Tag: یونیورسٹی

  • جنسی ہوس، یونیورسٹیاں اور اساتذہ کا شرمناک کردار – فارینہ الماس

    جنسی ہوس، یونیورسٹیاں اور اساتذہ کا شرمناک کردار – فارینہ الماس

    کچھ دن پہلے جامعہ کراچی کی ایک طالبہ لیلیٰ رضا کا کسی سائٹ پر لکھا ایک بلاگ ”جامعہ کراچی میں جنسی ہراسانی پر مجرمانہ خاموشی“ نظروں سے گزرا. بہت ہی دلخراش حقیقت سے روشناس ہوئی۔ یہ ایک ایسے جرم کی داستان تھی جو عموماً معاشر ے کے کم فہم، جاہل، تربیت سے عاری اور معاشی بدحال طبقے سے جڑا ہوا ہی محسوس کیا جاتا ہے، اور جسے بربریت، بےحسی اور ہوس پر مبنی سنگدلی سے لتھڑی ایسی روحوں کی کارروائی گردانا جاتا ہے جو درندگی کے زہریلے کنوئیں کا بدبودار پانی پی کے نمو پاتی ہیں۔ ایسے میں تو شاید یہ سوچنا بھی محال ہی ہے کہ وہ طبقہ جو علم و ہنر اور شعور و آگاہی کے اوصاف سے فیض یاب ہو، جسے معاشرے کا ایسا نایاب اور قابل احترام طبقہ سمجھا جائے جو نسل انسانی کی روح سازی کا باعث ہے، جو ایک ایسے پیشے سے وابستہ ہو جسے پیغمبرانہ درجے کا حامل سمجھا جاتا ہو، اس میں سے بھی کچھ لوگ ایسے انسانیت سوز واقعات میں اس طور ملوث پائے جائیں گے کہ عقل انسانی تحیر کے عالم میں اپنے ہوش اور خرد کی انگلیاں کاٹ کھائے گی۔

    بظاہر تو یہ درسگاہوں میں اساتذہ کے طالبات سے روا رکھے جانے والے اخلاق سوز رویے کا کوئی نیا یا اچھوتا واقعہ نہ تھا، کیونکہ یونیورسٹیوں میں کچھ بہک جانے والے ایسے اساتذہ جو اپنے مقام سے گر کر علم اور فہم و فراست کے بھرم کی دھجیاں اتارتے ہیں، وقتاً فوقتاً ان کا چرچہ سننے کو مل ہی جاتا ہے۔ اس سے بھی کہیں زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جو شخصیت بقول اس طالبہ کے اس سنگین جرم میں ملوث پائی گئی، وہ ایک بہت ہی جانے پہچانے معمر ادیب اور دانشور کی تھی۔ وہ دانشور جسے اردو ادب کی دنیا میں عالمی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ایک نوجوان کولیگ کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی اور اس کی ایسی خباثت پر نہ صرف ادارے نے گہری خاموشی اختیار کی بلکہ ادارے کی تشکیل کردہ تحقیقی کمیٹی نے شکایت کرنے والی معلمہ کے ہی مجرم ہونے کا تاثر پیش کیا۔ کالم لکھنے والی طالبہ نے اس شخصیت کی طرف سے جامعہ کی طالبات پر دست درازی کی کوششوں کا بھی انکشاف کیا۔ شاید ہی کسی اہم شخصیت کے حوالے سے پہلے کبھی اس موضوع پر قلم اٹھانے کی کسی نے اتنی بے باک سعی و جرات کی ہواور اس غلاظتوں سے لتھڑے معاشرے کو اس طرح آئینہ دکھایا ہو۔ اسے پڑھ کر اک عجب عالم کرب کئی روز روح پر طاری رہا. ایسا بھی خیال بار بار دل میں آیا کہ یہ حقائق جھوٹ پر مبنی بھی ہو سکتے ہیں اور ضرور کہیں نہ کہیں سے ان کے جھوٹ اور فریب کی حقیقت آشکار کرنے کی سعی ضرور کی جائے گی لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی جانب سے اس بیان کی تردید یا توثیق کے لیے آواز نہ ابھری۔ شاید لوگ جنہیں قابل احترام سمجھتے ہیں، اور انہیں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، کبھی بھی ان بتوں پر کوئی خراش تک لانے پر آمادہ نہیں ہو پاتے۔ یا شاید ایسا بھی ہے کہ ہم ایسے واقعات کو اہمیت کا حامل ہی نہیں سمجھتے، گمان کچھ یوں بھی ہے کہ اپنے سے کمتر لوگوں کے کردار اور ان کی کرداری نفسیات پر بات کرنا تو ہمارا مشغلہ ہے لیکن بالاتر لوگوں کے خلاف کوئی بات کرنا ہم معیوب سمجھتے ہیں۔

