Tag: راحیل شریف

  • یہ تصویر نہیں، بھارت کی ناکامی کی تحریر ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    یہ تصویر نہیں، بھارت کی ناکامی کی تحریر ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش ایک تصویر ہزار الفاظ کی تحریر کی نسبت زیادہ بہتر ابلاغ کرتی ہے.
    اسی کی ایک مثال یہ تصویر ہے.
    اس ایک تصویر میں بھارت کا غصہ، جھنجھلاہٹ اور پریشانی عیاں ہے. اضطراب اس قدر زیادہ ہے کہ تہذیب، سفارتی آداب اور عمومی اخلاقیات بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اس کے ”میچور“ میڈیا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے.

    اس تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر کے حوالہ سے اس سے بھی زیادہ پریشر میں ہے جتنا کہ پاکستان کا خیال ہے. اس میں اس کی بے بسی بھی نظر آ رہی ہے کہ ابھی وہ پاکستان پر کشمیر کے حالات کے حوالہ سے کوئی ایسا الزام نہیں لگا سکا جو اسے کشمیر میں ڈھائے جا رہے انسانیت سوز مظالم کا جواز فراہم کر سکے یا اسے یہ رعایت دلا سکے کہ یہ دراصل کشمیریوں کی اپنی تحریک نہیں بلکہ پاکستان کی سازش ہے. نہ ہی وہ پاکستان کو اپنے تئیں کوئی تادیبی چرکا لگا سکا ہے.

    اس تصویر میں ایک پیغام بھی ہے. بھارت ایک زخمی سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے اور پاکستان کو ہر اس جگہ ڈسنے کی کوشش کرے گا جہاں اس کا بس چلا.

    چیف آف آرمی سٹاف کی تصویر لگا کر اس نے اپنی حکمت عملی کی وضاحت بھی کر دی ہے. وہ پاکستانی فوج کو اصل ولن بنا کر دکھانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان میں اپنے تخریبی اور قتل و غارت کے پروگرام کو جواز دے سکے، یہ بتا سکے کہ پاکستان فوج اپنے ملک میں بھی لوگوں کو مار رہی ہے اور ہمسایہ ممالک میں بھی گڑبڑ کرتی ہے اور اسی کو ٹارگٹ کیا جانا چاہیے. سب سے بڑھ کر یہ کہ صرف فوجی چہرہ کو بطور دشمن دکھا کر سول ملٹری خلیج کے تاثر کو ابھارنے کی قبیح حرکت کی گئی ہے تاکہ دنیا کو باور کروایا جا سکے کہ سول حکومت کی تو سنی ہی نہیں جاتی ورنہ ہم سے ضرور معاملہ کر لیتے، ہم تو امن کوش لوگ ہیں لیکن پاکستانی فوج ہمیں زچ کیے ہوئے ہے.

    دشمن نے اپنے عزائم ہر سطح پر واضح کر دیے ہیں. پاکستان میں اندرونی امن و امان اور سیاسی استحکام پاکستان کی بیرونی سکیورٹی کے لیے اب لازم و ملزوم ہے. البتہ دشمن کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہتھیار سے زیادہ اس ہتھیار کو چلانے والا اہم ہوتا ہے. کوئی کمپیوٹر پروگرام ڈاؤن لوڈ کر لینا ایک بات ہے، اسے صحیح طریقے سے آپریٹ کرنا بالکل دوسری بات. پورے بھارت میں ایک بھی بندہ اس قابل نہیں کہ فوٹوشاپ ہی ٹھیک سے استعمال کر سکے.

    بچے، یہ تھپڑ نہیں ”شاباش“ والا پرنٹ مارک ہے.!

  • یہ ایک شخص نہیں، قومی وقار کی علامت ہے – زبیر منصوری

    یہ ایک شخص نہیں، قومی وقار کی علامت ہے – زبیر منصوری

    زبیر منصوری دیکھو!
    یہ ایک شخص نہیں ایک علامت ہے۔
    اور اگر تم اس سطح پر اترو گے تو پھر بات بہت دور تک جائے گی۔
    کیونکہ تم نے کسی ایک انسان کے ساتھ اپنی یہ اوقات نہیں دکھائی بلکہ ایک ملک، ایک قوم اور ایک اہم پاکستانی ادارے کی توہین کی ہے.
    تم شاید بھول رہے ہو، یہ قوم ایک شاندار تاریخ رکھتی ہے، حمیت و غیرت کی تاریخ اور اس کی تاریخ شروع ہوتی ہے اسلام سے.
    دیکھو!
    وہ بھی ایک سپہ سالار ہی تھا جس نے 17 برس کی عمر میں تمہارے راجہ کو جہنم رسید کیا تھا، بات کیا تھی؟
    بات ایک بہن کی توہین ہی تھی نا؟
    وہ بھی ایک سپہ سالار ہی تھا جس نے سومنات کو زمین کی دھول چٹائی تھی. یاد ہے نا؟
    وہ بھی سب سپہ سالار ہی تھے، ہند کی سرزمین پر ہزار سال تک جن کے گھوڑے دوڑتے اور ایسے تھپڑ رسید کرتے رہے. بھول گئے کیا؟

    14141534_10209859179983990_8190880464503623116_n دیکھو!
    سپہ سالاروں اور لیڈروں کے سا تھ تو سب ہی رعایت برتتے ہیں، کیوں؟ کیوں کہ وہ قوم اور قومی وقار کے نمائندے ہوتے ہیں۔
    لیکن اگر تم اس سطح تک اترو گے تو پھر یاد رکھو، مودی کے منہ پر وہ اصل تھپڑ پڑے گا جس سے جلد کے اندر کا خون چہرے سے رسنے لگے گا، جیسا کہ ایک ہزار سال تک رستا رہا ہے، اس کے لیے بھی تیار رہو!
    رہا کشمیر تو مکار برہمن تم ان کی روحوں کو ہم سے جدا نہ کر پائو گے، ان کے دل ہمارے ساتھ دھڑکیں گے، ان کی ہوائیں ہماری طرف چلیں گی، ان کے دریا اسی طرف بہیں گے.
    بے شک لب پر ڈالو تالے طوق و سلاسل پہنائو
    فکر کو کیسے قید کرو گے تم اپنی زنجیروں میں
    اور ہاں ہمارے اختلاف، ہمارے اندرونی معاملے ہیں اور گھر میں جو بھی ہو، اس سے دشمن کو خوش نہیں ہونا چاہیے۔
    پاکستانی قوم تم جیسوں کے مقابلے میں اپنے سپہ سالار اور اپنی فوج کے ساتھ ہے۔
    بہتر ہے کہ اخلاقیات کی کچھ حدیں طے کر لو ورنہ بات نکلی تو بات دور تک جائے گی اور پھر شاید سمیٹی بھی نہ جائے۔

