Tag: لاہور

  • افسوس !-ہارون الرشید

    افسوس !-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    ساری بات احساس کی ہوتی ہے خود پسندی‘ تنگ نظری او ر مفاد پرستی کے سبب‘ دل اگر پتھر نہ ہو جائیں تو ناکامی بھی سازگار ہوتی ہے۔ اصلاح اور کامیابی کا راستہ کھول سکتی ہے۔

    احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے
    کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

    پنجاب میں ترقیاتی منصوبے کس بچگانہ ذہنیت کے ساتھ بروئے کار آتے ہیں‘ اس کی ایک مثال جناب شہباز شریف کی اورنج ٹرین ہے۔ مشرف دور میں وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت نے 2004ء میں اس پر کام کا آغاز کیا۔ برسوں تک تحقیق و تدوین اور ماہرین سے مشوروں کا سلسلہ جاری رہا۔ آٹھ سال میں اسے مکمل ہونا تھا۔ سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ سرکاری خزانے سے ایک روپیہ بھی اس پر خرچ نہ ہوتا اور زِر تلافی کی مد میںہرگز کوئی ادائیگی نہ کرنا پڑتی۔

    ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس کے لیے قرض کی منظوری دے دی تھی جس کی شرح سود 0.25 فیصد سالانہ تھی۔ شہباز شریف حکومت نے چین سے جو قرض لیا ہے‘ اگرچہ اس کی شرائط بھی نرم ہیں؛ تاہم اس سے سات گنا زیادہ‘2.75 فیصد سالانہ۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں مرتب کیا جانے والا منصوبہ بنیادی طور پر ”بنائو چلائو اور حوالے کرو ‘‘کی بنیاد پر تھا‘ تکنیکی اصطلاح میں جسے B.O.Tکہا جاتا ہے۔
    اگر اس پر عمل درآمد ہوتا تو 2012 ء میں یہ مکمل ہو جاتا۔کسی شورو غوغا کے بغیر‘ شریف خاندان کے روایتی دعووں اور قوم پر احسان جتلائے بغیر‘ نہ صرف یہ کہ سالانہ 16 ارب روپے کی زرِتلافی کی بچت ہوتی بلکہ قدیم تاریخی عمارات کو بھی خطرہ لاحق نہ ہوتا۔ جس کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ نے تازہ حکم جاری کیا ہے۔ اس حکم کے تحت شالیمار باغ اور چوبرجی سمیت گیارہ تاریخی مقامات کے بارے میں یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ اورنج ٹرین کا ڈھانچہ کم از کم 200فٹ کے فاصلے پر ہو۔چوہدری پرویز الٰہی سے کل میں نے ایک طویل ملاقات کی۔ اپنا مؤقف انہوں نے تحریری طور پر بیان کیا‘ جس کے کچھ نکات درج ذیل ہیں۔

    ”ہمارے دور میں طے کردہ پراجیکٹ 97 کلومیٹر کا اور 4 لائنوں پر مشتمل تھا‘ اور اس کا بیشتر حصہ زیر زمین تھا۔ اس اہتمام کے ساتھ کہ اگر وہ کسی سرکاری عمارت یا ذاتی گھر کے نیچے سے گزرے تو وائبریشن سے ایک ذرا سا نقصان بھی اسے نہ پہنچے۔ پہلے مرحلے کا نام گرین لائن تھا اور یہ 27 کلومیٹر طویل ہوتا۔ 10 اوور ہیڈ برج‘ 12 انڈر پاس‘ 22مقامی ریلوے سٹیشن اس میں شامل تھے۔ خواتین اور بچوں کے حصے الگ رکھے گئے تھے۔ ایک گھنٹے میں 35 ہزار مسافروں کی گنجائش تھی۔ 4 لائنیں مکمل ہونے پر ایک گھنٹے میں 1 لاکھ 40 ہزارافراد شہر کے مختلف کونوں سے اپنی منزل تک جا سکتے۔ ہر 2 اور 5 منٹ کے بعد روانگی۔یعنی اگر کسی سے ایک گاڑی چھوٹ گئی تو 2 سے 5 منٹ کے درمیان وہ دوسری ٹرین پکڑ سکتا تھا۔ اوقات‘ صبح 6 بجے سے رات 11 بجے تک‘ کرایہ صرف 24 روپے رکھا گیا تھا۔ اس کے باوجود قطعاً کوئی خسارہ نہ ہوتا۔ اس لیے کہ بہترین کمپنیوں کا انتخاب کیا گیا اور پوری طرح یہ شفاف تھا۔

    شہبازشریف نے اورنج لائن کی تعمیر کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی‘ Norinco کو دیا ہے‘ بنیادی طور پر جو اسلحہ ساز کمپنی ہے۔ ہم نے Systra کمپنی کو سونپاتھا‘ جو کرتی ہی ”ماس ٹرین پراجیکٹ‘‘ ہے۔ چین کے ایک بڑے شہر شنگھائی سمیت دنیا کے تمام بڑے ماس ٹرانزٹ پراجیکٹ Systraکمپنی نے مکمل کیے ہیں۔ دونوں کمپنیوں کی ویب سائٹس پر جا کر آپ دونوں کی Specialization کو چیک کر سکتے ہیں۔

    ہمارا پراجیکٹ زیر زمین تھا‘ لہٰذا اس سے لاہور کے تاریخی حسن میں اضافہ ہوتا۔ شہبازشریف کے پراجیکٹ سے لاہور اپنے تاریخی ورثہ سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو سکتا ہے۔ ہم نے آرکایالوجی ڈیپارٹمنٹ کو ہر مرحلے پر مشاورت میں شامل رکھا‘ اس دور کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر اوریا مقبول جان سے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے‘ جو اب ایک آزاد اخبار نویس ہیں۔ انہوں نے اخبار میں اس موضوع پر لکھا بھی ہے۔غیر جانبدار آدمی کی شہادت ہمارے حق میںہے۔ نوازشریف حکومت تو بی جے پی سے بھی گئی گزری ہے۔