    فہم انسانی کے مطابق ایک ایسا معاشرہ جہاں” تعلیم “ نہ ہو، وہ معاشرہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے لیکن وہ معاشرہ جہاں تعلیم تو ہو لیکن وہ روحانی و اخلاقی اقدار کی ”تربیت“ سے خالی ہو، جہاں استاد اپنے طالبعلم کے لیے رول ماڈل بننے کا اہل نہ ہو، محض حقائق و مفروضات کے اسباق رٹ کر ڈگری لے لینا ہی تعلیمی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جائے، وہ معاشرہ جلد ہی روحانی و اخلاقی طور پر گل سڑ جاتا ہے۔ معاشی ترقی، دھن دولت، بلند عمارات اور منافع بخش کمپنیاں تو پیدا کر سکتی ہے لیکن انسانی اخلاقیات کو اس کی معراج پر پہنچانے سے عاری رہتی ہے۔ ایسی خالی خولی ترقی نظروں کو بھانے والی چکاچوند تو دے سکتی ہے لیکن انسان کے دل و دماغ اور اس کی روح کو کبھی نہ مٹنے والی بھوک میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ایسی بھوک بلند پرواز کرگس تو پیدا کرسکتی ہے لیکن بلند خیال شاہین نہیں۔ قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بے روح نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ استاد بھی بے عمل ہونے لگے۔ کیوں کہ ایک گمراہ سیاستدان ، بیوروکریٹ یا ٹیکنوکریٹ تو ایک ادارے کو تباہ کرتا ہے لیکن ایک بےعمل استاد ایک پوری نسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ استاد کی پیدا کردہ کرپشن کی مثالیں تو اکثر دیکھنے میں آتی ہیں لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ استاد روحانی اور اخلاقی اقدار سے عاری ہوتا چلاجا رہا ہے۔ وہ جسے ایک نسل کا کردار اور اخلاق تعمیر کرنا ہے، جسے قدرت نے اصلاح معاشرہ کا پیغمبرانہ فریضہ سونپا ہے، جس کا پروفیشن اک عبادت کا درجہ رکھتا ہے، جس کی تربیت دنیا کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنا سکتی ہے اور دنیا کو جرائم کی دلدل سے نکالنے کی طاقت رکھتی ہے۔ وہ جو انسانی روحوں کو علم سے سیراب کر کے طمع، حرص اور ہوس پرستی سے دور لے جا سکتا ہے، وہ خود اخلاقی انحطاط کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتا جا رہا ہے۔ اور یہ انحطاط پورے عالمی معاشرے کی دکھتی رگ بنتا جا رہا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق برطانوی درسگاہوں میں بڑھتا یہ انحطاط حکومت کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت بنتا جا رہا ہے۔ 2013ء میں تقریباً 28 اساتذہ کو اس جرم کی پاداش میں ملازمت سے بر طرف کیا گیا۔ امریکی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق ہر پانچ امریکی عورتوں میں سے ایک عورت کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران جنسی طور پر ہراساں کی گئی۔ صدر باراک اوباما نے ایسے جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی ایسے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں لیکن 2009ء کا ایک ایسا دلخراش واقعہ عالمی توجہ کا باعث بنا جس میں احمد آباد کی ایک عدالت میں ایک مقامی کالج کے چھ اساتذہ پر اپنی طالبات کو گینگ ریپ کا شکار بناتے رہنے کا مقدمہ چلایا گیا۔ بعد ازاں یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ اس گینگ کو اس وقت کی صوبائی مودی سرکار کے ایک وزیر کی سرپرستی حاصل تھی۔

