Tag: قتل

  • موم بتی مافیا کی شہید ۔۔۔نجم ولی خان

    موم بتی مافیا کی شہید ۔۔۔نجم ولی خان

     

    image description

    موم بتی مافیا نے قندیل بلوچ کوقتل ہونے کے بعد اپنی شہید قرار دیتے ہوئے ایسی ایسی باتیں کہیں کہ اللہ کی پناہ، مجھے یوں لگاکہ وہ معصوم اور مظلوم تھی جبکہ ہم سب بطور معاشرہ ظالم اورمجرم ، جی جی، آپ نے درست کہا کہ وہ جیسی بھی تھی اس کے قتل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ، میں اس پرآپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں مگر کیا آپ مجھے قائل کرپائیں گے کہ قندیل بلوچ اپنی زندگی میں جو کچھ کرتی رہی، کیا اس کے قتل کے بعد وہ سب کچھ جائز قرار دیا جا سکتا ہے، اسے آئیڈیلائز کر تے ہوئے معاشرے کے کچے ذہنوں کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے ۔میں اس کے قاتل بھائی کی ہرگزوکالت نہیں کر رہا، اسے یقینی طور پر ایک قتل کے مجرم کی حیثیت سے ہی سزا ملنی چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ میرا موم بتی مافیا قندیل بلوچ کو بہادر، باغی اور جرات مند قرار دیتا ہے لیکن اگر اس کے آس پاس، چاردیواری کے اندر، کوئی لڑکی دوسرے مردوں کے نام اپنے بیڈ روم سے قابل اعتراض حالت میں لیٹ کر ایسی ویڈیوز بنا کے پوسٹ کر رہی ہو جس میں ان کے ساتھ سب کچھ کرنے کی دعوت بھی موجود ہو توو ہ کیا کریں گے جنہیں غیرت کے نام سے گھن آتی ہے، جنہیں اس بے چارے مشرقی معاشرے کی تمام روایات انتہائی بری لگتی ہیں۔

    میں نے قندیل بلوچ کی سوشل میڈیا پروفائل دیکھی اور جانا کہ جس طرح ایک صدقہ جاریہ ہوتا ہے اسی طرح کچھ گناہ بھی ’گناہ جاریہ‘ کے زمرے میں آتے ہیں، جو کوئی قندیل بلوچ کے کردار سے متاثر ہو گا اور اس کی راہ پر چلے گا میرے خیال میں اس کے گناہ میں قندیل بلوچ کا حصہ بھی ہو گا، اس نے ایک سیاسی رہنما کو شادی کی پیش کش کرتے اور انڈین ٹی وی چینل کی طرف سے اس کے رئیلٹی شو میں شرکت کی دعوت ملنے پر بار بار لکھا، ’ نو ون کین سٹاپ می‘ ، یعنی اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر قندیل بلوچ ’ بگ باس ‘ میں شرکت کر لیتی تو وہ وینا ملک کے ریکارڈ بھی توڑ دیتی اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتی ، وہ یقینی طورپر اس کی ’ بین ویڈیو‘ سے بھی آگے کی چیز ہوتی ،موم بتی مافیا کی شہید اسی تیز رفتاری کی قائل تھی جس کی موٹر وے پر ممانعت کی گئی ہے اور جگہ جگہ لکھا گیا ہے کہ تیز رفتاری سب کو بھاتی ہے مگر جان اسی میں جاتی ہے۔ بہت ساری خواتین قندیل بلوچ کو صرف اس لئے ’ خراج عقیدت ‘ پیش کر رہی ہیں کیونکہ وہ خود کو معاشرے میں مردانہ بالادستی کے خلاف ’ جہاد‘کی مجاہدہ سمجھتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ جب مردوں کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا جاتا تو پھر ایک عورت کوانہی افعال کیوں قتل کیا جائے جنہیں مرد اپنی محفلوں میں فخر کے ساتھ چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں مگر اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اگرمرد غلط کرتے ہیں تو اسے عورتوں کی غلط کاری کاجواز نہیں بنایا جا سکتا، ہونا تو یہ چاہئے کہ مردوں کی غلط کاریوں کی روک تھام کے لئے تحریک چلائی جائے نہ کہ ان کی بنیاد پر عورتوں کی غلط کاریوں کو بھی جواز دے دیا جائے۔

    مجھے انتہائی ادب کے ساتھ عرض کرنے دیجئے کہ قندیل بلوچ کا کردار کسی طور بھی عورتوں اور مردوں میں جاری کشمکش کا شاخسانہ نہیں، یہ ایک عورت کی طرف سے دولت اور شہرت کے حصول کا شارٹ کٹ تھا، ہاں، یہ بات درست ہے کہ مردوں میں قندیل بلوچوں کی کمی نہیں، علمائے کرام میں مفتی عبدالقوی نام کے شخص کو آپ اس کی ایک بہترین یا بدترین مثال قرار دے سکتے ہیں۔ہمارے ایک صحافی اور مصنف دوست نے اپنے قلم کے ذریعے اسی امر کی نشاندہی کی کہ غیرت کے نا م پر مرد کیوں قتل نہیں ہوتے اور پھر اگلے ہی روز قندیل بلوچ کے شہر ڈیرہ غازی خان سے ہی خبر آ گئی کہ اللہ دتہ نام کے ایک شخص کو غیرت کے نام پر پانچ افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، ناک کان اور ہونٹ سمیت اس کے مختلف اعضا کاٹ لئے اور اپنے ساتھ لے گئے، اللہ دتہ کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا، بس ایک کمی رہی کہ کچھ لوگوں کے مطابق یہ کام خواتین کا گلابی گینگ کرتا تو انہیں تسلی ہوتی۔ قندیل محض دولت ،شہرت اور کامیابی کی اندھی ہوس میں مبتلا تھی ،وہ معاشرے میں اصلاح کے لئے کوئی جہاد نہیں کر رہی تھی کہ اسے سراہا اور اس پر تنقید کرنے والوں کو گالیوں سے نوازا جائے، جواس کی زندگی میں برا فعل تھا وہ اس کی موت کے بعد بھی قابل مذمت ہی رہے گا۔

