Tag: قتل

  • آج کے دور میں انصاف کی سنہری داستان – غلام نبی مدنی

    آج کے دور میں انصاف کی سنہری داستان – غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی کہانی 13 دسمبر 2012ء سے شروع ہوتی ہے۔ عیش و عشرت اور ناز و نعم میں پلا سعودی شاہی خاندان کا نوجوان شہزادہ اپنے دوستوں کے ساتھ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کے شمال میں واقع سیاحتی مقام ”ثمامہ“ کی طرف جاتا ہے۔ شہزادے کی گاڑی کے ساتھ اس کے دوستوں کی دوگاڑیاں بھی تھیں۔ ایک گاڑی میں شہزادے کا دوست عادل المحمید تھا۔ ثمامہ کے سیاحتی مقام پر اسلحہ سے لیس چند نوجوانوں میں جھگڑا چل رہا تھا، جن میں اسلحہ کا بلیک ڈیلر حداد نامی شخص بھی تھا۔ شہزادے کے دوست صورتحال کا اندازہ کرنے گاڑی سے نیچے اترتے ہیں۔ اچانک زبردست فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ نوجوان شہزادے نے بھی اپنی پسٹل سے اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک گولی شہزادے کے دوست عادل المحمید کو جا لگی، جو بعد میں عادل کے پیچھے کھڑے شہزادے کے دوسرے دوست عبدالرحمن التمیمی کو بھی لگی۔ نتیجتا شہزادہ کا دوست عادل موقع پر جاں بحق ہوگیا اور دوسرا دوست بری طرح زخمی ہوگیا۔ پولیس موقع پر پہنچتی ہے، شہزادے سمیت وہاں موجود لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس دوران شہزادے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا دوست عادل اس کی گولی سے مارا گیا تو وہ سخت صدمے سے دوچار ہوتا ہے۔ پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ شہزادہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا۔ معاملہ عدالت میں جاتا ہے جہاں کیس کا بھرپور جائزہ لیا جاتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر شہزادے کو عادل المحمید نامی شخص کے قتل کے جرم میں قصاصا قتل کی سزا سنادی جاتی ہے۔

    مقتول نوجوان عادل المحمید
    مقتول نوجوان عادل المحمید

    شہزادے کے اقرباء کی طرف سے مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی آفر کی جاتی ہے۔ شہزادے کی جان خلاصی کے لیے ہر طرح کی کوششیں اور منتیں کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ریاض کے گورنر امیر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز بھی مقتول کے لواحقین سے سفارش کرتے ہیں، لیکن مقتول کے والد قصاص پر قائم رہتے ہیں۔ بالآخر 18 اکتوبر 2016ء کو کہانی ختم ہونے لگتی ہے۔ 18 اکتوبر شہزادے کی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے۔ آج کے دن شہزادے کو قصاص میں قتل ہونا ہے۔ آخری دن کے عینی شاہد ڈاکٹر محمد المصلوخی کے مطابق تہجد کے وقت شہزادے کو جیل سے نکالا جاتا ہے۔ شہزادہ تہجد کی نماز ادا کرتا ہے، پھر فجر کی نماز تک قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ صبح سات بجے جیلر دوبارہ شہزادے کو لے جایا جاتا ہے۔ شہزادہ اپنے ہاتھ سے کوئی وصیت نہیں لکھتا، بلکہ کسی کو اپنی وصیت لکھواتا ہے۔ دن 11 بجے شہزادے کو غسل کرا کر قصاص والے میدان کی طرف لےجایا جاتا ہے۔ جہاں شاہی خاندان کےسینکڑوں معزز لوگ اور دیگر حکومتی شخصیات شہزادے کی سفارش کے لیے اربوں ریال دیت دینے کے لیے تیار کھڑے تھے۔

    شہزادہ ترکی بن سعود
    شہزادہ ترکی بن سعود

    دوسری طرف مقتول عادل کے والد اور لواحقین بھی آج انصاف کے نافذ ہونے کے منتظر تھے۔ یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو جاتا ہے، شہزادے سمیت سارے لوگ ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں، نماز کے بعد ریاض کےگورنر امیر فیصل بذات خود شہزادے کی سفارش کے لیے مقتول عادل کے والد کے پاس جاتے ہیں، مگر مقتول کے والد گورنر کی درخواست کو ٹھکرا دیتے ہیں اور شریعت کا مطالبہ قصاص برقرار رکھتے ہیں۔ شام 4 بج کر 13 منٹ پر جلاد میدان میں آتا ہے اور مقتول عادل کے والد کے سامنے اللہ کے حکم (قصاص) کو نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران مجمعے میں شہزادے کے والد کی زوردار چیخ سنائی دیتی ہے اور پھرمجمع پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔

    قصاص میں قتل ہونے والے سعودی شہزادے ترکی بن سعود کی اس کہانی کے بعد چودہ سو سال پیچھے لوٹیے، جہاں انصاف کی ایسی ہی داستان رقم کی گئی تھی۔ قریش ایسے معزز خاندان کی معززخاتون پر چوری کا الزام ہے۔ مقدمہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں پیش کیا جاتا ہے۔ چوری ثابت ہونے پر خدا کی مقررکردہ ”ہاتھ کاٹنے کی سزا“ سنائی جاتی ہے۔ اس دوران خاتون کے خاندان نے سفارش کے لیے تگ و دو شروع کی کہ رسول خدا کے سامنے کون سفارش کرسکتاہے، لوگوں نے صحابی رسول اسامہ بن زید کا نام پیش کیا، چنانچہ اسامہ کو سفارش پر مجبور کیا گیا، اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سفارش کرتے ہیں، آپ یہ سن کر غضبناک ہوتے اور فرماتے ہیں ”کیا تم اللہ کی بیان کردہ حدود میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟“ پھر منبر پر کھڑے ہوکر وہ سنہری الفاظ ارشادہ فرمائےجو قیامت تک ظلم کو مٹانے کے لیے بہترین اسوہ لیے ہوئے ہیں۔ فرمایا ”تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ ان میں اگر کوئی معزز چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور چوری میں پکڑا جاتا اس کو سزادی جاتی۔ خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا.“ (بخاری ومسلم)۔چنانچہ اس خاتون پر حدنافذ کی گئی۔

    عدل وانصاف کی ان بےنظیر مثالوں کے بعد ہمارے عدالتی سسٹم پر غور کیجیے، جہاں 19 سال تک بےگناہ مظہر حسین کو قید میں رکھ کر مار دیا جاتا ہے، اس کی بےگناہی کا فیصلہ اس کے مرنے کے بعد سنایا جاتا ہے۔ ریمنڈڈیوس ایسے قاتل کو راتوں رات بچا کر رہا کروا دیا جاتا ہے۔ شاہ زیب قتل کیس میں جج کو فون کرکے کہا جاتا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کا خیال کرنا اپنا بچہ ہے۔ پھر لواحقین کو مجبور کر کے قاتل شاہ رخ کو معاف کروا لیا جاتا ہے۔ ماڈل ڈالر گرل ایان علی کو رنگے ہاتھوں منی لانڈرنگ کرتے گرفتار کیا جاتا ہے، گرفتار کرنے والے افسر کو قتل کر دیا جاتا ہے، پھر مجرم ایان علی کو بچانے کے لیے سابق صدر سمیت بڑی بڑی حکومتی شخصیات اور سیاستدان سامنے آ جاتے ہیں، ملزمہ ایان علی رہا ہو جاتی ہے لیکن مقتول افسر کو انصاف نہیں مل پاتا۔ لال مسجد میں مظلوموں کا خون بہانے والے، امریکا کو اڈے دے کر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں ہزاروں لوگوں کو مروانے والے اور قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بیچنے والے آمر پرویز مشرف ایسے ظالم کے خلاف آج تک ہمار ا نظام عدل سوائے بیان اور پیشیاں دینے کے کچھ نہ کرسکا۔ لاپتہ کیے جانے والے افراد، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے مظلوموں کے لواحقین آج تک انصاف کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں انصاف کی اسی حالت کو دیکھ کر مظلوم لوگ پولیس اور عدالت کا نام سن کر خوف کھاتے ہیں۔ جب انصاف کا یہ عالم ہو تو معاشرہ کیسے پرامن ہو سکتا ہے؟ دہشت گردی، کرپشن، چوری، ڈکیتی اور ٹارگٹ کلنگ ایسے جرائم کیسے رک سکتے ہیں؟ شاہی خاندان کا شہزادہ ترکی بن سعود وقت کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا بھتیجا تھا، جس کے عزیز واقارب نہ صرف حکومتی عہدے دار ہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود انصاف کی راہ میں نہ کوئی بادشاہ رکاوٹ بنتا ہے، نہ ان کی دولت انصاف کا راستہ روکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے پرامن ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی، کرپشن اور رشوت ایسے جرائم کا تصور تک نہیں ہے۔ ایک عام آدمی وقت کے بادشاہ کو عدالت میں کھڑا کر سکتا ہے۔ خود سعودی بادشاہ نے عوام کو اس کا یقین دلایا۔ جب انصاف کا یہ عالم ہو تو یقینا قومیں ترقی کرتی ہیں اور معاشرے پرامن رہتے ہیں۔ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے اور ملک کو پرامن بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نظام ِانصاف کو آزاد کروانا ہوگا اور خدا کی مقررکردہ حدود کو بغیر کسی دباؤ کے نافذ کرناہوگا!