    دلی میں ماس ٹرانزٹ منصوبہ شروع کرتے وقت بی جے پی نے مسلمانوں کے تاریخی ورثہ سے وہ سلوک نہیں کیا‘ جس طرح کا سلوک (نون) لیگ لاہور میں مسلمانوں کی تاریخی عمارات سے کر رہی ہے۔ ماس ٹرانزٹ پراجیکٹ ہمارا منصوبہ تھا۔ شہبازشریف نے اس کی نقل کرنے کی کوشش تو کی‘ لیکن عقل کے استعمال سے گریز ہی کیا‘ جیسا کہ ان کا شیوہ ہے۔ شہباز شریف صاحب نے اس پراجیکٹ سے پنجاب کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے پراجیکٹ کی فی کلومیٹر لاگت‘ موجودہ پراجیکٹ سے بہت کم تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا منصوبہ تقریباً مفت تھا۔ جو ٹیکنالوجی اب استعمال کی جا رہی ہے‘ ہم اس سے بہتر ٹیکنالوجی استعمال کر رہے تھے۔ ہم نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے جو 1 ارب ڈالر منظور کرایا تھا‘ اس پر مارک اپ نہ ہونے کے برابرتھا‘ یعنی 0.25فیصد ۔

    شہبازشریف نے برسر اقتدار آتے ہی میری مخالفت کی بنا پر اس بینک کو خط لکھا کہ پنجاب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے حالات سازگار نہیں۔ شہبازشریف کے اس خط کے جواب میں 4 جون 2008ء کوانہوں نے منظور شدہ قرضہ منسوخ کر دیا۔کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ یہ حرکت انہوں نے کیوں کی؟

    ہمارا منصوبہ منافع بخش تھا اور سبسڈی کے بغیر بھی۔ جبکہ شہبازشریف کا پراجیکٹ سراسر خسارے کا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی میں جنگلہ بس پر سالانہ 24 ارب روپے کا زرِ تلافی دیاجا رہا ہے‘ یعنی 2 ارب روپے ماہانہ‘ اورنج لائن ٹرین پر سالانہ سبسڈی کا کم از کم تخمینہ 16 ارب روپے ہے‘ یعنی سوا ارب روپے ماہانہ۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگلہ بس کے بعد اورنج لائن شروع کر کے پنجاب پر ایک اور سفید ہاتھی کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ پنجاب کی آئندہ نسلوں کو بھی قرضے میں جکڑ دینے کا منصوبہ ہے۔ اپنا کمیشن وصول کر کے رفوچکر ہو جائیں گے‘ عوام مدتوں تک بھگتتے رہیں۔

    اس منصوبے کے تحت تیز رفتار زیر زمین ٹرین نے کاہنہ سے چل کر جنرل ہسپتال‘ قینچی‘ کلمہ چوک‘ اچھرہ‘ مزنگ‘ کوئنز روڈ‘ ریگل چوک‘ جی پی او‘ داتا دربار‘ مینار پاکستان اور ٹمبر مارکیٹ سٹیشنوں پر رکتے ہوئے شاہدرہ تک کا فاصلہ کم سے کم وقت میں طے کرنا تھا۔ عوام کو انتہائی جدید اور محفوظ سفر کی سستی سہولت فراہم کی جانی تھیں۔ میٹرو ٹرین سسٹم تعمیرات کو مسمار‘ کاروباری مراکز کو تباہ اور ٹریفک مشکلات میں اضافہ کیے بغیر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زیر زمین تعمیر کیا جانا تھا۔ میٹرو ٹرین سسٹم کے22سٹیشنز میں کاروباری مراکز کی تعمیر سے عوام کو کاروبار کے نئے مواقع فراہم ہونے تھے۔ لاہور میں 10ارب ڈالر کی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری ہونا تھی۔ پنجاب کے عوام کو تقریباً1ارب روپے سالانہ کی بچت ہونا تھی۔ مگر افسوس پنجاب کو اس سرمایہ کاری سے محروم کر دیا گیا۔ لاہور کے تاریخی جمال‘ ہزاروں تاجروں کے کاروبار‘ تعمیرات اور مذہبی مقامات کو تباہ کر کے چند بسوں کے لیے سڑکوں کو چھوٹا کر دیا گیا ۔ لاہور کو لوہے کے جنگلوں سے دیوار برلن کی طرح دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جنگلہ بس سروس سے لاہور کی اقتصادی ترقی کو ہمیشہ کے لیے محدود کر دیا گیا۔‘‘

    ساری بات احساس کی ہوتی ہے خود پسندی‘ تنگ نظری او ر مفاد پرستی کے سبب‘ دل اگر پتھر نہ ہو جائیں تو ناکامی بھی سازگار ہوتی ہے۔ اصلاح اور کامیابی کا راستہ کھول سکتی ہے۔

    احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے
    کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

  • لاپتا بچے۔۔۔ کیا ہم کسی سازش کا حصہ بن رہے ہیں ؟ – سید بدر سعید

    لاپتا بچے۔۔۔ کیا ہم کسی سازش کا حصہ بن رہے ہیں ؟ – سید بدر سعید

    badr saeeddلاپتا بچوں کے حوالے سے خوف کی جو فضا قائم ہوچکی ہے، اس نے والدین کو سب سے زیادہ ہراساں کررکھا ہے جبکہ افواہ ساز فیکٹریوں کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ لوگ اپنے مخالفین کو بھی اغوا کار قرار دے کر تشدد کر نے لگے ہیں۔ ذہنی معذوروں اور مزدوروں پر تشدد تو ہوا ہی ہے، لیکن صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ خود روتے ہوئے بچے کے والد اور ماموں بھی مشتعل افراد کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اجنبی خاتون پر بھرے بازار میں تشدد کرتے ہوئے کپڑے تک پھاڑ دینے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔

    اس سارے عمل میں سب سے گھنائونا کردار خود ساختہ دانشوروں نے سوشل میڈیا پر ادا کیا اور دیگر ممالک کے بچوں کی پرانی تصاویر کو لاپتا بچوں کی سمگلنگ کے عنوان سے شیئرکرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا میڈیا حقائق تک رسائی کے لیے جدوجہد کرتا ہے بلکہ اس سلسلے میں متعدد قربانیاں بھی دے چکا ہے، لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بریکنگ نیوز کلچر اور سب سے پہلے ایسکلوزیو خبر کے چکر میں ایسی خبریں بھی رپورٹ ہوجاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیںہوتا۔ درحقیقت یہی خبریں خوف و ہراس کا باعث بن رہی ہیں اور میڈیا کی ساکھ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔

    ہم کس سمت چل نکلے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں ایک خوفناک افواہ یہ بھی پھیلائی گئی کہ بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا بیچے جارہے ہیں۔ دوسری جانب جب اس بارے میں سینئر ڈاکٹرز اور سرجنز سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ایسا سرے سے ہی ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اعضا کی منتقلی کے لیے پہلے ٹشو میچ کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ٹشو میچ ہوجائیں تب اعضا کی منتقلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ اغوا کار پہلے اغوا ہونے والے بچے کے ٹشو میچ کریں اور جب ان کے ساتھی ڈاکٹر گرین سگنل دے دیں تب اس بچے کو اغوا کیا جائے۔ اس سے بھی اہم اطلاع یہ ہے کہ بچے کے اعضا ابھی نمو پا رہے ہوتے ہیں اور انہیں کسی بڑی عمر کے شخص کے جسم میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک عام شہری بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ بڑی عمر کے کسی شخص کو بچے کا جگر یا گردہ لگا دیا جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے ۔

    ہمارا المیہ یہ ہے کہ بریکنگ نیوز کے چکر میں گیس سلنڈر پھٹنے کو ـــ’’دھماکے کی آواز سنائی دی ہے‘‘ کی بریکنگ نیوز جاری ہوتی رہی ہے۔ اس بریکنگ نیوز کے چکر میں عموماً تصدیقی عمل سے گزارے بنا خبر چلادی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ بعد میں تردید بھی نشر ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے خبر سنی ہے، ان میں سے کئی ایک تردید نہیں سن سکے ہوں گے۔ آزاد صحافت ذمہ د ار انہ صحافت کا دوسرا نام ہے۔ اب ہمیں خود سوچنا ہو گا کہ جب تک خبر کی تصدیق نہ ہوجائے تب تک اسے نشر نہ کیاجائے۔

    موجودہ دور میں تو خاص طور پر کرائم کا سارا ڈیٹا ہمارے ایک کلک کی دوری پر مجبور ہے۔ پنجاب پولیس کی جانب سے کرائم ریٹ اور دیگر تفصیلات سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر وہاں سے ریکارڈ چیک کرنے کے بجائے سنی سنائی خبر کی بنیاد پر کالم تک لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا رویہ صحافی سے زیادہ پولیس اور جج کا سا ہوتا ہے۔ ہم محض ایک غیر تصدیق شدہ خبر سنتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر پہلے تھانیدار بنتے ہیں اور پھر جج بن جاتے ہیں۔ ہمیں شاید اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کہیں ہمیں انجانے میں استعمال تو نہیں کیا جارہا؟ ہم نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ جن مسائل کا ہم شکار ہیں، ان سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔

    اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پنجاب بھر میں بچوں کے اغوا کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں اور دوسری جانب جن بچوں کے اغوا کا بتایا جاتا ہے، ان کی اکثریت اپنے گھر میں موجود ہے۔ خبروں کے مطابق ان میں سے کوئی ناراض ہو کر گھر سے گیا تو کوئی کسی اور وجہ سے گھر سے بھاگ گیا۔ چند سال پہلے پاکستان مخالف طاقتیں بم دھماکوں کے ذریعے ملک بھر میں خوف کی فضا پیدا کررہی تھیں۔ اب حکومت کی جانب سے کالعدم گروہوں کی کوریج پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔ اس پابندی کے بعد ہی ہمیں مسلسل ایسے پروپیگنڈے کا سامنا ہے جو عام شہریوں میں خوف و ہراس پھیلارہا ہے۔ پہلے گدھے کا گوشت بکنے کی داستانیں پھیلائی گئیں اور اب بچوں کے اغوا کی داستانیں مرچ مسالحہ کے ساتھ پھیلائی جا رہی ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ ملک میں خوف و ہراس کی فضا کون قائم کررہا ہے اور حقائق کے برعکس خبریں منظم انداز میں کیوں پھیلائی جا رہی ہیں؟ آپ اور ہم نے تو دیگر ممالک کے بچوں کی پرانی تصاویر موجودہ صورت حال کے تناظر میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کیں۔ ہم نے تو یہ خبر نہیں چلائی کہ بچوں کے اعضا نکالے جارہے ہیں اور ہم تو اپنے مخالفین کو اغوا کار قرار دے کر تشدد کا نشانہ نہیں بنارہے۔ اس کے باوجود یہ سب ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کچھ طاقتیں ملک میں خوف کی فضا قائم کرنے کے لیے انتہائی حد تک منظم ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بیرون ملک بیٹھ کر بھی ایسے کام کیے جاتے ہیں۔

    اب ہمیں بھی دیکھنا ہے کہ اگر منظم انداز میں خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے تو کہیں ہم سوشل میڈیا پر ملک مخالف ایسی کسی کمپین کا حصہ تو نہیں بنتے جارہے۔ کہیں ہم انہی طاقتوں کے لیے استعما ل تو نہیں ہو رہے جو کبھی بم دھماکوں کے ذریعے خوف کی فضا قائم کرتی رہی ہیں اور اب اس میں ناکامی کے بعد سوشل میڈیا وار کو فروغ دے رہی ہیں؟

    سوال ہمیں خود سے کرنا ہے۔ حقیقت پر مبنی خبریں ہم ایسوں کی پہچان رہی ہیں، لیکن تصدیق کے بنا پھیلائی جانے والی خبریں ہماری ساکھ ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں ۔