    بہت ساروں نے کہا، اپنی حرکتوں کی قندیل ذمہ دارنہیں، ذمہ دار تو یہ معاشرہ ہے، کچھ نے منٹو کے کسی افسانے کا یہ زریں قول بھی بیان کیا کہ یہ معاشرہ عورت کو ٹانگاچلانے کی اجازت تو نہیں دیتا مگر کوٹھا چلانے کی اجازت دے دیتا ہے اور مجھے ان سے کہنا ہے کہ اس قتل نے ثابت کر دیا ہے یہ گیا گزرا معاشرہ بھی کسی کو کوٹھا چلانے کی اجازت نہیں دیتا ، ہاں، اگر ٹانگا چلانے سے مراد روزگار کا حصول ہے تو میرے معاشرے کی ہزاروں نہیں لاکھوں خواتین محنت مزدور ی کر کے اپنے بزرگوں اور بچوں کے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھا رہی ہیں، وہ شہروں میں دفاتر میں کام کرتی ہیں اور دیہات میں کھیتوں میں اپنا پسینہ اپنے مردوں کے ساتھ بہاتی ہیں مگر اپنی عزت کا سودا نہیں کرتیں ، اپنے جسم کی تشہیر نہیں کرتیں اگر آپ ڈیرہ غازی خان کی فوزیہ کو دولت کے حصول کے لئے قندیل بلوچ بننے کو قابل تحسین گردانتے ہیں تومجھے کہنے دیجئے آپ ان تمام محنت کش خواتین کو احمق قرار دیتے ہوئے ان کی توہین کر رہے ہیں جو آپ کی نظر میں ’کامیابی‘ کے لئے فحاشی اور بے حیائی کے اس شارٹ کٹ کو استعمال نہیں کر رہیں، جی ہاں، مجھے آپ کے اس سوال کا بھی اندازہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تو مرنے کے بعد متوفی کی برائیاں نہیں صرف خوبیاں ہی بیان کی جاتی ہیں، اس کے گناہوں کی معافی اور اس کی جہنم کی آگ سے نجات کے لئے دعا کی جاتی ہے اور میں اپنی معاشرتی روایات کے بالکل الٹ اس بی بی کے مرنے کے بعد بھی اس کی برائیاں بیان کر رہا ہوں، جہاں میں قندیل بلوچ کی مغفرت کے لئے دعاگو ہوں وہاں یہ دعا بھی پورے خلوص سے کرتا ہوں کہ مجھے بھی میرا رب معاف فرمائے۔ اے موم بتی مافیا!میرا جواب اس خدشے میں چھپا ہوا ہے کہ تم لوگ قندیل بلوچ کو ہماری خواتین، خاص طور پر وہ جوبہت سارے مردوں کی طرح شارٹ کٹ میں دولت اور شہرت کے حصول کے لئے دیوانی ہو رہی ہوتی ہیں، ان کے سامنے ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کر رہے ہو۔ میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تم اس کے قتل کو بنیاد بناتے ہوئے اسے جتنا مرضی مظلوم ، معصوم ، باغی اور انقلابی بنا کے پیش کرتے رہوہمیں اپنے معاشرے میں مزید قندیل بلوچیں کسی طور قابل قبول نہیں ہیں۔ میں تمہارے ساتھ مل کر اس قتل کی مذمت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر اس کے کردار اور افعال کو جائزیت عطا نہیں کر سکتا۔ بہت ساروں نے سوال کیا کہ اس کے بھائی کی غیرت اب کیوں جاگی، اس سے پہلے جاگتی تو وہ قندیل بلوچ ہی نہ بنتی اور میں موم بتی مافیا کی اسی غیرت کو اب جگانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اپنا قبلہ درست کر لے۔

    قندیل بلوچ جیسی عورتوں کی اخلاق باختہ اوردعوت گناہ دیتی ہوئی ویڈیوز دیکھنے کے بعد انہیں جرات اوربہادری قرار دینا کسی بھی غیرت مند انسان کے لئے ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن چونکہ ہم سب کچھ مختلف کہنا اور اس پر داد لیناچاہتے ہیں لہذا اس کے قتل کی آڑ لیتے ہوئے ہم یہ بھی کر گزرتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں کسی قندیل بلوچ کو برداشت نہیں کرسکتا۔ موم بتی مافیا اگر واقعی اس مقتولہ کو معاشرے کی باغی کے طور پر آئیڈیلائز کرنے میں منافقت نہیں کر رہا ، محض مشرقی او ر مذہبی روایات کی مخالفت میں جنونی نہیں ہو رہا ، د ل کی گہرائیوں سے مقتولہ کے کردار کو سراہتا ہے تو میں اسے دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کے نام قندیل بلوچ رکھنے کی تحریک کا اعلان کر دے کہ موم بتی مافیا کو اپنی شہید رہنما کا لہوکم از کم اس طرح رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے اور اسے سپورٹ کرنے والے ہر گھر میں کم از کم قندیل بلوچ تو ضرور ہونی چاہئے تاکہ معاشرہ ان کی نظر میں عزت او ر غیرت کے فرسودہ تصورات سے جلد از جلد باہر نکل سکے بلکہ اپنے طور پر قرار دی گئی اس مقدس جنگ میں وہ خود بھی پوری طرح شامل ہوں، محض لفاظی ہی نہ کرتے رہ جائیں۔ وما علینا الاالبلاغ۔

