Tag: الحاد

  • کیا واقعی جدید سائنس منکر خدا ہو سکتی ہے؟  – مجیب الحق حقی

    کیا واقعی جدید سائنس منکر خدا ہو سکتی ہے؟ – مجیب الحق حقی

    مجیب الحق حقی الحاد،سائنس اور خالق: Science, Atheism & Creator
    دہریت درحقیقت کسی مضطرب ذہن کی ہٹ دھرمی اور ضد ہے ۔ جدید دور کے بڑے سائنسدان بھی الحاد کی قطار میں فکری شش و پنج کی وجہ سے ہیں۔ خدا سے انکار کسی بھی شخص کا ذاتی نظریہ ہی ہوتا ہے مگرجب کوئی عالم یا ماہر طبعیات اپنی علمی حیثیت میں اس کا اظہار کرتا ہے تو ایک تاثّر یہ بنتا ہے کہ اس کا علم بھی اس کی تائید کرتا ہوگا۔ یہ بات قابل ِذکر ہے کہ سائنس کا دائرہ کار میٹا فزکس نہیں ہے لیکن پھر بھی جدید اسکالر خدا کو بھی طبعی پیرایوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جدید دور میں اکثرسائنسدان خدا کے وجود کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ سائنس خدا کی منکر ہے، اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لادین طبقہ سائنسی نظریات کا سہارا لے کر لادینیت اور دہریت کی ترویج کرتا ہے اور یہ غلط تاثر پھیلا تا ہے کہ سائنس خدا یا اللہ کی منکر ہے۔
    ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی جدید سائنس منکر ِ خدا ہو سکتی ہے؟
    جدید سائنسدانوں اور اسکالرز کا نقطہ نظر یہ ہے کہ آپ جو چاہے نظریہ رکھیں مگر اس کے سچّا ہونے کا دعویٰ نہ کریں کیونکہ جو دعویٰ تجربے سے ثابت نہ ہو وہ سائنسی طور پر غلط False ہے۔ یعنی آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو رکھیں، یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے لیکن اس کے سچ ہونے پر اصرار نہ کریں کیونکہ سائنس کے نظریات اورتجربات اس کی تائید نہیں کرتے۔ اکثر لادین دوست اپنی تحاریر میں ایسا ہی تاثر دیتے ہیں۔ اس طرح کی دلیل کے حوالے سے پہلے تو یہ تعیّن کرنا ہوگا کہ آیا سائنسی علوم اور ان کے حدود کار کی بنیاد پر یہ دلیل دی بھی جاسکتی ہے یا نہیں۔ سائنس بذات خود کوئی علم نہیں بلکہ طبعی دنیا کے ہر شعبے کے علوم کی عقلی اور تجرباتی بنیاد پر تصدیق ہی سائنس کہلاتی ہے۔ آئیے خدا کے حوالے سے مندرجہ بالا نقطۂ نظر کو عام فہمی یا کامن سینس سے دیکھتے ہیں کہ آیا یہ خود کتنا سائنسی، منطقی اور عقلی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ: ہم کسی مخصوص شخص کو کیسے پہچانتے ہیں؟
    انسان کے دو رخ ہیں؛ ایک طبعی اوردوسرا تصورّاتی، جسمانی رخ کو طبعی طور پر ہم اپنے حواس سے محسوس کر لیتے ہیں جبکہ شخصیت person بمع نام یعنی مسٹر ایکس ایک غیر مرئی abstract ہے جس کو ہمارا شعور جو خود غیر مرئی ہے، ایک تصوّر کی شکل میں قبول کرتا ہے۔ اس طرح ہمارے حواس اور شعور مل کر ایک مخصوص شخص کو پہچانتے ہیں۔ کیا سائنسدان کوئی ایسا طریقہ دریافت کر پائے ہیں جو کسی انسان کی شخصیت کا تعّیّن کر سکے یا اس کا نام بتا سکے؟
    یہ بات یقیناً دلچسپ ہے کہ جدید ترین سائنسی تجربات بھی کسی انسان کی شخصیت کی تصدیق نہیں کرسکتے۔ شخصیت کی کھوج میں کسی بھی سائنسی ٹیسٹ یا سائنسی تلاش میں ایک انسان کو محض خلیاتی انبار یا جنّیاتی مجموعہ یا a-bunch-of-molecules یا group-of-DNA ہی بتایا جائےگا۔ انسان کے حوالے سے کوئی بھی میڈیکل ٹیسٹ ایک مطلوبہ معلومات تو دیتا ہے لیکن یہ بتانے سے قاصر ہوتا ہے کہ یہ کس شخص سے متعلّق ہے۔ یہاں پر یہ انسان ہی ہوتا ہے جو رپورٹ پر نام لکھ کر متعلّقہ شخص سے منسوب کرتا ہے۔یعنی مسٹراسٹیون ہاکنگ Stephen-Hawking جو ببانگ دہل ایک بڑے دہریہ سائنسدان ہیں، ان کے اس دعویٰ کی تصدیق کوئی بھی سائنسی تجربہ نہیں کرسکتا کہ وہ اسٹیون ہاکنگ ہیں! ایک اور بڑے خدا کے منکر جناب رچرڈ ڈاکنز Richard-Dawkins چاہے کتنی کوشش کر ڈالیں، ان کی ممدوح سائنس ان کو بحیثیت مسٹر ڈاکنز پہچاننے سے ہمیشہ عاری رہے گی!
    سوال یہ ہے کہ:
    اگر ان کے بحیثیت ایک خاص انسان (Specific-Person) موجودگی کے دعویٰ کی تصدیق کرنے سے سائنس قاصر ہے تو کیا ان کا وجود نہیں ہے؟
    ہر طرح کے سائنسی ٹیسٹ میں یہ دونوں ایک شخصیت کی حیثیت سے معدوم ہیں لیکن حقیقتاً موجود ہیں جس کی تصدیق انسان کے حواس اور شعور کرتے ہیں۔
    یہیں پر آ کر جدید سائنس کی حدود کا حقیقی تعیّن ہوتا ہے جو محض طبعی ہیں۔

    تخلیق کے مدارج : Phases of The Creation
    بنانے یا تخلیق کے تین مدارج ہوتے ہیں، ارادہ، عمل یا تخلیق اور ظہور۔ کسی بھی انسانی ایجاد یا تخلیق کا مطالعہ کریں یہ تین مرحلے لازماً موجود ہوں گے۔
    تخیّل یا ارادہ طبعی تخلیقی مراحل یعنی عمل سے گزر کر ہی ایک مکمّل شے کی صورت میں عیاں ہوتا ہے۔

    سائنس:
    کسی کار کو دیکھ کر ہم اس کے تخلیقی مراحل کو نہیں جان سکتے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہوگی۔ اس کے پرزے پرزے کو جدا کرکے اور ان کی اندرونی ماہیت کو جان کر ہی ہم اس کی مینو فکچرنگ تکنیک کو سمجھ سکیں گے۔ یہی کاوش سائنس کہلاتی ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ اس تمام پیداواری مراحل کے بارے میں سب کچھ جان کر بھی ہم اس کار کے تخلیق کار manufacturer کی شخصیت کو نہیں جان پائیں گے۔ اس کے لیے ایک دوسرا طریق کار اختیار کرنا ہوگا۔ اس طرح واضح ہوا کہ دو باتیں ہوتی ہیں ایک انسانی عمل اور دوسرا اس کا حاصل۔ عمل غیر مرئی اور ناقابل پیمائش ہے اس کی کوئی شکل نہیں ہوتی لیکن اس کا حاصل قابل گرفتِ حواس ہے یعنی انسان کسی عمل کی نہیں بلکہ اس کے نتیجے کی پیمائش کر سکتا ہے۔

    عمل اور نتیجہ:
    انسان ایک دعویٰ کرتا ہے کہ میرا نام الف ہے تو اس کے اطراف موجود انسان اس کا دعویٰ اس لیے قبول کرتے ہیں کہ انسانی شعور طبعی حواس کی مدد سے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ انسانوں کا یہ دعویٰ قبول کرنا ہی اس شخص کے بحیثیت الف موجود ہونے کی دلیل بنتا ہے۔ حواس صرف اطّلاعات دیتے ہیں اور انسانی شعور عقل کے تناظر میں فیصلہ کرتا ہے۔ اس طرح یہ واضح ہوا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، جیسے کسی کار کے مینو فیکچرر، یا کسی فن پارے کی تخلیق کرنے والے مصوّر یاکسی ڈرامہ نویس کی کسی بھی جدید سائنسی ٹیسٹ سے تصدیق نہیں ہو سکتی بلکہ صرف اور صرف انسانی شعور ہی اس تصدیق کی قدرت رکھتا ہے یعنی سائنس انسان کی صرف ایک طبعی و حیاتی نظام physical/biological-system کی حیثیت سے ہی تصدیق کرسکتی ہے۔ اب بتائیے کہ جو علوم سامنے موجود انسان کی شخصیت کو نہ پہچان سکیں نہ تصدیق endorse کرسکیں یا ایک تخلیق کے محرّک Initiator کی نشان دہی تک نہ کرسکیں تو ان کا محدود ہونا تو ثابت ہوگیا۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ انسانی شعور ہی ہے جو حاصل کردہ علوم کی بنیاد پر دوسرے انسان کی شخصیت اور اس سے وابستہ کسی عمل کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ سائنسی.

    علوم!
    اب جدیدسائنس کے تجربات کو خدا کی پہچان کے لیے استعمال کرنا کتنا عقلی ہے، خود فیصلہ کرلیجے۔ گویا واضح ہوا کہ سائنس کا دائرہ کار کسی بھی چیز یا تخلیق کو پا کر اس کی تخلیقی ماہیّت، اس کے پیداواری یا ارتقائی مراحل اور منبع origin کو جاننا ہے یعنی تخلیق کے مذکورہ بالا تین میں سے آخر کے دو مراحل، جو عمل اور اس کا نتیجہ یا طبعی اظہار ہیں جبکہ اس سے قبل کا مرحلہ یعنی تخلیق کار Inventor/creator یا ارادے کے مآخذ کی نشاندہی میں صرف انسانی عقل اور موجود معلومات available-information کام آتی ہیں کہ کون ایسی صلاحیّت، علم، قوّت اور وسائل رکھتا ہے کہ یہ کار بنا سکے یا کوئی مخصوص کام کرسکے۔

    خدا کی تصدیق:
    بالکل اسی طرح انسان حاصل علوم سے اپنی خرد اور دانش سے ہی خالق کائنات یعنی خدا یا اللہ تعالیٰ کے وجود کی تصدیق کرسکتا ہے۔ یہی ایمان کہلاتا ہے اور یہ عقل و شعور سے حقائق کی پرکھ کے بعد بالکل خالص ذاتی فیصلہ ہوتا ہے سائنسی نہیں۔ اسی طرح اللہ کا انکار کسی انسان کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے جو اس کا شعور متعیّن کرتا ہے۔
    ایک بات واضح رہے کہ انسان خدا کو خود ہی تلاش نہیں کرتا بلکہ یہ خدا ہے جو کہ انسانوں کا خالق ہونے کا اعلان کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں تمہارا خالق ہوں، پھر انسان اپنی عقل و خرد اور علوم کی گواہی سے ہی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ خدا کا دعویٰ اس کی طرف سے انسانی واسطے سے پیغام اور حیرت انگیز تحریر text کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، ایسی تحریر جس کا مصنّف ہونے کا کوئی بھی انسان دعوٰی نہیں کرتا۔

    کیا سائنس کسی بھی کتاب کے مصنّف کا نام بتا سکتی ہے؟
    سائنسی علوم صرف ایک محدود دائرے میں ہی انسان کی رہنمائی کرسکتے ہیں اور سائنس کے حوالے سے خدا کی تلاش یا اس بارے میں لب کشائی نہ سائنس اور نہ ہی سائنسدانوں کا کام ہے۔ سائنس محض علمی اوزار کا صندوق toolkit ہے ! یعنی سائنسی علوم محض وسائل اور ذریعہ ہیں جو معلومات مہیّا کرتے ہیں اوربس!
    تو کسی سائنس دان کا دعویٰ کہ وہ خدا پر یقین نہیں رکھتا اس کا ذاتی خیال ہوتا ہے، اس کا بہ حیثیت مجموعی سائنس کی دریافتوں اور سائنسی ٹیسٹ کے نتائج سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ایسا تاثّر دیتا ہے تو وہ حقائق کے برعکس ہے بلکہ دروغ گوئی ہے، معذرت کے ساتھ۔

    سائنسی علوم تمام انسانیت کی میراث ہیں اور کسی بھی انسان کو ان سے فائدہ اٹھانے یا دلیل حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی ماہر علم یا ماہر طبعیات کو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ جدید سائنسدان کائنات کی ابتدا، تخلیق اور اس کے مراحل کے حوالے سے جتنی بھی تحقیق کریں اور اس کی سائنسی توجیہات پیش کریں، وہ بجا طور پر سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہیں لیکن جس لمحے یہ سائنسدان ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس نے کائنات نہیں بنائی ـ وہیں سے ان کی عقلیں بےراہرو ہو کر سائنس کے حدود کار سے باہر چلی جاتی ہیں۔
    مختصراً یہ واضح ہوا کہ جدید ترین سائنسی علوم ، دریافتیں اور سائنسدان جو کسی میڈیکل ٹیسٹ، طبعی تخلیق، آرٹ کے فن پارے اور کسی کتاب سے متعلق انسان کا تعیّن اور تصدیق نہ کر سکیں بھلا وہ کائنات کے خالق یعنی اللہ کی تصدیق کرنے کے اہل کیسے ہوسکتے ہیں؟
    ذرا سوچیں!
    (خدائی سرگوشیاں اور جدید نظریاتی اشکال سے اقتباس)

