Tag: یونیورسٹی

  • انجام گلستاں مختلف ہو گا-جاوید چوہدری

    انجام گلستاں مختلف ہو گا-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    سردار بہادر خان صدر ایوب خان کے بڑے بھائی تھے‘ وہ 1908ء میں پیدا ہوئے‘ علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی‘ مسلم لیگ میں شامل ہوئے‘ 1939ء میں سرحد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ 1942ء میں اسپیکر بن گئے‘ 1946ء میں خارجہ امور کے وزیر مملکت بنے‘ 1954ء تک تمام حکومتوں میں مختلف محکموں کے وفاقی وزیر رہے اور پھر بلوچستان کے چیف کمشنر بنا دیے گئے‘ وہ ایوب خان کے بڑے بھائی تھے لیکن وہ مارشل لاء اور ایوب حکومت دونوں کے خلاف تھے۔

    وہ 1962ء میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے اور اپنے بھائی فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے پرخچے اڑانے لگے‘ آپ نے اکثر یہ مصرع سنا ہو گا’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے‘انجامِ گلستاں کیا ہوگا‘‘ یہ مصرع پہلی مرتبہ سردار بہادر خان نے قومی اسمبلی میں پڑھا تھا‘ ان کا اشارہ صدر ایوب خان کی کابینہ کی طرف تھا‘ یہ مصرع اس وقت سے ہماری سیاست کا حصہ ہے‘ صدر ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب اور پوتے عمر ایوب بعد ازاں سردار بہادر خان کے حلقے سے الیکشن لڑتے رہے اور قومی اسمبلی کے رکن اور وزیر بنتے رہے‘ یہ حلقہ آج بھی ایوب خان فیملی کے پاس ہے۔

    سردار بہادر خان لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کے ادوار میں مواصلات کے وفاقی وزیر رہے‘ اس دور میں ٹی بی مہلک ترین مرض ہوتا تھا‘ ملک کے تمام شہروں میں ٹی بی کے ہزاروں مریض تھے چنانچہ حکومتیں ٹی بی کی علاج گاہیں بناتی رہتی تھیں‘ ٹی بی کی علاج گاہیں سینٹوریم کہلاتی ہیں‘ کوئٹہ اس زمانے میں ملک کا خوبصورت ترین شہر تھالیکن اس شہر میں کوئی سینٹوریم نہیں تھا‘ سردار بہادر خان نے سینٹوریم بنانے کا فیصلہ کیا‘ پاکستان ریلوے کا قلم دان اس وقت ان کے پاس تھا‘ کوئٹہ کے بروری روڈ پر ریلوے کی زمین تھی۔

    سردار بہادر خان نے وہ زمین سینٹوریم کے لیے وقف کر دی‘ یہ 1954ء میں چیف کمشنر بلوچستان بنے تو انھوں نے زمین کے اس خطے پر سینٹوریم بنا دیا‘ یہ سینٹوریم سردار بہادر خان کے نام سے منسوب ہوا اور تین دہائیوں تک کامیابی سے چلتا رہا لیکن پھر ملک میں ٹی بی کے مرض پر قابو پا لیا گیا اور یہ عمارت آہستہ آہستہ ناقابل استعمال اور متروک ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ 2004ء آ گیا‘ جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے‘ یہ کوئٹہ کے دورے پر گئے‘  بلوچستان کے لوگوں نے کوئٹہ میں خواتین کی یونیورسٹی کا مطالبہ کر دیا‘ جنرل مشرف نے یہ مطالبہ مان لیا‘ یونیورسٹی کے لیے جگہ تلاش کی گئی تو نظر سردار بہادر خان سینٹوریم پر آکر ٹھہر گئی‘ یہ عمارت خستہ حال اور متروک تھی‘ چھتیں ٹین کی تھیں۔

    دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور برآمدے اور کمرے ابتر حالت میں تھے لیکن بلوچستان کے لوگوں نے یہ عمارت اس حال میں بھی قبول کر لی‘ یہ لوگ ہر حال میں اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے یوں سردار بہادر خان سینٹوریم کا نام بدل گیا اور یہ سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی بن گئی‘ یہ ملک میں خواتین کی دوسری یونیورسٹی تھی‘ ملک میں اس وقت ڈیڑھ سو یونیورسٹیاں ہیں لیکن ان میں سردار بہادر خان یونیورسٹی جیسی کوئی درس گاہ نہیں‘ آپ بلوچستان کے محروم کلچر کو دیکھیں‘ قبائلی روایات کو ذہن میں لائیں‘ صوبے کی غربت‘ محرومی اور پسماندگی کا جائزہ لیں‘ آپ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے اور رقبے میں طویل ترین صوبے میں دہشت گردی کی وباء کو دیکھیں اور آپ پھر سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بچیوں کا عزم اور حوصلہ دیکھیں تو آپ ان بچیوں کے حوصلے‘ جذبے اور بہادری کی داد دینے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ ان کی جرأت کو سلام کریں گے۔

    مجھے 27 اکتوبر کو سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بہادر بچیوں سے ملاقات کا موقع ملا‘ میں یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے سیمینار میں بطور مہمان مدعو تھا‘ ڈاکٹر رخسانہ جبین یونیورسٹی کی وائس چانسلر ہیں‘ ان کی زندگی کے کئی برس اسلام آباد میں گزرے‘یہ قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھتی رہیں لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے محروم صوبے کی محروم بچیوں کی خدمت کے لیے کوئٹہ آ گئیں‘ یہ مضبوط اعصاب کی خاتون ہیں‘ یہ مشرقی خواتین کے برعکس فوری اور ٹھوس فیصلے کرتی ہیں‘ یہ مسائل میں الجھنے کے بجائے ان کا حل تلاش کرتی ہیں۔

    مجھے ان کی اس صلاحیت نے حیران کر دیا‘ وائس چانسلر کا آفس سینٹوریم کے آپریشن تھیٹر میں قائم ہے‘ آفس کی ایک دیوار پر ٹیلی ویژن اسکرین ہے اور اس اسکرین پر سیکیورٹی کیمروں کی لائیو فوٹیج چلتی رہتی ہے‘ڈاکٹر رخسانہ ہر منٹ بعد اس اسکرین کو دیکھتی رہتی ہیں‘ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا‘ 15جون 2013ء کو ایک خود کش حملہ آور خاتون یونیورسٹی کی بس میں سوار ہو گئی تھی‘بس جب طالبات سے بھر گئی تو حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا‘ خوفناک دھماکا ہوا‘ دھماکے میں 14بچیاں شہید اور22ز خمی ہو گئیں۔

    یہ کوئٹہ کی تاریخ کا خوفناک ترین واقعہ تھا‘ یونیورسٹی تین ماہ بند رہی‘ لوگوں کا خیال تھا یہ یونیورسٹی کبھی نہیں کھل سکے گی لیکن آپ بلوچستان کے لوگوں کا جذبہ اور ڈاکٹر رخسانہ جبین کی جرأت دیکھئے‘ خودکش حملے کے وقت یونیورسٹی میں 1500 طالبات زیر تعلیم تھیں لیکن آج یونیورسٹی میں سات ہزار بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں‘ بچیاں اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے بلوچستان سے کوئٹہ آتی ہیں‘ ہم لوگ جب سمینار کے لیے آڈیٹوریم کی طرف جا رہے تھے تو وہ مقام راستے میں آگیا جہاںجون 2013ء میں تعلیم کے جذبے کو خودکش حملے سے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی‘ ڈاکٹر رخسانہ جبین نے اس مقام کی نشاندہی کی‘ میرا دل بوجھل ہو گیا لیکن پھر چند لمحوں میں بچیوں کے حوصلے اور جرأت نے غم کی جگہ لے لی اور میں شہیدوں کو سلام کر کے آگے نکل گیا۔

    آپ یقینا سوچتے ہوں گے ان معصوم بچیوں نے دہشت گردوں کا کیا بگاڑا ہے‘ یہ ان پر کیوں حملے کر رہے ہیں‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ہزارہ کمیونٹی ہے‘ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے سات لاکھ لوگ آباد ہیں‘ یہ نسلاً منگول ہیں‘ یہ افغانستان اور ایران میں آٹھ سو سال سے مشکل زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ انیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار افغانستان سے نکلے اور کوئٹہ میں آباد ہونے لگے‘ یہ شیعہ مسلک سے وابستہ ہیں اور یہ اپنے مخصوص خدوخال‘ قد کاٹھ اور رنگت کی وجہ سے لاکھوں لوگوں میں پہچانے جاتے ہیں۔

    پاکستان کے چوتھے آرمی چیف جنرل موسیٰ خان ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ 1985ء میں بلوچستان کے گورنر بنے تو انھوں نے اپنی کمیونٹی کو خصوصی مراعات دیں‘ جنرل موسیٰ نے ہزارہ کمیونٹی کی عزت نفس کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا‘ یہ لوگ اس وقت دہشت گردوں کا خوفناک ٹارگٹ ہیں‘ یہ ہزار گنجی اور ہزارہ ٹاؤن میں بھی ٹارگٹ بنتے رہتے ہیں اور یہ جب زیارتوں کے لیے ایران جاتے ہیں تو بھی قافلے روک کر انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے‘ سردار بہادر خان یونیورسٹی میں ہزارہ کمیونٹی کی سیکڑوں بچیاں پڑھتی ہیں‘ یہ بچیاں بھی دہشت گردوں کا ٹارگٹ ہیں‘ دوسری وجہ بلوچستان ہے‘ بلوچستان طویل بحران کے بعد ٹریک پر آ رہا ہے‘ لوگ اپنی حالت بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘ وفاق کو بھی ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہو چکا ہے۔

    یہ بھی اب بلوچستان کے لوگوں کی مدد کر رہا ہے‘ فوج بھی بلوچستان کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے اور بلوچ سرداروں کے رویوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے‘ یہ تمام عناصر مل کر بلوچستان کے خشک درخت پر پھل لگا رہے ہیں‘ پاکستان کے دشمن بلوچستان اور پاکستان دونوں کی ترقی سے خوش نہیں ہیں‘ یہ لوگ یہ پھل اور درخت دونوں کو کاٹنا چاہتے ہیں اور خواتین کیونکہ آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں چنانچہ یہ ان پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں اور تیسری وجہ اقتصادی راہداری ہے۔ ’’سی پیک‘‘ حقیقتاً گیم چینجر ثابت ہو گا‘ یہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا‘ ہمارے دشمن ہمارے وجود میں یہ ہڈی نہیں دیکھنا چاہتے چنانچہ انھوں نے بلوچستان میں افراتفری کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔

    بھارت نے افغانستان میں باقاعدہ ٹریننگ کیمپ بنا رکھے ہیں‘ یہ بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے ہر سال چار سو ملین ڈالر خرچ کرتا ہے‘ یہ لوگ دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتے ہیں‘ انھیں اسلحہ اور رقم فراہم کرتے ہیں اور یہ ٹرینڈ لوگ بعد ازاں بلوچستان میں افراتفری پھیلاتے ہیں‘ بلوچستان کے لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں چنانچہ یہ دشمن کے ہر حملے کے بعد زیادہ جذبے‘ زیادہ جرأت اور زیادہ عزم کے ساتھ میدان میں کھڑے ہوجاتے ہیں‘ میں نے یہ عزم‘ یہ جرأت اور یہ جذبہ سردار بہادر خان یونیورسٹی کی ہر بچی کی آنکھ میں دیکھا‘ خصوصاً ہزارہ کمیونٹی کی بچیاں کسی بھی حال میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ وہ تبدیلی ہے جو اگر چلتی رہی تو وہ وقت دور نہیں رہے گا جب سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بچیاں اقتدار کی کسی شاخ پر اُلو نہیں بیٹھنے دیں گی اور اگر اُلو بیٹھ گئے تو بھی انجامِ گلستاں مختلف ہو گا‘ اس ملک کا آنے والا کل ہر لحاظ سے آج سے مختلف ہو گا۔

  • یونیورسٹی میں تدریس: اساتذہ کے لیے نئی جہتیں – حافظ محمد زبیر

    یونیورسٹی میں تدریس: اساتذہ کے لیے نئی جہتیں – حافظ محمد زبیر

    حافظ محمد زبیر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک یونیورسٹی کامسیٹس میں انجینئرنگ کے طلبہ کوگریجویشن لیول پر اسلامیات کا کورس پڑھاتا ہوں۔ کمپیوٹر سائنس، سافٹ ویئر انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ وغیرہ کے بچے عموما ہیومینٹیز کے کورسز مثلا اسلامیات، مطالعہ پاکستان، سوشیالوجی وغیرہ میں دلچسپی نہیں لیتے کہ انہوں نے اس میں ڈگری نہیں لینی ہے وغیرہ۔ اسی لیے ان مضامین کے اساتذہ اپنے طریقہ تدریس میں نئی نئی جہتیں سامنے لاتے رہتے ہیں۔

    ہر کورس میں چار اسائنمنٹس ہوتی ہیں اور ان اسائنمنٹس کے ذریعے بچوں کی ہیومینیٹیز کے کورسز میں دلچسپی کافی بڑھائی جا سکتی ہے جبکہ ان میں کوئی نیا پہلو ہو۔ میں بچوں کو پہلی اسائنمنٹ یہ دیتا ہوں کہ وہ ایک موضوع پر فیس بک پیج بنائیں، اس کو دو ہفتوں کے لیے چلائیں، اس پر موضوع سے متعلق پوسٹیں لگائیں، اس پیج پر زیادہ سے زیادہ لائکس حاصل کرنے کےلیے اسے ایڈورٹائز کریں۔ پیج کے عنوانات اصلاحی نوعیت کے ہوتے ہیں جیسا کہ فیس بک ایڈکشن یا اسمارٹ فون ایڈکشن یا اسلام اور سائنس یا تقابل ادیان۔ بچے اس فیس بک پیج کی کلاس میں پریزینٹیشن بھی دیتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ اتنی پوسٹیں ہم نے لگائی ہیں، اتنے لائکس ملے، اوراتنا ریسپانس رہا وغیرہ۔ یہ گروپ اسائنمنٹ ہوتی ہے، جس میں تین سے چار بچوں کا ایک گروپ ہوتا ہے۔

    دوسری اسائنمنٹ، پاور پوائنٹ سلائیڈز کی دیتا ہوں کہ ایک موضوع پر بچوں نے پندرہ سے بیس سلائیڈز بنا کر لانی ہیں، اور موضوعات عموما ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں بچوں کی دلچسپی قائم رہے جیسا کہ اس دفعہ کے موضوعات میں اسلامک اسکولز، اسلامک یونیورسٹیز، اسلامک چینلز، اسلامک آن لائن لائبریریز، اسلامک سافٹ ویئرز، اسلامک ایپس، اسلامک آرٹ، اسلامک کارٹونز وغیرہ تھے۔ اور بچے یہ سلائیڈز بنا کر سلائیڈ شیئر نامی ویب سائٹ پر اپ لوڈ بھی کریں گے کہ جو سلائیڈز کا بہت بڑا ڈیٹا ہے جیسا کہ یوٹیوب ویڈیوز کا بہت بڑا ڈیٹا ہے تاکہ یہ سلائیڈز تعلیم اور اصلاح کا بھی ذریعہ بنیں۔ اور یہ بھی گروپ اسائنمنٹ ہوتی ہے۔

    تیسری اسائنمنٹ، پریکٹیکل نوعیت کی ہوتی ہے کہ جسے میں اسلامیات کی لیب کہتا ہوں۔ یہ اسائنمنٹ یہ ہوتی ہے کہ بچے پانچ دن تک لگاتار پانچ وقت کی نماز پڑھیں گے، بھلے جماعت سے نہ پڑھیں لیکن یہ کہ وقت پر پڑھیں گے تو پورے نمبر ملیں گے اور اگر نماز قضا ہوگی تو نصف نمبر ہوں گے اور بالکل ہی نہ پڑھیں گے تو زیرو نمبر ہوں گے۔ بچوں کے پاس چارٹ نما ورقہ ہوتا ہے کہ جس پر وہ ٹک مارک کرتے رہتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے سے بچے اس پریکٹس سے نماز پڑھنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ صرف فرض بھی پڑھ لیں تو میں اسے بھی کنسیڈر کر لیتا ہوں کہ فرض تو ادا ہوا۔ اور بہت سے بچے نماز میں ریگولر ہونے کی وجہ سے کلاس اور پڑھائی میں بھی ریگولر اور سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔

    چوتھی اسائنمنٹ بھی یا تو عملی ہوتی ہے کہ بچوں نے تین دن لگاتار پچاس روپے کسی غریب اور مسکین کو صدقہ کرنا ہے تاکہ بچوں میں غرباء سے ہمدردی اور ان پر خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہو یا پھر یہ کہ یونیورسٹی کے بچوں کی پڑھائی میں رکاوٹ بننے والے ذہنی، معاشی، معاشرتی مسائل وغیرہ پر اسائنمنٹ دے دی اور بچوں نے اپنے مسائل پر خود ہی گفتگو کی اور خود ہی سے اس کا حل بھی پیش کیا۔ اس طرح ٹیچر کے سامنے بعض ایسے مسائل بھی آ جاتے ہیں کہ جو اس کے ذہن میں بھی نہیں ہوتے لیکن وہ بچوں کی پڑھائی میں رکاوٹ بن رہے ہوتے ہیں۔

    کچھ دن پہلے ہی بچوں کی پریزینٹیشنز تھیں تو ایسے ہی ذہن میں آیا کہ بچوں کی کوئی اسائنمنٹ شیئر کر دوں، تو چار بچوں کے ایک گروپ نے اسلامک کارٹونز پر سلائیڈز تیار کی ہیں اور اس میں عبد الباری، برقعہ ایوینجرز، صلاح الدین، عبد اللہ، مصری بنچ جیسے پانچ کارٹونز سیرز کا تعارف کروایا ہے۔ یہ گریجویشن لیول کے کمپیوٹر سائنس کے بچوں کی محنت ہے، اس کی ضرور حوصلہ افزائی کریں اور ان سے ایم فل اور پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ کے اسٹوڈنٹس جیسے تحقیقی لیول کی امید نہ کریں۔ یہ پریزینٹیشن اس لنک پر موجود ہے:
    http://www.slideshare.net/hmzubair52/islamic-cartoons

  • ’جماعتی‘ بہناپا، جمعیتی مجاہدین اور یونیورسٹی کے لیلی مجنوں – عمار اقبال

    ’جماعتی‘ بہناپا، جمعیتی مجاہدین اور یونیورسٹی کے لیلی مجنوں – عمار اقبال

    عمار اقبال اگر تحریر پڑھتے ہوئی کسی کو غلطی سے یہ لگنے لگے، کہ کسی کے لکھے ہوئے یہ جملے ’’کسی‘‘ کے رد عمل میں لکھے گئے ہیں تو پہلے ہی جان لیجیے کہ یہ مغالطہ ’’ کسی‘‘ کی غلط فہمی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

    اولاً یہ کہ ٹھیٹ غیر سیاسی ہونے کے ناطے ہمارا ’’جماعتی مفکرین‘‘ یا ’’جمعیتی مجاہدین‘‘ سے کوئی بالواسطہ نظریاتی تعلق یا بلاواسطہ تحریکی رابطہ بالکل نہیں ہے۔ ثانیاً یہ کہ خاکسار نے کچھ ایسی کاہلانہ طبعیت پائی ہے کہ رد عمل تو دور کی بات، کئی کئی بار تو اہم مواقع اور نازک صورتحال پر عمل ہی سےگریز کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کے نتیجے میں خاکسار مصیبتوں کو گلے لگا چکا ہے۔

    بہر کیف تذکرہ ان لوگوں کا مقصود ہے جو جامعات میں آتے تو علم کے ہتھیار سے لیس ہو کر فاتح زمانہ بننے کی نیت سے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر کہ جن میں عشوہ، غمزہ اور ادا خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ’علم کو فروغ دو‘ کا نعرہ چھوڑ کر ’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ‘ کا راگ الاپتے ہوئے ’’دلوں‘‘ پر راج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یوں تودل جیتنے کی ان جنگوں کے سلسلے کے ایک ایک معرکے پر ہزاروں صفحات رقم ہو سکتے ہیں مگر سب سے گھسمان کا رن ناز ک انداموں کے دلوں پر ہلہ بولتے ہوئے پڑتا ہے۔ توپ و تفنگ سے لیس جوانان ملت کاری ضرب لگانے کے چکر میں دن رات کلاسز چھوڑ کر آسے پاسے چکر لگا رہے ہوتے ہیں اور دختران ملت نینیوں سے تیر چلا چلا کر کئی ایک کو بسمل اور ہزاروں کو بےجان کر دینے میں مصروف عمل ہوتی ہیں۔ یقین کیجیے بسا اوقات تو دیدہ جاناں کے یہ وار اس قدر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں کہ وہ ہونہار طالبعلم کہ جن کی لیاقت کے سبب ان کے پنڈ اور گاؤں میں ان سے امامت کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، تعلیمی سیشن کے اختتام پر ہاسٹل، یعنی اپنے ہی کوچے سے بڑے بے آبرو ہو کر نکلتے ہوئے ٹھندی آہ بھر کر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں
    چند تصویر بتاں، چند’’ میرے اپنے خطوط‘‘
    بجائے ڈگری کہ میرے روم سے یہ سامان نکلا

