے متعلق کیا گیا ہے تو اس میں خلافت ہی کے نظام سے نظائر تلاش کیے گئے ہیں۔ اس باب میں ایک رائے وہ بھی ہے اس کا اظہار ان کالموں میں کیا جاتا رہا ہے۔

    میرا کہنا یہ ہے کہ سماج ایک فطری ادارہ ہے جو اصلاً ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ یہ ریاست کی طرح جدید نہیں ہے ۔ خاندان کا ادارہ فطری ہے۔ خاندان ہی سماج کی اکائی ہے۔ خاندان کے ادارے پر معاشرتی ارتقا اثر انداز ہوا ہے لیکن اس کا جوہر ہر دور میں باقی رہا ہے۔ یہ بات کہ خاندان ایک مردوزن کے باہمی تعلق سے وجود میں آتا ہے جسے معاشرتی سطح پر قبولیت حاصل ہو، یہ ایک ایسا خیال ہے، جس پر علم البشریات کے محققین کی اکثریت یقین رکھتی ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے مشترکہ خاندانی نظام تھا، جو آج کے زرعی معاشروں میں بھی موجود ہے۔ صنعتی انقلاب نے نیوکلر فیملی کے تصور کو فروغ دیا۔ یوں معاشرتی ارتقا سماج کی ہیئت پر اثر انداز ضرور ہوا ہے لیکن اس کا جوہری پہلو باقی رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج ہمیشہ موجود رہا ہے اور اسے انسانی اجتماعیت کی فطری صورت قرار دینا چاہیے۔

    اگر ہم اجتماعی زندگی کو اسلام کی ہدایت کی روشنی میں مرتب کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے جدوجہد کا فطری میدان ریاست نہیں، سماج ہے۔ سماج اقدار سے قائم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان اقدارپر اصرار کرنا چاہیے جو اسلام دیتا ہے۔ دنیا میں دو طرح کے نظام ہائے اقدارہیں۔ایک وہ جو الہامی ہیں اور ایک غیر الہامی۔اسلام الہامی روایت کا آخری ایڈیشن ہے۔ایک اجتماعیت جس نظامِ اخلاق کو اختیار کر ے گی وہ اس کے سیاسی ، معاشی اور دوسرے اداروں کی تشکیل پر اثر انداز ہو گا۔ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست الہامی روایت کے مطابق تشکیل پائے تو اس کے لیے سماجی سطح پر اپنے نظامِ اقدار کو پختہ کرنا ہوگا۔اس نظام ِاخلاق کے تربیت یافتہ ،جب سیاست میں آئیں گے تو ان کے کردار کا عکس سیاست پر پڑے گا۔

    سیاست کے مسائل جوہری طور پر مذہبی نہیں ہوتے۔گڈ گورننس جیسے کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔سیاست سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کسی مذہبی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ جب یہ کہا جا تا ہے کہ سیاست کا مذہب سے تعلق نہیں ہو نا چاہیے تو اس کا یہی مطلب ہو تا ہے۔مذہب ایک اخلاقی قوت اور مابعد الطبیعیاتی امر ہے۔اجتماعیت کے باب میں دین نے اگر کوئی واضح ہدایت دی ہے تواسے قبول کیا جا ئے گا۔جیسے قرآن مجید میں بعض سزاؤں کا ذکر ہے۔جزاو سزا کا تعلق نظم ِاجتماعی سے ہے۔اس کی تفہیم اور تعبیر میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اصولی طور پر اس ہدایت کو قبول کیا جا ئے گا۔ان احکام کا مخاطب بھی ریاست نہیں،اہلِ اقتدار ہیں۔یہ ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے کہ وہ انہیں نافذ کریں۔اس نفاذ کی نوعیت کیا ہوگی،اس کا تعین انہیں کرنا ہے۔مسلمانوں کی تاریخ میں اس معاملے میں بہت تنوع ہے۔

    تعبیر ایک فطری امر ہے جو ہر متن سے وابستہ ہے۔پاکستان ایک آئین کی بنیاد پر قائم ہے۔اس آئین کی تعبیر میں اختلاف ہوتاہے۔عدالت کے سامنے جب ایک مقدمہ پیش ہوتا ہے تو دونوں فریق اس آئین یا قانون کو مان کر عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ان میں اختلاف کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔جیسے متعلقہ ملزم پر قانون کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں،یا قانون کا جو مفہوم ایک فریق بتا رہا ہے، دوسرا فریق اس تعبیر کو قبول کرتاہے یا نہیں۔سیاست ایک عمل ہے اور ریاست دورِ حاضر میںایک وجود رکھتی ہے۔یہ ممکن ہے کہ سیاست ہو رہی ہو اور ریاست نہ ہو۔جو چیز ایک نظامِ اخلاق کے تابع ہو گی وہ سیاست ہے۔اگر یہ ریاست کی صورت میں ظہور کر تی ہے تواس کے اداروں پر اس کا اثر ہو گا۔

    میرا کہنا یہ ہے کہ اسلام کو انسان کے نظامِ اخلاق سے متعلق کر نا چاہیے نہ کہ ریاست سے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کی اسلامی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ افراد مسلمان ہوں۔جب ہم ریاست کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اداروں کو مخاطب بناتے ہیں کیونکہ ریاست کا وجود اداروں کی شکل میں ظہور کر تا ہے۔پھر ہم کہتے ہیں کہ آئین کو اسلامی بناؤ یاعدالتوں کو اسلامی بناؤ۔یوں آئین اسلامی بن جاتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت بھی قائم ہو جا تی ہے مگراسلام پھر بھی دکھائی نہیں دیتا۔

    اسلام جب سماج سے وابستہ ہوتا ہے توپھر افراد اور اقدارمخاطب بنتے ہیں۔اب معاشی اور سیاسی اداروں کی جو شکل بھی ہو،اسلام کی تعلیمات کے نتائج سامنے آتے ہیں۔میں جو عرض کرر ہاہوں، اس میں مذہب سماج سے وابستہ ہوتا ہے،کسی ادارے سے نہیں۔اس لیے میں ریاست کومخاطب بنانے کے حق میں نہیں۔اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ سماج بھی تو ریاست کی طرح ایک ادارہ ہے۔میرا جواب ہوگا کہ سماج فطری ادارہ جب کہ ریاست تمدنی ارتقا کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے جسے کسی فطری ادارے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
    میرا خیال ہے کہ اب سیکولرزم اور میری بات کے مابین مو جود جو ہری فرق کی کسی قدر وضاحت ہو گئی ہوگی۔تاہم اس پر مکالمہ جاری رہنا چاہیے کہ یہ اس باب میںکہی گئی آخری بات نہیں ہے۔

  • سائنس دانوں کی مذہبی مشکلات اور ان کا ممکنہ حل‌‌ – عبداللہ کیلانی

    سائنس دانوں کی مذہبی مشکلات اور ان کا ممکنہ حل‌‌ – عبداللہ کیلانی

    ایک وقت تھا، سائنس دان مادے کی ابدیت اور قدامت پر یقین رکھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ خالق کے منکر تھے۔ پھر قوانین قدرت کی دریافت ہوئی، یہ وہ زمانہ تھا جب کائنات کو ایک خود کار نظام سمجھا جاتا تھا۔ رینے ڈیکارٹ، گلیلیو، آزک نیوٹن اور والٹر وغیرہ کے مطابق ایسے خودکار نظام کو ایک خالق کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا تھا۔ والٹر کے مطابق: خدا نے کائنات کو ایسے بنایا جیسے گھڑی ساز نے گھڑی کو، بنانے کے بعد خدا کو اس سے کوئی واسطہ نہیں، یہ کائنات قوانینِ قدرت سے خودکار طور پر چل رہی ہے۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ خدا کے قوانین کی جو تعبیر انہیں سمجھ لگی ہے، وہی اٹل تعبیر ہے۔ قوانین قدرت کی بنیاد پر فلکیات کے بارے میں سائنس دان جو پیش گوئی کرتے، وہ پوری ہوجاتی، چنانچہ اس نظریہ نے ایک سخت قسم کی جبریت کا رخ اختیار کیا، کہ انسان سمیت پوری کائنات قوانین قدرت کے ہاتھوں مجبور ہے۔

    جب معلوم ہوا کہ کائنات توسیع پذیر ہے، مادہ ابدی نہیں ہے، بلکہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور فنا ہوجاتا ہے، تو کائنات کی ابتدا کے بارے میں راز کھلنے شروع ہوئے۔ ابتداء اور تخلیق کائنات کے بڑے دھماکے والا نظریہ مقبول ہوا۔ یہ نظریہ دوبارہ وہی تقاضا کرتا تھا کہ خالق کائنات کو مانا جائے، چنانچہ سائنس دانوں کے لیے خدا پر یقین کرنا، کائنات کی ابتدا کے نظریہ کو سمجھنے کے لیے اور زیادہ ضروری ہوگیا۔ لیکن ان سائنس دانوں کے ہاں خدا کا تصور عام مذاہب کے خدا کے تصور سے بہت مختلف ہے۔ تقریباً سب مذاہب یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا سے جو دعائیں مانگی جائیں، پوری ہوتی ہیں۔ لیکن سائنس دان یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ایک انسان کی دعا کی خاطر اپنے اتنے عظیم قوانین میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔

    پھر ’لطیف طبعیات‘ یعنی ’کوانٹم طبعیات یا میکانیات‘ نے خدا کے بارے میں سائنس دانوں کے یہ تصورات غلط ثابت کردیے۔ ہائزن برگ کے دریافت کیے گئے اصول کے مطابق لطیف پیمانے پر کسی بھی چیز کی پیش گوئی ناممکن ہے یعنی کوئی بھی ایسا فارمولہ یا قانون نہیں ہے جس کی مدد سے ہم جان سکیں کہ اس لطیف ذرہ کا رویہ اگلے مرحلے میں کیا ہوگا، اس کا انحصار مشاہدے پر ہے۔ لطیف طبعیات کے مطابق جب کائنات بالکل ابتدائی حالت میں تھی تو یہ بہت سی لطیف حالتوں کا مجموعہ تھی، تب کائنات کے پاس بےشمار امکانات تھے، وہ کوئی بھی صورت اختیار کرسکتی تھی، وہ کسی عظیم ہستی کے ’مشاہدے‘ سے موجودہ حالت میں آئی ہے، یعنی جبریت کے عقیدے پر ضرب لگی، یعنی انسان سمیت پوری کائنات کسی نہ کسی حدود میں ذاتی ارادہ اور اختیار رکھتے ہیں، اور خدا اپنے قوانین توڑے بغیر ہر قسم کی بڑی سے بڑی دعا بھی قبول کر سکتا ہے۔

    یہ حقیقت ہے کہ بنیادی نظریات اور عقائد میں اتنی بڑی تبدیلی کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ بڑے بڑے سائنس دان ’کوانٹم‘ یا لطیف طبعیات کے ان حقائق اور مشاہدات سے گھبرائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً آئن سٹائن ’جبریت‘ کا قائل تھا، کوانٹم طبعیات کے ان حقائق سے گھبراگیا، اور اپنے زمانے کے کئی بڑے سائنس دانوں کی مخالفت ان الفاظ میں کی: ’خدا کائنات کے ساتھ ممکنات اور جوے کا کھیل نہیں کھیل سکتا‘، اس نے کوائنٹم طبعیات کو سائنسی انداز میں جھٹلانے کے لیے نام نہاد ’متغیر مخفیہ‘ کا نظریہ پیش کیا۔

    ان مسائل کا حل حسب ذیل ہو سکتا ہے۔
    1. مذہبی معاملات کے لیے مذہبی وسائل ہی معتبر ہو سکتے ہیں، سائنسی نہیں، کیونکہ جس تیزی سے سائنسی انکشافات سامنے آتے ہیں، سائنس دان اس تیزی سے اپنے نظریات تبدیل نہیں کرپاتے۔ اور ویسے بھی مذہبی نظریات میں آئے روز تبدیلی خود ان کو غیر معتبر کر دیتی ہے۔
    2. عموماً اسلام کا مزاج باقی مذاہب سے مختلف ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے، خاص طور پر سیاست، معیشت اور معاشرت وغیرہ کو اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔لیکن اگر سائنس کو محض ’علم وہنر‘ تک محدود رکھا جائے، تو شاید اس کو بھی مذہب سے کشمکش کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے خوشوں کے ملاپ کے بارے میں فرمایا’تم لوگ دنیاوی امور کے بارے میں خود بہتر سمجھتے ہو‘۔

  • مذہب اور سیاست-خورشید ندیم

    مذہب اور سیاست-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کی تشکیلِ نو،آج مسلم سماج کو درپیش سب سے اہم فکری مسئلہ ہے۔
    ہم ایک مدت سے اس کے لیے صدا لگا رہے ہیں۔پاکستان میں اس کی تفہیم نہیں ہو سکی۔اگر ہوئی ہے تو تونس میں۔راشد غنوشی بلا شبہ ‘پوسٹ اسلام ازم‘ کی سب سے توانا آواز ہیں جنہوں نے اس بات کا ادراک کیا۔چند ماہ پہلے بھی میں نے اس جانب توجہ دلائی تھی۔حسبِ توقع کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا کہ ہمارے ہاں سنجیدہ مباحث کی روایت ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکی۔اگر کسی نے تبصرہ کیابھی تواس کی گہرائی کو سمجھے بغیر۔بات پہلے بھی واضح تھی مگر اب راشد غنوشی صاحب نے، ایک بار پھر، بغیر کسی ابہام کے، یہ بات دواور دوچار کی طرح بیان کر دی ہے۔میں جو باتیں دو عشروں سے لکھ رہا ہوں، مجھے اپنی ایک ایک بات کی صدائے بازگشت راشد غنوشی کے مضامین اور خطبات میں سنائی دے رہی ہے۔

    راشد غنوشی تیونس کی اسلامی تحریک’النہضہ‘ کے فکری قائد ہیں۔1970ء کی دہائی میں برپا ہونے والی یہ تحریک اُسی فکر کی نمائندہ تھی جسے آج ‘سیاسی اسلام‘ کہا جا تا ہے۔مئی2016 ء کے سالانہ اجتماع میں، اس تحریک نے نئے دور کا آغاز کیا اور’سیاسی اسلام‘ سے اعلانیہ اظہارِ برأت کیا۔ ‘فارن افیئرز‘ کے تازہ شمارے (ستمبر اکتوبر)میں راشد غنوشی کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔اس میں انہوں نے اس فیصلے کاپس منظر بیان کیا اور یہ بھی بتایاہے کہ اس تشکیلِ نو کی نوعیت کیا ہے۔

    غنوشی کا کہنا ہے کہ اب وہ کوئی ‘اسلامسٹ تحریک‘نہیں ہیں۔ان کی نئی شناخت’مسلم ڈیموکریٹس‘ ہے۔’النہضہ‘ اب ‘اسلام ازم‘ کی شناخت کو قبول نہیں کرتی(The party no longer accepts the label of “Islamism”)۔ہمارا مقصد مذہبی اور سیاسی دائروں کو جدا کر نا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کو مذہب کی نمائندگی کا دعوے دار نہیں ہونا چاہیے۔مذہبی سرگرمیوں کو سماج کے ایسے ادارے منظم کریں جو غیر جانب دار ہوں۔ سادہ لفظوں میں مذہب کو سیاست میں فریق نہیں بننا چاہیے۔مسجد کو تقسیم کا نہیں، وحدت کا مرکز ہو نا چاہیے۔ایک خطیب یاامام مسجد کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہو۔اسے دینی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی بہتر طور پر ادا کر سکے۔

    راشد غنوشی کے نزدیک مذہب اور سیاست کی یہ جدائی اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت عوام کا مذہبی استحصال نہ کر سکے۔اس سے مذہبی اداروں کی آزادانہ حیثیت بحال ہو گی اور مذہب سیاست کے حصار سے نکل آئے گا۔اس علیحدگی سے، انتہا پسندی سے نمٹنا بھی آسان ہو جائے گا۔اس فکری تبدیلی کاپس منظر بیان کرتے ہوئے،غنوشی یہ کہتے ہیں کہ النہضہ نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر تیونس کو ایک جمہوری مملکت بنانے کی کوشش کی۔سیاسی وحدت کے لیے اقتدار کو قربان کیا۔اب ہم نے ملک کو ایک نیا آئین دے دیا ہے جس میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔اس متفقہ آئین کے لیے النہضہ اس مطالبے سے بھی دست بردار ہوگئی کہ شریعت کو بطورماخذِ قانون تسلیم کیا جا ئے۔

    اب تیونس ایک جمہوری ملک ہے۔آئین مذہبی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔اس لیے تیونس میں کسی مذہبی سیاست کی ضرورت نہیں۔ دعوتِ دین اورآخرت کا انذاراب ہمارے مقاصد میں شامل نہیں۔اس کام کو غیر سیاسی انداز میں منظم ہو نا چاہیے۔بطور سیاسی جماعت ہماری دلچسپی روز مرہ معاملات سے ہے۔یہ عوام کی بھلائی اورخو ش حالی کے کام ہیں جو ہمیں کر نے ہیں۔اس کے لیے ضرورت ہے کہ ‘پرجوش کیپیٹل ازم‘ (Compassionate Capitalism)کے وژن کے تحت معاشی مکالمہ کیا جائے۔اسی طرح گورننس اور کرپشن جیسے مسائل کو حل کیا جا ئے۔راشد غنوشی کے نزدیک اس جمہوریت کو کامیاب بنانے کے لیے سماجی تبدیلی ناگزیر ہے۔اس ضمن میں وہ خواتین کے کردار کی بطورِ خاص بات کرتے ہیں،جن کی سیاسی،سماجی اور معاشی عمل میں موثرشرکت کے بغیر ،جمہوریت نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔
    راشد غنوشی اور النہضہ نے سوچا، غور وفکرکیا ،اپنا احتساب کیا اور برسوں کی ریاضت کے بعد،اپنے طرزِ عمل ہی کونہیں،فکر کو بھی تبدیل کیا۔اس وقت شاید تیونس مشرقِ وسطیٰ کاواحد ملک ہے جو کسی سیاسی و معاشی اضطراب کے بغیر ایک نئی راہ پر چل نکلا ہے اور یہ معاشرہ بڑی حد تک اس فساد سے محفوظ ہے جو پورے خطے میں برپا ہے۔اس کا کریڈٹ ‘النہضہ‘ کو جاتا ہے۔اس کے پاس بھی یہ متبادل مو جود تھا کہ وہ ریاست اور مخالف سیاسی جماعتوں سے مخاصمت اورتصادم کا راستہ اختیار کر تی۔اس نے ایسا نہیں کیا۔اپنے لیے نئے راستے تلاش کیے، بنیادی امور پر مفاہمت کی اور اس کے ساتھ ملک اور عوام کے جان و مال کوبھی محفوظ بنایا۔

    ہم اس ملک میں برسوں سے یہ صدا لگار ہے ہیں۔استادِمحترم جاوید احمد غامدی صاحب نے کئی سال پہلے لکھا تھاکہ دعوت،علمی تحقیقی اور سیاسی کاموں کو الگ الگ منظم ہو نا چاہیے۔ کم وبیش بیس سال پہلے، ایک نو خیز لکھائی کے طور پر، میں نے یہ مقدمہ اپنی پہلی کتاب’اسلام اور پاکستان‘ میں پیش کیا۔اس کے ابواب ماہنامہ ‘اشراق‘ میں شائع ہو چکے تھے۔جب یہ مضمون شائع ہوا تو ہمارے بزرگ نعیم صدیقی مرحوم نے اس پر شدید تنقید کی اور اسے بربادی کا راستہ قرار دیا۔میں گاہے گاہے اس قصہ پارینہ کو اپنے کالموں میں دہراتا رہا جب حالات نے اس کے لیے کوئی شہادت فراہم کی۔مثال کے طور پرمیں نے بار لکھا کہ 1973ء کے آئین کی موجودگی میں،پاکستان میں مذہبی سیاست کی ضرورت باقی نہیں رہی۔اس سے مذہبی استحصال وجود میں آتا ہے۔