  • سوشل میڈیا: اہل اسلام اور تحریک لادینیت میں کشمکش کی ہوش ربا داستان – زوہیب زیبی

    سوشل میڈیا: اہل اسلام اور تحریک لادینیت میں کشمکش کی ہوش ربا داستان – زوہیب زیبی

    زوہیب زیبی اگرچہ فیس بک کی تخلیق تو چند آشنا اور عملی زندگی میں جان پہچان والے لوگوں کے انٹرنیٹ پر باہمی تعلق کی بنا پر ہوئی تھی، اس کے ذریعے لوگ اپنی ذاتی تصاویر و معلومات اور زندگی میں ہونے والے واقعات اپنے دوستوں اور عزیزوں سے شیئر کرتے تھے۔ لیکن بہت جلد ہی انسانوں میں موجود منفی رجحانات اور اپنے نظریات کو دوسروں پر ٹھونسنے یا زبردستی انھیں ہمنوا بنانے کی خواہش سے اول تو یہ Fake Book یعنی جھوٹ کا گڑھ بن گئی۔ دوم یہ کہ اس پر مختلف مذاہب، ممالک، سیاسی تنظیموں، لسانی گروہوں اور رنگ بہ رنگ نظریات کے لوگوں میں نظریاتی جنگ چھڑ گئی یا پھر شاید منصوبہ بندی سے چھیڑ دی گئی۔

    اس نظریاتی جنگ کے تناظر میں فیس بک کو عالمی طاقتوں نے اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ تقریباً عرصہ 5 سال پہلے سوشل میڈیا پر اردو زبان میں کچھ ایسے فورمز یعنی گروپس، پیجز اور اکاؤنٹس سامنے لائے گئے جن پر اسلام کے خلاف مواد پیش کیا جاتا تھا۔ یہ فورمز نظریہ الحاد، دہریت، سیکولرازم، لادینیت و ملّا منافرت نیز پاکستان مخالفت کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔ ان فورمز پر خدا کا انکار کیا جاتا، مذاہب کی توہین کی جاتی، قرآن مجید میں غلطیاں و خرابیاں نکالی جاتیں، نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس پر بہتان باندھے جاتے، عجیب و غریب الزامات لگائے جاتے، اسلامی تاریخ کو حد درجہ مسخ کرکے مسلمانوں کو انتہادرجے کی بُری قوم بنا کر پیش کیا جاتا، نیز اسلام اور مسلمانوں کے دہشت گردانہ تصور کا پروپیگنڈہ کیا جاتا۔ اس سب کے ساتھ ان فورمز پر ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلا جاتا، اسے جنونیوں کی آماجگاہ بنا کر پیش کیا جاتا، اقلیتوں کی مقتل گاہ کہا جاتا۔ پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایاتا اور رائی کا پہاڑ بنا کر ہر چھوٹی موٹی خامی یا مسئلے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا۔ یہ فورمز پاکستانی فوج کے بدترین دشمن کے طور پر سامنے آئے۔ ہر وقت فوج کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف رہتے، اسے پاکستان کا خون چوسنے والی بلا، دہشت گردوں کی سرپرست اور ایک نکمّا چوکیدار قرار دیا جاتا۔ ان سب سرگرمیوں سے کا مقصد اور منزل عام پاکستانی کے دل سے اسلام کی محبت کھرچ کر پھینکنا اور پاکستان کو بطور اسلامی ریاست نہ رہنے دینا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک پاکستان کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ دو قومی نظریہ پر تخلیق ہونے والی اور اسلام کے نام پر بنائی جانے والی ریاست ہے۔ چنانچہ یہ ہمیشہ ملک خداداد میں برائی اور خامی ہی تلاش کرتے، اگر کوئی مثبت، بہتر یا قابل تعریف بات ہو تو اس پر ان کے فورمز اکثر خاموش ہی پائے جاتے۔ اب بھی یہی صورتحال ہے.

    اگر ان لوگوں کے اسلام پر اعتراضات علمی و تحقیقی نیز تلاش حق و نیک نیتی کی بنیاد پر ہوتے تو درست ہوتا، اصولاً پھر ان کے جوابات دینا مسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی، لیکن افسوس کہ ان لوگوں کے طریق کار سے صاف طور پر بدنیتی و تخریب کاری جھلکتی تھی اور ہے۔ مثلاً اگر ان لوگوں نے اپنی فیس بک آئی ڈیز یا اکاؤنٹس سنجیدہ کام و انداز کی بنائی ہوتیں تو پھر عموماً نام بھی خالصتاً اسلامی طرز و انداز والے رکھے جاتے جیسا کہ ’’میاں مصطفی، غلام رسول، نعمان سعید، سید عباس حیدر، اشبا نور، سیدہ عائشہ اور محمد اسلام‘‘ وغیرہ۔ ایسی آئی ڈیز سے یہ لوگ بآسانی مسلمانوں میں گھس کر ان سے بات چیت کرکے اسلامی موضوعات پر گفتگو کرکے ان کے ذہنوں میں وسوسہ ڈالتے۔ اگر فتنہ پروری و اسلام سے نفرت کی بناء پر آئی ڈیز بنائی جاتیں تو پھر نام بھی انتہائی گھٹیا و بےہودہ اور متعصبانہ رکھے جاتے جیسا کہ ’’ ملّا منافق، کافر خان، کافر شکاری، مولوی استرا یا پھر محمد رام سنگھ‘‘ وغیرہ۔ بہرحال نام اچھا ہو یا برا، سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ، مقصدان لوگوں کا وہی ہوتا جو پیچھے بیان کیاگیا۔ یونہی یہ لوگ فرداً فرداً بھی کئی قسم کی متعدد آئی ڈیز بناتے جو کہ مختلف مزاج و انداز کی ہوتی تھیں اور ہیں۔ اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک عام مسلمان کو یہ دھوکہ دیا جائے کہ مسلمانوں میں بہت تیزی سے لوگ اسلام کو چھوڑ رہے ہیں۔

    ان فتنہ پرور لوگوں کے بدنیت ہونے کی تیسری علامت ان کا خود کو سابق مسلمان کہہ کر عام مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے۔ یہ مسلمانوں والے نام کی آئی ڈی بناتے، جب اعتراض ہوتا کہ’’ آپ لوگ غیر مسلم ہو کر مسلمان کیوں بن رہے ہیں؟‘‘ تو ان کا جواب ہوتا کہ ’’ہم پیدائشی مسلمان ہیں، البتہ بعد میں تحقیق کرکے اسلام کو غلط پایا اور پھر اسلام و خدا کو چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے آٹے میں نمک کے برابر بھی ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو حقیقتاً پیدائشی مسلمان تو دور کی بات ہے، کبھی مسلمان بھی رہے ہوں۔ وگرنہ ہم نے تو یہی دیکھا کہ جب کبھی ایسے پیدائشی مسلمانوں سے بطور امتحان چھوٹے موٹے اسلامی سوال کیے جاتے تو یہ لوگ جواب دینے میں ہمیشہ نہ صرف ناکام رہے بلکہ بہانے بھی بنائے کہ ہم کوئی بہت اچھے مسلمان نہیں تھے وغیرہ۔ مثلاً ایک فیس بکی ملحد سے پوچھا کہ ’’تہجد کی کتنی رکعات ہوتی ہیں؟‘‘ تو جواب ملا ’’ہمارے تو کبھی فرائض بھی پورے نہیں ہوئے، تہجد کا کیا معلوم!‘‘ ایک سے انتہائی بچگانہ سوال پوچھا کہ ’’ قرآن کی کتنی منزلیں ہیں؟‘‘ تو جواب دیا ’’میں بہت زیادہ باعلم مسلمان نہیں تھا، میں کیا جانوں‘‘۔ ذرا غور تو کیجیے کہ جو شخص ’’اپنی تحقیق‘‘ کے مطابق قرآن میں عربی کی غلطیاں اور سائنسی خامیاں بیان کر رہا ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ قرآن میں منزلیں کتنی ہوتی ہیں۔ ایک صاحب نے تو حد ہی کردی، نام تھا ان کا ’یزید حسین‘۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حافظ قرآن تھے اور تراویح بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر تراویح کی ایک رکعت نکل جائے تو اسے کیسے پورا کرتے ہیں؟ تو موصوف کا انتہائی مضحکہ خیز جواب تھا ’’چونکہ اسلام چھوڑے کئی سال ہوگئے ہیں، اس لیے اب میں بھول چکا ہوں‘‘۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ایک شخص انڈیا کا پیدائشی مسلمان ہو کر انڈیا میں ہی درس نظامی یعنی 8 سالہ عالم دین کورس کرنے کا مدعی ہو لیکن اسے اردو زبان نہ آئے؟ جبکہ اس کی آئی ڈی کا نام تھا ’’منصور حلّاج‘‘۔ جب مکمل تحقیق کے بعد اسلام چھوڑا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ انتہائی سادہ و بچگانہ اسلامی باتیں بھی نہ جانتے ہوں؟

    ان کی بدنیتی کی چوتھی علامت ہے ان کا اسلام کے خلاف فضول قسم کا آخری حدوں کو چھوتا پروپیگنڈا۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ فلاں حدیث موضوع یا ضعیف ہے، فلاں الزام کا علمائے اسلام پہلے سے ہی جواب دے چکے ہیں، فلاں مسئلہ پر مسلمان علماء نے شروحات حدیث میں طویل بحث کرکے جواب دیا ہے لیکن اس کے باوجود بار بار نئے انداز سے نئی نسل کو دھوکا دیتے اور بات کا بتنگڑ بناتے ہیں۔ مثلاً ان لوگوں نے تاریخ ابن کثیر کے ایک صفحے کا عکس جس پر نبی اکرم ﷺ کے طلاق دینے والی آٹھ احادیث موجود تھیں، دکھا کر یہ شوشہ چھوڑا کہ معاذاللہ آپ ﷺ نفس پرست تھے جو شادیاں کر کے خواتین کو طلاق دیتے رہتے تھے۔ حالانکہ وہاں پر طلاق دینے کے ایک ہی واقعہ کو 6 مختلف روایات میں بیان کیا گیا تھا جسے ان لوگوں نے 6 طلاقیں بنا دیا۔
    اس سب کے ساتھ مختلف چیزوں میں ایڈیٹنگ کرکے مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور صحیح کو غلط بنا کر پیش کرنا اس کے علاوہ ہے۔ دھوکہ دہی میں تو یہ لوگ اس حد تک جاسکتے ہیں کہ کسی بھی مخالف مسلمان کے فیس بک اکاؤنٹ سے اس کی پہچان والی خاص تصاویر چرا کر اور اس کے نام پر ہی اکاؤنٹ بنا کر مخالف آئی ڈی کی ہو بہو نقل تیار کرلیتے ہیں۔ اور پھر ایسے جعلی پروفائل سے یہ اس مسلمان کا نام استعمال کرکے اس کے خلاف کسی بھی قسم کا پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں جس میں اس کے اسلام چھوڑ دینے تک کی جھوٹی خبر بھی شامل ہوتی ہے۔ اس طرح سے ایک تو اس مسلمان کو بدنام کردیا جاتا ہے اور دوسرا مسلمانوں کو ذہنی طور پر دھچکا پہنچا کر انہیں پریشان و مایوس کیا جاتا ہے۔

    ان کم ظرف لوگوں کی بدنیتی کی پانچویں اور سب سے بڑی مثال ہے ان کا مسلمانوں کا دل دکھانے اور انھیں ذہنی اذیت پہنچانے کے لیے قرآن، خدا، رسول ﷺ اور دیگر مقدس اسلامی شخصیات کی گستاخیاں کرنا، خاکے بنا کر مذاق اڑانا، پھبتیاں کسنا، یہاں تک کہ محمد عربی ﷺ کو ننگی گالیاں تک دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ بظاہر تو یہ سب ’’آزادی اظہار رائے‘‘ کے نام پر ہی ہوتا ہے لیکن بدنیتی کا عالم یہ ہے کہ ان کے فورمز پر کوئی بھی ایسا مسلمان نہیں ٹک سکتا جو کہ اسلامی علم رکھتا ہو اور ان سے مدلل بحث کرسکتا ہو، نیز جیسا سوال ویسا ہی جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایسے مسلمان سے جان چھڑانے کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ اچھی بھلی سنجیدہ و علمی بحث میں کچھ جعلی آئی ڈیز کے ذریعے طنز، تضحیک اور گستاخی شامل کردی جاتی ہے۔ جونہی اس سب کی وجہ سے کوئی مسلمان طیش میں آتا ہے تو اسے فوراً ’بلاک‘ یعنی اس فورم سے نکال دیا جاتا ہے۔ اپنی مرتبہ یہ لوگ اتنے مہذب بنتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان ’’صاحب‘‘ نہ کہنے کی بھی غلطی کر بیٹھے تو اسے وارننگ دے دی جاتی ہے اور اگلا قدم بلاک کرنا ہی ہوتا ہے۔