  • سانحہ کوئٹہ؛ لفافہ صحافی کے چبھتے سوالات – امام اعظم کاکڑ

    سانحہ کوئٹہ؛ لفافہ صحافی کے چبھتے سوالات – امام اعظم کاکڑ

    ایک معمولی سا صحافی ہوں. شاید تھوڑا بے ایمان اور تھوڑا جھوٹا۔ آپ لفافہ صحافی بھی بلا سکتے ہیں. کسی بھی شرم سے عاری صحافی کو زیب تو نہیں دیتا کہ وہ یہ سوال کرے کہ کوئٹہ کے سول اسپتال میں دھماکا کیوں ہوا؟ اگر خودکش تھا تو حملہ آور عین اس وقت اندر کیسے آیا جب ایک وکیل رہنما کی لاش لانے والے وکلا کوگیٹ سے باہر ہی سیکورٹی رسک کی وجہ سے روکا گیا؟ اسپتال کی حفاظت پر مامور سیکورٹی کہاں تھی؟ جب وکیل رہنما کی لاش لائی جا رہی تھی تو ظاہر ہے اسپتال کے شعبہ حادثات میں کم از کم ایمرجنسی تو ہونی چاہیے تھی؟ پھر میڈیا کے ذریعے سنا کہ بم تو پلانٹڈ تھا پھر سوال ذہن میں آیا کہ جب بم پہلے سے رکھا گیاتھا تو پھٹنے تک کسی کو کانوں کان خبر کیسے نہیں ہوئی؟ حد تو یہ کہ قریبی سی سی ٹی وی خراب نکلا۔ میں چونکہ کوئٹہ ہی کا رہائشی ہوں تو مجھے معلوم ہے کہ شہر کے اندر جوق در جوق بنی ایف سی کی چوکیوں سے آپ کوئی چاقو تک نہیں گزار سکتے۔ شکل سے شریف لگتے ہوں تو بھی ڈیوٹی پر مامور اہلکار تھوڑی سی تذلیل کر دیتے ہیں۔ 14 اگست کےحوالے سے شہر میں سیکورٹی ہائی الرٹ تھی، دو دن پہلے ہی تو چالیس مشکوک افراد پکڑے گئے تھے. ابھی رمضان کے دو دنوں میں 8 سیکورٹی اہلکار ماے گئے تھے. ان سب واقعات کے باوجود سیکورٹی اتنی ناقص کیوں نکلی؟ ظاہر ہے میں یہ سوال سیکورٹی اداروں سے نہیں کر سکتا۔ اس سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے، اہلکاروں اور افسران کا مورال کم ہو سکتا ہے، ایسے سوالات پوچھنے پر شر پسند بھی قرار دیا جا سکتا ہوں اور ملکی مفاد کے خلاف بولنے کا ٹیگ بھی لگ سکتا ہے چنانچہ ملک کے وسیع تر مفاد میں میرا چپ رہنا اچھا ہے۔

    مجھے یاد آیا کہ بےساکھیوں سے چلنے والی صوبائی حکومت سے پوچھا جائے، مگر وہاں تو وزیراعلیٰ ثنااللہ زہری نے دھماکے کی نوعیت جانے بغیر یہ بیان داغ دیا کہ اس حملے میں را ملوث ہے۔ تو؟؟ چلیں مان لیا کہ را ملوث ہے کہ ان کا بنیادی کام ہی پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینا ہے مگر یہ بتائیے کہ آپ کی حکومت نے را کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے؟ کیا آپ کی حکومت کی ناکامی نہیں کہ ایک غیرملکی ایجنسی آکر آپ کے شہریوں کے چیتھڑے اڑا دیتی ہے مگر سیاست کو نوابی اور سرداری سمجھنے والے سیاست دان شہریوں کی مسخ شدہ لاشوں پر کھڑے ہو کر بےتکی باتیں کرتے ہیں۔

    فلاسفرز اور مدبرین سے سنتے ہیں کہ ہماری عوام عجیب ہے کہ خود فوجیوں کو حکومت پر قبضہ کرنے کی دعوت دیتی ہے. شہری فوجیوں کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت کیوں نہ
    دیں جب عید پہ ملک میں کوئی سیاسی رہنما نہیں ہوتا تو آپ کا فوجی سربراہ کبھی ملکی مہاجرین کے ساتھ عید کرتا ہے تو کبھی فوجی اہلکاروں کے ساتھ۔ کوئٹہ دھماکے کے بعد بھی سب سے پہلے پہنچنے والے یہی آرمی چیف ہی تو تھے۔ وزیراعظم تو شاید اس وقت سری پائے کی دعوت اڑانے میں مصروف تھے۔ دھماکے میں ایسے کئی لوگ شہید ہوئے جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا تھا، سوچا کہ زندگی چھینے جانےکے بعد کم از کم ہمارے غم خوار عوامی رہنما تو دل شکستہ شہریوں کے درمیان آئیں گے اور دلاسہ دیں گے مگر میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا کہ طیب اردوان بننے کا خواب دیکھنے والا عمران خان دھماکے کے ایک گھنٹے بعد تک مریم نواز کے خلاف ٹویٹ کرنے میں لگا رہا، جبکہ ترکی کا اردوان زندگی کو خطرہ ہونے کے باوجود استنبول آتا ہے اور شہیدوں کے جنازوں کو کندھا دیتا ہے۔ سوچا کہ پشتونوں کے حقوق کے ٹھیکیدار اور لر اور بر جیسےکرنے والے محمود خان اچکزئی تو متاثرہ شہریوں کے پاس ضرور آئیں گے کہ وہی ہمارا مینڈیٹ لے کر اسمبلی کی آرام دہ کرسی پر جلوہ افروز ہے۔ کسی نے بتایا کہ ان کامذمتی بیان آ گیا ہے مگر شہریوں کو بیان کی نہیں اپنے رہنما کی ضرورت تھی۔ مگر پھر مجھ جیسے موٹے دماغ رکھنے والے صحافی کو قوم پرستوں نے سمجھایا کہ لیڈر ہی سب کچھ ہوتا ہے، حقوق کے حصول میں شہریوں کی جان آتی جاتی ہے مگر لیڈر کو زندہ رہنا چاہیے، اسی لیے اسمبلی میں مشر، کشر اچکزئی لمیٹڈ کی جو لائن لگی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ پر آسائش گھروں میں دبکے رہیں۔ مذہبی جماعتوں کا بھی کوئی اچھا تاثر نہیں رہا۔

