Tag: الحاد

  • خدا، ملٹی ورس، سائنس اور الحاد – ارمغان احمد

    خدا، ملٹی ورس، سائنس اور الحاد – ارمغان احمد

    میری زندگی کی اہم ترین تحاریر میں سے ایک تحریر اور شاید آپ کی زندگی میں بھی ہو۔ اس تحریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کم از کم میٹرک تک سائنس پڑھی ہو ورنہ شاید یہ مضمون آپ سمجھ نہ پائیں۔ دوسری عرض یہ ہے کہ اس تحریر میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، یہ سب چیزیں دنیا میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر انگریزی میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔
    اور آخری عرض شو آف کی غرض سے نہیں کی جا رہی بلکہ ماڈرن شکوک سے بھرپور ذہن کی تسلی کے لیے کی جا رہی ہے کہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، مسلمان بھی ہوں مگر آپ ہی جیسا عام سا اور گناہگار سا مسلمان، جو بہت سی کوتاہیاں کرتا ہے، نماز میں بھی سستی کرتا ہے، موقع ملے تو جمعہ پڑھ لیتا ہے۔ زندگی میں کبھی کسی مدرسے میں گیا نہ کسی مذہبی جماعت سے وابستہ رہا، نہ کبھی کسی سلسلے میں بیعت ہوا، ایک زمانے میں خدا کے حوالے سے شکوک کا بھی شکار رہا لیکن کبھی ملحد یا اگناسٹک ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ پاکستان کی ایک ایسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی جو کیو ایس رینکنگ کے مطابق پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹی ہے، اس وقت یورپ کی ایک ٹاپ یونیورسٹی میں انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں، گوروں کے ہی سکالرشپ پر۔ پورے ایک ماہ بعد میرا فائنل ڈیفنس ہے، داڑھی بھی نہیں رکھی زندگی میں کبھی، زیادہ تر اپنے کیمپس میں شارٹ اور ٹی شرٹ میں دیکھا جا سکتا ہوں۔ کسی بھی قسم کی انتہا پسند، متشدد یا دہشتگرد تنظیم سے کبھی تعلق رہا ہے نہ ہمدردی بلکہ بساط بھر ہمیشہ ان کی مذمت اور انکار ہی کیا ہے۔ فرقہ واریت سے بھی کوسوں دور ہوں۔ غرض یہ کہ سو فیصد مادی قسم کا عام سا مسلمان ہوں۔

    معذرت اس طولانی تمہید کے لیے مگر یہ ضروری تھی تاکہ میرا قاری آگاہ ہو سکے کہ یہ بات کرنے والا شخص کون ہے۔ اب آ جائیں بات پر۔ آپ نے سنا ہوگا ایٹم کے بارے میں؟ اس میں الیکٹران ہوتے ہیں، پروٹان ہوتے ہیں۔ الیکٹران کا ایک خاص میس (کمیت) ہوتی ہے، اس پر ایک خاص چارج ہوتا ہے، دنیا کا ہر میٹر (مادہ) انہی الیکٹرانز اور پروٹانز سے مل کے بنا ہے۔ اسی طرح کائنات میں گریویٹیشنل کانسٹنٹ ہوتا ہے جسے کیپیٹل جی سے فزکس کی ایکویشنز میں ظاہر کیا جاتا ہے، ایک اور پلانک کا کانسٹنٹ ہوتا ہے۔ بہت سے سائنسدانوں کی ذہن میں یہ سوال آیا کہ ٹھیک ہے الیکٹران پر اتنا چارج ہوتا لیکن اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا میس اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اور اگر یہ چارج کچھ اور ہوتا تو کیا ہوتا؟ ٹھیک ہے روشنی کی رفتار اتنی ہوتی ہے خلا میں مگر اتنی ہی کیوں ہوتی ہے؟ کچھ اور ہوتی تو کیا ہوتا؟

    اس بارے میں تھوڑی تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ کائنات کی تخلیق یعنی بگ بینگ کے وقت کچھ ایسا ہوا کہ ان تمام کانسٹنٹس کی ویلیوز کا فیصلہ ہوگیا۔ اگر ان میں سے کسی کی بھی ویلیو (قدر) میں معمولی سی بھی تبدیلی کی جائے تو یہ کائنات اس شکل میں موجود نہ ہوتی، زمین ہوتی نہ ستارے، اور نہ ہم ہوتے۔ شاید زندگی موجود ہوتی مگر کسی اور شکل میں، شاید ہم سمجھ ہی نہ پاتے کہ وہ زندگی بھی ہے کہ نہیں۔ شاید ایک ایک ستارے کے بجائے دو دو ستاروں کے جوڑے بن جاتے، غرض یہ کہ چونکہ ان کانسٹنٹس کی بےشمار ویلیوز ممکن ہیں، اس لیے بےشمار شکلیں ہماری کائنات ہماری یونیورس کی بھی ممکن ہوتیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کانسٹینٹس کی ویلیوز بہت ہی فائن ٹیونڈ اور احتیاط سے چنی گئی ہیں۔

    اب کائنات کو کچھ دیر کے لیے ادھر ہی چھوڑ دیں۔ سائنس کے مطابق بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک اتفاقیہ امر تھا، اتفاقاً زمین بن گئی، اتفاقاً اس میں زندگی کے لیے سازگار ماحول بن گیا، اتفاقاً ہی زندگی پیدا ہوئی، اتفاقاً ہی ارتقاء کا عمل شروع ہوا، پھر اتفاقاً انسان بن گئے، غرض یہ کہ پوری دنیا اور ہماری پیدائش تک سب کچھ ایک اتفاق کا نتیجہ ہے۔

    اب بہت دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ سائنس ایک طرف کہتی ہے کہ بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا محض ایک اتفاق تھا اور دوسری طرف یہ کہتی ہے کہ بگ بینگ کے شروع کے سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں کچھ ایسا ہوا کہ ہر کانسٹنٹ کی ایک خاص ویلیو بن گئی، اور وہ اتنی ہی تھی جو اس کائنات کی تشکیل اور زندگی کے آغاز کے لیے ضروری تھی۔ کیا آپ تضاد تک پہنچ رہے ہیں؟ کوئی بات نہیں، اگر نہیں بھی پہنچ رہے۔ میں اسے لکھنے لگا ہوں
    ”تمام اتفاقات کی ماں یعنی بگ بینگ خود ایک اتفاقی امر نہیں تھا.“
    کیسا رہا؟
    اس کا دوسرا مطلب یہ بنتا ہے کہ کائنات کی تشکیل کے وقت کوئی ذہانت بھرا ذہن حرکت میں آیا، جس نے کچھ ایسا کیا کہ ہر کانسٹنٹ کی ویلیو فائن ٹیون ہو گئی، ورنہ کوئی چیز اگر محض ایک بار ہو اور پہلی بار میں ہی آئیڈیل ویلیو پر ”اتفاقاً“ پہنچ جائے، یہ سائنسی طور پر ناممکن ہے۔ لیکن اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے یا ایک خالق کو مان لیا جائے۔ یہ چیز روایتی طور پر سائنسدانوں کے لیے تسلیم کرنا نہایت مشکل رہا ہے۔

    اس لیے خدا کے وجود کا انکار کرنے کے لیے ایک نئی تھیوری پیش کی جاتی ہے، اسے کہتے ہیں، ”تھیوری آف ملٹی ورس“۔ ایک سے زیادہ کائناتوں کا نظریہ۔ اس نظریے کے مطابق صرف ایک کائنات نہیں ہے بلکہ اربوں کائنات ہیں، اور ہر وقت بن رہی ہیں۔ ہر وقت بگ بینگ ہو رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں نئے نئے جہان وجود میں آ رہے ہیں، ہر جہاں میں ان کانسٹنٹس کی اپنی ویلیوز ہیں، اس لیے ہر یونیورس مختلف ہے اور اتفاقاً وجود میں آ رہا ہے۔ یوں سائنسدان یہ کہنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ ہماری کائنات بھی حادثاتی طور پر اتفاقاً وجود میں آ گئی۔

    اب اس تھیوری کے مسائل کیا ہیں؟
    1۔ یہ ایک تھیوری ہے محض۔
    2۔ ہم اپنی کائنات کے آخری سرے پر ہی نہیں جا سکتے تو کسی اور میں کیسے جائیں گے؟
    3۔ جو سائنسی آلات ہماری کائنات میں چلتے اور درست ریڈنگ دیتے ہیں، اگر ہم کسی اور کائنات میں چلے بھی جائیں تو وہاں کے اپنے کانسٹنٹ ہوں گے، یہ وہاں نہیں چلیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ ہماری دنیا کے مادے کا وہاں محض داخل ہونا ہی اس دنیا کی تباہی کا سبب بن جائے۔
    4۔ اس تھیوری کو درست یا غلط ثابت کرنا کم از کم اب تک سائنسی طور پر ناممکن ہے۔
    5۔ اس تھیوری کو بھی مذہب کی طرح ایک ”یقین“، ایک بیلیف کا نام تو ضرور دیا جا سکتا ہے مگر ایک سائنسی حقیقت نہیں کہا جا سکتا“

    سائنس کی ہی زبان میں، سائنسی طریق کار کے ہی مطابق، ان کانسٹنٹس کی اوریجن کے بارے میں معلومات کے مطابق اس وقت سائنسی صورتحال یہ ہے کہ یہ کائنات کسی ہستی کی تخلیق ہے، جس نے ان کانسٹنٹس کی وہ ویلیو رکھی جو زندگی کے لیے ضروری تھی، اور یہ صورتحال تب تک جوں کی توں رہے گی جب تک کہ تھیوری آف ملٹی ورس سائنسی طور پر درست ثابت نہیں ہو جاتی۔

    اب مضمون کے آخر میں مذہبی معلومات کا سہارا لیتے ہوئے ایک ازمپشن میں بھی پیش کرنے لگا ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ تھیوری آف ملٹی ورس درست بھی ثابت ہوگئی تو اس سے مذہب یا خدا کا انکار ممکن نہیں ہو پائے گا؟
    کیوں؟
    ویسے تو ہر مذہب میں ہی اس طرف اشارے موجود ہیں مگر قرآن میں نہایت واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ
    [pullquote]وما أرسلناك إلا رحمۃ للعالمين[/pullquote]

    اور (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
    [pullquote]الحمدللہ رب العالمین[/pullquote]

    تعریف اس اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
    یاد رہے دو یا تین جہانوں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ”تمام جہانوں“ کی بات ہو رہی ہے۔ نجانے کتنے ہیں؟