    ناقدین نے اسے دین و سیاست کی جدائی قرار دیا۔آج کل اسے سیکولرازم سے منسوب کیا جا تا ہے۔دراصل یہ نہ دین اور سیاست کی جدائی ہے اورنہ سیکولرازم۔یہ ایک طرف نئی فکری تعبیر ہے اور دوسری طرف نئے لائحہ عمل کی دعوت ہے۔تعبیر اور لائحہ عمل دونوں حالات کے تابع ہو تے ہیں۔نئے حقائق تفہیمِ نو کے متقاضی ہوتے ہیں۔جو بات راشد غنوشی جیسے اہلِ فکر نے سمجھی وہ دنیا میں آنے والی جمہوری تبدیلی ہے۔انسانی فکر میں آنے والی یہ ایسی ہی ایک تبدیلی ہے جیسی سائنس کی دنیا میں نئے ذرائع ابلاغ کی آمد۔انٹر نیٹ نے جس طرح ابلاغ کی دنیا کو بدل دیا، اسی طرح جمہوریت نے انسانی تہذیب کو ایک نئے رخ پر ڈال دیاہے۔آزادیٔ رائے کے کلچر نے دنیا کو فطرت سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔خدا کا قانونِ آزمائش بھی اگر کسی عہد میں پوری طرح ظہور کرتا ہے تووہ آزادی فکر وعمل کا عہد ہے۔اسلام کی دعوت بھی اگر پھیل سکتی ہے تو جمہوری ماحول میں۔

    یہی نہیں،نئے سیاسی ، سماجی ا ور معاشی اداروں کی تشکیل نے بھی انسانی سماج کو یکسرتبدیل کر دیا ہے۔کسی فکر کی بقا کے لیے لازم ہے کہ وہ خود کونئی تبدیلیوں سے ہم آہنگ بنائے۔النہضہ نے یہ بات جان لی ہے کہ فکری تبدیلی کا تعلق ریاست سے نہیں ،سماج سے ہوتا ہے۔انہوں نے مذہب کا راستہ نہیں چھوڑا۔انہوں نے یہ جانا ہے کہ مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا جائے تاکہ وہ فطری انداز میں پنپ سکے۔جب وہ ریاست سے متعلق ہو گا تو ریاست اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے گی۔اس بات کا شعور تیونس سے زیادہ پاکستان کے مکینوں کو ہوناچاہیے جو مذہب کے سیاسی اور ریاستی استعمال کے نتائج تین دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔

    یہ لازم نہیں کہ ہم راشد غنوشی صاحب کے ہر نتیجہ فکر سے اتفاق کریں۔تاہم میرا خیال ہے کہ انہوں نے نئی تبدیلیوں کا درست ادراک کیا ہے۔اگر عالمِ اسلام کی دوسری اسلامی تحریکوں نے راشد غنوشی صاحب کی طرح ،اپنے فکر اورحکمتِ عملی کی تشکیلِ نو نہ کی تو ان سے وابستہ نو جوانوں کی فطری منزل داعش جیسی تنظیمیں ہیں۔ النہضہ نے اپنے نو جوانوں کو اس خطرے سے محفوظ کر لیا ہے۔

  • مذہب اور سائنس – عبد اللہ کیلانی

    مذہب اور سائنس – عبد اللہ کیلانی

    مذہب اور سائنس کا تعلق بیان کرنا باقاعدہ ایک علیحدہ علم ہے. ہر علم کی طرح اس علم کو بھی سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ دیکھنا ہوگی یعنی مذہب اور سائنس کا ماضی میں کیا تعلق رہا ہے یا کن کن نامور ماہرین علم نے اس علم پر کیا کیا کام کیا ہے.

    یہ تعلق سب سے پہلے شاید علمائے مذہب کی غلامی سے پیدا ہو، بخت نصر نے بنی اسرائیل کو غلام کیا، اور انہیں عراق لے گیا. عراق ایک بڑی تہذیب تھا. ان علمائے مذہب نے اس تہذیب سے متاثر ہو کر اپنے مذہب کے ’’موافق‘‘ تعبیر کی، مثلا زمین ایک بڑی کشتی ہے جو پانی کے سمندر میں تیرتی رہتی ہے، جب پانی میں طغیانی آتی ہے تو زلزلے اور سیلاب آتے ہیں. یہی بنی اسرائیل کے عقائد بن گئے جو پہلے علمائے بابل کے تصورات تھے. ان تصورات کا اثر موجودہ بائبل میں اب بھی نظر آتا ہے. زمین کے بارے میں، آسمان کے بارے میں، بہت سی باتیں بابل کی تہذیب سے بنی اسرائیل نے لیں. سائنس سمجھ کے لیں، عقل سمجھ کے لیں یا ’بڑی تہذیب کا فیشن‘ قبول کیا. عیسائیت کے ساتھ یونان کی تہذیب نے یہی معاملہ کیا. ’علماۓ یونان‘ کے بہت سے عقائد و نظریات آج عیسائیت کی بنیاد ہیں. خاص طور پر ابن اللہ اور تثلیث کے عقائد یونان کی’اعلی تہذیب‘ سے متاثر ہو کر بطور فیشن عیسائیت کا حصہ بنے. یونان کے لوگوں کے بہت سے عقائد کی معمولی تبدیلی کر کے ’مذہب کی شان‘ بڑھانے کے لیے عیسائیت کا حصہ بنا دیے گئے. یہاں تک تو مذہب اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ نظر نہیں آتا.

    اب جو سائنس ہے یا جو معیار عقل ہے یا جو معیار فیشن ہے، یہ سب تو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں. اس کے برعکس مذہب کا مزاج غیر متبدل ہوتا ہے. مذہب صرف تب ہی لچکدار ہوتا ہے جب وہ غلامی سے دوچار ہو. جب عیسائیت کو حکومت ملی تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنسی نظریات میں تبدیلی آنے لگی. اب قدیم یونانی سائنسی نظریات غیرمعتبر ہونا شروع ہوگئے. اب زمین کائنات کا مرکزی حصہ نہ رہی. لیکن یہ سب باتیں تو عیسائیت غلامی کے دور میں قبول کر چکی تھی. شائد یہی وہ دور ہے جب سب سے پہلے مذہب اور سائنس کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا، سائنسدانوں کو قتل کیا گیا، یہاں سے یہ تصورات ابھرے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے دشمن ہیں.

    قرون وسطی میں اسلامی تہذیب کو غلبہ حاصل ہوا، پھر یونانی اور ہندی تصورات اس میں شامل ہوگئے، اور بہت سے بیرونی نظریات کو عقل کے نام پر قبول کر لیا گیا. شاید یہی وہ دور تھا جب ’عقل‘ اور ’نقل‘ میں کشمکش شروع ہوگئی حالانکہ قرآن نے عقل کو ان معنوں میں کہیں بھی استعمال نہیں کیا. اس کشمکش نے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو یہودیت کے ساتھ بابلی، اور عیسائیت کے ساتھ یونانی تہذیب نے کیا. اس کے اثرات آج بھی بعض اوقات مشاہدے میں آتے رہتے ہیں.
    اس کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں.
    1. زمین کو ساکن اور کائنات کا محور سمجھنا حالانکہ کہ یہ چیز قرآن میں کہیں نہیں لکھی ہوئی. یہ چیز یونانی تہذیب سے آئی ہے. شیخ عبد العزیز بن باز کا مشہور فتوی کہ جو کہے زمین متحرک ہے اس نے کفر کیا. شیخ صاحب نے قرآن کی آیت کہ ’ہم نے زمین میں میخیں گاڑ دی‘ کی قرون وسطی والی تعبیر کی.
    2. آدم علیہ السلام کو دس ہزار سال سے زیادہ قدیم نہ ماننا. یہ چیز اہل کتاب سے مسلمانوں میں آئی ہے. اور اہل کتاب نے کہاں سے لی، شاید یونانی تہذیب سے. قرآن اور احادیث میں کہیں بھی ایسا کچھ نہیں ہے.

    دوسری طرف جو ظلم و ستم سیکولر سرمایہ دارانہ نظام یا اشتراکی سماج کی طرف سے سائنس کے نام پر مذہب اور اہل مذہب پر ڈھائے گئے، اس کی فہرست اس سے بھی زیادہ طویل ہے.
    اس سب کے بعد ہم نتیجے کی طرف بڑھتے ہیں. سائنسدانوں کی مندرجہ ذیل اقسام ہو سکتی ہیں.
    1. مذہب پر عمل کرنے والے نیک سائنسدان
    2. مذہب کے خلاف چلنے والے
    3. مذہب اور سائنس کو علیحدہ علیحدہ رکھنے والے
    اور اسی طرح علمائے کرام کی بھی تین اقسام ہو سکتی ہیں.
    اس میں ایک چیز جو ہمیں دیکھنی ہے، وہ یہ کہ مذہب کی جس چیز کو ہم سائنس کے خلاف سمجھ رہے ہیں، وہ کس حد تک مذہبی ہے؟ اس کی اصل کیا ہے؟ اسى طرح سائنس کی جس چیز کو ہم سائنس سمجھ کے قبول کر رہے ہیں؟ اس کی اصل کیا ہے؟ اس بنیادی سوال پر غور کرنے سے ہم درست نتیجہ تک پہنچ سکیں گے.