  • درینہ کا پل اور سرگودھا – جنید الدین

    درینہ کا پل اور سرگودھا – جنید الدین

    ناولوں کی اپنی نفسیات ہوتی ہیں اور ناول پڑھنے والوں کی بھی. میرے لیے ناول ایک تفریحی مقام کی سی حیثیت رکھتے ہیں یا ایک فلم کی جس کے اندر میں ایک خاموش کردار کا پارٹ ادا کرتا ہوں. یہ خاص موقع پر خاص کمبی نیشن کی بھی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں جیسے بریانی کے ساتھ سوڈا واٹر اور بارش میں سموسے یا پکوڑے اور مذببی پروگرام کے بعد لنگر، بالکل اسی طرح اگر میں ڈاکٹر ژواگو نامی ناول نہ پڑھتا تو نمازجنازہ کو فرض کفایہ جان کر چھوڑ دیتا کہ کوئی اور بھی جا کر پڑھ لے تو ثواب مل جائے گا کیونکہ نوبل انعام یافتہ اس ناول کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے.
    ’’دائمی سکون! ‘‘
    ’’وہ یہ نوحہ پڑھتے ہوئے جا رہے تھے. کبھی راستے میں کوئی مسافر اس میں شامل ہو جاتا تو پوچھتا کہ کس کی میت ہے تو وہ جواب دیتے ڈاکٹر ژواگو کی. اور اسی طرح وہ قبرستان میں پہنچ گئے.‘‘
    یا پھر میکسم گورکی کا ماں کہ جب کوئی انقلابی نوجوان مجھ سے ملتا ہے اور سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا خاتمہ کر کے انقلابی حکومت قائم کرنے کی بات کرتا ہے تو وہ یکدم زید و بکر سے پاویل ولاسوف کا روپ دھار لیتا ہے.
    اور سفر کے دوران رابنسن کروزو میرے دماغ پہ سوار ہوجاتا ہے اور میری ہمت بندھاتا ہے کہ سفر کی دشواری میں کس طرح کا برتاؤ کیا جائے.

    اسی طرح ناول موسمی بھی ہوتے ہیں جیسے کہ روسی ناول برف، گوبھی کا شوربہ، سماوار، اور چائے کی تلخی سمیٹے ہوتے ہیں تو افریقی مچھر، گرمی، یام کی شراب، بزرگوں کے قصے اور پرانی روایات سے مزین ہوتے ہیں. گرمیوں میں روسی اور سردیوں میں افریقی ناول انسان کو ساری دنیا سے اچاٹ کر کے آنے والے موسم کے سحر اور اس کی حدت میں مبتلا کر دیتے ہیں.

    معذرت کہ مجھے انگریزی ادب کی کبھی سمجھ نہیں آئی اور نہ اس کے کرداروں نے کبھی مجھے مسحور کیا ہے. اس بات کو ایک انفرادی شخص کی جمالیاتی حس کی خرابی سمجھ کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے. مگر اس سب کے باوجود ایک ناول ایسا ہے جس نے مجھے کبھی اپنے سحر سے نہیں نکلنے دیا، ہاں البتہ گورنمنٹ کالج میں گزرے چار سال میں، میں نے کسی کو اس کے بارے میں بات کرتے نہیں سنا. اس سے مراد اگر ان سب کا ادب کی پرکھ نہ رکھنا ہے تو یہ فائدہ مند ہے کہ اگر ہمیں ادب کی پرکھ ہوگئی تو اردو ناول نگار تو بھوک سے مر جائیں گے کہ پھر کون ان کی کتابیں خریدے گا. یہ ناول بوسنیائی نوبل انعام یافتہ ناول نگار ’’آئیوآنڈرچ‘‘ کا ’’درینہ کا پل‘‘ ہے جو کہ سربیا کا سب سے عظیم ناول سمجھا جاتا ہے. یہ ناول سربیا پر عثمانی قبضہ اور اس کی چار سو سالہ سیاسی، سماجی، ثقافتی، ملی اور اقتصادی روایات پر مشتمل ہے. مختلف کردار اور ان کا پل کے ساتھ تال میل اس کو حرکت میں رکھتا ہے.

    عثمانی حکمران جب کسی علاقے کو فتح کرتے تو وہاں کے خوبصورت اور ہونہار بچوں کو اٹھا لیتے، ان کی بہترین تربیت کرتے تاکہ وہ امور سلطنت چلا سکیں. ایسے ہی مشہور عثمانی وزیر جو کہ سرب تھا کو اٹھا لیا گیا، جب اس کی ماں اس کو بچانے کی خاطر آگے بڑھی تب تک اسے کشتی میں سوار کر کے لے جایا جا چکا تھا. اس نے سوچا کہ اگر وہ کسی بڑے عہدے پر پہنچ گیا تو ضرور ایک پل تعمیر کرے گا جس سے سلطنت کے لوگ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکیں، اور اس طرح اس پل کو تعمیر کیا گیا. پل کی تعمیر میں لوگوں نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے، ظالم عابد آغا کے ہاتھوں اذیتیں سہیں اور بزرگ تو یہ بھی کہتے تھے کہ پل کبھی تعمیر نہیں ہوگا کہ پانی کی دیوی ایسا نہیں چاہتی. بالآخر جب پل تعمیر ہوا تو بہت عرصہ بعد ان لوگوں کے چہروں پہ خوشی تھی، ایسی جیسی انسان کی آخری خواہش کے پورا ہونے پر ہوتی ہے کہ اب وہ آسانی سے مر سکتا ہے. بڑے عرصے بعد ان لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اتنا کہ ایک لڑکے کی موت زیادہ حلوہ کھا جانے کی وجہ سے ہوئی.

    پل ان لوگوں کی سماجی و ثقافتی زندگی کا مرکز تھا. پل کے درمیان چبوترہ ’’کپجا‘‘ خوشی و غمی کے ہر موقع کا میزبان بن گیا. ہر روز لوگ وہاں پہ اکٹھے ہوتے، ایک دوسرے سے حال پوچھتے اور پھر اگلی رات تک علیحدہ ہوجاتے. وزگراڈ نامی یہ شہر جس کو باقی حصوں سے جوڑنے کے لیے پل بنایا گیا تھا، مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا مشترکہ مسکن تھا اور یہ پل ہی تھا جو ان سب کو آپس میں یکجا کیے ہوئے تھا. ان کی زندگی کا سارا مقصد پل کی رونق برقرار رکھنا تھا. اسی پل نےآسٹرو ہنگرین وار میں بھی ترکوں اور سربوں کو اکٹھا کیے رکھا اور پروپیگنڈے کے باوجود انہوں نے اس پل کے ساتھ جذباتی انسیت کی غرض سے دوسرے مذہب اور نسل والوں کو گھروں میں پناہ دی. یہ اتفاق، زندہ دلی اور روایت پرستی ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوگئی یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے ناسور نے بموں سے اس پل اور اس کے تقدس کو اکھاڑ دیا مگر جسے اس عظیم ناول نگار نے امر کر دیا.