    کوئی بھی صاحب غالب مرحوم کی طرفداری کرنے سے قبل ان کے بارے میں ہماری رائے اچھی طرح سے سن اور سمجھ لیں کہ وہ ایک آزاد مرد تھے، اور اس ناطے ان کے اشعار میں مناسب اور حسب ضرورت بگاڑ پیدا کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حق تعالی ان کی ’’آزادیوں‘‘ اور ہماری من مانیوں، دونوں کی مغفرت فرما دینے پر قادر ہیں۔

    بات ہو رہی تھا یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم لیلی کی نسل اور قیس کے قبیل کی۔ اچھے خاصے وضع دار اور عزت دار گھرانے کے لونڈے سارا سارا دن نین مٹکا کرتے پھرنے کو معزز اور ڈیسنٹ ہونے کا سب سے بین ثبوت سمجھتے ہیں اور اچھی خاصی شریف زادیاں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی عملی تصویر بن کر گھومنے کو عین شرافت اور شرم و حیا کی دلیل سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ اور کئی بار تو چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کسی کا دل مفت میں بھی’’ کچھ کام کا نہیں‘‘ کہہ کر قبول نہ کرنے والی پاک دامن بیبیاں کسی اور کے دروازے پر منتوں سے نذرانہ دل پیش کرنے چلی گئیں۔ یہ ایسے کیسز ہیں کہ جن میں دل کو دل سے راہ تو ضرور ہوتی ہے، لیکن صرف ’’ِان‘‘ کے دل کو’’ اُن‘‘ کے دل سے۔ بیچ میں اگر کوئی اور دلِ ناکام اپنی حسرت ناتمام بیان کرنے لگ جائے تو مذکورہ خاتون کے اندر ’’اُن‘‘ کے کیس میں مر جانے والے شرم و حیا کے جرثومے اچانک زندہ ہو جاتے ہیں اور وہ بقول شخصے ’’نستعلیق‘‘ قسم کی گفتگو (علاقے کی نسبت سے پنجابی، سندھی ، پشتو یا کسی اور زبان میں) فرمانے لگ جاتی ہیں۔

    دلوں کی اس منڈی کے ان بیوپاریوں میں ایک قسم ان شاطر سوداگرنیوں کی بھی ہے جو ناپسندیدہ سودا بھی خریدنے سے واضح انکار نہیں کرتیں، بلکہ پسندیدہ سودا نہ ملنے کی صورت میں اسی پر اکتفا کرنے کی دور اندیشی کا ارادہ رکھنے کی وجہ سے مناسب وقت اور موقع آنے تک غریب تاجر کو ’’اپنے سینے میں ذرا اور اسے تھام ابھی‘‘ کی مسلسل تلقین کے ذریعے انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھتی ہیں۔ اس دوران اِن منتظرین اور اُن خواتین کے تعلقات کس نوعیت کے ہوتے ہیں وہ ڈیفائنڈ نہیں ہیں۔ بس’’ کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہار ا‘‘ کی ورد میں انتظار کے لمحے ختم ہوتے ہیں اور آخر میں مجنون ِ منتظر کو فرقت کا اذن دے کر ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر لیا جاتا ہے یا شرف قبولیت کی نوید سنا کر ہمیشہ کے لیے اپنا لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ مندر جہ بالا گفتگو کسی ایک خاتون کی کردار کشی کی کوشش نہیں بلکہ اس قبیل کی تمام تر شیریں صفت خواتین کے طریقہ ہائے واردات پر کیا جانے والا مفصل تبصرہ ہے۔

    اب گفتگو کا رخ ذرا شرافت اور شائستگی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ’’حضرات‘‘ کی طرف موڑ دیں تو ان کی اکثریت دل اور آنکھ دونوں سے کچی ہوتی ہے۔ ان کا صرف یہ عزم مصمم اور یہ ارادہ پختہ ہوتا ہے کہ کہیں سے کام چل جائے، کسی سے کام چل جائے۔ ان درویش صفت لوگوں کی اکثریت ’’تو من شدی من تو شدم‘‘ کا ورد، سیاق و سباق سے انتہائی غیر متعلق تناظر میں محض اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے کرتی نظر آتی ہے۔ یونیورسٹی لائف میں جن جن حسینائوں کے زلف کے یہ اسیر رہے، اور خصوصاً وہ جنہوں نے ان کا صیاد بننے کی پیشکش قبول کی ہوتی ہے، ان کا تعارف بہت عرصہ بعد کسی فنکشن میں ملاقات ہو جانے پر اپنی زوجہ محترمہ سے زمانہ طالب علمی کے ’دوست‘ کی حیثیت سے کراتے ہوئے یہ حضرات مسلسل زیر لب جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بیگم کی توجہ دوستی کی نوعیت کی طرف مرکوز نہ ہونے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ یقین مانیے درج بالا سطور میں ایک حرف بھی طنزیہ یا کسی پر چوٹ کرنے کے غرض سے نہیں لکھا گیا۔ مقصود تحریر محض یہ تھا کہ
    کسی کی پارسائی کے فسانے ہم سے سن لیتے
    اگر قصہ ہی سننا تھا زمانے ہم سے سن لیتے

    المختصر یہ کہ، عفت مآب خواتین و وضع دار حضرات کے باہمی تعاون سے پروان چڑھنے والا ’’پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر‘‘ کا سلسلہ نہ صرف یونیورسٹی کے ہر شعبے میں دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ اس کا رجحان روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے سد باب کی اشد ضرورت ہے۔ نہیں تو جامعات میں قائم ہونے والی غلط روایات کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ بھی رفتہ رفتہ اپنی اقدار اور اطوار سے دور ہوتا چلا جائے گا۔

    ویسے جماعتیوں پر صنف نازک کی طرف ملتفت ہونے کا دعوی کرنے والوں کی جگتیں سن کر مجھے اپنے ایک جماعتی دوست کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی شرافت کے نتیجے میں پھوٹنے والا ایک شگوفہ یاد آ رہا ہے۔ دوستوں کی محفل جمی تھی اور ہر ایک پر اس کی کسی نہ کسی حرکت کے حوالے سے کمرہ جماعت کی کسی نہ کسی خاتون کی طرف مائل ہونے کا الزام بڑے شد ومد سے لگ رہا تھا۔ لیکن ان جماعتی بھائی پر کہ جو چار سال تک کلاس کی حسین سے حسین اور مدقوق سے مدقوق قسم کی خاتون کو ایک ہی ترازو، یعنی ’’بہناپے‘‘ کے پیمانے پر ناپنے کے عادی رہے، کوئی کسی قسم کا مشکوک دعوی نہ کر سکا تو ان کو چھیڑنے کی یہ سبیل ٹھہری کہ یار حضرات نے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی کہ شادی کب کرنی ہے، کس سے کرنی ہے، اور کیسے کرنی ہے۔ شرماتے لجاتے ناظم صاحب، ازلی شرافت کے مارے یہ کہہ بیٹھے کہ ،’’جی بس! گھر والوں نے دو تین بہنوں کے گھر میں بات چلائی ہوئی ہے، دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‘‘

    اس جواب کے کچھ لمحے بعد موصوف مذکورہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، مگر تب تک محفل زعفران زار بن چکی تھی۔ اب اس مزاج کے لوگوں پر وصی شاہ کی بازاری شاعری کا سندیسہ بھیجنے کا الزام لگا دیا جائے تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
    اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

  • اپنا آپ کہیں ہم کھو نہ دیں – شکیلہ سبحان شیخ

    اپنا آپ کہیں ہم کھو نہ دیں – شکیلہ سبحان شیخ

     شکیلہ سبحان شیخنئے دور کی نئی باتیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں. ایک دور تھا جب کسی شخص کی عزت اس کی تعلیم، تہذیب، نظریات، خوش اخلاقی اور بلند خیالی کی وجہ سے کی جاتی تھی، چاہے وہ کوئی امیر ہو یا پھر غریب۔ وہ گھرانہ ہی اعلیٰ کہلاتا تھا جس کے پاس تعلیم، تہذیب اور رکھ رکھائو تھا۔ جبکہ آج کے دور میں معاشرے میں صرف ان لوگوں کی عزت کی جاتی ہے جن کے پاس پیسہ ہو یا پھر وہ منہ بنا بنا کر انگلش بولتے ہوں. یہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے. ہم نے اپنی تہذیب، اپنا کلچر اور اپنی زبان تو کہیں گم کر دی ہے.

