Tag: راحیل شریف

  • میاں نوازشریف کا خوابِ پریشاں – ابو الحسن

    میاں نوازشریف کا خوابِ پریشاں – ابو الحسن

    ابو الحسن وسیع و عریض عالیشان کمرے کی چھت سے لٹکتا فانوس چاروں طرف روشنیاں بکھیر رہا ہے۔ ٹھنڈک اور خوشبو کے امتزاج نے آرام دہ کمرے کے ماحول کو مزید دلکش بنا رکھا ہے۔ قیمتی نرم صوفے پر براجمان وزیراعظم کے ماتھے پر مگر پسینے کی نمی نظر آتی ہے اور چہرے پر تفکر کی لکیریں گہری ہو رہی ہیں۔ اچانک دروازہ کھلتا ہے اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن چہرے پر مخصوص مسکراہٹ سجائے اندر داخل ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی وزیر اعظم جیسے کھل اٹھتے ہیں۔ نہایت گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ ہوتا ہے، پھر معانقے کی ناکام کوشش کے بعد دونوں حضرات ایک دوسرے کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بیٹھتے ہی مولانا کے چہرے پر کھنچاؤ کے آثار پیدا ہوتے ہیں اور بیٹھے ہی بیٹھے ان کا دایاں پہلو صوفے سے تھوڑا سا اوپر کی جانب اٹھ جاتا ہے۔ مولانا اپنا ہاتھ جائے نشست تک لے جا کر واپس لاتے ہیں، جس میں ایک چھوٹا سا دھاتی شیر نظر آ رہا ہے۔ شاید عابد شیر علی کھیلتے کھیلتے اسے یہیں صوفے پر چھوڑ گیا ہے۔ میاں صاحب کھسیانے ہو جاتے ہیں مگر مولانا ہنس کر ٹال گئے ہیں۔

    حوصلہ پا کر میاں صاحب اپنا منہ مولانا کے کان کے قریب لے جاتے ہیں اور سرگوشیانہ انداز میں گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں حکومت، فوج، سازش، مارشل لا جیسے الفاظ کی بھرمار ہے۔ مولانا کی آنکھوں میں سرخ ڈورے دوڑنے لگتے ہیں، سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتی ہے۔ اس سے قبل کہ جواب میں کچھ کہیں، ایک دھماکے سے دروازہ کھلتا ہے اور اس مرتبہ فوجی وردی میں ملبوس جنرل راحیل شریف اندر داخل ہوتے ہیں۔ دائیں ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو بائیں پر ہلکے ہلکے مارتے ہوئے باوقار انداز میں قدم اٹھاتے وہ انھی دونوں کی جانب بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ میاں صاحب کی تو جیسے جان نکل جاتی ہے، مگر مولانا دونوں مٹھیاں بھینچتے ہوئے ایک دم سے تن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سر پر لپٹا زرد رومال کھینچ کر اتارتے ہیں اور جھٹکے سے پرے پھینک دیتے ہیں اور دونوں آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر میاں صاحب کی جان میں کچھ جان آتی ہے۔ مگر یہ کیا؟؟ مولانا اچانک منہ کے بل زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور ”پُش اَپس“ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ میاں صاحب اس خوفناک منظر کی تاب نہیں لا پاتے اور ایک زوردار چیخ ان کے حلق سے برآمد ہوتی ہے۔ اور اسی چیخ کی آواز سے ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

  • آ بیل مجھے مار – ڈاکٹر غیث المعرفۃ

    آ بیل مجھے مار – ڈاکٹر غیث المعرفۃ

    یوں تو مسلمان ممالک میں کم فہم اور کم عقل قیادتیں کثرت میں پائی جاتی ہیں، حالات کی نبض سے بیگانہ، منصوبہ سازی سے عاری اور دوررس فیصلہ کرنے سے نا آشنا۔لیکن خوش قسمتی سے ہمیں اس قبیل کی ترقی یاب نسل سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ہے، کچھ لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کی کتابوں سے سبق حاصل کرتے ہیں، کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہمعصر امتحانات سے عبرت پکڑتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہی تجربات سے سیکھتے اور سمجھتے ہیں، لیکن یہاں تو معاملہ اس سے بھی چار قدم آگے کا ہے ہمارا واسطہ ان لوگوں سے پڑا ہے جن کو سمجھانے اور کچھ سکھانے کو ان کی اپنی آزمائشیں بھی ناکافی ثابت ہوئی ہیں، معلوم نہیں اس انتہاء کو کیا نام دیتے ہیں ہمیشہ کی طرح بلکہ اب تو حسب عادت اور حسب معمول کہا جانا چاہیے کہ آ بیل مجھے مار

    فوج کے سیاسی کردار بارے کوئی بحث نہیں کیونکہ طاقت کی میزان میں اس کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا ہے اس کے پیچھے بہت سی حقیقی وجوہات موجود رہی ہیں ایک طاقت ور کثیر فوج ہماری ضرورت ہی نہیں مجبوری بھی رہی ہے اور اس کی تشکیل میں قومی تائید اور حوصلے کی اپنی اہمیت ہوا کرتی ہے جسے حاصل کرنے لیے فوج نے روایتی حدوں سے بڑھ کر کام کیا ہے نتیجتاً عوام کا فوج سے تعلق ایک جانثار ادارے کے احترام سے بڑھ کر رومانس کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس کا اظہار اس طرح سے بھی ہوتا ہے کہ ان کی آمد کے لیے بے تاب رہنے والوں کی، ہمیشہ ایک معقول تعداد ہمارے سماج کا حصہ رہی ہے موجود فوجی قیادت نے کئی مواقع کی موجودگی کے باوجود سویلین اداروں کو کام کرنے کی آزادی دی ہے اور ایسی آوازوں پر کان نہیں دھرا جو انہیں اپنی طاقت کے استعمال پر اکساتے رہے ہیں اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں تھا کہ طاقت کے ترازو میں وہ کمزور ہو چکی ہے، دہشتگردی کے خلاف جامع آپریشن اور کامیابیوں نے اسے نہ صرف علاقائی بلکہ خطے میں مزید طاقتور اور مقبول بنا دیا ہے سویلین اداروں کو کام کرنے کا موقع دینا شاید اس وجہ سے ہے کہ فوج کے اندر پیشہ وارانہ ادراک مضبوط ہو رہا ہے، اس نے سیکیورٹی معاملات کو سنجیدگی اور یکسوئی سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب بجلی آف کر کے مارشل لاء آن کرنا آسان کام تھا، ذرائع ابلاغ کی ترقی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے غیر متوقع نتائج اور ردعمل کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے جسے پھیلنے سے روکنا قدرے مشکل ہو سکتا ہے۔ کم فہم نسل نے اسے فوجی کمزوری سمجھا اور سویلین بالادستی کا اعلان کر دیا سرل المیدا کی اسٹوری سے یہی پیغامِ عام دینے کی کوشش کی گئی اگرچہ یہ معاملہ فوجی زیردستی سے کچھ زیادہ تھا جس پر اگلی سطروں میں بات کرتے ہیں لیکن طاقتور ادارے سے چھیڑ کھانی کی گئی کہ آ بیل مجھے مار