    اب پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی تعلیمی درسگاہیں ایسی وارداتوں سے مبرا نظر نہیں آتیں۔ ایسے واقعات یونیورسٹیوں میں مخلوط نظام تعلیم کے باعث وقتاً فوقتاً رونما ہونے لگے ہیں جن میں استاد محترم اپنی طالبات کو اسائنمنٹس کے سلسلے میں پہلے اپنے ذاتی دفتر میں حاضر ہونے کو کہتے ہیں اور پھر موقع پاتے ہی ان پر دست درازی کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ پہلے تو طالبات کو ادارے ہی کی سطح پر ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی طالبہ خاموشی اختیار کرنے پر آمادہ نہ ہو پائے اور بات میڈیا تک پہنچ جائے تو سربراہ ادارہ ایک فرضی سی کمیٹی کے قیام سے سب کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد اس کیس کو دبا دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اکثر کمال صفائی سے چھپا لیے جاتے ہیں تاکہ ادارے کو متوقع بے حرمتی سے بچایا جا سکے۔ ایسا ہی ایک دل آزار واقعہ ملک کی ایک مشہور اسلامی یونیورسٹی میں بھی رونما ہوچکا ہے، اور ملوث دینی سکالر کے خلاف محض اتنا ہی کیا گیا کہ ان کا تبادلہ کسی اور ادارے میں کردیا گیا۔ ایسا ہی ایک منفرد نوعیت کا واقعہ یوں بھی پیش آیا کہ ملک کی ایک اہم درسگاہ میں جب ایک ایسے ہی بےکردار استاد کو کسی تادیبی کارروائی سے بری کر دیا گیا تو طیش میں آکر طلبہ نے خود اسے مارپیٹ کا نشانہ بنایا اور اپنے بےقابو جذبات کو تشفی پہنچائی۔ یہ بھی ایک گھبیر اور تکلیف دہ المیہ ہے کہ اکثر خود والدین بھی اپنی بچیوں کو متوقع مضر اثرات اور معاشرہ کے ہاتھوں تماشہ بننے کے احتمال سے بچانے کےلیے چپ سادھ لیتے ہیں جس سے مجرم نہ صرف سزا سے بچ جاتے ہیں بلکہ جرم کے لیے ان میں مزید بلند حوصلگی پیدا ہوجاتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا فعل عام کیوں ہو رہا ہے؟ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے سلسلے میں مغربی تعلیمی ماڈل اپنا رکھا ہے، جس کا تعلق صرف کتابی علم کے حصول اور ڈگریوں والے پرزوں کی تیاری کی سی ہے اور دور دور تک ”تربیت“کا نام و نشان تک نہیں۔ اگر ہم اپنے قدیم ”اسلامی تعلیمی ماڈل“ کا مطالعہ کریں تو اس کا مقصد شاگرد کو محض حقائق کا علم دینا نہیں بلکہ شاگرد کو ایک باکردار، سچی اور با عمل زندگی گزارنے کے لیے تیار کرنا بھی تھا۔ اس میں استاد کو روحانی باپ کا رتبہ حاصل تھا، اور درس و تعلیم کو ایک پیغمبرانہ پیشہ سمجھ کر اپنایا جاتا۔ استاد اپنے شاگرد کو محض سبق یاد کرنے اور سنانے کی طرف ہی مائل نہ کرتا تھا بلکہ اس سبق کو اپنے کردار میں اپنانے اور نبھانے کی ترغیب بھی دیتا تھا۔ تعلیم کوخدا کے راستے کی طرف جانے والا وہ سفر سمجھا جاتا تھا جس کے راہی برابر طور پر معلم اور متعلم دونوں ہی تھے۔ بقول امام غزالی ”ایک استاد کے دل میں اپنے طالب علم کے لیے ہمیشہ ایسی ہی محبت اور شفقت ہونی چاہیے جیسی خود اس کے باپ کے دل میں اس کے لیے ہوتی ہے“. ان کا ماننا تھا کہ شاگرد کے لیے کتابوں سے بڑھ کر اس کے استاد کا کردار اہم ہوتا ہے، اس لیے استاد کا باعمل اور باکردار ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بھی مغربیت کا شکار ہیں۔ بڑے بڑے اداروں میں لڑکیاں سر عام مغربی لباس پہن کر آتی ہیں اور رات گئے اداروں کے کنسرٹس اور پارٹیوں میں اپنے ہم جماعت لڑکوں اور اساتذہ کی سنگت میں شریک ہوتی ہیں۔ آزاد خیالی کے نام پر استاد اور شاگرد کے ادب اور لحاظ کی تمام تر حدیں ختم کر دی گئی ہیں۔ دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ اس مقدس پیشے کو بہت سے ایسے افراد نے بھی اپنا رکھا ہے جو کسی بھی دوسرے پروفیشن میں جانے سے ناکام ہونے کی بنا پر ازراہ مجبوری اس پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ ایسے لوگ اس پیشے کے مرتبے اور تقدس کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور اپنے اندر کی فرسٹریشن کو نکالنے کے لیے اپنی طالبات سے دوستی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اور اس میں ناکامی انہیں ایسے حملوں پر مجبور کرتی ہے۔ مغربی نقطہ نظر کے حامی خواہ اس آزادیت اور مخلوط نظام کی حمایت میں کچھ بھی کہیں، وہ اس حقیقت سے گریز نہیں کر سکتے کہ طالبات کی ایسی بےحرمتی کسی دقیانوس خیال کی دین نہیں بلکہ حد سے بڑھی ہوئی اسی روشن خیالی کا کارنامہ ہے۔ ہمیں مغربی رویوں کی تقلید کے بجائے اپنے کلچر اور تمدن کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں معتدل اور باکردار رویوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایسے واقعات کا تدارک اسی طور ممکن ہے کہ ویمن یونیورسٹیوں کا زیادہ سے زیادہ قیام ممکن بنایا جائے، ایسے بزنس کالجز کا قیام بھی ممکن ہو جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ہی ملازمتیں دی جائیں۔ اداروں کے سربراہان کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے تمام تر اساتذہ کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں اور ان پر ایک خاص ضابطہ اخلاق لاگو کریں۔ اور سب سے بڑھ کر تعلیم کو تربیتی نظام سے جوڑا جائے تاکہ اچھی اور باکردار نسلیں تیار ہو سکیں۔ اور ایسے انسانیت سوز واقعات اور دلخراش انسانی رویوں سے بچائو ممکن ہو سکے۔

  • شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس وقت صحافت کے شعبے قائم ہیں، ہم اگر کسی دن طالب علموں کا ڈیٹا جمع کریں تو تعداد لاکھ تک ضرور پہنچ جائے گی گویا ملک میں ہر دو تین سال بعد لاکھ نئے ’’صحافی‘‘پیدا ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نوجوان واقعی صحافی ہیں؟  یہ دس کروڑ روپے کا سوال ہے!

    میرے پاس یونیورسٹیوں کے ٹورز آتے رہتے ہیں، مجھے شروع میں تیس چالیس طالب علموں کی میزبانی میں دقت ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے گھر میں بیس تیس لوگوں کی مہمان نوازی کا مستقل انتظام کر لیا یوں اب میرے پاس مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کے طالب علم آتے رہتے ہیں اور میں ان سے سیکھتا رہتا ہوں، میں نے ان چند ’’انٹریکشنز‘‘ کی بنیاد پر چند نتائج اخذ کیے ہیں، میں یہ نتائج یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شعبہ صحافت کے چیئرمینوں تک پہنچانا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے میری رائے کو صحافت کے ایک کارکن کا مشورہ سمجھ کر سنجیدگی سے لیا جائے، صحافت کے وہ طالب علم جو میڈیا انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی میری رائے کو سینئر کی تجویز سمجھ کر چند لمحوں کے لیے توجہ ضرور دیں مجھے یقین ہے، یہ توجہ ان کے کیریئر میں اہم کردار ادا کرے گی۔