  • مائی لارڈ!-توفیق بٹ

    مائی لارڈ!-توفیق بٹ

    taufiq butt

    مائی لارڈ!میں آپ کا شکرگزار ہوں 19سال بعد میرے کیس کا فیصلہ ہوگیا، میری پھانسی کی سزارد کرکے مجھے باعزت بری کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں تھا قدرت مجھے پہلے ہی ”بری“ کرچکی ہے، میرے انتقال کو دوبرس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہواِس ملک میں انصاف کا انتقال کب ہوا تھا ؟۔ مجھے پتہ تھا میں نے قتل نہیں کیا۔ اِس کیس میں مجھے پھنسایا گیا تھا۔ اِس کی پہلی سماعت ایڈیشنل سیشن جج نے کی تھی۔ مجھے عدلیہ پرپورا اعتماد تھا۔ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے میرے پاس ٹھوس شواہد تھے۔ میں چیختا رہا، چلاتا رہا، دہائیاں دیتا رہا، میں بے گناہ ہوں۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے وکیل کرسکوں، کچھ لوگ مجھے کہتے تھے وکیل کے ساتھ تمہیں کچھ اوربھی کرنا پڑے گا، ورنہ ساری زندگی انصاف کو ترستے رہو گے۔ بڑی مشکل سے میرے والدین نے گھر کا کچھ سامان بیچ کر وکیل کیا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا اِس مقصد کے لئے میری ماں نے زیور بیچا تھا، باپ نے گھر گروی رکھا تھا،

    ہمارے حکمران اکثر کہتے ہیں ہم عوام کو سستا انصاف فراہم کریں گے۔ اِس کا مطلب ہے اُنہیں پتہ ہے انصاف مہنگا ہے۔ حکمران شاید چاہتے بھی یہی ہیں انصاف مہنگا ہو۔ ”سستا انصاف“ ہرکوئی خرید سکتا ہے، جبکہ ”مہنگا انصاف“ صرف حکمران خرید سکتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس دولت کے انبار ہوتے ہیں، مجھے اپنی عدالت پر پورا یقین تھا، شاید اِس لئے کہ اِس سے قبل کِسی عدالت سے میرا واسطہ نہیں پڑا تھا، اب میں سوچتا ہوں میں ”عادی مجرم“ ہوتا تب بھی اپنی عدالت پر مجھے پورا یقین ہوتا۔ تب شاید عدالت میرے یقین پر پورا بھی اُتر جاتی۔ ایک بار جیل میں میرا ایک عزیز مجھ سے مِلنے آیا۔ اُس نے جج سے متعلق کچھ ایسی بات کی کہ میں نے اُس کے منہ پر تھپڑ ماردیا، وہ چُپ کرکے چلا گیا۔ میرا وکیل مجھے پوری تسلی دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا ”ہم گناہ گاروں کو بچا لیتے ہیں، تم تو ویسے ہی بے گناہ ہو “۔ میں بھی یہی سوچتا تھا۔ میں جیل میں روروکر دعائیں مانگتا تھا ”اے میرے مالک تو سب جانتا ہے، تجھے سب پتہ ہے میں بے گناہ ہوں، پھراِس آزمائش سے مجھے نکال دے، یہ شاید کِسی اور گناہ کی سزا ہے، میرا وہ گناہ بخش دے “ ….ہربار نئی تاریخ مل جاتی،”تاریخ پہ تاریخ“ کے ”تاریخی کلچر“ کے بارے میں نے سنا ضرورتھا۔ اُس کا شکار خود ہوجاﺅں گا ، یہ نہیں سوچا تھا، ہر تاریخ پر میرا وکیل مجھ سے کہتا ”اگلی تاریخ پر تم بری ضرور ہو جاﺅ گے“۔

    اگلی تاریخ پر پھر نئی تاریخ مِل جاتی، جو لوگ جیل میں مجھ سے ملنے آتے اکثر مجھ سے کہتے ”پولیس کی طرح ہمارے کچھ وکیل بھی دونوں پارٹیوں سے پیسے پکڑ لیتے ہیں “۔ میں اُن سے کہتا ”کوئی اور وکیل کروں گا وہ بھی تو ”وکیل“ ہی ہوگا۔ پھر ایڈیشنل سیشن کورٹ سے میرا کیس سیشن کورٹ میں چلا گیا۔ دوسری طرف جیل کی زندگی بھی اِک عذاب بن گئی تھی۔ ایک جیب عدالت میں کٹتی دوسری جیل میں کٹ جاتی تھی۔ میرے والدین نے جوکچھ بیچا تھا، اُس سے حاصل ہونے والی ساری رقم خرچ ہوگئی تھی، گھر میں فاقوں کا بسیرا ہوگیا، پھر وہ بے چارے رشتہ داروں سے اُدھار مانگ مانگ کر ”تاریخےں“ بھگتتے رہے، پھر رشتہ داروں نے بھی منہ موڑ لیے۔ وکیل صاحب کو پیسے ملنا بند ہوگئے، اُن کا رویہ بدل گیا، پہلے ہر تاریخ پر وہ خود جاتے تھے، پھر اُن کا منشی جانے لگا۔ آہستہ آہستہ منشی نے بھی جانا بند کردیا۔ جب تک جیل کے عملے کی جیبیں گرم ہوتی رہیں وہ مہربان رہا۔ پھر اُس کارویہ بھی بدل گیا، اس دوران میرے والد شدید بیمار ہوگئے۔ اُنہیں میری ”فِکر کی بیماری“ تھی، یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ میں اُن کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ یہ میری زندگی کا سب بڑا دُکھ تھا…. مائی لارڈ اللہ نہ کرے یہ دُکھ آپ کے بچوں کو کبھی اُٹھانا پڑے۔

    ابا جی کی وفات پر میں نے سوچا کاش اب تک مجھے پھانسی ہوگئی ہوتی، یہ لمحات میری زندگی میں کبھی نہ آتے۔ زندگی کی سب سے قیمتی شے رخصت ہورہی تھی، میں اُس کی میت کو کاندھا تک نہ دے سکا، مائی لارڈ اُس روز مجھ پر جو گزری اللہ نہ کرے آپ کے بچوں پر کبھی گزرے۔ ….والد کے بعد کیس کی پیروی اپنی ہمت اوقات کے مطابق چجا کرنے لگے۔ جانے کتنے برس بیت گئے۔ کیس اب ہائی کورٹ میں تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کیس ابھی تک ”ایڈیشنل سیشن کورٹ “ سے باہر نہیں گیا۔ اُمید آہستہ آہستہ دم توڑرہی تھی۔ اِس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ”سربلندی“ کا بڑا شور اُٹھا ۔ میں اُن کی بحالی کے لئے رات دِن دعائیں مانگتا رہا۔ صرف میں نہیں پورا جیل دعائیں مانگتا رہا۔ پھر وہ بحال ہو گئے۔ مجھے یقین ہے اب انصاف اگلے دو چار روز میں ہی مجھے مل جائے گا۔ ایک بار ایک عزیز جیل میں مجھ سے مِلنے آیا۔ اُس نے بتایا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اداکارہ عتیقہ اوڈھو کی شراب نوشی کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ مجھے لگا میرا مسئلہ بھی حل ہونے والا ہے۔ کوئی ازخود نوٹس ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں بند بے گناہ قیدیوں کے بارے میں بھی اب وہ لے لیں گے، یا اُن کیسوں کے بارے میں بھی لیں گے جو سالہا سال سے عدالتوں کی الماریوں میں بند پڑے ہیں، افسوس وقت تیزی سے گزر گیا، وہ ریٹائرہوگئے، اور وہ اُمید فوت ہوگئی جسے ان کی بحالی پر نئی زندگی ملی تھی۔ پھر میرے چچا بھی فوت ہوگئے۔ باپ کی وفات کے بعد وہی میرے باپ تھے۔ میرا دوسرا باپ چلا گیا۔

    میں بے بس تھا۔ میں سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہ کرسکا۔ میرے خونی رشتے داروں نے ہمت نہ ہاری۔ کیس کی پیروی میرے دوسرے چچا کرنے لگے۔ مجھے بے گناہ ثابت کرنے کے لئے جو اُن سے بن پڑا، اُنہوں نے بھی کیا، پھر وہ بھی فوت ہوگئے۔ پھر میں بھی فوت ہوگیا۔ موت نے میرے وہ سارے دُکھ دور کردیئے جو اِس ملک کے عدالتی نظام نے ٹنوں کے حساب سے مجھے دیئے تھے، ….مائی لارڈ آپ کو شاید پتہ نہیں تھا میں مرچکا ہوں، آپ کو شاید یہ بھی پتہ نہیں عدالتی نظام کی بہتری کے حوالے سے تقریباً ساری اُمیدیں مرچکی ہیں۔ آپ کو میری موت کا پتہ چل جاتا آپ شاید اِس کیس کو دبا رہنے دیتے۔ کیونکہ کسی بے گناہ کی موت کے بعد اُسے باعزت بری کرنے سے عدالتی نظام مزید ننگا ہوجاتا۔ آپ کا شکرگزار ہوں آپ نے مجھے بری کردیا۔ مگر مجھے اب اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کو بھی شاید کوئی فائدہ نہ ہو۔ آپ نے ”پوراانصاف “ نہیں کیا۔ پورا انصاف یہ تھا ماتحت عدلیہ کے جن ججوں نے اِس کیس کو غیرضروری طورپر لٹکائے رکھا، جن پولیس والوں نے اس کیس میں مال بنایا، جن وکیلوں نے اُلو سیدھے کیے، سب کے خلاف کسی نہ کسی کارروائی کا آپ حکم دیتے۔ اُن سب کو سزا ملتی۔ کوئی مثال قائم ہوتی ….جِس وقت یہ فیصلہ آپ نے سنایا میرا کوئی عزیز عدالت میں نہیں تھا، ورنہ بہت سوال آپ سے کرتا ؟۔مگر ایک وقت روز حساب کا مقرر ہے۔ اب سارے سوال وہیں ہوں گے۔

    میں یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جج اور وکیل میں فرق اب صرف ریٹ کا ہوتا ہے، مگر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا لوگوں کو صاف ستھرا، سچا انصاف فراہم کرنے میں عدلیہ کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ نشان کب مٹے گا ؟۔ کسی ملک کسی معاشرے کا نظام عدل ٹھیک ہو، اُس کے سارے نظام خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ہمارا نظامِ عدل کب ٹھیک ہوگا؟ وہ وقت کب آئے گا جب کوئی غریب، کوئی عام آدمی یہ سوچ سوچ کر نہیں مرجائے گااُس کے ساتھ کوئی ظلم زیادتی ہو گئی کوئی ادارہ اُسے انصاف فراہم نہیں کرے گا۔ اللہ نے شاید ”روز حشر“ اِسی لئے مقرر کیا تھا اُسے پتہ تھا ہمارے جج لوگوں کو انصاف نہیں دے سکیں گے ….مائی لارڈ، اس کیس کی نذر ہونے والی تین زندگیاں آپ واپس لاسکتے ہیں ؟؟ چلیں وہ نہیں تو عدلیہ کی روزبروز گرتی ہوئی ساکھ ہی واپس لے آئیں !