    سانحہ کوئٹہ کا زخم کچھ دنوں تک بھر جائے گا، پھر دوسرے بڑے حملوں کی طرح اس کی بھی فائل بند ہو جائے گی اور معمول کی زندگی رواں ہو گی. پھر کوئی سانحہ ہوگا، پھر گھسے پٹے مذمتی بیانات، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں تیزی اور شہیدوں کے ورثا کو ذلیل کرنے کے بعد امدادی چیکس۔ جگہ اور کردار بدلتے رہیں گے مگر ڈرامہ جاری رہے گا ۔

  • جس دن دونوں شریف-جاوید چوہدری

    جس دن دونوں شریف-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ماضی کی غلطیاں ٹی بی کے مرض کی طرح ہوتی ہیں، یہ جب قابل علاج ہوتی ہیں تو مریض ان کے وجود سے بے خبر ہوتے ہیں لیکن جب ان کی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو یہ ناقابل علاج ہو چکی ہوتی ہیں اور ہمارا ماضی سیاسی غلطیوں کا بدبودار کچرا گھر ہے، ہم نے 70 برسوں میں تسلسل کے ساتھ صرف ایک کام کیا اور وہ کام ہے غلطیاں چنانچہ آج ہمارے گرد غلطیوں کی فصل لہلہا رہی ہے اور ہم جھاڑیوں میں پھنسی ہدہد کی طرح تڑپ رہے ہیں۔

    ہمیں ماننا ہو گا ہم نے 1960ء میں امریکا کے نکاح میں جا کر غلطی کی، ہمیں نیوٹرل رہنا چاہیے تھا،ہم نے امریکا کا دوست بن کر کمیونسٹ بلاک کو ناراض کر دیا اور ہم سے کمیونسٹوں نے جی بھر کر اس غلطی کا بدلہ لیا، ہمیں ماننا ہو گا ملک میں ایوب خان کا مارشل لاء غلط تھا، فوج کواقتدار میں نہیں آنا چاہیے تھا، سیاست دان خواہ لڑتے رہتے، حکومتیں خواہ گرتی، بنتی اور ٹوٹتی رہتیں لیکن فوج کو لاتعلق رہنا چاہیے تھا، یہ لڑائیاں آخر کار سیٹل ہو جاتیں، سیاست کے گندے انڈے ٹوٹ جاتے یا گھونسلے سے باہر گر جاتے اور یوں نظام پاک ہو جاتا مگر فوج نے مداخلت کر کے تطہیر کی اس قدرتی ندی کو بدبودار جوہڑ بنا دیا اور اس جوہڑ سے آج تک نالائقی، مفاد پرستی، جہالت اور فرقہ واریت کی بوکے علاوہ کچھ نہیں نکلا، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ایوب خان اگر سویلین حکمران بن رہے تھے تو ہمیں انھیں بننے دینا چاہیے تھا۔

    سیاستدان ایوب خان بہرحال فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہزار درجے بہتر ہوتا لیکن ہمارے سیاستدانوں نے عوامی تحریکیں چلا کر اسے دوبارہ فوجی بنا دیا اور وہ جاتے جاتے ملک کو انتقاماً جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر گئے اور جنرل یحییٰ خان نے آدھا ملک شراب کے گلاس میں ڈبو دیا، ہمیں ماننا ہو گا ہم نے حمود الرحمان رپورٹ پر عمل نہ کر کے اپنے ساتھ غداری کی، ہم نے اگر سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمے داروں کو سزا دی ہوتی تو ملک میں 1973ء میں احتساب کا سسٹم بن جاتا اور یہ سسٹم اب تک ملک دشمن عناصر کو فلٹر آؤٹ کر چکا ہوتا، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ذوالفقار علی بھٹو پہلے حکمران تھے جنہوں نے افغانستان اور بلوچستان میں مداخلت کی، بھٹو صاحب نے میجر جنرل نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں افغان ٹریننگ سیل بنایا، اس سیل نے افغانستان کے پروفیسروں کو پاکستان میں عسکری ٹریننگ دی، برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار اسی سیل کی پیداوار ہیں، یہ لوگ آگے چل کر افغانستان میں ’’اسلامی انقلاب،، کی بنیاد بنے اور یوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرت شروع ہو گئی۔

