Tag: مقبوضہ کشمیر

  • وزیراعظم کا دورہ امریکہ اور جنرل اسمبلی سے خطاب –  ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    وزیراعظم کا دورہ امریکہ اور جنرل اسمبلی سے خطاب – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اکہترواں اجلاس پیر کے روز نیو یارک میں شروع ہوا۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف بھی اس اجلاس سے خطاب فرمانے کے لیے نیویارک پہنچ چکے ہیں۔ پیر ہی کے روز انہوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے اہم دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔

    یوں تو وزیر اعظم ہر سال جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تاہم اس سال اس دورہ اور ان کے خطاب کی اہمیت دوچند کہی جاسکتی ہے۔ سفارتی حلقوں کے مطابق کشمیر کے حوالہ سے ان کی تقریر پر بہت زیادہ فوکس ہے۔ پاکستان کی سابق وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا کہ کشمیر کا ذکر ہر سال ہی ہوتا ہے اس بار بھی ہوگا اور اس میں کچھ خاص بات نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔

    کشمیر میں بھارتی قبضہ کے خلاف اٹھنے والی ہمہ گیر تحریک اور اس کی سرکوبی کے لیے بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم اس سال کی تقریر کو اہم بناتے ہیں۔

    یہی نہیں، کچھ اور عوامل بھی ایسے ہیں جو اس بار مختلف ہیں۔ کشمیر کی تحریک سے بوکھلاہٹ کے شکار بھارت کی جانب سے بلوچستان اور گلگت بلتستان میں مبینہ پاکستانی مظالم اور وہاں ”آزادی“ کے حوالہ سے بیانات و اقدامات، بشمول براہمدغ بگٹی کو سیاسی پناہ دینے کا معاملہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں۔ اتوار کو مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے مقام پر قائم بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کرارٹر پر مسلح حملہ جس میں 17 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے، خطے کے امن کو نئے خطرات سے دو چار کر رہا ہے۔

    گمان ہے کہ بھارت ہر صورت پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ اقوام متحدہ کے فورم پر اس مسئلہ کو مؤثر طور اٹھا نہ سکے۔ بعض مبصرین کی رائے میں اڑی کے حملہ کو اس کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں در اندازی کر رہا ہے۔ اس بات کی واضح تردید پاکستانی ڈی جی ایم او پہلے بھی کرچکے ہیں اور خود پاکستان نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو کہا ہے کہ وہ کنٹرول لائن کی مانیٹرنگ کریں جبکہ بھارت اس سے انکار کر رہا ہے۔ اس لیے اس بابت پاکستان کا کیس مضبوط ہے۔ پاکستان کو یہ باور کروانا چاہیے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر کشمیر میں چٹی سنگھ پورہ میں اجتماعی قتل کی لرزہ خیز واردات اور سمجھوتا ایکسپریس جیسے سانحات کا بعد میں بھارت کا ”اندرونی“ کام ثابت ہو جانے کے باوجود پاکستان کسی بھی ٹھوس انٹیلی جنس پر کاروائی کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

    یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ بھارت کے ایما پر وزیر اعظم پاکستان کے خطاب کے موقع پر نام نہاد بلوچ تنظیمیں یا پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کی لندن شاخ کے کچھ لوگ اقوام متحدہ کے سامنے احتجاج کے لیے موجود رہیں۔ اس کے مؤثر سدباب کے لیے بھی اقدامات ضروری ہیں۔ اچھا ہوتا اگر پاکستان سے بلوچ قیادت اور کراچی سے ایم کیو ایم پاکستان کے لوگ وزیر اعظم کے ہمراہ ہوتے۔

    وزیر اعظم کو اپنی ملاقاتوں اور پھر جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں تین باتوں پر زور دینا چاہیے۔
    اول یہ کہ پاکستان ہمیشہ سے ”حل“ کا حصہ رہا ہے، مسئلہ کا نہیں، اور اس کا کردار اسی روشنی میں دیکھا جائے۔ امریکا اور چین کے مابین روابط کے قیام میں اعانت ہو، ایران عراق جنگ ہو، اقوام متحدہ کے تحت امن خدمات ہوں پاکستان ہمیشہ ایک ذمہ دارانہ رول ادا کرتا آیا ہے۔ یہاں تک کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے لیے سب سے بہتر کمانڈ، کنٹرول اور تحفظ کا نظام بھی پاکستان نے ترتیب دی اور اس حوالہ سے اپنی میچیورٹی سب پر واضح کردی۔

    1979 اور 2001ء کے واقعات پاکستان کے تخلیق کردہ نہیں تھے۔ لیکن عالمی امن اور اقوام متحدہ کی ساکھ کے لیے پاکستان نے اپنی سر زمین کو جنگ کا میدان بنایا۔ اپنی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر عالمی اتفاق رائے کو سپورٹ کیا۔ اپنے عوام کی ضروریات پورا نہ کرسکنے کے باوجود 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کا بوجھ اٹھایا۔ آج پاکستان کو کسی بھی طرح موجودہ عالمی حالات کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ پراکسی وار کا یہ طریقہ خود امریکا کی دین ہے۔

    دوم یہ کہ پاکستان اور خطہ کے امن کے لیے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے۔ یہ کشمیریوں کا وہ حق ہے جو اقوام متحدہ نے تسلیم کررکھا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس پر مثبت اور ٹھوس پیش رفت کی جائے۔ کشمیر کا مسئلہ خطہ اور عالمی امن کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے۔ یہ ایک ایسا ٹائم بم ہے جو کسی حادثہ کی صورت اچانک بھی پھٹ سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر، یہ ایک انسانی المیہ بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس کا حل بھی اسی جذبہ کا متقاضی ہے جو ہم نے دارفر اور مشرقی تیمور کے معاملہ میں دیکھا۔ کشمیر آج الفاظ کے بجائے عمل کا منتظر ہے۔ پہلے قدم کے طور پر وہاں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ فوری بند کروایا جائے اور پیلٹ گن کے استعمال جیسے بہیمانہ اقدامات کی فوری روک تھام کا بندوبست کیا جائے تاکہ مظلوم کشمیریوں تک اقوام عالم کا واضح پیغام پہنچ سکے۔ نیز اقوام متحدہ اپنی سیکورٹی کونسل کی ان قراردادوں پر عمل درآمد کروائے جن میں کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔

    سوم۔ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اور افغان مہاجرین کی باعزت اپنے گھروں کو واپسی وہ بنیادی اقدامات ہیں جس کے نتیجہ میں پاکستان اپنی معیشت، سماجیات اور ملینیم ڈویلپمنٹ گولز جیسے اہداف پر فوکس کرسکے گا۔ پاکستان ایک صلح جو ملک ہے، ہم بشمول اپنے سب کے لیے امن کے خواہشمند ہیں۔ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے ہمارے ساتھ پارٹنرشپ قائم کی جائے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پاکستان کی ساجھے داری اس کی ایک روشن اور قابل تقلید مثال ہے۔

    پاکستان نے عالمی امن کے لیے بہت قربانی دی، اب دنیا کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ ہماری قربانیوں کی قدر کرتی ہے اور ہمیں پرسکون اور آسودہ زندگی کا ہمارا بنیادی حق ہمیں لوٹانے کو تیار ہے۔

  • حسنِ عمل-ہارون الرشید

    حسنِ عمل-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
    تمام افراد‘ تمام اقوام‘ سبھی کوقدرت مواقع مہیا کرتی ہے‘ مگر اپنے قوانین کبھی کسی کے لیے تبدیل نہیں کرتی۔ حسنِ خیال‘ حسنِ عمل کی ابتدا ہے اور حسنِ عمل کے تسلسل سے وہ معجزے رونما ہوتے ہیں چین‘ ملائیشیا اور ترکی میں جن کا ہم نے نظارہ کیا۔
    بار بار انکشاف ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں کس قدر تنگ دائرے میں سوچتی ہیں۔ بار بار کھلتا ہے کہ نام نہاد سول سوسائٹی کس قدر مردہ ہے اور غیر ملکیوں نے کتنا رسوخ اس میں پیدا کر لیا ہے۔

    دو بڑے واقعات ہوئے ہیں‘ جن سے مشکلات میں گھرے پاکستان کے لیے نہایت ہی شاندار مواقع نے جنم لیا۔ ان مواقع کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے سوا کیا ہے کہ قدرت امکانات تخلیق کرتی ہے‘ بیدار لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں۔
    مون سون کی بارشیں زمین کو نم کرتی ہیں تو جاگتا کسان ہل چلا دیتا ہے۔ دُھوپ میں بخارات بن کر اُڑ جانے کی بجائے‘ یہ نمی محفوظ ہو جاتی ہے۔ ماہِ نومبر طلوع ہوتا ہے تو نیلے آسمان کی وسعت پہ نگاہ کرتے ہوئے‘ گندم کے دانے‘ وہ اس میں بکھیر دیتا ہے‘ حتیٰ کہ دسمبر کی کسی نرم سویر اکھوے پھوٹ پڑتے ہیں۔ جنوری کے وسط تک سندھ کے ساحل سے پختون خوا کی بلندیوں تک دھرتی سبز پیراہن اوڑھ لیتی ہے۔ کہیں کہیں‘ جس میں سرسوں کے زمردیں قطعات مسکراتے ہیں۔ زمین نے گویازیورپہن لیے ہوں۔ بہار کی نرم ہوا گیہوں کی بالیوں کو جھولا جھلاتی ہے اور آغاز گرما میں سونے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔

    وادیٔ کشمیر میں مدتوں سے جیسے خزاں کا راج تھا۔ برہان وانی کی شہادت سے خوابیدہ بستیاں جاگ اٹھیں۔ قابض بھارتی فوج کا آہنی حصار ٹوٹنے لگا۔ افغانستان کی خانہ جنگی اور حکمرانوں کی بے حسی سے فائدہ اٹھا کر برہمن سامراج بلوچستان اور قبائلی پٹی میں اپنے مہرے آگے بڑھا رہا تھا۔ دہشت گردوں کا پشت پناہ ہو گیا۔ آگ اور خون کا کھیل کھیلنے لگا۔ دشمن کے عزائم کا ادراک کرنے کی بجائے حکمران دوستی کا راگ الاپتے رہے۔ انتہا یہ ہے کہ برسر اقتدار خاندان کی شوگر مل میں 56 بھارتی ملازمین کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ 56 ہیں یا 26۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ان کے کوائف بتائے گئے یا نہیں۔ بجائے خود یہ کس قدر حیرت انگیز ہے کہ ملک کے جو امین ہیں‘ وہ تباہی پھیلانے پر تلے حریف کے لیے رسائی کے مواقع ارزاںکریں؟

    اندریں حالات، کشمیر میں عوامی طوفان اٹھا اور برصغیر کا ماحول یکسر بدل گیا۔ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری سے جو حکومت نہیں جاگی تھی، اسے جاگنا پڑا۔ بہت قیمتی وقت وزیراعظم نے ضائع کردیا تھا کہ عالمی رائے عامہ کو دہلی کے عزائم سے آگاہ کرتے۔ اب یکایک انہیں بات کرنا پڑی مگر بے دلی کے ساتھ ؎

    نیند سے گو نماز بہتر ہے
    اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی

    بائیسں عدد ارکان اسمبلی کو انہوںنے سفیر بنانے کا فیصلہ کیا ہے کہ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں جائیں۔ صدیوں سے غلامی کے ستم سہتے کشمیر کا مقدمہ پیش کریں۔یاللعجب ان سب کا تعلق حکمران پارٹی سے واقع ہوا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا گویا اس مقدس خواب سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ پھران میں ایسے ہیں، جو انگریزی تو کیا، اردو میںاظہارِ خیال کی قدرت بھی نہیں رکھتے۔ یہ گزشتہ تیس برس میں پھلنے پھولنے والی مخلوق ہے۔ نیم خواندہ لوگ، جائیداد کا کاروبار، زمینوں پر قبضے اور سرکاری سرپرستی میں جنہوں نے قیادت پر قبضہ جمالیا ہے۔ لاہور کے اخبار نویس فقط جنابِ افضل کھوکھر کے کارنامے مرتب کریں تو حیرت زدہ رہ جائیں۔

    کچھ لوگ دفترِخارجہ سے چنے جاتے، کچھ دوسرے سرکاری افسر، اپوزیشن کے ایسے رہنما جو ہنر رکھتے اور دنیا بھرمیں پہچانے جاتے ہیں۔ کچھ دانشور جن کی زندگیاں خارجہ امور پر ریاضت میں بیتی ہیں۔ محترمہ شیریں مزاری، محترمہ نسیم زہرہ،تنہا مشاہد حسین کو ذمہ داری سونپی جاتی، وہ ان بائیس ارکان پہ بھاری ہیں۔ برطانیہ اور ان دوسرے ممالک میں بات کرنے کے لیے عمران خان سے کہا جاتا، جن میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ شاہ محمود اور اسحاق خاکوانی کو شامل کیا جاتا کہ تجربہ رکھتے ہیں۔ سعودی عرب میں چودھری شجاعت کو روانہ کیا جاتا۔ کچھ اخبار نویس، جن کی زبان میں لکنت نہیں اور جو مرعوبیت کے بغیر بات کرسکتے ہیں۔ ترکی میںجماعتِ اسلامی کا وفد روانہ کیا جاتا۔کہیں پیپلز پارٹی کے رہنما بھیجے جاتے۔ حکومت کو کیا ہوا کہ ایسی افتاد اور ان مشکلات میں بھی اپنے پسندیدہ ارکان کو سیاحت کے مواقع ارزاں کرنے کا فیصلہ کیا۔ خود اپوزیشن کو کیا ہوا؟

    اپنے لہو سے چراغ جلاتے کشمیریوں کے لیے جو سب سے بڑے اور سب سے سچے پاکستانی ہیں، کراچی، لاہور، پشاور ، راولپنڈی اور کوئٹہ میں کل جماعتی جلوس نکالے جاتے۔ حکومتی جماعت اگر شامل نہ ہوتی تو باقی جماعتیں ہی۔ کشمیر میں عوامی عتاب کا شکار‘ بھارت نے اپنے مہروں کو آگے بڑھایا ہے۔ پہلے محمود اچکزئی بروئے کار آئے‘ اب اسفند یار ولی نے انگڑائی لی ہے۔ ان سے توخیر اخبار نویس نمٹ لیں گے‘ مگر حزبِ اختلاف نے کشمیر کے لیے کیا کیا؟

    کراچی میں آخر کار مطلع صاف ہو گیا۔ وہ کام جو عشروں کی تگ و دو سے ممکن نہ ہوا تھا‘ الطاف حسین کے ایک بیان سے ہو گیا۔ خبث باطن ایسا آشکار ہوا کہ اب وہ اور اس کا ٹولہ کبھی نہ سنبھل سکیں گے۔ ان کا مقدمہ لڑنے والے اول تو کم ہوں گے اور جو لڑیں گے انہیں پذیرائی نصیب نہ ہو گی۔ وہ دن کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ خوف کا کاسنی رنگ دھلتا چلا جائے گا۔ فاروق ستار اینڈ کمپنی اپنے آقا کی مدد نہ کر سکے گی۔ کوشش کرے گی تو خاسرو پشیمان ہو گی۔ اندازہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مصطفی کمال کے ساتھ چلے جائیں گے‘ جو لفظ نہیں چباتے اور ڈنکے کی چوٹ سچ بولتے ہیں۔ نون لیگ کے دانشوروں کو فاروق ستار سے ہمدردی ہے اور گہری ہمدردی۔ مفادات کا غلیظ سلسلہ کسی دیو ہیکل مچھلی میں پھیلے کانٹوں کے کسی جال کی طرح ہوتا ہے۔ زہر آخری سرے تک پھیل جاتا ہے۔ فاروق ستار اینڈ کمپنی کی مدد وہ صرف اس قیمت پر کر سکتے ہیں کہ خود ان کا محدود سا اعتبار اور بھی کم ہوتا جائے۔ ان کا بھی جو اللہ‘رسولؐ کا نام لے کر وزیر اعظم کے لیے دلائل تراشتے ہیں۔ فاروق ستار کے لیے اگر کوئی جائے پناہ ہے تو پورے سچ میں‘ مگر پورا سچ وہ کیونکر بول سکیں گے۔ فرمایا:صدق نجات دیتا اور جھوٹ تباہ کرتا ہے۔ اپنے سامنے رسول اکرمؐ کے قولِ مبارک کی تجسیم ہم دیکھ رہے ہیں۔

    ایک رہنما سے گزارش کی کہ کراچی میں ”زندہ باد پاکستان ریلی‘‘ نکالیے۔ دوسری پارٹیوں کو شرکت کی دعوت دیجیے۔ صاف صاف کہہ دیجیے کہ اس دن کو اپنی جماعت کے لیے میں استعمال نہ کروں گا۔ کراچی کے اہلِ خیر تشہیر اور انتظامات کے لیے وسائل کا ڈھیر لگا دیتے۔ ہزاروں نوجوان بے تاب ہو کر نکلتے۔ دن رات ایک کر دیتے۔ بات ان کی سمجھ میں آئی نہیں‘ فقط ایک جلسے پراکتفا کرنے کا ارادہ کیا ؎

    تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
    ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے

    مشکلات اور مصائب بھی ہیں مگر امکانات زیادہ ہیں۔ دانشور اور لیڈر قوم پہ اگر رحم کریں اور مایوسی پھیلانے سے گریز کریں تو زیادہ سے زیادہ پانچ برس میں ملک دلدل سے نکل جائے۔ دہشت گردی ختم ہو رہی ہے‘ سول اداروں کی بہتری اور پاک افغان سرحد پہ نگرانی کا عمل مستحکم کرکے ایک بڑی چھلانگ لگائی جا سکتی ہے۔ 2018ء تک لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی یا برائے نام ہوگی۔ تجارتی راہداری کی تکمیل ہو رہی ہوگی۔ منصوبہ بندی کی جائے اور اس خطے کے لیے الگ سے ضروری قوانین بنا دیئے جائیں تو گوادر کے دوسرا دبئی بننے کا عمل شروع ہو چکا ہوگا۔

    تمام افراد‘ تمام اقوام‘ سبھی کوقدرت مواقع مہیا کرتی ہے‘ مگر اپنے قوانین کبھی کسی کے لیے تبدیل نہیں کرتی۔ حسنِ خیال‘ حسنِ عمل کی ابتدا ہے اور حسنِ عمل کے تسلسل سے وہ معجزے رونما ہوتے ہیں چین‘ ملائیشیا اور ترکی میں جن کا ہم نے نظارہ کیا۔
    پسِ تحریر: اگر بھارت نواز اخبار نویسوں کی فہرست مرتب کرنا ہو تو آج یہ بہت آسان ہے۔ اُس وقت جب مقبوضہ کشمیر اور ایم کیو ایم زیر بحث ہے‘ وہ بلوچستان کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔ بھارتی حکومت بھی اسی موضوع پر بات کرتی ہے۔

  • اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں-حامد میر

    اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں-حامد میر

    hamid_mir1

    بہت سے لوگ مجھے پوچھتے ہیں کہ پرویز مشرف کے متعلق آپ کا لہجہ اکثر تلخ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ میرا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ مشرف صاحب سے میری کوئی ذاتی پرخاش نہیں۔ میری ان کے ساتھ شناسائی اس وقت شروع ہوئی جب وہ کور کمانڈر منگلا تھے۔ جس زمانے میں چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف انہیں آرمی چیف بنوانے کیلئے لابنگ کررہے تھے تو حمید اصغر قدوائی صاحب نے مجھے بھی اس لابنگ میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ قدوائی صاحب کو یہ خوش فہمی تھی کہ مشرف صاحب کبھی مارشل لا نہیں لگائیں گے لیکن آرمی چیف بننے کے بعد مشرف صاحب نے مجھ جیسے صحافیوں کے ساتھ دل کی باتیں کرنا شروع کیں تو اندازہ ہوا کہ نوازشریف انہیں آرمی چیف بنا کر اپنے پائوں پر کلہاڑی مار چکے ہیں۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب نوازشریف حکومت بیک وقت عدلیہ، میڈیا، اپوزیشن جماعتوں اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب 12اکتوبر 1999ء کو نوازشریف حکومت کو ہٹایا گیا تو فوج نے اسمبلیاں ختم نہیں کیں اور پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو اسمبلیاں ختم کردی گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پہلے ہی جلا وطن تھیں کچھ عرصے بعد نوازشریف بھی سعودی عرب چلےگئے اور غداری کے مقدمات بھگتنے کیلئے مسلم لیگ (ن) کو جاوید ہاشمی کے حوالے کردیا۔ پرویز مشرف کے ساتھ میرا پہلا براہ راست اختلاف رائے بلوچستان کے مسئلے پر ہوا۔ 2004ء میں انہوں نے مجھے جیو نیوز کے لئے انٹرویو دیا جس میں اکثر بگٹی کا نام لئے بغیر کہا کہ یہ ستر کی دہائی نہیں ہے تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کب اور کہاں سے تمہیں کون سی چیز آکر لگی ہے۔

    انٹرویو ختم ہوا تو میں نے مشرف صاحب سے کہا کہ آپ کا یہ انٹرویو بلوچستان میں نفرتوں کی نئی آگ لگا سکتا ہے آپ کو محتاط لہجہ اختیار کرنا چاہئے لیکن مشرف صاحب طاقت کے نشے میں سرشار تھے۔ ان کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی بلوچستان میں طاقت کے استعمال کے خلاف تھے لہٰذا ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ 2006ء میں بلوچستان کے بزرگ سیاسی رہنما اکبر بگٹی ایک کارروائی کا نشانہ بن گئے جس کے بعد بلوچستان میں احتجاج شروع ہوگیا۔ اسی سال پرویز مشرف کی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ منظر عام پر آئی جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے 369 افراد کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور کروڑوں ڈالر کی انعامی رقم حاصل کی۔ ان کے اس اعتراف کے بعد راولپنڈی کی ایک خاتون آمنہ مسعود جنجوعہ لاپتہ افراد کی آواز بن کر سڑکوں پر آگئیں۔

    قومی اسمبلی میں اس خاتون کے حق میں پہلا بیان عمران خان اور خواجہ محمد آصف نے دیا۔ 2007ء میں آمنہ مسعود جنجوعہ اور عمران خان نے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ شروع کیا تو مشرف کے حامیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم دہشت گردوں کے وکیل بن گئے ہیں اور ہم ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ پھر میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان میں لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھانی شروع کی۔ ڈاکٹر مالک نے یہی گفتگو کیپٹل ٹاک میں کی تو حب الوطنی کے ٹھیکیداروں نے یہ الزام لگا دیا کہ ہم بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بات کرتے ہیں لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کے لاپتہ افراد کی بات نہیں کرتے۔ میں نے بار بار یہ کہاکہ مقبوضہ کشمیر اور بلوچستان میں بہت فرق ہے ان کا آپس میں موازنہ نہیں ہوسکتا لیکن غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کی بات کرنے والوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دیکر نجانے کس کو خوش کر رہے تھے حالانکہ پاکستان میں سب سے زیادہ لاپتہ افراد خیبرپختونخوا اور سندھ میں ہیں بلوچستان میں نہیں۔

    مقبوضہ جموں و کشمیر اور بلوچستان میں صرف ایک چیز مشترک ہے۔ کشمیریوں اور بلوچوں کی اکثریت پرویز مشرف سے سخت ناراض ہے۔ کشمیر کی حریت پسند قیادت مشرف کو تحریک آزادی کا دشمن سمجھتی ہے اور بلوچوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ مشرف دور میں بلوچستان کو پاکستان کے قومی دھارے سے نکال کر خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا۔ مشرف دور میں جو بھی بلوچستان میں ناانصافی کے خاتمے کی بات کرتا تھا وہ غدار کہلاتا تھا اور اسے یہ سننا پڑتا تھا کہ تم بلوچستان میں ظلم کی بات کرتے ہو لیکن مقبوضہ کشمیر میں ظلم پر کیوں خاموش ہو؟ آج بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی بھی وہی باتیں کررہا ہے جو مشرف کے حامی کیا کرتے تھے۔ مودی نے 15 اگست کو ایک تقریر میں کہا ہے کہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت کے لوگوں نے وہاں ہونے والے ظلم کیخلاف آواز اٹھانے پر میرا شکریہ ادا کیا ہے۔ کچھ جلاوطن بلوچ رہنمائوں نے مودی کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے لیکن بھارت میں مودی کے اس بیان پر بہت تنقید ہورہی ہے۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں نیروپوما سبرامنیم نے لکھا ہے کہ کشمیر اور بلوچستان کا کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا، کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک تنازع ہے جبکہ بلوچستان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔

    اس خاکسار نے بلوچستان میں ریاستی جبر اور ناانصافی کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور بلوچوں کو ان کے سیاسی و آئینی حقوق دینے کا مطالبہ کیا ہے میں اپنے موقف پر بدستور قائم ہوں لیکن بھارتی وزیراعظم مودی نے بلوچستان اور مقبوضہ کشمیر کا موازنہ کر کے بلوچوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ سب جانتے ہیںکہ 1947ء میں ایک مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کا حکمران ہری سنگھ غیر مسلم تھا۔ اس نے لارڈ مائونٹ بیٹن اور نہرو کی ملی بھگت سے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن الحاق کی اس دستاویز کو پریم شنکر جھا جیسے بھارتی مصنفین نے متنازع قرار دیا ہے۔ دوسری طرف 29جون 1947ء کو بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپلٹی نے بغیر کسی جبر کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ اکبر بگٹی سمیت دستور ساز اسمبلی کے رکن نواب محمد خان جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی نے بھی پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔

    ریاست مکران کے حکمران میر اعظم خان بلوچ، ریاست خاران کے حکمران نواب حبیب اللہ نوشیروانی اور لسبیلہ کے حکمران جام میر غلام قادر نے بھی اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی البتہ قلات کی ریاستی اسمبلی نے 15اگست 1947ء کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ آزادی کے حق میں تقریر کرنے والوں میں میر غوث بخش بزنجو بھی شامل تھے لیکن سات ماہ کے بعد خان آف قلات نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔ کچھ لوگوںکے خیال میںیہ اعلان پاکستان کے ریاستی دبائو کا نتیجہ تھا لیکن مت بھولئے کہ قلات کی جس ریاستی اسمبلی نے آزادی و خودمختاری کا اعلان کیا تھا اسی اسمبلی کے ارکان نے بعد میں پاکستان کی بقاء اور سالمیت کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ میرغوث بخش بزنجو نے شیخ مجیب الرحمان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ خدارا پاکستان مت توڑو۔ آج ان کا بیٹا میر حاصل بزنجو سینیٹ کا رکن اور وفاقی وزیر ہے۔

    مقبوضہ جموںو کشمیر کے تنازع کو بھارت اقوام متحدہ میں لیکر گیا اوراس پر سلامتی کونسل کی قراردیں موجود ہیں۔ بلوچستان کے بارے میں ایسی کوئی قرارداد نہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 نے اسے خصوصی حیثیت دی ہے۔ غیر کشمیری مقبوضہ ریاست میں زمین نہیں خرید سکتے۔ بلوچستان کے بارے میں پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی دفعہ نہیں۔ کشمیر پر پاکستان اور بھارت میں تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ بلوچستان پر ایسی کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

    مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت کشمیر میں موجود ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند لیڈروں کی اکثریت بیرون ملک بیٹھی ہے اور بھارت کو خوش کرنے کیلئے کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے حالانکہ یہ تحریک 1947ء سے نہیں 1931ء سے جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے بلوچستان میں ناراض عناصر کی موجودگی سے انکار نہیں لیکن وہ بھارت کا پرچم نہیں لہراتے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو ویسی عوامی تائیدو حمایت حاصل نہیں جو کشمیر کی حریت پسند قیادت کو حاصل ہے۔ مودی نے بلوچستان کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت سے نیک تمنائوں کی وصولی کا دعویٰ کر کے اپنے جھوٹ کا خود ہی پول کھول دیا۔

    مقبوضہ کشمیر میںسید علی گیلانی، آسیہ اندرابی اور دیگر آزادی پسند روزانہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں مودی صاحب بلوچستان، آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان میں موجود کسی ایک شخص کا نام بتا دیں جو بھارت سے الحاق کا حامی ہو؟ مودی کا یہ بیان دراصل بھارت کے خلاف ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئندہ بلوچستان، آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آیا تو دنیا یہ یقین کرنے میں حق بجانب ہوگی کہ اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے کیونکہ مودی کے بیان کے بعد مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔

  • راجہ فاروق حیدر کا درد - راجہ سعود

    راجہ فاروق حیدر کا درد - راجہ سعود

    پچھلے کچھ عرصے سے آزاد کشمیر کے نومنتخب وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان جب اپنی حکومت کے ایجنڈے کا ذکر فرماتے ہیں اور بالخصوص جب میرٹ اور انصاف کی بات کرتے ہیں توان کا درد ان کی بیٹھی ہوئی آواز اور چھلکتی آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے۔ ان کا یہ رویہ دل و دماغ میں ارتعاش پیدا کر دیتا ہے کہ ایسی کون سی بے بسی ان کو نظر آرہی ہے کہ ان کے پاس رونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔ انسان ایسے حالات میں دو ہی صورتوں میں روتا ہے، اول تو جب اسے کسی اہم مسئلے کا حل سرے سے مل ہی نہیں رہا ہوتا اور دوم جب مسئلے کا حل تو نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اس کے نتائج اس قدر بھیانک ہوتے ہیں کہ وہ اس خاص مسئلے سے بڑا مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آزاد کشمیر کے ادارے اس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں اور لوگ اس قدر نا انصافی کا شکار ہیں کہ ان کی بہتری نا ممکن ہو اور ان کو درست سمت پر لانا اتنا بڑا مسئلہ ہو کہ وزیراعظم کے پاس اس پر آنسو بہانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو؟ نہیں بظاہر بلکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرٹ اور انصاف پامال ہوتا ہے، لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوتی ہے لیکن یہ مسائل تو دنیا کی ترقی یافتہ ترین قوموں کو بھی درپیش ہیں، اس میں بھلا آنسو بہانے والی کیا بات، آزاد کشمیر تو ایک چھوٹا سا خطہ ہے، اس کے سارے اداروں کو صحیح سمت میں لانے کے لیے کچھ دنوں کا وقت چاہیے ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا انصاف ہے جس کا حصول اس قدر مشکل ہے کہ راجہ فاروق حیدر کی آنکھوں سے درد بن کر بہہ رہا ہوتا ہے۔
    بے خودی بے سبب نہیں غالب
    کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

    مجھے بالکل نہیں اندازہ کہ راجہ صاحب کون سے انصاف کا نعرہ بلند کیے ہوئے بےبسی کا رونا رو رہے ہیں لیکن ماضی کے کچھ تجربات اور اپنی ناقص سمجھ بوجھ کے مطابق جب اپنے ذہن پر زور ڈال کر خود کو راجہ فاروق حیدر کی جگہ رکھ کر سوچتا ہوں تو کچھ ایسی ناانصافیاں نظر آتی ہیں کہ مجھے بھی رونے کے علاوہ کوئی چارہ نطر نہیں آتا بلکہ میرے جیسے کمزور اعصاب والا بندہ تو رونے سے بھی اگلی بات یعنی خود کشی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب لوگوں کے سامنے آپ کو اتنا بڑا عہدا تو دے دیا گیاہو، پوری قوم آپ سئ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہو لیکن آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیےگئے ہوں تو پھر آپ کے پاس آنسو بہانے کے سوا کون سا آپشن بچتا ہے؟
    خدا ملا نہ وصال صنم
    ادھر کے رہے نہ ادھر کے

    ایک اہم بات جس کا ذکر یہاں دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا، وہ راجہ فاروق حیدر خان کا ایک معنی خیز فقرہ ہے جو وزیراعظم بننے کے بعد ان کی پہلی تقریر کا حصہ تھا اور جو شاید انہوں نے سردار سکندرحیات کے نام سے منسوب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی عوام کو آزادی اور آزاد کشمیر کی عوام کو انصاف چاہیے۔ بڑا معنی خیز فقرہ تھا، بڑی گہرائی تھی ان چند الفاظ میں۔ آزادی اور انصاف کو ایک ہی ترازو کے دو پلڑوں میں تولنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں، دونوں کے لیے ایک ہی طرح کی جدوجہد کی ضرورت ہے اور دونوں کے حصول کےلیے کشمیری پچھلے 70 سال سے نبردآزما ہیں۔ آزادی اور انصاف میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا بلکہ دونوں میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انصاف ہی ایک ایسا آلہ ہے جو آزادی کی راہ ہموار کرتا ہے کیونکہ آزادی انصاف کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے انصاف یہ ہوگا کہ ان کو خودارادیت کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادی کا فیصلہ خود کر سکیں۔ اگر انصاف مل جائے تو آزادی خود بخود مل جاتی ہے۔ آزادی کا فیصلہ لوگ خود کرتے ہیں بشرطیکہ حکمران ان کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ان کوفیصلہ سازی کا حق دے دیں۔

    اگر ہم انصاف کے مفہوم کو سامنے رکھیں تو آزادی کا مفہوم اس کے اندر ہی سما جاتا ہے۔ اس منطق کے مطابق تو آزاد کشمیر کے عوام بھی آزاد نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو انصاف مل رہا ہے۔ انصاف تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کے منتخب نمائندوں کے سر سے کشمیر کونسل اور ایکٹ 74 کی لٹکتی تلوار کو ہٹا دیا جائے تاکہ وہ آزاد حثیت سے اپنے فیصلے کر سکیں۔ ان کو قانون سازی کا اختیار کہنے کی حد تک تو دے دیا گیا ہے لیکن سیکشن 56 سے ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں کہ نہیں بھائی اگر ہماری مرضی سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کیا گیا تو سیکشن 56 کے تحت آپ کی حکومت کو چلتا کر دیا جائے گا۔ انصاف کا تقاضا تو یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر سے پیدا کی جانے والی پن بجلی جو کہ تقریبا اب 2 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی، اس کا نیٹ ہائیڈرل پرافٹ آزاد کشمیر کو دیا جائے اور این ایف سی ایوارڈ میں باقی صوبوں کی طرح آزاد کشمیر کو بھی خاطر میں لایا جائے کیونکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر اس لیے نہ ہو سکی کہ پاکستان کے کچھ خیرخواہوں نے اس کی بھرپور مخالفت کی لیکن دوسری طرف کشمیری عوام نے پاکستان کو روشن کرنے کے لیے اپنے اجداد کی قبروں تک کی قربانی دے دی۔ نیلم جہلم پروجیکٹ سے آزاد کشمیر کا دارالحکومت قدرتی خوبصورتی اور ایک بڑی آبادی پانی سے محروم ہو گئی لیکن کشمیری عوام نے پھر بھی اسے قبول کیا۔

    مقبوضہ کشمیر کے لوگ آج بھی 8 لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے پاکستان کا پرچم بڑے فخر سے لہراتے ہیں تو کیوں لہراتے ہیں؟ کیونکہ وہ پاکستان سے انصاف کی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، وہ دو قومی نظریے پر ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں، اپنی مائوں بہنوں کی عصمتوں کو اپنے سامنے لٹتے دیکھتے ہیں لیکن پاکستان کا جھنڈا مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ ہم کون سے محاذ پر ان کے لیے لڑ رہے ہیں، ہم تو شملہ معاہدے کے تحت سفارتی محاذ کا اختیار بھی کھو چکے ہیں۔

    یہی وہ انصاف اور میرٹ ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر کے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ تو کیا کریں پھر جب انسان خدا ہو جائیں۔ اس بار آزاد کشمیر کے عوام نے راجہ فاروق حیدر خان کو ایک بھاری مینڈیٹ اس لیے دیا ہے کہ وہ اسی انصاف کی بات کرتے تھے۔ آزادکشمیر کے عوام کو اب اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ جب اس پار کشمیر میں کوئی ظلم ہو تو ہم قومی اسمبلی میں بیٹھ کر ایک مذمتی قرارداد پاس کروا دیں اور یہ سمجھیں کہ حق ادا کر دیا۔ جس کا دل کرے وہ پیسے دے کر کشمیر کونسل کا ممبر بن کر کشمیریوں کی توہین کرے اور عوام کے وسائل لوٹے۔ ان سب باتوں سے اب کشمیریوں کو کوئی دلچسپی نہیں رہی بلکہ وہ سخت ترین مزاحمت چاہتے ہیں۔ اگر وہ آزادی کے لیے تن تنہا ڈوگروں سے لڑ سکتے ہیں تو انصاف کے لیے کسی ایسی تیسری قوت کے حق میں بھی حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں جو ان کی نسلوں کو انصاف فراہم کر سکے۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے کہ آزاد کشمیر کی فانون ساز اسمبلی کو بااختیار بنانے کے لیے ایکٹ 74 کا خاتمہ کیا جائے۔ آزاد کشمیر کے وسائل کے منصفانہ استعمال کا طریقہ وضع کیا جائے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کے ماحولیات پر اثرات کو سامنے لاتے ہوئے کوئی جامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔ کشمیر کونسل کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے آزاد کشمیر اسمبلی کے اختیارات کو وسیع کیا جائے۔ آزاد کشمیر کی دیرینہ پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے منصوبے لائے جائیں۔ مسجلہ کشمیر کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ یہی کشمیری عوام کے دیے گئے مینڈیٹ کے ساتھ انصاف ہوگا اور اس سے تحریک آزادی کشمیر کو تقویت ملے گی۔ یہی آزاد کشمیر کے عوام کا نعرہ ہے، یہی ان کا منشور ہے اور اسی مقصد کے حصول کی خاطر کشمیری عوام نے راجہ فاروق حیدر کو اپنا قائد چنا ہے۔

  • مظلوم کا حقِ مزاحمت اور اسلام – جمیل اصغر جامی

    مظلوم کا حقِ مزاحمت اور اسلام – جمیل اصغر جامی

    جمیل اصغر جامیجبر اور ظلم کے خلاف جدوجہد انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کیا یہ ہر ذی روح کی فطرت کا حصہ ہے۔ زمین پر رینگنے والا ایک کیڑا بھی جب اپنی بقا کو خطرے میں پاتا ہے، تو پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر، پوری سرعت اور قوت سے مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ظلم کے خلاف جدوجہد، بقا کی جدوجہد ہے۔ دنیا کا ہر ضابطہ، دستور، اور اخلاقی اُصول اس جہدوجہد کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی تائید بھی کرتا ہے۔ کوئی ضابطہ، قانون یا مذہب اس بنیادی جبلی اُصول کی نفی کرکے، کائنات کی کسی ادنٰی درجے کی مخلوق کی تائید بھی حاصل نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ کہ وہ انسانوں میں قبول عام حاصل کرلے۔

    اسلام کا تو سب سے بڑا دعوی انفرادیت ہی یہ ہے کہ یہ ”دینِ فطرت” ہے۔ اگر آپ اول و آخر اسلام کا مطالعہ کریں، تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے گی کہ یہ وہ مذہب ہے جو انسانی فطرت کے تمام جائز داعیات کا اثبات کرتا ہے اور ان کی تکمیل کے لیے بنیادی اخلاقی حدود و قیود کا ایک ضابطہ رکھتا ہے۔ ظلم اور جبر کے حوالے سے بھی اسلام مظلوم کی مزاحمت کے بنیادی فطری حق کا اثبات کرتاہے، ظالم اور مظلوم کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو بھی بخوبی سمجھتا ہے لیکن اس عدم توازن کے باوجود مظلوم کا حقِ مزاحمت تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے تو ارشاد ہوا: ”کتنی ہی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں، جو اللہ کے قانونِ صبر و استقامت سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں، اور اللہ کی مدد تو ثابت قدم لوگوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔” پھر ظلم کے سامنے، لامتناہی صبرِ مطلق تو سر تا سر ظالم کی مدد ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حکمت عملی کا تعین کیا جائے، سارے عوامل کو مدنظر رکھا جائے اور وہ راستہ اپنایا جائے جو سب سے زیادہ سود مند ہو۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کوئی قوم کسی جارح کے جبر کا شکار ہوئی، تو اس نے ایک گونہ مزاحمت کو روا رکھا اور بالآخر یہی مزاحمت اس کی نجات کا باعث بنی۔ قرآن ان الفاظ میں مظلوم کو اپنے دفاع کا حق دیتا ہے: ”ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بےشک اﷲ ان کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے۔”

    دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قوم نے ظلم اور سفاکیت کے چلن کے سامنے صبر اور خود سپردگی کا رویہ اپنایا ہو، اور بالآخر، جارح طاقت نے یا تو رحم کھا کر، یا اپنی ساری کی ساری قاہرانہ طاقت صرف کر کے اس کی جان بخشی کردی ہو۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بھی کوئی قوم مزاحمت کی راہِ پرخار کا انتخاب کرتی ہے، تو یہ فیصلہ اس کے لیے ہر چند کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔ بھلا ایک ایسی قوم سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے؟ وہ بخوبی جان چکی ہوتی ہے کہ سروں کی فصلیں کٹیں گی، خون مانند آب بہے گا اور مقتل سجیں گے۔ ظاہر ہے یہ سب جانتے ہوئے اگر ایک قوم کسی راہِ مغیلاں پر نکلتی ہے تو وہ اس سے پہلے بہت کچھ آزما چکی ہوتی ہے۔ بھلا کسے پڑی ہے کہ جو منزل کچھ سال جلسے اور جلوسوں کے اہتمام سے حاصل ہوسکے یا تحریر و تقریر اور سیاسی نشست و برخاست سے مل سکے، اس کے لیے سینے چھلنی کروائے، گردنیں کٹوائے اور لاشے اُٹھائے؟ اسی موضوع پر نوابزادہ نصراللہ خان علیہ الرحمہ کی دو لافانی سطریں:
    کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
    کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے

  • آزادکشمیر کا الیکشن اور مقبوضہ کشمیر – عقیل شہزاد

    آزادکشمیر کا الیکشن اور مقبوضہ کشمیر – عقیل شہزاد

    ہم جلد آزادی حاصل کر لیں گے. یہ الفاظ پچپن سے کانوں میں سنتے آئے ہیں. اب یا تو ہمارے کانوں میں کوئی خرابی ہے یا پھر آزادی کی تحریک میں، اللہ بہتر جانتا ہے. کچھ لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اگر آج کشمیر آزاد ہو جائے تو آزادکشمیر لیڈران کو کچھ نہیں ملنے والا، اب کیا یہ کہنا درست ہے، ہو سکتا ہے کہ ہو، لیکن یہ ہماری بے حسی کی بھی مثال ہے جس سے یہ جھلکتا ہے کہ ہم خود نہیں چاہتے کہ کشمیر آزاد ہو.

    آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن مسلم لیگ نواز واضح فرق سے جیت گئی، لیکن کوئی بھی پارٹی انتخابی مہم کے دوران کشمیر پالیسی اور اس کے مسائل پر بات نہ کر سکی. قربان جائیے ان سب پارٹیوں پر کہ ہر ایک کو اپنی پڑی ہے. اہل کشمیر کو عمران خان صاحب سے کچھ امیدیں تھی لیکن وہ بھی صرف نوازشریف صاحب کو پانامہ لیکس کے طعنے ہی دیتے رہے، ایک بار بھی جناب کو خیال نہ آیا کہ سامنے کشمیری ہیں، کچھ بناوٹی ہمدردی ہی ظاہر کر دی جائے. سرحد کے اس پار روز نہتے کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے، کوئی بات اس پر بھی ہوجائے. خان صاحب اپنا رونا روتے رہے، شاید ان کو احساس ہو کہ کشمیر میں حکومت تب تک نہیں قائم ہو سکتی جب تک پاکستان کا اقتدار ہاتھ میں نہ ہو، اور یہ سوچ شاید ٹھیک بھی ہو لیکن خان صاحب پھر تو آپ بھی روایتی سیاستدان ہوئے نا. آپ نے رویتی انداز میں آزادکشمر پی ٹی آئی کا صدر چنا، روایتی انداز میں الیکشن کی تیاری کی، مہم چلائی اور پھر روایتی انداز میں بری طرح ہار بھی گئے.

    پپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری صاحب نے بھی الیکشن میں بھرپور حصہ لیا، جگہ جگہ نوازحکومت کو للکارا، مودی کا یار بھی کہا، دھاندلی کرنے پر سنگین نتائج کی نوید بھی سنائی اور جیالوں کو خوب گرمایا بھی مگر الیکشن میں ان کی پارٹی کا بھی برا حال ہوا. شاید ریاست کے عوام انھیں اور ان کی پارٹی کو جان چکے تھے. 5 سال کوئی کم وقت نہیں ہوتا کسی کو آزمانے میں. مقبوضہ کشمیر کے مظالم کے حوالے سے بلاول نے بہت کچھ اپنی تقاریر میں کہا اور اپنے آپ کو کشمیریوں کا خیرخواہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی. مگر عوام نے ووٹ دے کر بتایا کہ انھیں ان کی باتوں پر یقین نہیں ہے.

    اب ذرا بات ہو جائے ن لیگ کی. اس کے تو تیور ہی بدلے ہوئے تھے. برجیس سے رشید کا سفر اور بلیک ڈے سے الحاق پاکستان ڈے تک اور الحاق پاکستان سے پھر بلیک ڈے تک سفر نے اسے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کر دیا. ہوا یوں کہ پہلے آزاد کشمیر حکومت نے بلیک ڈے منایا اور ایک عدد چھٹی بھی مار لی، پھر الحاق پاکستان کی ایک چھٹی مار لی اور پھر باری آئی وفاق کی، اس نے سوچا کہ موقع ہے کشمیریوں سے یکجہتی کا سو بلیک ڈے منا کر عوام کی ہمدردی حاصل کی جائے، ویسے بھی الیکشن ہم نے ہی جیتنا ہے تو کیوں نہ ذرا پکا کام کیا جائے. 20 کو بلیک ڈے منایا گیا اور 21 تک نجی نیوز چینل پر اشتہار چلتے رہے کہ ہم سے بڑا کشمیریوں کا خیرخواہ کوئی نہیں. 21 تک سلسلہ اشتہارات حیران کن تھا کیونکہ بلیک ڈے تو 20 کو تھا تو 21 تک اسے گھسیٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ 21 کو انتخابات ہیں، اس لیے یہ سب کیا جا رہا ہے. اس کے علاوہ وہی سب وعدے یہاں بھی کیے گئے جو پاکستان میں کیے گئے تھے.

    اب جب مسلم لیگ ن جیت گئی ہے تو ہر طرف خوشی کا عالم چھایا ہوا ہے، ڈھول تماشے اور بھنگڑے جاری ہیں. عین اسی وقت سرحد کے اس پار کرفیو نافذ ہے، نیٹ سسٹم بند ہے، مواصلاتی نظام معطل ہے، آزادی کی خاطر لوگ جانیں دے رہے ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، ماؤں کے جواں سال بچے شہید ہو رہے ہیں، اور ہم یہاں کچھ یوں نعرے لگا رہے ہیں
    شیر اک واری فیر
    آئی آئی پی ٹی آئی
    فیصلہ ضمیر دا ووٹ بینظیر دا
    اور ہم سب جانتے ہیں کہ ان نعروں سے کشمیر کبھی آزاد نہیں ہوگا