  • اے کاش!-خالد مسعود خان

    اے کاش!-خالد مسعود خان

    khalid masood

    لہو میں بھیگے تمام موسم…گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے…وفا کے رستے کا ہر مسافر…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے…سحر کا سورج گواہی دے گا…کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے…نکلنے والے یہ سوچتے تھے…کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے تو تم کھڑے تھے…تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں…جلے چراغوں کی روشنی نے…نئی منازل ہمیں دکھائیں…تمہارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے…ولولوں کو نمود بخشی…تمہارے بھائی‘ تمہارے بیٹے‘ تمہاری بہنیں…تمہاری مائیں‘ تمہاری مٹی کا ذرہ ذرہ…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے…ہماری دھرتی کے جسم سے جب…ہوس کے مارے…سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے…تو تم کھڑے تھے…تمہاری ہمت‘ تمہاری عظمت اور استقامت…تو وہ ہمالہ ہے…جس کی چوٹی تلک پہنچنا…نہ پہلے بس میں رہا کسی کے…نہ آنے والے دنوں میں ہو گا…سو آنے والی تمام نسلیں…گواہی دیں گی کہ تم کھڑے تھے…لہو میں بھیگے تمام موسم…گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے…وفا کے رستے کا ہر مسافر…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے.

    طارق حبیب کی یہ نظم گزشتہ ایک ہفتے سے میری نظروں کے سامنے ہے اور اس کے پس منظر میں پاکستان کی محبت میں پھانسی کا پھندہ چومنے والے سرپھروں کی ایک مختصر سی ”بٹالین‘‘ جنت کی کھڑکیوں سے جھانکتی نظر آتی ہے۔ اس ملک میں شہادت کے اتنے فتوے جاری ہو چکے ہیں کہ ان سرفروشوں کو اب شہید کہنا بھی عجیب لگتا ہے کہ ہم نے قاتلوں‘ تکفیریوں اور باغیوں کو بھی اس سند سے نوازنے میں تامل نہیں کیا تو بھلا اب اس فانی دنیا سے کسی رخصت ہو جانے والے کے لیے ہمارے جاری کردہ القاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ شہادت اور ہلاکت کے فیصلے وہ کرے گا جو ہر چیز پر قادر ہے اور اس دن سب معاملات سامنے آ جائیں گے جس روز وہ میزان عدل لگائے گا۔

    بیانوے سالہ پروفیسر غلام اعظم 23 اکتوبر 2014ء کو اپنے خالق حقیقی کے ہاں حاضر ہوئے۔ ضعیف العمر پروفیسر غلام اعظم کو پاکستان آرمی کے لیے رضاکار‘ البدر کے لیے جنگجو بھرتی کرنے اور پاک فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں غلام اعظم صاحب کی بنگلہ دیشی شہریت ختم کر دی گئی تھی۔ وہ 1978ء سے لے کر 1994ء تک سولہ سال تک بنگلہ دیش میں ”غیر قانونی‘‘ طور پر رہائش پذیر رہے تاوقتیکہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ان کی شہریت بحال کر دی۔ 11 جنوری 2012 ء کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی ”جنگ آزادی‘‘ میں کئے جانے والے جنگی جرائم کے الزام میں انہیں حسینہ واجد کے خود ساختہ ”انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل‘‘ میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ جیل میں دو سال نو ماہ اور بارہ دن گزارنے کے بعد جیل اور زندگی کی قید سے اکٹھے ہی آزاد ہو گئے۔

    عبدالقادر ملا 12 دسمبر 2013ء کو، محمد قمر الزماں 11 اپریل 2015ء ، علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری 22 نومبر 2015ء ، مطیع الرحمان نظامی11 مئی 2015 ء کو اور اب میر قاسم علی 3 ستمبر 2016 ء کو اس دارفانی سے اپنے خالق حقیقی کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ ان سب کو پاکستان سے محبت اور وفاداری نبھانے کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ سب نے پھانسی پر مسکرا کر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ کسی نے رحم کی اپیل نہ کی۔ سب مستانہ وار پھندے کو چومنے ایسے چلے کہ فیض یاد آ گیا ؎

    دست افشاں چلو…مست و رقصاں چلو…خاک بر سر چلو…خوں بداماں چلو …راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
    کسی کو سٹریچر پر ڈال کر تختہ دار تک پہنچانے کی تکلیف نہ اٹھانا پڑی۔

    پاکستان اس سارے معاملے میں اتنا غیر جانبدار ہے کہ لگتا ہے اس سارے معاملے میں نہ وہ فریق ہے اور نہ ان پھانسی پانے والوں سے ہماری کوئی جان پہچان ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے اور ”مجرم‘‘ محض بنگلہ دیش کے عام سے ”غدار‘‘ تھے جنہیں اس غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی اور تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ موم بتی مافیا کو تو چھوڑیں کہ ان کی ترجیحات کا سب کو اندازہ ہے۔ کشمیر میں ”پیلٹ گن‘‘ یعنی چھروں والی بندوق سے کشمیریوں پر فائرنگ ہو، ان کو رتی برابر پروا نہیں، دو ماہ سے زائد عرصہ سے کرفیو لگا ہو اور شہری محصور ہوں، انہیں کوئی فکر نہیں۔ بچوں کو دودھ تک نہ مل رہا ہو، انہیں انسانی حقوق یاد نہیں آتے۔ تازہ ترین احتجاجی لہر میں پچانوے لوگ جاں بحق ہو جائیں، ان کو کوئی ملال نہیں کہ ان کے آقائے ولی نعمت کی جانب سے کوئی اشارا نہیں اور وہ ہو بھی کیسے؟ بھلا وہ یہ سارا خرچہ اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کر سکتے ہیں اور کیا یہ موم بتی مافیا اپنے رزق روٹی فراہم کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کر سکتا ہے؟ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے ان تمام پھانسی پانے والوں کے ٹرائل پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کیا اور سارے بنگلہ دیشی نظام انصاف کو اس معاملے میں عموماً اور انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل آف بنگلہ دیش کی ساری عدالتی کارروائی کو خصوصاً انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا؛

    تاہم ان تنظیموں نے اس سلسلے میں وہ کہرام نہ مچایا جو یہ عموماً مچاتی ہیں۔ سارا مغرب خاموش ہے اور ان این جی اور عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں اور مغرب کے بارے میں کیا کہا جائے؟ خود حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں مکمل مجرمانہ خاموشی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ہر پھانسی پر ہماری وزارت خارجہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا بیان جاری کر دیتی ہے کہ ان کا کام ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”شلجموں سے مٹی اتارنے کے برابر ہے‘‘ صرف ایک ترک صدر اردوان تھا جس نے مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت کے خلاف کھل کر بات کی۔ بنگلہ دیشی حکومت کی مذمت کی اور اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا۔ اردوان نے یہ تقریر دراصل بنگلہ دیش کی حکومت کے اقدامات کے خلاف نہیں کی تھی، ہمارے منہ پر جوتا مارا تھا۔ ترک غیرت کا ثبوت نہیں دیا تھا، ہمارے بے غیرتی کا مذاق اڑایا تھا۔ مطیع الرحمان کی پھانسی پر احتجاج نہیں کیا تھا، ہماری خاموشی پر ہمیں شرم دلانے کی کوشش کی تھی۔ ترکی کی میٹرو سے لے کر نظام صفائی تک کی نقل مارنے والے ہمارے حکمرانوں کو صدر اردوان کی اس سلسلے میں نقل مارنے کی ہمت نہ ہوئی کہ یہ کام غیرت مند قوموں کا ہوتا ہے۔

    میں نے ترک صدر کی وہ تقریر دیکھی، سنی کا معاملہ یوں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقریر ترک زبان میں تھی اور ”زبان یار من ترکی‘ ومن ترکی نمی دانم‘‘ والا معاملہ تھا؛ تاہم نیچے چلنے والے انگریزی ترجمے کو محض دیکھا جا سکتا تھا اور ترک صدر کے خطاب کے دوران اس کے جوش اور جذبے کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ترجمہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا مگر اردوان کی ”باڈی لینگوئج‘‘ اتنی زوردار اور جاندار تھی کہ ترجمے کی کمی بیشی پوری کر دی۔ ترک صدر نے کہا : ”میں مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کا غم آپ لوگوں سے بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہر بات سے پہلے میرا یقین ہے کہ مطیع الرحمان نظامی نہ کسی ایسے جرم کے مرتکب تھے اور نہ ہی اس سزا کے حقدار تھے۔ ہم بنگلہ دیش کی قیادت سے ملک کے امن‘ استحکام اور اچھے مستقبل کے لیے زیادہ محتاط اور صحیح فیصلوں کے منتظر ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور ایسے واقعات کی ہم خبر رکھتے ہیں۔

    جیسا کہ مطیع الرحمن نے اپنے خط میں کہا ‘میں جا رہا ہوں اور اپنے پیچھے ایک فکر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایسے مشکل حالات میں بھی موت کے خوف کے بجائے استقامت دیکھ کر حیران ہونے والوں اور ہمارے لیے موت کے معنی ایک نہیں ہیں۔ بھائیو! یہ احمق سمجھتے ہیں کہ ہمارے متعلق انہوں نے فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے؟ اپنے بندے کو راضی کرنے کے لیے اللہ سے کوئی گلہ نہیں۔ میرا یہ پیغام ہے کہ میں جا رہا ہوں، میں خود سے پہلے جانے والے دوستوں‘ بھائیوں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا رہا ہوں۔ تم لوگ یہیں رہ جائو گے، جہاں میں جا رہا ہوں وہاں فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر تھا۔ میں جا رہا ہوں، تم اپنے آپ کو منظم کرو اور یہ نہ بھولنا کہ تمہاری باری بھی آئے گی۔ شہادت کی موت اور کسی انسان کی غلامی قبول نہ کرنے کو ہمیشہ یاد رکھنا‘۔ مطیع الرحمان نظامی پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔

    میں بنگلہ دیش اور دنیا کے مسلمانوں کے لیے صبر کی دعا کرتا ہوں۔ ڈھاکہ میں موجود سفیر کو ہم نے واپش بلا لیا ہے اور وہ اس وقت استنبول پہنچنے والا ہے۔ اور مت بھولنا، ظالموں کے لیے جہنم ہے‘‘۔ سارا ہال نعرے مار رہا تھا۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ کاش میں وہاں ہوتا اور کم از کم کھل کر نعرہ تو لگا سکتا۔ کاش یہ تقریر صدر اردوان کے بجائے ہمارے کسی حکمران کی ہوتی۔ کاش یہ غیرت ہم نے دکھائی ہوتی۔ کاش اس شہادت کا درد ہم نے اسی طرح محسوس کیا ہوتا۔ اے کاش…اے کاش!