    یہ لوگ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والی دنیا دار مسلمان عوام کے سامنے قرآن، حدیث اور شریعتِ اسلام وغیرہ کے حوالے سے ایسی ایسی پیچیدہ، عقلی، علمی، فلسفیانہ و منطقی ابحاث چھیڑتے ہیں جن پر بات کرنا سادہ لوح عوام تو رہی ایک طرف، ایسے علماء جنہوں نے صرف درس نظامی ہی کیا ہو اور ذاتی تحقیق و مطالعہ نہ ہو، کے بس میں نہیں ہوتا۔اب ظاہر ہے عام قسم کے لوگوں میں خاص قسم کے موضوع اور اسلامی بحثیں چھیڑنا بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے؟ قصہ مختصر، میں یہ سب تقریباً عرصہ 6 سے 7 ماہ تک دیکھتا رہا، دل ہی دل میں خون کے آنسو روتا رہا، کڑھتا رہا اور سوچتا رہا کہ انہیں کیسے روکا جائے؟ ایک عام مسلمان کو اس کی سچائی کا یقین کیسے دلایا جائے؟ آخر آمنے سامنے بیٹھ کر کرنے والی بحث فیس بک پر کیسے ہوسکتی ہے؟ میں ان کے فورمز پر جاکر ان سے بحث کرتا تاکہ ایک عام مسلمان کو تسلی ہوسکے کہ ان سوالوں کے جواب موجود ہیں۔ لیکن پھر بہت جلد مجھ پر ان لوگوں کا گھناؤنا کردار اور مکروہ چہرہ کھلتا چلا گیا۔ میں ان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہونا شروع ہوگیا۔ مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان کا مقصد کچھ سیکھنا یا تلاش حق ہے ہی نہیں۔ یہ لوگ تو صرف اور صرف مسلمانوں کو اسلام سے متنفر کرنے اور ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ آخرکار میں نے اپنے طور پر ان کے اعتراضات کا جواب دینے اور اسلا م کا دفاع کرنے کی ٹھانی۔ مقصد تھا ایک عام مسلمان کو دین اسلام کی بنیاد، اصول و ضوابط اور مزاج کی ایسی سمجھ فراہم کرنا کہ جس کے بعد ایک عام مسلمان نوجوان کو اسلام کی سچائی پر مکمل یقین آجائے۔ نیز بنیاد سمجھ جانے کے بعد وہ غیرمسلموں کے اعتراضات کا جواب دینے کے خود قابل ہوجائے۔

    چنانچہ تقریباً 3 سال پہلے میں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے یہ کام شروع کیا۔ اس وقت اس حوالے سے مسلمانوں میں کسی قسم کی کوئی آگہی نہیں تھی۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد مجھے کچھ ایسے احباب کا علم ہوا جو اس حوالے سے کام کرنے میں دلچسپی رکھتے تھےلہٰذا انہیں ساتھ ملایا، اور فیس بک پر ردّالحاد، سیکولرازم و دفاع اسلام کا پہلا پیج ’’رحمان والے‘‘ سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی ان نام نہاد فری تھنکرز، ملحدین کی جھوٹی فہم و دانش کے جواب میں ایک گروپ بنام ’’آپریشن ارتقائے فہم و دانش‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ فیس بک پر اس حوالے سے مسلمانوں کی نمائندگی کے اولین پلیٹ فارمز تھے۔ ان فورمز کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ یہا ں دیوبندی، اہلحدیث اور بریلوی سب مل جل کر رہتے اور بغیر کسی مسلکی بحث میں پڑے صرف اسلام پر ہی بات ہوتی تھی۔ یہاں کسی بھی قسم کی مسلکی ابحاث پر سخت پابندی تھی۔ البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان فتنہ پرور لوگوں نے ہمارے فورمز پر آکر کس کس انداز میں اختلافی مسائل چھیڑ کر پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی۔ اسلام کا درد رکھنے والے مسلمان اکٹھے ہوئے اور فیس بکی جعلی ملحدین کے بارے شعور بیدار ہونا شروع ہوا، دیے سے دیا جلا اور مختلف طرز و انداز کے مسلمان گروپ سامنے آنے لگے۔ الحمدللہ ایک وقت وہ آیا کہ ان گستاخان اسلام کو ہماری طرف سے بھرپور جواب ملنے لگا، وہ ایک اعتراض کرتے، ہم پورا آرٹیکل تیار کرکے وضاحت کر دیتے۔ فیس بک پر ان مخالفین اسلام کے مختلف طرز کے دو درجن سے زائد مشہور پیجز تھے۔ مزاحیہ، شاعری، کرکٹ، طالبان مخالف اور سیکولرازم و لبرل ازم کی نمائندگی کرنے والے رنگ برنگے پیجز، انمیں ایک بات بالکل بنیادی و مشترک تھی اور ہے ’ملّا سے نفرت‘۔ یہ لوگ علمائے کرام کی کردار کشی میں انتہا درجے کے متشدد ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ محسوس و غیرمحسوس انداز میں علماء کی نفرت دل میں بٹھا کر مسلمانوں کو پہلے شریعت اور پھر اسلا م سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    قصہ مختصر یہ کہ ہمارے فورمز سے مسلمانوں کے گمراہ ہونے کے چانسز کم ہونے لگے۔ کیونکہ اب انھیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ اگر اسلام کے خلاف کوئی دلیل دی جاتی یا اعتراض کیا جاتا ہے تو ہمیں فلاں فورم یا فلاں اشخاص سے اس کا جواب مل سکتا ہے، چنانچہ مسلمان نوجوان تیزی سے رابطہ کرنے لگے۔ اب ان لوگوں نے عاجز آکر ایک نیا کھیل شروع کیا۔ اس کھیل نے درحقیقت مجھ سمیت میری پوری ٹیم کو ہلا کر رکھ دیا لیکن یہ درحقیقت ان کی بیوقوفی تھی کیونکہ اس سے ہمیں یہ فائدہ پہنچا کہ مخالفین اسلام کا اس قدر اہم اور خطرناک راز ہم پر ظاہر ہوگیا۔ جہاں ان کی ایک سازش سامنے آئی، وہیں برصغیر اور بالخصوص پاکستانی قوم کی خامیاں اور ان کے نقصانات کھل کر سامنے آگئے۔ وہ سازش یہ تھی کہ ان لوگوں نے فیس بک پر مسلمانوں، اسلامی تنظیموں، جماعتوں یا مسلکوں کے نام پر بہت سے اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں۔ بظاہر آپ کو ایسا ہی لگے گا کہ اس فیس بک پروفائل کا حامل شخص نہایت دیندار اور کٹر اہلحدیث، دیوبندی یا بریلوی ہے، اور اپنے مسلک سے نہایت محبت رکھتا ہے، لیکن درحقیقت اس کے پیچھے یہی ملحد موجود ہوتے ہیں جو کہ دوسرے مسالک کے خلاف نہایت کثرت سے مواد پھیلاتے ہیں۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ ایک اکاؤنٹ سپاہ صحابہ کے نام پر بنایا جائے گا اور اس پر سپاہ صحابہ کے سرکردہ رہنما مولانا احمد لدھیانوی و فاروقی وغیرہ کی تصاویر اپلوڈ کرکے خود کو سپاہ صحابہ سے محبت کرنے والا ظاہر کیا جائے گا۔ اس اکاؤنٹ سے دن رات ’’ کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کے نعرے لگا کر جذباتی مسلمانوں کو اکٹھا کیا جائے گا۔ اسی طرح اہلحدیث و بریلوی مسلک کے خلاف بھی نفرت پھیلائی جائےگی۔ اسی طرح ان لوگوں کا ایک اکاؤنٹ ’دعوت اسلامی‘ کے نام پر بھی دیکھا گیا جس پر دعوت اسلامی کے امیر مولانا الیاس قادری کی تصاویر جن پر ’’میٹھا مرشد‘‘ بھی لکھا ہوا تھا‘ اپلوڈ کی گئی تھیں۔ الغرض کہ اس اکاؤنٹ کے چلانے والے کو کسی انتہائی مخلص ’اسلامی بھائی‘ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس اکاؤنٹ سے خالصتاً اسلامی پوسٹس شیئر کی جاتیں اور یوں تقریباً 3500 مسلمانوں کو اکٹھا کرلیا گیا۔ ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقتیں بھی آئیں کہ یہ لوگ مسلمانوں میں نہایت اندر تک گھسے ہوئے ہیں۔ نیز انہیں مسلکی اختلافات کا ایک عام مسلمان سے زیادہ علم ہے، چنانچہ ان کے لیے دو یا زیادہ مسلمانوں کو لڑوانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

    ابھی تک اس قسم کے تمام فورمز کا مقصد مسلمانوں میں زیادہ سے زیادہ فرقہ ورانہ آگ بھڑکائے رکھنا تھا لیکن کچھ ماہ قبل ان فورمز کا انتہائی گھناؤنا اور خطرناک استعمال سامنے آیا۔ اور وہ یہ تھا کہ ان لوگوں نے اسلام کا دفاع کرنے والے اپنے ایسے مخالفین جو ان کے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہو رہے ہوں کی تصاویر چرا کر، ان پر’ نبوت کے دعوے‘ یا پھر گستاخیاں لکھ کر پھیلا دیتے۔ یہ تصاویر وہ عموماً مسلمانوں کے فیس بک پروفائل اور بعض صورتوں میں مخالف کے کمپیوٹر پرانٹرنیٹ وائرس کے ذریعے قبضہ (Hack) کرکے چوری کرتے۔ طریقہ واردات یہ اختیار کیا گیا کہ کسی سید زادی کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنایا گیا جسے کافی مذہبی دکھایا گیا تھا۔ اس اکاؤنٹ پر 6 ماہ کے عرصہ میں سینکڑوں کی تعداد میں ’نفس پرست‘ اور بھولے مسلمان اکٹھے کرلیے گئے۔ پھر اچانک ایک دن اس اکاؤنٹ سے ہمارے ایک نہایت مخلص ساتھی ’حافظ بابر صاحب‘ جن کی ان تخریب کاروں کے خلاف نہایت گرانقدر خدمات تھیں، کی تصاویر کے ساتھ انہیں انتہا درجے کا گستاخ رسول ﷺ لکھ دیا گیا اور ساتھ ہی یہ ترغیب بھی دی گئی کہ جسے ملے اور جہاں ملے، اس گستاخ کو جہنم واصل کرکے جنت کا حقدار بن جائے۔ اس تصویر (پوسٹ ) کو چن چن کر ایسے مسلمانوں سے منسلک (Tag) کردیا گیا جو بہت زیادہ فرینڈز رکھتے ہوں یا بہت جذباتی و مذہبی ہوں ٗتاکہ جتنا ہوسکے یہ افواہ پھیل جائے۔

    آپ ہم مسلمانوں کا المیہ دیکھیے، یہ سوچ کر کہ اس پوسٹ کو ایک لڑکی نے اپ لوڈ کیا ہے، اس لڑکی کو خوش کرنے کے لیے اس جھوٹی پوسٹ کو بےدریغ پھیلانا شروع کردیا۔ حتیٰ کہ کسی مسلمان کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی اس بے بنیادپوسٹ کے شیئرز 225 سے تجاوز کرگئے جو کہ فیس بک کی دنیا میں کافی مشکل کام ہے۔ کسی مسلمان نے اس بیچارے کی گستاخی کا کوئی ثبوت مانگا اور نہ ہی اسے پھیلانے سے پہلے ایک مرتبہ تصدیق کرنے کا سوچا۔ یونہی وہ اکاؤنٹ جوتنظیم’سپاہ صحابہ‘ کے نام پر بنایا اور کل تک فرقہ وارانہ بحثوں سے بھراہوا نیز ’’کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا، پر ایک دن اچانک ایک پوسٹ اپ لوڈ کردی گئی جس میں کوئی داڑھی والا شخص شاید کسی تفریحی مقام پر اپنے ہاتھ سے اپنی تصویر (Selfie) کھینچ رہا تھا۔ اس تصویر پر لکھ دیا گیا کہ ’’میں اللہ کا نیا نبی ہوں اور مجھ سے پہلے کی تمام شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں، چنانچہ اب مسلمانوں کو میرا کلمہ پڑھ لینا چاہیے‘‘ (خدا کی پناہ) ۔ اور اوپر کلمہ درج کردیا گیا تھا ’’ لاالٰہ الا اللہ السلام فیصل رسول اللہ‘‘۔اس کے ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی بھی کی گئی تھی۔ یہ تصویر والا شخص ہمارے لیے اجنبی نہیں تھا۔ یہ دفاع اسلام کے ہمارے بہت اچھے اور مخلص ساتھی جناب ’عبدالسلام فیصل صاحب‘ تھے۔ جنہوں نے اس محاذ پر دن رات ایک کردیا تھا۔ اس شخص کی مذہبی شناخت کا عالم یہ تھا کہ انہیں مشہور اہلحدیث لیڈر علامہ ابتسام الٰہی ظہیر تک جانتے تھے اور یہ حافظ عمرصدیق صاحب کے شاگرد اور دوست تھے۔ مسلمانوں کے ان ’خونی پیاسوں‘ نے اس سے اگلا قدم یہ اٹھایا کہ حافظ عمرصدیق صاحب کی کسی کانفرنس سے لی گئی تصویر کے ساتھ یہ بیان جاری کردیا گیا کہ ’’میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ عبدالسلام فیصل کا دعوٰی بالکل صحیح ہے اور وہ واقعی نبی ہیں‘‘( خدا کی پناہ)۔ یہاں بھی ہم مسلمانوں کی جہالت اپنے عروج پر تھی۔ بغیر کسی تصدیق کے اس بیگناہ شخص کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ لوگ دروازہ بجا بجا کر عبدالسلام فیصل پر الزام عائد کرنے اور غیظ و غضب کا اظہار کرنے لگے۔ آخر کار اس بےچارے کو گھر سے روپوش ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ طالبان نے تو’’بھرپور جذبہ اسلامی‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے حافظ عمر صدیق صاحب کے مدرسہ ’جامعہ محمدیہ‘ کو بم سے اڑانے تک کی دھمکی دے دی۔ مزید تماشا یہ ہوا کہ الزامات کی اس بہتی گنگا میں فرقہ پرست عناصر بھی ہاتھ دھونے سے پیچھے نہ رہے۔ چنانچہ دیوبندی و بریلوی مکاتب فکر کے لوگوں نے اس افواہ کو یہ کہہ کر قبول کرلیا کہ ’’انہوں نے پہلے بھی مرزا قادیانی کا ساتھ دیا تھا لہٰذا ان غیر مقلدوں کے نزدیک ہوسکتا ہے اب عبدالسلام فیصل کی نبوت بھی جائز ہوگئی ہو‘‘۔ کٹر قسم کے بریلوی و دیوبندی عوام کے لیے غیرمقلدوں کے خلاف اپنے ’’خیالات زریں‘‘ کے اظہار کا بھرپور موقع تیار تھا ، لہٰذا اس بہتان عظیم کو مسلمانوں کے دونوں گروہوں نے بھی پھیلانا شروع کردیا۔