  • قوم مذہب سے ہے. کامران امین

    قوم مذہب سے ہے. کامران امین

    کامران امین نیشنلزم کےنام پر لوگوں کو دیے جانے والے دھوکوں میں سب سے اہم دھوکہ یہ نعرہ ہے کہ قومیں وطن سے تشکیل پاتی ہیں۔ لیکن تقدیر نے ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ مارنےکے لیے روز اول سے ہی الٹا کھیل کھیلا ہے۔ انسان کی 5 ہزار سالہ معلوم تاریخ میں یہ رشتہ اتنا کمزور رہا ہے کہ جب زمین کے ایک ٹکرے نے چارہ اگلنا بند کیا تو انسانوں نے اپنی اس ماں کو خیرباد کہا، بوریا بستر اٹھایا اور نیا وطن بنا لیا۔

    حالیہ تاریخ میں قیام پاکستان قومیت پر مذہب کی برتری کا پہلاثبوت تھا جب ایک ہی وطن کے رہنے والے لوگوں نے جن کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا اور اوڑھنا بچھونا تقریباً ایک ہی جیسا تھا لیکن صرف مذہب کی بنا پر انہوں نے کہا کہ ہم ساتھ نہیں رہ سکتے اور 2 نئے ملک منصہ شہود پر آئے۔ اس کے ایک سال بعد ہی مذہب کے نام پر ایک اور ریاست اسرائیل نے جنم لیا۔ دنیا بھر میں یہودی کہیں بھی ہو وہ اسرائیل کا شہری ہے، اس کی ساری ہمدردیاں اور سرمایہ اسرائیل کے نام پر وقف ہوتا ہے۔ جدید دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کی تشکیل میں مذہب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مقرقی تیمور اور جنوبی سوڈان اس کی واضح مثال ہے جہاں ایک ہی جغرافیائی محل وقوع اور ایک زبان، ایک جیسے رسوم و رواج رکھنے والوں نے ایک وطن میں رہنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ چونکہ تم مسلمان اور ہم عیسائی ہیں، اس لیے ہم ایک ملک میں نہیں رہ سکتے، ہمیں الگ وطن چاہیے۔

    برما میں ایک ہی وطن کے رہنے والے مسلمان محض اس لیے شہریت سے محروم ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور حکمران بودھ۔ یہ تو مذہب کی بات تھی، اب تو دنیا میں مسلک کے نام پر بھی ملک بننے لگے ہیں۔ آئرلینڈ صرف اس لیے منصہ شہود پر آیا کہ ان کا مسلک برطانیہ کے سرکاری مسلک سے مختلف تھا۔ عراق میں دولت اسلامیہ کا ظہور اس کی نئی کڑی ہے۔ ان سارے ثبوتوں کے ہوتے ہوئے کون نادان اس بات سے انکاری ہے کہ مذہب قوم کی تشکیل نہیں کرتا؟

    سیکولر حضرات قیام بنگلہ دیش کو نیشنلزم کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں، اگر بنگلہ دیش کا قیام مذہب کی ہار تھی تو مغربی بنگال اور مشرقی بنگال ایک کیوں نہ ہوگئے؟ صرف اس لیے کہ دونوں خطوں میں لوگ الگ الگ مذہب کے پیروکار ہیں اس لیے باوجود ایک جغرافیائی محل وقع اور ایک ہی زبان ہونے کے دونوں خطے الگ الگ وطن ہیں۔ کیا یہ مثالیں آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں ہیں؟

  • کوئٹہ حملہ اور دہشت گردی کے خلاف فراموش اسلحہ – حافظ یوسف سراج

    کوئٹہ حملہ اور دہشت گردی کے خلاف فراموش اسلحہ – حافظ یوسف سراج

    حافظ یوسف سراج اب کے کوئٹہ لہولہان ہو گیا ہے۔ کوئٹہ پاکستان ہی نہیں، وہ زیادہ پاکستان ہے۔ جسم کا جو حصہ زیادہ زخم خوردہ ہو، اسے زیادہ اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ ابھی ابھی میں نے انگوٹھے کے ناخن کے زخم کی اذیت سے شفا پائی ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ ادھر کوئی بچہ میری جانب لپکتا، ادھر میں پاؤں سمیٹ لیتا۔ لپکتا کیا کوئی ہلتا بھی تو میرا لاشعور از خود میرے پاؤں کو محتاط اور متحرک کر دیتا۔ کوئٹہ ہو یا کے پی کے اور سندھ، کسی وجہ سے وہ پنجاب کے بارے میں اسی شعوری اور لاشعوری احتیاط میں ہیں۔ یہ سٹریٹیجک اعتبار اور سیاسی حیثیت سے بھی زیادہ حساس صوبے ہیں۔ کچھ دشمن نے اور کچھ نادان سیاسی دوستوں نے یہاں کے زخموں کی دانستہ مسیحائی کی کوشش نہیں کی۔ دشمن کا تو خیر سے دشمنی کا میدان اور ہماری اذیت کا مقام ہی یہ صوبے ہوگئے، مگر نادان دوستوں نے بھی وقتی سیاسی مفاد کے لیے انھیں گردن دبوچنے کا پریشر پوائنٹ سمجھ کے ہر آن برتا ہے۔ یہ چیزیں معروف اور معلوم ہیں۔ میں صرف اپنے درد کی شدت کے اظہار کے لیے دہرا رہا ہوں۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے جسدِ وطن کے نسبتا اس حساس حصے پر چوٹ لگنے سے میرے دل، میرے دماغ اور میرے دورانِ خون پر کچھ زیادہ ہی اثر ہوا ہے۔گو میں کوئٹہ ابھی تک نہیں گیا، وہاں لہو میں ڈوبنے والوں میں کوئی میرا شناسا بھی نہ تھا مگر یہ جو پاکستان پر، انسان پر اور میرے ہم ایمان پر وارہوا ہے تو میرا جگر ہی کٹ اور میرا بدن ہی بٹ گیا ہے۔ میرا درد اس لیے بھی سوا ہے کہ یہ کہاں اور کس سنگدلی سے وار کیا گیا۔زخم پر نمک چھڑکنے کا محاورہ ماند ہوگیا، یہ انسانی شکار کے ہانکے کی بدترین مثال ہے۔ پہلے بارود کی بوچھاڑ سے زخمیوں کا ہانکا کیا گیا اور پھر شفاخانے میں پڑے زخمیوں کے زخموں پر خود کش بارود چھڑکا گیا۔ ابھی ابھی دلیل پر برادرم آصف محمود کا نوحہ اور اس سے پہلے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا تجزیہ پڑھا ہے۔ میں برادرِ اکبر آصف محمود کے الم اور جناب عاصم اللہ بخش کی دانش، ہر دو پر صاد اور ہر دو کی تائید کرتا ہوں۔ ان کی ہاں میں ہاں اور ان کے درد میں اپنا درد ملاتاہوں۔

    زیادہ نہیں، مجھے یہاں بس زخم دل کی نمائش اور بلوچ بھائیوں کے لیے اپنے حرفِ دعا کے ساتھ ساتھ بس ایک دو باتیں عرض ہی کرنی ہیں۔ مکرم عامر خاکوانی صاحب کے الفاظ میں ایک تو یہ بات دہرانی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ دراز دورانیے کی ایک خونی اننگز ہے۔ سو اللہ نہ کرے، ممکن ہے ابھی ہمیں کچھ اور بھی جھیلنا پڑے، گو ہم کم پہلے بھی نہیں جھیل رہے۔ محض دھماکوں کے بعد چیتھڑے ہو کے بکھر چکی لاشیں اٹھانے کی صورت میں ہی نہیں، اپنی زندگی کے رنگ محدود کرلینے اور اپنے تحفظ کی ردا کو تنگ کر لینے کی صورت میں بھی۔ امن کے گلے پر آئے خوف کے ہاتھ اور اس کے نتیجے میں معیشت کی اکھڑتی سانس کے نتیجے میں بھی۔ آج بچوں کا سکول میں چھٹیوں کے بعد پہلا دن تھا۔ میں انھیں سکول چھوڑنے گیا تو وہاں سکول کو مڑتی سڑک کے بالکل آغا زمیں لوہے کے ایک بیرئیر کا مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ سکول کے سامنے پہلا بیرئیر تب لگا تھا جب آرمی پبلک سکول کے در و دیوار ہمارے مستقبل کے خون سے نہا گئے تھے۔ در و دیوار تک آ نے والے اس معصوم خون کے یہ چھینٹے ان کی پاک اور پوتر وردیوں سے چھن کے آئے تھے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی قیمت انسانی قیاسی حدود سے کہیں زیادہ ادا کرچکے ہیں اور ابھی ہمیں مقتل سے چھٹی نہیں ملی۔

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کے کالم کے بعد میں مجھے اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ ہم یہ جنگ ادھورے ہتھیاروں سے لڑ رہے ہیں۔ میں سعودی عرب کی مثال دینا چاہوں گا۔ آپ کو معلوم ہے پوری دنیاکی طرح بالعموم اور اسلامی دنیا کی طرح بالخصوص سعودیہ بھی دہشت گردی کی زد پر ہے۔ جس طرح پاکستان اپنی ایٹمی، عسکری اور جغرافیائی حیثیت سے عالمی نقشے میں اہمیت رکھتا ہے بعینہ مسلمانوں کا روحانی و جسمانی قبلہ ہونے کی وجہ سے سعودیہ بھی کھٹکتاہے دل یزداں میں کانٹے کی طرح۔ ان کا طریقہ مگر ہم سے کچھ مختلف تھا۔ انھوں نے انٹیلی جینس اور ملٹری سول اداروں کے ساتھ ساتھ جس ادارے کو سب سے زیادہ متحرک کیا، ہم نے اسی کو فراموش کر رکھا ہے ۔یہ ادارہ ہے دینی سر چشمے اور علماء۔ سعودی حکومت نے ہر سکول میں دہشت گردی کے خلاف بیداری شعور کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کیا۔ انھوں نے ارہاب کے نام سے اپنے سکولوں میں ایک مضمون تک شاملِ نصاب کر دیا ہے۔ جہاں تک میری معلومات ہیں ایک پوری یونیورسٹی اس پر کام کر رہی ہے۔ کم ازکم آئمہ حرمین کے خطبات میں ہر جمعے ضرور دیکھتاہوں۔ ہر خطبے میں کسی نہ کسی حوالے سے وہ اپنے اداروں کی قربانیوں کا بالالتزام تذکرہ کرتے ہیں، خواہ محض دعا ہی کی صورت کریں۔ دہشت گردی کے خلاف آئمہ حرمین کے خطبات اکٹھے کیے جائیں تو شاید ایک کتاب بن جائے۔ بالخصوص امام کعبہ شیخ السدیس کے ابوالکلامی، زورِ بیان اور زورِ زباں کے حامل شاہکار خطبات۔ ان خطبات کے براہ راست مخاطب وہاں نوجوان ہوتے ہیں۔ وضاحت اور دلیل سے وہ اس موضوع پر بات کرتے ہیں۔ یہ اس جنگ کے خلاف سعودی عرب کا گویا فرنٹ لائن کا محاذ ہے۔ ا س طرح سے یہ محاذ ذہن کو مخاطب کرتا ہے اور ان کی فورس کی گنیں دشمنوں کے جسموں سے خطاب کرتی ہیں۔