  • داجل کے دجال-رؤف کلاسرہ

    داجل کے دجال-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra

    پچھلے ہفتے پارلیمنٹ کی دو تین کمیٹیوں میں گیا۔ جب میں اپنی خودساختہ دانشوری سے تنگ آجاتا ہوں تو اپنی ذہنی نشوونما کے لیے پارلیمنٹ چلا جاتا ہوں۔ وقفہ سوالات مجھے بہت پسند ہے؛ اگرچہ ایم این ایز کو یہ اچھا نہیں لگتا۔ وزرا کو بھی یہ اچھا نہیں لگتا، لہٰذا وہ بھی نہیں آتے۔ بیوروکریسی کو وزیراعظم اور اپنی وزارت کے وزیر کی خوشامد سے فرصت نہیں ملتی، لہٰذا وہ بھی وہاں نہیں آتے۔ تاہم میری پروفیشنل نشوونما میں پارلیمنٹ کے وقفہ سوالات کا بہت اہم کردار ہے۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں ضرور جائوں۔ وہاں بھی پاکستان کے ذہین لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سنتا ہوں، نئے نئے انکشافات سننے کو ملتے ہیں۔

    خوش ہوتا ہوں کہ چلو میرا دال روٹی چلے گا اگرچہ یو این ڈی پی کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے کے بقول اس ملک میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہو رہی ہے۔ جب بھی کرپشن کی بڑی کہانی ان اجلاسوں میں کھل کر سامنے آتی ہے تو ساتھ ہی ارکان پارلیمنٹ اتنی ہی اونچی آواز میں قہقہہ لگاتے ہیں۔ وہ اپنی بے بسی پر ہنستے ہیں یا اپنے غیر سنجیدہ پن پر قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں پتا ہے کہ وہ بھی یہی کام کرتے ہیں اور پکڑے نہیں جاتے۔ دل پشوری چلتی رہتی ہے۔ ادھر ادھر سب کو اس بربادی پر ہنستے دیکھ کر میں بھی اپنی آواز ان قہقہوں کی گونج میں شامل کر دیتا ہوں۔ میں منہ بسورکر کیوں بیٹھا رہوں۔

    جو کچھ وہاں دیکھا اور سنا وہ تو آپ کو آنے والے دنوں میں ضرور پڑھائوں گا تاکہ پتا چلے کہ اس ملک میں کیا کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں اور کیسے پاکستانی اشرافیہ پاگل ہوگئی ہے؛ تاہم لوٹ مارکی کہانیاں سنتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ چند دن پہلے راجن پور کے علاقے داجل میں پولیس کی دہشت گردی کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام کیا تھا۔ پروگرام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے سے بہت سارے لوگوں نے جن میں میرے کچھ جاننے والے بھی تھے، دہائی دی تھی کہ ان کی جان چھڑائی جائے کیونکہ راجن پور کی پولیس نے حد کردی ہے۔ پولیس جو کچھ وہاں کر رہی ہے، اکثر لوگ فیس بک پر اس کا موازنہ غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے کر رہے تھے ۔

    پتاکیا تو معلوم ہوا کہ دو بھائی موٹر سائیکل پر گھر جارہے تھے کہ راستے میں کسی نے ان سے موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت پر گولی مار دی۔ ایک بھائی وہیں مر گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہے۔ اس پر لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے پولیس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ لوگوں کو یقین ہو چکا ہے کہ پولیس علاقے کے بدمعاشوں کے ساتھ مل کر قتل جیسی وارداتیں کرا رہی ہے۔ یہ لوٹ مار میں بھی برابر کے شریک ہے۔ لوگ تھانے شکایت لے کر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ظالموںکو وہاں کرسی اور مظلوم کو گالیاں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو تھانے میں شکایت درج کرانی ہو تو وہ اکیلے نہیں جاتا، وہ اپنے ساتھ علاقے کے چند لوگوں کو لے کر جاتا ہے تاکہ کہیں پولیس اس پر ہی کوئی کیس نہ ڈال دے۔ جب لوگوں نے ایک ہی گھر کے دو نوجوانوں کو گولیاں کھاتے اور ایک کو مرتے دیکھا تو مشتعل ہوگئے۔ تھانے کا گھیرائو کر لیا گیا۔ اس دورا ن ایک پولیس کانسٹیبل نے ہوائی فائرنگ کر دی جس سے بپھرا ہوا مجمع مزید بپھرگیا اور پر تشدد کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ پولیس کے دعویٰ کے مطابق ان کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور خاصا ہنگامہ ہوا۔

    ہنگامہ تھما تو پولیس نے جوابی کارروائی شروع کر دی۔ اب تک داجل کے چودہ سو افراد کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کیے جا چکے ہیں۔ جن کا نوجوان مارا گیا ان کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ ان پرچوں کے بعد پولیس نے داجل کے شہریوں پر ایک اور قیامت ڈھا دی۔ رات گئے گھروں میں داخل ہوکر جو ہاتھ لگے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ تشدد کرتے اور پھر گھسیٹ کر تھانے لے جاتے ہیں۔یہ کارروائی ہنوز جاری ہے۔ داجل ایک قیامت سے گزر رہا ہے جس کا اس لئے پتا نہیں چل سکا کہ میڈیا کو اس میں دلچسپی نہیں۔ داجل میں جاری دہشت گردی کی رپورٹ کون کرتا۔ پنجاب حکومت کا بھی میڈیا پر بہت زور چلتا ہے، دوسرے داجل اور راجن پور کے مقامی رپورٹر پولیس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر ہی دہشت گردی کا مقدمہ نہ درج ہو جائے۔ پولیس نے چودہ سو نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا اور اب جو ہاتھ لگتا ہے اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس کا نام ایف آئی آر میں نامعلوم کے خانے میں فٹ کر دیا جاتا ہے۔

    خیر ہم نے اپنے پروگرام میں داجل کے اس واقعے کو اٹھایا۔ ڈی پی او عرفان اللہ کو دعوت دی اور پوچھا کیسے چودہ سو افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوگیا،کیسے ایک ہی ہلے میں اتنے دہشت گرد پیدا ہو گئے؟دنیا بھر میںپرتشدد کارروائیاں ہوتی ہیں، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں بھی ہوتی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں امریکہ میں سیاہ فام نوجوان کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد بدترین تشدد کے واقعات پیش آئے۔ جہاں عوام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا وہاں گرفتاریاں ہوئیں لیکن کہیں یہ نہیں پڑھا کہ امریکی پولیس نے امریکیوںکو دہشت گردی کے الزام میںگرفتارکر لیا ہو۔ عرفان اللہ ہمیں دہشت گردی کا قانون سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس کی فلاں دفعہ میں کیا لکھا ہے۔

    میرا کہنا تھا کہ سرائیکی علاقے کے لوگ پر امن سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ تخت لاہور وہاں کے سیاسی بدمعاشوں کے ساتھ مل کر زیادتیاں کرتا ہے، وہ بے چارے پھر بھی لاہورکے بادشاہوں اور ان کے سیاسی خادموںکو ووٹ دیتے ہیں۔ ان کو ترقیاتی فنڈ میں سے بھی کچھ نہیں ملتا۔ ایک مرکزی پل نشتر گھاٹ پچھلے پندرہ برس سے نہیں بن سکا جبکہ لاہور میں پچھلے دنوں ایک رنگ روڈ اور بائی پاس کا افتتاح وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کیا اور جمعہ کے روز کالا شاہ کاکو پر ستائیس ارب روپے کے نئے روڈ کا افتتاح وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کیا ہے۔ سرائیکی علاقوں میں آپ جائیں تو کانپ جائیں کہ کس دنیا میں یہ لوگ زندہ ہیں۔

    آخر کیا وجہ ہے کہ پُر امن سرائیکی لوگ بھی پر تشدد کارروائیوں پر مجبور ہوگئے، انہیں کس نے مجبور کیا کہ وہ بھی ہتھار اٹھا لیں اور پولیس کے خلاف کھڑے ہوجائیں؟ مرنے مارنے پر تل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب پسماندگی نے اپنے نتائج دینا شروع کر دیے ہیں۔ کیا اب لوگ غربت اور پسماندگی کے ہاتھوں تنگ آکر ڈکیتی اور دہشت گردی پر اتر آئے ہیں؟ پولیس اور مقامی سرداروں کے باہمی گٹھ جوڑ نے آخر صرف داجل جیسے چھوٹے سے شہر میں ہی چودہ سو دہشت گرد کیوں پیدا کردیے ہیں۔ توکیا جو لوگ تھانے میں پولیس کی دہشت گردی کے شکار ہوکر لوٹیںگے وہ چھوٹو گینگ نہیں بنائیںگے؟

    جب مقابلے کا وقت تھا داجل کے یہ ”دجال‘‘ بھاگ گئے تھے، اب نہتے اور بے بس لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ روزانہ نئے چھاپے اور نئی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔
    ایک ایسے ہی چھاپے کی روداد پر مبنی خبر پڑھیں جو میری نظر سے گزری۔

    خبر کے مطابق راجن پورکے ڈی پی او عرفان اللہ نے پولیس پارٹی تیارکی اورکہا کہ آج ہم اس علاقے کے سب سے بڑے بدمعاش کے گھر پر چھاپہ مارنے جا رہے ہیں۔ پولیس نے اپنی گنیں پکڑیں اور چل پڑے۔ اس سے ایک روز قبل اس خطرناک ڈاکو کے ایک بھائی پھالو کو پولیس نے مار ڈالا تھا۔ آج اس کے دو خطرناک بھائیوںکو مارنے کا پلان تھا۔ پولیس نے جاتے ہی ڈاکو کے گھرکوگھیرے میں لے لیا۔ رپورٹ کے مطابق جب پولیس خطرناک ڈاکو مطاہرا کے گھرگرفتاری کے لیے پہنچی توسب یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے کہ دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ڈکیت کا پورا خاندان دیواروںکے بغیر جھونپڑی میں رہ رہا ہے ۔ خطرناک ڈاکو کی تین سالہ بیٹی سخت بیمار تھی۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر کے پانچ افراد کے لیے دو چارپائیاں جبکہ کنستر میں صر ف دوکلو آٹا تھا۔ بچی کے علاج معالجے کے لیے کوئی پیسہ نہ تھا۔ ڈی پی اوکو بچی کی حالت دیکھ کر رحم آیا اور جیب سے دو ہزار روپے نکال کر دیے اور واپس لوٹ گئے۔