    اس مافیا کا اگلا شکار ان سطور کا راقم بذات خود تھا۔ 12 دسمبر 2014ء کو ’سپاہ صحابہ‘ کے نام پر بنائے گئے کافروں کے اس جعلی اکاؤنٹ سے میری تصویر پر ’’حضرت زوہیب زیبی علیہ السلام‘‘ لکھ دیا گیا۔ اس اکاؤنٹ کے ’ کور فوٹو‘ پر میرے نام کا جھوٹا کلمہ ’’ لا الٰہ الا اللہ زوہیب رسول اللہ‘‘لکھ کر اپ لوڈ کر دیا گیا (العیاذ باللہ تعالیٰ)۔ اس کے ساتھ ہی پہلے کی طرح عبدالسلام فیصل صاحب والے انداز میں میری تصویر کے ساتھ وہی سب کچھ لکھ دیا گیا کہ ’’یہ اللہ کا نیا نبی ہے، پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں اور مسلمان اب زوہیب کا کلمہ پڑھیں‘‘( نقل کفر کفر نہ باشد)۔ پھر پہلے ہی کی طرح ’’دارالافتاء فیضان شریعت‘‘ کے لیٹر پیڈ پر دیے گئے ایک فتوے میں ایڈیٹنگ ( جعلسازی ) کرکے اوپر دارالافتاء کے نام و پتہ نیز نیچے دستخط و مہر والا حصہ تو اصل رہنے دیا گیا جبکہ بیچ والے حصے میں ’سنّی اتحاد کونسل‘ کی طرف سے جعلی تصدیق نامہ لکھ دیا گیا کہ ’’ہم سنّی اتحاد کونسل کے علماء ایک اجلاس میں زوہیب سے ملے ہیں اور وہ واقعی نبی ہے‘‘ ( خدا کی پناہ )۔پچھلی تین مرتبہ میں یہ دشمنان ملت اسلامیہ مسلمانوں کے ہاتھوں گستاخی رسول ﷺ کے نام پر کسی مسلمان کو قتل کروا کر خوشیاں منانے یا ہمیں خوفزدہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے تھے۔ چنانچہ اس مرتبہ انہوں نے اپنے پراپیگنڈے کو شدید تر بنانے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا ایک تو میری تصویر کے ساتھ گستاخیاں بھی انتہائی شدید نوعیت کی کی گئیں جن میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو صریحاً ننگی گالیاں دی گئی تھیں، اور دوسرا مسلمانوں کو اشتعال کی انتہاؤں پر پہنچانے کے لیے مجھ سے منسوب کرکے ایک آڈیو خطاب بنام ’’حضرت زوہیب زیبی علیہ السلام کا اپنی امت کے ساتھ پہلا آڈیو خطاب‘‘ بھی جاری کردیا گیا۔ اس جعلی خطاب میں مجھ پر ایمان لانے والے مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا گیا تھا اور ساتھ ہی قادیانی حضرات کی مشہور دلیل دی گئی تھی کہ ’’خاتم‘‘ کا مطلب مہر لگانے والا ہے لہٰذا ’’خاتم النبیین‘‘ کا صحیح مطلب ہوا’’ نبوت جاری ہے‘‘۔ ظلم یہ ڈھایا گیا کہ اس آڈیو کلپ کے ساتھ میری، عبدالسلام فیصل اور حافظ بابر صاحبان کے علاوہ بعض دیگر ان مسلمانوں کی تصاویر بھی دے دی گئیں جو کہ دفاع اسلام کے ساتھی یا پھر ہمارے فورمز پر آنے والے اور اسلام سے محبت کرنے والے سادہ مسلمان تھے۔ حتٰی کہ دو ایسے افراد کی تصاویر بھی جاری کردی گئیں جن کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر اس سے بڑا ظلم یہ تھا کہ ان بےگناہ مسلمانوں کی تصاویر پر ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھ کر انہیں میرا ’صحابی‘ بتایا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکے. پھر میری تصاویر کے ساتھ دعویٰ نبوت کی تصدیق کے لیے ’دارالافتاء فیضان شریعت‘ کے بریلوی مفتی عابد مبارک مدنی صاحب کے لیٹر پیڈ پر جعلسازی اس وقت کی جبکہ مسلک دیوبند اور بریلویوں میں جنید جمشید کے گستاخی والے معاملہ پر تنازع بنا ہوا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ جان بوجھ کر جعلسازی بھی اسی فتوے پر کی گئی جو کہ جنید جمشید کے بارے ہی دیا گیا تھا۔ افسوس کہ ان دشمنان اسلام کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور مفتی صاحب یہی سمجھے کہ ان کے ساتھ یہ جعلسازی دیوبندی حضرات نے جنید جمشید کے خلاف بولنے کی وجہ سے کی ہے۔ نہ صرف مذکور مفتی صاحب بلکہ عام سنّی عوام کو بھی یہی تاثر ملا اور یوں ان فری تھنکرز نے لوگوں میں فرقہ وارانہ تصادم کروانے کا اچھا خاصا ماحول پیدا کردیا۔ یہاں تک کہ مفتی صاحب نے اس سلسلہ میں متوقع مخالفین پر پرچہ تک کٹوادیا نیز اس کے ساتھ ساتھ مخالف فرقے کے خلاف کافی اشتعال انگیز گفتگو بھی کرنے لگے۔ لیکن حقیقی ظلم عظیم جو ڈھا رہے تھے وہ خود مسلمان تھے۔

    ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم گھر بیٹھے جنت کمانے کے شوقین ہیں۔ ہم بغیر کسی محنت و مشقت کے خدا کو راضی کرنا اور بغیر عمل کے اپنی قبروں کو جنت کے باغ بنانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح جذباتی مسلمانوں نے سنی سنائی باتوں پر یقین کیا۔ وہ لوگ جو مسلکی بحثوں میں مخالف سے دلیل و حوالہ مانگتے نیز ’سند حدیث‘ کی پر پیچ بحثیں کرتے نہیں تھکتے، آج کسی انسان پر دعوٰی نبوت کا الزام لگا کر لعنتیں برسا رہے تھے، قتل کرنے کی تجویز کے ساتھ ساتھ مرتد ہونے کے فتوے بھی جاری کیے جارہے تھے، میرے حوالے سے جاری کی گئی پوسٹس پر 1200، 2200 اور 3000 تک کمنٹس دیے گئے تھے جن میں مسلمانوں نے گالیاں دے کر اپنی طرف سے خدا کو راضی کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔

    دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک فضول و نکمّی قوم بن چکے ہیں جن کے پاس شاید کرنے کو کچھ خاص نہیں اس لیے ہر غیر اہم و فضول بات پر وقت ضائع کرنا اور اسے پھیلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایسے معاملات میں ہم نہایت فیّاض واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں صرف تفریح چاہیے خواہ معاملہ کتنا ہی نازک و خطرناک کیوں نہ ہو۔ خواہ کسی کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے یا کسی کی عزت نیلام ہوجائے یا پھر اسے کتنا ہی بڑا نقصان پہنچے۔ سوال یہ ہے کہ ہم لوگ آخر بحیثیت قوم کب سدھریں گے؟ ہم جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہ دوسروں کے لیے کیوں نہیں؟ ہم آخر کب اپنے جذبات کے ہاتھوں یرغمال بننا چھوڑ کر پہلے خدا کی عطا کردہ عقل سے سوچنے اور پھر کوئی فیصلہ کرنے کی عاد ت ڈالیں گے؟ وہ سب لوگ جو اس قسم کی جعلی تصاویردیکھ کر گالیاں دے رہے اور فتوے لگا رہے تھے، کیا وہ تصاویر میں دکھائے گئے لوگوں سے خود ملے تھے؟ کیا انہوں نے خود گستاخی کرتے دیکھا تھا؟ کیا ان متاثرہ لوگوں نے نبوت کے دعوے ایسے جذباتی مسلمانوں کے سامنے کیے تھے؟ یا پھر کم از کم کسی کو ویڈیو میں ہی ایسا کرتے دیکھا ہو؟ حالانکہ جعلسازی تو ویڈیو کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر انٹرنیٹ پر بیٹھی پڑھی لکھی عوام اور مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والے بھٹے کے جاہل مزدوروں میں کیا فرق رہ گیا؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر بھٹہ مزدوروں کی جگہ یہ نام نہاد پڑھے لکھے (Well Educated) لوگ ہوتے تو یہ بھی ویسا ہی کرتے۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ دعوٰی جتنا بڑا ہوتا ہے، ثبوت بھی اتنا ہی مضبوط چاہیے ہوتا ہے؟ اگر جذبات کو ایک طرف رکھ کر اس معاملے پر غور کیا جاتا تو کوئی بھی معمولی سمجھ بوجھ والا انسان بآسانی جان سکتا تھا کہ یہ صرف دشمنی میں بےگناہ لوگوں کی تصاویر کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ میری پہلی تصویر تو واضح طور پر نیلے بیک گراؤنڈ کے ساتھ پاسپورٹ سائز میں تھی جیسا کہ عموماً سکول، کالج یا کسی بھی سرکاری کام کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسری تصویر بھی گھر میں لی گئی تھی جیسا کہ عموماً لوگ تصویر بنوا لیا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن مسلمانوں نے فیس بک جیسے غیر مستند ترین ذریعہ کی بنیاد پر دعوٰی نبوت جیسے گھٹیا ترین الزامات لگائے، کیا وہ کل کو اسی بنیاد پہ اپنے بارے میں بھی اسی قسم کی باتیں فتوے اور گالیاں قبول کرسکتے ہیں؟ ممکن ہے یہاں آپ کے ذہن میں یہ نکتہ آئے کہ ہم پر تو ایسے الزامات مخالفت کی بنا پر لگے، بھلا آپ پر کیوں لگائے جائیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت اب یہ لوگ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں ہر وقت انتشار برپا رہے اور کسی نہ کسی طرح توہینِ رسالت ﷺ کے الزام میں دو چار مسلمان ضرور ماردیے جائیں۔ اس طرح وہ لوگ اس قانون یا پھر جذبہ حرمت رسول ﷺ کا نقصان دکھا کر غلط تاثر قائم کرکے اس کے خلاف زہر اگلنے کا بھرپور موقع چاہتے ہیں۔ چنانچہ اب سے تقریباً 8 ماہ پہلے بھی ان لوگوں نے بہت سے مسلمانوں کی تصاویر پر دعوٰی نبوت لکھ کر پھیلا دیا تھا۔ آپ خود سوچیے کہ کیا کوئی شخص بنیان پہن کرکھنچوائی گئی تصویر سے دعوٰی نبوت کرے گا؟ اسی طرح جماعت اسلامی کے رکن ’ فیض محمد سومرو‘ نامی شخص کی تصویر سے بھی یہی دعوٰی پھیلا دیا گیا تھا۔ پھر یہ لوگ اس ناٹک میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اپنی دیگر جعلی آئی ڈیز کے ذریعے کمنٹس میں یہ تک لکھ دیتے ہیں کہ ’’میں حضرت فیض محمد سومرو علیہ السلام کے دعویٰ نبوت پر ایمان لاتا ہوں‘‘۔ نیز کچھ دیگر پروفائلز سے ٗ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ایسے تبصرے بھی کر دیتے ہیں ’’اگر میرے بس میں ہو تو اس خبیث کو قتل کردوں‘‘ یا ’’اس کی زندگی میری شرمندگی‘‘ وغیرہ۔

    یہ ملحدین اس قدر شرپسند واقع ہوئے ہیں کہ جامعہ بنوریہ کراچی جیسے مشہور و معروف مدرسہ کے ایک فتوے میں پہلے بیان کردہ طریقہ واردات کے مطابق جعلسازی کرکے’شراب کے حلال‘ ہونے کا فتویٰ تک جاری کردیا جس سے مسلمانوں میں کافی بے چینی پھیلی۔ اس جعلی فتوے کا خلاصہ تھا کہ ’’قرآن کہتا ہے کلوا واشربوا یعنی کھاؤ اور شراب پیو، لہٰذا قرآن کے مطابق شراب پی سکتے ہیں، ہاں البتہ اتنی پینا حرام ہے کہ جس سے نشہ ہوجائے‘‘۔ اسی طرح ان لوگوں نے ’’روزنامہ امت کراچی 14 نومبر 2014‘‘سے منسوب کرکے سپاہ صحابہ کے رہنما مولانا احمد لدھیانوی کے دعویٰ نبوت کی خبر بھی پھیلادی تھی۔ خبر کا خلاصہ تھا کہ ’’مولانا نے کہا کہ سلسلہ نبوت حضرت عمر سے ہوتا ہوا مجھ پر ختم ہوا ہے۔ امکان ہے کہ سپاہ صحابہ کا ایک بڑا گروہ ان پر ایمان لا سکتا ہے نیز علماء ان پر ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ احمد لدھیانوی کھلے کفر کا مرتکب ہوا ہے‘‘۔