    بھٹو صاحب کو بلوچستان میں فوجی آپریشن بھی نہیں کرنا چاہیے تھا، انھیں صنعتوں، تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور کارپوریشنوں کو قومیانے کی غلطی بھی نہیں کرنی چاہیے تھی، یہ سول ڈکٹیٹر بھی نہ بنتے، یہ الیکشن میں دھاندلی بھی نہ کراتے اور یہ اگر سیاسی مخالفوں کے گرد گھیرا  تنگ نہ کرتے اور یہ لوگ جان بچانے کے لیے فوج کو دعوت نہ دیتے تو آج ملک کی تاریخ مختلف ہوتی، جنرل ضیاء الحق کو بھی مارشل لاء نہیں لگانا چاہیے تھا، یہ بھی سیاستدانوں کو لڑنے دیتے، سیاستدان لڑ لڑ کر تھک جاتے اور یوں نظام صاف ہو جاتا اور اگر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا لیا تھا تو انھیں بھٹو کو پھانسی نہیں دینی چاہیے تھی، انھیں اپنے اقتدار کے لیے اسلام کا لبادہ بھی نہیں اوڑھنا چاہیے تھا، انھیں امریکا اور روس کی جنگ کو جہاد بھی ڈکلیئر نہیں کرنا چاہیے تھا اور انھیں ملک کو افغان جنگ میں بھی نہیں دھکیلنا چاہیے تھا، انھیں اپنے اقتدار کے لیے ملک میں شیعہ سنی اور مہاجر مقامی کی تقسیم بھی پیدانھیں کرنی چاہیے تھی، انھیں امریکا کے لیے ایران میں چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کرنی چاہیے تھی اور انھیں خالصتان موومنٹ کا والد بھی نہیں بننا چاہیے تھا۔

    ہمیں ماننا ہو گا پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی لڑائیاں بھی غلطیاں تھیں، بے نظیر اور نواز شریف کو نہیں لڑنا چاہیے تھا، غلام اسحاق خان کو بار بار اسمبلیاں نہیں توڑنی چاہیے تھیں اور میاں نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کے خلاف صدر فاروق احمد لغاری کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے تھا، میاں نواز شریف کو ہیوی مینڈیٹ بھی ہضم کر لینا چاہیے تھا، میں میاں نواز شریف کو 12 اکتوبر 1999ء کا ذمے دار سمجھتا ہوں، یہ اگر فوج کے ساتھ اختلافات کو حد سے نہ بڑھنے دیتے تو جنرل پرویز مشرف کبھی مارشل لاء نہ لگا پاتے، یہ میاں نواز شریف تھے جن کی غلطیوں نے فوج کو اقتدار کا راستہ دکھایا، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا فوج نے جنرل پرویز مشرف پر اعتماد کر کے غلطی کی تھی، یہ غلطی حالات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔

    جنرل مشرف کو بھی مشرقی معاشرے کو ایک رات میں مغربی بنانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی، یہ پاکستان کو امریکا کی جھولی میں گرانے سے پہلے امریکا کی دوسری کال کا انتظار کر لیتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے، جنرل مشرف نے کرپٹ ترین سیاستدانوں کو پاکستان مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے بھی غلطی کی، جنرل مشرف نے طالبان اور القاعدہ کو چھیڑ کر بھی غلطی کی، یہ اپنا ایک ہاتھ امریکا اور دوسرا ہاتھ گڈ طالبان کو پکڑا کر بھی غلطی کرتے رہے، افتخار محمد چوہدری اور لال مسجد پر حملہ بھی ان کی سنگین غلطیاں تھیں، ہمیں ماننا ہو گا پاکستان تحریک طالبان نے ان غلطیوں کی کوکھ سے جنم لیا تھا اور یہ غلطیاں آج تک بچے دے رہی ہیں، میاں نواز شریف نے 2008ء میں آصف علی زرداری کے ساتھ کولیشن گورنمنٹ بنا کر غلطی کی اور وہ کولیشن چھوڑ کر اس سے بھی بڑی غلطی کی ، ہماری سیاستی جماعتوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے بھی ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا، ہم نے صوبوں کو وہ بھی دے دیا جس کی انھیں ضرورت تھی اور نہ ہی تمنا، ہم نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ دبا کر بھی غلطی کی، ہمیں ایبٹ آباد واقعے کے ذمے داروں کا تعین کرنا چاہیے تھا۔

    میاں نواز شریف نے وزیراعظم بن کر بھی غلطی کی، یہ اگر آصف علی زرداری کی طرح کسی دوسرے کو وزیراعظم بنا دیتے، یہ خود صدر بن جاتے یا پھر پارٹی صدر کی حیثیت سے فیصلے کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے، انھیں عمران خان کے مطالبے پر چار حلقے بھی کھول دینے چاہیے تھے اور پانامہ لیکس پر کمیشن بھی بنا دینا چاہیے تھا، عمران خان نے بھی دھرنوں کی سیاست کی شکل میں بے شمار غلطیاں کیں، یہ غلطیاں آج ان کے اپنے پیروں کی بیڑیاں بن رہی ہیں اور ملک کے دو صوبوں نے اپنے لیے غلط وزراء اعلیٰ منتخب کیے، یہ بھی غلطیاں تھیں اور یہ ان ہزاروں غلطیوں کا نتیجہ ہے آج ملک ٹی بی کا خوفناک مریض بن چکا ہے۔

    ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ہم نے آج بھی غلطیوں کا سلسلہ بند نہیں کیا، ہمیں ماننا ہو گا فوج اور حکومت کے درمیان غلط فہمیوں کی خوفناک دیوار موجود ہے، فوج میاں نواز شریف کو تشویش سے دیکھ رہی ہے اور میاں نواز شریف کو حکومت کے خلاف تمام سازشوں کی جڑیں بیرکوں میں پیوست نظر آتی ہیں، بھارت اور افغانستان ہمارے ملک میں مداخلت کر رہے ہیں، فوج اس مداخلت سے لڑ رہی ہے لیکن حکومت نریندر مودی اور اشرف غنی سے رابطے میں ہے، ہمیں ماننا ہوگا ہمارے پاس آج بھی گڈ طالبان کے لشکر موجو ہیں، اپوزیشن کو چوہدری نثار اور میاں شہباز شریف اچھے نہیں لگتے اوریہ دونوں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور خورشید شاہ کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے، ہمیں ماننا ہو گا ہم نے 1980ء سے ملک میں ’’نادرا‘‘ کے علاوہ کوئی نیا قومی ادارہ نہیں بنایا، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پولیس سے لے کر عدلیہ تک پورا نظام بیمار ہو چکا ہے۔

    ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ملک پر عسکری اور سیاسی دونوں قسم کی ڈکٹیٹر شپ کے سائے منڈلا رہے ہیں اور ہم نے ملک کو فوجی ڈکٹیٹروں سے بھی بچانا ہے اور سویلین آمروں سے بھی، کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں ڈکٹیٹر ملک کے لیے آخری ہتھوڑا ثابت ہوں گے، ہمیں ماننا ہو گا ہماری سیاسی جماعتیں بھی انتشار کا شکار ہیں اور عوام بھی، ہمیں ماننا ہوگا ہم بری طرح سیاسی، سفارتی، معاشرتی اور مذہبی کنفیوژن کا شکار ہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہم اس وقت تک حالات کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے جب تک ہم سب ماضی کی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے، قوم سے معافی نہیں مانگتے اور سچے دل سے کام شروع نہیں کرتے، ہمیں ادارے بھی بحال کرنا ہوں گے، بلاامتیاز احتساب کا نظام بھی بنانا ہوگا اور سول اور ملٹری کے درمیان بلند ہوتی دیواریں بھی گرانا ہوں گی اور یہ کام اس وقت صرف دو لوگ کر سکتے ہیں، میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف۔

    میں دل سے سمجھتا ہوں جس دن یہ دو شریف اکٹھے بیٹھ گئے اور جس دن ان کے درمیان موجود شک کی دیوار گر گئی یہ ملک اس دن راہ راست پر آ جائے گا، اور اگر یہ نہ ہوا تو پھر ہم کو ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے، ہمیں یہ مان لینا چاہیے، ہمیں شاید اب قبر بھی نصیب نہ ہو۔

  • ممکنہ دھرنا اور وزیراعظم کے پیغامات – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ممکنہ دھرنا اور وزیراعظم کے پیغامات – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش قرائن اشارہ کر رہے ہیں کہ حکومت نے دھرنے کی جوابی کاروائی کی تیاری شروع کر دی ہے اور اس ضمن میں پچھلے 24 گھنٹے باقاعدہ سٹارٹ اپ کہے جاسکتے ہیں۔

    کل کے دن میں وزیر اعظم نے تین اہم پیغامات دیے :
    1۔ چیف آف آرمی سٹاف سے ون آن ون اور پھر شہبازشریف صاحب اور چوہدری نثار کی موجودگی میں ملاقات سے یہ تاثر دیا گیا کہ وزیراعظم کا براہ راست اور اپنے ایلچیوں کے ذریعہ فوج (جنرل راحیل شریف) سے رابطہ متواتر اور مستحکم ہے۔ جنرل صاحب کی ’’خفگی‘‘ کی خبریں دینے والےسوچ سمجھ لیں۔
    2۔ دو سال بعد اچانک پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جانا بھی اسی سلسلہ کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وزیراعظم صاحب کی اندرون پارٹی حمایت پوری طرح برقرار ہے اور مستحکم ہے۔ وزیر اعظم کے جارحانہ خطاب کے ساتھ ساتھ خوشامد اور سرفروشی کے روایتی مظاہروں نے اس بات کو مزید واضح کرنے میں مدد دی۔
    3۔ پارلیمانی پارٹی سے اپنے خطاب میں میاں صاحب نے فرمایا کہ چین سی پیک کے معاملہ میں ان کے برسر اقتدار آنے کا منتظر تھا۔

    یہ ہے وہ چھکا جو میاں صاحب نے اپنی دانست میں اپوزیشن کے اس دعوی پر لگایا ہے کہ وزیر اعظم کرپٹ ہیں اور پانامہ لیکس اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ وزیر اعظم کے مطابق چین جیسا ملک ان کو پاکستان کی پوری سیاسی قیادت میں سب سے زیادہ قابل اعتبار اور Honest سمجھتا ہے اور محض ان پر تکیہ کرتے ہوئے 46 ارب ڈالر کا ایک اسٹریٹیجک منصوبہ ترتیب دیتا ہے اور یہاں کی اپوزیشن ہے کہ ان کو خائن قرار دینے کے چکر میں ہے۔ یہاں انہوں نے سب کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’’ہلے‘‘ تو کافی کچھ ہل جائے گا۔ پھر نہ کہنا۔ شہباز شریف صاحب نے بھی ایک بیان میں فرمایا کہ سی پیک کا ڈی ریل ہو جانا (نواز حکومت کا غیر فطری اختتام) سن 71 جیسا سانحہ ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ تو قوم کی خدمت کے لیے اس منصب پر ہیں، اقتدار کے لیے نہیں، اور انہیں اقتدار کی کوئی پرواہ نہیں۔
    یعنی وہ بھی اس کھیل کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور کسی بھی طرح پریشر میں نہیں اور نہ ہی آئندہ چل کر اس کی کوئی امید رکھی جائے۔ البتہ عوام یہ جان لیں کہ وہ یہ سب صرف عوام کی محبت میں کر رہے ہوں گے جبکہ حزب مخالف محض اقتدار کے لیے دھماچوکڑی مچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
    وزیر اعظم نے فوج کے ساتھ بظاہر غیرمعاندانہ تعلقات، پارلیمنٹ میں بھاری سیاسی حمایت، سی پیک اور اس سے منسلک معاشی امکانات کو اپنے مخالفین کے خلاف دفاعی لائن بنایا ہے۔
    اپوزیشن کے پاس کیا ممکنہ کارڈز ہیں ۔۔۔۔ یہ کل اور پرسوں ، 6 اور 7 اگست کو کافی حد تک سامنے آجائے گا ۔

  • پاکستان میں آئزن ہاور جانے کی باتیں اور آنے کی دعوت – کامران ریاض اختر

    پاکستان میں آئزن ہاور جانے کی باتیں اور آنے کی دعوت – کامران ریاض اختر

    کامران ریاض اختر آج کل جانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ سڑکوں پر بینر لگا کر جانے والے کو آنے کی دعوت بھی دے رہے ہیں. ویسے دیکھا جائے تو ساٹھ سال کی عمر کچھ ایسی زیادہ بھی نہیں کہ توقع کی جائے کہ ایک بہت مصروف زندگی گزارنے والا انسان یکایک اپنے آپ کو محض گالف کھیلنے اور دوستوں سے گپ شپ لگانے تک محدود کر دے. یہ تو وہ عمر ہے جب عمومی طور پر مزاج میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے، سوچ زیادہ منطقی ہوجاتی ہے، اپنے تجربات سے سیکھنے اور متوازن طرز فکر اپنا کر چیزوں کو درست پیرائے میں جانچنے کی اہلیت بڑھ جاتی ہے. قدیم اردو کے ”سٹھیا“ جانے والے محاورے اس جدید دور میں بے محل ہو گئے ہیں بلکہ آجکل کے زمانے کے لیے تو یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ سکسٹی از دی نیو فورٹی.