    میں دس مختلف یونیورسٹیوں کے بارہ ٹورز کی خدمت کر چکا ہوں، یہ خدمت ایک ہولناک تجربہ تھی، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے زیادہ تر نوجوان کتاب سے دور ملے اور اگر کسی سے زندگی میں کتاب پڑھنے کی غلطی سرزد ہو چکی تھی تو وہ کتاب کے نام سے ناواقف نکلا اور اگر اسے کتاب کا نام یاد تھا تو مصنف کا نام اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا اور اگر اسے مصنف اور کتاب دونوں کے نام یاد تھے تو وہ موضوع اور کرداروں کے نام ضرور بھول چکا تھا، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے طالب علم اخبار سے بھی دور ملے اور یہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتے تھے۔

    میں ایک وفد سے دو گھنٹے گفتگو کرتا رہا آخر میں پتہ چلا، یہ مجھے کامران خان سمجھ رہے ہیں اور یہ میرے جیو چھوڑنے پر حیران ہیں، زیادہ تر طالب علموں کو یہ معلوم نہیں تھا، میرے کالم اور میرے شو کا نام کیا ہے، میں شروع میں اسے اپنی غیر مقبولیت سمجھتا رہا اور یہ سوچتا رہا لوگ اب مجھے پڑھ اور دیکھ نہیں رہے لیکن جب میں نے دوسرے صحافیوں اور دوسرے پروگراموں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا یہ انھیں بھی نہیں جانتے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

    مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی یہ لوگ صدر پاکستان، چاروں گورنرز، تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں، یہ لوگ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تعداد بھی نہیں جانتے، یہ آج بھی بل کلنٹن کو امریکا کا صدر اور ٹونی بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں، یہ عمران خان کے فین ہیں لیکن عمران خان نے کس کس حلقے سے الیکشن لڑا اور یہ قومی اسمبلی کی کس نشست سے ایوان کے رکن ہیں، ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔

    میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک نوجوان نے قذافی کا نام لیا اور میں نے اس سے قذافی کا پورا نام پوچھ لیا، وہ نہیں جانتا تھا، میں نے اس سے قذافی کے ملک کا نام پوچھا وہ بالکل نہیں جانتا تھا، میں نے صدام حسین اور حسنی مبارک کے بارے میں پوچھا، وہ ان دونوں سے بھی ناواقف تھا، میں نے باقی طالب علموں سے پوچھا وہ بھی نابلد تھے، آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے یہ نوجوان قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں بھی دو دو منٹ نہیں بول سکتے تھے۔

    یہ نہیں جانتے تھے مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہا جاتا تھا اور یہ نائین الیون کی تفصیل سے بھی واقف نہیں تھے، آپ کمال دیکھئے جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے مجھ سے آٹو گراف لیے باقی کلاس نے حیرت سے پوچھا ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ میں نے بتایا ’’آٹو گراف دے رہا ہوں‘‘ ان کا اگلا سوال تھا ’’آٹو گراف کیا ہوتا ہے‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، میں شروع میں طالب علموں کو اس جہالت کا ذمے دار سمجھتا تھا لیکن جب تحقیق کی تو پتہ چلا اس علمی گراوٹ کی ذمے دار یونیورسٹیاں اور صحافت کے شعبے ہیں۔

    یونیورسٹیاں طالب علموں کی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے رہیں، کتاب، فلم اور سفر سیکھنے کے تین بڑے ذرائع ہیں، یونیورسٹیاں ان تینوں کو حرف غلط کی طرح مٹا چکی ہیں، تقریریں، مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن علم پھیلانے کے بڑے ٹولز ہوتے ہیں، یونیورسٹیاں ان سے بھی فارغ ہو چکی ہیں، پیچھے صرف سلیبس بچتا ہے اور یہ بھی 70 سال پرانا ہے اور طالب علم اسے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے،یہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو اسٹیٹس کرواتے ہیں، رٹا لگاتے ہیں، امتحان دیتے ہیں اور باقی وقت موبائل فون چیٹنگ پر خرچ کر دیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔

    یہ چند خوفناک حقائق ہیں ،میں اب یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں، ہمارے وائس چانسلرز تھوڑی سی توجہ دے کر صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں، ہمارے تحریری اور زبانی الفاظ پھل کی طرح ہوتے ہیں اگر درخت نہیں ہو گا تو پھل بھی نہیں ہو گا، ہمارے طالب علموں کے دماغ خالی ہیں، اگر ان کے ذہن میں کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہ کیا بولیں گے، یہ کیا لکھیں گے لہٰذا یونیورسٹیاں اور شعبہ صحافت سب سے پہلے طالب علموں کی دماغی ٹینکیاں فل کرنے کا بندوبست کریں۔