    ’ 27 نومبر 2014 روزنامہ امت کراچی‘ سے منسوب کرکے یہ جھوٹی خبر فیس بک پھیلادی گئی کہ ’’پاکستان میں لوگ بہت تیزی سے اسلام کو چھوڑ رہے ہیں حتٰی کہ 20% آبادی ملحد، دہریہ یا لادین بن چکی ہے۔ افسوس کہ پاکستانیوں نے اپنی ازلی ناسمجھی کے تحت اس جھوٹ کو خوب پھیلایا۔ الغرض کہ کہاں تک سنیں گے اور کہاں تک سناؤں؟ والا معاملہ ہے. خلاصہ یہی ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر عالم اسلام و پاکستان کے خلاف ایک بھرپور قسم کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ ’’یہودی سازش‘‘ یا ’’بیرونی ہاتھ ‘‘ کا جو دعویٰ ہماری جانب سے کیا جاتا ہے، وہ قطعاً جھوٹ نہیں ہے۔ ہاں فرق ہے تو صرف اتنا کہ وہ لوگ ہمیں ہماری خامیوں کی وجہ سے ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ ہماری کمزوریوں کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں اور پھرموقع کی تاک میں رہ کر ان کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ جونہی اسلام و پاکستان کے حوالے سے کوئی اہم واقعہ رونما ہو، ان کی پوری مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ چنانچہ حالیہ جنید جمشید کے واقعہ پر بھی انہی لوگوں نے مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر آگ کو بھڑکائے رکھنے کی خوب کوشش کی تھی۔ ان کی مکمل خواہش تھی کہ کسی طرح فرقہ وارانہ تصادم ہوجائے یا پھر کوئی مسلمان مشتعل ہو کر جنید جمشید کو سزا دے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے کچھ ماہ قبل شائستہ لودھی کے مارننگ شو میں ہونے والی گستاخی اہلبیت پر حافظ سعید صاحب کے دیے گئے بیان کو ایڈٹ کرکے جنید جمشید کے واقعہ پر چسپاں کردیا، اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حافظ سعید صاحب نے جنید جمشید کو ہرگز معاف نہ کرنے اور معافی قبول کرنے کا کہنے والے مفتیوں کو مناظرے کا چیلنج کیا ہے۔ حالانکہ حافظ سعید صاحب وہ سب کچھ شائستہ لودھی کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ ان دشمنوں کے آلہ کاروں نے اس حوالے سے جو پوسٹ جاری کی تھی، اس میں صاف درج تھا ’’جماعۃ الدعوۃ اور تبلیغی جماعت آمنے سامنے‘‘۔

    معزز قارئین کرام! یہ سب تفصیلات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اول تو علمائے کرام اب بیدار مغزی کا ثبوت دیں اور موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ٹھانیں۔ جس فتنہ الحاد کے بارے آپ سوچتے ہیں کہ اسے امام غزالی نے دفن کردیا ہے، اسے عالمی طاقتیں اپنے مخصوص مقاصد کے تحت پھر سے زندہ کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔ نیز موجودہ فتنۂ الحاد پہلے کی نسبت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ پہلے سائنس کا ہتھیار نہیں تھا، اب ہے، پہلے باطل افکار کو عام کرنا مشکل تھا لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات کی ترویج اب انتہائی آسان ہے، پہلے ہم انگریزوں کے مفتوح تھے، اب انگریزوں کی ذہنی غلامی ہماری رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی ہے۔ لہٰذاپہلی فرصت میں سیکولرازم و فری تھنکنگ کے مزاج کو سمجھ کر مادہ پرستی و دہریت کا موضوع اپنے خطبات و تقاریر میں شامل کیجیے۔
    دوم آپ کے لیے اشد ضروری ہوگیا ہے کہ توہین رسالت ﷺ کی سزا پر سب مل بیٹھ کر باقاعدہ کوئی جامع لائحہ عمل حکومت پاکستان کو پیش کریں۔ ایسا ضابطہ جو کہ ہر طرح کی فقہی باریکیوں سے مزین، قانونی سقوم سے پاک اور غیرمبہم نیز تمام تر حدود و قیود سے آراستہ ہو۔ کیونکہ اس قانون کی بنیاد پر کسی شخص کی موت و زندگی کا فیصلہ ہونا ہے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو کفّار یونہی پاکستان میں رائج اس قانون کی خامیوں کو اچھال کر واویلا کرتے رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ کسی دن یہ پروپیگنڈہ کامیاب ہو جائے اور آپ آپ پاکستانی قوم کی حمایت بھی کھو بیٹھیں۔
    سوم یہ کہ ایسے نازک معاملات میں ردّعمل کے بارے عوام کی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ توہین رسالت ﷺ کے الزام پر انسانوں کو زندہ جلائے جانے یا غیر مستند ذریعہ سے سنی ہوئی بات پر یقین کر کے اپنے مسلمان بھائی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا رجحان بدستور برقرار رہے گا۔ اوریقیناً یہ بات تو آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب جب ایسے واقعات ہوں گے، تب تب اسلام اور مولوی کا مذاق بنتا رہے گا۔

  • لبرل اور سیکولر کی عقلی بنیاد اورسائنسی توجیہہ – مجیب الحق حقی

    لبرل اور سیکولر کی عقلی بنیاد اورسائنسی توجیہہ – مجیب الحق حقی

    مجیب الحق حقی ہر اصطلاح ایک پس منظر رکھتی ہے۔ مغرب میں رائج اصطلاحات بھی اپنے پیچھے ایک تاریخ رکھتی ہیں۔ عقلمندی یہی ہے کہ ہم اپنے تاریخی اور مذہبی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کسی مکتب فکر کی اصطلاح کو اپنائیں۔ لبرل اور سیکولر عام سی اصطلاح لگتی ہیں لیکن یہ ایک خاص پس منظر کے ساتھ ہیں۔ جس طرح مسلم، ہندو، عیسائی اور یہودی کا مطلب ہم خوب سمجھتے ہیں اسی طرح ہم کو لبرل اور سیکولر کا مطلب بھی جاننا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں وہیں رجوع کرنا ہوگا جہاں یہ اوّل اوّل کسی نظریاتی پیرائے میں استعمال ہوئیں۔ مغرب میں علوم کی نشاۃثانیہ Renaissance نے معاشرے میں رائج عیسائیت کے غیر عقلی نظریات کو چیلنج کیا جس کے نتیجے میں مذہب پسپا ہونا شروع ہوا اور حکومت پر اس کی گرفت کمزور ہونی شروع ہوئی۔ رفتہ رفتہ معاشرے میں مذہب کا عمل دخل کم ہوکر ختم ہوگیا اور معاشرے میں متبادل نظریات کا غلبہ شروع ہوا جس میں مذہب کی حیثیت ذاتی رہ گئی اور معاشرے میں اقدار اور قانون سازی کی بنیاد وحی کے بجائے انسانی عقل قرار پائی۔

    لبرل ازم اور سیکولر ازم دراصل اسی دور میں متعارف ہوئے۔ لبرل ازم ایک سیاسی فکر ہے جو انسان کی آزادی کو فوقیت دیتی ہے اور اسی کو تمام سیاست کا محور سمجھتی ہے۔ اس میں مذہب کی اہمیت محض ذاتی ہوتی ہے۔ سیکولر ازم میں مذہب حکومت سے جدا ہوتا ہے اور حکومت کسی بھی مذہبی سوچ کے زیراثر نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے مندرجہ بالا دونوں اصطلاحات بہت تواتر سے استعمال ہوتی ہیں اور لوگ ان کے مطلب سطحی طور پر سیاست کے تناظر میں ہی اخذ کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں نظریات کی بنیاد ان سائنسی دریافتوں سے جڑی ہے جنہوں نے خدا کے حوالے سے انسانوں کو مخمصوں میں غلطاں کیا ہوا ہے۔ مذہبی عقائد پر شک انسان کو سائنس پر بھروسے کی تلقین کرتا ہے اور لوگ بغیر عقلی تجزیہ کیے ان نظریات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جو سائنسی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ پوری دنیا میں ان دونوں نظریات کو اپنانے والے خدا کو محض کسی فرد کا ایسا ذاتی خیال گردانتے ہیں جس کی سائنسی، سیاسی اور معاشرتی اہمیت نہیں۔ گویا جدید سائنسدانوں کی اکثریت کاخدا سے انکار انہوں نے من و عن قبول کیا ہوا ہے۔

    یاد رکھیں کہ کسی فرد یا گروہ کے بنیادی عقائد کا تعلّق اس کے کائنات اور زندگی کی تخلیق کے نظریے سے بہت گہرا ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی معاشرتی ڈاکٹرائن یا نظریہ حیات کی بنیاد ٹھوس عقلی اور علمی دلائل پر ہونی چاہیے، کیونکہ مذکورہ جدید معاشرتی نظریات اور ان کے محرّک سائنسی نظریات کائنات کے خالق کا انکار کرتے ہیں لہٰذا ان کا طائرانہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ان کے فلسفے کی عقلی بنیاد کی مضبوطی کا تعیّن ہوسکے۔
    آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنسی اور جدید ہونے کا دعویٰ کرنے والے لبرل ازم اور سیکولر ازم کی اخلاقی اور نظریاتی بنیادیں اگر ہیں توکتنی مضبوط ہیں؟

    کائنات کیسے بنی؟
    اس کا جواب جدید ترین دریافتوں اور قابل ترین ملحد سائنسداں کے خیالات کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔
    کائنات اور زندگی کی تخلیق کے حوالے سے ان نظریات حیات کی بنیادیں سائنس اور سائنسی دریافتوں پر استوار تو ہیں مگر یہ اساس کتنی کھوکھلی یا مضبوط ہیں اس کا اندازہ جدید ایم تھیوری M-Theory سے لگایا جاسکتا ہے۔ گو کہ سائنس ٹھوس حقائق پر ہی انحصار کرتی ہے لیکن یہ تھیوری سائنسی مفکرّین کے خوابی تخیّلات کی مثال ہے۔ سپر اسٹرنگ تھیوریز Super-String-Theories کو یکجا کر کے سائنسدان ایک نئی تھیوری پر کام کر رہے ہیں جسے ایم۔تھیوری کا نام دیا جارہا ہے۔ اس مشترکہ تھیوری کی بنیاد خلا کے چند حقیقی مظاہر یعنی کانٹم غیر یقینی-Quantum-uncertainity ، کرَوڈ اسپیس( Curved-Space)، سپر سمِٹری Super-Symmetry، کوارک Quark، اسٹرنگ String اور ملٹی ڈائمنشن Multidimension پر مبنی ہے۔ ایم تھیوری فریم ورک میں ان سب کو مدغم کیا جارہا ہے۔

    ایم تھیوری کائنات کے خود بخود وجود میں آنے کے تخیّل کو ایک منطقی جواز دینے کی کاوش ہے۔ یہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کو عام انسان نہیں سمجھ سکتا. اس کے لیے فزکس کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ اس کو مختصراً یوں سمجھیں کہ انتہائی پیچیدہ سائنسی مساوات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر ہم 500 کو 500 سے 10 دفعہ ضرب در ضرب دیتے چلے جائیں تو اس کے حاصل کے برابر کائناتیں خود بخود بنیں اور فنا ہوئیں! یعنی لاتعداد۔ ایک بات تو یہ ہوئی۔
    اب تخلیق کے مرحلے کی سائنسی روداد کا بھی مختصر ساجائزہ لیتے ہیں۔ اپنی کتاب دی گرینڈ ڈیزائن کے صفحہ 226 پر دورِحاضر کے قابل ترین اور ملحدوں کے سرخیل سائنسدان اسٹیون ہاکنگ لکھتے ہیں،
    ”اگر کائنات کی کْل توانائی کو ہمیشہ صفر ہی رہنا ہے اور کسی جسم کی تخلیق کے لیے توانائی ہی ضروری ہے تو کائنات کی تخلیق نیست nothing سے کیسے ہوسکتی ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پر کشش ثقل gravity کا قانون ہو کیونکہ ثقل میں کشش اور ثقل کی توانائی منفی ہے۔ یہ منفی توانائی اس مثبت توانائی کو متوازن کرسکتی ہے جو مادّے کی تخلیق کے لیے ضروری ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
    یہی سائنسدان اسی کتاب کے صفحہ 227 پر رقمطراز ہیں: ”کیونکہ ایک قانونِ کشش ثقل موجود ہے تو کائنات نیست nothing سے اپنے آپ کو خود تخلیق کرسکتی ہے اور کرے گی! “
    ذرا غور کریں کہ بقول ان کے تخلیق سے قبل جب کچھ نہیں تھا تو نیست nothing میں کشش ثقل کا قانون کیسے موجود ہوا؟ یعنی عدم میں اگر کوئی قانون موجود تھا تو وہ ماحول عدم یا نیست nothing نہیں ہوسکتا۔ مزید یہ کہ کشش کا تو تعلّق ہی مادے کے موجود ہونے سے ہے، مادہ ہے تو کشش ہے ورنہ کشش نہیں۔ اور اگر وہاں کشش ہے تو وہ نیست nothing نہیں۔