  • قاتل کون۔۔۔؟…طارق محمود چوہدری

    قاتل کون۔۔۔؟…طارق محمود چوہدری

    p12_04

    قندیل بلوچ کی مختصر زندگی اور اس کی دردناک موت، منیر نیازی کے اس شعر کی عملی تفسیر نظر آتی ہے جس میں بے دل شاعر نے کہا تھا کہ کچھ تو شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اور کچھ مجھے مرنے کا شوق بھی۔ بظاہر تو قندیل بلوچ کو قتل تو اس کے ’’غیرت مند‘‘ بھائی نے کیا۔ لیکن یہ بھائی قاتل نہیں۔ آلہ قتل ہے۔ جس طرح بندوق، پستول، خنجر، چھری، تلوار آلہ قتل کے زمرے میں آتے ہیں۔ درست قاتل وہی کہلاتا ہے جس کے ہاتھ لبلبی دبانے، خنجر، چھری کا وار کرتے اور جیتے جاگتے انسان کو موت کی تاریک سرد وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ قندیل بلوچ کے قتل میں شریک جرم ایک نہیں کئی ہیں۔ تضادات کا شکار معاشرہ، بے حس سماج،منافقانہ رویئے، شہرت کی اندھی خواہش، ثنا خوان تقدیس مشرق، عورت کو جنس بازار سمجھنے والے سوداگر، ریٹنگ کی اندھا دھند دوڑ میں میکانی سمت، الیکٹرانک میڈیا، قاتلوں کے اس گروہ نے مل کر قندیل بلوچ کو مارا۔ یہ سب قاتل شریک جرم ہیں۔ ہاں! سزا اس کے بھائی کو ملے گی۔ وہ بھی نہ جانے کتنی تاخیر سے۔ ویسے اگر قندیل بلوچ نہ بھی ماری جاتی تو وہ اپنے اوپر پہنی ہوئی بغاوت کی خودکش جیکٹ کا شکار ہو جاتی۔ آخر ایک روز یہ ہونا ہی تھا۔
    ٹی وی پر ڈرامے دیکھنا۔ ایک عرصہ ہوا چھوڑ دیا۔ ایک ہی طرح کے موضوعات، ایک ہی طرح کے پس منظر اور تاثر دینے والے ڈراموں کو چند منٹوں کیلئے بھی برداشت کرنا مشکل کام ہے۔ اب تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کون سا ہیرو نمبر ون ہے اور کون سی ہیروئن ٹاپ سلاٹ پر براجمان ہے۔ لہٰذا بہت سے آرٹسٹوں کو شکل سے تو پہچانتا ہوں البتہ ان کے نام ہر گز معلوم نہیں۔ آخری فلم کب دیکھی یہ بھی یاد نہیں۔ کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھنے کیلئے بلڈ پریشر اور ذیابیطس کنٹرول کرنے کی گولیوں کا سٹاک اپنے ہاتھ کی پہنچ میں رکھنا پڑتا ہے۔ ایسی سرگرمیوں سے اب دور ہی رہتا ہوں۔ فالتو وقت، جو بہت زیادہ میسر نہیں۔ میں کوئی کتاب، میگزین، ڈائجسٹ پڑھتا ہوں۔ البتہ ٹی وی ہی دیکھنا ہو تو سپورٹس چینل ہی اولین ترجیح پاتے ہیں۔ لہٰذا پہلے پہل قندیل بلوچ کا نام سنا تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ موصوفہ کون ہیں؟ اداکارہ ہیں، گلوکارہ ہیں یا ماڈل ہیں۔ کون سی فلم میں کام کیا؟ کسی ہٹ ڈرامے میں کوئی پاپولر کردار ادا کیا؟ کوئی اچانک مشہور ہو جانے والا گیت گایا۔ پتہ چلا کہ ان میں سے کوئی بھی بات حقیقت نہیں۔ اس کے باوجود قندیل بلوچ کے نام کے ڈنکے بجتے دیکھے۔ معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر بہت پاپولر ہیں۔ کوئی پانچ لاکھ کے قریب ان کے فالوور ہیں۔ ادھر وہ کوئی پوسٹ اپنے پیج پر ڈالتی ہیں، ادھر سوشل میڈیا کی چکاچوند سے بھرپور دنیا میں ایک کھلبلی مچ جاتی ہے۔ قندیل بلوچ کی غیر معمولی شہرت کی کہانی پانی کے بلبلے کی طرح ہے، بلبلہ بنا۔ چند روز نظروں کے سامنے رہا اور پھر ایک روز اچانک بے رحمی اور سفاکی کی دھوپ اس کو کھا گئی۔ مرحومہ کو غیر معمولی شہرت ورلڈ کپ میں ملی۔

    جب انہوں نے کہا کہ پاکستان ورلڈ کپ جیت گیا تو وہ اس خوشی کے موقع پر غیر معمولی انداز میں جشن منائے گی۔ وہ پاکستانی شائقین کیلئے ’’سڑپ ٹیز‘‘ کا مظاہرہ کریں گی۔ کسی زمانے میں تو سٹرپ ٹیز کا لفظ ہی جسم میں سنسنی دوڑانے کیلئے کافی ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہ پرانی باتیں ہیں۔ اب پاک لوگوں کے غیرت مند معاشرے میں سب کو معلوم ہے کہ سٹرپ ٹیز کیا چیز ہے۔ ایسے ملک میں جس کو بین الاقوامی ادارے ایک خاص شعبہ میں نمبر ون پوزیشن کا حقدار قرار دے چکے ہوں۔ جانتے ہوں نا اس کے اعزاز کے متعلق۔ جی ہاں! بین الاقوامی ریسرچ بتاتی ہے کہ پاکستان انٹرنیٹ پر فحش اور بیہودہ سائٹس کی سرچ میں ٹاپ پوزیشن پر ہے۔ غیرت کے نام پر جان لینے اور دینے والے معاشرے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ بہرحال قندیل بلوچ اس فراخ دلانہ پیشکش سے بہت پہلے، قائد انقلاب عمران خان سے شادی کی خواہش ظاہر کر کے شہرت حاصل کر چکی تھی۔ عمران خان سے شادی کی خواہش پوری ہوئی نہ پاکستان ورلڈ کپ میں کوارٹر فائنل سے آگے جا سکا۔ اس وقت تک ذاتی طور پر قندیل بلوچ کو مشکل سے کم از کم یہ خاکسار تو نہیں پہچانتا تھا۔ سب سے پہلے قندیل بلوچ کو ورلڈ کپ کے بعد ایک ٹی وی چینل پر لاہور کے اینکر کے پروگرام میں دیگر خواتین سے لڑتے دیکھا۔ اینکر موصوف چند سالوں میں تیزی سے وزارتوں، عہدوں کی فصیلیں پھلانگتے ہوئے آج ٹاپ پوزیشن ہولڈر ہیں۔ اپنے جہاز کے بھی مالک ہیں۔ بہرحال اس ایک گھنٹہ کے پروگرام میں قندیل بلوچ نے بھی کھل کر متنازعہ باتیں کیں اور ٹی وی پروگرام کی ریٹنگ میں بھرپور اضافہ کیا۔ اس کے ایکسپریشن، اس کا انداز گفتگو صاف بتا رہا تھا کہ اس کو معلوم ہے کہ چسکے کے متلاشی نمائش بینوں کو مطلوبہ تفریح کس طرح پہنچائی جاتی ہے۔ پھر ریٹنگ کے حصول کیلئے ہر معاشرتی قدر کو چھابڑی میں رکھ کر بیجنے کیلئے تیار میڈیا ماسٹروں کو قندیل کی شکل میں ہاتھوں ہاتھ بکنے والی پراڈکٹ نظر آئی۔ سوداگر کیلئے صرف یہی اہم ہوتا ہے کہ اس کی تیار کردہ پراڈکٹ منہ مانگے دام بکتی رہے۔ خریدار

    پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے تاجر کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ بہرحال اس پراڈکٹ کو بیچنے کیلئے اس کے ساتھ مفتی قوی نامی عالم ہونے کے دعویدار شخص کا پیئر بنایا گیا۔ شہرت کیلئے قوی صاحب نے بھی ہر وہ اوچھی حرکت، ذومعنی فقرہ بولا۔ جو سکرین کی ڈیمانڈ تھی۔ ٹی وی سکرینوں پر ایسے رنگیلے،جعلی عالم خوب ریٹنگ پاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ایک ’’ان لائن جاہل‘‘ عالم بن کر رمضان میں برکات رمضان، محرم میں غمگساری خانوادہ نواسہ رسول، ربیع الاول میں فضائل اسوہ حسنہ بیچتا ہے۔ قندیل نے اس مولوی کو خوب بے نقاب کیا۔ اس کے کردار، تقویٰ کے دعوے کو جعلی میڈیا کو بیچ چوراہے پھوڑا۔ یہی قندیل کے مختصر عرصہ شہرت کا نکتہ عروج تھا۔ میڈیا نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ کون جانتا ہے اس حقائق کی تلاش کی مہم کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ بہرحال میڈیا اس کے آبائی گھر تک پہنچا۔ اس کی زندگی کا ہر گوشہ، ہر کونا، چوکوں، چوراہوں میں بینر پر لکھ کر سجا دیا۔ اس کی شادیاں، طلاق، خاندان میں منظر، اس کا پتہ، سب کچھ ایڈریس سمیت بچے بچے تک پہنچ گیا۔ ایسے میں اس کے بھائی کی سوتی غیرت جاگ اٹھی اور اس نے بہن کو قتل کر دیا۔
    غیرت مند بھائی کی غیرت اس وقت نہ جاگی۔ جب وہ 17 سال کی عمر میں شوہر اور دیوار کی مار کھا کر گھر سے نکلی۔ اس وقت بھی سوئی رہی جب وہ دارالامان میں رلتی رہی۔ اس وقت بھی نہ جاگی جب وہ بس میں میزبان کی نوکری کرتی رہی۔ جب وہ پاکستان سے نکل کر دبئی اور جنوبی افریقہ کے عشرت کدوں میں سجی، تب بھی وہ ضمیر خوابیدہ ہی رہا۔ جب اس نے ماں باپ کو ملتان میں گھر لیکر دیا۔ ماہانہ خرچہ اٹھاتی رہی۔ تب تو بالکل ہی خاموش رہی۔ غیرت مند بھائی کو موبائل شاپ کھول کر دی۔ تب بھائی نے غیرت کو نیند کی گولی کھلا کر سلا دیا۔ یہ غیرت جاگی تو اس وقت جب بہن کی ذاتی زندگی، جنس بازار بن گئی۔ قندیل بلوچ مر گئی۔ اس کی پراسرار زندگی کے بے شمار پہلو پوشیدہ ہی رہیں گے۔ اس فوزیہ عظیم کو کلچر کوئن بنانے والے کردار کون تھے؟ اس کو فائیو سٹار ہوٹلوں، فارم ہاؤسوں، بیش قیمتی گاڑیوں میں بٹھانے والے کون تھے؟ کون تھے وہ لوگ جنہوں نے خود رو خواہشوں کے جنگلوں میں بھٹکنے والی سادہ دل لڑکی کو میڈیا کوئین بنا دیا۔ قندیل بلوچ تو اپنے انجام کو پہنچ گئی لیکن۔ ان لوگوں کا احتساب کون کرے گا جنہوں نے اسے اس مقام تک پہنچایا؟

  • قندیل بلوچ کے قتل کا ذمہ دار کون ؟ فیض اللہ خان

    قندیل بلوچ کے قتل کا ذمہ دار کون ؟ فیض اللہ خان

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nقندیل کا نام آتے ہی ہمارے چہروں پہ طنزیہ مسکراھٹ اور لبوں پہ کڑوے کسیلے جملے آپوں آپ جگہ بنا لیتے تھے. اس کی حرکتوں سے کسی معقول آدمی کو دلچسپی نہیں تھی لیکن کیا کیجیے کہ ہر شریف آدمی اس کی ویڈیوز و تصاویر سے استفادہ ضرور کر رہا تھا.
    قندیل کے معاملے کو میں نے ہمیشہ مختلف تناظر میں دیکھا. پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی قندیل کی الگ ہی نفسیاتی الجھنیں تھیں. راویتی مرادنہ معاشرہ، غربت اور اس کی نہ پوری ہونے والی خواہشوں نے فوزیہ کو قندیل بلوچ میں تبدیل کیا اور یوں لطف، طنز و استہزاء، شیطنت اور غیرت کے اس سفر کا آغاز ہوا جس کا انجام کم از کم مجھے دکھی کرگیا.
    قندیل شہرت و دولت کی بھوکی تھی، کم و بیش ہر انسان ہی ایسا ہوتا ہے البتہ اس کے لیے جو راستہ اس نے اختیار کیا، اس کا اختتام زیادہ اچھا نہیں ہوتا. یورپ و امریکا میں درجنوں قندیلیں پائی جاتی ہیں لیکن وہاں کے معاشرے میں یہ سب معمول جیسی بات ہے البتہ ہمارے یہاں اس سے دھماکہ ہی ہونا تھا جو بالاخر ہو کر رہا

    میں قندیل کے بھائی سے زیادہ سماج و میڈیا کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہوں جن کی اکثریت اس سے لطف اندوز ہوتی رہی، اور آخر میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوا جیسا ایس ایس پی رائو انوار جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کے ساتھ کیا کرتا ہے. ریٹنگ و مزے لیتے میڈیا اور معاشرے میں کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اس کی اصلاح کرتے، سید ھا راستہ دکھاتے. ہاں اب اس کی ھہاکت کے بعد غیرت ضرور جاگ گئی کہ اچھا ہوا اس کا انجام یہی ہونا چاہیے تھا. قندیل کو قندیل ہم نے بنایا، اسے استعمال کیا، کہیں مفتی قوی کے تماشے تھے کہیں سہیل وڑائچ کے، کبھی عمران کی شادی پہ اسے میڈیا والے براہ راست لیتے تو کبھی ٹاک شوز کی زینت بنتی اور ان سب سے بچ جاتی تو سوشل میڈیا پہ ہم جیسے اس کی تصاویر و ویڈیوز ادھر ادھر کرکے وقت گزارا کرتے بھلا اس کے خدو خال و حرکتوں سے زیادہ مزیدار تبصرے اور کس چیز میں تھے ؟؟

    افسوس کہ جنوبی پنجاب کی فوزیہ کو مولانا طارق جمیل جیسا واعظ بھی نہ مل سکا جو اسے کسی ذاتی مقصد کے بغیر سمجھانے کی کوشش کرتا. قندیل سے دوبارہ فوزیہ بناتا، اس کے جائز مقام پہ پہنچاتا، اس کی آخری ہیجان انگیز ویڈیو کے بعد معاملات سنگین ہی تھے، اسے تو اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ جس آگ سے کھیلنے جارہی ہے، ایک دن اس کی لپیٹ میں آکر رھے گی.

