Tag: کوئٹہ

  • کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے-محمد بلال غوری

    کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے-محمد بلال غوری

    m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri

    کوئٹہ ایئر پورٹ سے نکلا تو لاتعداد اندیشے اور وسوسے میرے ساتھ تھے۔جن چاہنے والوں کو معلوم ہوا کہ بلوچستان کا قصد ہے،انہوں نے روکنے کی ناکام کوشش کے بعد بس ایک ہی نصیحت کی کہ حالات خراب ہیں، احتیاط کا دامن تھام کر چلنا۔مگر اس شہر بے مثال نے بازو پھیلا کر اپنی محبتوں کی آغوش میں لیا تو سب اندیشے اور وسوسے کافور ہو گئے۔پہلا پڑائو وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کی طرف تھا۔ان کی نشست کے ساتھ ہی سائڈٹیبل پر ایک خوبرو نوجوان کی تصویر آویزاں تھی۔یہ ثناء اللہ زہری کے جواں سال بیٹے سکندر ہیں جو 16اپریل 2013ء کو ہونے والے ایک بم دھماکے میں مارے گئے۔

    اس حملے کا ہدف خود ثناء اللہ زہری تھے مگر وہ بلٹ پروف گاڑی کے باعث بال بال بچ گئے۔جس شخص نے خود اپنے فرزند ارجمند کا جنازہ اٹھایا ہو،وہی اپنوں کی موت کا غم محسوس کر سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان دہشتگردی کے خلاف فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔پنجاب کے حوالے سے تعصب کی بات ہوئی تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے،میں تو اپنے لوگوں سے کہتا ہوں،پنجابی بہت اچھے مقتول ہیں۔تم انہیں مارتے بھی ہو اور اپنی من مانی بھی کرتے ہو،ایسی آزادی اور کہاں ملے گی۔ہمسایہ ملک میں مقیم بلوچوں کی حالت زار دیکھو،انہیںمعمولی باتوں پر سرعام پھانسیاں دی جاتی ہیں اور نشان عبرت بنانے کے لئے لاشیں کئی کئی دن پھندے سے لٹکتی رہتی ہیں۔اگلے دن خیال آیا،اقتدار کی غلام گردشوں سے نکل کر کیوں نہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا جائے۔

    بلوچستان یونیورسٹی کا رُخ کیا تو ایک مرتبہ پھر اندیشہ ہائے دوردراز نے گھیر لیا۔چند برس قبل یہ صورتحال تھی کہ لیکچررز کو یونیورسٹی کی دہلیز پر قتل کر دیا جاتا تھا۔پیپلز پارٹی کے دور میں جب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ تھے توجامعہ بلوچستان علیحدگی پسندوں کا گڑھ تھی۔ نائلہ قادری نامی ایک خاتون جن کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور ان دنوں وہ بھارت میں مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہیں،یہ 9سال تک لیکچرر کے روپ میں یہاں طلبہ کو ہتھیار اٹھانے پر اکساتی رہیں،صبادشتیاری جیسے لوگ یہاں مسلح تربیت دیا کرتے تھے،چاروں طرف بی ایس او (آزادـ) کے جھنڈے لگتے اور عام افراد تو درکنار قانون نافذ کرنے والے ادارے یونیورسٹی میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصویر لگانا جرم تھا۔

    پاکستان کا نام لینے کی اجازت نہ تھی۔ فیکلٹی میں شامل قابل اساتذہ نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی اور دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی طلبہ و طالبات سے بھی خالی ہوگئی۔ تعلیمی انحطاط کا یہ عالم تھا کہ پاکستان بھر سے لوگ جعلی ڈگریاں لینے کیلئے بلوچستان یونیورسٹی کا رخ کرتے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدیق بلوچ جو چند ماہ قبل نااہل ہوئے اور ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین نے انہیں شکست دیکر کامیابی حاصل کی،انہوں نے بی اے کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے ہی حاصل کی۔ بلوچستان یونیورسٹی سریاب روڈ پر واقع ہے،وہی سریاب روڈ جسے ہم سب بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے ہی جانتے ہیں۔

    ان منفی تصورات کے حصار میں یونیورسٹی پہنچے تو خوشگوار حیرت منتظر تھی۔طلبہ و طالبات کی گہما گہمی دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ جامعہ پنجاب ہے یا جامعہ بلوچستان۔ شعبہ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات نے بالخصوص اپنی ذہانت و فطانت اور قابلیت سے حیران کر دیا۔وائس چانسلرڈاکٹر جاوید اقبال نے بتایا کہ اب طلبہ و طالبات کی تعداد 11000سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔500انتہائی قابل ترین اساتذہ پر مشتمل فیکلٹی میں 170اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں۔70اسکالرز کو یونیورسٹی نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے بیرون ملک بھیجا ہے۔8اگست کو جب سول اسپتال میں دھماکے کے بعد خوف وہراس نے ایک مرتبہ پھر کوئٹہ کا بے ساختہ پن چھین لیاتو بلوچستان یونیورسٹی کی دعوت پر 14اگست کو ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے 2000طلبہ و طالبات کوئٹہ آئے اور انہوں نے دہشت اور وحشت کا دھندہ کرنے والوںکو پیغام دیا کہ

    میں جانتا ہوںکہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
    ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

    اس کے بعد بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (BUITEMS ) کا دورہ کیا تو پہلی بار یہ پتہ چلا کہ حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کا مطلب کیا ہے۔ایسی سہو لتیں،ایسے نظم وضبط اور ایسے تعلیم دوست ماحول کا تو لاہور اور اسلام آباد جیسے انتہائی ترقی یافتہ شہروں میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔مثبت ترین پہلو یہ ہے کہ طلبہ وطالبات کے ہاتھ میں محض ڈگریاں تھمانے کے بجائے انہیں پیشہ ورانہ تربیت دیکر عملی میدان کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر ایک شعبہ ہے جس میں نوجوانوں سے درخواستیں مانگی جاتی ہیں کہ وہ اپنے تخلیقی تصورات جمع کروائیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔مثال کے طور پر کوئی طالب علم کہتا ہے کہ میں سوشل میڈیا کی کوئی نئی ویب سائٹ متعارف کرانا چاہتا ہوں

    مگر میرے پاس وسائل دستیاب نہیں۔یونیورسٹی کا پینل ان تخلیقی تصورات کے قابل عمل اور موثر ہونے کا جائزہ لے گا اور منظور ہونے کی صورت میں درخواست گزار کو اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لئےدرکار تمام تر وسائل مہیا کئے جائیں گے۔مجھے اس شعبے میں کچلاک کا رہائشی آرٹسٹ نصیب خان ملا۔یہ نوجوان اپنے آبائی علاقے میں دیواروں پر لکھائی کیا کرتا تھا لیکن اس یونیورسٹی نے تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع فراہم کیا تو اب اس کے شہ پارے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔بلا مبالغہ یہ پاکستان کی بہترین یونیورسٹی ہے اور اس کا کریڈٹ وائس چانسلر احمد فاروق باروزئی کو جاتا ہے جو بیرون ملک پرکشش آفرز چھوڑ کر یہاں آئے۔

    بلوچستان پر بدستور بدترین خطرات کے سائے منڈلا رہے ہیں،زخم ابھی مندمل نہیں ہوا،مرض کی شدت کم ہوئی ہے مگر اس کے اثرات قائم و دائم ہیں۔بلوچستان کے حکام کیا سوچتے ہیںاور عوام اس تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟مسائل کس قدر پیچیدہ ہیں اور فوجی و عسکری قیادت ان سے نمٹنے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کئے ہوئے ہے؟ان سوالات پر اگلی نشست میں تفصیل سے بات ہوگی کہ بلوچستان کا لاینحل مسئلہ توجہ اور احتیاج کا طلبگار ہے۔مگر ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تین برس قبل اور آج کے حالات میں انیس بیس نہیں،زمین آسمان کا فرق ہے۔آئے دن سنتے تھے کہ ریلوے کی پٹری اڑا دی گئی،کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں گیس پائپ لائن دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دی گئی، ہزاروں کی نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ عروج پر تھا مگر اب ایسی خبریں تواتر کے ساتھ نہیں آتیں تو لامحالہ حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔سردست تو بس اتنا عرض کرنا ہے کہ بلوچستان کے بگٹی، مینگل، زہری، کاکڑ، بزنجو، مری، کھیتران، رند، کرد، بھوتانی، درانی اور بدینی بھی اتنے ہی محب وطن اور وفادار ہیں جتنے سندھ،پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے دیگر شہری۔ہندوستان کے معروف شاعر راحت اندوری جن کی مشہور غزل کا ایک شعر پہلے بھی عرض کیا ہے،اسی غزل کا ایک اور شعر معمولی تحریف کے ساتھ پیش خدمت ہے:

    سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
    کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے

  • مودی کو بلوچستان کا کرارا جواب-انصار عباسی

    مودی کو بلوچستان کا کرارا جواب-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    نریندر مودی کو بلوچستان کی عوام نے خوب منہ توڑ جواب دیا۔ بلوچستان کے متعلق مودی کے حالیہ متنازعہ بیان پر جس طرح صوبہ بھر میں عوام باہر نکلے اور پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کیا اس نے بہت سوں کی غلط فہمی دور کر دی ہو گی۔ صوبہ بھر کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے ہندوستان کے خلاف سخت احتجاج کیا اور مودی کے پتلے جلائے۔ کہیں کوئی ایک آواز ایسی نہ تھی جو مودی یا بھارت کے حق میں سنائی دی گئی ہو۔ ہاں توقع کے مطابق ہزاروں میل دور یورپ میں بیٹھ کر پاکستان دشمن قوتوں کی ایما پربلوچستان میں آگ بھڑکانے کی کوشش کرنے والے براہمداغ بگٹی نے مودی کے بیان کو ضرور سراہا لیکن صوبہ کے عوام نے بلند آواز میں پاکستان سے غداری کی بجائے اس سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کیا اور جگہ جگہ قومی پرچم لہرائے ۔

    پاکستان سے محبت بلوچستان کے لوگوں کے خون میں رچی بسی ہے۔قیام پاکستان کے وقت بھی بلوچستان کے عوام کو بہت لالچ دی گئی کہ پاکستان کی بجائے ہندوستان کے حق میں فیصلہ دیں لیکن انہوں نے آج کی طرح اُس وقت بھی ہندوستان اور اُس کی نمائندہ جماعت اور اُن کے ایجنٹوں کو مایوس کیا۔اُس وقت کے حالات کے بارے میں ’’تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سید سے قائد اعظم تک‘‘ میں بلوچستان کے ایک نواب کے حوالے سے کچھ یوں لکھا گیا:

    ’’ہمارے چند نام نہاد مسلمان جو کانگریس کے ہاتھوں بک چکے ہیں، کئی روز سے انہوں نے معزز سرداروں کی موجودگی میں میرے سامنے یہ پیشکش کی کہ اگر بلوچستان کے سردار پاکستان کی اسلامی حکومت کا ساتھ نہ دیں اور ہندوئوں کی سلطنت قبول کر لیں تو کانگریس اس کفر کی غلامی کے عوض میں کئی کروڑ روپیہ ہم پر تقسیم کرنے کو تیار ہے اور اس قسم کا تحریری وعدہ پنڈت نہرو کی طرف سے …. خان پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ بلوچستان کے غیور افغان اور بلوچ سرداروں کا ایمان سونے سے نہیں خریدا جا سکتا۔ ہندو ساہو کاروں کے تمام حرام خزانے ہمارے ایک معمولی بلوچ اور پٹھان کا ایمان بھی نہیں خرید سکتے۔ یہ سن کر …. خان مایوس ہو کر چلے گئے۔ ہندو کانگریس نے سندھ ، پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کی آزادی روپیے سے خریدنا چاہی لیکن اسے وہاں سخت ذلیل ہونا پڑا۔ بلوچستان میں بھی یہ اسی قسم کی شرارت کر رہی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ بلوچستان کو دوسرے اسلامی صوبوں سے کاٹ کر سکھ اور گورکھا فوجوں کے غلبہ کے نیچے رکھا جائے اور پھر یہاں نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور ایران تک بھارت ماتا کا جھنڈا گاڑا جائے۔ میں پبلک کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان۔ پاکستان کا رخ مکہ مکرمہ کی طرف اورہندوستان کا بنارس کے بت خانے کی طرف۔اگر …. خان بنارس جانا چاہیں تو شوق سے جائیں ہم بلوچستان کے مسلمان کفر کے راستے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ راہ صرف ایک ہی ہے خانہ کعبہ کی راہ۔‘‘

    کچھ بکنے والوں کو چھوڑ کر ماضی کی طرح آج بھی بلوچستان کی اکثریت پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ ہاں ان کے گلے شکوے ہوں گے، ان کے دل بھی دکھے ہوں گے لیکن کوئی لالچ، کوئی بہکاوا ان کے دل میں پاکستان دشمنی پیدا نہیں کر سکتا۔یہ بات درست ہے کہ بلوچستان کے عوام کو جو حق ملنا چاہیے تھا وہ اُنہیں نہیں ملا جس کی وجہ سے وہاں ایک احساس محرومی پایا جاتا ہے جس کو دشمن اپنے مقاصد کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان کے اس احساس محرومی کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں پر بھی برابر آتی ہے جن کو بار بار حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے ملے لیکن انہوں نے بلوچستان کی پسماندگی کو دور کرنے اور عوام کو بنیادی سہولتیں دینے کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ ان میں سے اکثر صوبہ کی ترقی میں رکاوٹ ہی بنے رہے۔

    پاک چائنا راہداری منصوبہ دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبہ سے صوبہ کی قسمت بدلنے کے روشن امکانات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مودی سمیت پاکستان کے دشمن اس منصوبہ کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ریاست اور اس کے تمام اداروں کو ماضی کی اپنی کوتائیوں اور کمزوریوں کو دور کر کے مل کر بلوچستان کی تقدید بدلنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت اور فوج اس بات کو یقینی بنائیں کہ صوبہ بلوچستان کا بجٹ عوام پر خرچ ہو نہ کہ کچھ مخصوص جیبوں میں چلا جائے۔ اس کے لیے کوئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جائے یا کوئی اور سسٹم، عوام کا پیسہ عوام کی فلاح کے لیے خرچ کرنے کی فوری تدبیر کی جائے۔

    موجودہ صورتحال میں صوبائی سرکاری مشینری میں چیک اینڈ بیلنس سسٹم نہایت کمزور ہے اور یہی وجہ تھی کہ ایک سرکاری افسر کے گھر سے ستر اسی کروڑ روپیے کیش برآمد ہوئے۔ بلوچستان کے بارے میں ماضی قریب میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے مطابق اربوں روپیے کے ترقیاتی فنڈ سرکاری محکموں کے ذریعے ترقیاتی اسکیموں پر خرچ کرنے کی بجائے، سیدھے سیدھے منتخب نمائندوں کو دے دیئے جاتے ہیں۔ جس کی مرضی ہو، دل چاہے تو خرچ کرے ورنہ جیب میں ڈال دے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والی بلوچستان کے عوام ایسے رویوں کی مستحق نہیں۔

  • بلوچستان، عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (آخری قسط)-اوریا مقبول جان

    بلوچستان، عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (آخری قسط)-اوریا مقبول جان

    orya

    بلوچستان کے انتظام و انصرام کو انگزیز دور سے ہی برصغیر کے باقی خطوں سے بالکل علیحدہ طرز پر استوار کیا گیا تھا۔ ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر اور پولیٹیکل ایجنٹ رابرٹ سنڈیمن نے اس وقت اپنی مشہور ’’فاروڈ پالیسی‘‘ پر حکومت برطانیہ سے منظوری کے بعد عمل درآمد کا آغاز کیا جب انگریز اس خطے کے بلوچ قبائل سے جنگ میں بری طرح شکست کھا رہا تھا۔ سندھ اور پنجاب فتح ہو چکے تھے لیکن زار روس کے مقابلے میں خود کو مستحکم کرنے کے لیے انگریز کو بلوچستان کا خطہ بھی درکار تھا۔ یہاں کے سنگلاخ پہاڑ ایک فصیل کا کام دے سکتے تھے۔

    اسی لیے اس نے سبی کے اردگرد شروع ہونے والے پہاڑی سلسلوں میں آباد بلوچ قبائل سے جنگ شروع کر دی۔ آغاز میں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو سنڈیمن نے ایک تجویز پیش کی کہ اس علاقے کے بلوچ اور پشتوئی قبائل کو ان کے قدیم رواج کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے‘ ان کی قبائلی خود مختاری کا احترام کیا جائے‘ یہاں کے قبائلی دستور کو انگزیزی قانون کا حصہ بنا دیا جا ئے اور علاقے میں امن عام اور انصاف کی ذمے داری سرداروں کو دے دی جائے۔ اس کے بدلے میں سرداروں کو تاج برطانیہ کا وفادار ہونے پر قائل کر لیا جائے۔

    اسی کی کوکھ سے لیویز سسٹم نے جنم لیا۔ انگریز قبیلے کے سردار کو لیویز کے سپاہی رکھنے کے لیے ڈپٹی کمشنر یا پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے رقم فراہم کرتا اور وہ بدلے میں انگریز کو ایک پرامن خطہ عطا کرتے۔ یہاں حالات پرامن چاہیے تھے کہ سرحدی علاقہ تھا اور سردار وفادار چاہیے تھے کیونکہ یہاں ذرا سا بھی اختلاف یا احتجاج برداشت نہیں ہو سکتا تھا۔ قبیلے کی قوت نافذہ نے انگریز کو یہاں سو سال تک بے خوف و خطر حکمران رکھا۔ خان آف قلات ہو یا کوئی اور نواب یا سردار سب انگریز سے ’’خانہ نشینی‘‘ الاؤنس وصول کرتے تھے جس کا مطلب ہے کہ تم گھر میں بیٹھے رہو اور وظیفہ کھاؤ۔

    البتہ انگریز ان سرداروں کے علاوہ بھی لوگوں میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے دوستیاں پالتا اور ایجنٹ بناتا۔ لیکن اس نے قبیلے کی روایات کے مقابلے میں کسی غیر سردار کو سردار بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ایک دو ناکام کوششوں کے بعد اس نے یہ سب بھی ترک کر دیا۔ البتہ اس نے ان سرداروں کے ذریعے افغانستان میں خفیہ طور پر اپنے ایجنٹ پھلائے ہوئے تھے جو بارڈر کے اس پار واقع روس کے افغانوں کی خبر دیتے رہتے تھے۔

    پاکستان نے اس انتظام کو ورثے میں لیا تھا۔ جہاں قبائل سرداری نظام اور انتظامیہ کا گٹھ جوڑ انگریز کا تحفہ ہے وہیں افغانستان سے مسلسل دشمنی بھی انگریز ہی کا تحفہ ہے۔ تمام سرحدی تنازعات اسی دور کی پیداوار ہیں۔ بلوچستان اپنے علاقائی اور سرحدی اہمیت کی وجہ سے ہر دور میں عالمی طاقتوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل خطہ رہاہے۔ 1917ء میں جب روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو اسے دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے 1920ء میں آذربائیجان جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا‘ اس کے شہر باکو میں کمیونسٹ تنظیموں کا عالمی اجلاس منعقد ہوا۔

    اس میں بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں یہ طے ہوا تھا سوویت یونین ہندوستان میں قومیتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کر کے کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سب سے زیادہ انقلابی جدوجہد کی داستانیں اس خطے میں رقم ہوئیں۔ افغانستان روس کا ہمیشہ سے حلیف رہا ہے‘ اور پاکستان امریکا کا حواری۔ 1979ء میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو بلوچستان کی سرزمین بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اس خطے میں وہ سب کھیل کھیلا گیا جس نے روس کو شکست سے دوچار کیا اور گوادر جس کے خواب کبھی روسی رہنما دیکھا کرتے تھے کریملین کی گلیوں میں ناکام و نامراد لوٹ گئے۔

