Tag: نکاح

  • ایک باپ کا بیٹی کی شادی پر لکھا گیا خط – سحر فاروق

    ایک باپ کا بیٹی کی شادی پر لکھا گیا خط – سحر فاروق

    سحر فاروق امی جی مجھے اسٹیج پر فل فریش فلاورز ارینجمنٹ چاہیے آپ ابو جی کو کہہ دیجیے بالکل تائی امی کی عذرا آپی کی شادی جیسا. چار بہنوں میں بڑی تانیہ نے اپنی شادی پر کی جانے والی فرمائشوں میں ایک اور کا اضافہ کرتے ہوئے بڑے رسان سے کہا تو اس کی والدہ بھی سوچ میں پڑ گئیں. ابھی جہیز کے لیے تانیہ کے سسرال والوں کی ڈیمانڈز بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں اور پہلی بیٹی کی شادی تھی، اس لیے وہ اس کو منع بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ اس کے سسرال اور خاندان میں عزت کا سوال تھا۔ بات آگے پہنچائی تو تانیہ کے والد بھڑک ہی اٹھے ’’ زمین آسمان کا فرق ہے ہماری اور ان کی حیثیت میں، سمجھاؤ اپنی لاڈلی کو، آفس سے اور کتنا قرض لوں میں.‘‘

    ’’بلال بیٹا کچھ تو خیال کرو، ساری سوسائٹی اور خاندان میں دقیانوسی اور کنجوس مشہور ہوجائیں گے میں اور تمھارے بابا.‘‘ بلال کی امی عاجز آ کر بیٹے کو سمجھاتے ہوئے گویا ہوئیں، ان کے قابل اور اکلوتے بیٹے کی خواہش سادگی سے نکاح کی تھی جو سننے کے بعد ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین سب لٹ چکا تھا، شہر کے پوش علاقے میں رہتے ہوئے وہ کیسے اپنی حیثیت سے کم شادی کرنے پر راضی ہو سکتی تھیں؟

    یہ دو اور اس جیسی کئی کہانیاں ہمارے معاشرے میں بکھری ہوئی ہیں. اپنی حیثیت سے کم یا زیادہ کرنا صرف بلال اور تانیہ کی امی کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے، کیونکہ ہم نے نکاح جیسے آسان اور مقدس بندھن کو مشکل ترین امر میں بدل لیا ہے۔ اول تو مناسب رشتوں کا حصول ہی پہاڑ سر کرنے سے کم نہیں۔ اللہ اللہ کرکے نوبت شادی تک پہنچے تو طرفین کی درجن بھر فضول رسومات، مختلف ڈیمانڈز، انواع و اقسام کے کھانے، اس سب کو خوش اسلوبی سے ادا کرتے کرتے اچھے خاصے صاحب حیثیت افراد بھی قرض کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

    ہمیں بطور معاشرہ اس خود ساختہ مسئلے سے مل کر نبرد آزما ہونا ہے، جو کہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔ آج میں آپ سے اپنے دادا کا لکھا گیا ایک خط شئیر کرتی ہوں جو انہوں نے میری بڑی پھوپھو کی شادی پر لکھا تھا۔ ہم سب کے لیے اس میں بہت واضح پیغام موجود ہے۔ اصل عکس کے ساتھ من و عن نقل کر رہی ہوں۔

    تاریخ 7جون 1956ء
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    تمام تعریف اس ذات پاک کے لیے ہے جو زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے۔ کل کائنات کا خالق و مالک و نگران و محافظ ہے۔ قلم قاصر اور زبان عاجز ہے کہ اس کی ثناء اس کی شایان شان بیان کر سکے۔ اس نے آدم ؑو حوا کے ایک جوڑے سے اس زمیں پر بنی نوع انسان کو بسایا، نسل انسانی کو ترقی دی، آباد کیا اور اشرف المخلوقات کا درجہ عنایت فرمایا، ہدایت و رہنمائی کے لیے پیغمبروں کو ہمارے پاس بھیجا اور ہم کو اپنی توفیق سے مسلمان بنایا اور آخرت پر یقین ایمان عطا فرمایا۔

    بعد حمد و ثناء آپ کو اس خط کے ذریعے مطلع کیا جاتا ہے کہ میری دختر شمیمہ خاتون کی نسبت شادی خانہ آبادی کا سلسلہ بابو بن غلام رسول سے طے ہوا ہے۔ اس لیے آپ مورخہ 17 جون56 بروز اتوار کو میرے غریب خانے پر تشریف لے آویں تاکہ اسلامی طریقے پر میں اپنی دختر کی شادی کی رسم انجام دے کر فارغ ہو جاؤں۔ اس تاریخ دینے کے علاوہ آپ سے یہ بھی عرض ہے کہ آپ بلاوجہ رسمی طریقے کے ماتحت کپڑے جوڑے کے علاوہ کسی اور نمائشی چیزوں میں پیسہ ضائع نہ کریں۔ البتہ اپنی حیثیت اپنی مرضی پر زیور وغیرہ لا سکتے ہیں۔ اس سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سے ہر کام میں فضول رسموں اور طریقوں کو ختم کردیں جو غیر اسلامی ہوں۔ اور حلال کمائی کا پیسہ بلاوجہ ان چیزوں پر ضائع نہ ہو۔ ہم کو اپنا پیسہ ان ذرائع میں استعمال کرنا چاہیے جن کاموں کے کرنے سے خدا خوش ہو یا کسی غریب یا مستحق انسان کو سیراب کرسکیں تاکہ اس کے عوض نیکیوں کی شکل میں آخرت میں مل سکے۔ ہم آپ سے یہ بھی استدعا کرتے ہیں کہ آپ ہماری اس نیک جذبے میں مدد کریں تاکہ کوئی غیر اسلامی فضول رسم نہ ہو۔ خداوند تعالی ہمارے ایمان میں زیادتی اور شوق کا عنصر پیدا کریں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان جو محبت اور ہمدردی پیدا ہوئی ہے اس کو بڑھاتے رہیں۔ ہم میں اور آپ میں کسی قسم کی رنجش اور نفرت کو نہ آنے دیں۔ آخرت کی بھلائی ان لوگوں کے لیے ہے جو زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے نہ فتنہ فساد برپا کرتے ہیں۔ ہم اس خدائے مالک الملک سے اس رشتہ داری کے سلسلے میں آپس کی محبت و الفت اور خیر و برکت کی طلب کرتے ہیں۔ اور خدا ہم کو شیطان مردود کے شر سے محفوظ رکھے کہ وہ انسان کا کھلا دشمن ہے، اسی نے ہمارے باپ آدم ؑکو جنت سے نکلوایا۔ ہمیں اس دشمن سے ہر وقت ہوشیار رہنا چاہیے۔ آخر میں ہم اپنے آقا ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور آپ ﷺ کے پاک نام کی برکت سے خیر طلب کرتے ہیں۔ہزاروں رحمتیں اور برکتیں آپ ﷺ پر نازل ہوں۔ آمین
    فقط والسلام

  • شادی اور معاشرتی دباؤ – فرح رضوان

    شادی اور معاشرتی دباؤ – فرح رضوان

    شیریں کے والد نے جب فرہاد کے لیے، ٹہرایا اپنی بیٹی کا مہر، فقط ایک عدد دودھ کی نہر، تب غالب گمان ہے کہ یہ اصل میں اپنے ہونے والے داماد کا آئی کیو لیول چیک کیا جانا تھا، کہ آیا اس فرمائش پر فرہاد چند دودھ دینے والے مویشی پکڑ کے، ہونے والے سسر کی خدمت میں پیش کرتا ہے، کہ یہ لیں چاچا جی، اب آپ صبح شام دودھو نہائیں، پوتوں پھلیں، یا پھرزبردست peer pressure کے سبب وہ سننے، دیکھنے اور سوچنے کی ہر صلاحیت سے یکسر بیگانہ ہو کر سیدھے دودھ کی نہر کھودنے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔

    واقعی یہ peer pressure ہے ہی ایسی بلا، جو اکثر انسانوں کو ان کا پڑھا لکھا سارا سبق، کسی اہم ٹیسٹ یا انٹرویو کے دوران بھلا دیتی ہے۔ سنا ہے کہ موت کے وقت بعض اوقات کلمہ تک سے محروم کر دیتی ہے –
    گزشتہ دنوں ایک مشہوراستاد نے peer pressure میں آکر، کھانا کھلانے سے متعلق سارے سبق بھول جانے اور مروجہ غلط رویوں پر کچھ سوالات اٹھائے۔ جیسے