    تجزیہ نگاروں، دانشوروں اور محققین کے لیے مصر، ترکی اور پاکستان کے سول ملٹری تعلقات ایک خاص کشش رکھتے ہیں کیونکہ عدمِ توازن کی وجہ سے تناؤ کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ مصر میں فوج طاقت کے نشے میں دھت ہو کر جمہوری نظام کو سمیٹ چکی ہے، پاکستان میں فوجی بالادستی عیاں ہے البتہ ترکی نے 15 جولائی 2016ء کو ایک نئے ترکی کی بنیاد رکھ دی جس میں فوجی طاقت کو اس کی آیئنی حدوں میں دھکیل دیا گیا ہے، آخر یہ کیسے ممکن ہو گیا؟ یہ محض ایک رات کا قصہ نہیں جسے ایک اخباری اسٹوری میں نقل کرنے کی کوشش کی گئی، سولین بالادستی ثابت کرنے کے لیے ایک اردگان کی ضرورت ہوا کرتی ہے، ایسا اردگان جو حالات کی نبض محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، دور رس منصوبہ بندی اور فیصلے کی ہمت اور استقامت رکھتا ہو- سچ تو یہ ہے کہ ایک بت کی ہیبت ختم کرنے کے لیے دوسرا بت کھڑا پڑتا ہے جو پہلے سے زیادہ پُرشکوہ اور عظیم ہو- پھراصل طاقتوری یہ ہےکہ کسی کو احساسِ کمزوری دلائے بغیر پیدا کر لی جائے ظاہر ہے یہ بونے دماغوں سے ممکن نہیں اس کے لیے پرفارمنس کے فقط دعوے ہی نہیں عملی کاریگری دکھانا پڑتی ہے اور اسے اس سطح تک پیش کرنا پڑتا ہے کہ عوام و خواص کو احساس ہو جائے کہ اردگان موجودہ نظام میں سب سے زیادہ حتیٰ کہ سیکولر فوج سے بھی زیادہ اس قوم سے محبت کرتا ہے اور اس ملک کے لیے اہم ہے ترکی میں فوجی طاقت کو زیر کئے بغیر سویلین بالادستی قائم ہو چکی ہے، یہ عمل 3 نومبر 2002ء سے شروع ہوا اور 14 جولائی 2016ء کی شب ایک ٹیسٹ کیس کے بعد اس کا تعین کر لیا گیا لیکن یہاں فقط ایک لمحاتی جرات میں نہ صرف اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس کا نقارہ بھی بڑے اہتمام سے بجانے کی سعی ہوئی شیر کی کھال میں چھپے کم عقل گیڈروں نے اپنی پرانی روش نہ بدلی آ بیل مجھے مار- اور پھر ہوا وہی جو تہی دامنوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، وزیراعظم ہاؤس کو ایک نہیں دو بار تردید جاری کرنا پڑی، اندرون خانہ معافیوں اور تلافیوں کی باتیں اب یہاں تک آ پہنچی ہیں کہ وفاقی وزیر اطلاعات سے استعفیٰ دلوانا پڑا، لیکن ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ قربانی کافی رہے گی یا کوئی اور کفارہ (کفارے) ادا کرنا پڑے گا

    ہمارے جمہوریت پسندی کے جذبات، مسلسل جمہوری نظام کی خواہشیں اور فوجی اداروں کو آئینی حدوں میں رکھنے کی جدوجہد، قابل احترام سہی مگر موجود حالات میں کسی یوٹوپیا سے کم نہیں۔ اسے حاصل کرنے لیے جہاں اس فطری طریقہ کار کے اسباب موجود نہیں جو ترکی میں برتے گئے وہیں پاکستان میں جمہوریت کے وکیل وہ ہیں جو اپنے لفظوں سے موروثیت کی پرورش کرتے ہیں، یہاں جمہوریت کےمحافظ وہ ہیں جنہوں نے اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کی قتل گاہیں بنا رکھی ہیں اور اگر چند جماعتیں جمہوری قدروں کو سہارنے کی کوشش کرتی بھی ہیں تو بہت جلد اپنی ساری محنت کو فوجی قدموں میں ڈھیر کر دیتی ہیں۔یہاں جمہوریت کی بقاء اور سویلین بالادستی سے قبل اس کے تمام تر ضروری لوازمات پورے کرنے کے بجائے آ بیل مجھے مار کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس معاملے کے اثرات فقط یہیں تک نہیں کہ دو اداروں میں تناؤ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے بلکہ اس کا ایک اور بھیانک پہلو بھی ہے

    تحریک آزادی کشمیر اپنی تاریخ کے ایک منفرد موڑ پر پہنچ چکی تھی، اس مسئلہ کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے دیکھا جا رہا تھا، خود بھارت میں کشمیر پر غیر روایتی آوازیں اٹھنا شروع ہوئی تھیں اس کی پہلی وجہ تو یہی تھی کہ بھارتی ظلم و تشدد کو دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، سماجی رابطوں سے وہ پوری دنیا میں پہنچ رہا تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ آزادی کشمیر کی تحریک کو پہلی بار انڈیپنڈنٹ ہوم موومنٹ کے طور پر محسوس کیا گیا، بھارت کے پاس کوئی سنجیدہ شوائد موجود نہیں تھے کہ اس تحریک کی عملی پشت پناہی میں پاکستان کی موجودگی ثابت کر سکتا، اسی لیے فوری طور پر بھارت کو اڑی حملے جیسی کاروائی سجانا پڑی اس کے باوجود پاکستان اس قابل تھا کہ اپنی پوزیشن واضع کر سکتا اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم مودی اقوام متحدہ میں اقوام عالم کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں سرل المیدا کے اسٹوری چھپنے کے بعد کشمیر ٹیمپو صفر پر چلا گیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستانی تشخص کو خطرناک حد تک دھچکا پہنچا، اس سے قبل پاکستان تمام تر بھارتی اور عالمی الزامات کو ٹیکل کرنے کی پوزیشن میں تھا، اس اسٹوری سے ان تمام الزامات پر مہرِ تصدیق ثبت ہو چکی ہے اور مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے

    نان اسٹیٹ ایکٹرز کا دشمنوں کےخلاف استعمال کرنا، ایک کا دہشتگرد، دوسرے کےلیے فریڈم فائٹر ہونا کوئی نئی چیز نہیں، امریکہ خود افغان مجاہدین کو روس کے خلاف استعمال کرتا رہا، اور آج کل کرد دہشتگرد تنظیموں کو داعش اور ترکی کے خلاف مدد فراہم کر رہا ہے، خود بھارت بلوچستان میں بلوچ باغیوں کو فریڈم فائٹر قرار دے کر ہر قسم کی مدد فراہم کرتا ہے ایسے میں پاکستان کا ایک متنازعہ علاقہ میں وہاں کی جنگ آزادی کو ہر طرح سے مدد فراہم کرنا اچنپے کی بات نہیں لیکن بطور جرم حکومتی سطح پر اسے قبول کرنا عالمی سطح پر پاکستان کا پیچھا کرتا رہے گااور پاکستان کے عالمی تعلقات پر منفی اثرات ڈالے گا

  • خلاف معمول آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا اعلان – آصف خان

    خلاف معمول آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا اعلان – آصف خان

    آصف خان آج صبح اُٹھ کر دفتر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ خلافِ معمول آج اس وقت لوڈ شیڈنگ نہیں ہوئی، لائٹ آ رہی تھی، خلافِ معمول دفتر بروقت پہنچا اور کیفے ٹیریا سے ناشتہ آرڈر کیا۔ جب ناشتہ ٹیبل پر آیا تو خلافِ معمول ناشتے میں 2 فرائی انڈوں کے بجائے صرف ایک چائے کا کپ اور 2 عدد سلائس تھے۔ آفس بوائے سے انڈوں کی گمشدگی کے بارے میں دریافت کیا تو بولا حضور آج انڈوں کا عالمی دن ہے۔ تمام انڈے اپنے عالمی دن پر ہونے والے اجلاس پر گئے ہیں۔ جو رپورٹر اجلاس کی کوریج پر گیا ہوا تھا، اُس نے بتایا کہ وہاں اجلاس میں جمہوری طور پر انڈوں نے متفقہ قرارداد منظور کی ہے کہ اب وہ کسی صورت بھی ٹماٹروں کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے۔ اس طرح سے وہ اپنی انفرادی حیثیت کھو رہے ہیں۔ اجلاس میں یہ فیصلہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے بیان ”جمہوریت کے نام پر بادشاہت ہے، عوام اُٹھ کھڑے ہوں“ کے تناظر میں کیا گیا۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی عوام ظالم حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو سب سے پہلی”سرجیکل سٹرائیک“ میں انڈے اور ٹماٹروں کا استعمال ہی ہوتا ہے۔ فیصلہ جمہوری تھا تو سب نے بخوشی خیر مقدم کیا کیونکہ اِس ملک میں وطنِ عزیز کے خلاف تو پروپیگنڈہ ہو سکتا ہے۔ وطن کی سلامتی کا خطرہ تو مول لیا جا سکتا ہے لیکن جمہوریت کو خطرہ کسی بھی صورت برداشت نہیں۔