    اس تمام گفتگو اور علم کے بعد کم از کم میں اس رائے کا حامل ہو چکا ہوں کہ سائنسی طور پر بھی کہ خدا ہے تو سہی۔ اس کا انکار کرنا اس وقت تک سائنسی طور پر ممکن نہیں۔ باقی کس مذہب کی خدا کی تشریح سچی ہے، اس پر پھر بحث و مکالمہ ہو سکتا ہوگا مگر سائنسی طور پر اس وقت خدا کا انکار نہیں کیا جا سکتا کم از کم۔ لیکن سائنس تو نہیں البتہ خدا کا انکار کرنے والے بہت دلچسپ مخمصے میں پھنس چکے ہیں۔
    1۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست تسلیم نہیں کرتے تو منطقی طور پر خدا کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
    2۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست مانتے ہیں یا ثابت بھی کر دیتے ہیں تو اس کا ذکر تو پہلے ہی تمام الہامی کتابوں میں موجود ہے۔

    اور آخرکار مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں،
    اگر خدا نہیں ہے تو اسے ماننے یا نہ ماننے والے، دونوں کو مرنے کے بعد کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور اگر ہے تو ”نہ ماننے والیاں دے نال ہونی بڑی پیڑی اے اگلے جہان وچ“۔ شکریہ

    نوٹ: اگر کسی دوست نے اعتراض یا کوئی سوال کرنا ہو تو پہلے یو ٹیوب پر ”Theory of multiverse and God“ سرچ کر لیں۔ کسی جرنل یا پیپر کا لنک اس لیے نہیں دے رہا کیونکہ اس سے سمجھنا عام لوگوں کے لیے خاصا مشکل ہوگا۔

  • روشن خیالی کے شاخسانے-ڈاکٹر صفدر محمود

    روشن خیالی کے شاخسانے-ڈاکٹر صفدر محمود

    Safdar Mahmood

    موضوع قدرے سنجیدہ اور علمی نوعیت کا ہے امید ہے آپ اسے برداشت کرلیں گے کیونکہ مقصد قارئین کی ذہنی تربیت بھی ہے۔ ہمارے ملک میں آج کل روشن خیالی کا بڑا چرچا ہے جو میرے نزدیک مذہبی شدت پسندی بلکہ مذہب کے نام پر دہشت گردی کے خلاف ردعمل ہے۔ ردعمل کے اپنے تقاضے اور اپنی قوت ہوتی ہے جو کبھی کبھی اسے بے لگام بھی کر دیتی ہے۔ اس صورتحال نے ہمارے ہاں روشن خیالی کی تحریک کو ابھارا ہے جو اپنے طور پر خوش آئند پیش رفت ہے بشرطیکہ یہ روشن خیالی مادر پدر آزادی کی علمبردار نہ ہو اور مذہبی و اخلاقی روایات سے فرار کا ملفوف ایجنڈا نہ ہو یہ کشمکش تاریخ کا حصہ ہے اور دنیا کے ہر معاشرے کو کسی نہ کسی منزل پر اس کشمکش سے گزرنا پڑا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اجتہاد کو اسلام کی روح اور بقا کا راز قرار دیا تاکہ اسلام زندگی کے بدلتے تقاضوں کا ساتھ دے سکے اور اجتہاد کے لئے بنیادی اصول بھی واضح کر دیا۔ وہ اصول ہے کہ اجتہاد قرآن و سنت کی حدود کے اندر جائز ہے اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے انحراف کرنے والا اجتہاد قابل قبول نہیں۔

    ہمارے ہاں روشن خیالوں کے نمایاں دو گروہ ہیں اول وہ جو اپنی روشن خیالی کو اسلامی و دینی حدود کا پابند سمجھتے ہیں اور دوم وہ جو روشن خیالی کو ان حدود سے ماورا سمجھتے ہیں۔ مثلاً میں نے ایک ڈاکٹر صاحب کو دوبار ٹی وی پروگراموں میں یہ کہتے سنا کہ ہمیںمذہبی احکامات سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہئے اس طرح کی روشن خیالی الحاد کی حدوں کو چھوتی ہے چنانچہ اس سے وہی لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں جو اسلامی اصولوں سے بالاتر آزادی کے طلب گار ہیں۔ یہ لوگ اسے روشنی کہتے ہیں جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اسے تاریکی اور الحاد کہتا ہے کیونکہ جہاں مذہب کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے الحاد کی راہیں کھلتی ہیں ان حضرات کے نزدیک ہر قسم کی قانون سازی اور آزادی روشن خیالی کی راہیں کھولتی ہے جن میںجنسی آزادی، ہم جنس پرستی، پینے پلانے وغیرہ کی آزادیاں بھی شامل ہیں۔ کچھ اس کا کھلے الفاظ میں کچھ دبے انداز میں اور کچھ ملفوف انداز میں اس کا اظہار کرتے ہیں اور مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ چند ایسے مسلمان ممالک کی مثالیں بھی دیتے ہیں جہاں ان کے بقول مساجد کے ساتھ ساتھ مے خانے، قحبہ خانے اور ناچ خانے بھی موجود ہیں جبکہ دین دار روشن خیالوں کا بہانہ یہ ہے کہ ایسی مثالیں ہمارا رول ماڈل نہیں، ہمارا رول ماڈل اسلامی معاشرہ ہے جس کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جاتی ہیں

    دینی حدود سے ماوراء روشن خیالی کے مکتبے سے ایک ماڈ ریٹ روشن خیال طبقے نے جنم لیا ہے جو باقاعدہ یہ تحریک چلا رہا ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ اور عقیدہ ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یعنی مذہب اور سیاست زندگی کے الگ الگ خانے یا شعبے ہیں اس بیانیہ کی تہہ میں وہی خواہش پوشیدہ ہے کہ ملکی نظام کو انہی اصولوں سے آزاد کروا کر ہر قسم کی آزادی حاصل کی جائے مذہب اور سیاست کو ا لگ الگ سمجھنے والے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے ورنہ تو ایسا بیانئے ہی جاری نہ کریں ان کو اگر سمجھا یاجائے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کے دور میں تو سیاست اسلامی اصولوں کے تابع تھی اور اسلامی ریاستی زندگی کا حصہ تھی تو وہ اجتہاد کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ ہر اسلامی ملک میں سیاست مذہبی اصولوں کے تابع ہوتی ہے ان اصولوں سے ماورا نہیں۔ یہ روشن خیال گروہ اپنی فکر یا بیانئے کا جواز دو حوالوں سے دیتا ہے۔

    اول اقلیتوں کے حقوق دوم دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر قتل و غارت۔ مشکل یہ ہے کہ مغرب کے فریب میں مبتلا ان حضرات نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ اسلامی نظام حکومت میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مذہب کسی بھی شہری کی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ رہی مذہب کے نام پر دہشت گردی، انتہا پسندی یا فرقہ واریت تو اسلام ان کی نفی کرتا ہے اور قرآن مجید تفرقہ پھیلانے والوں کو سختی سے منع کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی منافرت بنیادی طور پر عالمی سیاست کا شاخسانہ ہیں اور ہم اپنے حکمرانوں کی کم بصیرتی اور عالمی قوتوں کی غلامی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہمارے ملک اور اس خطے میں دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت روس کی افغانستان میں آمد کے بعد شروع ہوئی جب گرم پانیوں تک روسی یلغار کے خطرے کو روکنے کے لئے شروع کیا گیا جس میں بعض برادر ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی شامل ہو گیا۔ چنانچہ ضیاء الحق کے دور میں جہادی کلچر کوکھلی چھٹی دے دی گئی اور دنیا بھر کے ممالک سے جہادی گروہوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ شیعہ سنی فسادات اوردہشت گردی کے پس پردہ عالمی قوتیں تھیں جنہوں نے اپنے مقاصد کے لئے دولت اور اسلحہ دے کر ہمارے بعض مذہبی گروہوں کو استعمال کیا۔

    چاہئے یہ تھا کہ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد غیر ملکی جہادیوں کو واپس بھجوا دیا جاتا اور ملک میں فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جاتا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ امریکہ نے افغانستان پر حملوں کی بارش کردی۔ ان گروپوں اور نیٹ ورکوں کا امریکہ پر تو بس نہیں چلتا تھا، انہوں نے انتقام لینے کے لئے پاکستان کو نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا جال پھیلا دیا، ہندوستان نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اس کی سزا ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کا تعلق مذہب سے جوڑ کر مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دینا اور قومی و سیاسی زندگی سے الگ کر دینا جائز نہیں۔ کچھ معصوم دانشور قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سے یہ مطلب نکالتے ہیں حالانکہ اس تقریر کی روح فقط یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کوبرابر کے حقوق ملیں گے، مذہب کسی بھی شہری کی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔

    آخر یہ دانشور قائداعظم کی سینکڑوں تقاریر سے اس تقریر کو الگ کر کے کیوں پڑھتے ہیں؟ خود قائداعظم نے فروری 1948ء میں امریکی قوم کے لئے براڈ کاسٹ میں پاکستان کو پرائمر اسلامی ریاست قرار دے کر بحث کے دروازے بند کردیئے تھے۔ پاکستان و ہند کے مسلمانوں میں علامہ اقبال سے بڑا مفکر پیدا نہیںہوا۔انہیں مفسر قرآن کا مقام حاصل ہے۔ ذرا دیکھئے وہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کے حوالے سے اپنے مشہور عالم خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں کیا کہتے ہیں ’’مذہب اسلام کی رو سے خدا اور کائنات، کلیسا اور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کل کے اجزاء ہیں…. کیا واقعی ہی مذہب ایک نجی معاملہ ہے؟ آپ چاہتے ہیں ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا وہی حشر ہو جو مغرب میں مسحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی تخیل کے توبر قرار رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کی بجائے ان قومی نظامات کو اختیار کرلیں جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا…. اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے الگ نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کوئی مسلمان ایک لمحے کے لئے بھی ایسے نظام سیاست پر غور کرنے کے لئے آمادہ ہوگا جو اسلام کے اصولوں کی نفی کرے‘‘۔ (اقبال کا خطبہ الٰہ آباد)
    جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

  • چارلی ہیبڈو کے بعد ملعونہ مریم نمازی – عبدالسلام فیصل

    چارلی ہیبڈو کے بعد ملعونہ مریم نمازی – عبدالسلام فیصل

    میں کلاس روم کے اندر اپنے لیکچر کا انتظار کر رہا تھا۔ کلاس طالب علموں سے بھری پڑی تھی کہ ایک خاتون کلاس روم کے اندر داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ ’’کلاس ریپریزنٹر‘‘ بھی تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ آج کلاس میں کچھ خا ص ہونے جارہا ہے۔ مجھے تجسس ہوا کہ یہ خاتون جس کی مشابہت ایک انگریز کی سی ہے، کچھ ’’خاص‘‘ لائی ہوگی۔
    ’’ کلاس ریپریزنٹر‘‘ نے خاتون کو مدعو کرتے ہوئے اس کا نام لیا ’’ مریم نمازی‘‘ تو میرا تجسس اور زیادہ ہوا کہ یہ کوئی مسلم خاتون ہے۔ روز مرہ کی طرح کلاس میں موجود گورے کم از کم آج تھوڑی سی تو اسلام کی بات سنیں گے۔ لیکن ایک خوف بھی دل میں موجود تھا، وہ یہ کہ اس خاتون کا حلیہ بالکل بھی مسلمانوں جیسا نہیں تھا، لباس نہ چلنے اور دیکھنے کا انداز۔ حیا نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔

    اس نے آتے ہی گفتگو میں جو الفاظ استعمال کیے، اس نے میرے خوف کو یقین میں بدل دیا۔ کلاس میں موجود ’’ملٹی میڈیا‘‘ بورڈ پر ’’خواتین کے انڈرگارمنٹس‘‘ کی تصاویر شائع ہونے لگیں، اور یہ خاتون ’’توہین رسالت کے قوانین ‘‘ پر بحث کرنے لگی۔ اس کے بعد اس نے ’’حجاب و پردہ‘‘ پر اپنی گندی و ناپاک زبان استعمال کی، اور پھر ترقی پذیر ممالک میں ہونے والے غیرت کے نام پر قتلوں پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگی۔ میری غیرت نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یہ لبرل سیکولر خاتون اسلام کے خلاف اس سے زیادہ زبان درازی کرے ۔ اسی لیے دوران لیکچر ہی میں نے اس کے خلاف بولنے کی بھرپور کوشش کی، چونکہ میں’’برطانوی قوانین‘‘ اور ’’یونیورسٹی کے قوانین‘‘ کی اتباع کا پابند تھا، اس لیے مجبوراً خاموش ہونا پڑا۔ لیکن اسی دوران ایک اور دوست نے ٹھیک ٹھاک انداز میں اس کی مذمت کی اور اسلام کے دفاع کے لیے آواز اٹھائی۔ اگر وہ باتیں جو میں نے وہاں سنیں، یہاں پر بیان کروں تو طوالت کے باعث شاید اس تحریر کے مقصد کو بیان نہ کر پاؤں۔

    یہ خاتون اپنے آپ کو’’ایرانی النسل‘‘ بتاتی ہے۔ جب یونیورسٹی سے باہر نکلا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ پروگرام ’’گولڈ سمتھ یونیورسٹی ایتھیسٹ سوسائٹی‘‘ نے منعقد کروایا ہے۔ تو بات کھل کر واضح ہوگئی کہ یہ ملعونہ صرف کوئی سیکولر یا لبرل خاتون ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی ملحدہ ہے۔ ان کے نمائندے اس کو ’’اینکر پرسن‘‘، ’’سوشل ایکٹویسٹ‘‘ کہہ کر بلاتے یا پھر اس کو ایک ’’سیاستدان‘‘ بتاتے۔

    جب میں یونیورسٹی سے گھر واپس لوٹا تو سوچا اس پر تحقیق کروں۔ تو معلوم ہوا کہ یہ خاتون ’’انگلینڈ‘‘ میں ایک تنظیم ’’ایکس مسلم‘‘ کے نام سے چلا رہی ہے۔ اس کا انٹرنیٹ پر بھی بلاگ موجود ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی اس نے اپنے ملحدانہ افکار پھیلا رکھے ہیں اور اس کا ایک بہت بڑا فین کلب بھی موجود ہے۔ جب میں اس کی تحقیق کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ انگلینڈ میں بسنے والا فاران نامی ایک پاکستانی، ملحد ہو کر اس کی پناہ میں ہے، اور پھر ایک دوست نے مریم نمازی کے ساتھ اس کا ویڈیو کلپ بھی دکھایا جس میں وہ ناچ رہا تھا اور اپنے ماتھے پر ’’ کافر‘‘ لکھا ہوا تھا۔

    میں نے فیس بک پر مریم نمازی کے خلاف پوسٹنگ شروع کی تو ’’فیس بک اتھارٹی‘‘ نے میرا اکاؤنٹ بند کروا دیا۔ اسی دوران ’’حارث ولی‘‘ نامی شخص مجھ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس اللہ کے ولی کا تعلق اسلام آباد سے ہے، سٹڈی ویزہ پر انگلینڈ میں مقیم تھا۔ اس نے بتایا کہ بھائی اس خاتون نے فرانس، ڈنمارک، ناروے اور جرمنی میں بھی بہت سی ڈی بیٹ کی ہیں لیکن ان میں یہ اسلام کی نمائندگی کے لیے ’’قادیانی مربیوں‘‘ کو مدعو کرتی تھی۔ جو لڑکا مرتد ہو کر اس کے پاس گیا تھا، اس نے ایک دن مجھے ساتھ لیا اور اس کے گھر لے گیا۔ جہاں میں نے دیکھا کہ پورے گھر میں ’’مریم نمازی‘‘ ملعونہ کی ’’برہنہ‘‘ تصاویر لگائی ہوئی ہیں۔ یہ چیز برداشت کیسے کرتا کہ اوپر سے ایک اور جھٹکا لگا۔
    اس ملعونہ نے اپنے گھر کے کمروں میں ’’فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو‘‘ میں چھپنے والی ’’توہین آمیز تصاویر‘‘ لگا رکھی ہیں۔ اس کے گھر میں روز رات کو ’’مرتدین‘‘ جمع ہو کر کچھ عمل کرتے ہیں جن کی یادگاری تصاویر بھی اس کے گھر میں لگا دی گئی تھیں۔ مریم نمازی Nudity is freedom جیسے سلوگن کے تحت پیرس اور دیگر شہروں میں کؤآٹٰں برہنہ مظاہرے منعقد کروا چکی ہے، اور ملحدین کی کانفرنسز میں اس پر پریزنٹیشن دیتی ہے۔

    ۱: یہ لوگ سعودی عرب کے جھنڈے پر اپنی غلاظت کرتے تھے۔
    2: جس جگہ بھی یہ اللہ کا قرآن یا رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات دیکھتے، اس کو پرنٹ کروا کر پھاڑ کر اپنے گلے میں ڈال لیتے۔
    3: یہ لوگ روزانہ اپنے جسموں پر لکھتے کہ ہاں ہم کافر ہیں۔ ہمیں سیکس کرنے دو۔ شریعہ کا بائیکاٹ کرو۔ جب یہ باتیں سنیں تو سمجھ آئی کہ یہ خاتون اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بد ترین گستاخ ہے۔
    4: عملی زنا کا مظاہر ہ کیا جاتا ہے۔

    مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ ملعونہ کا کوئی کاروبار نہیں، یہ اپنی تمام تر سرگرمیاں دہریوں کی بڑی بڑی تنظیموں سے فنڈنگ لے کر چلا رہی ہے، اور غریب، مجبور اور جاہل عوام یا مسلمانوں کو جن کو دین کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں، پیسہ اور سیکس کا لالچ دے کر اپنے چکروں میں پھنسا رہی ہے۔ میں یہ تحریر عبدالسلام فیصل کے لیے ارسال کر رہا ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ اس فتنہ سے متعلق ضرور بات کی جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ اس طرح کے فتنوں سے بچاؤ کے لیے مسلمان پاکستان اور دنیا بھر میں بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ اللہ ہم سب کو رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

    میں اس تحریر کو پڑھنے کے بعد خود اس ملعونہ خاتون پر تحقیق کر چکا ہوں۔ پہلے تو یہ بات دیکھنے کو مل رہی تھی کہ ملحدین فیس بک اور انٹرنیٹ کے مختلف فورمز پر شعائراللہ کی توہین اور شدید قسم کی گستاخیاں کرتے تھے، لیکن یہ فتنہ اب انٹرنیٹ سے نکل کر معاشرتی سطح پر پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ لوگ قرآنی آیات پر مبنی پوسٹر بنا کر اپنے شہروں میں لگاتے ہیں۔ احادیث کا مذاق اڑاتے ہیں۔ قرآن مجید کو معاذ اللہ جلایا جاتا ہے۔ توہین آمیز خاکے بناتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے مسلمان ممالک میں اقلیت یعنی عیسائیوں کو بچانے کے لیے یہ کام ملحدین اور دہریوں سے لینا شروع کر دیا ہے۔

    مریم نمازی ملعونہ خاتون پر تحقیق کرنے سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ یہ لوگ پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی ایسی سرگرمیوں کے مرتکب ہونا چاہ رہے ہیں تاکہ مسلمان طیش میں آ کر کوئی ایسی حرکت کریں جسے وہ ایشو بنا کر پوری دنیا میں توہین رسالت کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین پر آواز بلند کر سکیں۔ اس بھائی نے ثبوت بھی فراہم کیے ہیں، اگر کسی کو درکار ہوں تو دیے جا سکتے ہیں۔

  • خدا کی ہستی اور انسان – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    خدا کی ہستی اور انسان – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ساڑھے چھ ہزار سال کے اس سفر میں جو انسان نے اس کرہ ارض پر طے کیا ہے کوئی ایک لمحہ، دن، ماہ یا سال ایسا نہیں گزرا جس میں خدا کا تصور، اس کی حقیقت جاننے، اسے قبول کرنے یا پھر جھٹلا دینے کا سوال انسان کو در پیش نہ رہا ہو۔ خدا کی موجودگی، اس کی ذات، صفات اور ہستی کے حوالے سے ان گنت زاویوں سے اس مسئلہ کو کھنگالا گیا اور اس پر بحثیں آج تاریخ کا حصہ ہیں۔

    بنیادی سوال بہرحال یہ رہا کہ آیا خدا کوئی حقیقت ہے یا پھر محض ایک واہمہ، انسانی نفسیات کی ایک ایسی گرہ جو اپنے مصائب اور آلام کو کسی ماورائے عقل بر تر ہستی کے سپرد کر کے اپنے خلجان سے نجات چاہتی ہے۔ اس گروہ کے پیروکاروں کا خیال رہا ہے کہ چونکہ انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں اور علم کے با وصف اپنی مشکلات پر کما حقہ قابو نہیں پا سکا اس لیے بندگلی سے نکلنے کے لئے اسے ایک ایسے عقبی دروازے کی ضرورت تھی جو اسے مایوسی سے نکال کر از سر نو جدوجہد کے لیے تیار کر سکے۔ چنانچہ اس نے خدا کا ایک تصور ایجاد کر لیا۔ اس بات کو تقویت پہنچانے کے لئے یہ بھی کہا گیا کہ جیسے جیسے سائنس اور فنون کی ترقی ہوتی چلی گئی خدا کا تصور اپنی اہمیت کھوتا چلا گیا۔ کیونکہ اب زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے دعا سے زیادہ دوا کا اثر غالب آ چکا ہے۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ خدا کی ’’عدم ضرورت ‘‘ کے اس دور میں مایوس لوگوں کی شرح انسانی تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ ہے۔

    خدا سے متعلق اتنی جستجو اور ردو کد کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے یعنی خدا کی ہستی کا نظروں کی گرفت سے ماورا ہونا۔ آج تک خدا کو کسی انسان نے نہیں دیکھا۔ خدا کے ماننے والوں اور اس کے پیغمبروں تک کو یہ موقع میسر نہیں ہوا۔ خدا سے رابطے کی قریب ترین سہولت خدا سے براہ راست گفتگو کا تجربہ ہے جو حضرت موسیٰ کو حاصل ہوا اور خدا کی طرف سے اس بات کی تائید ان صحیفوں میں وارد ہوئی جنہیں الٰہامی کہا گیا یعنی تورات ، انجیل اور قرآن۔ خدا کا دیدار حضرت موسیٰ کو بھی نہیں ہوا اور وہ تجلی اولیٰ کی تاب بھی نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے۔

    خدا کے حوالے سے بصری تجربے کی عدم موجودگی نے ان لوگوں کو بہت منہ زور بنا دیا جو خدا کو محض نفسیات کا ایک مسئلہ گردانتے تھے۔ انھوں نے اس بظاہر خامی کو اپنے فکر کو آگے بڑھانے کے لیے خوب استعمال کیا اور ہمیشہ خدا پرستوں کے سامنے ایسے سوال رکھے جن کا جواب بصری تجربے کا متقاضی تھا۔ مثلاً یہ کہ خدا تعالیٰ دکھنے میں کیسے ہیں، ان کے ظاہری خدوخال کیا ہیں۔ آج تک کسی ایک شخص نے بھی خدا کا مشاہدہ کیا؟ وغیرہ۔ اس طرح خدا کے عدم ظہور کو عدم وجود کی دلیل بنایاگیا۔

    خدا سے متعلق انسان کی جستجو تو ایک باب ہے ہی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ خدا کی بھی تو ضرورت ہے کہ انسان اسے پہچانے اور اس کی ہدایت پر عمل کرے۔ تو خدا اس ضمن میں کیا طریقہ تجویز کرتا ہے۔ قرآن میں سورۃ البقرہ میں آتا ہے ’’لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ‘‘ خدا کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ مشقت میں نہیں ڈالتا۔ خدا کی جانب سے انسان کے لئے اس معاملے میں بھی مندرجہ بالا آیت کا اصول کار فرما ہے۔ انسان کے تمام قوی میں درجہ اولیٰ عقل کو حاصل ہے اور انسان کے علم، ایجاد اور دریافت کا ماخذ و منبہ بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی پہچان کے لئے عقل ہی کو ذریعہ بنانے کو کہا ہے۔ یہ بات اس مروجہ خیال کے بالکل مخالف ہے کہ خدا کو عقل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اصل میں تو خدا کے ہونے کو عقل سے ہی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ علم اور تجربہ عقل کو مہمیز دیتے ہیں۔ جس قدر یہ دونوں بڑھتے ہیں عقل اتنا ہی زیرک ہوتی چلی جاتی ہے۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں دو باتیں بہت صراحت اور اصرار کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔
    ۱۔خدا ایک ایسا Intellect ہے جو سوچنے ، ڈیزائن کرنے اور منصوبہ سازی کی لا محدود صلاحیت رکھتا ہے یعنی۔۔۔ ھو بکل شئی علیم۔
    ۲۔ اس کے پاس لا تعداد وسائل بے شمار استعداد اور ان گنت طریقے ہیں جن سے وہ مندرجہ بالا کو عملی صورت دینے کی قدرت رکھتا ہے یعنی۔۔۔ علی کل شئی قدیر۔

    انسان سے خدا کی توقع یہ ہے کہ وہ اپنے پھیلی دنیا، کائنات اور مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرے، ان پر غور کرے اور اندازہ لگائے کہ نظام قدرت کیسے چلتا ہے۔ اگر ان تمام چیزوں میں ربط ہے اور ہر جگہ ایک منظم پراسیس کار فرما نظر آتا ہے اور اس کا خالق کوئی انسان نہیں تو پھر اسے جس ذہانت نے تخلیق کیا اور جاری رکھے ہوئے ہے اس کو پہچاننا اور اس کا اعتراف کرنا تو ایک اخلاقی تقاضہ بھی ہے۔ خاص کر جبکہ صورت حال یہ ہے کہ انسان خود اپنی تخلیق کے بارے میں کتنا حساس ہوتا ہے او راس حوالے سے پذیرائی کی کس قدر توقع رکھتا ہے۔

    خدا کو نہ ماننے کے لیے ضروری ہے کہ عقل انصاف کی راہ سے بھٹک چکی ہو۔ ورنہ چیزوں کے Concept سے لے کر ان کے انصرام اور تسلسل تک ہر مرحلہ آپ کو حیران کر دے گا۔ انسان کے علم کا کل اثاثہ یہ ہے کہ وہ موجود کو دریافت کر کے اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ جس نے ان تمام کو عدم سے وجود بخشا اس کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ سچ ہے آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل اندھے ہو جاتے ہیں۔

    انسانی علم کی عمارت تین بنیادی ستونوں پر کھڑی ہے۔ فلسفہ، تاریخ اور سائنس۔ فلسفہ نے صدیوں تک تنہاہی انسانی فکر کے ارفع ترین اظہارئیے کے طور پر انسانی شعور کی نمائندگی، آبیاری اور تربیت کا کام انجام دیا۔جہاں اس نے زندگی کے دوسرے معاملات میں انسان کی کسی قدر رہنمائی کی وہاں خدا کے ضمن میںمحض کنفیوزن ہی پیدا کیا۔مثلا۔۔۔ منطق کے نام پر فلسفہ نے بصری بنیاد پر کیے گئے سوالوں میں ایک اور کا اضافہ کر دیا۔ خدا اگر تمام چیزوں کا خالق ہے تو پھر خدا کا خالق کون ہے۔ یہ سوال ایک بہت دلچسپ صورت حال کو جنم دیتا ہے۔ بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ تجسس سے زیادہ جھنجھلاہٹ کا عکاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کا منطق کی بنیادی تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ منطق یہ کہتی ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو اس کے مطابق سے ہی تشبیہ دی جا سکتی ہے یا تقابل کیا جا سکتا ہے،غیر مطابق سے نہیں ۔دیکھئے بالفرض خدا ہے اور وہ ہی ہر چیز کا خالق ہے تو پھر یہ بھی طے ہو گیا کہ ہم اسی خدا کے تخلیق کردہ Paradigm میں رہ رہے ہیں۔ اس Paradigm کو علت اور معلول کی بنائے منطقی پر قائم کیا گیا ہے اور خدا چونکہ عقل کل بھی ہے اور اس کی طاقت ہر چیز پر حاوی ہے تو یہ اس کا خصوصی اختیار ہے جو وہ بروئے کار لایا۔ اب ہم جو کہ خود اس کی مرضی کی حالت اور ماحول میں رہ رہے ہیں اور اس سے سوا کسی متبادل تک ہماری رسائی بھی نہیں وہ خدا کو اپنے Paradigm پر کیسے منطق کر سکتے ہیں جبکہ خدا کبھی بھی اس کا حصہ نہیں رہا۔ یعنی وہ علت و معلول کے اس ضابطے سے بالکل ماورا ہے۔ جو کہ اس کو ہونا چاہیے تاکہ وہ واقعی میں با قدرت ہو جیسا کہ اس کا تعارف کرایا جاتا ہے اور در حقیقت یہ خدا ہونے کی شرط اول ہے۔

    19ویں صدی میں سائنس کی حیران کن ترقی سامنے آئی اور ہر سو سائیئنٹفک میتھڈ کی دھوم مچ گئی۔ اب معاملات کی انفرادی حرکیات کے بجائے مربوط افعال (Processes) کے حوالے سے دیکھا جانے لگا۔ یہاں بھی خدا کے تصور کو تختہ مشق بنایا گیا۔ پہلے تو فلسفے سے مستعار لی گئی فکر کے تحت خدا کا انکار ہی کر دیا گیا۔ پھر اس میں بھی ایک اپچ کا اضافہ کر دیا گیا اور سائنٹفک میتھڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے خدا کا متبادل بھی تجویز کر دیا گیا تا کہ بانس اور بانسری کا قصہ ہی تمام ہو جائے۔ یوں نظریہ ارتقاء یاTheory of Evolution ہمارے سامنے آ گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ فلسفے کی طرح یہاں بھی بنیادی تصورات سے برعکس اصول اپناتے ہوئے شخصیت کو Process سے تبدیل کر دیا گیا۔ آج مغرب کا چین سے سب سے بڑا تنازع ہی اس بات پر ہے۔ Process اور شخصیت دو مربوط اور اٹوٹ سچائیاں ہیں ان کو نہ جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی شخصیت کی کاوش کا اعتراف کیے بغیر Process کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے ۔ قانون کی زبان میں اسے Intellectual Property Rights کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم خدا کے معاملے میں یہ اصول لاگو تصور نہیں ہوتا بلکہ شخصیت کو منہا کرنے کے بعد بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ Processکا وجود میں آنا اور جاری رہنا ممکن ہے۔

    یہاں یہ بات دہرائے جانے کے لائق ہے کہ خدا خود علت اور معلول کے قاعدے کا پابند نہیں لیکن اس کی تخلیق کردہ ہر چیز اسی قاعدے کے تحت وجود میں آئی اور اسی کلیے کی مرہون ہے۔

    سائنسی طریقے میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وجود کو پراسیس سے بدل دیا جائے اور ایسی کسی بھی کوشش کو تنقید اور تضحیک کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن نظریہ ارتقاء کے بارے میں بظاہر خیرہ کن دلائل پر اس قدر اصرار کیا گیا کہ اس نظریہ کو نہ ماننے والوں کو جاہل، دقیانوسی اور شعور دشمن تک گردانا گیا۔ خود ہمارے مذہبی رہنما بھی اس رو سے محفوظ نہ رہ سکے اور خود کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کے لئے نظریہ ارتقاء کو ایک حقیقت کے طور پر ماننا شروع کر دیا۔ گو وہ یہ احتیاط بہرحال روا رکھتے رہے کہ Evolution کو خدا کی طرف منسوب کر دیا۔ اگر حسن ظن سے کام لیا جائے (اور بعض علماء کا استدلال بھی یہی رہا )تو انھوں نے Evolution کو تدریج کے معنوں میں سمجھا۔ تاہم یہ حسن ظن بھی تادیر قائم نہیں رہتا کیونکہ وہ آج کے انسان کو لاکھوں سال پر مشتمل ارتقائی سفر کا حاصل مانتے ہیں جس میں انسان کی ہیئت میں کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں اور بالآخر وہ موجودہ شکل میں ڈھل گیا۔ یہ بات خدا کے اس بنیادی مقدمے سے بالکل متضاد ہے جو وہ اپنی صلاحیت کے بارے میں قائم کرتا ہے کہ وہـ جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ یعنی Creation at Will خدا نے آدم کو آدم ہی بنایا اور ایسے ہی پیدا کیا۔ اسے کئی لاکھ سال پر مشتمل ابتدائی اشکال سے نہیں گزارا۔ قرآن اس واقعے کو ایسے ہی بیان کرتا ہے۔ Creation at will کے بغیر خدا کا خدا ہونا ایک خیال تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔

    یوں بھی Theory of Evolutionایک Linear Process ہے جبکہ Creation کا Pattern Linear نہیں ہے بلکہ یہ افقی اور متوازی ہے۔ یہ خود کار یت کی بجائے منصوبہ مبنی بر ذہانت کا پتہ دیتی ہے۔ Unicellularسے لے کر Multiple Oran System سے مزین تمام جاندار اپنی زندگی اور Survival کو بخوبی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    الٰہامی کتب (تورات، انجیل اور قرآن) کے ماننے والے بخوبی جانتے ہیں ساخت کے لحاظ سے سب سے لطیف مخلوق فرشتے ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تخلیق فرمایا اس کے بعد جنوں کو اور سب سے عمومی ساخت کا حامل یعنی انسان آخر میں تخلیق ہوا۔ یعنی یہ ارتقائے معکوس کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اگر ہم عالم بالا سے اتر کر اس دنیا کی بات کریں تو ایک ادنیٰ کیڑا۔ شہد کی مکھی Intelligent Design کا ایک شاہکار ہے اسکی ساخت، لائف سائیکل Locomotion سب دوسرے حشرات کی طرح ہے۔ لیکن وہ اپنے بود و باش میں نا قابل یقین حد تک ترقی یافتہ ہے۔ کبھی کسی گندی جگہ گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی گندی چیز بطور خوراک استعمال کرتا ہے۔ عمدہ پھل اور پھول اس کی غذا میں ان سے وہ ایک انتہائی لذیزاور پر تاثیر مشروب تیار کرتا ہے۔ دوسرے حشرات سے یہ فرق نہ فطرت کے کسی چیلنج کا نتیجہ ہے اور نہ ہی Learned Behavior کا شاخسانہ ۔ انسان کی دلچسپ مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ لاکھوں سال پر محیط ارتقائی سفر طے کرنے کے بعد انسان کی حالت یہ ہے کہ وہ انتہائی پست اور سست جسمانی قوی کا مالک ہے۔ اور تو یہ ہے کہ ان قوی کے ساتھ وہ بیماری، موسم اور دوسرے چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے یکسرقاصر ہے۔ اگر اس کے پاس عقل نہ ہو تو وہ کرہ ارض پر سب سے بڑھ کر Endangered Species ہو۔ نظریہ ارتقاء کے مطابق تو اس میں اتنی طاقت تو ہونی چاہیے تھی کہ وہ نیچرل سلیکشنNatural Selection کی بنیاد پر اپنے باقی رہنے کو جواز فراہم کر سکتا۔ یہ کیسی سلیکٹو ترقی ہے جو حیات کے سب سے بہترین نمونے کو جسمانی لحاظ سے اسقدر لا چار کر دیتی ہے۔

    نظریہ ارتقاء نے تخلیق کی داستان کو زیر زبر کر دیا اور تخلیق کو ایک خلیے سے شروع کر کے تمام موجودات تک پھیلایا۔ جبکہ Intelligent Design یعنی حقیقت تخلیق یہ ہے کہ خلیہ تخلیق کی اکائی ضرور ہے ابتداء نہیں۔ تخلیق کی ابتداء ایک خالق سے ہوتی ہے جو پہلے جاندار کو بناتا ہے پھر اس سے اس کی نسل جاری کرتا ہے۔ اس لیے جو چیز ہمیں جس حالت میں آج نظر آتی ہے وہ در حقیقت ایسے ہی تخلیق کی گئی تھی۔ اسے کسی خود کارپراسیس نے لاکھوں سال کی محنت کے بعد موجودہ حالت کو نہیں پہنچایا یہ فرق نظریہ ارتقاء اور Intelligent Design میں برہان قاطع ہے۔

    ہمارے جو دوست نظریہ ارتقاء کے پرچارک ہیں اور بغیر کسی تامل کے تمام کائنات کی پیدائش کو ایک حادثہ قرار دیتے ہیں ان سے اگر آپ صرف یہ کہہ دیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی تو فوراً پکار اٹھیں گے ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
    تو کوئی ہے جو سوچے، سمجھے!

  • منکرینِ خدا سے چند سوالات  (02) – سید ثمر احمد

    منکرینِ خدا سے چند سوالات (02) – سید ثمر احمد

    سید ثمر احمد نہایت مناسب ہے کہ نئے پڑھنے والے اس تحریر کو پہلے حصے سے ملا کے پڑھیںسیکولرازم: مباحث اور مغالطے‘ جناب طارق جان کی جلیل القدر تصنیف ہے۔ کتاب میں ایک مضمون عالیجاہ عزت بیگووچ کے افکار سے متعلق بھی ہے۔ اس کے مطالعے نے زیرِ نظر موضوع کے حوالے سے سوچنے کے مزید دَر وا کیے۔ ہم نے اس روشنی سے استفادہ کیا اور کچھ مزید سوالات کی بھی ترتیب بندھی.

    انیسویں صدی اگر الحاد کی صدی تھی تو بیسویں صدی مجموعی طور پر اس سے انکار کی طرف مائل نظر آتی ہے۔ اور اکیسویں صدی قطعی طور پہ الحاد کی شکست کا واضح سامان رکھتی ہے۔ انکارِ خدا کا مقدمہ عقلی نقلی طور پہ کمزور اور بے بنیاد بنتا چلا رہا ہے۔ جدید سائنسی اکتشافات نے بجا طور پر منکرینِ خدا کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ محترم ادریس آزاد نے اپنے مضمون میں رچرڈ ڈاکنز کے حالیہ انٹرویو کا ذکر کیا جو منکرین کے موجودہ ’پیمبر ‘ ہیں۔ اس انٹرویومیں رچرڈ دفاعی پوزیشن پہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ خدا خود کو زمانے کے مطابق آشکار کرتا چلا جارہا ہے۔ اگر ہماری نالائقی آڑے نہ آئی تو بہت جلد لشکر کے لشکر خدا کی وحدانیت کی طرف خود سپردگی کی حالت میں بڑھیں گے۔ اگر وہ مضبوط عقلی بنیادیں رکھتے ہیں تو ملحدین کو جواب دینا چاہیے۔ اگر خدا محض واہمہ ہے تو بات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ:

    ٭اگر فطرت سب کچھ ہے تو یہ فطرت کون ہے؟ اگر یہ خود بخود وجود میں آ گئی ہے اور ہر شے کو اسی سے تخلیق کا بڑھاوا ملا ہے تو پھر خدا کے دعوے کی نفی کیوں؟
    ٭آپ کی عاشقی یعنی فطرت کب وجود میں آئی؟
    ٭مظاہرِ فطرت انسان سے پہلے پیدا ہوئے یا بعد میں؟
    ٭انسان کے آغاز کی قطعی بنیادیں کون بتائے گا ۔خدا یا الحاد؟ (یہ سوال یوں بھی اہم ہوجاتا ہے کہ جو یہ سچائی بتائے گا زندگی کا نظام اسی کے مطابق آگے بڑھانے میں مدد حاصل ہوگی )
    ٭سپریم انٹیلی جنس اور کائناتی شعور کو مانا جا سکتا ہے تو پھرخدا سے بیزاری کیوں؟کچھ کہتے ہیں کہ خدا دنیا بنا کے مر گیاتو دکھائیے اس کی موت کا ثبوت کیاہے؟ اگر ثبوت نہیں تو آپ کی بات کس بِنا پہ مان لی جائے؟
    ٭نیوٹن کا قانون کیسے دفن کریں کہ جس کے مطابق جو ٹھہرا ہے ٹھہرا رہے گا جب تک ہلانے والا موجود نہ ہو، جو چلتا ہے چلتا رہے گا جب تک اسے روکنے والی طاقت نہ ہو۔ اس روشنی میں یہ وسعت پذیر کائنات ایک آغاز بھی رکھتی ہوگی اور بِگ بینگ کے مطابق یہ کائنات ایک نقطہ میں مرکوز تھی۔ پھر اسی اصول کے تحت کوئی قوت ایسی موجود ہونا لازم بنتا ہے جس نے اسے بھونچال آشنا کردیا؟
    ٭اگر انسان محض خود بخود بنا مادے کا وجود ہے تو پھر’ احساس ‘کس عفریت کا نام ہے؟
    ٭کیا دنیا کی سب رنگا رنگی اسی احساس سے جڑی نہیں؟ مادیت اور الحاد کا فلسفہ اس کی معقول تعبیر کر پایا ہے؟اس احساس نے کیسے نمو پائی؟
    ٭مادے میں غلط صحیح، نیک بد کا شعو ر کیسے ممکن ہو گیا؟ یہ شعورکہاں سے آیا؟
    ٭مادی سوچ تو ہر منفی آزادی کو فطری سمجھتی ہے پھر خود ملحدین کے ہاں طرح طرح کی پابندیاں انفرادی و اجتماعی حوالوں سے کیوں پائی جاتی ہیں ؟
    ٭انسان کے مرنے کی تشریح سوائے روح نکلنے کے کتنے اطمینان بخش انداز میں کی جاسکتی ہے؟ اور روح کی کیا مادی بنیاد پیش کی جاسکتی ہے؟
    ٭یہ روح کامضمون آپ کی جان چھوڑنے والا نہیں ۔ نہ بھی چاہیں توجواب دینا پڑے گا۔جامع جواب کون دے گا؟
    ٭کیاانسان کی بناوٹ مادے اور روح کے دو جہانوں سے ہوئی ۔اس بات سے آپ کے انکار کے باوجود فرار ممکن ہے؟
    ٭کیا انسان کے آغاز کی کوئی یقینی دلیل آپ کے پاس موجودہے؟
    ٭علم الحیات اور الحادی مادیت کسی اعتماد کے ساتھ انسانی آغاز کا تعارف کروانے میں کامیاب ہوئی ہیں؟
    ٭انسانیت الحاد کا موضوع ٹھہرتا ہے یا توحید کا؟ کیونکہ انسان مادے سے متعلق مان بھی لیا جائے تو انسانیت کا تعلق احساسات اور اخلاقیات کی دنیا سے ہے
    ٭کیا ارتقائی الحادی نظریہ بحیثیت انسان اس کی جسمانی اور ذہنی ترقی کی کوئی قابلِ قبول وجہ بتانے میں کامیاب ہوا؟
    ٭کس قانون کے تحت انسان خوشحالیوں میں بگاڑ کی طرف چلا جاتا ہے(گو ضروری نہیں)؟
    ٭کس منطق کے زیرِ اثر مشکل میں سنواراور نرم دلی کی طرف راغب ہو جاتا ہے (گو ضروری نہیں)؟
    ٭اگر انسان مطلق آزاد ہے تو پھر اس کو ناگہانی ناکامیاں کیوں سامنا کرنا پڑتی ہیں؟
    ٭اگر خدا نہیں تو ارادے کیسے ٹوٹ جاتے ہیں؟ کیا ارادوں کا ٹوٹنا کسی ارادہ توڑنے والی بالاتر ذات کی طرف اشارہ نہیں؟
    ٭آپ کے نزدیک انسان آزاد ہونا چاہیے ۔ہم پوچھتے ہیں کیا آزادی بھی خدا کی گواہی نہیں؟ کیا انسان خدا کے بغیر آزاد ہو سکتا ہے؟کیونکہ اگر آپ کے کہے کے مطابق یہ کائنات ایک خود ساختہ فارمولے کے تحت چلتی جارہی ہے تو یہاں بسنے والا انسان اس فارمولے کا قیدی ہے اور ہر گز آزاد نہیں۔ وہ کچھ اختیار اور ارادہ نہیں رکھتا۔ جب کہ خدا اختیار دینے کا اعلان کرتا ہے

    ہمارے نزدیک ملحد بہت بہادر انسان ہوتا ہے۔ وہ مروجّہ سیکولرازم کی طرح منافق نہیں ہوتا۔وہ جسے سچ سمجھتا ہے ببانگِ دْہل اس پہ عمل کرتا ہے۔ وہ سچا ہوتا ہے دوغلا نہیں۔ اور ہم امید رکھتے ہیں اگر وہ نظریے کی بنیادپہ ملحد ہے نفس پرستی کی بنیاد پہ نہیں تو وہ سچائی کا متلاشی ہونا چاہیے۔ عموماََ ایسے لوگوں کو اگر کسی چیز کے حقائق مل جائیں تو وہ باآسانی پچھلے نظریے پہ تین لفظ بھیج کے حق کو اختیار کرلیتے ہیں۔ اس لیے منکرین کو جوابی مکالمے کا آغاز کرنا چاہیے ورنہ مان لینا چاہیے۔ حکیم الامت اقبال نے شاید متشکک اور ملحد فلسفی کے بارے میں ہی فرمایا تھا:

    فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
    ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

  • قاضی کرے تو ظلم، جج کرے تو قانون، ایسا کیوں؟ مہران درگ

    قاضی کرے تو ظلم، جج کرے تو قانون، ایسا کیوں؟ مہران درگ

    ”مذہب کی موجودگی میں لوگ اتنے کمینے ہیں تو عدم موجودگی میں کیا ہوں گے؟“ سَر فرینکلن
    الحاد اپنی ذات میں اک اصول سموئے ہوئے ہے کہ کوئی بھی قانون آفاقی نہیں ہوتا، حرفِ آخر نہیں ہوتا۔
    آپ چاہیں تو اسے مانیں، چاہیں تو نہ مانیں، آپ پابند نہیں آزاد ہیں۔
    آپ کی اپنی مرضی جب چاہیں کمینگی پر اتر آئیں اور جب چاہیں تہذیب کے مجوِزہ سٹیک ہولڈر بن رہیں۔
    نیکی میرا مذہب ہے (گرونانک)
    میں مذہب کو ٹریفک کا سگنل گردانتا ہوں۔
    مذہب چیک انڈ بیلنس ہے.
    اس کے اشارے پر آپ کو رکنا ہوگا۔
    نہیں رکیں گے تو چلان ہوگا۔
    چلان نہیں بھریں گے تو کیس ہوگا۔
    کیس ہاریں گے، سزا ہوگی۔
    مگر چونکہ آپ کسی اصول کے پابند ہونا نہیں مانتے تو آپ سگنل توڑ دیتے ہیں۔
    کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ پابند ہیں نہ ہونا ضروری ہے، کہ آپ آزاد پیدا ہوئے ہیں۔
    نیکی کو مذہبی اصطلاح سمجھنے والے بے وقوف ہیں، کسی بھی مہذب اصول کی عزت کرنا نیکی ہے۔
    ہم عالم ِاسباب میں رہتے ہیں۔
    یاد رہے مذہب انسانی معاشرے پر معاشرتی چیک اینڈ بیلنس ہی لے کے اترتا ہے۔
    نہ کہ کسی ایٹم بم بنانے والے کارخانے پر کوئی راکٹ سائنس لے کر۔
    معاشرت و مذہب میں جو چیزیں جرائم ہیں
    قتل
    جھوٹ
    شراب
    جوا
    زنا
    دھوکہ
    نافرمانی
    ناجائز (الیگل)
    جبر ِناروا
    حبس بے جا
    بے جا تنقید
    بہتان
    مکسنگ
    بیہودگی
    شور
    گندگی
    بلا اجازت مداخلت
    پرسنل اٹیک
    شر پسندی
    تھریٹ
    غداری
    احسان فراموشی
    منافقت
    منافع خوری (سود، بےجا ٹیکس)
    ذخیرہ اندوزی (الیگل سٹورج)
    مینوپلیشن
    مس گائیڈنگ
    برین واشنگ (الیگل)
    کیا یہ جرائم اسلام می‍ں کہیں حلال (لیگل) گردانے گئے ہیں؟
    یا کسی دوسرے معاشرے می‍ں حلال (لیگل) گردانے گئے ہیں؟
    اگر نہیں تو آپ اسلام پر صرف ذاتی عناد اللہ واسطے کا بیر نکالتے ہیں۔
    انہیں ہر معاشرے میں مذہب و فردیت کرائم ہی گردانتی ہے، مذہب انھی اصولوں کے مخالف چیک اینڈ بیلنس سزا و جزا وضع کرتا ہے۔
    مگر جب مذہب اس پر حد قائم کرے تو لامذہب کو قے آتی ہے، پھر مذہب کے اگینسٹ آپ حدود و قیود سزا و جزا، قانون کو ظلم کہنے لگتے ہیں۔
    مگر جب آپ عملی زندگی میں روڈ پہ کھڑے ہوئے سرخ بتی پہ رک جانے کو اپنی ذمہ داری گردانتے ہیں، دوسروں کو اس پر کاربند نہ پا کر سرزنش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، چلان پہ مسرت کرتے ہیں،
    تو مجھے اس کھلے تضاد پر حیرت ہوتی ہے کہ ایسا مذہب کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟ اور پولیس والا کرے تو قانون کیوں گردانا جاتا ہے؟
    کہنے کو سگنل پہ رکے ہوئے آپ کا وقت ضائع ہو رہا ہے، جو کہ کہنے کو پوائنٹ آف نوریڑن ہے، ملین ڈالرز دے کر بھی اس کا ازالہ ہونے سے رہا۔
    کہنے کو اگر آپ کسی کا قتل کرتے ہیں تو آپ کو اس کے موافق سزا ہوتی ہے، جیسے کہنے کو کوئی قانون آفاقی نہیں ہوتا، آپ اس کے درحق آزاد ہیں، اس آزاد کنندہ کو سزا دینے والا کوئی ظالم ہوگا جو اس کی فریڈم سلب کر رہا ہے۔
    مگر جب آپ عملی زندگی میں قتل کرتے ہیں یا آپ کا کوئی قتل ہوتا ہے تو آپ سب سے پہلے قاتل کی آزادی سلب کر لیتے ہیں، اسے لاملزوم کسی مین میڈ قانون کے دائرے میں خود گھسیٹ کے لے آتے ہیں، آپ کو جج کے چالان پر مسرت ہوتی ہے۔
    تو مجھے اس کھلے تضاد پہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا قاضی کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟ جج کرے تو قانون کیوں گردانا جاتا ہے؟
    کہنے کو آپ ریپ کرتے ہیں، کہنے کو یہ آپ کی کھلم کھلا آزادی کا اظہار بھی ہے کہ ریپ سے رک جانا کسی قانون کی خود ساختہ شق ہے، کہنے کو یہ فطری عمل ہے اور اس سے رکنا لازم نہیں،
    مگر جب مختاراں مائی کے ساتھ ریپ ہوتا ہے، جج کے روبرو چلان پر آپ کو مسرت ہوتی ہے، آپ اس پر قانون کو بالادست قرار دے کر سرزنش کر چکے ہوتے ہیں،
    تو مجھے اس کھلے تضاد پہ حیرت ہوتی ہے۔ ایسا قاضی کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟ جج کرے تو قانون کیوں گردانا جاتا ہے؟
    کہنے کو آپ چوری کرتے ہیں، کہنے کو یہ آپ کی کھلم کھلا آزدی اظہار بھی ہے کہ آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو، آپ اٹھا لیں یا چھین لیں، کہ آپ کی دانست میں چوری کی ممانعت تو کوئی آفاقی قانون نہیں، ضرورت فطری عمل ہے جو نہ دے آپ چھیننے می‍ں آزاد ہیں،
    مگر جب مہران چوری کرتا ہے تو آپ جھٹ سے اس کی سرزنش کرتے ہیں، قانون کی بالادستی روبرو کرتے ہیں، جج کے کردہ چلان پہ مسرت ہوتی ہے،
    تو مجھے اس کھلے تضاد پہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا قاضی کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے، اور ایسا جج کرے تو قانون کیوں گرداناجاتا ہے؟
    کہنے کو آپ شراب ہر جگہ پی سکتے ہیں کہ پینے کی شے ہے، آپ کا کھلم کھلا آزادی اظہار بھی ہے، کہ آپ کی دانست میں شراب کی کسی جگہ ممانعت تو کوئی آفاقی قانون نہیں، آپ اس کے پابند کس رو سے، فطری عمل ہے آپ پینے میں آزاد ہیں،
    مگر جب کوئی مہران پیتا ہے تو آپ اس کی سرزنش یوں کرتے ہیں کہ _____Dr says Alcohol consumption injerious to health____ پھر کہنے کو آپ قانون کی بالادستی کو روبرو کرتے ہیں کہ آپ پیتے ہی‍ں تو غلط کرتے ہیں، لیکوور فری زون، ڈرائیونگ کے دوران اس کے چلان پہ مسرت ہوتی ہے،
    تو مجھے اس کھلے تضاد پہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا قاضی کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟ اور جج کرے تو قانون کیوں گردانا جاتا ہے؟

  • satanism کیا ہے؟ عبدالسلام فیصل

    satanism کیا ہے؟ عبدالسلام فیصل

    tstlogoheadertext 1958ء میں ایک یہودی Anton Lavey نامی شخص نے Atheism کو اختیار کر لیا۔ یہ شخص Black magic کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ اور خواب رکھتا تھا کہ دنیا میں جادو کے ذریعے ایک ایسا مذہب قائم کر دیاجائے جس کے ذریعے دنیا میں Sex اور wealth یعنی جنس اور وسائل کو قابو میں کر لیا جائے۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے اس نے 1969ء میں ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام Satanic bible تھا۔ اس کے بعد یہ ایک مسلسل مذہب کی شکل اختیار کرگیا، جس کو اب Satanism کہا جاتا ہے۔ یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ دہریت Atheism کی آڑ میں یہ ایک مستقل مذہب کی شکل اختیار کرتے ہوئے چلنے لگا ہے۔ Satanism کے ماننے والے یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ ان کے مذہب کی پوجا پاٹ کے لیے Satanic Church بنائے گئے ہیں لیکن ان عبادت گاہوں کی کوئی بلڈنگ ہے نہ کوئی منظم نظام۔ free masons کی طرح ان کے Satanic church پوری دنیا میں underground کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ Black magic سکھانے کی آڑ میں سب سے پہلے babylonian Astro theology کے ذریعے اپنے ممبران کو اس کی سحر انگیزیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ یاد رہے اردو لغوی اصطلاحات کے مطابق Star worship ستارہ پرستی سکھاتے ہوئے’’صابی‘‘ بناتے ہیں، اس کے بعد شیطانی علوم سکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے ممبران اکثر خواتین اور کھسروں یعنی Shemale جنس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے Social Networking کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے ممبران کو کام کرنے کے لیے چھوڑ رکھا ہے جس کا سب سے بڑا مقصد اسلام کے خلاف کام کرنا ہے۔ اسلام سے لوگوں کو بد ظن کرنا اور غلط معلومات پھیلانا ہے۔

    آج پوری دنیا کے بڑے بڑے سیاستدان، اداکار، عیسائی پوپ، اس مذہب کا Satanic Gesture بناتے نظر آتے ہیں۔ اس Satanic symbol کو 6 کونوں والےستارے کے اندر ایک لمبے سینگھ والا بکرا بنایا گیا ہے، امریکہ، یورپ اور افریقہ کے نامور سیاستدان، اداکار، ماڈل، اور عیسائی پادری وغیرہ اس کا نشان اپنے ہاتھوں پر بناتے نظر آتے ہیں۔
    ۱:انگوٹھا اور پہلی انگلی کو ملا کر باقی ہاتھ کو کھلا چھوڑنا۔
    ۲: پہلی دو انگلیوں کو V کی شکل بنا کر پوری مٹھی کو بند کرنا۔
    ۳: سب سے مشہور پہلی اور آخری انگلی کو کھولنا اور درمیان والی انگلیوں کو فولڈ کرتے ہوئے انگوٹھے سے بند کرنا ہے۔

    یہاں پر ایک بات قابل ذکر ہے کہ بہت مشہور قسم کےدہریے یا Atheist یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح تو رسول اللہ ﷺ نے بھی پہلی اور دوسری انگلی کو لہرایا ہے، اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یا تو قیامت کی قربت کی مثال دینے کے لیے 2 انگلیوں کو اٹھایا یا پھر انہوں نے اپنے اور متبع رسول ﷺ کے جنت میں ساتھ ہونے کی بشارت یا اس جیسے معاملات میں دو انگلیوں کو د کھایا۔ کسی صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا جیت کے نشان کے لیے Victory کا نشان بناناثابت نہیں، بلکہ انگلیوں کوجوڑ کر دیکھانا ثابت ہے.

    ان لوگوں کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے underground satanic church کی ممبر شپ کے لیے 200$ سے لے کر 1000$ تک فیس رکھی ہے جو life time fee مانی جاتی ہے۔ اس کے بعد ممبران sex societies میں مفت آ جا سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ Destruction پھیلانے کے کام آتی ہے اور مقبوضہ علاقوں کی دولت لوٹ کر ان کے ممبران میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ ان کے ممبران زیادہ تر government body کی اعلی Authorities ہی ہیں۔ جارج بش، پیوٹن ، کلنٹن، پوپ فرانسس، اسرائیلی وزیر اعظم، بڑے بڑے گلوکار جیسے ’’مائیکل جیکسن‘‘، لیڈی ڈیانا، پرنس ویلیم، ملکہ الزبتھ سب کے سب وکٹری کا نشان بلند کرنے کے لیے مذکورہ بالا ہاتھ کا سائن بنا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ آج اوباما، مودی اور دیگر لوگوں نے بھی فتح کے نشان کے لیے اس نشان کو بنانا پسند کیا ہے۔

    آج کا نوجوان Pop Musicians کے اشاروں کو فالو کرتا ہے لیکن اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ انجانے میں وہ کن شیطانی طاقتوں کی حمایتی سائن بنا رہا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملحد بظاہر ’’دینی رسومات‘‘میں حصہ لیتے نظر آتے ہیں لیکن ان کا کسی بھی دین یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں نے ان کو ’’الومیناٹی‘‘ کہا، کچھ نے Zoinists، کچھ نے free masons اور کچھ نے Sanatist لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام دشمن ہیں۔ اسلامی ممالک میں sex پھیلا، اور ان کی دولت اور Natural Resources پر قبضہ کر رہے ہیں۔ پوپ فرانسس نے جب یہ اعلان کیا کہ فرانس پر حملہ World war 3 کا حصہ ہے تو اس تقریر کے اختتام پر Sanatic sign بنایا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس دنیا کو لادین بنانے کے لیے Secular اور libral طاقتیں متحرک ہو چکی ہیں۔ یہ قیامت کے قریب ہونے کا پیش خیمہ ہے لیکن اللہ کا وعدہ بھی سچا ہے کہ ’’دین اسلام غالب ہو کر رہےگا‘‘ ان شاء اللہ۔

  • ملحدین سے 12 سوالات – علی عمران

    ملحدین سے 12 سوالات – علی عمران

    1۔ روح کیا ہے؟
    اگر روح کا کوئی وجود نہیں تو میرا ایک احساساتی اور عقلی وجود ضرور ہے، اس احساساتی اور عقلی وجود کے پیچھے کون سے محرکات کارفرما ہیں، میرے احساست اور میرا شعور کن اجزا سے مرکب ہے؟ اور کیوں ہے؟

    2۔ اگر یہ کائنات کسی حادثے کی تخلیق ہے تو اس حادثے میں متصادم سیاروں کا میٹیریل کہاں سے آیا؟ اور اگر اس کائنات اور اس میں پائی جانے والی تخلیقات میں حیرت انگیز ہم آہنگی محض اتفاق ہے، تو یہ اتفاق اتنا متواتر کیوں ہے؟

    3۔ خدا کے وجود کی بحث سے قطع نظر ہماری یہ دنیا جو ہمارے سامنے ہے، ایسے سوالات سے کیوں بھری پڑی ہے جن کو انسانی ذہن سمجھنے قاصر ہے؟ جیسا کہ پوزیٹو چارجز نیگٹو چارجز کے لیے کشش رکھتے ہیں، مگر کشش کیوں رکھتے ہیں؟ انہیں ایک دوسرے میں کیا پسند ہے جو وہ ایک دوسرے کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں؟ یا اگر کشش ثقل کا کوئی وجود نہیں تو پھر اس میں کشش کیوں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہیں موجودہ سائنس ڈسکس نہیں کرتی؟ موجودہ سائنس ان سوالات کو ڈسکس کیوں نہیں کرتی؟

    4۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ ایک دن سائنس ان سوالات کے جواب ڈھونڈ لے گی تو پھر آپ میں اور ان لوگوں میں کیا فرق ہے جو کہتے ہیں کہ ہم ایک دن خدا کے حضور حاضر ہوں گے؟

    5۔ اس دعوے کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر انسان خدا کے وجود سے انکار کر دے تو وہ کبھی غلطی نہیں کرے گا، کبھی کسی پر ظلم نہیں ڈھائےگا؟ سوویت یونین کے مظالم اور قتل عام کس کھاتے میں جائے گا؟

    6۔ جب آپ مذاہب کے ظلم و ستم پر روشنی ڈالتے ہیں، تو آپ انسان کے اس حیوانی اور شیطانی پہلو کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ بدیانتی کرتا ہے، ظلم کرتا ہے، دوسروں کے دکھ درد سے الگ ہو جاتا ہے؟

    7۔ جب خدا کے ماننے والے خدا کے اس پیغام کو بھی ساتھ لیے پھرتے ہیں کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، یہ دنیا پرفیکٹ نہیں ہے۔ جب خود خدا کی یہی تعلیم ہے تو پھر آپ لوگ اس دنیا میں امپرفیکشن کو موضوع بنا کر مذہب والوں کو تنگ کیوں کرتے ہیں؟

    8۔ ایک ایسا انسان جو مذہب کے نام پر تاریخ میں پیدا ہونے والے انتشار اور مذہب کے نام پر جہالت کا مظاہرہ کرنے والوں سے آگاہ ہوگیا، اس نے تمام انسانوں سے محبت شروع کر دی ہو، وہ ہر مذہب کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی پوزیشن میں پہنچ گیا ہو، مگر خدا کے تصور سے الگ نہ ہوا ہو۔ وہ خدا کی حقیقی منشا کو سمجھ گیا ہو۔ کیا اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ فورا خدا کے وجود سے انکار کر دے؟

    9۔ اگر ان سوالات کا جواب مذہبی لوگ خدا کا نام لے کر دیتے ہیں تو وہ لوجیکل نہیں رہتے، آپ ان سوالات کا کوئی لوجیکل جواب کیوں نہیں دے لیتے؟

    10۔ اگر آپ اس کائنات اور اس میں پھیلے مظاہر فطرت کی کوئی توجیہ پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں تو پھر آپ کے دعوے (خدا نہیں ہے) کی بنیاد کیا ہے؟

    11۔ میں سوتے ہوئے آنے والے خوابوں سے خوش بھی ہوتا رہا ہوں اور ڈرتا بھی رہا ہوں، کیا خواب بھی کسی ارتقا کا نتیجہ ہیں یا پھر کوئی اور سین ہے؟ کہ یہ خواب وہ چیز ہیں جس میں میرا جسم شامل نہیں ہوتا، مگر میں ڈرتا بھی ہوں اور خوش بھی ہوتا ہوں؟

    12۔ میں اس چار سالہ بچے کو کس طرح سمجھاؤں جس کی ماں مر گئی ہو، میں اسے یہ بتاؤں کہ بیٹا لوگ مرتے رہتے ہیں؟ تو وہ پوچھےگا کیوں؟ میں اس کیوں کا جواب کہاں سے لاؤں؟

  • ثبوت حاضر ہیں – عبدالسلام فیصل

    ثبوت حاضر ہیں – عبدالسلام فیصل

    تین سال قبل جب میں نے دہریوں کے خلاف کام کا آغاز کیا تھا تو یہ بات کھٹکتی تھی کہ ایک دہریا قرآن و سنت کے متون میں کس طرح چالبازی سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور کس طرح ”اردو“ زبان میں وہ ایسے عجیب و غریب اعتراضات اپ لوڈ کرتا ہے جس سے حیرت و شکوک سے بننے والے سوالات دینداروں اور لادینوں دونوں کے دلوں میں شیطانی وساوس کا باعث بنتے ہیں؟ کس طرح یہ آسانی سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شان میں شدید گستاخیاں کرتے ہیں؟ اور ان کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا؟ تو یہی بات سمجھ آتی تھی کہ یہ لوگ کسی نہ کسی طاغوتی طاقت کے زیر سایہ کام کر رہے ہیں اور ان سے بڑی مالی معاونت حاصل کرتے ہیں۔

    ”ویک اپ“ اور اس کے بعد ”ارتقائے فہم و دانش“ اس کے علاوہ ”جرات تحقیق“ جیے فیس بک گروپس بنا کر اس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ایڈ کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ان دہریوں کے بڑے بڑے لوگ ایسے دہریوں کو تلاش کرتے تھے جن میں عامۃ الناس کے سامنے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی اور فیس بک جیسی سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ پھر انکشاف ہوا کہ دہریے فیس بک پر ”سیکریٹ گروپ“ بنا کر اپنے ساتھیوں کے لیے ماہانہ بنیادوں پر فنڈنگ اکٹھی کرتے ہیں تاکہ وہ فارغ رہ کر اپنی تمام تر توجہ الحاد پھیلانے پر دیں اور ان کو کسی قسم کی معاشی تنگی نہ ہو۔

    پھر جب حکومتی سطح ہر ”توہین رسالت ایکٹ“ کے تحت ان گستاخوں کے خلاف کام کا آغاز ہوا تو انہوں نے اپنی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے اپنے ساتھیوں کو بیرون ملک بالخصوص مغربی ممالک میں سیاسی پناہ اور شہریت دلوانے کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔ ابتدائی طور پر یہ تو یہ معاملہ ”پاکستان فری تھنکرز“ اور ”پاکستان لبرل پارٹی“ جیسے اداروں نے اپنی سطح پر کرنا شروع کیا لیکن اتنی بڑی تعداد میں ان دہریوں کا ملک پاکستان سے فرار ایک بہت بڑا معمہ تھا۔ یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ دہریوں کا کون سا نمائندہ گروپ یا ادارہ ہے جو پاکستان جیسے ملک میں ان کی مالی معاونت کر رہا ہے؟

    دو سال قبل اپنی پرانی آئی ڈی سے میں نے ایک پوسٹ لگائی تھی کہ Atheist Alliance international نامی ادارہ جنوبی ایشیائی ممالک میں ”دہریوں“ کی مالی، علمی اور سفارتی مدد کر رہا ہے۔ یہ ادارہ امریکہ سے کام کر رہا ہے لیکن چونکہ ہمارے پاس ثبوت نہیں تھے کہ پاکستانی ”دہریے اور اگناسٹک“ دونوں کہاں سے فنڈز لیتے ہیں یا ان کا اس ادارے سے الحاق ہے بھی یا نہیں۔ اس لیے میں نے اس بارے میں لکھنا بند کر دیا۔

    حال ہی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کا نام Atheist and agnostic Alliance Pakistan ہے، اس کا کام پاکستان میں ہونے والی Anti atheist activities پر نظر رکھنا اور سیکولر ممالک میں اس کو اچھالنا ہے تاکہ پاکستان کو دنیا میں بدنام کیا جا سکے، اور اسلام اور اہل اسلام کی توہین کی جا سکے۔ دہریہ-الائنس.jpg اس سلسلہ میں جب اس ویب سائٹ کو وزٹ کیا گیا تو دیکھا کہ امریکی ادارے Atheist Alliance international کے ساتھ پاکستانی دہریوں کی تنظیم Atheist and agnostic Alliance Pakistan کا الحاق ہو چکا ہے۔ اس کے آفیشل پارٹنرز ”پاکستان فری تھنکرز“ اور ”جرات تحقیق“ کو بتایا گیا ہے۔ چونکہ امریکی ادارے کے مینی فیسٹو میں یہ بات لکھی ہے کہ اس ادارے کا قیام اس لیے ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے کمزور دہریوں کی سیاسی، مالی اور سفارتی مدد کی جائے، اس لیے پاکستانی دہریہ تنظیم کا اس سے الحاق اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ لوگ مغربی ممالک سے روپیہ حاصل کرتے ہیں، اور مغربی ممالک میں ہی بیٹھ کر پاکستانی بلاگ ویب سائٹس استعمال اور سوشل میڈیا پیج وگرپس ایکٹو کر کے دہریت کو فروغ دے رہے ہیں۔ امریکی ادارے کی ویب سائٹ میں atheist-asylum نامی ایک پیج ہے جس پر یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے وہ دہریے جن کی جان کو خطرہ ہے، ان کے لیے امریکن یا کینیڈین ویزے کے لیے 25000 امریکی ڈالر کی امداد کا انتظام کیا جاتا ہے۔دہریہ-الائسنس.jpg پاکستان میں موجود ان کا ایجنٹ امریکی ایمبیسی تک اس دہریے کو رسائی دیتا ہے۔ ویزا لگ جانے کے بعد اس کو ماہانہ 2000 ڈالر خرچہ پانی دیا جاتا ہے، اور اس کے معاشی استحکام تک اس کو 45000 امریکی ڈالر دیے جاتے ہیں۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں موجود ایسے شخص کو یہ لوگ اتنی بڑی رقم کیوں فراہم کرتے ہیں؟ اتنا پیسا کیوں دیتے ہیں؟ اور اس کو امریکہ اور کینیڈا میں کیوں بلا لیا جاتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان سے کوئی اسلام کی خدمت اور اسلام کی حمایت کا کام تو لیا نہیں جاتا۔ بلکہ یہ لوگ پاکستان میں بیٹھے لوگوں کی سادہ لوحی اور معلومات کی کمی کا فائدہ اٹھانا، اور ملک کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ ملک پاکستان اور اس میں بسنے والے موحدین کی حفاظت فرمائے. آمین
    میرا مقصد ان لوگوں کی گندی سوچ، ذہنیت اور ان کے پیچھے چھپے پس پردہ حقائق کو سامنے رکھنا تھا، جو مجھے معلوم تھے، تاکہ روز قیامت اس پر اللہ میری پکڑ نہ کرے۔

  • صوفی، سیکولرازم اور نئی اصطلاحات کی ضرورت – رانا احسن رسول

    صوفی، سیکولرازم اور نئی اصطلاحات کی ضرورت – رانا احسن رسول

    %d8%a7%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%b1%d8%b3%d9%88%d9%84 گاہے نپی تلی ”پھلجھڑی“ ہم بھی چھوڑ دیتے ہیں جس سے یار لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ احسن اب دائرہِ اسلام سے تین کلومیٹر اور دور ہو گیا ہے. دراصل گرد اس قدر اڑائی جا چکی ہے کہ اردو لغات تک میں ”سیکولر“ کا ترجمہ لادین کر دیا گیا ہے. ارے لغت والے بھیّا، پھر اتھیسٹ کا ترجمہ کیا کریں گے؟ جواب ملا ملحد. ملحد اور لادین میں کیا فرق ہوا؟ جواب ندارد

    افلاطون ٹائپ بزرگ جو اس کثیف فرق کو بھی لطیف سمجھتے ہیں، یہ فرما کر گزر جاتے ہیں کہ بیٹا اول بندہ سیکولر ہوتا ہے اور آخرش ملحد ہو کر ہی دم لیتا ہے جس کے لیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور اللہ اللہ.. ورنہ پھر لنڈے کے لبرلز اور لعنت شعنت. اگر ہم سیکولرازم کا سادہ سے سادہ مفہوم بھی پیش کریں تو ”مذہب کے سیاسی استعمال سے بچاؤ“ کے علاوہ کیا کر پائیں گے؟

    صحیفۂ حق میں لکھا ہے جو زندہ رہا دلیل سے زندہ رہا اور جو ہلاک ہوا دلیل سے ہلاک ہوا. ایمان بالغیب کا مطلب یہ تھا کے بغیر دیکھے ایمان لانا. وقت کی گرد نے سب دلیلوں کو طاق پر سجا کر بغیر سوچے سمجھے ایمان لانا بنا دیا ہے. اب کسی ایمانی عقیدہ پر عقلی دلیل مانگنا بھی کفر ٹھہر چکا ہے. کوئی جو بھی سمجھے یہ اس کا حق ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کے ہر سچے صوُفی کے اندر ایک مطمئن فلسفی چھپا ہوتا ہے جس کے عقائد سیکولر ہوتے ہیں.

    ہم سیکولر، لبرل اور روشن خیالی کے بیچ سیکولر تر اور سیکولر ترین طرز کی اصطلاحات کے خواہشمند ہیں جس کو انگلش میں سافٹ سیکولرازم، ہارڈ سیکولرازم کا نام دیا گیا ہے تاکہ سیکولر کا مطلب لادین کوئی بھی نہ کر سکے. یہ ذمہ داری بہرحال فقیروں سے زیادہ مقامی پیشہ ور فلاسفروں کی ہے. نیز سیکولرازم کے حامی دانشوروں کو مذہبی اخلاقیات (سچ، ترکِ نشہ، زکوٰۃ، عبادات میں روحانی سکون) کے مثبت استعمال کے فوائد کو بھی اسی طرح دلیل سے تسلیم کرنا ہے جس طرح مذہب کے سیاسی استعمال کے نقصانات کو تسلیم کیا گیا ہے.

    ہم جس سیکولرازم کے فلسفے کو پسند کریں گے، اس میں ریاست کے قوانین میں مذہب اور فرقہ جات کی علمداری کو روکے جانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ریاست لوگوں کے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو مطلوبہ مذہبی سہولیات ( عبادت گاہیں، مدارس) بھی فراہم کرے.

    دراصل مسئلہ کہاں ہے؟
    سیکولرازم کا امیج محض فحاشی، میراتھن، شراب نوشی اور مادر پدر آزادی بن چکا ہے، اس لیے اس آخری حل کی طرف ایک سنجیدہ مسلمان بھی اپنا سفر پھونک پھونک کر کر رہا ہے. ہمیں نئی اصطلاحات کی ضرورت ہے اور صوفیائے کرام جو کہ بیک وقت عالم، فلسفی اور نباضِ وقت ہوتے ہیں، ان کے انسٹیٹوشنز کو استعمال کرنا ہوگا کہ ہر دور میں سب سے زیادہ نظریاتی لچک ان کے ہاں موجود رہی ہے. بابا بلھے شاہ کی سیکولر لبرل شاعری بھی آپ نے سنی ہوگی، خان پور سے تعلق رکھنے والے صوفی خواجہ محمد یار فریدی کا ایک شعر سنتے جائیے.

    لا مذہبیم و مذہبِ ما ترکِ مذہب است
    ما مذہبے با دستِ مذہب داں فروختیم