    خدا سے سائنسدانوں کا بغض:
    یہاں پر مذہب اور خدا سے کوئی دیرینہ بغض صاف عیاں ہے کیونکہ سائنس دانوں کے پاس اچانک تخلیق کا کوئی ٹھوس مواد نہیں ہے تو یہ زبردستی فرض کرلیا گیا ہے کہ کائنات کی ابتدا سے پہلے ایک قانون کشش ثقل موجود تھا۔ یہ کسی نظریے کو زبردستی ٹھونسنے یا کھینچ تان کر سائنسی بنانے کی منفرد مثال ہے جو بذات خود غیرسائنسی، غیرمنطقی اور غیر عقلی ہے۔ اسے جدید سائنس کا تخلیق کائنات کا انتہائی غیرمنطقی مفروضہ hypothesis ہی کہا جاسکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اہم ترین بنیادی نظریہ ہی تضاد پر مبنی ہو اور ابتدا میں ہی خود اپنی نفی کر رہا ہو تو اس پر بننے والا نظریہ حیات کیسے مستحکم ہوگا؟
    اگر اس کا دوسرا استدلال یہ لایا جائے کہ بگ بینگ کے اندر قانون کشش ثقل موجود تھا لہٰذا تخلیق ہوئی، تو پھر آپ نیست کو زیربحث ہی کیوں لارہے ہیں؟ اس جملے میں نیست یا nothing کا تذکرہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ تخلیق کائنات میں کسی بیرونی قوّت کے اثر انداز ہونے کو سائنس قبول کرنے پر مجبور ہے۔
    تو وہ قوّت تو ابھی تلاش کرنی ہے نا!
    یہی سائنسدان اسی صفحے پر آگے لکھتے ہیں،
    ”یہ اچانک تخلیقSpontaneous-creation ہی ہے کہ جس کی وجہ ہے یہاں نیست nothing کے بجائے کچھ something ہے۔کائنات کیوں موجود ہے اور ہم کیوں موجود ہیں، اس کے لیے خدا کوبیچ میں لانے کی ضرورت نہیں کہ جس نے کوئی نیلا کاغذ سلگا کر کائنات کو چلادیا۔“
    ارے جناب آپ خود ہی تو فرمارہے ہیں کہ کائنات خود بنی مگر باہر سے کشش کی قوّت کی موجودگی سے تو یہ بھی تو بتائیں کہ یہ قوّت تخلیق سے پہلے کیسے موجود ہوئی؟ یہ تضاد کیسا؟
    ایم تھیوری درحقیقت کائنات کی تخلیق اور اس کی ہیئت ترکیبی کو سمجھنے کا محض ایک نظریہ Theory یا مفروضہ ہے جسے کھینچ تان کر خدا کے انکار سے نتھی کیا جا رہا ہے۔ اس کے صحیح ہونے کا بھی یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ کائنات خود بنی! یہ تھیوری کسی پراسس یا تعمیری عمل کی محض علمی منظر کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور اگر یہ صحیح ثابت ہوتی بھی ہے تو اس سے ایک زبردست تخلیق کی تشریح سامنے آئے گی جبکہ خدا کے بغیر عدم سے خود بخود کائناتی تخلیق انتہائی متعصّب غیرعقلی نظریہ ہے جس کی کوئی عقلی اور علمی تشریح ہونا ناممکن ہے۔

    تخلیقِ کائنات کی سائنسی تشریح :
    اسے بغور پڑھیں اور سر دُھنیں!
    ”کیونکہ قانونِ کشش ثقل کی وجہ سے کائنات خود بخود بن سکتی ہے لہٰذا اس عمل سے لاتعداد کائناتیں بنتی، ٹوٹتی اور فنا ہوتی رہیں لیکن ہماری کائنات اْن لاتعداد میں ایک ہے جو فنا نہیں ہوئی۔ بےشمار کائناتوں کی تخلیق اور فنا کے دوران کسی ایک کا قائم رہ جاناامکانات میں ہے! یہ ایک اتفاق ہے اور قانون امکان Law-of-probability کے تحت ممکن ہے، طبعی قوانین، فطری قوّتیں اور زندگی بھی ماحولیاتی اتّفاق سے وجود میں آئے۔ سارانظام کائنات انہی طبعی قوانین پر چل رہا ہے۔“
    یہ کتنا عقلی اور منطقی ہے خود فیصلہ کرلیں۔

    تخلیق کائنات کی مذہبی تشریح
    مندرجہ بالا تشریح کا ماحصل یہ بھی تو ہوا کہ اگر کوئی قوّت یعنی کشش کائنات کے وجود سے پہلے بھی موجود تھی جس کے اثرانداز ہونے سے کائنات بنی ہے تو سائنس اس کو کوئی بھی نام دے ہم اسے لامحدود قوّت والی ہستی کا اذن کہتے ہیں۔ یہ تو اللہ کی لامحدود ہستی کا ارادہ تھا جس نے کائنات تخلیق کی اور اس کے نظام کو چلانے کے قوانین بنائے جن کو ہم آفاقی قوانین کہتے ہیں۔ کشش یا کوئی مخفی بیرونی کردار اس لیے موجود ہوگا کہ اس کی تخلیق پہلے کی گئی ہوگی یعنی یہ ایک تخلیقی پراسس کا حصہ رہا ہوگا۔ ہماری یہ تشریح بھی اب تک کی سائنسی پیش رفت پر ہی مبنی ہے کیونکہ کل کی دریافتوں کا پتہ نہیں۔ یہی منطقی اور عقلی استدلال ہے جو سائنسی توجیہ میں مفقود ہے۔ سائنس ایک طرف خدا سے لاتعلْقّی کا اظہار کرتی تو دوسری طرف مجبوری میں اشارتاً قبول بھی کرتی ہے۔

    انسانیت کے رہنما:
    سوال یہی ہے کہ کیا انسانیت کی نظریاتی رہنمائی ان چند لوگوں پر چھوڑی جاسکتی ہے جن کے اخلاص پر تو ہم شبہ نہیں کرتے کیونکہ وہ علم طبعیّات کے اصولوں کے حساب سے ہی تحقیق کر رہے ہیں لیکن غور طلب یہ بات ہے کہ ایک غیریقینی اور غیرمصدّقہ نظریہ کس طرح انسانوں کے لیے مفید اور دائمی نظریہ حیات کی بنیاد بن سکتا ہے؟
    جدید لامذہب فلسفے جن کی بنیاد مادیّت ہے مثلاً لبرل ازم، سیکولرازم اور جمہوریت انسانیت کی رہنمائی کے ارفع مرتبہ پر فائزہونے کے اس لیے اہل نہیں کیونکہ یہ انتہائی کمزور علمی بنیاد پر ایستادہ ہیں، ان کے پاس انسان اور کائنات کے موجود ہونے سے متعلّق کوئی معقول عقلی نظریہ ہے ہی نہیں۔ اسی لیے جدید معاشرتی نظریات انسان کو نہ تو ٹھوس حیاتی فلسفہ دیتے ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کی کوئی مستند بنیاد بتاتے ہیں بلکہ خود انسان ہی کو بر تر قرار دے کر اسے جمہوریت کے ذریعے ہر قانون اور اخلاق کی تشریح کا خوگر بناتے ہیں جو بے شمار خرابیوں کی بنیاد ہے۔ در حقیقت یہ جدید نظریات انسان کو محض علمی اور نظریاتی بحث میں الجھا کر اس کی منزل کو دھندلا دیتے ہیں کیونکہ اگر انسا ن اپنے آپ کو صرف فطرتی اور طبعی ماحول سے جوڑتا ہے تو اخلاقیات کی وہ تمام بنیادیں اپنا جواز کھو دیتی ہیں جو الہاٰمی احکامات کی روشنی میں متعین ہوئی ہیں۔ اس کی بہترین مثال ان لامذہب نظریات اور اصولوں یعنی سیکولرازم اور لبرل ازم پر معاشرہ تعمیر کرنے والے وہ مغربی ممالک ہیں جہاں پر مادی ترقی تو بےمثال ہے لیکن دوسری طرف اب ایسے قوانین بن چکے ہیں جس میں مرد کی مرد سے شادی قانونی قرار دے دی گئی ہے اور جہاں مرد اور عورت بغیر نکاح کے قانونی طور پر رہ سکتے ہیں! بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے جانوروں کے ساتھ شادی کا اختیار بھی مانگا جا رہا ہے. اب آگے مزید کیا ہوسکتا ہے عیاں ہے !
    ان نظریات کی مثال اس خوبصورت اور پرشکوہ پانی کے جہاز کی ہے کہ جس کی منزلیں بہت بلند ہوتی ہیں لیکن ان کی بنیاد پانی پر تیرتی ہے۔ صرف ایک سوراخ اسے ڈبونے کے لیے کافی ہے۔

    ان اصطلاحات کا متواتر استعمال ہمارے ذہن میں لاشعوری طور پر مذہب سے دوری کا ایک تاثر قائم کرتا ہے جو رفتہ رفتہ شعوری ایمان کو کمزور کرسکتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ ایسی اصطلاحات جو میڈیا اور دوسرے ذرائع سے سامنے آتی ہیں ان کے پس منظر کو جانے اور پھر ان کے معنوں کو سمجھتے ہوئے ایک پوزیشن اختیار کرے کیونکہ نادانستگی میں بھی اللہ کی حاکمیت سے انکار ایک مسلمان کے لیے نا قابل ِ قبول ہی ہوگا۔ خود کو لبرل اورسیکولر کہنا بالواسطہ اللہ کی حاکمیّت اعلیٰ سے انکار ہے۔
    ذرا سوچیں، اور اپنے آپ کو صرف مسلمان کہیں! ہاں اگر اپنا کوئی منفرد سیاسی اور نظریاتی تشخص دکھانا ہے تو بھائی اپنی کوئی اصطلاح بنالیں محض فیشن میں لبرل بننا مناسب نہیں۔
    اگر مندرجہ بالا گزارشات غلط ہیں تو میری اصلاح فرما دیں۔

  • کوئی تو ہے جو – قاضی عبدالرحمن

    کوئی تو ہے جو – قاضی عبدالرحمن

    نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا،
    ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا!
    (غالب)

    خلاف معمول آج سنجیدہ تحریر کاآغازلطیفہ سے کرتے ہیں، ہوا یوں کہ دو سائنسدان خدا کی بارگاہ میں پہنچے اور یوں عرض گذار ہوئے.
    سائنسداں: خداوندا! اب ہمیں تمہاری ضرورت نہیں رہی.
    خدا: بھلا تمہیں اب کیوں میری ضرورت نہیں.
    سائنسداں:دیکھیے ہم آپ کے بغیر وجود کائنات کو ثابت کرسکتے ہیں.
    خدا: وہ کیسے؟
    سائنسداں: ٹھیک، ہمیں اسے ثابت کرنے کےلیے سب سے پہلے زمینی مٹی درکارہوگی.
    خدا: رکو، رکو.
    سائنسداں: اب کیاہوا؟
    خدا: مٹی بھی خودکی لائو!

    خالق کی صفت تخلیق کا بنیادی تقاضا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کےابتدائی مرحلے میں بھی کسی شے کا محتاج نہ ہو. اب آتے ہیں اصل مضمون کی طرف، خداکی ذات کا انکار کہیے یا دہریت، یہ مرض کوئی نیا نہیں ہے قرآن نے مختلف جگہ اس “مرض” سے تعرض کیا ہے کئی جگہ دلائل بی دیے ہیں. ان تمام دلائل میں سب سے جامع اور جاندار دلیل جسے ہم ‘دریا بکوزہ ‘قرار دے سکتے ہیں، وہ سورہ طورکی دوآیات ہیں. ان دوآیات میں ‘انکارخدا’ کے تمام امکانات قرآن حکیم نے بیان کر دیے ہیں. ملاحظہ فرمائیے،
    [pullquote]أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُون أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَّا يُوقِنُونَ (سورہ طور:34-35)[/pullquote]

    (ترجمہ: کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں. یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں. یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ یقین ہی نہیں رکھتے)

    دراصل خدا کے انکار کے صرف اور صرف چار امکانات ہیں جودرج ذیل ہیں:
    1) کیا ان کے اوپر کوئی نہیں جس کی بات ماننا ان کے ذمہ لازم ہو.
    وضاحت:
    اس بات کوتسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ ہم گویا صفر سے اعداد کی پیدائش کے قائل ہیں. قانون فطرت ہے، عدم سے عدم ہی پیدا ہو سکتا ہے، وجودنہیں. کسی ماورا ہستی کی موجودگی کے بغیر عدم سے وجود کو مان لینا انتہائی درجہ کی غیرمنطقی بات ہے.

    2) کیا بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟
    وضاحت:
    یہ مان لینا گویا ایک ہی وقت میں عدم اور وجود کا قائل ہونا ہے. آسان الفاظ میں کوئی شخص یوں کہے کہ میری ماں نے اپنے آپ کو جنم دیا! العجب ثم العجب!