    مجھے اس کی حرکتیں کبھی پسند نہیں تھیں لیکن مان لیجیے کہ یہ ہم جیسے ہی تھے جو اسے موضوع بحث بنا کر رکھتے اور یہی قندیل کا مقصد تھا جسے ہمارا سماج اور ہم مل کر پورا کر رھے تھے. قندیل اپنے روایتی معاشرے کے خلاف ایک بغاوت تھی جس نے ردعمل میں ایسا راستہ اختیار کیا کہ اس کے نتیجے میں خود ہی کو برباد کر ڈالا. ایسی عورت جسے علاج و توجہ کی ضرورت تھی اسے ہم نے تیزی سے فوخت ہونے والا کیک بنا ڈالا.

    وقت ابھی بھی ہاتھ سے نہیں نکلا ہمارے اردگرد بہت سی قندیلیں موجود ہیں جنھیں ایسے معالجوں اور اصلاح کرنے والوں کی ضرورت ہے جو انھیں مسائل کے گرداب سے نکال سکیں اور حرص و ہوس کی دنیا سے بچا کر پاکیزہ ماحول کا حصہ بنائیں. اس سے پہلے بہت زیادہ ضروری ہوگا کہ ہم اپنے اندر چھپی غلاظت کی صفائی کریں تاکہ کل کو کوئی دوسری قندیل اس انجام تک نہ پہنچے اور اپنی زندگی جی لے. کتنے افسوس کی بات ہے نا کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو خراب کردیتی ہے ، لیکن تالاب کی ساری مچھلیاں مل کر اسے سیدھا نہیں کرسکتیں؟

  • غیرت کی عمرانیاتی تشریح، اسلام اور سیکولرزم – ذیشان وڑائچ

    غیرت کی عمرانیاتی تشریح، اسلام اور سیکولرزم – ذیشان وڑائچ

    کبھی کبھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات سننے میں آتے ہیں تو میڈیا میں غیرت کی حقیقت اور سماج پر اس کے اثرات کو نظر انداز کر کے عجیب و غریب قسم کی بحثیں شروع ہوجاتی ہیں. ان بحثوں میں سیکولر نظریے کے تحت ان واقعات کا تحلیل و تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں اسلام کو ایک فریق بنا کر کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. اسی وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ غیرت کی عمرانیاتی تشریح پر کچھ تحریر کیا جائے۔

    اگر ہم معاشرتی رویے پر نظر ڈالیں تو مرد میں اپنی قریبی رشتہ دار عورتوں کے معاملے میں کچھ باتوں پر شدید طیش اور ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جسے عرف عام میں غیرت کہا جاتا ہے، اور کچھ معاملوں میں مرد اتنا طیش میں آتا ہے یا اتنی شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ معاملہ قتل تک پہنچ جاتا ہے. جو لوگ مشرقی معاشروں کو نہیں سمجھتے، ان کے لیے “غیرت” نام کی کسی چیز کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے. جو لوگ مشرقی معاشروں کو سمجھتے ہیں لیکن ہر چیز کو مغرب کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اس کیفیت پر عجیب و غریب اور غیر منصفانہ تنقید کرتے ہیں۔

    مشرقی معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ خاندانی نظام پر کھڑا ہے. مشرق میں جس قسم کا خاندان پایا جاتا ہے، اس میں مرد چھوٹوں اور عورتوں کی پوری ذمہ داری لیتا ہے جس میں ان کی کھانے پینے، رہائش، کپڑے، گھر بسانے اور دوسرے بہت سارے لوازمات کی ذمہ داری شامل ہے۔ عورتوں کے بارے میں اس قسم کی ذمہ داری لینے کے لیے مرد کے اندر ایک شدید قسم کا احساس بھی پایا جاتا ہے جسے آپ قابضیت (Possessiveness) یا محافظت (protectiveness) کہہ سکتے ہیں. یہ احساس ایک طرف شدید قسم کی اپنائیت اور ذمہ داری لیے ہوئے ہوتا ہے تو دوسری طرف حاکمیت کے بھی شدید احساس کے ساتھ ہوتا ہے. یہ حاکمیت کا احساس اپنائیت اور ذمہ داری کے احساس کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر آپ حاکمیت کے اس احساس کو نکالنا چاہیں گے تو اپنائیت اور ذمہ داری کے احساس میں بھی اسی نسبت سے کمی ہونی شروع ہوجائے گی

    اس اعتبار سے ہمارے نزدیک لفط “غیرت” کا اگر کوئی قریب ترین انگریزی ترجمہ ہوگا تو وہ Possessiveness ہی ہوسکتا ہے۔ یہ غیرت کچھ لوازمات کا تقاضا کرتی ہے جس کے ٹوٹنے کی صورت میں مرد اپنی بے عزتی محسوس کرتا ہے، اس لیے لفظ غیرت اور عزت (Honor) ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں. اس بنا پر غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کو انگریزی میں آنر کلنگ کہتے ہیں۔

    اس غیرت نامی شے کے ممکنہ لوازمات کچھ یوں ہوتے ہیں۔

    ایک مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی کا حسن جس میں اس کی جسمانی خوبصورتی، ادائیں، انداز دلربائی، اپنائیت، آواز کا لوچ، زیب و زینت سے استفادے کا حق صرف اسے حاصل ہے اور کوئی اور مرد جنسی طرز پر اس کے حسن اور لوازمات حسن سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ مغرب میں اس قسم کی غیرت کی بہت ہی ہلکی قسم پائی جاتی ہے جس میں مرد عورت سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ کسی سے جنسی تعلقات قائم نہیں کرے گی، یا اس کی بیوی کسی دوسرے مرد سے ایسی واضح حرکت نہیں کرے گی جو جنسی تلذذ یا فحاشی کی نوع میں شامل ہے. یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ بوسہ دینا، گلے لگانا یا خاص مواقع پر لپٹ جانا جنسی عمل نہیں سمجھا جاتا، بلکہ گرم جوشی اور جنسی عمل میں کبھی کبھی باریک سا فرق ہوتا ہے. ایک مغربی مرد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیوی پر اس معاملے میں سختی نہ کرے۔