    خیر چائے کو غنیمت جانتے ہوئےگرم گرم چائے کی چُسکی بھری تو دفتر میں لگی ایل ای ڈیز پر مختلف چینلز پر ایک دم سے بریکنگ نیوز چلنے لگی، چیخ چیخ کر تمام چینلز پر نیوز کاسٹرز بریکنگ نیوز دے رہے تھے۔ اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا حکم دے دیا۔ وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”سب سے پہلے پاکستان“ ماضی میں کچھ لوگوں نے اس نعرے کو استعمال کر کے پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی طرف دھکیلا لیکن ہم نے اس ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کا عزم اُٹھایا ہے جس کے لیے ہم ہر حد تک جائیں گے۔ نیوز اینکر نے اپنے رپورٹر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ جی کیا اَپ ڈیٹس ہیں آپ کے پاس؟ رپورٹر اَپ ڈیٹ کرنے لگا، جی پرائم منسٹر پاکستان نے تسلسل کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم دیا ہے۔ باخبر ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ دو لفٹیننٹ جنرل جو سنیارٹی کی بنیاد پر پروموٹ ہونے تھے، اِن میں سے ایک کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور دوسرے لیفٹیننٹ جنرل کو بھی فور سٹار جنرل پروموٹ کر کے وائس چیف آف آرمی سٹاف بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی دوران نیوز اینکر نے کہا کہ ہمارے ساتھ لائن پر ہیں سینئر تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد مسعود سے، جی ڈاکٹر صاحب کیا کہیں گے، پرائم منسٹر کے اس اقدام کے بارے میں؟ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے گو کہ یہ وزیر اعظم کا خلافِ معمول فیصلہ ہے، انہوں نے بادی النظر میں ملک کے وسیع تر مفاد میں پاک چائنہ کوریڈور اور ضرب عضب کی کامیابی کے لیے یہ فیصلہ کیا، فی الوقت یہ تسلسل ضروری تھا۔ جی ڈاکٹر صاحب آپ لائن پر رہیے گا۔ ہمارا رابطہ ہوا ہے عمران خان صاحب سے، جی عمران خان صاحب کیا کہیں گے آپ پرائم منسٹر کے اِس فیصلے کے بارے میں؟ جی میاں نواز شریف کا یہ اقدام خوش آئند ہے، پانامہ لیکس کا ”پنڈورا باکس“ اپنی جگہ لیکن یہ ملکی مفاد میں ایک اچھا فیصلہ ہے۔ خان صاحب کا یہ بیان دینا تھا کہ فوراً ہی ایل ای ڈی بلینک ہو گئی۔ شاں شاں کی زوردار آواز اور میں ہڑبڑا کراُٹھ بیٹھا، اگلے چند ہی لمحوں میں سارے خلافِ معمول ہونے والے معاملات کی قلعی کھل گئی۔

    کیونکہ کہ ہم ایک معمول کی قوم ہیں، اِتنے سارے خلافِ معمول کام میں ہضم نہیں کر پا رہا تھا۔ ہمارے معمولات کا ڈنکا تو سارے جگ میں بجتا ہے۔ ایسے ہی خلافِ معمول اقدام کی توقع ہم نے عمران خان صاحب سے بھی کی تھی، جب وہ اڈہ پلاٹ کے جلسے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ وہ یہ علان کر دیں کہ ملکی سالمیت اور بقا کے لیے میں رائےونڈ کا جلسہ مؤخر کرتا ہوں، پہلے پوری پی ٹی آئی بارڈر کی طرف مارچ کرے گی اور ہم دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ ہمارے لیے ”سب سے پہلے پاکستان“، تو خلافِ معمول اقدام سے ان کا گراف بہت اُوپر جاتا. خیر جو خلافِ معمول خواب میں نے دیکھا، وہ اس وقت نظریۂ ضرورت اور پوری قوم کی دل کی آواز ہے۔ اس تسلسل کی بہت سی ناگزیر وجوہات ہیں۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا دورہ کیا جس میں مبینہ طور پر افغان حکومت کو پاکستان دشمنوں کی پشت پناہی پر وارننگ دی اور افغانستان میں پاکستان کے انٹیلی جنس آپریشن پر انہیں قائل کیا۔ دہشت گردوں کے لیے آرمی کورٹس کا قیام اور سزا ئے موت کی بحالی پر سیاست دانوں کو مجبور کیا۔ دھرنے سے پہلا ہونے والا سونامی جو جمہوریت کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔ اسے روکنے میں اپنا کردار ادا کیا اور جمہوریت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا۔ را کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کی گرفتاری، بلوچستان میں پاکستان زندہ باد کے نعرے اور بھارت مردہ آباد کی ریلیاں ۔

    جنرل راحیل کی قیادت میں ہی رینجرز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے گرد گھیرا تنگ کیا اور بھارت کے لارنس آف عریبیہ یعنی الطاف حسین کو پوری دنیا میں غدار اور ملک دشمن ثابت کیا جس کی وجہ سے کراچی میں خوف کی فضا ختم ہوگئی، انہی کی کمانڈ میں سیاسی جماعتوں میں ملیٹینٹ ونگز کے صولت مرزا ، عزیر بلوچ اور چھوٹو گینگ کیفر کردار تک پہنچے، چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری شروع کی اور سی پیک منصوبہ شروع ہوا جو نہ صرف چین، پاکستان بلکہ دنیا بھر کے کمرشل کینوس کو وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا، انہوں نے ہی روس کے دورے کر کے پاکستان پر سے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی ہٹوائی اور روس پاکستان کی مشترکہ جنگی مشقیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جس کے مروڑ دشمن ملک بھارت کے پیٹ میں اُٹھ رہے ہیں، شیر کی دھاڑ کی طرح دشمن کو جواب دینے والے جنرل۔ بھارتی میڈیا بھی جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت کے دن گنتا اکثر دکھائی دیتا ہے۔

    کیا اگر میاں صاحب واقعتا آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا اعلان کرتے ہیں تو اس طرح وہ ایک وطن پرست (Patriotic) اور پارسا حکمران بن کر نہیں ابھریں گے۔ خیر ”پارسائی کے بھرم“ قائم رکھنا کوئی آسان کام نہیں، بات صرف اتنی ہے کہ راستے نہیں رہبر بچاتے ہیں، موسیٰ ؑ اپنے ساتھیوں سمیت دریا پار کر گئے جبکہ فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا۔

  • یہ سویلین بالادستی کا ایشو نہیں – محمد عامر خاکوانی

    یہ سویلین بالادستی کا ایشو نہیں – محمد عامر خاکوانی

    چند دن پہلے کسی قاری نے ایک تحریر کا لنک بھیجا جس میں کہا گیا کہ ملک میں سول بالادستی کی جنگ جاری ہے، اس لئے ہم سب جمہوریت پسندوںکو سویلین حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ دراصل قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر انگریزی اخبار میںشائع ہونے والی متنازع خبر کے بعد جو بحث چل شروع ہوئی، یہ تحریر بھی اسی کا حصہ تھی۔ جن صاحب نے وہ لنک بھیجا، ان کا سوال تھا:”سول بالادستی کی اس کشمکش میں آپ اپنی پوزیشن بھی واضح کریں اور جائزہ لیں کہ کہیں آپ غلط کیمپ میں تو موجود نہیں‘‘۔