    افغانستان پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کے زیر اثر رہا۔ پہلے 8 سال قتل و غارت اور اگلے پانچ سال مثالی امن و امان۔ اسی ادھیڑ بن میں امریکا  دہشتگردی ختم کرتے وہاں آ گھسا۔ پاکستان اس جنگ میں اس کا حلیف تھا لیکن امریکا نے ایک بے وفا معشوق کی طرح دوستیاں اور آشنائیاں ہمارے دشمنوں سے رکھیں۔ بھارت امریکی سائے میں افغانستان میں مستحکم ہوا اور اس کے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے دلآرام اور زرنج تک ایک سڑک بنا ڈالی۔ اس سب کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ بلوچستان کے اہم ترین خطے کا متبادل پیش کر کے اس خطے کو پسماندگی‘ جہالت اور خونریزی کے سمندر میں دھکیل دینا۔ جس دن سے گوادر کے ساحل پر بندگاہ تعمیر کرنے کی مشینری پہنچی کم از کم سات ایسے ممالک تھے جنہوں نے بلوچستان کی بدامنی میںنمایاں کردار ادا کیا۔ ان کا بنیادی مقصد چین کو اس بندرگاہ کی دسترس رکھنے سے روکنا تھا بلکہ ایسا کرنے سے وہ چین کی معیشت کو الٹا گھومنے پر مجبور کر سکتے تھے۔ اور ان سب کا سرپرست ا مریکہ جس کے اشاروں پر یہ سب ناچتے ہیں۔

    اس لیے گوادر کے راستے چین کی تجارت ان تمام بڑے بڑے تجارتی مراکز کی موت ہے جو اس خطے میں تیزی سے بلند و بالا عمارتوں کا جنگل بنے ہیں۔ بھارت‘ امریکا اور ایران گٹھ جوڑ اس خطے میں بالادستی بھی چاہتا ہے اور چین کی معاشی ناکہ بندی بھی۔ دوسری جانب چین کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوتا تو چین کی معیشت کا بلبلہ ایسے پھٹے گا کہ رہے نام اللہ کا۔ عالمی طاقتوں نے اس معاشی راہداری کو روکنے کے لیے اس کے دونوں جانب فتنوں اور شرارتوں کا جال پھیلایا ہے۔ کشمیریوں کی پاکستان سے الحاق کی جدوجہد کو ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کی طرف اس کار خ موڑا جا رہا ہے۔

    حیران کن بات ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تمام این جی اوز اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی اچانک کشمیر کی یاد آ گئی ہے۔ وہ اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ اگر کشمیر کو اقوام متحدہ کے کنٹرول کے لیے دس سال کا وقت دے دیا جائے تو ظاہر ہے یہ امریکا کے کنٹرول میں ہو گا۔ یوں گلگت بلتستان سے جموں تک ہر جگہ خود بخود امریکیوں کو رسائی مل جائے گی اور چین کا گھیرا تنگ۔ ایسا ہوا تو بلوچستان چاہے جو کچھ کرے معاشی راہداری نہیں بن سکے گی۔ اور اگر کشمیری پاکستان سے ملنے پر ڈٹے رہے تو آزاد بلوچستان اور پھر گوادر کو اگلے کئی سالوں تک کھنڈر بنانا۔ اس کے لیے آزاد بلوچستان ضروری ہے لیکن یہ آزاد بلوچستان بلوچوں کے لیے نہیں ہو گا‘ امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے ہو گا۔

    حالات کی خرابی دخل اندازی کا موقع دے گی اور پھر رہے نام اللہ کا۔ مگر اس سے پہلے کہ بلوچ اور پشتون پاکستان سے علیحدہ ہوئے تو ان کا حشر یقینا اسے پرندے جیسا ہو گا جس کی تاک میں بلے‘ بھیڑیئے اور کتے ہوتے ہیں کہ پرندہ گھونسلے سے گرے اور وہ اسے دبوچ لیں۔ ایجنڈا صرف ایک ہے بلوچستا کو انگولا کی طرح پسماندہ اور خون خرابے میں گم رکھا جائے تا کہ یہاں پسماندگی بڑھے‘ تحریکیں چلیں اور ایک دن یہ پرندہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ یہ ایجنڈا خوب ہے لیکن اس کی کوکھ سے یہ خطہ ایسی جنگ کی طرف نکل جائے گا جس کے نتیجے میں بہت سے نقشے بدلیں اور بہت سی لکیریں مٹ جائیں گی۔

    حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے

    حصہ دوم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے

  • ’’اعترافِ جرم‘‘-مجیب الرحمن شامی

    ’’اعترافِ جرم‘‘-مجیب الرحمن شامی

    m-bathak.com-1421245529mujeeb-ur-rehmaan-shamiپاکستان کے مقتدر حلقوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس اتفاق رائے میں بعض پاکستانی حلقے رخنے ڈال رہے تھے، اور طرح طرح کے سوالات اُٹھا کر اڑنگا لگا رہے تھے، اس کا حصول مودی صاحب کے چند الفاظ کی وجہ سے آسان ہو گیا۔ اب پاکستان میں کسی سیاست دان یا تجزیہ کار کو ہمت نہیں ہو پا رہی کہ وہ بلوچستان میں ”را‘‘ کی دخل اندازی کے الزام کو قبول کرنے سے انکار کرے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اُلجھ کر اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش میں مبتلا ہو۔

    کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد، ہسپتال میں اکٹھے ہونے والے وکلا کو جس طرح خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا، اور اِس صوبے کو پچاس سے زائد ممتاز قانون دانوں سے محروم کر دیا گیا، وہ کوئٹہ ہی نہیں پورے پاکستان کی تاریخ کا ایک بدترین سانحہ تھا (اور ہے)… حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اِس اجتماعی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے کہ جب ایک کمیونٹی کے سربراہ کو نشانہ بنایا جائے گا، تو اس کے ارکان خبر سنتے ہی ہسپتال کی طرف بھاگیں گے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر ان کا شکار کرنا ممکن ہو جائے گا۔ اِس سے پہلے کئی وارداتیں اِس طرح کی جا چکی تھیں، اور حملہ آور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

    کوئٹہ خود کش حملے نے جہاں وکلا کی ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، وہاں کم و بیش اتنی ہی تعداد میں انہیں زخمی بھی کر دیا۔ ان میں سے بہت سے اب بھی کراچی کے آغا خان ہسپتال میں زیر علاج ہیں… اس حملے کے فوراً بعد بلوچستان کے دبنگ وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اس کی ذمہ داری ”را‘‘ پر ڈال دی۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور حکومتی ترجمان انوارالحق کاکڑ نے اس موقف کے حق میں دلائل کے ڈھیر لگا دیے۔ ان کا کہنا تھا (اور ہے) کہ وارداتیا کوئی بھی ہو، اور اس کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرے، اس کے پیچھے ”را‘‘ کی منصوبہ سازی ہے کہ وہ افغان انٹیلی جنس کی معاونت کے ساتھ بلوچستان کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اسے سی پیک کی تعمیر میں رخنہ ڈالنے کی کوشش بھی قرار دیا،… اس پر بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان محمود اچکزئی نے اِس طرح اظہارِ خیال کیا، جس سے ذمہ داری قومی اداروں کی طرف منتقل ہو جاتی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”را‘‘ کا نام لے کر ہمارے ادارے اور ایجنسیاں اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں کر سکتے۔ کئی اور لوگوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی کہ ان کے خیال میں بھی ”را‘‘ کی کامیابی ہمارے اداروں کی ”ناکامی‘‘ تھی۔

    ہمیں13 اور 14اگست بلوچستان میں گزارنے اور مختلف تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی خدمت میں حاضر ہو کر شہدا کی بلندی درجات کے لیے دُعا کی۔ اپنے جوان بیٹے دائود اور کئی عزیزوں سے محروم ہو جانے والے ڈاکٹر عبدالمالک کاسی سے تعزیت کے لئے حاضر ہوئے۔ وکلا، میڈیا، سول سوسائٹی کے ارکان، فوجی حکام اور سیاسی قائدین سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ کوئٹہ حادثے کا صدمہ تو ہر شخص کو تھا، لیکن اوسان کسی کے بھی خطا نہیں تھے۔ ضعیف العمر ڈاکٹر عبدالمالک کاسی تک دہشت گردوں سے لڑنے اور انہیں شکست دینے کے لیے پُرعزم تھے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ یہ ہمارے قبیلے، ہمارے شہر یا ہمارے صوبے پر نہیں، پاکستان پر حملہ ہے، اور پاکستان کے دشمنوں کو شکست دے کر دم لیں گے۔ ہسپتال میں موجود زخمی بھی اپنے سے زیادہ، پاکستان کے لیے فکرمند تھے۔ اپنے مُلک کی سلامتی اُن کی اولین ترجیح تھی۔

    وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری اور سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض آزادی کی تقریبات میں شانہ بشانہ تھے، اور ایک دوسرے کی قوت بنے ہوئے تھے۔ الفاظ کا چنائو اپنا اپنا تھا، لیکن جذبہ اور لہجہ یکساں تھا… ہر جگہ پُرجوش تالیاں اُن کے حصے میں تھیں۔ زیارت میں قائد اعظم ریذیڈنسی کے احاطے میں ہونے والی پُرشکوہ تقریب میں بھی مقررین اور سامعین ایک ہی طرح سوچتے معلوم ہو رہے تھے… جنرل عامر ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک جذبہ ہے اور جذبے کو زوال آ سکتا ہے، نہ یہ ختم ہو سکتا ہے۔ ایک سپاہی کے طور پر وہ پاکستان اور اس کے لوگوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم تھے۔ وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے، بیرون مُلک بیٹھ کر تاریں ہلانے والوںکو اُن کی للکار تھی کہ ہمت ہے تو واپس آئو، اور انتخاب لڑ کر دکھائو۔ اگر ضمانت ضبط نہ ہوئی تو سیاست چھوڑ دوں گا۔

    وہ وزیر اعظم مودی کو بھی چیلنج دے رہے تھے کہ تم بلوچستان کا نام کشمیر کے ساتھ لیتے ہو، دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلوچستان میں لوگوں کے منتخب نمائندے حکومت کر رہے ہیں۔ پانچ سو سال سے اِس زمین کے وارث ہم ہیں اور ہم کسی کو اِس طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔ بلوچستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو اِس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ بھارت ان کی سرزمین کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ یہاں سے پکڑے جانے والے بھارتی نیوی کے ایک افسر… کلبھوشن یادیو… کا نام لے کر وہ سوال کرتے تھے کہ اور کیا ثبوت چاہیے؟ ثبوت مانگنے والوں کی خدمت میں مودی صاحب کا براہِ راست اعترافِ جرم تو پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 15 اگست کو مودی صاحب نے پوری دُنیا کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ ان کی اپنی آواز پورے جوش و خروش سے بلند ہوئی: ”مَیں لال قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ چند روز میں بلوچستان، گلگت اور پاکستانی ”مقبوضہ کشمیر‘‘ کے لوگوں نے تشکر اور (میرے بارے میں) بڑی نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے۔ ایسے لوگ جو یہاں سے بہت دور رہ رہے ہیں۔ جن سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی، جن کو مَیں نے کبھی دیکھا تک نہیں، انہوں نے ہندوستان کے وزیر اعظم کی قدر افزائی کی ہے۔ یہ سب ہم وطنوں کی انڈیا کے ایک سو پچیس کروڑ عوام کی قدر افزائی ہے‘‘۔ اِن الفاظ نے دور و نزدیک یہی پیغام بھیجا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کے سنجیدہ میڈیائی اور سیاسی حلقے بھی اِس پر سٹپٹا رہے ہیں، اور پاکستان میں اپنے اداروں کو بے اعتبار ثابت کرنے کی خواہش رکھنے والے بھی بوکھلا اُٹھے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے جو کام کر دکھایا ہے، اس کی انہیں داد ملنی چاہیے۔ پاکستانی ریاست، اس کے ادارے، اور اس کے عوام اِس اعترافِ جرم پر اُن کے شکر گزار ہیں ؎

    نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
    فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا

     

  • محمود اچکزئی کا فائدہ یا نقصان؟ نجم الحسن

    محمود اچکزئی کا فائدہ یا نقصان؟ نجم الحسن

    نجم الحسن دلیل پر بہت ہی محترم جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی تحریر’’محمود اچکزئی کا فائدہ‘‘ پڑھنے کو ملی جس میں انہوں نے بڑے مثبت انداز میں جناب محمود خان اچکزئی صاحب کے پچھلے دنوں کی کچھ ’’غیر ارادی‘‘ یا شاید ارادی طور پر دیےگئے پاکستان مخالف بیانات کا دفاع کیا ہے یا شاید ایک مثبت پہلو اجاگر کیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کے تجربے اور تجزیے کا اعتراف ہے لیکن ان کے کچھ افکار بلکہ کچھ مکالمات سے اختلاف ہے۔ اس کی وجہ میری کم علمی بھی ہو سکتی ہے مگر اپنے خیالات کو ان تک پہنچائے اور اپنی اصلاح کیے بغیر ان کی کسی بات کو رد کرنا میری نظر میں گستاخی کے مترادف ہے۔ لہذا اس تحریر کا مقصد صرف ان کی تحریر کے چند کلمات پر اپنا نقطہ نظرپیش کرنا اور ان کے بیش بہا تجربے سے کچھ سیکھنے اور اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ سیاست و ریاست کے رموز و اوقاف سے آشنائی حاصل کرنے کی ایک جسارت ہے۔

    جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے موقف کے مطابق محمود خان اچکزئی کے ادا کردہ الفاظ و کلمات یا ان کا دیا گیا بیان قابل محاصرہ نہیں بلکہ اس سے پاکستان، پاکستانیت اور پاکستانیوں کو تقویت ملے گی۔ مگر میرا کہنا ہے کہ اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا کیونکہ اچکزئی صاحب جیسے دیرینہ سیاستدان کی زبان سے نکلے الفاظ ان کے کارکنان کو متاثر کریں گے، یاد رہے کہ وہ پارٹی سربراہ بھی ہیں اور ایک حلقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں. عوام کی سیاسی بصیرت کتنی ہے، یہ سب کو معلوم ہے. جن کووہ مخاطب کر رہے ہیں، وہ اتنے تعلیم یافتہ نہیں کہ اچکزئی صاحب کی دوراندیشی یا ان الفاظ کے درپردہ حقائق کو سمجھ سکیں؟ ان کے حلقہ ارادت میں تو اس حوالے سے نفرت ہی پھیلے گی. ماضی اس کا گواہ ہے.

    یہ بات صد فیصد درست ہے کہ نیشنلزم کے نام پر ووٹ لینے والوں کو اپنی قومیت سے محبت اور وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے، مگر سوال تب اٹھتا ہے جب قومیت سے وفاداری ریاست اور آئین پر مقدم ہو جاتی ہے. ایسے میں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آیا وہ ریاست کے وفادار ہیں یا اس کے خلاف۔ قومیت کوئی بھی ہو، ریاست اسے کبھی بھی اپنے راستے میں روڑے اٹکانے کا موقع نہیں دے گی، ماڈرن ریاست کا یہ بنیادی اصول ہے۔ جہاں تک معاملہ اپنے ووٹرز کو کارکردگی دکھانے کا ہے تو وہ تو اپنے حلقے میں عوام کی خدمت سے دکھائی جانی چاہیے. حلقوں اور عوام کی جو صورتحال ہے، وہ بھی سب کے علم میں ہے. جو نمائندے اپنے ووٹرز کو زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا نہ کرا سکیں، وہ منفی ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں. زندگی کا تحفظ ریاست کے ساتھ ان نمائندوں کی بھی ذمہ داری ہے مگر یہ نمائندے زخموں پر مرہم پٹی کے بجائے اشتعال انگیزی میں اپنی ناکامی کو چھپاتے ہیں.

    آپ کا مثبت رویہ سر آنکھوں پر مگر یہ بھی بتلا دیجیے کہ یہ مثبت رویہ کتنے لوگوں میں پایا جاتا ہے؟ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جو جذباتیت اور عدم برداشت کا نمونہ ہے۔ مثبت رویے کے ساتھ حقیقت پسندی کا بھی مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اچکزئی صاحب کی باتوں اور مخصوص الفاظ کے استعمال سے، خاص طور پر اس وقت جب جذبات بھڑکے ہوئے ہوں، خرابی پیدا نہیں ہوگی؟ ایسے وقت میں جب انسان اپنوں کے غم سے نڈھال ہوں، ان سے ہوش میں رہنے کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ ان کے اندر کے غبار اور ناامیدی کو کم کیا جائے، نہ کہ ان کے زخموں پہ نمک چھڑک کر اور آگ لگا دی جائے اور ان کے جذبات سے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا راستہ ہموار کیا جائے.

    پارلیمنٹ میں بات کرنا یقینا ان کا حق ہے مگر کیا بات کرنی ہے؟ کون سے الفاظ استعمال کرنے ہیں؟ اور کس کے خلاف اور کس کے نمائندے کے طور پر بات کرنی ہے؟ یہ نقطہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کے ووٹ تو پاکستانیوں کے ہوں، آپ نمائندے تو پاکستانی عوام کے ہوں لیکن بات آپ پاکستانی سرزمین اور حدود کے خلاف کر رہے ہوں، جیسا کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں ہی کہا کہ میں’’پاکستان زندہ باد نہیں کہوں گا‘‘. اس جملے کا سیاق وسباق تو شاید آپ یا ان لوگوں کے علم میں ہوجو ایسے موضوعات پر دسترس رکھتے ہوں۔ لیکن میڈیا میں صرف یہی نعرہ مشہور کیا جائے، جو کہ ملک دشمن عناصر کا ایک بہترین طریقہ ہے تو سادہ لوح عوام کو آسانی سے گمراہ کر کے ملک دشمن جذباتیت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، ایسے میں قصور وار تو اچکزئی صاحب جیسے سیاستدان ہی ہوں گے۔ اس سے عام عوام میں ملک کے خلاف نفرت کا زہر بڑھےگا کم نہیں ہوگا۔ اور اس میں اچکزئی صاحب ہی مورد الزام ٹھہرائے جائیں‌گے. اگر اس نظر سے دیکھا جائے تو بندوق سے زیادہ الفاظ کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ بندوق سےنکلی گولی تو صرف چند افراد کی زندگیاں گل کرتی ہے لیکن منہ سے نکلے الفاظ کا زہر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور بڑھتا ہی رہتا ہے۔

    ’’بند مٹھی لاکھ کی، اسے بند ہی رکھیے‘‘ جیسے مشورے پر میرا خیال ہے کہ بند مٹھی بھلے کروڑوں کی ہو، جب تک کھلے گی نہیں، اس کا پتہ کیسے چلےگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ خالی ہی نکلے، لاکھوں کے خاطر ہاتھ بندھے ہی رہ جائیں اور جو کچھ ہاتھ لگنے کا امکان ہو وہ بھی جاتا رہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ اچکزئی صاحب جیسے تجربہ کار، آئین کے ماہر اور ریاستی امور میں لاثانی واقفیت کار سیاستدان کو بھی دیکھ بھال کے چلنا چاہیے۔

  • بلوچستان۔ عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (حصہ دوم)-اوریا مقبول جان

    بلوچستان۔ عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (حصہ دوم)-اوریا مقبول جان

    orya

    بلوچستان میں بسنے والے بلوچ عوام تو اپنے جغرافیائی محل و قوع کی وجہ سے بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ ایک طویل ساحل جس پر گوادر جیسی اہم ترین گہرے پانیوں کی بندرگاہ واقع ہے۔ ریکوڈک اور سنیدک کی طرح کے سونے اور تانبے کے ذخائر، تیل و گیس کے علاوہ معدنیات کا ایک وسیع خزانہ ان کے علاقے میں موجود ہے۔ سندھ اور پنجاب سے ملانے والی تمام شاہراہیں بلوچ علاقوں سے ہو کر گزرتی ہیں۔

    بلوچستان میں میں بسنے والے کسی بھی پشتون نے اگر کراچی جانا ہو تو اسے کوئٹہ سے لک پاس کے راستے مستونگ، قلات، خضدار کے بروہی علاقے اور لس بیلہ کے بلوچ علاقے سے گزرنا ہو گا۔ اسی طرح سندھ اور پنجاب جانے کے لیے سبی، جعفر آباد اور نصیر آباد کی جانب سے ایک راستہ، ڈیرہ بگٹی اور کشمور کی طرف سے دوسرا، لورالائی اور بارکھان کی طرف سے تیسرا راستہ ہے اور یہ سب راستے بلوچ قبائل کی سرزمین سے ہو کر گزرتے ہیں۔ بلوچستان کا وہ حصہ جہاں پشتون آباد ہیں اس میں سے چند بلوچ علاقے مثلاً ڈیرہ بگٹی، کوہلو، بارکھان وغیرہ نکال کر باقی سب برٹش بلوچستان تھا۔ یہاں پر انگریز کی براہ راست حکومت قائم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے کے نظام سے لے کر آب پاشی تک تمام نظام ہائے کارتک انگریز نے یہاں پر ہی قائم کیے۔ کوئٹہ اس کا صدر مقام اور ہیڈکوارٹر تھا۔

    یہ پشتون علاقہ پاکستان میں بھی ویسے ہی دیگر علاقوں میں گھرا ہوا ہے جیسے افغانستان دیگر ملکوں میں گھرا ہوا ہے اور اسے سمندر تک کوئی راستہ میسر نہیں ہے۔ پشتونوں کے علاقے سے واحد راستہ ژہوب کی جانب سے نکلتا ہے جو انھیں خیبرپختونخوا سے ملاتا ہے۔ بلوچستان میں آباد پشتون قبائل میں انگریز کے تقریباً ایک سو سالہ دور حکومت کی وجہ سے قبائلی نظام خاصا کمزور ہو چکا ہے اور سرداری نام کی تو کوئی چیز اس معاشرے میں باقی ہی نہیں رہ گئی۔ ایک نواب سے جو کاکڑوں کے جوگیزئی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی حیثیت بھی ایک علامت کے طور پر باقی ہے۔ پشتون جو پاکستان میں سرحد کی اس جانب بستے ہیں اور جو سرحد کی دوسری جانب ان کے درمیان مستقل خاندانی، کاروباری اور معاشی رشتے موجود ہیں۔ سرحد کے قریب علاقوں میں افغانستان سے آج بھی لوگ آ کر چھ ماہ کے لیے آباد ہوتے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔

    انھیں یہاں کی زبان میں ’’ششماہی‘‘ کہتے ہیں۔ اسمگلنگ چونکہ بنیادی ذریعہ کاروبار ہے اس لیے اس کاروبار سے منسلک افراد کا ایک بھائی قندھار میں بیٹھا ہو گا تو دوسرا چمن میں، تیسرا کوئٹہ تو چوتھا جاپان یا سنگاپور وغیرہ میں۔ ان کا ایک نیٹ ورک ہے جو دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کے ساحلوں سے جو سامان افغانستان کے لیے ٹرین یا ٹریک پر روانہ ہوتا ہے اس میں سے کثیر تعداد صرف سرحد پار کرنے کی زحمت کرتی ہے اور پھر واپس پاکستان کی مارکیٹوں میں آ جاتی ہے اور اس سے اس ملک کے ہر شہر کی مارکیٹیں بھری ہوئی ہیں۔ اس سب کے باوجود بلوچستان کا پشتون، افغانستان کے پشتون قبائل سے بالکل مختلف ثقافتی اور انتظامی سانچے کا عادی ہو چکا ہے۔

    اسے یہاں کورٹ کچہری اور پٹواری تحصیلدار کی عادت ہو چکی ہے اور وہ افغانستان سے آنے والے پشتونوں کو آج بھی جدید تہذیب سے دور کوئی آبادی تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چمن کے سرحدی شہر میں جب سردیوں میں افغانستان سے لوگ مزدوری کرنے کے لیے آتے ہیں تو لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ’’احتیاط کیا کرو، قندھاری لوگ آئے ہوئے ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے آنے والا افغان مہاجر پاکستان کے نسبتاً جدید ماحول میں تو رچ بس جاتا ہے لیکن پاکستان کا کوئی پشتون وہاں جا کر آباد نہ ہو سکا۔ پاکستان میں لاگو قانون اور افغانستان میں صدیوں سے بادشاہ کی مرضی ہی قانون کا بہت فرق ہے۔ اسی لیے شروع شروع میں جب افغان مہاجر یہاں آئے تو وہ جیل کے نام سے بہت ڈرتے تھے۔

    ان کے نزدیک جیل جانے کا مطلب یہ تھا کہ اب یہ ساری عمر وہیں گزارے گا۔ ہاں اگر حاکم کو اس پر رحم آ جائے یا پھر حاکم بدل جائے اور وہ قیدیوں کی رہائی کا حکم دے دے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کا پشتون بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس کا پاکستان کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ زیارت، پشین، لورالائی، ژہوب اور ہرنائی کے پھل اسی ملک کی شاہراہوں کے ذریعے دنیا بھر میں فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی اب تو پاکستان کا کوئی بھی بڑا شہر ایسا نہیں جس میں پشتونوں کی ایک کثیر تعداد موجود نہ ہو۔ لاہور شہر کے قدیمی اندرون لاہور میں تقریباً چالیس فیصد پشتون آباد ہیں کیونکہ بادامی باغ کے بس اور ٹرک اڈے سے ان کا کاروبار وابستہ ہے۔ کراچی، فیصل آباد، راولپنڈی اور ملتان جیسے شہروں میں ان کی موجودگی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے تین دہائیاں قبل پشتونستان کا جو نعرہ زور و شور سے لگایا جاتا تھا اب دم توڑ چکا ہے۔ خیبرپختونخوا جو اس کا مرکز تھا اس میں بھی اب اس نعرے کی گونج تک سنائی نہیں دیتی۔

    بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قبائل پاکستان کی دیگر اقوام پنجابی یا سندھیوں سے کہیں بہتر طور پر یہ حقیقت جانتے ہیں کہ وہ اپنے پڑوس افغانستان اور ایران سے کس قدر بہتر اور باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں قوم پرست نعرے بھی حکومتی الیکشن کے لیے لگتے ہیں۔ ایک الیکشن میں قوم پرست جیتتے ہیں اور دوسرے الیکشن میں ان کا صفایا ہو جاتا ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کے علاقے کو ایک صوبہ نہیں بلکہ ایک سرحدی اور خصوصی اہمیت کا حامل ”Strategic” علاقہ سمجھا ہے۔ اسی لیے انگریز سے لے کر آج تک ان کی خواہش یہ رہی ہے کہ چونکہ اس علاقے سے ہم نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہے اس لیے یہاں پر حکومت ہمارے وفادار لوگوں کی ہونا چاہیے۔ انگریز نے وفاداری کی شرطیں اتنی سخت اور کڑی نہیں رکھی تھیں جتنی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے رکھ دی ہیں۔ وہاں قبائل کی آزادی اور نیم خود مختاری موجود تھی لیکن یہاں تو مکمل تابعداری کی شرط رکھ دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ قبائل کے اندر جو ذاتی دشمنیاں ہوتی ہیں، اسٹیبلشمنٹ ان میں اپنے وفادار ڈھونڈتی ہے۔

    انھیں پالتی ہے اور جو بھی ذرا سر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اسے اسی کے مخالفین سے زیر کراتی ہے۔ وہ اپنی قبائل دشمنی میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور یوں آپ اپنی مرضی کے شخص کو یہاں کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیتے ہیں۔ یہ بیک وقت ایک گروہ کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ سب سے خفیہ آشنائیاں رکھی ہوتی ہیں۔ اسی لیے لوگ اس ’’چالباز حسینہ‘‘ جسے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں کے پرفریب جال میں آتے رہتے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کا سانحہ انھیں پالیسیوں کی واضح مثال ہے۔ ان کے بعد وہ قبیلہ جو ایک نواب کے زیر سایہ متحد تھا، آج مکمل طور پر بٹ چکا ہے۔ ان کی موت کے بعد ’’مسوری‘‘ اور ’’کلپر‘‘ قبیلوں کے بگٹی سرکاری اقتدار پر بھی براجمان ہیں اور قبائلی اقتدار کی راہداریوں میں بھی جلوہ گر۔

    (جاری ہے)

    حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے

  • بلوچستان کی محرومیوں کی داستان – احسان کوہاٹی

    بلوچستان کی محرومیوں کی داستان – احسان کوہاٹی

    احسان کوہاٹی ق مجھے محرومیوں اور خودداریوں کو مجسم کرنے کا اختیار ملے تو میرے ہاتھوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بلوچستان کا بلوچ تخلیق پائے. جس نے غربت، افلاس اور محرومیوں کو دیکھنا ہو تو وہ کوئٹہ سے نکل کر کسی بھی بلوچ یا پشتون بیلٹ میں چلا جائے، وہاں آپ ایسی مخلوق پائیں گے جنھیں’’اسلام آباد‘‘ کے تئیں پینے کے لیے پانی کی ضرورت ہے نہ کھانے کے لیے اناج کی، سڑکوں پر سفر سے ان کی عمریں گھٹ سکتی ہیں، اس لیے وہاں راہیں ہموار کرنے اور تارکول بیلنے والے رولر نہیں بھیجے جاتے، بجلی گیس پانی چونکہ انسانوں کی بنیادی ضروررتیں ہیں اس لیے بلوچوں کو ان کی ضرورت نہیں، تعلیم تو ہے ہی وقت کا ضیاع سو وہاں اسکول کالج کیسے، اور اگر کہیں ہوں بھی تو وہ اسی حال میں ملیں گے جس حال میں بلوچستان ہے۔ اب رہ گئی صحت کی تو یہ ہمارے جنجال ہیں، پہاڑوں، بیابانوں اور دشت میں رہنے والے کیوں بیمار پڑنے لگے، ان کا لائف اسٹائل ایسا ہے کہ وہ فزیکلی بڑے ہی فٹ ہوتے ہیں۔ اور ہاں میکڈونلڈ، کے ایف سی، برگر کنگ، پیزا ہٹ کے جنک فوڈز تو ہمارے بچے کھاتے ہیں، اس سے ہمارے شہزادوں کا وزن بڑھتا ہے، اس لیے جمنازیم، کھیلوں کے میدان اور پارکیں بھی ادھر ہی ہونی چاہییں، ادھر ان کا کیا مصرف؟

    اس لیے جب 2008ء اکتوبر میں زلزلے کے بعد زیارت جانا ہوا تو قائداعظم کے صنوبر کی وادی کو تقریبا ویسا ہی پایا جیسا ہمارے قائداعظم چھوڑ کر گئے تھے، زیارت بلوچستان کا ایک بڑا ضلع ہے لیکن یہاں سہولیات کا حال یہ تھا کہ پورے زیارت میں ایک ایکسرے مشین نہیں تھی، لوگ زلزلے میں زخمی ہونے والوں کو چارپائیوں پر ڈالے گھنٹوں کی مسافت کے بعد پہاڑوں سے نیچے اترتے تو انہیں ایکسرے کرانے کے لیے پانچ گھنٹوں کی مسافت پر کوئٹہ روانہ کر دیا جاتا، میرے لیے یہ صورتحال بڑی عجیب اور حیران کن تھی. زیارت سے واپسی پر جب کوئٹہ پریس کلب میں امدادی سرگرمیوں کے لیے صدر آصف علی زرداری کے کوآرڈینیٹر ہمایوں کرد سے نیوز کانفرنس میں آمنا سامنا ہوا، وہ امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دے کر خاموش ہوئے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کی سب باتیں اپنی جگہ جناب! لیکن میں نے تو دیکھا ہے کہ زیارت میں ایکسر ے مشین تک نہیں، آپریشن تھیٹر کی عیاشی کا ذکر تو جانے دیجیے۔ میں نے ذرا جذباتی انداز میں سوال پوچھ لیا تھا جس کا برا منانے کے بجائے ہمایوں کرد صاحب نے جو کہا اس کی تصدیق 2013ء کے زلزلے میں ہوئی۔
    ہمایوں کرد نے کہا تھا کہ میرے بھائی آپ ایک زیارت کی بات کر رہے ہیں، یہاں تو پورے بلوچستان کا یہی حال ہے۔ اور اس کی گواہی2013ء میں زمین بوس ہونے والا آواران دے رہا تھا،احسان کوہاٹی وہاں بھی ’’رہے نام اللہ‘‘ والی صورتحال تھی، سرکار نے کوئٹہ کراچی روڈ سے آواران تک ایک سڑک کھینچ کر بس اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کر دی تھی، اگر چہ کہ یہاں ٹیلی فون ایکسچینج، اسپتال، کالج اور اسکول بھی تھے لیکن ٹیلی فون ایکسچینج کے علاوہ سب غیر فعال تھے، آواران سے آگے کا حال گویا ایسا تھا کہ سرکار کہہ رہی ہو، اپنی ذمہ داری پر جان و تن کا رشتہ استوار رکھ سکتے ہیں ۔

    وفاق کے اس ’’محبت بھرے‘‘ رویے کا ہی نتیجہ تھا کہ نوکیلے اور بے آب وگیاہ پہاڑوں کو عبور کرتے ہی شہر کے درودیوار مرگ بر پاکستان کے نعروں سے استقبال کرتے ملے، جگہ جگہ بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے نعرے ان کی موجودگی کااحساس دلاتے ملے، پورے شہر میں کہیں قومی پرچم دکھائی نہیں دیا اور دکھائی دیا بھی تو بندوقوں کی حفاظت میں ان فوجی جیپوں پر جو وقتا فوقتا کچے روڈ پر گرد و غبار کا بادل اڑاتے چلی جاتی تھیں، اس گرد و غبار میں قومی پرچم بھی ناراض ناراض سا لگا، بلوچوں سے نہیں، بلوچوں کو اس حال تک پہنچانے والے ضمیرفروشوں سے۔

    اچھا! بلوچستان کو اس حال تک صرف سرسبز اسلام آباد نے اکیلے نہیں پہنچایا، اس میں برابر کا ہاتھ ان بلوچ سرداروں کا بھی ہے جن پر ہمارے یہ سادہ لوح بلوچ جاں فدا کرتے ہیں، جن کے پاس اپنے تنازعات لے کر جاتے ہیں، جھک کر ملتے ہیں، تقریبات میں دس گز کی دستار باندھتے ہیں اور کبھی سوال نہیں اٹھاتے کہ آپ کے بچے خاران، قلات، لسبیلہ کے اسکولوں کے بجائے آکسفورڈ میں کیوں پڑھنے جاتے ہیں، آپ رہائش کراچی کے ڈیفنس کی کوٹھی میں رکھتے ہیں اور سرداری ہم پر چلاتے ہیں۔ ان کا قبائلی نظام ان کی زبان کو اس قسم کے سوالوں کا بوجھ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا، یہ سردار اپنے لوگوں سے کتنے مخلص ہوتے ہیں اس کا اندازہ ایک دینی فلاحی ادارے کے سربراہ سے ملاقات میں ہوا، وہ بلوچستان اور سندھ کی روٹھی زمین سے سینکڑوں فٹ گہرے کنویں کھدوا کر پیاسے لبوں کو سیراب کرتے ہیں. ایک دن ملے بلوچستان کا ذکر چھڑا، وہاں کی غربت افلاس اور باغی رویوں کی بات ہوئی تو کہنے لگے’’سیلانی صاحب! بلوچستان کا مسئلہ معاشی ہے سیاسی نہیں، بےچارے بلوچ کو تو دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل رہی، آپ ان کے لیے زندگی آسان کریں اور پھرساری زندگی ان کی محبتیں پائیں۔ لیکن مسئلہ ایک اور ہے ہم انہیں ان کے سرداروں کے ذریعے فیض پہنچانا چاہتے ہیں تو وہ فیض ان کے قلعہ نما کوٹھیوں سے باہر نہیں نکل پاتا، وہیں قید ہو کر افزائش نسل کرتا رہتا ہے، ایک روز اکبر بگٹی صاحب کے ایک صاحبزادے کا میرے پاس فون آیا، کہنے لگے مولانا صاحب! میرے علاقے میں ہیپاٹائیٹس کی ویکسی نیشن تو کروا دیں، میں نے کہا بسم اللہ جی بتائیں کب اور کہاں جانا ہے، جواب میں انہوں نے جو علاقہ بتایا وہ ڈیرہ بگٹی یا بلوچستان کا کوئی دورافتادہ علاقہ نہیں بلکہ ان کی تیسری بیگم کے میکے فیصل آباد کا تھا۔‘‘

  • بلوچستان کا حل جناح ؒ فارمولے میں ہے – آصف محمود

    بلوچستان کا حل جناح ؒ فارمولے میں ہے – آصف محمود

    آصف محمود مودی نے حوادث آئندہ کا انتساب لکھ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا فیصلہ کیا ہے۔
    اگر ہم مسئلہ بلوچستان کو سمجھنا اور حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہو گا کہ وہ کیا حالات تھے جنہوں نے حضرت قائداعظمؒ جیسے آدمی کو جو، جو تین عشرے متحدہ ہندوستان کا پیش منظر ترتیب دینے کی سنجیدہ کوششیں کرتے رہے، بالآخر تقسیم ہند کا مطالبہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بلوچستان کے مسئلے کا تقسیم برصغیر سے کیا تعلق، لیکن مکرر عرض کرتا چلوں کہ مسئلہ بلوچستان کو درست طور پر سمجھنے اور حل کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں۔

    1916ء میں معاہدہ لکھنؤ سے لے کر 1946ء کے کیبینٹ مشن پلان تک، قائداعظم ؒ متحدہ ہندوستان کے تصور سے متفق تھے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان کی قوم آنے والے دنوں میں اجتماعی زندگی سے الگ کر کے غلام نہ بنا لی جائے۔ تین عشروں پہ پھیلی اس جدوجہد میں وہ اپنی قوم کے مفادات کے تحفظ کی گارنٹی طلب کرتے رہے۔ لیکن جب انہیں آخری حد تک یقین ہوگیا کہ کانگریس کے متحدہ ہندوستان کے تصور میں مسلمانوں کے لیے عزت سے جینے کا کوئی امکان موجود نہیں تو پھر انہوں نے تقسیم ہند کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ اقلیت مذہبی ہو یا معاشی، یا حتی کہ محض نفسیاتی، اس کے وہی مطالبات ہوتے ہیں جو قائد اعظم ؒ کے تھے اور جب ان مطالبات کے ساتھ کانگریس جیسا متعصبانہ سلوک کیا جائے تو پھر علیحدگی کی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔

    قائداعظم ؒ اس وقت مسلمانوں کے لیے جومانگ رہے تھے متعصب ذہن کہہ سکتے ہیں کہ وہ مروجہ جمہوری اصولوں کے خلاف تھا۔ لیکن روایتی جمہوریت کی روایتی وارداتوں کو دیکھ کر قائداعظم ؒ روایت سے ہٹ کر مسلمانوں کے لیے کچھ طلب کر رہے تھے۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی نشستیں ان کی آبادی کے متناسب نہیں ہوں گی بلکہ زیادہ ہوں گی۔ اب جمہوریت کی روایات بھلے کہتی رہیں کہ یہ مطالبہ ان کے مطابق نہ تھا، اقلیت کے تحفظات کی روشنی میں یہ ایک برحق مطالبہ تھا۔ قائداعظم ؒ دیکھ رہے تھے کہ اگر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نشستیں ان کی آبادی کے تناسب سے ہوئیں تو قانون سازی کے عمل سے مسلمان ہمیشہ کے لیے لاتعلق ہو جائیں گے۔ ( اسی طرح جیسے آج ہم نے بلوچستان کو آبادی کی بنیاد پرقومی اسمبلی میں محض 17نشستیں دے کر قانون سازی کے عمل سے لاتعلق کر دیا ہوا ہے)۔ دوسرا مطالبہ تھا کہ مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی سے کم نہ ہو۔ تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو ملازمتوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ کوٹا دیا جائے کیونکہ قائدؒ دیکھ رہے تھے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ملازمتوں میں مسلمان دیوار سے لگا دیے جائیں گے۔ (ایسے ہی جیسے آج بلوچستان کو لگا دیا گیا ہے۔ پوری فوج میں ایک جرنیل بھی بلوچستان سے نہیں اور پورے اسلام آباد میں ایک بھی فیڈرل سیکرٹری کا تعلق بلوچستان سے نہیں)

    1916ء میں کانگریس نے یہ مطالبات قریب قریب مان لیے۔ مگر 1928ء کی نہرو رپورٹ میں کانگریس جداگانہ انتخابات کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی مکر گئی کہ مسلمانوں کی نشستین ان کی آبادی سے زیادہ ہوں گی۔ اس نے مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی کے بجائے ایک چوتھائی کرنے کی بات کر دی۔ قائداعظم ؒ نے بھانپ لیا کہ ایک چوتھائی نشستوں کے ساتھ تو مسلمان قانون سازی کے معاملات میں بے بس ہو جائیں گے۔ وہ نہ کوئی قانون بنوا سکیں گے اور نہ کوئی قانون بننے سے روک سکیں گے یعنی معاملات ریاست میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ ( بالکل ایسے ہی جیسے آج بلوچستان کو قومی اسمبلی میں صرف 17نشستیں حاصل ہیں۔ یہ صوبہ قومی اسمبلی میں اکٹھا بھی ہو جائے تو نہ کوئی قانون بنا سکتا ہے نہ کسی قانون کو بننے سے روک سکتا ہے۔) چنانچہ مستقبل کے اس ہولناک منظر سے بچنے کے لیے علیحدگی کا نعرہ لگا اور متحدہ ہندوستان کے بجائے تقسیم ہند پر معاملہ ہوا۔یہی وہ پس منظر ہے جو جسونت سنگھ کو یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ کانگریسی رویوں نے مسلم لیگ کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ علیحدگی کی بات کرے۔

    اس پس منظر کے ساتھ اب آپ بلو چستان کی طرف آئیے۔ بلوچستان اس ملک کا 46% رقبہ ہے اور باقی کے تین صوبے مل کر 54 فی صد۔ لیکن ہم نے قائد اعظم کا نہیں بلکہ کانگریس کا اصول اپنایا ہے اور انہیں ان کی آبادی کی بنیاد پر نشستیں دی ہیں چنانچہ342 کی قومی اسمبلی میں بلوچستان کے پاس صرف 17نشستیں ہیں۔ وہ نہ کوئی قانون بنا سکتے ہیں نہ کوئی قانون بننے سے روک سکتے ہیں۔ پنجاب کی زمین اپنا خزانہ باہر اگلتی ہے اور یہ خزانہ گندم ہو یا چاول اس کا ہوتا ہے جس کی زمین ہو۔ بلوچستان کی زمین کا خزانہ اس کے پیٹ میں ہے چاہے گیس ہو یا تیل۔ مگر یہ خزانہ بلوچ کا نہیں ہوتا۔ اس پر مرکز نے اپنا حق جتلا رکھا ہے۔ کوئٹہ یونیورسٹی میں بلوچ دوستوں نے جب یہ نکتہ اٹھایا کہ آصف محمود کی زمین کی فصل آصف محمود کی ہے مگر آصف بلوچ کی زمین کی گیس یا تیل آصف بلوچ کا نہیں ہے تو آنکھیں کھل گئیں۔ عرض کیا کہ آپ یہ قانون بدلوا لیں۔جواب آیا کہ آپ لوگوں نے ہمیں17نشستیں دے کر اس قابل ہی کہاں چھوڑا کہ ہم آپ کے ظالمانہ قوانین بدل سکیں۔ اس لمحے مجھے قائداعظم بہت یاد آئے، میرے قائد کی کیا بصیرت تھی۔ قائداعظم کے اس پہلے اصول کی نفی ہم نے کی۔ بلوچستان عملا ہم سے کٹ چکا ہے۔ جس صوبے میں صرف 17نشستیں ہوں ، نوازشریف یا آصف زرداری وہاں جا کر وقت کیوں ضائع کریں۔ سیاسی جماعتوں نے بلوچستان جانا وقت ضائع کرنے کے مترادف جانا چنانچہ آج فیڈریشن میں بلوچستان سٹیک ہولڈر ہی نہیں رہا۔ ہمارا میڈیا پورے بلوچستان سے زیادہ صرف ایک اکیلے شیخ رشید کو کوریج دیتا ہے۔

    ملازمتوں میں یہ عالم ہے کہ سول سروس میں پورے بلوچستان کی نمائندگی پنجاب کے ایک ضلع سرگودھا سے بھی کم ہے۔ (یادرہے کہ قائد اعظم نے ملازمتوں میں کیا تناسب مانگا تھا) تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج بلوچوں کے وہی خدشات ہیں جو قائداعظم ؒ کے کانگریس سے تھے۔ اور ہم بلوچستان کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔ چنانچہ بلوچوں کا ردعمل وہی ہوتا جا رہا ہے جو مسلم لیگ اور قائداعظم ؒ کا تھا۔ ہم آج قائداعظم ؒ کی فکر پر عمل کرتے ہوئے بلوچستان کو ان بنیادوں پر حقوق دے دیں جن بنیادوں پر بابائے قوم نے کانگریس سے بات کی تھی تو ہم حادثے سے بچ سکتے ہیں۔ بلو چستان کو فکر قائد پر عمل کر کے بچایا جا سکتا ہے۔

  • کون ناکام ہوا ہے؟ محمد عامر خاکوانی

    کون ناکام ہوا ہے؟ محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی کوئٹہ کے سانحے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بطور قوم ہم اس بھیانک واقعے کے بعد اکٹھے ہوجاتے اور دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف نئی صف بندی کر ڈالتے، الٹا الزام تراشی اور پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کی ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر بعض لوگوں نے تند و تیز تبصرے کیے اور ان کا ساتھ میڈیا کے ایک حصے نے بھی دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک حلقہ روایتی طور پر اینٹی آرمی یا یوں سمجھ لیجیے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف رکھتا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ان میں ہماری لبرل جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہیں اور ان کے ساتھ کندھا ملانے والوں میں خالص دینی جماعتوں کے وابستگان بھی شامل ہیں۔ یہ ملک کا واحد ایشو ہے جس پر ایم کیو ایم کے شعلہ بیان نوجوانوں کے ساتھ جے یوآئی کے مولوی صاحبان یا جماعت کے وابستگان کا ایک حلقہ ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو غصہ ہے کہ ان کے خلاف آپریشن کیوں چل رہا ہے تو دینی جماعتیں جنرل مشرف کے زمانے ہی سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ فریکوئنسی پر جا چکی ہیں۔ خیر ہم اس پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی بحث میں پڑے بغیر ان دو تین سوالات پر نظر ڈالتے ہیں جو اس سانحے کے بعد پھوٹے ہیں۔ جہاں تک آپریشن ضرب عضب کا تعلق ہے تو کوئی عقل کا اندھا ہی اس کی کامیابی میں شک کرے گا۔ آپریشن سے پہلے صورتحال یہ تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کی دہشت اور ہیبت ملک بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے سول ادارے سہمے ہوئے تھے۔ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں سے عملاً حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی۔ دہشت گرد گروہ اتنے طاقتور تھے کہ وہ نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ مذاکرات میں اپنی من پسند شرائط منوانے کی کوشش کرتے رہے۔ دل سے شاید انہیں یقین ہوچلا تھا کہ پاکستانی ادارے ہماری گوریلا قوت سے مرعوب ہوچکے ہیں اور اب ہم قبائلی ایجنسیوں کو اپنے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ (safe haven) بنا لیں گے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں بم دھماکے، قتل وغارت اور سکیورٹی ایجنسیوں کے درجنوں افراد کے اغوا کے واقعات آئے روز ہو رہے تھے۔ کراچی ٹارگٹ کلنگ اور بے پناہ بھتہ خوری کے باعث جہنم بنا ہوا تھا، پاکستان کے اس سب سے بڑے اور اہم شہر میں ہونے والی لہو رنگ گینگ وار اور سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز کی لڑائیوں میں ہزاروں جانیں جا چکی تھیں۔

    آج کا پاکستان سب کے سامنے ہے۔ ٹی ٹی پی کی قوت عملاً ختم ہوچکی ہے۔ اس کا محفوظ اور مضبوط ترین مستقر شمالی وزیرستان آزاد ہوچکا، قبائلی ایجنسیوں اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کیا جا چکا۔ پنجاب اور کراچی میں سب سے زیادہ خطرہ تھا کہ یہاں لشکر جھنگوی اور سابق جہادی تنظیموں کے سپلنٹر گروپوں کے سلیپنگ سیل موجود تھے، گن فائٹ کرنے والے جنگجو اور سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں ان کے سہولت کار۔ ڈیڑھ دو برسوں کے دوران ان سب کا صفایا ہوگیا۔ القاعدہ کا نیٹ ورک مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ جو گروپ اس کے لیے کام کرتے تھے، وہ نیست ونابود ہوگئے۔ سکیورٹی اداروں کی اپنی رپورٹس کے مطابق یہ خدشہ تھا کہ آپریشن ضرب عضب کا انتہائی خوفناک اور خونی ردعمل ہوگا اور پنجاب سمیت ملک بھر کے بڑے شہروں میں صورتحال شائد سنبھالی نہ جا سکے۔ اللہ کی مہربانی اورفورسز کی قربانیوں کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔ ہزاروں دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے ۔یہ غیر معمولی کامیابی تھی۔ اتنے بڑے اور پھیلے ہوئے نیٹ ورک ، جس کی ایک خاص دینی حلقے میں پذیرائی اور ہمدردی موجود تھی، عوامی سطح پر ان کے سہولت کار بھی کم نہیں تھے، مگر ان سب کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیاگیا۔ کراچی کا جلتا جہنم بڑی حد تک پرسکون ہوگیا۔ شہر کی رونقیں لوٹ آئیں۔ دہشت گرد گروپوں، فسطائی جماعتوں کے مسلح ونگز اور ٹارگٹ کلرز کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔ بھتہ خوری میں نمایاں کمی ہوئی۔

    آپریشن ضرب عضب کی کامیابی میں ظاہر ہے سب سے بڑا اور نمایاں ترین حصہ فورسز اور ان کے جوانوں کا ہے۔ عسکری قیادت اس کا کریڈٹ لیتی ہے اور اسے اس کا حق بھی پہنچتا ہے۔ یہ اپنی جگہ درست بات ہے کہ وفاقی حکومت نے آپریشن ضرب عضب کو کامیاب بنانے کے لیے جس نیشنل ایکشن پلان کا ذکر کیا تھا، اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ بعض شقوں پر کچھ عمل درآمد ہوا، مگر کئی شقوں کو تو لگتا ہے کسی نے چھیڑنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ نیکٹا جیسے ادارے کی بات ہوئی، یہ قائم بھی ہوا، فنڈز بھی کچھ ملے، مگر کسی کو علم نہیں کہ آج نیکٹا کیا کام کر رہا ہے، کس قدر فعال یا غیر فعال ہے؟ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کے نظام کو اس طرح مضبوط اور موثر نہیں بنایا گیا، جیسا کہ ضرورت تھی۔ پولیس اب صوبائی معاملہ ہے، اس لحاظ سے اس ناکامی میں مسلم لیگ ن کے ساتھ پیپلزپارٹی، بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قوم پرست اور کسی حد تک خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی شامل ہے۔ یہ ناکامیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ، مگر بہرحال سویلین حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے۔ سیاسی حکومت نے اس آپریشن کی اونر شپ لی اور آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام جیسی ترامیم کیں، جن کا سیاسی معاشروں میں تصور تک نہیں۔ ویسے بھی منتخب سیاسی حکومت کی چھتری کے بغیر یہ پیچیدہ اور حساس نوعیت کا آپریشن کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ دوسری طرف حق تو یہ ہے کہ فوج کی کامیابی حکومت اور ریاست کی کامیابی ہے۔ فوج ہوں یا ایجنسیاں یہ ریاستی ادارے ہی ہیں۔ اس نازک موقع پر سول اور ملٹری میں تقسیم کا تاثر دینا دانش مندی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے سول، ملٹری یکسوئی بہت ضروری ہے۔ ہمارے فوجی جوانوں نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں، ان کا پوری قوم کا احساس ہے، ان شہدا اور غازیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، مگر ایسا سویلین حکومت اور انتظامیہ کو شرمندہ یا پیچھے کیے بغیر بخوبی احسن طریقے سے ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔

    پارلیمنٹ میں جس بے رحمانہ انداز سے آپریشن اور فورسز کو نشانہ بنایاگیا، وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ نرم سے نرم لفظوں میں جناب اچکزئی کے بیان کو نہایت غیر ذمہ دارانہ اور عاقبت نااندیشانہ کہا جا سکتا ہے۔ سینئر سیاستدانوں سے ایسی بچگانہ، تھڑا ٹائپ جذباتی تقریروں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مولانا شیرانی کی تقریر سے بھی مایوسی ہوئی۔ جو تقریر انہوں نے فرمائی، اس میں خلا موجود تھے اور انہیں خود اس کا احساس ہونا چاہیے۔ جناب محمود اچکزئی کو بھی سوچنا چاہیے کہ چادر کندھے پر ڈال دینے سے رومن دانشور سسرو کا تاثر نہیں بن سکتا، عملاً ان کا رویہ بروٹس والا تھا، ایک فرق کے ساتھ کہ اس بار نشانہ سیزر نہیں بلکہ پاک فوج تھی۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ہمیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں تقسیم کرنا چاہیے، کسی کی حب الوطنی میں شک کرنا بھی مناسب نہیں، مگر محمود اچکزئی جیسے رہنمائوں کی جانب سے اس ملک کے لیے کبھی کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی تو آنا چاہیے۔ کیا ہر بار یہ عملاً پڑوسی ممالک کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہیں گے؟ کبھی ان کی شعلہ بیانی، ذہانت اور طراری کا فائدہ ملک کو بھی پہنچنا چاہیے۔ افسوس کہ جناب اچکزئی جب بھی ایسے موقع پر تو لے گئے، ہمیشہ ہلکے ثابت ہوئے۔ بلوچستان میں را کی سازشیں اب جانی پہچانی بات ہے، مگر یہ فقرہ کبھی اچکزئی صاحب اور ان کے ہمنوائوں کی زبان پر نہیں آئے گا۔

    آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کرنے والے بدبخت جو چاہتے تھے، ہم نے وہی کیا۔ ان کی سینکڑوں کارروائیاں ناکام ہوئیں، ایک منحوس لمحہ ہمیں بھاری پڑا، مگر ہم نے آپس میں الجھ کر، الزام تراشی کر کے دہشت گردوں کو سکون ہی پہنچایا۔ وہ ہماری قومی یکسوئی اور یکجہتی پاش پاش کرنا چاہتے تھے، ہم نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ اس اعتبار سے ناکامی کسی ادارے یا سویلین حکومت کی نہیں بلکہ من حیث القوم ہمارے اجتماعی رویے کی ہوئی ہے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں، غلطیاں بھی ہور ہی ہیں، کمزوریاں بھی موجود ہیں، مگر مایوس ہونے یا حوصلہ ہارنے کے بجائے ان غلطیوں کو سدھارنا، کمزوریوں کو دور کرنا اور دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ہمارے پاس یہی ایک آپشن ہے۔ قوموں کی زندگیوں میں آزمائشیں آتی ہیں، مگر چیلنج کے لمحات ہی انہیں اٹھاتے اور سربلند کرتے ہیں۔ ہم اپنے شہیدوں کے لہو کے چراغ جلا ئیں گے، اپناآگے بڑھنے کا سفر مگر کھوٹا نہیں کریں گے۔

  • سانحہ کوئٹہ؛ لفافہ صحافی کے چبھتے سوالات – امام اعظم کاکڑ

    سانحہ کوئٹہ؛ لفافہ صحافی کے چبھتے سوالات – امام اعظم کاکڑ

    ایک معمولی سا صحافی ہوں. شاید تھوڑا بے ایمان اور تھوڑا جھوٹا۔ آپ لفافہ صحافی بھی بلا سکتے ہیں. کسی بھی شرم سے عاری صحافی کو زیب تو نہیں دیتا کہ وہ یہ سوال کرے کہ کوئٹہ کے سول اسپتال میں دھماکا کیوں ہوا؟ اگر خودکش تھا تو حملہ آور عین اس وقت اندر کیسے آیا جب ایک وکیل رہنما کی لاش لانے والے وکلا کوگیٹ سے باہر ہی سیکورٹی رسک کی وجہ سے روکا گیا؟ اسپتال کی حفاظت پر مامور سیکورٹی کہاں تھی؟ جب وکیل رہنما کی لاش لائی جا رہی تھی تو ظاہر ہے اسپتال کے شعبہ حادثات میں کم از کم ایمرجنسی تو ہونی چاہیے تھی؟ پھر میڈیا کے ذریعے سنا کہ بم تو پلانٹڈ تھا پھر سوال ذہن میں آیا کہ جب بم پہلے سے رکھا گیاتھا تو پھٹنے تک کسی کو کانوں کان خبر کیسے نہیں ہوئی؟ حد تو یہ کہ قریبی سی سی ٹی وی خراب نکلا۔ میں چونکہ کوئٹہ ہی کا رہائشی ہوں تو مجھے معلوم ہے کہ شہر کے اندر جوق در جوق بنی ایف سی کی چوکیوں سے آپ کوئی چاقو تک نہیں گزار سکتے۔ شکل سے شریف لگتے ہوں تو بھی ڈیوٹی پر مامور اہلکار تھوڑی سی تذلیل کر دیتے ہیں۔ 14 اگست کےحوالے سے شہر میں سیکورٹی ہائی الرٹ تھی، دو دن پہلے ہی تو چالیس مشکوک افراد پکڑے گئے تھے. ابھی رمضان کے دو دنوں میں 8 سیکورٹی اہلکار ماے گئے تھے. ان سب واقعات کے باوجود سیکورٹی اتنی ناقص کیوں نکلی؟ ظاہر ہے میں یہ سوال سیکورٹی اداروں سے نہیں کر سکتا۔ اس سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے، اہلکاروں اور افسران کا مورال کم ہو سکتا ہے، ایسے سوالات پوچھنے پر شر پسند بھی قرار دیا جا سکتا ہوں اور ملکی مفاد کے خلاف بولنے کا ٹیگ بھی لگ سکتا ہے چنانچہ ملک کے وسیع تر مفاد میں میرا چپ رہنا اچھا ہے۔

    مجھے یاد آیا کہ بےساکھیوں سے چلنے والی صوبائی حکومت سے پوچھا جائے، مگر وہاں تو وزیراعلیٰ ثنااللہ زہری نے دھماکے کی نوعیت جانے بغیر یہ بیان داغ دیا کہ اس حملے میں را ملوث ہے۔ تو؟؟ چلیں مان لیا کہ را ملوث ہے کہ ان کا بنیادی کام ہی پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینا ہے مگر یہ بتائیے کہ آپ کی حکومت نے را کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے؟ کیا آپ کی حکومت کی ناکامی نہیں کہ ایک غیرملکی ایجنسی آکر آپ کے شہریوں کے چیتھڑے اڑا دیتی ہے مگر سیاست کو نوابی اور سرداری سمجھنے والے سیاست دان شہریوں کی مسخ شدہ لاشوں پر کھڑے ہو کر بےتکی باتیں کرتے ہیں۔

    فلاسفرز اور مدبرین سے سنتے ہیں کہ ہماری عوام عجیب ہے کہ خود فوجیوں کو حکومت پر قبضہ کرنے کی دعوت دیتی ہے. شہری فوجیوں کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت کیوں نہ
    دیں جب عید پہ ملک میں کوئی سیاسی رہنما نہیں ہوتا تو آپ کا فوجی سربراہ کبھی ملکی مہاجرین کے ساتھ عید کرتا ہے تو کبھی فوجی اہلکاروں کے ساتھ۔ کوئٹہ دھماکے کے بعد بھی سب سے پہلے پہنچنے والے یہی آرمی چیف ہی تو تھے۔ وزیراعظم تو شاید اس وقت سری پائے کی دعوت اڑانے میں مصروف تھے۔ دھماکے میں ایسے کئی لوگ شہید ہوئے جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا تھا، سوچا کہ زندگی چھینے جانےکے بعد کم از کم ہمارے غم خوار عوامی رہنما تو دل شکستہ شہریوں کے درمیان آئیں گے اور دلاسہ دیں گے مگر میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا کہ طیب اردوان بننے کا خواب دیکھنے والا عمران خان دھماکے کے ایک گھنٹے بعد تک مریم نواز کے خلاف ٹویٹ کرنے میں لگا رہا، جبکہ ترکی کا اردوان زندگی کو خطرہ ہونے کے باوجود استنبول آتا ہے اور شہیدوں کے جنازوں کو کندھا دیتا ہے۔ سوچا کہ پشتونوں کے حقوق کے ٹھیکیدار اور لر اور بر جیسےکرنے والے محمود خان اچکزئی تو متاثرہ شہریوں کے پاس ضرور آئیں گے کہ وہی ہمارا مینڈیٹ لے کر اسمبلی کی آرام دہ کرسی پر جلوہ افروز ہے۔ کسی نے بتایا کہ ان کامذمتی بیان آ گیا ہے مگر شہریوں کو بیان کی نہیں اپنے رہنما کی ضرورت تھی۔ مگر پھر مجھ جیسے موٹے دماغ رکھنے والے صحافی کو قوم پرستوں نے سمجھایا کہ لیڈر ہی سب کچھ ہوتا ہے، حقوق کے حصول میں شہریوں کی جان آتی جاتی ہے مگر لیڈر کو زندہ رہنا چاہیے، اسی لیے اسمبلی میں مشر، کشر اچکزئی لمیٹڈ کی جو لائن لگی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ پر آسائش گھروں میں دبکے رہیں۔ مذہبی جماعتوں کا بھی کوئی اچھا تاثر نہیں رہا۔

    سانحہ کوئٹہ کا زخم کچھ دنوں تک بھر جائے گا، پھر دوسرے بڑے حملوں کی طرح اس کی بھی فائل بند ہو جائے گی اور معمول کی زندگی رواں ہو گی. پھر کوئی سانحہ ہوگا، پھر گھسے پٹے مذمتی بیانات، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں تیزی اور شہیدوں کے ورثا کو ذلیل کرنے کے بعد امدادی چیکس۔ جگہ اور کردار بدلتے رہیں گے مگر ڈرامہ جاری رہے گا ۔