Tag: مقبوضہ کشمیر

  • ڈگڈگی پر ناچتا میڈیا اور کشمیر میں گرتے لاشے – عمران اعظم

    ڈگڈگی پر ناچتا میڈیا اور کشمیر میں گرتے لاشے – عمران اعظم

    عمران اعظم بات اس بار بھی زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکی اور جذباتی نعرے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے. مقبوضہ وادی میں معصوم بچوں کے لاشے پاکستانی پرچم میں لپٹے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں مردہ جسموں پر بھی آنسو گیس کے شیل اور گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ آنکھوں سے نور چھن گیا مگر زبان پر ایک ہی نعرہ، پاکستان سے رشتہ کیا؟

    27 برس پہلے تحریک آزادی ایک نئے دور میں داخل ہوئی، اہل کشمیر نے سر پر کفن باندھے تو قابض بھارتی فوج کی درندگی نے ہر ظلم کو شرما دیا۔ جنوری 1989ء لے کر اکتوبر 2016ء تک چورانوے ہزار پانچ سو پینسٹھ کشمیری شہید، 22 ہزار سے زائد عورتیں بیوہ، ایک لاکھ سات ہزار سے زائد بچے یتیم ہو چکے۔ دس ہزار سے زائد خواتین کی عزتوں کو تار تار کیا گیا جبکہ آزادی مانگنے کے جرم میں ایک لاکھ انتالیس ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ بہیمانہ تشدد سے دوران حراست سات ہزار لوگ جام شہادت نوش کر گئے۔ سینے میں دل ہوتے، احساس کی کوئی رمق باقی ہوتی تو محکوم کشمیریوں کی آواز اٹھانے کے لیے یہ سب کم نہ تھا، جن پر بیت رہی ہے ان سے پوچھیں تو سننے کا حوصلہ بھی نہ ہوپائے گا لیکن ہوا سب الٹ۔

    لاشتے گرتے گرتے 2001ء آگیا اور پھر کشمیر کے حصے بخرے کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جن کے جگر گوشے خون میں نہا گئے، جو عصمتیں لٹا کر زند ہ درگور ہوئیں، جن کی آنکھیں بیٹوں کی واپسی کا راستہ دیکھتے دیکھتے پتھر ہوگئیں، جو باپ کا سایہ چھین جانے کے بعد دربدر ہوئے یا جن کے بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹی، ان سب کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر کسی نے ایک بار بھی یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ آپ کی بھی کوئی منشا ہے کیا؟ کشمیریوں کو باہر رکھ کر مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تو ہمارے وکیل نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔

    مسلہ کشمیر سے بیزاری اس حد تک جا پہنچی کہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی سیاسی رشوت کے طور پر دی جانے لگی۔ پیپلزپارٹی کے بعد ن لیگ نے بھی مولانا کو رام کرنے کے لیے کشمیر کمیٹی کا تاج ان کے سر پر سجا دیا، کیا ہوا ہے اگر مولانا فضل الرحمان دنیا کے کئی اہم ممالک میں جا ہی نہیں سکتے، جائیں بھی تو ان کی مذہبی اور جہادی پہچان، کشمیریوں کے برحق مؤقف کو بھی مغرب میں ناقابل قبول بنا نے کے لیے کافی ہے۔ کوئی کشمیری رہنما یا پھر امور خارجہ کا ماہر شخص اس کمیٹی کا سربراہ ہوتا تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے، دنیا ہمارے مؤقف کو سنتی بھی اور ہم اپنا مقدمہ بہتر انداز میں لڑتے بھی۔ اس بے رخی کے دور میں قدرت کو مقبوضہ کشمیر کے عوام پر رحم آگیا، قربانیوں کو شرف قبولیت ملا اور اہل کشمیر کو نیا قائد برہان مل گیا۔

    برہان وانی نے اپنی جدوجہد اور سوشل کے میڈیا کےمؤثر استعمال سے پوری وادی میں آزادی کی نئی شمع جلا دی، نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ بندوق آخری چارہ کار ضرور ہے لیکن سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا درست استعمال آپ کی تحریک کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔ برہان مظفر وانی صرف 22 سال کی عمر میں تحریک آزادی کے لیے کیا کچھ کر گیا، اس کا اظہار اور احساس تب ہوا جب 9 جولائی 2016ء کو پوری وادی اس مجاہد کی نماز جنازہ میں امڈ آئی۔ خلق خدا گھروں سے اس تعداد میں نکلی کہ جنازہ گاہ تنگ پڑ گئی اور کئی بار نماز جنازہ ادا کرناپڑی۔

    برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی ایسی لہر اٹھی جس کی مثال ملنا ناممکن نہ سہی تو مشکل تر ضرور ہے۔ ایسے میں کشمیر یوں کے وکیل پاکستان کو پھر سے خیال آیا اور حکومتی سطح پر بیانات دیے جانے لگے۔ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی اور میڈیا نے بھی چند دن اپنا حصہ ڈالا، مگرپھر وہی ہوا جس کا ڈر نہیں یقین تھا۔ حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کی توانائیاں مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر سیاست، سیاست کھیلنے پر صرف ہونے لگیں اور میڈیا نے بھی اہل کشمیر کو لال جھنڈی دکھا دی۔ اب الیکٹرانک میڈیا پر دن بھر میں ایک آدھ بار حاضری لگا دی جاتی ہے کہ کشمیر میں یہ ہوگیا اور بس ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ مطلوم کشمیروں کی آہیں اور سسکیاں بکتی ہیں نہ سبز جھنڈے میں لپٹے ان کے لاشے۔ یہاں ریٹنگ آتی ہے حکومتی رہنماؤں اور عمران خان کے لمبے لمبے بھاشن دکھانے سے یا پھر بلاول کی شادی کی خبر سے، نہیں تو عمران خان کی شادی کا گڑھا مردہ پھر سے اکھاڑ لیں۔

    ایک ٹی وی چینل کے نیوز روم میں بیٹھ کر اپنے سامنے لگی کئی اسکرینوں پر یہ سب دیکھنا اور خود کو بےبس پانے سے زیادہ تکلیف دہ کچھ نہیں۔ اس صورتحال میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھتا ہوں تو امید پھر ہاتھ تھام لیتی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کا زبانی جمع خرچ اور میڈیا کی بےرخی کشمیر کے ہر نوجوان اور باشعور شخص کے لیے کھلا پیغام ہے کہ اہل کشمیر کو اب ہر محاذ پر خود لڑنا ہوگا۔ کشمیر کے نوجوان کو بندوق سے لے کر قلم تک، ہر جہاد کی کمان خود سنبھالنی ہوگی۔ دنیا کے کونے کونے میں موجود ہر کشمیری کو خود کھڑے ہو کر دنیا سے کہنا ہوگا، کہ میں کشمیر ہوں، میں کسی کا اٹو ٹ انگ نہیں، بس آزادی کا طلبگار ہوں۔

  • A Journey of Poster Boy – نصراللہ گورایہ

    A Journey of Poster Boy – نصراللہ گورایہ

    نصر اللہ گورایہ یہ 19ستمبر 1994ء کا ایک خوبصورت دن تھا کہ مظفر وانی کو اللہ تعالیٰ نے ایک نیک سیرت اور پاکباز بیٹا عطا کیا۔ خاندانی روایات کے مطابق ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا گیا او برہان مظفر وانی نام رکھا گیا۔ اس وقت کہ جب نام تجویز کیا جا رہا تھا تو شاید یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ برہان واقعتا اللہ کی برہان بن کر رہے گا۔ مظفر وانی مقبوضہ کشمیر کے ڈسٹرکٹ پلوامہ اور ولیج ترال شریف آباد کے رہنے والے ہیں۔ ان کا تین منز لہ خوبصورت گھر اور گھر کے بالکل سامنے مسجد اور مسجد سے بلند ہونیوالی صدائیں وانی خاندان کو فوزو فلاح کی طرف بلاتیں اور یہ خاندان اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے کھنچا چلا جاتا۔مظفر وانی مقامی ہائیر سکینڈری سکول کے پرنسپل ہیں اور ان کی اہلیہ بھی سائنس میں پوسٹ گریجوایٹ ہیں جب کہ وہ بھی مقامی سکول میں بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتی ہیں۔ مظفر وانی اور ان کی بیوی نے اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی اور برہانی وانی کے بڑے بھائی خالد وانی نے کامرس میں پوسٹ گریجوایشن کی۔

    برہان وانی اپنے اخلاق و کردار کی وجہ سے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے گائوں میں مشہور تھا۔ گلی محلے کے کسی بزرگ نے کوئی کام کہا تو برہان کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ اپنا کام ادھورا چھوڑے پہلے ان کی خدمت سرانجام دے ۔ برہان وانی اپنی اوائل عمری میں ہی مسجد جانے لگا اور دھیرے دھیرے مسجد کے ایک مستقل ممبر کی حیثیت اختیار کر لی۔اللہ تعالیٰ نے باطنی خوبصورتی کے ساتھ برہان کو جسمانی خوبصورت سے بھی خوب نوازا تھا۔ گہری کالی آنکھیں ، خوبصورت سیاہ بال، ستواں ناک 6فٹ قد اور سرخ و سفید رنگت کا مالک یہ نوجوان اپنے بارے میں کہتا ہے:
    I am Burhan, I could have won the most beautiful man award of India, I chose to color my chest with blood and become a martyr for Azadi.
    اپنی کلاس میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن لینے ولا یہ نوجوان Cricket loving boy کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وریندر سہواگ اور شاہد آفریدی اس کے پسندیدہ کرکٹرز میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے دوست کہتے ہیں کہ وہ ایک بہترین بلے باز تھا اور اگر وہ فریڈم فائٹر کا راستہ اختیار نہ کرتا تو شاید دنیائے کرکٹ کا ایک چمکتا ہوا تارا ہوتا۔ بچپن سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے برہان وانی نے دیکھا کہ جگہ جگہ قابض انڈین فوج نے اپنے چیک پوسٹس قائم کی ہوئی ہیں اور عام لوگوں کو تنگ کرنا ایک روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ برہانی وانی کو بھی آتے جاتے بہت تنگ کیا جاتا لیکن ابھی تک تشدد کی نوبت نہ آئی تھی۔

    2010ء میں ایک دن برہان وانی اپنے بڑے بھائی خالد وانی کے ہمراہ پلوامہ سے واپس آ رہے تھے کہ واپسی پر قابض انڈین فوج نے انہیں روک لیا اور دونوں بھائیوں پر خوب تشدد کیا اور ان کو مجبور کیا کہ قریبی بستی میں جائو اور ہمارے لیے سگریٹ کے پیکٹس لے کر آئو۔ برہان وانی نے وعدہ کیا کہ آپ میرے بھائی پر تشدد نہ کریں تو میں آپ کو سگریٹ کے پیکٹس لا کر دیتا ہوں۔ برہان وانی سگریٹ لینے کے لیے چلا گیا لیکن جب وہ واپس پہنچا تو اس کا بھائی خالد وانی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا جس پر قابض انڈین فوج نے شدید تشدد کیا تھا۔ انڈین فوج کی وحشیانہ کاروائیوں کے بارے مظفر وانی کہتے ہیں۔ “Almost every one has been beaten up by Indian Army. You almost must have had your share.” ’’یعنی مقبوضہ وادی میں شاید ہی کوئی نوجوان یا بزرگ ایسا ہو جو قابض فوج کے بہیمانہ تشدد سے محفوظ رہا ہو وگرنہ خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور نازیبا سلوک روز مرہ کا معمول ہے۔‘‘یہاں سے برہان وانی کی زندگی ایک نیا رخ اختیار کرتی ہے۔

    2010ء میں یہ نواجوان اپنی زندگی کے پندرھویں سال میں داخل ہوتا ہے تو وہ ایک’’ فریڈم فائٹر‘‘ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کا یہ موقف ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نکا لاجائے وگرنہ ہم بھارت سے طاقت کے زور پر آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ پندرہ ، اٹھارہ سال کے اس نوجوان کو اللہ تعالیٰ قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ علم اور بصیرت سے بھی خوب نوازا تھا۔ جس کا اندازہ آپ مقبوضہ کشمیر میں ، کشمیری پنڈتوں کی علیحدہ کا لونیوں اور آباد کاری کے متعلق اس کے بیان سے ہوتا ہے ۔ میں جب اس کے اس بیان کو پڑھ رہاتھا تو مجھے اپنے ملک کی قیادت بہت بونی لگ رہی تھی اور برہان وانی کا خوبصورت چہرہ میرے سامنے تھا۔ آپ بھی اس کے الفاظ پڑھیں اور اس کی دور رس نگاہوں کو داد دیں۔”Israel-like situation would not be allowed in Kashmir”سادہ سا خوبصورت یہ جملہ اپنے اندر کتنی تاریخی حقیقتوںکو نمایا ں کر رہا ہے کہ جس سازش کو عالم عرب نہ سمجھ سکا ، اٹھارہ سال کا یہ نوجوان ان حقیقتوں کو بیان کر رہا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے سچ فرما یا ہے کہ ’’کہ میں نے جسے حکمت (دانش مندی ) عطا فرمائی، اسے خیر کثیر سے نوازا‘‘

    2010ء سے 2016چھ سال کا یہ مبارک سفر اس نوجوان نے جس عزیمت اور ہمت کے ساتھ گزارہ وہ تاریخ کاایک روشن اور سنہرا باب ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تعنیات 6لاکھ بھا رتی فوج کو اس نوجوان نے نہ صرف تگنی کا ناچ نچایا بلکہ ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والی دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپنے والی ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور مظفر وانی کے بقول بہت سارے انڈین فوجی اور High Profileکے لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے اور طرح طرح کے لالچ اور ترغیبات کے ذریعے سے وہ برہان وانی کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے۔ایک انڈین اخبار کے مطابق “For the last two years, Wani had become an I-Con of military in the state of Jammu & Kashmir” اس نے ان چھ سالوں میں صدیوں کا سفر طے کیا اور بھارتی فوج اور حکومت کی طرف سے برہان وانی کے متعلق اطلاع دینے والے کے لیے 10لاکھ روپے کا انعام بھی مقرر کیا اور مقبوضہ وادی میں سوشل میڈیا کے استعمال کی بدولت اس نے اپنے افکار و نظریات کو خوب پھیلایا اور نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرتاچلا گیا۔اسی وجہ سے سوشل میڈیا میں اسے “Poster Boy”کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    13اپریل 2015ء کو برہان وانی کے بڑے بھائی خالد ان کے ایک دوست کے ساتھ برہان وانی کو ملنے کے لیے گئے لیکن قابض انڈین فوج نے خالد وانی اور ان کے دوست کو شہید کر دیا۔برہان وانی پورے بھارت کی سرکار کے لیے ایک چیلنج بن چکا تھا اور ایک رومانوی حیثیت اختیار کرتا چلا جا رہاتھا۔ ان چھ سالوں میں اس نے بیسیوں ایسے معرکے سر انجام دیے کہ بھارتی فوج ہر دفعہ سٹپٹا کر رہ جاتی۔ انڈین فوج اور بھارتی سرکار کی بہت ساری اعلیٰ سطحی اجلاس میں برہان وانی کے تذکرے ہونے لگے۔ لہذا انڈین فوج نے ایک ’’اسپیشل آپریشن گروپ‘‘ قائم کیا اور اعلیٰ سطح کی Intelligence Sharingکی گئی۔ اور بالآخر آٹھ جولائی 2016ء کو بندورہ گائوں کے قریب انڈین فوج کے ساتھ ایک معرکے میں برہان وانی نے جام شہادت نوش کیا۔ پورے بھارتی میڈیا میں برہان وانی کی شہادت کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا۔ اور انڈین فوج نے اسے ایک بہت بڑی فتح سے تعبیر کیا۔ تقریباً کم و بیش تمام اخبارات میں برہان کی شہادت کو شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا۔برہان وانی کو پاکستان پرچم میں لپیٹ کر 21گنوں کی سلامی دی گئی اور اپنے ہی آبائی گائوں ترال میں اپنے بڑے بھائی خالد وانی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔برہان وانی کے جنازے کا منظر بھی بہت دیدنی اور تاریخی تھا۔ دنیا بھر میں 50سے زائد مقامات پر برہان کا غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا گیا۔برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی میڈیا اور حکومت کے تجزیے اور تبصرے اس کو ایک بہت بڑی کامیابی بنا کر پیش کر رہے تھے لیکن ان کے علم میں نہ تھا کہ
    گرا ہے جس بھی خاک پر قیامتیں اٹھائے گا یہ سرخ سرخ گرم گرم تازہ نوجواں لہو!

    برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو ایک نیا موڑ دیا اور تقریباً 100دن مکمل ہونے والے ہیں کہ آئے دن تحریک آزادی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اور بھارت اپنی تمام تر قوت کے بل بوتے پر اس کو روکنے ہیں ناکام رہا ہے اور دنیا کے ہر محاذ پر اس کو ھزیمت اٹھانا پڑھ رہی ہے۔کشمیر کے لوگوں نے تو یقینا اپنا حق ادا کر دیا اور سرخرو ٹھہر کے لیکن کیا اسلام آبادکے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی پنڈت بھی اپنا کردار ادا کرتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ آج بہت مختلف ہوئی۔ آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا جائے۔ بھارت سفارتی سطح پر اس کو ناکام کرنے کی کوشش کریگا۔لیکن ان شاء اللہ ناکام و نامراد ٹھہرے گا کیو نکہ بہت سارے برہان وانی اب اس مشن کو بڑہانے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور پورا کشمیر، ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ لیکن اے کاش ! اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کوئی سید علی گیلانی عطار کرتے کہ جس نے اپنی پوری زندگی جس ہمت ہمت او استقامت کے ساتھ گزاری ہے وہ قابل دیدنی ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ جیل میں گزارنے والا یہ نوجوان بوڑھا پکار پکار کر ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے لیکن اے کاش کہ گہری نیند سوئے ہوئے ہر حکمران علی گیلانی اور کشمیریوں کی سرگو شیوں کو سن سکیں۔

    اک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانوں سے اٹھا
    آنکھ حیراں ہے کہ کیسا شخص زمانے سے اٹھا

  • یوم سیاہ اور بھارتی مظالم – خنیس الرحمن

    یوم سیاہ اور بھارتی مظالم – خنیس الرحمن

    1383ء میں میر سید علی ہمدانی جو ایک عالم دین اور اسکالر تھے ۔انہوں نے ایران سے کشمیر کا تین مرتبہ دورہ کیا۔آخری دورے میں وہ اپنے ساتھ سات سو سے زائد مسلم اساتذہ بھی لائے اور اسلام کی تبلیغ کی خاطرانہیں یہاں لا کر آباد کیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے میر محمد ہمدانی نے اس مشن کو جاری رکھا۔ اس کے بعد مقامی مسلمان بھی ان کیساتھ دین اسلام کو پھیلانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔کشمیر میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد سلطان سکندر نے (1398-1413) میں رکھی۔ انہوں نے شریعت کے قوانین نافذ کیے۔تیرہویں سے چودھویں صدی تک وادی کشمیر مسلمانوں کی آزاد ریاست رہی۔برصغیر مالی اعتبار سے خوشحال ریاست تھی۔1846ء میں برطانیہ کے کٹھ پتلی حکمران نے جموں و کشمیر کو ساتھ ملا لیا۔14اگست1947ء کے بعد انڈیپنڈنس کی دفعہ سات کے تحت تما م ہندوستانی ریاستوں سے برطانوی حکومت کا عمل دخل ختم ہوگیا۔اس موقعہ پر لارڈ ماونٹ بیٹن گورنر جنرل نے مشورہ دیا کہ الحاق کرتے وقت لوگوں کی خواہشات ،آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تقسیم کا خیال رکھا جائے۔سب سے پہلے ریاست جونا گڑھ اور کشمیر کے الحاق پر جھگڑ اہوگیا ۔وہاں ہندوؤ ں کی اکثریت زیادہ تھی اور نواب جونا گڑھ مسلمان تھا۔ اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جسے ہندوستانی حکومت نے ماننے سے انکار کردیا۔

    ایک طرف پاکستان کی آزادی کا اعلان ہو رہا تھا سب ہجرت کرکے پاکستان کی طرف رواں دواں تھے دوسری طرف بھارت سرکار 15اگست1947ء کو کشمیر پر فوجیں اتار کر غاصبانہ قبضہ شروع کرلیا اور پوری وادی میں ظلم وستم شروع کردیا جو آج بھی جاری ہے۔ برہان وانی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت سے لیکر اب تک تقریباََ 108 سے زائد دن بیت چکے ہیں۔ کوئی ایسا دن نہیں کہ کسی گھر سے جنازہ نہ نکلا ہو ۔بچوں ،بوڑھوں کو پکڑ کر اذیت ناک سزا دے کر تڑپا تڑپا مار دیا جاتا ہے ۔ماؤں بہنوں کی عزتوں کو تار تار کیا جاتا رہا۔پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے پر پوری وادی میں کرفیو لگا دیا گیا ۔کشمیری قوم نہ جھکنے والے ہے نہ بکنے والی ہے ۔کرفیو کو توڑ کر سینوں پر گولیاں کھا پھر بھی زبان ست پاکستان سے محبت کا نعرہ نہ لگانا گوارا نہ کیا۔بھارتی سورماؤں نے پیلٹ گن کی گولیوں سے چن چن کا نشانہ لیا اور ہزاروں کشمیریوں کو آنکھوں کی بصیرت سے محروم کردیا ۔اگر ان کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے کر جایا جاتا ہے راستے میں ایمبولینسز کو بھی نشانا بنایا جاتا ہے۔جو ڈاکٹر مقبوضہ وادی کے اندر مظلوم کشمیر یوں کا علاج کرتے ہیں ان کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیا ں دی جاتی ہیں۔وہ پیلٹ گن جو جانوروں کے شکار کے لئے استعمال کی جاتی ہے جس پر پابندی عائد ہے اس گن سے کشمیریوں کو زخمی کردیا جاتا ہے۔ہاں ہاں وہ کشمیری بچے جو گلیوں کوچوں میں کھیلنے کے لئے نکلتے ہیں ان کو پیلٹ کے چھرے مار کر زخمی کردیا جاتا ہے تو وہ معصوم اس درد کو برداشت نہیں کرپاتے اور دم توڑ جاتے ہیں۔بزرگوں کی داڑھیوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے۔قربان جاؤں ان کشمیریوں پر آزادی کی خاطر گولی کھا لیت ہیں پر اپنی زبان سے پاکستان مردہ باد کانعرہ نہیں لگاتے ،بھارتی غلامیوں کو قبول نہیں کرتے،کرفیو کھولا جاتا ہے وہ پاکستانی پرچم تھام کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ،قافلوں کے قافلے نکل کر ایک جگہ پر پڑاؤ کرتے ہیں اور وہاں پاکستان زندہ باد۔۔۔برہان بھائی کا کیا پیغام۔۔۔حافظ محمد سعید کا کیا پیغام ۔۔۔۔سید علی گیلانی کا کیا پیغام کے نعرے لگاتے ہیں ان کو گولیوں مار کر شہید کردیا جاتا ہے ۔جہاں بڑے ہیں وہاں بچے بھی آزادی کا کھیل کھیلتے ہیں ۔اپنی گلی میں سارے بچے مل ایک ریلی نکالتے ہیں چھوٹے چھوٹے اور معصوم بچے ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے لے کہ رہیں گے آزادی۔۔۔بن کہ رہے پاکستان۔۔۔بٹ کہ رہے گا ہندوستان۔

    سب سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں سب کی نظروں سے گزرتی ہیں وہ تصویر جن میں کہیں برہان وانی کی ماں اپنے بیٹوں کی تصویریں تھامی بیٹھی ہے،کہیں ماؤں کے ڈوبٹے کھینچے جاتے ہیں ،کہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹھوکریں ماری جاتی ہے۔کیا عجب شان ہے اس بچے کی ہاتھ میں غلیل تھامے کھڑا ہے سامنے ہندو فوجی گھبرائے کھڑے ہیں،کہیں بھارتی فورسز پر پتھراؤ کیا جارہا ہے ان کے پاس اسلحہ نہیں لیکن پتھروں سے مقابلہ کرتے ہیں۔جہاں تک کشمیری اس آزادی کی جدوجہد میں آگے آگے ہیں وہیں ان کے قائدین بھی ہیں جن کی بدولت وہ آگے نکلتے ہیں۔ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جس میں حریت کانفرنس اسلام آباد کے صدرنے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کی محبت،اخلاص اور دعاؤ ں نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے ہم وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی خاطر مرمٹنے کے لئے تیار ہیں ۔ہمارا کوئی کشمیری شہید ہوتا ہے ہم اس کی میت پر پاکستانی پرچم رکھ دیتے ہیں ۔

    کوئی شک نہیں اس میں برہان وانی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔وہ عید کے موقع پر اور نماز جمعہ کے بعد نکلتے ہیں ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھامتے ہیں اور بھارتی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔

    وہ آسیہ اندرابی دختران ملت کی سربراہ جن کے رفیق حیات کو ڈاکٹر قاسم فکتو کو پاکستان کی حمایت اور تحریک آزادی کے آزادی پر کتاب لکھنے کے جرم میں قید وبند کی صعوبتوں میں جھکڑ دیا جاتا ہے ۔آج دس سال سے زائد عرصہ بیت چکاہے وہ آج بھی زندانوں کے پیچھے ہیں ان کو ان کی رفیقہ حیات سے بھی نہیں ملنے دیا جاتا جب سے دونوں کی شادی ہوئی اس کے کچھ ہی عرصے بعد ان کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور آسیہ اندرابی صرف چار مرتبہ ان سے ملیں ۔

    آسیہ اندرابی جو ہر موقع پر پاکستان سے اظہار یک جہتی کے لئے اپنے دختران ملت کے مرکزی دفتر میں خواتین کے پروگرام کا انعقاد کرت ہیں ۔جہاں پاکستانی ترانے،نغمے پڑھے جاتے ہیں ،پاکستان کے حق میں تقاریر کی جاتی ہیں جیسے ہی پروگرام ختم ہوتا ہے بھارتی میڈیا چیخ اٹھتا ہے اور بھارتی فورسز بہادر خاتون کے ہاتھوں پر ہتھکڑیاں لگا دیتے ہیں اورکال کوٹھری میں بند کردیا جاتا ہے۔جب بھارتی میڈیا آسیہ اندرابی سے سال کرتا ہے تو وہ یہی کہتی ہیں ۔آزادی ہمارا حق ہے۔پاکستان ک

  • مسئلہ کشمیر: حل کی راہ میں رکاوٹ کون؟  – شہزاد احمد شانی

    مسئلہ کشمیر: حل کی راہ میں رکاوٹ کون؟ – شہزاد احمد شانی

    مسئلہ کشمیر کے حل کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے؟ جب اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہوں، تو گلوبلائزیشن کی فرضی ڈیفی نیشن پہ ہنس پڑتا ہوں اور اقوام عالم کے نام نہاد دعوؤں اور نعروں کو تعصب کے خمیر میںگوندا ہوا پاتا ہوں۔ اپنی سادہ دلی اور سادہ لوحی پہ رونا آتا ہے! اور اس پہ طرہ یہ کہ ہم نے اپنا مقدمہ موثر انداز میں شاید ان فورمز پہ اٹھایا ہی نہیں۔۔۔!

    مسئلہ کشمیر تین کرداروں کے گرد گھوم رہا ہے:

    انڈیا :
    جو کشمیر پہ ناجائز قبضہ کو برقرار رکھنے پہ بضد ہے اور اس ہٹ دھرمی پر انسانیت کے رشتہ کو بھی بھول چلا ہے۔ اگرچہ یہ جنگ اسے مالی اعتبار سے وہاں پہنچاگئی ہے کہ جہاں اسے اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق دینے کے وسائل کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔۔۔ کشمیری تو بارود کی بو میں سانس لینے پہ مجبور ہیں ہی، لیکن ہندوستانی شہری بھی بھوک اور ننگ کی نذر ہوئے ہیں!

    کشمیری عوام :
    ایک حصہ تو آگ اور خون سے گزر رہا ہے اور دوسرا تقریباً خواب غفلت کا شکار۔۔۔ مظفرآباد گزشتہ دہائیوں سے بیس کیمپ کے حقیقی رول سے محروم رہا ہے۔ برہان وانی کی شہادت، مقبوضہ وادی میں نوجوانوں کی حالیہ موومنٹ اور بھارت سرکار کی بوکھلاہٹ ہی کشمیر کی تحریک کو فیصلہ کن موڑ پہ لے گئی!

    پاکستانی سرکار:
    جو تقریباً ہر دور میں کشمیر کے نام کو اپنے مخصوص ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی رہی اور من گھڑت آپشنز کی نذر ستر سال کرگئی۔ جو بدقسمتی سے آج تک کوئی مستقل، پائیدار اور کشمیریوں کی امنگوں کی ترجمان پالیسی بنانے میں ہی کامیاب نہیں ہوسکی۔۔۔

    پاکستانی سرکار کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ 29 اگست کی شب دنیا نیوز کے پروگرام ”آج کامران خان کے ساتھ“ میں جب اینکر نے حالیہ تشکیل پائے جانے والا 22 رکنی وفد (جو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پہ اجاگر کرنے کے لیے بیرونی دنیا کے وزٹ پہ جانے کو ہے) کے ایک ممبر پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب علی وسان سے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ محبوبہ مفتی کون ہیں؟ شملہ معاہدہ کیا ہے ? اور لاہور ڈیکلریشن کیا تو ان کے پاس مضحکہ خیزی کے سوا کچھ نہ تھا۔

    جس فرد کو کشمیر کی الف، ب سے واقفیت نہیں وہ دنیا کو کیا قائل کرے گا؟ جس کو یہ نہیں پتا کہ محبوبہ مفتی کون ہے؟ کشمیری چاہتے کیا ہیں؟ وہ سیر سپاٹے کے علاوہ کیا کرپائے گا۔۔۔ حکومت وقت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو آخر کیوں صدر ریاست آزادکشمیر مسعود خان کو اس کمیٹی کی سربراہی نہیں دی؟ جو سالوں انٹرنیشنل فورمز کا تجربہ رکھتا ہے؟ کشمیری سیاسی قیادت کو کیوں اس اہل نہیں سمجھا گیا کہ وہ بھی اس کمیٹی کے ساتھ جاتے اور دنیا کے سامنے اپنا درد اور دکھڑا رکھتے؟ حریت رہنماؤں پہ کیوں اعتماد نہیں کیا گیا؟ کیا ان سے زیادہ درد اور کرب کسی اور کو ہے۔۔۔؟؟؟

    آخر اس کمیٹی کا ممبر بننے کی اہلیت کیا تھی؟ کیا محض یہی کہ ممبر، کشمیر کے حوالے سے کچھ بھی نہ جانتا ہو!! حکومت پاکستان کا ایک ہی احسان کیا کم تھا جو مولانا کو تحفے میں کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ سالوں سے دے رکھی ہے۔۔۔ اب مزید 22 رکنی وفد بناکر ایک اور احسان کردیا گیا۔۔۔

    پاکستانی دفتر خارجہ کو جب تک کشمیریوں پہ اعتماد نہیں آئے گا۔۔۔ جب تک اسلام آباد سرکار مظفرآباد اور سرینگر کو اس ضمن میں ایک طرح کا وزن نہیں دے گی ۔۔۔ جب تک میڈیا غیر ضروری بحثوں سے باہر نہیں نکلے گا۔۔۔ جب تک کشمیری عوام رنگ برنگے نعروں کی نذر رہیں گے اور رائے شماری جیسے بنیادی سوال کے بجائے آگے کی تاویلیں پہلے پیش کرنے کی سعی لاحاصل میں جتے رہیں گے۔۔۔ تب تک خونیں لکیر کے پار کشمیری اپنی ایک اور نسل آگ و خون کے اس کھیل کی نذر کردیں گے۔۔۔

  • زرد صحافت اسے کہتے ہیں!  –  احسان کوہاٹی

    زرد صحافت اسے کہتے ہیں! – احسان کوہاٹی

    یہ غالباً سولہ سترہ برس پرانی بات ہے جب روزنامہ امت کا دفتر کراچی کے گنجان ترین علاقے نامکو سینٹر میں ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب شہر ایم کیو ایم کے قبضے میں اور صحافت یرغمال ہوا کرتی تھی۔ تب نیوز چینلز نے جنم نہیں لیا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان ہی تھے، جو بلاشرکت غیرے سرکار کے قبضے میں تھے۔ لے دے کر اخبارات اور جرائد ہی بچے تھے، جو ایم کیو ایم سے بچے ہوئے نہیں تھے، سرشام ہی اخبارات کے فیکس نائن زیرو کے بیانات دینا شروع کردیتے جن کی نوک پلک سنوار کر اخبارات نمایاں طور پر شائع کرنے کے پابند ہوتے تھے۔

    ایسے میں روزنامہ امت اکلوتا اخبار تھا جس نے اس پابندی کو قبول کرنے سے علانیہ انکار ہی نہیں کیا، بلکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے کھل کر لکھنا بھی شروع کردیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب الطاف حسین کو لندن میں چھینک بھی آتی تو کراچی میں آٹھ دس معصوم شہریوں کا صدقہ دے دیا جاتا۔ اس ماحول میں امت کی بے باکی اکثر کی نظروں میں حماقت ٹہری تھی۔ ان دنوں ایڈیٹر صاحب کا معمول ہوتا تھا کہ وہ آٹھ نو بجے رپورٹنگ ڈیسک پر آتے اور ہر رپورٹر سے پوچھتے کہ آج کیا لائے ہو؟ خبر اچھی اور بڑی ہوتی تو وہ رپورٹر کو اپنے چھوٹے سے دفتر میں بلالیتے، خبر کے بارے میں سوال جواب کرتے، شواہد طلب کرتے کہ اس ایکسکلوزیو نیوز کے ثبوت کیا ہیں اور اس ادارے، شخص کا موقف کہاں ہے؟ موقف کے بنا خبر شائع نہیں ہوتی تھی۔ ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ جس کے خلاف خبر ہے، اس سے لازمی رابطہ کریں۔ اس کا موقف لیں، بے شک وہ گالیاں دے۔

    ایسے ہی اک رات ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے سے نکلے، رپورٹنگ ڈیسک پر پہنچے اور رپورٹروں سے کارگزاری پوچھنے لگے۔ ایک سینئر رپورٹر نے خبر سامنے رکھ دی جو ایم کیو ایم کی خاتون بااثر راہنما نسرین جلیل صاحبہ کے خلاف تھی۔ ایڈیٹر صاحب نے خبر ہاتھ میں لی اور پڑھنے کے بعد رپورٹر سے پوچھا کہ موقف کہاں ہے؟ رپورٹر نے پس و پیش کی کہ ایم کیو ایم والوں سے کیسے بات کی جائے؟ کیسے موقف لیا جائے؟ ایڈیٹر صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ موقف لو، اس کے بعد ہی خبر فائل کرنا۔ رپورٹر نے سعادت مندی سے سر ہلایا اور تار کھینچ کر ٹیلی فون کو قریب کھسکاکر نمبر ڈائل کرکے نسرین جلیل صاحبہ سے لگا۔ ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے کی طرف پلٹے تو آغا خالد صاحب نے رپورٹر سے پوچھا: ’’بات ہوگئی؟‘‘

    رپورٹر نے اثبات میں سر ہلایا جس پر آغا خالد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ فون تو ڈید پڑا ہوا ہے، موقف کیسے لے لیا؟ اب رپورٹنگ ڈیسک میں لگنے والا قہقہہ خاصا زور دار تھا۔

    آج سیلانی کو وہ واقعہ اور قہقہہ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے کہ اک دور وہ بھی تھا اور یک دور آج کا بھی ہے کہ صحافت کی لغت سے ہی ذمہ داری، اصول پسندی کے الفاظ نکال دیئے گئے ہیں۔ مقام افسوس یہ کہ ایسی بے اصول صحافت اب وہ اخبار بھی کررہے ہیں جو پاکستان کے بڑے اخبار قرار پاتے ہیں۔ جو فرنٹ پیج پر پاکستان کے سب سے بااصول لیڈر بابائے قوم کی تصویر فخریہ چھاپتے ہیں کہ قائد اعظم ان کا اخبار پڑھا کرتے تھے۔ انگریزی کے اسی بڑے اخبار کے صفحہ اول پر لگنے والی خبر نے اپنی ہی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

    سیلانی اسلام آباد سے دور کراچی میں رہتا ہے، لیکن اب فاصلوں کی اہمیت ہی کیا رہی ہے۔ سیکنڈوں منٹوں میں یہاں کی آگ کی تپش وہاں اور وہاں کی پھوہار کی بوندیں یہاں پہنچ جاتی ہیں۔ پھر کراچی کے اس بڑے انگریزی اخبار کی خبر ڈسکس کیسے نہ ہو، یہ خبر تو ملکی سرحدوں سے نکل کر نئی دہلی میں بھی مزے لے لے کر سنائی جارہی ہے کہ معاملہ پاکستان کا ہے۔ سچی بات ہے یہ خبر سیلانی کی نظر سے نہیں گزری تھی، البتہ اس نے سنا تھا کہ ایک بڑے انگریزی اخبار نے کچھ ’’بڑی بریکنگ نیوز‘‘ دی ہے۔

    سیلانی کو وہ خبر ای میل کی صورت اسلام آباد میں ایک دوست نے بھیجی، وہ دفاعی تجزیہ نگار ہیں، رابطہ ہوا تو پھبتی کستے ہوئے کہنے لگے ’’آج کل آپ کراچی والے کیا چلارہے ہیں۔۔۔۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں‘‘ سیلانی کو معاملے کا علم ہی نہیں تھا۔

    ’’ارے بھئی کراچی والوں نے ڈی جی آئی ایس آئی اور شہباز شریف کو بھڑا دیا اور آپ کو خبر ہی نہیں۔‘‘

    استفسار پر پتا چلا کہ ایک بڑے اور پرانے انگریزی اخبار نے کسی اجلاس کی خبر چھاپی ہے، جس میں بتایا گیا ہے شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کے درمیان گرما گرمی ہوئی ہے اور ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ سول اور عسکری قیادت فاصلے پر کھڑی ہے۔۔۔ سول حکومت کا گلہ ہے عسکری قیادت انتہا پسند جہادیوں کو سپورٹ کرتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان عالمی تنہائی کی طرف جارہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو سیدھا سیدھا سول اور ملکی سلامتی کے اداروں کو ایک دوسرے سے بھڑانے کی کوشش ہے۔ بھارت سمیت دنیا کو بتانا ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اور حکومت نے عسکری اداروں پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کے لیے اہم معاملات پر اتفاق رائے سے کارروائیاں ہونی چاہئیں۔

    ’’اوہ ان حالات میں یہ خبر تو واقعی خطرناک ہے۔ اگر کسی اردو اخبار میں شائع ہوتی تو شاید اتنا زیادہ مسئلہ نہ ہوتا لیکن یہ انگریزی اخبار تو بااثر سفارتی حلقوں میں پڑھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ سوچ سمجھ کر ہی خبر شائع کی گئی ہے۔‘‘

    انہوں نے سیلانی کو خبر ای میل کردی، جو اب سیلانی کے سامنے تھی۔ خبر کیا تھی نئی دہلی اور واشنگٹن کی باچھیں کھلارہی تھی۔

    ’’حکومت نے واضح اور غیر معمولی طریقے سے قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضا کردیا۔‘‘

    پیر 3 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ پہلا یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے۔ وہ پیغام یہ ہوگا کہ: فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی، جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے دورہ لاہور سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کی جائیں۔ یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔ زیر نظر مضمون ان شخصیات سے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جو رواں ہفتے ہونے والے اس اہم اجلاس میں شریک تھے، تاہم ان تمام افراد نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے جو باتیں کیں، ان کی تصدیق متعلقہ افراد کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔‘‘

    حیرت کی بات یہ تھی کہ خبر ہی میں کہا جارہا تھا کہ اس حوالے سے فریقین میں سے کسی نے تصدیق کی نہ آن دی ریکارڈ بات کی۔ پھر بھی خبر صفحہ اول پر چھاپ دی گئی۔ خبر میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا:

    ’’سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔ سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے، تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔

    شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکاء ششدر رہ گئے، تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔ قبل ازیں اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی کو رائج رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔‘‘

    ملک کے ٓبڑے انگریزی روزنامے میں سیاسی اور عسکری قیادت میں تلخ ملاقات کا الزام، اس کا ’’احوال‘‘ اور ’’فیصلے‘‘ رپورٹ کرنے والے نے اتنی بڑی خبر بنا موقف کے ہی نیوز ڈیسک کو دے دی اور پھرشاباش کہ اسے چھاپ بھی دیا گیا۔ سیلانی کے دوست نے بتایا کہ اصولی صحافت کے علمبرداروں نے اگلے روز وزیر اعظم ہاؤس سے آنے والی تردید بھی اندرونی صفحوں میں شائع کر دی۔

    اس خبر کے حوالے سے سیلانی کے دوست کا کہنا تھا یہ خبر دینے والے صاحب انگریزی اخبار کے رپورٹر ہی نہیں ہیں، وہ تو کالم نگار ہیں۔

    اصولی صحافت کی شاہکار خبر سیلانی کے لیپ ٹاپ پر اپنی تما م تر شرانگیزیوں کے ساتھ موجود تھی۔ اس خبر کا مقصد قومی سلامتی کے اداروں اور حکومت کو آنے سامنے لانے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے بجائے کیا ہوسکتا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جوبن پر ہے۔ بھارت سے بپھرے کشمیری سنبھلے نہیں سنبھل رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر مجاہدین کے حملے پھر سے بڑھ گئے ہیں۔ نوجوانوں نے پھر سے بندوقیں اٹھالی ہیں اور ایسی صورتحال میں جب بھارت پاکستان کو عالمی سطح پرتنہا کرنے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر توپیں لارہا ہے، راجھستان میں مورچے کھود رہا ہے، بارڈر کے دیہات خالی کرا رہا ہے، جنگی تیاریاں کررہا ہے، نریندرا مودی جنگ کے دنوں کے لیے اسلحے کی مخصوص پوجا کررہا ہے اور ہم یہاں اپنی ہی سول اور عسکری قیادت کو لڑوا رہے ہیں۔ دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت کچھ کہتی ہے اور فوج کچھ کرتی ہے۔۔۔

    بالفرض مان لیتے ہیں اجلاس میں ایسا ہی ہوا ہوگا تو بھی کیا اسے ان حالات میں خبر بننا چاہیے تھا؟ صحافی ہونے، اخبار نکالنے اور پیسہ کمانے سے پہلے ہم پاکستانی بھی ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم یہاں موجیں کررہے ہیں۔ مزے سے رہ رہے ہیں۔ یہاں سے کمائے جانے والے پیسوں سے ہمارے بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں اور ہم سالانہ تعطیلات میں دنیا کے مہنگے شہروں میں مع اہل و عیال پائے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے خودغرض ہوکر وطن کی نہیں، اپنی ان عیاشیوں کی ہی فکر کرلینی چاہیے کہ پاکستان ہے تو یہ عیاشیاں ہیں۔ ہم اس شاخ کو تو نہ کاٹیں جس پر آشیانہ ہے۔۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا سامنے میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو لب بھینچے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • جنت سے، کشمیری بچے کا بھارت کے نام خط

    جنت سے، کشمیری بچے کا بھارت کے نام خط

    (کشمیر میں قابض بھارتی پولیس کے ہاتھوں پیلٹ گن کے چھروں سے شہید ہونے والے بارہ سالہ معصوم طالب علم جیند احمد کا ایک دل کو لہو کر دینے والا فرضی خط لکھا گیا ہے۔ کوئی بھی صاحب دل اسے پڑھ کر آنسو نہیں روک پاتا۔ ریحان اصغر سید نے دلیل کے لیے اس کا ترجمہ کیا ہے، قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔)

    بنام انکل نعیم اختر
    وزیر تعلیم جموں کشمیر
    (برائے میرے امتخانات کی منسوخی)

    پیارے انکل!
    میں یہ بات آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ میں (یعنی جنید احمد کلاس ہفتم، رول نمبر ۲۹ نیو بونونت انگلش سکول سرینگر) دو ہزار سولہ کے سالانہ امتحانات میں شرکت نہیں کر سکوں گا جھنیں آپ نومبر دو ہزار سولہ میں ہر صورت کروانے کے لیے کمربستہ نظر آتے ہیں، کیونکہ میں پہلے ہی آپ سے بہت دور جا چکا ہوں۔

    میں اپنے گھر کے دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا جب ایک مہربان صورت پولیس انکل نے اپنی بدصورت نظر آنے والی بندوق سے مجھ پر گولی چلائی۔ اور پیلٹ گولیوں کی بوچھاڑ نے مجھے سر سے لیکر پاؤں تک چھلنی کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ پولیس انکل غلط فہمی کا شکار ہو کر مجھے کوئی ”مطلوب پتھر پھینکنے“ والا لڑکا سمجھے ہوں گے جو کہ میں نہیں تھا۔ مجھے ان پولیس انکل سے کوئی شکایت نہیں ہے۔

    پلیز! محبوبہ آنٹی کو بتا دیجیے گا کہ میں کسی فوجی کیمپ پر حملہ کرنے نہیں گیا تھا، اور ہاں! مجھے دودھ اور ٹافیاں پسند ہیں جس کا تذکرہ محبوبہ آنٹی نے دو مہینے پہلے راج ناتھ انکل (جو کے میرے دادا ابو جیسے ہیں) کے ساتھ پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ کیا انھوں نے سوالیہ انداز میں نہیں پوچھا تھا کہ کیا یہ پتھر پھینکنے والے لڑکے آرمی کیمپوں پر دودھ اور ٹافیاں لینے جاتے ہیں، جن پر وہ اپنی پتھربازی کے ذریعے حملہ کرتے اور نشانہ بناتے ہیں؟ یہ کہہ کر انھوں نے کشمیر میں ہونے والے بےگناہوں کے قتل عام اور بندوق سے محبت کرنے والی فورسز کی وحشت کو جائز قرار دیا تھا. مجھے ان فوجیوں سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے کیوں کہ انھیں قتل کرنے کی ہی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ ان کا کام ہے اور وہ اسی چیز کی تنخواہ لیتے ہیں۔

    میرے ہمسائیوں نے میرے زخمی جسم کو قریبی ہسپتال لے جانے کی کوشش کی لیکن میرے گھر سے ہسپتال کا مختصر سا فاصلہ بہت طویل ثابت ہوا اور اسی دوران میری زندگی کی بچ جانے والی سانسوں کا سلسلہ پورا ہو گیا۔

    اب جب میں اپنی قبر میں ہوں، آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کے میرا سارا سابقہ تعلیمی ریکارڈ اور نتائج ضائع کر دیے جائیں اور مجھ پر رول نمبر سلپ جاری کرنے کی عنایت نہ کی جائے، جس طرح لیلہار پور کی شائستہ حامد کو اس کی موت کے دو مہینے بعد کامیاب قرار دیا گیا تھا۔

    میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے ایسی جگہ بھیجا ہے جہاں پامپور کے ایک اُستاد شبیر احمد مونگا پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں میرے پاس بے پناہ وقت ہے کہ میں ان سے پڑھوں اور منطق، دلیل سے تنقید کرنے کی زبان جانوں۔

    میں اس لیے بھی آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے میرے پرانے قصبے ورمول کے دوست فیضان سے ملوا دیا ہے جسے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور آزاد گنج پل ورمول سے دریائے جہلم میں پھینک دیا گیا تھا۔ اب ہم یہاں خوب انجوائے کریں گے، کھلا وقت ہوگا اور پھر یہاں قتل کیے جانے، اندھا یا معذور ہونے کا ڈر بھی تو نہیں ہے.

    برائے مہربانی میرا پیغام محبوبہ آنٹی تک پہنچا دیجیے کہ وہ میری قبر پر آنے کی زحمت نہ فرمائیں کیوں کہ میں ان کو یہ کہتا ہوا نہیں سن سکتا کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا، آپ اس کے لیے مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟ میں ان سے بھی ناراض نہیں ہوں۔

    شاہ فیصل انکل میں آپ کی کمپین ”کشمیری باکس ڈاٹ کام“ کا حصہ نہ بننے پر معذرت خواہ ہوں، جس میں آپ نے اندھے ہو جانے والے بچوں کے لیے کتابیں اور دوسری تعلیمی اشیاء دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے. ان کا منصوبہ مجھے پیلٹ سے اندھا کرنے کا تھا، لیکن رحم دل پولیس انکل نے مجھے اندھا کرنے سے مار دینا زیادہ مناسب سمجھا۔

    میں ذاتی طور پر اس پولیس والے انکل کا انتہائی شکرگزار ہوں جھنوں نے مجھے اندھا کرنے کے بجائے قتل کر کے مجھے اپنے والدین پر بوجھ بننے سے بچا لیا۔ میں پرانے قصبے وارمول کے اعجاز کبیر بیگ کے والدین کا درد سمجھ سکتا ہوں جسے اپنی والدہ کی دوائی خریدنے کی پاداش میں اندھا کر دیا گیا تھا۔

    خدارا میرے والد کو نہ ستائیےگا، میں انھیں قائل کر لوں گا کہ وہ میرے قتل کی کوئی ایف آئی آر نہ کٹوائیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ انھیں تھانے میں بلا کر دھمکائیں گے نہ خوفزدہ کریں گے، اور نہ حصول انصاف کی کوشش میں برے انجام سے ڈرائیں گے.

    مجھے اس شاندار طریقے سے الوداع کہنے پر میں آپ کا انتہائی ممنون ہوں۔ ایسا شاندار الوادعیہ منتخب لوگوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔ اگرچہ میری آنکھیں بند ہوگئیں اور جسم بے جان ہو گیا مگر اس کے باوجود میں پاوا شیلز کی شدت اور تلخی محسوس کرتا رہا۔ ہاں! میں اس کے لیے مودی انکل سے بھی کوئی شکایت نہیں کر رہا۔

    آپ سے حقیقی محبت کرنے والا،
    لیکن مردہ طالب علم

    جنید احمد
    کلاس ہفتم
    رول نمبر ۲۹
    نیو بونووانت ہائی سکول نیو کمپس
    اعلی مسجد ہال روڈ
    سرینگر، کشمیر

  • پیار کی باتیں کرنے والو، قاتل کیوں بن جاتے ہو؟ میر عرفان احمد

    پیار کی باتیں کرنے والو، قاتل کیوں بن جاتے ہو؟ میر عرفان احمد

    %d9%85%db%8c%d8%b1-%d8%b9%d8%b1%d9%81%d8%a7%d9%86 کشمیر ان دنوں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ 8جولائی 2016ء کو عسکری کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے مابعد تا حال 92 افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اسی طرح زخمیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 15 ہزار کے قریب افراد بُری طرح سے زخمی ہوگئے ہیں۔ حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ زخمیوں پر مہلک اور بدنام زمانہ ہتھیار ’پیلٹ گن‘ چلا کر زندگی بھر کے لیے مضروب کردیا گیا ہے جن میں ایک ہزار کے قریب ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کی آنکھوں کو راست نشانہ بنایا گیا اوراور اس طرح اُن کی آنکھوں کی روشنی کو ہمیشہ کے لیے گل کردیا گیا۔ اس طور یہ واضح ہوگیا کہ سال رفتہ کے دوران کشمیر کی نئی نسل کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ناکارہ بنا دیا گیا۔ رواں احتجاجی مظاہروں کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ بھارت کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں ایک واقعہ ضرور درج کرنا چاہوں گا۔ چند سال قبل جب فلسطین کے اندر اسرائیلی فوج کی جارحیت آسمان کو چھو رہی تھی تب ایک واقعہ نے دنیا بھر کے میڈیا میں تہلکہ مچادیا۔ ’’اسرائیلی فوج جب فلسطین کی ایک بستی کے اندر داخل ہوئی تو وہاں پر مہلک ہتھیار کا بھرپور استعمال کیا گیا جس سے وہاں کے تعمیری ڈھانچے کو زمین بوس کردیا گیا۔ کسی ڈھیر کے پیچھے ایک چھوٹا بچہ اپنے بوڑھے والد کے ساتھ پناہ لیے ہوئے تھا۔ اسرائیلی فوج کی نظر جونہی اِن پر پڑی تو انہوں نے اپنی بندوقوں کے دہانے اس بچے کے طرف کردے۔ بوڑھا والد یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا اور اسرائیلی فوج کے سامنے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگنے لگا۔ بضد فوجیوں نے بوڑھے والد کی ایک بھی نہ سنی۔ بوڑھا والد فوجیوں سے کہنے لگا کہ آپ کو اگر مارنا ہی ہے تو مجھے مارو، یہ بے چارہ ننھا بچہ آپ کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ مگر فوجیوں نے اس کو جو جواب دیا وہ نوٹ کرنے کے قابل ہے۔ فوجی اہلکاروں نے اس بزرگ سے کہا کہ تم تو ایک دو سال کے اندر خود ہی مرجائو گے لہٰذا تمہیں مارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں تو اس بچے کو مارنا ہے جو ہمارے لیے خطرہ بنا ہوا ہے کیوں کہ اس کا عزم ابھی جوان ہے اور یہ مستقبل میں ہمارے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس طرح ان درندہ صفت فوجیوں نے باپ کی آنکھوں کے سامنے بیٹے کو مہلک ہتھیاروں سے بھون ڈالا‘‘۔ اسی پالیسی کے تحت اگر رواں تحریک کا جائزہ لیا جائے توجاں بحق اور زخمیوں میں سے 95 فیصد اُن بچوں کی ہے جن کا جوش اور ولولہ قابل دید تھا۔ ساتھ ہی یہ اُس کمیونٹی سے وابستہ تھے جو ریاست کے تعلیمی اداروں کے اندر زیر تعلیم تھے۔

    جولائی 2016ء کے بعد سے وادی کا سیاسی نقشہ ہی تبدیل ہوچکا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں ٹھپ، تعلیمی ادارے ویران اور سڑکیں ریگستان کا منظر بیان کر رہے ہیں۔ اگر چہ تعلیم کا حصول انسان کا بنیادی حق ہے۔ دینی اور دنیاوی اعتبار سے اس کا حاصل کرنا واضح ہے۔ لہٰذا کسی انسان کو اس حق سے محروم کرنا اور اس کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کرنا گویا انسان کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ موجودہ دنیا میں مقامی سطح سے لے کر عالمی سطح تک ایسے بہت سارے غیر سرکاری ادارے (این جی اوز) قائم کیے گئے ہیں جو بچوں کو تعلیم کے نور سے روشناس کرانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ لیکن کشمیر کے سیاسی منظرنامے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں پر ہمیشہ مفاد پرستوں اور اقتدار کے پجاریوں نے تعلیم جیسے اہم شعبہ کو اپنی لن ترانیوں کے ذریعہ استعمال کرکے مظلوم اور بے بس قوم کو ہی غیر یقینیت کے لیے ذمہ دار گردانا ہے۔ جب بھی کبھی یہاں کے عوام نے ریاست کے سیاسی حل کی خاطر اپنا احتجاج بلند کیا جبھی غیروں کے حاشیہ برادروں نے تعلیم کو ’شیلڈ‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سادہ لوح عوام کو گمراہ اور تحریک کے تئیں بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ماضی میں بھی ایسے حربے آزمائے جاچکے ہیں اورآج 2016ء کی احتجاجی لہر میں بھی اب تعلیم کا ہتھکنڈا استعمال میں لاتے ہوئے عوام کے عزم و استقلال کو متاثر اور ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔

    اس سلسلے میں مخلوط حکومت کے ترجمان اور پی ڈی پی سے وابستہ وزیر تعلیم جناب نعیم اختر بڑے ہی پریشان حال دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ پچھلے ڈھائی مہینوں سے وادی کے یمین و یسار سے لوگ سڑکوں پر آ کر ’پی ڈی پی، ہائے ہائے‘ کا نعرہ بلند کر رہے ہیں وہیں وادی کے اندر متعدد مقامات پر پی ڈی پی ممبران اور ذمہ داران کو اپنی اوقات بھی یاد دلا رہے ہیں۔ خود وزیر تعلیم جناب نعیم اختر کو بانڈی پورہ کے راستہ پنزی نارہ کے مقام پر مقامی لوگوں نے پتھروں کا نشانہ بناتے ہوئے اُنہیں اُن کی اصلیت سے واقف کرایا۔ اگرچہ وزیر موصوف نے صبح پو پھٹتے ہی اخبارات کے اندر بیان جاری کروایا کہ ’خالی دو عدد پتھر میری گاڑی کو لگے‘۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں پی ڈی پی سے وابستہ عبدالحق خان کا کرناہ کپواڑہ میں پتھر بازی سے استقبال کیا گیا۔ المیہ تو تب ہوا جب ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو کولگام میں کافی خفت اُٹھانی پڑی جہاں موصوفہ کی آرمی اور پولیس نے ایک نہتے اور پُرامن نوجوان کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایاتھا۔ محبوبہ مفتی صاحبہ نے جونہی شہید کے گھر واقع کولگام جاکر اپنی امیج کو میڈیا کے اندر ٹھیک کرنا چاہا تو فوراً علاقہ کے اندر احتجاج شروع ہوا، لوگوں کو مساجد کے لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ سڑکوں پر آنے کو کہا گیا اور اس طرح مفتی صاحبہ صرف ’آٹھ منٹ‘ وہاں پر قیام کرسکیں اور فوراً فوج اور پولیس کی چھتراچھایا میں اُلٹے پائوں رفوچکر ہوگئیں۔ اس واقعہ کا اہم اور دلچسپ پہلو یہ تھا کہ محبوبہ مفتی کو کولگام جانے کے لیے لوگوں نے راستہ مہیا نہیں کیا بلکہ مفتی صاحبہ کو فوج کا ہیلی کاپٹر منگانا پڑا جس کے ذریعے وہ گپکار کے عالی شان محل سے سیدھے کولگام کے فوجی کیمپ کے اندر لینڈ ہوئیں۔ متعلقہ بستی کے لوگ محبوبہ مفتی صاحبہ سے اس قدر نالاں تھے کہ جس مقامی پی ڈی پی بلاک صدر نے یہ پروگرام طے کیا تھا، مقامی لوگوں نے اُس کے گھر کو بھی پھونک ڈالا۔

    پی ڈی پی کا زوال یہی پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ جاریہ احتجاجی لہر کے دوران پی ڈی پی سے وابستہ ممبران اور دیگر مقامی ذمہ داروں کی بڑی تعداد نے گزشتہ مہینے کے دوران سرعام احتجاجی کانفرنسوں اور ریلیوں کے دوران پارٹی سے استعفیٰ دیا اور عوام سے اپنی غلطیوں پر معافی طلب کی۔ پارٹی کے اندر بڑا زلزلہ تب آیا جب پارٹی کے بانی ممبر اور وسطی کشمیر سے منتخب ہوئے ممبر پارلیمنٹ طارق حمید قرہ نے پریس کانفرنس کے دوران استعفیٰ دے دیا۔ طارق حمید قرہ جن کی وجہ سے پی ڈی پی سرینگر اور ملحقہ علاقوں میں مضبوط ہوئی تھی، نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی صاحبہ کی پول کھول کر رکھ دی اورکہا کہ پی ڈی پی کے ’عریاں مظالم‘ حد سے تجاوز کرگئے ہیں اور اسی لیے میں پارٹی اور پارلیمنٹ سے مستعفی ہو رہا ہوں۔ ایسے حالات میں پی ڈی پی کی لیڈرشب سکتے میں ہے اور اپنی مجروح ہی نہیں بلکہ مہلوک ساکھ کو از سرنو زندہ کرنے کی خاطر اب وزیر تعلیم جناب نعیم اختر صاحب کو ’تعلیم بچائو مہم‘ کے تحت میدان میں اُتارا گیا ہے۔ وزیر تعلیم جناب نعیم اختر اپنی میٹھی اور تیکھی زبان سے جہاں آزادی پسندوں اور عوام کی تنقید کرتے ہوئے تمام ہلاکتوں کے لیے اُنہیں ذمہ دار ٹھہراتے ہیں وہیں دوسری جانب سرعام سیمیناروں اور سرکاری مجالس میں عوام کو ’ولر کنارے‘ پڑھنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ وزیر موصوف ’سکے کے دورخ ‘ کے مانند جہاں موجودہ احتجاجی لہر کو آزادی پسندوں اور پاکستان کی کارستانی قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق جیسے آزادی پسندوں کی تعریفوں کی پُل باندھتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں۔

    بہرحال گزشتہ ہفتہ محکمہ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات کو منعقد کرنے کے لیے ڈیٹ شیٹ کا اجراء کیا گیا ۔ اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ کے وزیر جناب نعیم اختر نے گزشتہ ایک مہینے سے اپنی چال میں تیزی لاتے ہوئے ریاستی طلبہ و طالبات کو امتحانات کے لیے تیار رہنے کو کہا۔ 8 جولائی سے وادی کے اندر جو حالات بنے ہوئے ہیں اُن میں امتحانات تو دور کی بات، جسم اور روح کے رشتہ کو قائم رکھنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کی فوج، سی آر پی ایف اور پولیس کی طرف سے بے تحاشا گولیوں اور پیلٹ کے چھروں کا استعمال کرکے جہاں تاحال 92 افراد شہید ہوچکے ہیں وہیں ہزاروں کی تعداد میں وادی کے ادھ کھلے پھول ہسپتالوں میں درد سے کراہ رہے ہیں۔ احتجاج کے دوران فورسز کی بربریت کا اس طور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی نوخیز نسل کے چہروں اور آنکھوں پر راست وار کر دیا گیا ہے اور اس طرح وادی کے ہر گھر کے اندر ماتم جیسا ماحول برپا ہے۔ جس گھرکے اندر 4 سالہ زہرہ پیلٹ چھروں کے درد سے کراہ رہی ہو، جہاں 14 سالہ انشاء نامی بچی پر پورا پیلٹ کا کاٹریج فائر کرکے اس ادھ کھلے پھول کو ہمیشہ کے لیے نابینا بنایا گیا ہو، جہاں 8 سے 19 برس کی عمر کے قریباً سو طالب علم پیلٹ سے مکمل طور نابینا ہوچکے ہیں، کیا وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ذمہ دار بتا سکتے ہیں کہ درد سے اس قدر جوجھ رہی ریاست کی نوخیز نسل کیسے امتحانات میں شامل ہوسکتی ہے؟ کیا وزیر تعلیم انشاء نامی بچی کا بچپن دوبارہ لوٹا سکتے ہیں جس کا خواب حقیقت بننے سے قبل ہی ٹوٹ گیا؟ نیوتھید ہارون کے11 سالہ ناصر شفیع نامی طلب علم جس کے پیٹھ پر ’ویر سینائوں‘ نے پورا پیلٹ چلاکر اپنی درندگی کا برملا اظہار کیا۔ ناصر نے نہ ہی فورسز پر کوئی پتھر مارا تھا اور نہ ہی کسی فورسز گاڑی کو جلایا تھا بلکہ یہ کمسن جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے روانہ ہواتھا۔ ناصر کے والدین اس اُمید سے گھر میں انتظار کر رہے تھے کہ سہ پہر کی چائے گھر کے سب لوگ اکٹھے نوش کریں گے مگر اس کم سن پھول کو بھی زندگی کی بقیہ بہاریں دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔ باسط مختار ساکن پلوامہ نامی طالب علم بھی ظالم فوجیوں کی بربریت کا شکار ہوکر ظلم بےگناہی کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ اس طرح ریاست کے اندر ایک ہزار کے لگ بھگ ایسے ادھ کھلے پھولوں کی زندگیوں کو جناب نعیم اختر صاحب کے ’ویروں‘ اور ’دیش بھگتوں‘ نے ہمیشہ کے لیے تباہ کردی۔ 16سالہ جاوید احمد نجار، 18سالہ جاوید احمد شیخ، 26 سالہ منظور احمد لون ، 25 سالہ محمد اشرف بٹ اور 15سالہ فاروق احمد بٹ ساکنان آری پانتھن بیروہ کی کون سی خطائیں تھیں کہ اُن کو جینے کے حق سے محروم کردیا گیا۔ طلبہ پر ہی نہیں بلکہ معلمین پر بھی فورسز نے اپنا قہر جاری رکھا۔ سرینگر کے مضافات شار شالی کھریو کے رہنے والے30 سالہ شبیر احمدمنگو جو حال ہی میں امر سنگھ کالج میں لیکچرار تعینات ہوا تھا، کوبھی بڑی بے دردی سے دوران حراست شہید کردیا گیا۔ موصوف کی بستی کے اندر رات کے گیارہ بجے فوج کی بھاری جمعیت نے پہلے بستی کو جانے والی بجلی سپلائی بند کردی اور پھر گھروں کے اندر داخل ہوکر بےتحاشا توڑ پھوڑ کرکے مکینوں کی ہڈی پسلی ایک کرکے رکھ دی۔ صبح فجر سے پہلے ہی مقامی پولیس پوسٹ کے ذریعے شبیر احمد کے لواحقین کو لاش لے جانے کے لیے کہا گیا۔ کیا جناب نعیم اختر صاحب بتاسکتے ہیں کہ ایسے حالات میں یہاں کی نوخیز نسل کون سا امتحان دے پائے گی؟

    صورتحال کا گھمبیر پہلو یہ ہے کہ جہاں محکمہ تعلیم کے وزیر آئے روز طلبہ کو اسکول اور کالج آنے کے میڈیا پر احکامات جاری کرواتے ہیں وہیں اس سارے غبارے سے نئی دہلی نے ہوا نکالتے ہوئے 1990ء کی طرز پر یہاں دوبارہ تعلیمی اداروں کے اندر فوج اور دیگر فورسز ایجنسیوں کو تعینات کیا ہے۔ ایس پی ہائر اسکنڈری اسکول و کالج، گورنمنٹ گرلز ہائر اسکینڈری اسکول کوٹھی باغ، ڈی اے وی جواہر نگر، گورنمنٹ کالج برائے خواتین واقع نواکدل، سونہ وار اور راجباغ کے اسکولوں کے علاوہ مختلف اضلاع میں اسکولوں اور کالجوں میں اس وقت فورسز کی مختلف ایجنسیوں سے وابستہ اہلکار تعینات ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہر سرینگر کے ان نامی گرامی اسکولوں اور کالجوں کو وزیر تعلیم ’سمارٹ اسکولز‘ کے زمرے میں لانے کا شوشہ عام کرچکے تھے مگر عینی شاہدین کے مطابق فورسز نے ان اداروں میں اپنا قبضہ جماتے ہوئے اسکولوں کی ہیئت ہی تبدیل کر دی ہے۔ مقبوضہ اسکولوں کے اندر بنکروں کا جال بچھایا گیا ہے اور عمارتوں کا رنگ و روغن بھی تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اسکولوں کے اندر پارکوں اور گراؤنڈ پر کافی سرمایہ لگایاگیا تھا مگر وہاں آج فوجی اہلکاروں نے اپنی گاڑیاں گھسادی ہیں۔ ساتھ ہی کلاسز کے اندر موجود ڈیسک اور ٹیبل کو باہر پھینک دیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں کیا یہ مناسب ہوگا کہ بچوں کو اسکول اور کالج آنے کے لیے کہا جائے اور اُن سے امتحان دینے کا مطالبہ کیا جائے؟

    والدین بھی اس نازک صورتحال میں اپنے بچوں کے تئیں متفکر دکھائی دیتے ہیں۔ بچوں کے والدین نے وزیر تعلیم کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اگر ڈیٹ شیٹ کا اجراء کیا گیا ہے، تو کیا وزیر موصوف بتاسکتے ہیں کہ طلبہ امتحان کہاں دیں گے؟ فیس بک پر بلال احمد میر نامی نوجوان نے پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کشمیریوں کو سبق سکھانے کے لیے فوج کو بلایا گیا ہے لہٰذا آج سے تمام امتحانات وزیر تعلیم جناب نعیم اختر صاحب کے گھر پر منعقد ہوں گے‘‘۔ عوام کا کہنا ہے کہ خدانخواستہ کل کہیں اگر کسی اسکول پر نامعلوم افراد نے تحریک ’حق خود ارادیت‘ کو بدنام کرنے کی غرض سے گرینیڈ داغا یا فائرنگ کی، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ لہٰذا ایسے حالات میں وزیر تعلیم کی ’امتحان اسکیم‘ صحیح معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی والدین اپنے بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے روادار ہے۔ حکومت کی ’امتحان پالیسی‘ کو لے کر گزشتہ کئی دنوں سے طلاب سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ طلاب جہاں امتحان کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں وہ حالیہ احتجاج کے دوران شہید اور زخمی ہوئے بچوں کو انصاف فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر ’مرغے کی ایک ٹانگ‘ کے مصداق حکومت ہمیشہ طاقت کی زبان ہی سمجھتی ہیں اور یہاں بھی کئی مقامات پر ننھے منھے بچوں پر ٹائر گیس کا استعمال کرکے حکومت نے اپنی پوزیشن مضحکہ خیز بنا دی ہے۔ کولگام سے لے کر کیرن کی وادیوں تک اسکولی طلاب حکومتی فیصلہ کے خلاف نالاں ہیں۔ گزشتہ روز سرینگر کی پریس کالونی میں احتجاجی طلاب نے وزیر تعلیم جناب نعیم اختر کی ’امتحان پالیسی‘ کو فوری طور پر منسوخ کرنے کامطالبہ کیا۔ احتجاج میں شامل طلبہ نے حکومت کو رواں احتجاجی مظاہروں کے دوران جاں بحق اور زخمی ہوئے بچوں کو انصاف فراہم کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی مشنری کو باور کرایا کہ جب تک نہ مسئلہ کشمیر کو یہاں کے عوام کی اُمنگوں کے عین مطابق حل کیا جائے‘ تب تک طلبہ کسی بھی امتحان میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس طرح ان ننھے منھے بچوں نے سیاست کی گلیاروں میں ہلچل مچاکر حکومت وقت کو ہوش کے ناخن لینے کا بھی مشورہ دیا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جہاں تک ریاست کی سیاسی پوزیشن کا سوال ہے، پی ڈی پی کو اس بات کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرے مگر جہاں بات ’امتحان‘ کی ہو، جناب نعیم اختر اس بارے میں دو قدم اُٹھاسکتے ہیں جو بہرحال وقت کا تقاضا ہے۔

  • بس مان لیجیے ثبوت نہ مانگیے – احسان کوہاٹی

    بس مان لیجیے ثبوت نہ مانگیے – احسان کوہاٹی

    بھارتی جرنیل نے ثابت کر دیا کہ سردار جی پھر سردار جی ہی ہوتے ہیں چاہے وہ امرتسر میں ٹاٹا ٹرک چلا رہے ہوں یا پھر ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن بن کر کالے کیمروں کے سامنے سفید جھوٹ بول رہے ہوں، لیفٹننٹ جنرل رنبیر سنگھ کی اس نیوز کانفرنس کو اعلان کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے جس میں سردار جی نے کسی کو سوال کی اجازت دینے سے پہلے ہی یہ کہہ کر کرسی خالی کر دی کہ ہم نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے اور گھس بیٹھ کرنے والوں کا لانچنگ پیڈ تباہ کر دیا ہے۔

    ranbir-singh-pti-l رنبیر سنگھ کے اس اعلان پر بھارتیوں نے مندروں کی گھنٹیاں بجا دیں، شدت پسند بھارتی چہرے پر گلال مل کر ترنگا ہاتھ میں لیے فاتحانہ نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے، ممبئی سے لے کر احمد آباد، راجھستان سے لے کر ہریانہ تک بھارتیوں کے پژمردہ چہرے کھل اٹھے، یہ منظر سیلانی نے بھی دیکھے اور شاید آپ نے بھی سوشل میڈیا پر دیکھے ہوں جب انتہا پسند بھارتی چہروں پر رنگ ملتے ہوئے ایک دوسرے کے منہ میں لڈو ٹھونس رہے تھے، سڑکوں پر ناچ رہے تھے کہ پاکستان کو سبق سکھا دیا، بھارتی میڈیا کے کلیجے میں بھی ٹھنڈ سی پڑ گئی، گلے کی رگیں پھاڑ پھاڑ کر چلانے والے نیوز چینلز کے اینکرز کی خوشی بھی دیدنی تھی کہ ان کی محنت رنگ لے آئی، بھارت کے ہر نیوز چینل کی ایک ہی ہیڈ لائن تھی، ہر اخبار کی ایک ہی شہ سرخی تھی اور ایسا بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آیا تھا۔ سیلانی کی یاداشت میں وہ منظر اب بھی محفوظ ہے جب بھارت نے ایٹمی دھماکوں کا اعلان کرکے اپنے مسلز دکھائے تھے، تب بھی بھارت میں ایسی ہی شادی مرگ کی کیفیت تھی، ترشول بردار دیوانہ وار سڑکوں پر نکل کر ناچے تھے، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائیاں ختم ہو گئی تھیں، اس روز بھی ایسی ہی دیوانگی تھی جسے چاغی کے رنگ بدلتے پہاڑ نے کافور کر دیا، بھارت کی جانب سے مسلز دکھائے جانے کے بعد پاکستان نے بھی آستینیں چڑھا کر اپنے مسلز دکھا دیے تھے، پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکوں نے بھارتیوں کی خوشی سے نقطے چھین لیے تھے۔ ویسا ہی منظر سیلانی کا لیپ ٹاپ آج پھر بھارت میں دکھا رہا تھا، پہلے تو بھارتی خوشی سے ناچ ناچ کر نہ تھکے کہ ان کے لیے اس سے بڑی خبر کیا ہو سکتی تھی کہ ان کی فوجی پاکستان میں جا گھسیں اور صحیح سلامت واپس آجائیں، اس کرشمے پر انہیں اچھلناہی چاہیے تھا، مندر میں ناریل پھوڑنے چاہیے تھے، ٹن ٹن ٹنا ٹن گھنٹے بھی بجانے چاہیے تھے اور وہ ایسا ہی کر رہے تھے، یہ پہلا منظر ہے جو سیلانی نے آپ تک پہنچایا ہے۔

    default اب یہ دوسرا منظر دیکھیے، پاکستان نے بھارت کی اس ’’شرارت‘‘ کو بالکل جھوٹ قرار دے ڈالا البتہ تسلیم کیا کہ بھارتی فوجوں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اندھا دھند فائرنگ کرکے دو جوان شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا ہے، بھارت نے پاکستان کے اس اعتراف کو بڑی کامیابی قرار دیا، ڈھول تاشوں کے ساتھ خوب بارات گھمائی، سیلانی بس ایک نیوزچینل’’آج تک نیوز‘‘ کی اسکرین کا منظر آپ کے سامنے لا رہا ہے، یہ کوئی پرائم ٹائم پروگرام تھا جس میں ایک جانب ایک دیش بھگت بھارتی ریٹائرڈ بریگیڈئیر تھے تو دوسری جانب ایک نیتا جی بیچ میں باچھیں پھیلائے میزبان اپنی خوشی پرقابو پاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
    ’’آپ کیا کہتے ہیں پاکستان نے بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کو ایک دم ڈرامہ قرار دے کر ماننے سے انکار کر دیا ہے، ویسے اسے ماننا بھی نہیں چاہیے، مان لیتا تو اپنی جنتا کو کیسے سنبھالے گا جو پیٹ کاٹ کاٹ کر پھوج کا کھرچہ اٹھا رہی ہے؟‘‘
    ’’بالکل ٹھیک کہا، میں آپ کی بات سے پورا پورا سہمت ہوں، پاکستان نے دو فوجیوں کی ہلاکت بھی مان لی ہے تو بڑی بات ہے سمجھیے کہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔‘‘
    اسی طرح کے مناظر دیگر نیوز چینلز کی اسکرینوں کے بھی تھے لیکن آہستہ آہستہ گرد بیٹھنا شروع ہوئی، سیاہ چہروں کے گلال اترنے لگے، منہ میں ٹھسے لڈو اگلی صبح ریل کی پٹڑیوں پر بدبوکی صورت پڑے دکھائی دیے، سرکتے ہوئے جوش کی جگہ ہوش نے لی تو سوال اٹھنے لگے
    ’’بھیا! کوئی سرجیکل اسٹرائیک ہوا تھا تو کسی مسلے فوجی کا سر ہی کاٹ لائے ہوتے۔‘‘
    ’’اور کچھ نہیں تو سالے پاکستانی پھوجی کی وردی سے اس کے نام کا بیج نوچ لایا ہوتا۔‘‘
    ’’پردھان منتری جی !سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے تو کوئی ثبوت تو ہوگا، آجکل گوگل کا دور ہے، اوپر سیٹلائٹ کھڑے ہیں، کوئی فوٹو شوٹو ہی دکھاؤ، ہم بھی دیکھیں ہمارے فوجی کیسے مار کرتے ہیں؟‘‘

    ادھر پاکستان لائن آف کنٹرول پر عالمی میڈیا کو جمع کرکے لے جاتا ہے کہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں بھارت نے گھسنے کا دعویٰ کیا ہے، دفاعی معاملات اور میدان جنگ کی رپورٹنگ کرنے والے پیشہ ور صحافی ہر ہر زاویے سے بھارتی فوجیوں کے ’’کھرے‘‘ تلاش کرکے کے تھک گئے لیکن کچھ ہوتا تو ملتا۔

    delhi-cm-aap-arvind-kejriwal اب آپ کو سیلانی پھر واہگہ پار لیے چلتا ہے، یہاں اب خوشی کی جگہ بے چینی نے لے لی ہے، جنتا کہہ رہی ہے کہ وہ بیٹا تو ہماری گود میں ڈالو جس کی مٹھائی کھائی اور کھلائی ہے۔ یہ دیکھیے یہ منظر بھارت کے مشہور انگلش نیوز چینل انڈیا ٹوڈے کے پرائم ٹائم پروگرام کا ہے، اس میں عام آدمی پارٹی کے نیتا جی اور دہلی کے وزیر اعلی ارویند کجریوال کہتے ہیں’’پچھلے دو تین دن سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان انتراشتپ پترکاروں کو لے لے کر بارڈر پر جا رہے ہیں اور یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دیکھو سرجیکل اسٹرایک تو ہو ہی نہیں رہے، دو دن پہلے یونائیٹڈ نیشنز نے بیان دیا ہے کہ اس طرح کی بارڈر پر کوئی حرکت نہیں دیکھی گئی‘‘۔
    اس کلپ کے بعد اب اسکرین پر کانگریس لیڈرسنجے نیروم پام دکھائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں،
    ’’جو بھی سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ سرکار کر رہی ہے وہ صحیح ہے یا غلط، مجھے نہیں لگتا کہ میرے حساب سے تو جعلی لگ رہا ہے اور وہ تب تک جعلی لگے گا جب تک بھارتی سرکار اپنی طرف سے ثبوت نہیں دے دیتی‘‘۔
    اب اسی پروگرام میں تیسرا کلپ دکھائی دیتا ہے اور یہ بھارت کے یونین منسٹر روی شنکر پرساد ہیں، وہ سوال اٹھاتے ہیں’’بھارت کو اس سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت دینا چاہیے، کئی ودیشی اخبار اور پاکستان اس پر سوال اٹھا رہا ہے‘‘۔

    hqdefault ان سوالوں کے جواب میں بھارت کے رکھشا منتری (وزیر دفاع) نے کیا جواب دیا جسے زی ٹی وی کے چرب زبان نیوز کاسٹر نے کرارا جواب دے کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دیا، موصو ف کہہ رہے تھے،
    ’’سرجیکل اسٹرائیک پر ثبوت مانگنے والوں کو آج رکھشا منتری نے کرارا جواب دیا ہے‘‘ بھارتی میڈیا کی خرمستیاں دیکھتے ہوئے یہ سن کر تو لمحہ بھر کے لیے سیلانی بھی چونک گیا کہ آخر یہ کرارا جواب کیا ہے اور پھر جب وہ کرارا جواب سامنے آیا توسیلانی کے منہ سے بےاختیار نکلا دھت تیرے کی۔
    نیوز کاسٹر کے مطابق منوہر پاریکر کا کرارا جواب یہ تھا کہ بھارتی سینا نے سو فیصد سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے، لیکن ہمیں کسی کو ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر منوہر پاریکر سامنے آگئے، وہ کسی تقریب، کسی جلسے میں تھے، اسٹیج پر اپنے چاہنے والوں کے درمیان کھڑے تھے، سر پر پہنا ہوا تاج بتا رہا تھا کہ ان کی ابھی ابھی تاج پوشی ہوئی ہے، ہاتھ میں لمبی سے تلوار بھی دکھائی دی رہی تھی، سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی خوشی میں انہیں کسی تقریب میں بلا کر تاج پوشی کی گئی اور انہیں ماہر شمشیر زن مانتے ہوئے تلوار بھی پیش کر دی گئی، یہ تحائف قبول کرنے کے بعد منوہر جی کے حوالے ڈائس اور مائک کر دیا گیا تاکہ وہ کرارا جواب دے سکیں اور وہ کہنے لگے
    ’’ابھی تک بھارتی سینا کے شورئت میں اوپر کسی نے شنکاوے اکت نہیں کی تھی، کولے بار دیکھ رہا تھا کہ تھوڑے لوگ ڈرتے ڈرتے شنکا وے اکت کر رہے تھے۔ بھارت سرکار کو وڈیو جاری کرنے کا، پروف دینے کا کچھ معنے بچا ہی نہیں‘‘۔ نیوز کاسٹر کے مطابق منوہر پاریکر کا کہنا تھا کہ سرجیکل اسٹرائیک والی رات وہ سو نہیں سکے اور رات بھرجاگتے رہے تھے۔

    اب ایک اور منظر دیکھیں، یہ دہلی کے وزیر اعلی ہیں، سفید بےداغ لباس میں ملبوس کسی تقریب میں پہنچے ہیں ارے ارے ، ان پر تو کسی نے سیاہی الٹ دی، ان کا منہ کالا کرنے کی کوشش کی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بیان دینے اور سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگنے پر ان کا منہ کالا کرنے کی کوشش تو مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکی، البتہ ان کے چہرے پر سیاہی کے چھینٹیں سوال پوچھنے کا نشان ضرور چھوڑ گئیں۔

    اب کچھ منظر اور دیکھ لیں، یہ سرسبز گھنا جنگل ہے، دوربین کی آنکھ دور سے کچھ ہیولے حرکت کرتی دکھا رہی ہے، یہ لباس سے فوجی لگتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں پکڑی رائفلیں اور لباس بتا رہا ہے کہ یہ فوجی ہی ہیں، یہ قطار بنا کر کہیں گشت کر رہے ہیں اور اسی گشت کے دوران دھائیں سے ایک گولی چلتی ہے اور آگے چلنے والا اچھل کر اوندھے منہ گرتا ہے۔ اسے کہتے ہیں تاک کے مارنا۔

    surgical-strike-l یہ دوسرا منظر دیکھیں، یہ ایک مضبوط بنکر ہے، پہاڑی پتھروں کا بنا ہوا مضبوط بنکر جس میں لائن آف کنٹرول پر خوف و دہشت کی علامت بنے بھارتی فوجی موجود ہیں، صبح صبح کا وقت ہے، ایک فوجی بنکر سے باہر نکلتا ہے، دھائیں گولی چلتی ہے اور وہ کٹے شہتیر کی طرح نیچے آگرتا ہے۔ اس طرح کے درجن بھر ثبوت سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں اور پاکستان کے نیوز چینلز بھی دکھا چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ پاکستان کے نشانے باز دنیا کے بہترین نشانے بازوں میں سے ہیں، اور سرحد پار سے اچانک اندھا دھند فائرنگ کرکے دو فوجیوں کو شہید کرکے پچاس کا دعویٰ کرنے والو، ثبوت ایسے ہوتے ہیں۔ اچھا اب ایک لطیفہ سنتے جائیے،
    news-1460896743-4423_large جج: قتل کس نے کیا؟
    ملزم: میں نے قتل کیا ہے۔
    جج: لاش کہاں ہے؟
    ملزم: وہ میں نے جلا دی۔
    جج: وہ جگہ دکھاؤ جہاں لاش جلائی ہے؟
    ملزم: وہ ساری زمین تو میں نے کھود دی۔
    جج: کھودی ہوئی مٹی کہاں ہے؟
    ملزم:اس کی میں نے اینٹیں بنا لی تھیں۔
    جج:اینٹیں کہاں ہیں؟
    ملزم:اس نے تو مکان بنا لیا تھا۔
    جج: مکان کہاں ہے؟
    ملزم: زلزلے میں گر گیا۔
    جج: ملبہ تو ہوگا ناں؟
    ملزم: وہ میں نے بیچ دیا۔
    جج: کس کو بیچا؟
    ملزم: پڑوسی کو۔
    جج: اچھا اسے بلاؤ۔
    ملزم: وہ مارا گیا۔
    جج: کس نے مارا؟
    ملزم: میں نے ہی تو مارا ہے۔
    جج: پھر لاش کہاں ہے؟
    ملزم: وہ میں نے جلادی۔
    جج: ابے الو کے پٹھے تو نے قتل کیا ہے یا سرجیکل اسٹرائیک، قتل بھی قبول کر رہا ہے اور ثبوت بھی نہیں دے رہا۔‘‘

    800x480_image54031803 لیکن امت اخبار کے سینئر ساتھی ندیم محمود کو مقبوضہ کشمیر کے رکن پارلیمنٹ انجینئر عبدالرشید نے بتایا ہے کہ بھارت اب لیپا سیکٹر میں سرجیکل اسٹرائیک کی فلمبندی کر رہا ہے، علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے، ہیلی کاپٹر بھی پرواز کر رہے ہیں اور انہیں ان کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ اب ایک شارٹ اسٹوری آنے والی ہے۔ ایسا ہوا بھی تو بھارت اس سوال کا جواب کیا دے گا کہ اتنا واضح اور اہم ثبوت رنبیر سنگھ نے اپنی نیوز کانفرنس میں سامنے رکھ کر پاکستان کا منہ بند اور بھارتی جنتا کا خوشی سے کیوں نہیں کھولا کہ لڈو بھی آرام سے ٹھونسے جا تے۔ کسی نے سچ کہا ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، بھارت جھوٹ اور مکر و فریب کے ہیلی کاپٹر اڑا کر اور خواہشوں کے توپیں دم کرنے کے بجائے سچائی تسلیم کر لے کہ کشمیر ی اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، نو برس کے بچے سے لے کر نوے برس کے بزرگ تک اس سے نفرت کرتے ہیں، بھارت کشمیر کو قبرستان بنا سکتا ہے لیکن کشمیریوں کے دلوں میں ہندوستان آباد نہیں کر سکتا۔ یہ سچ کڑوا ہے مگر ہے سچ، روز طلوع ہونے والے سورج کی طرح۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے ہنسی ضبط کر کے سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگنے پر رات بھر جگ رتا کاٹنے کی کہانی سنانے والے بھارتی وزیردفاع منوہر پاریکر کو تلوار ہاتھ میں پکڑے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ہندوستانی فوج کی حیوانیت – مزمل احمد فیروزی

    ہندوستانی فوج کی حیوانیت – مزمل احمد فیروزی

    مزمل احمد فیروزی ”ہندوستان ٹائمز“ کی ایک خبر نظر سے گزری، جس میں انڈین آرمی کی جانب سے لگائے جانے والے بورڈ کا تذکرہ تھا جس میں انوشکا شرما، پرینکا چوپڑا، سیلینا جیٹلی اور گل پانگ انڈین اداکاروں کی تصاویر تھیں جو آرمی فیملی سے تھیں اور اس پر لکھا ہوا تھا کہ اگر آپ بھی ایسی ہی خوبصورت اور کامیاب بیٹیوں کے والدین بننا چاہتے ہیں تو آئیں آرمی جوائن کریں۔ مجھے حیرانگی اس بات پر نہیں تھی کہ اس بورڈ میں اداکارائوں کی تصاویر آویزاں تھیں بلکہ اس بات پر تھی کہ جو آرمی خواتین کے بارے میں انتہائی بے رحم، سفاک اور صنفی امتیاز برتنے والی ہو، وہی آرمی خواتین کا سہارا لے رہی ہے۔

    انڈین آرمی کی سفاکیت اور حیوانیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انڈین آرمی کے کرتوت کوئی بھی باشعور اور انسان دوست حلقہ جھٹلا نہیں سکتا۔ خود بھارت میں بسنے والے اعتدال پسند دانشوروں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین آرمی کے افسر ان خواتین کے معاملے میں کتنے ”حساس“ اور ”مخلص“ ہیں، اس کا اندازہ انڈین آرمی کی جانب سے کیے جانے والے اس سفاکانہ واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ کئی برس پہلے انڈین آرمی کے خلاف منی پور کے دارالحکومت امپھال میں واقع آسام رائفلز کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے سیکڑوں خواتین نے بطورِ احتجاج بالکل برہنہ ہوکر جلوس نکالا۔ اْنہوں نے اپنے ہاتھوں میں جو پلے کارڈ اُٹھارکھے تھے، ان پر تحریر تھا کہ ’’بھارتی فوج کے درندہ صفت افسرو! اگر تمہیں انسانیت کا ذرا سا بھی لحاظ نہیں تو آئو اور ہمارے برہنہ جسموں سے بھی اپنی حیوانیت کی پیاس بجھائو… سیکڑوں برہنہ خواتین زور زور سے… Rape us Indian Army Officers …Rape us,Indian Officers take FLESH … کے نعرے لگاتے ہوئے آہ وزاری کررہی تھیں اور بھارتی فوج کے ظلم کے خلاف دیوانہ وار چلا رہی تھیں۔

    یہ احتجاج منی پور کے قصبے بامون لیکھائی سے 32 سالہ خاتون منورماکو انڈین آرمی کے ہاتھوں اجتماعی آبرو ریزی کے بعد کیا گیا تھا اور اِس گھنائونے عمل کے دوران اِس کی موت واقع ہوجانے کے بعد اس کی لاش کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ پوسٹ مارٹم کے دوران اس کے مردہ جسم سے 16 گولیاں نکالی گئیں۔ اِس وحشیانہ حرکت کے نتیجے میں منی پور کے طول وعرض میں ایک آگ سی بھڑک اُٹھی تھی اور بھارت کے صف اول کے صحافیوں، بشمول پرفل بدوائی، کلدیپ نیئر اور وجے گوئل نے اِس مظاہرے کو بھارت ہی نہیں، دنیا بھر کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد المیہ قرار دیا تھا۔

    اِس سانحہ کی سنگینی کا یہ عالم تھا کہ بھارتی فوج کی ایسٹرن کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ جنرل جے آر مکرجی نے نہ صرف عوام سے معافی مانگی، بلکہ تسلیم کیا کہ گزشتہ چار برسوں میں ہندوستانی فوج کے 66افسر اور جوان صرف منی پور سے ایسے گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرچکے ہیں۔

    انڈین آرمی کے افسروں کے ”اعلیٰ کردار“ کا اندازہ اِس امر سے بھی ہوتا ہے کہ اودھ پورجموں کشمیر (مقبوضہ) میں تعینات انڈین آرمی کیASC 5071 بٹالین کی نوجوان خاتون آفیسر لیفٹیننٹ سشمیتا چکر ورتی نے اپنی آبرو ریزی کے بعد خودکشی کرلی اور اس کا جسمانی استحصال اس کے سینئر آرمی آفیسرز نے ہی کیا۔ حد تو یہ ہے کہ اس گھنائونے جرم کا مرتکب ہونے کے بعد بجائے شرمندگی محسوس کرنے کے ہندوستانی افواج کے نائب سربراہ وائس چیف آف انڈین آرمی لیفٹیننٹ جنرل ایس پیتھمبرہن نے علانیہ کہا کہ بھارتی خواتین کو اگر اپنی عزت اتنی ہی عزیز ہے تو اْنہیں انڈین آرمی میں شمولیت سے گریز کرنا چاہیے۔

    ابھی حال ہی میں ایک 16سالہ بچی کی عصمت دری کی گئی۔ اخبارات کے مطابق تقریباً دس ہزار سات سو سے زائد اور صرف ستمبر میں 284کشمیری خواتین کو انڈین ٓرمی نے اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا ہے۔ انڈین آرمی تو درکنار انڈین شہری بھی آرمی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایک بھارتی سروے کے مطابق انڈیا میںہر روز 92 خواتین کو اپنی عزت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یہ ایک سروے ہے جبکہ تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ان حالات میں انڈین آرمی کا راگ الاپنے والوں کو اور ان کے بعض پاکستانی ہم نوائوں کو پاکستان کے بارے میں منہ کھولنے سے پہلے اپنے گربیان میں جھانک لینا چاہیے اور عالمی رائے عامہ کو بھی بھارتی بالا دست طبقات کو پیغام دینا چاہیے کہ اپنی پاک دامنی کی حکایت بیان کرتے ہوئے اپنے دامن پر موجود مکروہ دھبوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

    امید کی جاتی ہے کہ وطن عزیز کے کچھ حلقے بھی بھارتی اعتدال پسندی کے گن گانے سے پہلے اِن تلخ زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں گے کیونکہ انڈین آرمی کے کرتوت سے پوری دنیا واقف ہے، جبھی دنیا کے کئی ملکوں نے اپنی خواتین شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ انتہائی نا گزیر صورت کے بغیر بھارت نہ جائیں۔

  • جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز – محمد اشفاق

    جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز – محمد اشفاق

    محمد اشفاق پاکستان اور وزیراعظم نواز شریف کے لیے بھارت کی بدلی ہوئی حکمت عملی کی وجہ سے سفارتی محاذ پہ چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں.

    بھارت پاکستان کے حوالے سے دو تین پہلوؤں پہ ایک ساتھ کام کر رہا ہے. ایک تو وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی کی جارحانہ سفارتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ناراض بلوچ رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچستان کے مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے. دوسرا اور زیادہ خطرناک وار ”سی پیک“ کو متنازعہ بنانا ہے. اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن میں بلوچستان کے خود ساختہ نمائندے جناب مہران مری نے سی پیک کو چیلنج کر کے بھارتی عزائم آشکار کر دیے ہیں. ان کا کہنا یہ ہے کہ بلوچی سرزمین کا چین کے حوالے کیا جانا ان کے لیے ناقابل قبول ہے اور وہ پاکستان اور چین کے خلاف عالمی عدالت تک جانے کو تیار ہیں. دوسری جانب براہمداغ بگٹی صاحب نے بھی بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ساتھ میں ملتے جلتے عزائم دہرائے ہیں. ان کے اس موقف کو عالمی سطح پہ زیادہ پذیرائی تو کبھی نہیں مل پائے گی، لیکن یہ ان کا مقصد بھی نہیں ہے. اصل مقصد چین کو سی پیک کے معاملے پر تشویش کا شکار کرنا ہے. ایک چینی تھنک ٹینک کے مطابق چین کو اندیشہ ہے کہ سکیورٹی خطرات کے سبب شاید سی پیک کی لاگت ابتدائی تخمینے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی، اور ہمسایہ ممالک خصوصا افغانستان کی مخالفت کی وجہ سے اس سے شاید وہ معاشی فوائد بھی نہ حاصل ہو پائیں جن کی توقع کی جا رہی تھی. چین اس کے باوجود یقینا سی پیک کو ہر صورت میں آگے بڑھانا چاہےگا مگر چینی حکومت کی تشویش پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے.

    بھارت افغانستان کو اپنا ہمنوا بنا کر اکنامک کاریڈور کو مزید متنازعہ بنانا چاہتا ہے، ہماری بدقسمتی کہ افغانستان کے امور پر فیصلہ سازی کا اختیار ہم سویلین حکومت کو دینے پر تیار نہیں ہیں اور ہماری اپنی سوچ کا یہ حال ہے کہ آج چلغوزوں کی تجارت پہ پابندی لگا کر ہم اپنی وسط ایشیائی ریاستوں سے مستقبل کی اربوں ڈالر کی تجارت کو داؤ پہ لگا رہے ہیں. ہمیں یہ چیز سمجھنا ہوگی کہ سی پیک کی کامیابی کے لیے افغانستان کا کردار بہت اہم ہے اور اسے ہم نے ہر صورت ساتھ رکھنا ہے. اشرف غنی جیسے سمجھدار اور صابر لیڈر کا بھارتی کیمپ میں چلے جانا ہمارے پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے. مزید ستم یہ کہ اپنے جن اثاثوں کی خاطر ہم نے اشرف غنی کو ناراض کیا، آج وہ بھی ہم پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں. افغانستان بھی اگر بھارت کی ہمنوائی میں جنرل اسمبلی میں کراس بارڈر ٹیررازم کا راگ الاپتا ہے تو ہمارے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی. اور یہی وہ تیسرا پہلو ہے جس پہ بھارت کام کر رہا ہے.

    اڑی میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعے کو بھارت ممکنہ حد تک اچھالےگا اور اس سے پاکستان کے کشمیر پہ موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا. بھارت کی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش ہوگی کہ کشمیر میں موجودہ شورش ایک عوامی تحریک نہیں ہے بلکہ پاکستان کے سپانسرڈ دہشت گردوں کا کیا دھرا ہے. اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے موجودہ اجلاس میں بھارتی نمائندے نے نہ صرف کشمیر بلکہ بلوچستان میں بلوچ راہنماؤں کی گرفتاری،گمشدگی اور قتل، سندھ میں اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے اور ایم کیو ایم راہنماؤں کی گرفتاری، کے پی کے میں جاری آپریشن میں لاکھوں لوگوں کے بےگھر ہونے کے حوالے سے بھی پاکستان پہ سنگین الزامات عائد کیے ہیں. اس سے بھارت کے عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.

    اس کے جواب میں ہم کیا کر رہے ہیں؟
    وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیس نمائندے مختلف ممالک میں بھیجنے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی ایک مثبت اقدام تھا. سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو وزیراعظم کا خط بھی ایک اچھا فیصلہ ہے. جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے کشمیر جانا اور جناب راجہ مسعود کو اپنے ساتھ نیویارک لے کر جانا بھی اچھا سفارتی اقدام ہے جبکہ وزیراعظم سائیڈ لائن میٹنگز میں مصروف ہوں گے، راجہ صاحب او آئی سی کے کشمیر پہ ورکنگ گروپ کو بریفنگ دیں گے.

    جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پانچ چھ ایشو مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، جن میں شام کی صورتحال، یوکرائن کا تنازعہ، شام اور یوکرائن دونوں میں سیزفائر پر عملدرآمد یقینی بنانا، مہاجرین کا مسئلہ جسے پہلی بار اتنی اہمیت ملی ہے. شام کے ایک علاقے کو سیف زون قرار دے کر وہاں لوگوں کی آبادکاری، ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ ان ایشوز میں شامل تھے. پاکستان کی بروقت اور تندوتیز سفارتی کوششوں کے نتیجے میں اب عالمی ذرائع ابلاغ ان معاملات کے ساتھ ساتھ کشمیر پر پاک بھارت کشیدگی کا بھی ذکر کر رہے ہیں، جو بلاشبہ ہماری کامیابی ہے. کئی برسوں بعد کشمیر کے معاملے کو ایک بار پھر عالمی توجہ ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے، اسے اب ضائع نہیں ہونا چاہیے.

    کل جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کا خطاب اس حوالے سے بہت اہم ہے. ان کے الفاظ کے چناؤ سے اندازہ لگایا جائے گا کہ پاکستان اس معاملے پہ کس حد تک جانے کو تیار ہے. عین ممکن ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھی پاکستانی وزیراعظم ایک دو وضاحتی جملے کہہ دیں، جبکہ بلوچستان کے معاملے پر بولنا اس مسئلے کو زیادہ اہمیت دینے کے مترادف ہوگا اس لیے شاید اس پر خاموشی اختیار کی جائے، یا پھر یہ بھی امکان ہے کہ اسے بھارتی مداخلت کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا جائے.

    ایک سخت اور جارحانہ تقریر وزیراعظم کی ضرورت بھی ہے. طاہرالقادری صاحب نے مسلسل وزیراعظم کو سکیورٹی تھریٹ قرار دیا ہے اور ان پہ بھارت نوازی کے سنگین الزامات لگائے ہیں، گو کہ قادری صاحب کو کوئی بھی سیریس نہیں لیتا، مگر ایک نرم تقریر مخالفین کو ان الزامات کا اعادہ کرنے پہ اکسائے گی. دوسری جانب عمران خان صاحب کی ایجی ٹیشن کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی اور فوج کو راضی رکھنے کے لیے بھی ایک جارحانہ اور تندوتیز تقریر کام آئے گی. اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کراؤڈ کے لیے کھیلنا پسند کرتے ہیں یا پھر ایک ٹھوس، سنجیدہ مگر مدبرانہ موقف اپناتے ہیں.

    مگر یہ چیلنجز محض جنرل اسمبلی کے اجلاس تک محدود نہیں ہیں، اب یہ طے ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی بھرپور کوشش ہوگی کہ پاکستان کو خارجی محاذ پہ دفاعی پوزیشن پہ دھکیلا جائے. نومبر میں پاکستان میں سارک سربراہ اجلاس ہونا ہے جس میں چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی شرکت متوقع تھی، پاکستان کے پاس بین الاقوامی امیج بہتر بنانے، سارک کے چھوٹے ممبرز سے اپنے کشیدہ تعلقات بہتر کرنے اور سفارتی محاذ پہ چند اچھے پوائنٹ سکور کرنے کا بہترین موقع تھا مگر اب یہ اجلاس بھی منسوخ ہوتا دکھائی دے رہا ہے. ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہی سارک جس میں کبھی بھارت اور نیپال کو چھوڑ کر سب ملک ہمارے ہم خیال ہوا کرتے تھے، آج اس میں سری لنکا کے علاوہ ہمیں اپنا کوئی اور ہمدرد کیوں نہیں ملتا. بری خبر یہ بھی ہے کہ سری لنکا کے موجودہ صدر بھی اپنی بھارت نوازی کے لیے مشہور ہیں.

    ہمیں اپنے خیرخواہ بڑھانے اور ناقدین کم کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنا گھر سیدھا کرنے کی کوشش کریں، بلوچستان اور افغانستان کے مسئلوں پہ سویلین حکومت کو آگے بڑھ کر حالات سنبھالنے کا موقع دیں. اپنے ملک میں موجود عسکریت پسندوں کو، خواہ وہ ماضی میں ہمارے کتنے ہی لاڈلے کیوں نہ رہے ہوں، یہ موقع بالکل نہ دیں کہ وہ کشمیر میں کم سن بچوں کی قربانیوں کے نتیجے میں پنپنے والی خالصتا مقامی تحریک کو اپنے کسی بیہودہ ایڈونچر سے سبوتاژ کر سکیں. لائن آف کنٹرول پہ نگرانی کا نظام بہتر کیا جانا چاہیے، اب ہم مجاہدین درآمد یا برآمد کر کے کشمیر کاز کو فائدہ نہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے. زمانے کے انداز بدلے گئے، اب ہماری اسی کے عشرے کی پالیسیاں ہمارے کام نہیں آنے والی.

    پاکستان کے لیے آنے والے ماہ و سال آسان نہیں ہیں، مگر یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے متوقع خطرات سے پوری طرح آگاہ ہوں اور ان سے نبٹنے کا ایک واضح لائحہ عمل رکھتے ہوں.