Tag: حکومت

  • حکومت کی غیرعوامی حرکات – راشد حمزہ

    حکومت کی غیرعوامی حرکات – راشد حمزہ

    اس خبر کو غور سے پڑھیے اور یہ ذہن میں لائیے کہ حکومت کی پالیسیز اور اصلاحات کتنی عوام دوست ہیں، جمہوری حکومت عوام کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، اگر کوئی موقع قدرتی طور پیدا نہ بھی ہو تو زبردستی پیدا کیا جاتا ہے. حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے پرکشش پالیسیاں بناتی ہیں، نئے نئے پیکجز لاتی ہیں، اصلاحات کرتی ہیں تاکہ عوام کی حالت اور حالات بہتر سے مزید بہتری کی طرف سفر جاری رکھیں. ہمارے ہاں سب کچھ الٹا چل رہا ہے، اور عوام کو تکلیف دینے کے لیے مصنوعی طریقوں سے بھی مسائل پیدا کردیے جاتے ہیں. نیپرا کا بجلی کی قیمتوں میں حالیہ کمی کا فیصلہ ہی دیکھ لیجیے، یہاں تک سننے میں تو یہ نہایت خوش کن فیصلہ ہے کہ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں دو روپے فی یونٹ کمی کردی ہے لیکن خبر کی تفصیل پڑھنے کے بعد پتہ چل جاتا ہے کہ یہ عام آدمی کےلیے بری خبر ہے. خبر کچھ اس طرح ہے کہ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں دو روپے اور کچھ پیسے فی یونٹ کمی کردی ہے، کمی کا اطلاق تین سو یونٹ استعمال کرنے والے بجلی کے صارفین پر ہوگا.

    نیپرا ہی نے قوم کو دو طبقوں میں تقسیم کردیا، ایک وہ جو تین سو یونٹ استعمال کرتا ہے، اسے ریلیف ملے گا اور دوسرا وہ جو تین سو یونٹ استعمال نہیں کرتا، اسے ریلیف نہیں ملے گا اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ تین سو یونٹ ایک مہینے میں کون سا طبقہ استعمال کرتا ہے، اور عام آدمی کے کتنے یونٹس صرف ہوتے ہیں. فیصلے کا دوسرا بدنما پہلو یہ ہے کہ حکومت بجلی کی بچت کے نام پر ہر سال اشتہارات پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے، عوام کو بجلی کے باکفایت استعمال کی ترغیب وتبلیغ دی جاتی ہے لیکن دوسری طرف خود اس کی پالیسیاں دیکھیے جس سے صرف زیادہ بجلی استعمال کرنے والے مستفید ہوں گے اور کفایت والوں کے حصے میں مہنگی بجلی آئے گی. فیصلے کا تیسرا بدنما پہلو یہ ہے کہ اس میں قیمتوں کی کمی کا اطلاق صرف تین سو یونٹس سے اوپر کی یونٹس پر ہوگا، یعنی صارف تین سو یونٹ استعمال کرنے کی قیمت پرانے حساب سے ادا کرے گا اور تین سو سے اوپر یونٹس پر تقریبا تین روپے کی رعایت سے مستفید ہوگا بلکہ اس فیصلے سے یہ ہوگا کہ اگر کوئی 299 یونٹ بجلی صرف کرتا ہے تو اسے تمام یونٹس کی پرانی قیمت ادا کرنا پڑے گی لیکن اگر وہ ذرا سی ہمت کرکے 301 یونٹس بجلی صرف کرتا ہے تو اسے ہر یونٹ پر تقریبا تین روپے کی رعایت مل جائے گی.

    اب ہر بجلی صارف کو چاہیے کہ وہ تین سو سے زیادہ یونٹس بجلی صرف کرتا رہے تاکہ رعایت سے مستفید بھی ہو اور اسے بالا طبقے سے ہونے کا احساس بھی ہو. کل ایک دوست بہت خوش ہو رہا تھا. میں نے استفسار کیا تو جواب ملا کہ آپ نے وہ خبر نہیں پڑھی کہ وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا حکمنامہ جاری کیا ہے، یعنی اب ہمیں ایسے فیصلوں سے بھی خوشی ہوتی ہے. موجودہ حکومت یہ کافی عرصے سے کر رہی ہے کہ ایک ادارہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ کرتا ہے اور وزیراعظم اضافہ واپس لے لیتے ہیں اور اس سے ریلیف محسوس ہوتا ہے. میں سوچتا ہوں کہ یہ ادارے کس کے اختیار میں ہیں، پہلے ہی ایسا کیوں نہیں ہوتا.