    تو جب آپ عمر کے ایسے نتیجہ خیز دور میں داخل ہوں، بہت کچھ کر چکے ہوں مگر بہت کچھ کرنے کو باقی بھی ہو، حوصلے بھی جوان ہوں اور ہمت بڑھانے والی صدائیں بھی بلند ہو رہی ہوں تو ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھ جانا اور بس زندگی کے دن پورے کرنا، نہ صرف اپنے آپ بلکہ ملک و قوم کے ساتھ بھی ناانصافی لگتی ہے. ساتھ ہی ساتھ جب دھیمے سروں میں یہ راگ بھی الاپا جا رہا ہو کہ ملک کی کشتی منجدھار میں ہے، آپ چلے گئے تو سب کچھ ڈوب جائے گا تو یہ احساس زیادہ شدید ہوجاتا ہے کہ ملک کی خدمت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے.

    یہاں آئزن ہاور کی مثال ذہن میں آتی ہے. جنرل ڈوائیٹ آئزن ہاور دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں امریکی افواج اور پھر تمام اتحادی افواج کا کمانڈر بنا. آئزن ہاور ہی کی سربراہی میں اتحادی افواج نے نازی جرمنی کے خلاف فیصلہ کن لڑائیاں لڑیں. نارمنڈی پر یلغار، فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اور اٹلی سے نازیوں کی پسپائی اور پھر جرمنی پر فیصلہ کن حملہ اور فتح، یہ سب آئزن ہاور کی قیادت میں ہی ہوا. آئزن ہاور اپنی جنگی فتوحات کی بنا پر امریکی عوام میں بہت مقبول تھا. دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر آئزن ہاور نے امریکی فوج کے چیف آف سٹاف کا عہدہ سنبھالا اور اس منصب پر 1948ء تک فائز رہا. آئزن ہاور کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، ریپبلکن اور ڈیموکریٹ، کی طرف سے اسے صدارتی انتخاب لڑنے کی پیشکش کی گئی (امریکہ میں سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک سیاسی عہدے کا امیدوار نہ بن سکنے کی شرط نہیں ہے)، لیکن آئزن ہاور نے ان پیشکشوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ ایک پیشہ ور فوجی ہے جسے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں. سیاست میں حصہ نہ لینے کے باوجود آئزن ہاور ریٹائرڈ ہو کر گھر بیٹھنے کے بجائے ایک فعال زندگی گزارنا چاہتا تھا چنانچہ فوج کے چیف آف سٹاف کے عہدے سے سبک دوشی کے بعد آئزن ہاور نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کا صدر بننے کی پیشکش قبول کر لی. یہ منصب قبول کرتے ہوئے آئزن ہاورنے ”تعلیم کے ذریعہ امریکی جمہوریت کے فروغ“ کو اپنا نصب العین قرار دیا. اسی دوران آئزن ہاور نے نیٹو کے کمانڈرانچیف کے فرائض بھی انجام دیے.

    یہ ایک ایسا وقت تھا جب جنگ عظیم کے بعد امریکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی ساکھ گرتی جا رہی تھی. ذرائع ابلاغ سرکاری محکموں میں بدعنوانیوں کی داستانیں سنا رہے تھے اور انتخابی دھاندلیوں کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے تھے. کوریا کی جنگ طول پکڑتی جا رہی تھی اور صدر ٹرومین کی مقبولیت 22 فیصد کی کمترین سطح تک جا پہنچی تھی. اس سب کے باوجود تبدیلی کا ذریعہ عوامی ووٹ کو ہی سمجھا جاتا تھا. اگلے صدارتی انتخابات کے لیے دونوں بڑی جماعتوں کو ایک مقبول امیدوار کی تلاش تھی اور اس وقت آئزن ہاور سے زیادہ مقبول شخصیت کسی کی نہیں تھی. صدر ٹرومین نے آئزن ہاور کو ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے آئندہ صدارتی امیدوار بننے کی پیشکش کی جسے آئزن ہاور نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کا فی الحال سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں اور ویسے بھی اس کے نظریات ڈیموکریٹ پارٹی سے مطابقت نہیں رکھتے. اسی دوران اخباری قیاس آرائیوں کے جواب میں آئزن ہاور نے سیاست سے دور رہنے کے اپنے فیصلے کا اعادہ کیا مگر ریپبلکن پارٹی کے چند زعما نے کھل کر آئزن ہاور کو اپنا آئندہ صدارتی امیدوار بنانے کی خواہش کا اظہار کیا. وہ دو سال تک آئزن ہاور سے ملاقاتیں کرتے رہے اور انتخابات میں حصہ لینے پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن آئزن ہاور کا فیصلہ نہ بدل سکے.