    1۔ کون ہے جو گھر آئے مہمان کے لیے یہ اصول اپنائے کہ میرے گھر میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار ہی چلے گا۔
    یعنی سادگی رہ جائے، ہوٹلنگ اور پیزا کو بائے بائے،گھر کا کھانا، تکلف اور تکلیف سے اجتناب کرنا۔
    2۔ پری ویڈنگ اور پوسٹ ویڈنگ کی جبری دعوتوں اورپروٹوکول کے ٹرینڈ سے نجات کیسے ممکن ہے؟
    3۔ شادی کے کھانوں کو سادہ کس طرح بنایا جائے؟ کیونکہ یہ تو عزت کا سوال بن چکا ہے، سفید پوش والدین جمع پونجی اس پر لگا دیتے ہیں۔
    (یعنی اجتماعی طور پر ہم ایسا کیا کریں کہ ہو سب کا بھلا، سب کی خیر ؟)
    …………………………………………
    ماشاء اللہ اس کے مثبت اور مستحکم جوابات جس سے بھی ملے، اس کی بنیادی وجہ صرف جذباتی یا معاشرتی دباؤ / peer pressure سے ان سب کی آزادی تھی۔ یعنی اس کام کے لیے صرف دین کا علم ہونا بھی کافی نہیں کیونکہ خصوصی مواقع پر اکثر و بیشتر خوب سمجھ بوجھ رکھنے والے ہی نہیں بلکہ دین سکھانے والے تک بھی peer pressure کے سبب تمام اسباق بھول بھال کر سیدھے ”دودھ کی نہر“ کھودنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

    پہلی بات یہ کہ شادی کا بڑا کھانا صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں کہ وہاں حکومت کوئی بھی پابندی لگادے، دوسرا یہ کہ پابندی کو توڑ کر ہی کچھ لوگ خود کو بڑا سمجھتے ہیں کہ پہلے اداروں کو رشوت کھلائی اور پھر رشتہ داروں کو خوب کھل کے کھانا.گویا جس نے یہ جرم کیا اس کی بلے بلے اور جس نے شرافت دکھائی وہ اپنوں ہی کی نگاہ میں اس طرح کھانا نہ کھلانے کا مجرم، مطلب کہ حل کسی پابندی میں نہیں بلکہ مسئلے کو سمجھ کر اپنے سے جڑے افراد کو اس سے بہرہ مند کرنا ہے۔

    دنیا بھر میں دیکھا جائے تو یہ گھمبیر ہوتامعاملہ، کم و بیش چار طرح کے لوگوں میں تقسیم ہوتا ہے. جن میں سے دو تو الحمدللہ فوری سمجھ جانے والے ہیں، باقی دو کے لیے اللہ سے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

    آخر الذکر دونوں کو، بات سمجھ نہ آنے کی وجہ، ان کے اخلاق کا نہیں بلکہ مزاج کا اونچائی پر قیام ہے۔ اس گروپ میں اکثریت ایسوں کی ہے جن کو سرے سےعلم یا فکر نہیں کہ کبھی ان سے بھی یہ سوال ہوگا کہ مال کمایا کہاں سے اور لگایا کہاں پہ، توکھانا ہی کیا کسی بھی قسم کی رسومات یا ملبوسات اور مشروبات کے حلال ہونے نہ ہونے سے ان کو فرق بھی نہیں پڑنے والا۔ دوسری قسم وہ جو بظاہر تو نارمل ہی دکھائی دیتے ہیں انسان، لیکن منہ میں بصورت زبان، لپیٹ رکھا ہوتا ہے کئی گز کا تھان۔ اس گروپ میں تو مسئلہ صرف کھانے کا ہے بھی نہیں، یہ تو بہانے بہانے سے فقط طعنے اور دل جلانے کے چسکے یا نشے کا مسئلہ ہے۔ ان افراد کو معدے کی تیزابیت کا دائمی مرض لاحق ہوتا ہے۔ کسی کی خوشی انہیں ہضم ہی نہیں ہوتی، تو وہی ایسڈ زبان پر الٹ آتا ہے۔ یہ لوگ بڑے، ان کا رشتہ بڑا، ٹیکا بڑا، زبان بڑی اور عقل…… اتنی چھوٹی سی کہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ اپنے رویے سے کس طرح کی بڑی خرابی اپنی عاقبت کے لیے خرید رہے ہوتے ہیں۔ سچی محبت، وقار، آج اور کل، سب کی تباہی کے عوض، فقط ایک انا کی تسکین ۔ اب بتائیں بھلا جن کو اپنے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے سکھ کی رتی بھر پرواہ نہ ہو، ان سے کسی کو بھی دوگھڑی کی زندگی میں سکھی رکھنےکی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

    اول دو اقسام میں اکثریت سے موجود ہیں، وہ انتہائی بےبس افراد جو بس، ہرٹرینڈ کی آنکھ بند کر کے تقلید کرتے ہیں، خواہ خوشی سے یا مارے باندھے۔ ان میں نہ سوال اٹھانے کی جرأت، نہ ہی کسی کو انکار کی ہمت، باقی وہ ہیں، جن کے پاس کثرت مال ہی نہیں بلکہ صلاحیتیں بھی بےحساب ہیں، جیسے بس محبت کے مارے سب کو یکجا رکھنا، کسی فنکشن کو مینیج کرنا، کسی جگہ، لباس یا خوراک کو خوب سجانا یا پھر پرانی چیزوں سے نیا کچھ بنا لینا وغیرہ، تو جس طرح بارش میں ہے، شر اور خیر بھی ویسے ہی ہر بشر میں بھی۔جس طرح ڈیم نہ بننے کی وجہ سے ہر سال ہمارے ملک میں بارش سے تباہی تو آتی ہے مگر بجلی نہیں بن پاتی، فصلیں بہہ ضرور جاتی ہیں مگر پنپ نہیں پاتیں، بالکل اسی طرح جب ایسے باصلاحیت افراد کو درست راستہ پتہ نہ ہو یا بتایا نہ جائے تو بےسمت سیلاب کی صورت معاشرے میں، فلاح کے بجائے فساد ہی مچا پاتے ہیں، اللہ سے امید ہے کہ ہم سب کو درست رہنمائی مل جائے، یوں ان شاءاللہ بہت تیزی سے معاملات سنبھل سکتے ہیں۔

    بات کیا ہے فقط اتنی کہ ہم اونٹ اور بکرے میں فرق ہی نہیں کر پاتے، کیونکہ اونٹ بھی حلال ہے، بکری بھی، دونوں ہی کی کھال، ہڈی، قربانی سبھی کچھ جائز، لیکن اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ دونوں بار برداری کے معاملے میں بھی برابر ہیں، جو بوجھ اور مشقت اونٹ اٹھا سکتا ہے وہی بوجھ بکری پر لاد دینا تو سراسر ظلم ہے۔ باکل اسی طرح ہم کاروباری، رشتہ داری تمام ترتعلقات کی نازبرداری کی مکمل باربرداری کا ذمہ فقط ایک شادی پر ہی ڈال دیتے ہیں،گویا اس کے بعد یا اس کے علاوہ نہ تو حقوق العباد ادا ہونے ہیں نہ ہی کسی سے ملاقات ہی ممکن ہے۔ اوراس سوچ کے بیچ پستا کون ہے؟ غریب یا متوسط طبقہ۔ اللہ کے بندو! جو شادی چار گواہوں اور دو نمازوں کے بیچ ہو سکتی ہے، اس کی دو دو سال کی پلانگ کرتے رہنا بھی کوئی پلاننگ ہے بھلا؟ اور ساری دنیا فلانی بجو یا بھیا کی شادی پر ہی کسی ایک ملک میں کیوں اکٹھے ہوتے ہیں؟ بس خاندان کا ایک پائیڈ پائپر محبت کی بانسری بجاتا ہے سارے رشتہ دار، اندھی محبت اندھی تقلید میں سیدھے، دودھ کی نہر کھودنے دوڑے چلے جاتے ہیں، حتی کہ کئی ایک ”مذہبی“ افراد بھی، وہ بھی صرف دل ہی میں برا جانتے ہیں تمام فضول رسومات کو اور سب کے ساتھ ہر جگہ صرف شرکت ہی نہیں فرماتے، خود بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ بات بھی سچ ہےکہ peer pressure کی بلا سوچنے اور یاد رکھنے کی طاقت ہی سلب کرلیتی ہے، تمام زندگی کے اسباق امتحان کے کٹھن لمحے میں بھولتے دیر نہیں لگتی۔

    ہمارے ہاں ”مسلمان رشتہ دار“ دونوں عید کے ملا کر چھ دنوں میں کیوں جمع نہیں ہو سکتے؟ تب بڑے سے بڑے فنکشنز، ڈھیروں کھانا، کسی بھی شوقین کی جانب سے کیوں نہیں ہوتا؟ عیدکے دن کیوں سوکھے، پھیکے، سوتے سلاتے منہ بسورتے،گھر گھر کھیلتے، گزر جاتے ہیں؟
    دیکھا جائے تو بڑی شادی پر صرف کھانا ہی تو مہنگا نہیں ہوتا نا؟ صرف دولہے کی اماں کے ہی کپڑے اب تو عموما لاکھوں کے ہوتے ہیں، تو غریب کے کھانے کا کوئی مقابلہ ہے اس سے؟ اور جب مقابلہ ہی نہیں تو بھائی متوسط! آپ کیوں ڈھائی تین اور چار سو بندے مدعو فرما رہے ہوتے ہیں؟ آپ کھانا بےشک اچھا رکھیں لیکن تمام خلقت کو اکٹھا کرنا جب آپ پر فرض نہیں، واجب بھی نہیں، سنت بھی نہیں تو آپ اپنے لیے بھی آسانی کی راہ اختیار کریں اور دوسرے جو، ابھی آپ جتنے بہادر اور سمجھدار نہیں، ان کے لیے بھی راستہ ہموار کریں، کیونکہ آپ کسی بھی معاشرے کے بیچ پل کا کردار ادا کرتے ہیں، تو آپ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نہ تو کسی کی بھی غلط بات سے مرعوب ہوں نہ ہی کسی غلط بات سے کسی کو بھی مرعوب کریں۔ دوہرا صبرتو ہے لیکن ان شاءاللہ دوہرا اجر بھی پانے کی امید رکھیے۔ یاد رکھیں کہ اپنے خون پسینے کی کمائی کو یوں جذباتی یا معاشرتی دباؤ سے بنتے بھنور میں گنوا کر یا پھر کسی انسان یا بنک سے خاموشی سے مالی مدد مانگ کر آپ ان افراد کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے پر قادر نہیں، جن کے خوف سے آج آپ خود کو اتنا مجبور پاتے ہیں۔ لیکن امید ہے کہ آپ کی اس جسارت سے اللہ کی رحمت آپ کے لیےعافیت کے معاملات فرما دے۔