    حال ہی میں ایک نجی یونیورسٹی میں ایک ورکشاپ میں جانا ہوا۔ یونیورسٹی جدید طرز کے مطابق بہت خوب صورت بنی ہوئی ہے، بڑے بڑے کلاس رومز، جدید کمپوٹر لیب، کینٹین، پلے گرائونڈ، اور بہترین اساتذہ جو دیار غیر سے فارغ التحصیل ہو کر آئے ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو ہر معلومات اور آگہی دے رہے ہیں مگر افسوس کہ اپنی تہذیب اور اپنی زبان کے علاوہ۔ اُس ورکشاپ میں بہت اچھی اچھی باتیں سکھائی جا رہی تھی،گفتگو اور طرز تکلم بھی سیکھا گیا لیکن تمام کی تمام انگریزی میں. اچھی بات ہے ہمیں دوسری زبان پر بھی عبور حا صل ہونا چاہیے لیکن اپنی مادری زبان کا کیا ہوگا؟ اس کو پس پشت پر ڈال کر مغربی زبان کو اہمیت دی جائے گی؟ ہم مغربی تہذیب میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ بس ممی، ڈیڈی، پاپا، مام ہی زبان سے نکلتا ہے، باباجانی، ابو، امی، اماں جیسے الفاظ کی مٹھاس تو کہیں گم کردی گئی ہے. زبان تو زبان، لباس بھی مغربی ہوتا جارہا ہے، اُس تعلیمی ادارے میں بیشتر ٹیچرز مغربی لباس میں ملبوس تھیں۔ کہتے ہیں استاد طالب علم کے لیے مثالی کردار ہوتے ہیں، سوچنے کی بات ہے جب استاد مغربی تہذیب کی پیروی کر رہے ہوں تو طالب علم کا کیا حال ہو گا. یہ صرف ایک ادارے کی بات نہیں ہے، تقریباً ہر پرائیویٹ یونیورسٹی اور کالج کا یہی حال ہے۔

    یونیورسٹی سے واپسی کے بعد دل مضطرب رہا اور سوچتی رہی کہ کیا ہم بے راہ روی کا شکار ہو تے جارہے ہیں؟ ہماری تہذیب جو خدا پرستی اور فکر آخرت کی اساس پر قائم ہے اور عفت و عصمت کے ستونوں پر کھڑی ہے، مغرب کی دنیا پرست اور آزاد تہذیب سے مغلوب ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ممکن ہے کہ ہم قوم پرستی کے جذبے سے مغرب کے خلاف کھڑے ہوں، مگر تہذیبی طور پر مغربی انداز فکر کو قبول کرچکے ہیں۔ آج معیارِ زندگی بلند کرنے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اور دنیاوی لذتوں اور تعیشات کو زندگی کا مقصد بنا لینے کا جو عمل شروع ہوگیا ہے، اس کے نتائج ہمارے کھوکھلے اخلاقی وجود کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ ہم دنیا بھر سے اسلام کے نام پر لڑتے ہیں، مگر انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنے سیرت و کردار میں وہ مثالی نمونہ پیش نہیں کرپاتے جو صحابہ کرام یا ان کے بعد بھی مسلمانوں کا شعار تھا۔ مثالی ہونا تو دور کی بات ہے ہم معمول کا وہ اخلاقی رویہ بھی پیش نہیں کرپاتے جس کی توقع بحیثیت ایک اچھے انسان سے کی جاسکتی ہے.

    آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھی جا رہی ہے کہ وہاں ’’ہم نصابی‘‘ لیکن درحقیقت غیر تعمیری سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں غیر نصابی پروگرامز اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جا رہی ہیں۔ سالانہ تقریبات، مقابلہ حسن، فیشن شوز، ملبوسات کی نمائش، کیٹ واک اور کبھی ڈانس مقابلوں کے عنوان سے پروگرامز کے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی، ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر جو وبا پھیل رہی ہے، وہ ہمارے معاشرے اور تمدن کودیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ’’ٹاپ ا سٹارز‘‘ بنائے جا رہے ہیں۔

    معاشرے اپنی تہذیب، تمدن اور ثفاقت سے پہچانے جاتے ہیں، سوچتی ہوں کہ ہمارا ملک کس تہذیب سے پہچانا جائے گا؟ کیا مغربی تہذیب سے؟ جبکہ یہ تو ایک اسلامی ملک ہے، ہماری اپنی تہذیب اور ثفاقت ہے، ہمارا اپنا لباس بہت خوب صورت ہے، پھر ہم کیوں اس کو ترک کر کے دوسروں کی پہچان اپنا رہے ہیں؟ یہ ہم کس راہ پر گامزن ہیں؟ کیا ہمارے ملک سے ہماری زبان، ثفاقت بلکل ختم ہو گئی ہے.

    اسی شام ایک بہت نفیس اورسادہ طبیعت کے مالک معروف کالم نگار و شاعریعقوب غزنوی صاحب سے روزنامہ امت کے دفتر میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ان کی گفتگو سے مستفید ہوئے تو دل کو سکون ملا کہ آج بھی ہمارے درمیان ایسی مثالی کردار موجود ہیں جن کی وجہ سے ہماری زبان اور تہذیب زندہ ہے. ان کا تعلیمی سفر کیسا تھا؟ انہوں نے لالٹین کی روشنی میں تختی پر لکھ لکھ کر وہ تعلیم حاصل کی تھی جو آج کی نسل ہر آسائش ہونے کے باوجود بھی حاصل نہیں کر سکتی، ان کی اچھی اچھی باتیں سن کر میں نے صبح و شام کا موزانہ کیا، صبح کیا سبق سیکھا اور شام میں کیا سیکھا؟ وہاں لبر ل لوگوں کی زبان سے قرآن کا ترجمہ سن کر کیسا لگا تھا اور ابھی ان سے اسلام کی تاریخ سن کر کیسا لگ رہا ہے۔ ہمیں یقوب غزنوی صاحب جیسے قلم اور زبان سے محبت کرنے والے لوگوں کو اپنا مثالی کردار بنانا چاہیے جنہوں نے اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے ہی بڑی جدوجہد سے کامیابی حاصل کی نہ کہ ان لوگوں کو اپنا مثالی کردار بنائیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مغرب میں گزرا اور وہی سے تعلیم حاصل کی اور آج وہ ہمارے ملک بھی مغربی تہذیب اور ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمیں مغرب کے بجائے اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب کواجاگر کرنا ہے! ہماری اپنی زبان جو مٹھاس، ہماری اپنی تہذیب میں جو آداب و شائستگی ہے، ہمارے اپنی ثقافت میں جو پاکیزگی ہے وہ مغرب میں نہیں۔

  • حیدرآباد میں یونیورسٹی کیوں ضروری ہے؟ راحیل قریشی

    حیدرآباد میں یونیورسٹی کیوں ضروری ہے؟ راحیل قریشی

    %d8%b1%d8%a7%d8%ad%db%8c%d9%84 تعلیمی ادارے بالخصوص یونیورسٹی معاشرے کا ایک اہم حصہ تصور کیے جاتے ہیں، معاشرے اور ریاست کے تمام اداروں کو یونیورسٹیاں ہی باصلاحیت افراد کار فراہم کرتی ہیں۔ یونیورسٹی کسی بھی شہر یا معاشرے کی بھرپور عکاس ہوتی ہے. کل کا کراچی دیکھنا ہو تو کراچی یونیورسٹی کا دورہ کرلیجیے، جو آج کراچی یونیورسٹی سوچتی ہے کل کو پورا کراچی سوچے گا اور عمل بھی کرے گا. پنجاب یونیورسٹی، لاہور اور پنجاب کے معاشرے کی واضح جھلک دیکھنے کے لیے کافی ہے. +سندھ کے مخصوص مزاج اور سیاسی و معاشرتی ماحول کو سندھ یونیورسٹی کا کیمپس بخوبی سمجھا سکتا ہے۔

    اس وقت پاکستان میں ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ کی فہرست کے مطابق سرکاری سیکٹر میں پچاس (50 ) سے زائد یونیورسٹیز اور دس (10) سے زائد ’’ڈگری ایوارڈنگ انسٹیٹیوٹس‘‘ ہیں۔ بڑے شہروں میں سرکاری سیکٹر میں جنرل یونیورسٹی ،زرعی یونیوسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج یا دیگر پروفیشنل تعلیمی ادارے موجود ہیں جو ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ و فاقی و صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، خضدار، ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، مانسہرہ، بہاولپور، کوہاٹ، اوتھل، جامشورو، نواب شاہ، خیرپور، ٹنڈو جام، لاڑکانہ، سکھر، ٹیکسلا، گجرات، دیر، ملاکنڈ، سرگودھا، اور گلگت میں جنرل یونیورسٹی، زرعی یونیوسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، یا دیگر پروفیشنل تعلیمی ادارے موجود ہیں جو کہ ان شہروں کی ضرورت بھی ہیں۔

    دنیا بھر میں جب بھی بڑے شہروں کی بات کی جاتی ہے تو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی و موجودگی سے شہر کے بڑے پن کا تعین کیا جاتا ہے، بڑے شہروں کی خصوصیات اور خوبیوں میں بڑے ہسپتال، ہائیکورٹ، پارک، تفریحی مقامات، ہوٹل، معروف اور انٹرنیشنل فوڈ چین اور انٹرنیشنل برانڈ کی مصنوعات کے آؤٹ لیٹس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی موجودگی بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔

    حیدرآباد پاکستان کے دس بڑے شہروں میں شامل ہے لیکن سرکاری سیکٹر میں جنرل یونیورسٹی، زرعی یونیوسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، ڈگری ایوارڈنگ انسٹیٹیوٹس یا کوئی اور پروفیشنل تعلیمی ادارہ موجود نہیں۔ ممکن ہے یہ کوئی بہت بڑی بات نہ ہو لیکن جب بات اکیسویں صدی میں داخلے اور بلند و بانگ خواہشات اور دعوؤں کی ہو تو اس موضوع کی اہمیت اور سنگینی سامنے آجاتی ہے۔ حیدرآباد میں جنرل یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کی عدم موجودگی کا جو جواز پیش کیا جاتا ہے وہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حیدرآباد سے تقریبا 18 کلومیٹر فاصلے پر ضلع جامشورو میں تین یونیورسٹیز موجود ہیں۔ اگر جامشورو کی یونیورسٹیز میں حیدرآباد کے طلبہ کے لیے دیے گئے کوٹے کا جائزہ لیں تو حقیقت حال کچھ اس طرح سے ہے۔

    ٭ حیدرآ باد کی کل آبادی : تقریبا پچیس لاکھ
    ٭ ہر سال انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد تقریباً 30 ہزار سے زائد (یہ تعداد صرف حیدرآباد کی ہے جب کہ حیدرآباد تعلیمی بورڈ کے کُل طلبہ و طالبات کی تعداد الگ ہے)
    ٭ یونیورسٹی آف سندھ ہر ڈیپارٹمنٹ میں 4 تا 6 ایڈمشن
    ٭ مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی 85 ایڈمشن
    ٭ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی 37 M.B.B.S ایڈمشن اور 7 B.D.S. ایڈمشن

    کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کوٹہ آبادی کے تناسب سے مبنی بر انصاف ہے؟ اس کے علاوہ اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی آبادی اور اس کے تناسب سے یونیورسٹیز کی تعداد کا جائزہ لے لیا جائے تو پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے اور حیدرآباد کی آبادی کے لحاظ سے بھی مزید یونیورسٹیز کا قیام از حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں اگر پڑوسی ملک ایران کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ایران کی آبادی پاکستان کی آبادی کے نصف سے بھی کم ہے جبکہ ایران میں یونیورسٹیز کی تعدا د پاکستان کے مقابلے میں دگنی ہے ، اس لیے یہ دلیل صرف بچگانہ ذہن کی پیداوار ہے کہ
    ’’ چوں کہ جامشورو میں یونیورسٹیز موجود ہیں اس لیے حیدرآباد میں یونیورسٹیز کی ضرورت نہیں‘‘

    حیدرآباد پاکستان کے ان شہروں میں شامل تھا کہ جہاں چند سال پہلے ’’ہائیر ایجو کیشن کمیشن‘‘ (HEC ) نے وفاقی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تھا، ( یہ حیدرآباد کی پہلی یونیورسٹی ہوتی ) اور اس سلسلے میںHEC کے ذمہ داران نے حیدرآباد کا دورہ بھی کیا تھا. ضلعی حکومت حیدرآباد سے مختلف مواقع پر تفصیلی میٹنگ میں بھی اس پروجیکٹ پر تبادلۂ خیال کیا تھا اور ’’کوہسارگنجو ٹکّر‘‘ کے علاقے میں تین سو ایکڑ پر مشتمل اراضی کی HEC کو منتقلی کا فیصلہ بھی ہوچکا تھا لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا پر حیدرآباد انتظامیہ نے یونیورسٹی کے قیام کے لیے سنجیدہ رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور اس غیر سنجیدگی کی وجہ سے HEC نے بھی حیدرآباد میں پہلی یونیورسٹی کے قیام کا پروجیکٹ مؤخر کردیا جس کے ناخوشگوار اثرات بہت دیرپا ہوں گے۔

  • کیا فائدہ اٹائیں سٹائیں کا!-وسعت اللہ خان

    کیا فائدہ اٹائیں سٹائیں کا!-وسعت اللہ خان

    557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480

    گزشتہ ہفتے ٹائمز ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ دو ہزار سولہ جاری ہوئی جس میں تدریس ، نصابی معیار ، تعلیمی ماحول ، تحقیقی سہولتوں ، فنڈنگ وغیرہ کے اعتبار سے دنیا کی نو سو اسی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔اس فہرست میں سب سے زیادہ تعداد حسبِ توقع یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں کی ہے۔نمبر ون یونیورسٹی کا ٹائیٹل مسلسل تیرہ برس کی رینکنگ کے بعد امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کو منتقل ہوا ہے۔فہرست میں آخری رینکنگ یعنی نو سو اسی واں درجہ ایران کی یونیورسٹی آف زنجان کے حصے میں آیا ہے۔

    ٹائمز رینکنگ میں براعظم ایشیا کی دو سو نواسی یونیورسٹیوں نے جگہ پائی ہے ان میں سب سے زیادہ یونیورسٹیاں چین سے ( چھپن ) ہیں۔ براعظم ایشیا کے اڑتالیس میں سے چوبیس ممالک کی ایک بھی یونیورسٹی اس فہرست میں جگہ نہیں پا سکی۔ ٹاپ ہنڈرڈ میں ایشیا سے چین ، سنگاپور، جاپان، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا کی کچھ یونیورسٹیوں نے جگہ بنائی ہے جب کہ ٹاپ ٹو ہنڈرڈ میں تائیوان اور اسرائیل کا اضافہ ہوا ہے۔

    جنوبی ایشیا ( سارک ) میں اگرچہ دنیا کی پچیس فیصد آبادی بستی ہے۔مگر اس خطے سے صرف تین نام فہرست میں چمک رہے ہیں یعنی سری لنکا کی دو ، پاکستان کی سات اور بھارت کی اکتیس جامعات۔پاکستان کی کومسٹس ، نسٹ اور قائدِ اعظم یونیورسٹی  کی ورلڈ رینکنگ اگرچہ چھ سو سے آٹھ سو کے رینکنگ بریکٹ میں اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ، کراچی یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف لاہور کی رینکنگ آٹھ سو تا نو اسی یونیورسٹیوں کے بریکٹ میں ہے مگر اس نچلی رینکنگ کو بھی اس اعتبار سے غنیمت سمجھنا چاہیے کہ اس سے قبل پاکستان کی دو یا تین یونیورسٹیاں ایک ہزار عالمی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں جگہ پاتی تھیں۔ اس سال یہ تعداد سات تک پہنچ گئی ہے۔

    براعظم افریقہ سے جنوبی افریقہ واحد ملک ہے جس کی یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن ٹاپ ٹو ہنڈرڈ کی ورلڈ رینکنگ میں شامل ہو سکی ہے۔لیکن مجموعی طور پر جنوبی افریقہ کی جتنی یونیورسٹیاں ٹاپ نو سو اسی کی فہرست میں شامل ہیں ان کی تعداد باقی افریقی ممالک کی مجموعی رینکنگ سے بھی زیادہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرست گوری اقلیتی حکومت کے تحت جو نظامِ تعلیم اپنایا گیا تھا۔ کم ازکم اب بھی اس کی تنظیمی ، تدریسی و نصابی خوبیاں سیاہ فام اکثریتی حکومت نے برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

    اب اگر اس فہرست کا عالمِ اسلام کے مجموعی تعلیمی معیار کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو ماضی میں معروف ماہرِ تعلیم و سائنسداں ڈاکٹر عطا الرحمان بیسیوں مضامین میں اس موضوع پر سیر حاصل روشنی ڈال چکے ہیں۔اگر ٹائمز رینکنگ فہرست میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم او آئی سی کے ستاون رکن ممالک کو تلاش کیا جائے تو اکتالیس ممالک کا نام غائب ہے۔جو سولہ ممالک اس فہرست میں شامل ہیں ان میں ترکی (پندرہ (،ایران(گیارہ)،پاکستان (سات)، ملائیشیا ( چھ ) ، سعودی عرب ( چار ) ، مصر ( چار ) ، اردن (دو)، تیونس ( دو ) ، انڈونیشیا ( دو ) اورمراکش ، اومان ، متحدہ عرب امارات ، کویت ، نائجیریا ، گھانا ، یوگنڈا کی ایک ایک یونیورسٹی شامل ہے۔گویا او آئی سی کے رکن عالمِ اسلام کی صرف ساٹھ یونیورسٹیاں نو سو اسی اچھی عالمی یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ان میں سب سے معیاری سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی قرار پائی ہے جس کی رینکنگ دو سو ایک سے ڈھائی سو کے درمیان کے بریکٹ میں آتی ہے۔

    سب سے زیادہ ( پندرہ ) یونیورسٹوں کا تعلق ترکی سے ہے اور ان میں بھی بیشتر سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے مشہور ہیں۔گو ترکی ان معنوں میں مغربی ملک نہیں مگر مغرب کی سائنسی تعلیمی قربت کا ترک نظامِ تعلیم کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔ترکی کے بعد مسلمان ممالک میں معیارِ تعلیم کے اعتبار سے ایران ہے جس کی ٹائمز ورلڈ رینکنگ میں شامل گیارہ یونیورسٹیوں میں سے آٹھ کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہے۔

    مشرقِ وسطیٰ میں اگر کوئی ایک ملک ٹاپ ٹو ہنڈرڈ کی ورلڈ رینکنگ میں آ سکا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔مجموعی طور پر اسرائیل ( آبادی پچاسی لاکھ ) کی چھ یونیورسٹیاں ٹائمز رینکنگ میں ٹاپ ٹو ہنڈرڈ سے ٹاپ ایٹ ہنڈرڈ کے بریکٹ میں شامل ہیں۔

    سب سے متاثر کن معاملہ چین کا ہے۔بیس برس پہلے تک ایک درجن چینی یونیورسٹیاں بھی ٹاپ ایک ہزار کی ورلڈ رینکنگ میں جگہ حاصل نہیں کر پاتی تھیں مگر آج چین کی چھپن یونیورسٹیاں اس فہرست میں شامل ہیں۔ان میں سے تین ٹاپ ہنڈرڈ رینکنگ میں ہیں۔ کل ملا کے چھپن میں سے چھ چینی یونیورسٹیاں دنیا کی دو سو بہترین درسگاہوں میں جگہ بنا چکی ہیں۔

    بھارت کی آبادی ( ایک ارب تیس کروڑ ) کو دیکھتے ہوئے اس ملک کی صرف اکتیس یونیورسٹیوں کا ٹاپ ایک ہزار میں شامل ہونا حوصلہ افزا عمل دکھائی نہیں دیتا لیکن سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں معیاری تعلیمی اداروں کی گروتھ کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سال بہ سال اس رینکنگ میں اور اضافہ ہوتا جائے گا۔اس موقعے پر ہمیں بنگلہ دیش کو نہیں بھولنا چاہیے جہاں  بنیادی خواندگی کا تناسب اگرچہ نیپال اور پاکستان سے زیادہ ہے مگر وہاں کی ایک بھی یونیورسٹی ٹائمز کے ٹاپ ایک ہزار میں جگہ نہیں بنا پائی۔

    اس طرح کی رینکنگ سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو البتہ یہ سوچنے کا موقع ضرور ملتا ہے کہ دنیا میں اگرچہ دو سو سے زائد ممالک ہیں مگر ان میں سے صرف چھبیس ممالک ہی ایسے کیوں ہیں جہاں دنیا کی دو سو چوٹی کی درسگاہیں پائی جاتی ہیں۔اور ان چھبیس ممالک میں بھی امریکا ، کینیڈا ، روس ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت اٹھارہ مغربی اور صرف آٹھ غیر مغربی ممالک کیوں ہیں۔

    ہمیں مدرسے سے  یونیورسٹی تک ہوش سنبھالنے سے عالمِ سکرات میں مبتلا ہونے تک مسلسل بتایا جاتا ہے کہ اقرا ( پڑھ ) ، ربِ زدنی علما ( اے رب میرے علم میں اضافہ فرما ) ، علم حاصل کرو بھلے چین جانا پڑے ، تحصیلِ علم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔

    ہم اس پر بھی مستقل اینٹھے رہتے ہیں کہ سب سے پہلی یونیورسٹی ہمارے آبا و اجداد نے ہزار برس سے بھی پہلے تیونس میں بنائی  ، سب سے بڑی جامعہ الازہر تب بنی  جب یورپ کو تعلیم کی ت بھی نہیں معلوم تھی۔بغداد کے دارالحکمت میں اس قدر کتابیں تھیں کہ تاتاریوں نے انھیں جلایا تو دجلہ و فرات کا پانی ان کی راکھ سے کئی دن سیاہ رہا۔مغربی تہذیب ہی نہ ہوتی اگر مسلمان متروک یونانی علوم کا ترجمہ کرکے انھیں زندہ نہ کرتے۔اگر ابن سینا ، فارابی ، جابر بن حیان پیدا نہ ہوتا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