    ہمارے ہاں اس مذہبی محرک اور فورس کو استعمال کرنے کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ اس جنگ کے پیچھے دشمن جو بھی ہے، اس کے پاس ہمارے خلاف ایک قوی دلیل خود مذہب ہی ہے۔ خواہ اس کی شکل شدت پسندی کی ہو یا تکفیر کی۔ اس سے آگاہ ہونے کے باوجود ہم اپنے علماء سے ابھی پوری طرح اس سلسلے میں تعاون نہیں مانگ سکے۔ ہم ان کو اس جنگ میں ان کی شمولیت اور اہمیت بھی نہیں بتاپائے۔ یہ کام بھی حکومت کے کرنے کا ہے۔ ہم سے ایک اور غلطی بھی ہوئی، علماء کی بھرپور عدم شرکت کے خلاف ہماری انتہا نے انھیں شامل و شریک کرنے کے بجائے نظری فریق بنا دیا۔ اس کا فائدہ دشمن کو پہنچا۔ نیکٹا کی غیرفعالی کی طرح میں اس کا ذمے دار بھی حکومت اور مجاز اتھارٹیوں کو سمجھتاہوں۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کے خلاف پچھلی پکڑ دھکڑ اور نوعیت کی تھی جیسے جسم کے فاسد حصے کا علاج کیاجائے مگر درست حصے کی طاقت کو استعمال کیے بغیر۔ معاشرے اور اس جنگ کا اہم ترین ستون، یہ طبقہ علماء ہم نے اس جنگ میں کتنا شریک کیا ہے، اس کا اندازہ آپ عبدالستار ایدھی یا قندیل بلوچ کے قتل جیسے مواقع پر آنے والے تبصروں سے کر سکتے ہیں۔ ہمیں اب احساس کر لینا چاہیے کہ علما کی نظری اور فکری طاقت ہماری قوت کا ناقابل اندازہ ذخیرہ ہے۔ آئیے ہر سطح پر، سب کے ساتھ ہم علما کو بھی یہ بتائیں کہ ہمارا اب جو بھی سٹیٹس ہے، وہ وطنِ عزیز پاکستان ہی کے ساتھ ہے۔ اللہ نے اس دھرتی کو ہمارے نام اور کام کا وسیلہ بنایا ہے۔ سو لازم ہے کہ اس پاک سرزمیں کی طرف بڑھتے گھناؤنے ہاتھوں کے خلاف ہم سبھی طبقے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں۔ مجھے لگتاہے کہ پاکستان کو اس دلدل سے نکلنے کے لیے بس اب آخری جرات اور جھٹکے کی ضرورت ہے۔ تجارتی راہداری، کشمیر کی بیداری اور ہماری، جیسی بھی ہے، سیاسی ہمواری کے تناظر میں یہ مگر بڑا کڑا لمحہ بھی ہے۔ یہ آخری امتحان کا وقت ہے ۔ آئیے ہم اپنے عمل سے پوچھیں، کیا ہمیں اس کا واقعی ادراک ہے؟ اور کیا ہم اس احساس کے استقبال کے لیے واقعی تیار ہیں؟

  • 3 قومی جنون اور مولوی کی اقسام – محمد راشد

    3 قومی جنون اور مولوی کی اقسام – محمد راشد

    محمد راشد چرچل کا قول ہے کہ امریکن صحیح کام اس وقت کرتے ہیں جب ان کے پاس کرنے کو کوئی غلط کام نہیں ہوتا۔ مذکورہ قول کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم پاکستانی بھی امریکنز سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ ہم ہمیشہ غلط وقت پر صحیح کام اور صحیح وقت پر غلط کام کرنے کے عادی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اندر پائے جانے والے وہ تین جنون ہیں جن کا عشر عشیر بھی کسی دوسری قوم میں نہیں ملتا۔
    ۱۔ کرکٹ کا جنون
    ۲۔ سیاسی جنون
    ۳۔ مذہبی جنون

    ۱۔ کر کٹ کا جنون برساتی مینڈک کی طرح ہے جو عموماً ورلڈکپ یا کسی دوسری چیمپئن ٹرافی کے وقت ظاہر ہوتا ہے اور پھر اتنی ہی تیزی سے صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ زمانہ عروج میں یہ جنون ایک عام آدمی کوب ھی کرکٹ ماہرین کی طرح سوچنا اور بولنا سکھا دیتا ہے، ہر گلی محلے میں آپ کو کرکٹ پر وہ تبصرے سننے کو ملتے ہیں جن تک کرکٹ ماہرین کی سوچ کی رسائی بھی شاید ممکن نہ ہو ۔ اس جنون کا اختتام عموماً پاکستانی ٹیم کی ہار کے ساتھ ان الفاظ پر ہوتا ہے جن کو زیب قرطاس کرتے ہوئے قلم بھی شرما جائے اور اختتام کے ساتھ ہی یہ جنون کسی نئی چیمپئن ٹرافی کے ساتھ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

    ۲۔ دوسرے جنون کا تعلق سیاست سے ہے. یہ جنون بھی شروع گلی کوچوں ہی سے ہوتا ہے لیکن منتہی ایوان اقتدار پر ہوتا ہے، اول بلند بانگ دعوے، ثانیاً کرسی اور انتہاً عوام کی خون پسینے کی کمائی کا سوئس بینکوں یا آف شور کمپنیوں میں پہنچ جانا ہے اور قربان جائوں اس مستقل مزاج عوام کے جنہیں پُل سےگزرتے وقت ٹیکس دیتے اور جوتے کھاتے ہوئے تنگی وقت کا احساس تو ہے لیکن اس کے پیچھے چھپی حکمت کا ادارک ابھی تک نہیں ہوا۔ انہی حکمرانوں کو جنہیں یہ جھولیاں بھر بھر کے بدعائیں دیتے ہیں اگلے الیکشن میں زندہ ہے فلاں زندہ ہے کے نعرے لگاتے ہوئے ’’سرتسلیم خم جو مزاج یار میں آئے‘‘ کے مصداق قربان ہونے کے لیے دوبارہ تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔

    ۳۔ تیسرا جنون ہمارے مولوی حضرات کا عطا کردہ تُرپ کا وہ پتہ ہے جو اس وقت Show Off کیا جاتا ہے جب اسلام کے بجائے خود ان کی اپنی عزت دائو پر لگی ہوتی ہے۔ اس جنون کو سمجھنے کے لیے خداوندانِ جنون (مولوی) کی اقسام کا جاننا ضروری ہے۔

    مولوی کی اولین قسم ارتقائے مولویت کی وہ پہلی کڑی ہے جس کا سرا اصحاب صفہ سے شروع ہو کر خدانخواستہ عنقریب ختم ہونے والا ہے. ان حضرات کا کام قال اللہ اور قال الرسول کی صدائوں کو بلند کرتے ہوئے لوگوں کے ظاہر و باطن کے تضاد کو ختم کرنا ہے۔ ان بوری نشین علماء کا مقصد صرف اور صرف دین کی خدمت کرنا ہوتا ہے، ان کے ہاں آپ کو جبہ و دستار والی رعونت ملے گی نہ ہٹو بچو کی صدائیں۔ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی شاہوں والا استغناء رکھنے والے علماء کا مقام یہ ہے کہ
    ہم فقیروں سے دوستی کر لو
    گُر سکھا دیں گے بادشاہی ہے
    (چونکہ یہ قسم زیربحث مولویوں کی شرائط پر پوری نہیں اترتی، اس لیے اسے خارج از بحث تصور کیا جائے)