    ایک مرد کو جب ماں کی گالی دی جاتی ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی ماں کا کسی اور مرد سے جنسی تعلق رہا ہے تو بھی مرد کے اندر شدید قسم کی غیرت کا احساس پیدا ہوتا ہے. یہ گالی دراصل اس کے خاندانی پندار پر بہت بڑا وار ہوتا ہے. اس کی ماں کا خائن ہونا دراصل اس مرد اور اس کے اپنے بھائی بہنوں کی ولدیت پر ہی سوال کھڑا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے باپ کی بے عزتی کا بھی احساس پیدا کرتا ہے. اور ایک خاندانی نظام میں ماں کی جو اساسی اہمیت ہے اس کی وجہ سے خاندان کی بنیاد پر ہی حملہ تصور ہوتا ہے. اس لیے کسی کی ماں کے کردار پر حملہ انتہائی شدید قسم کا حملہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہر مرد شدید قسم کی غیرت کا اظہار کرتا ہے.
    اپنی بہن اور بیٹی کے معاملے میں مرد اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہے کہ عورت ہونے کے ناتے اس کا گھر بس جائے، اور اس کے گھر بسنے کے معاملے میں جس قسم کی بھی رکاوٹ پیدا ہو، اسے دور کرنے کا باعث بنے. مرد اور عورت کے درمیان فطری طور پر کشش پائی جاتی ہے۔ عورت بھی جب جوانی کے قریب پہنچتی ہے تو اس کے اندر فطری طور پر جنسی جذبہ پیدا ہوتا ہے، ساتھ ہی اس کے اندر کسی کو اپنانے، محبت کرنے اور ایک مرد سے اپنی تحسین یا Admire کرانے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے. لیکن اس کے ساتھ فطری شرم و حیا مشرقی عورت کو ایک خاص حد پار کرنے نہیں دیتی. ایسے میں مرد اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس کی بہن یا بیٹی کے یہ جذبات ایک خاندانی نظام بنانے میں تو کام آئیں لیکن عورت کے ان جذبات سے فائدہ اٹھا کر کوئی مرد اس کے جسم کا استحصال نہ کرے. عورت کے اندر جنسیت اور محبت کے یہ جذبات کچھ کیمیائی ہارمونز اور نفسیاتی تقاضوں کے تحت پائے جاتے ہیں جو کہ ایک فطری حیاتیاتی عمل ہے. اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ ان جذبات کو امانت سمجھ کر انسان کی حیاتیاتی شخصیت اور سماجی شخصیت میں ہم آہنگی پیدا کی جائے. بالفاظ دیگر لڑکی کے بھائیوں اور باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ لڑکی اپنی نادانی اور جذباتی اکساؤوں کے زور پر بغیر کسی عہد و پیمان اور معاشرتی بندھن کے اپنے ان جذبات اور اپنے جسم کو کسی مرد کے حوالے نہ کرے۔

    جب ایک عورت بغیر شادی کے اپنی نسوانی شخصیت کو کسی مرد کی تسکین کا ذریعہ بناتی ہے اور خود بھی اس سے تلذذ حاصل کرتی ہے تو اس وقت صرف اس کی حیاتیاتی یا حیوانی شخصیت متحرک ہوتی ہے. ایک بھائی یا باپ کے لیے یہ انتہائی شرمناک ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے اس کی بہن یا بیٹی کو بغیر سماجی بندھن اور گھربسانے کے پورے انتظام کے بغیر صرف جسمانی لذت اور ہوس کے لیے استعمال کیا گیا. اس سلسلے میں اگر گھر کی ہی بچی اپنے سرپرستوں کے اعتماد کو دھوکہ دے کر خود اپنے آپ کو اس سطح تک گرادیتی ہے تو اس بچی پر طیش کھانا ایک فطری بات ہے۔

    یہی چیز ایک اور سطح پر پائی جاتی ہے. گھر کے مرد اس بارے میں فکر مند ہوتے ہیں کہ ناتجربہ کاری اور عمر کے تقاضے کے تحت کہیں عورت ایسے مرد سے جذباتی وابستگی نہ پیدا کرے جو اخلاقی، معاشرتی یا معاشی اعتبار سے اس کی ازدواجی زندگی کے لیے غیر مناسب ہو. اس لیے کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسی کوئی صورت حال پیدا نہ ہوجائے کہ لڑکی اپنی مرضی سے کسی لڑکے کی محبت میں مبتلا ہو کر اس سے شادی کی ضد کرنے لگے. یہاں پر اگرچہ لڑکی اپنے آپ کو جنسی سطح تک نہیں گراتی ہے لیکن اس کے اندر پیدا ہونے والے جذبات خود اس کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس لیے گھر کے مرد اس معاملے میں بھی اپنی انا قائم رکھتے ہیں۔

    اس سلسلے میں ایک سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا جس طرح عورت کے معاملے میں مرد کو غیرت آتی ہے اسی طرح عورتوں کو مردوں کے معاملے میں غیرت کیوں نہیں آنی چاہیے؟ ویسے ہر مشرقی معاشرے کی عورت اور مرد کو اس سوال کی لغویت کا اندازہ ہے لیکن پھر بھی وضاحت کے لیے کچھ عرض کرتے ہیں۔

    اول یہ کہ ایک مشرقی اور مسلمان معاشرے میں خاندان کو چلانے اور سنبھالنے کے سلسلے میں عورت اور مرد کا کردار الگ ہوتا ہے. چونکہ غیرت کا معاملہ خاندانی نظام سے متعلق ہے اس لیے اس معاملے میں عورت اور مرد کے احساسات کو ملانا انتہائی لغو ہے. یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مرد سے بھی عورت میں پائی جانے والی شرم و حیا کا مطالبہ کر ڈالے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ یہ معاملہ جنسی نفسیات سے بھی متعلق ہے. جنسیت کے معاملے میں مرد اور عورت کی نفسیات میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اب تک مغرب میں جتنی بھی ریسرچ ہوئی ہے اس سے اس کی توثیق ہوتی ہے. اگرچہ اس قسم کی چیزوں کے ریسرچ کی ضرورت نہیں ہوتی. مرد اور عورت کی جنسی نفسیات کے درمیان پائے جانے والے فرق پر اچھا خاصا مواد لکھا جاسکتا ہے لیکن یہ مضمون اس موضوع کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