    یہ ان کے ذہن کو درخت بنا دیں، پھل خود بخود آ جائے گا، آپ شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یں، ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر مشتمل ہو اور دوسرا انٹلیکچول ایجوکیشن پر مبنی ہو۔ 100 کتابوں، 50 فلموں اور 25 مقامات کی فہرستیں بنائیں، یہ تینوں صحافت کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار دے دی جائیں، کتابوں میں 50 کلاسیکل بکس، 25 دو سال کی بیسٹ سیلرز اور 25 تازہ ترین کتابیں شامل ہوں، یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علم دونوں کے لیے لازم ہوں۔

    فلموں میں 25 آل دی ٹائم فیورٹ،15 دس سال کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فلمیں اور باقی 10 اُس سال کی بہترین فلمیں ہوں جب کہ 25 مقامات میں قومی اسمبلی اور سینٹ، چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں، گورنر ہاؤس اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز، دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سفارتخانے، آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز، جی ایچ کیو، آئی جی آفسز اور میڈیا ہاؤسز شامل ہونے چاہئیں، آپ ان کے ساتھ ساتھ نائین الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ترین ناکام فوجی بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز کو بھی سلیبس میں شامل کر دیں۔

    یہ ایشوز طالب علموں کو ازبر ہونے چاہئیں، آپ ملک کے بیس بڑے ایشوز کو دو طالب علموں میں تقسیم کر دیں مثلاً دو طالب علموں کو بجلی کا بحران دے دیا جائے، دو کے حوالے گیس کا ایشو کر دیا جائے اور باقی دو دو میں پٹرول، پانی، سیلاب، دہشت گردی، صنعت، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹریفک، منشیات، انسانی اسمگلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، پراپرٹی مافیا، ٹیکس اصلاحات، آبادی کا پھیلاؤ، بے ہنری، سیاحت، ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور بے راہ روی جیسے ایشوز تقسیم کر دیے جائیں۔

    یہ طالب علم پورا سال ان ایشوز پر ریسرچ کرتے رہیں، یہ ہر ماہ دوسرے طالب علموں کو ان ایشوز پر ایک ایک گھنٹے کی پریذنٹیشن بھی دیں یوں یہ طالب علم ان ایشوز کے ایکسپرٹس بن جائیں گے اور باقی طالب علم ان کی پریذنٹیشن دیکھ اور سن کر ان ایشوز سے واقفیت پا لیں گے اور آپ طالب علموں کے لیے اخبار، ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی لازمی قرار دے دیں، طالب علموں کے گروپ بنائیں، ہر گروپ روزانہ دو اخبار پڑھے، ٹی وی کا کوئی ایک شو مسلسل فالو کرے اور کوئی ایک ریڈیو روزانہ سنے۔

    یہ گروپ ان دونوں اخبارات، اس شو اور اس ریڈیو کا ایکسپرٹ ہونا چاہیے، ان سے متعلق تمام انفارمیشن ان کی فنگر ٹپس پر ہونی چاہیے، یہ گروپ انٹرن شپ بھی ان ہی اداروں میں کرے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی بہت آسان ہے، آپ ڈیپارٹمنٹس کی کمپیوٹر لیبس فوراً بند کر دیں، ملک میں تھری جی اور فور جی آنے سے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس متروک ہو چکے ہیں، آپ اب کمپیوٹر لیبس پر بلاوجہ رقم خرچ کر رہے ہیں، ملک میں اب موبائل فون کمپیوٹر لیب ہیں، آپ ڈیپارٹمنٹس میں تگڑا وائی فائی لگائیں اور طالب علموں کو موبائل فون کے مثبت استعمال کی عادت ڈال دیں۔