    دوسری قسم ان مولویوں کی ہے جو دین کوملمع بنا کر مشایخت میں پائوں دھرنے کے بعد کولمبس کی طرح ایک نیا جہان دریافت کرنے کے لیے بحری جہاز کے بجائے خطابت کے اُڑن کھٹولے پر سوار جاہل قریوں میں یہ جا وہ جا اڑتے نظر آتے ہیں۔ تفسیری نکات اور فقہی موشگافیوں کا ایک خزینہ جیبوں میں بھرے عام لوگوں کو دین کے ان ادق مسائل میں الجھا کر دم لیتے ہیں کہ لوگ دین کو سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ بخد ا اس دین پر عمل کرنے کے لیے کم از کم صحابی ہونا ضروری ہے اور اس دور میں صحابی بننے کے لیے اس تھوڑے سے اسلام کو بھی قربان کرنے کی نوبت آجاتی ہے جو انہیں اپنے آبائو اجداد سے ملا ہے اس لیے یہ لوگ اس تھوڑے سے دین پر ہی اکتفاء کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس قسم کے مولویوں کا محبوب مشغلہ انگریزوں کے اس قول پر عمل کرنا ہوتاہے کہ لڑائو اور حکومت کرو، اس لیے یہ مختلف بستیوں میں جا کر کشمیری بانڈی کی طرح کے چند شوشے چھوڑ جاتے ہیں اور خود منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں اور پیچھے بستی والے مدت مدیدہ تک باہم دست وگریباں رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک فنِ خطابت کے ذریعہ حرارت ایمانی کو بیدار کرنے کے لیے اعلیٰ درجہ کے سائونڈ سسٹم کا ہونا اتنا ضروری ہے جتنا انسانی افزائش نسل کے لیے ایک عدد بیوی کا ہونا بصورت دیگر یہ خرابی صحت کا بہانہ داغ کر سامعین کی سماعتوں کو مجروح ہونے سے بچاتے ہوئے کنّی مار جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے چھپی حکمت کا ایک دفعہ یوں تجربہ ہوا کہ ایسی ہی ایک خطیبانہ مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا اور شومئی قسمت جگہ بھی سائونڈ سسٹم کے بغل میں ملی، سو خطیب صاحب کے ہر پُرجوش جملے پر جسم کے بالوں کے کھڑے ہونے نے کافی دیر اس وہم میں مبتلا کیے رکھا کہ شاید ایمان کی راکھ میں دبی کسی چنگاری نے آگ پکڑنی شروع کر دی ہے مگر بالاًخر تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ساری کارستانی سائونڈ سسٹم کی ہے۔ لہذا سوئے ہوئے ایمان کے ساتھ ہی واپسی ہوئی۔

    تیسری قسم ان مولویوں کی ہے جو براستہ دین سیاست میں داخل ہوتے ہیں اور پھر دم مرگ سیاست کی کلائی اس حسینہ کی طرح پکڑے رہتے ہیں جس کے ٹوٹنے اور چھوٹنے ہر دو کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے. اس قسم کے مولویوں کی بڑی پہچان ان کا حدود ِاربعہ ہوتا ہے جو بذات خود کسی چھوٹی موٹی ریاست سے کم نہیں ہوتا۔ یہ حضرات بیٹھنے کے لیے ’’سایو‘‘ کی کرسی استعمال کرتے ہیں جو مضبوط تو ہوتی ہے لیکن اگر سماعت دل کو وا کیا جائے تو اس کی کرب انگریز چیخوں کو سننا چنداں مشکل نہیں اور اگر اسے جنتی کرسی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ دس گز کے تھان میں ملبوس حضرت سے بات کرتے ہوئے صرف آواز پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے کہ آواز کی جائے ورود تک پہنچنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا K-2 یا مائونٹ ایورسٹ کو سر کرنا۔ کئی دہائیوں پر محیط احیائے جمہوریت کی کوششوں کے باوجود اقتدار کی کرسی تک نہ پہنچنے کی وجہ شاید اس کرسی کی نازک اندامی ہے جو اس ضخیم جثے کی کبھی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ سیاسی ترقی کے لیے جسامت کا اہم ہونا مجھے تو کسی طرح سمجھ نہیں آتا شاید اقبال مرحوم کے شعر کو غلط سمجھنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
    جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
    بندوں کو تولا کرتے ہیں گنا نہیں کرتے
    ان حضرات میں امت کا درد اور تکلیف کا احساس اس درجہ پایا جاتا ہے کہ نصف رمضان ہی میں کسی فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے میں ہاتھ میں قندیل پکڑے چاند تلاش کرنے پہنچ جاتے ہیں ’’بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں‘‘ کے مصداق چاند تو نہیں ملتا مگر اس ترمیم شدہ شعر پر ضرور عمل ہو جاتا ہے۔
    قندیل کے من میں ڈوب کر پاجا سُراغ زندگی
    اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے کہ پولیس والوں کی طرح مولوی کی دشمنی اچھی نہ ہی دوستی

    چوتھی اور سب سے جدید اور Upgrade قسم فیس بکی مولوی ہے، یہ قسم تھوڑا عرصہ قبل ہی معرض وجود میں آئی اور اس کا سہرا Mark Zuckerberg کے سر ہے. اس قسم کے مولویوں کا مقصد فیس بُک پر موجود نوجوانوں کو نئے مسائل سے روشناس کر کے ان کے تاریک ذہنوں کو علم و فن کی باریکیوں سے منوّر کرنا اور انہیں یہ باور کرانا ہو تا ہے کہ ’’ستاروں سے آگے جہان اور بھی ہیں۔‘‘ ان کا مقصد اسلام کو نئی بنیادیں فراہم کر کے پرانی بنیادوں سے اعتماد کو ختم کرنا ہے. اکابرین کو سند اسلام سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکنا اور جدید دور کے ڈسپوزایبل فلاسفہ پر دین کی عمارت کو کھڑا کرنا ہے تاکہ جب ضرورت پڑے تو انہیں بھی Replace کیا جا سکے. ویسے دیکھا جائے تو ان کے نزدیک دین کو تجدید کی ضرورت ہے کیونکہ 1400 سالہ پرانا دین اب واقعی موجودہ دور کے تقاضوں کو نبھانے سے قاصر ہے۔ کیونکہ اس وقت نہ تو PTI کے جلسے ہوتے تھے کہ مر دوزن کے اختلاط کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ تک کی نوبت آتی، نیک لوگ تھے زیادہ سے زیادہ اجتماع نماز میں ممکن تھا، وہ سہولت بھی بعد میں ختم کر دی گئی تو نئے مسائل کی آمد کا دروازہ ہی بند ہوگیا۔ اور نہ ہی اس وقت موسیقی روح کی غذا تھی کہ روحیں صحت مندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے قوی تھیں اور ان کی غذا بھی مقوی تھی۔ آج کل روحیں تھوڑی نازک، تھوڑی نخریلی ہیں، سینڈ وچ اور برگر کی طرح ان کی خوراک بھی موسیقی ہے۔ سو موسیقی کے لیے بھی احکامات کی تبدیلی کی ضرورت پڑی۔ صحابہ کرام ؓ جیسے حضرات بھی ضرورت کے وقت قرآن و حدیث کے بعد ایک دوسرے کے فتاویٰ پر عمل کر لیا کرتے تھے، اور ان کے ہاں تو علم اپنی انتہاء پر اور عمل نقطہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ لہذا علوم کا نزول بلاواسطہ قلب پر بصورت الہام ہوتا ہے جو کہ صبح صبح فیس بُک پر جگمگا رہا ہوتا ہے کہ کتمان علم ازروئے شرح گناہ کبیرہ ہے۔ قرون ثلاثہ پر ان کی نظر اتنی گہری ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی ضعیف اور موضوع حدیث کے درمیان فرق بتا دیتے ہیں۔ محدثین پر اعتماد کا یہ حال ہے کہ بسا اوقات ان کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ محدثین مرتشی قسم کے لوگوں کا ایک ٹولہ تھا جو رشوت لے کر سند حدیث میں نام درج کرتا تھا اور بعض دفعہ تو منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ایک آدھ حدیث اپنی طرف سے بھی گھڑ لیا کرتا تھا۔ ان حضرات کے نزدیک موجودہ دور میں مقام اجتہاد تک پہنچے کے لیے 100 کے قریب Likes ضروری ہیں لہذا مقام اجتہاد کو پہنچے کے بعد انہیں فقہائےامت جاہل قسم کے لوگوں کا ایک گروہ نظر آتے ہیں جو مسجد میں پیدا ہوئے اور وہیں چل بسے اور ان کے مسائل و فقہ پر اعتماد کس طرح ممکن ہے کہ وہ تو اقبال کے مسیتا تھے۔
    مسجد سے نکلتا نہیں ضدی ہے مسیتا
    اس قسم کے مولویوں میں اعتدال اس درجہ پایاجاتا ہے کہ مذہبی گستاخیاں تو کُجا مذہبی مارپیٹ بھی کھلے دل سے برداشت کر لیتے ہیں، اور تعصب اس درجہ کے ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کفر سے کم نہیں ہوتا، ایسے موقع پر ان کے زبان و ہاتھ سے وہ نادر و نایاب الفاظ اور گالیاں سننے کو ملتی ہیں کہ طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے۔
    گالیاں کھا کے بھی بےمزہ نہ ہوا
    اور میرے جیسے کئی تو اس پر بھی Reaction میں Happy کے لوگو کو کلک کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں اور یہ حضرات اپنی ولایت پر کہ شاید مدمقابل توبہ کرنے کے بعد اسلام میں دوبارہ داخل ہونے کو تیار ہوگیا ہے۔

  • مذہب اور جنسیت – جمیلہ خان

    مذہب اور جنسیت – جمیلہ خان

    انواع حیوانی کے مطالعہ سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ ان میں صنفی تقسیم اور طبعی میلان کا مقصد محض بقائے نوع ہے۔ اس لیے ان میں یہ میلان اس حد تک رکھا گیا ہے جو ہر نوع کی بقا کے لیے ضروری ہے اور ان کی جبلت میں ایسی قوت ضابطہ رکھ دی گئی ہے جو انھیں صنفی تعلق میں اس حد مقرر سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ انسان میں یہ میلان غیر محدود، غیر منضبط اور تمام انواع سے بڑھا ہوا ہے ۔ ان کے قلب میں صنفی محبت اور عشق کی زبردست قوت رکھی گئی ہے۔ ان کے جسم کی ساخت اور اس کے تناسب اوررنگ و روپ ، اور اس کے لمس اور اس کے ایک ایک جز میں صنف مقابل کیلئے کشش پیدا کردی گئی ہے اور گرد و پیش کی دنیا میں بےشمار ایسے اسباب پھیلا دیے گئے ہیں جو دونوں کے داعیات صنفی کو حرکت میں لاتے اور انہیں ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ، پھولوں کی خوشبو، بہتی آبشاریں، فضا کی گھٹائیں، شب مہ کی لطافتیں، غرض جمال فطرت کا کوئی مظہر اور حسن کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس تحریک کا سب نہ بنتا ہو۔