    یہی روایات لاہور کا بھی خاصہ تھیں تب تک جب تک لوگوں کا تعارف نظریہ بقا سے نہیں ہوا تھا. اور لوگ پیسے کے نہیں بلکہ خلوص و چاہت کے رسیا تھے. یہ لاہور وہ تو نہیں کہ جس کے متعلق افسانے پڑھ کر اور قصے سن کر ہم جواں ہوئے ہیں. جن لوگوں کو زندہ دلان کہا جاتا تھا آج کوئی باہر والا ان سے دوستی تک کرنے کو تیار نظر نہیں آتا. گو کراچی جیسے گینگسٹرز گروہ نہیں مگر گلو بٹوں سے بھی تو انکار ممکن نہیں. میں خود عینی شاہد ہوں کہ اگست 2014ء میں جب عوامی تحریک کے کارکنوں کو محصور کیا گیا تھا تب ماڈل ٹاؤن کے کسی گھر نے ان کے لیے دیگیں نہیں چڑھائی تھیں اور نہ کوئی سبیل لگائی گئی تھی. ہاں مگر روایت لاہور سے نکلی تو سرگودھا پہنچ گئی، مگر کسے معلوم کہ اس شہر نے کوئی اورحان کمال نہیں جنا کہ جس نے اپنے ناولوں میں ادانہ جیسے ایک چھوٹے سے شہر کو امر کر دیا. کوئی اس کے بارے میں نہیں لکھے گا کہ منجن لاہور کے نام کا بکتا ہے، ایسے جیسے آج کل تثنیت اور لبرل ازم کا بک رہا ہے.

    شاید ایسا واقعہ کبھی لاہور میں بھی ہوا ہو جیسا سرگودھا کہ ایک گاؤں میں ہوا تھا کہ لاہور کے چند طالب علم وہاں ایک شادی پر گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پڑھے لکھےتو درکنا کوئی سیدھا سادھا دیہاتی بھی کھانے کی طرف نہ لپکا، سارے مہمانوں نے کھانا اطمینان سے کھایا اور کسی کے بھی کپڑے خراب نہ ہوئے. اس دوران وہ جتنا عرصہ کالج میں اکٹھے رہے، ان لوگوں کی نفاست اور زندہ دلی پہ حیران ہوتے رہے، یا فوارہ چوک کا وہ علی نواز میلہ جسے کچھ لڑکوں نے نشئی سمجھ کر سڑک پار کروائی مگر وہ ایک بڑا زمیندار نکلا اور آج تک ہر ہفتہ انہیں اپنے پاس کھانے پہ بلاتا ہے، یا وہ رکشے والا غریب دیہاڑی دار جس نے میرے حسن ظن پہ اعتبار کر کے سو کا ادھار کرلیا کہ میرے پاس چھٹا نہ تھا اور جب دوبارہ کبھی ملا تو پیسے لوٹا دوں گا اور آج تک اس کا مقروض ہوں، یا وہ پولیس والے جو کبھی طالب علموں کو نہیں روکتے کہ وہ اس کیفیت کو جانتے ہیں جو ایک طالب علم چالان کروانے پر محسوس کرتا ہے. ایک دوست بتاتا ہے کہ یونیورسٹی کے دنوں میں اس نے کم و بیش دس مرتبہ کھانا بن بلائے باراتی بن کے کھایا کہ لوگ ندیدوں کی طرح دوسرے کی ٹوہ میں نہیں رہتے. سرگودھا والوں نے اتنی زندہ دلی کب سیکھی یا وہ ہمیشہ سے ہی ایسے ہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اتنا ہے کہ ان دنوں سرگودھا سرگودھا ہے.

  • سرخ آندھیاں اب کیوں نہیں آتیں؟ عاطف الیاس

    سرخ آندھیاں اب کیوں نہیں آتیں؟ عاطف الیاس

    عاطف الیاس انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ یہ اس کا بلٹ ان پروگرام ہے، جس سے کسی صورت پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے والا چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، افسوس اور رحم کے جذبات ہر کسی کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ مجبور اور بے بس چاہے اپنا ہو یا غیر، مدد کرنے کی امنگ ہر انسان کے دل میں اُٹھتی ہے۔گرتے ہوؤں کو تھام لینا بھی اسی فطرت کا اظہار ہے۔ اور پھر اگر معاملہ بچوں کا ہو تو ان ننھے فرشتوں کے لیے تو ہر کسی کا دل پسیج جاتا ہے۔ ان پھولوں کے لیے ہر شخص اپنے اندر رحم اور شفقت کے جذبات محسوس کرتا ہے۔

    مگر یاد رہے کہ فطرت کے اس اظہار کے ساتھ ساتھ اسےمسخ کرنے والے عوامل بھی ہمارے اندرونی اور بیرونی ماحول ہی میں موجود ہوتے ہیں۔ جو انسانی فطرت پر غالب آ کر اسے بےحس، لاتعلق اور خود غرض بنادیتے ہیں۔ ان عوامل میں کچھ تو وہ تعصبات ہیں جو میڈیا، ماحول اور تعلیم کے ذریعے ہماری رگوں میں اُنڈیلے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ عصری واقعات کے تسلسل سے بھی جنم لیتے ہیں۔