    تیسرے یہ کہ کسی قسم کے جنسی تعلق کی صورت میں حاملہ ہونے اور اس کے جسمانی، نفسیاتی اور سماجی نتائج عورت اور اس کے خاندان کو بھگتنے پڑتے ہیں نہ کہ مرد کو۔

    ان وجوہات کی بنا پر غیرت کے معاملے میں مرد اور عورت کے کردار کو مماثل گرداننا انتہائی لغو بات ہے.
    اوپر بیان کردہ چیزیں ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی غیرت کی ایک عمرانیاتی تشریح ہے.
    لیکن ایسی چیزوں میں توازن رکھنا بھی آسان نہیں ہے۔

    غیرت کے نام پر بات اس سے بھی آگے نکل جاتی ہے. معاشرتی سطح پر عورت کو اس شر سے بچانے کے لیے جو انتظام ہے اس میں پردہ، مرد اور عورت کے اختلاط کا نہ ہونا جیسے انتظامات ہوتے تھے. لیکن یہ معاملہ پابندیوں سے مکمل طور پر قابو میں کبھی نہیں آیا اور آج کے دور میں اتنا اختلاط ہوتا ہے کہ اسے پابندیوں کے ذریعے قابو کرنا تقریباً ناممکن ہے. دوسری طرف مرد حضرات غیرت مندی کی حکمت کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے ایسے معاملوں کوصرف اپنی انا اور پندار کا مسئلہ بنا دیتے ہیں. کچھ استثنائی صورتیں تو بنیں گی، جب ایسا ہوگا کہ نامحرم لڑکے اور لڑکی کے درمیان اس قسم کا تعلق بن جائے. اب مسئلہ ان استثناءات سے نمٹنے کا ہے. جب مرد ایسی صورت حال کا سامنا کرتا ہے تو اپنی انا اور پندار کے چکر میں جس ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ کبھی غیر دانشمندانہ اور کبھی متشددانہ اور غیر اخلاقی ہوتا ہے.اگر معاشرتی، معاشی اور اخلاقی اعتبار سے لڑکا مناسب بھی ہو تو بھی صرف اپنی انا کی خاطر لڑکی کی زندگی برباد کرنے پر تل جاتا ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی منہ زور جوانی کا مقابلہ نہیں کرپاتا اور مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.

    اس سلسلے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوجاتی ہے تو اس حادثہ کا سماجی اظہار “عزت لٹ گئی” جیسے الفاظ سے ہوتا ہے. اور پھر اس بچی کے وجود کو خاندان کے لیےکلنک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور پھر اس لڑکی کا اچھے گھرانے میں رشتہ ہونا مشکل ہوجاتا ہے. گویا کہ وہ صرف ایک جسم تھی اور چونکہ اس کے جسم کو کسی نے اپنی ہوس سے آلودہ کردیا تو اب اس کی کوئی عزت نہیں رہ گئی. حالانکہ اس قسم کی زیادتی میں بچی کی کوئی اخلاقی غلطی نہیں ہوتی. یہ بھی ایک طرح کی بے معنی غیرت ہے

    غیرت اسلامی نکتہ نظر سے:

    اسلام چونکہ خاندانی معاشرت کی تشکیل کا حامی ہے اور زنا و بے حیائی کے سخت خلاف ہے، اس لیے غیرت کا یہ احساس اسلام سے کسی حد تک ہم آہنگ ہے. جس طرح عورتوں کے اندر پائی جانے والی فطری شرم و حیا کچھ اسلامی مقاصد میں معاون ہے بالکل اسی طرح مردوں میں پائی جانے والی غیرت بھی کچھ اسلامی مقاصد میں معاون ہے، بلکہ دیکھا جائے تو مردوں کی غیرت دراصل نسوانی شرم و حیا کا ہی مردانہ اظہار ہے، لیکن بہرحال اسلام کسی بھی معاملے میں افراط و تفریط کا قائل نہیں ہے، اس لیے بے لگام اور لامحدود قسم کے غیرت کے جذبے کو اسلام کے مطابق نہیں سمجھا جاسکتا. اسلام میں اخلاقیات، قوانین اور حقوق کا ایک پورا نظام موجود ہے، غیرت کا یہ جذبہ ان میں سے کسی بھی چیز کا اسقاط نہیں کرتا.

    غیرت کے نام پر قتل اسلامی نکتہ نظر سے ایک قتل ہی ہے اور دنیوی اعتبار سے اس کی سزا قتل کی ہی سزا ہے اور اللہ کے نزدیک اس گناہ کی حیثیت وہی ہے جو کہ ایک قتل مؤمن کی بیان کی گئی ہے. مسلمان معاشرے میں غیرت کے نام پر جو بچی قتل ہوتی ہے وہ مسلمان ہی ہوتی ہے، اس نے کسی کو قتل نہیں کیا ہوتا اور نہ اس کا جرم اس حیثیت کا ہوتا ہے جسے زمین میں فساد تعبیر کیا جائے. اور اگر بالفرض ایسے کسی معاملے میں زنا جیسا قبیح عمل سرزد ہوجائے تو بھی زنا کو باقاعدہ گواہوں کے ذریعے سے ثابت کیا جانا چاہیے اور یہ سب کچھ عدالت میں کیا جانا چاہیے۔ اور اگر زنا بھی ثابت ہوجائے تو چونکہ اس قسم کی حرکت غیر شادی شدہ لڑکے یا لڑکی کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے اس کی سزا بھی سو کوڑے ہے نہ کہ قتل. اسلام کے ساتھ غیرت کے تصور کی ہم آہنگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام اس بارے میں قتل مؤمن جیسے قبیح ترین گناہ کا روادار ہو ۔

    بلا کسی شرعی وجہ کے لڑکی یا لڑکے کی شادی میں تاخیر کرنا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور انہیں شادی سے روکنا ایک بہت بڑی زیادتی ہے. معاشرے میں خاندانی تفاخر کی وجہ سے لڑکی کی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے یا شادی کی ہی نہیں جاتی. جائیداد دینے کے اسلامی حق کو روکنے کے لیے لڑکی کو عمر بھر کنواری رکھنے کی شکلیں پائی جاتی ہیں. اس کے نتیجہ میں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جس سے مرد کی غیرت طیش میں آئے تو اس قسم کی غیرت کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے. یہ ایسی غیرت ہے جس میں اپنے گھر کی بچی کےساتھ محبت، اپنائیت اور ذمہ داری کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہوتا. یہ خالص جاہلانہ قسم کی غیرت ہے.
    اسلامی ماحول فراہم کرنے اور مرد و زن کے اختلاط کو روکنے کی پوری کوشش کے باوجود کبھی کبھی یہ ممکن ہوتا ہے کہ منہ زور جوانی اپنا راستہ نکال لیتی ہے اور لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی محبت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ محبت کا ہوجانا ایک حیاتیاتی اور نفسیاتی حقیقت ہے اور اس محبت کا کسی ذہن پر حاوی ہونے میں ان کے ارادے سے زیادہ عمر کی نفسیات اور جسم میں خارج ہونے والے ہارمونز کا کردار ہوتا ہے. باغیرت مردوں کو چاہیے کہ ایسی صورت حال کو صرف اپنی انا اور پندار کے نکتہ نظر سے نہ دیکھیں اور صورت حال کا صحیح تجزیہ کریں. اگر رشتہ مناسب ہو تو پھر صرف اپنی انا کی خاطر اپنی لڑکی کو جذباتی اور ذہنی اذیت دینے کے بجائے متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس قسم کی صورت حال کی وجہ سے اپنی اولاد یا اپنی بہن کو دشمن سمجھنے کے بجائے خیرخواہی کے جذبے سے فیصلے کرنے چاہییں چاہے اس سے مردانہ پندار کو ٹھیس پہنچے۔

    اس بارے میں اسلامی قانون پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام قریبی رشتہ دار کو ولی قرار دیتا ہے اور ولی کو قاتل کے معاف کرنے کا اختیار ہوتا ہے. چونکہ یہ قتل خاندان کے ہی کسی فرد کی طرف سے ہوتا ہے اس لیے ولی کی معافی کی وجہ سے قاتل صاف بچ جاتا ہے. اس طرح اسلامی قانون کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے. یہ ایک جائز اعتراض ہے، لیکن اسلام میں ہمیں ایسی نظیریں ملتی ہیں کہ اگر کوئی قوانین کو اسلامی سپرٹ کے خلاف استعمال کرے تو حکومت اپنے اختیارات کو استعمال کر کے اس قسم کے غلط استعمال کو روک سکتی ہے. اسی وجہ سے اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا شیرانی نے یہ تجویز دی تھی کہ غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں ریاست خود ولی بننے کا اختیار رکھتی ہے.

    ایسا حادثہ جس میں کسی عورت کی “آبرو ریزی” ہوتی ہے، اسلامی نکتہ نظر سے اس سے عورت کی عصمت، عفت اور پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا. وہ اسی طرح پاکیزہ ہے جس طرح اس زیادتی سے پہلے تھی. جو زنا کرتا ہے وہ قصور وار ہوتا ہے، اگر کوئی عورت کسی مرد کی ہوس و زیادتی کا شکار ہوجائے تو وہ قابل رحم ہے نہ کہ اس سے نفرت کی جائے. لیکن پورے معاشرے کی اور خودعورت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خود کو ایسی پوزیشن میں نہ ڈالے جس کے نتیجے میں کوئی مرد عورت پر زیادتی کر سکے

    غیرت پرسیکولر بیانیہ:

    مغرب زدہ سیکولر فکر نے پچھلی آدھی صدی میں غیرت کے نام پر قتل کے ایشو پر اچھا خاصا مقدمہ کھڑا کیا ہے جو کہ مشرقی معاشرت کے بھی خلاف ہے اور دینی فکر کے بھی. سیکولرزم کے نزدیک فرد کی آزادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور خاندان نام کے کسی ادارے کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے. اس لیے غیرت نام کے کسی خاص جذبے کو وہ تسلیم ہی نہیں کرتے. اس لیے قتل کے کسی واقعے کو استعمال کرکے بے غیرتی کے مقدمے کو پروموٹ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوٹتا. ادھر مغرب سے آنے والے اعتراضات کی طرف نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں قتل پر اعتراض کے بجائے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آنر (Honor) جیسی چیز کے نام پر قتل کیسے ہوسکتا ہے. واضح ہو غیرت کے نام پر قتل کو انگریزی میں آنر کلنگ (Honor Killing) کہتے ہیں. ورنہ اگر صرف قتل جیسے جرم پر ہی اعتراض ہوتا تو مغربی ممالک خصوصاً امریکہ قتل جیسے جرم میں پاکستان سے بہت آگے ہے. وہاں پر اگر غیرت سے ملتی جلتی کوئی چیز پائی جاتی ہے تو صرف یہ ہے کہ کسی کی گرل فرینڈ جو کہ حقیقتاً سیکس پارٹنر ہوتی ہے وہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ تعلقات بڑھاتی ہے جس کے نتیجہ میں بعض اوقات مرد کو غصہ آتا ہے. یا پھر یہ ہوتا ہے کہ کسی کی کم عمر بچی جو کہ اس ملک کے قانون کے مطابق رضامندی کی عمر (age of consent) تک نہیں پہنچی ہو، وہ کسی بالغ مرد کے ذریعے حاملہ ہوجائے تو اس بالغ مرد کے خلاف ریپ کا مقدمہ چلا کر اسے سزا دلائی جائے.
    پاکستان کی سیکولر لابی قتل کو بہانہ بنا کر غیرت اور غیرت کے لوازمات کو ہی ختم کرنے کے درپے ہے. انہیں اس بات سے کوئی واسطہ نہیں ہے کہ پاکستان کا ایک خاندانی نظام ہے جو کہ کسی حد تک اسلام سے ہم آہنگ ہے اور اس نظام کے تحت ہی یہاں کا معاشرہ چلتا ہے. اس سلسلے میں پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسلام کو ہی فریق بنا کر اسلام کو قاتل کی طرف اور خود کو مقتول کی طرف ظاہر کر کے خوب مظلومیت کا پراپیگنڈا کیا جائے حالانکہ ان کی اسی روش کی وجہ سے یہ مسائل حل ہونے کے بجائے اور زیادہ الجھ جاتے ہیں۔

    پاکستان میں ایسے پیچیدہ معاملوں کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ حکومت اسلامی ذہن کے لوگوں کو اعتماد میں لے کر قانون سازی کرے. لیکن جو کچھ نظر آتا ہے ہمیں نہیں لگتا ہے کہ پاکستان کی سیکولر لابی اس مسئلہ کو اصل میں حل کرنا چاہتی ہے. اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو پھر پاکستانی معاشرے میں لڑنے کے لیے ایک ایشو کم ہوجائے گا جو کہ سیکولرزم کے جواز (legitimacy) کو مزید کم کر دے گا.