    یہ سب کچھ کس لیے ہے؟ کیا محض بقائے نوع کے لیے ہے؟ نہیں۔ کیونکہ نوع انسانی کو باقی رکھنے کےلیے اس قدر کشش کی بھی ضرورت نہیں ہے جس قدر مچھلی بکری اور ایسی دوسری انواع کے لیے ہے؟ کیا یہ محض لذت کے لیے ہے؟ یہ بھی نہیں ۔ فطرت نے کہیں بھی لطف اور لذت کو مقصود بالذات نہیں بنایا ہے۔ غور کیجیے کہ اس معاملہ میں کون سا بڑا مقصد فطرت کے پیش نظر ہے؟ آپ جتنا غور کریں گے کوئی اور وجہ اس کے سوا سمجھ نہیں آئے گی کہ فطرت دوسری تمام انواع کے خلاف ، نوع انسانی کو متمدن بنانا چاہتی ہے۔

    مذہب صنفی یلان کو افراط و تفریط سے روک کر توسط عدل پر اور اسے ایک مناسب ضابطے سے منضبط کرتاہے، اور ایک غیر معتدل ہیجان و تحریک کے ان تمام اسباب کو روکتا ہے جنہیں انسان نے خود اپنی لذت پرستی کےلیے پیدا کیا ہے اور دوسری طرف فطری ہیجان کی تسکین و تشفی کے لیے ایسے راستے کھولتا ہے جو خود منشائے فطرت کے مطابق ہوں۔ چنانچہ حضرت عمرنے فرمایا کہ نکاح سے صرف دو ہی چیزیں روکتی ہیں عاجز ہونا یا بدکار ہونا۔ حضرت ابن عباس کے مطابق عابد کی عبادت پوری نہیں ہوتی جب تک کہ وہ شادی نہ کرلے۔ بقول امام غزالی نکاح والے کی فضیلت مجرد پر ایسی ہے جسے جہاد کرنے والے کی نہ جانے والے پر

    مذہب نے صنفی افراط کو روکنے کےلیے کچھ حدود وضع کر رکھی ہیں۔ لیکن افسوسناک بات ہے کہ ایک طبقہ مسلمانوں والے نام رکھ ان حدود کا مذاق اڑاتا اور استہزائیہ انداز میں تذکرہ کرتا ہے۔ غض بصر (نگاہیں بچا کر رکھنا) کو ایک صاحب نے مولویوں کی ایجاد کردہ اخترع قرار دے کر عقل و فہم سے عاری چیز قرار دیا۔ کہا گیا کہ یہ ذوق جمال ہے جو فطرت نے تم میں ودیعت کیا ہے۔ جمال فطرت کے دوسرے مظاہر و تجلیات کو جب تم دیکھتے ہو اور ان سے لطف اٹھاتے ہوتو جمال انسانی کو بھی دیکھو اور روحانی لطف اٹھاؤ۔ تو جناب، شریعت کا اصل مقصد نظر بازی سے روکنا ہے، ورنہ اسے آپ کی آنکھوں سے کوئی دشمنی نہیں۔ یہ ذوق جمال ترقی کرکے شوق وصال بن جاتا ہے۔ کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کی جرات رکھتا ہو کہ دنیا میں جس قدر بدکاری اب تک ہوئی اور اب ہو رہی ہے اس کا پہلا اور سب سے بڑا محرک یہی آنکھوں کا فتنہ ہے۔ مذہب تمہارے ذوق جمال کو مٹانا نہیں چاہتا وہ تو کہتا ہے کہ تم اپنی پسند کے مطابق اپنا ایک جوڑا انتخاب کرلو۔ اور جمال کا جتنا ذوق تم میں ہے اسکا مرکز صرف اسی کو بنالو۔ پھر جتنا چاہوں اس سے لطف اٹھاؤ۔ اس مرکز سے ہٹ کر دیدہ بازی کروگے تو فواحش میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ تمہاری بہت سے قوت آنکھوں کے راستے ضائع ہوجائے گی۔ بہت سے ناکردہ گناہوں کی حسرت تمہارے دل کو ناپاک کردے گی۔ تمہاری بہت سی قوت حیات دل کی دھڑکن اور خون کے ہیجان میں ضائع ہوجائے گی۔

    مختصراً، مذہب صنفی میلان کو انتشار عمل سے روک کر ایک ظابطہ میں لانے کا ہے۔کیونکہ اس کے بغیر تمدن کی شیرازہ بندی ہی نہیں ہوسکتی اور اگر ہو بھی جائے تو اس شیرازہ کو بکھرنے اور انسان کو شدید اخلاقی و ذہنی انحطاط سے بچانے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس غرض کیلئے اسلام نے عورت اور مرد کے تعلقات کو مختلف حدود کا پابند بنا کر ایک مرکز پر سمیٹ دیا ہے۔

  • جمہوریت اور حاکمیت عوام، چند منطقی مغالطے – محمد عمار خان ناصر

    جمہوریت اور حاکمیت عوام، چند منطقی مغالطے – محمد عمار خان ناصر

    عمار خان ناصر جمہوریت کو ’’حاکمیت عوام’’ کے نظریے کی بنیاد پر کفریہ نظام قرار دینے اور حاکمیت عوام کو اس کا جزو لاینفک قرار دینے والے گروہ کی طرف سے ایک عامۃ الورود اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ جمہوریت میں اگر دستوری طور پر قرآن وسنت کی پابندی قبول کی جاتی ہے تو اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ خدا کا حکم ہے جس کی اطاعت لازم ہے، بلکہ اس اصول پر کی جاتی ہے کہ یہ اکثریت نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے اور وہ جب چاہے، اس پابندی کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لیے دستور میں اس کی تصریح کے باوجود جمہوریت درحقیقت ”حاکمیت عوام“ ہی کے فلسفے پر مبنی نظام ہے۔

    اس استدلال کے دو نکتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں منطقی مغالطوں کی شاہکار مثالیں ہیں۔

    پہلا نکتہ یہ ہے کہ دستور میں قرآن وسنت کی پابندی دراصل قرآن وسنت کے واجب الاتبا ع ہونے کے عقیدے کے تحت نہیں بلکہ محض اس لیے قبول کی جاتی ہے کہ اکثریت یہ پابندی قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دستور میں اس تصریح کا مطلب یہ نہیں کہ دستور ساز اسمبلی خود کو قرآن وسنت کا پابند سمجھتی ہے اور یہ محض حاکمیت عوام کے اصول کا ایک اظہار ہے تو اس مقصد کے لیے اسمبلی کو یہ تصریح کرنے کی آخر ضرورت اور مجبوری ہی کیا درپیش ہے؟ پھر تو دستور میں سادہ طور پر صرف یہ بات لکھنی چاہیے کہ قانون سازی کا مدار اکثریت کی رائے پر ہے اور اس بنیاد پر جو بھی قانون بنے گا، وہ اس وقت تک قانون رہے گا جب تک اسے اکثریت کی تائید حاصل رہے۔ جب دستور ساز اسمبلی اس سے آگے بڑھ کر باقاعدہ ایک اصول کے طو رپر یہ نکتہ دستور میں شامل کر رہی ہے کہ مقننہ قرآن وسنت کے احکام کی پابند ہوگی تو کس اصول کی رو سے اس پر یہ الزام عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کی پابندی کو بالذات اور مستقل اصول کے طور پر قبول نہیں کر رہی؟ اس سامنے کی بات کو صاف نظر انداز کر دینے کو آخر تحکم کے علاوہ کیا عنوان دیا جا سکتا ہے؟

    استدلال کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چونکہ دستور میں اکثریت کی رائے کی بنیاد پر تبدیلی کی جا سکتی ہے اور اس اصول کے تحت اگر کسی وقت اکثریت قرآن وسنت کی پابندی کی شرط کو ختم کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وسنت کی پابندی کو فی نفسہ اور بالذات نہیں بلکہ محض اکثریت کی رائے کی بنیاد پر قبول کیا جا رہا ہے۔
    یہ نکتہ پہلے سے بھی بڑھ کر عجیب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ دین وشریعت بلکہ دنیا کے کسی بھی قانون یا ضابطے کی پابندی قبول کرنے کا آخر وہ کون سا اسلوب یا پیرایہ ہو سکتا ہے جس میں یہ امکان موجود نہ ہو کہ کل کلاں کو پابندی قبول کرنے والا اس کا منکر نہیں ہو جائے گا؟ مثال کے طور پر ایک شخص کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرتا ہے تو اسے اس بنیاد پر مسلمان تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی اور آزادی سے یہ فیصلہ کیا ہے، حالانکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ کسی بھی وقت اسی آزادی کی بنیاد پر اسلام سے منحرف ہونے کا فیصلہ کر لے۔ اب کیا اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ چونکہ کل کلاں کو وہ اپنی مرضی سے اسلام کو چھوڑ سکتا ہے، اس لیے آج اس کے کلمہ پڑھنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ اسلام کو فی نفسہ واجب الاتباع نہیں سمجھتا، بلکہ اپنی ذاتی پسند اور مرضی کی وجہ سے قبول کر رہا ہے؟ دنیا کے ہر معاہدے اور ہر ضابطے کی پابندی کی بنیاد اسی آزادی پر ہوتی ہے جو انسانوںکو حاصل ہے اور جو آج کسی پابندی کے حق میں اور کل اس کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے، لیکن ہم اس آزادی کے منفی استعمال کے بالفعل ظہور پذیر ہونے سے پہلے کبھی مستقبل کے امکانی مفروضوں کی بنیاد پر حال میں یہ قرار نہیں دیتے کہ فلاں شخص یا گروہ درحقیقت اس قانون یا ضابطے کو فی حد ذاتہ واجب الاتباع ہی تسلیم نہیں کرتا۔