    آپ ہر ماہ لاکھوں روپے بچا لیں گے، آپ طالب علموں کو بتائیں اخبار، ٹیلی ویژن، ریڈیو، کتابیں، فلمیں اور تحقیقی مواد یہ تمام چیزیں موبائل فون پر دستیاب ہیں، آپ یہ سہولتیں فون سے حاصل کرسکتے ہیں یوں یونیورسٹی کے پیسے بھی بچیں گے اور طالب علم پڑھ، سن، دیکھ اور سیکھ بھی لیں گے اور پیچھے رہ گئے صحافت کے طالب علم تو میرا مشورہ ہے آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام تجاویز کو تین سے ضرب دیں اور آج سے کام شروع کر دیں، میں آپ کو کامیابی کی گارنٹی دیتا ہوں، آپ ہم سب سے آگے نکل جائیں گے۔

  • مدارس کےساتھ جامعات کی اصلاح بھی – زاھد مغل

    مدارس کےساتھ جامعات کی اصلاح بھی – زاھد مغل

    20523_800084413418302_6421615929894229381_nطویل عرصہ سے ان صداؤں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ مدارس والے بچوں کو جدید تعلیم نہیں دیتے، انہیں جدید دنیا کے تقاضوں اور ذھن کا علم ہی نہیں ہوتا، یہ بچے آخر معاشرے کی باگ دوڑ کیسے سنبھال سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے یہاں کے دانشوران کے ساتھ ساتھ جدید تعلیمی اداروں کے منتظمین بھی اس امر پر نوحہ کناں ہوتے ہیں۔ اس میں تو بہرحال کوئی شک نہیں کہ ایسی باتیں حقیقت پسندانہ و مفید ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اہل مدارس ان کی طرف بالکلیہ توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ اہل مدارس میں اس حوالے سے نہ صرف احساس بڑھتا جارہا ہے بلکہ کچھ مدارس نے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کرنے کے عملی اقدامات بھی اٹھانا شروع کردیے ہیں۔ بہت سے مدارس میں اب انگریزی زبان، ٹیلی کام کی ضروری سوجھ بوجھ و سماجی علوم پڑھائے جارہے ہیں اور اہل مدارس یہ سب کچھ عوام کے ساتھ اپنے روابط کی بنا پر سرکاری مالی سرپرستی کے بغیر از خود کر رہے ہیں۔ تو یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔

    تصویر کے دوسرے رخ کو سامنے رکھتے ہوئے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل مدارس کو ہمہ وقت ایسے مفید مشورے دینے والے جدید تعلیمی اداروں کے یہ احباب اور ہمارے دانشوران اس بات پر غور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ جدید تعلیمی اداروں سے جن نسلوں کو ہم تیار کر رہے ہیں، آیا دین کی طرف ان کا لگاؤ کیسا بنتا ہے؟ ان احباب کو یہ فکر کتنی دفعہ اور کتنی شدت کے ساتھ دامن گیر ہوئی کہ ہماری جامعات میں سالہا سال علم حاصل کرکے فارغ ہونے والے بچوں اور بچیوں کو جو نصاب ہم پڑھاتے ہیں وہ نصاب ان کا اپنے دین کے ساتھ فکری و عملی ربط قائم کرنے میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ نیز ایسا تو نہیں کہ ان جامعات میں ہم انہیں جو فکر اور ماحول فراھم کررھے ھیں، آگے چل کر کہیں وہ انہیں دینی عقائد و اقدار ہی سے دور لے جائے؟ ھماری جامعات کے منتظمین اور دانشوران کبھی ان سوالوں پر بھی سنجیدگی سے سوچیں گے یا صرف اھل مدارس ہی کو مفت مشورے دینے سے کام چلایا جائے گا؟ یہ سوالات اس تناظر میں اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتے ہیں کہ ھمارے معاشرے کے بالائی طبقے سے رکھنے والے اور ذھین طلباء حصول علم کے لئے بالعموم انہی جامعات کا رخ کرتے ہیں نیز ان جامعات کو مکمل یا جزوی سرکاری سرپرستی بھی میسر ہے۔ ان سوالات کو نظر انداز کرنے کا مطلب گویا یہ ہے کہ ھمیں ملائی کے برباد ہونے کی تو فکر نہیں، البتہ چھاج سے مکھن حاصل کرنے پر سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔ تو کچھ توجہ دوسری طرف بھی کیجیے۔