    یہ ہیں داجل کے ڈاکو جن کا ایک بھائی ایک دن پہلے پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ کیا اس کے دو بھائیوںکو بھی دجال پولیس جلد مارکر انصاف کا بول بالا کرے گی؟ داجل کے یہ کیسے ڈاکو ہیں جن کی تین سالہ بیٹی بیمار ہے اور علاج کے لیے ٹکا نہیں، کنستر میں صرف دو کلو آٹا اورسونے کے لیے چارپائیاں تک نہیں! یہ کیسے ڈاکو ہیں جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، جن کو مارنے کے لیے پولیس جاتی ہے اور الٹا دو ہزار روپے دے کر لوٹتی ہے۔ بہت جلد اس جھونپڑی کے دیگر خطرناک ڈاکو بھائی بھی مارے جائیں گے۔

    اب ان تین خطرناک ڈاکو بھائیوںکے انجام کے بعد اس جھونپڑی کی بچ جانے والی مالکہ۔۔۔۔ ایک بے بس ماں ہے جو جلد بیوہ ہونے والی ہے۔ اس کے چار چھوٹے بچے یتیمی کی دہلیز پر قدم رکھنے ہی والے ہیں۔کیا جانیں داجل کے یہ دجال! مجال ہے دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف گلے پھاڑنے والوں میں سے کسی نے داجل میں جاری اس دہشت گردی اور ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ہو! واہ رے داجل اور داجل کے دجال۔۔۔!

  • ایک بہن کا عالم برزخ سے اپنے بھائی کو خط – محمد مبین امجد

    ایک بہن کا عالم برزخ سے اپنے بھائی کو خط – محمد مبین امجد

    پیارے بھائی رب نواز!
    سب سے پہلے میں رب کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے آپ جیسے ’’پیارے‘‘ بھائی سے نوازا۔
    بھائی میں نے تو ہر ہر لمحہ آپ کی خوشی چاہی، آپ کی خدمت کی۔
    سردیوں کی صبحوں میں کہر اور دھند میں، جس بستر سے اٹھنے کو جی نئیں چاہتا، میں نے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے تمہاری بھلائی کے لیے دعائیں مانگیں، اور تمہارے نہانے کے لیے پانی گرم کرنے کو رکھتی۔ اپنے ہاتھوں سے تمہارے لیے پراٹھے پکاتی، اس دوران میرے ہاتھ بھی جلے، مگر کبھی شکایت نہیں کی۔
    بڑے چاؤ سے تمہارے کپڑے دھوتی اور پھر استری کرتی، استری کرتے ہوئے کئی بار مجھے کرنٹ کے جھٹکے بھی لگے مگر اف تک نہیں کی۔
    بھائی تمہیں شاید یاد نہیں کہ جون جولائی کی آگ برساتی دوپہروں میں میں تمہارے لیے آگ جلا کر دوپہر کا کھانا بناتی تھی، اور پسینہ پسینہ ہو جاتی تھی۔
    جب کوئی پھل گھر میں آتا تو خواہش کرتی کہ بھائی کو زیادہ حصہ ملے، چاہے میں کھاؤں نا کھاؤں۔
    میں جو زندگی میں اپنے جائز حق کے لیے بھی آپ سے اونچے لہجے میں بات نہیں کر سکی۔ آج میری خامشی کو زبان ملی ہے تو کہنے دیجیے کہ بغیر کسی ستائش اور صلے کے آپ کی خدمت کی کیونکہ ہمیشہ تمھیں اپنا محافظ اور رکھوالا جانا۔
    آہ! بھائی آپ تو میرا مان تھے۔ آپ کو دیکھ کر میرا سر ہمیشہ فخر سے بلند ہو جاتا۔
    مگر آپ ہی میری خوشیوں کو کھا گئے، میری جان کے دشمن ہو گئے۔ ایک ایسے شخص سے جدا کرنے کے لیے میری جان لے لی جس نے خوشبو سے میرا تعارف کروایا تھا، جو میری خوشیوں کا ضامن بننے والا تھا، جسے میں سوچتی تھی تو آپ ہی آپ شرم سے میرے گال گلنار ہو جاتے، اور آج جبکہ میری خوشیوں میں چند لمحے رہ گئے تھے تو، اور
    آج جب میں دلہن بنی بیٹھی تھی، میرے ہاتھوں کی ان ریکھاؤں میں جو تمہاری خدمت کرتے کرتے گھس چکی تھیں، آج مہندی رچی تھی،
    مگر آہ بھائی تم نے ان میں خون کی لالی رچا دی، نہ جانے کس جرم کی پاداش میں۔
    میں تو اپنا قصور بھی نہیں جانتی سوائے اس کہ آپ جیسے شقی القلب بھائی کی بہن تھی، شاید یہی جرم میری تمام وفاؤں پہ بھاری پڑ گیا۔
    بھائی یاد رکھنا، وہ بہن جو کبھی تم سے اونچے لہجے میں بات نہیں کرتی تھی، محشر میں تمہارا گریبان پکڑے گی، اور اس منصف سے انصاف چاہے گی جو ذرا سی بھی نیکی اور بدی کا بھی پورا پورا بدلہ دیتا ہے۔ کیا ہم نے مل کر بچپن میں قاری صاحب سے مل کر پڑھا نہیں تھا کہ
    [pullquote]فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ (7) وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٝ (8)[/pullquote]

    پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔

    فقط
    تمہاری بد نصیب بہن

  • غیرت کے نام پر قتل شیطانی فعل کیوں؟ اکرام اللہ اعظم

    غیرت کے نام پر قتل شیطانی فعل کیوں؟ اکرام اللہ اعظم

    انسان کا قتل کسی بھی معاشرے میں قابلِ قبول عمل نہیں ہے، اس کے باوجود ہر معاشرے میں اس کا وجود ثابت ہے۔ دنیا کے تمام قوانین قتل کو سب سے بڑا جرم مانتے ہیں اور اس کی سزا بھی سب سے سخت تجویز کرتے ہیں۔ ہابیل اور قابیل سے چلنے والا یہ سلسلہ نہ صرف ہنوز جاری ہے بلکہ آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ قتل کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے غیرت ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مسئلے کے تدارک کے لیے اس کی وجہ تلاش کرکے اس کو ختم کرنا چاہیے۔ اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کی وجہ جانے بغیر اس پر بات کرنا ہوا کو وٹے مارنے کے مترادف ہوگا۔

    قتل کی یہ قسم آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی بڑھ رہی ہے لہذا اس کے بڑھنے کی دیگر نسبتوں کو بھی دیکھنا ہوگا ۔

    ا۔ رابطے کی آسانی :
    ماضی قریب تک رابطے کے وافر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب نہ تھے۔ جتنی باتیں ایک صفحے کے خط میں لکھی جا سکتی تھی، اب اس سے کہیں زیادہ ایک برقی مراسلے میں کی جا سکتی ہیں۔ خط کے ساتھ جڑی مشکلات کو بھی جدید ذرائع نے ختم کر دیا۔ خط پہنچانا اور اس کا پکڑا جانا ایک بڑا مسئلہ ہوتا تھا اور پھر اسے چھپا چھپا کر رکھنا اور پڑھنا، سوشل میڈیا اور چیٹنگ کی سہولت نے وہ خوف ختم کر دیا ہے. پرانا ٹیلیفون جس کے بل پر رابطے کے سارے نمبر چھپ کر آ جاتے تھے جو یقیناََ مخرب اخلاق رابطوں کی نگرانی میں معاون ہوتے تھے، وہ بھی موبائل فون کی بدولت معدوم ہو گئے۔ ان تمام تر آسانیوں نے جہاں جائز رابطوں میں انقلاب برپا کیا وہیں ناجائز رابطوں اور تعلقات کی راہ بھی آسان تر کردی۔ یہ معاشرتی بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    ب۔ میڈیا :
    ریڈیو، اخبار اور ٹیلیویژن خبر کے بہترین ذرائع ہوا کرتے تھے۔ ہلکی پھلکی تفریح جس سے گھر کے سب افراد ایک ساتھ بیٹھ کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے، ریڈیو اور ٹیلیویژن کی خوبصورتی ہوا کرتی تھی۔ پھر سیٹیلائٹ چینلز کی بھرمار اور بےہودگی کا سیلاب آ گیا۔ عشق، محبت، افیئرز اور بے حیائی کو جس طرح سکرین پر دکھایا گیا گیا، اس نے سب سے پہلے تو ایک مرکزی ٹی وی سکرین کو تقسیم کرکے اس کا ایک ایک ٹکڑا ہر کمرے میں پہنچا دیا اور دوسرا تنہائی کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے کچے ذہنوں میں جو شیطانی فصل بوئی، اس کے لہلہاتے کھیت آج ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پر انٹرنیٹ اور سمارٹ فون نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

    ج۔ قانون :
    عالمی قوانین میں جس پیمانے پر بے حیائی کی پذیرائی کی گئی اس کی مثال ماضی میں ملنا ناممکن ہے۔ ناجائز اختلاط کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی جیسے مکروہات کو بھی قانونی چھتری فراہم کر دی گئی۔ ایسے گند کے کئی چھینٹے ہمارے ہاں بھی پڑے اور مساوات، انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے نام پر بےحیائی کی کئی شکلوں کو قانونی حیثیت مل گئی۔ معاشرتی ابتری میں ان آسانیوں نے ایک اہم اور خطرناک کردار ادا کیا۔

    د۔ تربیت کی کمی:
    والدین کے لیے بچوں کی تربیت پہلے ہی ایک مشکل کام ہوا کرتا تھا جسے موجودہ افرا تفری اور شیطانی ہتھکنڈوں کی بھرمار نے تقریباََ ناممکن کر دیا ہے۔ اب معاشرے میں اپنا مقام قائم رکھنے کے لیے والدین کو زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا پڑتا ہے اور اسی طرح تعلیم کے نام پر بھی بچوں کو زیادہ تر گھر سے دور رہنا پڑتا ہے جس کے اچھے ثمرات کے ساتھ ساتھ مضر اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