    جمہوریت اور ”حاکمیت عوام’’ کے تصور کو لازم وملزوم قرار دینے کے ضمن میں ایک اور منطقی مغالطہ جو بالعموم دیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ جمہوریت میں شریعت کے واضح اور مسلمہ احکام بھی کسی ملک میں اس وقت تک قانون کا درجہ اختیار نہیں کر سکتے جب تک کہ منتخب قانون ساز ادارہ اسے بطور قانون منظور نہ کر لے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہوریت میں اللہ کی شریعت، نفاذ کے لیے انسانوں کی منظوری کی محتاج ہے۔ اگر وہ بطور قانون اس کی منظوری نہ دیں تو کوئی حکم شرعی نافذ نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک کفریہ تصور ہے۔

    اس دلیل میں جو منطقی مغالطہ ہے، اسے ایک مثال کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں، ایک شخص کسی کو قتل کر دیتا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت کا واضح اور قطعی حکم ہے کہ قاتل کو مقتول کے قصاص میں قتل کیا جائے۔ لیکن شریعت کا یہ حکم اس وقت تک عملاً نافذ نہیں ہو سکتا جب تک یہ مقدمہ باقاعدہ کسی با اختیار عدالت کے سامنے پیش نہ کیا جائے اور وہ یہ فیصلہ نہ سنا دے کہ قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت کا حکم اپنے نفاذ کے لیے ایک جج کی منظوری کا محتاج ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں، اس لیے کہ شریعت کے حکم اور اس پر عمل درآمد کے درمیان عدالت کا کردار اس تصور کے تحت نہیں رکھا گیا کہ خدا کی شریعت کو انسانی تائید کی احتیاج ہے، بلکہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس حکم کے نفاذ کے عمل کو منضبط اور غلطیوں سے محفوظ بنایا جا سکے۔

    بالکل یہی معاملہ کسی شرعی حکم کو قانون سازی کے مرحلے سے گزارنے کا ہے۔ جب دستور میں اصولی طور پر یہ مان لیا گیا کہ شریعت بالادست قانون ہوگی تو تمام واضح اور قطعی احکام اصولاً قانون کا درجہ اختیار کر گئے۔ اس کے بعد ان احکام کے حوالے سے قانون سازی کے مراحل بنیادی طور پر پروسیجرل ہیں نہ کہ اس بنیاد پر کہ احکام شرعیہ کو ابھی قانون بننے کے لیے منظوری کی احتیاج ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ خاص طور پر ملحوظ رہنا چاہیے کہ شریعت کا کوئی بھی واضح اور صریح حکم اس وقت تک نفاذ میں نہیں آ سکتا جب تک اس کے ساتھ جڑے ہوئے چند اجتہادی سوالوں کا جواب نہ دے دیا جائے۔ مثلاً چوری کو لیجیے۔ محض یہ تسلیم کر لینے سے کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، کسی بھی چوری کے مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ حکم کے اطلاق کے لیے شاید درجنوں اجتہادی سوالات کا جواب دینا پڑے گا اور اس کے لیے کسی نہ کسی اجتہادی تعبیر کو قانون کا درجہ دینا پڑے گا۔ مثلاً یہ کہ چوری کا مصداق کیا ہے، کتنے مال کی چوری پر یہ سزا لاگو ہوگی، کیا ہر طرح کے حالات میں یہ سزا دی جائے گی یا کچھ مخصوص حالات میں رعایت بھی دی جا سکتی ہے، ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اجتہادی سوالات ہیں جو نص میں تصریحاً مذکور نہیں اور ان کا جواب طے کیے بغیر کسی ایک مقدمے کا فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

    گویا ہر واضح اور قطعی شرعی حکم نفاذ کے لیے ایک اجتہادی تعبیر کا محتاج ہے۔ قانون سازی دراصل اسی درمیانی مرحلے کو طے کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ قانون کے بنیادی پہلووں کی ایک متعین تعبیر کے بغیر، جس کی روشنی میں عدالتیں فیصلے کر سکیں، قانون کے نفاذ میں بہت سی پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ جدید سیاسی نظام میں قانون ساز ادارے اس نوعیت کی پیچیدگیوں کو کم کرنے اور قانون کے بنیادی پہلووں کو واضح اور متعین کرنے کے کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر قانون کے بنیادی خطوط اور حدود اربعہ متعین نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ قانون کی براہ راست تعبیر کا کام عدالتوں کو کرنا پڑے گا جس میں اختلافات کا پیداہونا اور اس کے نتیجے میں قانونی سطح پر پیچیدگیوں کا سامنے آنا ناگزیر ہے۔ علمی اور نظری سطح پر کسی قانون کی تعبیر میں اختلافات ہوں تو ان سے عملی پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتیں، لیکن قانونی نظام کی سطح پر بہرحال ایک بنیادی نوعیت کی یکسانی پیدا کرنا انتظامی پہلو سے ایک مجبوری کا درجہ رکھتا ہے۔ جمہوریت میں شرعی احکام کو نفاذ سے پہلے قانون ساز ادارے کی منظوری کے مرحلے سے گزارنا دراصل اسی پہلو سے ضروری ہوتا ہے، نہ کہ اس مفروضہ تصور کے تحت کہ شریعت کا حکم تب واجب العمل ہوگا جب انسان اسے قانون کے طور پر منظور کر لیں گے۔ چنانچہ صورت حال کی درست تعبیر یہ ہوگی کہ دستور کی اسلامی نوعیت طے ہو جانے کے بعد تمام احکام شریعت کی پابندی قبول کر لی گئی، البتہ انھیں قانون کی سطح پر نافذ کرنے کے لیے کچھ درمیانی مراحل طے کرنا ضروری تھا جن میں سب سے اہم مرحلہ قانون کی تعبیر کا تھا۔

    جمہوریت کو علی الاطلاق کفر ثابت کرنے والی ایک مشہور کتاب میں دلائل کا سارا زور صرف کرنے کے بعد آخر میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ ”اگر یہ جمہوریت کفر ہے تو پھر بعض علمائے کرام اس نظام میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟“
    اگرچہ ”بعض علمائے کرام’’ (جس سے مراد قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان کی مین اسٹریم مذہبی قیادت کے، چند ایک کے استثنا کے ساتھ، تمام علماءکرام ہیں) کہہ کر سوال کی مشکل کو کافی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن بہرحال سوال تو مشکل ہے۔ اب اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
    ”وہ علماءجو اس نظام میں شریک ہوئے اور اب اس دنیا سے جا چکے، ان کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ ان پر اس جمہوری نظام کا کفر واضح نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا شریعت میں یہ ایک عذر ہے اور عذر کے ہوتے ہوئے کسی خاص شخص کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔ …. کسی کفر کا ظاہر ہونا نہ ہونا، اس کفر کا کسی پر پہلے ظاہر ہونا، کسی پر بعد میں، یہ کسی کے تقویٰ اور علم کے منافی نہیں۔ اس بحث میں یہ کہنا بے کار بات ہے کہ اگر جمہوریت کفر ہوتی تو تمام بڑے علماءاس کو کفر کیوں نہیں کہتے؟’’

    سوال یہ ہے کہ ارشاد نبوی میں کسی چیز پر کفر کا اطلاق کرنے کے لیے ’’کفرا بواحا عندکم من اللہ فیہ برھان’’ کے الفاظ آئے ہیں اور فقہاءاس کے لیے مطلوبہ احتیاط کو یوں واضح کرتے ہیں کہ وہ کفر ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے کفر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ ہو اور تمام اہل علم اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔اگر جمہوریت ایسا ہی کفر صریح اور کفر بواح ہے تو ان ”تمام بڑے علماء’’ کو آخر یہ کیوں دکھائی نہیں دیا؟ اور کیوں اس کی ضرورت پیش آ رہی ہے کہ مختلف منطقی مغالطوں سے کام لے کر ایسے دلائل گھڑے جائیں جو صرف سادہ ذہن اور جذباتی نوجوانوں کو متاثر کر سکیں اور انھیں مطمئن کرنے کے لیے ”تمام بڑے علماء’’ پر وہ آیتیں منطبق کرنی پڑیں جو قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں؟ ملاحظہ فرمائیے:
    ”داعیوں کے سامنے جو اعتراض بار بار کیا جاتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ آپ زیادہ سمجھ دار ہیں یا بڑے زیادہ سمجھ دار ہیں؟ اگر یہ سب جو آپ بیان کر رہے ہیں، حق ہوتا تو ہمارے بڑے اس کو کیوں نہ اختیار کرتے؟ لیکن کیا ”قوم“ کے بڑے ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں؟ کیا ”نوجوان“ ہمیشہ غلط ہوتے ہیںاور ان کا طریقہ کار کبھی بھی درست نہیںہوتا؟ کیا شریعت اسلامیہ میں یہ کوئی معیار ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کی آرا جب مختلف ہو جائیں تو بڑوں کی بات ہی قابل اعتبار اور قابل عمل ہوگی؟ اور کیا حق کو صرف اس لیے رد کر دیا جائے گا کہ وہ معاشرے کے مشہور ونامور افراد کی زبان سے جاری نہیں ہوا؟ کیا اس قسم کے اعتراض حق کو رد کرنے والے پہلے ہی سے نہیں کرتے چلے آ رہے؟ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی ایسے ہی اعتراضات کیا کرتے تھے:
    وقالوا لولا نزل ہذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم (الزخرف)
    ”وہ کہتے کہ اس قرآن کو دونوں بستیوں (مکہ وطائف) میں کسی بڑی شخصیت پر کیوں نہ اتارا گیا۔“
    حالانکہ یہاں سوال بڑوں اور چھوٹوں یا اکثریت واقلیت کا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ فقہ وشریعت کی رو سے یہ ضروری ہے کہ جس بات کو ”کفر’’ قرار دیا جا رہا ہو، وہ ایسی ہو کہ اس کے کفر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ ہو اور تمام اہل علم اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔ اگر جمہوریت ایسا ہی کفر صریح اور کفر بواح ہے تو ان ”تمام بڑے علماء’’ کو آخر یہ ”کفر’’ کیوں دکھائی نہیں دیا؟
    ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