  • اسلامی قانون سازی پر چیخ و پکار کیوں؟ مجذوب مسافر

    اسلامی قانون سازی پر چیخ و پکار کیوں؟ مجذوب مسافر

    مجذوب مسافر قانون (Law) کسی بھی ریاست کے باشندوں کو معاملات زندگی میں کچھ خاص حدوں کے اندر رکھنے، ان حدوں کے ٹوٹنے پر پیدا ہونے والی خرابی کی اصلاح کرنے اور آئندہ ایسی کسی بھی انسانی کوشش سے بچنے کے لیے بنایا جاتا ہے. اصل مقصد معاشرے کو محفوظ و مامون بنانا ہوتا ہے اور اگر قوانین موجود نہ ہوں یا موجود تو ہوں لیکن ان کا عملی نفاذ نہ کیا جائے تو معاشرے میں ایسی انارکی پھیلے کہ انسانی زندگی کسی جہنم میں جلتی محسوس ہونے لگے-

    ریاست کا قیام، قانون سازی اور قوانین کے اطلاق یا نفاذ کا کام انسانی تاریخ میں بے شمار بار انجام پایا ہے. چینی، مصری، یمنی، یونانی، رومی، فارسی، سندھی، میسو پوٹیمیا اور بابل حتی کہ انکا اور استھک تہذیبیں، ہر ایک کے ہاں ریاست اور قانون سازی اور قانون کا نفاذ پوری طرح پایا جاتا تھا. دور جدید میں تو شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں ریاست کا وجود نہ ہو اور وہاں قانون سازی نہ ہوتی ہو. دور حاضر کی طاقتور ریاستیں مثلا امریکہ، چین، روس، جاپان، سیکنڈے نیویا وغیرہ یا پھر نسبتا پسماندہ ریاستیں مثلا وسطی افریقہ اور لاطینی امریکا کے بعض ممالک، سری لنکا، نیپال و بھوٹان جیسی ریاستیں بھی، سب کی سب یہ کام کرتی ہیں اور اپنے اپنے معاشرے کو کسی بھی قسم کی انارکی سے بچانے کے لیے مختلف قسم کی سزائیں جن میں سزائے موت تک شامل ہے’ دیتی ہیں. بلکہ سزاؤں کے نفاذ کے بغیر تو یہ زیادہ عرصہ وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکیں گی. یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ان متذکرہ ریاستوں میں قانون سازی کا کام عموما عقل انسانی پر بھروسہ کر کے کیا جاتا ہے گو ان ریاستوں کے اکثریتی مذاہب، ان کی ثقافت اور کچھ تاریخی عوامل بھی اس میں اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں-

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دور قدیم یا جدید کی اکثر و بیشتر قوموں نے اگر اپنی اپنی ریاست کی تشکیل کی ہے، اس میں قوانین بنائے اور ان کا نفاذ کیا ہے اور ہر کوئی اسے عام سی بات (Routine) سمجھتا ہے لیکن جوں ہی اسلام، اسلامی ریاست، اسلامی نظام یا اسلامی قوانین کی بات ہو تو بہت مسلمان اور غیر مسلمان افراد، ادارے اور حکومتیں چیخ و پکار کیوں شروع کر دیتی ہیں؟ ایسی کسی بھی آواز کو دبانے کے لیےاپنے اپنے وسائل اور ہتھیار لے کر میدان میں کیوں نکل آتے ہیں؟

    اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ افراد، ادارے اور حکومتیں، اپنی اپنی نیت کے لحاظ سے، اسلام کے مجموعی نظام تعلیم و تربیت، نظام معیشت، نظام سیاست اور نظام عدل وغیرہ کو بالکل پرے چھوڑ کر، قرآن و سنت میں بیان کی گئی چند سخت سزاؤں مثلا رجم، قطع ید، قصاص وغیرہ کو لے کر اسلام اور اسلامی ریاست کو زیر بحث لاتے ہیں اور یوں اپنی غلط فہمی یا بدنیتی کو آگے بڑھاتے کا ذریعہ بنتے ہیں. ایسی بحث خواہ کوئی مسلمان کرے یا غیر مسلم’ اچھی نیت سے کرے یا بری نیت سے، در حقیقت اسلام کے ساتھ کھلی زیادتی ہے. کسی بھی معاملے میں اسلام یعنی قرآن و سنت کی تعلیمات کو زیر بحث لانے کے لیے تین بنیادی حقائق کو ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے یعنی:

    ١- اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو تخلیق کیا اور ان سے نسل انسانی کا آغاز کیا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور پھیلتی گئی. اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص جسمانی ساخت (Anatomy) عطا کی اور اس کے اعضاء کو کچھ مخصوص اعمال (Physiology) کا پابند کیا. اسے ایک دماغ دے کر اس میں غور فکر (Power of Intellect) اور ایک دل دے کر اس میں جذبات (Emotions) کی تخلیق کی. یوں انسان کی شخصیت (Personality) وجود میں آئی جو اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر وجود میں آنے والی اجتماعی زندگی میں بھی کچھ مخصوص رویوں (Psychology & Behaviors) کا اظہار کرتی ہے؛

    ٢- اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے تحت انسان کی انھی جسمانی خصوصیات، ذہنی اور قلبی کیفیات اور شخصیاتی نفسیات کے مطابق کرۂ ارض (Earth) کی تخلیق کی اور اس پر انسان کو قیام کے لیے اتار دیا اور ساتھ ساتھ ایک “دین” یعنی اس کرۂ ارض پر زندگی گزارنے کا اصول، ضابطہ، طریقہ’ اورانداز بھی بتا دیا. اس اصول پر عمل کے نتیجے میں ہونے والے فوائد اور اس سے روگردانی کے نقصانات سے بھی آگاہ کر دیا؛