    ح۔ مذہب سے دوری:
    جس طرح آج کے معاشرے میں مذہب کو حرف غلط باور کرایا جا رہا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ مذہب اور اس کے شعائر کو مذاق بنا کر نوجوان نسل کو مذہب سے دور کیا جا رہا ہے۔ جس کے دیگر بد اثرات کے ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری، پاکیزگی، شرافت اور حیا بھی سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔

    و۔ شادی میں مشکلات:
    اگرچہ مقامی رسم و رواج پہلے بھی شادی میں تاخیر کا سبب بنا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سختی میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی نے جہیز، گھر، گاڑی اور سٹیٹس کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو شادی جیسے مبارک رشتے سے کافی دور جا کھڑا کیا ہے۔ اور اسی بعد کا فائدہ اٹھا کر شیطان نے اوپر بیان کیے گئے تمام ذرائع بروئے کار لاکر زنا کا راستہ آسان بنا دیا ہے۔

    ز۔ معاشرتی منافقت:
    ان تمام حالات نے جہاں ہماری بہت سی دیگر اخلاقی اقدار کا قتل کیا وہیں ہمیں مجموعی طور پر منافق بنا دیا۔ ہم نے مغرب کی ان “سہولیات” کا خیرمقدم تو کھلی بانہوں سے کیا لیکن اس کے ذیلی اثرات کو کھلے دل سے قبول کرنے کے بجائے اپنی نام نہاد “غیرت” کا ہوا کھڑے کیے رکھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی جمے ہوئے مکھن کا برتن آگ پر رکھ کر یہ امید رکھے کہ مکھن پگھلے گا نہیں۔ اس سوچ کو بدترین منافقت کہا جا سکتا ہے۔ آج جس طرح مغربی معاشرہ بےراہ روی کا شکار ہے وہ تمام حالات اگر ہم نے قبول کر لیے ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنی “غیرت ” کو بھی اسی مغربی نہج پر لے آئیں جہاں والدین کی ذمہ داری صرف اولاد کو پال پوس کر تعلیم دلوانا اور ان کے بالغ ہوتے ہی ان کی مادر پدر آزادی قبول کرنا ہے، اب وہ جو مرضی گل کھلاتے پھریں، والدین انھیں روکنے ٹوکنے کے روادار نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے بےراہ روی کی فصل بو کر، اسے بے حیائی سے سینچا لیکن کاٹتے ہوئے یہ امید رکھی کہ مشرقی اقدار اور اخلاق کا زریں پھل گھر آئے گا۔

    اس نقطے پر جاگی ہوئی بےکار غیرت ہمیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے، اور قتل جیسے قبیح گناہ کا ارتکاب کرواتی ہے۔ لہذا بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایسی صورتحال میں غیرت کے نام پر قتل بھی ایک شیطانی فعل ہے جس سے سوائے شیطان کی خوشنودی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جو اس کی مذمت کرتے ہیں اگر وہ اپنے اس اقدام میں مخلص ہیں تو انھیں چاہیے کہ ان تمام پہلوؤں کی اصلاح پر بھی میدان میں آئیں۔ ورنہ یہ بھی ایک عظیم منافقت ہی ہو گی کہ جڑوں کی بجائے پھل کو کوسا جائے۔

  • اسلام میں انسانی قتل کی ممانعت – امیرجان حقانی

    اسلام میں انسانی قتل کی ممانعت – امیرجان حقانی

    امیر جان حقانی یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسلام دین امن ہے۔ اسلام کے اولین سنہری دور کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام نے معاشرتی امن اور سماجی انصاف کے لیے جتنی فکری اور عملی کوششیں کی ہیں، اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ہے۔ اسلام کبھی بھی فکری طور پر مفلوج اور مبہم نہیں رہا ہے۔ اسلام کا پیغام کسی مخصوص علاقہ ، نسل یا زبان اور مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ تمام انسانیت کے لیے عام پیغام ہے اور اہل کتاب کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ قرآن و حدیث میں احکامات صادر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے کہ’’ قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم، الا نعبد الا اللہ و لانشرک بہ شیئا‘‘ اس ایت کی روشنی میں ہمیں یہ پیغام واضح طور پر ملتا ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کو توحید کی دعوت دی ہے اور شرک سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے۔ یہ دونوں موضوعات اہل کتاب اور اسلام کے مابین مشترک ہیں، تاہم بعد میں ان کے مذہبی پیشواؤں نے اس آفاقی پیغام میں تحریف کی ہے۔ قرآن نے اس مشترک پہلو کی طرف بےحد خوبصورت پیرائے میں دعوت دی ہے۔ اور اسلام نے اسلامی مملکت و ریاست کے اندر بھی اہل کتاب اور دیگر غیر مسلم کی حفاظت کا صرف حکم نہیں دیا بلکہ حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے، میثاق مدینہ، بہترین حکمرانی اور سماجی انصاف کے لیے یادگار معاہدہ ہے، مدینہ منورہ میں پہنچ کرآنحضرت ﷺ نے سماجی انصاف اور معاشر ے میں قیام امن کے لیے جملہ اقوام سے ایک عمرانی معاہدہ بین الاقوامی اصول پر کیا تاکہ معاشرتی اور مذہبی اختلافات اور تنازعات میں قومی وحدت قائم رہے، اور سماجی انصاف کا قیام ہوسکے۔ اس معاہدہ میں مختلف مسالک، مذاہب زبان و نسل اور علاقہ کے لوگوں کے درمیان قیام امن اور آشتی کے ساتھ رہنے کے لیے بہترین رہنمائی ملتی ہے۔اس معاہدے کے جستہ جستہ فقرے یہ ہیں۔۔قاضی سلیمان منصور پوری، اپنی مشہور کتاب ’’رحمۃ اللعالمین‘ ‘ میں لکھتے ہیں کہ:
    1. انہم امۃ واحدۃ، یہ سب لوگ ایک ہی قوم سمجھے جائیں گے۔
    2. وان بینہم النصح و النصیحۃ والبر دون الاثم، معاہدہ اقوم کے باہمی تعلقات، باہمی خیرخواہی، خیراندیشی اور فائدہ رسانی کے لیے ہوگا، ضرر اور گناہ کا نہ ہوگا۔
    3. وأن النصر للمظلوم، مظلوم کی مدد ونصرت کی جائے گی۔
    4. وان یثرب حرام جرفہا لاہل ہذہ النصیحۃ، مدینے کے اندر کشت و خون کرنا معاہدہ کرنے والے سب قوموں پر حرام ہے۔(ص ۹۱،۹۲،ج نمبر اول)

    موجودہ دور میں گڈ گورننس (Good governance) کی اصطلاح چلی ہے۔گڈ گورننس اور اچھی طرز حکمرانی کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ کے صفحات سے بھری پڑی ہیں۔ ہم ایک مثال عرض کیے دیتے ہیں۔ علامہ کوثرنیازی صاحب لکھتے ہیں: ’’امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ گشت کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک غیر مسلم کو دیکھا جو بھیک مانگ رہا تھا۔ آپ ؓ نے اس سے پوچھا، تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اب میں کمانے کی سکت نہیں رکھتا، امیرالمؤمنین نے یہ سن کر فرمانے لگے کہ ’’افسوس ہے عمر ؓ پر جس سے اس کی جوانی کے زمانے میں جزیہ تو لیا لیکن بوڑھا ہوگیا تو اس سے اپنے حال پر چھوڑ دیا‘‘ حکم دیا کہ اس کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کیا جائے (کتاب: اسلام ہمارا رہنما ہے، ص،۹۳)۔ اس واقعہ سے ہم آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مسلمان حکومت غیر مسلموں کے ساتھ جس رواداری اور سماجی انصاف دینے کے فراخدالانہ مظاہرہ کر رہی ہے دنیا کا کوئی دوسرا نظام حکومت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    مسلم ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق بھی بہت ہی واضح طور پر موجود ہیں۔ سماجی انصاف مہیا کرنے میں مسلم ریاست اور مسلمان حکومت و حکمرانوں کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں، اگر ایک مسلمان کسی ذمی (غیر مسلم ) کو قتل کرڈالے تو فقہ حنفی کے رو سے اس مسلمان کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا کہ قاتل مسلم ہے اور مقتول غیر مسلم ہے کہہ کر کوئی ناانصافی کی جائے یا امتیاز روا رکھا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’ من قتل معاھداً لم یرح رائحۃ الجنۃ‘‘(۔ محمد بن اسماعیل البخاری، الصحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب اثم بن قتل معاہداًبغیر جرم: جلد اول، ص ۴۴۸، ا) یعنی: ’’ ذمی کو قتل کرنے والا مسلم کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا‘‘۔ جان بہت عزیز چیز ہے، اور اسلام نے تو غیر مسلموں کی شراب، صلیب اور سور (خنزیر) کے گوشت تک کو نقصان نہ پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری اور بدائع الصنائع فی الترتیب الشرائع میں مذکور ہے کہ’’ولو اتلف مسلم أو ذمی علی ذمی خمراً اور خنزیراًً یضمن‘‘ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی(غیر مسلم) کی شراب ضائع کرے یا کسی عیسائی کی صلیب توڑ دے تو بطور جرمانہ اسے شراب اور صلیب کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔( جلد ۷،ص ۱۶۷)۔

    معاہدہ بیت المقدس‘ذمی رعایا کے حقوق کی ایک مقدس دستاویز ہے۔ حضرت عمر ؓ نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد وہاں کے شہریوں سے ایک معاہدہ کیا۔ ذمیوں کو جو سماجی حقوق حضرت عمرؓ نے عطا کیے وہ اس زمانے کی غیرمسلم سلطنتیں غیر قوموں کے لیے سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتی تھی۔ بیت المقد س کا معاہدہ خود حضرت عمرؓ کے الفاظ میں ترتیب دیا گیا، اس کے چند جملے یہاں درج کیے جاتے ہیں۔ شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی نے الفاروق (سوانح عمری حضرت عمرفاروقؓ) میں لکھا ہے ’’ہذا مااعطی عبداللہ عمر امیر المؤمنین اھل ایلیا من الامان اعطاھم امانا لِأنفسہم واموالہم وکنا یسہم وصلبانہم وسقیمہا وبریھا و سایرملتہا انہ لایسکن کنایسہم ولاتہدم ولا ینتقض منہا ولا من خیرھا ولامن صلبہم ولامن شئی من اموالہم ولایکرھون علی دینہم ولا یضار احدہم‘‘یعنی:’’یہ وہ امان ہے جواللہ کے غلام امیر المؤمنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی‘ یہ امان ان کی جان و مال‘ گرجا‘ صلیب‘ تندرست‘ بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی ‘ نہ ڈھائے جائیں گے‘ نہ ان کو یا نہ ان کے احاطے کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا‘‘۔(ص۲۵۸)

    غیرمسلم رعایا کی شرائط کو پورا کرنے کا حکم بھی اسلامی احکام میں واضح طور پر ملتا ہے۔ شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی نے الفاروق میں لکھا ہے کہ’’حضرت عمرؓ نے شام کی فتح کے بعد حضرت ابوعبیدہ ؓ کو غیرمسلم رعایا کے حوالے سے جو خصوصی حکم جاری کیا اس میں یہ یادگار اور بے مثا ل الفاظ مرقوم تھے’’وامنع المسلمین من ظلمہم والاضرار بہم واکل اموالہم الا بحلہا ووفّ لہم بشرطہم الذی شرطت لہم فی جمیع مااعطیتہم‘‘یعنی’’مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کریں‘ نہ ان کو نقصان پہنچائیں‘ نہ ان کے مال بے وجہ کھائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان سے کی ہیں سب وفا کرو‘‘۔(ص۲۶۱)

    اسلام سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی انسا ن نہ سفاک ہوسکتا ہے نہ دہشت گرد اور نہ ہی درندہ صفت، اور نہ ہی بے گناہ انسانوں کے قتل عام سے اسے کوئی ذہنی و قلبی راحت مل سکتی ہے۔ اسلام جس طرح غیر مسلموں کے ساتھ امن اور معاشرتی رواداری کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے اسی طرح اسلام آپس میں بھی اتفاق او اتحاد اور امن وآشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر ۹۳ میں خدائے ذوالجلال کا واضح ارشاد ہے :[ومن یقتل مؤمنا متعمداََ فجزاہ جھنم خالداََ فیھا و غضب اللہ علیہ و لعنہ اعدلہ عذابا عظیما] جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو عمداََ یعنی قصدا جان بوجھ کر قتل کر ڈالے تو اس کی سزا ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے‘ اللہ رب العزت کا غضب ہے‘ اس کی لعنت اور پھٹکار ہے‘ اور ایسے لوگو ں کے لیے بڑا دردناک والمناک عذاب تیار ہو چکا ہے۔ امام بخار ی ؒ نے صحیح بخاری میں ایک حدیث نقل کی ہے جو حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے: [لایشیر احدکم علی اخیہ بالسلاح فانہ لایدری لعل الشیطان ینزع مافی یدہ ‘ وفی روایۃ ینزع بالعین فیقع فی حفرۃ من النار] یعنی فرمایا کہ کبھی بھی اپنے مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کیا کرو‘ ممکن ہے کہ ہتھیار میں جو کچھ ہے وہ لگ جائے تو تم جہنم کے گڑھے میں گر پڑو یعنی آپ کے اشارہ کرنے سے تلوار چل گئی اور مسلمان کا خون ناحق ہوگیا تو ایک ایسے فعل کا ارتکاب ہو جائے گا جس کی پاداش عذاب جہنم ہے۔ ایک اورحدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے مرفوعاََ مروی ہے: [ زوال الدنیا کلھا اھون علی اللہ عن قتل رجل مسلم‘] اسی روایت کی تخریج امام نسائی نے ان الفاظ میں کی ہے [ قتل المؤمن اعظم عنداللہ من زوال الدنیا] یعنی آقائے نامدار نبی رحمت سرور کائنات ﷺ نے فرمایا ہے کہ’’ اللہ کے نظروں میں تمام دنیا کے زائل یعنی نیست و نابود ہوجانے نے بھی بڑھ کر جو چیز ہے و ہ ایک مؤمن مسلمان کا قتل ہے۔ آپ نے آیت کریمہ اور احادیث مبارکہ میں ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالی ٰ نے قتل مسلم کو کتنا بڑا جرم قرار دیا ہے اور اس آدمی کا انجام جہنم بتایا ہے اور اس پر لعنت و پھٹکار کی ہے اور آپ ﷺ نے بھی واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ مسلم کا خون کتنا قیمتی ہے۔ احادیث مذکورہ سے تو واضح ہو جاتا ہے کہ از روئے مذاق و دل لگی بھی کسی مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ اٹھانا یا اس کو ڈرانے کے لیے کسی بھی قسم کے ہتھیار کا رخ اس کی جانب کرنا یا اشارہ کرنا شرعاََ جائز نہیں ہے۔ ذرا ہمیں اپنی حالت زار کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے خون مسلم کو کتنا ارزاں سمجھا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں قتل مسلم مذاق بن چکا ہے ، خدا تعالی ٰ کے ارشادات اور نبی کریم ؐ کے فرمودات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے شرک کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی اور کفر نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگین کرے۔

    روشنیوں کا شہر کراچی غریبوں کے خون سے سرخ ہوگیا ہے۔ کراچی ایک شہر ہے جہاں پورے ملک کے باسی رہتے ہیں۔ پورے ملک کے ہر علاقے کے نام سے کراچی میں کالونیاں بنی ہوئی ہیں مثلاََ گلگت کالونی، کشمیر کالونی‘ پنجاب کالونی‘ مانسہرہ کالونی‘بلوچ کالونی‘ غرض ہر صوبے کے مختلف علاقوں کے ناموں والی کالونیاں کراچی میں ہیں اور وہاں اس علاقے کے لوگ فروکش ہیں مگر لسانیت، علاقائیت پر روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بےگناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ نہ قاتل کو معلوم نہ مقتول کو۔ بلوچستان تو مشرفی آمریت کے دور سے مسلسل جل رہا ہے اور جلانے کے لیے ایندھن مہیا کرنے والے کوئی بھی ہوں مگرماچس کی تیلی سے آگ بھڑکانے والے اپنے مسلمان بھائی ہیں۔گلگت بلتستان بھی کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، سالوں میں کوئی قتل ہوتا تھا، اگر کوئی ذاتی دشمنی میں قتل ہوتا تو قاتل کبھی بھی اپنے آپ کو چھپاتا نہیں تھا بلکہ وہ فخریہ اعلان کرتا کہ جی ہاں! میں نے قتل کیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ دوسرے لوگ اذیت اور خوف و ہراس سے بچ جاتے تھے۔ مگر چند سالوں سے یہ پرامن علاقہ بےگناہ مسلمانوں کے خون سے بھر چکا ہے، خون آشامی کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ خونیں ورادتیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔گلگت میں بھی قتل و خون کی ہولی کھیلنے کے لیے پلان جوب ھی تیار کرتا ہو اور اس کے لیے فنڈنگ کوئی بھی کرتا ہو مگر ایک دوسروں کے گلے کاٹنے کی ’’خدمت عالیہ‘‘ مقامی لوگ ہی انجام دیتے ہیں۔ پتنگ کی ڈوری جہاں کہیں سے بھی ہلائی جائے مگر پتنگ گلگت سے ہی اُڑے گا اور گلگت کا ہی پتنگ کٹے گا‘ اور کٹ کر کرچی کرچی ہوکر ہواؤں کے دوش بکھر جائے گا۔

    سیرت نبویؐ اور احادیث نبویؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قتل مسلم سے بڑھ کر کون سا فعل ہے جو خدا کے عرش اور جلال و غیرت کو ہلا دے اور اس کی لعنتیں بارش کی طرح آسمانوں سے نہ برسیں‘ جس مؤمن کا وجود اللہ کو اس قدر محبوب و محترم ہواور لائق و فائق ہوکہ تمام دنیا کا زوال اس کی ہلاکت کے مقابلے میں ہیچ بتلائے‘ اسی کا خون خود ایک مسلمان کے ہاتھوں سے ہو‘ اس سے بڑھ کر شریعت الہی کی کیا توہین ہوسکتی ہے؟ جس بدبخت انسان کا احساس ایمانی یہاں تک مسخ ہو جائے کہ باوجود دعوائے مسلم ومؤمن کے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرے بلکہ اس کو کار خیر بھی سمجھے‘ تو یاد رہے کہ وہ یقینا مسلمانوں کا خون نہیں بہاتا بلکہ وہ تو پروردگار عالم کے کلمہ توحید کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور شانِ کبریائی کو بٹہ لگانا چاہتا ہے۔ سو‘ ایسوں کو [ ان عذابی لشدید] کے لیے تیار رہنا چاہیے.

  • قتل کے مقدمات میں قوانین کا غلط استعمال – مفتاح الدین خلجی

    قتل کے مقدمات میں قوانین کا غلط استعمال – مفتاح الدین خلجی

    مفتاح الدین خلجی شریعت نے زمین میں فساد اور خون خرابہ روکنے اور ختم کرنے کے لیے واضح اصول دیے ہیں۔ اسلامی قوانین قصاص و دیت اور تعزیرات پاکستان میں قتل کا جرم ثابت ہونے پر معافی اور صلح کی عدم موجودگی میں سزا اور ان کی موجودگی میں دیت کی مقدار یا بدل صلح کی ادائیگی کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔ تاہم اس وقت قتل کے مقدمات میں مقتول کے ورثا یا تو فی سبیل اللہ معافی کے نام پر زمین لے لیتے ہیں یا پھر دولت مند لوگوں کو معافی طلب کیے بغیر معافی مل جاتی ہے یا پھر مقتول کے ورثا کو دباؤ میں لاکر ان سے راضی نامہ کر لیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق مجرم کا اعتراف جرم اور افسوس کا اظہار کافی نہیں، بلکہ دیت یا بدل صلح کی ادائیگی بھی لازم ہے۔ تاہم اصل مسئلہ اس وقت سامنے آتا ہے جب مقتول غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے مگر قاتلوں کے اثر و رسوخ کی بدولت اس کے ورثا قاتلوں کو معاف کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ بااثر لوگ دیت اور بدل صلح کے قوانین کو اپنے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا مقتول کے ورثا کو مجبور کرکے اللہ کے نام پر معافی حاصل کرلیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ورثا قصاص میں چھوٹ اپنی حدود میں رہ کر دیں، ریاست معافی کے باوجود تعزیری سزا کا نفاذ کرے، اور پارلیمنٹ قتل کو فساد فی الارض قرار دے کر بااثر قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

  • غیرت کے نام پر قتل: دو باتیں – زاہد مغل

    غیرت کے نام پر قتل: دو باتیں – زاہد مغل

    زاہد مغل – بے نظیر کے قتل پر بے نظیر سے محبت کرنے والوں نے ملک میں کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا اور سینکڑوں کو موت کے گھات اتار دیا
    – سیاسی ریلیوں، دھرنوں و احتجاجوں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا روز مرہ کا معاملہ ہے
    – محلے میں کوئی ڈاکو ھاتھ چڑھ جائے تو لوگ مار مار کر اس کا حشر کردیتے ہیں
    – ہر معاملے کے احتجاج میں لوگ سڑکیں بند کرکے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کردیتے ہیں

    یہ صرف چند مثالیں۔ بتائیے کیا یہ سب کام کسی مذہبی دلیل کی بنا پر کیے جاتے ہیں؟ کیا مولویوں نے لوگوں کو کہا ہے کہ تم احتجاج کرتے وقت توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ شروع کردیا کرو؟ یہ سب معاشرتی رویے لوگوں کے جذباتی ہیجان و عدم توازن (imbalance) کی علامت ہیں، ان کی کوئی مذہبی توجیہہ نہیں۔ بعینہ اگر کچھ لوگ غیرت کے نام پر کسی کا ناحق قتل کرگزرتے ہیں تو اس کا نہ تو کوئی مذہبی جواز ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی توجیہ، یہ صرف اور صرف ایک شخص کا جذباتی عدم توازن ہے، قریب قریب اسی طرح جیسے کچھ لوگ غصے میں معمولی بات پر گالم گلوچ کرنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کا جذباتی عدم توازن ہمارے یہاں کیا صرف غیرت کے جذبے کے ساتھ ہی منسلک ہے؟

    اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی جائز جذبے یا کیفیت سے مغلوب ہوکر کوئی شخص حد اعتدال کو پار کرکے غلط کام کا ارتکاب کرگزرے تو صرف اسی حد تک اس کی مخالفت کی جاتی ہے کہ جس حد تک اس کا ناجائز اظہار کیا گیا، نہ یہ کہ اس جذبے یا کیفیت ہی کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کرکے اس کی بیخ کنی شروع کردی جائے۔ اگر ایسا کرنا درست ہے تو ہمیں لوگوں کے احتجاج کرنے کے حق کو بھی ناجائز کہنا چاہیے کہ اس کی آڑ میں نجانے اب تک کتنے اربوں روپے کی قومی دولت کو نقصان پہنچایا جاچکا ہے نیز ہزاروں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس کے رکنے کی کوئی امید نہیں، مگر اس سب کے باوجود ہم اس جمہوری حق کی بقا کے لیے جنگ کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ فی نفسہ اس تصور کو ہم جائز سمجھتے ہیں۔ غیرت کے لیے بھی یہی اصول یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہمارے خاندانی نظام کی بقا و استحکام کے لیے ایک کلیدی قدر ہے۔

  • فتنہ انگیزی بھی جرم ہے – احمد خلیق

    فتنہ انگیزی بھی جرم ہے – احمد خلیق

    احمد شروع میں ہی یہ وضاحت ضروری ہے کہ مجھے کسی بھی درجے میں عالم دین ہونے کا دعوی نہیں ہے، سو اگر اس میں کچھ صواب ہے تو وہ من جانب اللہ ہے اور خطا کی صورت میں میرے نفس کا دھوکہ ہے۔ دوسری صورت میں علماء حضرات سے اصلاح کی درخواست ہے۔

    جیسا کہ آج کل قندیل بلوچ کے قتل کا معاملہ زور و شور سے زیر بحث ہے اور ہر دو جانب سے کافی لکھا جا چکا اور ابھی مزید لکھا جائے گا۔ اس حوالے سے جو اعتراض دوسری جانب سے بڑی شدو مد سے دہرایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ لوگ اس قتل کی اگر، مگر، چونکہ، چناچہ وغیرہ سے الگ کر کے بغیر کسی لگی لپٹی کے مذمت کریں، یعنی قتل کے پیچھے محرکات، اسباب و عوامل کا تذکرہ کرنا، مثلا قندیل کی اپنی شنیع اور قبیح حرکات یا پھر میڈیا کا بے شرمی کے ساتھ اسے گلوریفائی کرنا، با الفاظ دیگر قتل کو جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے’۔ عرض ہے کہ ایسا نہیں ہے اور نہ کبھی کسی واقعہ کو سب سے الگ تھلگ کر کے دیکھا، پرکھا اور سمجھا جاتا ہے۔

    اب کیا ہوا کہ آج صبح اللہ تعالی نے تھوڑی دیر کے لیے قرآن مجید مع ترجمہ و مختصر تفسیر پڑھنے کی توفیق بخشی۔ دوران مطالعہ ایک آیت مجھے نفس مسئلہ پر منطبق ہوتی محسوس ہوئی۔ پہلے آیت مع ترجمہ اور مختصر شان نزول ملاحظہ ہو، پھر اس کی تطبیق پر بات کرتے ہیں۔ سورۂ بقرۃ کے 27ویں رکوع کی آیت نمبر 217 ہے:

    [pullquote]يَسْأَلونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ
    [/pullquote]

    “آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے، اور اللہ کے راستہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے، اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے.”

    ایک موقع پر آپﷺ نے چند صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کی جماعت کو کفار کے ایک قبیلہ کی نقل و حرکت کی خبر لانے کا فرمایا۔ مقصد لڑائی کرنا نہ تھا لیکن وہاں جا کے حالات کچھ ایسے ہوئے کہ مڈ بھیڑ ہو گئی اور مسلمانوں کے ہاتھوں ایک کافر مارا گیا۔ سوئے اتفاق سے یہ جمادی الثانی کی 29ویں تاریخ شام کا وقت تھا کہ ساتھ ہی رجب کا چاند نظر آگیا۔ اب چونکہ رجب قبل از اسلام سے ہی حرمت والے مہینوں میں شمار ہوتا تھا اور ہر دو فریق اسے خوب جانتے تھے تو کفار نے واویلا مچا دیا کہ دیکھو ان مسلمانوں کو حرمت والے مہینے کا تقدس پامال کرتے ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو حق پرست کہتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت یہی تھی کہ ایسا غلطی سے ہوا تھا نہ کہ جانتے بوجھتے سے لیکن مذکورہ جماعت پھر بھی شرمندہ اور پشیمان ہوئی کہ یہ ہم سے کیا ہوگیا!! واپس ہوئے تو بار گاہ نبویﷺ میں قصہ اور کفار کے طعن و طنز کا اظہار ہوا، تو جوابا مذکورہ بالا آیت بطور وحی الہی نازل ہوئی۔

    آئیے اب نفس مسئلہ کو آیت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ حرمت والے مہینے میں قتال کرنا کیسا ہے؟ چونکہ دین اسلام میں بھی رجب کی حرمت و تقدیس باقی تھی تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اس میں جنگ و جدل کرنا بڑے گناہ کا کام ہے۔ لیکن غور کریں کہ اللہ جل جلالہ نے صرف یہ کہہ کر بات ختم نہیں کر دی بلکہ آگے صراحت کی ہے کہ قتل کرنا تو گناہ ہے ہی، پر اللہ کی راہ سے روکنا، اس کا انکار کرنا، مسلمانوں کو مسجد الحرام میں جانے سے روکنا اور مکہ مکرمہ سے بے دخل کرنا اللہ کے نزدیک اس سے بڑھ کے گناہ ہیں، اور بلا شبہ فتنہ و فساد پھیلانا قتل سے زیادہ بڑا جرم ہے۔

    اب دیکھیے کہ قندیل بلوچ کے قتل کو کوئی جائز یا مباح نہیں کہہ رہا۔ یقینا جو ہوا غلط ہوا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ اسلام کسی فرد واحد کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اٹھ کر کسی کو بھی قتل کر دے بلکہ یہ صرف ریاست ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرم و سزا پر عمل درآمد کروائے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ قندیل بلوچ جیسی حرکتیں قابل دست اندازی جرم ہونی چاہییں۔ کیوں؟؟ کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ ایسی حرکتیں معاشرے میں ہیجان اور فتنہ انگیزی کا باعث بنتی ہیں اور خصوصا نوجوان نسل اس سے متاثر ہوتی ہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
    [pullquote] مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ” (متفق عليه)
    [/pullquote]

    ترجمہ: میں نے اپنے بعد امت کے مردوں کے اوپر سب سے بڑا جو فتنہ چھوڑا ہے وہ عورتوں کا ہے۔ علمائے کرام اس حدیث کی بہتر تشریح کر سکتے ہیں لیکن یہاں موضوع کے اعتبار سے مناسبت ہے کہ عورت کا بے پردہ بن سنور کر نکلنا اور اس مستزاد یہ کہ اپنی نمود و نمائش کرنا اور لوگوں کو دعوت گناہ دینامسلمان کےلیے ایک فتنہ ہی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نسل انسانی کا اس غلط روش پر چل نکلنا خاندان اور معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے، سو اس پر پہلے سے ہی بند باندھنے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ موجودہ حالات میں ہم اس پر افسوس ہی کر سکتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی و عریانی کی روک تھام سے متعلق کوئی مؤثر قانون نہیں ہے، اگر ہے بھی تو عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

    زاہد صدیق مغل صاحب اور استاد گرامی محمد مشتاق صاحب نے اس جانب صحیح رہنمائی فرمائی کہ اولا ان دو اصطلاحات کی تعریف فوجداری قانون میں طے اور واضح ہو جانی چاہیے اور پھر قتل عمد کے مثل اس جرم کے مرتکب افراد، اسباب و عوامل (میڈیا وغیرہ) کو بھی قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، تاکہ ردعمل میں غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل کا سد باب ممکن ہو۔ اللہ تعالی دین و دنیا کا صحیح فہم اور سمجھ عطا کرے. آمین!