    مالدار بھائی یا باصلاحیت اورشوقین بہن! پوری سمر ویکیشنز، عید، اور دیگر تمام تر چھٹیاں سب آپ ہی کے لیے بنی ہیں۔ کریں جو بھی، جیسا بھی ایونٹ کرنا ہے، اور پہنیں غضب کے لباس اور رکھیں کھانوں کی گولڈن کیا ڈائمنڈ ڈیلز۔ لگائیں اپنا مال اپنےکاروبار اور کولیگز پر، یا پھر کریں حقوق العباد ادا اور بلا لیں سب رشتہ داروں کو دور دراز ملکوں سے۔ کوئی نہیں آتا نا تو اسے فوری بزنس کلاس کا ٹکٹ بھیجیں، تقاضا کریں بالکل ویسے ہی جیسے اب تک شادیوں پر کرتے رہے، خوب مال خرچیں ان کے لیے۔ ایسا کریں کہ مختلف فارمز بک کروائیں، پکنک کروائیں اور سب کو منع کردیں ون ڈش کی جھنجھٹ پالنے سے، آپ خود اکیلے ہی کیٹرنگ کروائیں، وہ بھی کسی نامی گرامی جگہ سے۔ ہر روز پکنک بھی، پول پارٹی بھی بار بی کیو بھی۔ کون ارینج کرے گا کی فکر بھی نہیں، ایونٹ پلانر بھی تو موجود ہیں آپ ہی کے گروپ میں، اور پھر بھی دل نہ بھرے تو کھانے ہی کے شوق کے ذریعے دعوی کا کام کریں۔ کسی ہال میں یا روز شام کو، گھر کے باہر اوپن ہاؤس رکھیں، جو بھی جس مسلک یا جس مذھب سے آئے، آپ کے گھر سے خوب کھائے، اسلام کا بھی نام اچھا ہو اور ساتھ ہی ذرا سا آپ کا بھی نام بھی ہو جائے تو کوئی قباحت تو نہیں۔ لیکن شادی، آپ پلیز! سادی ہی فرمائیں۔ اپنے، خوف، ذوق اور شوق کی باربرداری کا کام کسی بھی اور فنکشن سے لے لیں، مگر شادی للہ سادی – کیونکہ یہ سنت بھی ہے، ہر ایک کی ضرورت بھی، تو خدارا ! اسے کھیل اور تفریح نہ بنائیں۔ آپ کو زیادہ کچھ نہیں کرنا، بس تین نقطے ہی تو ہٹانے ہیں۔ ارمان، تقلید اور خوف پھر دیکھیں، شادی ان شاءاللہ از خود سادی ہو جائے گی۔

  • گھر کے ادارے میں شوہر کی ذمہ داری – بشارت حمید

    گھر کے ادارے میں شوہر کی ذمہ داری – بشارت حمید

    بشارت حمید مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں تو زندگی محبت اور سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں لڑائی جھگڑے اور پریشانی کا ماحول بنا رہتا ہے۔ اگر گھر میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہو تو عموماً مرد اور خواتین اپنے قریبی عزیزوں کو اس بگاڑ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جبکہ میرے خیال میں اس کے ذمہ دار وہ خود ہوتے ہیں۔

    سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمارے دین میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہدایت موجود ہے۔ جہاں والدین کے حقوق کا ذکر ہے وہیں قریبی رشتہ داروں، بیوی بچوں، دوستوں اور ہمسائیوں کے حقوق کے بارے بھی ہدایت موجود ہے۔

    اللہ تعالٰی نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا اور ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لیے قرآن مجید جیسی عظیم الشان ہدایت حضور سرور کائنات صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے نازل فرمائی۔ اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اس کلام پاک اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ نے ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک اسٹینڈرڈ مقرر فرما دیا ہے۔

    انسان اگر اس ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے سارے معاملات کو ہینڈل کرتا رہے تو بہت کم امکان ہے کہ اسے کوئی پریشانی لاحق ہو۔ ہم پریشان اس وقت ہوتے ہیں جب ہم اپنے خاندان کے رسوم و رواج اور اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود ساختہ حقوق دوسروں سے مانگتے ہیں اور اپنا فریضہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔

    دو مختلف ماحول کے گھروں اور خاندانوں میں زندگی کے ابتدائی بیس بائیس سال گزار کر ایک ہی گھر بلکہ ایک ہی کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرنے والے میاں اور بیوی کے درمیان مزاج کا، عادات کا اور پسند نا پسند کا اختلاف ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

    ایک مسلمان شوہر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور یاد رکھو کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اگر تم اسے زبردستی سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ ٹوٹ جائے گی۔ یعنی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عورت کی کمی اور کوتاہیوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرو نا کہ ان پر کوئی زبردستی اور زیادتی کا ارتکاب کرو۔ جو لڑکی شوہر کے لیے اپنے سارے خاندان، بہن بھائی اور ماں باپ کو چھوڑ کر آتی ہے اسے جیتا جاگتا انسان سمجھنا چاہیے، وہ کوئی کمپیوٹرائزڈ روبوٹ نہیں ہے کہ کسی سوفٹ ویئر کی طرح بلا چون و چرا عمل کرتا رہے۔ اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالٰی نے مرد کو عورت پر ایک درجہ عطا فرمایا ہے اور وہ اس وجہ سے کہ عورت کی کفالت اور نان نفقہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ تو مرد حضرات کو اپنے اس درجے کے شایان شان کھلے دل کے ساتھ گھر والوں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

    ایک عام غلط فہمی جو مردوں کے ذہن میں ہوتی ہے کہ میں بیوی کے سارے اخراجات اٹھا تو رہا ہوں اور کیا کروں۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں پیسہ ایک ضرورت تو ہے لیکن پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ جس نے آپ کے لیے اپنا گھر اور خاندان چھوڑا اور آپ کے بچوں کو جنم دیا اور اب ان بچوں کے سارے معاملات بخوشی سنبھال رہی ہے، اسے آپ کی توجہ اور محبت کی بےانتہا ضرورت ہے۔ ایسے پیسے کو کیا کرنا جس کے ساتھ عزت نہ ہو۔ شوہر کو سوچنا چاہیے کہ یہ عورت اللہ تعالٰی نے زندگی کے ایک محدود وقت تک اس کی ذمہ داری میں دی ہے اور قیامت کے روز اس کے بارے میں جواب دینا ہوگا، اب وہ اس کے سہارے پر ہے اور مرد کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس کا ہر طرح خیال رکھے اور اس کے حقوق بخوشی پورے کرے۔

    گھروں میں کچھ نہ کچھ اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے اور ہمارے ہاں اکثر مرد حضرات چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق کی دھمکیاں دے دے کر بےچاری عورت کو ساری زندگی سولی پر ٹانگے رکھتے ہیں اور کئی عقل و شعور سے عاری لوگ طلاق جیسا انتہائی ناپسندیدہ کام کر بھی گزرتے ہیں، پھر جب دماغ آسمان سے نیچے اترتا ہے تو علماء سے راستہ نکالنے کی درخواست کرتے ہیں۔ یہ ہماری دین سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں، پھر بھی ہمارا اسلام اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ شیطان اپنے چیلوں کی مجلس بلاتا ہے اور سب سے ان کی کارگزاری کی رپورٹ لیتا ہے۔ ایک چیلا کہتا ہے کہ میں نے ایک بندے کو اکسا کر دوسرے کو قتل کروا دیا تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ اسی طرح دوسرے چیلے اپنی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں لیکن شیطان مطمئن نہیں ہوتا۔ پھر ایک کہتا ہے کہ میں نے آج میاں بیوی میں لڑائی کروا دی۔ اس پر شیطان اتنا خوش ہوتا ہے کہ اٹھ کر اسے گلے لگا کر شاباش دیتا ہے کہ تم نے بہت اچھا کام کیا۔

    ہمارا دین خاندان کے ادارے کو مستحکم بنانا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گھر میں لڑائی جھگڑے سے بچوں کی زندگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے افعال اللہ اور رسول صل اللہ علیہ و سلم کی پسند کے مطابق ہیں یا پھر شیطان کی پسند کے۔ جو لوگ کسی میاں بیوی کی لڑائی پر خوش ہوتے ہیں وہ بھی سوچیں کہ کہیں ہم شیطان کے چیلے کا کردار تو ادا نہیں کر رہے۔

    اللہ تعالٰی ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرمائے. آمین۔

  • طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، اسباب، محرکات اور تدارک – نعیم الدین

    طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، اسباب، محرکات اور تدارک – نعیم الدین

    نکاح اور شادی جہاں ایک خوبصورت بندھن ہیں، وہاں عظیم عبادت، سنت انبیاء اور بقائے نسل انسانی بھی. یہ رشتہ جس قدر مضبوط لائق محبت ہے، اسی قدر نازک بھی، ہلکی ہلکی ضربیِں بھی اس کی مضبوط ڈور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتی ہیں، اس لیے اس عظیم بندھن کو توجہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے.

    ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا ناسور ”طلاق“ ہے، اگر چہ شریعت نے بوقت ضرورت اسے جائز اور مباح قرار دیا ہے، مگر اس کا شرعی طریقہ بھی بتلایا ہے کہ جلد بازی اور جذبات سے کام نہیں لینا، بلکہ ہوش و حواس میں رہتے اور سوچتے سمجھتے ہوئے وقفے وقفے سے ایک ایک طلاق دینی ہے. حلال ہونے کے باوجود عنداللہ یہ ایسا مبغوض ترین فعل ہے جس کی وجہ سے عرش الہی کانپ اٹھتا ہے، مگر آج جذبات سے بھرے ہوئے ناعاقبت اندیش لوگ بڑے آرام سے طلاق دے دیتے ہیں. آخر ایسا کیوں ہے؟ طلاق کیوں ہوتی ہے؟ وہ رشتہ جو اتنی خوشیوں سے طے کیا جاتا ہے، آخر اسے ختم کرنے کا منصوبہ کیوں بنا لیا جاتا ہے ؟

    چند سال پہلے ہمارے معاشرے میں طلاق ایک گالی سمجھی جاتی تھی، بلکہ ہر زمانے میں اسے برا سمجھا جاتا رہا ہے. پہلے زمانے میں اگر کسی خاندان میں طلاق کا سانحہ ہو جاتا تو پورا خاندان دہل جاتا تھا، طلاق کی خبر سننے والے حیرت و تاسف کے مارے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیتے تھے، مگر آج طلاق ایک فیشن اور کھیل بن چکی ہے. آئے دن طلاق کے قصے سننے میں آتے ہیں، دارالافتاء اور عدالتیں طلاق اور خلع کے مسائل سے بھرے پڑے ہیں، معمولی معمولی باتوں پر طلاق ہو جانا عام سی بات ہو گئی ہے. طلاق کا یہ دن بدن بڑھتا ہوا تناسب ہمارے معاشرے کے چین و سکون کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے.

    طلاق کے اسباب میں سے اہم سبب دین سے دوری ہے، جہاں والدین بچوں کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کی کوشش اور محنت کرتے ہیں وہاں والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے روشناس کرائیں تاکہ وہ اپنی زندگی شریعت طیبہ کے مطابق گزاریں اور اس عظیم رشتے کے حقوق کی پاسداری اور اس کی نزاکت کی نگہداشت کرسکیں. اس کے علاوہ طلاق کے اہم اسباب میں سے میاں بیوی کی بد اخلاقی، دوطرفہ رشتہ داروں کی میاں بیوی کے معاملات میں دخل اندازی، ایک دوسرے کی حق تلفی، مزاج میں ہم آہنگی کا فقدان، معیشت میں تفاوت، عمر میں غیر معمولی فرق،گھریلو ناچاکیاں، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت، جسمانی نفسیاتی یا جذباتی زیادتی، بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا، انڈین ٹی وی ڈراموں کے غیر اخلاقی اثرات، شوہر کا نشہ کرنا، وٹہ سٹہ، خواتین کا این جی اوز کی طرف سے ”خواتین آگاہی“ یعنی بغاوت پر اکسانے کے پروگرامات میں شرکت کرنا، نیٹ اور موبائل پر ناجائز تعلقات، شامل ہیں. یہ مذکورہ اسباب طلاق اور خلع کی شرح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہے ہیں.

    طلاق کے نقصانات میں سے بڑا نقصان خانگی تباہی ہے. طلاق کی آگ دونوں خاندانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، جو آگے جا کر دائمی دشمنی کا سبب بنتی ہے، جس کی وجہ سے ہنستے مسکراتے خاندان جہنم کدہ بن جاتے ہیں. طلاق سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے، کیونکہ میاں بیوی کی محبت سے بچوں کی بہترین دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت ہوتی ہے. اگر یہ رشتہ منقطع ہوجائے تو بچے نفسیاتی اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں. ایدھی ہومز، نفسیاتی اور رفاہی اداروں میں ایسے بچوں کی اکثریت پائی جاتی ہے، جن کے ذہن میں انتقام کی آگ ہوتی ہے، پھر وہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں، اور معاشرے میں مسائل کا سبب بنتے ہیں.

    اگرچہ زندگی میں ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے میاں بیوی کا باہمی نباہ نہیں ہو پاتا، ایسی کوئی صورت نظر آئے تو والدین، برادری کے بڑوں کو چاہیے کہ صلح و صفائی کروائیں، اگر یہ ناممکن نہ ہو توشرعی طریقے سے انہیں خلع یا طلاق دلوائیں، لیکن تجربہ یہ ہے کہ جذبات میں آکر غیر شرعی طریقے سے تین طلاقیں دے دیتے ہیں جس کے بعد کوئی سبیل نہیں پچتی سوائے پچھتاوے کے. یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پھر پچھتاوا کسی طرح سود مند ثابت نہیں ہوتا.

  • شادی کی فضول رسومات، ہماری معاشی قاتل – عبدالحفیظ

    شادی کی فضول رسومات، ہماری معاشی قاتل – عبدالحفیظ

    عبدالحفیظ گرمیوں کی سخت دوپہر میں کسی مزدور کو دھوپ میں کام کرتے دیکھ کر یقیناً آپ کے دل میں اُس کے لیے ہمدردی کا جذبہ ضرور بیدار ہوتا ہوگا۔ آپ لمحہ بھر رُک کر اُس کے حالات پر درد مندانہ تبصرہ بھی کرتے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ کو پتہ چلے کہ اُس مزدور نے سارے دِن کی مشقت کی کمائی، اپنی ذات یا خاندان پر خرچ کرنے کے بجائے رات کو کسی نشے وغیرہ میں لُٹا دی ہے تو آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟ آپ کو یقیناً اُس مزدور پر غصہ آئے گا۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اکثر مالی معاملات میں ہمارا طرزِ عمل بھی کچھ اِسی طرح کا ہے۔ ہم لوگ تمام عمر اپنی بیشتر ضرورتوں کو پسِ پشت ڈال کر پائی پائی جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر کسی ایک موقع پر اُس ساری جمع پونجی کو پانی کی طرح بہا دیتے ہیں اور پھر کسی ایسے ہی اگلے موقع کے لیے دوبارہ پائی پائی جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں اِس مضمون کے ذریعے معاشرے میں رائج شادی سے جڑی اُن رسوم و رواج پر بحث کرنا چاہتا ہوں جو ہماری ذاتی/خاندانی معیشت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔

    ہمارے ہاں لڑکے کے برسرِ روزگار ہو جانے اور لڑکی کے مناسب پڑھ لکھ جانے کے بعد گھر والے اُس کے لیے رشتے کی تلاش میں جُت جاتے ہیں۔ اگر لڑکا/لڑکی پسند آجائے تو پھر رسم و رواج سے بھر پور مراحل شروع ہو جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً آنا جانا اور ہر چکر میں کپڑوں اور تحائف کا تبادلہ۔ کچھ جیب ہلکی ہو جائے تو پھر منگنی کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ پہلے تو دونوں گھروں سے دو چار بزرگ دوسرے گھر جا کر ”ہاں“ کر دیتے تھے لیکن اب تو منگنی بھی شادی کی تقریبات کا مستقل رُکن بن چکی ہے اور اِس پر خوب خرچ ہوتا ہے۔ پھر خدا خدا کر کے شادی کی تاریخ طے ہو جائے تو مہندی، بڑی بارات، پُرتکلف ولیمہ، پھر شادی کی دعوتیں، ان سب پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ مہندی کے نام پر اِک حشر بپا کرنا اور بارات کے نام پر ایک فوج ظفر موج ساتھ لے جانا، شادی کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ بارات کی طے شدہ تعداد سے پچاس، سو آدمی زیادہ لے کر جانا تو ”لڑکے والے“ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایک غریب آدمی بیٹے کی شادی پر اندازہ تین لاکھ روپے اور بیٹی کی شادی پر پانچ لاکھ روپے خرچ کرتا ہے۔ جیسے جیسے آدمی کی مالی حیثیت بڑھتی ہے، اخراجات بھی لاکھوں روپے کے حساب سے بڑھتے جاتے ہیں۔ اِسی حساب سے اندازہ لگائیں کہ تین سے پانچ بچوں (بیٹے، بیٹیوں) کی شادیوں پر ایک آدمی کتنی رقم خرچ کر دیتا ہے؟ آپ عموماً گھر میں ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب رکھتے ہوں گے اور کسی ماہ معمول سے زائد خرچہ ہو جانے پر پریشان اور غصے بھی ہو جاتے ہوں گے لیکن کیا آپ نے کبھی شادی کی فضول رسومات پر ضائع ہوتے لاکھوں روپوں کا سوچا کہ وہ کس کھاتےمیں جا رہے ہیں؟

    قرض کی نوبت
    اِن رسومات کو ”شایانِ شان“ طریقے سے ادا کرنے کے لیے اکثر لوگ قرض کی دلدل میں جا گرتے ہیں اور پھر اگلے کچھ برسوں تک وہ قرض اتارتے رہتے ہیں۔ ان رسموں کی قباحت کا اندازہ لگائیں کہ انسان اپنی تمام جمع پونجی توضائع کرتا ہی ہے، ساتھ قرض کا بوجھ بھی اُٹھا لیتا ہے۔ قرض کا بوجھ کچھ ہلکا ہوتا ہے تو اُتنی دیر تک، دو تین برس کے وقفے سے، اگلے بچے کی شادی کا وقت آ جاتا ہے۔

    اپنی خوشی یا بیٹے/بیٹی کی؟
    لوگ شادی کی رسومات پر جو دولت کا ضیاع کرتے ہیں وہ کہنے کو تو اپنے بیٹے/بیٹی کے لیے کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سب کچھ ذاتی انا اور نمود و نمائش کے لیے کرتے ہیں۔ آپ کے علم میں کتنی ایسی مثالیں ہیں کہ شادی کے بعد لڑکے کے والدین نے ایک مناسب رقم بیٹے کے ہاتھ پر رکھی ہو تاکہ وہ شادی کے پہلے ایک دو ماہ مالی معاملات سے بےفکر ہو کر اپنی ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہو سکے؟ البتہ شادی کے فوراً بعد قرض داروں کے نام بمع حساب کتاب اُس کو ضرور تھما دیے جاتے ہیں۔ یا کبھی ایسا دیکھا ہو کہ شادی کے وقت لڑکی کو معقول رقم دی جاتی ہو کہ وہ اُس رقم سے اپنی نئی زندگی کے بارے کوئی منصوبہ تشکیل دے سکے۔

    خوشی نہیں، لوگوں کے طعنوں کا ڈر
    شادی کو سادگی سے یا کم اخراجات میں کرنے کا کہا جائے تو اکثر لوگوں کا جواب ہوتا ہے کہ انسان پیسے اپنی خوشیوں پر خرچ کرنے کے لیے ہی تو کماتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ انسان اگر واقعی یہ سب اپنی خوشی کے لیے کرتا ہے تو پھر شادی کی ہر رسم ادا کرنے سے پہلے ایک ہی بات سوچتے یا کہتے کیوں ہیں کہ ”اگر ایسے نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟“ یہ ”لوگ“ کون ہیں؟ یہ ہم ہی ہیں! ہم ہی نے ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس کرنا ہے اور اِن معاشرتی برائیوں سے مل جل کر لڑنا ہے۔

    اخلاقی برائیوں کی جڑ
    اِن رسوم و رواج کی وجہ سے ہمارے ہاں اخلاقی برائیاں مثلا ً لڑ کیوں کی دیر سے شادی، جھوٹ پر رشتے قائم کرنا، نمود و نمائش، پیسے کا بےدریغ ضیاع وغیرہ جنم لیتی ہیں۔ اگر ہم شادی صاف گوئی سے قائم کیے گئے رشتوں اور سادگی سے کریں گے تو پیسوں کی بچت کے ساتھ ساتھ ایسی بہت سی اخلاقی برائیوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک مختصر کہانی ”گھر سے گھر تک“ اِس موضوع پر ایک شاندار کہانی ہے۔

    شادی پر آنے والے بڑے اخراجات
    شادی کرنا ہمارے ہاں زندگی کے بڑے اخراجات میں شمار ہوتا ہے۔ شادی پر لڑکی والوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ سامان جہیز بنانے اور دوسرا اچھی خاصی تعداد کی بارات کی خاطر مدارت کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ سسرال والوں کے تحفے تحائف، شادی کے بعد کی رسومات الگ ہیں۔ اگر جہیز کی لعنت سے جان چھوٹ جائے اور بارات کی تعداد بھی مناسب ہو تو لڑکی کے گھر والوں کو بیٹی کی شادی کرنے سے برسوں پہلے ہی سے تیاری نہ شروع کرنی پڑے۔ ہمارے ہاں تو یہ بات بھی مشہور ہے کہ بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اُس کی شادی، سامان جہیز کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح لڑکے والوں کے بجٹ کا بڑا حصہ مہندی، پُرتکلف ولیمے، بَری کے سامان ، سسرال والوں کے لیے تحائف وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے۔

    نباہ نہ ہونے کی صورت میں پریشانیاں
    شادی پر لاکھوں روپیہ لگا تو دیا جاتا ہے لیکن خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے نباہ نہ ہونے کی صورت میں دو تین برس کے اندر ہی علیحدگی ہو جائے (ہمارے ہاں علیحدگی ہونے والوں میں خاصی تعداد شادی کے ایک سے تین برس کے دوران کی ہے) تو اِس صورت میں دونوں طرف سے گڑے مردے اُکھاڑے جاتے ہیں۔ شادی کے دوران دیے جانے والے تحائف تو ایک طرف، بات رشتہ دیکھتے وقت دیے جانے والے پانچ سو ، ایک ہزار روپوں کے تحائف کی واپسی کے مطالبے تک جا پہنچتی ہے۔ اگر آپ کو یہ بات مبالغہ لگے تو اپنے شہر کی فیملی عدالت میں جا کر کسی بھی ایک مقدمے کی فائل پڑھ لیں، آپ کو اِس بات سے بھی بڑی حیران کن باتیں ملیں گی۔ علیحدگی کی صورت میں لڑکے والے اپنی طرف سے دیے گئے تحائف اور چیزوں کی واپسی کی لسٹ بنا لیتے ہیں اور لڑکی والے سامان جہیز اور دوسرے تحائف کی۔ بعد میں اکثریت کو علیحدگی کا اتنا افسوس نہیں رہتا جتنی اپنا سامان واپس نہ ملنے کا۔ پھر سالہا سال اُن مقدمات کی پیروی کے بعد اگر دونوں فریقین کو مطلوبہ سامان مل بھی جائے تو کیا اُس وقت وہ اُتنا کارآمد رہ گیا ہوتا ہے جتنا وہ نئی حالت میں تھا؟

    ملکی قوانین
    پاکستان میں جہیز کی روک تھام کے لئے The Dowry And Bridal Gifts (Restriction) Act, 1976 اور شادی کی تقاریب کو سادگی سے کرنے کے لیے the Punjab Marriage Functions Act 2016 کے نام سے قوانین تو موجود ہیں لیکن حسبِ معمول یہ صرف کتابوں تک ہی محدود ہیں۔ ویسے یہ معاملات قانون کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا احساس کرنے سے ہی بہتر ہوں گے۔

    فضول رسموں کو کیسے ختم کریں؟
    میرے خیال میں اِن فضول رسوم و رواج کے خاتمے کا واحد حل، مالی حیثیت، لڑکے لڑکی کی سوچ، اُن کے مستقبل کے ارادے اور دوسرے اہم معاملات کے حوالے سے دونوں خاندانوں کی طرف سے صاف گوئی سے کام لے کر رشتے قائم کرنا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ”بھرم“ قائم رکھنے کے لیے دونوں گھرانے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اخراجات کرتے ہیں اور بعد میں اُن اخراجات کا رونا بھی روتے ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی اِن رسموں کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتا۔ کیونکہ اُنہیں ”لوگوں“ کے طعنوں کا ڈر ہوتا ہے۔ آپ ایک دفعہ اِن فضول رسموں کو چھوڑ کر یا اِن کو محدود کر کے دیکھیں، یقین مانیں نہ تو آپ پر آسمان گرے گا نہ کہیں آپ کے لیے زمین پھٹے گی۔ ہو سکتا ہے چند لوگ آپ کو تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن زیادہ تر لوگ آپ کے اِس عمل کو سراہیں گے اور اپنے لئے مشعل راہ بنائیں گے۔

    یہ رقم بچا کر کیاکریں؟
    کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اپنی جمع پونجی شادی کی فضول رسومات پر ضائع کرنے کے بجائے اپنی ذات، اپنے خاندان اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کریں۔ یہ بچائی ہوئی رقم آپ اپنے کاروبار میں لگا سکتے ہیں، نئے جوڑے کو تحفہ دے سکتے ہیں، اپنی رہائش بہتر کر سکتے ہیں، نئی گاڑی خرید سکتے ہیں، اپنی یا اپنے گھر والوں کی کوئی خواہش، جو کم رقم کی وجہ سے پوری نہیں کر سکے، وہ پوری کر سکتے ہیں۔

    بارش کا پہلا قطرہ بنیں
    اگر آپ خود شادی کرنے والے ہیں یا اپنے بیٹے/بیٹی کی شادی کے بارے سوچ رہے ہیں اور منگنی سے لے کر شادی کے ایک ماہ بعد تک کے اخراجات کی فہرست تیار کیے بیٹھے ہیں تو ایک لمحہ رُک کر اِن سارے اخراجات پر دوبارہ غور کریں اور جتنا ممکن ہو سکے اِن میں کمی کر کے وہ رقم اپنی بہتری پر خرچ کریں۔ آپ بارش کا پہلا قطرہ بن کر دیکھیں، آپ کے پیچھے ساون کی پوری رُت کھڑی ہے۔

  • دستخط – عظمیٰ طور

    دستخط – عظمیٰ طور

    آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے دستخط کیے ہوں گے، اگر نہیں کیے تو ضرور ہی سن رکھا ہو گا، ان میں سے ایک نہ سمجھ میں آنے والے سائن بھی ہیں __ نہیں سمجھے __ آئیے میں سمجھاتی ہوں.
    جب آپ کو کوئی کاغذات دیے جاتے ہیں کہ حضور جناب اس پر دستخط کر دیجیے تو آپ کچھ سوچ بچار کے بعد ان کاغذات کو پڑھنے کے بعد ان پر اپنی رضامندی کو اپنے دستخط کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں __ جیسے کسی زمین کے کاغذات __ آٹو گراف دیتے ہوئے کیے جانے والے دستخط __ جیسے آپ کی چیک بک __ جیسے کوئی آفیشل پیپرز __ جیسے کوئی معاہدہ __ لیکن ایک سائن ہیں جو کرتے ہوئے بےشک آپ ہزار بار سوچیں، غور کریں، خواہ کئی برس اس سائن کیے کاغذات پر جی جان لگا دیں __ سمجھ آپ کو پھر نہیں آنی __
    سمجھے؟؟ نہیں سمجھے
    ارے آپ کے نکاح نامے کے دستخط!
    کیسے اچھے کیے تھے ناں آپ نے __ کتنی کاپیاں بھریں تھیں پریکٹس کے نام پر (حالانکہ سب ان لڈوؤں کی خوشی میں تھا جو اس خوشی میں دل میں پھوٹ رہے تھے) جی وہی دستخط __
    سوچیں آج تک آپ کو ان کیے گئے تین دستخطوں کی سمجھ آئی __ نہیں ناں __
    یہی تو بات ہے کہ آپ نے دستخط پہلے کیے یا بعد میں __ سمجھے آپ نہ کرنے سے پہلے تھے اور نہ کرنے کے بعد، کہ آیا اس دستخط کے بدلے آپ کو کچھ ملا ہے یا آپ نے کچھ دیا ہے _ کرنے سے پہلے اکسائٹمنٹ تھی کرنے کے بعد disappointment __ تو اسی کشمکش میں رہنے کے بعد اب آپ یہ تحریر پڑھتے ہوئے اس دن کو ذہن میں لا رہے ہوں گے کہ آیا ایسا ہی تھا کہ نہیں _
    تو رہنے دیں __ ضروری نہیں کہ جو باقی سب کے ساتھ ہوا وہ آپ کے ساتھ بھی ہوا ہو _ اب چھوڑیے یہ فکر کہ دستخط کا مقصد پورا ہوا کہ نہیں بس سر کھجائیے اور نکل جائے.
    اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چُگ گئیں کھیت

  • قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے – مدثر ریاض اعوان

    قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے – مدثر ریاض اعوان

    مدثر ریاض اعوان وقت نکاح جب علامہ صاحب نے خوشی سے جھومتے ہوئے دلہے میاں سے پوچھا کہ کیا آپ پورے ہوش و حواس سے زندگی کے نئے سفر کو قبول کرتے ہیں تو دلہے میاں نے بغیر توقف کے لفظ قبول کو پوری جرات سےادا کیا، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور دلہن کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا گیا. سسرال میں دلہن کا استقبال سارے پروٹو کولز کو مدنظر رکھ کر کیا گیا اور دلہن کی آمد خوش آئند قرار پائی۔

    زندگی کی ایک نئی جہت کا آغاز ہوا۔ ایک طرف دلہے میاں خود کو خوش قسمت ترین اشخاص میں شمار کرنے لگے تو دوسری طرف دلہن خود کو خوش قسمت ترین بیوی کے روپ میں دیکھنے لگیں۔ شادی کے ایک دو ماہ تو سکون سے گزرے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تلخیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ وہ زبان جس سے اظہارمحبت کے سوا کچھ نہ سنا گیا، اسی زبان پر آج نہ ختم ہونے والے شکوے تھے۔ پھر نوبت لڑائی جھگڑے تک آئی اور بیوی میکے رخصت ہوئیں۔

    خاوند کا اضطراب جب حد سے بڑھا تواس نے اپنے علاقے کے صاحب بصیرت سے رابطہ کیا اور تمام حالات و واقعات سے ان کو آگاہ کیا۔ صاحب بصیرت بزرگ نے خاوند سے کہا کہ وہ ابھی میکے جا کر بیوی کو گھر لائے اور کل وہ گھر آکر دونوں فریقین کا مقدمہ سنیں گے۔ اگلے دن صاحب بصیرت بزرگ گھر تشریف لے گئے اور فریقین کا مقدمہ سنا۔ دونوں فریقین جب اپنے شکوے سنا چکے تو بزرگ نے میاں بیوی کو مخاطب کیا اور سوال پوچھا، تم دونوں نے وقت نکاح ایک دوسرے کو بحثیت انسان قبول کیا تھا یا بحثیت فرشتہ؟ دونوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا، بحثیت انسان. جواب سن کر صاحب بصیرت بزرگ نے فرمایا:
    ”انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی انسان ہو کر فرشتہ بن جائے لہذا ہمیں انسانوں میں انسان کی تلاش کرنی چاہیے فرشتوں کی نہیں۔ قرآن حکیم میں خدا تعالی نے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے۔ لباس کامقصد جسم کو ڈھانپنا ہے نہ کہ جسم کو ننگا کرنا۔ خاوند اور بیوی کوچاہیے کہ ایک دوسرے کی خامیوں کو ڈھانپ کر رکھیں نہ کہ ہر جگہ شکوے کرتے پھریں۔ قرآن حکیم میں ہی دوسری جگہ اس رشتے کا مقصد ایک دوسرے سے تسکین حاصل کرنا بیان کیا گیا ہے، تسکین کا مقصد ہی یہی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرےسے دل کی ہر بات بیان کر سکیں۔ اس رشتے میں عزت و احترام ہوا کرتا ہے نہ کہ خود پسندی اور انا۔“

    دونوں بزرگ کی باتوں کو سن کر یہ عہد کر چکے تھے کہ اب انہوں نے ایک دوسرے کا لباس بننا ہےاور بحثیت انسان ایک دوسرے کو قبول کرنا ہے۔

  • شادی کےحلال و حرام – فیصل اقبال

    شادی کےحلال و حرام – فیصل اقبال

    فیصل اقبال یہ لوگ آپ سے کہیں گے کہ کیا بڑا ولیمہ کرنا حرام ہے؟ (یقنیناً حرام نہیں ہے)
    پھر یہ پوچھیں گے کہ کیا بارات کے لیے زیادہ لوگوں کو لے کر جانا ممنوع ہے؟ (آپ کہیں گے کہ نہیں؛ کیونکہ کوئی نص اس بارے میں نہیں ملتی)
    پھر یہ پوچھیں گے کہ اگر کوئی خود اپنی خوشی سے بیٹی کو سامان (جہیز) دے تو یہ گناہ کا کام ہے؟ (آپ کے پاس جواباً جہیز کو حرام کرنے کی کوئی آیت/حدیث نہ ہوگی)
    یہ آپ سے یہ بھی پوچھیں گے کہ کیا ذات برادری اور اپنے اسٹیٹس میں ہی رشتہ ڈھونڈنا حرام ہے؟ (آپ ایک بار پھر لاجواب ھوجائیں گے).

    مگر یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے؛
    یہ سب چیزیں Individually مباح (Permissible) ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مقاصدِ شریعت پورے ہو رہے ہیں، ان سب کاموں کو کرنے سے؟ دین کی روح (Spirit) کیا ہے شادی بیاہ کے بارے میں؟
    کیا آج ان تمام کاموں نے نکاح کو مشکل بلکہ ناممکن نہیں بنا دیا؟
    نکاح بہترین وہ ہے جس میں کم خرچ ہو، جو آسانی سے ہوجائے، لیکن صرف اپنی ہی برادری میں رشتہ کرنے سے کیا آج رشتے کرنا مشکل نہیں ہوگیا ؟ (گوکہ اپنی برادری اسٹیٹس میں رشتہ کرنا حرام نہیں ہے لیکن فی الوقت اس پر عمل کے نتیجے میں شادی کا انسٹیٹیوشن تباہ ہو رہا ہے).
    اسی طرح مہمانوں کی لمبی لمبی لسٹوں کی وجہ سے لوگوں کو سالوں کی کمائی صرف ایک شادی پر لگانی پڑتی ہے جس کی وجہ سے نکاح کے لیے سالوں کی پلاننگ کرنا پڑتی ہے، جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کس طرح آسانی سے نکاح کرتے تھے. حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی شادی کا واقعہ اس سلسلے میں مشعلِ راہ ہے. خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا کا نکاح و رخصتی کا فریضہ نہایت سادگی سے انجام دیا.
    اسی طرح جہیز اگر کوئی اپنی خوشی سے دے تو یہ کہیں سے بھی حرام کام نہیں، البتہ اس کے نتائج کیا نکل رہے ہیں؟ کیا آج لاکھوں بیٹیاں اسی وجہ سے بوڑھی نہیں ہو رہیں کہ ان کے پاس جہیز نہیں؟ یا پھر بیچاریوں کو دن رات مردوں کے ’’شانہ بشانہ‘‘ کام کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے جہیز کے لیے پیسے جمع کر سکیں. اسی دوران امیدوں، امنگوں اور جذبوں کی عمر نکل جاتی ہے.
    حاصل کلام:
    فی الوقت نکاح کے بہت سے مباح کاموں کا بھی شدت پسندی سے خاتمہ کرنے کی ضررورت ہے تاکہ شادی کے بارے میں شریعت کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے.

  • طلاق دینے کا صحیح طریقہ – عطا رحمانی

    طلاق دینے کا صحیح طریقہ – عطا رحمانی

    تین طلاقوں کے سلسلے میں موجود اختلاف کو لے کر لڑنے جھگڑنے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ طلاق دینے کا سنت کے مطابق صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیوں کہ یہ دشواری وہیں پیش آتی ہے جہاں سنت کی مخالفت کی جاتی ہے . پس معلوم ہونا چاہیے کہ ایک ساتھ تین یا دو طلاقیں دینا بالاتفاق حرام ہے. طلاق کا صحیح طریقہ سنت کے مطابق یہ ہے کہ آدمی عورت کی پاکی کے ان دنوں میں، جن میں اس نے اس سے جماع بھی نہ کیا ہو، یا حمل کی حالت میں صرف ایک طلاق دے. اب اگر رکھنے کا ارادہ بنے تو عدت کے اندر اندر رجوع کر لے اور چھوڑنے کے ارادے پر ہی برقرار رہتا ہے تو عدت کے پورا ہونے کا انتظار کرے. عدت کے پورا ہوتے ہی وہ عورت اس کی زوجیت سے پورے طور پر نکل جائے گی. اب وہ عورت (اپنے سابق شوہر سمیت) کسی بھی نامحرم مرد سے دوسری شادی کر سکتی ہے. اس طرح ایک ہی طلاق میں آدمی کا مقصد پورا ہو جائے گا اور دوسری یا تیسری طلاق کی نوبت ہی نہ آئے گی.

    اس طرح طلاق دینے کا، سنت کے مطابق ہونے کے علاوہ ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر بعد میں آدمی کو اپنی غلطی کا احساس ہو تو وہ بغیر کسی’’حلالے‘‘ (جس کو حرامہ کہنا چاہیے ) کے اس کے ساتھ رجوع یا دوبارہ نکاح کر کے اپنے گھر کو پھر سے شاد و آباد کر سکتا ہے. طلاق دینے اور رجوع کرنے کے وقت دو انصاف پسند لوگوں کو گواہ بنانا بھی ضروری ہے تا کہ کل کو کسی طرح کا کوئی جھگڑا نہ ہو اور گواہوں کو بھی اللہ واسطے سچ سچ گواہی دینی چاہیے. دلائل حسب ذیل ہیں :
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
    اے نبی! (اپنی امت سے کہیے کہ ) جب تمھیں اپنی عورتوں کو طلاق دینی ہو تو ان کی عدت ( کے دنوں آغاز میں ) میں انھیں طلاق دو، عدت کا حساب رکھو اور اپنے رب سے ڈرتے رہو. (الطلاق 65: 1)
    عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما بیان فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم سے کر دیا. یہ سن کر آپ صلى الله عليہ وسلم کو غصہ آ گیا اور آپ نے فرمایا: (اپنے بیٹے سے کہو ) کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، پھر اس کو روکے رکھے یہاں تک پاکی کے ایام شروع ہو جائیں، پھر (اسی طرح روکے رہے یہاں تک کہ ) دوبارہ حیض شروع ہو جائے اور وہ (حیض ) سے پاک ہو جائے. پھر اگر اسے طلاق دینا مناسب لگے تو پاکی کے ایام (Period) میں جماع کرنے سے پہلے پہلے طلاق دے دے. یہی وہ عدت ہے جس (کے شروع میں طلاق دینے کا حکم) اللہ نے (سورہ الطلاق کی پہلی آیت میں) دیا ہے . (صحیح بخاری : کتاب الطلاق ، حدیث نمبر : 4908)
    ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: (اپنے بیٹے کو) حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، پھر اسے پاکی کی حالت میں یا حمل کی حالت میں طلاق دے. (صحیح مسلم : 1471، سنن ابن ماجہ :2023، سنن ابوداؤد :2181)
    عبد اللہ ابن مسعود رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں: سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ آدمی پاکی کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے، پھر اس کو عدت پوری ہونے تک چھوڑ دے یا اگر چاہے تو رجوع کر لے. (سنن ابن ماجہ : 2020 ، التمھيد لابن عبد البر :ج:15 ، ص.74 .)
    سیدنا علی رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر لوگ طلاق کی صحیح تعریف تک پہنچ جاتے تو کسی آدمی کو اپنی بیوی پر افسوس نہ ہوتا. وہ اسے یا تو حمل کے واضح ہو جانے کی حالت میں طلاق دیتا یا پھر جماع کیے بغیر پاکی کی حالت میں. وہ انتظار کرتا یہاں تک کہ جب عورت اپنی عدت کے آغاز میں ہوتی تو اگر مناسب سمجھتا تو رجوع کر لیتا اور اگر مناسب سمجھتا تو اس کا راستہ چھوڑ دیتا. (مصنف ابن ابی شیبہ :17728)
    حسن بصری اور ابن سیرین فرماتے ہیں : سنت کے مطابق طلاق دینے کا وقت عدت کا آغاز ہے. وہ پاکی کے ایام میں جماع کیے بغیر طلاق دے گا. اور اگر عورت حمل سے ہے تو جب چاہے طلاق دے سکتا ہے. (مصنف ابن ابی شیبہ:17729)
    ابن قدامہ کہتے ہیں: اگر آدمی نے عورت کو ایسے طہر میں طلاق دی جس میں اس نے اس کے ساتھ جماع نہیں کیا تھا، یہاں تک کہ عدت پوری ہو گئی، تو ایسا آدمی بالاتفاق سنت کے مطابق طلاق دینے والا ہے. (المغنی :10/325)
    پھر جب وہ اپنی میعاد (یعنی انقضائے عدت) کے قریب پہنچ جائیں تو یا تو ان کو اچھی طرح (زوجیت میں) رہنے دو یا اچھی طرح سے علیحدہ کردو اور اپنے میں سے دو منصف مردوں کو گواہ کرلو اور (گواہو!) اللہ کے لیے درست گواہی دینا۔ ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا وہ اس کے لیے (رنج ومحن سے) مخلصی (کی صورت) پیدا کرے گا. (الطلاق:2)

    واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے. اس میں حیض کا ہی اعتبار کیا جائے گا، مہینے کا نہیں اور یہ عدت عورتوں کی عادت کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے. یہاں تک کہ کسی عورت کو ایک ڈیڑھ مہینے میں تین حیض بھی آ سکتے ہیں.

  • طلاق سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ حافظ یوسف سراج

    طلاق سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ حافظ یوسف سراج

    حافظ یوسف سراج طلاق طلاق طلاق
    یہ لفظ کس آسانی، روانی اور بےدھیانی سے آج ہمارے ڈراموں اور فلموں میں استعمال کر دیا جاتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس منظر کے ہمارے معاشرے پر، ہماری نوجوان نسل پر اور پھر ان کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ شاید ہم زیادہ غور نہیں کرتے کہ لفظوں کے معنی ہی نہیں، ان کی نفسیات اور اثرات بھی ہوتے ہیں۔ ایک دن مومنوں کی ایک ماں یعنی رسول کریم ﷺ کی ایک بیوی نے دوسری بیوی کے بارے میں کچھ ایسے الفاظ کہہ دیے کہ جو ان کی ظاہری شان میں تنقیص پر دلالت کرتے تھے۔ تب نبی کائنات ﷺ نے انھیں فرمایا کہ تمھارے یہ لفظ اتنے کڑوے ہیں کہ اگر یہ ساگر وسمندر میں ملا دیے جائیں تو ان کے زہر کی تاب نہ لاتے ہوئے سمندر بھی زہریلا اور کڑوا ہوجائے ۔ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ کچھ لفظ کتنے کڑوے اور کتنے زہریلے ہوتے ہیں۔ مگر شاید ہی کبھی ہم نے اپنی نسل ِنو کوبتایا ہو کہ یہ چھوٹا سا لفظ طلاق جو بڑی آسانی سے لبوں سے لفظوں کی صورت ادا ہو جاتا ہے، یہ کس قدر تباہ کن اور کس قدر دور تک اپنی تباہی کے جراثیم لےجانے اور پھیلانے کی ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے۔ آپ ذرا قیامت کوتصور میں لائیے۔ قیامت کیا ہے؟ اس کائنات کا زیر و زبر ہوکے تباہ و برباد ہوجانا۔ طلاق بھی تو یہی ہے۔ جو ایک خاندان کی دنیا اور کائنات کی ساری محبت اور ساری تعمیر اور سارے مستقبل کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ طلاق کے لفظ دراصل وہ کالا جادو اور بھیانک طلسم ہیں کہ جو محبت کے مضبوط ترین قلعے کو ایک لمحے میں بھسم کرکے مسمار کر دیتے ہیں۔ یوں کہ پھر جب آنکھ کھلتی ہے تو انسان کے پاس تاج محل جیسے زندگی آمیز لمحوں اور جنت جیسے لحظوں کی بس ایک کسک، اک یاد اور اک فریاد ہی باقی رہ جاتی ہے۔ وہ دو دل کہ جو اس کائنات میں سب سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب، سب سے زیادہ ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھنے والے، ایک دوسرے کے سب سے زیادہ مزاج شناس اورایک دوسرے کے لیے سب سے زیادہ رفیق اور رقیق ہوتے ہیں۔ انھی کالے طلاق کے لفظوں سے وہی پیارے دل ناقابلِ بیاں نفرت سے بھر کر ناقابلِ عبور فاصلوں کی پستی میں جا گرتے ہیں۔

    کیا طلاق صرف دو دلوں، دو زندگیوں اور جسموں کو کانچ کے ٹکڑوں کی طرح ریزہ ریزہ کر دیتی ہے؟ یعنی یوں کہ چوٹ لگ جائے تو کیا ہوتا ہے؟ ذرا آئینے کو پتھر پہ گرا کے دیکھیے، اگر ہم ایسا سوچتے ہیں تو ہم کس قدر بھولپن کا شکار ہیں۔ میرے ایک دوست اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں ایک عرصہ فیملی کورٹ میں آتے جاتے رہے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی میں کبھی تو یوں ہوتا کہ جب بچے ایک طرف ممتا کی ماری اپنی پیاری ماں اور دوسری طرف مشفق و مہربان باپ کو دو الگ الگ کٹہروں میں دشمنوں کی طرح کھڑے دیکھتے اور پھر کسی ایک کو بچے کے دوسرے پیار سے دور لے جاتا دیکھتے تو یوں بلک بلک کے روتے کہ پتھروں کے بھی دل پسیج جاتے اور یہاں تک کہ جج کی بھی آنکھیں بھیگ جاتیں اور وہ اپنا منصب بھلا کے ماں اور باپ کے آگے ہاتھ جوڑ دیتااور کہتا کہ خدا کے لیے اپنی انا کو چھوڑ دو۔ کم از کم ان بچوں پر تو ترس کھائو۔ ان معصوموں کے پھول سے دلوں کے تو بےرحم قصائیوں کی صورت ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو۔ ایسے میں کبھی توکچھ جوڑے مان کے اپنی جنت بچا لیتے مگر کچھ شیطان کی سازش میں آئے دل اپنی سختی میں پتھروں کو بھی شرما دیتے۔

    یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اسلام کی وسعت اور فراخ دلی ہے کہ اس نے کسی انتہائی صورت میں طلاق کو جائز اور روا رکھا ہے۔ وگرنہ اسے اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ترین جائز کاموں میں شمار کیا گیا ہے۔ بعض مرد بات بات پر عورت کوطلاق دینے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ دراصل انھیں مردانگی کے درجے سے گرا دیتا ہے۔ اللہ نے طلاق دینے کا حق مردکو اس لیے دیا ہے کہ وہ نسبتا زیادہ برداشت والا اور دوراندیش ہوتا ہے۔ جبکہ طلاق کو ڈراؤنا ہتھیار بنا کے وہ خود کو کسی کم عقل عورت سے بھی بےقیمت، بےوقوف اور بےعقل ثابت کر دیتا ہے۔ بعض عورتیں بھی روزمرہ معمولی معاملات سے گھبرا کر طلاق کے مطالبات کرنے لگتی ہیں۔ ہماری مسلمان خواتین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بلاوجہ طلاق طلب کرنے والی عورت کو اسلام، اللہ تعالیٰ اور نبی رحمت ﷺ نے قطعا پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ ارشادِ نبوی ﷺ یہ ہے کہ بلاوجہ طلاق طلب کرنے والی عورت جنت کی خوشبو سے بھی محروم رکھی جائے گی۔ طلاق جتنی تباہ کن اور اللہ کو ناپسند ہے، اللہ کے دشمن شیطان کو یہ اتنی ہی زیادہ پسند ہے۔ حدیث شریف میں اس سلسلے میں ایک بڑی عبرت ناک اور چشم کشا حقیقت ہمارے لیے بیان کی گئی ہے۔ پیارے پیغمبر ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ شیطان پانی پر اپنا شیطانی تخت بچھاتا اور پھر اپنے ایجنٹوں سے ان کی شیطانی کارگزاریوں کی رپورٹ لیتا جاتا ہے۔ آپ اندازہ فرمائیے کہ دنیا میں کیا کیا جرائم اور گناہ نہیں ہوتے؟ کیسے کیسے گناہ اور انسان کو جانوروں سے بدتر ثابت کردیتے کام نہیں ہوتے۔ یقینا ان سبھی کاموں کے پیچھے انسانوں یا جنوں میں سے سرگرم رہنے والے شیطانی ایجنٹ بڑے جوش خروش سے اپنے اپنے سیاہ کارناموں کا تذکرہ کرتے جاتے ہیں، مگر ان سب پر شیطان ایک واجبی سی ہوں ہاں کرتا جاتا ہے اور کچھ خاص خوش نہیں ہوتا۔ لیکن جونہی ایک ایجنٹ یہ کہتا ہے کہ آج میں نے ایک میاں بیوی کے درمیاں طلاق کا رخنہ ڈال کے جدائی کروا دی ہے تو شیطان مارے خوشی کے اٹھ کے اسے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے یہ ہوا نہ کرنے کا کام۔

    میڈیا کا اثر اپنی جگہ، لیکن ہمارے ہاں طلاق اور ازدواجی زندگی کے جہنم بننے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس سلسلے کی ضروری دینی اور دنیاوی تعلیم ہم بچوں کو ہرگز نہیں دیتے۔ بچے بھی میڈیا میں دکھائے گئے شادی شدہ زندگی کے وہ پہلو دیکھتے رہتے ہیں کہ جن کا یا توحقیقی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا یا پھر وہ پورا سچ نہیں ہوتا۔ یوں بلاتربیت نئی زندگی شروع کرنے والے بچے اور بچیاں عملی زندگی کو فوم کے اس گدے کی ٹی وی پر چلنے والی ایڈ ”زندگی اب تو گزر جائے گی آرام کےساتھ“ سے مختلف پاتے ہیں اور خیالی دنیا میں پالی اپنی آئیڈیل ازم کی کہیں بڑی توقعات کو پورا ہوتا نہیں دیکھتے تو پھر اس سے جان چھڑانے اور اپنی زندگیوں میں تباہیوں کے دروازے کھولنے پر تل جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں خواتین کے دو ادارے النور انٹرنیشنل اور الہدی بچیوں کی اچھی تربیت کر رہے ہیں۔ دیگر دینی جماعتیں اور دینی ادارے بھی یقینا یہ کام کر رہے ہیں، لیکن یہ سلسلہ زیادہ ہونا چاہیے اور پھر اس سلسلے میں لڑکیوں ہی کی نہیں لڑکوں کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔ تاکہ ہمارے اپنے گھر اور پھر ہمارے بچے بچیوں کے گھر شاد اور آباد رہیں۔ اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم اس سلسلے کا دینی لٹریچر ضرور ہمیں اپنی اولادوں کو پڑھا دینا چاہیے۔ گاہے گاہے اپنی زندگی کے نشیب و فراز اور تجربات بھی ان سے شئیر کرتے رہنا چاہیے۔ یہ غلط رویہ ہے کہ ہمارے ہوتے ہمارے پیاروں کو زندگی کی تلخی کا کچھ پتا نہیں چلنا چاہیے۔ آپ انھیں تلخ چکھائیں نہیں مگر جاہل بھی نہ رہنے دیں۔ امید ہے اس سے کئی گھر اجڑنے سے اور کئی دل مرجھانے سے بچ جائیں گے۔ ان شااللہ ۔ آئیے دعا کیجیے کہ کسی کے دل کے نور اور آنکھوں کے سرور کو یہ داغ نہ دیکھنا پڑے.