    ٣- یہ اصول، ضابطہ، طریقہ اور انداز دراصل “اسلام” ہے جو کہ ایک “دین” ہے کیونکہ یہ انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی، ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے مثلا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، جسمانی ضروریات کی تکمیل، انفرادی و اجتماعی رسوم و عبادات، خاندانی، معاشرتی، قانونی، تجارتی، تعلیمی، فنون لطیفہ، سائنس و ٹیکنالوجی، حکومتی، سیاسی اور دفاعی معاملات وغیرہ. الغرض انسان اور انسانی گروہوں کو زندگی میں جس جس معاملہ یا چیز سے سابقہ پڑتا ہے، وہاں وہاں تک دین کا دائرہ عمل موجود ہوتا ہے اور یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے؛

    یوں انسانی زندگی کا آغاز براہ راست اللہ کی ہدایت یعنی ایک خاص اصول یعنی “دین” کے تحت ہوا جسے ہم اسلام کہتے ہیں-

    حضرت آدم (ع) اور حوا سے شروع ہونے والی نسل انسانی جب صرف افراد سے بڑھ کر خاندانوں اور قبیلوں اور پھر علاقائی ریاستوں کی شکل اختیار کرنے اور پھیلنے لگی تو انسانی فطرت کی کمزوریوں اور شیطان کی حیلہ سازیوں کے سبب انسان اور انسانی گروہ اللہ کی دی ہوئی اصل ہدایت کو بھی بھولنے، چھوڑنے یا اس سے دور ہونے لگے. یوں اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ انبیاء و رسل شروع کیا جو مختلف علاقوں، قبیلوں اور ریاستوں میں آتے اور انھیں اصل ہدایت (اسلام) کی یاددہانی کرواتے تاکہ اولاد آدم ایک بار پھر سے اپنے اللہ سے جڑ جائے، اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کی صورت گری اللہ کی ہدایت کی روشنی میں کریں اور اس کرۂ ارض پر امن و سکون، ترقی و خوشحالی، محبت و رحمت پھیلے اور انسان پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو انسانی تمدن کی ترقی پر صرف کر سکے. یہ سلسلۂ نوح، ابراہیم، لوط، اسحٰق و اسماعیل اور داؤد و سلیمان (علیہم السلام) وغیرہ سے ہوتا ہوا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا-

    چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللهہکے آخری نبی اور رسول تھے لہذا قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رہنمائی بھی ان کے ذمہ تھی. اس کا اہتمام اللہ تعالیٰ نے اس طرح کیا کہ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات مثلا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، جسمانی ضروریات کی تکمیل، انفرادی و اجتماعی رسوم و عبادات، خاندانی، معاشرتی، قانونی، تجارتی، تعلیمی، فنون لطیفہ، سائنس و ٹیکنالوجی، حکومتی، سیاسی اور دفاعی معاملات وغیرہ کے لیے اصولی ہدایات دے دیں جو قرآن و سنت کی صورت آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہیں. اس کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے انسانوں کو اللہ کی ہدایت کی طرف بلانے کی ذمہ داری کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو کاروں کا اصل فرض قرار دے دیا-

    حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتے پہنچتے چونکہ انسانی تمدن اس مقام پر پہنچ چکا تھا کہ آئندہ کے لیے اس کی زندگی ایک منظم ریاست یا حکومتی نظام کے بغیر ناممکن ہو چکی تھی یا ہونے والی تھی لہذا یہ ناممکن تھا کہ انسانی زندگی کے اس انتہائی اہم معاملے کو نظرانداز کر دیا جاتا، لہذا ہدایت الہی کے تحت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی تربیت کے ذریعے ایک اعلی اخلاق کی حامل اجتماعیت تشکیل دی اور پھر “مدینہ” میں ایک منظم ریاست قائم کی. اس ریاست کا نظم و نسق عین اللہ کی ہدایت کی روشنی میں چلایا اور اس کے شہریوں کو امن و سکون، عدل و انصاف، تعلیم و تربیت اور معاشی مواقع الغرض ہر ممکن سہولت بہم پہنچائی.

    قانون (Law) کسی بھی ریاست کے باشندوں کو معاملات زندگی میں کچھ خاص حدوں کے اندر رکھنے، ان حدوں کے ٹوٹنے پر پیدا ہونے والی خرابی کی اصلاح کرنے اور آئندہ ایسی کسی بھی انسانی کوشش سے بچنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، اصل مقصد معاشرے کو محفوظ و مامون بنانا ہوتا ہے. محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ریاست مدینہ اور اس کے شہریوں کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے اللہ کے عطا کیے ہوئے قوانین کا، اللہ ہی کی ہدایت کی روشنی میں اطلاق کیا، جہاں ضرورت محسوس ہوئی ایک پورا نظام عدل بروئے کار آیا اور جرم ثابت ہونے پر مجرموں کو رجم، قطع ید اور قصاص وغیرہ جیسی سزائیں دی گئیں. اب فرض کریں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم قانون کا نفاذ نہ کرتے یا پھر محض اپنی یا اپنے جیسے انسانوں کی عقل پر ہی بھروسہ کر کے یہ کام کرتے تو کیا نتائج نکلتے؟ جواب بلکل سادہ اور واضح ہے: یعنی کسی قانون کی غیرموجودگی میں رفتہ رفتہ ایک ایسی افراتفری کی فضا پیدا ہوتی کہ جس کا جو جی چاہتا کرتا پھرتا، فتنہ (Anarchy) پھیلتا، لوٹ مار ہوتی اور انسانی خون بہتا. نتیجے کے طور پر مدینہ کی ریاست اپنا وجود برقرار رکھ سکتی نہ اس ریاست کے باشندے کسی بھی صورت کوئی بہتر زندگی گزار سکتے تھے. دوسری چیز یہ کہ ظاہر ہے اللہ نے ہی انسان کو تخلیق کیا ہے اور وہی اس کی حسیات، کیفیات، جذبات اور نفسیات سے واقف ہے اور وہی جانتا ہے کہ اس کے لیے کیسا طرز عمل درست ہے اور کون سا طرز عمل غلط لہٰذا اس ریاست کے باشندوں کی زندگیوں کو معمول پر رکھنے (Regulate) کے لیے جو قوانین اس نے عطا کیے وہی درست ثابت ہو سکتے تھے اور ہوئے بھی-

    محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور پھر آنے والی صدیوں میں جہاں بھی مسلمانوں کو موقع ملا، انہوں نے ریاستی قوانین کی تشکیل کم و بیش اللہ کی ہدایت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنت کو مدنظر رکھ کر کرنے کی کوشش کی. آج بھی صاحب علم مسلمانوں کو تو چھوڑیں’ ایک عام سا گناہگار مسلمان بھی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں اپنی ریاست کی تشکیل اور اس میں قانون سازی کے ذریعے دنیا میں علمی و ادبی، معاشی، سائنسی و دفاعی شعبوں میں ترقی اور آخرت میں رضائے الہی و رضائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول کا خواب دیکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر قرون اولیٰ میں اس راستے سے کامیابی مل سکتی ہے تو اب کیوں نہیں؟

    تو پھر اسلام، اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کے خلاف اتنا واویلا کیوں؟
    دراصل کسی اسلامی ریاست میں قانون کا اصلی ماخذ ہدایت الہی ہے جس کی عملی صورت گری محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھائی اور جس کے نتیجے میں امت مسلمہ نے ایک ایسا عالمگیر غلبہ حاصل کیا جو اگلے کم و بیش ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ تک جاری رہا. رضائے الہی کی امیدوار امت مسلمہ مدینہ کی چھوٹی سی ریاست میں اللہ کے احکام کو جاری و ساری کرکے انسانی عدل، مساوات، ترقی، خوشحالی اور محبت کا وہ ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوئی کہ جس کی کشش اور اثر سے جلد ہی اس کا غلبہ و اقتدار زمین کے وسیع رقبے پر ہی نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی اتر گیا اور وہ اللہ سے روشناس ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے-

    آج کے دور میں اسلام بیزار مسلمانوں اور غیر مسلموں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ وہ شدید خوفزدہ ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک بار پھر کوئی اسلامی ریاست وجود میں آ گئی اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ قائم ہوگیا جس میں قانون سازی ہدایت الہی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہونے لگی تو ایسا معاشرہ دنیا میں انسانی ترقی و خوشحالی کی علامت بن کر ے گا اور اسے دیکھ کر دنیا اپنے خالق کی طرف رجوع کرنا شروع ہو جائے گی-

    یہ لوگ اپنے اس خوف کا اظہار تو نہیں کر سکتے لہذا وہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی ریاست، اسلامی نظام اور اسلامی قوانین کی ایسی بھیانک شکل لوگوں کے سامنے پیش کریں کہ لوگ ان کا نام سنتے ہی بدک اٹھیں. بدقسمتی سے بہت سے نیک طینت مسلمان اور غیرمسلم لوگ اس گروہ کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں. اوپر سے بہت سے افراد اور تنظیموں نے بوجوہ یا پھر کسی ردعمل میں اسلام، اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کا جو عملی نقشہ دنیا کے مختلف خطوں میں پیش کیا ہے، اس نے بھی اسلام بیزاروں کو ایک حد تک اسلامی قوانین اور پھر اسلام اور اسلامی ریاست و نظام کو ہی ظالمانہ قرار دینے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے.

  • پاکستان کا جمہوری نظام – وقار علی

    پاکستان کا جمہوری نظام – وقار علی

    پاکستان میں جمہوری عمل چلتے رہنا چاہیے، آج جمہوریت کی جیت ہوئی، ہم جمہوری عمل کو پٹری سے اترنے نہیں دینا چاہتے وغیرہ کے جملے ہم آئے روز سیاستدانوں سے ٹی وی ٹاک شوز، سیاسی تقاریر اور اخباری بیانات کے ذریعے سنتے پڑھتے ہیں. کوئی بھی ایسا عمل جس میں سیاسی پارٹیوں کا مفاد ہو اُسے “جمہوریت کا حسن” کے نام پر عوام کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ جمہوریت ہے کیا؟ یہ سوال اگر آپ کسی بھی عام شہری سے پوچھیں تو وہ شاید ہی آپ کو اپنے جواب سے مطمئن کرپائے۔ عوام جموریت کے لغوی معنی و مفہوم سے آشنا ہوں نہ ہوں، مگر یہ ضرور پتہ ہوتا ہے کہ موجودہ دور جمہوریت کا ہے یا پھر ڈکٹیٹر شپ کا۔ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ میں پاکستانیوں نے دونوں ہی ادوار دیکھے۔

