Tag: افغانستان

  • افغان حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ – کاشف نصیر

    افغان حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ – کاشف نصیر

    کاشف نصیر کابل حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان دو سال سے جاری مذاکرات کے بعد آج معاہدے پر باضابطہ دستخط ہوگئے ہیں۔ دستخط کی تقریب امن کونسل کے دفتر میں منعقد ہوئی جہاں دونوں اطراف کے نمائندوں نے حتمی مسودے پر دستخط کیے جبکہ اشرف غنی اور حکمتیار کے دستخط ابھی باقی ہیں۔ امریکہ نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اس معاہدے کو خوش آمدید کہا ہے جبکہ کابل حکومت کے اہم ستون عبداللہ عبداللہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

    معاہدے کی رو سے کابل حکومت تمام اہم فیصلوں میں حزب اسلامی سے مشاورت کی پابند ہوگی، اسیر کارکنان رہا کردیے جائیں گے، جنگجو فدائین کو سرکاری فوج میں جگہ ملے گی، تمام مقدمات واپس لے لیے جائیں گے اور طویل جنگ میں ہمدردوں کو پہنچنے والے مالی نقصان کی زر تلافی ادا کی جائے گی۔ اس کے بدلے میں گلبدین حکمتیار کابل حکومت کی قانونی حیثیت کو قبول کرکے ملک کے سیاسی عمل میں شامل ہوجائیں گے اور حزب اسلامی کے تمام عکسری ڈھانچوں کو ختم کردیا جائے گا۔

    کہا جارہا ہے کہ معاہدے کی غیراعلانیہ دفعات کے مطابق امریکہ جلد گلبدین حکمتیار کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دے گا۔ یوں حکمتبیار کے منظرعام پر آنے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔ پاسپورٹ مل جائے گا اور وہ باآسانی غیرملکی سفر کرسکیں گے۔

    افغانستان کی موجودہ صورتحال میں حزب اسلامی ملک کے کسی بھی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ نہیں رکھتی ہے۔ اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر حکمتیار ایک بار پھر پختون صوبوں میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ 2001ء میں کرتے تو شاید آج ملک کے صدر ہوتے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ کابل پر ان کی حریف قوتوں کی گرفت انتہائی مظبوط ہے۔ دوسری طرف حکمتیار کے مزاج میں سیاسی تنوع بالکل بھی نہیں ہے اور وہ اتحاد کرنے اور جلد ہی توڑ دینے کے لیے مشہور ہیں۔ اس لیے یہ امید رکھنا کہ وہ بدلے ہوئے کابل میں زیادہ عرصے گزارا کرلیں گے، بہت مشکل ہے۔

    تنازعات کا پرامن تصفیہ تلاش کرنا قابل ستائش ہے لیکن اصولوں پر سمجھوتہ کبھی بھی عزیمت کا راستہ قرار نہیں دیا جاتا۔ اگر حکمتیار کو امریکی فوج کے انخلا کی بنیادی شرط کے بغیر سیاسی عمل کا حصہ بننا تھا تو وہ یہ کام پہلے بھی کر سکتے تھے. نہیں معلوم کہ وہ 2001ء میں غلط تھے یا آج غلط ہیں۔

  • ولی خان کی پاکستان دشمنی(قسط سوم)-ضیاء شاہد

    ولی خان کی پاکستان دشمنی(قسط سوم)-ضیاء شاہد

    zia shahid

    کچھ باتیں ولی خان کے بارے میں۔ ولی خاں11 جنوری 1917ءکو پیدا ہوئے اتمان زئی جائے پیدائش ہے۔ وفات 26 جنوری
    2006ءہے۔ 89 سال کی عمر پائی 47 سے پہلے انڈین نیشنل کانگریس اور 57 سے نیشنل عوامی پارٹی میں 86 تک رہے۔ 86 سے 2006ءیعنی اپنے انتقال تک اے این پی یعنی نیشنل عوامی پارٹی میں رہے۔ خود کو ڈیموکریٹک اور سوشلسٹ کہتے تھے۔ اپنے والد غفار خاں کے ساتھ سیاست شروع ہوئی۔ ڈیرہ دَون کے سکول، کلونل براﺅن کیمبرج سکول سے تعلیم پائی۔ واضح رہے کہ کانگرس میں شمولیت کے سبب انہیں ہمیشہ پاکستان مخالف سمجھا جاتا رہا۔ 1970ءمیں وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے والدہ کا نام مہرقند تھا۔ 1912ءمیں غفار خان سے شادی ہوئی۔ وہ جنگ عظیم کے بعد فلو سے فوت ہوئیں۔ ولی خاں نے آزاد اسلامیہ سکول اتمان زئی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے حامی خدائی خدمت گار کے طور پر سیاست کا آغاز کیا۔ مئی 1930ءمیں ایک برطانوی سپاہی کے ہاتھ سے قتل ہونے سے بال بال بچے‘ نظر خراب ہونے کے باعث سکول کے بعد تعلیم حاری نہ رکھ سکے۔ پہلی بیوی نے 49 میں انتقال کیا۔ 54 میں نسیم ولی خاں سے دوسری شادی کی جو ایک پرانے خدائی خدمت گار کی بیٹی تھیں۔ ولی خاں تقسیم ہند سے پہلے کانگرس صوبہ سرحد کے جائنٹ سیکرٹری بھی رہے۔ ایف سی آر کے تحت 43 میں گرفتار ہوئے۔ 47 میں تقسیم ہند کے فارمولے کی مخالفت کرتے رہے۔ غفار خاں نے ان کے بڑے بھائی غنی خاں کی سیاست سے علیحدگی کے بعد ولی خاں پر زیادہ اہمیت دینا شروع کی۔ 48ءمیں پھر گرفتار ہوئے اور 53ءمیں رہا ہوئے۔ ولی خان کے خلاف ”نیپ“ پر پابندی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے جو ریفرنس دائر کیا اُس کے مندرجات انتہائی خوفناک تھے۔ بھٹو حکومت نے ثابت کیا تھا کہ کس طرح ”نیپ“ پاکستان کے صوبہ سرحد کی جگہ آزاد ریاست پختونستان قائم کرنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں ولی خان کی تقریروں کے اقتباسات کے علاوہ اُن کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل اجمل خٹک کی سرگرمیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا اور پاکستان کے دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ملک دشمن افراد سے اُن کے رابطوں کے ثبوت پیش کئے گئے تھے۔

    بھارت اور افغانستان کی طرف سے کس طرح اُن کی مسلسل حمایت کی جاتی رہی اِس کے پس منظر پر تفصیل سے مواد جمع کیا گیا تھا، اِس کے علاوہ ایک سُپرپاور روس کی طرف سے اُنہیں جو بالواسطہ حمایت حاصل ہوئی تھی اُس کا بھی احاطہ کیا گیا تھا، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نواب اکبر خاں بگٹی نے اِس ضمن میں ولی خان اور عطاءاللہ مینگل کا ساتھ دینے کی بجائے بھٹو حکومت کی حمایت کی۔ 31 جنوری 1976ءکو موچی گیٹ لاہور کے جلسہ عام میں بگٹی صاحب نے اپنے خطاب میں آزاد پختونستان کے علاوہ عطاءاللہ مینگل اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر گریٹر بلوچستان کی شکل میں ایک اور آزاد ریاست کے لئے سازش کا تفصیلی ذکر کیا تھا۔ بگٹی صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ اس ضمن میں ولی خان اور عطاءاللہ مینگل اینڈ کمپنی غیر ملکی طاقتوں سے رابطے میں تھیں اور آزاد بلوچستان اور گریٹر بلوچستان کا عارضی ہیڈ کوارٹر بغداد میں قائم کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ عراقی سفارت خانے کے ذریعے سمگل کیا جانے والا اسلحہ بھی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں حکومت کے خلاف استعمال کیا جانا تھا۔ اِس ضمن میں متعدد دستاویزات بھی پکڑی گئی تھیں، نیپ کے لیڈروں ولی خان، امیرزادہ خان، عطاءاللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، اور میرگل خان نصیر سمیت کل 52 افراد کے خلاف حیدرآباد میں مقدمے چلائے گئے۔ بھٹو حکومت نے نیپ پر پابندی کے سلسلے میں جو دستاویزات جمع کرائی تھیں اُن میں یہ رپورٹ بھی شامل تھی کہ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کی طرف سے اُنہیں مالی امداد بھیجی جاتی تھی اور ایک بار 2 کروڑ روپے بھیجنے کی رپورٹ بھی الزامات میں شامل کی گئی تھی،

    دلچسپ بات یہ ہے کہ اسفند یار ولی کے والد ولی خان نے اس الزام کے بعد ایک دیوانی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ 2 کروڑ کی جو امداد اندراگاندھی نے بھجوائی تھی وہ اُن تک نہیں پہنچ سکی، حکومت وہ رقم برآمد کروائے اور اُن کے حوالے کرے۔ اس ضمن میں جمعہ خان بگٹی کی کتاب ”فریب ناتمام“ کا ذکر بھی ضروری ہے، جمعہ خان غفار خان کے قریبی ساتھی اور ”خدائی خدمتگار“ تھے جو نیپ پر پابندی لگنے کے بعد افغانستان چلے گئے اور وہاں حکومتِ وقت کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے، جمعہ خان لکھتے ہیں کہ پاکستان میں مسلح جنگجو افراد کی تربیت کے لئے سوویت یونین اور بھارت نے مالی معاونت کی پختونستان بنانے کے علاوہ گریٹر بلوچستان پر بھی کام جاری تھا تاہم ولی خان کو اس سازش میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جو افغانستان میں اپنے والد غفار خان عرف باچا خان کی ’گُڈوِل‘ سے فائدہ اُٹھا رہے تھے،

    جمعہ خان کے بقول افغانستان کے سربراہ داﺅد خاں بھی ولی خاں کی حمایت کر رہے تھے، جمعہ خان نے بھٹو صاحب کے وزیر شیر پاﺅ کے قتل کے بارے میں بھی انکشافات کئے، نیپ کے افغانستان جانے والے سیکرٹری جنرل اجمل خٹک کا بھارتی سفارت خانے سے گہرا رابطہ تھا، اور کابل خود مختار پختونستان کی بھرپور حمایت کر رہا تھا، وہ تو اچھا ہوا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے زیر اہتمام تربیت یافتہ مجاہدین نے روسی افواج کو جو افغانستان پر قابض ہو گئی تھی شکست دی۔ اور روس کے جانے کے بعد افغانستان میں مجاہدین کی باقیات کے مابین جنگ شروع ہوئی تو طالبان کی شکل میں مدارس کے نوجوانوں نے افغانستان پر قبضہ کر لیا، تو ولی خان کا خواب کہ سرحد اور افغانستان کے علاقوں کو ملا کر آزاد پختونستان قائم کیا جائے پورا نہ ہو سکا۔ سابقہ ”حدائی خدمت گار تحریک“ اور موجودہ ”نیپ“ کے لیڈران کے کابل کے دورے بند ہو گئے، کیونکہ اَب وہاں اُنہیں کوئی میزبان میسر نہ تھا، اِسی طرح وقتی طور پر آزاد بلوچستان کی تحریک بھی دب گئی، لیکن آج بلوچستان کے خود ساختہ جلا وطن رہنما براہمداغ بگٹی اور اُن کے ساتھی ہوں یا لندن میں قیام پذیر خان آف قلات کے صاحبزادے، ایک بار پھر آزاد بلوچستان کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں،

    امریکہ جو نہیں چاہتا کہ بلوچستان کی بندرگاہ گوادر تک چین کی تجارتی راہداری کی تعمیر کا کام مکمل ہو وہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی مدد سے بلوچستان کو اسلام آباد سے الگ کرنے کی سازش پر بے اندازہ وقت، محنت اور دولت خرچ کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ولی خان کے حامیوں کا جاری کردہ پمفلٹ ”گولی کا جواب گولی“ سابق صوبہ سرحد میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا، اجمل خٹک کابل سے بار بار اعلان کرتے رہے کہ آزاد پختونستان کی سرحد دریائے سندھ بالخصوص اٹک تک جائے گی، اُس دور کی ایک اور کتاب ”ڈاکٹر شیر زمان تیزی“ نے لکھی جو کابل کے پاکستانی سفارت خانے سے منسلک تھے، اُنہوں نے بھی غفار خاں اور اُن کے بعد ولی خاں کی قیادت میں پاکستان کے خلاف اور صوبہ سرحد کے علاقوں پر مشتمل آزاد پختونستان کی جدوجہد کی اور آزاد پختونستان کی سازش کی۔ تفصیلات کا پردہ چاک کیا ہے۔
    (جاری ہے)

    حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے
    حصہ دوم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے
  • روشنی سے ڈرنے والے-ہارون الرشید

    روشنی سے ڈرنے والے-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    کوئی تعجب نہیں کہ ابھی سے حکمت یار کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا ہے۔ روشنی سے ڈرنے والے‘ اجالے سے خوف زدہ لوگ!
    پاک افغان تعلقات کی خرابی میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اوّل دن سے‘ بھارت نے حکمران طبقات اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ صدیوں میں ڈھلنے والا‘ افغان مزاج یہ ہے کہ متحارب قوتوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ افغانوں کا المیہ ہے کہ ان کے وسائل محدود ہیں‘ پھر جو اور جس قدر ہیں‘ انہیں ترقی دینے کی کبھی کوشش نہ کی گئی۔

    بقا کی انسانی جبلّت بہت طاقتور ہے۔ مدتوں تک دو دو عالمی طاقتوں برطانیہ اور روس کی کشمکش میں‘ وہ راستے تلاش کرتے رہے۔ پھر امریکہ اور روس کی سرد جنگ میں۔ صوبہ سرحد کے عبدالغفار خان اور بلوچستان کے عبدالصمد اچکزئی‘ کانگریس سے گہرے مراسم رکھتے تھے‘ بالترتیب دونوں کو سرحدی گاندھی اور بلوچ گاندھی کہا جاتا۔ سوویت یونین کے زیرِ اثر ”ترقی پسند‘‘ قبائلی رہنما بھی‘ خیر بخش مری جن میں نمایاں تھے۔ اپنے قبائل کو سوچ سمجھ کر اور خالص ذاتی اغراض کی بنا پر انہوں نے پسماندہ رکھا‘ سیاست میں ان کا نعرہ قوم پرستی اور سوشلزم تھا۔

    تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ کی قیادت پر مسلم برصغیر‘ یکسو ہو چکا تو کمیونسٹوں نے‘ جن کے تار ماسکو سے ہلائے جاتے تھے‘ پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ نئے وطن میں پر پرزے نکال سکیں۔ دل سے مگر پاکستان کو کبھی تسلیم نہ کیا۔ پاکستان میں قومیتوں کا فروغ‘ روس کی مستقل حکمت عملی تھی۔ ذہنی تطہیر سے گزرے ہوئے لوگ‘ جو اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھنے کا یارا نہ رکھتے تھے۔ معاشرے کا ناراض عنصر۔ نفسیاتی سہارے کے لیے‘ ایسے لوگوں کو ہمیشہ کسی نظریے کی تلاش ہوتی ہے۔ اس سوال پر بہت کم غور کیا گیا ہے کہ سوویت یونین بکھر چکا تو ترقی پسندوں کی اکثریت ماسکو کی گود سے اتر کر واشنگٹن کی گود میں کیوں بیٹھ گئی؟ بہت بڑی تعداد این جی اوز کی وظیفہ خوار ہو کر‘ اپنے وطن کے خلاف وعدہ معاف گواہ کیوں بن گئی۔ اب بھی الحاد کی تبلیغ کیوں کرتے اور پاکستان کے جواز کو چیلنج کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اسی موضوع پر غور کرنے میں پوشیدہ ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے البتہ یہ خیال کوندے کی طرح لپکا کہ ناراض بچوں کو مسترد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سمجھانا بجھانا چاہیے۔ ان سے بات کرنی چاہیے۔

    اب تو مصروفیت نے آ لیا اور تنہائی کی آرزو بڑھ گئی ہے۔ ایک زمانے میں بعض معروف ترقی پسندوں سے رابطہ مسلسل تھا۔ جناب حبیب جالبؔ اور حضرت ظہیر کاشمیری سے روزانہ ملاقات ہوا کرتی۔ بے پناہ پذیرائی اپنی جگہ‘ جالبؔ کو پڑھنے لکھنے سے اور سنجیدہ گفتگو سے کم ہی تعلق تھا۔ مطالعے کے خوگر‘ ظہیر کاشمیری آخری برسوں میں سوشلزم سے اکتا چکے تھے۔ ایک بار بہت طویل گفتگو ہوئی تو اچانک ایسی بات انہوں نے کہی کہ میں ششدر رہ گیا۔ فرمایا: اگر ان (سوشلسٹوں) کی پوری روداد میں بیان کر دوں تو لوگ ان کی بوٹیاں نوچ لیں۔ پھر کہا: آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ دشمن کے مورچے میں بیٹھ کر اپنے لوگوں پر میں گولی چلاتا رہا۔

    اردو شاعری کے مطالعے میں‘ وہ میرے مکرّم استاد تھے۔ بعض دوسرے اخبار نویس کے برعکس جو بے تکلفی روا رکھتے‘ میں ان کے سامنے مؤدب رہتا۔ بایں ہمہ‘ نہایت ادب سے گزارش کی: آپ اپنے مورچے میں واپس کیوں نہیں آ جاتے؟ فرمایا: تم ایک سپاہی نہیں‘ تم اس بات کو نہیں پا سکتے کہ سپاہی اپنا مورچہ ترک نہیں کیا کرتا۔ جواب میں یہ خاکسار کیا عرض کرتا۔

    جناب عبداللہ ملک سے البتہ کچھ بے تکلفی تھی‘ ان کی عنایت کے طفیل کہ ایک سادہ اور بے ساختہ سے آدمی تھے۔ زعم اور عُجب انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ سرما کی ایک شام مجھ سے اچانک کہا: جیکٹ تو اس طرح ڈانٹ رکھی ہے‘ جیسے حکمت یار نے دی ہو۔ عرض کیا: ملک صاحب! انہی نے دی ہے۔ کہا: ہم لوگوں کی تُم عیب جوئی کرتے ہو‘ تم لوگ بھی کسی سے کم نہیں۔ نذیر ناجی اور کچھ دوسرے نمایاں لوگ موجود تھے۔ ماحول کچھ ایسا سنجیدہ نہ تھا۔ میں نے جسارت کی: ملک صاحب‘ ایمان کی کہیے‘ کیا آپ لوگ فقط ایک آدھ جیکٹ پہ اکتفا فرماتے ہیں؟ بولے: ہرگز نہیں‘ ہر ماہ دو کریٹ اور ہر چند برس کے بعد‘ سوویت یونین کا سرکاری دورہ۔ ایسے ہی ایک دورے کی یادوں پر مشتمل فیض احمد فیض کی کتاب ”مہ و سالِ آشنائی‘‘ پڑھیے تو آپ دنگ رہ جائیں۔ ایسا عظیم دانشور اور شاعر‘ ایسی سطحی کتاب اور ایسا خوشامدانہ لہجہ! کہیں بھی اور کیسی بھی ہو‘ مرعوبیت ایک برباد کر دینے والی چیز ہے۔ سوویت یونین سے یہ لوگ حد درجہ مرعوب تھے‘ اب امریکہ اور بھارت سے۔ کچھ لوگ اپنے قدموں پہ کبھی کھڑے نہیں ہوتے‘ عمر بھر انہیں سہاروں کی ضرورت رہتی ہے۔

    آج حکمت یار کی بہت یاد آئی۔ ایک گہرا ذاتی تعلق‘ ان سے تھا اپنے حصے کی غلطیاں‘ ان سے بھی سرزد ہوئیں… اور یہ کہ بڑے آدمیوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ اپنے وطن کی آزادی کے لیے بہرحال انہوں نے بڑی مخلصانہ جدوجہد کی۔ ساری عمر دکھ جھیلے اور اپنی رائے پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے وہ لاڈلے تھے۔ جی نہیں‘ ان کی جماعت سب سے بڑی تھی۔ میں گواہ ہوں اور تفصیلات بیان کر سکتا ہوں کہ کئی اہم مواقع پر جنرل محمد ضیاء الحق کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ مثلاً 1983ء میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر افغان مجاہدین کے نمائندے کی حیثیت سے وہ نیو یارک میں تھے‘ ریکارڈ شدہ امریکی تاریخ کے سب سے مقبول صدر رونالڈ ریگن ان سے ملاقات کا ارادہ رکھتے تھے۔ حکمت یار سے پوچھے بغیر‘ فقط جنرل محمد ضیاء الحق کے مشورے سے‘ ملاقات کے وقت اور تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ حکمت یار نے انکار کر دیا۔ حکومتِ پاکستان‘ امریکی انتظامیہ‘ حتیٰ کہ بعض عرب سفیروں کی طرف سے اصرار کے باوجود انکار پر وہ قائم رہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق برہم تھے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن سے انہوں نے کہا: انہیں بتا دیجئے۔ اگر ہم انہیں بنا سکتے ہیں تو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ جنرل اختر نے، جنہیں عظیم حکمت کار (Super Strategist) کہا جاتا تھا، براہ راست بات کرنے کی بجائے، اپنے نائب بریگیڈیئر یوسف کو یہ فرض سونپا‘ شب و روز جو ان کے ساتھ رابطے میں رہا کرتے۔ بریگیڈیئر نے‘ جو سر تا پا ایک سپاہی اور نہایت صاف ذہن کا آدمی تھا‘ جنرل اختر کے انداز فکر کی تائید کی اور یہ کہا: حکمت یار، ایسا آدمی ہے کہ جہاں وہ کھڑا ہو جائے، وہاں گھاس نہیں اُگ سکتی۔ جنرل ضیاء الحق نے بعد میں ادراک کر لیا۔ حکمت یار لوٹ کر آئے تو نقصان پہنچانے اور حریف سمجھنے کے بجائے، اس موضوع پر بات کرنے سے بھی گریز کیا۔

    حکمت یار کی حزبِ اسلامی آج بھی زندہ ہے؛ اگرچہ تین دھڑوں میں بٹی ہے۔ وہ حیرت انگیز تحرّک اور صلاحیت کے آدمی ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت سے اگر ان کا سمجھوتہ ہو گیا، جس کی امید کی جا رہی ہے‘ تو افغانستان کی سیاست پر اس کے نہایت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر‘ یہ موقع ملا تو پاکستان اور افغانستان کے بگڑے مراسم کو بہتر بنانے میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر حال میں وہ پُرامید رہتے ہیں۔ بدترین دبائو برداشت کر سکتے ہیں۔ غور و فکر کے عادی ہیں۔ دلیل کو وہ تھامے رکھتے ہیں اور دوسروں کو قائل کر سکتے ہیں۔ حزب اسلامی کے دھڑ وںکو متحد کرکے، وہ ایک قومی جماعت تشکیل دے سکتے ہیں۔ مقابلے میں دوسری پارٹیاں اُبھر سکتی ہیں اور افغان سیاست کے نئے عہد کا آغاز ہو سکتا ہے۔ وہ واحد شخص ہیں، پشتونوں میں پذیرائی کے علاوہ، کسی حد تک جو شمال کے لیے بھی قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ کس طرح آج تڑپ کر دل چاہا کہ کاش اس آدمی سے ملاقات ہو سکے۔

    کوئی تعجب نہیں کہ ابھی سے حکمت یار کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا ہے۔ روشنی سے ڈرنے والے‘ اجالے سے خوف زدہ لوگ!

  • اسلامی نظام کا نفاذ کیسے؟ حماد احمد

    اسلامی نظام کا نفاذ کیسے؟ حماد احمد

    حماد احمد کہتے ہیں کہ جب افغانستان پر امریکی حملے کے بعد طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو کابل میں حجاموں کی دکانوں پر داڑھیاں منڈوانے والوں کا وہ رش تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا. کہتے ہیں کہ بڑی وجہ شریعت کا زبردستی نافذ کروانا تھا. ایک افغانی دوست کے مطابق وہ خود اس خودساختہ شریعت کا شکار ہونے ہی والے تھے کہ نکسیر نے بچا لیا. انھی دوست کے مطابق ایک قصہ اور مشہور ہے کہ سقوط امارت اسلامیہ کے بعد طالبان مخالف افراد انتقام کی آگ میں ایسے جل رہے تھے جس کی مثال نہیں ملتی.
    کہتے ہیں ایک داڑھی رکھے ہوئے بندے کو کسی نے آواز دی
    ”امیر صاحب“!
    جواب ملا: امیر ہوگا تیرا باپ
    اتنا تلخ جواب نفرت یا خوف اللہ ہی جانے، لیکن دونوں صورتوں میں تشویشناک ہے

    ایرانی شریعت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے جن کو وہاں زبردستی باپردہ کیا ہوا ہے. وہ بیرونی ممالک میں پردے اور حیا کا کیا حشر کرتے ہیں، وہاں مقیم افراد زیادہ بہتر انداز میں بتا سکتے ہیں

    یہ کوئی لطیفے نہیں بلکہ تلخ حقائق ہیں. آج بھی کسی قبائلی سے پوچھ لیں، وہ آپ کو بتائےگا کہ ہمارے قمیض کے کالر کاٹ کر درختوں پر باندھے جاتے تھے کہ یہ یہودیانہ لباس ہے تاکہ اور عبرت حاصل کریں.

    عرض یہ ہے کہ شریعت کسی ڈنڈے کا نام نہیں جو سر پر مارو اور نافذ ہوجائے بلکہ اس کے لیے سوچ بدلنی پڑتی ہے، اذہان تبدیل کروانے پڑتے ہیں۔ شریعت ایک ٹھوس اور عملی تحریک کا لائحہ عمل ہے، یہ انسانی زندگی پر عملا حکمرانی کے لیے آیا ہے. اور اس کے لیے شدید ضروری ہے کہ ایسا معاشرہ وجود میں آئے جو عقیدہ الوہیت کا نہ صرف دل و جان سے اقرار کرتا ہو بلکہ اس عقیدے پر تن من دھن قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو اور ایسا تبھی ممکن ہے جب معاشرے کو اس دین سے پوری طرح پوری تسلی کے ساتھ آگاہ کرکے آشنا کیا جائے.

    ہمارے پاس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی جماعت کی مثال سامنے ہے. صحابہ کرام کی قرآن مجید سے ایسی تربیت ہوئی کہ ایک حبشی غلام گرم ریت پر لٹائے جانے کے بعد بھی صرف اللہ احد اللہ احد ہی کہتا رہتا ہے۔ عرب جیسے جاہل معاشرے میں اسلامی تحریک پیدا کرنا اور پھر اس کے نتیجے میں ایسی حکومت بنانا جو عدل کا نظام دے، جو دنیا کی بہترین معاشرت کی مثال بنے، جس کے معاشی نظام کا کوئی ثانی نہ ہو، جس کی سیاست کسی بھی غیر اخلاقی مفاہمتوں سے بالکل پاک ہو، ایک انتہائی مشکل ترین کام تھا لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعلی ترین اخلاق اور صحابہ کرام کی تربیت ہی تھی کہ جس کا کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا تھا، وہ ہوا اور عرب تاریکیوں کو ایک پاکیزہ نور میں تبدیل کردیا. ایسے وقت میں جب اپنی قوم کے علاوہ دوسری قوم کے فرد کو مارنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایسی سوچ بنی تھی کہ اگر یہ میری قوم کا نہیں تو اس کو زندہ رہنے کا حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے، ایسے ہی وقت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی حالات میں بھی انسانیت کا درس دیا۔

    دیکھیے شریعت کی ذمہ داری صرف عقائد و اعمال میں انقلاب برپا کرنا نہیں بلکہ لوگوں کے طرز فکر اور انداز نظر کو بدل دینا اور حالات کے بارے میں ان کے زاویہ نگاہ میں بھی بنیادی تبدیلی پیدا کرنا ہے. کسی اسلام پسند شریعت پسند تنظیم یا تحریک کی کوششوں پر شک نہیں لیکن سوال تو اٹھتے رہیں گے. جس طرح سید قطب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کچھ مخلص خادمین اسلام بعجلت دین کے تمام مراحل طے کرنا چاہتے ہیں، وہاں وہ ان کو ایک نازک سوال سے دوچار کر رہی ہے کہ جس شریعت کو آپ نافذ کروانے نکلے ہیں، اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ اسے نافذ کرنے کی خاطر آپ نے اس پر کتنی ریسرچ کی ہے؟ کتنے مقالے اور مضامین تیار کر رکھے ہیں اور دراصل یہ سب اسلام پر ایک رکیک طنز ہے۔

    سب جانتے ہیں کہ جب جاہلی معاشرہ باقاعدہ اپنی جیتی جاگتی صورت میں موجود ہو تو اس کو مٹانے اور انسانوں کو از سر نو اپنے خالق حقیقی کے آستانے پر لاکھڑا کرنے کے لیے محض دعوتی نظریہ بےسود ہے بلکہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس جاہلی معاشرے کے مقابلے میں ایسے معاشرے کو لا کھڑا کروانا ہے جس کے اصول حیات بہت معتبر اور اس کا پورا ڈھانچہ ایسا ہو جس میں وہ کوتاہیاں موجود ہی نہ ہوں جو پہلے سے موجود جاہلی معاشرے میں ہوتے ہیں۔

    اس معاشرے کو میدان میں اتارنے والی تحریک اس عزم کے ساتھ اترے کہ اس کی نظریاتی بنیادیں، انتظامی تدابیر، اجتماعی نظم اور تحریک کے کارکنان کے باہمی تعلقات اور پھر پوری امت کے ساتھ ان کے تعلقات ہر ہر پہلو میں جاہلی معاشرے سے قوی اور محکوم تر ہوں۔
    (جاری ہے)

  • افغاانستان، ایران اور بھارت کی مکروہ تکون – عمران زاہد

    افغاانستان، ایران اور بھارت کی مکروہ تکون – عمران زاہد

    عمران زاہد افغانستان، بھارت اور ایران کی بڑھتی ہوئی قربتیں ہمارے لیے انتہائی خوفناک منظرنامہ پیش کر رہی ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ ہمارے تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے، روزبروز تناؤ آتا جا رہا ہے۔ اشرف غنی، مودی اور روحانی تینوں اس اتحاد کو اسٹریجک شراکت داری سمجھتے ہیں۔ بھارت ایران میں چاہ بہار کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عسکری اور معاشی منصوبوں پر بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت اس اتحاد کو پاکستان کے تین اطراف سے گھیرنے کے منصوبے کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں معاشی نفوذ کے موقع کے طور پر بھی لے رہا ہے۔

    اس سارے منظر نامے میں ہم چین کے ساتھ پینگیں بڑھا کر ہر طرح کے خطرات سے نچنت ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہماری قیادت اس پیچیدہ بساط پر دشمنوں کے بیسیوں مہروں میں گھری صرف راہداری منصوبے کی توپ سے شہ مات کرنے کا سوچ رہی ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ جناب! معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں رہا۔
    ہماری حکومت نے برضا و رغبت ہمسائیوں کے باب میں خارجہ پالیسی کو عسکسری قیادت کو سونپ رکھا ہے۔ حکومت کی خارجہ معاملات میں عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ کوئی ڈھنگ کا وزیرِخارجہ تک تعینات نہیں کیا سکا۔ بہت سے خارجہ معاملات میں وزیرِ داخلہ کو بیان دینا پڑتا ہے۔ لیکن عسکری قیادت سے اس ضمن بہت زیادہ توقعات رکھنا بھی زیادتی ہوگی۔ عسکری ذہن کو حکم دینے یا حکم لینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ خارجہ امور کے داؤ پیچ سے عسکری ذہن کلیتاً نابلد ہوتا ہے۔ ماضی میں عسکری حوالوں سے جنرل ضیاءالحق شاید وہ شاذ مثال ہیں، جو خارجہ امور میں عدیم النظیر مہارت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔

    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے چار میں سے تین ہمسائے ہمارے خلاف محاذ بنا چکے ہیں اور ہمارا سارا انحصار چوتھے ہمسائے پر ہو چکا ہے۔ جو بجائے خود ایک خطرناک بات ہے۔ چین کی اپنی مجبوریاں اور مفادات ہیں۔ جہاں تک اس کے مفادات اجازت دیں گے وہ ہمارے ساتھ کھڑا رہے گا، لیکن اس سے زیادہ اس سے کوئی توقع رکھنا زیادتی ہوگی۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چین بتدریج بھارت سے بھی اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات کونئی جہتیں دے رہا ہے۔ بقول اکرم ذکی، پہلے ہند چین بھائی بھائی کا نعرہ مقبول ہوا تھا، اب ہند چین بائے بائے (Buy, Buy) کا نعرہ مقبول ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو ایک عظیم تر معاشی اکائی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں سالانہ باہمی تجارت 100 ارب ڈالر کا ہندسہ چھونے کو ہے، جبکہ ہمارے پاس لے دے کے بیالیس ارب ڈالر کا معاشی راہداری منصوبہ ہے، جس کی تکمیل میں کئی برس درکار ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سینکڑوں اربوں کا کاروبار اس راستے سے ہوگا۔

    چین کے بھارت کے ساتھ ہی نہیں، ایران کے ساتھ بھی گہرے معاشی تعلقات ہیں۔ 2015ء کے آخر میں چینی صدر نے ایران کے دورے کے دوران، اگلے دس سال میں باہمی تجارت کو 600 بلین ڈالر تک بڑھانے کے منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ علاوہ ازیں گوادر کے التوا کی صورت میں ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ چین کے لیے گوادر کا نعم البدل بن سکتا ہے۔
    :
    ان حالات میں پاکستان کو اپنے ہمسائیوں سے دوستانہ تعلقات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اور نہیں تو کم از کم اس مکروہ اتحاد کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے پاس تیل ہے، بھارت کے پاس سستی افرادی قوت ہے، ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم صرف ذہانت سے ہی اپنا رستہ بنا سکتے ہیں۔ سمارٹ موو ہی ہماری بقا اور کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے۔
    :
    افغانستان کا پاکستان سے محبت اور نفرت کا پیچیدہ رشتہ ہے۔ افغان جہاد کے دنوں میں خاد پاکستان میں دھماکے کرواتی تھی۔ اس کے بعد جب موقع آیا کہ ہم اپنی دوست حکومت قائم کروا لیں، ہم نے امریکی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مفلوج حکومت قائم کروائی، جس کا نتیجہ افغانستان میں خون خرابے اور باہمی مناقشوں کی صورت میں سامنے آیا۔ حتٰی کہ ہمیں ساری بساط الٹ کر نئی بساط بچھانی پڑی جس میں بادشاہ کا مہرہ طالبان کو بنایا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ہم نے اس بساط کو بھی الٹ دیا اور نئی بساط بچھائی جس میں بادشاہ کا عہدہ اپنے مخالفین کو بخشا۔ شاید ہمارے کارپرداز یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح سے مخالفتیں ختم ہو جائیں گی اور محبت کے زمزمے بہنا شروع ہو جائیں گے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ بہرحال ماضی سے آگے بڑھتے ہیں۔

    ابھی حالیہ دنوں میں افغانستان میں ایک مثبت پیش رفت گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی کا افغان حکومت سے معاہدہ ہے۔ پاکستان پندرہ سال پہلے اپنے دوستوں (طالبان) کی حکومت ختم کروا کے مخالفین کی حکومت قائم کروانے کا جو سیاسی گناہ کر چکا ہے، آج اس کے کفارے کا وقت ہے۔ گلبدین حکمت یار ہمیشہ پاکستان کے دوست رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی حکومت ہمیشہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں میں شامل رہی ہے۔ اپنے محسنین اور مہمانوں کو دشمن بنانا تو کوئی ہم سے سیکھے۔ پاکستان میں تیس لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ بہت سے یہیں رچ بس گئے ہیں۔ یہاں ان کے گھربار اور کاروبار موجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ پاکستان مہمان نوازی کے بعد جب پیٹھ پھیرنے پر آتا ہے تو اپنی مہمان نوازی پر ہی مٹی ڈال دیتا ہے۔ چند ماہ سے افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ یوں باور کرایا جا رہا ہے کہ گویا پاکستان کے سب مسائل کی وجہ یہ پناہ گزین ہیں۔ بخدا، اپنی نیکی کو ضائع مت کیجیے۔ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا ہی ہے تو دھکے تو مت دیجیے۔ عزت و احترام اور گفت و شنید سے اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں افغاستان میں اپنے دوستوں کو سیاسی عمل میں شامل کروا کے حکومتی حلقوں میں اپنا رسوخ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

    ایران کی پاکستان سے سردمہری کی وجوہات میں (سعودی ایران پراکسی وارکے پس منظر میں) پاکستان کا سعودیہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا، ان کی چاہ بہار کے مقابلے میں گوادر بندرگاہ اور معاشی راہداری کا منصوبہ بنانا اور ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کو التوا میں رکھنا شامل ہے۔

    پاکستان نے ایران اور سعودیہ کی پراکسی وار میں انتہائی محتاط موقف اپنایا ہے۔ حتٰی کہ یمن کے معاملے میں پاکستانی فوج سعودیہ بھیجنے سے انکار پر سعودی حکومت کو بھی دھچکا پہنچا۔ امارات کے وزیر نے تو برسرعام پاکستانی پالیسی پر تنفر کا اظہار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری کمزور سیاست کے سبب ہمیں ایران سے بھی اس پالیسی پر کوئی داد نہ مل سکی۔

    اب وقت ہے کہ ایران کو دیرینہ دوست اور ہمسایہ ہونے کی نسبت سے اعتماد میں لیا جائے۔ سعودی ایرانی کشمکش کو کم کروانے کے لیے ثالثی مہم شروع کی جائے۔ ایران بھی پاکستان کی معاشی راہداری میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کر چکا ہے۔ ایران سے پہلے وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ایران کی یہ خواہش پاکستان، چین اور ایران تینوں کے مفاد میں ہے۔ یہ تینوں فریقین کے لیے ایسی win-win صورتحال ہے کہ اس سے ایسی علاقائی معاشی اکائی وجود میں آئے گی جس سے ایران کے بہت سے مفادات بھی وابستہ ہوں گے۔ اس سے بھارت کے ایران پر بڑھتے ہوئے سائے یقیناً سمٹنا شروع ہو جائیں گے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد پاک بھارت ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ کسی استعماری طاقت کو اس سے تکلیف ہوتی ہے تو ہو، ہمیں اپنے مفادات میں قدم قدم آگے بڑھتے جانا چاہیے۔

    اس تکون کا تیسرا اور اہم ترین ملک بھارت ہے۔ ہمارا اختلاف قدیم ہے اور اس کے جلد حل ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اس سے دوستی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ دونوں ممالک میں کشمیر کا ایسا مسئلہ ہے کہ پاکستانی نقطہ نظر سے جس کا، بادی النظرمیں، جنگ کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس وقت تک جب تک ہم اس مسئلہ کو حتمی طور پر حل کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے، بھارت کو اس کے اندر ہی مصروف رکھنے کی پالیسی اپنانی پڑے گی۔ جب تک یہ پالیسی موجود تھی، پاکستان میں امن و شانتی تھی، پاکستان نے جب سے یہ پالیسی چھوڑی، پاکستان دہشت گردی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔

    پاکستانی قیادت سے گزارش ہے کہ وزارت خارجہ کو بےوزیر رکھنے کے بجائے صاحبزادہ یعقوب سا کوئی وزیرِ خارجہ تعینات فرمائیے۔ صاحبزادہ کے ساتھ کوئی ضیاء الحق کی سوجھ بوجھ والا حکمران بھی تو ہو۔ خیر، جو میسر ہے، اسی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ عسکری قیادت سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اس میں ارتکاز کی ضرورت ہے۔ خارجہ معاملات کو سیاسی حکومت کو سنبھالنے دیں۔ اگر یہ معاملات مکمل طور پر حکومت کے سر پر نہیں چھوڑے جا سکتے تو بھی دونوں قیادتوں کو مشورے اور میل ملاقاتوں کے ذریعے ایک صفحے پر آ جانا چاہیے ورنہ ہمارا دشمن اتنا بےرحم ہے کہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

    مکرر عرض کروں گا کہ مخالفین کے پاس وسائل ہیں، ہمارے پاس استعمال کرنے کے لیے صرف ذہانت بچی ہے۔ دل کھول کر اس خزانے کو استعمال کر لیجیے۔ کوئی بہت توپ ذہانت بھی درکار نہیں ہے۔ بس یہی ذہانت عامہ ہی کافی ہے۔

  • دیوارِپاکستان-محمد بلال غوری

    دیوارِپاکستان-محمد بلال غوری

    m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri

    جنرل رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہوئے تو پہلے دن آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر جانے کے بجائے افغان صدر اشرف غنی سے ملنے کابل چلے گئے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے افغان صدر کو بتایا کہ ہماری عسکری قیادت اس بات پر یکسو ہے کہ پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا فائدہ دہشتگرد اٹھا رہے ہیں،لہٰذا ماضی کی تلخیاں بھلا کر ایک نئے دور کا آغاز کرتے ہیں۔انہوں نے پیشکش کی کہ ہم نہ صرف افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے بلکہ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی ہو گی اور آئی ایس آئی جو رپورٹ اپنے آرمی چیف اور وزیراعظم کو بھیجتی ہے اس کی ایک کاپی افغان صدر کو بھی موصول ہوا کرے گی۔یہ ملاقات بہت مثبت اور خوش آئند رہی ۔اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے چند روز بعد افغان انٹیلی جنس (NDS)کے سربراہ نبیل رحمت اللہ پاکستان آئے تو خلاف روایت انہیں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرزکا دورہ کروایا گیا۔

    بات چیت کے دوران طے ہوا کہ اس اتفاق رائے کو ایک مفاہمتی یادداشت کی شکل دیدی جائے۔چنانچہ MOU پر دستخط ہو گئے ۔یہ کوئی ایسا عالمی معاہدہ نہ تھا جسے پارلیمنٹ میں لے جایا جاتا مگر اشرف غنی اس معاملے کو افغان پارلیمنٹ میں لے گئے،وہاں بھارت نواز ارکان پارلیمنٹ نے اس کی مخالفت کی اور یوں یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔مگر اس کے باوجود پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا گیا۔افغان قیادت نے خواہش ظاہر کی کہ چین کو بھی مذاکراتی عمل میں شریک کیا جائے جبکہ پاکستانی حکام نے گزارش کی کہ جب تک بات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو ،میڈیا کو اس کی بھنک نہ پڑنے دی جائے۔لیکن چند روز بعد ہی ایک امریکی اخبار نے صدارتی محل کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع کر دی۔خبر نکل جانے پر کچھ دن کی تاخیر تو ہوئی مگر بات چیت کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔آخر کار اُرمچی (Urumqi)میں مذاکرات کا پہلا رائونڈ ہوا جس میں امریکی حکام نے آخری وقت پر شرکت سے انکار کر دیا۔اس میں طے پایا کہ بات چیت کا عمل خفیہ نہ رکھا جائے اور مری میں آئندہ نشست کیلئے تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے۔

    مری میں ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ پہلے مرحلے میں کابل اور اس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل Peace Zone بنایا جائے جہاں مکمل طور پر جنگ بندی ہو، مذاکرات کا اگلا رائونڈ کابل میں ہو تاکہ افغانستان کی قسمت کے فیصلے افغان سرزمین پر ہی ہو سکیں۔ یہ عمل نہایت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ افغان حکام نے ملا عمر کی موت کی خبر جاری کر کے خود کش حملہ کر دیااور یوں سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا۔ افغان طالبان کی قیادت، افغان حکومت، امریکی حکام اور پاکستان کی فوجی قیادت سمیت سب کو مُلا عمر کی موت کا علم تھا مگر مصلحتا ً اس بات کو چھپایا گیا تھا لیکن اس موقع پر یہ اعلان کر کے خطے کا امن تباہ کر دیا گیا۔ افغان حکومت پر تو ناحق تہمت ہے، یہ خبر تو دراصل امریکی حکام نے جاری کی جن کا خیال تھا کہ طالبان سے مذاکرات کامیا ب ہو گئے تو ان کی یہاں موجودگی کا جواز نہیں رہے گا۔ افغان حکومت کی لاچارگی اور بے بسی کا تو یہ عالم ہے کہ کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض جب ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے تو وہ افغان صدر سے ملنے کابل گئے۔

    پروٹوکول آفیسر جس نے لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی اس سے گپ شپ ہوئی تو بے تکلفی سے کہنے لگا، اس صدارتی محل کا سالانہ خرچہ 50ملین ڈالر ہے جو امریکہ سے آتا ہے، اس کے علاوہ بھی بیشمار اخراجات ہیں۔ اگر آپ کا ملک یہ اخراجات اٹھا سکتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پانی میں مدھانی مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس کے بعد افغان این ڈی ایس اور بھارتی ’’راـ‘‘ کا گٹھ جوڑ ہوا تو پاک افغان تعلقات کشیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ پہلے طورخم بارڈر پر ’’بابِ پاکستان‘‘ کی تعمیر سرحدی جھڑپوں اور فائرنگ کے تبادلے کی بنیاد بنی اس کے بعد جب مودی کیخلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تو جواب آں غزل کے طور پر اسپین بولدک میں پاکستان کے خلاف مظاہرہ ہوا ۔افغانستان پر بھارتی اثرات ملاحظہ فرمائیں کہ مودی کے خلاف بلوچستان میں مظاہرے ہوئے تو مشرقی سرحد کے بجائے مغربی سرحد سے افغانیوں نے جواب دیا۔نہ صرف پاکستانی چیک پوسٹوں پر پتھرائو کیا گیا بلکہ پاکستانی پرچم بھی نذر آتش کیا گیا۔اس پر فوجی حکام نے چمن بارڈر سے متصل پاک افغان باب دوستی کو بند کر دیا اور 14دن بعد یہ دروازہ تب کھولا گیا جب افغان حکام نے معافی مانگی۔اس کے جواب میں دو روز قبل افغان صدارتی محل سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کی طرف جانے والی پاکستانی گاڑیوں کو افغانستان سے گزرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔بتایا گیا ہے کہ یہ پابندی چمن بارڈر بند کئے جانے کے ردعمل میں لگائی گئی ہے کیونکہ چمن بارڈر بند ہونے سے افغان میوہ جات کو واہگہ بارڈر سے افغانستان نہیں پہنچایا جا سکا اور تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑا۔اس سے پہلے افغان حکومت نے پاکستان سے گندم کی درآمد پر پابندی لگائی اور پھر قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال کو غیر قانونی قراردیا گیا۔

    دشنام تو یہ ہے کہ اس خطے میں پراکسی وار پاکستان نے متعارف کروائی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت کی پراکسی وار کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا تو اس کے بعد افغانستان سے دراندازی کا آغاز ہوگیا۔ 8فروری 1975ء کو پراکسی وار کے نتیجے میں وزیراعلیٰ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) حیات محمد خان شیر پائو قتل ہوگئے تو بھٹو نے تنگ آکر گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی کو پناہ دی اور افغانستان کو معلوم ہوا کہ پراکسی وار دوطرفہ تلوار جیسی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں تھا تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے حوالے سے بحث و تمحیص کے دوران وہاں سے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے دوٹوک انداز میں کہا، جس دن پاکستان نے افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ سمجھنا چھوڑ دیا، اس دن سب مسائل حل ہوجائیں گے۔

    تمسخر اڑانے اور پھبتیاں کسنے کی حد تک تو یہ بات کہی جاسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ جب تک ہم افغانستان کو بھارتی اور امریکی ریاست سمجھ کر دفاعی حکمت عملی ترتیب نہیں دیتے، اس وقت تک دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن نہیں۔ آئی جی فرنٹیئر کانسٹیبلری میجر جنرل شیر افگن نے بتایا کہ بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے ایف سی میں 45نئے ونگ بنانے کی تجویز ہے جس میں سے 23ونگ بارڈر پر تعینات کئے جائینگے۔ وزیراعظم نے 15نئے ونگ بنانے کی منظوری دیدی ہے۔ میں نے عرض کیا، افرادی قوت بڑھانے اور نئے ونگ بنانے کی افادیت اپنی جگہ لیکن جب تک پاک افغان بارڈر پر باڑ نہیں لگائی جاتی، دراندازی نہیں تھمے گی۔ آپ نے طورخم اور چمن بارڈر پر گیٹ تو تعمیرکر لئے لیکن دیوار کھڑی کئے بغیر دروازے بنانے کا کیا فائدہ؟ جس طرح چینی باشندوں نے جارحیت سے بچنے کیلئے دیوار چین تعمیر کی، اسی طرح ہمیں بھی پراکسی وار کی مہلک ترین یلغار سے بچنے کیلئے دیوار پاکستان بنانا ہو گی۔

  • علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان الرحمن رضی

    علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کے‌‌‌ لیے چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزارشریف کے سرحدی گائوں حیراتان کی خشک بندرگاہ پر پہنچی ہے۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ کل ہی بھارتیوں کے زیرانتظام افغان فوج کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ، ٹوئٹر کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ ایران کا افغانستان کے سرحد ی گائوں ’خاف‘ تک ریلوے لائن بچھانے کا کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور افغانستان کے عبداللہ عبداللہ نے چاہ بہار بندرگاہ کو جلد از جلد شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اور روس کے بعد اب ایران بھی افغانستان کے ساتھ براستہ ریلوے لائن منسلک ہو گیا ہے۔

    حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت خطے کے باقی ممالک، بشمول بھارت، افغانستان کے ساتھ کسی نہ کسی طور تیزی سے جُڑ رہے ہیں، انہوں نے افغان طالب علموں کے لیے تعلیمی وظائف کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی تکلف نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے جن سرحدی علاقوں نے قدرتی طور پر افغانوں کے لیے تعلیمی بیس کیمپ بننا تھا، وہاں ہم نے ایران کے زیراثر قبائل کو بسا کر، نہ ختم ہونے والی فرقہ ورانہ جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ افغانستان کی فوج کے افسران کی تربیت بھارت میں ہو رہی ہے، حالانکہ ہماری تو افغان پالیسی رہی ہی ہماری فوج کے ہاتھ میں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ پاکستان کے دینی مدارس سے چن چن کر نکالے گئے افغان طلبہ کو بھارتی مسلم دینی اداروں میں دھڑا دھڑ داخلے دیے جا رہے ہیں۔ جب افغانستان کے ساتھ مختلف مسائل کے باعث طورخم اور چمن کے بارڈر بند ہوتے ہیں تو ایران اپنے بارڈر کھول دیتا ہے اور بھارت ہوائی جہازوں کے ذریعے وہاں سے مال اور مسافر اٹھاتا ہے۔ ایسے میں میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر کچھ عناصرایسے بھی پیدا ہو گئے ہیں جو مسلسل افغان مہاجرین کے نام پر افغان قوم کو گالم گلوچ کر تے رہتے ہیں تاکہ گذشتہ چالیس سال کی میزبانی سے جو گڈ وِل افغانوں کی نوجوان نسل میں پیدا ہوئی ہے، اس کا بیڑہ غرق کیا جا سکے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کو پہچاننے اور قومی زندگی سے تلف کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ کسی مشرقی یا مغربی ہمسایہ ملک کے گھس بیٹھیے ایجنٹ تو نہیں؟

    یہاں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ ان دو مزید ریل رابطوں کے قائم ہونے سے قبل افغانستان تک ریل کے صرف دو ہی راستے ہوا کرتے تھے، ایک طورخم تک کا راستہ اور دوسرا چمن کا راستہ۔ ان دونوں راستوں پر ٹرین چلا کرتی تھی۔ لیکن جب مرحوم ضیاء الحق کے دور میں پاک فوج نے امریکیوں کو افغانستان کے لیے خدمات پیش کیں اور اشیاء کی نقل و حمل کے کاروبار میں چھلانگ لگائی تو بہانہ روس کے خلاف افغان جنگ کا بنایا اور پشاور سے طورخم اور کوئٹہ سے چمن کے ریلوے لائنوں کو سامان کی نقل و حمل کے لیے بالکل ہی ترک کردیا۔ حالاں کہ دنیا بھر میں ایسے ریل راستے جن پر مال گاڑیاں نہ دوڑیں وہاں ریلوے کا کاروبار ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوا کرتا ہے۔ اب صرف اس ریلوے پٹڑی کو زندہ رکھنے کے لیے پشاور سے لنڈی کوتل تک ایک ٹرین کبھی کبھار چلائی جاتی ہے یا شاید وہ بھی نہیں۔ پہلے اسے دونوں افغان جنگوں کا بہانہ بنا کر بند رکھا گیا اور اب تخریب کاری کا۔ اس کی بعض برانچ لائنوں کو یا تو مقامی افراد اکھاڑ کر لے گئے ہیں یا پھر ان کو ویسے ہی نئے منصوبوں کے تحت سڑکیں بناتے وقت انہیں زمین میں دفن کر دیا گیا ہے۔
    تاہم ہمیں ریلوے کے حکام نے بتایا ہے کہ کوئٹہ سے چمن تک ایک مسافر ٹرین روزانہ چلتی ہے جس میں مسافر کم اور (سمگلنگ کا) سامان زیادہ ہوتا ہے۔ اس ٹرین کو ایک نجی ٹھیکیدار چلاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں ٹکٹ کوئی نہیں خریدتا۔ ریلوے نے ایک آدھ دفعہ اسے بھی بند کرنے کی کوشش کی تو اس سے مستفید ہونے والے کوئٹہ کے پختون بپھر گئے کہ یہ تجارت (دراصل سمگلنگ ) کرنا ان کا قانونی اور نسلی حق ہے اور ایسا کرنے کا حق انہیں بھٹو مرحوم نے ایک تاریخی جلسے میں اعلان کرتے ہوئے دیا تھا جس میں انہوں نے اُس وقت کے افغان صدر کے گنجے سر پر ہل چلانے کی بڑھک لگائی تھی۔ بعد کی آنے والی حکومتوں نے عافیت اسی میں جانی کہ اسے نہ چھیڑا جائے اور اسے ایسے ہی چلتے رہنے دیا جائے۔ اگر طورخم اور چمن کی سرحدوں تک افغان راہداری تجارت کے کنٹینرز بذریعہ ریل بھجوائے جائیں تو پاکستان کی قومی شاہراہوں پر رش کم ہوگا بلکہ سمگلنگ کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی اور ان روٹس پر ریلوے بھی منافع بخش ادارہ بن جائے گا۔

    حکومتِ پاکستا ن کے مختلف عہدیداروں اور ہمارے فوجی اداروں کے مختلف ادوار کے رویوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ کابل میں پاکستان مخالف جذبات کیوں پائے جاتے ہیں۔ وہاں پر پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں اور ہمارا قومی پرچم جلانے والوں کی سیاسی و معاشرتی اوقات اتنی ہی ہو جتنی پشاور میں اے این پی کی یا پھر کوئٹہ میں ہزارہ کی۔ یعنی اقلیت ہونے کے باوجود ، انتہائی اہم عہدوں پر قابض ہونے کی وجہ سے انتہائی موثر! لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہم پہلے سے موجود زمینی اور نسلی رابطوں کو غیر موثر یا بند کرنے پر کیوں مُصر ہیں؟

    ویسے قیامِ پاکستان کے وقت جب ہمیں مغربی پاکستان کی ریلوے ملی تھی تو اس کے اُس وقت تک کے مجوزہ منصوبوں میں ریلوے کے رابطوں کو طورخم سے جلال آباد تک اور چمن سے قندھار تک بڑھانا شامل تھا۔ ریلوے کے ان رابطوں میں اس توسیع کے بغیر ہم ان روٹس سے کمائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ دنیا بھر میں ریلوے کو منافع میں چلانے کا ایک ہی اصول ہے یعنی مسافروں کے علاوہ صرف سامان کی نقل و حمل۔ دنیا میں ریلوے کے صرف وہی روٹس کامیاب مانے جاتے ہیں جن پر مال گاڑیاں چلائی جا رہی ہوں، صرف مسافر ڈھو کے کوئی بھی ریل چلانے والا ادارہ کبھی بھی منافع کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین شاہراہِ ریشم کے جن بھی راستوں پر ریلو ے کو بحال کر رہا ہے، وہاں پر وہ مسافر ٹرینوں کے بجائے مال گاڑیاں چلا رہا ہے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ ستر سال گذر گئے، ہم نے اس کے بالکل برعکس کیا ہے، مال گاڑیاں بند کی ہیں اور مسافر ٹرینیں چلائی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج بھی تمام تر دعووں کے باوجود ریلوے کا خسارہ چھتیس ارب روپے ہے اور اس بات پر خوش ہیں کہ کم از کم چل تو رہا ہے۔ یہ تو نہیں ہو رہا کہ زرداری دور کی طرح سولہ ارب روپے کا خسارہ بھی ہو اور کوئی ٹرین بھی وقت پر نہ چل پا رہی ہو؟

    اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ ہماری روڈ ٹرانسپورٹ میں اس قدر منافع بخش ہو گئی ہے کہ ترجیح یا تو منشیات سمگلنگ میں ہے یا پھر سڑک کی ٹرانسپورٹ میں۔ ایک ٹرک والا ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا کمی کے باعث چھ سے آٹھ ماہ میں اپنے ٹرک کی قیمت واپس وصول کر لیتا ہے۔ دنیا کے کس کاروبار میں ایسا ہوتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کے بھائیوں پر زمینوں کے کاروبار میں پیسے بنانے کے علاوہ ٹرکوں کے ذریعے افغانستان میں ایساف اور نیٹو افواج کو نقل و حمل کی خدمات پر پیسے کمانے کا الزام بھی ہے۔ اور وہ جو چند جرنیلوں کو’نشانِ عبرت‘ بنانے کے تاریخی واقعات میڈیا کے ذریعے قوم کے کانوں میں سے اتارے جا رہے ہیں، وہ بھی اسی ٹرانسپورٹ کے شعبے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔

    ایسے میں کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم افغانستان کے ساتھ کسی بھی ہمسایہ ملک یا اس کی کسی بھی پراکسی کے اثر سے نکل کر اپنی آزادانہ دوطرفہ تعلقات کی پالیسی کو ازسرِ نو تشکیل دیں؟

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (1) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (1) – مولوی روکڑا

    آج کل اگر کوئی دہشت گردی کی وجوہات پر سوال اٹھائے تو وہ ہمارے کچھ طبقوں کے لیے دہشت گرد سے کم نہیں ہے ! اور کوئی خاموشی سے اپنی زندگی گزار رہا ہو یا پھر دہشت گردی کے عوامل سے ہٹ کر کچھ دینی کام کر رہا ہو، اس کو بھی مشکوک نظروں سے دہشت گردوں کا سہولت کار وغیرہ سمجھا جاتا ہے. نائن الیون کے بعد تو دہشت گردی کا ٹھپہ جیسے ہر کسی نے اٹھا رکھا ہے اور جہاں کہیں کوئی داڑھی والا نظرآئے، اس کی کی توثیق دہشت گردی کی مہر سے کر دی جاتی ہے !

    کسی بھی ملک میں خاص طور اکیسویں صدی میں اٹھنے والی تحریکوں، انقلابات، جنگوں وغیرہ سے دوسرے ممالک کے تھنک ٹینکوں نے اپنے قومی مفاد کے ”پوائنٹ اف انٹرسٹ“ کو ضرور تلاش کیا ! اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف حیلے ہتھکنڈے استعمال کیے ! تاکہ اپنا مفاد پورا کیے جا سکے ! وسیع تر قومی مفاد، اکنامک انٹرسٹ! قدرتی وسائل تک رسائی، ہتھیاروں کی صنعت کا فروغ، دوسری قوموں پر برتری کا حصول! ان مفادات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے تاکہ اپنے مفاد کےلیے کھیلی جانے والی ”ڈرٹی گیمز“ کا جواز پیش کیا جا سکے!

    دوسرے ممالک کسی ملک میں اپنے مفاد تب ہی تلاش کر پاتے ہیں جب اس ملک کے اندرونی حالات خرابی کا شکار ہوں ! اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ کہ میں ابھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر جو بات کرنے جا رہا ہوں، اس میں ہمارا بحثیت قوم کتنا کردار ہے اور اس کے علاوہ ایسے کون کون سے فیکٹر ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں انتہاپسندی مذہبی اور لبرل طبقے میں گھر کر گئی!

    مفادات کا پس منظر!
    پاکستان بنتے ہی اسے سب سے پہلا زخم کشمیر کا لگا جب انڈیا نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کر دی! 1971ء میں ایک اور زخم بنگلہ دیش کی صورت میں لگا جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر پولیٹیکل اور اقتصادی زوال شروع ہوا اور ریاستی اداروں کی افادیت عوامی سطح پر ڈگمگانے لگی. کچھ ہی عرصۂ بعد سوویت افغان جنگ کا محاذ کھل گیا اور سوویت یونین کو افغانستان میں ہی روکنے کے لیے ریاستی ادارے سوچ بچار میں پڑ گئے، دوسرے ممالک نے بھی اپنا پوائنٹ آف انٹرسٹ تلاش کر لیا، امریکہ اس میں سرفہرست تھا. پاکستان جہاں افغان مزاحمت کو جہاں ریاستی سطح پر سپورٹ کیا، وہیں پاکستان سے انفرادی و تنظیمی قوت کو بھی تیار کیا گیا. اور اس انفرادی قوت کا حصول مذہبی طبقوں سے لیا گیا. لال مسجد جیسی مساجد اس وقت مجاہد بھرتی کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہیں اور ان کو مغرب اور امریکہ میں فریڈم فائٹر، مجاہدین جیسے لقب سے نوازا گیا. سنی مجاہدین کو پاکستان، سعودی عرب، امریکہ اور اتحادی سپورٹ کرتے تھے جبکہ شیعہ دھڑوں کو ایران اور اتحادیوں کی سپورٹ حاصل تھی. سوویت یونین کی افغانستان میں شکست بعد ان دھڑوں کو اسلحہ سے لیس اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا، امریکہ عمیت عالمی برادری اور اتحادیوں نے آنکھیں پھیر لیں.

    افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی ہوئی تو کشمیر نیا محاذ تھا، مجاہدین نے جس کا رخ کیا، حکومت و ریاست کی افغانستان جیسی اعلانیہ سپورٹ اور پالیسی تو یہاں میسر نہیں تھی مگر کسی نہ کسی سطح پر تائید و رضامندی اس میں شامل تھی، قوم نے یہاں بھی نہ صرف ساتھ دیا بلکہ شہروں سے گاؤں تک چندے بھی جمع ہوئے، اور پھر جو تنظیمیں سامنے آئیں، ان میں ہر وہ نوجوان شامل ہوا جو اپنے کشمیری بھائیوں بہنوں کے لیے دلی درد رکھتا تھا! مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوان اس میں نمایاں اور آگے تھے. اس وقت ہمارے لبرل طبقے کے نوجوان دوسری قوموں کو نقالی کرنا سیکھ رہے تھے. بہرحال یہ تنظیمیں انڈیا کے مدمقابل ایک مزاحمتی فورس کی صورت میں سامنے آئیں، اس کی 7 لاکھ فوج کو وہاں انگیج کر لیا.
    ( جاری ہے )

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • تربور-سلیم صافی

    تربور-سلیم صافی

    saleem safi

    ایسا ہر گز نہیں کہ وہ لوگ افغان دشمن ہیں جوپاکستان کی افغان پالیسی بناتے اور چلاتے ہیں اور اللہ گواہ ہے کہ مجھ جیسے طالب علم جو اس پالیسی کے ناقد ہیں، بھی بدنیت ہیں اور نہ پاکستان کے مفادات کے خلاف قول یا عمل کا سوچ سکتے ہیں ۔ وہ لوگ جو پاکستان کی روایتی افغان پالیسی کے بنانے والے ، چلانے والے یا پھر اس کے حامی ہیں ،حیران ہیں کہ افغانستان کے کسی قول یا عمل پر ہم جیسے لوگ اُس ردعمل کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے جو خود ان کی طرف سے سامنے آتا ہے اور ہم حیران ہیں کہ وہ لوگ افغانستان کی طرف سے کسی ایک بیان یا اقدام کے ردعمل میں اس انتہا تک کیوں چلے جاتے ہیں ۔

    پاکستان کے پالیسی ساز یا ان کے ہمنوا شک کرتے ہیں کہ خدانخواستہ ہم جیسے ناقدین کو پاکستان سے زیادہ افغانستان کے مفادات عزیز ہیں یا پھرخاکم بدہن پاکستان کے مفادات ہمیں ان جتنے عزیز نہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان کے پالیسی سازوں کے ناقدین کو شک ہونے لگا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسی پالیسی بنارہے ہیں جو افغانستان کے مفادات کے خلاف تو ہے ہی ، پاکستان کے مفادات سے بھی متصادم ہوتی جارہی ہے ۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں بحیثیت مجموعی کسی فریق کی نیت پر شک نہیں کرتا ۔ جس کسی نے بھی پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے اور جو اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے ، وہ کوئی بھی ہو ، میرے نزدیک ، محب وطن ہے ۔ الا یہ کہ اس کو کوئی عدالت غدار قرار نہ دے ۔ جہاں تک پاکستان کے اصل مختاروں اور پالیسی سازوں کا تعلق ہے تو ان کے ہر قدم سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی حب الوطنی شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔

    وہ لوگ عموماً غلط کام بھی کرتے ہیں تو پورے خلوص نیت کے ساتھ ، حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر ہی کرتے ہیں ۔ وہ نمک حرام اور ننگ انسانیت لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کہ جو جان بوجھ کر ، کسی ادارے یا ملک سے فائدے کی خاطر ، پاکستان یا افغانستان کے مفادات کے خلاف شعوری طور پر کسی قبیح قول یا فعل کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ گویا اصل مسئلہ نیتوں کا نہیں بلکہ اختلاف نظر کا ہے ۔ مسئلہ ، مسئلہ کی تشخیص کا ہے اور میرے نزدیک بنیادی غلطی پاکستان اور افغانستان کے رشتے کے تعین میں سرزد ہورہی ہے ۔ پاکستانی پالیسی ساز افغانستان کو برادر (بھائی) ملک بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ردعمل بھائی کی طرح نہیں آتا تو پھر وہ اسے دشمن سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ گویا ان کے نزدیک یہ رشتہ یا تو بھائیوں والاہوناچاہئے نہیں تو پھر دشمن والا ۔ حالانکہ جہاں تک میں سمجھا ہوں تو افغانستان اور پاکستان کا رشتہ بھائیوں والا ہے اور نہ دشمنوں والا ہے ۔ جو بھی اس رشتے کو راتوں رات بھائیوں والا رشتہ بنانے کی کوشش کرے گا ، ناکام ہوگا اور اسی طرح جو بھی ا س رشتے کو دشمنوں والا رشتہ سمجھے گا، نقصان اٹھائے گا ۔ میرے نزدیک یہ رشتہ ’’تربورولی‘‘ کا رشتہ ہے اور اس کو جو لفظ واضح کرتا ہے ، اسے پشتو زبان میں ’’تربور‘‘ کہتے ہیں ۔ پاکستانی پالیسی ساز اگر پاکستان اور افغانستان کے رشتے کو دو تربوروں کا رشتہ سمجھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو بہتری یقینی بنائی جاسکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ پھر وہ وقت بھی آجائے کہ یہ رشتہ تربوروں کے رشتے سے آگے بڑھ کر بھائیوں کے رشتے میں بدل جائے ۔

    ’’تربور‘‘ کا لفظ پشتو زبان میں فرسٹ کزن کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس رشتے سے جو تعلق جنم لیتا ہے اس کو ’’تربورولی ‘‘ کہتے ہیں ۔ یوں تو ہر قومیت کے ہاں فرسٹ کزن کا رشتہ کسی حد تک لواینڈ ہیٹ (Love and hate) قسم کے تعلق کا آئینہ دار ہوتا ہے لیکن افغانستان اور پاکستان کی پختون پٹی میں قبائلی کلچر اور اجتماعی ذمہ داری کے نظام کی وجہ سے اس کا بہت ہی خاص اور مخصوص مفہوم بن گیا ہے ۔ ’’تربورولی‘‘ کا لفظ عام زبان اور ادب میں ایک مخصوص قسم کے رشتے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور کسی بھی قریبی تعلق میں جب حسد کا عنصر آجاتا ہے تو اس کے لئے ’’تربورولی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اگر سگے بھائی بھی آپس میں لڑنے جھگڑنے لگیں تو ماں باپ ان کو ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تم کیا ایک دوسرے کے تربور بنے ہوئے ہو۔ فرسٹ کزنز کے مابین یہ مخصوص تعلق ایشیا کے دیگر علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن باقی علاقوں میں یہ ضروری نہیں کہ کزن کے جرم میں اس کے کزن کوسزا ملے تاہم افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کزن کی غلطی کی سزا اس کے کزن یا چچا کو بھی ملتی ہے ۔

    مثلاً مہمند ایجنسی میں اگر کسی معاملے سے میرا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے تو بھی اگر میرے کزن نے قتل کیا ہے تو مقتول کا بدلہ مجھے مار کر بھی لیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح سرکار اجتماعی ذمہ داری کے قانون کے تحت میرے کزن کے جرم میں میری جائیداد بھی ضبط کرتی ہے اور میرے گھر کو بھی مسمار کرتی ہے ۔ گویا اس علاقے میں گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر کزن کے دوست اور دشمن یا پھر حلیف اور حریف ایک ہوجاتے ہیں ۔ یوں وہ آپس میں جتنا بھی حسد کریں اور گھر کے اندر جتنا بھی لڑیں لیکن باہر ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔ گویا اس معاشرے میں عموماً ہر انسان سے سب سے زیادہ حسد کرنے والا اس کاتربور ہوتا ہے اور سب سے بڑا سہارا بھی وہی تربور ہوتا ہے۔ پھر جو تربور زندگی کی دوڑ میںپیچھے رہ جائے تو اس کی زبان سب سے زیادہ چلتی ہے اور وہ بات بات پر لڑنے جھگڑنے پر بھی آمادہ ہوتا ہے لیکن جب بھی معاملہ گھر سے باہر چلاجاتا ہے تو پھر وہ اپنے تربور کے ساتھ کھڑا رہنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ اسی طرح وہ اپنے تربور کو زیادہ خراب ہونے بھی نہیں دیتا کیونکہ آخری نتیجے پر تربور کا خراب ہونا اس کی اپنی کمزوری بھی بن جاتی ہے ۔ میرے نزدیک پاکستان اور افغانستان کے رشتے کو جو لفظ صحیح تناظر میں واضح کرتا ہے وہ فرسٹ کزن (تربور) کا رشتہ ہے ۔ ہم اگر یہ کہیں کہ افغانستان کبھی ہم سے اسی طرح راضی اور مطمئن ہوجائے گا

    جس طرح کہ چین ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوسکتا اور اگر یہ سوچیں کہ وہ ہندوستان جیسا دشمن بن جائے گا تو ایسا بھی کبھی نہیں ہوسکتا ۔ تاریخ نے یہی سبق دیا ہے ۔ مثلاً پاکستان کے ساتھ افغان حکومت کے تعلقات اس کے قیام سے کشیدہ رہے ۔ توتو، میں میں کا سلسلہ پہلے روز سے جاری رہا ۔ لیکن جب 1965ء کی جنگ ہوئی تو بھارت کا ساتھ دینے کی بجائے افغانی تربور نے پاکستانی تربور کو اطمینان دلایا کہ وہ اس کی طرف سے مطمئن رہے ۔ اسی طرح جب پاکستان اور بھارت کے مابین 1971ء جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا اور اس کے ہزاروں فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے تو افغانستان کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ جنگ یا دشمنی پر اتر آئے لیکن اس نے ایسا کرنے کی بجائے پاکستان کو اطمینان دلایا کہ وہ مغربی سرحد سے بے فکر رہے حالانکہ اس وقت کی افغان حکومت کے تعلقات پاکستان کے ساتھ موجودہ افغان حکومت کے مقابلے میں زیادہ خراب تھے ۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ جب پاکستان اور امریکہ کے مابین کشیدگی بڑھ گئی تو افغان صدر حامد کرزئی نے میرے ساتھ انٹرویو میں یہ اعلان کیا کہ اگر دونوں کی جنگ ہوئی تو وہ پاکستان کا ساتھ دیں گے وہ خود کئی حوالوں سے امریکہ کے محتاج تھے۔ اس انٹرویو کی وجہ سے امریکہ اور بھارت ان پر برہم ہوئے اور داخلی محاذ پر ان کے لئے شدید مشکلات پیدا ہوئیں لیکن چند ماہ بعد جب میں نے دوبارہ ان سے انٹرویو کیا تو وہ اپنی بات پر قائم تھے۔ ا س تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان سے نہ اس طرح کی توقع وابستہ کرنی چاہئے کہ وہ چین کی طرح کا دوست بن جائے لیکن اس کو بھارت جیسے دشمن یا حریفوں کی صف میں شامل کرنا بھی حماقت ہے۔ کچھ بھی ہوجائے ایک دائرے سے نکل کر دونوں تربوروں کے مفادات اور خدشات یا پھر دوست اور دشمن ایک ہوجاتے ہیں۔

    پاکستان چونکہ نسبتاً بڑا اور خوشحال تربور ہے ، اس لئے اسے بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ افغانستان جنگوں کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والا تربور ہے اور اس کا یہ بھی خیال ہے کہ اس پر جو برا وقت آیا ہے ، اس میں بڑے تربور کا بھی ہاتھ ہے ، اس لئے وہ کبھی شکوہ کرے گا، کبھی گالی دے گا اور کبھی ہماری طرف پتھر پھینکے گا ۔ کبھی غصہ نکالنے یا دلانے کے لئے بڑے تربور کے ہندوستان جیسے حریفوں سے راہ و رسم بڑھائے گا لیکن بڑے تربور کو چاہئے کہ وہ اس طرح کا رد عمل ظاہر نہ کرے جس طرح کہ بھارت جیسے دشمنوں کے معاملے میں کرتا ہے ۔ وہ اپنے اس پیچھے رہ جانے والے تربور کو سہارا دے تاکہ وہ اپنے گھر کو بناسکے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہوجائے ۔ دھیرے دھیرے ایک وقت وہ آسکتا ہے کہ یہ تربور بھی خوشحال اور خودمختار بن کر بھائی بن جائے لیکن اگر اس موقع پر اس کے ساتھ سختی کریں گے تو یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ تربور سے آگے بڑھ کر خاکم بدہن مکمل دشمن بن جائے۔

  • ہمارے افغان مہمان-عبدالقادر حسن

    ہمارے افغان مہمان-عبدالقادر حسن

    m-bathak.com-1421902610abdul-qadir-hassan

    صورت حال کچھ یوں ہے اور وہ اب کسی کے بس میں بھی نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات میں جا کر میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے سیاست دان اب سیاسی گرمجوشی سے زیادہ مارکٹائی پر اتر آئے ہیں اور ایک دوسرے کو اس کے گھر جا کر گڑبڑ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کوئی رائیونڈ مارچ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے تو کوئی کسی دوسرے کے گھر پر یلغار کا اعلان کر رہا ہے لیکن اصل بات جو ہر پاکستانی کے دل کو لگی ہے وہ ہمارے جرنیل راحیل شریف کی ہے جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم دوستی کرنا اور دشمنی کا قرض اتارنا دونوں جانتے ہیں۔ دشمن خبردار رہیں پاکستان ناقابل تسخیر ہے پاکستانی اپنے وطن عزیز کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور کرتے رہے ہیں، اس کی پوری دنیا اور خصوصاً ہمارے دشمن گواہ ہیں۔

    پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ملک ہے، اس کے نئے اور پرانے دشمن اسے پریشان کرنے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس ملک کی تشکیل کچھ اس انداز میں ہوئی ہے کہ جیسے اسے دشمنوں سے چھینا گیا ہے اور اس کے دشمن یہ سب خوب جانتے ہیں۔ بھارت سے پاکستان کی دشمنی اس کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ بھارت نہ صرف پاکستان کا ایک نظریاتی مخالف ہے اس کے وجود کو بھی برداشت نہیں کرتا اور اس کی تباہی میں اپنی زندگی سمجھتا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی سے اس کا ایک اور خوامخواہ دشمن بھی پیدا ہو گیا ہے جو افغانستان ہے۔

    افغانستان اور پاکستان کے تعلق کی تاریخ دشمنی کی نہیں۔ یہ دونوں ملک کاروباری ساتھی رہے ہیں۔ افغان قوم ایک مزدور قوم بن کر پاکستان سے دوستی کا دم بھرتی رہی۔ پاکستان میں تعمیرات کا کام ہو یا کوئی دوسرا تعمیری کام اس میں افغانستان کے لوگ مزدور بن کر کام کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے۔ پانی کی فراہمی کے لیے ہم نے گھر کے صحن میں ایک کنواں کھدوایا، چھوٹا کنواں جسے ہم کھوئی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے گاؤں میں مزدوری کرنے والے افغانوں نے کھودی تھی۔ ہم بچے اس کی کھدائی کا تماشا دیکھا کرتے تھے اور پھر اس میں سے پانی نکلتا بھی دیکھا جس نے نہ صرف ہمارے گھر کی بلکہ اڑوس پڑوس کی پانی کی ضروریات بھی پوری کر دیں اور ہمارے گاؤں کا ایک حصہ گھریلو پانی میں خودکفیل ہو گیا۔ اس سے پہلے قریب کے علاقے سے پانی مزدوری پر لایا جاتا تھا اور گھر کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ اب جب میں کراچی میں پانی بکتا دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے۔

    ہمارے گاؤں میں تعمیرات کے کئی دوسرے کام بھی افغان مزدور کرتے تھے۔ جو لوگ کنواں کھودنے کا کام کر سکتے تھے وہ کسی دیوار کو بھی کھڑا کر سکتے تھے اور اس پر چھت ڈال سکتے تھے۔ ہمارے ہاں افغان مزدور دن اور رات کا کھانا مانگ کر یعنی گداگری کر کے کھاتے تھے۔ وہ گاؤں کی کسی گلی میں اپنی چادر بچھا کر اس کے اوپر کھانے کا سامان رکھ دیتے تھے، پانی قریب کے گھر سے مانگ لیتے تھے اور اس طرح وہ ایک وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھا لیتے تھے۔

    اپنی مزدوری کا پورا سیزن وہ اسی طرح گزارتے تھے۔ جی بھر کر مزدوری کی، اس کا معاوضہ وصول کیا اور دو وقت کا کھانا گداگری کر کے یعنی مانگ کر حاصل کر لیا۔ اس طرح سیزن ختم ہونے پر وہ ان کے مطابق مزدوری کی ایک معقول رقم ساتھ لے گئے۔ وادی سون ایک نیم سرد علاقہ تھا اس لیے مزدوری کے لیے یہ ان کا پسندیدہ تھا۔ مناسب موسم، مناسب مزدوری اور دو وقت کا کھانا جو گاؤں والوں کے ’ذمے‘ تھا۔ اس طرح خان صاحبان ہمارے علاقے میں بہت خوش رہتے تھے اور تھوڑے دنوں کے لیے واپس جا کر جلدی ہی لوٹ آتے تھے۔ کسی کے پاس فروخت کے لیے پوستین بھی ہوتی تھی جو ایک معقول قیمت پر فروخت ہو جاتی تھی کیونکہ ہمارے ہاں بھی موسم قدرے سرد ہوا کرتا تھا۔ قیمتی اور نئی چیز ہونے کی وجہ سے پوستین خوشحال لوگوں کے فیشن میں بھی شامل ہو گئی تھی۔

    میں عرض یہ کر رہا ہوں کہ افغانستان سے آنے والے لوگوں کے لیے ہمارا علاقہ ایک پسندیدہ اور کارآمد علاقہ تھا جہاں ان کو مزدوری بھی ملتی اور پناہ بھی۔ پناہ کا تو کوئی سوال نہیں تھا کہ یہ ایک پرامن علاقہ تھا بلکہ بعض افغان تو ایسے بھی آ جاتے تھے جو اپنے ہاں کسی قانونی گرفت میں ہوا کرتے تھے جن کے واپس چلے جانے کے بعد پتہ چلتا کہ وہ قانون کے بھگوڑے تھے لیکن ہمارے علاقے کے لوگوں کو اگر کسی کے بارے میں پتہ چل بھی جاتا تو وہ مہمان ہونے کی وجہ سے بچ نکلتے۔ یوں ہمارا علاقہ افغانوں کے لیے ایک بہت ہی موزوں علاقہ تھا۔

    موسم مناسب، مزدوری عام اور کھانا مفت، کسی افغان کو اور کیا چاہیے۔ وہ تو جب وسطی ایشیاء میں حالات بدامنی کا شکار ہوئے تو یہ مزدور افغان بھی ان حالات سے بہت متاثر ہوئے اور پھر ان کی آمد رفتہ رفتہ کم ہو گئی اور اگر ہوتی بھی تو بچ بچا کر کیونکہ یہ لوگ ہمارے ہاں مشکوک ٹھہرے۔ خلاف معمول کچھ چوریاں بھی شروع ہو گئیں جو صرف مزدور افغانوں کے زمانے میں بالکل نہیں تھیں۔ وہ گاؤں کی مسجدوں میں قیام کرتے یا کسی زمیندار کے ڈیرے پر۔ مقامی آبادی ان مزدوروں کی وجہ سے خوش ہوتی تھی کہ جو کام وہ خود نہیں کرنا چاہتے تھے وہ کام یہ مزدور کر دیتے تھے۔ اس طرح افغان مزدور ہمارے ہاں پسند کیے جاتے تھے۔

    وہ ہماری ضرورت پوری کرتے اور ہم ان کی مزدوری کا سیزن نفع بخش بنا دیتے۔ اس طرح افغان مزدور ہمارے ہاں ایک مقبول لوگ تھے مگر اب حالات کی تبدیلی نے سب کو پریشان کر دیا ہے اور افغان مہمان نہیں کچھ اور بن گئے ہیں جس پر وہ خود بھی خوش نہیں ہیں۔