    سن 1952ء کے امریکی انتخابات سے پہلے امریکی ریپبلکن پارٹی سے وابستہ کچھ لوگوں نے ”ڈرافٹ آئزن ہاور“ کے نام سے ایک باقاعدہ مہم شروع کر دی جس کا مقصد آئزن ہاور کو عوامی دباؤ پر صدارتی امیدوار بننے پر آمادہ کرنا تھا. ریپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کے چناؤ کی مہم شروع ہوئی تو آئزن ہاور کا انکار جاری تھا اور صدارتی امیدوار بننے کے لیے پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے خواہشمند امیدواروں کی جاری ہونے والی فہرست میں ان کا نام بھی شامل نہیں تھا، لیکن آئزن ہاور کے حامیوں نے ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ کسی اور امیدوار کے نام کے آگے ٹھپا لگانے کے بجاۓ اپنے ہاتھ سے بیلٹ پیپر پر آئزن ہاور کا نام لکھیں تاکہ اسے صدارتی انتخاب لڑنے پر مجبور کیا جا سکے. تو کرنا یوں ہوا کہ پہلی ہی ریاست نیو ہیمپشائر جہاں ریپبلکن امیدوار کے چناؤ کے لیے ووٹ ڈالے گئے، وہاں کے پچاس فیصد سے زائد ووٹروں نے آئزن ہاور کا نام لکھا اور جس امیدوار کو سب سے مضبوط سمجھا جاتا تھا وہ صرف اڑتیس فیصد ووٹ لے سکا. اسی طرح کے نتائج دوسری ریاستوں سے بھی آنا شروع ہوگئے. عوام کی محبت کی اس شدت نے آئزن ہاور کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا. نہ صرف اس نے ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننا قبول کر لیا بلکہ صدارتی انتخاب میں بھی فاتح حاصل کی. اس کے بعد آئزن ہاور آٹھ سال تک امریکی صدر رہا اور امریکہ کو ایک مستحکم عالمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا. آج بھی آئزن ہاور کا شمار امریکی تاریخ کے بہترین صدور میں کیا جاتا ہے

    اب آئیے ذرا واپس پاکستان کی طرف – پاکستان کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ جس نے بھی آئین اور قانون کو پامال کر کے اقتدار پر قبضہ کیا، خود بھی رسوا ہوا اور ملک کو بھی بدحال کیا. یقیناً اب ایسا کوئی امکان نہیں اور کوئی بھی صحیح الدماغ اور محب وطن شخص ایسی حماقت کا ارتکاب نہیں کرے گا، لیکن اگر عوامی خواہش موجود ہو تو آئزن ہاور والے راستے کے بارے میں کیوں نہ سوچا جائے جو ایک جائز، قانونی اور باعزت راستہ بھی ہے اور ملک کی بہتری کے لیے اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا بہتر طریقہ بھی. اگرچہ یہ فرق ضرور ہے کہ امریکہ میں صدارتی نظام ہے جبکہ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے، لیکن ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں سے زیادہ سیاسی قیادت مضبوط ہے. لوگ نواز شریف، بھٹو یا عمران خان کے نام پر ووٹ دیتے ہیں اور ہر حلقے کے بااثر افراد ٹکٹ لینے کے لیے اپنے پسندیدہ لیڈر کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں. چنانچہ جس شخص کی عوامی مقبولیت آئزن ہاور جیسی ہو، وہ اپنی سیاسی جماعت بنا لے یا کسی موجودہ جماعت میں شامل ہونا اور اس کی قیادت کرنا چاہے تو اس کا راستہ روکنا بہت ہی مشکل ہوگا.

    ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ کسی یونیورسٹی کی ریکٹر شپ یا پینتیس ملکی اتحاد میں خدمات انجام دی جا سکتی ہیں. اسی دوران قانونی مدت بھی پوری ہو جائے گی اور 2018ء کے انتخابات بھی ہو چکے ہوں گے. جیسا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے، مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں سے کوئی ایک ان انتخابات میں فاتح اور ایک شکست خوردہ ہوگی. شکست خوردہ جماعت میں یقیناً قیادت کا بحران موجود ہوگا. ویسے بھی دونوں جماعتوں کی موجودہ قیادت آج بھی سرکاری ریٹائرمنٹ کی حد سے زیادہ ہی عمر رسیدہ ہے. مسلم لیگ نے شکست کھائی تو نواز شریف صاحب کی صحت کے مسائل اور جانشینی کے جھگڑوں کی وجہ سے جماعت میں پھوٹ پڑ چکی ہوگی اور اسے ایک مقبول قیادت کی تلاش ہوگی. اگر تحریک انصاف کو شکست ہوئی تو چوتھا الیکشن ہارنے کے بعد عمران خان صاحب کے لیے قائد کے عہدے پر موجود رہنا اخلاقی طور پر بہت مشکل ہوگا اور متبادل قیادت کے لیے جگہ خالی ہوگی. دوسری صورت میں اگر ایک یکسر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ بھی کیا جائے تو یقیناً عوام کے اس طبقے کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے جو موجودہ تمام قائدین سے نالاں ہے. ماضی میں اسلم بیگ صاحب نے ایسی کوشش ایک مختلف درجے کی شخصی مقبولیت رکھتے ہوئے ایک مختلف وقت میں کی تھی اس لیے ناکام ہوئی. آج حالات اس سے بالکل مختلف ہیں.

    لہٰذا اگر اہلیت بھی ہو، ملک کے لیے کچھ بہتر کرنے کی صلاحیت بھی ہو اور حقیقتاً عوامی حمایت بھی حاصل ہو تو منطقی طرز عمل یہی ہوگا کہ نہ تو ”آجائو“ کے راگ الاپنے والے خوشامدیوں کی بات پر کان دھرا جائے اور نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد بس گھر ہی بیٹھ جایا جائے بلکہ کسی بھی حیثیت میں ملک و قوم کی خدمت جاری رکھی جائے اور مستقبل میں ”واپسی“ کے راستے مکمل بند نہ کیے جائیں. جو لوگ ریٹائرمنٹ پر آہیں بھر رہے ہیں یا شادیانے بجا رہے ہیں، ذرا مزید انتظار فرما لیں کیونکہ ریٹائرمنٹ کہانی کا اختتام نہیں. کیا خبر کہ ایک روز پاکستان میں بھی آئزن ہاور کی تاریخ دہرائی جائے.