    سوال دلچسپ ہے، سیدھا سادا جواب تو یہی بنتا ہے کہ صاحبو ہماری حمایت کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔ ایک جمِ غفیر ہے جو جمہوریت کے حق میں نعرے مارتا، تلوارسونت کر دشمن کھوج رہا ہے۔کچھ کے چیک بندھے ہیں تو بعض ماضی کے احسانات کا بدلہ چکانے کے درپے۔ سنا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں ایک خاص قسم کا سیل بھی قائم ہے، جہاں نجانے کتنے لوگ مانیٹرنگ، ڈرافٹنگ، فنڈنگ، فیڈنگ اور معلوم نہیں کس کس کام میں جتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات کہ آخری تجزیے میں کوئی حربہ کام نہیں آتا۔ ہسپانوی ادب میں ڈان کیخوٹے نام کا ایک بہت دلچسپ کردار ہے، اس کا بھی یہی کام تھا کہ تلوار نکالے ہمہ وقت ہوائوں سے جنگ لڑی جا رہی ہے۔ سفر کرتے ایک پن چکی نظر آئی تو اپنا گھوڑا دوڑا کر اس پر پل پڑا کہ یہ شائد کوئی عجیب الخلقت دشمن ہے۔ ہمارے ہاں سویلین بالادستی اور جمہوری اداروں کے بعض بزعم خود حامی بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اس اخبارنویس کو ان سب سے ہمدردی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ کوئی سویلین یا ملٹری بالادستی نہیں بلکہ بیڈ گورننس ہے، عوامی زبان میں بری بلکہ شائد بدترین حکمرانی۔ افسوس تو یہ ہے کہ کوئی سویلین حکمران تھا یا ملٹری ڈکٹیٹر، ہر ایک نے الا ماشااللہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بدترین گورننس کا مظاہرہ کیا ۔ ویسے تو اعداد وشمار کی ایک الگ ہی جنگ ہے۔ کوئی سویلین حکمران کے ادوار کے معاشی، سماجی ترقی کے اشاریے سناتا ہے تو کوئی فوجی حکمرانوں کے دور میں ہونے والی معاشی ترقی اور آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر آ جانے کے دلائل دیتا ہے۔

    ہر ایک کے پاس اپنا نقشہ، اپنے دلائل اور اپنا ہی تخیل ہے، مکمل بات کوئی نہیں کرتا۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں معاشی انڈیکیٹر اچھے رہے تواسی دور میں فرقہ ورانہ تنظیموں کے بھوت نے آنکھ کھولی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا پھیل گیا کہ پھر سنبھالے نہ سنبھلا۔ ایم کیو ایم بھی اسی دور کا تحفہ تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میںمعیشت بہتر رہی، ملک آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر آیا، تاریخ میں پہلی بار غیر ملکی قرضہ کم ہوا، روپیہ مستحکم رہا مگر اسی دورمیں لال مسجد کی مس ہینڈلنگ ہوئی جس کے بعد وہ طوفان اٹھا جس نے ہزاروں جانیں لے لیں۔ بلوچستان میں بلاجوا ز آگ بھڑکائی گئی جو ابھی تک نہیں بجھ پائی۔ سویلین حکومتوں کی کہانیاں تو سب کے سامنے ہیں۔ صرف پچھلے آٹھ برسوں کو دیکھ لیں، ملک پر کس قدر غیر ملکی قرضہ چڑھ گیا، حال یہ ہے کہ دفاعی بجٹ جو چالیس سال سے ہمارے ترقی پسندوں، لبرلزکی تنقیدکا ہدف بن گیا،اس سے دوگنا بلکہ ڈھائی گنا زیادہ بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے۔ نوبت یہاں آپہنچی کہ قرضوںکی قسطیں واپس کرنے کے لئے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
    واپس پہلے سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ کیا یہ واقعی سول بالادستی کی جنگ ہے، جس میں ہم سب کو اپنے حکمرانوں کا ساتھ دینا چاہیے؟ جواب دینے سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ سویلین حکومت آخر کن امور میں بالادستی چاہتی ہے؟

    حکومتوں کے کرنے کے چار پانچ کام سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں ۔پہلا کام اپنے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یعنی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کو صحت، تعلیم کی سہولتیں دینا، صاف پانی کی فراہمی، سستے انصاف کو یقینی بنانا اور مارکیٹ اکانومی کو اس طرح ریگولرائز کرنا کہ عام آدمی کا استحصال نہ ہو ، ضروریات زندگی کی اشیا مناسب داموں میں ملیں اور ان سب کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔ اب ایک منٹ کے لئے ٹھیرکر سوچ لیںکہ سویلین حکومت کو یہ سب کام کرنے کے لئے کس پر بالادستی قائم کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ نے ہماری صوبائی حکومتوں کو مجبور کر رکھا ہے کہ وہ پولیس کے نظام کی اصلاح نہ کریں؟

    کرپٹ پولیس اہلکاروں کو نکالنے، ظالم افسران کے احتساب، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے معاملہ کو سفارش اور سیاسی اثرورسوخ سے پاک کرنے سے کس نے روکا ہے؟کیا پولیس افسران اپنے من پسند تھانوں میں پوسٹنگ کے لئے لاکھوں کی رشوتیں اسٹیبلشمنٹ کو دیتے ہیں؟ اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات لانے سے کس نے روکا ہے؟ عام آدمی کو ہسپتالوں میں ذلیل ہونے سے کس نے بچانا ہے؟ لاہور میں آخری ہسپتال پچیس تیس سال پہلے جناح ہسپتال کی شکل میں بنا تھا۔ اس کے بعد ہسپتال بنانے سے کس نے روکا؟ آج لاہور ایک کروڑ آبادی کا شہرہے، بھائی صاحب کس نے کہا ہے کہ یہاں اور ہسپتال نہ بنائو، سرکاری سکولوں، کالجوں کی حالت بہتر نہ بنائی جائے۔ صاف پانی مہیا نہ کیا جائے۔ ساٹھ ستر ارب روپے سے لاہور کے پندرہ بیس ٹرانسپورٹ روٹس میں سے ایک روٹ پر میٹرو بس چلائی گئی، ڈیڑھ سو ارب سے زائد سے اورنج ٹرین بن رہی ہے، تیس ارب روپے جیل روڈ کو سگنل فری بنانے کی عیاشی پر خرچ ہوئے۔ اس کا چوتھا حصہ بھی اگر درست طریقے سے خرچ کیا جاتا تو شہر کو صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو جاتی۔ جناح جیسے دو ہسپتال بن جاتے، سیوریج ٹھیک ہو جاتا اور لاہوریوںکی تکلیف میں نمایاں کمی ہو جاتی۔کس نے سویلین حکمرانوں کو ایسا کرنے سے روکا؟ کراچی کی حالت تو لاہور سے بھی گئی گزری ہے، اسے دیکھ کر ہی خوف آتا ہے۔

    ہر کوئی جانتا ہے کہ صرف چار پانچ سال پہلے تک دالوں کی قیمتیں کنٹرول میں تھیں، پھر اچانک اس میں کارٹل مافیا آگیا یا کچھ ہوا کہ دال ماش اور مسر، مونگ وغیرہ دوگنی مہنگی ہوگئیں۔ اب تو دال مرغی کے گوشت سے بھی زیادہ مہنگی ہوچکی۔ کسی نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کو کس طرح ٹھیک کرنا ہے، مہنگائی کم کرنے کا کیا فارمولہ بنایا جائے؟ جب شاہی خاندان خود کاروبار شروع کر دے، مرغیوں کی فیڈ سے لے کر دودھ، دہی اور نجانے کس کس شعبے میں گھس جائے تو پھر ناجائز منافع خوری کو کس نے روکنا ہے؟

    اگر صرف اپنی پسند کی خارجہ پالیسی نہ بنانے کا دکھ دامن گیر ہے تو صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی سویلین حکمران نے ملک میں ایک بھی ایسا اچھا تھنک ٹینک بنایا ہے جو خارجہ پالیسی بنانے کے حوالے سے سفارشات دے سکے؟ نیشنل سکیورٹی ایشوز پر سویلین کی معاونت کے لئے کو ن سے تھنک ٹینک یا یونیورسٹیوں کی اکیڈیمیا کی دانش کو بروئے کار لانے کا میکنزم بنایا گیا؟ چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی یو بوٹس کے خالصتاً عسکری ایشو پر انگلش یونیورسٹیوں کی معاونت حاصل کی۔ بھارت سے تعلقات کیسے ہونے چاہییں،اس پر اپنی علمی، ماہرانہ ‘ان پٹ‘ دینے کے لئے کون سے اور کتنے تھنک ٹینک بنائے گئے؟ یا پھر یہی کافی ہے کہ شہنشاہ معظم نے ایک سہانی صبح اٹھ کر سوچا کہ یار بہت ہوگئی، آج سے بھارت ہمارا دوست ہے۔ کیا اس طرح خارجہ پالیسی بنتی ہے؟ اس طرح سویلین بالادستی قائم کی جاتی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے توہمیں یہ عرض کرنے کی اجازت دیں کہ حضور والا! اصل مسئلہ بالادستی نہیں اہلیت اور ناکافی تیاری کا ہے۔ سویلین کی راہ میں اصل رکاوٹ وہ خود اور ان کی بیڈ گورننس ہے۔

  • معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے – محمد عامر خاکوانی

    معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی پچھلے چند دنوں سے آزادی صحافت کے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا میں بحث جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ غلغلہ مچا کہ بیچ میں دس محرم کی چھٹی کی وجہ سے اخبار شائع نہیں ہوا، اور پڑھنے والوں کے پاس فیس بک یا نیوز ویب سائٹس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں بچی تھی۔ مجھے یہ بحث اس لحاظ سے خوش آئند لگی کہ چلو اس بہانے اس پرانی آزادی صحافت والی بحث کے کئی پہلو واضح ہو جائیں گے۔ میرے نزدیک یہ معاملہ آزادی صحافت سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا تھا۔ ویسے صحافت اور اہل صحافت کی بات تو بعد میں آتی ہے، اصل بات یہ تھی کہ کیا نیشنل سکیورٹی کے ایشو پر ایک انتہائی اعلیٰ سطحی اجلاس کی کارروائی لیک ہوئی یا نہیں؟ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری بحث میں یہی نکتہ اٹھایا گیا۔ بہت سے دوستوں نے اس سے اتفاق کیا، بعض کو یہ شکوہ تھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہہ کر سویلین حکومت نے کون سی غلطی کی؟ اس پر انہیں سمجھایا کہ تمام جھگڑے میں اس پر کوئی بحث نہیں کہ کس نے میٹنگ میں کیا کہا اور کیوں کہا، اصل بات یہ ہے کہ اتنے اہم سطح کے اجلاس کے منٹس اگر لیک ہو کر صحافیوں تک پہنچ سکتے ہیں تو پھر ایسی اطلاعات غیر ملکی ایجنسیوں تک پہنچنے سے کون روک سکتا ہے؟ اصل اہمیت اس لیکیج کی ہے، جسے انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اگر وزیر داخلہ نے اس پر سختی سے نوٹس لیا اور اس کی بھرپور تحقیقات کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو ایسا کرتے ہوئے وہ حق بجانب ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے بھی اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لینے اور اصل حقیقت کا کھوج لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے۔ سویلین حکومت پر چارج شیٹ لگانے کی کسی کو ضرورت نہیں؛ تاہم جو واقعہ ہوا، اس پر تحقیقات حکومت ہی نے کرنا ہے، اسی کا یہ کام ہے۔ سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنا البتہ جلد بازی تھی۔ جو صحافی اپنی خبر پر سٹینڈ لے رہا ہے، اسے ملک سے باہر فرار ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اچھا ہوا کہ بعد از خرابی بسیار صحافی کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔

    بہت سا دہ سا نکتہ ہے، جسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ یا تو انگریزی اخبار میں چھپنے والی سیرل المیڈا کی سٹوری غلط ہے یا درست۔ اگر غلط ہے، جیسا کہ حکومت اور ادارے کہہ رہے ہیں تو یہ نہایت سنگین ایشو ہے۔ کسی بھی اخبار یا چینل میں ایسی حساس نوعیت کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔ صحافت کی وادی پُرخار میں دو عشروں سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد اس کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ جہاں کچھ خبریں میڈیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں بہت سی خبریں میڈیا پر چھپوانے یا چلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ صحافی ہو یا میڈیا ہاؤس، ہر کوئی استعمال ہونے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کہیں پر غلطی سے کوئی شائع یا نشر کر دے تو پھر اس پر اصرار نہیں کیا جاتا، اس کی معذرت کر لی جاتی ہے، اور آئندہ کے لیے محتاط رویہ اپنایا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنی سٹوری پر سٹینڈ لے تو پھر اس سے پوچھا جانا چاہیے، اس کے پاس کچھ ثبوت ہیں تو پیش کر دیں۔ ایسا کرنے میں آزادی صحافت کو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا۔ آزادی صحافت کو سب سے زیادہ نقصان غیرذمہ دارانہ، نان پروفیشنل صحافتی طرز عمل سے پہنچتا ہے۔ ایک منٹ کے لیے فرض کر لیں کہ یہ خبر درست ہے، تب بھی اس قسم کی نیشنل سکیورٹی سے متعلق خبریں نہایت احتیاط سے ڈیل کی جاتی ہیں۔ جس انداز میں اسے چھاپا گیا، وہ درست نہیں تھا۔ سٹوری کی کنسٹرکشن ٹھیک نہیں تھی، ایسی قطعیت کے ساتھ ایسی خبریں نہیں دی جاتیں، جس میں نام بھی واضح ہوں اور ان کے مکالمے بھی، گویا رپورٹر نے میٹنگ میں بیٹھ کر اسے رپورٹ کیا ہو۔ ہم نے اپنے سینئرز سے دو باتیں سیکھیں، ایک: ایسے انداز میں خبر دی جائے یا لکھا جائے کہ ابلاغ بین السطور (Between The Lines) ہو جائے اور کوئی اعتراض بھی نہ کر پائے، دوسرا یہ کہ وہ نہ چھاپا جائے، جسے بعد میں ثابت نہ کیا جا سکے۔ ایسی خبر جس میں رپورٹر خود یہ لکھ رہا ہے کہ جس کسی سے رابطہ کیا گیا، اس نے تصدیق نہیں کی۔ جب کوئی کنفرم کرنے پر تیار ہی نہیں تو بھیا پھر خبر کیوں دے رہے ہو؟ اس معاملے میں ایک اور اینگل نظر آ رہا ہے، یہ کہ کسی نے دانستہ طور پر ایک غلط اور بےبنیاد خبر پلانٹ کی۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں یہی بات کہی گئی۔ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے، یہ نہ ہو کہ کل کو کسی اخبار یا چینل میں پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کوئی بےبنیاد سٹوری چل جائے اور پھر معلوم ہو کہ اس کی بنیاد پر دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ بن جائے۔