    اگرچہ میرا بچپن لاہور میں گزرا ہے لیکن انٹرمیڈیٹ کا زمانہ کراچی کی ہواؤں میں اُڑتے ہوئے گزرا۔ وہاں عائشہ بھوانی کالج میں پڑھا کرتا تھا۔ کالج جانے کے لیے جس بس سٹاپ سے بیٹھتا تھا، وہاں ایک اخبار فروش نے مختلف اخبار سٹینڈ پر لگا رکھے ہوتے تھے۔ بچپن کی عادت کے ہاتھوں مجبور تھا، اس لیے کھڑے کھڑے اخباروں کی سرخیاں ضرور پڑھا کرتا تھا۔ ایک دن ایک اخبار کی شہ سرخی تھی: ’’شہر میں گیارہ لوگ مارے گئے‘‘۔ میرے ساتھ کھڑے ہوئے صاحب نے پان چباتے ہوئے، بڑے مطمئن لہجے میں فرمایا: ’’ارے بھائی ! آج تو شہر میں بڑا امن رہا۔‘‘ بلاشبہ کسی سیاق و سباق کے بغیر یہ جملہ شقاوت قلبی کا اظہار ہی معلوم ہوگا۔ لیکن پس منظر بتانے سے پہلے ضروری ہے کہ بچپن کی ایک اور انمٹ یاد کا تذکرہ بھی کردیا جائے کہ جو ہمیشہ دل و دماغ کے ساتھ جڑی رہتی ہے اور اس کا آج کے موضوع سے بھی گہرا تعلق ہے۔

    یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ شام کے وقت ہم ٹیوشن پڑھنے کے لیے دو گلیاں چھوڑ کر باجی کےگھر جایا کرتے تھے۔ان کےگھر پڑھنے کے لیے نرسری جماعت سے جارہا تھا یعنی تب سے جب سےمیں نے چلنا سیکھا تھا۔ ہمیں آس پاس کی گلیوں اور کھیل کے میدانوں میں آنے جانے کے لیے کچھ خاص خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ بچے سارا دن گلی محلوں میں بھی کھیلتے رہتے تھے۔ اگرچہ جرائم ضرور تھے لیکن ان کی شدت اتنی لرزہ انگیز نہیں تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قتل ایک ایسا جرم تھا کہ جس کے بارے میں ہم نے بہت کم سنا تھا یا جس کی ہولناکی کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔

    پھرایک ایسا واقعہ ہوا جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ٹیوشن سینٹر کے قریب ایک دکان والے نے ایک بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا۔ ہم سب بیک وقت خوف زدہ بھی تھے اور اس بچی کے لیے افسردہ بھی۔ مجھے آج بھی وہ منظر اچھی طرح یاد ہے کہ گلی کے نوجوانوں نے اس دکاندار کو پکڑا ہوا تھا اور اسے بری طرح مار رہے تھے۔ پھر سہ پہر کو بچی کا جنازہ تھا، ہر آنکھ اشک بار تھی۔ جنازے میں لوگ ہی لوگ تھے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ شرکت کرنے کے لیےآئے تھے۔ ہم بچوں کے لیے یہ سب کچھ نیا تھا، قتل، مارپیٹ، جنازہ اور ہر شخص کا غم زدہ ہونا، ایسا منظر ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے ہر بچے کا ذہن اس نئے واقعے کے اثرات قبول کر رہا تھا۔

    جنازے کے بعد ہم سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے لیکن شام ہوتے ہوتے موسم نے بھی تیور بدلنے شروع کر دیے۔ آسمان کا رنگ بالکل لال ہوچکا تھا۔ بڑوں سے سنا تھا کہ جب کوئی قتل ہوجائے تو سرخ آندھی آتی ہے اور یہ سب ہوتا ہوا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک معصوم جان کے قتل اور پھر اس کے بعد سرخ آندھی کی آمد نے ہمیں سخت خوفزدہ کردیا تھا۔ ہمیں یقین ہورہا تھا کہ قتل ضرور ایک گھناؤنی شے ہے کہ جس پر قدرت بھی غضنباک ہوتی ہے۔ ہم سب کو زبردستی گھر کے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ جہاں چھوٹی خالہ ہمارے ساتھ تھیں اور ہمیں مسلسل حوصلہ دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لیکن باہر آندھی کا زور اور چنگھاڑ ایسی تھی کہ جیسے لاکھوں بدروحیں بیک وقت بین ڈال رہی ہوں۔ ہم سب سخت خوفزدہ تھے۔ لیکن ایک دوسرے کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچنے کے لیے، بہادر بنے، خالہ کے کہنے پر جلدی جلدی کلمہ پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔

    بلاشبہ بچپن کی اس یاد نے ایک انمٹ قسم کا نقش سا دماغ میں بٹھا دیا تھا۔ اسی لیے بہت عرصے تک یہ عادت رہی کہ کسی بھی قتل کی خبر کے بعد سرخ آندھی یا سرخ آندھی کے بعد کسی قتل کی خبر کا منتظر رہا اور یہ سلسلہ ءِقلبی میٹرک تک یونہی چلتا رہا۔ لیکن پھر کچھ یوں ہوا کہ والد صاحب ہمیں بسلسلہ روزگار کراچی لے آئے۔ یوں ہم سب گھر والے لاہور ی سے کراچوی بن گئے۔ اور جہاں بچپن کے اس نقش کو پھیکا پڑنے میں صرف تین یا چار سال لگے۔ کراچی ایک ایسا شہر تھا جہاں قتل و غارت خبر بن چکی تھی۔ آئے روز پچاس ساٹھ لوگوں کا مرنا معمولی سی بات تھی اور ہم سرخ آندھیوں کو بھول چکے تھے۔ شاید وہاں اتنے تواتر سے انسانی خون بہتا تھا کہ زمین مسلسل سرخ رہتی تھی، لہذا آسمان اس ذمہ داری سے سبکدوش رہتا تھا۔ بہرحال کراچی میں زندگی کی بےوقعتی اور اس قتل و غارت نے دل و دماغ سے انسانی جان کی وہ قدر و قیمت ختم کردی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کراچی کے سول ہسپتال کے واش روم میں پڑی ہوئی آٹھ نو لاشیں دیکھ کر بھی دل پر کوئی خاص رقت طاری نہیں ہوئی تھی، صرف یہ افسوس ضرور ہوا تھا کہ بے چاروں کو مرنے کے بعد کہاں جگہ ملی ہے۔