    3) خود اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں؟
    وضاحت:
    اس قسم کاخیال پالنے کےلیےکم ازکم تین شرائط ضروری ہیں،
    الف) وہ علی کل شیء قدیر (ہر شے پر قادر) ہو.
    ب) وہ کل شیء علیم (ہر شے کو جانتا) ہو.
    ج) وہ بلاکیف زمان و مکان، اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ وھومعکم ‘این ماکنتم’ ہر جگہ موجود ہو.
    ظاہر ہے کہ یہ تمام اوامر بھی محال ہیں.

    4) یا یہ خیال کہ آسمان اور زمین ان کے بنائے ہوئے ہیں. لہذا اس قلمرو میں جو چاہیں کرتے پھریں، کوئی ان کو روکنے ٹوکنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
    وضاحت:
    جو خود پیدا ہوا ہو وہ اپنے سے بڑی اور قدیم چیز کو پیدا کرے یا اس میں تصرف کرے، ایں خیال است ومحال است وجنوں!

    اب آخری اور لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ انسان اپنے اوپر کسی ماورا ہستی اور حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے خطوط کی زبان میں وراء الوراء ثم وراء الوراء ہستی کا وجود مان لے. جواس عظیم کائنات کی وجہ اول ہے، جو اول سے آخر تک کسی کا محتاج نہ ہو، ازل تا ابد زندہ جاوید رہے، اس بات کو الفریڈجیری (Alfred Jarry) بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: God is the shortest distance from zero to infinity.
    (ترجمہ: خدا صفر سے لامحدود تک کا مختصر ترین فاصلہ ہے)
    یہ تو ہوا سادہ ترجمہ، اب منطقی ترجمہ بھی دیکھ لیں
    (اللہ تعالی ازل سے ابد تک تنا ہوا مختصر زمانہ (کا فاعل حقیقی) ہے)
    طبیعت میں سعادت ہو، فطرت صالح ہو اور روح حق کی متلاشی ہو تو کائنات میں پھیلے توحید و ربوبیت کے شہودی جلوے انسان کو اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں سجدہ ریزکرنے کے لیے کافی ہیں. ایسے انسان کا پور پور ملحدانہ خیال کے خلاف پکار اٹھتاہے،
    ورائے ذہن و زماں کس سے کائنات بنی؟
    تو کیسے کہتا ہےکوئی نہیں، نہیں! کوئی ہے

  • وہی اصل مکان و لا مکاں ہے – فارینہ الماس

    وہی اصل مکان و لا مکاں ہے – فارینہ الماس

    کالج میں ہماری انگریزی ادب کی ایک استاد ہوا کرتی تھیں (ان کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھتی کہ دل آزاری کا باعث نہ ہو)، بہت ہی بے باک، نڈر، اور جرات مند خاتون تھیں جن کی شخصیت میں نسوانیت کم اور مردانگی زیادہ تھی۔ان کا لباس ہمیشہ یکسانیت کا شکار رہتا، بنا دوپٹے کے، گول دامن کی ایک ہی طرح کے کوٹ کالر والی قمیص، تنگ پائنچے کی شلوار، آنکھوں پر سیاہ چشمہ، کرلی بالوں کے گچھے کا زبر دستی بنایا گیا بے ڈھنگا جوڑا۔ ان کے فلسفیانہ تصور کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تو بلا شبہ وہ مغربی اداروں کی فارغ التحصیل ایک انتہائی قابل استاد تھیں۔ ان کا فلسفہ بھی بالکل قابل اعتراض نہ ہوتا اگر اس میں نوے فیصد الحادی نظریات نہ پائے جاتے۔ وہ کھلے بندوں مذہب اور مذہبی عقائد کا تمسخر اڑایا کرتیں۔ انتہا درجے کی بغاوت پسند خاتون تھیں اور بغاوت کو بہادری سمجھتی تھیں۔ بغاوت مذہب سے، سسٹم سے، قانون سے، آئین سے، فرسودہ روایات سے گھروں سے بھاگ جانے والی لڑکیوں کو اپنا آئیڈیل مانتیں۔ ان کی ذاتی زندگی بھی بغاوت کا نمونہ تھی۔ ماں باپ سے باغی، شوہر سے بغاوت کا انجام علیحدگی۔ وہ شدت کی حد تک خود پسند تھیں۔ بقول ان کے انھیں اپنی ذات کے علاوہ کسی سے محبت نہ تھی۔ ان کے نزدیک اپنے آپ کے لیے جینا ہی بڑی خوشی تھی۔ اس حقیقت کا ادراک مجھے ان کے اسی نظریے سے ہی ہوا کہ ایک انتہا کا خود پرست انسان کبھی کسی دوسرے انسان سے محبت نہیں کر سکتاکیونکہ محبت خود پرستی کی ضد ہے۔ یہ ذات کو تحلیل کرتی ہے۔ اور اگر اس میں سچائی اور پاکیزگی کے عناصر شامل ہو جائیں تو حقیقت کے اسرار و رموز اور آگہی کا گیان بھی منکشف ہونے لگتا ہے۔ پھر بھلا کوئی انسان خدا کے وجود کا منکر کس طور ہو سکتا ہے۔

    گزشتہ دنوں جب الحاد کے حوالے سے مضامین پڑھے تو انگریزی ادب کی اس استاد کی بہت یاد آئی۔ تخیل نے ان کا شخصی اور نظریاتی نقشہ کھینچ دیا کیونکہ ایک الحادی نظریات کے حامل انسان کی نفسیات کو کریدنا میرا اصل مقصود تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ہمیں اپنے نظریات سے متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کیا کرتیں لیکن مجھے ان کے قانون شکن یا دل شکن بغاوت کے نظریات کبھی بھی متاثر نہ کرسکے۔ میں اپنی عمر، علم اور تجربے کی بنا پر جتنی بن پاتی ان سے بحث کر لیا کرتی۔ آج جب سوچتی ہوں تو سمجھ یہی آتا ہے کہ دراصل وہ فلسفے کی بندی تھیں۔ دنیا کی قدیم تاریخ کو بھی کھنگال لیں تو علم، عقل اور فلسفے کے بکھیڑے جا بجا نظر آئیں گے۔ سائنس اور فلسفہ، منطق اور دلیل کے قائل ہیں۔ منطق سوال کرتی ہے، لیکن جب اپنی حد پار کر لیتی ہے تو ذہن کو سوالات کے جہنم میں ڈال دیتی ہے۔ سوال در سوال، دلیل در دلیل۔ اور جہاں جواب نہ بن پائے تو خیال بھٹکنے لگتے ہیں۔گمراہی نصیب بن جاتی ہے۔ فلسفہ اگر گمراہی کے اس رستے پہ آجائے تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی تو اپنے جینے کا جواز بھی۔ یہ بھی درست ہے کہ انسان کی سرشت میں تجسس اور بغاوت دونوں ہی عناصر پائے جاتے ہیں، لیکن جب یہ دو عناصر اعتدال سے باہر ہو جائیں تو ترکیب انسانیت بگڑ کر حیوانیت میں بدلنے لگتی ہے۔ اس فورم پر اب تک الحادیت کی جو منظر کشی کی گئی اس نے سوچ کو بلاشبہ نئی حقیقتوں سے متعارف کروایا گو کہ یہ حقیقتیں نئی نہیں لیکن شاید ہم واقعی اپنی بے خبری میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے عالمی سروے خصوصاً گیلپ سروے اس حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ الحاد عیسائیت اور اسلام کے بعد سب سے بڑے عقیدے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ 2012 کے گیلپ سروے کے مطابق دنیا میں اس وقت 10سے20فیصد لوگ مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ اس زمرے میں ڈنمارک اور سویڈن ایسے ممالک ہیں جہاں ایسے لوگ تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ یہاں صرف 17یا 18فیصد لوگ مذہب کو اہمیت دیتے ہیں،امریکہ میں 3.1 فیصد لوگ مذہب سے بیزار ہیں۔چین ایسا ملک ہے جہاں atheism کو ماننے والے لوگوں کا کل 62 فیصد آباد ہے۔ جاپان اس سلسلے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ عرب ممالک میں 2293 لوگ الحاد سے وابستہ ہیں۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک جہاں مذہب کی توہین کی سزا موت ہے، بعض ملحدین سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ذریعے اپنے عقیدے کو پھیلا رہے ہیں۔فیس بک پر یہ اپنا گروپ چلا رہے ہیں جس کے ممبرز کی تعداد 800 ہے۔ حضرت ناخدا نامی آئی ڈی آپریٹ کر رہی ہے۔ ان صاحب کا ایک انٹرویو نیٹ پر موجود ہے جس میں دعوی کرتے ہیں کہ ان کے ممبرز میں زیادہ تر سائنسدان، ڈاکٹرز، کمپیوٹر پروگرامرز، پروفیسرز اور آرٹسٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں آباد ملحدین زیادہ تر اعلی تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر آسودہ حال لوگ ہیں۔ ان کے اس عقیدے کے تانے روشن خیالی اور سیکولر سوچ سے ہی جا ملتے ہیں۔

    الحاد کی تاریخ نئی نہیں لیکن دور جدید کا الحاد کمیونزم، فاشزم اور سوشلزم کے سائے تلے پھلتا پھولتا نظر آتا ہے۔ انقلاب فرانس ہو یا سوویت یونین کا کمیونزم، اس نے مذہب بیزاری کا رواج عام کیا۔ لیکن اس نے دنیا کو اپنا مکروہ چہرہ دیکھا کر یہ باور بھی کرایا کہ الحاد جب عسکریت پسندی میں اور روشن خیالی رجائیت پسندی میں بدل جائے تو نتائج کیا نکلتے ہیں؟ سوویت یونین میں نوجوان مذہبی دوری اختیار کر کے کس طرح مجرمانہ افعال میں مبتلا ہوئے، اس کی ایک طویل داستان ہے۔

    تسلسل حیات اور مکافات عمل کا عقیدہ انسان اور انسانیت میں گہرے تعلق کا پیش خیمہ ہے۔ ہم زندگی بھر بہت سے تجربات، حادثات، اور واقعات سے گزرتے ہیں۔ ٹھوکر لگنے سے مایوسی بھی ہوتی ہے اور کامیابی ہمیں مغرور بھی بناتی ہے۔ کوشش کے باوجود کچھ حاصل نہ کر پائیں تو بددلی، مایوسی اور رسوائی ہمارا حصار کر لیتی ہے۔ اگر مذہب کا سہارا نا ہوتا تو انسان کا دل اور من کس قدر خالی ہوتا۔ اگر دعا سے ہمارے ہاتھ عاری ہوتے تو ہم اپنی رسوائیوں، مایوسیوں اور بد دلی کے بوجھ تلے دب کر کس قدر ٹوٹ جاتے. دعا ہی تو اک امید ہے جو آنے والے وقت میں کامیابیوں کی نوید سناتی ہے، دل کو ڈھارس اور روح کو سکون دیتی ہے۔ اگر پھر بھی کچھ نہ مل پائے تو اک امید رہتی ہے کہ اس جہاں میں نہیں تو اگلے جہاں میں تو خوشی کی نوید ملے گی، جس کا خدا نے ہم سے وعدہ کیا ہے۔ کامیابیوں کی صورت میں ہم اپنے غرور پر قابو پالیتے ہیں کیونکہ ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اگر تصور رب ہی نہ ہو تا تو ہمارا سماج کس قدر تخریبی ہوتا۔ ہم سزا و جزا کے قانون سے عاری ہو کر انسانیت کا بھرم بھی گنوابیٹھتے جو ابھی تلک دنیا پر قائم ہے۔

    الحاد نہ صرف انسان کی جبلتوں بلکہ اس کی عقل (reason) کا بھی مخالف ہے۔ یہ پل بھر میں پورا سوشل سسٹم تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔”جو لوگ خدا پر یقین نہیں رکھتے وہ ہر شے پر یقین رکھتے ہیں “ کہ مصداق یہ تھیوری کس قدر تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے لبرل فلاسفرز بھی یہ کہنے پر مجبور تھے کہ ”خدا پر یقین ہی ہے کہ دنیا کی اخلاقیات ابھی تک زندہ ہے، اگر یہ یقین بحال نہ رہا تو دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی“ ولسن کا ماننا تھا کہ ”atheism اچھے اور برے افعال میں تمیز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی“. دنیا کے لیے اگر مذہب پرستی کی انتہا شدت پسندوں کو جنم دے رہی ہے تو ملحدین بھی سیکولر برادری کے انتہاپسند ہیں۔ جان لاک جو لبرل ازم کا باپ مانا جاتا ہے اس کا ماننا بھی یہی ہے کہ ”اگر دنیا خدا کے وجود کی منکر ہوگئی تو دنیا کا سوشل آرڑر افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ یہ بات طے ہے کہ دنیا مذہب ہی کی وجہ سے سول سوسائٹی میں متحد ہوئی“ ۔edmund burk انسان کو ایک سوشل کی بجائے مذہبی جانور کا نام دیتا ہے۔ فرانسس بیکن atheism پر اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے،”سائنس کا مختصر علم انسان کو atheist بناتا ہے لیکن سائنس کا گہرا اور لامحدود علم یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ خدا موجود ہے“. ایک اور مضمون advancement of learning میں لکھتا ہے ”فلسفے کا سطحی علم انسان کو atheism کی طرف لے جاتا ہے جبکہ فلسفے کا گہرا علم مذہب کی طرف“۔

    یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ابھی تک تواس عقیدہ کو ماننے والے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ بے عقیدہ اور گمراہ لوگ پڑھے لکھے، روشن خیال، سیکولردماغ کے حامل اور معاشی طور پر آسودہ حال طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ جس دن یہ عقیدہ جہالت کا شکار، غربت میں اٹے مایوس اور بددل لوگوں نے اپنانا شروع کر دیا تو دنیا کا نقشہ کیا ہوگا؟ لوگ کیونکر قوانین یا آئین کی پاسداری کریں گے جبکہ وہ آخرت اور سزا جزا کے عقائد سے ہی منحرف ہوں گے۔ اس عقیدے کو ماننے والے دراصل مادیت پرستوں کی وہ بگڑی ہوئی شکل ہے جن سے حیات کا اصل مقصد کھو چکا ہے۔ اپنے احساس گناہ سے بچنے کے لیے وہ سزاوجزا کے نظام سے نظریں چرانا چاہتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی فلسفہ یا منطق مذہب کا انکار کرتے ہوئے محض انسان کے وجود کو ھی ثابت نہیں کر سکتا۔ بقول اقبال ،
    تیری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
    میری نگاہ میں ثابت نہیں وجود تیرا

    مذہب کیا ہے؟ کوئی فلسفہ نہیں، محض ایک سائنس نہیں، مذہب ایک عمل کا نام ہے۔اسلام سے زیادہ باعمل مذہب اور کوئی نہیں. یہ دہشت نہیں رحم سکھاتا ہے، صبر کرنا سکھاتا ہے، اس کا ماننا ہے کہ انسان دولت سے شان وشوکت والا نہیں بنتا بلکہ خدا کے نزدیک عظیم وہ ہے جو اچھے اعمال والا ہے۔ اسلام کی عظمت یہ کہ اسے ماننے والے میدان جنگ میں اپنی پیاس بجھانے سے پہلے اپنے پیاسے بھائی کو پانی کا واحد پیالہ سونپ کر خود جام شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ اسلام ایک سچا مذہب ہے، اس کی جڑوں کو اکھیڑنا ناممکن ہے۔ قرآن کو یہ لوگ کیسے جھٹلا سکتے ہیں کہ جس کی آفاقیت اور افادیت سے اس مذہب کو نہ ماننے والے بھی منحرف نہیں، قرآن نے ان سچائیوں سے پردہ اٹھایا جن سے انسان بالکل نابلد تھا۔ atheist جب قرآن کو صرف کہانیوں کی کتاب کہتے ہیں اور سائنس کو اپنا خدا مانتے ہیں تو وہ اس حقیقت کے منحرف ہو جاتے ہیں کہ قرآن کے نزول سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا کہ زمین کی شکل گول ہے۔ ہر زندہ چیز پانی سے تخلیق ہوئی ہے۔ چاند اپنی روشنی سورج سے مستعار لیتا ہے۔ اس سے بھی بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ سائنس ان نشانیوں کو جھٹلا نہ پائی بلکہ کئی سائنسی نشانیاں ایسی ہیں جنھیں سائنس آج اپنی تحقیق سے ثابت کر رہی ہے اور قرآن اسے 1400سال پہلے ثابت کر چکا ہے۔

    الغرض ہمیں آج کے فساد ی الحادی نظریات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام ایک سچا مذہب ہے، یہی وجہ ہے کہ آج سب سے زیادہ قبول کیا جانے والا مذہب بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ اور فرانس میں پچھلے دس برسوں میں تقریباً ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا۔ جرمنی میں ہر سال چار ہزار اور امریکہ میں بیس ہزار افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔ 9/11 کے واقعات کے بعد مسلمانوں سے اپنائے جانے والے ناروا سلوک نے غیر مسلموں کو اسلام کے مطالعے پر مجبور کیا۔ وہ اسلام کے مطالعے سے اس کے متعلق پھیلائے گئے منفی پروپیگنڈا کا جواب چاہتے تھے اور اسی کوشش نے انہیں سچائی کا ادراک دے دیا۔ اس عالمی واقعے کے فوراً بعد تقریباً 34 ہزار امریکیوں نے اسلام قبول کیا۔ ان نومسلموں کا ماننا ہے کہ ”اسلام کو ہم نے بہت ہی سادہ، پریکٹیکل اور منطقی مذہب پایا“. مغرب کو اسی حقیقت نے اسلامو فوبیا میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج اگر اسلام کو ماننے والے مشکلات میں گھرے ہیں تو اس میں مذہب قصوروار نہیں بلکہ مسلمان قصوروار ہیں۔ ہمیں مغربی تھنکرز کی ہی اس پیشن گوئی کو کہ ”آئندہ آنے والا وقت مسلمانوں کا ہے“ مانتے ہوئے اور اپنے دین سے رہنمائی لیتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہی الحاد پرستوں کا اصل توڑ ہے۔

    وہی اصل مکان و لامکاں ہے
    مکاں کیا شے ہے انداز بیاں ہے
    خضر کیونکر بتائے کیا بتائے
    اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
    علامہ محمد اقبال

  • عصرحاضر اور علماء کی ذمہ داریاں – سید وجاہت

    عصرحاضر اور علماء کی ذمہ داریاں – سید وجاہت

    سید وجاہت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر تمام مخلوقات میں سے چن کر اپنی نیابت اور زمین پر نظام خلافت کے قیام کے لیے منتخب فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ”ولقد کرمنا بنی اٰدم وحملنٰھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبت وفضلناھم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلا” ترجمہ:اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور انہیں خشکی اور تری دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا اور ان کو اپنی بہت سے مخلوقات پر فضیلت دی ۔انسان کو زمین پر خلافت کی ذمہ داری سونپنا، اس کو مختلف مخلوقات پر فضیلت دینا درحقیقت یہ علم کا ثمرہ ہے، علم خدا تعالیٰ کی صفت اعلیٰ ہے، اسی لیے زمین پر خلافت و نیابت کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی جو اس صفت علم میں دیگر مخلوقات سے ممتاز حیثیت پر فائز ہیں۔

    اہل علم کی فضیلت ان کا مقام و مرتبے کے بیان میں قرآن کی متعدد آیات اور بےشمار احادیث وارد ہوئی ہیں، کبھی ان کے سونے کو جہلاء کی عبادت پر فضیلت دی گئی تو کبھی انہیں انبیاء کا وارث بتلایا گیا، کبھی برملا اعلان کردیا گیا کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔ جس قدر اہل علم کا مقام بلند ہے اسی مرتبہ کے لحاظ سے ان پر ذمہ داریوں کا بھی عظیم بوجھ ہے، اگر یوں کہہ دیا جائے کہ امت کی کشتی کے ناخدا یہی حضرات علمائے کرام ہیں تو بےجا نہیں ہوگا۔

    اس وقت امت مسلمہ کو بڑے کٹھن حالات کا سامناہے، ایک طرف کفار ممالک کی مجتمع ہوکر عالم اسلام پر حملہ آور ہونے اور مسلمان ممالک پر وحشیانہ مظالم کی خون آلود داستان ہے تو دوسری طرف فکری ارتداد اور تشکیک جیسے مہلک امراض ہیں جو امت مسلمہ کے وجود میں سرطان کی طرح پھیلائے جارہے ہیں. امت کے نوجوان اس وقت الحاد اور تشکیک جیسے مسائل کا شکار ہیں، اس نازک وقت میں علمائے امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اہم مسائل کی طرف توجہ دیں. بدقسمتی سے اس وقت ایک بہت بڑے طبقے کی صلاحیت فروعی مسائل اور آپسی جھگڑوں میں لگ رہی ہے، فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین جیسے مسائل میں الجھنا اور آپسی افتراق کا یہ وقت بالکل متحمل نہیں۔ فروعی مسائل میں یوں الجھنے سے نوجوان نسل علماء سے دور ہو رہی ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ علماء خاص کر نوجوان علماء غور و فکر کریں اور سوچیں کہ وہ کس طرح اپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر امت کے لیے نفع مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک عالم کی خوبصورتی اس کے لباس، پوشاک اور سواری میں نہیں بلکہ ایک عالم کا حسن وجمال اس کی سادگی، تقوی اور اخلاص میں ہے. یہ وہ ہتھیار ہیں جس کے بغیر وہ کوئی معرکہ سر نہیں کرسکتا ۔

    حالات اور ماحول سے بے خبری ٹھیک نہیں. اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، یہ دین خانقاہوں، مساجد اور مدارس تک محدود ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ شریعت اسلامی میں روز قیامت تک آنے والے تمام مسائل و مشکلات کا حل موجود ہے. یاد رکھیے! اسلامی نظام اس کی تعلیمات کوئی ناقص و محدود نہیں کہ جس پر عمل پیرا ہونے کے لیے معاشرے سے کٹنا پڑے اور رہبانیت کی طرف جانا پڑے ، ہمارے اسلاف نے سلطنتیں بنائیں، قاضی القضاۃ بنے، عہدے حاصل کیے اور ساتھ ساتھ اپنے فرائض و واجبات بلکہ مستحبات کی رعایت بھی رکھی، وہ بیک وقت گورنری کے فرائض بھی انجام دیتے اور خلق خدا کے اخلاق و اعمال کی بھی ایک داعی کی حیثیت سے اصلاح کرتے۔ عصر حاضر میں علماء کا معاشرے سے کٹنا اور مساجد اور خانقاہوں تک محدود ہوجانا امت کے لیے خصوصا نوجوان نسل کے لیے انتہائی مضر ہے. ایک ماہر طبیب وہی ہے جو مرض کی تشخیص کی صلاحیت رکھتا ہو، علماء اس امت کے روحانی طبیب ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نسل نو اس وقت کن روحانی امراض کا شکار ہے، وہ تشکیک، الحاد، بے دینی اور مغربی تہذیب سے متاثر ہیں، جب تک علماء اور عوام میں فاصلے کم نہیں ہوتے اس وقت تک معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔

    فکری یلغار کا علمی محاسبہ
    اس وقت عالم اسلام پر ایک طرف تومغرب کی عسکری یلغار ہے، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے عالیشان شہر قبرستان کا منظر پیش کررہے ہیں. عراق، افغانستان، شام، لبنان، یمن ، فلسطین، کشمیر، برما کتنے اسلامی ممالک ہیں جو کفار کے نرغے میں ہیں، اور جہاں کشت و خون کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف ان اسلامی ممالک میں مغرب کی طرف سے فکری یلغار ہے، جس کے نتیجے میں مسلمان گھرانوں میں خصوصا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ارتداد کو عام کیا جارہا ہے. اگر نوجوان نسل کی دینی تربیت کا انتظام نہیں کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ وہ اسلام چھوڑ کر کفر والحاد کی طرف نکل جائے. یہ بات تو طے ہے کہ اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے، اسلام نہ ختم ہوسکتا ہے اور نہ مغلوب ہوسکتا ہے. اللہ کے رسول نے فرمایا :الاسلام یعلوا ولا یُعلیٰ (اسلام مغلوب نہیں بلکہ غالب ہوگا) نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : لا یزال اللہ یغرس فی ھذا الدین غرسایستعملھم فیہ بطاعتہ الی یوم القیامۃ (اللہ تعالیٰ قیامت تک دین اسلام میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو اس کی اطاعت کرتے رہیں گے۔ (ابن ماجہ) اب علماء جو انبیاء کے وارث اور نائب ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عصرحاضر کے اس عظیم فتنے کے مقابلے کے لیے تیار ہوں، وہ اس فکری یلغار کا علمی محاسبہ کریں، وہ مغرب اور دشمنان اسلام کے اعتراضات کا علمی جائزہ لے کر ان کے دجل کو امت پر آشکارا کریں. یہ اس دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے علمائے وقت کے لیے کہ وہ امت کو اس فکری گمراہی سے بچائیں۔

    اصل مسئلہ ارتداد کا مقابلہ ہے
    مفکراسلام سید ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ علماء سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بھائی! اگر آپ کو ترمذی کی شرح لکھنی ہو اور مشکوۃ کی شرح لکھنی ہو اور کسی فقہی مسئلہ پر بحث کرنا ہو، اس کو آپ اردو میں لکھیے یا عربی میں لکھیے، اگر آپ کو عوام میں باتیں کرنی ہوں تو عوام کی سطح پر بات کیجیے، میں آپ کو صاف کہتا ہوں کہ ہندوستان، پاکستان میں بہت کام ہوچکا ہے، کتب حدیث کی شرحیں لکھی جاچکی ہیں، مذہب حنفی کو حدیث کے مطابق ثابت کیا جاچکا ہے، اس کے لیے نئی بڑی کوشش کی ضرورت نہیں ہے. حضرت مولانا انور شاہ صاحب اور حضرت مولانا ظہیر احسن نیموی یہ سب کام کرچکے ہیں، انہوں نے ثابت کردیا کہ یہ دعوی ٰ کہ حنفی حدیث کے خلاف کہتے ہیں، غلط ہے، اور ان سے پہلے طحاوی نے معانی الاثار میں، زیلعی نے احادیث ہدایہ کی تخریج نصب الرایۃ میں اور دوسرے حضرات نے بھی یہ کام بڑے اعلیٰ پیمانے پر کیا ہے. اب نیا میدان ہے جس کی طرف آپ کو توجہ کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ عوام آپ کے اثر سے نکلنے نہ پائیں، وہ آپ کو یہ نہ سمجھیں کہ آپ اس ملک میں رہ کر کے بھی غیر ملکی اور پردیسی ہیں، آپ کو تو اس ملک کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنا چاہیے ۔ یقینا سوچنے اور سمجھنےکی بات ہے کہ امت کے نوجوان الحاد اور تشکیک جیسے مہلک روحانی امراض کا شکار ہوں اور علماء فروعی مسائل پر بحث و تکرار میں مصروف ہوں.