    لفظ جمہوریت انگریزی کے لفظ Democracy کا ترجمہ ہے جو دو الفاظ Demos یعنی لوگ اور Kratos یعنی ظاقت و قوت کا مجموعہ ہے۔ جمہوریت کے بارے میں مفکرین نے کئی تعریفیں دی ہیں۔ ارسطو کے مطابق “ہجوم کی حکومت جمہوریت کہلاتی ہے” سیلی کے مطابق “جمہوریت ایسے طرزحکومت کو کہتے ہیں جس میں سب شریک ہوتے ہیں” اور سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق “عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کےلیے جمہوریت کہلاتی ہے”. ان مفکرین کی تعریف کی روشنی میں اگر ہم اپنے جمہوری نظام کی بات کریں تو ارسطو اور سیلی کی تعریف بلکل درست بیٹھتی ہے یعنی ایک ہجوم ہی کی حکومت ہے جس میں سب شریک بھی ہیں۔ ایک مخصوص طبقہ جو پچھلے دو تین دہائیوں سے حکمرانی میں مصروف ہے، البتہ ابراہم لنکن کی تعریف اس لیے فٹ نہیں آتی کیونکہ جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں، چاہے عام انتخابات ہوں یا پھر ضمنی یا پھر بلدیاتی ہر الیکشن کے بعد اس کی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں. یہی حال مئی 2013 کے عام انتخابات، پھر ضمنی انتخابات، بلدیاتی انتخابات، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات اور اب 21 جولائی 2016 کو آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں بھی ہوا یعنی جب عوام کے ووٹ کا استعمال ہی درست طریقے سے نہ ہو تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے اور اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت عوامی نہیں کیونکہ کوئی نیا چہرہ اسمبلی میں نہیں آیا، وہی پرانے لوگ منتخب ہو کر اسمبلی میں حلف لیتے اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں، البتہ حکومت عوام کے لیے ہے یا نہیں، چاہے وفاقی ہو یا پھر صوبائی اس پر بحث کی جاسکتی ہے۔

    ہمارے ملک میں موجود جمہوریت اور جمہوری حکومت میں 284 معصوم جانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا لیکن معاملہ مذمتی بیانات دے کر رفع دفع کردیا گیا، ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے اگر کسی وزیر، لیڈر یا بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیت پر الزامات لگ جائیں اور وہ غلطی سے ثابت بھی ہوجائیں تو بھی انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، ایسی جمہوریت جس میں جو جتنا زیادہ بدعنوان ہے وہ اتنا ہی زیادہ معزز ، باعزت اور محب وطن ہے ، ایسی جمہوریت جس میں عوام کے منتخب نمائندے خود بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اوروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیتے ہیں۔ وزیر اسپتال اور اسکول کے متعلق ٹاک شوز میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر خود وہاں سے نہ تو علاج کرواتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرواتے ہیں۔

    مئی 2013ء میں ہونے والے الیکشن کے بعد سے اب تک عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات اٹھائے ہوں یا نہیں، البتہ پہلے PTI کے استعفے، پھر MQM اور اب پانامہ لیکس کے مسئلے پر خود کو خوب مصروف رکھا۔ ہر پارٹی ہر مسئلے کے لیے اپنے اپنے مطالبات پیش کرتی ہے اور کچھ عرصہ مطالبات مطالبات کھیلنے کے بعد ” کچھ لو کچھ دو ” کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایک ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے مسئلے کا Happy ending کردیتی ہے۔ ان کے ان مطالبات کے درمیان غریب پستا رہے ، خودسوزی کرے ، غربت سے تنگ آکر گردے بیچنے پر مجبور ہوجائے یا اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتاردے، حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ان حالات میں آسکر وائلڈ کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف” لوگوں کے ڈنڈے کو، لوگوں کے لیے، لوگوں کی پیٹھ پر توڑنا” بلکل فٹ آتا ہے ۔ جتنی محنت ہمارے حکمران جمہوریت کو مضبوط کرنے میں کرتے ہیں، اگر اتنی محنت عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کریں، نمائندے ان کے ترجمان بن کر ان کے مسائل کے حل کے لیے اسمبلی فلور پر آواز اٹھائیں تو یہی عوام حکمرانوں کے قدم سے قدم ملاکر پاکستان کی خوشحالی اور مضبوطی کے لیے کام کریں گے. پھر کسی کو جمہوریت کی گردان کرنے اور یاد دلانے کی ضرورت نہیں رہے گی. آزمانا شرط ہے.

  • جنسی تعلیم اور پاکستانی معاشرہ – مولوی روکڑا

    جنسی تعلیم اور پاکستانی معاشرہ – مولوی روکڑا

    پاکستان میں جنسی تعلیم کے حامی وہ لوگ ہیں جو قولا خود کو سیکولر کہتے ہیں لیکن عملا وہ جنس تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں تاکہ قبحہ گری مغربی کلچر کو تجارتی مقاصد کے لیے عام اور استعمال کیا جائے۔ طعنے بھی منٹو والے دیتے ہیں کہ ہماری حرکتیں گندی نہیں تمہاری سوچ گندی ہے۔ بنیادی طور پر یہ احساس کمتری کا شکار اور ترسا ہوا طبقہ ہے جو مغرب کے لائف سٹائل کو افورڈ تو نہیں کرسکتا، لیکن اس لائف اسٹائل کے ان پہلوؤں کو اپنانے کا مشتاق ہے جن کے اثرات سے خود مغرب کا خاندانی و معاشرتی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے ـ یہ طبقہ اپنے تجارتی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستانی معاشرے پر ایسا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے جو یہاں کے معاشرتی ماحول سے مطابقت ہی نہیں رکھتا. مغرب میں اس کے اثرات کیا ہیں؟ اس سے نہ تو ان کو کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کے اثر کو کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس انتظام کر رکھا ہے؟ یہ طبقہ پاکستان میں ان اقدامات کی سرے سے ضرورت محسوس کرتا ہے نہ ان کی غیر موجودگی سے انہیں کوئی فرق پڑتا ہے۔ ان کو بس مادر پدر آزاد ماحول چاہیے جس میں جنسی ضروریات بالکل اسی طرح پوری کی جائے جس طرح جانور کرتے ہیں.

    حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان فری سیکس سوسائٹی ہے نا ویلفیئراسٹیٹ، ایسی کوئی بھی ایجوکیشن پاکستانی بچوں کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں ہے جس کے خود مغرب میں حد سے زیادہ منفی اثرات سامنے آئے ہیں، پاکستان اس کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔

    سیکولر طبقہ کہتا ہے کہ جنسی تعلیم کی مخالفت اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ مذہب اس سے روکتا ہے۔ اگر مذہب کو کچھ دیر کے لیے سائیڈ پر رکھ دیں تو بھی اس کے منفی اثرات کنٹرول کرنے کا کوئی خاطرخواہ لائحہ عمل حکومت کے پاس ہے نہ اس طبقے کے پاس۔ راقم الحروف نے ہانگ کانگ میں ایک ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں جنسی تعلیم ایک زائد از نصاب کے طور پر رائج تھی۔ سال میں چھ کلاسز ہوتی تھیں۔ عملا تو یہ بھی ایک فری سیکس سوسائٹی ہے (اگرچہ سرعام اس کی اجازت ہے نہ حوصلہ افزائی، حکومت، معاشرے اور خاندان کا خوف موجود ہے مگر یہ سب رکاوٹ نہیں ہیں)، بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کلچر رواج پا رہا ہے، پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اس کلچر کو فروغ دیا ہے، موبائل اور انٹرنیٹ نے نوجوان نسل کو اب وہ مواقع فراہم کر دیے ہیں جس کا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا۔ اب تو بچے چودہ سال کی عمر میں ہی اپنی جوانی کا جوش دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر عمل بھی کر گزرتے ہیں مگر اس کی وجہ سے بالخصوص لڑکیوں کےلیے بہت سی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور غیرمحفوظ جنسی عمل کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں کا حاملہ ہونا، پھر اسقاط حمل کروانا، یا پھر اسقاط حمل وقت پر نہ کروانے کی وجہ سے نو عمر ماں بن جانا وغیرہ وغیرہ. ہمیں جنسی تعلیم پر جو لیکچر دیے جاتے تھے، ان میں زیادہ تر انھی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی تھی، اور یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ غیر محفوظ جنسی عمل کے بجائے حفاظتی طریقوں کا استعمال کرنا کتنا مفید ہے جس سے لڑکی کو اسقاط حمل جیسا عمل نوعمری میں نہیں کروانا پڑے گا۔

    پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں شک کی بنیاد پر لڑکیاں قتل کر دی جاتی ہیں، وہاں انھیں یہ راستہ دکھانا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر قتل نہ بھی ہوں تو عملا معاشرے میں ان کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے اور ان کی حیثیت ایک اچھوت جیسی ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی جلدی ماں بن جانا ایک نو عمر لڑکی کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے؟ یہ ایک لڑکی ہی جان سکتی ہے، مگر مغرب میں نہ تو حکومتیں کرپٹ ہیں نہ وہاں کے سسٹم اپنے لوگوں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں. وہاں لڑکی نو عمری میں ماں بن جائے جو کہ اکثر ہوتا ہے تو اس کے لیے حکومت کی طرف سے ماہانہ خرچہ، صحت کی نگہداشت اور دوسری بنیادی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان میں تو ویسے ہی زندگی کے لالے پڑے ہوتے ہیں کجا کہ ان باتوں کا خیال رکھا جائے.

    ہماری کلاس میں لو برڈ ان چھ کلاسز کے بعد اپنی حدود کراس کرگئے کیونکہ لڑکوں نے اپنی گرل فرینڈز کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ٹیچر کے بتائے ہوئے حفاظتی طریقے اختیار کرنے سے محفوظ جنسی عمل ہوتا ہے، اس لیے اب ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے. جب ایک دفعہ یہ ہچکچاہٹ ختم ہوجائے تو پھر یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ اس دوران ہماری ایک اسکول فیلو حاملہ ہوگئی اور لڑکے نے شادی سے انکار کر دیا۔ اس طرح سنگل مادر سامنے آتی ہیں اور مغرب میں یہ رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ سنگل مادر سے پیدا ہونے والے بچے نہ صرف باپ کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہتے ہیں بلکہ انھیں کئی قسم کے نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے.

    اگر کچھ دیر کے لیے اس بحث سے مذہب اور معاشرے کو نکال دیں تو بھی کیا ہمارے جنس زدہ سیکولر افراد جو جنسی تعلیم اور فری سیکس سوسائٹی کے حامی ہیں، ان کے پاس اس تعلیم کے منفی اثرات سے بچائو کا کوئی ٹھوس پلان موجود ہے؟ کیا حکومت وقت ایسا ویلفیئرسسٹم متعارف کرواسکتی ہے جہاں سنگل مادر کے قتل کا خطرہ نہ ہو، جہاں اس کی زندگی حقارت سے اجیرن نہ بنا دی جائے اور جس کا ماہانہ خرچہ اور صحت و تعلیم کی بنیادی ضرویات حکومت فراہم کرے۔ ہماری سیکولر طبقے سے گزارش ہے کہ پانچ منٹ کی تسکین کی خاطر پورے معاشرے کو تباہ نہ کریں اور مذہب پر پھبتیاں کسنے کے بجائے پہلے اپنا حکومتی اور معاشرتی نظام دیکھ لیں!

    مغرب کا ماحول اور ہے، ان کے معاشرتی مسائل اور ہیں، ان کو سامنے رکھ کے وہ بچوں کو جنسی تعلیم دیتے ہیں. ہمارے معاشرتی مسائل اور ہیں ان کو سامنے رکھ کے ہمیں بچوں کو آگاہی دینی ہے. یہاں بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے بجائے والدین کو اس بارے میں جگانا اور آگاہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے بچوں کو جنسی تبدیلیوں سے آگاہ کر سکیں. والدین کے لیے ایسی ترتبیتی ورکشاپ کی ضرورت ہے جس انھیں ضروری مسائل سے آگاہی فراہم کی جائے.

    بقلم مولوی روکڑا

  • ہمارے منبر – محمد زید غوری

    ہمارے منبر – محمد زید غوری

    مولانا اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد کا ذکر ہے، میں حسب معمول جمعے کی تیاری میں مصروف تھا کہ اچانک مسجد کے اسپیکر سے ایک نئی آواز آئی. آواز کےکچے پن اور لڑکھڑاہٹ سے معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی نوآموز آج اس منبر پر جلوہ افروز ہے اور کچھ عجیب کرنے والا ہے. خیر میں اپنی تیاری میں مصروف رہا اور کان اس آواز کے فرمودات پر دھر دیے. پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب حضرت نے مولانا اسلم شیخوپوری کے ساتھ رحمہ اللہ کی جگہ دامت برکاتہم العالیہ کہا. پھر تو بےجوڑ و بےوزن باتوں کا ایک عجب سلسلہ شروع ہوا جو قریب نصف گھنٹے تک جاری رہا، اور یہ احساس دلاتا رہا کہ آواز کے پیچھے کوئی کج فہم اور دماغی خلل سے دوچار بچہ ہے. اس بات پر حیرت بھی ہوئی کہ اس بھری مسجد میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو اس کو روکے. موصوف نے آدھےگھنٹے میں اپنے الفاظ اور انداز سے واضح کردیا تھا کہ فرقہ واریت، لسانی، نسلی اور طبقاتی تعصب سے بھرے پڑے ہیں اور اسی کو ہوا دینے کے لیے یہاں موجود ہیں. علمی پسماندگی کا عالم یہ تھا کہ شہادت کے دوسال بعد بھی رحمہ اللہ کی جگہ مدظلہ اور دامت برکاتہم لگا رہے تھے. پورا مہینہ یعنی چار جمعوں تک یونہی چلتا رہا، پھر بالآخر ان کو ایک دن روک لیا اور سمجھایا کہ یہ سب نہ کریں اور مولانا کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ کا لفظ لگائیں .

    یہ شہر کراچی کی ایک مسجد کا حال تھا. ایسی ہزاروں مسجدیں پورے ملک میں موجود ہیں جن کے منبروں سے یہ زہر عوام کے ذہنوں میں انڈیلا جا رہا ہے اور اس کے سد باب کی کوئی صورت و سعی نہیں کی جارہی. پاکستان کے کسی شہر، گاؤں دیہات یا قصبے میں چلے جائیں اور منبر سے اٹھنے والی صدائیں سن لیں جو یقینا صرف ان الفاظ کافر، مشرک، خارجی، واجب القتل، زندیق اور گستاخ پر مشتمل ہوں گی. ملک میں برپا فساد اور قتل غارت گری کے اور اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے پر بہت کم لوگ ہیں جن کا دھیان اس طرف گیا ہوگا.

    لمحہ فکریہ ہے کہ ہم منبر کی اس نسبت کو بھول گئے جو اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے. ہم نے اپنے کانوں کی لذت کی خاطر یہ عظیم منصب کسی بھی لاعلم کے سپرد کرکے اس کا تقدس پامال کردیا. جن منبروں سے محبت جوڑ بھائی چارے کی آواز اٹھتی تھی اور اٹھنی چاہیے تھی وہاں سے قتل کے فتوے صادر اور فساد کا پرچار ہورہا ہے. یہ منبر عوام الناس میں بیداری شعور کا نہایت عمدہ اور سہل راستہ ہیں مگر انھی سے شعور اور احساسات کا قتل عام ہو رہا ہے. پاکستانی معاشرے میں لوگ جن چند لوگوں کی پیروی کو فخر سمجھتے ہیں، ان میں سے ایک منبر پر بیٹھنے والا شخص بھی ہے، جب یہ شخص اپنے فرض منصبی کو نہیں پہچانےگا تو کوئی دوسرا شخص کیسے اس سے رہنمائی لے گا اور حقیقت تک رسائی پائے گا.