    اس ایشو پر بات کرتے ہوئے مجھے چند سال پہلے امریکہ میں کم و بیش ایسا ہی ایک معروف کیس یاد آ گیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ بنام لیوس لبی ایک معروف تنازع تھا، جو صدر بش کے دور میں مشہور ہوا اور آزادی صحافت کی بحثیں ان دنوں امریکہ میں بھی ہوتی رہیں۔ عراق پر امریکہ کے حملے سے یہ تنازع جڑا ہوا تھا۔ دراصل امریکی حکومت نے صدام حکومت کے خلاف لمبی چوڑی چارج شیٹ بنائی جس میں یہ دعویٰ کیا کہ عراقی آمر کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) موجود ہیں، جو امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی چارج شیٹ میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ عراقی حکومت نے نائجر سے یورینیم کا ییلو کیک مواد حاصل کیا تاکہ ڈرٹی بم بنائے جا سکیں۔ اس پر بعد میں عراق جنگ کے ایک مشہور ناقد جوزف ولسن کا نیویارک ٹائمز میں آرٹیکل شائع ہوا، جس میں اس نے اس امر کی تردید کی کہ عراقی حکومت نے نائجر سے یورینیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ جوزف ولسن کو نائجر فیکٹ فائنڈنگ مشن پر بھیجا گیا تھا اور اس نے اس الزام کی مکمل تحقیقات کی تھی۔ ولسن کے اس مضمون کا ری پبلکن انتظامیہ نے سخت برا منایا کیونکہ اس سے ان کی پوری چارج شیٹ غلط ثابت ہوئی تھی۔ ولسن کے اس مضمون کے بعد دو تین اخبارات میں ولسن کے خلاف تنقیدی مضامین شائع ہوئے اور بعض رپورٹس میں اشارتاً یہ بھی کہا گیا کہ جوزف ولسن کی بیوی ولیری پلیم ولسن سی آئی اے کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ ایک سنگین لیکیج تھی، کیونکہ ولیری پلیم سی آئی اے کے لیے خفیہ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی تھی۔ ولسن اور اس کی بیوی نے اس پر خاصا احتجاج کیا اور مختلف آٖفیشلز کو خطوط لکھے، جس پر آخرکار اس معاملے کی تحقیقات شروع ہوئی کہ آخر ری پبلکن انتظامیہ میں کون شخص تھا، جس نے یہ اطلاع صحافیوں کو لیک کی۔ لمبی چوڑی تحقیقات کے بعد ثابت ہو گیا کہ لیوس سکوٹر لبی نے، جو اس وقت نائب صدر ڈک چینی کے چیف آف سٹاف تھے، دو تین صحافیوں سے ملاقاتیں کیں اور ولسن پر تنقید کرتے ہوئے اس کی بیوی کے سی آئی اے کے لیے کام کرنے کا حوالہ دیا۔ معروف صحافی جوڈتھ ملر کو، جو ان دنوں نیویارک ٹائمز کے لیے کام کر رہی تھیں، عدالت نے بلایا۔ ملر نے اپنا سورس ظاہر کرنے سے انکار کر دیا اور توہین عدالت پر تین ماہ کے لیے جیل بھیج دی گئی۔ ٹائم کے ایک رپورٹر کو بھی جیل جانے کا خطرہ تھا، مگر پھر اس نے اپنے نوٹس عدالت کے ساتھ شیئر کیے، بعض دیگر صحافیوں کو بھی تفتیش کے لیے بلایا گیا۔ لیوس لبی پر پانچ الزامات تھے، ان میں سے چار ثابت ہو گئے۔ عدالت نے اسے ڈھائی سال قید کی سزا، ڈھائی لاکھ ڈالر جرمانہ اور کئی سو گھنٹے کمیونٹی سروس کے علاوہ دو سال پروبیشن میں رکھنے کا حکم سنایا۔ قید کی سزا بعد میں صدر بش نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ختم کر دی، مگر جرمانہ اور دیگر سزائوں کا لیوس لبی کو سامنا کرنا پڑا۔ اس کا وکالت کا لائسنس اگلے کئی برسوں کے لیے معطل ہو گیا، ایک تھنک ٹینک کا وہ ایڈوائزر تھا، سزا ملتے ہی وہ ملازمت ختم ہو گئی۔ نیشنل سکیورٹی کے ایشوز لیک کرنے کے جرم میں شاندار کیریئر کے حامل لیوس لبی کا سب کچھ خاک میں مل گیا۔

    یہ اس ملک کا احوال ہے، جہاں سے آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے ضابطوں، قوانین اور نعروں نے جنم لیا۔ ہر معاملہ مگر نعرے بازی سے حل نہیں ہو سکتا۔ نیشنل سکیورٹی ایشوز دنیا بھر میں نہایت سنجیدگی اور احتیاط سے لیے جاتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو یہ بات سیکھنا ہو گی۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ قوانین کا احترام کرنا سیکھا جائے اور اس کا دنیا بھر میں ایک ہی طریقہ ہے۔ کوئی خواہ کس قدر طاقتور ہو، اس پر قوانین کا اطلاق کیا جائے، مجرم کو سزا ملے اور بےگناہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔

  • میاں نوازشریف کا المیہ – فیض اللہ خان

    میاں نوازشریف کا المیہ – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان میاں نوازشریف اور اتحادیوں کا المیہ یہ ہے وہ آتے ہی فوج سے پنگے شروع کردیتے ہیں اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بجلی کی تاروں اور اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں انگلی کرنے کا انجام زوردار جھٹکے کی صورت میں نکلتا ہے. خیر سے میاں صیب اس میں خود کفیل ہیں ۔

    نصیب اچھے ہوں تو ہمیں اردگان جیسا مدبر ملتا جس نے اقتدار پر قبضہ کرنے میں مشہور طاقتور ترین فوج کو فقط کارکردگی کی بنیاد پر پیچھے کیا۔ عوامی طاقت اور رائے عامہ تب ساتھ ہوتی ہے جب آپ روٹی کپڑا مکان فراہم اور تھانہ کچہری، پولیس، تعلیم، روزگار اور صحت کے معاملات نمٹا چکے ہوتے ہیں ۔

    موٹی عقل والوں کو کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کے بقول داخلہ، دفاع اور خارجہ میں ہی مرضی چاہتی ہے، باقی ملک اور وزارتیں آپ کی ہیں، کام کریں، کارکردگی دکھائیں اور عوامی اعتماد سے نہ صرف وہ تینوں وزارتیں عملا واپس لے لیں بلکہ طاقتور اداروں کو آئین کا پابند اور بیرکوں تک محدود کر دیں۔ ورنہ جو گھٹیا طریقے اختیار کر رہے ہیں، وہ آپ ہی کی گردن کا پھندا بنیں گے. ن لیگ کے شیروں میں کتنا دم خم ہے سب جانتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ایک گلو بٹ بھی باہر نہیں نکلے گا، پہلے بھی نہیں نکلا تھا، اور میاں فیملی کی بادشاہت کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہو کل کو دانیال عزیز اور طلال چوھدری وغیرہ پھر سے کسی آمر کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہے ہوں اور آپ جدہ میں بیٹھے ان کے منہ کے ساتھ اپنی عقل کو تک رہے ہوں۔

    فیصلے جرات کے ساتھ ضرور کریں، مگر تدبر کا ہونا بہت ضروری ہے. اجلاس کی کارروائی میڈیا کو لیک کرنے سے وفاقی حکومت، میاں برادران اور ن لیگی قیادت کا اعتماد مجروح ہوا ہے، خبر کے درست یا صحیح ہونے کا معاملہ نہیں، بات اقدار کی ہے جسے پامال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

    مقتدر اداروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں سویلینز پر اعتماد کی شرح کو بلند کرنا ہوگا، تلخیوں کے ساتھ گھر نہیں چل سکتے، ملک تو دور کی بات ہے، کروڑوں لوگوں کے نمائندے پر اعتماد کرنا پڑے گا، ان کی خامیوں کو اچھے انداز میں حل کرکے ملک کو صراط مستقیم پرگامزن کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں مشکل فیصلوں نے ملک کو جہنم بنا دیا تھا۔

    اصولوں کی پاسداری سول و ملٹری تعلقات کو بہتر بنا سکتی ہے، میڈیا پر بیانات سے کسی کا بھلا نہیں جگ ہنسائی ہی ہو رہی ہے.

  • مائنس نواز شریف، امکان حقیقت بننے کو ہے. ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    مائنس نواز شریف، امکان حقیقت بننے کو ہے. ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش خدشہ ہے کہ ہم مائنس نوازشریف کے حقیقی امکان کے بہت قریب کھڑے ہیں.

    اب یا تو اس وزیر کا نام اوپن کرنا پڑے گا جس نے خبر انگریزی اخبار کو خبر ”جاری“ فرمائی. یہی نہیں پھر اس وزیر کی برطرفی اور شاید مقدمہ. یاد رہے، یہ کوئی جونیئر وزیر یا شخصیت نہیں ہو سکتے. اگر وزیراعظم ایسا نہ کرنا چاہیں تو پھر انھیں حکومت اپنے بھائی یا کسی دیگر کے حوالے کرنا پڑے گی اور سمجھوتہ ہو جائے گا.

    نواز شریف صاحب کے پاس ایک یہ آپشن ہے کہ نیا چیف اناؤنس کر دیں، یا…. جنرل راحیل شریف کی توسیع کا اعلان کردین. لیکن دونوں صورتوں میں بات مؤخر ہوگی، ٹلے گی نہیں، کیونکہ یہ کسی ایک فرد کا نہیں، ادارے کا معاملہ ہے. اس واقعہ سے پیدا شدہ بداعتمادی کا مہیب سایہ بہت دیر تک موجود رہےگا اور اس کے تلے کوئی مفید شے نمو نہیں پا سکتی. فوج اور سول قیادت میں باقاعدہ اور ریگولر مشاورت کا جو مثبت سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ اب قصہ پارینہ بنتا دکھائی دے رہا ہے.

    نواز شریف ہرگز غیر محب وطن یا غدار نہیں، انہوں نے آج تک نیشنل سکیورٹی پر کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا. لیکن ان کا مسئلہ ہے کہ فوج سے شدید کد رکھتے ہیں اور اس معاملہ میں اپنے بہترین دوست عمران خان کی پالیسی پر کاربند ہیں. اپنی کارکردگی پر توجہ کے بجائے دوسرے (فوج) کی پھٹی کھینچنے کے چکر میں رہتے ہیں.