    رہی سہی کسر امریکی وار آن ٹیرر نے نکال دی۔ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے جب کولن پاؤل کی ایک فون کال پر سرنڈر کیا تو کسی کو آنے والی مصیبت کا اندازہ نہیں تھا۔ اس جنگ کا حصہ بننے، پھر خصوصا لال مسجد واقعے اور باجوڑ میں ہونے والے امریکی حملے کے بعد اس ملک میں قتل و غارت کی ایسی آگ لگی کہ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ بازار، عبادت گاہیں، سکول ، شاہراہیں ہر جگہ غیر محفوظ ہوگئی۔ انسانی جان اتنی بےوقعت ہوگئی کہ اخبار میں سو لوگوں کے مارے جانے کی خبر کے باوجود ہم اسی شام کسی کنسرٹ میں موجود ہوتے تھے۔ ادھر سے خبر آتی تھی کہ بم دھماکے میں دو سو لوگ مارے گئے اور ادھر ہم کرکٹ میچ کی فتح کا جشن مناتے تھے۔ قتل قتل نہ رہا بلکہ خبر بن گیا۔ پھر سولہ دسمبر کا سیاہ دن آن پہنچا جب آرمی پبلک سکول کے بچوں کے شہادت کی خبر آئی تو ہر طرف سانپ سونگھ گیا۔ میں نے بڑے عرصے بعد لوگوں کو دل گرفتہ دیکھا تھا ورنہ یہ جذبہ بھی ناپید ہوچکا تھا۔

    لیکن آج کل جس تواتر سے بچوں کے اغوا اور قتل کی وارداتیں سننے کو آرہی ہیں یا ہم فلسطین، شام، افغانستان اور عراق میں جس پیمانے پر بچوں کا قتل عام دیکھ رہے ہیں اور ان واقعات کے رد عمل میں بےحسی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ بہت جلد وہ رحم، شفقت کا جذبہ اور وہ احساس جو چھوٹے بچوں کے حوالے سے ہمارے دلوں میں کہیں نہ کہیں موجود رہتا ہے، ناپید ہوجائے گا۔ اللہ نہ کرے کہ ہم ایسا زمانہ دیکھیں کہ بچوں کا مرنا بھی ہمارے لیے روزمرہ کی خبر بن جائے۔ سوچتا ہوں کہ اس دور کے بچے جو یہ سب کچھ ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، بڑے ہوکر، لفظ ’’سرخ آندھی‘‘ کو کیا معنی دیں گے؟ شاید ! ماضی کے وہم! یا کچھ اور۔

    اگر ایسا ہوا تو بلاشبہ یہ انسانیت کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔ اور اس اعلان کے بعد زندگی محض ربورٹ بن کر رہ جائے گی۔ اس لیے پاکستانی ریاست اور حکمرانوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا کہ بصورت دیگر مرجھائے ہوئے پھولوں سےگلشن کی سجاوٹ کی توقع عبث ہوگی۔

  • مجرم اور شریک مجرم – عائشہ ملک

    مجرم اور شریک مجرم – عائشہ ملک

    مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک بیان سنا کہ ” دین تو کہتا ہے کہ ناچنے والی سے بھی نفرت نہ کرو – تو آخر کیا کرو؟ دین کی تعلیم یہ ہے کہ نفرت جرم سے اور گناہ سے کرو، انسان سے نہیں. سیرت اور تفسیر کی کتابوں میں ایک مشہور واقعہ ہے “غامدیہ” کا، جب اسے زنا کے اقرار پر رجم کیا جانے لگا اور اس کے خون کے چھینٹے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر پڑے، تو ان صحابی کے منہ سے اس عورت کے لیے کچھ برے الفاظ نکل گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ اے فلاں! اسے ایسا نہ کہو، آج اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس توبہ کو پورے مدینہ والوں پر تقسیم کر دیا جائے تو سب کو کافی ہو جائے۔ اگلے جہان کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن دین کی رُو سے ہمیں تعلیم یہی دی گئی ہے کہ “نفرت مجرم سے نہیں، جرم سے ہے”

    حقیقت یہ ہے کہ اپنے لیے تو ہر کوئی گنجائش نکالتا ہے، مگر دوسروں کو کوئی رعایت نہیں دیتا. بلاشبہ ہمیں اپنے رویوں کو درست، اور اپنے ضمیر کو جگانے اور اپنے ظرف کو ارفع و بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی حیثیت کو سمجھیں کہ ہمیں مسائل کا حل نکالنے والا بنایا گیا تھا اور ہم محض رائے دینے والے بن کر رہ گئے۔ دوسری بڑی بات سیکھنے کی یہ ہے کہ احادیث کی رو سے دین میں ہر مر جانے والے کے لیے دعائے خیر کرنےکی تعلیم دی گئی ہے۔ مرنے والے کے عیوب اور برائیوں کو بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