    ان باتوں کے لکھنے کی وجہ گزشتہ ایک ماہ کے وہ خطبات ہیں جو عمان میں بحثیت خطیب دیے ہیں. دوران خطبہ جہاں بارہا احساس ندامت ہوا، وہیں یہ بات بھی عیاں ہوئی کہ ضروری نہیں کہ معاشی استحکام ہی کلی طور پر امن و امان کا سبب ہو. ان کے پرامن ہونے میں معاشی استحکام کے ساتھ منبر کا صحیح اور مثبت استعمال بھی ہے. یہاں کے عوام میں شعور ان منبروں سے ہی آیا ہے اور یہ لوگ اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں.

    اب ایک نظر گذشتہ ماہ کے خطبات کے عنوان پر ڈالیں.

    1) عید کے دن کے فضائل اور روزے داروں پر اللہ کے انعامات اور بشارتیں
    2) شوال کے 6 روزوں کی فضیلت اور اس کے فوائد
    3) نوجوانوں کی تعطیلات میں اوقات کی حفاظت اور ان اوقات کا صحیح استعمال
    4) غیر ملکیوں کےساتھ نرمی، حسن سلوک اور ان کی معاونت جس طریقے سے بھی ہو .

    قابل تحسین بات یہ ہے کہ سلطنت اس معاملے کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے خود دیکھتی ہے اور ہر جمعے کا خطبہ اسی کی طرف سے خطیب کو ملتا ہے جس کا پڑھنا ضروری ہے اور جو خطیب ایسا نہ کرے، اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے.

    اب سوال یہ ہے کہ کیا وطن عزیز میں یہ ممکن ہے؟
    جواب ہے. جی بلکل ممکن ہے. حکومت کی طرف سے جب ایک جسمانی مرض (پولیو ) کے لیے ورکرز ایک ایک دروازے پر جاسکتے ہیں تو ایک ذہنی مرض (تعصب) جو ہمیں وقت سے بہت پیچھے دھکیل رہا ہے، کے لیے کیوں تمام مساجد تک نہیں جاسکتے. وفاقی حکومت کو چاہیے کہ تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرے کہ وہ علما کا ایک پینل اپنے صوبے میں تشکیل دیں جو غیر جانبدار ہو اور معاشرتی مسائل پر گہری نظر رکھتا ہو. وہ پینل وقت اور موقع دیکھ کر اس حوالے سے جمعے کے خطبے کا عنوان اور اس کی حدود متعین کرے اور خطبا کو پابند کریں کہ خطبہ ان حدود سے باہر نہ ہو، خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے. ممکن ہے ابتدا میں کچھ دشواریاں ہوں مگر اس راستے سے کسی حد تک ہم ایک باشعور اور تنگ نظری سے پاک معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے.
    بس کوشش شرط ہے .!

  • میں اگر نواز شریف ہوتا – عمران زاہد

    میں اگر نواز شریف ہوتا – عمران زاہد

    10155883_10154733532529478_5886019418085289879_nمیں اگر نواز شریف ہوتا
    اللہ میری اس سوچ پر مجھے معاف کرے۔ ترکی میں حالیہ واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام اپنے ہردلعزیز حکمران کی خاطر گولیوں اور ٹینکوں کی پرواہ نہیں کرتے اور بڑی سے بڑی فوج سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔ ان واقعات نے مجھے یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ اگر میں میاں نوازشریف ہوتا تو عوام کی ہردلعزیزی حاصل کرنے کے لئے کیا کیا کچھ کرتا ۔۔۔:
    ۱ – سب سے پہلے عوام سے خطاب کرتا اور اپنی تمام بے ایمانیوں، کرپشنوں لوٹ مار اور دو نمبریوں کا اقرار اور آئندہ ان سے بچ کے رہنے کا عزم کرتا۔ عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کرتا۔
    ۲ – اپنی تمام بیرون ملک دولت واپس لانے کا اعلان کرتا۔ اس میں سے جتنی دولت حرام ذرائع سے کمائی گئی ہے اسے بمع سود خزانے میں داخل کرتا۔ تاکہ اس سے پاکستان کے قرضے ادا ہو سکیں۔
    ۳ – اپنے خاندان اور پارٹی کے ارکان پر بھی یہی پالیسی لاگو کرتا اور جو اسے قبول نہ کرتا، اسے اپنے خاندان اور پارٹی سے خارج کر دیتا۔
    ۴ – آخر میں اپنا استعفٰی عوام کی عدالت میں پیش کر دیتا۔ اپنی جگہ اپنی جماعت میں سے ہی کوئی اہل اور بھلا مانس آدمی وزیرِ اعظم کے عہدے کے لئے نامزد کر دیتا۔ اپنے آپ کو جماعت کا پیٹرن یا رہبر بنا کر پالیسی سازی کے عمل کی نگرانی کرتا۔
    مجھے یقین ہے کہ ان اقدامات کے بعد اگر کوئی پارٹی، فوج یا عدالت کسی سازش کے ذریعے نون لیگ کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتی تو عوام اس سے خود ہی نپٹ لیتے۔
    کہیں کچھ زیادہ تو نہیں ہو گیا؟ کیا خیال ہے؟