    کیا فائدہ دو ہزار سولہ میں اس اٹائیں سٹائیں کا۔کاش اغیار کو نیچا دکھانے اور سنہرے ماضی کی ڈھال بنانے کی لچھے داری میں جو توانائی نسل در نسل ضایع ہو رہی ہے اس سے آدھی توانائی اب بھی تعلیم میں لگ جائے تو کچھ بن جائے۔

    ’’ہم پچھلے ہزار سال سے تاریخ کے دستر خوان پے بیٹھے حرام خوری کر رہے ہیں’’(جون ایلیا)

  • یونیورسٹیاں اور مدارس ناکام کیوں ہیں؟ شہیر شجاع

    یونیورسٹیاں اور مدارس ناکام کیوں ہیں؟ شہیر شجاع

    پاکستان میں عصری و مذہبی جامعات سے ماسٹرز ڈگری لے کر ہر سال ہزاروں طلبہ معاشرے کا حصہ بنتے ہیں۔ ہر دو کے پاس ڈگری تو موجود ہوتی ہے مگر علم؟ نابود۔ چونکہ آج کا شعور اس نہج پر تخلیق پا چکا ہے کہ عصری جامعہ کا طالبعلم ڈگری حاصل ہی اس لیے کرتا ہے کہ کوئی اچھی نوکری ملے، سو وہ سڑک کی خاک چھاننی شروع کردیتا ہے۔ مسلسل ناکامی اس کی شخصیت پر برے اثرات مرتب کرتی ہے مگر بہرحال کہیں نہ کہیں وہ اپنی ابتداء کر ہی لیتا ہے ۔ سماج میں بہر حال ہر موڑ پر اس کے لیے اسپیس موجود ہے۔ اس کی شخصیت سماج میں ایک عام آدمی کی ہوتی ہے، اس لیے اس کے اچھے برے پر کوئی خاص رد عمل نہیں سامنے آتا، چہ جائیکہ وہ سماج کے لیے مشعل راہ کی حیثیت کا حامل ہو۔

    دوسری جانب دینی درسگاہ کا طالب علم جب درس نظامی کی ڈگری لے کر سماج کا حصہ بنتا ہے تو اس کے ماتھے پر مولوی کا لیبل لگ جاتا ہے۔ یہاں فرق یہ ہے کہ اس کا جو بھی دورانیہ ان درسگاہوں میں گزرا اس کا مقصد دنیا کمانا بالکل نہیں تھا۔ سو وہ جب درسگاہ سے باہر آتا ہے اور دنیا کا سامنا کرتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ روزی روٹی کا بندوبست تو کوئی نہیں۔ اگر وہ اپنی مقصدیت کو پاچکا ہے یعنی واقعتا علم اس میں موجود ہے تو اس کو اپنی راہ مل جاتی ہے اور ایسا شخص معاشرے کے لیے کارآمد بھی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ چند فیصد ہی ہوں گے۔ مگر اکثریت اس ماسٹرز ڈگری ہولڈر کی طرح ہوتی ہے جو ہاتھ میں ڈگری لے کر خاک چھاننے کی مشق پر نکل پڑتے ہیں۔ مولوی کے لیے یہ دہری مشقت ہوتی ہے کیونکہ سماج میں مولوی صرف دین سے جڑے کاموں کے لیے ہی منتخب ہے۔ سو وہ اپنی ڈگری کے بل بوتے پر کلرک بھی نہیں لگ سکتا۔ آخرکار سماج اسے اتنا مجبور کر دیتا ہے کہ وہ دانستہ نادانستہ ان راستوں پر نکل پڑتا ہے جو سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں۔ علم تو اس میں ہوتا نہیں مگر عالم کہلاتا ہے۔ چونکہ معاشرہ اسے نمائندہ دین تسلیم کرچکا ہے اسی لیے اس کا ہر عمل مذہب و مذہبی نمائندوں کی تقلید مانا جاتا ہے۔ اس طرح وہ پورے طبقے کی بدنامی کا سبب بنتا ہے، اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔ پس سماج کی اپنی تخلیق پر سماجی دانش اس رد و قدح کے ساتھ تنقید کرتی ہے جیسے خطا خالق کی نہیں مخلوق کی ہو۔ جب سماج نے خود مولوی کو ایک خطاب دے دیا اور اسے سماج میں تحلیل ہونے سے منع کردیا اور اسے مجبور کردیا کہ وہ اپنی حدود سے باہر نہ نکلے، تو اس کے پاس انہی حدود کو استعمال کرتے ہوئے اچھے برے کا اختیار رہ جاتا ہے ۔ پھر وہ اچھا کرتا ہے تو صرف نظر کیا جاتا ہے، برا کرتا ہے تو تمام کے لیے سزاوار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ سراسر منافقت زدہ سماجی دانش ہے۔

    چونکہ ریاست کے مقاصد میں نوجوان یا نئی نسل کی تربیت، ان کا شعور و بصیرت، موضوع ہی نہیں، ان کی ذہنی تربیت ہو یا فکری، ریاست کا درد سر ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری عصری جامعہ ہو یا دینی، ایک فیصد شاید کارآمد پروڈکٹ تیار ہوتی ہے، باقی سب دھول مٹی کی نذر ہوجاتا ہے۔ کوئی مذہب کو بدنام کرتا ہے تو کوئی وطن کو۔ کوئی معاشرتی برائیوں میں اپنا مستقبل تلاش کرلیتا ہے۔

    کیا لگتا ہے؟ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے تمام دہشت گرد صرف ایک ہی طبقے کے متعلقین ہیں؟ ایک جانب مولوی ( جسے جاہل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ عصری جامعہ کے اپنے ہم عصر کی کئی گنا زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے ) نے اس راہ میں پناہ ڈھونڈی تو دوسری جانب عصری جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ کبھی کسی مدرسے میں طلبہ نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہیں کیا مگر عصری جامعات میں یہ آئے دن کا معمول رہا ہے۔

    رواں زندگی کے کاروبار میں ہر لمحہ احساس شدت اختیار کرتا جاتا ہے کہ ہم نہایت ہی صریح اخلاقی زوال کا شکار ہیں. کوئی تو ایسا طبقہ ہو جو اس جانب متوجہ ہو؟ جس کا موضوع نوجوانوں کی اخلاقی تربیت ہو، سماجی پہلوئوں پر نگاہ کرتے ہوئے اجزائے ترکیبی کی ترتیب کا حوصلہ ہو، مگر ایسا کچھ نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے اذہان کو اس قدر شدت کی جانب مائل کردیا ہے کہ وہ اب سوچنے سمجھنے اور غور و فکر و تدبر کی جستجو سے ماورا ہوچکے ہیں۔ فوری ردعمل شعار ہوچکا ہے، سو ایسے میں تدبرکی وبا کیونکر پھیلے؟ رہی سہی کسر بےجا تنقید بلکہ اسے تنقیص کہنا چاہیے، نے پوری کردی ہے۔

    اگر واقعتا معاشرے پر تنقید یا اس کی تربیت آپ کا مقصود ہے تو آپ کا بیانیہ ہمہ جہت ہونا چاہیے، ورنہ آپ بھی بگاڑ کے ذمہ داروں میں شمار ہوں گے۔

  • تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے – ملک محمد سلمان

    تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے – ملک محمد سلمان

    سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی اکثریت کا تعلق مڈل کلاس گھرانوں سے ہوتا ہے جو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ مگر ان قسمت کے ماروں کو کیا خبر کہ سرکاری سکول کالجز میں مفت داخلہ تو مل جائے گا مگر کلاس میں باعزت بیٹھنے کے لیے دولت کی ہوس میں اندھے ہوئے’’ اکیڈمی مافیا اساتذہ‘‘ کے ٹیوشن سینٹر میں جانا ضروری ہے۔ ماسٹر صاحب کی نجی اکیڈمی نہ جانے والے طلبہ زیرِعتاب نظر آتے ہیں اوراس جرم کی پاداش میں مختلف بہانوں سے شدید ذہنی اذیت کا شکار کیا جاتا ہے۔ کمرہ جماعت میں جان بوجھ کے مشکل سوال پوچھے جاتے ہیں اور بورڈ یونیورسٹی کا داخلہ تک روکنے کی گھٹیا حرکات بھی کی جاتی ہیں۔ اکیڈمی نہ جانے کی سزا صرف کلاس تک محدود نہیں ہوتی بلکہ سائنس مضامین کے پریکٹیکل امتحان میں اکیڈمی مافیا کے ’’پیٹی بھائی‘‘ اکیڈمی نہ پڑھنے والے گستاخوں کوسبق سکھانے کے لیے جہاں سفارشیوں کو ڈھیروں نمبر بانٹتے نظر آتے ہیں وہیں سفارش نہ ہونے والے طلبہ کو سر عام ’’عملی امتحان‘‘ میں کم نمبر دینے کی بدیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    غریب آدمی کو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے اپنے پیٹ میں گرہ دینا پڑتی ہے۔ چپڑی روٹی کی جگہ سوکھی روٹی نگلنا پڑتی ہے۔ اپنی روزمرّہ کی ضروریات کو اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات پر قربان کرنا پڑتا ہے۔ اپنی بیماری کا علاج کروانے کے بجائے اپنے بچوں کواکیڈمی بھیجنا پڑتا ہے۔ ورنمنٹ درسگاہوں (سکول ،کالجز اور یونیورسٹی) سے مسلسل غیر حاضر رہنے والے اور نسبتاً کم دکھائی دینے والے بھگوڑے اساتذہ جو اول تو وقت سے سکول کالج پہنچتے ہی نہیں اور اگر چلے بھی جائیں تو بد دلی سے لیکچر دیتے ہیں۔ جبکہ وہی اساتذہ اپنی قائم کردہ پرائیویٹ اور نجی اکیڈمیز میں ہمہ وقت موجود اور جانفشانی کے ساتھ تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے نظر آتے ہیں، اور اپنی نجی اکیڈمیز کے لیے اشتہارات کے ذریعے بچوں کو سبز باغ دکھا تے ہیں۔ فیل ہونا بھول جائیں، پاس نہیں تو فیس واپس، صد فیصد کامیابی کی ضمانت وغیرہ وغیرہ۔ ان تعلیم فروش اساتذہ نے اپنی ٹھاٹھ باٹھ کو بڑھانے اور طلبہ پر اپنی ڈھاک بٹھانے کے لیے پرائمری، مڈل، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سے لے کر یونیورسٹی تک ہر امتحان میں اپنی ڈیوٹی بھی ضرور لگوانی ہوتی ہے۔ اپنے تعلقات کو استعمال میں لاتے ہوئے مارکنگ ڈیوٹی بھی لازم کرتے ہیں۔ ڈیوٹیوں سے بھرپور مالی فائدہ تو ہوتا ہی ہے، ساتھ میں اپنی نجی اکیڈمیز کے باہر مشہور زمانہ ڈائیلگ ’’پیپر سیٹنگ اور پیپر چیکنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے اساتذہ‘‘ لکھنے کاجواز بھی مل جاتا ہے۔

    ان امتحانی ڈیوٹیوں کی وجہ سے اسکولوں اور کالجوں میں نصاب مکمل نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے یہ نفع خور اساتذہ بچوں کو پرانے نوٹس،گائیڈبک اور شارٹ کٹ گیس پیپر کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔گورنمنٹ اساتذہ کو پیسہ کمانے کی ایسی لت لگی ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرلیتے ہیں۔ ہر سال پرائیویٹ بی ایس سی کرنے والوں کوگورنمنٹ کالجز سے عملی امتحان کے ہزاروں تصدیقی سرٹیفیکٹ دیے جاتے ہیں۔ جبکہ ان بچوں نے تو کبھی پریکٹیکل لیب تک نہیں دیکھی ہوتی مگر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے دوہزار سے لے کر پانچ ہزار فی سرٹیفیکیٹ کی لوٹ سیل لگائی ہوتی ہے۔ پانچ ہزار دے دو اور تصدیقی مہر ثبت کروالو۔ ایک طرف یہ عالم ہے کہ طلبہ کو گورنمنٹ کالج میں داخلہ نہیں مل رہا ہوتا تو دوسری طرف کالج پرنسپل کی دوسروں شہروں میں قائم اکیڈمیز میں پڑھنے والے طلبہ کالج دیکھے بنا ہی ریگولر داخلہ کے اہل ہوجاتے ہیں۔
    استاد تو روحانی باپ ہوا کرتا ہے، اگر باپ ہی اپنی اولاد سے دغا کرنے لگے تو پھر خیر کی امید کیونکر رکھی جاسکتی ہے۔ اساتذہ جو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کی غیر ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ وہ ان گھٹیا اور شرمناک افعال سے اپنے طلبہ پر انتہائی برے اثرات مرتب کر رہے ہیں، ان کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے دیانتداری، فرض شناسی اور حب الوطنی کی امید کیونکر کی جاسکتی ہے۔

    وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے تعلیم کی فروغ کےلیے لاکھوں ذہین طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے مگر میں حکام بالا کی توجہ اصل مسئلہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ جب تک سرکاری اساتذہ کی نجی تعلیمی ادروں میں تدریس پر عملی طور پر پابندی نہیں لگائی جاتی تب تک تعلیمی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ آئے دن افسران بالا کی طرف سے میڈیا میں پریس ریلیز جاری کر دی جاتی ہے کہ سرکاری اساتذہ کے نجی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس پر پابندی عائد ہے، خلاف ورزی کرنے والوں پر ’’پیڈاایکٹ‘‘ لگایا جائے گا۔ محکمہ تعلیم پریس ریلیز جاری کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتا ہے جبکہ گلی گلی، شہر شہر گورنمنٹ اساتذہ کی قائم کردہ نجی اکیڈمیز جہاں پر وہ پرنسپل، مینجنگ ڈائریکٹر اور سرپرست بن کر تعلیم فروشی کا دھندہ زوروں پر چلا رہے ہیں اور حکومتی دعووں کا منہ چرا رہے ہیں۔ اگر کوئی درخواست دے کر انکوائری لگوا لے تو’’مجاں مجاں دیاں پیناں ہوندیاں نے‘‘ کے مترداف محکمہ تعلیم سے ہی انکوائری آفیسر کلین چٹ جاری کر دیتا ہے۔ جناب سوال یہ ہے کہ باقی محکموں کی طرح’’ پیڈا ایکٹ‘‘ کی انکوائری عدلیہ یا کسی دوسرے غیرجانبدار ادارے سے کیوں نہیں کروائی جاتی؟ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بعد ازاں پتہ چلتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے انکوائری آفیسر تو خود با مشکل اپنی نجی اکیڈمی سے وقت نکال کے انکوائری کے لیے آئے تھے۔ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

  • رنگ بازی – عبدالرحمن قیصرانی

    رنگ بازی – عبدالرحمن قیصرانی

    ’’لالے کا جان یہ لو تمارا چائے‘‘
    بیرے نے چائے میرے سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ سفید چینی کی پِرچ میں نازک سی پیالی رکھی تھی۔ گرم چائے پیالی میں بہت خوش رنگ دکھائی دے رہی تھی۔ میرے سامنے والی کرسی پر ’رمضو‘ بیٹھا تھا۔ وہ مسلسل میرے عقب میں کسی چیز کو گھور رہا تھا۔ میں نے اُسے پہلے کبھی وہاں نہیں دیکھا تھا۔ وہ اُس چائے خانہ کے سامنے سے ضرور گزرتا تھا مگر کبھی اندر نہیں آیا تھا۔ جبکہ اس جگہ چائے پینا میرا روز انہ کا معمول ہے۔ لیکن آج رمضو کو وہاں دیکھ کر خود بخود توجہ اُس کی طرف تھی۔ مجھے لگا کہ وہ کسی خاص چیز کو دیکھ رہا ہے۔ اتنے میں کسی تیزرفتار گاڑی کے اچانک رُکنے کی آواز سنائی دی۔ ٹائروں کی چرچراہٹ سے سب کا دھیان باہر سڑک کی طرف گیا۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں سے لدی پھندی ایک گاڑی آکر رُکی تھی۔ وہ لوگ اُچھلتے کودتے گاڑی سے اُترے، آپس میں خوش گپیاں اور ہنسی مذاق کرتے ہوئے کونے میں پڑی دو میزوں کی طرف بڑھے۔ یہ سب یونیورسٹی کے طلبہ تھے۔ قریب ہونے کی وجہ سے اکثر اس چائے خانہ میں آیا کرتے۔ میں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور دوبارہ رمضو کی طرف متوجہ ہوا۔ اُن لوگوں کی طرف دیکھ کر اُس نے زیرِ لب کہا۔ ’’رنگ بازی..‘‘ میں نے اُس کو کبھی اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ ایک ہی طرز کے خستہ لباس میں نظر آتا۔ پرانے چپل اور کھلا گریبان۔ سر کے بال بےترتیب اور ڈاڑھی بڑھی ہوئی۔آستین کے بٹن تو گویا کبھی بند کیے ہی نہ تھے۔ عمر میں وہ پینتالیس کے لگ بھگ لگتا تھا۔ حقیقت میں کم عمر تھا۔ محلے کے لوگ اُسے نظر انداز کرتے۔ وہ سارا دن مسلسل پیدل چلتا، گلیوں اور سڑکوں کا گشت کرتارہتا۔ کئی مرتبہ میرے سامنے سے گزرا تھا۔ میں اُسے آوارہ گرد سمجھتا اور اپنا راستہ بدل لیتا لیکن آج اُسے وہاں چائے خانہ کی میز پر دیکھا تو تعجب ہوا۔ اُس کے سامنے چائے رکھی تھی۔ ایک کاغذی لفافہ اس کے سامنے رکھا تھا اس میں نمک پارے تھے۔ اُس نے ایک بار پھر اپنے سامنے اور میرے عقب میں اُسی چیز کو دیکھنا شروع کر دیا جسے وہ کافی دیر سے گھور رہا تھا۔

    میں نے گھوم کر پیچھے دیکھا۔ پیچھے والی دیوار پہ ایک شیلف کے اوپر ٹیلی وژن رکھا تھا۔ رمضو اسی کو گھور رہا تھا۔ ٹی وی پر صرف مناظر نظر آرہے تھے، آواز نہیں آ رہی تھی۔تازہ خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ میں نے بھی اپنی کرسی ذرا گھما لی اور کچھ اس انداز میں بیٹھ گیا کہ ٹی وی بھی نظر آنے لگا۔ نیوزکاسٹر مسلسل کچھ بول رہی تھی۔ سکرین پر تیزی سے مناظر تبدیل ہو رہے تھے۔ لیکن میرا دھیان اب بھی بار بار رمضو کی طرف جاتا۔ میں اس سے بات چیت کرنا چاہتا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بات کروں۔بالآخر میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا حال ہے۔ اُس نے ایک لمحہ کے لیے میری طرف دیکھا۔ منہ سے کچھ نہیں بولا اور دوبارہ ٹی وی کو گھورنے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ جواب دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ میں وقفے وقفے سے چائے کی چسکیاں لیتا رہا۔ چائے بہت مزیدار بنی تھی۔ غیر ارادی طور پر میری نظر ٹی وی سکرین پر پڑی، لوگوں کا ایک ہجوم دکھایا جارہا تھا۔ پر جوش اور جذباتی لوگ ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر نعرے لگا رہے تھے۔ ایک سیاسی رہنما اس ہجوم سے خطاب کر رہا تھا۔ ہجوم میں نوجوانوں کی کثرت تھی اور خواتین کی موجودگی گویا منفرد بات تھی۔ لوگوں نے رنگین پرچم اُٹھا رکھے تھے اور اسی طرح کی پٹیاں بازوئوں پر باندھ رکھی تھیں۔ کچھ ناچ رہے تھے اور کچھ سیٹیاں اور تالیاں بجا رہے تھے۔ یہ رہنما اور اس کا سیاسی گروہ آج کل بہت زیادہ تقریریں اور جلسے جلوس کر رہا ہے۔ غافل عوام کوروایتی غفلت سے جگانے کے لیے پُر زور تحریک چلائی جا رہی ہے۔ ملک کے کئی چھوٹے بڑے شہروں میں اس گروہ کے کارکن اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

    جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، ہر سیاسی گروہ دوسرے گروہ کے خلاف سرگرم ہے اوراقتدار کے لیے کھینچا تانی، آج کل تو بس یہی سیاست ہے۔ میں نے رمضو کو دیکھا تو وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ٹی وی سکرین پر یہ سب مناظر دیکھ رہا تھا۔ مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اُس نے کہا ’’رنگ بازی…‘‘۔ میں نے اس لفظ پر غور کیا مگر کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس کی شانِ نزول کیا ہے۔ اس نے خود کلامی کے انداز میں کہنا شروع کیا۔ ـ’’ ہونہہ! نرے رنگ باز، اج اس دے نال، کل اُس دے نال اور او سب آپس اچ نال نال اور اے سب اتھے دے اتھے‘‘۔اُس نے ٹی وی سے نظریں ہٹا لیں اور اپنے سامنے رکھی چائے کی پیالی کو گھورنے لگا۔’’صدیاں دی، حکومت سی دنیا تے ہیبت سی، رنگ بازی وچ لگ کے سب گنوا بیٹھے ……..جیڑھے کل تک تہاڈا نام سن کے ڈردے سی…. اج تُسی اوناں تو ڈر رہے او‘‘۔ وہ بُڑبُڑایا۔ اُس کی بات وقتی طور پر سمجھ نہ آئی مگر کچھ دیر بعد ذہن پر اجداد کی تاریخ اور موجودہ انسانی رویے سے لے کر معاشرتی بدحالی اور قابلیت و استعداد کے فقدان تک سب مضمون اُترنے لگے۔

  • تعلیم کے سوداگر – ملک محمد سلمان

    تعلیم کے سوداگر – ملک محمد سلمان

    ملک سلمان یار ایل ایل بی کر لو، اگلے سال سے اس کا دورانیہ تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا ہے، آج کے دور میں گھر میں ایک وکیل کا ہونا بہت ضروری ہے، ویسے بھی وکیل کی بہت پاور ہوتی ہے، میرے پاس پنجاب یونیورسٹی لاہور اور بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی’’سیٹیں‘‘ہیں، سب کچھ میرے ذمہ ہے، آپ نے بس رول نمبر سلپ لے کر پیپر دینے جانا ہے اور ہاں پیپر سے ایک دن قبل گیس پیپر بھی مل جائے گا، بس تم یہ سمجھو کہ لاء کرنا کوئی مشکل نہیں، لیکن یاد رہے کہ اس کے بعد پانچ سال کا لاء کرنا بہت مشکل ہے، میرے پاس سے فیس بھی لاہور کی نسبت بہت کم لگے گی۔ ایک نام نہاد غیر رجسٹرڈ پرائیویٹ کالج کا معمولی پڑھا لکھا پرنسپل میرے ایک دوست کو ترغیب دیتے ہوئے سبز باغ دکھا رہا تھا۔ میں نے بغور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ جناب آپ کیسے ایل ایل بی کروائیں گے اور اس نئی پالیسی کے بارے تھوڑا مزید بتائیں گے تو وہ صاحب تھوڑے توقف کے بعد، بس یہی معلومات دے سکے کہ آپ نے کل کا اخبار نہیں پڑھا کہ حکومت نے قانون کی تعلیم کا دورانیہ پانچ سال کر دیا ہے، آپ بھی ایل ایل بی کر لیں میرے پاس’’سیٹیں‘‘ہیں۔

    وہ تو اپنی بات کر کے چلا گیا مگر میں اس گہری سوچ میں پڑگیا کہ اس ملک میں ڈگریاں اس طرح عام بک رہی ہیں کہ ایک غیر رجسٹرد اور غیر قانونی ادارہ قانون کی ڈگریاں سر عام دیتا پھر رہا ہے، جس کو تعلیمی پالیسی تک کا نہیں پتہ مگر اسے تو اپنی دکان چلانی ہے اور وہ تو جو بکتا ہے ضرور بیچے گا۔ وکلاء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر حکومت نے قانونی تعلیم کی بہتری کو جواز بنا کر پاکستان بار کونسل کے ذریعے ایل ایل بی کی ڈگری کا تعلیمی دورانیہ تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا ہے اور الحاق شدہ کالجز اور یونیورسٹیز کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ پہلے تعلیمی سال کے لیے (100) سو سے زائد داخلے نہیں کریں گے۔ پاکستان بار کونسل کا یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے یقینا اس سے معیار تعلیم بہتر ہوگا اور شوقیہ وکلاء کی تعداد میں بھی نمایاں کمی واقع ہوگی۔

    مذکورہ پرنسپل کا سرعام غیرقانونی طریقے سے ڈگریاں دینے کا عمل ضرور غلط ہے مگر اس کی بات بالکل سچ تھی۔ واقعی وہ صاحب پنجاب یونیورسٹی اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ہر سال درجنوں طلبہ کو امتحان دلواتے ہیں اور ایک چھوٹے سے شہر میں بیٹھ کر سینکڑوں کلومیٹر دور ملتان اور لاہور میں قائم کالجز میں حاضری ریکارڈ بھی پورا کروا لیتے ہیں اور ایک غیر رجسٹرد ادارے کو جو کہ پرائمری سکول کے لیے بھی رجسٹرڈ نہیں کروایا گیا، اس کویونیورسٹی بنا رکھا ہے، جہاں ایل ایل بی ہی نہیں سرگودھا یونیورسٹی کے ذریعے وکالت کی اعلیٰ ڈگری ’’ایل ایل ایم‘‘ میں بھی داخلہ لیا جا سکتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، موصوف نے پلے کلاس سے ایم فل تک ہول سیل لگا رکھی ہے، میٹرک کے داخلہ کے لیے قریبی الحاق شدہ سکول، انٹرمیڈیٹ کے لیے دوسرے شہر کے الحاق شدہ کالج سے’’سیٹیں‘‘ خریدی جاتی ہیں۔ بی ایس سی جیسی اہم کلاس کے لیے یونیورسٹی سے الحاق شدہ کالجز سے غیر قانونی’’عملی مشق‘‘ کے تصدیقی سرٹیفیکیٹس حاصل کرنا تو کوئی کام ہی نہیں۔ اسی طرح پروفیشنل ایجوکیشن بی ایڈاور ایم ایڈ کروانا تو معمولی کام ہے۔ ایجوکیشن، سوشیالوجی، سائیکالوجی، فزیکل ایجوکیشن، فزکس، کمپیوٹر سائنس سے لیکر جنرلزم تک ایم اے اور ایم فل کی تعلیم کی بھی لُوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں اس جیسے اور بھی بہت سارے ادارے میرے شہر میں یہ خدمات بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ایک ادارے یا شہر کی بات نہیں، ہر طرف اندھیری نگری چوپٹ راج کا یہی عالم ہے، آپ اپنے اردگرد دیکھیں گے تو آپ کو بھی ایسے بےشمار ’’ہنر مند‘‘ تعلیمی خدمات دیتے نظر آئیں گے۔ مشہور زمانہ کہاوت ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی کے مصداق تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ایسے جعل سازوں کو ’’سیٹیں‘‘ فراہم کرنے والے بھی مجرم ہیں، جنہوں نے تعلیم جیسے مقدس پیشے کو کاروبار بنا کر رکھ دیا اور پیسے کے حصول کے لیے اس طرح کی ذلیل حرکات کر کے اپنے پیشے کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کر رہے ہیں۔ جن کے تعلیمی کیمپس میں تو محض بیسیوں طلبہ ہوتے ہیں مگر ’’سیٹیں‘‘فراہم کرنے کے ’’کارِ خیر‘‘ کی وجہ سے امتحان میں سینکڑوں طلبہ شامل ہوتے ہیں. یہ شرمناک دھندہ اپنی پوری آب و تاب سے دن دُگنی رات چُگنی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ سرِعام ہورہا ہے، ایسے میں انتظامیہ کی موجودگی پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ تعلیم کے سوداگروں کے خلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہے؟حکومت کو چاہیے کہ غیر قانونی’’سیٹیوں‘‘ کی خرید و فروخت میں ملوث اداروں کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ تعلیم کے نام پر کرپشن اور لوٹ مار کا بازار بند ہوسکے۔

    اس گندے دھندے میں میں حکومتی اساتذہ بھی پیچھے نہیں ہیں۔ حکومتی درسگاہوں (سکول ،کالجز اور یونیورسٹی) سے مسلسل غیر حاضر رہنے والے اور نسبتاً کم دکھائی دینے والے اساتذہ اپنی قائم کردہ پرائیویٹ اور نجی اکیڈمیز میں ہمہ وقت موجود اور جانفشانی کے ساتھ تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ ’’پیڈا ایکٹ‘‘ کے تحت حکومتی اساتذہ کے نجی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس پر پابندی عائد ہے، مگر سب کے سامنے ہے کہ اساتذہ کی اکثریت صبح سے شام تک نجی تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات دے رہی ہے۔ نہ صرف اکیڈمی مافیا کو مضبوط کیا جا رہا ہے بلکہ ان اساتذہ کے متعلقہ حکومتی اداروں کے طلبہ اکیڈمی نہ آنے کی صورت میں زیرِعتاب نظر آتے ہیں اور اکیڈمی میں داخلہ نہ لینے کے جرم کی پاداش میں مختلف بہانوں سے جسمانی سزا اور بورڈ، یونیورسٹی کا داخلہ تک روکنے کی گھٹیا حرکات بھی کی جاتی ہیں۔

    پنجاب میں بنیادی تعلیمی نظام میں بہتری اور جدت لانے کے لیے 5500 پرائمری سکولوں کو (PEF) کے حوالے کرنا بہت اچھا فیصلہ ہے، اس سے نچلی سطح تک میعاری تعلیم کی فراہمی میں یقینی بہتری اور معاونت ملے گی، مگر آرام پرست، عادی مجرم اورگھر بیٹھ کر سرکاری نوکری کے مزے لینے والے وظیفہ خور اساتذہ کے لیے یہ بات ہرگز قبول نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے اساتذہ کو بھی احتجاج کے لیے بھڑکا رہے ہیں۔ اساتذہ جو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ،ان کی غیر ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ وہ ان گھٹیا اور شرمناک افعال سے اپنے طلبہ پر انتہائی برے اثرات مرتب کر رہے ہیں، ان کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے دیانتداری، فرض شناسی اور حب الوطنی کی امید کیونکر کی جاسکتی ہے۔ محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ متعلقہ افسران اور مانیٹرنگ ٹیموں کے ذریعے انکوائری کروائی جائے اور ایسے تعلیمی سوداگروں اور طمع پرست عناصر کے خلاف ’’پیڈایکٹ ‘‘ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ تعلیم جیسے مقدس پیسے کا وقار بحال کیا جائے اور اس کا تقدس قائم رہ سکے۔