    اسی ضمن میں ایک اور بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے، وہ ہے مجرم اور شریک جرم کا معاملہ. اگر قندیل نے ماڈلنگ کی یا جو کچھ بھی کیا تو اعلانیہ کیا۔ معاشرے میں چند لوگوں نے وہ نظام بنایا ہے جس نے اس عورت کو ترغیب دی کہ وہ ایسا کرے، پھر کچھ اور لوگ بھی موجود رہے اُس عورت کی قیمت لگانے والے اور کچھ مزید لوگ بھی رہے ہیں اس عورت کو قیمت ادا کرنے والے۔
    یہ سب کام چھپ کر نہیں ہوا اور نہ ہی چھپ کر ہوتا ہے جناب! یہاں دین مجرم اور شریکِ جرم سے برابر کا سلوک کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔
    سزا کے وقت کہاں ہیں قیمت لگانے والے؟
    کہاں ہیں ترغیب دینے والے؟
    کہاں ہیں فحش کاروبار کروانے کی خاطر اندھیرے راستوں پر لے جانے والے؟
    کہاں ہیں اس کو اس کی قیمت ادا کرنے والے؟
    ان کی سزائیں کون بتائے گا معاشرے کو؟
    اور ان کو سزائیں دے گا کون ؟
    ان سب فحش کام کرنے والوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟
    ہے کسی میں اتنی طاقت؟
    ہے کوئی جو میڈیا کے نام پر چلنے والے کاروبار کا دین کے مطابق ضابطۂ اخلاق طے کرے؟ یا اب کوئی اینکر یہ طے کرے گا؟ ان میں سے جو بھی کہتا ہے کہ میری بیٹی ایسا کرے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا ان لوگوں نے کبھی عوام کو ڈیل کیا ہے؟ کیا ان کو معلوم ہے کہ اس معاشرے میں لوگ بیٹیوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ لوگ عوام میں آکر ایسے بیانات دے سکتے ہیں؟ کیا ان کو واقعی علم نہیں جب یہ بیٹیوں کی یوں تحقیر کروانے کی تبلیغ کریں گے تو عوام ان کی حالت جانوروں سے بدتر نہیں کریں گے؟ سوال یہ ہے کہ یہ ضابطۂ اخلاق اب کون دے گا؟ جی ہاں ! مجھے معلوم ہے کہ فی الوقت کوئی نہیں دے گا۔ اور تب تک کوئی نہیں دے سکتا جب تک اس معاشرے میں دین کو یتیم کی طرح رکھا جا ئے گا۔

    کچھ عرصہ پہلے گزر ہوا اندرون لاہور سے. ایک رشتہ دار کی عیادت کے لیےجانا تھا، قریبی تعلق بھی تھا. لیکن گلیاں بہت تنگ تھیں اور بازار کھلے ہوئے تھے، گاڑی کو راستہ کوئی نہیں دے رہا تھا۔ لہٰذا گاڑی کوجیسے تیسے ایک کنارے چھوڑا اور رکشہ پکڑا. اس کو بتایا کہ “اُچی مَسِیت” کے سامنے لے چلو۔ رکشہ جب چلا تو کچھ نئے راستے اور نئی گلیوں سے گزرا، بھاٹی گیٹ کے اندر باجےگاجے ،گھنگرو، ڈھول، ستار اور طرح طرح کے باجے نظر آنے لگے۔ رکشے والے سے پوچھا کہ یہ کون سی نئی جگہ لے آئے ہو؟ رکشے والے نے پوچھا آپ لوگ پہلی بار آئے ہیں؟ ہم نے کہا کہ نہیں! ہم تو بچپن سے آرہے ہیں لیکن یہ گلیاں پہلی مرتبہ دیکھی ہیں۔ بولا “باجی! یہ ہیرا منڈی کہلاتی ہے، یہاں بڑا کاروبار ہوتا ہے ۔ آج شام صلّی کا مجرا ہے، بڑے پیسے لگاتا ہے، بڑے تعلقات ہیں اس کے۔ بہت بڑا کاروباری بندہ ہے، یہ راستہ چھوٹا ہے اور رش کم ہے اس لیے یہاں سے چلتے ہیں”۔ اُف! کانوں سے دھواں نکال دیا۔
    واپسی پر شام ہوچکی تھی ایک چوراہے سے گزرتے ہوئے کانوں نے گھنگرو کی آواز کچھ دور سے آتی سنی۔ مڑ کے دیکھا تو ایک رش تھا. موٹے موٹے آدمیوں اور بڑی بڑی عالی شان چمک دار گاڑیوں کا۔گارڈز بھی ساتھ تھے۔ ان گاڑیوں پر پنجاب سرکار کی سبز نمبر پلیٹس بھی سجی ہوئی تھیں۔
    واہ! بےشرمی کی حد ختم اور قوم کے ٹیکس سے لی گئی گاڑیوں کا استعمال.
    کیا خوب امانت داروں نے امانت کا حق ادا کیا ۔
    جی ہاں! یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے.
    یاد آیا کہ سکول و کالج کے زمانے میں کچھ مخلص اور حسّاس لوگوں نے وطن کی محبت دل میں پیدا کی تھی۔ اُن میں ایک ہماری اردو کی استاد تھیں جو بہت اچھا اور دوستانہ ماحول میں پڑھایا کرتی تھیں۔ شاعری اور تشریح میں ایک دن پڑھانے لگیں کہ شاعر کہتا ہے کہ “اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے” استاد کا اپنا علم اور تجربہ تھا ،ہمارا اپنا محدود سا۔ طالب علم سن کر حیران کہ یہ استاد نے کیا کہہ دیا؟ آگ کا دریا اور ڈوب کے جانا ہے؟ مِس ! ہم آگ سے ڈوب کر کیسے جائیں گے؟ لگتا ہے آپ نے غلط کہہ دیا۔ ہمیں لگتا ہے کہ یوں ہوگا “اِک آگ کا دریا ہے اور کُود کے جانا ہے”۔ اور ہم تو کود کے ہی جا سکتے ہیں، بھلا آگ میں سے ڈوب کر کون جاسکتا ہے؟ لیکن استادِ محتر م کا اصرار تھا کہ نہیں شاعر نے ٹھیک یہی کہا ہے کہ ” اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے”۔
    اس دن “ہیرا منڈی ” سے گزرے تو پتہ چلا کہ واقعی استادِ محترم ہی درست تھیں، اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے۔ یہاں تو واقعی “اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے”۔ لیکن کب تک جانا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ بات معاشرہ اور حاکم خود طے کریں گے۔ اور وقت بہت ظالم بھی ہے، خود طے کروا دے گا کہ کب تک یہ تماشا مزید چلنے والا ہے؟

    لیکن اے کاش! کہ قندیلوں کو بجھانے کے بجائے اصل ذمہ داروں اور ان اداروں کو بجھایا جائے جو میڈیا انڈسٹری کے نام پر اپنا کاروبار پھیلاتے ہیں. ان کو کٹہرے میں لایا جائے۔ تب بات بنے گی۔ قندیلیں تو معمولی سے پُرزے ہیں اس کاروبار کے۔ وہی بات ہوئی کہ چھوٹی مچھلی کو ہر کوئی پکڑتا ہے اور بڑی مچھلیوں کو کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا ۔ کب تک؟ آخر کب تک؟