    اصل نقصان اس قوم کا ہے. اندرون ملک انتشار بڑھےگا. فوج کو رگڑنے والے اور زیادہ منہ پھٹ ہو جائیں گے. ملک کا سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے. فوج اور حکومت میں اعتماد کا شدید فقدان پیدا ہو چکا ہے جس سے نیشنل سکیورٹی پر فیصلہ سازی تعطل کا شکار ہو سکتی ہے اور …. سی پیک کا مستقبل بھی غیر یقینی ہو سکتا ہے.

    اس تمام قضیہ میں عمران خان ایک بار پھر پس منظر میں چلے گئے ہیں. اب ان کا دھرنا کچھ معنی نہیں رکھتا. اب ان کی تمام تر امید اس پر ہے کہ معاملہ زیادہ ہی ”بگڑ“ جائے اور ان کی ضرورت پڑ جائے.

    چوہدری نثار اس سارے سلسلہ کی اہم کڑی ہیں. دیکھنا ہے وہ کن شرائط پر پیچ اپ کروا سکتے ہیں.

  • نوازشریف کو کون ہٹائے گا؟ عبید اللہ عابد

    نوازشریف کو کون ہٹائے گا؟ عبید اللہ عابد

    عبید اللہ عابداگر کسی کے ہاں اولاد پیدا نہ ہو رہی ہو اور خرابی بھی اُس مرد میں‌ ہو تو کیا وہ اولاد پیدا کرنے کے لیے کسی دوسرے مرد کی خدمات مستعار لے گا؟ نہیں ناں! تو پھر یہ کیسے جائز ہوگیا کہ سیاست دان حکمران وقت سے نجات حاصل کرنے میں‌ ناکام ہوجائیں تو وہ فوج سے کہیں کہ ہٹائو اسے!

    پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو مشورے دیتا رہا کہ وہ ریٹائر نہ ہوں۔ جب انھوں نے اس طرز کے مشوروں پر توجہ نہ دی تو آرمی کے باقی جرنیلوں کو ”سمجھانے“ کی کوشش کی گئی کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ غلط ہوگی، انھیں توسیع ملنی چاہیے۔ اب قریبآ سپہ سالار کی ریٹائرمنٹ میں‌ ایک ماہ باقی رہ گیا ہے اور یہ مخصوص طبقہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر، تھک ہار کے بیٹھ گیا ہے۔

    ہم اس طبقہ کو سمجھاتے تھے کہ بھائی ! پاکستانی فوج کے پاس جنرل راحیل ایسے جرنیلوں‌کی کمی نہیں۔ یہ مخصوص طبقہ یوں‌ ظاہر کر رہا تھا جیسے پاکستانی فوج کے پاس ایک ہی جنرل راحیل تھا۔ اس طرح کے مطالبے اور مہمات دراصل فوج کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔

    دوسری بات، پانی بہتا رہے تو پانی صاف رہتاہے ورنہ گندا جوہڑ بن جاتاہے۔ آرمی سمیت ہر ادارے میں لوگوں کو اپنی مدت کے خاتمے پر چلے جاناچاہیے، نئے لوگوں کو موقع
    ملناچاہیے، اس سے اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔

    رہی بات نوازشریف کی،
    نوازشریف معمولی صلاحیت کے حامل سیاست دان ہیں، ان کی کارکردگی سے ہم مطمئن نہیں ہیں لیکن انھیں ہٹانے کا کام فوج کا نہیں، عوام کا ہے۔ اگرکوئی سیاست دان سمجھتا ہے کہ نوازشریف کو مزید برسراقتدار نہیں رہناچاہیے تو وہ عوام کو تیار کرے۔ اگر وہ عوام کو تیار نہیں کرسکتا تو یہ اس سیاست دان کی سیاست پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے! بھائی! اپنے اندر صلاحیت پیدا کرو، یقین ہے کہ آپ اپنے مقاصد میں‌کامیاب ہوجائو گے۔

  • جناب راحیل شریف صاحب! انہیں سمجھائیں‌ – زبیرمنصوری

    جناب راحیل شریف صاحب! انہیں سمجھائیں‌ – زبیرمنصوری

    زبیر منصوری جناب راحیل شریف صاحب!
    انہیں سمجھائیں، نرمی سے نرم مزاجی ان میں ڈالیں۔
    یہ آپ کی سال بھر کی امیج بلڈنگ ایک ہی ہلے میں اٹک کے پل پر بہا آتے ہیں۔

    انہیں سمجھائیں کہ اب زمانہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے کمزور دل مالکان کا نہیں، اب ڈیجیٹل میڈیا کے جن کا چراغ ملک اور بیرون ملک ہر نوجوان کے پاس ہے.
    انہیں سمجھائیں کہ عوام تو خیر ان کی نظر میں ہیں ہی”کمی کمین“ مگر یہ تو ان کے پیٹی بند بھائی ہیں، ذرا اس سپاہی کا ہیئرکٹ ان کو قریب سے دکھائیں، اس کے بازو پر لگی پٹی کی انہیں پہچان کروائیں، اس کی وردی انہیں دکھائیں اور سمجھائیں کہ وردیوں کا احترام ختم ہوتا اور ضبط کے بندھن ٹوٹتے ہیں تو پھر بات بہت دور تک نکل جاتی ہے۔
    انہیں سمجھائیں کہ میجر صاحبو! خفیہ اداروں کے جوانو! سامنے دشمن نہیں، اپنی ہی (دودھ دینے والی گائے ) قوم کے لوگ ہیں۔

    دیکھو! یہ گردے بیچ کر اپنا گزارا کر رہے ہیں مگر صبح تمہارے ناشتہ کا جیم اور بریڈ پورا کرتے ہیں.
    ان کے سرکاری اسپتال دیکھو اور اپنے سی ایم ایچ دیکھو.
    ان کے بچے ٹاٹ پر سوتے مگر تمہیں کھاٹ پر سلاتے ہیں.
    ان کے بچے درختوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھ لیتے ہیں مگر تمہارے بچوں کے آباد رہنے کی دعائیں کرتے ہیں.
    تم سے محبت کرتے ہیں، اس لیے تمہاری چھائونیوں کے پاس سے تکلیف دہ بیرئیرز سے گزرتے ہوئے بھی اپنے بچوں سے ”فوجی انکل“ کو سلام کرواتے ہیں.
    ان سویلینز کے اسکول فوجی یونی فارم میں بچوں کو پریڈ کرواتے ہیں، ان کی مائیں خوشی سے دیوانی ہو کر اپنے ”فوجی بچے“ کا منہ چومتیں اور خیالوں میں اسے افسر بنا دیکھنے لگتی ہیں۔
    اور یہ ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟
    یہ ان کے باپوں کو اس طرح لاتوں گھونسوں اور مکوں سے سڑک پر رسوا کر دیتے ہیں۔

    محترم راحیل شریف صاحب! انہیں اچھا بولنا سکھائیں، انہیں دھیما لہجہ بتائیں، اور یہ بھی کہ بارڈر پر غصہ، نفرت اور انتقام اور اپنوں کے درمیان درگزر، محبت اور انعام کی پالیسی اختیار کریں.
    انہیں بتائیں کہ سی او ڈی کراچی کے گیٹ کے سامنے تین تین اسپیڈ بریکرز سے لاکھوں لوگ کس طرح طویل قطاروں میں ذہنی اذیت سے گزر کر گزرتے ہیں.
    کس طرح ان کی آبادی کے اندر سے نکلنے والی ایک گدھا گاڑی کے احترام میں ساری ٹریفک روک دی جاتی ہے اور لوگ ذلت کا کڑوا گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں.
    انہیں سکھائیں کہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود ہزاروں صحافیوں کے استاد ہیں، انھیں ان کے مہمان کے سامنے ملیر کینٹ کے گیٹ پر رسوا نہیں کیا جاتا، ان سے تعارف لے کر عزت کی جاتی ہے.