  • پانچ سال والا یا تین سال والا، صحیح راستہ کیا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    پانچ سال والا یا تین سال والا، صحیح راستہ کیا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    1096_96255163ان دنوں پاکستاں میں معاملات بظاہر معمول کے مطابق دکھائی دینے کے باوجود سینہ گزٹ کی خبروں ، پیشگوئیوں اور کسی بڑے ارتعاش کے دعووں سے لبا لب ہیں۔ کوئی آرہا ہے کوئی جا رہا ہے ، کوئی بیان جاری فرما رہا ہے اور کوئی بالکل خاموش ۔۔۔۔ اس سب گہما گہمی کے پیچھے دو ممکنہ مقاصد نظر آتے ہیں۔ :

    1۔ پانچ سال والے کو تین سال پر ہی سمیٹ دینا
    اور
    2۔ تین سال والے کو چار یا چھ سال تک لے جانا۔

    پاکستانی سیاست کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میری یہ رائے ہے کہ اگر یہ دونوں کام ہو بھی جائیں تو ان کا فائدہ اتنا نہیں کہ اس کے لیے ملک کو بے یقینی اور انتشار کی دلدل سے دو چار کیا جائے، وہ بھی ان حالات میں۔ اگر قرآن سے مثال مستعار لیں، تو ان کا نقصان ان کے فائدے سے بڑا ہے۔

    کیسے ۔۔۔۔

    اگر پانچ سال والے کو رخصت کر بھی دیا جائے تو موجود “مال” میں سے ہی کوئی آگے آئے گا یا لایا جائے گا۔ یہ سب کہیں نا کہیں حکومت میں ہیں اور “دیکھے بھالے” ہیں۔ کسی کی پرفارمنس بھی ایسی نہیں کہ “آؤٹ آف ٹرن پروموشن” کا حقدار ٹھیرایا جا سکے۔ گمان ہے کہ بمشکل 19/20 کے فرق کے ساتھ ویسا ہی سب رہے گا۔ واحد بڑی تبدیلی صرف شخصیت کے نام کی ہوگی لیکن اس کی خاطر ملک کا آئین اور اس پر عمل کا تسلسل ، دونوں ہی داؤ پر لگ جائیں گے۔ اتنے سے فرق کے لیے یہ بہت بھاری قیمت ہوگی۔
    دوسری جانب ، تین سال والے کو چار یا چھ سال کا اس لیے کچھ خاص فائدہ ہونے کا امکان کم ہے کہ جس ادارے سے ان کا تعلق ہے اس میں سیلیکشن، ٹریننگ اور پروموشن کے ایسے کڑے معیار قائم ہیں ہیں کہ امید یہی کی جاتی ہے کہ ان کی جگہ لینے والے 19/20 کے فرق کے ساتھ لگ بھگ ویسے ہی ہوں گے اور واحد بڑی تبدیلی جو محسوس ہو وہ شاید شخصیت کے نام ہی کی ہو۔ اتنے فرق کے لیے ایک ڈسپلنڈ ادارے کے ڈسپلن کا امتحان لینا یا اس میں کسی درجہ کی بھی بد دلی کا موجب اقدام مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

    دست بستہ گزارش ۔۔۔۔

    1۔ پانچ سال والے سے :

    اگر آپ شیر ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ شیر کی جس خاصیت کی وجہ سے اشرف المخلوقات خوشی خوشی ایک حیوان بن جانے پر راضی ہو جاتے ہیں وہ اس کا کچھار میں چھپ کر بیٹھ رہنا نہیں ہوتا۔ یہ وقت لیڈر بننے کا ہے، محض منصب دار رہنے کا نہیں۔ اسلام آباد پہنچیں اور ملک کی کمان سنبھالیں۔
    دوم یہ کہ صرف سیاستدان بنے رہنے سے بھی گزارہ نہیں ہوگا۔ یہ وقت ایک مدبر، ایک اسٹیٹس مین بننے کا ہے۔ آپ کو ملکی معاملات دستور کی روشنی میں اور دستوری اداروں کے ساتھ مل کر چلانے ہیں۔ یہ نہیں کہ آپ اپنے ہی اداروں کو “سیدھا” کرنے کی فکر میں رہیں۔ ہر ٹیم کا شعیب اختر منہ زور بھی ہوتا ہے لیکن اچھا کپتان اس کے ساتھ چلتا ہے ، اسے اپنے ساتھ چلاتا ہے اور اسے ٹیم کے بہترین مفاد کے لیے بروئے کار بھی لاتا ہے۔ یہ حکمت، صبر اور وسعت قلبی کا میدان ہے۔ ماضی کی تلخی بھلائیں گے نہیں تو وہ آج بھی کڑواہٹ کا باعث ہی ہو گی۔ پاکستان کے Core Interests کو سمجھیے اور یہ بھی کہ ان کے سلسلہ میں متعلقہ بیوروکریسی اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی تجاویز کلیدی کردار رکھتی ہیں کیونکہ وہ ریاست کی نمائندگی کرتی ہیں۔ آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے نظر آنے کے بجائے پاکستان کے حریفوں سے تعلقات بنانے کی فکر میں غلطاں نظر آئیں۔ ہو سکتا ہے یہ محض ایک تاثر ہو ۔ لیکن میڈیا کی اس دنیا میں تاثر حقیقت سے بھی زیادہ مضمرات کا حامل رہتا ہے۔
    سوم ، دنیا میں اور ہمارے پڑوس میں بہت اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی رفتار غیرمعمولی ہے۔ حکومت اور اس کے معاون اداروں کو تبدیلیوں کی رفتار سے زیادہ سرعت سے ان کے عواقب کا اندازہ لگانا ہو گا ۔ اسی طرح ہم اپنے رد عمل کو متعلق رکھ سکیں گے۔ اس کے لیے میکانزم بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ ملک کے مستقبل کا قریباً مکمل انحصار اسی پر ہے۔
    کچھار سے نکلیے اور سب سے پہلے خود کو “سیدھا” کیجیے۔

    2۔ تین سال والے سے ۔۔۔۔

    کسی سے پوچھا کہ کسی کی عظمت کا فیصلہ اس کے منظر عام سے ہٹنے سے پہلے کیوں صادر نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ۔۔۔۔ اس لیے کہ انسان ہے ، جاتے جاتے کچھ ایسا ویسا نہ کر جائے۔

    دو راستے سامنے ہیں ایک جنرل مک آرتھر اور منٹگمری والا اور دوسرا ایک سابق چیف جسٹس صاحب کا، جنہیں ایک طویل عرصہ کام کرنے کا موقع ملا لیکن ایک ادنی سی ذاتی آزمائش کے سامنے ڈھیر ہو گئے ۔۔۔ ذاتی اور ادارے کی نیک نامی کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا۔فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے