Tag: مہاجر

  • عبوری دور، فریقین کا لائحہ عمل کیا ہو؟ محمد عامر خاکوانی

    عبوری دور، فریقین کا لائحہ عمل کیا ہو؟ محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی کراچی کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے ایک بات واضح ہے کہ اس وقت عبوری دور (Transition Period) چل رہا ہے۔ دونوں فریقوں کے لیے کچھ چیزیں اوپن ہیں اور دونوں نے بعض باتیں اپنے قول وفعل سے ثابت کرنی ہیں۔ایم کیوایم پاکستان، یعنی ڈاکٹر فاروق ستار اینڈ کمپنی ایک فریق ہیں، جبکہ ریاست پاکستان یعنی حکومت اور ریاستی ادارے دوسرا فریق ہیں۔ یہ عبوری دور اپنے اندر کئی پیچیدگیاں اور نزاکتیں سموئے ہوئے ہے۔ بہت احتیاط سے، دیکھ بھال کر، سوچتے سمجھتے ہوئے ایک ایک قدم اٹھانا ہوگا۔ حکومت اور اداروں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ ان کی معمولی سی غلطی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کراچی میں فساد برپا کرنا، عوام اور اداروں میں فاصلے پیدا کرنا ایک ملک دشمن گرینڈ ڈیزائن کا حصہ ہو سکتا ہے، اسے انتہائی سنجیدگی سے ڈیل کرنا ہوگا۔

    جہاں تک ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے ”اعلان بغاوت“ اور ایم کیو ایم لندن سیکرٹریٹ سے علیحدہ ہونے کا اقدام ہے، اسے مثبت حوالے سے لینا چاہیے۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں کو اس پر شکوک ہیں اور ان کے خیال میں یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، یہ تنقید کرنے والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ فاروق ستار اور ان کے ساتھ کھل کر الطاف حسین پر تنقید اور ان کے ساتھ لاتعلقی ظاہر کریں۔ میرے خیال میں یہ مطالبہ اس وقت کچھ ناجائز ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں اور اس کے بعد بہت کھل کر ایک پوزیشن لی ہے۔ ایم کیوایم کی پوری تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر متحدہ کے سیاسی رہنمائوں، اراکین اسمبلی اور کارکنوں نے واضح طور پر بانی جماعت سے فاصلہ کیا، ان سے تعلق توڑنے اور اپنے طور پر فیصلے کرنے کی بات کی ہے۔ قائد تحریک کو ذہن علاج کرانے کا برملا مشورہ دیا گیا، نرگست زدہ الطاف حسین کے لیے یہ کسی صدمے سے کم نہیں رہا ہوگا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ٹریک ریکارڈ اور پارٹی کے سٹرکچر کو دیکھتے ہوئے یہ غیرمعمولی بات ہے ۔ اسے سراہنا چاہیے اور کوئی ٹھوس ثبوت سامنے آئے بغیر اس بات کا اعتبار کرنا چاہیے۔

    فاروق ستار پر تنقید کرنے والوں کو یہ سادہ بات سمجھنی چاہیے کہ الطاف حسین پچھلے تین عشروں سے پارٹی کا مرکزی ستون رہے ہیں، درحقیقت ایم کیو ایم الطاف ہی کا دوسرا نام رہا ہے۔ لوگ ان کے نام پر ووٹ دیتے اور اعتماد کرتے رہے ہیں۔ اتنی بڑی سیاسی عصبیت سے یکایک لاتعلق نہیں ہوا جا سکتا۔ یہ بجلی کا سوچ آن آف کرنے والا معاملہ نہیں کہ ایک لمحے میں صورتحال بدل جائے۔ الطاف حسین کے فیصلوں اور تقریروں سے لاتعلقی اختیار کرنا دوسری بات ہے اور الطاف حسین پر تبریٰ کرنا ایک اور سٹانس ہے۔ اس وقت ڈاکٹر فاروق ستار کے لیے دوسری آپشن پر چلنا ممکن نہیں۔ الطاف حسین کو گالیاں دے کر ایم کیو ایم نہیں چلائی جا سکتی، ایسی صورت میں صرف مصطفی کمال اینڈ کمپنی کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس ہی ہوسکے گی۔ ایم کیو ایم اگر چلانا ہے تو اس کا وہی طریقہ ہوسکتا ہے جو”ایم کیو ایم پاکستان“ نے اختیار کیا ہے۔ کراچی کے معروضی سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ واحد آپشن تھی۔ یہ تجربہ بھی ضروری نہیں کامیاب ہوسکے۔ اسے کامیاب بنانے کے لیے تمام سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کو سپورٹ کیا جانا چاہیے۔ اگر وہ ایم کیو ایم کے سابقہ مافیا سٹائل سے ہٹ کر سیاسی جدوجہد کرنا چاہ رہے ہیں، بدمعاشوں، ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں سے فاصلہ کرتے ہوئے سیاسی انداز میں اپنا راستہ بناتے ہیں تو ملک کے تمام سیاسی اور جمہوری عناصر کو ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ ان لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ ہم نے پرامن سیاست کر کے دیکھ لی، مگر پھر بھی ہمارے لیے گنجائش پیدا نہ ہوئی۔ سب سے اہم میئر کراچی کے اختیارات ہیں۔ کراچی کو خاصے عرصے کے بعد بلدیاتی نمائندے ملے ہیں، بدقسمتی سے سندھ حکومت نے جو بلدیاتی قانون بنایا، اس کے مطابق میئر خواہ وہ کراچی کا ہو یا اندرون سندھ کے کسی ضلع کا، اس کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی کو ایک بااختیار میئر چاہیے۔ متحدہ نے لوگوں سے بلدیاتی مینڈیٹ لیا ہے، اس کا احترام کیا جائے اور لوکل باڈی سسٹم کو کراچی کے مسائل میں کمی لانے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ نومنتخب میئر پر کئی سنگین الزامات ہیں، انہیں قانون کا سامنا کرنا چاہیے اور قانونی رعایتوں سے استفادہ بھی۔ اگر ممکن ہو تو سندھ حکومت متحدہ قومی موومنٹ کو اپنا حصہ بنائے، انہیں اہم وزارتیں دی جائیں اور مین سٹریم پالیٹکس میں آنے کا راستہ دیا جائے۔

    یہ یاد رکھاجائے کہ مافیا سٹائل پالیٹکس کے ساتھ جڑنا بھی آسان نہیں اور الگ ہونا بھی قطعی طور پر آسان نہیں۔ سیاستدانوں کو ایم کیو ایم پاکستان کے لیے راستہ نکالنا اور رکاوٹیں دور کرنا ہوں گی۔ الطاف حسین کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوگی کہ ایم کیو ایم پاکستان کا تجربہ ناکام ہوجائے اور سیاست کرنے کے خواہش مند عناصر منہ کی کھا کر پلٹیں اور دوبارہ سے پرانی ڈرٹی پالیٹکس کا حصہ بننے پر مجبور ہوں۔ اس لیے اگر الطاف حسین سے لاتعلقی کرنے والے دل سے اس پر سنجیدہ ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر، انہیں پورا موقع ملے اور سپورٹ کی جائے۔ تمام سیاسی، غیر سیاسی ریاستی اداروں کو عملی طور پر یہ بتانا چاہیے کہ ہم مہاجروں یا مہاجر بنیاد پر سیاست کے خلاف نہیں بلکہ صرف اس سیاست کی بنیاد پر مافیا سٹائل جرائم اور مجرموں کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں۔

    ریاستی اداروں کو اس پروبیشن پیریڈ کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ کراچی میں آپریشن جاری رہنا چاہیے، ایم کیو ایم کے رینکس کے اندر جو جرائم پیشہ لوگ ہیں، ان کے گرد شکنجہ تنگ ہونا چاہیے، کسی مجرم کو نہیں چھوڑنا چاہیے، جس جس نے جرم کیا ہے، اسے قانون کی گرفت میں لے آیا جائے، کسی کو کلین چٹ نہ دی جائے اور ڈرائی کلینر کی دکان بھی نہ کھولی جائے کہ جو وہاں گیا، وہ دھل کر آ گیا، چاہے پاک سرزمین پارٹی ہو، چاہے ایم کیو ایم حقیقی یا متحدہ قومی موومنٹ، ہر ایک سے کریمنل عناصر کا صفایا ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ متحدہ قومی موومنٹ یا اس کے بانی قائد کے جرائم پر تنقید الگ معاملہ ہے اور مہاجر ایشوز پر سیاست ایک الگ بات. مہاجروں کے مسائل ہیں، ان کی محرومی کی حقیقی وجوہ موجود ہیں۔ اس پر طویل بحث ہوسکتی ہے، کوئی چاہے تو اس سے اختلاف کر سکتا ہے، لسانی و مسلکی بنیاد پر سیاست کی مخالفت کرنے کا ایک جواز موجود رہتا ہے، مگر بہرحال کراچی کے مخصوص معروضی حالات ہیں۔ کراچی میں رہنے والا ہی انہیں سمجھ سکتا ہے۔ اہل کراچی ایک طویل عرصے سے ایم کیو ایم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تو کچھ اس کی وجوہ بھی ہیں۔ ان وجوہات کو سمجھنا، لوگوں کے مسائل حل کرنا، اردو سپیکنگ آبادی کے تحفظات، ان کی محرومیاں دور کرنا ہوں گی۔ اس کے بغیر مہاجر قوم پر ست سیاست ختم نہیں ہوسکتی۔ جب مسائل کم ہوجائیں گے تو قوم پرست سیاست کی جگہ ازخود قومی جماعتیں لے لیں گی۔

    کراچی میں گڑبڑ کی کوششیں جاری رہیں گی۔ فیصل واڈا پر ہونے والے حملے کی طرح مختلف اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کا خدشہ موجود ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنمائوں کو بھی فول پروف سکیورٹی ملنی چاہیے۔ دیگر سیاسی اور اہم شخصیات میں سے کسی کو خطرہ ہو تو اسے بلاتامل سپورٹ کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک تعلق ہے، ان لوگوں کا جو مرنے کی جذباتی باتیں کرتے اور پاکستانی پرچم میں دفن ہونے کی وصیت کرتے ہیں تویہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہر شادی شدہ مرد کو اپنی ازدواجی زندگی کے دوران بیگمات کی جذباتی، خود ترسی کے جذبے سے لبھڑی ہوئی دھمکیاں سننے کا درجنوں بار موقع ملتا ہے۔ نیک بخت بیویاں ہچکیاں لیتے ہوئے جذباتی وصیت باقاعدہ لکھواتی ہیں، جن میں یہ شرط سرفہرست ہوتی ہے کہ میرے مرنے کے بعد کسی کلموہی سے شادی نہیں کرنی۔ (یہ اور بات کہ خاوند بیچاروں کو وہ دل خوش کن ساعت کبھی دیکھنا نصیب نہیں ہوتی۔) نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی باتیں توجہ حاصل کرنے کے خواہش مند کیا کرتے ہیں، ان کی طرف ایک ٹشو پیپر ضرور بڑھا دیں، مگر باتیں سیریس نہ لی جائیں، ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا جائے۔

  • متحدہ کی کمان ’بھائی‘کی ’بیٹی‘ کے پاس – غلام رضا

    متحدہ کی کمان ’بھائی‘کی ’بیٹی‘ کے پاس – غلام رضا

    غلام رضا کراچی میں ایک ہفتے سے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی بھی آزاد اور خودمختار ملک میں نہیں ہوتا. کوئی پاگل بھی اپنے ملک کے خلاف نعرے نہیں لگواتا، کوئی جاہل بھی قومی پرچم نذر آتش نہیں کرواتا، کوئی گھٹیا ترین انسان بھی دشمن ملک سے مدد نہیں مانگتا مگر ہمارے پیارے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یہ سب کچھ ہوا اور افسوس کہ ہو رہا ہے. یہ سب کچھ غداری کے زمرے میں آتا ہے.

    فاروق ستار نے رینجرز کی قید سے آزادی کے بعد ’’بھائی‘‘ کی مشاورت سے خود کو متحدہ کا قائد بنایا، اور لاتعلقی کا اعلان کیا، اگر یہ سب کچھ نہ کیا جاتا تو کم از کم سزا ایم کیو ایم پر پابندی بنتی تھی مگر فاروق بھائی نے چال چلتے ہوئے معاملات کو وقتی طور پر ٹھنڈا کیا. یہ بات اب کھلا راز ہے کہ ’’بھائی‘‘ نے پاکستان مخالف نعرے اپنی نہیں’را ‘ کے حکم پر لگوائے، پاکستان مخالف تقریر ’را‘ کی ہدایت کے مطابق تھی. باوثوق ذرائع کے مطابق’’بھائی‘‘ نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے اعلی افسران سے مشاورت کے بعد پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور وہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تقریر کے بعد اگر کسی قسم کی پابندی لگی تو ایم کیو ایم کی قیادت بھائی کی بیٹی کرے گی. پہلے بھی جب متحدہ پر کوئی آفت آئی تو ’’بھائی‘‘ کی بیٹی کے قائد بننے کی خبریں آتی رہیں مگر اب چونکہ حالات کچھ زیادہ خراب ہیں، اس لیے امکان یہی ہے کہ شاید جلد ’بیٹی‘ میدان میں آجائے.

    حالات و واقعات نے ثابت کیا ہے کہ ’بھائی‘ کا راج ابھی تک برقرار ہے. ایم کیوایم کے سینئر رہنما بابر غوری نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے پر’بھائی‘سے معافی مانگ لی، ریکارڈنگ بھی سامنے آچکی ہے جس میں معذرت کرتے ہوئے بابر غوری کو پاکستان مخالف نعرے لگاتے سنا جاسکتا ہے۔ بابر غوری کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ میں نے پاکستان زندہ باد کا ٹویٹ کیا، اگر آپ اس کو درست نہیں سمجھتے تو میں ایسی غلطی پر معافی مانگتا ہوں، اس کے بعد پاکستان مخالف نعرے لگائے گئے، وہاں موجود سب لوگوں نے باری باری پاکستان مخالف نعرے لگائے.

    اس صورتحال کے تناظر میں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال متحرک ہو گئے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے، اطلاعات ہیں کہ وہ دبئی پہنچ چکے ہیں اور ایم کیوایم کے رہنمائوں سے ملاقات کر کے اپنی پارٹی میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، عامر لیاقت سمیت کئی رہنمائوں نے پہلے ہی پارٹی سے منہ موڑ لیا جبکہ کئی رہنما منحرف ہوکر پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں.

    فاروق ستار رہنمائوں کی بغاوت کو روکنا اور مصلحت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ ایم کیو ایم کے سخت گیر اور نرم گفتار طبقے کو ملاکر چلنا چاہتے ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں یہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے. فاروق ستار کے لیے مشورہ ہے کہ جلد از جلد ایم کیو ایم کے آئین میں ترمیم کر لیں تاکہ ’’بھائی‘‘کی ’’بیٹی‘‘جماعت پر قبضہ کر کے باپ کے نقش قدم پر نہ چل پڑے، اسی میں فاروق ستار اور متحدہ کی بھلائی ہے، کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں.

  • پاکستان کا کیا قصور؟ کامران امین

    پاکستان کا کیا قصور؟ کامران امین

    کامران امین برصغیر پر جب انگریز حاکم بنے تو شرح خواندگی90 فیصد تھی۔ دلی کے بازاروں میں خوب رونق ہوا کرتی، اگرچہ عام لوگوں کے پاس زمینیں نہ ہونے کے برابر ہوتیں لیکن پھر بھی لوگ خوشحال تھے. انگریز سیاح اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھکاری ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے تھے۔ یہی انگریز جب سو سال حکومت کرنے کے بعد رخصت ہوا تو برصغیر کی صرف 5 فی صد آبادی خواندہ تھی اور جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر نمازیوں سے زیادہ بھکاری ہوتے تھے۔

    چونکہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور مسلمان بھی خود کو برصغیر کا جائز حکمران سمجھتے تھے اس لیے عتاب زیادہ تر مسلمانوں پر ہی گرا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے برصغیر کی سب سے بڑی آبادی ہندئووں اور مسلمانوں میں نفرت کے بیج بھی بونا شروع کر دیے. نتیجہ یہ نکلا کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں مسلمانوں کا سوچ سمجھ رکھنے والا طبقہ یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کا ایک ملک میں نباہ کرنا اب تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔ کانگریسی وزارتوں کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے نے اس رائے کو اور تقویت دی اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی قائداعظم جیسے مدبر شخص نے بھی مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا فیصلہ کر لیا۔

    پاکستان اپنے قیام کے روز سے ہی اس لحاظ سے بدقسمت رہا ہے کہ حصول کے وقت کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں بلکہ ہندوئوں کے معاشی جبر سے بھی آزاد ہوں۔ اگر چہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کا فیصلہ تھا لیکن پھر بھی اس دور کے مومنین صالحین نے کھل کر اس کی مخالفت کی، چنانچہ اس اصول پرست اور دیانتدار شخص پر فتوے لگائے گئے جو ایک غلام قوم کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ کوئی ایسی قوم بھی ہوگی جس کے رہنما خود اسے یہ بتا رہے ہوں کہ آزادی تمارے مفاد میں نہیں، تم غلام ہی ٹھیک ہو۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان بن کر ہی رہےگا تو راتوں رات وہ تمام لوگ جو قیام پاکستان کے لیے سد راہ تھے، توبہ تائب ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جی ہاں وہ تمام راجے مہاراجے، نواب، جاگیردار، زمیندار اور سرمایہ دار جو گزشتہ سو سالوں سے انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے، عین آزادی کے وقت وہ بھی آزادی والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ قائد اعظم نے اگرچہ ایسے لوگوں کو عہدے نہ دینے میں عافیت جانی لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد یہ لوگ اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر نوزائیدہ مملکت میں اہم عہدوں پر فائز ہو گئے اور اس کے بعد سے پاکستانی عوام آزادی کے بہلاوے میں ابھی تک غلام ہی ہیں۔ مثال کے طور پر خان عبد الغفار خان کی عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے ہند پاکستان کے مخالاف تھے لیکن اسی پاکستان کے ایک صوبے میں ان کے وارثوں نے کئی دفعہ جم کر حکومت کی۔ پنجاب میں سکندر حیات کی اولاد مخدوموں، کھروں اور ٹوانوں کی کہانیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔

    ایک ملک بنانے کے بعد جب ایک قوم بنانے کی باری آئی تو اس قوم کی باگ دوڑ ان ہاتھوں میں چلی گئی جنہیں اس قوم سے تو کیا ملک سے بھی دلچسپی نہ تھی چنانچہ سب سے پہلے تو انہوں نے بنگالیوں سے جان چھڑائی جو اس وقت تک پاکستان میں سب سے باشعور طبقہ تھا اور تحریک آزادی میں جس کا کردار ناقابل فراموش رہا تھا۔ اس کے بعد بھی چین نہیں ملا تو انہوں نے باقی ماندہ پاکستان کو ایک اکائی کے طور پر مضبوط کرنے کے بجائے لوگوں کو پنجابی، بلوچی، سندھی، پختون، مہاجر، سرائیکی وغیرہ میں بانٹ دیا اور ایسے اسباب مسلسل فراہم کیے جاتے رہے کہ یہ لسانی گروہ ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہی رہیں ۔

    سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ قائداعظم کے بعد کوئی رہنما نہ ملا جو بھیڑ بکریوں کے اس گلے کی نگہبانی کے ساتھ رہنمائی کرتا۔ اور اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ایشیا کا ڈیگال، قائد عوام، مرد مومن اور مشرق کی بیٹی تو آج بھی زندہ ہے لیکن حضرت قائداعظم صاحب انتقال کر گئے۔ آج حال یہ ہے کہ ایک ملک جسے کوئی اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں لیکن سارے اس سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس ملک کا کیا قصور ہے؟ کیا جب ہم الیکشن میں بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو، کرپٹ ترین لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں تو یہ پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارے اپنے بھائی ہمارے خاندان کے لوگ جو پولیس، فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کا حصہ ہیں، کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے محرومی و ناانصافی کو جنم دے رہے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہماری عدالتیں انصاف نہیں کرتیں، ہمارے منصف سرعام بک جاتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارا تعلیمی نظام عوام میں شعور و بیدار کرنے میں ناکام ہے تو کیا اس میں بھی پاکستان کا قصور ہے؟ اس ملک نے تو ہمیں یہ موقع دیا تھا کہ ہم اپنے نصیب خود اپنے ہاتھوں سے لکھیں لیکن وہ نصیب لکھنے والا قلم ہم نے اپنی مرضی سے غلاموں کے ہاتھوں میں تھما دیا تو یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ نوجوان جو 14 اگست کو سڑکوں پر پاکستان کی جھنڈیاں سجا کر ناچتے نطر آئے، تعلیمی اداروں میں لسانی جھگڑوں میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ کبھی انڈیا میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کی حالت زار پر غور کیا ہے؟ سفر کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں اور جس علاقے سے بدبو آنا شروع ہو جائے سمجھ لیں کہ مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوگیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے؟ کیا کسی نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پڑھنے کی کوشش کی ہے وقت نکال کر؟

    آج تک پنجابی، سندھی، بلوچی، مہاجر اور پٹھان بن کر تو سوچتے رہے تو آئیے آج ایک لمحے کے لیے پاکستانی بن کر سوچتے ہیں کہ آخر پاکستان کا کیا قصور ہے؟ ہم پاکستان سے کیوں ناراض ہیں؟ آئیے ایک دفعہ پاکستانی بن کر سوچتے اور عمل کرتے ہیں.

  • مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی – محمد فیصل شہزاد

    مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی – محمد فیصل شہزاد

    ’’جی بیٹا! تو کہاں سے تعلق ہے آپ لوگوں کا؟‘‘
    احمد صاحب نے بڑی شفقت سے پوچھا تھا۔
    ’’جی یہیں کراچی سے، میں سندھی ہوں۔‘‘
    ’’سندھی.‘‘
    احمد صاحب نے بری طرح چونک کر مجھے دیکھا اور میں بھی ہکا بکا علی کو دیکھنے لگا۔
    ’’یہ کیا مذاق ہے علی؟‘‘
    میں نے کسی قدر غصے میں مگر دھیرے سے کہا۔
    ’’نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں فیصل بھائی !میں سندھی ہی ہوں بلکہ اول مسلمان ہوں، پھر پاکستانی، پھر سندھی!‘‘
    ’’مسلمان اور پاکستانی تو ٹھیک ہے مگر تو سندھی کب سے ہوگیا؟ کیوں میری بات خراب کر رہا ہے، اگر شادی نہیں کرنی تھی تو یہاں تک آنے کی ضرورت کیا تھی.‘‘
    میں نے غصے سے دانت چباتے ہوئے کہا تھا۔
    احمد صاحب جو اچانک سنجیدہ نظر آنے لگے تھے، کہہ اٹھے:
    ’’بہت معذرت بیٹا! بےشک سندھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں مگر ہماری بٹیا کو تو ایک لفظ سندھی کا نہیں آتا، پھر رسوم و رواج اور ثقافت کے بھی ہزار مسائل ہو جاتے ہیں، آپ لوگوں کو ہی تکلیف ہوگی۔ ویسے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہماری بٹیا کے لیے کسی بھی مسلمان کا رشتہ آئے، مگر ہم فیصل میاں سے پہلے ہی اس بابت صاف کہہ چکے تھے، آپ برا نہیں منانا مگر…‘‘
    انہوں نے رک کر مجھے شکایتی انداز میں دیکھا، مجھے علی پر شدیدغصہ آنے لگا۔
    ’’مم مگر انکل! بات یہ ہے کہ تھوڑی بہت سندھی مجھے آتی تو ہے، مگر میں سندھی نہیں، اوہ مم میرا مطلب ہے کہ میں سندھی تو ضرور ہوں، کچھ سندھی بول بھی لیتا ہوں، مگر وہ سندھی نہیں ہوں!‘‘
    علی نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا تو مجھے اس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔ ادھر احمد صاحب چہرے پر شدید حیرت کے آثار لیے علی کو اور مجھے دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے اور برداشت نہ ہوا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے احمد صاحب کو سلام کیا، معذرت چاہی اور تیزی سے علی کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھک سے باہر نکل آیا۔
    باہر آتے ہی اس نے میرے خطرناک ارادے بھانپ کر جلدی سے کہا:
    ’’ایک منٹ فیصل بھائی جان! آپ لوگ میری بات سمجھ نہیں ر ہے. وہ فلاں دانشور نے فیس بک پر فلسفہ بگھارا تھا کہ آپ سندھ میں پیدا ہوئے ہوتو سندھی ہو، اردو اسپیکنگ یا مہاجر کا ٹائٹل نہ لگاؤ، اپنے آپ کو سندھی کہلواؤ. میں تو اس لیے بولا۔‘‘
    ’’کیا؟؟ حمق! تو نے ان دانشوروں کی باسی دانش کی وجہ سے مجھے اتنے اچھے پڑوسی کے سامنے شرمندہ کر دیا. ابے ادھر آ. ‘‘ میں اسے اگلی گلی میں لے آیا۔
    سامنے میرے بہت پیارے پڑوسی دوست محسن بھائی کھڑے ہوئے تھے. ’’ اب سن‘‘
    میں علی کو ان کے پاس لے گیا۔
    ’’محسن بھائی! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ سندھی ہو؟‘‘
    ’’ہائیں…‘‘ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے۔
    ’’کک کیا کہہ رہے ہو فیصل بھائی! جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں، کوئی بیس سال سے آپ کا پڑوس ہے، اب ہم سندھی ہو گئے سائیں، واہ چھا تو کرے میرا میڈا سائیں‘‘
    محسن بھائی نے مزاحیہ انداز میں سندھی بولنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
    ’’پھر آپ کون ہو؟‘‘
    ’’کیا ہوگیا بھائی؟ ہم پنجابی ہیں، پیچھے سے فیصل آباد ی ہیں. کیا آپ ہمارے ساتھ رائیونڈ اجتماع کے بعد ہمارے گاؤں گئے نہیں تھے کیا؟‘‘
    اب ان کے چہرے پر الجھن کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔
    ’’بس ٹھیک ہے.‘‘ میں مسکرایا اور انہیں الجھتا چھوڑ کر علی کا ہاتھ تھامے کونے میں بنے کوئٹہ وال چائے ہوٹل پر چلا گیا۔
    ’’ہاں عبدالرحمن! میں نے سنا ہے تم سندھی ہو؟‘‘
    میں نے چائے بناتے کھلنڈرے سے عبدالرحمن سے پوچھا۔
    عبدالرحمن نے حیرت سے مجھے دیکھا، پھر گویا مذاق سمجھتے ہوئے بولا:
    ’’زڑ خہ منہ کن خرژیش …مچ مچ ٹشن دا ڈغہ … زہ تا سرا مینا کوم پیسل بھائی!‘‘
    وہ مخصوص کوئٹہ کے لہجے میں پشتو کے پھول نچھاور کرنے لگا۔
    ’’آداب آداب میرے چھوٹے خان… میری طرف سے بھی زہ تا سرا مینا کوم…‘‘
    میں نے مسکرا کر جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔
    قصہ مختصر سرائیکی خالد اعظم نے سرائیکی ہی کہا. ہزارے وال طاہر عابد نے ہزارے وال کی نسبت ہی بتلائی. اور ادھر علی کا چہرہ برابر رنگ بدل رہا تھا۔
    ’’دیکھا تو نے یہ سب ہمارے بھائی یہیں پیدا ہوئے، یہ سب سندھی نہیں ہوئے تو کمینے تو کہاں سے سندھی ہو گیا؟‘‘
    ’’بے شک ہم سندھ میں رہتے ہیں مگر ہمارے جو مہان دانشور دو چار دنوں سے گاہے یہ فلاسفی جھاڑ رہے ہیں ناں کہ سندھ میں رہتے ہو تو سندھی کہلاؤ، تو بیٹا یہ صرف تمہارے میرے لیے لارے لپے ہیں. ان سے پوچھو، باقی ہمارے دوسری زبان سے نسبت رکھنے والے بھائیوں کے لیے بھی یہی لالی پاپ ہے یا نہیں؟! بیٹا یہاں کی بات تو چھوڑو، خود پنجاب میں رہنے والے سرائیکی بیلٹ کے ساتھی خود کو پنجابی نہیں کہتے. ہزارے وال خود کو پنجابی نہیں کہتے.
    ارے پیارے یہ لفظ مہاجر اب صرف پہچان کے لیے بولا جاتا ہے نہ کہ لغوی واصطلاحی طور پر کہ آگے سے یہ جاہلانہ سوال پوچھا جائے کہ اچھا بتاؤ تم نے کب ہجرت کی؟ پھر چلولفظ مہاجر کو چھوڑو، اگر اس سے تکلیف ہوتی ہے تو’اردو اسپیکنگ‘کی اردو انگریزی مخلوط معصوم سی ترکیب سے کیا مسئلہ ہے جسے اب قبول خاص و عام حاصل ہو گیا ہے، مگر دانشور اس پر بھی چیں بجیں ہیں، کس وجہ سے؟ صرف متحدہ جیسی فسطائی دہشت گرد تنظیم کی وجہ سے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود متحدہ برسوں قبل لفظ مہاجر سے جان چھڑا چکی، جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم حقیقی وجود میں آئی!
    ڈئیر! قبیلے، علاقے اور زبان پہچان کے لیے ہوتے ہیں اور شادی بیاہ اور ہزار معاملات میں لوگ علاقہ یا زبان کے بارے میں عام سوال پوچھتے ہی ہیں. یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ تو اپنی لسانی پہچان امریکا جا کر بھی برقرار رکھو، پنجابی مسلم سوداگران تنظیمیں بناؤ اور ہم اپنے ہی ملک میں اپنی پہچان تلاشتے رہیں.!
    کیا یہ بات سراسر اکرام مسلم کے خلاف نہیں کہ ایک مسلمان جس بات کو پوچھنا چاہ رہا ہے، آپ اس کو سمجھنے کے باوجود اپنے فیس بکی دانشوروں کی ہدایت پر مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں، سندھی ہوں کی تکرار کرتے رہیں، اور نتیجے میں کنوارے ہی رہ جائیں!
    ٭٭٭
    اس کہانی میں بات بہت وضاحت سے آ گئی. مزید کنفیوژن دور کرنے کے لیے بات کو اس طرح سمجھیے:
    دیکھیں اپنی پہچان اور تعارف کے لیے مختلف دائرے ہوتے ہیں. ہر دائرہ پہلے سے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
    ٭پہلا دائرہ:
    آپ کسی غیر مسلم کے مقابل اپنی پہچان مسلمان کہہ کر کرواتے ہیں. بس یہی پہچان و تعارف کا سب سے بڑا اور بنیادی دائرہ ہے اور یہی دائرہ دنیا آخرت دونوں کو وسیع ہے. اسی دائرے کا حق ہے کہ اسے اللہ کے شکر کے ساتھ بیان کیا جائے!
    ٭دوسرا دائرہ:
    آپ پاکستان سے باہر ہیں تو آپ دوسرے ملک والوں کے سامنے اپنی وطنیت کی پہچان کروائیں گے، یعنی پاکستانی! یہ دوسرا دائرہ ہے جس میں دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان گویا مائنس ہو گئے!
    ٭تیسرا دائرہ:
    آپ پاکستان میں ہیں تو آپ اپنے شہر کے توسط سے اپنی پہچان کرواتے ہیں یعنی لاہوری، کراچی والے، ملتانی، کوئٹہ وال، پشاوری وغیرہ، آپ چاہے کوئی بھی زبان بولتے ہوں، اپنے شہر کی خوبیاں، اپنے شہر کی تعریف، اپنے شہر پر فخر اور کبھی کبھار اپنے شہر کی وجہ سے تعصب بھی اپنائیں گے، یہ بھول کر کہ آپ پختون ہیں، پنجابی بولتے ہیں یا اردو! یہ ہے پہچان و تعارف کا تیسرا دائرہ اس میں پاکستان کے دوسرے شہر والے گویا مائنس ہو جاتے ہیں۔
    ٭چوتھا دائرہ:
    یہاں آ کر ایک عجیب بات مگر یہ سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں صوبائی پہچان کرانے کا رواج بالکل بھی نہ چل سکا، پاکستان کے اندر اول شہر کی پہچان ہے، اس کے بعد براہ راست زبان کی پہچان ہے!
    پنجابی بولنے والے پنجابی اسپیکنگ، سرائیکی بولنے والے سرائیکی اسپیکنگ، سندھی بولنے والے سندھی اسپیکنگ، ہزارہ وال ہزارہ کی زبان بولتے ہیں، پشتو بولنے والے پختون اور اردو بولنے والے اردو اسپیکنگ!
    ٭ یہ ہے پہچان اور تعارف کا چوتھا دائرہ اس میں دوسری زبان والے مائنس ہو گئے۔
    اس سے چھوٹے بھی کئی دائرے ہیں، ذات یا علاقائی وغیرہ کے، جیسے پنجابی بھائیوں میں جٹ اور کھوکھر وغیرہ اور اردو بولنے والوں میں بہاری، دہلی والے، الہ آبادی، حیدرآبادی وغیرہ کے، لیکن انہیں چھوڑیے۔
    مندرجہ بالا چار دائرے کسی قسم کے تعصب کے بغیر بیان کیے جاتے ہیں اور ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان دائروں کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ یہ حقیقت ہے۔ اس کے خلاف کوئی ’نکتہ شناس‘ زبردستی یہ کہے کہ جس صوبے میں رہتے ہو، اس سے اپنی پہچان کروائو تو یہ زمینی حقائق کے بالکل خلاف بات ہے۔
    جب ہمارے دفتر کے سرائیکی بھائی جو کراچی میں ہی پیدا ہوئے، اپنی پہچان سرائیکی کہہ کر کراتے ہیں تو ہم بھلا کیوں سندھی کی پہچان کروائیں؟!
    ٭٭٭

  • الطاف حسین اور ایم کیو ایم، آغاز سے انجام تک – فیض اللہ خان

    الطاف حسین اور ایم کیو ایم، آغاز سے انجام تک – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان پاکستان میں موجود قوم پرستی کی بدترین سیاست کی وجہ سے الطاف حسین نے ایم کیو ایم قائم کی. یہ تنظیم ردعمل اور بہت سی درست وجوہات کی بنیاد پر بنی. یہ بات تو خیر راسخ ہوچکی کہ ردعمل میں بننے والے گروہ یا شخصیات اعتدال پر نہیں رہتے سو یہی ایم کیو ایم کے معاملے میں بھی ہوا اور اس تنظیم نے مار دھاڑ اور تشدد کے نت نئے ریکارڈ بنائے. یہ بات بھی سب جانتے ہیں کراچی میں بھتہ کلچر کی ابتداء متحدہ نے کی اور بعد کے برسوں میں پیپلز امن کمیٹی اے این پی اور سنی تحریک و دیگر نے اسے انتہا تک پہنچایا، مذکورہ جماعتوں نے رنگ نسل کی بنیاد پہ قتل و غارت گری کا بازار بھی گرم کیا۔

    ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے والوں یا اردو اسپیکنگ طبقے کو بعض متعصب لوگوں نے مکڑ مٹروے، پناہ گیر اور اس جیسے دیگر القابات سے نوازا تو ان میں اپنی شناخت کے حوالے سے احساس محرومی پیدا ہوا، جس نے الطاف حسین کو پیدا کیا، انہوں نے اپنی قوم کو مہاجر کے نام سے نئی شناخت دی اور بلاشبہ نچلے طبقے کے لوگوں کو پارلیمان تک پہنچایا. یہ بھی یاد رہے کہ ہند سے آئے بعض مہاجرین اپنی تہذیب و تمدن کو، یہاں پہلے سے آباد قومتیوں سے برتر خیال کرتے تھے. اس غرور نے بھی کچھ مسائل کو جنم دیا، لیکن اس کے باوجود عام پاکستانی اردو بولنے والوں کو بابو لوگ یعنی پڑھا لکھا اور شریف کہا کرتا تھا، بجا طور پہ ایسا تھا بھی اور اب بھی ہے۔

    کراچی ہمیشہ اپوزیشن کا شہر رہا، آمریت کے خلاف تحاریک چلائیں، ایوبی جبر کے دنوں میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، انہی دنوں سندھی، اردو اور پشتو بولنے والوں کے درمیان ابتدائی تصادم ہوئے جس نے فضا میں تلخی بھر دی۔ یہ تلخی تب زہر میں تبدیل ہوئی جب کراچی کے سرسید کالج کی طالبہ بشری زیدی ایک بس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے جاں بحق ہوئی، اس کے فوری بعد پشتون مہاجر خونی تصادم کا سلسلہ شروع ہوا جو وقفے وقفے سے حالیہ آپریشن تک جاری رہا، بے گناہ مہاجر و پشتون اس جنگ کا ایندھن بنے. بعد میں آفاق احمد اور الطاف حسین کے کارکن مہاجروں کے باہمی قتل عام میں مصروف رہے، پنجابی و سندھی بھی اس لڑائی میں کام آئے. بعد ازاں پیپلز پارٹی کے تعاون سے بننے والی پیپلز امن کمیٹی نے مہاجر بلوچ تصادم کو عروج بخشا۔

    جنرل ضیاءالحق نے ایم کیو ایم تخلیق کی، چنانچہ ان سے ایم کیو ایم کے تعلقات بہتر رہے. انھوں نے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں سندھو دیش کا نعرہ لگانے والے جی ایم سید اور مہاجر قومی موومنٹ کے الطاف حسین کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھا، بعد میں ایم کیو ایم ہر دور میں حکومت کا حصہ رہی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن و ق کے ساتھ حکومتوں میں اپنا حصہ وصول کیا، اور اقتدار کے مکمل مزے لوٹے. پرویز مشرف جیسے آمر کا ایم کیو ایم نے ہر فورم پر بھرپور ساتھ دیا، لال مسجد آپریشن کی حمایت میں سب سے زیادہ مئوثر مہم الطاف حسین نے چلائی، عدلیہ مخالف تحریک کے روح رواں بھی متحدہ قائد ہی تھے۔ 12 مئی کے سانحے نے اسی سے جنم لیا.

    مہاجروں کو ملنے والی شناخت، پارلیمان میں نمائندگی اور نچلے طبقے کا ابھرنا، یہ وہ بنیادی وجوہات تھیں یا ہیں جس کی وجہ سے مہاجر الطاف حسین کے طلسم کے اسیر ہو کر رہے۔ یہ الگ پہلو ہے کہ اس دوران ایم کیوایم کی صف اول و دوم قیادت میں شامل رہنما و کارکن بدعنوانی، بھتہ خوری اور چائنہ کٹنگ کے ذریعے اربوں میں کھیلنے لگے۔ خوف ایم کیو ایم کا بڑا ہتھیار رہا، یہاں تک کہ ایم کیو ایم کارکن خود کو ہندی فلموں میں گینگسٹرز سے منسوب اصطلاح ’’ھائی لوگ‘‘ کے نام سے مخالفین میں خود کو متعارف کرانے میں خوشی محسوس کرتے تھے اور ہیں۔

    متحدہ کی نئی نسل اس بات سے بڑی حد تک لاعلم رہی کہ پارٹی کے ابتدائی نعروں میں مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے محصورین کی واپسی اور کوٹہ سسٹم کا خاتمہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ وہ تو پیدا ہی اسی نعرے کے ساتھ ہوئے کہ منزل نہیں رہنما چاہیے یا پھر ہم نہ ہوں ہمارے بعد الطاف۔ حالیہ عرصے میں متحدہ نے دوبارہ کوٹہ سسٹم سے متعلق اپنے مطالبات کو دہرایا ہے لیکن اب یہ گئے وقت کو آواز دینے جیسا ہے۔

    ایم کیو ایم کے قیام سے قبل یقیناً دیگر چھوٹی قومیتوں کی طرح مہاجروں کے بھی بہت سے مطالبات جائز تھے. حکومتی و سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بھی شکایات تھیں کہ سرکاری نوکریوں میں حصہ نہیں دیا جاتا، نفرت و تضحیک کا رویہ رکھا جاتا ہے مگر اس میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دنوں کراچی کا شہری، تعلیمی اور طبی نظام آج سے لاکھ درجے بہتر تھا، یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جس شہر میں کبھی ٹرام چلتی تھی اب وہاں چنگچی پر گزارا ہے.

    گزرے 30 برسوں کا غیرجانبدار ہو کر مطالعہ کیا جائے تو چند ہولناک حقائق سر اٹھائے کھڑے ہیں مثلاً کراچی کا تعلیمی، طبی اور تہذیبی قتل عام ہوا ہے، نسلی و لسانی سیاست کی بھینٹ چڑھنے والے ہزاروں انسانوں کا تو ذکر ہی نہ کریں، اپنی پالیسی کے مطابق سرکاری اداروں میں متحدہ نے کارکن بھر دیے جن کی پہلی ذمہ داری پارٹی و قائد سے وفاداری وغیرہ تھی اور بعد میں عوامی خدمت۔ ایم کیو ایم کی قوت کی وجہ سے کسی افسر میں جرات نہیں تھی کہ پارٹی کارکن نما سرکاری ملازمین کی غیر حاضری، دفتر میں سیاسی سرگرمیوں اور چندہ وصولی سیمت دیگر اقدامات کی پوچھ گچھ کرے. نتیجہ یہ ہوا کہ تمام شہری ادارے بری طرح سے برباد ہوگئے، میرٹ کی دھجیاں ایم کیو ایم و پیپلز پارٹی نے مل کر اڑائیں، جواب دہی کے احساس سے برات نے کارکنوں کے وارے نیارے کردیے۔

    گو کہ ان اداروں کی تباہی میں پیپلزپارٹی کا بھی مکمل ہاتھ رہا، لیکن پڑھے لکھے ہونے کا دعوی متحدہ کا ہے تو اسی مناسبت سے قصور اس کا زیادہ ہے. حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی جرم یا گناہ کو محض اس بنیاد پر درست نہیں قرار دسکتے کہ فلاں شخص، جماعت یا قومیت بھی تو ایسا کرتی ہے، یہی تو پڑھے لکھے اور جاہل میں فرق ہے، ویسے یہ الگ پہلو ہے کہ ان اداروں میں دونوں جماعتوں نے مل کر بدعنوانی کی اور بہت ہی خوب کی۔

    مشرف حکومت متحدہ کا سنہری دور کہلاتا ہے، جب مری ہوئی ایم کیو ایم میں آمر نے سیاسی روح پھونکی. اس دوران کوٹہ سسٹم اور محصورین کا معاملہ نمٹ سکتا تھا لیکن تب تک پارٹی کی ترجیحات تبدیل ہوچکی تھیں اور سوائے پیسہ بنانے کے کسی دوسرے معاملے میں دلچسپی نہ رہی تھی. ان دنوں بابر غوری کے زمینوں پر قبضے کے چرچے اتنے عام تھے کہ خود پارٹی کے حلقوں میں ان علاقوں کو غوری آباد کے نام سے یاد کیا جاتا، جہاں انہوں نے رہائشی و تجارتی عمارتیں کھڑی کر رکھی تھیں۔

    حالیہ آپریشن جو کہ لگ بھگ دو سال قبل شروع ہوا ، کے آغاز میں ایک دوست کا خیال تھا کہ متحدہ شدید ردعمل ظاہر کرے گی، اس کے خیال میں یہ 1992ء کی متحدہ تھی. لیکن وہ فیز مکمل طور پہ گزر چکا، تب ریاست سے لڑنے والوں کی اکثریت ماری گئی یا فرار ہوگئی اور جو چھوٹے کارکن تھے انہیں پیسوں کی اتنی لت لگ چکی کہ کم از کم ریاست سے لڑنے کا ان میں دم نہیں. متحدہ کا اس آپریشن پر سب سے بڑا ری ایکشن میڈیا گھروں پہ حملہ تھا جو کہ اپنی اصل میں خود متحدہ ہی پر حملہ تصور ہوا۔ باوجود اس کے کہ کارکن الطاف حسین سے عقیدت رکھتا ہے لیکن کم از کم اب اس حوالے سے بندوق اٹھانا ممکن نہیں رہا. بلوچ عسکریت پسند یا طالبان جس طرح ریاست سے ٹکرائے، اس کے لیے صرف بیرونی امداد کافی نہیں ہوتی، مذہبی یا قوم پرستانہ جذبے کا ہونا بھی بہت ضروری ہے، جو کہ بلوچ اور طالبان میں نظر آیا، جبھی ان پر قابو پانے کے لیے ریاست کو ایک خوفناک جنگ لڑنا پڑی۔

    ایم کیو ایم کی دہشت گردی اس نوعیت کی تھی کہ کنڈیکٹر مار دیا، چوکیدار یا مزدور کو موت نیند سلادیا، مخالف سیاسی کارکن کو قتل کردیا، ماضی کی بات اور تھی جب ایم کیو ایم نے فوج و سرکاری ملازمین پر حملے کیے یا ان پولیس والوں کا قتل عام کیا جو اس کے خلاف آپریشن کا حصہ بنے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ان میں سے بیشتر قاتل پکڑے گئے یا وہ ملک سے فرار ہیں، البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان واقعات کے بعد پولیس فورس کا مورال گر گیا اور چوہدری اسلم جیسے افسر نے بھی ایم کیو ایم کے ساتھ سمجھوتہ کیا اور ترقی پائی۔

    الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقاریر کے بعد جس طرح فاروق ستار نے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، اس پر ہمارے بعض حلقے مطمئن نہیں ہو رہے اور اسے چال قرار دیا جارہا ہے. حالات کا تجزیہ کیا جائے تو فی الحال یہی بہترین پالیسی ہے کہ اصل ایم کیو ایم کو نہایت حکمت کے ساتھ الطاف حسین سے الگ کردیا جائے بظاہر فاروق ستار یہی کر رہے ہیں. ہاں کل کو اس میں کوئی ڈرامہ نکلا تو پھر ہمارے ادارے ہر طرح کے اقدام کے مجاز ہوں گے، کوئی ان پہ انگلی نہیں اٹھاسکے گا. درحقیقت یہ پاکستان میں موجود قیادت کو موقع فراہم کرنے جیسا ہے. یہ بات درست ہے کہ ایم کیو ایم الطاف حسین ہے اور الطاف حسین ایم کیو ایم، لیکن اس بار معاملات قدرے مختلف ہیں.ر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کا عام ورکر الطاف حسین کو ساری خامیوں کے باوجود مائی باپ سمجھتا ہے، ایسے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ فاروق ستار کی ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ بہت سی باتیں صرف سوچی جاسکتی ہیں، سب سے اہم یہ ہے کہ کیا عام مہاجر ووٹر فاروق ستار کے اس فیصلے کی تائید کرےگا؟ کیونکہ ووٹرز ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ الطاف حسین کا بہرحال عقیدت مند ہے. ایم کیو ایم کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس نے الطاف حسین کے خلاف کی جانے والی کسی بھی بات کو براہ راست مہاجر مخالفت سے جوڑ دیا، باوجود اس کے کہ ایم کیو ایم ہی مہاجروں کی نمائندہ جماعت ہے لیکن یہ بھی خام خیالی ہے کہ ہر مہاجر الطاف حسین کا حامی ہے۔

    اس سارے تناطر میں اس بات کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ مہاجر چاہے ایم کیو ایم میں ہو یا نہ ہو، وہ بغیر کسی شک کے اسلام اور پاکستان سے محبت کرتا ہے، اس کا ثبوت گزرا یوم آزادی ہے جسے کراچی کے مہاجروں نے اس انداز سے منایا کہ لطف آگیا۔

    اس سارے کھیل میں سب سے بڑا سبق ہمارے مقتدر اداروں کے لیے ہے کہ کل جس متحدہ کو پروان چڑھایا، آج وہی گلے کی ہڈی بن چکی ہے. کاش کہ حال و مستقبل میں ایسی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کیا جائے. اسی میں پاکستان، عوام، ریاست اور سیاست کی بہتری ہے۔

  • مہاجر !کیا اب بھی نہ سوچیں گے  –  احسان کوہاٹی

    مہاجر !کیا اب بھی نہ سوچیں گے – احسان کوہاٹی

    کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ بانیان پاکستان کی اولاد کہلانے والے خود سے سوال کریں، اپنے گریبان میں جھانکیں اور سوچیں کہ انہوں نے قائد کے لیے کیا کیا نہ کیا۔۔۔ قائد نے کہا کہ ٹیلی ویژن ریفریجریٹر بیچ کر کلاشنکوفیں خریدو۔۔۔ اردو بولنے والے نوجوانوں نے بستے اتار کر کلاشن کوفیں اُٹھالیں۔

    قائد نے کہا کہ پٹھان، پنجابی، سندھی دشمن ہیں تو شہر لسانی طور پر تقسیم ہوگیا۔ لالو کھیت لیاقت آباد میں رکشہ ٹیکسی والوں نے جانا چھوڑ دیا۔ سندھی ٹوپی پہننے والا غلطی سے چلا جاتا تو ’’بھائی‘‘ کے چاہنے والے ’’غلطی‘‘ نہ کرتے۔

    قائد کو پیر ہونے کا شوق ہوا تو ’’پیر صاحب‘‘ کی تصویریں کروٹن کے پتوں پر نمودار ہونے لگیں۔ لوگ قطاریں باندھ کر زیارت کے لیے آنے لگے۔ مسجد کے سنگ مرمر پر بھائی کی شبیہہ کا شبہ ہوا تو مرید پورا سلیب ہی اکھاڑ کر لے گئے۔

    قائد کی سالگرہ ہوئی تو کئی منزلہ کیک کاٹنے کے لیے ہاتھ میں سونے کی تلوار دی گئی۔
    قائد جو جو کہتے رہے، ’’قوم‘‘ وہ وہ کرتی رہی۔ مولانامحمد علی جوہر، شبلی، نعمانی، حسرت موہانی، نواب وقار الملک کی قوم میں کن کٹے، دادے، لولے لنگڑے اور پنواڑی ہونے لگے۔

    پھر قتل وغارت گری شروع ہوئی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے۔ قائد نے بھی حرکت کی اور برطانیہ پہنچ گئے۔ قوم نے اسے جلا وطنی کہہ کر نعرہ لگایا:
    ’’وہ دور ہے تو کیا ہوا دلوں میں ہے بسا ہوا‘‘
    altaf hussain daleel
    قوم یہاں آپریشن بھگتتی رہی اور قائد وہاں لند ن میں دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں مزے سے قوم کا دکھ ’’محسوس‘‘ کرتے رہے۔

    پھر قائد نے برطانیہ کی شہریت لی۔ ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا وہاں حلف اٹھایا۔ حلف یافتہ کارکنوں نے جشن یہاں منایا۔

    قائد نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ سندھ تقسیم کرنے کی بات کی۔ کارکنوں نے بھی کہا:
    سندھ میں ہوگا کیسے گزارا۔۔۔ آدھا تمہارا آدھا ہمارا

    پھر بات بڑھی اور بائیس اگست کی سہ پہر قائد کی نظر میں پاکستان ناسور اور عذاب ہوگیا۔

    میرے خیال میں اب بانیان پاکستان کی اولادوں کو سوچنا ہوگا کہ اس اسکرپٹ کے سامنے فل اسٹاپ لگا دینا چاہیے، لیکن ایسا جذباتی ہوکر نہ کیا جائے، سوچا جائے، سمجھا جائے۔ 80ء کی دہائی میں مہاجر تحریک کن اسباب پر اٹھی تھی؟

    محصورین وطن کی واپسی
    سندھ میں کوٹا سسٹم کا خاتمہ
    حکمرانی کا حق
    لسانی شناخت

    اب یہ سوال کس سے پوچھا جائے کہ محصورین کی واپسی کے لیے قائد نے کیا کیا؟ بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے محصورین پاکستان کہاں ہیں؟ ایم کیو ایم چار دہائیوں سے وفاقی اور سندھ حکومت کا حصہ رہی ہے، پیپلز پارٹی سے لے کرمسلم لیگ نون تک ،جو جماعت بھی اقتدار میں آئی، ایم کیو ایم اس کی گود میں آبیٹھی۔ اہم وزارتیں،اہم مناصب ان کے پا س رہے، بس محصورین پاکستان پاس نہ رہے۔

    سندھ میں دیہی اور شہری سندھ کو تقسیم کرنے والا کوٹا سسٹم آج بھی اسی شکل میں موجود ہے، ایم کیو ایم نے اسے ختم کیوں نہ کیا؟

    آج سوچا جائے کہ حکمرانی میں حصہ ملنے کے بعد مہاجر وں کو کیا ملا؟ بار بار تصادم کی راہ پر مہاجروں کو کس نے ڈالا اور مشکل وقت میں قائد صرف زبانی جمع خرچ کے کیا کرسکے؟

    خود سے پوچھا جائے کہ لسانی شناخت نے مہاجروں کو کیا دیا؟ ملک کا سب سے پڑھا لکھا مہذب سمجھا جانے والے لوگ اب کیا سمجھے اور کیا کہے جاتے ہیں؟ اُردو داں طبقے کو پہلے کس نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اب مہاجروں کو کس نظر سے دیکھاجاتا ہے؟ پہلے اُردو بولنے والوں کی شناخت شستہ لہجہ، تہذیب، شائستگی، رکھ کھاؤ ہوا کرتی تھی، اب وہ شناخت کہاں گئی؟ مہاجروں نے چار دہائیوں کی لسانی سیاست میں کیا پایا اور کیا کھویا؟ قائد تو اپنا الو سیدھا کرکے لندن سدھار گئے، قوم یہاں راستوں کی پیچیدگیوں میں بھٹک گئی اور جانے کب تک بھٹکتی رہے گی.

  • پرچم جلانے سے نعرے لگانے تک – جنید اعوان

    پرچم جلانے سے نعرے لگانے تک – جنید اعوان

    جنید اعوان الطاف حسین نے نفرت پر مبنی جس سیاست کا آغاز 1978ء میں پاکستان کا پرچم جلانے سے کیا تھا، 38 سال بعد 2016ء میں پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر اس کو منطقی انجام تک بھی خود ہی لے آئے۔ اے پی ایم ایس او سے کے قیام سے شروع ہونے والی یہ تلخ کہانی جس میں مہاجر قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ کی صورت میں کئی پیچ و خم آئے، اب ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم انگلستان کے دھڑوں کی صورت میں اس کا ڈراپ سین ہو رہا ہے۔

    نفرت کے شجر کی تشدد سے آبیاری کی گئی تو ایم کیوایم پروان چڑھی جس میں ظلم کے کسیلے پھل نمودار ہوئے۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ اس کے لیےایم کیو ایم کی سیاست کا تجزیہ بھی ضروری ہے، الطاف حسین کی شخصیت کا جائزہ بھی ناگزیر ہے، مہاجر قوم کی نفسیات کا ادراک بھی لازم ہے، اور حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے رویے کو پرکھنا بھی اہم ہے۔

    قوموں کی نفسیات ہوتی ہیں اور مہاجر قوم کی بھی نفسیات تھیں جس میں علم دوستی، نفاست، نستعلیق گفتگو، چوڑی دار پاجامہ، حب الوطنی نمایاں تھے۔ جنگ و جدل، تشدد، اسلحہ، بوری بند لاش جیسے الفاظ تو کبھی ان کی لغت کا حصہ نہ تھے۔ کیا وجہ ہے کہ الطاف حسین نامی ایک فرد جو نہ تو کرشماتی شخصیت کا مالک تھا، نہ غیرمعمولی خطابت کا حامل تھا، نہ علم و ہنر میں ید طولیٰ تھا اور نہ ہی بادی النظر میں کوئی قائدانہ خوبی ایسی اس میں نظر آتی ہے لیکن اس نے ایک قوم کی نفسیات تک بدل ڈالی۔ اس ایک شخص نے اپنے انتقام اور احساس محرومی کی آگ میں ایک پوری قوم کو جھونک ڈالا۔ مہاجروں کو پاکستان میں صرف شناخت کی ضرورت تھی اور الطاف حسین نے مہاجروں کو مجتمع کر کے یہ شناخت تو ان کو عطا کردی، البتہ اس شناخت کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاش، بھتہ خوری، ٹارچر سیل، فیصل موٹا اور اجمل پہاڑی کی صورت میں ان کو شناخت تو نصیب ہوئی لیکن بدقسمتی سے یہ ان کی حقیقی شناخت نہ تھی۔ یہ ایک مسخ شدہ شناخت تھی، جیسے کسی خوبصورت لڑکی کے چہرے پر تیزاب انڈیل دیا گیا ہو۔

    انتہائی سطحی تجزیہ ہوگا اگر صرف الطاف حسین کو ان تمام حالات کا مورد الزام ٹھہرادیا جائے۔ یہ بات کرتے ہوئے تو سب کے ہی پر جل جلتے ہیں کہ یہاں تک آنے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی کم نہیں رہا۔ ملک کے حقیقی خیر خواہ ہونے کے دعویدار گر تو اتنے بے خبر تھے کہ اتنےطویل عرصے میں اس فتنے کا ادراک ہی نہ کر سکے تو پھر یہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر ایک سوال ہے۔ اور اگر ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود وہ ان سانپوں کو دودھ پلاتے رہے کہ کراچی میں کوئی حقیقی اسلام پسند قوت نہ ابھر سکے تو پھر انھیں بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکستا ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ 2013ء کے الیکشن میں ایم کیو ایم نے سرعام دھاندلی کی جبکہ مقتدر حلقے کھلی آنکھوں اور بند ضمیر کے ساتھ سب کچھ دیکھتے رہےتھے۔

    برسراقتدار جماعتوں مانند مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے جب ہمیں توقع ہی کوئی نہیں تو پھر ان سے گلہ کیسا۔ اقتدار جن کا مطمع نظر، شکم پرستی جن کا مسلک اور کرسی جن کی منزل ہو، ان سے ملک و قوم کی بہتری اور رہنمائی کی امید لگا کر ہم ان کا تو کچھ نہیں بگاڑیں گے، اپنے آپ کو ہی بیوقوفوں کی فہرست میں شامل کرلیں گے جو کہ پہلے ہی خاصی طویل ہے۔

    سچ یہ ہے کہ اذانوں اور نمازوں کے دیس پاکستان کو تا قیامت قائم رہنا ہے۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ پاکستان حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کی طرح اللہ کی نشانی ہے، جس نے اس اونٹنی کونقصان پہنچایا، اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، اور جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، وہ ذلت کا حقدار ٹھہرا۔

    قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، ہر ظلم کو خاتمہ ہے، ہر جاندار کو فنا ہے، ہر تشدد کوموت ہے، ہر شب کی سحر ہے لیکن اس کے لیے انصاف کو پروان چڑھانا ہوگا، عصبیت کا خاتمہ کرنا ہوگا، محبت کے نغمے گانے ہوں گے، عدل کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پھر کوئی الطاف حسین پیدا نہ ہو اور پھر کوئی نسل برباد نہ ہو۔
    خدا کرے کہ مری ارض پا ک پر اترے
    وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
    خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
    حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو

  • الطاف حسین، ایم کیوایم اور مہاجر – سید مظفر حق

    الطاف حسین، ایم کیوایم اور مہاجر – سید مظفر حق

    سید مظفر حق پاکستان ساری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے
    پاکستان دنیا کے لیے ایک عذاب ہے
    پاکستان ساری دنیا کے لیے دہشت گردی کا ایک سینٹر ہے
    اس کا خاتمہ عین عبادت ہوگا
    کاہے کو پاکستان زندہ باد
    پاکستان مردہ باد، پاکستان مردہ باد
    یہ وہ الفاظ ہیں جو کوئی مہاجر کہنا تو درکنار سننا بھی برداشت نہیں کرسکتا لیکن کل رات الطاف حسین نے کارکنوں کے اجتماع میں کہے اور جن کی گونج میڈیا میں مسلسل سنائی دے رہی ہے جبکہ سننے والے مہاجر سن ہو کر رہ گئے ہیں. اس سے پہلے کئی برس پہلے الطاف نے پاکستان دشمن بھارت کی سرزمین پہ کھڑے ہو کر قیام پاکستان کو تاریخ کی عظیم ترین غلطی قرار دیا اور کہا تھا کہ بھارت یہاں سے جانے والے مہاجرین کو واپس قبول کرلے جبکہ خود بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پہ عرصہ حیات تنگ ہے اور مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے بنگالی مسلمان آج بھی آسام میں کشتہِ ستم بنے ہوئے ہیں.

    پاکستان مہاجروں کا فخر، ان کی پہچان اور ان کا رومانس ہے. پاکستان نے انہیں وہ سب کچھ دیا جو ایک آزاد وطن کا شہری حاصل کر سکتا ہے اور مہاجروں نے بھی پاکستان پہ اپنا تن من دھن واردیا، اپنی بہترین صلاحیتیں اس کی ترقی اور استحکام کے لیے صرف کرتے رہے.

    الطاف حسین کی اپنی تقریر سے ثابت ہو گیا کہ وہ غدار ہے، وطن دشمن ہے، را کا پروردہ اور پالتو ہے. اس کی تقاریر وطن دشمنی اور تعصب کا ملغوبہ ہوتی ہیں، وہ پاکستان دشمن طاقتوں کا ہتھیار ہے، وہ آمریت کا شاہکار ہے اور متعدد بار فوج کو اقتدار سنبھالنے کی ترغیب دے چکا ہے اور اس کا یہ رویہ دنوں اور مہینوں پہ محیط نہیں بلکہ کئی عشروں کی داستان ہے
    تو پھر آخر کیوں
    •افواجِ پاکستان کے سابق کمانڈو سربراہ اور ملک کےسابق صدرنے اسے سینے سے لگائے رکھا؟
    •ملک گیر سیاسی پارٹی جو ملک پہ گاہے گاہے حکمراں رہی، کیوں اسے شریک اقتدار اور اتحادی بناتی رہی اور رحمٰن ملک اس کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز رہا؟
    • کیوں خود کو پاکستان کی بانی جماعت کہلوانے والی اور پنجاب کی دعویدار مسلم لیگ کے رہنما مرکز اور صوبوں میں اسے اپنا حلیف اور شریکِ کار بناتے اور اس کے گرد طواف کرتے رہے؟
    کیا اقتدار کی خواہش اور دولت کی ہوس ملکی وفا اور سلامتی سے زیادہ نہیں سمجھی گئی؟

    اب وہ بات جو ہمارے ٹی وی اینکر اور ان کے تجزیہ کار بقراط اکثر پوچھتے ہیں کہ اگر مہاجر محب وطن ہیں اور بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں تو پھر وہ ایم کیو ایم کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹوں کا تناسب ببشتر جعلی ووٹوں اور پرویز مشرف دور میں ان کی خواہشات پہ مبنی حلقہ بندیوں کے سبب ہے، دوسرے ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کی مجبوری ہے اور اس سے شدید اختلافات کے باوجود کوئی نہیں چاہتا کہ وہ فنا ہوجائے اور اس کا کوئی سیاسی کردار نہ رہے. یہاں مہاجروں اور اردو بولنے والوں پہ تعصب اور تنگ نظری کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سب سے آخری لسانی بنیادوں پہ بننے والی طلبہ تنظیم تھی، اس سے پہلے پختون اسٹوڈنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹ، سندھی اسٹوڈنٹ اور پنجابی اسٹوڈنٹ نام کی طلبہ جماعتیں موجود تھیں اور تعلیمی اداروں میں پوری طرح سرگرم تھیں جن پر کسی نے اعتراض نہیں کیا لیکن مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے خلاف اعتراضات کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا.

    آخر مہاجروں یا اردو بولنے والوں میں یہ جوابی تعصب کیوں اور کب پیدا ہوا؟ اس کے لیے ہمیں ذرا پیچھے جانا پڑے گا. پاکستان بنا تو اس کے قیام کے لیے اقلیتی صوبوں کے مسلمان پیش پیش تھے. مسلم لیگ وہیں سے الیکشن جیتی تھی ورنہ سرحد میں کانگریس، پنجاب میں یونینسٹ اور بلوچستان میں سرداروں کی حکومت تھی. پاکستان کی معاشی بنیادوں کو مستحکم کرنے والے حیدرآباد دکن کے نظام، حبیب بینک، آدم جی، باوانی وغیرہ سب مہاجر تھے. اسی طرح اسے سیاسی اور انتظامی طور پہ اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے والے وہ مہاجر تھے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس وطن کی تعمیر کا جذبہ لے کر آئے تھے اور انہوں نے پورے خلوص اور تن دہی سے یہ کام کیا لیکن لیاقت علی کی شہادت کے ساتھ ہی ان کے خلاف حسد اور تعصب پہ مبنی سازشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا. ایوب خان نے اسکندر مرزا سے ساز باز کر کے سیاسی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد جن اعلٰی سول حکام کو ناجائز طور پہ ان کے عہدوں اور ملازمت سے برطرف کیا، وہ نیک نام، باصلاحیت اور خاندانی لوگ تھے جن میں سید ہاشم رضا، اے ٹی نقوی، عباس خلیلی اور فضل احمد کریم فضلی جیسے لوگ شامل تھے. ایوب خان کے پورے دور میں کراچی میں ایک بھی آئی جی، ڈی آئی جی، کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کراچی کا مقامی نہیں رہا، انتہا یہ کہ بلدیہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر حبیب اللہ خان تک ایوب خان کا سمدھی مقررہوا. سارے تھانیدار پنجابی یا پٹھان تھے اور ان کا رویّہ انتہائی جارحانہ اور غیر مہذبانہ تھا.

    اہلِ کراچی اورسندھ کے مہاجر اکثریتی علاقوں نے ہمیشہ جمہوریت اور پاکستانیت کا ثبوت دیتے ہوئے ملک گیر اور مذہبی رجحانات رکھنے والی جماعتوں کو ووٹ دیا. ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملت کو کامیاب کرایا لیکن ایوب خان نے جلسہ عام میں انہیں دھمکی دی کہ آپ لوگ اور کہاں جائیں گے. آگے تو سمندر ہے. قائداعظم کے مقرر کردہ دارالحکومت کو تبدیل کر کے اربوں روپے کے اسراف سے اسلام آباد تعمیر کیا گیا. ایوب خان مادر ملت کے مقابلے میں دھاندلی اور دھونس سے جیت گئے تو گوہرایوب اہلِ کراچی کو ایوب مخالفت کی سزا دینے کے لیے اسے مہاجر پٹھان قضیہ بنا کر لاؤ لشکر لے کر کراچی پہ چڑھ دوڑا اور پہلے لسانی فسادات نے جنم لیا.

    مشرقی پاکستان کے مسلسل استحصال اور بنگالیوں کے حقوق کی پامالی کے نتیجے میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو فوج کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود وہاں مہاجروں نے پاکستان کا پرچم بلند کیے رکھا، انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کی جان و مال اور عزّت و آبرو سب کچھ لٹتا رہا لیکن وہ خود کو پاکستانی کہتے رہے اور یہاں جب بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار ریڈیو اور ٹی وی سے خطاب کیا تو انہوں نے میرے ہموطنو یا پاکستانیو نہیں بلکہ پنجابیو، پٹھانو، سندھیو، بلوچیو کہہ کر مخاطب کیا تو مہاجروں نے حیرانگی سے سوچا کہ ہماری شناخت کیا ہے. بنگلہ دیش میں وہ لٹ رہے تھے، کٹ رہے تھے، ان کی بہنیں اور بیٹیاں پاکستانیت کے جرم میں پامال ہو رہی تھیں، اور یہاں بہاری نہ کھپن کے نعرے لگتے رہے. اس میں نصرت بھٹّو سے لے کر پیپلز پارٹی کےعام کارکن تک یک زبان تھے.

    پھر یہاں دولسانی بل پیش کرکے سندھی مہاجر فساد کی آگ بھڑکا کر اندرون سندھ سے مہاجروں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا. غیر منصفانہ شہری اور دیہی کوٹہ سسٹم پندرہ سال کے لیے نافذ کیا گیا لیکن وہ آج تک قائم و دائم ہے. ملازمتوں کے دروازے پہ ان پہ بند کر دیے گئے. ان کے بنک، انشورنس کمپنیاں اور اسکول قومیانے کے نام پہ ہتھیا کر روزگار کے دروازے بند کردیے گئے. عدالتوں میں من پسند افراد کو کس طرح کھپایا گیا اس کی ایک مثال سندھ ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس نور العارفین کے استعفے سے اندازہ ہوسکتا ہے. ان حالات میں وہ جن ملک گیر جماعتوں کی حمایت کرتے تھے، وہ ان کے حقوق کی آواز اٹھانے سے قاصر تھیں کیوں کہ اس سے اندرون سندھ اور ملک کے دوسرے حصوں میں ان کی سیاسی حیثیت مجروح ہوتی اور ان پہ مہاجر پرستی یا تعصب کا الزام لگتا.

    جنرل ضیاءالحق کو اس لاوے کے کھولنے اور آتش فشاں کے پھٹ پڑنے کا اندازہ تھا. اس زمانے کے ہفت روزہ تکبیر کے شمارے گواہ ہیں کہ اس کے مدیر سید صلاح الدین نے اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے تواتر سے مضامین لکھے. ضیاءالحق نے جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے پاکستان کی جانب سے اپنی مخالفت کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقوں پہ ان کی گرفت اور حمایت ختم کرنے کے لیے مہاجروں کی بے چینی اور عدم تحفظ کے احساس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سید غوث علیشاہ کے ذریعے ایم کیو ایم کی داغ بیل ڈالی. ان حالات میں جبکہ سندھ اسمبلی میں اندرون سندھ سے منتخب اراکین کھلم کھلّا یہ کہتے رہے کہ مہاجر وزیراعلٰی نہیں ہوسکتا، بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھین لیے گئے، کراچی کے وسائل اور زمینوں کو وڈیروں نے اپنی داشتہ اور مفتوحہ اور باجگزار بنا رکھا ہے، ایم کیو ایم کی تمام تر غلط کاریوں، پہاڑ جیسی سیاسی غلطیوں اور چیرہ دستیوں کے باوجود کوئی نعم البدل نہیں ورنہ آپ ایک دوکاندار سے لے کر رکشہ ڈرائیور تک سے بات کریں تو وہ ایم کیو ایم کا شاکی ملے گا. ایم کیو ایم کے فسطائی نظام اور ہر بار اقتدار میں اس کی شرکت نے خوف کی ایسی فضا قائم کر رکھی ہے کہ اس کے ہر کارکن اور لیڈر کو اپنے سر پر قضا کی تلوار لٹکتی نظر آتی ہے. جس طرح اس کے خلاف آپریشن میں شریک ایک ایک پولس افسر کو چن چن کر قتل کیا گیا وہ سامنے کی بات ہے.

    اردو بولنے والے ملک کے باصلاحیت تعلیم یافتہ اور محب وطن شہری ہیں لیکن ان کے حقوق اور عزّت نفس کی پامالی کا ازالہ اور ان کے زخموں کا اندمال نہ کیا گیا تو کوئی بھی آپریشن اس زہرناکی کا مکمل سدِّباب نہیں کر سکے گا.

  • میں ایک افغانی ہوں – عبداللہ نیازی

    میں ایک افغانی ہوں – عبداللہ نیازی

    عبداللہ نیاز میں ایک افغانی ہوں، میرا خاندان 37 سال سے پاکستان میں مہاجر ہے۔ میں یہاں پیدا ہوا، یہیں پلا بڑھا، یہی تعلیم حاصل کی، ابھی پشاور میں پروفیشنل اکاؤنٹینسی کی ڈگری کی ہے ، اور اب میں اس ملک کو الواداع کہہ رہا ہوں۔

    مجھے پاکستان سے محبت ہے۔ یہاں میری زندگی گزری۔ میرا کرکٹ ہیرو شاہد آفریدی ہے۔ میرے دوستوں نے شاہد آفریدی کو ہنسی مذاق میں برا بھلا کہنا میری چھیڑ بنا رکھی ہے، کیونکہ میں فوراً ان سےلڑنا شروع کر دیتا ہوں۔ یہاں پولیس کبھی کبھار ہمیں تنگ کرتی تھی لیکن عوام نے کبھی ہمیں برا نہیں کہا، تنگ نہیں کیا۔ اکا دکا لوگ ہم پر جملے کستے تھے، لیکن ایسا تو بلوچ پنجابیوں کو، پنجابی پٹھانوں اور باقی ایک دوسرے کو بھی کہتے ہیں۔ مجموعی طور پر لوگوں نے ہم سے بہت اچھا سلوک کیا اور ہم ان کے تہہ دل سے احسان مند ہیں۔

    ابھی کچھ عرصے سے بعض لوگوں نے ہمیں برا کہنا شروع کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ تم لوگ نمک حرام ہو، تم نے ہمارے دشمن انڈیا سے دوستی کر رکھی ہے۔ تم لوگ پاکستان سے نفرت کرتے ہو، تم نے پاکستان کا جھنڈا جلایا، تم نے ہمارا میجر شہید کیا۔ اور میں جب یہ سنتا ہوں تو اس سطحی سوچ پر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسمان کے خلاف ورغلانا کتنا آسان ہے.

    اولا تو میں’’تم اور میں‘‘ کی بات سے ہی متفق نہیں۔ میں اور تم کیا ہوتے ہیں؟ میں تم ہوں اور تم میں ہو۔ یہ میرے رب نے کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی چاہے تو ہمیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا۔ پھر ہمارا تو خون کا رشتہ ہے۔ آدھے پاکستانیوں کی نسل افغانستان سے ہے۔ تمہارے ہیرو غوری، ابدالی اور غزنوی ہیں۔ یہی ہمارے بھی ہیرو ہیں۔ ایک انگریز مسٹر مونٹیمر ڈیورنڈ کیسے ہمارا رشتہ توڑ سکتا ہے۔ ہم بےشک ایک دوسرے سے ناراض ہو جائیں، برا بھلا کہیں، لیکن ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ ہمیں طعنے دینے والے بھی نہیں!!

    ان طعنوں کو سمجھنے کیلئے ’’آپ اور میں‘‘ کی چند باتیں کر لیتے ہیں۔ آپ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم آپ کے دشمن انڈیا سے دوستی کر رہے ہیں۔ آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا حاکم جان کیری ہے اور اس کے دو وزیر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ہیں۔ یہ دونوں امریکہ کے ویسے ہی پٹھو ہیں جیسے کہ آپ اپنے حکمرانوں کے بارے میں کہتے ہیں۔ انڈیا سے دوستی کا پلان امریکہ کا ترتیب دیا ہوا ہے جیسا کہ آپ کی حکومت بھی اسی پلان کے تحت مذاکرات کی بات کرتی ہے اور آپ کے ادارے امن کی آشائیں چلاتے ہیں۔ یہ امریکی منصوبہ ہے۔ ہمارے لوگ تو جنگوں کے مارے ہوئے ہیں، انھیں کوئی سہولت دیتا ہے تو قبول کر لیتے ہیں۔ انڈیا سے کسی افغان کو پیار نہیں ہے۔ بھلا ان گائے کا پیشاب پینے والوں سے کیوں پیار کریں گے جو مسلمانوں کے قاتل ہیں، اور جن سے صدیوں پہلے ہماری لڑائی رہی ہے، جن پر ہم نے حکومت کی ہے۔ یہ ہندو 2001ء، 2002ء میں افغانستان آئے تھے، آج دیکھ لیں کہ آنے والوں میں سے کتنے باقی رہ گئے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ کوئی گزارہ نہیں۔ لیکن کوئی ہمیں بھی تو یہ بتائے کہ آپ نے ہمارے دشمن سے کیوں دوستی اور اتحاد کیا۔ اسے ہم پر حملہ کرنے کا راستہ دیا، تیل سپلائی کیا، اڈے دیے جس کے ذریعے اس نے ہمارے ملک پر ہزاروں ٹن بارود برسایا، ہمارے بچوں، بوڑھوں اور مردوں کو قتل کیا اور نسلیں تک معذور ہو گئیں۔ آخر کوئی ہمیں نمک حرامی کا طعنہ کیسے دے سکتا ہے؟

    آپ ایک میجر کو روتے ہیں، ہمارے تو 3 کروڑ لوگ اس جنگ سے لہو لہو رس رہے ہیں۔ آپ کا ٹی وی آپ کو ایک میجر اور اس کا خاندان دکھاتا ہے، اور ہمارا ٹی وی ہمیں پاکستانی سرحد سے آنے والا راکٹ اور توپ کا گولہ دکھاتا ہے جس سے درجنوں شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھوتے ہیں، اور جب ہمارے سادہ لوگ اس کے خلاف مظاہرہ کر کے پاکستانی جھنڈے کی بےحرمتی کرتے ہیں تو آپ کے انٹرنیٹ کے صفحات وہ لاشیں نہیں دکھاتے بلکہ جھنڈے کی بےحرمتی دکھاتے ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی ہمیں پاکستانیوں کا مہاجروں سے سلوک دکھاتے ہیں۔ ایک منصوبے سے یہ نفرت بڑھائی جاتی ہے۔ وہی بات کہ کتنا آسان ہے ہم مسلمانوں کو ورغلانا.

    آج میں اس وطن سے جا رہا ہوں ، دل میں ایک کسک سی ہے۔ اپنے مسلمانوں کی سادگی کا افسوس بھی ہے۔ اس بات کا افسوس ہے کہ ہمیں ہمارے مقبوضہ ملک بھیجا جا رہا ہے، جبکہ اللہ نے صلاحیت والے لوگوں پر یہ فرض کیا ہے کہ اگر ایک قوم اپنے آپ کو قبضے سے نہ چھڑا سکے تو اس کی مدد کرنا ان پر فرض ہے۔ مجھے ان پاکستانیوں سے کوئی گلہ نہیں، جنہوں نے مجھ سے زیادتی کی، اور میں ان افغانیوں کے عمل سے بری ہوں جنہوں نے پاکستانیوں سے بدسلوکی کی۔ میرا وطن آپ کا ہے اور آپ کا وطن میرا ہے۔ کوئی ہم سے حق نہیں چھین سکتا، ہمیں ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکتا. ہم سب ایک ہیں، ایک رہیں گے. ہمیں ان حکمرانوں اور اس استعماری ڈھانچوں سے نجات ملے گی. ان شاء اللہ