    جناب راحیل شریف صاحب! یہ ہماری فوج ہے، ہمیں اس سے محبت ہے، ہم اسے اون کرتے ہیں، اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے مگر اگر اس کے اپنے افراد ہی اس کے دشمن بن جائیں، ان کی زبان اور ہاتھ سے ان کی اپنی قوم ہی محفوظ نہ رہے تو پھر ڈنڈا تو بس ڈنڈا ہی ہے.
    چلے تو سو برس
    نہ چلے تو دو برس۔
    بہرحال ہمیں ابھی بھی اپنے محافظ پیارے ہیں۔

  • ’’غداروں‘‘ میں اضافہ؟-مجیب الرحمن شامی

    ’’غداروں‘‘ میں اضافہ؟-مجیب الرحمن شامی

    m-bathak.com-1421245529mujeeb-ur-rehmaan-shami

    ہمارے اردگرد بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو پریشان کن ہے، لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہو رہا ہے کہ جس سے امید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں، بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں اور امید کا چراغ ہے کہ روشن سے روشن تر ہو رہا ہے لیکن کئی دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور میڈیا تاجروں کی نظر کسی بھی مثبت اشارے کو سمجھنے تو کیا‘ دیکھنے تک سے قاصر ہے۔ انہوں نے مچھلی بازار گرم کر رکھا ہے یا یہ کہیے کہ شور محشر برپا کر ڈالا ہے۔ وہ کسی ایک خرابی کو دور کرنے کے لئے اس سے بڑی خرابی پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ کسی ایک زخم کو بھلانے کے لئے اس سے بڑا زخم لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک دردِ سر کا علاج یہ ہے کہ درد جگر پیدا کر دیا جائے کہ جگر میں تکلیف ہو گی تو سر کس کو یاد رہے گا؟… حکمت اور دانائی کا نام بزدلی اور حماقت رکھا جا رہا ہے اور آتشیں الفاظ کے استعمال کو بہادری اور جرات سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

    خیبر پختونخوا میں ایک ہی دن (مردان اور وارسک میں) دہشت گردوں نے حملے کئے۔ سکیورٹی اداروں نے کمال مستعدی اور بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ایک جگہ چاروں حملہ آور مار ڈالے گئے۔ دوسری جگہ اپنی جان پر کھیل کر پولیس کے نوجوان…جُنید… نے دہشت گرد کا راستہ روک دیا۔ اس کے سامنے اپنے عزم کی دیوار کھڑی کر دی۔ اس نے اپنے آپ کو دروازے ہی پر پھاڑ ڈالا، کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، لیکن بہت بڑی تباہی ٹل گئی۔ عمران خان صاحب کے بقول کوئٹہ جیسا بڑا سانحہ برپا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس پر پولیس اور دوسرے حفاظتی اداروں کے جوانوں کی پیٹھ تھپکنے کی بجائے اگر سینہ کوبی شروع کر دی جائے تو کوئی فاترالعقل ہی اس کی داد دے سکتا ہے۔ جان سے ہاتھ دھونے والوں کے لواحقین کو پُرسا دینا ضروری ہے۔ زخمیوں کے لئے مرہم بھی لازم ہے، لیکن اگر معمول کی ریاستی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کی مذمت ضروری نہیں ہے۔ اسے حوصلے اور عزم کی علامت سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے کہ زندہ قوموں کا یہی شعار ہوتا ہے‘ وہ اپنے غم کو بھی طاقت بنا لیتی ہیں اور اس کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے سربلند کرکے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔

    کراچی میں الطاف حسین نے جو ستم ڈھایا اور بدزبانی کے ذریعے اہل وطن کا دل دکھایا اور اپنی برسوں کی کمائی بھی لٹا ڈالی، اس پر پوری قوم جس طرح یک آواز ہوئی، اس نے ہر شخص میں نئی توانائی پھونک دی۔ الطاف حسین کی اپنی جماعت نے ان سے جس طرح اظہار برات کیا، بیرون ملک بیٹھے ہوئے اپنے رہنمائوں کو اپنے معاملات سے جس طرح بے دخل کیا اور پاکستان کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کا جس طرح اظہار کیا، قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قراردادِ مذمت کے حق میں ووٹ دے کر اپنے آپ کو جس طرح قومی جذبات سے ہم آہنگ رکھا، اس میں پہلو در پہلو اطمینان ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود دوڑیو، پکڑیو، ماریو، جانے نہ دیجیو کا ہنگامہ برپا ہے۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ فاروق ستار اور ان کے رفقا پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

    یہ موقع ملتے ہی الفاظ بدل لیں گے۔ اپنی آج کی پشیمانی پر پشیمان ہونا شروع کر دیں گے۔ یہی نہیں، الیکٹرانک میڈیا پر ایسے ایسے بزرجمہر موجود ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ مودی، الطاف اور نواز شریف ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ موجودہ حکومت معاملات کو درست نہیں کر سکتی، فوج کو اقتدار سنبھال کر ہر چیز اپنے ہاتھ میں لے لینی چاہیے۔ ان احمقوں کا خیال ہے کہ اس طرح حالات چٹکی بجاتے درست ہو جائیں گے، جبکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بیج پرویز مشرف کے اپنے ہاتھوں سے بوئے گئے تھے۔

    ریاست کا اجتماعی نظم درہم برہم کرنا، دشمنوں کو خوش تو آ سکتا ہے دوستوں کو نہیں۔ بھارت میں تو اس پر گھی کے چراغ جلائے جا سکتے ہیں، لاہور اور کراچی میں نہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا اس سے بہتر ذریعہ کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ سیاسی اور دفاعی اداروں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا جائے۔ سرحدوں کا دفاع، سرحدوں کے اندر دھینگا مشتی سے کرنے کا نسخہ تاریخ عالم میں جب بھی آزمایا گیا ہے‘ سرحدیں سمٹ کر رہ گئی ہیں۔ یہ خود کشی کا تیر بہدف نسخہ ہے، جس کے غیر موثر ہونے کی ایک تو کیا زیرو پوائنٹ ایک فیصد بھی امید نہیں کی جا سکتی۔

    جنرل راحیل شریف نے جہاں اپنے ایک حالیہ بیان میں دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کا غیر متزلزل عزم ظاہر کیا، وہاں یہ یقین بھی دلایا ہے کہ حالات بہتر سمت میں جا رہے ہیں۔ گویا ہم جس شاہراہ پر سفر کر رہے ہیں وہ منزل … مضبوط اور خوش حال پاکستان… تک لے کر جائے گی۔ راستے کی مشکلات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راستہ ہی بدل لیا جائے یا منزل کی طرف پیٹھ کر لی جائے۔ یاد رکھا جائے کہ دستور پاکستان کے دائرے میں رہ کر اپنا اپنا کردار ادا کرنے ہی سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہو سکتا ہے۔ ہر ادارہ ثابت قدمی اور دلجمعی سے منصوبہ سازی کرے گا تو ملک ترقی سے بھی ہم کنار ہو گا۔ ڈگڈگی بجانے سے صنعتیں لگ سکتی ہیں، سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جا سکتی ہے نہ بیروزگاری کے خاتمے کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ ریاستی امور غصے اور انتقام کے جذبے میں ڈوب کر نہیں چلائے جا سکتے۔

    یہاں کہیں کشتی کو ٹھہرانا پڑتا ہے اور کہیں موجوں کو جنبش دینا پڑتی ہے۔ غداری اور نمک حرامی کے سرٹیفکیٹ بانٹ کر بھی طاقت کا سامان نہیں کیا جا سکتا۔ جو شخص پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہا ہے، اس کی قدر کیجئے، اسے ساتھ ملائیے، اسے دیوار سے نہ لگائیے۔ اسے اپنی طاقت بنائیے۔ دلوں کو توڑنے سے نہیں دلوں کو جیتنے سے معاشرے مستحکم ہوتے ہیں۔ اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو کمزور نہ کیجئے، نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر ہر شخص کو دشمن نہ قرار دیجئے، غداروں کی سرکوبی کے نام پر ان میں اضافہ نہ کیجئے۔ نوابزادہ نصراللہ کیا خوب یاد آئے کہ وہ یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے ؎

    آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
    ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا